Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتدا کے ہیں۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلاً ام القرآن، السبع المثانی، القرآن العظیم، الشفاء، الرقیہ (دم) وغیرھا من الاسماء اس کا ایک اہم نام الصلوۃ بھی ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی۔ الحدیث صحیح مسلم کتاب الصلوۃ میں نے صلوۃ ( نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔ لاصلوۃ لمن لم یقرا بفاتحہ الکتاب (صحیح بخاری و مسلم) اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔ اس حدیث میں (من) کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی۔ سری نماز ہو یا جہری فرض نماز ہو یا نفل ہر نمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرات بوجھل ہوگئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاتفعلوا الابام القرآن فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرابھا تم ایسا مت کرو (یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی (ابوداؤد، ترمذی، نسائی) اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من صلی صلوۃ لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج۔ ثلاثا غیر تمام جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) سے عرض کیا گیا (انانکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اس وقت کیا کریں؟) حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا (اقرا بھا فی نفسک (امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو ( صحیح مسلم۔ مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے (وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ) 007:204۔ جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو، یا حدیث (واذا قرا فانصتوا (بشرط صحت) جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورۃ فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یا امام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہوجاتا ہے۔ جب کہ سورۃ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہوسکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں۔ فتعوذ باللہ من ھذا۔ دیکھئے سورۃ اعراف آیت ٢٠٤ کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام از مولانا عبدالرحمن مبارک پوری و توضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ )۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ٢٣/٢٦٥ ) ١ یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (٣ ١ نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ بِسْمِ اللّٰہِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورۃ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورۃ نمل کی آیت نمبر ٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بِسْمِ اللّٰہِ اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، سے پہلے ( اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔ الفاتحة
2 ف ١ اَلْحَمْدُ میں ' ال ' مخصوص کے لئے ہے یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں یا اس کے لئے خاص ہیں کیونکہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔ اللہ یہ اللہ کا ذاتی نام ہے اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں لَا اِلٰہَ افضل الذکر اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کو افضل دعا کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّہِ میزان کو بھر دیتا ہے اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم) ف ٢ (رَبْ) اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جس کا معنی ہر چیز کو پیدا کر کے ضروریات کو مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کے استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں (الْعَالَمِیْنَ) عَالَمْ (جہان) جہان کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعہ کو عالم کہا جاتا ہے، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوق کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلاً عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش و طیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوقات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں لیکن رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سب کی ضروریات، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔ الفاتحة
3 ف ١ رحمن بروز فعلان اور رحیم بر وزن فعیل ہے۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہوگا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ اللھم اجعلنا منھم۔ آمین الفاتحة
4 ف ١ دنیا میں بھی اگرچہ کیئے کی سزا کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟ پھر وہی جواب دے گا صرف ایک اللہ غالب کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔ الفاتحة
5 ف ١ عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کردیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی) 005:002 نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کرسکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصرا بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت۔ توحید الوہیت۔ اور توحید صفات۔ ١۔ توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا مالک رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس توحید کو تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا۔ مثلا فرمایا۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ (اللہ) (یعنی سب کام کرنے والا اللہ ہے) (قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ) 010:031 دوسرے مقام پر فرمایا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے؟ ساتواں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 84؀ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ 85؀ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ 86؀ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 87؀ قُلْ مَنْۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 88؀ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ۭ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ 89؀) 023:084,089 وغیرھا من الآیات۔ ٢۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کیلئے یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا، اسکے نام کی نذر نیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ کہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ ٣۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں انکو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یا اس قسم کی اور صفات الہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں مختصرا بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید صفات ١۔ توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق، مالک، رازق، اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس توحید کو ملاحدہ و زنادقہ کے علاوہ تمام لوگ مانتے ہیں حتی کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکیں مکہ اعتراف نقل کا ہے۔ مثلا فرمایا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ تم آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کے اللہ (یعنی یہ سب کام کرنے والا اللہ ہے) (قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 31) 010:031۔ دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَیِٕنْ سَاَلْــتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ) 39۔ الزمر :38) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟ تو یقینا یہی کہیں گے کہ اللہ۔ ایک اور مقام پر فرمایا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے ؟ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں۔ ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ وغیرھا من الایات۔ ٢۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کی مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کے لئے، یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے، اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات نہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا و التجاء کرنا۔ اس کے نام کی نذر ونیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ ٣۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں، مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے یہ یا اس قسم کی اور صفات الٰہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نبی، ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ الفاتحة
6 ف ١ ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزل مقصود) حاصل ہوجائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ‏‏، الاسلام، ہے، جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔ الفاتحة
7 ف ١ یہ صراط مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔ ف ٢ صراط مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا۔ ( وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗیِٕکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗیِٕکَ رَفِیْقًا) 004:069 اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا) سے مراد یہودی اور ( وَلا الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں غلو کیا اور انہیں (اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ سورۃ کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید فرمائی اسلیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔ الفاتحة
0 ف ١ اس سورت میں آگے چل کر گائے کا واقعہ بیان ہوا ہے اس لیے اس کو بقرہ (گائے کے واقعہ والی سورت کہا جاتا ہے) حدیث میں اس کی ایک خاص فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ جس گھر میں یہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے البتہ اس کی بعض آیات جمعۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئیں۔ بعض علماء کے نزدیک اس میں ایک ہزار خبر ایک ہزار احکام اور ایک ہزار منہیات۔ (ابن کثیر) البقرة
1 ف ١ الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ البقرة
2 ف ١ اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسے کہ دوسرے مقام پر ہے (تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ) 032:002 علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی صداقت میں جو احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ف ٢ ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سراب صرف وہی لوگ ہونگے جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں اس کے اندر ہدایت کی طلب یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اسے ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہو سکتی ہے۔ البقرة
3 ف ١ اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔ ف ٢ اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔ ف ٣ اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔ البقرة
4 ف ١ پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم کردیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔ البقرة
5 ف ١ یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر و عناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔ البقرة
6 ف ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں اور اسی حساب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوشش فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ) ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ سے بیشمار لوگ مسلمان ہوئے حتٰی کہ پھر پورا جزیرہ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آ گیا۔ البقرة
7 ف ١ یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہوچکی ہے اور ان کے کان حق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح سے لا سکتے ہیں؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے آیا ہے اور آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے مغفرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے گناہ سے باز آ جاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف اور شفاف ہوجاتا ہے اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے (کَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ 14؀) 083:014 یعنی ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ البقرة
8 ف ١ یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کا سارا نقصان خود انہی کو پہنچتا ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔ البقرة
9 البقرة
10 ف ١ بیماری سے مراد وہی کفر و نفاق کی بیماری ہے جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ البقرة
11 البقرة
12 ف ١ فساد، اصلاح کی ضد ہے۔ کفر و معصیت سے زمین میں فساد پھیلاتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن و سکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ اصلاح اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ البقرة
13 ف ١ ان منافقین نے ان صحابہ کو بیوقوف کہا جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آج کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام دولت ایمان سے محروم تھے اللہ تعالیٰ نے جدید و قدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلے ٰ تر مقصد کے لئے دینوی مفادات کو قربان کردینا بے وقوفی نہیں، عین عقلمندی اور سعادت ہے۔ صحابہ کرام نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا۔ اس لئے وہ پکے مومن ہی نہیں بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان انہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام کی طرح ایمان لائیں گے (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا) 002:137 ف ٢ ظاہر بات ہے کہ (فوری فائدے) کے لئے (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظر انداز کردینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بے علم رہے۔ البقرة
14 ف ١ شیٰطین سے مراد سرداران قریش و یہود ہیں۔ جن کی ایماء پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے یا منافقین کے اپنے سردار۔ البقرة
15 ف ١ اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح مسمانوں کے ساتھ استہزاء استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزاء سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتا یہ مذاق نہیں ہے، ان کے فعل کی سزا ہے جیسے برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی، میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے فرمائے گا۔ جیسا کہ سورۃ حدید کی آیت ( یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ) 057:013 میں وضاحت ہے۔ البقرة
16 ف ١ تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے۔ جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر ہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے ضروری نہیں کہ دنیا ہی میں اس گھاٹے کا انہیں علم ہوجائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل فہم سے عاری سمجھتے تھے۔ البقرة
17 ف ١ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر جلدی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہوگیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں دفعتا وہ روشنی بجھ گئی اور حسب سابق تاریکیوں میں گھر گئے۔ یہ حال منافقین کا تھا پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے مسلمان ہوئے تو روشنی میں آ گئے۔ حلال و حرام کو پہچان گئے پھر وہ دوبارہ کفر و نفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی (فتح القدیر) البقرة
18 البقرة
19 البقرة
20 ف ١ یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے۔ جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ شبہ و شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پس ان کے دل میں شک و شبہ اس بارش کی طرح ہے جو اندھیروں شکوک کفر اور نفاق میں اترتی ہے گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں حتٰی کے خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف و دہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا کیونکہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں لیکن پھر جب اسلام یا مسلمان پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران و سرگردان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ (ابن کثیر) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق (اسلام) سے محروم رہتا ہے۔ ف ٢ اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لیے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مواخذے سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ البقرة
21 البقرة
22 ف ١ ہدایت اور ضلالت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جا رہی ہے۔ فرمایا جب تمہارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے تمہاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو اگر تم عذاب خداوندی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو جانتے بوجھتے شرک کا ارتکاب مت کرو۔ البقرة
23 ٢٣۔ ١ توحید کے بعد اب رسالت کا اثبات فرمایا جا رہا ہے ہم نے بندے پر کتاب نازل فرمائی ہے اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے تو اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ واقع یہ کلام کسی انسان کی کاوش نہیں ہے کلام الہی ہی ہے اور ہم پر اور رسالت مآب پر ایمان لا کر جہنم کی آگ سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے جو کافروں کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔ البقرة
24 ف ١ یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقینا قیامت تک قاصر رہیں گے۔ ف ٢ پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندگی کے پتھروں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ اصنام (بت) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ (اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ) 021:098 تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہونگے۔ ف ٣ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لیے تیار کی گئ ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں جیسا کہ بعض متجدد دین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔ البقرة
25 ٢٥۔ ١ قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کردیا کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان کا ثمر اور نہیں مل سکتا اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عند اللہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا، جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود و نمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود و مطرود ہیں۔ ٢٥۔ ٢ مُتشَابِھَا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا ہے۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا (دیکھنا اور سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔ ٢٥۔ ٣ یعنی حیض و نفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ ٢٥۔ ٤ خُلُودُ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اے جنتیو اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا (صحیح مسلم) البقرة
26 ٢٦۔ ١ جب اللہ تعالیٰ نے دلائل سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کردیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کردیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الہٰی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور جسے حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اس میں حیا و حجاب بھی نہیں۔ فَوْقَھَا کے معنی اس سے بڑھ کر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کے ہونگے۔ لفظ فَوْقَھَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ ٢٦۔ ٢ اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت و مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے ( نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی) 004:115 جس طرف کوئی پھرتا ہے ہم اس طرف اس کو پھیر دیتے ہیں فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس آیت سے فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن بننے کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔ البقرة
27 ٢٧۔ ١ مفسرین نے عَھْدَ کے مختلف مفہوم بیان کئے ہیں۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت جو اس نے اپنے اوامر بجا لانے اور نواہی باز رکھنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے مخلوق کو کی۔ ٢۔ وہ عہد جو اہل کتاب سے تورات میں لیا گیا کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آجانے کے بعد تمہارے لئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا جو اولاد آدم کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ) 007:172 نقض عہد کا مطلب عہد کی پرواہ نہ کرنا (ابن کثیر) ٢٧۔ ٢ ظاہر بات ہے کہ نقصان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو ہی ہوگا اللہ کا یا اس کے پیغمبروں اور دعوت دینے والوں کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ البقرة
28 ٢٨۔ ١ آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ۔ پہلی موت سے مراد عدم (نیست یعنی نہ ہونا) ہے اور پہلی زندگی ماں کے پیٹ سے نکل کر موت سے ہمکنار ہونے تک ہے۔ پھر موت آجائے گی پھر آخرت کی زندگی دوسری زندگی ہوگی جس کا انکار کفار اور منکرین قیامت کرتے ہیں بعض علماء کی رائے ہے کہ قبر کی زندگی (کَمَا ھِیَ) دنیوی زندگی میں ہی شامل ہوگی (فتح القدیر) صحیح یہ ہے کہ برزخ کی زندگی حیات آخرت کا پیش خیمہ اور اس کا سرنامہ ہے اس لئے اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔ البقرة
29 ٢٩۔ ١ اس سے استدلال کیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے اصل حلت ہے الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت قرآن پاک کے واضح احکام سے ثابت ہو (فتح القدیر) (٢) بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول اللہ کی صفات میں سے ہے جن پر اسی طرح بغیر دلیل کے ایمان رکھنا ضروری ہے جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ ٢٩۔ ٣ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ آسمان ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو آسمان سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان ٥٠٠ سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ) 065:012 اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہوجاتی ہے۔ جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے لیکن سورۃ نازعات میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا۔ (وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰیہَا) 079:030 (زمین کو اس کے بعد بچھایا) اس کی تجزی کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین کی ہی ہوئی ہے اور دَحْوَ (صاف اور ہموار کر کے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر) البقرة
30 ٣٠۔ ١ مَلاَئِکَۃُ (فرشتے) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جو احکامات کے بجا لانے اور اس کی تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ ٣٠۔ ٢ خَلِیْفَۃُ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔ ٣٠۔ ٣ فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں وہ مصلحت بہتر جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ برائیوں کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں جو تم نہیں جانتے کیونکہ ان میں انبیا، شہدا و صالحین بھی ہونگے۔ (ابن کثیر) البقرة
31 البقرة
32 البقرة
33 ٣٣۔ ١ اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص و اشیاء) کے نام اور ان کے خواص و فوائد کا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے حضرت آدم علیہ کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (علیہ السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فورا سب کچھ بیان کردیا جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اسطرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت و فضیلت بیان فرما دی جب یہ حکمت و اہمیت فرشتوں پر واضح ہوئی تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ البقرة
34 ٣٤۔ ١ علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کی یہ دوسری عزت ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں عاجزی اور گڑگڑانے کے اس کی انتہا ہے زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترندی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا جس سے ان کی تکریم و فضیلت فرشتوں پر واضح کردی گئی۔ کیونکہ یہ سجدہ و اکرام و تعظیم کے طور پر یہ تھا نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا ٣٤۔ ٢ ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ ابلیس حسب وضاحت قرآن جنات میں سے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازا فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا اس لئے بحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا۔ لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس ہے۔ ٣٤۔ ٣ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔ البقرة
35 ٣٥۔ ١ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔ ٣٥۔ ٢ یہ درخت کس چیز کا تھا ؟ اس کی بابت قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کردیا گیا ہے جو بے اصل بات ہے ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔ البقرة
36 ٣٦۔ ١ شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر سجدے سے انکار کیا اسی طرح اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم (وَلَا تَقْرَبَا) کی تاویل کر کے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا جس کی تفصیل سورۃ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ ٣٦۔ ٢ مراد آدم (علیہ السلام) اور شیطان ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ البقرة
37 ٣٧۔ ١ حضرت آدم (علیہ السلام) جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو الاعراف میں بیان کئے گئے ہیں (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ) 007:023 بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیئے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الہی پر لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ مَحَمَد رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیاء علیھم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی، ولی، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعایہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔ البقرة
38 البقرة
39 ٣٩۔ ١ قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دنیا ہی میں رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے واسطے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جا رہا ہے۔ کہ انبیاء علیہم کے ذریعے سے میری ہدایت ( زندگی گزارنے کے احکام وضابطے) تم تک پہنچے گی جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔ ان پر خوف نہیں ہوگا۔ کا تعلق آخرت سے ہے۔ ای فیما یستقبلونہ من امر الاخرۃ اور حزن نہیں ہوگا کا تعلق دنیا سے۔ علی ما فاتھم من امورالدنیا (جو فوت ہوگیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے) جس طرح دوسرے مقام پر ہے آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی) 020:259۔ جس نے میری ہدایت کی پیروی کی پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ ( آخرت میں) بدبخت۔ ابن کثیر۔ گویا آیت ( لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ) 010:062 کا مقام ہر مومن صادق کو حاصل ہے یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہے اور پھر مقام کا مفہوم بھی کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تمام مومنین و متقین بھی اولیاء اللہ ہیں۔ اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق آسکتا ہے۔ البقرة
40 ٤٠۔ ١ اسرا ئِیْلُ (بمنعی عبداللہ) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب تھا۔ یہود کو بنو اسرائِیْل کہا جاتا تھا یعنی یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جس میں یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء اور رسل تھے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخر زمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دئیے جائیں گے اور جو تمہاری غلطیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا پر لادھ دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔ البقرة
41 ٤١۔ ١ بِہِ کی ضمیر قرآن کی طرف یا حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم اور ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا اس نے محمد رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) پہلے کافر نہ بنو کا مطلب ہے ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کرچکے ہوتے، اس لئے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر کا وبال تم پر ہوگا۔ ٤١۔ ٢ تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو : کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کرلو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی محض طلب دنیا کے لئے گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر) البقرة
42 البقرة
43 البقرة
44 البقرة
45 ٤٥۔ ١ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے (فتح القدیر)۔ ٤٥۔ ٢ نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے، لیکن خشوع و خضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو کردیتا اور آخرت سے بے فکری انسان کو بے عمل بلکہ بد عمل بنا دیتی ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 ٤٧۔ ١ یہاں سے دوبارہ اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا نہ سفارش قبول ہوگی نہ معاوضہ دے کر چھٹکارہ ہو سکے گا، اور نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خیرامۃ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان وعمل سے محرومی پر سلب کرلئے جاتے ہیں، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے خیرامۃ کے بجائے شرامۃ بنی ہوئی ہے۔ ھداھا اللہ تعالی یہود کو یہ دھوکا بھی تھا کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا۔ اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جواہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ البقرة
48 البقرة
49 آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے ( وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ) 008:054 ہے (ہم نے ال فرعون کو غرق کردیا) یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر کے ہی نہیں تھے اس کے فوجی اور دیگر پیروکار بھی تھے۔ اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں انشاء اللہ آئے گی۔ البقرة
50 ٥٠۔ ١ سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۃ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا جیسا کہ سر سید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیال ہے۔ البقرة
51 ٥١۔ ١ یہ گؤ سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نماء سینا پہنچے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لئے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون و موسیٰ علیہ السلام) کی موجودگی کے باوجود بچھڑے کو اپنا معبود سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد واعمال میں بری طرح مبتلا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے بچاریوں کے لئے خاص کردیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے جو پتھر کے پچاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ البقرة
52 البقرة
53 ٥٣۔ ١ یہ بھی بحرہ قلزم پار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے (ابن کثیر) ممکن ہے کتاب یعنی تورات کو فرقان سے بھی تعبیر کیا گیا ہو کیونکہ ہر آسمانی کتاب حق و باطل کو واضح کرنے والی ہوتی ہے یا معجزات کو فرقان کہا گیا ہے کہ معجزات بھی حق و باطل کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البقرة
54 ٥٤۔ ١ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا (فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ) 002:054 (اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو) کی تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کردیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا دوسری یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کردیا گیا جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے (ابن کثیر و فتح القدیر) البقرة
55 ٥٥۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ البقرة
56 البقرة
57 ٥٧۔ ١ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے حکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ یہ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔ ٥٨۔ ١ بعض کے نزدیک اوس جو درخت اور پتھر پر گرتی شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہوجاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کھمبی مَن کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلادقت پہنچ جاتا تھا اسی طرح کھمبی بغیر کسی کے بوئے کے پیدا ہوجاتی ہے۔ سلوا بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کر کے کھا لیتے تھے۔ (فتح القدیر) البقرة
58 ف ١ اس بستی سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔ ف ٢ سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدہ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز اور انکسار کا اظہار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔ ف ٣ حِطَّۃٌ اس کے معنی ہیں ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ البقرة
59 ٥٩۔ ١ اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو حکم دیا گیا کہ سجدہ کئے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سروں کو زمین میں گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حکم بجا لانے کی بجائے ان سے ان کی سرتابی و سرکشی کا جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الہی سے تمسخر اور مذاق جس کا ارتکاب انہوں نے کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ واقع یہ ہے جب کوئی قوم کردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہی کے ساتھ اسے طرح کا ہوجاتا ہے ٥٩۔ ٢ یہ آسمانی عذاب کیا تھا ؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس کی آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ۔ البقرة
60 (١) یہ واقعہ بعض کے نزدیک تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحرائے سینا کا ہے وہاں پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ چنانچہ پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے قبیلے بھی بارہ تھے۔ ہر قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے سیراب ہوتا۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ البقرة
61 ٦١۔ ١ یہ قصہ اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں مصر نہیں بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ انکا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت تھا۔ ان سے کہا گیا تمہارے لئے وہاں پر مطلوبہ چیزیں ہیں۔ ٦١۔ ٢ کہاں وہ انعامات و احسانات، جس کی تفصیل گزری؟ اور کہاں وہ ذلت و مسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کردی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے جس کی تاویل ارادہ عقوبیت یا نفس عقوبیت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ ٦١۔ ٣ یہ ذلت اور غضب الٰہی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیاء (علیہ السلام) اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہودی اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل و رسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہو سکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں کہیں بھی ہوں؟ ٦١۔ ٤ یہ ذلت و مسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْ (نافرمانی کی) کا مطلب جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا ان کا ارتکاب کیا۔ اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہے جسطرح حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعتداء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ البقرة
62 ٦٢۔ ١ یھود ھوادۃ (بمعنی محبت) سے یا تھود (بمعنی توبہ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے ٦٢۔ ٢ نصاری۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کا مادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا آیت ( نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہِ) 061:14 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کا نصاری کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔ ٦٢۔ ٣ صابئین۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقینا ابتداء کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لئے قرآن میں یہودیت وعیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔ ٦٢۔ ٤ بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی رسالت محمدیہ پر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دن کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بے لاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ البقرة
63 ٦٣۔ ١ جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے ازراہ شرارت کہا ہم سے تو احکام پر عمل نہیں ہو سکے گا تو اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کردیا جس سے ڈر کر انہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ البقرة
64 البقرة
65 ٦٥۔ ١ سبت (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کر کے حکم الٰہی سے تجاوز کیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے۔ البقرة
66 البقرة
67 ٦٧۔ ١ بنی اسرائیل میں ایک لا ولد مالدار آدمی تھا جسکا وارث صرف ایک بھتیجا تھا ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کر کے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو قاتل ٹھہرانے لگے بالآخر بات موسیٰ علیہ تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا گائے کا ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہوگیا اور قاتل کی نشان دہی کر کے مر گیا (فتح القدیر) البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 ٧١۔ ١ انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کردیتے تو حکم الٰہی پر عمل ہوجاتا لیکن انہوں نے حکم الٰہی پر سیدھے طریقے سے عمل کرنے کی بجائے میخ نکالنا شروع کردی اور طرح طرح کے سوال کرنے شروع کردیئے، جس پر اللہ تعالیٰ بھی ان پر سختی کرتا چلا گیا۔ اس لئے دین میں سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ البقرة
72 ٧٢۔ ١ یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس قتل کا راز فاش کردیا حالانکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر کیا گیا تھا مطلب یہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کرو تاکہ وہ کسی وقت ظاہر ہوجائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو بلکہ اس کے احترام و وقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔ البقرة
73 ٧٣۔ ١ مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت والے دن دوبارہ مردوں کو زندہ ہونا منکرین قیامت کے لئے ہمیشہ حیرت کا باعث رہا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مثال (ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ) 002:064 البقرہ ٥٦ میں گزر چکی ہے۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے۔ تیسری مثال دوسرے پارے کی آیت نمبر ٢٤٣ آیت (مُوْتُوْا ۣ ثُمَّ اَحْیَاھُمْ) 002:243 چوتھی آیت نمبر ٢٥٩ آیت (فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَـۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ) 002:259 اور پانچویں مثال اس کے بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طیور اربعہ ( چار چڑیوں) کی ہے۔ البقرة
74 ٧٤۔ ١ یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر توبہ اور استغفار کا جذبہ۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے اس لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔ ٧٤۔ ٢ پتھروں کی سنگینی کے باوجود ان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو کیفیت ان پر گزرتی ہے اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک اور احساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ آیت ( تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّایُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ اِنَّہٗ کَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا) 017:044 البقرة
75 ٧٥۔ ١ اہل ایمان کو خطاب کر کے یہودیوں کے بارے کہا جا رہا ہے کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے حالانکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فرق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی جانتے بوجھتے تحریف کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعا امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بد قسمتی سے قرآن اور حدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ البقرة
76 ٧٦۔ ١ یہ بعض یہودیوں کے منافقانہ کردار کی نقاب کشائی ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے لیکن جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو اس بات پر ملامت کرتے کہ تم مسلمانوں کو اپنی کتاب کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جس سے رسول عربی کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس طرح تم خود ہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہو جو وہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کرینگے۔ البقرة
77 ٧٧۔ ١ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ کہ اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور سب باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرما سکتا ہے۔ البقرة
78 ٧٨۔ ١ یہ ان کے اہل علم کی باتیں تھیں رہے ان کے ان پڑھ لوگ، وہ کتاب (تورات) سے بے خبر ہیں لیکن وہ آرزوئیں ضرور رکھتے ہیں اور گمانوں پر ان کا گزارہ ہے جس میں انہیں ان کے علماء نے مبتلا کیا ہوا ہے مثلا ہم تو اللہ کے چہتے ہیں۔ ہم جہنم میں اگر گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے اور ہمیں ہمارے بزرگ بخشوا لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے آج کے جاہل مسلمانوں کو بھی علماء سوء و مشائخ سوء نے ایسے ہی حسین جالوں اور پرفریب وعدوں پر پھنسا رکھا ہے۔ البقرة
79 ٧٩۔ ٢ یہ یہود کے علماء کی جسارت اور خوف الہی سے بے نیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے ویل جہنم کی ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔ (احمد، ترمذی، ابن حبان والحاکم بحوالہ فتح القدیر) بعض علماء نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ البقرة
80 ٨٠۔ ١ یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے عہد لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کیساتھ اس طرح کا کوئی عہد نہیں ہے۔ ٨٠۔ ٢ یعنی تمہارا یہ دعویٰ ہے ہم اگر جہنم گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سے ہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے۔ جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نیک و بد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔ البقرة
81 البقرة
82 ٨٢۔ ١ یہ یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے جنت یا جہنم کا اصول بیان کیا جا رہا ہے، جس کے نامہء اعمال میں برائیاں ہی برائیاں ہونگی، یعنی کفر اور شرک، اور جو مومن گنہگار ہونگے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا وہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے ان کے گناہ معاف فرما کر بطور سزا کچھ عرصہ جہنم میں رکھنے کے بعد یا نبی کی شفاعت سے ان کو جنت میں داخل فرما دے گا جیسا کہ یہ باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ البقرة
83 البقرة
84 ٢۔ ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولا صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے ( جیسا کہ سورۃ الانبیاء آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) 021:025 اور دیگر آیات سے واضح ہے) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے اس کے بعد رشتے دارون، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے۔ اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے، جیسا کہ احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واضح ہے۔ اس عہد میں اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا بھی حکم ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں۔ جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں حتی کہ ان میں سے کسی ایک کے انکار یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے۔ جیسا کہ ابو بکر صدیق (رض) کے عہد خلافت میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔ البقرة
85 ٨٥۔ ١ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اس طرح یہود مدینہ کے تین قبیلہ تھے، بنو قینقاع، بنو نفیر اور بنو قریظ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنو قینقاع اور بنو نفیر، بنو خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں کی مدد کرتے اور اپنے ہی مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کو لوٹتے اور انہیں جلا وطن کردیتے حالانکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر انہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنا لیا تھا۔ بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کردیتے، کسی حکم پر عمل کرلیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کو کوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد کرنا ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا توا نہوں نے بے محابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑالینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا، حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ البقرة
86 ٨٦۔ ١ یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظر انداز کردینے کی سزا بیان کی جا رہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت اور سرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت اور رسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کی بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت قبول ہے جو مکمل ہو بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کرلینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت و فکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مزکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے۔ البقرة
87 ٨٧۔ ١ آیت ( وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بالرُّسُلِ) 2۔ بقرہ :87) کے معنی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے حتٰی کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوگیا (بَیِّنَاتِ) سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر ( وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ ڏ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۙ اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْــــَٔــۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰہِ ۚ وَاُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ ۚ وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِیْ بُیُوْتِکُمْ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 49؀ۚ) 003:049 میں ہے۔ ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو (رُوحُ لْآمین) فرمایا گیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا (اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما) ایک دوسری حدیث میں ہے (جبرائیل (علیہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں) معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں (فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی)۔ ٨٧۔ ٢ جیسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور حضرت زکریا و یحیٰی علیہما السلام کو قتل کیا۔ البقرة
88 ٨٨۔ ١ یعنی ہم پر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر ہے۔ آیت (وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ) 041:005 ہمارے دل اس دعوت سے پردے میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔ ٨٨۔ ٢ دلوں پر حق بات کا اثر نہ کرنا، کوئی فخر کی بات نہیں۔ بلکہ یہ تو ملعون ہونے کی علامت ہے، پس ان کا ایمان بھی تھوڑا ہے ( جو عنداللہ نامقبول ہے) یا ان میں ایمان لانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔ البقرة
89 ٨٩۔ ١ (یَسْتَفْتِحُوْنَ) کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے کہ آخری نبی جلد مبعوث فرما تاکہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کریں۔ یعنی استفتاح بمعنی استنصار ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ ای یخبرونھم بانہ سیبعث یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ البقرة
90 ٩٠۔ ١ غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب کیونکہ بار بار وہ غضب والا کام کرتے رہے جیسا کہ تفصیل گزری اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا۔ البقرة
91 ٩١۔ ١ یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٩١۔ ٢ یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کو تم قتل نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔ البقرة
92 ٩٢۔ ١ یہ ان کے انکار اور عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آیات کی وضاحت اور دلیل کی بات لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن تم نے اسکے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تنگ کیا اور اللہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ البقرة
93 ٩٣۔ ١ یہ کفر اور انکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کر کے سن لیا یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ کہتے کہ ہم نے کونسا عمل کرنا ہے۔ ٩٣۔ ٢ ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے کہ انسان کو اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے دوسرے اس کو اشرِبُوا (پلا دی گئی) سے تعبیر کیا گیا کیونکہ پانی انسان کے رگ و ریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزر اس طرح نہیں ہوتا (فتح القدیر) ٩٣۔ ٣ یعنی بچھڑے کی محبت و عبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں پر گھر کرچکا تھا۔ البقرة
94 البقرة
95 ٩٥۔ ١ حضرت ابن عباس نے یہودیوں کو کہا اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کرلو یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں ملکر یہ عرض کریں یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار کر دے یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجران کے عیسائیوں کو بھی دعوت مباہلہ دی گئی تھی جیسا کہ ال عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی عیسائیوں کی طرح جھوٹے تھے اس لئے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے (تفسیر ابن کثیر) البقرة
96 ٩٦۔ ١ موت کی آرزو تو کجا یہ تو دنیوی زندگی کے تمام لوگوں حتٰی کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکے گی، ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعووں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیونکہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعووں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقینا وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطیاں ظاہر ہوجاتیں۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کرلیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہوگا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لئے طے کر رکھا ہے۔ البقرة
97 ٩٧۔ ١ احادیث میں ہے کہ چند یہودی علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا صحیح جواب دے دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، کیونکہ نبی کے علاوہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوالوں کا صحیح جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کون لاتا ہے؟ آپ نے فرمایا، جبرائیل۔ یہود کہنے لگے جبرائیل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو عذاب لے کر اترتا ہے۔ اور اس بہانے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ماننے سے انکار کردیا (ابن کثیر و فتح القدیر) البقرة
98 ٩٨۔ ١ یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے حدیث میں ہے، جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا، گویا کہ اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض و عناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاۗءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ 62 ۝ښ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ 63؀ۭ) 010:062،063 لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی نام کی نذر ونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ جیسا کہ بدقسمتی سے اولیاء اللہ کی محبت کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے حالانکہ یہ محبت نہیں ہے ان کی عبادت ہے جو شرک اور ظلم عظیم ہے اللہ تعالیٰ اس فتنہ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔ البقرة
99 البقرة
100 البقرة
101 ١٠١۔ ١ اللہ تعالیٰ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سی آیات بیّنات عطا کی ہیں، جن کو دیکھ کر یہود کو بھی ایمان لے آنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں خود ان کی کتاب تورات میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف کا ذکر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے، لیکن انہوں نے پہلے بھی کسی عہد کی کب پرواہ کی ہے جو اس عہد کی وہ کریں گے؟ عہد شکنی ان کے گروہ کی ہمیشہ عادت رہی ہے۔ حتٰی کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بھی اس طرح پس پشت ڈال دیا، جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔ البقرة
102 ١٠٢۔ ١ یعنی ان یہودیوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کی، البتہ شیطان کے پیچھے لگ کر نہ صرف جادو ٹونے پر عمل کرتے رہے، بلکہ یہ دعوی کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے ہی حکومت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضرت سلیمان (علیہ السلام) جادو کا عمل نہیں کرتے تھے، کیونکہ جادو سحر تو کفر ہے، اس کفر کا ارتکاب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیوں کر کرسکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو گری کا سلسلہ بہت عام ہوگیا تھا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے سد باب کے لئے جادو کی کتابیں لے کر اپنی کرسی یا تخت کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان شیاطین اور جادو گروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا، بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت و اقتدار کا راز یہی جادو کا عمل تھا اور اسی بنا پر ان ظالموں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی کافر قرار دیا، جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے فرمائی (ابن کثیر وغیرہ) واللہ عالم۔ البقرة
103 البقرة
104 ١٠٤۔ ١ رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہوجاتی، مثلا وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ جیسے وہ السلام علیکم کی بجائے السام علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ـ ' انْظُرْنَا ' کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو، ادب و احترام کے پیش نظر کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اور اقوال میں مشابہت کرنے سے بچا جائے تاکہ مسلمان (حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم، ابوداؤد ( جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا) کی وعید میں داخل نہ ہوں۔ البقرة
105 البقرة
106 ١٠٧۔ ١ نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسے آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کردیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہا کہ زمین اور آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کر دے، یہ اس کی قدرت ہی کا مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلا ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آجکل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مزکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سابقہ صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔ البقرة
107 البقرة
108 ١٠٨۔ ١ مسلمانوں (صحابہ (رض) کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ازراہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشہ کفر ہے۔ البقرة
109 البقرة
110 یہودیوں کو اسلام اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو حسد اور عناد تھا اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیرنے کی مذموم سعی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ تم صبر اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ان احکام و فرائض اسلام کو بجا لاتے رہو۔ جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ البقرة
111 ١١١۔ ١ یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جا رہا ہے جس میں وہ مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ البقرة
112 ١١٢۔ ١ (اَسْلَمَ وَ جْھَہ لِلّٰہِ) 002:112 کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور (وَ ھُوَ مُحْسِنُ) کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی انہی اصولوں کے مطابق کئے گئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے نہ کہ محض آرزووں پر۔ البقرة
113 ١١٣۔ ١ یہودی تورات پڑھتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکفیر کرتے تھے۔ عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کے مِنْ عِنْد اللہ ہونے کی تصدیق ہے اس کے باوجود یہ یہودیوں کی تکفیر کرتے ہیں، یہ گویا اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے کفر و عناد اور اپنے اپنے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ١١٣۔ ٢ اہل کتاب کے مقابلے میں عرب کے مشرکین ان پڑھ تھے، اس لئے انہیں بے علم کہا گیا، لیکن وہ بھی مشرک ہونے کے باوجود یہود اور نصاریٰ کی طرح، اس باطل میں مبتلا تھے کہ وہ یہ حق پر ہیں۔ اسی لئے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی یعنی بےدین کہا کرتے تھے۔ البقرة
114 ١١٤۔ ١ جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ ملکر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا، جنہوں نے ایک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آباو اجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ ١١٤۔ ٢ تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے اسے گرا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔ ١١٤۔ ٣ یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں ہمت اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا۔ چنانچہ جب ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدہ کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا کہ یہ خوشخبری ہے اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ ہوجائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہونگے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر زیادتیاں کی ہیں انکے بدلے میں ہمیں سزا سے دو چار یا قتل کردیا جائے۔ چنانچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہوگئی۔ البقرة
115 ١١٥۔ ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہوجاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لئے ایک ہی آیت نازل ہوجاتی ہے۔ ایسی آیتوں کی شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے۔ البقرة
116 البقرة
117 ١١٧۔ ١ یعنی وہ اللہ تو ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، ہر چیز اس کی فرمانبردار ہے، بلکہ آسمان کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لئے اسے صرف لفظ کن کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ البقرة
118 ١١٨۔ ١ اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی نہیں دکھا دیتا ؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہوجائیں جس طرح کہ (وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا 90 ۝ ۙ اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْہٰرَ خِلٰلَہَا تَفْجِیْرًا 91 ۝ ۙ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ باللّٰہِ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃِ قَبِیْلًا 92 ۝ ۙ اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَاۗءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا 93؀ۧ )،093 017:090، میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ البقرة
119 البقرة
120 ١٢٠۔ ١ یعنی یہودیت یا نصرانیت اختیار کرلے۔ ١٢٠۔ ٢ جو اب اسلام کی صورت میں ہے، جس کی طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رہے ہیں، نہ کہ تحریف شدہ یہودیت و نصرانیت۔ ١٢٠۔ ٣ یہ اس بات پر وعید ہے کہ علم آجانے کے بعد بھی اگر محض ان پر خود غلط لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی پیروی کی تو تیرا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ دراصل امت محمدیہ کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لئے وہ بھی ایسا کام نہ کریں، نہ دین میں مداخلت اور بے جا دخل کا ارتکاب کریں۔ البقرة
121 ١٢١۔ ١ اہل کتاب کے لوگوں کے اخلاق و کردار کی ضروری تفصیل کے بعد ان میں جو کچھ لوگ صالح اور اچھے کردار کے تھے، اس آیت میں ان کی خوبیاں، اور ان کے مومن ہونے کی خبر دی جا رہی ہے۔ ان میں عبد اللہ بن سلام اور ان جیسے دیگر افراد ہیں، جن کو یہودیوں میں سے قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔ ١٢١۔ ٢ وہ اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے کہ کئی مطلب بیان کئے گئے مثلا (١) خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں۔ جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے ہیں اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ (٢) اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے دوسرے یہودی کرتے تھے (٣) اس میں جو کچھ تحریر ہے، لوگوں کو بتلاتے ہیں اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں (٤) اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے اور متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں انہیں علماء سے حل کراتے ہیں (٥) اس کی ایک ایک بات کی پیروی کرتے ہیں (فتح القدیر) واقعہ یہ ہے کہ حق کی تلاوت میں سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مزکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ١٢١۔ ٣ اہل کتاب میں سے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنم جائے گا (ابن کثیر) البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 ١٢٤۔ ١ کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت نار نمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب اور کامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی، عیسائی حتٰی کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی جاتی ہے۔ ٢٤۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کردیا، پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ میرا وعدہ ظالموں سے نہیں اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم و مشرک ہوں گے۔ ان کی شقاوت و محرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اگر ایمان و عمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے ( من بطا بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم۔ (جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔ البقرة
125 ١٢٥۔ ١ حضرت ابراہیم کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی ایک (لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ) دوسرے کے معنی ہیں لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بیقرار رہتا ہے یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی بلکہ روز افزوں رہتا ہے دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف بھی نہیں رہتا چنانچہ زمانہء جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ ٢٥۔ ٢ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر کعبہ کرتے رہے اس پتھر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم کے نشانات ہیں اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے، جسے ہر حاجی طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ آیت (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی) 002:125 البقرة
126 ٢٦۔ ١ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت و تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ البقرة
127 البقرة
128 البقرة
129 ١٢٩۔ ١ یہ حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہ السلام) کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں (الفتح الربانی ج ٢٠، ص ١٨١، ١٨٩) ١٢٩۔ ٢ کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کی تعلیم کتاب و حکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر و ثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم و مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ و مطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفہوم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔ ١٢٩۔ ٣ تلاوت و تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک و توہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔ البقرة
130 ١٣٠۔ ١ عربی زبان میں رَغِبَ کا صلہ عَنْ تو اس کے معنی بے رغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں عطا فرمائی ہے یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بے رغبتی بے وقوفوں کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں ہو سکتا۔ البقرة
131 ١٣١۔ ١ یہ فضیلت و برگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اطاعت و فرماں برداری کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔ البقرة
132 ١٣٢۔ ١ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے وصیت اپنی اولاد کو بھی کی جو یہودیت نہیں اسلام ہی ہے، جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت موجود ہے اور قرآن کریم میں دیگر متعدد مقامات پر بھی اس کی تفصیل آئے گی جیسے (ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بالْکِتٰبِ کُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ) 003:119 اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ البقرة
133 ١٣٣۔ ١ یہود کو زجرو توبیخ کی جا رہی ہے تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم، یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ جھوٹ اور بہتان ہوا اور اگر کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مزکورہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا کیونکہ انہوں نے جو وصیت کی وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت کی، یا عسائیت کی۔ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے، اس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا انبیاء کی جماعت اولاد علامات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔ البقرة
134 ١٣٤۔ ١ یہ بھی یہود کو کہا جا رہا ہے کہ تمہارے آباواجداد جو انبیاء و صالحین ہو گزرے ہیں، ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا، تمہیں نہیں، تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ البقرة
135 ١٣٥۔ ١ یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسایت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعلیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (اللہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی امیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہیں جن میں توحید کا تصور بالکل بے غبار اور نہایت واضح ہے جس سے یہودیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال عقائد میں جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیونکہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن و حدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔ البقرة
136 ١٣٦۔ ١ یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ملا یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کو ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیاء کے درمیان تفریق ہے جس کو جائز نہیں رکھا۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیونکہ ایک تو وہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کردیا ہے البقرة
137 ١٣٧۔ ١ صحابہ کرام بھی اسی مزکورہ طریقے پر ایمان لائے تھے، اس لئے صحابہ کرام کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح سے صحابہ کرام ! تم ایمان لائے ہو تو پھر یقینا وہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ اگر وہ ضد اور اختلاف میں منہ موڑیں گے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرنے والا ہے۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی یہ وعدہ پورا ہوا اور بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلا وطن کردیا گیا اور بنو قریظہ قتل کئے گئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت ایک مصحف عثمان ان کی اپنی گود میں تھا اور اس آیت کے جملہ ( فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ) 002:137 پر ان کے خون کے چھینٹے گرے بلکہ دھار بھی۔ کہا جاتا ہے یہ مصحف آج بھی ترکی میں موجود ہے۔ البقرة
138 ١٣٨۔ ١ عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جسکو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے اس رسم کا نام ان کے ہاں پبتسمہ ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔ اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے۔ جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔ البقرة
139 ١٣٩۔ ١ کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص و نیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اسی کے احکامات کی پیروی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں حالانکہ ہمارا ہی نہیں تمہارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے خاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ البقرة
140 ١٤٠۔ ١ تم کہتے ہو کہ یہ اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ اس کی نفی فرماتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ زیادہ علم اللہ کو ہے یا تمہیں۔ ١٤٠۔ ٢ تمہیں معلوم ہے کہ یہ انبیاء یہودی یا عیسائی نہیں تھے، اسی طرح تمہاری کتابوں میں آنحضرت کی نشانیاں بھی موجود ہیں، لیکن تم ان شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سے خفیہ نہیں۔ البقرة
141 ١٤١۔ ١ اس آیت میں پھر کسب و عمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف سے لگاؤ یا ان پر اعتماد کو بے فائدہ قرار دیا گیا۔ جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا سلسلہ اسے اگے نہیں بڑھائے گا۔ مطلب ہے کہ تمہارے خاندان کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے پوچھ گیچھ نہیں ہوگی بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی) 035:018۔ آیت (وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی) 053:039 کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ البقرة
142 ١٤٢۔ ١ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکے سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے گئے ١٦/١٧ مہینے تک بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے جو قبلہ ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر بھی اٹھاتے۔ بلآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل کعبہ کا حکم دے دیا جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچایا حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے اسی طرح کرنے کا پابند ہوتا ہے اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا اسی طرف پھر جانا ضروری تھا علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق اور مغرب ساری سمتیں اسی کی ہیں اس لئے سمتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہر سمت میں اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس سمت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل کعبہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی۔ البقرة
143 ١٤٣۔ ١ وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح تمہیں بہتر قبلہ عطا کیا گیا اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے (لِیَکُون الرَّسُولُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْ اشُھَدَآ ءَ عَلَی النَّاسِ) 022:028 رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا وہ ہاں میں جواب دیں گے ٫اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہارا کوئی گواہ ہے؟ کہیں گے ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ ١٤٣۔ ٢ یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، کہ مومنین صادقین تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارات کے منتظر رہا کرتے تھے اس لئے ان کے لئے ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع میں ہی اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا یہ مسجد قبلٰتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا (لِنَعْلَمْ) ( تاکہ ہم جان لیں) اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنے بھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں (فتح القدیر) ١٤٣۔ ٣ بعض صحابہ (رض) اجمعین کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ (رض) اجمعین بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے یا ہم جتنا عرصہ اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہونگی اور ان کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔ البقرة
144 ١٤٤۔ ١ اہل کتاب کے مختلف مقدس کتابوں میں خانہ کعبہ کے قبلہ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور و حسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔ البقرة
145 ١٤٥۔ ١ کیونکہ یہود کی مخالفت تو حسد و عناد کی بنا پر ہے، اس لئے دلائل کا ان پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ گویا اثر پزیری کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل صاف ہو۔ ١٤٥۔ ٢ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی الٰہی کے پابند ہیں جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی طرف سے ایسا حکم نہ ملے آپ ان کے قبلے کو کیونکر اختیار کرسکتے ہیں۔ ١٤٥۔ ٣ یہود کا قبلہ بیت المقدس اور عیسائیوں کا بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ جب اہل کتاب کے یہ دو گروہ بھی ایک قبلے پر متفق نہیں تو مسلمانوں سے کیوں یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ان کی موافقت کریں گے۔ ١٤٥۔ ٤ یہ وعید پہلے بھی گزر چکی ہے، مقصد امت کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن و حدیث کے علم کے باوجود اہل بدعت کے پیچھے لگنا، ظلم اور گمراہی ہے۔ البقرة
146 ١٤٦۔ ١ یہاں اہل کتاب کے ایک فریق کو حق کے چھپانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کے ایک فریق عبد اللہ بن سلام (رض) جیسے لوگوں کا بھی جو اپنے صدق و صفائے باطنی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوا۔ البقرة
147 ١٤٧۔ ١ پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو بھی حکم اترتا ہے، وہ یقینا حق ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ البقرة
148 ١٤٨۔ ١ یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک راستہ اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ آیت ( لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰیکُمْ) 005:048 یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستے یعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سب اختیارات دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اے مسلمانوں تم تو خیر کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر محروم ہیں۔ البقرة
149 البقرة
150 ١٥٠۔ ١ قبلہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم تین مرتبہ دوہرایا گیا یا تو اس کی تاکید اور اہمیت واضح کرنے کے لئے یا چونکہ نسخ کا حکم پہلا تجربہ تھا اس لئے ذہنی خلجان دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے بار بار دھرا کر دلوں میں راسخ کردیا جائے۔ ایک علت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی اور خواہش تھی وہاں اسے بیان کیا گیا ہے۔ دوسری علت، ہر اہل ملت اور صاحب دعوت کے لئے ایک مستقل مرکز کا وجود ہے وہاں اسے دہرایا۔ تیسری، علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے وہاں اسے بیان کیا گیا ہے (فتح القدیر) ١٥٠۔ ٢ یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں کہ ہماری کتابوں میں تو ان کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور نماز یہ بیت المقدس کی طرف پڑھتے ہیں۔ ١٥٠۔ ٣ یہاں ظَلَمُوْا سے مراد عناد رکھنے والے ہیں یعنی اہل کتب میں سے جو عناد رکھنے والے ہیں، وہ جاننے کے باوجود کہ پیغمبر آخری الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہوگا، وہ بطور عناد کہیں گے کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ بنا کر یہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلآخر اپنے آبائی دین ہی کی طرف مائل ہوگیا ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ ١٥٠۔ ٤ ظالموں سے نہ ڈرو۔ یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا مت کرو۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارا قبلہ تو اختیار کرلیا، عنقریب ہمارا دین بھی اپنا لیں گے مجھ سے ڈرتے رہو، جو حکم میں دیتا ہوں اس کا بلا خوف عمل کرتے رہو۔ تحویل قبلہ کو اتمام نعمت اور ہدایت یافتگی سے تعبیر فرمایا کہ حکم الہی پر عمل کرنا یقینا انسان کو انعام و اکرام کا مستحق بھی بناتا ہے اور ہدایت کی کی توفیق بھی اسے نصیب ہوتی ہے۔ البقرة
151 ١٥١۔ ١ کما (جس طرح) کا تعلق ما قبل کلام سے ہے یعنی یہ تمام نعمت اور توفیق ہدایت اس طرح ملی جس طرح اس سے پہلے تمہارے میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارا تزکیہ کرتا، کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا اور جن کا تمہیں علم نہیں وہ سکھاتا۔ البقرة
152 ١٥٢۔ ١ پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر کرو اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفران نعمت) ہے شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔ جیسے (لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزَیْدَنَّکُمْ ْ وَلَئِنَ کَفَرْ تُمْ اِنَّ عذَابِیْ لَشَدِیْد) 014:007 البقرة
153 ١٥٣۔ ١ انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں آرام اور راحت (نعمت) یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے مدد کی تاکید ہے۔ حدیث میں ہے ـ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں۔ (صحیح مسلم) صبر کی دو قسمیں ہیں، برے کام کے ترک اور اس سے بچنے پر صبر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا احکام الٰہی کے بجا لانے میں جو مشکلیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر اور ضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا چاہے وہ نفس اور بدن پر کتنی ہی گراں ہوں اور اللہ کی ناپسندیدگی سے بچنا چاہیے اگرچہ خواہشات و لذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھنچیں۔ (ابن کثیر) البقرة
154 ١٥٤۔ ١ شہدا کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز اور تکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہ زندگی اعلٰے قدر مراتب انبیاء و مومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں دیکھیے (ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بالْکِتٰبِ کُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ١١٩؁) 003:119 (ابن کثیر) البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 ١٥٧۔ ١ ان آیات میں صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت (اِناَّ لِلّٰہِ وَ اناَّاِ لَیْہِ رَجِعُوْنَ) 002:156 اور اللَّھُمْ اَجَرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ البقرة
158 ١٥٨۔ ١ شَعْآئِرُ جس کے معنیٰ علامتیں ہیں یہاں حج کے وہ مناسک (مثلا سعی اور قربانی کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ ١٥٨۔ ٢ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ) 002:158 سے بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ شاید ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا ( فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا) 002:158۔ جب لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے ذہین میں آیا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیونکہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم کو اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر) البقرة
159 ١٥٩۔ ١ اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔ البقرة
160 البقرة
161 ١٦١۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے ان پر لعنت جائز ہے لیکن اس کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ کرلی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے ان کے مرتکبین کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پا سکتے ہیں۔ البقرة
162 البقرة
163 ١٦٣۔ ١ اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا (کیا اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے) اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ البقرة
164 ١٦٤۔ ١ یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی آیت میں نہیں ١۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں۔ ٢۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ ٣۔ سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ ٤۔ بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ٥۔ ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ ٦۔ ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی گرم بھی، بارآور بھی اور غیر بارآور بھی، مشرقی مغربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ ٧۔ بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے، یقینا کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقینا نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ البقرة
165 ١٦٥۔ ١ مذکورہ دلائل کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے اسی طرح کی محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے کرنی چاہیے، بعثت محمدی کے وقت ہی ایسا نہیں تھا بلکہ شرک کے یہ مظاہر آج بھی عام ہیں، بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کرگئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف غیر اللہ اور پیروں فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماوی وملجا اور قبلہ حاجات بنارکھا ہے بلکہ ان سے ان کی محبت، اللہ سے بھی زیادہ ہے اور توحید کا وعظ ان کو بھی اسی طرح کھلتا جس طرح مشرکین مکہ کو اس سے تکلیف ہوتی تھی جس کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے آیت ( وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ ۚ وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ) 039:045 تاہم اہل ایمان کو مشرکین کے برعکس اللہ تعالیٰ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ مشرکین جب سمندر میں پھنس جاتے ہیں تو وہاں انہیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور وہاں صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین سخت مصیبت میں مدد کے لئے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ البقرة
166 البقرة
167 ف ١ آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بے بسی اور بے وفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن ان کو وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ کہیں گے کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کرلیں البقرة
168 ١٦٨۔ ١ یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کرلیتے تھے، جس کی تفصیل سورۃ الا نعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا پس شیطان نے ان کو دین سے گمراہ کردیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں وہ اس نے ان پر حرام کردیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا باب الصفات التی یعرف بھافی الدنیا اھل الجنۃ واھل النار البقرة
169 البقرة
170 ١٧٠۔ ١ آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباؤ جداد بھی دینی بصیرت سے بے بہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباء پرستی کی پیروی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔ البقرة
171 ١٧١۔ ١ ان کافروں کی مثال جنہوں نے تقلید آباء میں اپنی عقل و فہم کو معطل کر رکھا ہے ان جانوروں کی طرح ہے جن کو چرواہا بلاتا اور پکارتا ہے وہ جانور آواز تو سنتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جا رہا ہے؟ اسی طرح یہ آباؤ اجداد کی تقلید کرنے والے بھی بہرے ہیں کہ حق کی آواز نہیں سنتے، گونگے ہیں کہ ان کی زبان سے حق نہیں نکلتا، اندھے ہیں کہ حق کو دیکھنے سے عاجز ہیں اور بے عقل ہیں کہ دعوت حق اور دعوت توحید و سنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں دعا سے قریب کی آواز اور ندا سے دور کی آواز مراد ہے البقرة
172 ١٧٢۔ ١ اس میں اہل ایمان کو ان تمام چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک ہیں حرام کردہ اشیاء پاک نہیں ہیں چاہے وہ اپنے نفس کو کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگیں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا پسند ہے) دوسرا یہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کرلیتے تھے (جس کی تفصیل سورۃ الا نعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے) تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔ البقرة
173 ١٧٣۔ ١ اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو حرام ہیں۔ اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی حرام قرار دے لیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں حرام تو صرف یہ ہیں۔ اس لئے یہ حصر اضافی ہے یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرا حدیث میں دو اصول جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے بیان کر دئیے گئے ہیں وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں۔ درندوں میں ذوناب (وہ درندہ جو دانتوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں تیسرے جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے مثلا گدھا کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے نہ کہ حدیث کو نظر انداز کر کے صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد وہ حلال جانور ہے جو بغیر ذبح کیے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل المائدہ میں ہے) مر گیا ہو یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو مثلا گلا گھونٹ دیا جائے یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے یا جس طرح آجکل مشینی ذبح کا طریقہ ہے اس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں ایک مچھلی دوسری ٹڈی وہ اس حکم میتہ سے مستثنی ہیں خون سے مراد دم مسفوح ہے یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت۔ سور بے غیرتی میں بدترین جانور ہے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے (وما اھل) وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جائیں جیسے مشرکین عرب لات وعزی وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے یا آگ کے نام پر جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلا داتا صاحب کی نیاز کے لئے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں ان جانوروں کو چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے یہ حرام ہی ہونگے کیونکہ اس سے مقصود رضائے الہی نہیں رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ یا خوف یا رجاء میں غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے ڈر یا امید) ہے جو شرک ہے اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیاء بھی غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کے اور چڑھاوے کی ہوں گی حرام ہوں گی جیسے قبروں پر لے جا کر یا وہاں سے خرید کر قبور کے اردگرد فقراء ومساکین پر دیگوں اور لنگروں کی یا مٹھائی اور پیسوں پر کی تقسیم یا وہاں صندوقچی میں نذر نیاز کے پیسے ڈالنا ہے یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں کیونکہ یہ سب غیر اللہ کی نذر و نیاز کی صورتیں ہیں اور نذر بھی نماز روزہ وغیرہ عبادات کی طرح ایک عبادت ہے اور عبادات کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی لئے حدیث میں ہے (ملعون من ذبح لغیراللہ) صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ البانی ج ٢ ص ١٠٢٤) جس نے غیر اللہ کے نام جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے۔ تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشابوری ہے اجمع العلماء لوان مسلما ذبح ذبیحۃ یرید بذبحھا التقرب الی غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد (تفسیر عزیزی ص ٦١١ بحوالہ اشرف الحواشی علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔ البقرة
174 البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 ١٧٧۔ ١ یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاری اپنے قبلے کو ( جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمان تحویل قبلہ پر چہ مگوئیاں کر رہے تھے جس سے بعض دفعہ رنجیدہ دل ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ پھر آگے ان عقائد و اعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات و صفات میں یکتا اور تمام عیوب سے پاک قرآن و حدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری تعالیٰ کو بغیر کسی تاویل کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے حشر نشر اور جنت اور دوزخ پر یقین رکھا جائے۔ الباساء سے تنگ دستی اور شدت فقر۔ الضراء سے نقصان یا بیماری اَلْبَاس سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہی سے انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لئے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔ البقرة
178 ١٧٨۔ ١ زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں اس لیے زورآور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم کا ارتکاب کرلیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقتور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہوجاتا وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے کہ جو قاتل ہوگا قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے۔ (فتح القدیر) مزید دیکھیے سورۃ مائدہ آیت۔ ٤٥۔ ١٧٨۔ ٢ معافی کی دو سورتیں ہیں ایک بغیر معاوضہ یعنی دیت لئے بغیر محض رضائی الٰہی کے لئے معاف کردینا دوسری صورت میں قصاص کے بجائے دیت قبول کرلینا اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کی پیروی کرے بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کر کے اس پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ ١٧٨۔ ٣ یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص) معافی یا دیت تین صورتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہیں ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی قصاص تھا نہ دیت (ابن کثیر) ١٧٨۔ ٤ قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کر دے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا اور آخرت میں بھگتنی ہوگی۔ البقرة
179 ١٧٩۔ ١ جب قاتل کو یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کردیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہ ہوگی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہوجاتا ہے وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل اور خونریزی سے محفوظ رکھتا ہے جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے اس کا مشاہدہ آج بھی سعودی معاشرے میں کیا جا سکتا ہے جہاں اسلامی حدود کے نفاذ کی یہ برکات الحمد للہ موجود ہیں۔ کاش دوسرے ممالک بھی اسلامی حدود کا نفاذ کر کے اپنے عوام کو یہ پر سکون زندگی مہیا کرسکیں۔ البقرة
180 ١٨٠۔ ١ وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا اب یہ منسوخ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثہ کے حصے مقر کر دئیے ہیں) پس اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے جو وارث نہ ہوں یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جا سکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ایک تہائی مال ہے اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔ البقرة
181 البقرة
182 ١٨٢۔ ١ جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتہ دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور اثمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے تو مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل و انصاف کا اہتمام ضروری ہے ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب اس کے اخروی نجات کے نقط نظر سے سخت خطرناک ہے۔ البقرة
183 ١٨٣۔ ١ صیامُ، صومُ (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے اللہ کی رضا کے لئے رکے رہنا یہ عبادت چونکہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ البقرة
184 ١٨٤۔ ١ یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں۔ ١٨٤۔ ٢ یُطِیقُونَہُ کا ترجمہ یتجشمونہ (نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں) کیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے جسے شفایابی کی امید نہ ہو روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے وہ ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دے دے لیکن زیادہ تر مفسرین نے اس کا ترجمہ طاقت ہی کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا کریں۔ لیکن بعد میں (فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ) 002:185 کے ذریعے سے منسوخ کر کے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کردیا گیا تاہم زیادہ بوڑھے دائمی مریض کے لئے اب بھی یہ حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں، دودھ پلانے والی عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہونگی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں بعد میں روزے کی قضا دیں۔ ١٨٤۔ ٣ جو خوشی سے ایک مسکین کے بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ البقرة
185 ١٨٥۔ ١ رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ مکمل قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہوگیا بلکہ یہ ہے کہ رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں سے حسب حالات ٢ سالوں تک اترتا رہا (ابن کثیر)۔ اس لئے یہ کہنا قرآن رمضان میں یا لیلۃ القدر مبارکہ میں اترا یہ سب صیح ہے۔ کیونکہ لوح محفوظ سے تو رمضان میں ہی اترا ہے اور لیلۃ القدر اور لیلۃ المبارکہ یہ ایک ہی رات ہے یعنی قدر کی رات جو رمضان میں ہی آتی ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور وحی جو غار حرا میں آئی وہ رمضان میں آئی۔ اس اعتبار سے قرآن مجید اور رمضاں المبارک کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس ماہ مبارک میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ کا وصال ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان میں جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا رمضان کی تین راتوں (٢٣۔ ٢٥۔ اور ٢٧) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو باجماعت قیام اللیل بھی کرایا جس کو اب تراویح کہا جاتا ہے (صحیح ترمذی وسنن ابن ماجہ البانی)۔ البقرة
186 ١٨٦۔ ١ رمضان المبارک کے احکام و مسائل کے درمیان دعا کا مسئلہ بیان کر کے یہ واضح کردیا کہ رمضان المبارک میں دعا کی بڑی فضیلت ہے جس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے خصوصا افطاری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت بتلایا گیا ہے۔ تاہم قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے ان آداب شرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح احادیث میں حرام خوراک سے بچنے اور خشوع و خضوع کا اہتمام کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ البقرة
187 ١٨٧۔ ١ ابتدا اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشاء کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھا لیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت فرما دی۔ ١٨٧۔ ٢ یعنی رات ہوتے ہی (سورج غروب کے فورا بعد) روزہ افطار کرلو تاخیر مت کرو جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے دوسرا یہ کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث) ١٨٧۔ ٣ اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے چاہے مرد ہو چاہے عورت۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صحیح نہیں ہے البتہ مسجد میں ان کے لئے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں سے کسی طرح اختلاط نہ ہو جب تک مسجد میں معقول محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے یہ ایک نفلی عبادت ہے جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے فقہ کا اصول ہے۔ (درء المفاسد یقدم علی جلب المصالح) (مصالح کے اصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے) البقرة
188 ١٨٨۔ ١ ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروا لے اس طرح دوسرے کا حق غصب کرلے یہ ظلم ہے اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم عند اللہ مجرم ہوگا (ابن کثیر) البقرة
189 ١٨٩۔ ١ انصار جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لئے گھر آنے کی ضرورت پڑجاتی تو دروازے سے آنے کے بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو نیکی سمجھتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ البقرة
190 ١٩٠۔ ١ اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی جو مسلمانوں سے آمادہ قتل رکھتے تھے۔ تاہم زیادتی سے منع فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے مار ڈالنا بھی زیادتی ہے جس سے بچا جائے (ابن کثیر)۔ البقرة
191 ١٩١۔ ١ مکہ میں مسلمان چونکہ کمزور اور منتشر تھے اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں جمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف انہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا قرآن کریم نے (اَعْندَا) زیادتی کرنے سے منع فرمایا اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بد عہدی اور مثلہ نہ کرنا نہ بچوں اور عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت کرنے والوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کو جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرمایا (ابن کثیر)۔ جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد کفر و شرک ہے یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اس لیے اس کو ختم کرنے کے لیے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ١٩١۔ ٢ حدود حرم میں قتال منع ہے لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 ١٩٤۔ ١۔ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو صحابہ (رض) اجمعین کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ میں نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آ سکیں گے یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جب دوسرے سال حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کر کے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کر کے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کر کے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ (ابن کثیر)۔ البقرة
195 ١٩٥۔ ١ اس سے بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری صورتیں ہلاکت کی ہیں جہاد چھوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقینا دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور نتیجہ تباہی ہے۔ البقرة
196 ١٩٦۔ ١ یعنی حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اسکا پورا کرنا ضروری ہے چاہے نفلی حج و عمرہ ہو (امیر التفسیر) ١٩٦۔ ٢ اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہوجائے تو ایک جانور بکری گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو وہیں ذبح کر کے سر منڈوا لو اور حلال ہوجاؤ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٦ ہجری والے عمرے کی قضا ٧ ہجری میں دی۔ ١٩٦۔ ٣ یعنی اس کو ایسی تکلیف ہوجائے کہ سر کے بال منڈوانے پڑجائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے حدیث کی رو سے ایسا شخص ٦ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر دے یا تین روزے رکھے۔ ١٩٦۔ ٤ حج کی تین قسمیں ہیں۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں۔ ١٩٦۔ ٥ یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدیہ یا روزے رکھے اور یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد احرام کے رہنے والے نہ ہوں مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر) البقرة
197 ١٩٧۔ ١ اور یہ ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذوا لحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے اس لئے اسکا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) ١٩٧۔ ٢ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسقْ و فجور سے بچا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ ١٩٧۔ ٣ تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید کی۔ البقرة
198 ١٩٨۔ ١ فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢۔ ١٩٨ ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے (الحج عرفۃ) (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات (قصر) جمع کر کے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے یہاں ذکر الہی کی تاکید ہے یہاں رات گذارنی ہے فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے طلوع آفتاب کے بعد منی جایا جائے۔ البقرة
199 ١٩٩۔ ١ مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں پر وقوف کر کے واپس آنا ضروری ہے لیکن عرفات چونکہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے چنانچہ حکم دیا جا رہا ہے جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔ البقرة
200 ٢٠٠۔ ١ عرب کے لوگ فراغت کے بعد منٰی میں میلا لگاتے اور اپنے آباوجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے جب تم ١٠ ذوی الحجہ کو کنکریاں مارنے قربانی کرنے، سر منڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا مروہ سے فارغ ہوجاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منٰی میں قیام کرنا ہے وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو کیونکہ جاہلیت میں تم اپنے آباوجداد کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ البقرة
201 ٢٠١۔ ١ یعنی اعمال خیر کی توفیق، اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ پڑھتے تھے۔ طواف کے دوران ہر چکر کی الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا پڑھی جائے۔ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً) 002:201 رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان پڑھنا مسنون عمل ہے۔ البقرة
202 البقرة
203 ٢٠٣۔ ١ مراد ایام تشریق ہیں یعنی ١١، ١٢ اور ١٣ ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الہی یعنی باآواز بلند تکبیرات مسنون ہیں صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسے کہ ایک کمزور حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں۔ کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ (اَ للّٰہُ اَکبَرْ، اللّٰہُ اَکبَر،ْ لَا اِلٰہَ اِلَّا، واللّٰہُ اَکبَر، اللّٰہُ اَکبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُہ) ٢٠٣۔ ٢ رمی جماد (جمرات کو کنکریاں مارنا) ٣ دن افضل ہیں لیکن اگر کوئی دو دن (١١ اور ١٢ ذوالحجہ) کنکریاں مار کر واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ البقرة
204 (١)۔ ٢٠٤۔ ١ بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور منکرین ہیں جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو کہ اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔ البقرة
205 البقرة
206 ٢٠٦۔ ١ تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور و انانیت ہیں۔ البقرة
207 ٢٠٧۔ ١ یہ آیت کہتے ہیں حضرت صہیب (رض) رومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہا یہ مال سب یہاں کا کمایا ہوا ہے اسے ہم ساتھ نہیں لے جانے دیں گے حضرت صہیب (رض) نے یہ سارا مال ان کے حوالے کردیا اور دین لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سن کر فرمایا صہیب نے نفع بخش تجارت کی دو مرتبہ فرمایا (فتح القدیر) لیکن یہ آیت بھی عام ہے جو تمام مومنین متقین اور دنیا کے مقابلے دین کو اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کو شامل ہے کیونکہ اس قسم کی تمام آیات کے بارے میں لفظ عموم کا اعتبار ہوگا سبب نزول کے خصوص کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پس اخنس بن شریق (جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا) برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو اس جیسے برے کردار کا حامل ہوگا اور صہیب (رض) خیر اور کمال ایمان کی ایک مثال ہیں ہر اس شخص کے لیے جو ان صفات خیر و کمال سے متصف ہوگا۔ البقرة
208 ٢٠٨ ا۔ ١ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اس طرح نہ کرو جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں ان پر تو عمل کرلو دوسرے حکموں کو نظر انداز کر دو اس طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کردی گئی اور آجکل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں بلکہ دین کو عبادت یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیاست اور ایوان حکومت سے دین کو نکال دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے جو رسوم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج وغیرہ اور یہ کہا جارہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا ہے برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔ البقرة
209 البقرة
210 ٢١٠۔ ١ یہ تو قیامت کا منظر ہے (جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلوے اور بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے آئیں اور فیصلہ چکائیں تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول نہیں اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کر کے اپنی آخرت سنوار لو۔ البقرة
211 ٢١١۔ ١ مثلاً عصائے موسیٰ جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا سمندر سے راستہ بنایا پتھر سے بارہ چشمے جاری کیے، بادلوں کا سایہ، من و سلوا کا نزول وغیرہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے انکار کیا۔ ٢١١۔ ٢ نعمت کے بدلنے کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر کا راستہ اپنایا۔ البقرة
212 ٢١٢۔ ١ چونکہ مسلمان کی اکثریت غربا پر مشتمل تھی جو دینوی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ھے اس لئے کافر یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور شیوا رہا ہے۔ ٢١٢۔ ٢ اہل ایمان کے فقر اور سادگی کا کفار مذاق اڑاتے، اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہا ہے کہ قیامت والے دن یہی فقراء اپنے تقویٰ کی بدولت بلند بالا ہونگیں بے حساب روزی کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہوسکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے فقراء پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دیئے۔ جن سے سامان دنیا اور رزق کی فروانی ہوگئی۔ البقرة
213 ٢١٣۔ ١ یعنی توحید پر۔ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام)، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیاء دیتے رہے قائم رہے۔ آیت مفسرین صحابہ نے فاختَلَفُوْا منسوخ مانا ہے یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک و ظاہر پرستی عام ہوگئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلاف کا فیصلہ اور حق اور توحید قائم اور واضح کریں (ابن کثیر) ٢١٣۔ ٢ اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور انحراف کا منبع بغض اور عناد بنتا ہے امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلاف کی شدت سے محفوظ رہی لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا اس سے اختلاف کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تاآنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیزیں بن کر رہ گیا ہے۔ ٢١٣۔ ٣ مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعہ کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا یہود نے ان کو جھٹلایا اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور اللہ بنا دیا اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرمانروا بندے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا ایک نے یہودی اور دوسرے نے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ (حنیفاً مُسْلِماً) تھے اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔ البقرة
214 ٢١٤۔ ١ ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا لیکن یہ ظلم اور تشدد ان کو ان کے دین سے نہیں پھیر سکا پھر فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی) اسلام کو غا لب فرمائے گا۔ ٢١٤۔ ٢ اس لیے (ہر آنے والی چیز قریب ہے) اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے اس لئے وہ قریب ہی ہے۔ البقرة
215 ٢١٥۔ ١ بعض صحابہ کرام کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس لئے معلوم ہوا کہ نفاق کا یہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے زکوٰۃ سے متعلق نہیں کیونکہ ماں باپ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے کہ اس میں کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔ البقرة
216 ٢١٦۔ ١ جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے اس لئے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے ہوسکتا ہے اس میں تمہارے لئے بہتری ہو جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح اور غلبہ، عزت اور سر بلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے اسی طرح تم جس کو پسند کرو (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھے رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لئے خطرناک ہوسکتا ہے یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ البقرة
217 ٢١٧۔ ١ رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانہ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے جن میں قتال اور جدال ناپسندیدہ تھا اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہوگیا اور بعض کافر قیدی بنا لئے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہوگیا ہے کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقینا حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کفر و شرک خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اس لئے اگر مسلمانوں سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہوگیا تو کیا ہوا ؟ اس پر واویلہ کرنے کے بجائے ان کو اپنا سیاہ نامہ بھی تو دیکھ لینا چاہیئے۔ ٢١٧۔ ٢ جب یہ لوگ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد کی کوشش سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو۔ ٢١٧۔ ٣ جو دین اسلام سے پھرجائے یعنی مرتد ہوجائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے اور اس آیت میں اسکی اخروی سزا بیان کی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کئے گئے اعمال صالحہ بھی کفر کی وجہ سے کالعدم ہوجائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح کفر سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگا جب خاتمہ کفر پر ہوگا اگر موت سے پہلے تائب ہوجائے گا تو ایسا نہیں ہوگا یعنی مرتد کی توبہ قبول ہے۔ البقرة
218 البقرة
219 ٢١٩۔ ١ یہ گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔ ٢١٩۔ ٢ فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی اور مستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے جنسی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے اس طرح اس کی خرید و فروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے لیکن یہ فائدے ان نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام تو قرار نہیں دیا گیا تاہم اس کے لیے تمہبند باندھ دی گئی ہے اس آیت سے ایک بہت اہم نقطہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز چاہے وہ کتنی ہی بری ہو کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ اور لوگ بعض فوائد بیان کر کے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق وکردار کے لحاظ سے اگر دینی نقطہ نظر سے نقصانات ومفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیاوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ ٢١٩۔ ٣ اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا جس پر فریضہ زکاۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا تاہم افضل ضرور ہے (فتح القدیر) جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے۔ اسلام نے یقینا انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیر کفالت افراد کی خبر گیری اور ان کی ضرویات کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے دوسرے اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہم خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑجائے۔ البقرة
220 ٢٢٠۔ ١ جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لئے سزا کی دھمکی نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رض) ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس سزا کے مستحق نہ قرار پا جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) ٢٢٠۔ ٢ یعنی تمہیں بغرض اصلاح و بہتری بھی ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔ البقرة
221 ٢٢١۔ ١ مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہو سکتا۔ تاہم حضرت عمر (رض) نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظر انداز کر کے محض حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا جس طرح حدیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے مال، حسب نسب، حسن وجمال یا دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو (صحیح بخاری) اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے فرمایا خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ (صحیح مسلم)۔ البقرة
222 ٢٢٢۔ ١ بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں جس کا حکم حیض سے مختلف ہے حیض کے ایام میں عورت کو نماز معاف ہے اور روزے رکھنے ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مردوں کے لئے صرف ہم بستری سے منع کیا ہے البتہ بوس و کنار جائز ہے اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر کام کرسکتی ہے۔ ٢٢٢۔ ٢ جہاں سے اجازت ہے یعنی شرم گاہ سے۔ کیونکہ حالت حیض میں بھی اسی سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب (فرج، شرم گاہ) کی اجازت ہے نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید وضاحت کردی گئی ہے۔ البقرة
223 ٢٢٣۔ ١ یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جا رہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ دلیل کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور یہ کھیتی صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیر فطری فعل ہے۔ ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر) البقرة
224 ٢٢٤۔ ١ یعنی غصے میں اس طرح کی قسم مت کھاؤ کہ فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا فلاں سے نہیں بولوں گا فلاں کے درمیان صلح نہیں کراؤں گا۔ اس قسم کی قسموں کے لئے حدیث میں کہا گیا ہے اگر کھالو تو انہیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو (کفارہ قسم کے لئے دیکھئے (لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ۭ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ۭذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ۭ وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ۭ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ 89؀) 005:089 البقرة
225 ٢٢٥۔ ١ یعنی جو غیر ارادے اور عادت کے طور پر ہوں البتہ عملاً جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ البقرة
226 ٢٢٦۔ ١ یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھا لے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینہ یا دو مہینے تعلق نہیں رکھوں گا پھر قسم کی مدت پوری کر کے تعلق قائم کرلیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا کفارہ قسم ادا کرنا پڑے گا اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت مقرر کئے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں یا پھر اسے طلاق دے دیں پہلی صورت میں اسے کفارہ قسم ادا کرنا ہوگا اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اسکو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے یا طلاق دے تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (ابن کثیر) البقرة
227 ٢٢٧۔ ١ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی از خود طلاق واقع نہیں ہوگی (جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے۔ بلکہ خاوند کے طلاق دینے سے طلاق ہوگی جس پر عدالت بھی اسے مجبور کرے گی جیسا کہ جمہور علماء کا مسلک ہے۔ البقرة
228 ٢٢٨۔ ١ اس سے وہ متعلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیونکہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل تک ہے) جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو وہ بھی نہ ہو (کیونکہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں) جس کو حیض آنا بند ہوگیا ہو کیونکہ ان کی عدت تین مہینے ہے گویا مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی تین طہر یا تین حیض عدت گزار کے وہ دوسری شادی کرنے کی مجاز ہے سلف نے قروء کے دونوں ہی معنی صحیح قرار دئیے ہیں اس لئے دونوں کی گنجائش ہے (ابن کثیر فتح القدیر) ٢٢٨۔ ٢ اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں حیض نہ چھپائیں مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک دو حیض آئے ہیں مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو)۔ اسی طرح حمل نہ چھپائیں کیونکہ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہوجائے گا اور یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔ ٢٢٨۔ ٣ رجوع کرنے سے خاوند کا مقصد اگر تنگ کرنا نہ ہو تو عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا پورا حق حاصل ہے عورت کے ولی کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٢٢٨۔ ٤ دونوں کے حقوق ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جن کو پورا کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں تاہم مرد کو عورت پر فضیلت یا درجہ حاصل ہے مثلا فطری قوتوں میں جہاد کی اجازت ہے میراث کے دوگنا ہونے میں قوامیت اور حاکمیت میں اور اختیار طلاق و رجوع (وغیرہ) میں۔ البقرة
229 ٢٢٩۔ ١ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجع کی اجازت نہیں زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا بوجھ تھا۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علماء ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ٢٢٩۔ ٢ یعنی رجوع کر کے اچھے طریقے سے بسانا۔ ٢٢٩۔ ٣ یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔ ٢٢٩۔ ٤ اس میں خلع کا بیان ہے یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو علت نکاح فسخ کر دے گی گویا خلع بزریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی والحاکم [۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گیں۔ (ابن کثیر وغیرہ) البقرة
230 اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح البتہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو اس کے بعد اس سے نکاح جائز ہے لیکن اس کے لئے جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے یہ لعنتی فعل ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح نکاح نہیں ہے زناکاری ہے۔ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ البقرة
231 ٢٣١۔ ١ (الطلاق مرتن) میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہوسکتا ہے عدت گزرنے کے بعد نہیں اس لئے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کے بظاہر ہے۔ ١٣٢۔ ٢ بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے یا نکاح کرلیتے یا آزاد کردیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں میں نے تو مذاق کیا تھا اللہ نے اسے آیات الٰہی سے استہزاء قرار دیا جس سے مقصود اس سے روکنا ہے اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق یا نکاح یا آزادی نافذ ہوجائے گی (تفسیر ابن کثیر) البقرة
232 ٢٣٢۔ ١ اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ان کو مت روکو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کردیا جس پر یہ آیت اتری، اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوتی ہے، جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے۔ (حوالہ مذکور) ان احادیث کو علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی دیگر محدثین کی طرح صحیح اور احسن تسلیم کیا ہے۔ فیض الباری ج ٤ کتاب النکاح) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ملحوظ رکھیں اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظر انداز کر کے زبردستی نکاح کر دے تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کر کے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔ البقرة
233 ٢٣٣۔ ١ اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔ اس میں پہلی بات یہ ہے جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہے تو وہ دو سال پورے دودھ پلائے ان الفاظ سے کم مدت دودھ پلانے کی بھی گنجائش نکلتی ہے دوسری بات یہ معلوم ہوئی مدت رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، جیسا کہ ترمذی میں حضرت ام سلمہ (رض) سے مرفوعًا روایت ہے۔ ٢٣٣۔ ٢ طلاق ہوجانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے شریعت سے انحراف ہے۔ اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق عورت کے روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو جس طرح کہ اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ ٢٣٣۔ ٣ ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلًا ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے، مگر مامتا کے جذبے کو نظر انداز کر کے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے یا یہ کہ بغیر خرچ کے ذمہ داری اٹھائے اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا اس سے مالی مطالبہ کرے۔ ٢٣٣۔ ٤ باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متاثر ہو۔ ٢٣٣۔ ٥ یہ ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا معاوضہ دستور کے مطابق ادا کردیا جائے۔ البقرة
234 ٢٣٤۔ ١ یہ عدت وفات ہر عورت کے لئے ہے چاہے گھر میں رہے یا گھر کے باہر جوان ہو یا بوڑھی۔ البتہ اس سے حاملہ عورت متشنٰی ہے کیونکہ اسکی مدت عدت وضع حمل ہے اس عدت وفات میں عورت کو زیب و زینت کی (حتٰی کہ سرمہ لگانے کی بھی) اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ وہ مطلقہ جو دوبارہ نکاح کرنا چاہے اس کے لئے عدت کے اندر زیب و زینت ممنوع نہیں ہے وہ مطلقہ جس سے رجوع نہ ہو سکے اس میں اختلاف ہے بعض جواز کے اور بعض ممانعت کے قائل ہیں۔ ٢٣٤۔ ٢ یعنی عدت گزرنے کے بعد وہ زیب و زینت اختیار کریں اولیاء اس کی اجازت و مشاورت سے کسی اور جگہ نکاح کا بندوبست کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لئے تم پر بھی (اے عورت کے والیوں) کوئی گناہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوہ کے عقد ثانی کو برا سمجھنا چاہئے نہ اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہئے۔ جیسا کہ ہندؤں کے اثرات سے ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ البقرة
235 ٢٣٥۔ ١ یہ بیوہ یا وہ عورت جس کو تین طلاق مل چکی ہوں ان کی بابت کہا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران ان سے اشارے میں تو تم نکاح کا پیغام دے سکتے ہو (مثلاً میرا ارادہ شادی کرنے کا ہے یا میں نیک عورت کی تلاش میں ہوں وغیرہ) لیکن ان سے کوئی خفیہ وعدہ مت لو اور نہ مدت گزرنے سے قبل عقد نکاح پختہ کرو لیکن وہ عورت جس کو خاوند نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں اس کو عدت کے اندر اشارے میں بھی نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں ممکن ہے خاوند رجوع ہی کرلے۔ ٢٣٥۔ ٢ اس سے مراد وہی تعریض و کنایہ ہے جس کا حکم پہلے دیا گیا ہے مثلاً میں تیرے معاملے میں رغبت رکھتا ہوں یا ولی سے کہے کہ اس کے نکاح کی بابت فیصلہ کرنے سے قبل مجھے اطلاع ضرور کرنا وغیرہ (ابن کثیر) البقرة
236 ٢٣٦۔ ١ یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے ہم بستری کے بغیر طلاق دے دی تو انہیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو یہ فائدہ ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری نہیں۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے کسی نے کہا خادم کسی نے کہا ٥٠٠ درہم کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ وغیرہ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے واللہ اعلم۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں تلخی کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر جو طلاق کا سبب ہوتا ہے احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی ودلداری کا اہتمام کرنا مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں ٰخاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتے ہیں۔ البقرة
237 ٢٣٧۔ ١ یہ دوسری صورت ہے کہ خلوت صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے اور اگر عورت اپنا حق معاف کر دے اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ ٢٣٧۔ ٢ اس سے مراد خاوند ہے کیونکہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نصف حق مہر معاف کر دے یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کر دے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل اور احسان کو نہ بھلا نے کی تاکید کر کے حق مہر میں بھی اسی فضل اور احسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ البقرة
238 ٢٣٨۔ ١ درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز جس کو حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعین کردیا ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صلوٰۃ وُسْطٰی قرار دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) البقرة
239 ٢٣٩۔ ١ یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہو پیادہ چلتے ہوئے، سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا۔ البقرة
240 ٢٤٠۔ ١ یہ آیت گو ترتیب میں موخر ہے مگر منسوخ ہے ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے جس میں عدت وفات چار مہینے دس دن بتلائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کردیا ہے اس لئے اب خاوند کو عورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی نہ رہائش کی نہ نان و نفقہ کی۔ البقرة
241 ٢٤١۔ ١ یہ حکم عام ہے جو ہر متعلقہ عورت کو شامل ہے اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے اس کے بیشمار معاشی فوائد ہیں کاش مسلمان اس نہایت ہی اہم نصیحت پر عمل کریں۔ البقرة
242 البقرة
243 ٢٤٣۔ ١ یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے جس کی تفصیل کسی حدیث میں بیان نہیں کی گئی تفسیری روایات اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پغمبر کا نام جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ کیا یہ جہاد میں قتل کے ڈر سے یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر نہیں جا سکتے دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کردیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے پہلے اس واقعہ کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز وفرار کر کے تم ٹال نہیں سکتے۔ البقرة
244 البقرة
245 ٢٤٥۔ ١ قرض حسنہ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے کبھی ظاہری طور پر کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقینا اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔ البقرة
246 ٢٤٦۔ ١ ملاء کسی قوم کے ان اشراف سردار اور اہل حل و عقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا دین میں بدعات ایجاد کرلیں حتیٰ کہ بتوں کی پوجا بھی شروع کردی انبیاء ان کو روکتے رہے لیکن یہ معصیت اور شرک سے بعض نہ آئے اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا بلآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے جنہوں نے دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا قرآن نے بیان کیا ہے۔ ٢٤٦۔ ٢ نبی کی موجودگی میں بادشاہ کا مطالبہ بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا لیکن اللہ نے اس معاملے کو رد نہیں فرمایا بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کردیا جیسے کہ آگے آرہا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے اور وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے مزید دیکھئے سورۃ المائدہ آیت۔ ٢٠ کا حاشیہ۔ البقرة
247 ٢٤٧۔ ١ حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے باشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے جس پر انہوں نے اعتراض کیا پیغمبر نے کہا یہ میرا انتخاب نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے علاوہ ازیں قیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت و طاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے۔ البقرة
248 ٢٤٨۔ ١ صندوق یعنی تابوت جو توب سے ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے تبرکات تھے یہ تابوت بھی ان کے دشمن چھین کرلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح و سکینت کا سبب قرار دیا سکینت کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیر دل بھی کانپ کانپ اٹھتے ہیں وہاں اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح و کامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔ البقرة
249 ٢٤٩۔ ١ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے (ابن کثیر) ٢٤٩۔ ٢ اطاعت امیر ہر حال میں ضروری ہے تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دو چند بلکہ صد چند ہوجاتی ہے دوسرے جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک پیاس اور دیگر تکلیفات کو نہایت حوصلے سے برداشت کرے۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی لیکن تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ اس طرح نہ پینے والوں کی تعداد ٣١٣ بتائی گئی ہے جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ عالم۔ ٢٤٩۔ ٣ ان اہل ایمان نے بھی ابتداء جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا جس پر ان کے علماء جو ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والے تھے انہوں نے کہا کہ کامیابی تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فروانی پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کی مشعیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔ البقرة
250 ٢٥٠۔ ١ جالوت اس دشمن فوج کا کمانڈر اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقاء کا مقابلہ تھا یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر فوج سمجھی جاتی تھی ان کی اس شہرت کے پیش نظر عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبرو اثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح و کامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں جیسے جنگ بدر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت آہو زاری سے فتح اور نصرت کی دعائیں مانگیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔ البقرة
251 ٢٥١۔ ١ حضرت داؤد (علیہ السلام) جو ابھی پیغمبر نہ بادشاہ تھے اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔ ٢٥١۔ ٢ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی لفظ حکمت سے بعض نے نبوت بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ البقرة
252 ٢٥٢۔ ١ یہ گزشتہ واقعات جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا آپ کی رسالت و صداقت کی دلیل ہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہ کسی کتاب میں پڑھے ہیں نہ کسی سے سنے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کو بیان کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ البقرة
253 ٢٥٣۔ ١ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے ( وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ) 017:055 "ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے اس لئے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (لا تخیرونی من بین الأنبیآء (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف، باب ١٣٥۔ مسلم کتاب الفضائل موسی) تم مجھے انبیاء کے درمیان فضیلت مت دو تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ امت کو انبیاء (علیہ السلام) کی بابت ادب اور احترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے پوار علم نہیں ہے اس لیے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا اس سے دوسرے انبیاء کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں پر فضیلت اور اور تمام پیغمبروں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت و اشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے (فتح القدیر) ٢٥٣۔ ٢ مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے مثلاً احیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ جس کی تفصیل سورۃ آل عمران میں آئے گی۔ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ ٢٥٣۔ ٣ اس مضموں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا۔ مطلب اس کا یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے یا اللہ کو ناپسند ہے اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر جہنم سے بچ جائیں اس لئے اس نے کتابیں اتاریں انبیاء (علیہ السلام) کا سلسلہ قائم کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفاء اور علماء دعوت کے ذریعے سے دعوت حق اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت وتاکید بیان فرمائی گئی کس لیے اسی لیے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کر کے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے اس لیے کوئی اس اختیار کا صحیح استعمال کر کے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار وآزادی کا غلط استعمال کر کے کافر یہ گویا اس کی حکمت ومشیت ہے جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ البقرة
254 ٢٥٤۔ ١ یہود و نصاریٰ اور کفار مشرکین اپنے اپنے پیشواؤں، نبیوں، ولیوں، بزرگوں اور مرشدوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں اسی کو وہ شفاعت کہتے ہیں یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آجکل کے جاہلوں کا ہے کہ ہمارے بزرگ اللہ کے پاس آ کر بیٹھ جائیں گے اور بخشوا کر اٹھیں گے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات و احادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بیشک ہوگی مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے جنہیں اللہ اجازت دے گا اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے انبیاء و رسل بھی اور شہدا و صالحین بھی مگر اللہ پر ان میں سے کسی بھی شخصیت کا کوئی دباو نہ ہوگا بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ( وَلَا یَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ) 021:028 البقرة
255 ٢٥٥۔ ١ یہ آیت الکرسی ہے جس کی بڑی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً یہ آیت قرآن کی اعظم آیت ہے۔ اس کے پڑھنے سے رات کو شیطان سے تحفظ رہتا ہے ہر فرض کے بعد پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے (ابن کثیر) یہ اللہ تعالیٰ کی صفات جلال اس کی علو شان اور اس کی قدرت وعظمت پر مبنی نہایت جامع آیت ہے۔ ٢٥٥۔ ٢ کرسی سے بعض نے موضع قدمین (قدم رکھنے کی جگہ) بعض نے علم بعض نے قدرت وعظمت بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے لیکن صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محدثین اور سلف کا یہ مسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات جس طرح قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کی بغیر تاویل اور کیفیت بیان کیے ان پر ایمان رکھا جائے اس لیے یہی ایمان رکھنا چاہیے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے جو عرش سے الگ ہے اس کی کیفیت کیا ہے اس پر وہ کس طرح بیٹھتا ہے اس کو ہم بیان نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی حقیقت سے ہم بے خبر ہیں۔ البقرة
256 ٢٥٦۔ ١ اس کے شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی اور عیسائی ہوگئے تھے پھر جب یہ انصار مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو عیسائی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول اس عتبار سے بعض مفسرین نے اس کو اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ جبر و اکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباو ختم کرتا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہو تاکہ ہر شخص اپنی مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہوجائے چونکہ رکاوٹ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے الجہاد ماض الی یوم القیمۃ جہاد قیامت تک جاری رہے گا خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا۔ الحدیث۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب فان تابوا واقاموا الصلوۃ۔) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں اسی طرح سزائے ارتداد قتل سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکروا نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں کیونکہ ارتداد کی سزا قتل سے مقصود جبر و اکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بیشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو پھر اس سے بغاوت وانحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہو سکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر قتل چوری زنا ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی یہ جبرو اکراہ نہیں ہے بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل وغارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے ایک کا مقصد ملک کا نظریانی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شر و فساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظر انداز کر کے جن الجھنوں دشواریوں اور پریشانیوں سے دو چار ہیں محتاج وضاحت نہیں۔ البقرة
257 البقرة
258 البقرة
259 ٢٥٩۔ ١ او کالذی کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے پہلے واقعہ کی طرح اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا یہ شخص کون تھا اس کی بابت بہت سے اقوال نقل کیے جا چکے ہیں زیادہ مشہور حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام ہے جس کے بعض صحابہ و تابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے واقعہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و نمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کردیا حتی کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا جب وہ سو سال کے بعد زندہ کرسکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ ٢٥٩۔ ٢ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مذکورہ شخص مرا اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کی اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ ٢٥٩۔ ٣ یعنی یقین تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور علم میں مزید پختگی اور اضافہ ہوگیا ہے۔ البقرة
260 ٢٦٠۔ ١ یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعین کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے بس یہ چار مختلف پرندے تھے بس ان کو مانوس کرلے اور پہچان لے تاکہ پکارنے پر وہ دوبارہ زندہ ہو کر آپ کے پاس آ جائیں اور پہچان سکے کہ یہ وہی پرندے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتیٰ کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقینا شک کرنے میں ان سے زیادہ حقدار ہوتے (مزید وضاحت کے لئے دیکھئے (فتح القدیر)۔ البقرة
261 ٢٦١۔ ١ یہ نفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیوں کی۔ اور ایک نیکی کا اجر دس گنا کی ذیل میں آئے گا۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر و ثواب دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جا سکتے۔ البقرة
262 ٢٦٢۔ ١ انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان باب غلظ تحریم اسبال الازاروالمن بالعطیۃ) البقرة
263 ٢٦٣۔ ١ سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مغَفِرَتْ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو یہ چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے یعنی سائل سے نرم اور شفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل اور رسوا کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اس لئے حدیث میں کہا گیا ہے۔ الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ (پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے) نیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔ لا تحقرن من المعروف شیئا ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلق۔ (مسلم کتاب البر) البقرة
264 ٢٦٤۔ ١ اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے صدقہ اور خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوا نہیں بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے ایسے خرچ کی مثال صاف پتھر چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی ہو کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہوجائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی اس طرح ریا کار کو بھی اس کے صدقے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا البقرة
265 ٢٦٥۔ ١ یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دوگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اسکو کافی ہوجاتی ہے اس طرح ان کے نفقات بھی چاہے کم ہو یا زیادہ عند اللہ کئی کئی گنا اجر و ثواب کے باعث ہونگے۔ جَنْۃُ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں طرف باڑ ہو اور باڑ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے اور جنت کو اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَبْوَۃَ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وَابِلُ تیز بارش۔ البقرة
266 ٢٦٦۔ ١ اسی ریاکاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جا رہی ہے جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی بھرپور آمدنی کی امید ہو) وہ شخص بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ضعیفی کی وجہ سے محنت اور مشقت سے عاجز ہوچکا ہو اور اولاد بھی اسکے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہ ہو اس حالت میں تیز اور تند ہوائیں چلیں اور سارا باغ جل جائے اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا اور نہ اس کی اولاد یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا کہ نفاق و ریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے۔ جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت وفرصت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو؟ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عمر (رض) نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہوجاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، فتح القدیر للشوکانی تفسیر ابن جریر طبری)۔ البقرة
267 ٢٦٧۔ ١ صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے اور یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا حدیث میں ہے ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا (اللہ تعالیٰ پاک ہے پاک حلال چیز ہی قبول فرماتا ہے) دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں جیسا کہ آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) 003:092 کا بھی مفاد ہے۔ اس کے شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ کی خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ)۔ ٢٦٧۔ ٢ یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔ البقرة
268 ٢٦٨۔ ١ یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہوجاؤ گے لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے جس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بےدھڑک خرچ کر ڈالتا ہے دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے لیکن یہی شخص سینما شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بے تحاشہ خرچ کرتا ہے اور اسے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔ البقرة
269 ٢٦٩۔ ١ حکمۃ سے بعض کے نزدیک عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہو سکتے ہیں صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے" (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ۔ مسلم کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔۔) البقرة
270 ٢٧٠۔ ١ نَذَرِ کا مطلب ہے میرا فلاں کام ہوگیا یا فلاں مشکل سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کرونگا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں نذر بھی نماز روزہ کی طرح عبادت ہے اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا شرک ہے۔ جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر ونیاز کا یہ سلسلہ عام ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے بچائے۔ البقرة
271 ٢٧١۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے سوائے کسی ایسی صورت کے کہ اعلانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضلیت حاصل کرسکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو قیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضلیت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکاۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔ البقرة
272 ٢٧٢۔ ١ تفسیری روایات میں اس کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مشرک رشتے داروں کی مدد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہدایت کے راستے پر لگا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی تم جو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا پورا اجر ملے گا جس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلم رشتے دار کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنا باعث اجر ہے تاہم زکاۃ صرف مسلمان کا حق ہے کسی غیر مسلم کو نہیں دی جا سکتی۔ البقرة
273 ٢٧٣۔ ١ اس سے مراد مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہر چیز سے کٹ گئے دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء اور علماء بھی اس کی ذیل میں آ سکتے ہیں۔ ٢٧٣۔ ٢ گویا اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقرو غربت کے باوجود (سوال سے بچنا) اختیار کرتے اور چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض نے الحاف کے معنی کئے ہیں بلکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت عفت بیان کی گئی ہے۔ (فتح القدیر) اور بعض نے کہا کہ وہ سوال میں آہو زاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے۔ اس لئے الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے اس لئے پیشہ ور گداگروں کے بجائے، مہاجرین، دین کے طلباء اور سفید پوش ضرورت مندوں کا پتہ لگا کر ان کی امداد کرنی چاہیے جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خوداری کے خلاف ہے۔ اور بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ ہمیشہ لوگوں سے سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا۔ (بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکاۃ باب من لا تحل لہ المسئلۃ ومن تحل لہ) البقرة
274 البقرة
275 ٢٧٥۔ ١ رِبَوا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں اور شریعت میں اس کا اطلاق رِبَا الفَضْلِ اور ربا النسیئۃ پر ہوتا ہے۔ ربا الفضل اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد و ادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے) مثلا گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے ہاتھوں ہاتھ ہو۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کے بجائے ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں تب بھی سود ہے) ربا النسیئۃ کا مطلب ہے کسی کو (مثلا) چھ مہینے کے لیے اس شرط پر سو روپے دینا کہ واپسی ١٢٥ روپے ہوگی۔ ٢٥ روپے چھ مہینے کی مہلت کے لیے دیے جائیں۔ حضرت علی (رض) کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے "کل قرض جر منفعۃ فھو ربا "(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج ٥، ص ٢٨) (قرض پر لیا گیا نفع سود ہے)۔ یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام ہے۔ اور زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقا حرام قرار دیا ہے اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے اس پر اضافہ سود نہیں ہے اس لیے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلا قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے بلکہ منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چا ہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار ہو) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیاوی غرض و منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس سے معاشرے میں اخوت بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت ومحبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بے روزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت وسنگدلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لیے لیے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔ ٢٧٥۔ ٢ سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔ ٢٧٥۔ ٣ حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے جب کہ سود میں دونوں چیزیں نہیں ہیں علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے پھر یہ دونوں ایک کس طرح ہو سکتے ہیں۔ ٢٧٥۔ ٤ قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔ ٢٧٥۔ ٥ کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہتا ہے یا سوء عمل اور فسادات کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے سزا کی دھمکی ہے۔ البقرة
276 ٢٧٦۔ ١ یہ سود کے معنوی اور روحانی نقصان اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔ البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 ٢٧٩۔ ١ یہ ایسی سخت سزا ہے جو اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ اس لئے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے کہا کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے (ابن کثیر) ٢٧٩۔ ٢ تم اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا۔ البقرة
280 ٢٨٠۔ ١ زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا جس سے تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی تھی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی تھی اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے حدیث میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ایک سراسر ظلم، سنگدلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام۔ مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پر رحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت وافادیت کو سمجھ سکیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوار کرسکیں۔ البقرة
281 ١٨١۔ ١ بعض آثار میں ہے کہ یہ قرآن کریم کی آخری آیت ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، اس کے چند دن بعد ہی آپ دنیا سے رحلت فرما گئے۔ (ابن کثیر) البقرة
282 ٢٨٢۔ ١ جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے کیونکہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا پھر اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لئے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے اور جھگڑوں کا باعث بھی ہے اس لئے اس آیت میں جسے آیتہ الدین کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنیں اس کے لئے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کرلو دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ ٢٨٢۔ ٢ اس سے مراد ہے یعنی وہ اللہ سے ڈرتا ہوا رقم کی صحیح تعداد لکھوائے اس میں کمی نہ کرے آگے کہا جا رہا ہے کہ یہ مقروض اگر کم عقل یا کمزور بچہ یا مجنون ہے تو اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف کے ساتھ لکھوالے تاکہ صاحب حق (قرض دینے والے) کو نقصان نہ ہو۔ ٢٨٢۔ ٣ یعنی جن کی دیانتداری اور عدالت پر مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہوسکتا اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھا لے۔ فقہائے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں کیونکہ حدیث سے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا ثابت ہے اور دو عورتیں جب ایک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا (فتح القدیر) ٢٨٢۔ ٤ یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔ یعنی عورت عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے) اس میں عورت کی شرم ساری اور فروتری کا اظہار نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں بلکہ ایک فطرتی کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر مبنی ہے۔ مکابرۃً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق و واقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔ ٢٨٢۔ ٥ یہ لکھنے کے فوائد ہیں کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے، گواہی بھی درست رہے گی (کہ گواہ اگر فوت ہوجائے) یا غائب ہوجائے تو اس صورت میں تحریر کام آئے گی، اور شک وشبہ سے بھی فریقین محفوظ رہیں گے۔ شک پڑنے کی صورت میں تحریر دیکھ کر شک دور کیا جا سکتا ہے۔ ٢٨٢۔ ٦ یہ وہ خریدو فروخت ہے جس میں ادھار ہو یا سودا طے ہوجانے کے بعد بھی انحراف کا خطرہ ہو ورنہ اس سے پہلے نقد سودے کو لکھنے سے مستشنٰی کردیا گیا ہے بعض نے بیع سے مکان دکان، باغ یا حیوانات کی بیع مراد لی ہے۔ ٢٨٢۔ ٧ ان کو نقصان پہنچانا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقے میں ان کو بلایا جائے کہ جس سے ان کی مصروفیات میں حرج یا کاروبار میں نقصان ہو یا ان کو جھوٹی بات لکھنے یا اس کی گواہی دینے پر مجبور کیا جائے۔ ٢٨۔ ٨ یعنی جن باتوں کی تاکید کی گئی ہے ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان سے اجتناب کرو۔ البقرة
283 ٢٨٣۔ ١ اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جارہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس گروی رکھ دے اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اگر گروی رکھی ہوئی چیز ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حقدار مالک ہوگا اور گروی رکھی ہوئی چیز پر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچ وصول کرسکتا ہے باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔ ٢٨٣۔ ٢ یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کرسکتے ہو امانت سے مراد یہاں قرض ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔ ٢٨٣۔ ٣ گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے اس لئے اس پر سخت (وعید) سزا یہاں قرآن اور احادیث میں بیان کی گئی ہے اسی لئے گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے صحیح مسلم کی حدیث ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہوجائے۔ الا اخبرکم بخیر الشھداء؟ الذی یاتی بشھادتہ قبل ان یسئالھا (صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ، باب بیان خیر الشھود) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ "الا اخبرکم بشر الشھداء؟ الذین عشھون قبل ان یستشھدوا"(صحیح بخاری، کتاب الرقاق۔ مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ) "کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں"مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہں۔ نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغہ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر اس میں فساد آجائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ "الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا! وھی القلب" (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأالدینہ)۔ البقرة
284 ٢٨٤۔ ١ احایث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم بجا لاتے ہیں کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں وہ تو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرمایا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے جذبہ سمع و طاعت کو دیکھتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو منسوخ فرما دیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کردیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا۔ صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم و ارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں۔ البقرة
285 ٢٨٥۔ ١ اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر اہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس اگلی آیت (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا) 002:286 میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت اور اس کے فضل و کرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہوجاتی ہیں (صحیح بخاری) دوسری حدیث میں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں ان میں سے ایک سورۃ بقرہ کی یہ دو آخری آیات بھی ہیں (صحیح مسلم) کئی روایات میں یہ وارد ہے کہ اس سورۃ کی آخری آیات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں حضرت معاذ (رض) اس صورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔ البقرة
286 البقرة
0 یہ سورت مدنی ہے اس کی تمام آیتیں مختلف اوقات میں ہجرت کے بعد اتری ہیں اور اس کا ابتدائی حصہ یعنی ٨٣ آیات تک عیسائیوں کے وفد نجران کے بارے میں نازل ہوا ہے جو ٩ ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا عیسائیوں نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے عیسائی عقائد اور اسلام کے بارے میں مذاکرہ و مباحثہ کیا جس کو رد کرتے ہوئے انہیں دعوت مباہلہ بھی دی گئی جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ آل عمران
1 آل عمران
2 ٢۔ ١ حَیُّ اور قَیُوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں جن کا مطلب وہ ازل سے ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں قیوم کا مطلب سارے کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتے تھے گویا ان کو کہا جا رہا ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصہ بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے تھی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہوچکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔ ایک یہ آل عمران کی آیت۔ دوسری آیت الکرسی اور تیسری سورۃ طہٰ (ابن کثیر تفسیر آیت الکرسی) آل عمران
3 ٣۔ ١ یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ آل عمران
4 ٤۔ ١ اس سے پہلے انبیاء پر جو کتابیں نازل ہوئیں یہ کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے یعنی جو باتیں ان میں درج تھیں ان کی صداقت اور ان میں بیان کردہ پیشن گوئیوں کا اعتراف کرتی ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں یہ قرآن کریم بھی اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پہلے بہت سی کتابیں نازل فرمائیں۔ اگر یہ کسی اور کی طرف سے یا انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ان میں باہم مطابقت کی بجائے مخالفت ہوتی۔ ٤۔ ٢ یعنی اپنے وقت میں تورات اور انجیل بھی یقینا لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ تھیں اسلئے کہ ان کے اتارنے کا مقصد ہی یہی تھا۔ تاہم اس کے بعد دوبارہ کہہ کر وضاحت فرما دی کہ اب تورات و انجیل کا دور ختم ہوگیا اب قرآن نازل ہوچکا ہے وہ فرقان ہے اور اب صرف وہی حق و باطل کی پہچان ہے اس کو سچا مانے بغیر عند اللہ کوئی مسلمان اور مومن نہیں۔ آل عمران
5 آل عمران
6 ٦۔ ١ خوب صورت یا بد صورت، مذکر یا مونث نیک بخت یا بد بخت، ناقص الخلقت یا تام الخلقت جب رحم مادر میں یہ سارے تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کس طرح ہو سکتے ہیں جو خود بھی اسی مرحلہ تخلیق سے گزر کر دنیا میں آئے ہیں جس کا سلسلہ اللہ نے رحم مادر میں قائم فرمایا۔ آل عمران
7 ٧۔ ١ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامر ونواہی، احکام و مسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا اس کے برعکس آیات متشابھات ہیں مثلا اللہ کی ہستی قضا و قدر کے مسائل، جنت و دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماوراء عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اس لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے فتنے برپا کرتے ہیں جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو عبد اللہ اور نبی کہا یہ واضح اور محکم بات ہے لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جو کہا گیا اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدال کرتے ہیں یہی حال اہل بدعت کا ہے قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں وہ انہیں متشابہات کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات محکمات کو بھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے متشابھات بنا دیتے ہیں اعاذنا اللہ منہ۔ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پر عمل کرتا ہے اور متشابھات کے مفہوم کو بھی اگر اس میں اشتباہ ہو محکمت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی اصل کتاب قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد گمراہی سے بھی جعلنا اللہ منہم ٧۔ ٢ تاویل کے ایک معنی تو ہیں کسی چیز کی اصل حقیقت اس معنی کے اعتبار سے الْا اللّٰہُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طور پر صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاویل کے دوسرے معنی ہیں کسی چیز کی تفسیر و تعبیر اور بیان، اس اعتبار سے الْا اللّہ پر وقف کے بجائے (وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ) 3۔ آل عمران :7) پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر کا علم رکھتے ہیں تاویل کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں (ملخص از ابن کثیر) آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 آل عمران
12 ١٢۔ ١ یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں۔ اور یہ پیش گوئی جلدی پوری ہوگئی۔ چنانچہ بنو قینقاع اور بنو نفیر جلا وطن کئے گئے بنو قریظہ قتل کئے گئے پھر خیبر فتح ہوگیا اور تمام یہودیوں پر جزیہ عائد کردیا گیا (فتح القدیر) آل عمران
13 ١٣۔ ١ یعنی ہر فریق دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا ہے کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر (یا ٣١٣) تھی انہیں کافر ٦٠٠ اور ٧٠٠ کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالانکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب (٣ گنا) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کا عزم و حوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرغوب ہوجاتے جب وہ تین گنا کی بجائے دو گنا نظر آئے تو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا لیکن یہ دوگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کر کے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے (ابن کثیر) یہ تفصیل (وَاِذْ یُرِیْکُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا ۭوَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ 44؀ۧ) 008:044 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی ایک تو اس لئے کہ یہ پہلی جنگ تھی دوسرے یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی مسلمان ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جارہا تھا مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ بچا کرلے گیا لیکن کفار مکہ اپنی طاقت و کثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر پر یہ پہلا معرکہ برپا ہوا تیسرے اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی چوتھے اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ آل عمران
14 ١٤۔ ١ شَھَوَات سے مراد یہاں مشتبھات ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں اس لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے میرے بعد جو فتنے رونما ہونگے ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔ اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے اگر اس مقصد کے لئے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مزموم۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا) اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت صلہ رحمی صدقہ و خیرات اور امور پر خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پر فخر اور غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہونگی۔ خزانے یعنی سونے چاندی اور مال و دولت کی فروانی اور کثرت اور وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں یا جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر) آل عمران
15 ١٥۔ ١ اس آیت میں اہل ایمان کو بتلایا جا رہا ہے کہ دنیا کی مذکورہ چیزوں میں ہی مت کھو جانا بلکہ ان سے بہتر وہ زندگی اور نعمتیں ہیں جو رب کے پاس ہیں جن کے مستحق اہل تقویٰ ہی ہونگے اس لئے تم تقویٰ اختیار کرو اگر یہ تمہارے اندر پیدا ہوگیا تو یقینا تم دین دنیا کی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹ لو گے۔ ١٥۔ ٢ پاکیزہ یعنی وہ دنیاوی میل کچیل حیض و نفاس اور دیگر آلودگیوں سے پاک ہوں گی اور پاک دامن ہونگی۔ اس سے اگلی دو آیات میں اہل تقویٰ کی صفات کا تذکرہ ہے۔ آل عمران
16 آل عمران
17 آل عمران
18 ١٨۔ ١ شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا اور بیان کیا اس کے ذریعے سے اس نے اپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اور اہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب اور سنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر) آل عمران
19 ١٩۔ ١ اسلام وہی دین ہے جس کی دعوت و تعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اس کی کامل ترین شکل وہ ہے جسے نبی آخرزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں توحید و رسالت اور آخرت پر اس طرح یقین و ایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا ہے محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کرلینا یہ اسلام نہیں نہ اس سے نجات آخرت ملے گی۔ ایمان و اسلام اور دین عند اللہ قبول نہیں ہوگا۔ (الفرقان) برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کا ڈرانے والا ہو اور حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو یہودی یا نصرانی مجھ پر ایمان لائے بغیر فوت ہوگیا وہ جہنمی ہے۔ (صحیح مسلم) اسی لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقت کے تمام سلاطین اور بادشاہوں کو خطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی (بحوالہ ابن کثیر) ١٩۔ ٢ ْ ان کے اس باہمی اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو ایک ہی دین کے ماننے والوں نے آپس میں برپا کر رکھا تھا مثلاً یہودیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں اسی طرح عیسائیوں کے باہمی اختلا فات اور فرقہ بندیاں پھر وہ اختلافات بھی مراد ہے جو اہل کتاب کے درمیان آپس میں تھا جس کی بنا پر یہودی نصرانیوں کو اور نصرانی یہودیوں کو کہا کرتے تھے تم کسی چیز پر نہیں ہو نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سارے اختلافات دلائل کی بنیاد پر نہیں تھے محض حسد اور بغض و عناد کی وجہ سے تھے یعنی وہ لوگ حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود محض اپنے خیالی دنیاوی مفاد کے چکر میں غلط بات پر جمے رہتے۔ افسوس آج مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد ٹھیک ان ہی کے غلط مقاصد کے لئے غلط ڈگر پر چل رہی ہے۔ ١٩۔ ٣ یہاں آیتوں سے مراد وہ آیات ہیں جو اسلام کے دین الہی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ آل عمران
20 ٢٠۔ ١ ان پڑھ لوگوں سے مراد مشرکین عرب ہیں جو اہل کتاب کے مقابلے میں بلعموم ان پڑھ تھے۔ آل عمران
21 ٢١۔ ١ یعنی ان کی سرکشی و بغاوت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی انہوں نے ناحق قتل نہیں کیا بلکہ ان تک کو بھی قتل کر ڈالا جو عدل و انصاف کی بات کرتے تھے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین اور داعیان حق جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت و فضیلت بھی واضح کردی۔ آل عمران
22 آل عمران
23 ٢٣۔ ١ ان اہل کتاب سے مراد مدینے کے یہودی ہیں جن کی اکثریت قبول اسلام سے محروم رہی اور وہ اسلام مسلمانوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مکر و سازشوں میں مصروف رہے تاآنکہ ان کے دو قبیلے جلا وطن اور ایک قبیلہ قتل کردیا گیا۔ آل عمران
24 ٢٤۔ ١ یعنی کتاب اللہ کے ماننے سے گریز و اعتراض کی وجہ کا یہ زعم باطل ہے کہ اول تو وہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں اور گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے اور انہی من گھڑت باتوں نے انہی دھوکے اور فریب میں ڈال رکھا ہے۔ آل عمران
25 ٢٥۔ ١ قیامت والے دن ان کے یہ دعوے اور غلط عقائد کچھ کام نہ آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بے لاگ انصاف کے ذریعے سے ہر نفس کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
26 ٢٦۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت وطاقت کا اظہار ہے شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں شرکاء خالق بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے شر کا نہیں اس لئے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے بخلاف شر کے یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اسلئے کہ شر بھی اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں (فتح القدیر) آل عمران
27 ٢٧۔ ١ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہوجاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہوجاتی ہے یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے بڑے ہوجاتے ہیں۔ ٢٧۔ ٢ جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکلتا ہے۔ پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے سے کافر پیدا فرماتا ہے بعض روایات میں ہے کہ معاذ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم آیت (قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِیَدِکَ الْخَیْرُ ۭ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) 003:026 پڑھا کرو یہ دعا کرو (رَحْمَان الدُنْیَا وَلْاآخِرَۃِو رحیمھما تعطی من تشاء منھما رتمنع من تشاء ارحمنی رحمۃ تغنینی بھا عن رحمۃ من سواک اللھم اغننی من الفقر واقض عنی الدین)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام فرما دے گا۔ (مجمع الزوائد) آل عمران
28 ٢٨۔ ١ اولیاء ولی کی جمع ہے ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے دلی محبت اور خصوصی تعلق ہو جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۙیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ) 002:257 یعنی اللہ اہل ایمان کا ولی ہے مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کیساتھ خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت ومصلحت ان سے صلح ومعاہدہ بھی ہوسکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورۃ ممتحنہ میں ہے) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات (دوستی ومحبت) سے مختلف ہے۔ ٢٨۔ ٢ یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر کی حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 ٣١۔ ١ یہود اور نصاری دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ تعالیٰ کو ہم سے محبت ہے بالخصوص عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ و مریم علہما السلام کی تعظیم و محبت میں اتنا غلو کیا کہ انہیں درجہ الوہیت پر فائز کردیا اس کی بابت بھی ان کا خیال تھا کہ ہم اس طرح اللہ کا قرب اور اس کی رضا و محبت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دعووں اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور اس کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی اس کا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میرے آخری پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی پیروی کرو۔ اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کردیا ہے کہ محبت الہٰی کا طالب اگر اتباع محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر تو یقینا وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوی میں سچا ہے ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی فرمان "جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ نہیں ہے یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے تو وہ مسترد ہے"۔ ٣١۔ ٢ یعنی پیروی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہونگے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔ آل عمران
32 ٣٢۔ ١ اس آیت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھر تاکید کر کے واضح کردیا کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعت محمدی میں ہے اور اس سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔ اس آیت میں پیروی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گریز کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آل عمران
33 ٣٣۔ ١ انبیاء (علیہ السلام) کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں ایک حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے والد اور دوسرے حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ کا نام مفسرین نے حنّہ بنت فاقوذ لکھا ہے (تفسیر قرظبی و ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی ان میں پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی۔ دوسرے حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں انہیں اس وقت کا رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا انہیں عمر طویل عطا کی گئی انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی لیکن چند افراد کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا دوسرے تمام لوگوں کو غرق کردیا گیا آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی گئی کہ ان میں انبیاء و سلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے حتیٰ کہ کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہوئے۔ آل عمران
34 ٣٤۔ ١ یا دوسرے معنی ہیں دین میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار۔ آل عمران
35 ٣٥۔ ١ مُحَرّرَا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف۔ آل عمران
36 ٣٦۔ ١ اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہے اور عذر کا بھی۔ حسرت اس طرح کہ میری امید کے برعکس لڑکی ہوئی ہے اور عذر اس طرح کہ نذر سے مقصود تو تیری رضا کے لئے ایک خدمت گار وقف کرنا تھا اور یہ کام ایک مرد ہی زیادہ بہتر طریقے سے کرسکتا تھا۔ اب جو کچھ بھی ہے تو اسے جانتا ہے (فتح القدیر) ٣٦۔ ٢ حافظ ابن کثیر نے اس سے اور حدیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے بچے کا نام ولادت کے پہلے روز رکھنا چاہیے اور ساتویں دن نام رکھنے والی حدیث کو ضعیف قرار دے دیا۔ لیکن حافظ ابن القیم نے تمام احادیث پر بحث کر کے آخر میں لکھا ہے کہ پہلے روز، تیسرے روز یا ساتویں روز نام رکھا جا سکتا ہے، اس مسئلے میں گنجائش ہے۔ ٣٦۔ ٣ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی چنانچہ حدیث صحیح میں ہے کہ جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو مس کرتا ہے (چھوتا) ہے۔ جس سے وہ چیختا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مس شیطان سے حضرت مریم علیہا السلام کو اور ان کے بیٹے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو محفوظ رکھا (صحیح بخاری، کتاب التفسیر) آل عمران
37 ٣٧۔ ١ حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی تھے علاوہ ازیں اپنے وقت کے پیغمبر ہونے کے لحاظ سے بھی وہی سب سے بہتر کفیل بن سکتے تھے جو حضرت مریم علیہا السلام کی مادی ضروریات اور علمی و اخلاقی تربیت کے تقاضوں کا صحیح اہتمام کرسکتے تھے۔ ٣٧۔ ٢ محرابُ سے مراد حجرہ ہے جس میں حضرت مریم علیہا السلام رہائش پذیر تھیں رزق سے مراد پھل یہ پھل ایک تو غیر موسمی ہوتے گرمی کے پھل سردی کے موسم میں اور سردی کے گرمی کے موسم میں ان کے کمرے میں موجود ہوتے، دوسرے حضرت زکریا (علیہ السلام) یا اور کوئی شخص لا کردینے والا نہیں تھا اس لئے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ازراہ تعجب و حیرت سے پوچھا یہ کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی طرف سے۔ گویا یہ حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت تھی۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہا جاتا ہے یعنی جو ظاہر اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت جب چاہے صادر کر دے۔ اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے جیسا کہ اہل بدعت اولیاء کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کرا کے انہیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلا کردیتے ہیں اس کی مزید وضاحت بعض معجزات کے ضمن میں آئے گی۔ آل عمران
38 آل عمران
39 ٣٩۔ ١ بے موسمی پھل دیکھ کر حضرت زکریا (علیہ السلام) کے دل میں بھی (بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود) یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسی طرح اولاد سے نواز دے۔ چنانچہ بے اختیار دعا کے لئے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھ گئے جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ ٣٩۔ ٢ اللہ کے کلمے کی تصدیق سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق ہے گویا حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے ہوئے دونوں آپس میں خالہ زاد تھے دونوں نے ایک دوسرے کی تائید کی۔ حصوراً کے معنی ہیں گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکے بعض نے اس کے معنی نامرد کے کئے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ ایک عیب ہے جب کہ یہاں ان کا ذکر مدح اور فضیلت کے طور پر کیا گیا ہے۔ آل عمران
40 آل عمران
41 ٤١۔ ١ بڑھاپے میں معجزانہ طور پر اولاد کی خوشخبری سن کر اشتیاق میں اضافہ ہوا اور نشانی معلوم کرنی چاہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین دن تیری زبان بند ہو جائیگی۔ جو ہماری طرف سے بطور نشانی ہوگی لیکن تو اس خاموشی میں کثرت سے صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کیا کر تاکہ اس نعمت الٰہی کا جو تجھے ملنے والی ہے شکر ادا ہو یہ گویا سبق دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طلب کے مطابق تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے تو اسی حساب سے اس کا شکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو۔ آل عمران
42 ٤٢۔ ١ حضرت مریم علیہا السلام کا یہ شرف و فضل اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت خدیجہ کو بھی سب عورتوں میں بہتر کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قرار دیا گیا ہے حضرت مریم، حضرت آسیہ (فر عون کی بیوی) حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رض) کی بابت کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ (رض) بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ آل عمران
43 آل عمران
44 ٤٤۔ ١ آجکل کے اہل بدعت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر اور ناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اس طرح اور ناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ (ذٰلِکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ) 003:044 سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے غیر پیغمبر پر نہیں۔ آل عمران
45 ٤٥۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس باپ کے بغیر ہوئی اور اللہ کی خاص قدرت اس کے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔ ٤٥۔ ٢ مسیح مسح سے ہے یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے ان دونوں معنوں کے اعتبار سے فعیلْ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے یا تو بمعنی مفعول (یعنی اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا (بخاری مسلم) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لیے اسے بھی المسیح الدجال کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود ونصاری کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریبا اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے دجال کو مسیح اس لیے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا مگر وہ اپنے اس دعوی سمیت تمام دعووں میں دجل وفریب کا اتنا بڑا پیکر ہوگا کہ اولین و آخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی اس لیے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی ہے اور عاس یعوس سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست و قیادت کے ہیں۔ (قرطبی و فتح القدیر) آل عمران
46 ٤٦۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے (گہوارے) میں گفتگو کرنے کا ذکر خود قرآن کریم کی سورۃ مریم میں موجود ہے اس کے علاوہ صحیح حدیث میں دو بچوں کا ذکر اور ہے ایک صاحب جریج اور ایک اسرائیلی عورت کا بچہ (صحیح بخاری) ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ جب وہ بڑے ہو کر وحی اور رسالت سے سرفراز کئے جائیں گے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ کا قیامت کے قریب جب آسمان سے نزول جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے تو اس وقت جو وہ اسلام کی تبلیغ کریں گے وہ کلام مراد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر و قرطبی) آل عمران
47 ٤٧۔ ١ تیرا تعجب بجا لیکن قدرت الٰہی کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے وہ تو جب چاہے اسباب عادیہ و ظاہریہ کا سلسلہ ختم کر کے حکم کن سے پلک جھپکتے میں جو چاہے کر دے۔ آل عمران
48 ٤٨۔ ١ کتاب سے مراد کتابت ہے جیسا کہ ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے یا انجیل و تورات کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا (قرطبی) یا تورات و انجیل (الکتاب وحکمۃ) کی تفسیر ہے۔ آل عمران
49 ٤٩۔ ١ اخلق لکم۔ یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے یہاں اس کے معنی ظاہر شکل و صورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔ ٤٩۔ ٢ دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں نہیں میں تو اس کا عاجز بندہ ہوں اور رسول ہی ہوں یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت ہو اور بالاتری نمایاں ہو سکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جادوگری کا زور تھا انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا کہ جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا چنانچہ انہوں نے ٰمردہ کو زندہ کردینے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردینے کا ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور شعر وادب اور فصاحت اور بلاغت کا دور تھا چنانچہ انہیں قرآن جیسا فصیح و بلیغ اور پر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے بلغا اور شعرا عاجز رہے اور چلینج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے (ابن کثیر) آل عمران
50 ٥٠۔ ١ اس سے مراد یا تو وہ بعض چیزیں ہیں جو بطور سزا اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کردی تھیں یا پھر وہ چیزیں جو ان کے علماء نے اجتہاد کے ذریعے سے حرام کیں تھیں اور اجتہاد میں ان سے غلطی کا ارتکاب ہوا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس غلطی کا ازالہ کر کے انہیں حلال قرار دیا۔ (ابن کثیر) آل عمران
51 ٥١۔ ١ یعنی اللہ کی عبادت کرنے میں اور اس کے سامنے ذلت و عاجزی کے اظہار میں میں اور تم دونوں برابر ہیں۔ اس لئے سیدھا راستہ صرف یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی واحدانیت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ آل عمران
52 ٥٢۔ ١ یعنی ایسی گہری سازش اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔ ٥٢۔ ٢ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے با شعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابتداء میں جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگار بننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انہوں نے قبل ہجرت مدد کی۔ اس طرح یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مدد طلب فرمائی یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کرسکتے تھے۔ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول مَن انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے (آمین) ٥٢۔ ٣ حواریوں حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر ہے۔ آل عمران
53 آل عمران
54 ٥٤۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیرنگین تھا یہاں ان کا جو حکمران مقرر تھا وہ کافر تھا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف اس حکمران کے کان بھرے کہ یہ نعوذ باللہ بے باپ کے اور فسادی ہے وغیرہ وغیرہ حکمران نے ان کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی جگہ ان کے ہمشکل ایک آدمی کو سولی دے دی (مکر) عربی زبان میں لطیف اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اور اس معنی میں یہاں اللہ تعالیٰ (خیرُ الْماکِرِیْنَ) کہا گیا گویا یہ مکر (برا) بھی ہوسکتا ہے اگر غلط مقصد کے لئے ہو اور خیر (اچھا) بھی ہوسکتا ہے اگر اچھے مقصد کے لئے ہو۔ آل عمران
55 ٥٥۔ ١ انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کردیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ تجھے میں یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لونگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر) ٥٥۔ ٢ اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا میں پیش کردی جائے گی۔ ٥٥۔ ٣ اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر تمام انبیاء کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح دین کی پیروی کرتے ہیں۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 ٦١۔ ١ یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بدعا کرنا مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقین میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہٰی میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس پر لعنت فرما اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ٩ ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو وہ غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر مناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت حسن، حسین (رض) کو بھی ساتھ لیا اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل و عیال کو بلا لو اور پھر مل کر جھو ٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورے کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر جزیہ مقرر فرمایا جس کی وصولی کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) کو جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا ان کے ساتھ بھیجا (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 ٦٤۔ ١ کسی بت نہ صلیب کو نہ آگ اور نہ کسی چیز کو بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ ٦٤۔ ٢ یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ کھڑا کر رکھا ہے یہ غلط ہے وہ رب نہیں ہیں انسان ہیں دوسرا اس بات کی طرف اشارہ ہے تم نے اپنے احبار و رہبان کو حلال یا حرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے یہ بھی ان کو رب بنانا ہے حلال اور حرام کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے (ابن کثیر و فتح القدیر) ٦٤۔ ٣ صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے اس آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اسے کہا تو مسلمان ہوجائے گا تو تجھے دوہرا اجر ملے گا ورنہ ساری رعایا کا گناہ تجھ پر ہوگا اسلام قبول کرلے سلامتی میں رہے گا کیونکہ رعایا کا عدم قبول اسلام کا سبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت مذکورہ میں تین نکات ١۔ صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ ٢ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ ٣ اور کسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا۔ لہذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان تینوں نکات اور اس کلمہ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس و بنیاد بنانا چاہیے۔ آل عمران
65 ٦٥۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے دین پر تھے حالانکہ تورات جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے دونوں حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے ہیں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا حضرت ابراہیم و عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا (قرطبی) آل عمران
66 ٦٦۔ ١ تمہارے علم اور دیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے۔ یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے بے اصل بھی ہیں اور بے عقلی کا مظہر بھی تو پھر تم اس بات پر کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شان اور ان کی ملت حنفیہ کے بارے میں جس کی اساس توحید و اخلاص پر ہے۔ آل عمران
67 ٦٧۔ ١ خالص مسلمان۔ یعنی شرک سے بیزار اور صرف خدائے واحد کے پرستار۔ آل عمران
68 ٦٨۔ ١ اسی لئے قرآن کریم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیمی کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے علاوہ ازیں حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ہر نبی کے نبیوں میں سے دوست ہوتے ہیں، میرے ولی (دوست) ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل (ابراہیم علیہ السلام) ہیں۔ آل عمران
69 ٦٩۔ ١ یہ یہودیوں کے اس حسد و بغض کی وضاحت ہے جو اہل ایمان سے رکھتے تھے اور اسی عناد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح یہ خود ہی بے شعوری میں اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آل عمران
70 ٧٠۔ ١ قائل ہونے کا مطلب ہے کہ تمہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت و حقانیت کا علم ہے۔ آل عمران
71 ٧١۔ ١ اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشان دہی کر کے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے پہلا جرم حق وباطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے دوسرا حق چھپانا۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے انہیں لوگوں سے چھپانا تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے اور یہ دونوں جرم جان بوجھ کر کرتے تھے۔ جس سے ان کی بدبختی دو چند ہوگئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورۃ بقرہ میں بھی کی گئی ہے۔ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے جس میں یہود و نصاری دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنونضیر اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کا براہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکالفت میں پیش پیش تھے۔ آل عمران
72 ٧٢۔ ١ یہ یہودیوں کے ایک اور مکر کا ذکر ہے۔ جس سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے باہم طے کیا کہ صبح کو مسلمان ہوجائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے اسلام کے بارے میں شک پیدا ہو کہ یہ لوگ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین میں چلے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلام میں ایسے عیوب اور خامیاں ہوں جو ان کے علم میں آئی ہوں۔ آل عمران
73 ٧٣۔ ١ یہ آپس میں انہوں نے ایک دوسرے کو کہا کہ تم ظاہری طور پر تو اسلام کا اظہار ضرور کرو لیکن اپنے ہم مذہب (یہود) کے سوا کسی اور کی بات پر یقین مت رکھنا۔ ٧٣۔ ٢ یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس کا ما قبل اور ما بعد سے تعلق نہیں ہے صرف ان کے مکر و حیلہ کی اصل حقیقت اس سے واضح کرنا مقصود ہے کہ ان کے جملوں سے کچھ نہ ہوگا کیونکہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو ہدایت دے یا دینا چاہے، تمہارے حیلے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ ٧٣۔ ٣ یہ بھی یہودیوں کا قول ہے یعنی یہ بھی تسلیم مت کرو کہ جس طرح تمہارے اندر نبوت وغیرہ رہی ہے یہ کسی اور کو بھی مل سکتی ہے اور اس طرح یہودیت کے سوا کوئی اور دین بھی حق ہوسکتا ہے۔ آل عمران
74 ٧٤۔ ١ اس آیت کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک یہ یہود کے بڑے بڑے علماء جب اپنے شاگردوں کو یہ سکھاتے کہ دن چڑھتے ایمان لاؤ اور دن اترتے کفر کرو تاکہ جو لوگ فی الواقع مسلمان ہیں وہ بھی متذبذب ہو کر مرتد ہوجائیں تو ان شاگردوں کو مزید یہ تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہرا مسلمان ہونا حقیقتاً اور واقعتًا مسلمان نہ ہوجانا بلکہ یہودی ہی رہنا اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین جیسی وحی وشریعت اور جیسا علم وفضل تمہیں دیا گیا ہے ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جاسکتا ہے یا تمہارے بجائے کوئی اور حق پر ہے جو تمہارے خلاف اللہ کے نزدیک حجت قائم کرسکتا ہے اور تمہیں غلط ٹھہرا سکتا ہے اس معنی کی رو سے جملہ معترضہ کو چھوڑ کر عند ربکم تک کل یہود کا قول ہوگا دوسرے معنی یہ ہیں کہ اے یہودیو! تم حق کو دبانے اور مٹانے کی یہ ساری حرکتیں اور سازشیں اس لیے کر رہے ہو کہ ایک تمہیں اس بات کا غم اور جلن ہے کہ جیسا علم وفضل وحی وشریعت اور دین تمہیں دیا گیا تھا اب ویسا ہی علم وفضل اور دین کسی اور کو کیوں دے دیا گیا۔ دوسرا تمہیں یہ اندیشہ اور خطرہ بھی ہے کہ اگر حق کی یہ دعوت پنپ گئی اور اس نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں تو نہ صرف یہ کہ تمہیں دنیا میں جو جاہ و وقار حاصل ہے وہ جاتا رہے گا بلکہ تم نے جو حق چھپا رکھا ہے اس کا پردہ بھی فاش ہوجائے گا اور اس بنا پر یہ لوگ اللہ کے نزدیک بھی تمہارے خلاف حجت قائم کر بیٹھیں گے۔ حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دین وشریعت اللہ کا فضل ہے اور یہ کسی کی میراث نہیں بلکہ وہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اسے معلوم ہے کہ یہ فضل کس کو دینا چاہیے۔ آل عمران
75 ٧٥۔ ١ (ان پڑھ۔ جاہل) سے مراد مشرکین عرب ہیں یہود کے بددیانت لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ چونکہ مشرک ہیں اس لئے ان کا مال ہڑپ کرلینا جائز ہے اس میں کوئی گناہ نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح کسی کا مال ہڑپ کر جانے کی اجازت دے سکتا ہے اور بعض تفسیری روایات میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہ سن کر فرمایا کہ ' اللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا زمانہ جاہلیت کی تمام چیزیں میرے قدموں تلے ہیں سوائے امانت کے کہ وہ ہر صورت میں ادا کی جائے گی چاہے وہ کسی نیکوکار کی ہو یا بدکار کی۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) افسوس ہے کہ یہود کی طرح آج بعض مسلمان بھی مشرکین کا مال ہڑپ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ دارالحرب کا سود ناجائز ہے اور حربی کے مال کے لیے کوئی عصمت نہیں۔ آل عمران
76 ٧٦۔ ١ قرار پورا کرے کا مطلب وہ عہد پورا کرے جو اہل کتاب سے یا ہر نبی کے واسطے سے ان کی امتوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا ہے اور پرہیزگاری کرے یعنی اللہ تعالیٰ کے محارم سے بچے اور ان باتوں پر عمل کرے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائیں۔ ایسے لوگ یقینا مواخذہ الٰہی سے نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ محبوب باری تعالیٰ ہونگے۔ آل عمران
77 ٧٧۔ ١ مذکورہ افراد کے برعکس دوسرے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ دو طرح کے لوگ شامل ہیں ایک تو وہ جو عہد الٰہی اور اپنی قسموں کو پس پشت ڈال کر تھوڑے سے دینی مفادات کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے دوسرے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سودا بیچتے ہیں یا کسی کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ مثلاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا نیز فرمایا تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا ان میں ایک وہ شخص ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعے سے اپنا سودا بیچتا ہے۔ متعدد احادیث میں یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ (ابن کثیرو فتح القدیر) آل عمران
78 ٧٨۔ ١ یہ یہود کے ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے کتاب الٰہی (تورات) میں نہ صرف بددیانتی و تبدیلی کی بلکہ دو جرم بھی کئے ایک تو زبان کو مروڑ کر کتاب کے الفاظ پڑھتے جس سے عوام کو خلاف واقعہ تاثر دینے میں وہ کامیاب رہتے دوسرا وہ اپنی خود ساختہ باتوں میں عند اللہ باور کراتے بد قسمتی امت محمدیہ کے مذہبی پیشواؤں میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشن گوئی (تم اپنے سے پہلی امتوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے) کے مطابق بکثرت ایسے لوگ ہیں جو دینوی اغراض یا جماعتی تعصب یا فقہی جمود کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں پڑھتے قرآن کی آیت ہیں اور مسئلہ اپناخود ساختہ بیان کرتے ہیں عوام سمجھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے مسئلہ قرآن سے بیان کیا ہے حالانکہ اس مسئلے کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا پھر آیات میں معنوی تبدیلی و طمع سازی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ باور یہی کرایا جائے کہ یہ من عند اللہ ہے۔ آل عمران
79 ٧٩۔ ١ یہ عیسائیوں کے ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا بنایا ہوا ہے حالانکہ وہ ایک انسان تھے جنہیں کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ایسا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے پجاری اور بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو یہی کہتا ہے کہ رب والے بن جاؤ رَبَّانِیُّ رب کی طرف منسوب ہے، الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے لئے ہے۔ (فتح القدیر) ٧٩۔ ٢ یعنی کتاب اللہ کی تعلیم و تدریس کے نتیجے میں رب کی شناخت اور رب سے خصوصی ربط و تعلق قائم ہونا چاہئے، اسی طرح کتاب اللہ کا علم رکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو بھی قرآن کی تعلیم دے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیں، تو کسی اور کو یہ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر) آل عمران
80 ٨٠۔ ١ یعنی نبیوں اور فرشتوں (یا کسی اور کو) رب والی صفات کا حامل باور کرانا یہ کفر ہے۔ تمہارے مسلمان ہوجانے کے بعد ایک نبی یہ کام بھلا کس طرح کرسکتا ہے؟ کیونکہ نبی کا کام تو ایمان کی دعوت دینا ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا نام ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ کی پناہ اس بات سے ہے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں اللہ نے مجھے نہ اس لئے بھیجا ہے نہ اس کا حکم ہی دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ سیرۃ ابن ہشام) آل عمران
81 ٨١۔ ١ یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے بعض مفسرین نے اس کا یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کر کے ان پر ایمان لانا ہوگا لیکن یہ واقعہ ہے پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ (مسند احمد بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔ آل عمران
82 ٨٢۔ ١ یہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور دیگر اہل مذہب کو تنبہہ ہے کہ بعثت محمدی کے بعد بھی ان پر ایمان لانے کے بجائے اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنا اس عہد کے خلاف ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے واسطے سے ہر امت سے لیا اور اس عہد سے انحراف کفر ہے۔ فسق یہاں کفر کے معنی میں ہے کیونکہ نبوت محمدی سے انکار صرف فسق نہیں سراسر کفر ہے۔ آل عمران
83 ٨٣۔ ١ جب آسمان اور زمین کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے باہر نہیں چاہے خوشی سے چاہے ناخوشی سے۔ تو پھر تم اس کے سامنے قبول اسلام سے کیوں گریز کرتے ہو؟ اگلی آیت میں ایمان لانے کا طریقہ بتلا کر (کہ ہر نبی اور ہر مُنَزل کتاب پر بغیر تفریق کے ایمان لانا ضروری ہے) پھر کہا جا رہا ہے کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں ہوگا کسی اور دین کے پیروکاروں کے حصے میں سوائے کھانے کے اور کچھ نہیں آئے گا۔ آل عمران
84 ٨٤۔ ١ یعنی تمام سچے نبیوں پر ایمان لانا کہ وہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کی طرف سے مبعوث تھے نیز ان پر جو الہامی کتابیں نازل ہوئیں ان کی بابت بھی عقیدہ رکھنا کہ وہ آسمانی کتابیں تھیں اور واقعۃً اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں ضروری ہے۔ گو اب عمل صرف قرآن کریم پر ہی ہوگا کیونکہ قرآن نے پچھلی کتابوں کو منسوخ کردیا۔ آل عمران
85 آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 ٨٩۔ ١ انصار میں سے ایک مسلمان مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا لیکن جلدی ہی اسے ندامت ہوئی اور اس نے لوگوں کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پیغام بھجوایا کہ میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں ان آیات سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا اگرچہ بہت سخت ہے کیونکہ اس نے حق پہچاننے کے بعد بغض اور عناد اور سرکشی سے حق سے انکار کیا تاہم اگر کوئی خلوص دل سے توبہ اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے اس کی توبہ قابل قبول ہے۔ آل عمران
90 ٩٠۔ ١ اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر انتقال ہو۔ ٩٠۔ ٢ اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کو بیان فرمایا ہے۔ (وہو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ۔) "الشوری۔ ٢٥"کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے اس لیے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے (وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ ۚ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْــٰٔنَ) 004:018 ان کی توبہ قبول نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ۔ حدیث میں بھی ہے ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ مسند احمد، ترمذی۔ بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔ آل عمران
91 ١۔ ١٩ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا"ہاں" اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا مگر تو شرک سے باز نہیں آیا (مسند احمد وھکذا اخرجہ البخاری ومسلم۔ ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے اس نے اگر دنیا میں کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے تو کفر کی وجہ سے وہ بھی ضائع ہی جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عبد اللہ بن جدعان کی بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا کیا یہ اعمال سے نفع دیں گے؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"نہیں" کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان) اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ اور اگر بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں اور انہیں دے کر عذاب سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا (وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ) 002:123 اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ دے گی۔ (لابیع فیہ ولا خلال) اس دن میں کوئی خرید وفروخت ہوگی نہ کوئی دوستی کام آئے گی۔ آل عمران
92 ٩٢۔ ١ بر (نیکی بھلائی) سے مراد عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) جو مدینہ کے اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیرحا کا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو ' چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کردیا، اچھی چیز صدقہ کی جائے، یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔ اس قسم کی چیزوں کا صدقہ کرنا بھی یقینا جائز اور باعث اجر ہے گو کمال و افضلیت محبوب چیز کے خرچ کرنے میں ہے۔ ٩٢۔ ٢ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔ آل عمران
93 ٩٣۔ ١ یہ اور ما بعد دو آیتیں یہود کے اس اعتراض پر نازل ہوئیں کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اونٹ کا گوشت بھی کھاتے ہیں جب کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ دین ابراہیمی میں حرام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہود کا دعوی غلط ہے حضرت ابراہیم کے دین میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں۔ ہاں البتہ بعض چیزیں اسرائیل (حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں اور وہ یہی اونٹ کا گوشت اور دودھ تھا (اس کی ایک وجہ نذر یا بیماری تھی اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا یہ فعل بھی نزول تورات سے پہلے کا ہے۔ اس لیے کہ تورات تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ پھر تم کس طرح مزکورہ دعویٰ کرسکتے ہو؟ علاوہ ازیں تورات میں بعض چیزیں تم (یہودیوں) پر تمہارے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ (سورۃ الانعام ٤٦۔ النساء۔ ١٦٠) اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو تورات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں اور تم پر بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں تو اس کی وجہ تمہاری ظلم و زیادتی تھی یعنی ان کی حرمت بطور سزا تھی۔ (ایسرالتفاسیر) آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 ٩٦۔ ا یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا ؟ اس کے جواب میں اور اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر جو اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ آل عمران
97 ٩٧۔ ١ اس میں قتال، خون ریزی، شکار حتٰی کہ درخت تک کاٹنا ممنوع ہے۔ ٩٧۔ ٢ راہ پا سکتے ہوں کا مطلب زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہوجائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پر امن ہو اور جان و مال محفوظ رہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت اور تندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو نیز عورت کے لئے محرم بھی ضروری ہے۔ یہ آیت ہر صاحب استطاعت کے لئے وجوب حج کی دلیل ہے اور احادیث سے امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ ٩٧۔ ٣ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے کفر سے تعبیر کیا ہے جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ احادیث میں بھی ایسے شخص کے لئے وعید آئی ہے۔ آل عمران
98 آل عمران
99 ٩٩۔ ١ یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔ آل عمران
100 ١٠٠۔ ١ یہودیوں کے مکرو فریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جانا۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اسطرح بیان کیا گیا ہے۔ کہ انصار کے دو قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا پہلے یہ ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے اب اسلام کی برکت سے باہم شیرو شکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان ہوئی تھی انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جذبات بھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کے ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ ان کا باہم قتال بھی شروع ہوجائے کہ اتنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہیں وہ بھی نازل ہوئیں (ابن کثیر) آل عمران
101 ١٠١۔ ١ اعتصام باللہ۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لینا اور اس کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرنا۔ آل عمران
102 ١٠٢۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے احکام و فرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ کرام پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرما دی اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو جس طرح اپنی طاقت سے ڈرنے کا حق ہے (فتح القدیر) آل عمران
103 ١٠٣۔ ١ تقوٰی کے بعد سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دے کر واضح کردیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہیں پر قائم ہوسکتا اور رہ سکتا ہے۔ ١٠٣۔ ٢ 'ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو ' کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑجائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہوگیا۔ آل عمران
104 آل عمران
105 ١٠٥۔ ١ روشن دلیلیں آ جانے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہم اختلاف و تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا اور وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں سب کچھ جانتے ہوئے محض دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لئے اختلاف و تفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں۔ لیکن وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور اپنی عقل و ذہانت کا سارا جوہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل اور تحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔ آل عمران
106 ١٠٦۔ ١ حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے اہل سنت والجماعت اور اہل بدعت وافتراق مراد لئے ہیں (ابن کثیر و فتح القدیر) جس سے معلوم ہوا اسلام وہی ہے جس پر اہل سنت والجماعت عمل پیرا ہیں اور اہل بدعت و اہل افتراق اس نعمت اسلام سے محروم ہیں جو ذریعہ نجات ہے۔ آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 ١١٠۔ ١ اس آیت میں امت مسلمہ کو ' خیر امت ' قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کردی گئی ہے جو امر بالمعروف نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو خیر امت ہے بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اسی نکتے کی وضاحت مقصود و معلوم ہوتی ہے کہ جو امر بالمعروف و نہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے۔ امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اکثر علماء کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے۔ یعنی علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فرض کو ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف اور منکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں ان کے فریضہ تبلیغ و دعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد کی طرف سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہوجائے گی۔ ١١٠۔ ٢ جیسے عبد اللہ بن سلام (رض) وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لئے مِنْہمْ میں مِنْ، تَبْعِیْضُ کے لئے ہے۔ آل عمران
111 ١١١۔ ١ اس سے مراد زبانی بہتان تراشی ہے جس سے دل کو وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے تاہم میدان حرب و ضرب میں یہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا، مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا پھر خیبر فتح ہوگیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے شکست سے دو چار ہونا پڑا تاآنکہ حروب صلیبیہ میں عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر بھی قابض ہوگئے مگر اسے صلاح الدین ایوبی نے ٩٠ سال کے بعد واگزار کرا لیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کے نتیجہ میں یہود و نصاریٰ کی مشترکہ سازشوں اور کوششوں سے بیت المقدس پھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ تاہم ایک وقت آئے گا کہ یہ صورت حال تبدیل ہوجائے گی بالخصوص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد عیسائیت کا خاتمہ اور اسلام کا غلبہ یقینی ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (ابن کثیر) آل عمران
112 ١١٢۔ ١ یہودیوں پر جو ذلت و مسکنت، غضب الٰہی کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے، اس سے وقتی طور پر بچاؤ کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں۔ یعنی اسلام قبول کرلیں یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا قبول کرلیں، دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کی پناہ ان کو حاصل ہو ١١٢۔ ٢ یہ ان کے کرتوت ہیں جنکی پادش میں ان پر ذلت مسلط کی گئی ہے۔ آل عمران
113 آل عمران
114 آل عمران
115 ١١٥۔ ١ یعنی سارے اہل کتاب ایسے نہیں جن کی مذمت پچھلی آیات میں بیان کی گئی ہے، بلکہ ان میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے شرف اسلام سے نوازا اور ان میں اہل ایمان و تقویٰ والی خوبیاں پائی جاتی ہیں، (رض) ورضو عنہ۔ قائمۃ کے معنی ہیں، شریعت کی اطاعت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرنے والی، یسجدون کا مطلب رات کو قیام کرتے یعنی تہجد پڑھتے اور نمازوں میں تلاوت کرتے ہیں۔ اس مقام پر امر بالمعروف کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے سے روکتے ہیں۔ اسی گروہ کا ذکر آگے بھی کیا گیا ہے (وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ باللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ) 003:199 آل عمران
116 آل عمران
117 ١١٧۔ ١ قیامت والے دن کافروں کے نہ مال کچھ کام آئیں گے نہ اولاد، حتیٰ کے رفاہی اور بظاہر بھلائی کے کاموں پر جو بھی خرچ کرتے ہیں وہ بیکار جائیں گے اور ان کی مثال اس سخت پالے کی سی ہے جو ہری بھری کھیتی کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے ظالم اسی کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے اور اس سے نفع کی امید رکھے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا جب تک ایمان نہیں ہوگا، رفاہی کاموں پر رقم خرچ کرنے والوں کی چاہے دنیا میں کتنی ہی شہرت ہوجائے آخرت میں انہیں ان کا کوئی صلہ نہیں ملے گا، وہاں تو ان کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ آل عمران
118 ١١٨۔ ١ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یہاں اس کی اہمیت کے پیش نظر پھر دہرایا جا رہا ہے۔ بطانتہ، دلی دوست اور رازدار کو کہا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات و عزائم رکھتے ہیں، ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنہیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشاندہی فرما دی ہے یہ اور اس قسم کی دیگر آیات کے پیش نظر ہی علماء و فقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ نے ایک (غیر مسلم) کو کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا، حضرت عمر رضی اللہ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ ' تم انہیں اپنے قریب نہ کرو جب کہ اللہ نے انہیں دور کردیا ہے ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کردیا ہے اور انہیں راز دار مت بناؤ جب کہ اللہ نے انہیں بد دیانت قرار دیا ہے ـ' حضرت عمر رضی اللہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں اس زمانے میں اہل کتاب کو سیکرٹری اور امین بنانے کی وجہ سے احوال بدل گئے ہیں اور اس وجہ سے غبی لوگ سردار اور امرا بن گئے (تفسیر قرطبی)۔ بد قسمتی سے آج کے اسلامی ممالک میں بھی قرآن کریم کے اس نہایت اہم حکم کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے اور اس کے برعکس غیر مسلم بڑے بڑے اہم عہدوں اور کلیدی مناصب پر فائز ہیں جن کے نقصانات واضح ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اپنی داخلی اور خارجی دونوں پالیسیوں میں اس حکم کی رعایت کریں تو یقینا بہت سے مفاسد اور نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ١١٨۔ ٢ لایألون، کوتاہی اور کمی نہیں کریں گے خبالا کے معنی فساد اور ہلاکت کے ہیں ماعنتم (جس سے تم مشقت اور تکلیف میں پڑو) عنت بمعنی مَشَقَّۃ آل عمران
119 ١١٩۔ ١ تم ان منافقین کی نماز اور ایمان کیوجہ سے ان کی بابت دھوکے کا شکار ہوجاتے ہو اور ان سے محبت رکھتے ہو۔ ١١٩۔ ٢ یہ ان کے غیظ و غضب کی شدت کا بیان ہے جیسا کہ اگلی آیت میں بھی ان کی اسی کیفیت کا اظہار ہے۔ آل عمران
120 ١٢٠۔ ١ اس میں منافقین کی شدید عداوت کا ذکر ہے جو انہیں مومنوں کے ساتھ تھی اور وہ یہ کہ جب مسلمانوں کو خوش حالی میسر آتی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو تائید و نصرت ملتی اور مسلمانوں کی تعداد و قوت میں اضافہ ہوتا تو منافقین کو بہت برا لگتا اور اگر مسلمان قحط سالی یا تنگدستی میں مبتلا ہوتے یا اللہ کی مشیت و مصلحت سے دشمن وقتی طور پر مسلمانوں پر غالب آجاتے (جیسے جنگ احد میں ہوا) تو بڑے خوش ہوتے۔ مقصد بتلانے سے یہ ہے جن لوگوں کا یہ حال ہو، کیا وہ اس لائق ہو سکتے ہیں کہ مسلمان ان سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور انہیں اپنا راز دار اور دوست بنائیں؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے بھی دوستی رکھنے سے منع فرمایا (جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر ہے)۔ اس لیے کہ وہ بھی مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھتے ان کی کامیابیوں سے ناخوش اور ان کی ناکامیوں سے خوش ہوتے ہیں۔ ١٢٠۔ ٢ یہ ان کے مکر و فریب سے بچنے کا طریقہ اور علاج ہے۔ گویا منافقین اور دیگر دشمنان اسلام و مسلمین کی سازشوں سے بچنے کے لئے صبر اور تقویٰ نہایت ضروری ہے۔ اس صبر اور تقویٰ کے فقدان نے غیر مسلموں کی سازشوں کو کامیاب بنا رکھا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کافروں کی یہ کامیابی مادی اسباب اور وسائل کی فروانی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی اور زوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ اپنے دین پر استقامت (صبر کے دامن) سے محروم اور تقوے سے عاری ہوگئے جو مسلمانوں کی کامیابی کی کلید اور تائید الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ آل عمران
121 ١٢١۔ ١ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد جنگ احد کا واقعہ ہے جو شوال ٣ ہجری میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ جب جنگ بدر ٢ ہجری میں کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، ان کے سترّ آدمی مارے گئے اور ستّر قید ہوئے تو کفار کے لئے یہ بدنامی کا باعث اور مرنے کا مقام تھا، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیاری کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کی تعداد میں احد پہاڑ کے نزدیک خیمہ زن ہوگئے ہیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کا مشورہ دیا اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پر جوش صحابہ کرام نے جنہیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، مدینہ کے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر حجرے میں تشریف فرما تھے ہتھیار پہن کر باہر آئے، دوسری رائے والوں کو ندامت ہوئی کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا چنانچہ انہوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اگر اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہو اور لباس اتارے۔ چنانچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے مگر صبح دم جب مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی۔ خواہ مخواہ جان دینے کا کیا فائدہ؟ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا (ابن کثیر) آل عمران
122 ١٢٢۔ ١ یہ اوس اور خزرج کے دو قبیلے (بنو حارث اور بنو سلمہ) تھے ١٢٢۔ ٢ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کی کمزوری کو دور فرما کر ان کی ہمت باندھ دی۔ آل عمران
123 ١٢٣۔ ١ بہ اعتبار قلت تعداد اور قلت سامان کے، کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان ٣١٣ تھے اور یہ بھی بے سرو سامان۔ صرف دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے (ابن کثیر) آل عمران
124 آل عمران
125 ١٢٥۔ ١ مسلمان بدر کی جانب قافلہ قریش پر جو تقریبًا نہتا تھا چھاپہ مارنے نکلے تھے۔ مگر بدر پہنچتے پہنچتے معلوم ہوا کہ مکہ سے مشرکین کا ایک لشکر جرار غیظ و غضب اور جوش و خروش کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کی صف میں گھبراہٹ، تشویش اور جوش قتال کا ملا جلا اور عمل ہوا اور انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا و فریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار فرشتے اتارنے کی بشارت دی اور مزید وعدہ کیا کہ اگر تم صبرو تقویٰ پر قائم رہے اور مشرکین کا جوش وخروش و غضب برقرار نہ رہ سکا۔ (بدر پہنچنے سے پہلے ہی ان میں پھوٹ پڑگئی۔ ایک گروہ مکہ پلٹ گیا اور باقی جو بدر میں آئے ان میں سے اکثر سرداروں کی رائے تھی کہ لڑائی نہ کی جائے) اس لیے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہ آسکی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تعداد پوری کی گئی۔ ١٢٥۔ ٢ یعنی پہچان کے لئے ان کی مخصوص علامت ہوگی۔ آل عمران
126 آل عمران
127 ١٢٧۔ ١ یہ اللہ غالب و کار فرما کی مدد کا نتیجہ بتلایا جا رہا ہے سورۃ انفال میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بتلائی گئی ہے، "اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملٰئکۃ" جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سنتے ہوئے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرونگا۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے واقعتًا تو ایک ہزار ہی نازل ہوئے اور مسلمانوں کے حوصلے اور تسلی کے لئے تین ہزار کا اور پھر پانچ ہزار کا مزید مشروط وعدہ کیا گیا۔ پھر حسب حالات مسلمانوں کی تسلی کے نقطہ نظر سے بھی ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس لئے بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین ہزار پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا کیونکہ مقصد تو مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنا تھا، ورنہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور اللہ اپنی مدد کے لیے فرشتوں کا یا کسی اور کا محتاج ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، کفر کی طاقت کمزور ہوئی اور کافروں کا گھمنڈ خاک میں مل گیا۔ (ایسرالتفاسیر) آل عمران
128 ١٢٨۔ ١ یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہی ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے اور چہرا مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کردیا ' گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی ہدایت سے ناآمیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض کفار کے لئے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لئے بد دعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بد دعا کا سلسلہ بند فرما دیا (ابن کثیر فتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئیے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختار کل قرار دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی راستے کی طرف بلانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ١٢٨۔ ٢ یہ قبیلے جن کے لئے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہوگئے۔ جن سے معلوم ہوا مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ آل عمران
129 آل عمران
130 ١٣٠۔ ١ چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لا لچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کی تاکید کی جا رہی ہے اور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ کا یہ مطلب نہیں کہ بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب مطلقًا حرام ہے جیسے کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل تمہیں کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ و رسول سے محاربہ ہے۔ آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 ١٣٣۔ ١ مال و دولت دنیا کے پیچھے لگ کر آخرت تباہ کرنے کی بجائے، اللہ اور رسول کی اطاعت اور اللہ کی مغفرت اور اس کی جنت کا راستہ اختیار کرو۔ جو متقین کے لئے اللہ نے تیار کیا ہے۔ چنانچہ آگے متقین کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ آل عمران
134 ١٣٤۔ ١ محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہی کہ ہر حال اور ہر موقع پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ١٣٤۔ ٢ یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کردیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔ آل عمران
135 ١٣٥۔ ١ یعنی جب ان سے بتقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو فوراً توبہ استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔ آل عمران
136 آل عمران
137 ١٣٧۔ ١ جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا جس میں ٥٠ تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبد اللہ بن جبیر (رض) کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کردی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا لیکن مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مال اسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہوگیا کچھ کہنے لگے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا لیکن جب یہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال و اسباب جمع کرنا شروع کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق وہاں صرف دس آدمی رہ گئے جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور اچانک حملہ کردیا جس میں مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی۔ جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی و بربادی اللہ و رسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر ہے۔ آل عمران
138 آل عمران
139 ١٣٩۔ ١ گذشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ اگر تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب اور کامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی ایک بنیاد واضح کردی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے۔ آل عمران
140 ١٤٠۔ ١ ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے تو کیا ہوا ؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتداء میں اسی طرح زخمی ہوچکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح و شکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کردیتا ہے۔ آل عمران
141 ١٤١۔ ١ احد میں مسلمانوں کو جو عارضی شکست ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوئی اس میں بھی مستقبل کے لئے کئی حکمتیں پنہاں ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ آگے بیان فرما رہا ہے۔ ایک یہ کہ ایمان والوں کو ظاہر کر دے (کیونکہ صبر اور استقامت ایمان کا تقاضا ہے) جنگ کی شدتوں اور مصیبتوں میں جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، یقینا وہ سب مومن ہیں۔ دوسری یہ کہ کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کر دے۔ آخری دونوں کا مطلب گناہوں سے پاکی اور خلاصی ہے (فتح الْقدیر) مرحوم مترجم نے پہلے معنی کو اختیار کیا ہے چوتھی، یہ کہ کافروں کو ہٹا دے۔ وہ اس طرح کہ وقتی فتح یابی سے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگا اور یہی چیز ان کی تباہی و ہلاکت کا سبب بنے گی۔ آل عمران
142 ١٤٢۔ ١ بغیر قتال کی آزمائش کے تم جنت میں چلے جاؤ گے؟ نہیں! بلکہ جنت ان لوگوں کو ملے گی جو آزمائش میں پورا اتریں گے، ابھی تم پر وہ حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھی، انہیں تنگ دستی اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ خوب بلائے گئے مذید فرمایا، کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔ ١٤٢۔ ٢ یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے، یہاں موقع کی مناسبت سے پھر بیان کیا جا رہا ہے کہ جنت یوں ہی نہیں مل جائے گی اس کے لئے پہلے تمہیں آزمائش کی بھٹی سے گزارا اور میدان جہاد میں آزمایا جائے گا وہاں نرغہ اعداء میں تم سرفروشی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہو یا نہیں؟۔ آل عمران
143 ١٤٣۔ ١ یہ اشارہ ان صحابہ کی طرف ہے جو جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ایک احساس محرومی رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ میدان کارزار گرم ہو تو کافروں کی سرکوبی کر کے جہاد کی فضیلت حاصل کریں۔ انہی صحابہ نے جنگ احد میں جوش و جہاد سے کام لیتے ہوئے مدینہ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا لیکن جب مسلمانوں کی فتح کافروں کے اچانک حملے سے شکست میں تبدیل ہوگئی (جس کی تفصیل پہلے گزر چکی) تو یہ پرجوش مجاھدین بھی سراسیمگی کا شکار ہوگئے اور بعض نے راہ فرار اختیار کی۔ (جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی) اور بہت تھوڑے لوگ ہی ثابت قدم رہے (فتح القدیر)۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے ' تم دشمن سے مڈھ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت طلب کیا کرو ' اور یہ بات جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے (بحوالہ ابن کثیر) ١٤٣۔ ٢ رایتموہ اور تنظرون۔ دونوں کے ایک ہی معنی یعنی دیکھنے کے ہیں۔ تاکید اور مبالغے کے لیے دو لفظ لائے گئے ہیں۔ یعنی تلواروں کی چمک، نیزوں کی تیزی، تیروں کی یلغار اور جاں بازوں کی صف آرائی میں تم نے موت کا خوب مشاہدہ کرلیا۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) آل عمران
144 ١٤٤۔ ١ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف رسول ہی ہیں ' یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دو چار نہ ہونا پڑے ١٤٤۔ ٢ جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے۔ مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہوجانا یا ان پر موت کا وارد ہوجانا، کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی قتل اور موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (بالفرض) اس سے دو چار ہوجائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو پھرجائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر (رض) شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے، حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی جس سے حضرت عمر (رض) بھی متاثر ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔ ١٤٤۔ ٣ یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کر کے اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کیا۔ آل عمران
145 ١٤٥۔ ١ یہ کمزوری اور بذدلی مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی، پھر بھاگنے یا بذدلی دکھانے کا کیا فائدہ؟ اسی طرح محض دنیا طلب کرنے سے کچھ دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، اس کے برعکس آخرت کے طالبوں کو آخرت میں اخروی نعمتیں تو ملیں ہی گی، دنیا بھی اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ آگے مذید حوصلہ افزائی اور تسلی کے لئے پچھلے انبیاء علیہم السلام اور ان کے پیروں کاروں کے صبر اور ثابت قدمی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ آل عمران
146 ١٤٦۔ ١ یعنی ان کو جو جنگ کی شدتوں میں پست ہمت نہیں ہوتے اور ضعف اور کمزوری نہیں دکھاتے۔ آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 آل عمران
150 ١٥٠۔ ١ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے کیونکہ احد کی شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کفار یا منافقین مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ تم اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ کافروں کی اطاعت ہلاکت و خسران کا باعث ہے۔ کامیابی اللہ کی اطاعت میں ہی ہے اور اس سے بہتر کوئی مددگار نہیں۔ آل عمران
151 ١٥١۔ ١ مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے بڑا اچھا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا پھر انہیں اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر)۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ "نصرت بالرعب مسیرۃ شھر "دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے۔"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کی بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔ آل عمران
152 ١٥٢۔ ١ اس وعدے پر بعض مفسرین نے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے۔ لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکور ہے تو اس سے مراد فتح و نصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا حتٰی کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہوچکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب و فاتح رہے جس کی طرف (اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ) 003:152 سے اشارہ کیا گیا ہے۔ ١٥٢۔ ٢ اس تنازع اور عصیان سے مراد ٥٠ تیر اندازوں کا وہ اختلاف ہے جو فتح و غلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔ ١٥٢۔ ٣ اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی۔ ١٥٢۔ ٤ یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔ ١٥٢۔ ٥ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ ١٥٢۔ ٦ یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ ١٥٢۔ ٧ اس میں صحابہ کرام (رض) کے اس شرف اور فضل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کر کے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کردیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقع پر ایک شخص نے حضرت عثمان (رض) پر بعض اعتراضات کیے کہ وہ جنگ بدر میں بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے۔ نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو انکی اہلیہ (بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرمادیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوہ احد) آل عمران
153 ١٥٣۔ ١ کفار کے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اور مسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی یہ اس کا نقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ ١٥٣۔ ٢ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے، اللہ کے بندو! میرے طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کے آؤ۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا۔ ١٥٣۔ ٣ فَاَثاَبَکُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا، غما بغم بمعنی غما علی غم ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد، مال غنیمت اور کفار پر فتح و ظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔ ١٥٣۔ ٤ یعنی یہ غم پہ غم اس لئے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم و حوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔ آل عمران
154 ١٥٤۔ ١ مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کردی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا پھر گر جاتی (صحیح بخاری) نعاسا امنۃ سے بدل ہے۔ طائفہ واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے (فتح القدیر) ١٥٤۔ ٢ اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو اپنی جانوں کی فکر تھی۔ ١٥٤۔ ٣ وہ یہ تھیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ ١٥٤۔ ٤ یعنی کیا اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح و نصرت کا امکان ہے؟ یا یہ کہ ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جاسکتی ہے۔ ١٥٤۔ ٥ تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدد بھی اسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اسی کے حکم سے ہوگی اور امر و نہی بھی اسی کا ہے۔ ١٥٤۔ ٦ اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں، ظاہر یہ کرتے ہیں، کہ رہنمائی کے طالب ہیں۔ ١٥٤۔ ٧ یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔ ١٥٤۔ ٨ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھ دی گئی۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضرور وہاں کھینچ لے جاتی۔ ١٥٤۔ ٩ یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہوجائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔ ١٥٤۔ ١٠ یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اور نفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں، جنہیں عام لوگ دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔ آل عمران
155 ١٥٥۔ ١ یعنی احد میں مسلمانوں سے جو لغزش اور کوتاہی ہوئی اس کی وجہ ان کی پچھلی کمزوریاں تھیں جس کی وجہ سے شیطان بھی انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس طرح بعض سلف کا قول ہے کہ "نیکی کا بدلہ یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مذید نیکی کی تو فیق ملتی ہے اور برائی کا بدلہ یہ ہے کہ اس بعد مذید برائی کا راستہ کھلتا اور ہموار ہوتا ہے۔ ١٥٥۔ ٢ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کی لغزشوں، ان کے نتائج اور حکمتوں کے بیان کے بعد پھر بھی اپنی طرف سے ان کی معافی کا اعلان فرما رہا ہے۔ جس سے ایک تو ان کا محبوب بارگاہ الٰہی میں ہونا واضح ہے اور دوسرے، عام مومنین کو تنبیہ ہے کہ ان کے مومنین صادقین کو جب اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا تو اب کسی کے لئے جائز نہیں کہ ہدف ملامت یا نشانہ تنقید بنائے۔ آل عمران
156 ١٥٦۔ ١ اہل ایمان کو اس فساد عقیدہ سے روکا جا رہا ہے جس کے حامل کفار اور منافقین تھے کیونکہ یہ عقیدہ بذدلی کی بنیاد ہے اس کے برعکس جب یہ عقیدہ ہو کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ نیز یہ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو اس سے انسان کے اندر عزم اور حوصلہ اور اللہ کی راہ میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ١٥٦۔ ٢ مذکورہ فساد عقیدہ دلی حسرت کا ہی سبب بنتا ہے کہ اگر وہ سفر میں یا میدان جنگ میں نہ جاتے بلکہ گھر میں ہی رہتے تو موت کی آغوش میں جانے سے بچ جاتے۔ درآنحالیکہ موت تو مضبوط قلعوں کے اندر بھی آجاتی ہے۔ اس لئے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتے ہیں جن کے عقیدے صحیح ہیں۔ آل عمران
157 ١٥٧۔ ١ موت تو ہر صورت آنی ہے لیکن اگر موت ایسی آئے کہ جس کے بعد انسان اللہ کی مغفرت و رحمت کا مستحق قرار پائے تو یہ دنیا کے مال اسباب سے بہت بہتر ہے جس کے جمع کرنے میں انسان عمر کھپا دیتا ہے اس لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے گریز نہیں، اس میں رغبت اور شوق ہونا چاہیے کہ اس طرح رحمت و مغفرت الٰہی یقینی ہوجاتی ہے بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ ہو۔ آل عمران
158 آل عمران
159 ١٥٩۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالیٰ اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی دعوت و تبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر یہ نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور بھاگتے۔ اس لئے آپ درگزر سے ہی کام لیتے رہئیے۔ ١٥٩۔ ٢ یعنی مسلمانوں کی طیب خاطر کے لئے مشورہ کرلیا کریں۔ اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت و مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ مشاورت کا یہ حکم بعض کے نزدیک وجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے (ابن کثیر) امام شوکانی لکھتے ہیں ' حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علماء سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ یا ان کے بارے میں انہیں اشکال ہیں۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربرآوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام و والیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات و ترجیحات کے سلسلے میں مشورہ کریں "۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ایسے حکمران کے وجوب عزل پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو اہل علم و اہل دین سے مشورہ نہیں کرتا"۔ یہ مشورہ صرف ان معاملات تک محدود ہوگا جن کی بابت شریعت خاموش ہے یا جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ (فتح القدیر) ١٥٩۔ ٣ یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہوجائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزریئے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران کا ہی ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد و توکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل و فہم پر۔ اگلی آیت میں بھی توکل علی اللہ کی مذید تاکید ہے۔ آل عمران
160 آل عمران
161 ١٦١۔ ١ جنگ احد کے دوران جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال دوسرے لپیٹ کرلے جائیں گے اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے یہ تصور کیسے کرلیا کہ اس مال میں سے تمہارا حصہ تم کو نہیں دیا جائے گا کیا تمہیں قائد غزوہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت پر اطمینان نہیں۔ یاد رکھو کہ ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں کیونکہ خیانت، نبوت کے منافی ہے۔ اگر نبی ہی خائن ہو تو پھر اس کی نبوت پر یقین کیونکر کیا جاسکتا ہے؟ خیانت بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ آل عمران
162 آل عمران
163 آل عمران
164 ١٦٤۔ ١ نبی کے بشر اور انسانوں میں سے ہی ہونے کو اللہ تعالیٰ ایک احسان کے طور پر بیان کر رہا ہے اور فی الواقع یہ احسان عظیم ہے کہ اس طرح ایک تو وہ اپنی قوم کی زبان اور لہجے میں ہی اللہ کا پیغام پہنچائے گا جسے سمجھنا ہر شخص کے لئے آسان ہوگا دوسرے لوگ ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مانوس اور قریب ہونگے۔ تیسرے انسان کے لئے انسان یعنی بشر کی پیروی تو ممکن ہے لیکن فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں اور نہ فرشتہ انسان کے وجدان و شعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اس لئے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری خوبیوں سے محروم ہوتے جو تبلیغ و دعوت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے جتنے بھی انبیاء آئے ہیں سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰی) 012:109 ' ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ مرد تھے جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ) (025:020"ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے تھے"۔ اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ) (حٰم السجدۃ:6) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے میں بھی تو تمہاری طرح ٖصرف بشر ہی ہوں البتہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے "۔ آج بہت سے افراد اس چیز کو نہیں سمجھتے اور انحراف کا شکار ہیں۔ ١٦٤۔ ٢ اس آیت میں نبوت کے تین اہم مقاصد بیان کئے گئے ہیں ١۔ تلاوت ٢۔ تزکیہ ٣۔ تعلیم کتاب و حکمت تعلیم کتاب میں تلاوت از خود آجاتی ہے، تلاوت کی ساتھ ہی تعلیم ممکن ہے، تلاوت کے بغیر تعلیم کا تصور ہی نہیں، اس کے باوجود تلاوت کو الگ ایک مقصد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے اس نقطے کی وضاحت مقصود ہے کہ تلاوت بجائے خود ایک مقدس اور اور نیک عمل ہے، چاہے پڑھنے والا اس کا مفہوم سمجھے نہ سمجھے۔ قرآن کے معنی و مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرنا یقینا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو یا اتنی فہم استعداد بہم نہ پہنچ جائے، تلاوت قرآن سے اعراض یا غفلت جائز نہیں۔ تزکیے سے مراد عقائد اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہے۔ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں شرک سے ہٹا کر توحید پر لگایا اسی طرح نہایت بد اخلاق اور بد اطوار قوم کو اخلاق اور کردار کی رفعتوں سے ہمکنار کردیا، حکمت سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک حدیث ہے۔ ١٦٤۔ ٢ یہ ان مخففۃ من المثقلۃ ہے یعنی (انّ) (تحقیق، یقینا بلاشبہ) کے معنی ہیں۔ آل عمران
165 ١٦٥۔ ١ یعنی احد میں تمہارے ستّر آدمی شہید ہوئے تو بدر میں تم نے ستّر کافر قتل کئے تھے اور ستّر قیدی بنائے تھے۔ ١٦٥۔ ٢ یعنی تمہاری اس غلطی کی وجہ سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تاکیدی حکم کے باوجود پہاڑی مورچہ چھوڑ کر تم نے کی تھی۔ جیسا کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے کافروں کے ایک دستے کو اس درے سے دوبارہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ آل عمران
166 آل عمران
167 ١٦٧۔ ١ یعنی احد میں جو تمہیں نقصان پہنچا، وہ اللہ کے حکم سے ہی پہنچا (تاکہ آئندہ تم اطاعت رسول کا کماحقہ اہتمام کرو) علاوہ ازیں اس کا ایک مقصد مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنا بھی تھا۔ ١٦٧۔ ٢ لڑائی جاننے کا مطلب یہ ہے کہ واقع آپ لوگ لڑائی لڑنے چل رہے ہوتے تو ہم بھی ساتھ دیتے مگر آپ تو لڑائی کی بجائے اپنے آپ کو تباہی کے دہانے میں جھونکنے جا رہے ہو۔ ایسے غلط کام میں ہم کیوں آپ کا ساتھ دیں۔ یہ عبد اللہ بن ابی اور ان کے ساتھیوں نے اس لئے کہا کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تھی اور اس وقت کہا جب وہ مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے اور عبد اللہ بن حرام انصاری رضی اللہ انہیں سمجھا بجھا کر شریک جنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ (قدرے تفصیل گزرچکی ہے) ١٦٧۔ ٣ اپنے نفاق اور ان باتوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں۔ ١٦٧۔ ٤ یعنی زبان سے تو ظاہر کیا جو مذکور ہوا لیکن دل میں تھا کہ ہماری علٰیحدگی سے ایک تو مسلمانوں کے اندر بھی ضعف پیدا ہوگا۔ دوسرے کافروں کو فائدہ ہوگا۔ مقصد اسلام، مسلمانوں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانا تھا۔ آل عمران
168 ١٦٨۔ ١ یہ منافقین کا قول ہے ' اگر ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے ' اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت ٹال کر دکھاؤ ' مطلب یہ کہ تقدیر سے کسی کو مفر نہیں۔ موت بھی جہاں اور جیسے اور جس جگہ آنا ہے ہر صورت میں آکر رہے گی۔ اس لئے جہاد اور اللہ کی راہ میں لڑنے سے گریز و فرار یہ کسی کو موت کے شکنجے سے نہیں بچا سکتا۔ آل عمران
169 ١٦٩۔ ١ شہداء کی زندگی حقیقی ہے یا مجازی، یقینا حقیقی ہے لیکن اس کا شعور اہل دنیا کو نہیں، جیسا کہ قرآن نے وضاحت کردی ہے۔ ملاحظہ ہو (سورۃ بقرہ آیت نمبر ١٥٤) پھر اس زندگی کا مطلب کیا ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ قبروں میں ان کی روحیں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہاں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جنت کے پھلوں کی خوشبوئیں انہیں آتی ہیں جن سے ان کے مشام جان معطر رہتے ہیں۔ لیکن حدیث سے ایک تیسری شکل معلوم ہوتی ہے اس لئے وہی صحیح، وہ یہ کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کردی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں (فتح القدیر بحوالہ صحیح مسلم) آل عمران
170 ١٧٠۔ ١ یعنی وہ اہل اسلام جو ان کے پیچھے دنیا میں زندہ ہیں یا مصروف جہاد ہیں، ان کی بابت وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی شہادت سے ہمکنار ہو کر یہاں ہم جیسی پر لطف زندگی اختیار کریں۔ شہدائے احد نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو دنیا میں زندہ ہیں، انہیں ہمارے حالات اور پر مسرت زندگی سے کوئی مطلع کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری یہ بات ان تک پہنچا دیتا ہوں ' اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد) علاوہ ازیں متعدد احادیث سے شہادت کی فضیلت ثابت ہے۔ مثلا ایک حدیث میں فرمایا (مامن نفس تموت، لھا عند اللہ حیر، یسرہ ان ترجع الی الدنیا الا الشہید، فانہ یسرہ ان یرجع الی الدنیا فیقتل مرۃ اخریٰ لما یریٰ من فضل الشہادۃ) ( مسند احمد، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ) کوئی مرنے والی جان، جس کو اللہ کے ہاں اچھا مقام حاصل ہے دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرتی۔ البتہ شہید دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے یہ آرزو وہ اس لیے کرتا ہے کہ شہادت کی فضیلت کا وہ مشاہدہ کرلیتا ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تیرے باپ کو زندہ کیا اور اس سے کہا کہ مجھ سے اپنی کسی آرزو کا اظہار کر (تاکہ میں اسے پورا کر دوں) تیرے باپ نے جواب دیا کہ میری تو صرف یہی آرزو ہے کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ تو ممکن نہیں ہے اس لیے کہ میرا فیصلہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جاسکتا۔ آل عمران
171 ١٧١۔ ١ یہ استبشار پہلے استبشار کی تاکید اور اس بات کا بیان ہے کہ ان کی خوشی محض خوف و حزن کے فقدان کی ہی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے بے پایاں فضل و کرم کی وجہ سے بھی ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے پہلی خوشی کا تعلق دنیا میں رہ جانے والے بھائیوں کی وجہ سے اور یہ دوسری خوشی اس انعام و اکرام کی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے خود ان پر ہوا (فتح القدیر) آل عمران
172 ١٧٢۔ ١ جب مشرکین جنگ احد سے واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے تو ایک سنہری موقع ضائع کردیا۔ مسلمان شکست خوردنی کی وجہ سے خوف زدہ اور بے حوصلہ تھے ہمیں اس سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر بھرپور حملہ کردینا چاہیے تھا تاکہ اسلام کا یہ پودا اپنی سر زمین (مدینہ) سے ہی نیست و نابود ہوجاتا۔ ادھر مدینہ پہنچ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اندیشہ ہوا کہ شاید وہ پلٹ کر آئیں لہذا آپ نے صحابہ کرام کو لڑنے کے لئے آمادہ کیا اور صحابہ کرام تیار ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے ٨ میل واقع 'حمراء الاسد ' پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا چنانچہ ان کا ارادہ بدل گیا اور وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی بجائے مکہ واپس چلے گئے، اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء بھی مدینہ واپس آگئے۔ آیت میں مسلمانوں کے اسی جذبہ اطاعت اللہ و رسول کی تعریف کی گئی ہے۔ بعض نے اس کا سبب نزول حضرت ابو سفیان کی اس دھمکی کو بتلایا ہے کہ آئندہ سال بدر صغریٰ میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا۔ (ابوسفیان ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) جس پر مسلمانوں نے بھی اللہ و رسول کی اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاد میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کرلیا۔ (ملخص از فتح القدیر و ابن کثیر مگر یہ آخری قول سیاق سے میل نہیں کھاتا) آل عمران
173 ١٧٣۔ ١ کہا جاتا ہے کہ ابو سفیان نے بعض لوگوں کو معاوضہ دے کر یہ افواہ پھیلائی کہ مشرکین مکہ لڑائی کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں، لیکن مسلمان اس قسم کی افواہیں سن کر خوف زدہ ہونے کی بجائے مذید عزم اور ولولہ سے سرشار ہوگئے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جامد قسم کی چیز نہیں بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔ اسی لئے حدیث میں حسبُنا اللّٰہ و نَعْم الْوکِیْل پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔ نیز صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے (فتح القدیر)۔ آل عمران
174 ١٧٤۔ ١ نِعْمَۃ، سے مراد سلامتی ہے اور فضل سے مراد نفع ہے جو بدر صغریٰ تجارت کے ذریعے حاصل ہوا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر صغریٰ میں ایک گزرنے والے قافلے سے سامان تجارت خرید کر فروخت کیا جس سے نفع حاصل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں تقسیم کردیا (ابن کثیر) آل عمران
175 ١٧٥۔ ١ یعنی تمہیں اس وسوسے اور وہم میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ ١٧٥۔ ٢ یعنی جب وہ تمہیں اس وہم میں مبتلا کرے تو تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری ہی طرف رجوع کرو میں تمہیں کافی ہوجاؤں گا اور تمہارا ناصر ہوں گا، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ۭ) 039:036 کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے۔ آل عمران
176 ١٧٦۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر اس بات کی شدید خواہش تھی کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں، اسی لئے ان کے انکار اور تکذیب سے آپ کو سخت تکلیف پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمگین نہ ہوں، یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اپنی ہی آخرت برباد کر رہے ہیں۔ آل عمران
177 آل عمران
178 ١٧٨۔ ١ اس میں اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے) کا بیان ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق کافروں کو مہلت عطا فرماتا ہے، وقتی طور پر انہیں دنیا کی فراغت و خوش حالی سے، فتوحات سے، مال اولاد سے نوازتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں ان پر اللہ کا فضل ہو رہا ہے لیکن اگر اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے والے نیکی اور اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو یہ دنیاوی نعمتیں، فضل الٰہی نہیں، مہلت الٰہی ہے۔ جس سے ان کے کفر و فسوق میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بالآخر وہ جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق قرار پاجاتے ہیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ مثلاً (اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ 55؀ۙ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ 56؀) 023:055،056 "کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کے مال و اولاد میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ہم ان کے لیے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں؟ نہیں بلکہ وہ سمجھتے نہیں ہیں۔" آل عمران
179 ١٧٩۔ ١ اس لئے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست واضح اور دشمن ذلیل ہوجائیں۔ مومن صابر، منافق سے الگ ہوجائے، جس طرح احد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبر و ثبات اور اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بے نقاب ہوگیا۔ ١٧٩۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے لوگوں کے حالات اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے ظاہر اور باطن نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں منکشف ہوجائیں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص۔ ١٧٩۔ ٣ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کا علم عطا فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ بھی کسی کسی وقت اور کسی کسی نبی پر ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر نبی بھی (جب تک اللہ نہ چاہے) منافقین کے اندرونی نفاق اور ان کے مکرو فریب سے بے خبر ہی رہتا ہے (جس طرح کہ سورۃ توبہ کی آیت نمبر ١٠١ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعراب اور اہل مدینہ جو منافق ہیں، اے پیغمبر! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نہیں جانتے) اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے۔ اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں؟ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے (عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا 26؀ۙ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ) 072:026،027 "عالم الغیب (اللہ تعالیٰ ہے) اور وہ اپنے غیب سے پنسدیدہ رسولوں کو ہی خبردار کرتا ہے "ظاہر بات ہے یہ امور غیبیہ وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق منصب وفرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ ماکان ومایکون (جو کچھ ہوچکا اور آئندہ قیامت تک جو ہونے والا ہے) 'کا علم۔ جیسا کہ بعض اہل باطل اس طرح کا علم غیب انبیاء علیہم السلام کے لیے اور کچھ اپنے "آئمہ معصومین کے لیے باور کراتے ہیں۔ آل عمران
180 ١٨٠۔ ١ اس میں اس بخیل کا بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا حتی کہ اس میں سے فرض زکوٰۃ بھی نہیں نکالتا، صحیح بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اس کے مالک کو ایک زہریلا اور نہایت خوف ناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ آل عمران
181 ١٨١۔ ١ جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا (مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا) 057:011 کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے! تو یہود نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرا رب فقیر ہوگیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ١٨١۔ ٢ یعنی مذکورہ قول جس میں اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اسی طرح ان کے (اسلاف) کا انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرنا، ان کے سارے جرائم اللہ کی بارگاہ میں درج ہیں، جن پر وہ جہنم کی آگ میں داخل ہونگے۔ آل عمران
182 آل عمران
183 ١٨٣۔ ١ اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی اور صدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے حکم الٰہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے ہیں جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے۔ آل عمران
184 ١٨٤۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سے بد دل نہ ہوں، ایسا معاملہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں کیا جا رہا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوچکا ہے۔ آل عمران
185 ١٨٥۔ ١ اس آیت میں ایک تو اس اٹل حقیقت کا بیان ہے کہ موت سے مفر نہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں جس نے اچھا یا برا جو کچھ کیا اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، تیسرا کامیابی کا معیار بتایا گیا کہ کامیاب اصل میں وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرلیا جس کے نتیجے میں جہنم سے دور اور جنت میں داخل کردیا گیا، چوتھا یہ کہ دنیا کی زندگی سامان فریب ہے، جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا، وہ خوش نصیب ہے اور جو اس کے فریب میں پھنس گیا وہ ناکام اور نامراد ہے۔ آل عمران
186 ١٨٦۔ ١ اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے، جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٥٥ میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد بن عباد رضی اللہ کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبد اللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبد اللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہوجائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو خاموش کرایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد رضی اللہ کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا، جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندوں کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا، جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض و عناد کا مظہر ہیں، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) در گزر ہی سے کام لیں (صحیح بخاری) ١٨٦۔ ٢ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن و تشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبد اللہ بن ابی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اسے اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضروری تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیانِ حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دو چار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر) آل عمران
187 ١٨٧۔ ١ اس میں اہل کتاب کو بتایا جا رہا ہے کہ ان سے اللہ نے یہ عہد لیا تھا کہ کتاب الٰہی (تورات اور انجیل) میں جو باتیں درج ہیں اور آخری نبی کی جو صفات ہیں، انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور انہیں چھپائیں گے نہیں، لیکن انہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے اللہ کے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا، یہ گویا اہل علم کو تلقین و تنبیہ ہے کہ ان کے ہاں جو علم نافع ہے، جس سے لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہو سکتی ہو، وہ لوگوں تک ضرورپہنچانا چاہیے اور دنیاوی اغراض و مفادات کی خاطر ان کو چھپانا بہت بڑا جرم ہے، قیامت والے دن ایسے لوگوں کو آگ کی لگام پہنائی جائیگی (کما فی الحدیث) آل عمران
188 ١٨٨۔ ١ ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو صرف اپنے واقعی کارناموں پر ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے کھاتے میں وہ کارنامے بھی درج یا ظاہر کئے جائیں جو انہوں نے نہیں کئے ہوتے۔ یہ بیماری جس طرح عہد رسالت کے بعض لوگوں میں تھی جن کے پیش نظر آیات کا نزول ہوا۔ اسی طرح آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں اور پراپیگنڈے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بننے والے لیڈروں میں یہ بیماری عام ہے، آیت کے سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی کتاب الٰہی میں تحریف کے مجرم تھے مگر وہ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہوتے تھے، یہی حال باطل گروہوں کا بھی ہے وہ بھی لوگوں کو گمراہ کر کے، غلط رہنمائی کرکے اور آیات الٰہی میں معنوی تحریف و تبدیل کر کے بڑے خوش ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل حق ہیں اور یہ کہ انکی فریب کاری کی انہیں داد دی جائے۔ ( قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ 30؀) 009:030 آل عمران
189 آل عمران
190 ١٩٠۔ ١ یعنی جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرہ برابر خلل واقع نہیں ہوتا، یقینا اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ آگے انہی اہل دانش کی صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّ فِیْ خَلَقِ السَّماوَاتِ سے لے کر آخر سورت تک آیات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تو پڑھتے اور اس کے بعد وضو کرتے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسا فرین)۔ آل عمران
191 ١٩١۔ ١ ان دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و طاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ضرور ہیں لیکن کن کے لئے؟ اہل عقل و دانش کے لئے، اس کا مظلب یہ ہوا کہ ان عجائبات تخلیق اور قدرت الٰہی کو دیکھ کر بھی جس شخص کو باری تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ ہو وہ اہل دانش ہی نہیں۔ لیکن یہ المیہ بھی بڑا عجیب ہے کہ عالم اسلام میں ' دانشور ' سمجھا ہی اس کو جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کا شکار ہو، دوسری آیت میں اہل دانش کے ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان اور زمین کی تخلیق میں غورو فکر کرنے کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھو، بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو۔ (صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ) اس کے بعد والی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔ آل عمران
192 آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 ١٩٥۔ ١ فَا سْتَجَاب یہاں اَجَابَ ' قبول فرما لی ' کے معنی میں ہے (فتح القدیر) ١٩٥۔ ٢ مرد ہو یا عورت کی وضاحت اس لئے کردی کہ اسلام نے بعض معاملات میں مرد اور عورت کے درمیان ان کے ایک دوسرے سے مختلف فطری اوصاف کی بنا پر جو فرق کیا ہے۔ مثلا قومیت اور حاکمیت میں، کسب معاش کی ذمہ داری میں، جہاد میں حصہ لینے میں اور وراثت میں نصف حصہ ملنے میں۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے، کہ نیک اعمال کی جزا میں بھی شاید مرد عورت کے درمیان کچھ فرق کیا جائے گا، نہیں! ایسا نہیں ہوگا، نیکی کا جو اجر مرد کو ملے گا وہی عورت کو بھی ملے گا۔ ١٩٥۔ ٣ یہ جملہ معترضہ ہے اس کا مقصد پچھلے نکتے ہی کی وضاحت ہے یعنی اجر و اطاعت میں تم مرد اور عورت ایک جیسے ہی ہو۔ بعض روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے ایک مرتبہ عرض کیا یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر طبری، ابن کثیر و فتح القدیر) آل عمران
196 ١٩٦۔ ١ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے، شہروں میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت اور کاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے، یہ تجارتی سفر و سائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت و فروغ کی دلیل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکا میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان میں محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال یہ کافر مبتلا ہونگے۔ یہ مضمون بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلا (مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْکَ تَــقَلُّبُہُمْ فِی الْبِلَادِ) 040:004 اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔"(قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ 69؀ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَاب الشَّدِیْدَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ 70؀ۧ) 010:069،070 (نُمَـتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰی عَذَابٍ غَلِیْظٍ 24؀) 031:024 آل عمران
197 ١٩٧۔ ١ یعنی دنیا کے وسائل، آسائش اور سہولتیں بظاہر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، درحقیقت متاع قلیل ہی ہیں کیونکہ بالاخر انہیں فنا ہونا ہے اور ان کے بھی فنا ہونے سے پہلے وہ حضرات خود فنا ہوجائیں گے، جو ان کے حصول کی کوششوں میں اللہ کو بھی فراموش کئے رکھتے ہیں اور ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں اور اللہ کی حدوں کو بھی پامال کرتے ہیں۔ آل عمران
198 ١٩٨۔ ١ ان کے برعکس جو تقویٰ اور خداوندی کی زندگی گزار کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونگے۔ گو دنیا میں ان کے پاس خدا فراموشوں کی طرح دولت کے انبار اور رزق کی فروانی نہ رہی ہوگی، مگر وہ اللہ کے مہمان ہونگے جو تمام کائنات کا خالق اور مالک ہے اور وہاں ان ابرار (نیک لوگوں) کو جو اجر و صلہ ملے گا، وہ اس سے بہتر ہوگا جو دنیا میں کافروں کو عارضی طور پر ملتا ہے۔ آل عمران
199 ١٩٩۔ ١ اس آیت میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جسے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز کردیا، جن کا مشن ہی اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا، آیات الٰہی میں تحریف و تبدیل کرنا اور دنیا کے عارضی اور فانی مفادات کے لئے کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ مومنین اہل کتاب ایسے نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچنے والے نہیں۔ حافظ ابن کثیرنے لکھا ہے کہ آیت میں جن مومنین اہل کتاب کا ذکر ہے، یہودیوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی البتہ عیسائی بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے دین حق کو اپنایا۔ (تفسیر ابن کثیر) آل عمران
200 ٢٠٠۔ ١ صبر کرو یعنی طاعت کے اختیار کرنے اور شہوات اور لذات ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو، جنگ کی شدت میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، یہ صبر کی سخت ترین صورت ہے اس لئے اسے علٰیحدہ بیان فرمایا محاذ جنگ میں مورچہ بند ہو کر ہمہ وقت چوکنا اور جہاد کے لئے تیار رہنا مرابطہ ہے۔ یہ بھی بڑے عزم ولولہ کا کام ہے، اسی لئے حدیث میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے (رباط یوم فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیھا) (صحیح بخاری، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ) اللہ کے راستے (جہاد) میں ایک سن پڑاؤ ڈالنا۔ (یعنی مورچہ بند ہونا) دنیا ومافیہا سے بہتر ہے "علاوہ ازیں حدیث میں مکارہ (یعنی ناگواری کے حالات میں) مکمل وضو کرنے، مسجدوں میں زیادہ دور سے چل کر جانے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کو بھی رباط کہا گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ) آل عمران
0 النسآء
1 ١۔ ١ ' ایک جان ' سے مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور خَلَقَ مِنْہَا وَ زَوْجَھَا میں مِنْھَا سے وہی ' جان ' یعنی آدم (علیہ السلام) مراد ہیں اور آدم (علیہ السلام) سے ان کی زوجہ (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (علیہ السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں؟ اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رض) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد ( یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو توڑ بیٹھے گا اگر تو اس سے فائدہ آٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ سے منقول رائے کی تائید کی۔ قرآن کے الفاظ خلق منھا سے اسی مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی ہے جسے آدم کہا جاتا ہے۔ ١۔ ٢ والارحام کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ مراد رشتہ داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناتوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔ النسآء
2 ٢۔ ١ یتیم جب بالغ اور باشعور ہوجائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو، خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو، بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کردی اور وہ اب طیب نہیں رہا، بلکہ تمہارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بد دیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔ النسآء
3 ٣۔ ١ اس کی تفسیر حضرت عائشہ (رض) سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کرلیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری) ایک کی بجائے دو سے، تین سے حتیٰ کے چار عورتوں تک سے تم نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کرسکو ورنہ ایک ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مذید صراحت اور تحدید کردی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) ٣۔ ٢ یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس کی حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت اچھے انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے) کہ بیویوں کے درمیان انصاف کرسکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو، اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔ النسآء
4 النسآء
5 النسآء
6 ٦۔ ١ یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہارے پاس رہا، تم اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں، عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا "ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا، نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سر پرست "(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ) النسآء
7 ٧۔ ١ اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتوں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہونگے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیساکہ ٣ آیات کے بعد مذکورہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے، نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔ النسآء
8 ٨۔ ١ اسے بعض علماء نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صیح تر بات یہ ہے یہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے۔ کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔ النسآء
9 ٩۔ ١ بعض کے نزدیک اس کے مخطب اوصیاء ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں انکے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرسکے نہ حقوق بنی آدم میں، اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لیے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دو چار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بچے فقر و فاقہ سے دو چار ہوجائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر) النسآء
10 النسآء
11 ١١۔ ١ ورثا میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں تو پھر اس اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لڑکے چھوٹے ہوں یا بڑے اسی طرح لڑکیاں چھوٹی ہوں یا بڑی سب وارث ہونگی۔ حتٰی کہ (ماں کے پیٹ میں زیر پرورش بچہ) بھی وارث ہوگا۔ البتہ کافر کی اولاد وارث نہ ہوگی۔ ١١۔ ٢ یعنی بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کا دو تہائی دو سے زائد لڑکیوں کو دیئے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں، تب بھی انہیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ سعد بن ربیع (رض) احد میں شہید ہوگئے اور ان کی ٢ لڑکیاں تھیں۔ مگر سعد کے سارے مال پر ان کے بھائی نے قبضہ کرلیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو تہائی مال دلوایا (ترمذی، ابو داؤد ابن ماجہ، کتاب الفرائض) علاوہ ازیں سورۃ نساء کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے بھی دو تہائی حصہ ہے لہذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی مال کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے (فتح القدیر) خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ دویا دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو دونوں صورتوں میں مال متروکہ سے دو تہائی لڑکیوں کا حصہ ہوگا۔ باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا۔ ١١۔ ٣ ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صورت کہ مرنے والے کی اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہوجائے گا مرنے والے کی اگر صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال (یعنی چھ حصوں میں سے تین حصے بیٹی کے ہونگے اور ایک چھٹا حصہ ماں کو اور ایک چھٹا حصہ باپ کو دینے کے بعد مذید ایک چھٹا حصہ باقی بچ جائے گا اس لئے بچنے والا یہ چھٹا حصہ بطور سربراہ باپ کے حصہ میں جائے گا۔ یعنی اس صورت میں باپ کو دو چھٹے حصے ملیں گے۔ ایک باپ کی حیثیت سے اور دوسرے، سربراہ ہونے کی حیثیت سے۔ ١١۔ ٤ یہ دوسری صورت ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں شامل ہیں) اس صورت میں ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے میں دو گنا ہیں) باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی باپ کے لئے ہوگا۔ ١١۔ ٥ تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں۔ وہ بھائی چاہے سگے یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں اور اگر اولاد بیٹا یا بیٹی اگر الگ باپ سے ہوں تو وراثت کے حقدار نہیں ہونگے۔ لیکن ماں کے لئے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہونگے تو مال کے (تیسرے حصے) کو چھ حصوں میں تبدیل کردیں گے۔ باقی سارا مال (٥/٦) باپ کے حصے میں چلا جائے گا بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دو بھائیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زیادہ بھائیوں کا مذکور ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گا وہ سدس میں تبدہل نہیں ہوگا۔ (تفسی ابن کثیر) ١١۔ ٦ اس لئے تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو، بلکہ اللہ کے حکم کے مظابق جس کا جتنا حصہ مقرر کردیا گیا ہے، وہ ان کو دے دو۔ النسآء
12 ١٢۔ ١ اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں، اس پر امت کے علماء کا اجماع ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) اس طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وارث ہونے والی موجودہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے۔ اسی طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کے وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے۔ ١٢۔ ٢ بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا اگر زیادہ ہونگی تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا، ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا یہ بھی ایک اجماعی مسئلہ ہے (فتح القدیر) ١٢۔ ٣ کلالہ سے مراد وہ میت ہے، جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہی جو کہ سر کو اس کے اطراف وجوانب سے وارث قرار پایا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر) اور کہا جاتا ہے کہ کلالہ کلل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تھک جانا۔ گویا اس شخص تک پہنچتے پہنچتے سلسلہ نسل ونسب تھک گیا اور آگے نہ چل سکا۔ ١٢۔ ٤ اس سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث میں اس طرح نہیں ہے اور اس کا بیان اس سورت کے آخر میں آرہا ہے یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے (فتح القدیر) اور دراصل نسل کے لئے مرد و زن ( ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ) 004:011 کا قانون چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کے لئے اس جگہ اور بہن بھائیوں کے لئے آخری آیت نساء میں ہر دو جگہ یہی قانون ہے البتہ صرف ماں کی اولاد میں چونکہ نسل کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے وہاں ہر ایک کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے بہرحال ایک بھائی یا ایک بہن کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ ١٢۔ ٥ ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہونگے، نیز ان میں مذکر اور مؤنث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔ بلا تفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا، مراد مرد ہو یا عورت۔ ١٢۔ ٦ میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ تیسری مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ ورثے کی تقسیم، وصیت پر عمل کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے جس سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گا اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے تینوں جگہ وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے دین کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمت نہیں دیتے ہیں نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں لیکن وصیت پر عمل کرنے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل یا تغافل سے کام لیتے ہیں اس لئے وصیت کا پہلے ذکر فرما کر اس کی اہمیت واضح کردی گئی (روح المعانی) ١٢۔ ٧ بایں طور پر وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کردیا جائے یا کسی کا حصہ گھٹا دیا جائے یا کسی کا حصہ بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے درآں حالیکہ کچھ بھی نہیں لیا ہو، گویا اقرار کا تعلق وصیت اور دین دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔ نیز ایسی وصیت بھی باطل ہے۔ النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 ١٥۔ ١ یہ بدکار عورتوں کی بدکاری کی سزا ہے جو ابتدائے اسلام میں، جب کہ زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی، عارضی طور پر مقرر کی گئی تھی ہاں یہ بھی یاد رہے کہ عربی زبان میں ایک سے دس تک کی گنتی میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ عدد مذکر ہوگا تو معدود مؤنث اور عدد مؤنث ہوگا تو معدود مذکر۔ یہاں اربعہ (یعنی چار عدد) مؤنث ہے، اس لئے معدود جو یہاں ذکر نہیں کیا گیا اور محذوف ہے یقینا مذکر آئے گا اور وہ ہے رجال یعنی اربعۃ رجال جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اثبات زنا کے لئے چار مرد گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ گویا جس طرح زنا کی سزا سخت مقرر کی گئی ہے اسکے اثبات کے لئے گواہوں کی کڑی شرط عائد کردی گئی ہے یعنی چار مسلمان مرد عینی گواہ، اس کے بغیر شرعی سزا کا اثبات ممکن نہیں ہوگا۔ ١٥۔ ٢ اس راست سے مراد زنا کی وہ سزا ہے جو بعد میں مقرر کی گئی یعنی شادی شدہ زناکار مرد و عورت کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ بدکار مرد عورت کے لئے سو سو کوڑے کی سزا (جس کی تفصیل سورۃ نور اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ النسآء
16 ١٦۔ ١ بعض نے اس میں اغلام بازی مراد لی ہے یعنی عمل لواطت۔ دو مردوں کا ہی آپس میں بد فعلی کرنا اور بعض نے اسے باکرہ مرد و عورت مراد لیئے ہیں اور اس سے قبل کی آیت کو انہوں نے محصنات یعنی شادی کے ساتھ کیا ہے اور بعض نے اس تثنیہ کے صیغے سے مراد لیا ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ باکرہ ہوں یا شادی شدہ (ابن جریر طبری) نے دوسرے مفہوم یعنی باکرہ (مرد و عورت) کو ترجیح دی ہے اور پہلی آیت میں بیان کردہ سزا کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی سزا سزائے رجم سے اور اس آیت میں بیان کردہ سزا کو سورۃ نور میں بیان کردہ سو کوڑے کی سزا سے منسوخ قرار دی ہے۔ (تفسیر طبری) ١٦۔ ٢ یعنی زبان سے زجر و توبیخ اور ملامت یا ہاتھ سے کچھ زدوکوب کرلینا۔ اب یہ منسوخ ہے، جیسا کہ گزرا۔ النسآء
17 النسآء
18 ١٨۔ ١ اس سے واضح ہے کہ موت کے وقت کی گئی توبہ غیر مقبول ہے، جس طرح کہ حدیث میں بھی آتا ہے اس کی ضروری تفصیل آل عمران کی ٩٠ آیت میں گزر چکی ہے۔ النسآء
19 ١٩۔ ١ اسلام سے قبل عورت پر ایک ظلم بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مر جانے کے بعد اس کے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس کی عورت کے بھی زبردستی وارث بن بیٹھتے تھے اور خود اپنی مرضی سے، اس کی رضامندی کے بغیر اس سے نکاح کرلیتے یا اپنے بھائی بھتیجے سے اس کا نکاح کردیتے، حتی کہ سوتیلا بیٹا تک بھی مرنے والے باپ کی عورت سے نکاح کرلیتا اور اگر چاہتے تو کسی اور جگہ نکاح نہ کرنے دیتے تھے۔ اور ساری عمر یونہی رہنے پر مجبور ہوتی اسلام نے ظلم کے ان تمام طریقوں سے منع فرمایا۔ ١٩۔ ٢ ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ اگر خاوند کو پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا تو از خود اس کو طلاق نہ دیتا بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہو کر حق مہر جو خاوند نے اسے دیا ہوتا، از خود واپس کر کے اس سے خلاصی پانے کو ترجیح دیتی، اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا۔ ١٩۔ ٣ کھلی برائی سے مراد بدکاری یا بدزبانی اور نافرمانی ہے ان دونوں صورتوں میں اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے کہ وہ اس کا دیا ہوا حق مہر واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہوجائے، جیسا کہ خلع کی صورت میں حق مہر واپس لینے کا حق دیا گیا ہے (ملاحظہ ہو سورۃ بقرہ آیت نمبر ٢٢٩) ١٩۔ ٤ یہ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے، جس کی قرآن نے بڑی تاکید کی ہے اور احادیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بڑی وضاحت کی ہے کہ مومن مرد (شوہر (مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اسے پسند ہے تو اسکی دوسری عادت بھی پسندیدہ ہوگی، عورتوں پر ظلم کرنے اور بچوں کی زندگیاں خراب کرنے کے لئے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ اسلام کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دے کر عورت پر ظلم کرنے کا اختیار اسے دے دیا۔ یوں یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو خرابی اور ظلم باور کرایا جاتا ہے۔ النسآء
20 ٢٠۔ ١ خود طلاق دینے کی صورت میں حق مہر واپس لینے سے نہایت سختی سے روک دیا گیا ہے، یعنی کتنا بھی حق مہر دیا ہو واپس نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا کرو گے تو یہ ظلم (بہتان) اور کھلا گناہ ہے۔ النسآء
21 ٢١۔ ١ ' ایک دوسرے سے مل چکے ہو ' کا مطلب ہم بستری ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کنایۃً بیان فرمایا ہے ٢١۔ ٢ مضبوط عہد پیماں سے مراد وہ عہد مراد ہے جو نکاح کے وقت مرد سے لیا جاتا ہے کہ تم اسے اچھے طریقے سے آباد کرنا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا۔ النسآء
22 ٢٢۔ ١ زمانہ جاہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے باپ کی بیوی سے (یعنی سوتیلی ماں سے) نکاح کرلیتے تھے، اس سے روکا جا رہا ہے، کہ یہ بہت بے حیائی کا کام ہے اسلام ایسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیتا ہے جس سے اس کے باپ نے نکاح کیا لیکن دخول سے قبل ہی طلاق دے دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ سے بھی یہ بات مروی ہے اور علماء اسی کے قائل ہیں (تفسیر طبری) النسآء
23 ٢٣۔ ١ جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسبی، اور سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکیاں)، بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے ان کے علاوہ باب کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیات میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے محرمات نسبی کی تفصیل امھات (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں بنات (بیٹیاں) میں پوتیاں نواسیاں اور پوتیوں، نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ وہ بنت شرعی نہیں ہے پس جس طرح (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ) 004:011 (اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالاجماع وہ وارث نہیں اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) اخوات (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی و علاتی، عمات (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ خالات (خلائیں) اس میں ماں کی سب مؤنث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ و بلاواسطہ یاصلبی و فرعی) شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ : رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی ڈھائی سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جسے تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا یا تم سے پہلے یا بعد میں تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یا جس عورت کی حقیقی ماں نے تمہیں دودھ پلایا، چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہوجائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی و رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا، تایا بن جائیں گے اور اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہونگے۔ قسم سوم سسرالی محرمات : بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے)، اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا۔ التبہ کسی عورت سے نکاح کر کے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) ربیبۃ: بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اسکی حرمت مشروط ہے۔ یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کرلی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فی حجورکم (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط کے نہیں ہے اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حلیلۃ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) ہے فعیلۃ کے وزن پر بمعنی فاعلۃ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے، بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی انکی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا، اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے، من اصلابکم (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے، دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چاربیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہوجائے۔ ملحوظہ : زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا ختلاف ہے اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اسکی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کرلے گا تو اسکی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی (دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہوجائے گی۔ النسآء
24 ٢٤۔ ١ قرآن کریم میں احصان چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ ١۔ شادی' ٢۔ آزادی' ٣۔ پاکدامنی۔ ٤۔ اسلام' اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں ١۔ شادی شدہ عورتیں ٢۔ پاکدامن عورتیں ٣۔ آزاد عورتیں اور ٤۔ مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے اس کے شان نزول میں آتا ہے جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں صحابہ کرام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ : نزول قرآن کریم کے وقت غلام اور لونڈیاں کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو اس کے دو ذریعے تھے ایک تو بعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کردییے جاتے تھے یہی خریدے ہوئے مرد اور عورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا کہ کافروں کے قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور وہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں قیدیوں کے لیے یہ بہترین حل تھا کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یونہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہرحال مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الا یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں اس صورت میں استبراء رحم کے بعد وہ ان کے لیے حلال ہیں۔ ٢٤۔ ٢ یعنی مذکورہ محرکات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو دوسری یہ مہر ادا کرنا قبول کرو۔ تیسری ان کی شادی کی قید (دایمی قبضے) میں لانا مقصود ہو صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعہ میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکیں کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کر کے دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفایہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معمود ذہنی ہے۔ ٢٤۔ ٣ یہ اس امر کی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی احکام کے ذریعے سے کرو تو انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ ٢٤۔ ٤ اس میں آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے۔ ملحوظہ : "استمتاع" کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک حرام کردیا۔ النسآء
25 ٢٥۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں کا مالک ہی لونڈیوں کا ولی ہے لونڈی کا کسی جگہ نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نکاح نہیں کرسکتا۔ ٢٥۔ ٢ یعنی لونڈیوں کو (١٠٠) کے بجائے نصف یعنی (٥٠) کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ گویا ان کے لئے سزائے رجم نہیں ہے، کیونکہ وہ نصف نہیں ہو سکتی اور غیرشادی شدہ کو تعزیری سزا ہوگی۔ ٢٥۔ ٣ یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت ایسے لوگوں کے لئے ہے جو جوانی کے جذبات پر کنٹرول' رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اگر ایسا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا بہتر ہے جب تک کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کے قابل نہ ہو جائے النسآء
26 النسآء
27 ٢٧۔ ١ اَنْ تمیلوا یعنی حق سے باطل کی طرف جھک جاؤ۔ النسآء
28 ٢٨۔ ١ اس کمزوری کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ممکن آسانیاں اسے لئے فراہم کی ہیں انہیں میں سے لونڈیوں سے شادی کی اجازت ہے بعض نے اس ضعف کا تعلق عورتوں سے بتلایا ہے یعنی عورت کے بارے میں کمزور ہے اسی لئے عورتیں بھی باوجود نقصان عقل کے اس کو آسانی سے اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں۔ النسآء
29 ٢٩۔ ١ بالْبَاطِلِ میں دھوکا، فریب، جعل سازی، ملاوٹ کے علاوہ تمام کاروبار بھی شامل ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے اسی طرح ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے مثلاً بلا ضرورت فوٹو گرافی، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو، فلموں کا بنانا اور بیچنا وغیرہ مرمت کرنا سب ناجائز ہے۔ ٢٩۔ ٢ اس کے لئے بھی شرط ہے کہ یہ لین دین حلال اشیاء کا ہو حرام اشیاء کا کاروبار باہمی رضامندی کے باوجود ناجائز ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں رضامندی میں خیار مجلس کا مسئلہ بھی آجاتا ہے کہ جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں سودا فسخ کرنے کا اختیار رہے گا۔ ٢٩۔ ٣ اس سے مراد خود کشی بھی ہو سکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکاب معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لئے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔ النسآء
30 ٣٠۔ ١ یعنی منہیات کا ارتکاب، جانتے بوجھتے، ظلم وتعدی سے کرے گا۔ النسآء
31 ٣١۔ ١ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو کبیرہ ہے۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، حقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا، تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کردیں گے۔ سورۃ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کو بھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروی قرار دیا گیا ہے علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار ومداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتی ہے اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام و فرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شریعت کے مزاج کو سمجھ لیا تھا اس لئے انہوں نے صرف وعدہ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ مغفرت و رحمت الہی کے یقینی حصول کے لئے مزکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزووں سے معمور ہیں النسآء
32 ٣٢۔ ١ اس کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے، اس پر آیت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت و طاقت اپنی حکمت اور ارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لئے خاص عطیہ ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح ان کا پورا پورا صلہ انہیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کا جو فرق ہے وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کے فضل سے کسب و محنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ النسآء
33 ٣٣۔ ١ مَوَالِیْ، مولیٰ کی جمع ہے مولیٰ کے کئی معنی ہیں دوست، آزاد کردہ غلام، چچازاد، پڑوسی، لیکن یہاں اس سے مراد ورثاء ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد اور عورت جو کچھ چھوڑ جائیں گے، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہونگے۔ ٣٣۔ ٢ اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ (محکم) مانتے ہیں اور اَیْمَانُکُمْ (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہوا اور اسلام کے بعد بھی وہ چلا آرہا تھا۔ نصیبھم (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاون و تناصر کا حصہ ہے اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے۔ کیونکہ اَیْمَانُکُمْ سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر، انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے، وارث ہوتا تھا، لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا، اس لیے پھر (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ) 033:006 رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، نازل فرما کر اسے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب "فاتوھم نصیبھم" سے مراد دوستی و محبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہوگا اہل علم کے ایک گروہ نے اس سے مراد ایسے شخصوں کو لیا جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مولی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مزکورہ شخص لے گا۔ بشرطیکہ واقعتا اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ۭوَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ "004:033 سے مراد بیوی اور شوہر ہیں اور اس کا عطف الاقربون پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ماں باپ نے قرابت داروں نے اور جن کو تمہارا عہد و پیمان آپس میں باندھ چکا ہے یعنی شوہر یا بیوی انہوں نے جو کچھ میراث میں چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کردیئے ہیں۔ لہذا ان حقداروں کو ان کے حصے دے دو گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلا جو حصے بیان کیے گئے تھے یہاں اجمالا ان کی ادائیگی کی مزید تاکید کی گئی ہے۔ النسآء
34 ٣٤۔ ١ اس میں مرد کی حاکمیت و قوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں، ایک مردانہ قوت و دماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت و حیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بلکل واضح ہے جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کردیئے۔ ٣٤۔ ٢ نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ و نصیحت کا نمبر ہے دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لئے بہت بڑی تنبہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی۔ اگر وہ اصلاح کرلے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بلکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے۔ لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔ النسآء
35 ٣٥۔ ١ گھر کے اندر مزکورہ تینوں طریقے کارگر ثابت نہ ہوں تو یہ چوتھا طریقہ ہے اور اس کی بابت کہا کہ حکمین (فیصلہ کرنے والے) اگر مخلص ہوں گے تو یقینا ان کی سعی اصلاح کامیاب ہوگی۔ تاہم ناکامی کی صورت میں حکمین کو تفریق بین الزوجین یعنی طلاق کا اختیار ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کو حاکم مجاز کے حکم یا زوجین کے توکیل بالفرقہ (جدائی کے لیے وکیل بنانا) کے ساتھ مشروط کرتے ہیں اور جمہور علماء اس کے بغیر اس کے قائل ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر طبری، فتح القدیر، تفسیر ابن کثیر) النسآء
36 ٣٦۔ ١ الجار، الجنب، قرابت دار پڑوسی کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن و سلوک کیا جائے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار، جس طرح کہ حدیث میں بھی اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ٣٦۔ ٢ اس سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص ہے جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت و ہم نشینی اختیار کرے بلکہ اسکی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم، تعلم صناعت (کوئی کام سیکھنے) کے لئے یا کسی کاروباری سلسلہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے (فتح القدیر) ٣٦۔ ٣ اس میں گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید حدیث میں آئی ہے۔ ٣٦۔ ٤ فخر و غرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ "وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ " (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث نمبر۔ ٩١) یہاں کبر کی بطور خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس پر عمل وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل کبر سے خالی ہوگا۔ متکبر اور مغرور شخص صحیح معنوں میں نہ حق عبادت ادا کرسکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام۔ النسآء
37 النسآء
38 ٣٨۔ ١ بخل (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا) یا خرچ کرنا لیکن ریاکاری یعنی نمود و نمائش کے لئے کرنا۔ یہ دونوں باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں اور ان کی ندامت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ یہاں قرآن کریم میں ان دونوں باتوں کو کافروں کا شیوا اور ان لوگوں کا وطیرہ بتایا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور شیطان ان کا ساتھی ہے۔ النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 ٤١۔ ١ ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یا اللہ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور؟ پھر ان سب پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ یا اللہ سچے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کردینے والا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس اب کافی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے، جو سب کچھ آنکوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ ' شہید ' (گواہ) کے معنی ' حاضر ناظر ' کے کرتے ہیں اور یوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ' حاضر ناظر ' باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے، جو شرک ہے، کیونکہ حاضر ناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہوسکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے (شہدآء علی الناس) (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑیگا۔ بہرحال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ النسآء
42 النسآء
43 ٤٣۔ ١ یہ حکم اس وقت دیا گیا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورۃ النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو۔ گویا اسوقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروطہ ہے) ٤٣۔ ٢ یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت بہت ضروری ہے۔ ٤٣۔ ٣ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافری کی حالت میں اگر پانی نہ ملے تو جنابت کی حالت میں ہی نماز پڑھ لو (جیسا کہ بعض نے کہا ہے) بلکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں تم مسجد کے اندر مت بیٹھو، البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی ضرورت پڑے تو گزر سکتے ہو بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انہیں ہر صورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی ہے (ابن کثیر) ورنہ مسافر کا حکم آگے آرہا ہے۔ ٤٣۔ ٤ (١) بیمار سے مراد وہ بیمار جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو، (٢) مسافر عام ہے لمبا سفر کیا ہو یا مختصر۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت مقیم کو بھی حاصل ہے۔ لیکن بیمار اور مسافر کو چونکہ اس قسم کی ضرورت عام طرر پر پیش آتی تھی اس لیے بطور خاص ان کے لیے اجازت بیان کردی گئی ہے (٣) قضائے حاجت سے آنے والا (٤) اور بیوی سے مباشرت کرنے والا ان کو بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیرلے۔ (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے قال فی التیمم : (ضربۃ للوجہ والکفین) (مسند احمد۔ عمار (رض) جلد ٤ حفحہ ٢٦٣) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے (صعیدا طیبا) سے مراد پاک مٹی ہے۔ زمین سے نکلنے والی ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے حدیث میں اس کی مذید وضاحت کردی گئی ہے (جعلت تربتھا لنا طھورا اذا لم نجد الماء) (صحیح مسلم۔ کتاب المساجد) جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ النسآء
44 النسآء
45 النسآء
46 ٤٦۔ ١ یہودیوں کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ' ہم نے سنا ' کے ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے یعنی اطاعت نہیں کریں گے۔ یہ دل میں کہتے یا اپنے ساتھیوں سے کہتے یا شوخ جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے منہ پر کہتے اسی طرح غیرَ مُسْمَعٍ (تیری بات نہ سنی جائے) یہ بد دعا کے طور پر کہتے۔ یعنی تیری بات قبول نہ ہو۔ راعنا۔ کی بابت دیکھئے سورۃ البقرہ آیت ١٠٤۔ کا حاشیہ۔ ٤٦۔ ٢ یعنی ایمان لانے والے بہت ہی قلیل ہیں پہلے گزر چکا ہے کہ یہود میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی۔ یا یہ معنی ہیں کہ بہت ہی کم باتوں پر ایمان لاتے۔ جب کہ ایمان نافع یہ ہے کہ سب باتوں پر ایمان لایا جائے۔ النسآء
47 ٤٧۔ ١ یعنی اگر اللہ چاہے تو تمہیں تمہارے کرتوتوں کی پاداش میں یہ سزا دے سکتا ہے۔ ٤٧۔ ٢ یہ قصہ سورۃ اعراف میں آئے گا، کچھ اشارہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یعنی تم بھی ان کی طرح ملعون قرار پا سکتے ہو۔ ٤٧۔ ٣ یعنی جب وہ کسی بات کا حکم کر دے تو نہ کوئی اس کی مخالفت کرسکتا ہے اور نہ اسے روک ہی سکتا ہے۔ النسآء
48 ٤٨۔ ١ یعنی ایسے گناہ جن سے مومن توبہ کئے بغیر مر جائیں، اللہ تعالیٰ اگر کسی کے لئے چاہے گا، تو بغیر کسی قسم کی سزا دیئے معاف فرما دے گا اور بہت سوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔ لیکن شرک کسی صورت میں معاف نہیں ہوگا کیونکہ مشرک پر اللہ نے جنت حرام کردی ہے۔ (٢) دوسرے مقام پر فرمایا (اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) 031:013"شرک ظلم عظیم ہے"حدیث میں اسے سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اکبر الکبائر الشرک باللہ۔ النسآء
49 ٤٩۔ ١ یہود اپنے منہ میاں میٹھو بنتے تھے مثلًا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں وغیرہ، اللہ نے فرمایا تزکیہ کا اختیار بھی اللہ کو ہے اور اس کا علم بھی اسی کو ہے،"فتیل" کھجور کی گٹھلی کے کٹاؤ پر جو دھاگے یا سوت کی طرح نکلتا یا دکھائی دیتا ہے اس کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اتنا سا ظلم بھی نہیں کیا جائے گا۔ النسآء
50 ٥٠۔ ١ یعنی مذکورہ دعوائے تزکیہ کرکے۔ ٥٠۔ ٢ یعنی ان کی یہ حرکت اپنی پاکیزگی کا ادعا ان کے جھوٹ افزا کے لئے کافی ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت اور اس کے شان نزول کی روایات سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کی مدح و توصیف بالخصوص تزکیہ نفوس کا دعویٰ کرنا صحیح اور جائز نہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم کے دوسرے مقام پر اسی طرح فرمایا، (فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ۭ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) 053:032 اپنے نفسوں کی پاکیزگی اور ستائش مت کرو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تم میں متقی کون ہے؟ حدیث میں ہے حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی ڈال دیں "ان نحثو فی وجوہ المداحین التراب (صحیح مسلم، کتاب الزھد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو ایک دوسرے آدمی کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ویحک قطیت عنق صاحبک) افسوس ہے تجھ پر تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو کسی کی لا محالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے، میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں۔ اللہ پر کسی کا تزکیہ بیان نہ کرے (صحیح بخاری) النسآء
51 ٥١۔ ١ اس آیت میں یہودیوں کے ایک اور فعل پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ (جبت) بت، کاہن یا ساحر (جھوٹے معبودوں) پر ایمان رکھتے اور کفار مکہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں جبت کے یہ سارے مزکورہ معنی کیے گئے ہیں ایک حدیث میں آتا ہے "ان العیافۃ والطرق والطیرۃ من الجبت"' پرندے اڑا کر، خط کھینچ کر، بدفالی اور بد شگونی لینا ' یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں اور یہود میں یہ چیزیں عام تھیں طاغوت کے ایک معنی شیطان بھی کئے گئے ہیں'، دراصل معبودان باطل کی پرستش، شیطان ہی کی پیروی ہے۔ اس لئے شیطان بھی یقینا طاغوت میں شامل ہے۔ النسآء
52 النسآء
53 ٥٣۔ ١ یہ انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تو یہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہوجاتا نَقَیْرًا اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔ النسآء
54 ٥٤۔ ١ ام یا بل کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی بلکہ یہ اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسروں میں نبی (یعنی آخری نبی) کیوں بنایا ؟ نبوت اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے۔ النسآء
55 ٥٥۔ ١ یعنی بنو اسرائیل کو، جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت اور آل میں سے ہیں، ہم نے نبوت بھی دی اور بڑی سلطنت و بادشاہی بھی۔ پھر بھی یہود کے سارے لوگ ان پر ایمان نہیں لائے۔ کچھ ایمان لائے اور کچھ نے اعراض کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر یہ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لا رہے تو کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ان کی تو تاریخ ہی نبیوں کی تکذیب سے بھری پڑی ہے حتّیٰ کہ اپنی نسل کے نبیوں پر بھی ایمان نہیں لائے۔ ان یہود میں سے کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا۔ ان منکرین نبوت کا انجام جہنم ہے۔ النسآء
56 ٥٦۔ ١ یعنی جہنم میں اہل کتاب کے منکرین ہی نہیں جائیں گے بلکہ دیگر تمام کفار کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہے۔ ٥٦۔ ٢ یہ جہنم کے عذاب کی سختی، تسلسل اور دوام کا بیان ہے۔ صحابہ کرام سے منقول بعض آثار میں بتلایا گیا ہے۔ کھالوں کی تبدیلی دن میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ عمل میں آئے گی اور مسند احمد کی روایت کی رو سے جہنمی جہنم میں اتنے فربہ ہوجائیں گے کہ ان کے کانوں کی لو سے پیچھے گردن تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہوگا، ان کی کھال کی موٹائی ستر بالشت اور ڈاڑھ احد پہاڑ جتنی ہوگی۔ النسآء
57 ٥٧۔ ١ یہ کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے لئے جو ابدی نعمتیں ہیں، ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن اہل ایمان جو اعمال صالح کی دولت سے مالا مال ہوں گے۔ جَعَلنا اللّہ مِنْھُمْ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا ذکر کرکے واضح کردیا کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ایمان، عمل صالح کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے پھول مگر خوشبو کے بغیر، درخت ہو لیکن بغیر ثمر۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے دوسرے مسلمانوں نے اس نکتے کو سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ ان کی زندگیاں ایمان کے پھل۔ اعمال صالحہ سے مالا مال تھیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے عمل کرتا ہے جو اعمال صالحہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ مثلاً راست بازی، امانت و دیانت، ہمدردی و غم گساری اور دیگر اخلاقی خوبیاں۔ لیکن ایمان کی دولت سے محروم ہے تو اس کے یہ اعمال، دنیا میں تو اس کی شہرت و نیک نامی کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن اللہ کی بارگاہ میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی اس لئے کہ ان کا سرچشمہ ایمان نہیں ہے جو اچھے اعمال کو عند اللہ بار آور بناتا ہے بلکہ صرف اور صرف دنیاوی مفادات یا قومی اخلاق و عادات ان کی بنیاد ہے۔ ٥٧۔ ٢ گھنی گہری، عمدہ اور پاکیزہ چھاؤں جس کا ترجمہ میں ' پوری راحت ' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے، جنت میں ایک درخت ہے جس کا سایہ ایک سوار سو سال میں بھی اسے طے نہیں کرسکے گا یہ شجرۃ الخلد ہے النسآء
58 ٥٨۔ ١ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان و کلید برادر چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوچکے تھے طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا ' یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے۔ آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ باحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناسب منصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی و وطنی بنیاد یا قرابت و خاندان کی بنیاد پر عہدہ منصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔ ٥٨۔ ٢ اس میں احکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کردیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کردیتا ہے (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام) ٥٨۔ ٣ یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل اور انصاف مہیا کرنا۔ النسآء
59 ٥٩۔ ١ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ حکم صرف اللہ ہی کا ہے ' لیکن چونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص منشاء الٰہی ہی کا مظہر ہے اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ) 004:080 "جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی "جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا مأخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امر و احکام کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں۔ یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امر و حکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لیے اطیعوا اللہ کے بعد اطیعوا الرسول تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن اطیعوا اولی الامر نہیں کہا کیونکہ اولی الامر کی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے۔ (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق) (وقال الالبانی حدیث صحیح۔ مشکٰوۃ نمبر ٦٩٦ فی لفظ لمسلم لا طاعۃ فیی معصیۃ اللہ کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فر غیر معصیۃ حدیث نمبر ١٨٤٠ اور (انما الطاعۃ فی المعروف) (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب نمبر ٤) (السمع والطاعۃ للامام مالم رکن معصیۃ) "معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔"یہی حال علما و فقہا کا بھی ہے۔ (اگر اولوا لامر میں ان کو بھی شامل کیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لیے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد و ہدایت اور راہمنائی کا کام کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ علماء و فقہا بھی دینی امور و معاملات میں حکام کی طرح یقینا مرجع عوام ہیں لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔ ٥٩۔ ٢ اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن کریم اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مراد اب حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے یہ تنازعات کے ختم کرنے کے کیے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور ان کے اتحاد کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ النسآء
60 النسآء
61 ٦١۔ ١ یہ آیات ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو اپنا فیصلہ عدالت میں لے جانے کی بجائے سرداران یہود یا سرداران قریش کی طرف لے جانا چاہتے تھے تاہم اس کا حکم عام ہے اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو کتاب و سنت سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لئے ان دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا تو یہ حال ہوتا ہے (اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا) 024:051 کہ جب انہیں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ سَمِنَا وَ اَطَعْنَا ایسے لوگوں کے بارے میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَ اوْلَئِکَ ھُمُ المُفْلِحُوْنَ) 024:051 یہی لوگ کامیاب ہیں۔ النسآء
62 ٦٢۔ ١ یعنی جب اپنے اس کرتوت کی وجہ سے عتاب الٰہی کا شکار ہو کر مصیبتوں میں پھنستے ہیں تو پھر آکر کہتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد یہ نہیں تھا کہ وہاں سے ہم فیصلہ کروائیں یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ ہمیں انصاف ملے گا بلکہ مقصد صلح اور ملاپ کرانا تھا۔ النسآء
63 ٦٣۔ ١ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم نے ان کے دلوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہیں (جس پر ہم انہیں جزا دیں گے) لیکن اے پیغمبر! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے درگزر ہی فرمائیے اور نصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے اندر کی اصلاح کی کوشش جاری رکھئے! جس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کی سازش کو عفو و درگزر، وعظ، نصیحت اور قول کے ذریعے سے ہی ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہئے۔ النسآء
64 ٦٤۔ ١ مغفرت کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہی توبہ استغفار ضروری اور کافی ہے۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لئے مغفرت کرتا۔ یہ اس لئے کہ چونکہ انہوں نے فصل خصومات (جھگڑوں کے فیصلے) کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استخفاف کیا تھا۔ اس لئے اس کے ازالے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی تاکید کی۔ النسآء
65 ٦٥۔ ١ اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر (رض) نے اس مسلمان کا سر قلم کردیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہوگیا۔ معاملہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا آپ نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت منکریں حدیث کے لئے لمحہ فکریہ ہے النسآء
66 ٦٦۔ ١ آیت میں انہی نافرمان قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو، جب یہ آسان باتوں پر عمل نہیں کرسکے تو اس پر عمل کس طرح کرسکتے تھے؟ یا اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق ان کے بابت فرمایا جو یقینا واقعات کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخت حکموں پر تو یقینا مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ بہت شفیق اور مہربان ہے اور اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لیے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جن کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہو۔ کیونکہ ایمان اطاعت سے زیادہ اور معصیت سے کم ہوتا ہے نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا اور بدی سے بدی متولد ہوتی ہے یعنی اس کا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 ٦٩۔ ١ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے اس لئے حدیث میں آتا ہے۔ آدمی انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی ' حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں ' صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جتنی خوشی اس فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سن کر ہوتی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت پسند کرتے تھے۔ اس کی شان نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض صحابہ کرام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور ہمیں اس سے فروتر مقام ہی ملے گا اور یوں ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت و رفاقت اور دیدار سے محروم رہیں گے۔ جو ہمیں دنیا میں حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر ان کی تسلی کا سامان فرمایا (ابن کثیر) بعض صحابہ (رض) نے بطور خاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنت میں رفاقت کی درخواست کی (اسالک مرافقتک فی الجنۃ) جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی (فأعنی علی نفسک بکثرۃ السجود) پس تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے (التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء) (ترمذی۔ کتاب البیوع باب ماجاء فی التجار وتسمیۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایاھم) راست باز، امانت دار، تاجر انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ صدیقیت، کمال ایمان وکمال اطاعت کا نام ہے، نبوت کے بعد اس کا مقام ہے امت محمدیہ میں اس مقام میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) سب سے ممتاز ہیں۔ اور اسی لیے بالاتفاق غیر انبیاء میں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد افضل ہیں، صالح وہ ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کامل طور پر ادا کرے اور ان میں کوتاہی نہ کرے۔ النسآء
70 النسآء
71 ٧١۔ ١ حِذْرَکُمْ (اپنا بچاؤ اختیار کرو) اسلحہ اور سامان جنگ اور دیگر ذرائع سے۔ النسآء
72 ٧٢۔ ١ یہ منافقین کا ذکر ہے۔ پس و پیش کا مطلب، جہاد میں جانے سے گریز کرتے اور پیچھے رہ جاتے۔ النسآء
73 ٧٣۔ ١ یعنی جنگ میں فتح و غلبہ اور غنیمت۔ ٧٣۔ ٢ یعنی گویا وہ تمہارے اہل دین میں سے ہی نہیں بلکہ اجنبی ہیں۔ ٧٣۔ ٣ یعنی مال غنیمت سے حصہ حاصل کرنا جو اہل دنیا کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔ النسآء
74 ٧٤۔ ١ شَرَیٰ یشٰریٰ، کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے (فلیقاتل) کا فاعل (الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا) 004:074 اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الذین مفعول بنے گا اور فلیقاتل کا فاعل المومن النافر (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کردیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہونگے (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے) النسآء
75 ٧٥۔ ١ ظالموں کی بستی سے مراد (نزول کے اعتبار سے) مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے، کافروں کے ظلم ستم سے تنگ آکر اللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم ان مستضعفین کو کفار سے نجات دلانے کے لئے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمان اس طرح ظلم و ستم کا شکار اور نرغا کفار میں گھرے ہوئے ہوں تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کافروں سے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے جہاد کریں، یہ جہاد دوسری قسم کا ہے یعنی دین کی نشرو اشاعت اور کلمۃ اللہ کے غلبے کے لئے لڑنا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں اور مابعد کی آیت میں ہے۔ النسآء
76 ٧٦۔ ١ مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔ ٧٦۔ ٢ مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فروانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ حیلے نہیں ٹھہر سکتے۔ النسآء
77 ٧٧۔ ١ مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز، زکوٰۃ اور دیگر عبادات و تعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی اور جب اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خوہش کے مطاپق ہے۔ آیات قرآن میں تحریف : آیت کا پہلا حصہ جس میں کف ایدی (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ ٧٧۔ ٢ اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے مؤخر کیوں نہ کردیا یعنی اجلٍ قَریبٍ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے (ابن کثیر)۔ النسآء
78 ٧٨۔ ١ ایسے کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا فانی ہے اور اس کا فائدہ عارضی ہے جس کے لئے تم کچھ مہلت طلب کر رہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الٰہی کے صلے میں تم سزاوار ہوگے۔ دوسرے یہ جہاد کرو یا نہ کرو، موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ؟ مضبوط برجوں سے مراد مضبوط اور بلند و بالا فصیلوں والے قلعے ہیں۔ ٧٨۔ ٢ یہاں سے پھر منافقین کی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سابقہ امت کے منکرین کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ بھلائی (خوش حالی، غلے کی پیداوار، مال اولاد کی فروانی وغیرہ) اللہ کی طرف سے ہے اور برائی (قحط سالی، مال و دولت میں کمی وغیرہ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کے نتیجے میں آئی ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' جب انہیں بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے، یعنی ہم اس کے مستحق ہیں اور جب کوئی برائی پہنچتی ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں سے بدشگوفی پکڑتے ہیں یعنی نعوز باللہ ان کی نحوست کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ (الاعراف۔ ١٣١) ٧٨۔ ٣ یعنی بھلائی اور برائی دونوں اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہ لوگ قلت فہم و علم اور کثرت جہل اور ظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔ النسآء
79 ٧٩۔ ١ یعنی اس کے فضل و کرم سے ہے یعنی کسی نیکی یا اطاعت کا صلہ نہیں ہے، کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نعمتیں اتنی بے پایاں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت و اطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں جو بھی جائے گا، محض اللہ کی رحمت سے جائے گا اپنے عمل کی وجہ سے نہیں صحابہ اکرام رضوان اللہ علھیم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ' ہاں جب تک اللہ مجھے بھی اپنے، دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا ' (صحیح بخاری) ٧٩۔ ٢۔ یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ "کل من عند اللہ" سے واضح ہے لیکن یہ برائی کسی گناہ کی عقبیت یا اس کا صلہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی تمہاری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح فرمایا تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے۔ النسآء
80 النسآء
81 ٨١۔ ١ یعنی یہ منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں جو باتیں ظاہر کرتے۔ راتوں کو ان کے برعکس باتیں کرتے اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر توکل کریں ان کی باتیں اور سازشیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کیونکہ آپ کا ولی اور کارساز اللہ ہے۔ النسآء
82 ٨٢۔ ١ قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور و تدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا (جیسا کہ کفار کا خیال ہے) اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض و تناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز و بلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت و بلاغت قائم ہی نہیں رہتی، دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علام الغیوب کے سواء کوئی اور بیان نہیں کرسکتا۔ تیسرے ان حکایات و قصص میں نہ باہمی تعارض و تضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض و تضاد واقع ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبراء ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقینا کلام الٰہی ہے اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ النسآء
83 ٨٣۔ ١ یہ بعض کمزور اور جلدباز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت و شکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل و ہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے) اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم و تحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بے خبر رہنا یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم ہے لیکن حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت و افادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ استنباط کا مادہ نبط ہے نبط اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے۔ اسی لیے استنباط تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر) النسآء
84 النسآء
85 النسآء
86 ٨٦۔ ١ تحیۃ اصل میں تحیۃ (تفعلۃ) ہے یا کے یا میں ادغام کے بعد تحیۃ ہوگیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدعاء بالحیاۃ) یہاں یہ سالم کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں و رحمتہ اللہ کا اضافہ اور السلام علیکم و رحمتہ اللہ کے جواب میں و برکاتہ کا اضافہ کردیا جائے۔ لیکن کوئی السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے، ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اور اس کے ساتھ و رحمتہ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند احمد، جلد ٤ ص ٤٣٩، ٤٤٠) یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لیے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمہ یعنی یہود و نصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرے اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف و علیکم کے ساتھ جواب دیا جائے (صحیح بخاری کتاب الاستیذان۔ مسلم، کتاب السلام) النسآء
87 النسآء
88 ٨٨۔ ١ یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، ہماری بات نہیں مانی گئی (صحیح بخاری سورہ، نساء صحیح مسلم، کتاب المنافقین) جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے، دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ ٨٨۔ ٢ کَسَبُوا (اعمال) سے مراد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے۔ ارکَسھُمْ۔ اوندھا کردیا یعنی جس کفر و ضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلا کردیا، یا اس کے سبب ہلاک کردیا۔ ٨٨۔ ٣ جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کرسکتا۔ النسآء
89 ٨٩۔ ١ ہجرت (ترک وطن) اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔ ٨٩۔ ٢ یعنی جب تمہیں ان پر قدرت و طاقت حاصل ہوجائے۔ ٩٨۔ ٣ حلال ہو یا حرام۔ النسآء
90 ٩٠۔ ١ یعنی جن سے لڑنے کا علم دیا جا رہا ہے۔ اس سے دو قسم کے لوگ مستثنٰی ہیں۔ ایک وہ لوگ جو ایسی قوم سے ربط و تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ایسی قوم کے فرد ہیں یا اس کی پناہ میں ہیں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے۔ دوسرے وہ جو تمہارے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ ان کے سینے اس بات سے تنگ ہیں کہ وہ اپنی قوم سے مل کر تم سے یا تم سے مل کر اپنی قوم سے جنگ کریں یعنی تمہاری حمایت میں لڑنا پسند کرتے ہیں نہ تمہاری مخالفت میں۔ ٩٠۔ ٢ یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ ان کو لڑائی سے الگ کردیا ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دل میں بھی اپنی قوم کی حمایت میں لڑنے کا خیال پیدا کردیتا تو یقینا وہ بھی تم سے لڑتے۔ اس لئے اگر واقعی یہ لوگ جنگ سے کنارہ کش رہیں تو تم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام مت کرو۔ ٩٠۔ ٣ کنارہ کش رہیں، نہ لڑیں، تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں، سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ تاکید اور وضاحت کے لئے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ تاکہ مسلمان ان کے بارے میں محتاط رہیں کیونکہ جو جنگ و قتال سے پہلے ہی علیحدہ ہیں اور ان کی یہ علیحدگی مسلمانوں کے مفاد میں بھی ہے، اسی لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے بطور احسان کے ذکر کیا ہے۔ اس لئے جب وہ مزکورہ حال پر قائم رہیں ان سے مت لڑو! اس کی مثال وہ جماعت بھی ہے جس کا تعلق بنی ہاشم سے تھا، یہ جنگ بدر والے دن مشریکین مکہ کے ساتھ میدان جنگ میں تو آئے تھے، لیکن یہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے تھے، جیسے حضرت عباس (رض) عم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وغیرہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اسی لیے ظاہر طور پر کافروں کے کیمپ میں تھے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس رضی اللہ کو قتل کرنے سے روک دیا اور انہیں صرف قیدی بنانے پر اکتفا کیا۔ سلم یہاں مسالمۃ یعنی صلح کے معنی میں ہے النسآء
91 ٩١۔ ١ یہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہے جو منافقین کا تھا یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں، اپنی قوم میں جاتے شرک بت پرستی کرتے تاکہ وہ انہیں اپنا ہی مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ ٩١۔ ٢ الفِتْنۃ سے مراد شرک بھی ہوسکتا ہے اسی شرک میں لوٹا دیئے جاتے۔ یا الفتنۃُ سے مراد قتال ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایا یعنی لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہوجاتے ہیں، ٩١۔ ٣ اس بات پر کہ واقعی ان کے دلوں میں نفاق اور ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بغض و عناد ہے، تب ہی وہ یہ ادنیٰ کوشش دوبارہ فتنے (شرک) یا تمہارے خلاف آمادہ قتال ہونے میں مبتلا ہوگئے۔ النسآء
92 ٩٢۔ ١ یہ نفی۔ نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاؤ ' یعنی حرام ہے۔ ٩٢۔ ٢ غلطی کے اسباب و وجوہ متعدد ہو سکتے ہیں مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہوجائے۔ ٩٢۔ ٣ یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چزیں ہیں۔ ایک بطور کفارہ و استغفار ہے یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت کی مقدار حدیث کی روح سے سو اونٹ یا اسکے مساوی قیمت سونے چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ ٩٢۔ ٤ معاف کردینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔ ٩٢۔ ٥ یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وارث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حقدار نہیں اس کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے (فتح القدیر) ٩٢۔ ٦ یہ ایک تیسری صورت ہے اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔ ٩٢۔ ٧ یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہونگے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو۔ سفر کے عذر شرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن کثیر) النسآء
93 ٩٣۔ ١ یہ قتل عمد کی سزا ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ (١) قتل خطا (جس کا ذکر ماقبل کی آیت میں ہے) (٢) قتل شبہ عمد جو حدیث سے ثابت ہے۔ (٣) قتل عمد جس کا مطلب ہے ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لیے وہ آلہ استعمال کرنا جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جا رہا ہے جیسے تلوار، خنجر وغیرہ۔ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے مثلا اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا بڑا جرم ہے احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ (٣) مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علما مزکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبول توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے (الا من تاب واٰمن وعمل عملا صالحا) (الفرقان۔ ٧٠) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں۔ ہر گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا توبۃ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے یہاں اس کی سزا جہنم جو بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس جرم پر اسے دے سکتا ہے اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود (ہمیشہ جہنم میں رہنے) کا مطلب بھی مکث طویل (لمبی مدت) ہے۔ کیونکہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں کے لیے ہی ہے علاوہ ازیں قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بھی اس کی تلافی اور ازالہ فرما سکتا ہے اس طرح مقتول کو بھی بدلہ مل جائے گا اور قاتل کی بھی معافی ہوجائے گی۔ (فتح القدیر و ابن کثیر) النسآء
94 ٩٤۔ ١ احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزر رہے تھے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمان کو دیکھ کر چروا ہے نے سلام کیا۔ بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لئے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بغیر تحقیق کئے اسے قتل کر ڈالا اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی، بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے، مطلب یہ تھا کہ قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ٩٤۔ ٢ یعنی تمہیں چند بکریاں اس مقتول سے حاصل ہوگیئں، یہ کچھ بھی نہیں، اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر نعمتیں ہیں جو اللہ رسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔ النسآء
95 ٩٥۔ ١ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر و ثواب حاصل نہیں کرسکیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے (غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ )"004:095 بغیر عذر کے" کا استثناء نازل فرما دیا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاھدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ انہیں عذر نے روکا ہوا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) ٩٥۔ ٢ یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔ النسآء
96 النسآء
97 ٩٧۔ ١ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہوچکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا جا چکا تھا اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ ٩٧۔ ٢ یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب و جوار ہے اور آگے ارض اللہ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔ النسآء
98 ٩٨۔ ١ یہ ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہجرت سے مستثنیٰ کرنے کا حکم ہے جو اس کے وسائل سے محروم اور راست سے بھی بے خبر تھے۔ بچے اگرچہ شرعی حکام کے مکلف نہیں ہوتے لیکن یہاں ان کا ذکر ہجرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے کہا گیا ہے بچے تک بھی ہجرت کریں یا پھر یہاں بچوں سے مراد قریب البلوغت بچے ہونگے۔ النسآء
99 النسآء
100 ١٠٠۔ ١ اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے دوری اختیار کرنے کی تلقین ہے مُرَاغَمَا کے معنی جگہ، جائے قیام یا جائے پناہ اور سَعَۃَ سے رزق یا جگہوں اور ملکوں کی کشادگی و فراخی ہے۔ ١٠٠۔ ٢ اس میں نیت کے مطابق اجر و ثواب ملنے کی یقین دہانی ہے چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ آیتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لئے نیکوں کی ایک بستی میں جا رہا تھا کہ راستے میں موت آگئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نیکوں کی بستی کو نسبت دوسری بستی کے قریب تر کردیا جس کی وجہ سے اسے ملائکہ رحمت اپنے ساتھ لے گئے، اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے لیکن راستے میں اسے موت آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ملے گا، گو ابھی وہ ہجرت کے عمل کو پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچ سکا ہو جیسے حدیث میں بھی آیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (انما الاعمال بالنیات) عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے "وانمالکل امریء مانویٰ) آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی "جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہجرت کی پس، اس کی ہجرت ان ہی کے لئے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس نیت سے اس نے ہجرت کی"(صحیح بخاری، باب بدء الوحی ومسلم، کتاب الامارۃ) یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر کام کو شامل ہے۔ یعنی اس کو کرتے وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی تو وہ مقبول، ورنہ مردود ہوگا) النسآء
101 ١٠١۔ ١ اس حالت میں سفر میں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے، ان خفتم۔ "اگر تمہیں ڈر ہو۔ " غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف بھی خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے جیسے قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے ( یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ کُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً) 003:130 (وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) 024:033 تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں۔"چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر وہ بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ( وَرَبَاۗیِٕبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَاۗیِٕکُمُ) 004:023 بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے اس کے صدقے کو قبول کرو۔ "(مسند أحمد جلد ١، ص ٢٥، ٣٦ وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث) النسآء
102 ١٠٢۔ ١ اس آیت میں صلوٰۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ صلوٰۃ الخوف کے معنی، خوف کی نماز یہ اس وقت مشروع ہے جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لئے تیار کھڑی ہوں تو ایک لمحے کی غفلت مسلمانوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہوجائے تو صلوٰۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک حصہ دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی، جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہوگیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہوگیا اور مورچہ زن پہلے والا نماز کے لئے آگیا۔ بعض روایت میں آتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی، اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ بعض میں آتا ہے کہ دو دو رکعات پڑھائیں اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو دو رکعت ہوئیں اور بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کر دو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے جا کر ڈٹ گئے۔ دوسرے حصے نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کرلی۔ پھر ان کے ساتھ آپ نے سلام پھیر دیا اس طرح آپ کی بھی دو رکعت اور فوج کے دونوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں۔ (دیکھئے کتب حدیث) النسآء
103 ١٠٣۔ ١ مراد یہی خوف کی نماز ہے اس میں چونکہ تخفیف کردی گئی ہے، اس لئے اس کی تلافی کے لئے کہا جا رہا کہ کھڑے بیٹھے لیٹے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ ١٠٣۔ ٢ اس سے مراد ہے کہ جب خوف اور جنگ کی حالت ختم ہوجائے تو پھر نماز اس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔ ١٠٣۔ ٣ اس میں نماز کو مقررہ وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس طرح کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔ النسآء
104 ١٠٤۔ ١ یعنی اپنے دشمن کے تعاقب کرنے میں کمزوری مت دکھاؤ بلکہ ان کے خلاف بھرپور جہدوجہد کرو اور گھات لگا کر بیٹھو۔ ١٠٤۔ ٢ یعنی زخم تو تمہیں بھی اور انہیں بھی دونوں کو پہنچے ہیں لیکن ان زخموں پر تمہیں تو اللہ سے اجر کی امید ہے۔ لیکن وہ اس کی امید نہیں رکھتے۔ اس لئے اجر آخرت کے حصول کے لئے جو محنت و کاوش تم کرسکتے ہو وہ کافر نہیں کرسکتے۔ النسآء
105 ١٠٥۔ ١ ان آیات (١٠٤ سے ١١٣ تک) کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کی زرہ چرالی، جب اس کا چرچہ ہوا اور اسے بے نقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اور بنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے، ان سب نے کہا زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے، یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا بنی ابیرق نے زرہ چوری کرکے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ایبرق (طمعہ بشیر وغیرہ) ہوشیار تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہے اور طعمہ پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انکی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کرکے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی، جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بحیثیت ایک انسان غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فوراً صورتحال واضح ہوجاتی تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہوجانے کا مرحلہ آجائے تو فورا اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیاء کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ ١٠٥۔ ٢ اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہیں۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلی آیت میں بھی ان کے اور ان کے حماتیوں کے غلط کردار کو نمایاں کرکے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبردار کیا جا رہا ہے۔ النسآء
106 ١٠٦۔ ١ یعنی بغیر تحقیق کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے اس کی حمایت اور وکالت کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور اپنی چرب زبانی سے عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے گا درآں حالیکہ وہ صاحب حق نہ ہو تو ایسے فیصلے کی عند اللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اس بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا خبردار! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل و حجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہوشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں درآنحالیکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری) النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 ١٠٩۔ ١ یعنی جب اس گناہ کی وجہ سے اس کا مواخذہ ہوگا تو اللہ کی گرفت سے اسے بچا سکے گا۔ النسآء
110 النسآء
111 ١١١۔ ١ اس مضمون کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یعنی کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوگا، ہر نفس کو وہی کچھ ملے گا جو کما کر ساتھ لے گیا ہوگا، النسآء
112 ١١٢۔ ١ جس طرح بنو ابیرق نے کیا کہ چوری خود کی اور تہمت کسی اور پر دھری، جو ان کی سی بدخصلتوں کے حامل اور ان جیسے برے کاموں کے مرتکب ہونگے۔ النسآء
113 ١١٣۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت و نگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء علیہم السلام کے لئے فرمایا ہے جو انبیاء پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کردیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ ١١٣۔ ٢ یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا حکم دے کر فرمایا گیا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ) 042:052 اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟" (وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ) 028:086"اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مکر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی) ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ کو علم دیا گیا جن سے آپ بے خبر تھے یہ بھی گویا آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔ النسآء
114 ١١٤۔ ١ نَجْوَیٰ (سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ ١١٤۔ ٢ یعنی صدقہ خیرات معروف (جو ہر قسم کی نیکی میں شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں مشورے، خیر پر مبنی ہیں جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ١١٤۔ ٣ کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع ہوجائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ ١١٤۔ ٤ احادیث میں اعمال مزکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہوجائے گا، نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی رشتہ داروں دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نمازوں اور نفلی صدقات و خیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا (الا اخبرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ؟ قالوابلیٰ (اصلاح ذات البین،۔ قال۔: وفسادذات البین ھی الحالقۃ) (ابوداود کتاب الأدب۔ ترمذی، کتاب البرومسند أحمد ٦/٤٤٥، ٤٤٤) حتیٰ کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے (لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس، فینمی خیرا اور یقول خیرا) (بخاری) وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا اچھی بات کرتا ہے۔، النسآء
115 ١١٥۔ ١ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رض) کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رض) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رض) کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رض) کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے ' کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔ (صحیح ترمذی) النسآء
116 النسآء
117 ١١٧۔ ١ اِنّاثً (عورتیں) سے مراد یا تو وہ بت ہیں جن کے نام مؤنث تھے جیسے لات، عزیٰ، مناۃ، نائلہ وغیرہ۔ یا مراد فرشتے ہیں۔ کیونکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ١١٧۔ ٢ بتوں، فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت دراصل شیطان کی عبادت ہے۔ کیونکہ شیطان ہی انسان کو اللہ کے در سے چھڑا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ النسآء
118 ١١٨۔ ١ مقرر شدہ حصہ سے مراد وہ نذر نیاز بھی ہو سکتی ہے جو مشرکین اپنے بتوں اور قبروں میں مدفون اشخاص کے نام نکالتے ہیں اور جہنمیوں کا وہ کوٹہ بھی ہوسکتا ہے جنہیں شیطان گمراہ کر کے اپنے ساتھ جہنم لے جائے گا۔ النسآء
119 ١١٩۔ ١ یہ وہ باطل امیدیں ہیں جو شیطان کے وسوسوں اور دخل اندازی سے پیدا ہوتی اور انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں۔ ١١٩۔ ٢ یہ بحیرہ اور سائبہ جانوروں کی علامتیں اور صورتیں ہیں۔ مشرکین ان کو بتوں کے نام وقف کرتے تو شناخت کے لئے ان کا کان وغیرہ چیر دیا کرتے تھے۔ ١١٩۔ ٣ تغیْرُ خَلق اللہ (اللہ کی تخلیق کو بدلنا) کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہی جس کا ابھی ذکر ہوا یعنی کان وغیرہ کاٹنا چیرنا سوراخ کرنا، ان کے علاوہ اور کئی صورتیں ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، پتھر اور آگ وغیرہ اشیاء مختلف مقاصد کے لئے بنائی ہیں، لیکن مشرکین نے ان کے مقصد تخلیق کو بدل کر ان کو معبود بنا لیا۔ یا تغییر کا مطلب تغییر فطرت ہے یا حلت وحرمت میں تبدیلی ہے وغیرہ اسی تغییر میں مردوں کی نس بند کر کے اور اسی طرح عورتوں کے آپریشن کر کے انہیں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کردینا۔ میک آپ کے نام پر ابروؤں کے بال وغیرہ اکھاڑ کر اپنی صورتوں کو مسخ کرنا اور وشم (یعنی گودنا گدوانا (وغیرہ بھی شامل ہے یہ سب شیطانی کام ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ جانوروں کو اس لئے خصی کرنا کہ ان سے زیادہ انتفاع ہو سکے یا ان کا گوشت زیادہ بہتر ہو سکے یا اسی قسم کا کوئی اور صحیح مقصد ہو تو جائز ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصی جانور قربانی میں ذبح فرمائے ہیں۔ اگر جانور کو خصی کرنے کا جواز نہ ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قربانی نہ کرتے۔ النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 ١٢٢۔ ١ شیطانی وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اللہ کے وعدے جو اس نے اہل ایمان سے کئے ہیں سچے اور برحق ہیں اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ سچوں کی بات کو کم مانتا ہے اور جھوٹوں کے پیچھے زیادہ چلتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ شیطانی چیزوں کا چلن عام ہے اور ربانی کاموں کو اختیار کرنے والے ہر دور میں اور ہر جگہ کم ہی رہے ہیں اور کم ہی ہیں۔ النسآء
123 النسآء
124 ١٢٤۔ ١ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اہل کتاب اپنے متعلق بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی خوش فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی محض امیدوں پر اور آرزؤں سے نہیں ملے گی اس کے لئے تو ایمان اور عمل صالح کی پونجی ضروری ہے۔ اگر اس کے برعکس نامہ اعمال میں برائیاں ہوں گی تو اسے ہر صورت میں اس کی سزا بھگتنی ہوگی، وہاں کوئی ایسا دوست یا مددگار نہیں ہوگا جو برائی کی سزا سے بچا سکے۔ آیت میں اہل کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی خطاب فرمایا ہے تاکہ وہ بھی یہود و نصاریٰ کی سی غلط فہمیوں، خوش فہمیوں اور عمل سے خالی آرزؤں اور تمناؤں سے اپنا دامن بچاکر رکھیں۔ لیکن افسوس مسلمان اس تنبیہ کے باوجود انہی خام خیالیوں میں مبتلا ہوگئے جن میں سابقہ امتیں گرفتار ہوئیں۔ اور آج بے عملی اور بدعملی مسلمان کا بھی شعار بنی ہوئی ہے اور اس کے باوجود وہ امت مرحومہ کہلانے پر مصر ہے النسآء
125 ١٢٥۔ ١ یہاں کامیابی کا ایک معیار اور اس کا ایک نمونہ بیان کیا جا رہا ہے۔ معیار یہ ہے کہ اپنے کو اللہ کے سپرد کر دے محسن بن جائے اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرے اور نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا۔ خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہوجائے کہ کسی اور کے لئے اس میں جگہ نہ رہے۔ خلیل (بروزن فعیل) بمعنی فاعل ہے جیسے علیم بمعنی عالم اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے۔ جیسے حبیب بمعنی محبوب اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقینا اللہ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی (علیہ السلام) (فتح القدیر) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، اللہ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا"۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد) النسآء
126 النسآء
127 ١٢٧۔ ١ عورتوں کے بارے میں جو سوالات ہوتے رہتے ہیں، یہاں سے ان کے جوابات دیئے جا رہے ہیں۔ ١٢٧۔ ٢ وَمَا یُتلَیٰ عَلَیْکُمْ اس کا عطف اللہ یفتیکُمْ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بابت وضاحت فرماتا ہے اور کتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں جو اس سے قبل یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل ہوچکی ہیں۔ مراد سورۃ نساء کی آیت ٣ جس میں ان لوگوں کو اس بے انصافی سے روکا گیا کہ یتیم لڑکی سے ان کے حسن و جمال کی وجہ سے شادی تو کرلیتے تھے لیکن مہر دینے سے گریز کرتے تھے۔ ١٢٧۔ ٢ اس کے دو ترجمے کئے گئے ہیں، ایک تو یہی جو مرحوم مترجم نے کیا ہے اس میں فی کا لفظ محذوف ہے اس کا دوسرا ترجمہ عن کا لفظ محذوف مان کر کیا گیا ہے یعنی ترغبون عن ان تنکحوھن، "تمہیں ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہ ہو"رغبت کا صلہ عن آئے تو معنی اعراض اور بے رغبتی کے ہوتے ہیں۔ جیسے (وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ) 002:130 میں ہے یہ گویا دوسری صورت بیان کی گئی ہے کہ یتیم لڑکی بعض دفعہ بدصورت ہوتی تو اس کے ولی یا اس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثاء خود بھی اس کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کا نکاح نہ کرتے، تاکہ کوئی اور شخص اس کے حصہ جائیداد میں شریک نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔ ١٢٧۔ ٣ اس کا عطف۔ یتامی النساء۔ پر ہے۔ یعنی وما یتلی علیکم فی یتامی النساء وفی المستضعفین من الولدان۔ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم پر جو پڑھا جاتا ہے۔ (سورۃ النساء کی آیت نمبر ٣) اور کمزور بچوں کی بابت جو پڑھا جاتا ہے اس سے مراد قرآن کا حکم (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ) 004:011 ہے جس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔ جب کہ زمانہ جاہلیت میں صرف بڑے لڑکوں کو ہی وارث سمجھا جاتا تھا چھوٹے کمزور بچے اور عورتیں وراثت سے محروم ہوتی تھیں۔ شریعت نے سب کو وارث قرار دے دیا۔ ١٢٧۔ ٤ اس کا عطف بھی یَتَامَی النِّسآءِ پر ہے۔ یعنی کتاب اللہ کا حکم بھی تم پر پڑھا جاتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بدصورت ہو تب بھی۔ دونوں صورتوں میں انصاف کرو (جیساکہ تفصیل گزری) النسآء
128 ١٢٨۔ ١ خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا اور اعراض کرنا معمول بنا لے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کو کم ترخوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان و نفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کرلے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنیں سودۃ (رض) نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کے لئے ہبہ کردی تھی جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرما لیا۔ (صحیح بخاری) ١٢٨۔ ٢ شُحّ بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔ النسآء
129 ١٢٩۔ ١ یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرسکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنی بیویوں میں سے زیادہ محبت حضرت عائشہ سے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عند اللہ قابل مؤاخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بناکر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے"جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کئے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہوگا۔ (ترمذی، کتاب النکاح) النسآء
130 ١٣٠۔ ١ یہ تیسری صورت ہے کہ کوشش کے باوجود اگر نباہ کی صورت نہ بنے پھر طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔ ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت ناپسند کیا گیا ہے، طلاق حلال تو ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے"اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے اس لئے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ مزکورہ حدیث میں صحت اسناد کے اعتبار سے اگرچہ ضعف ہے تاہم قرآن وسنت کی نصوص سے یہ واضح ہے کہ یہ حق اسی وقت استعمال کرنا چاہیے جب نباہ کی کوئی صورت کسی طرح بھی نہ بن سکے۔ النسآء
131 النسآء
132 النسآء
133 ١٣٣۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ و کاملہ کا اظہار ہے جب کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ( وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ) 047:038 اگر تم پھرو گے تو وہ تمہاری جگہ اوروں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہونگے۔ النسآء
134 ١٣٤۔ ١ جیسے کوئی شخص جہاد صرف مال غنیمت کے حصول کے لئے کرے تو کتنی نادانی کی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں کا ثواب عطا فرمانے پر قادر ہے تو پھر اس سے ایک ہی چیز کیوں طلب کی جائے۔؟ انسان دونوں ہی کا طالب کیوں نہ بنے۔ النسآء
135 ١٣٥۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لئے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ ١٣٥۔ ٢ یعنی کسی مالدار کی وجہ سے رعایت نہ کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔ ١٣٥۔ ٣ یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا) 005:008 ' تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ ١٣٥۔ ٤ تلووا، لیی سے ماخوذ ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف و تغیر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا چھپانا اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل و انصاف کی تاکید اور اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے۔ ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً : ہر حال میں عدل کرو اس سے انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست بازو بنو۔ صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔ عدل و انصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔ کسی مال دار کو اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے؟ فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہئے۔ بلکہ ان کو نظر انداز کر کے بے لاگ عدل کرو۔ عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا، وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ (رض) کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا"اللہ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔"یہ سن کر انہوں نے کہا"اسی عدل کیوجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے"(تفسیر ابن کثیر) النسآء
136 (١) ایمان والوں کو ایمان لانے کی تاکید، تحصیل حاصل والی بات نہیں بلکہ کمال ایمان اور اس پر استقرار و اثبات کا حکم ہے۔ جیسے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ) 001:005 کا مفہوم ہے۔ النسآء
137 (٢) بعض مفسرین نے اس سے مراد یہود لیے ہیں۔ یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے لیکن حضرت عزیر (علیہ السلام) کا انکار کیا، پھر حضرت عزیر (علیہ السلام) پر ایمان لائے تو حضرت عیسیٰ کا انکار کیا۔ پھر کفر میں پڑھتے چلے گئے۔ حتی کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا بھی انکار کیا اور بعض نے اس سے مراد منافقین لئے ہیں، چونکہ مقصد ان کا مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا، اس لئے وہ بار بار اپنی مسلمانی کا ڈھونگ رچاتے تھے بالآخر کفر وضلالت میں اتنے بڑھ گئے کہ ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوگئی۔ النسآء
138 النسآء
139 ١٣٩۔ ١ جس طرح سورۃ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے کہ منافقین کافروں کے پاس جا کر یہی کہتے تھے کہ ہم تو حقیقت میں تمہارے ہی ساتھ ہیں، مسلمانوں سے تو ہم یونہی استہزاء کرتے ہیں۔ ١٣٩۔ ٢ یعنی عزت کافروں کے ساتھ موالات و محبت سے نہیں ملے گی، کیونکہ یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ عزت اپنے ماننے والوں کو ہی عطا فرماتا ہے، دوسرے مقام پر پھر فرمایا، جو عزت کا طالب ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئیے کہ عزت سب کی سب اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے اور مومنین کے لئے ہے، لیکن منافق نہیں جانتے۔"یعنی وہ نفاق کے ذریعے سے اور کافروں سے دوستی کے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ درآنحالیکہ یہ طریقہ ذلت وخواری کا ہے عزت کا نہیں۔ النسآء
140 ١٤٠۔ ١ یعنی منع کرنے کے باوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں جہاں آیات الٰہی کا استہزاء کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہوگئے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے ' جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو جیسے آجکل کے امراء، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے، سخت گناہ ہے (اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ) 004:140 کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کردینے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔ النسآء
141 ١٤١۔ ١ یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پولیسی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ جو ہم نے مسلمانوں کو ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔ ١٤١۔ ١ یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کر کے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔ ١٤١۔ ٢ یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں (١) اہل اسلام کا غلبہ قیامت والے دن ہوگا (٢) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے (٣) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کی دولت و شوکت کا بالکل ہی خاتمہ ہوجائے گا اور حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہوجائیں گے۔ ایک حدیث صحیحہ سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے (٤) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں ' یہ سب سے عمدہ معنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وَمَا اَصَابَکُمْ مُّصِیبَۃٍ فَبَمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ) 042:030 جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ النسآء
142 ١٤٢۔ ١ اس کی مختصر تشریح سورۃ بقرہ میں ہوچکی ہے۔ ١٤٢۔ ٢ نماز اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے، کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشاء اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے، منافق پر عشاء اور فجر کی نماز سب سے بھاری ہے۔ ١٤٢۔ ٣ یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔ ١٤٢۔ ٤ اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں، جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ (البقرہ۔ ٤٥) سے واضح ہے۔ حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (طلوع کے قریب) ہوجاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے (صحیح مسلم) النسآء
143 ١٤٣۔ ١ کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہر اور باطن وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ کافروں کے ساتھ اور بعض منافق تو کفر و ایمان کے درمیان متحیر اور تذبذب کا ہی شکار رہتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے ' ' منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو جفتی کے لئے دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف (صحیح مسلم) النسآء
144 ١٤٤۔ ١ یعنی اللہ نے تمہیں کافروں کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اب اگر تم دوستی کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو یہ دلیل مہیا کر رہے ہو کہ تمہیں بھی سزا دے سکے (یعنی معیصت الٰہی اور حکم عدولی کی وجہ سے۔ النسآء
145 ١٤٥۔ ١ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ھاوِیْۃَ کہلاتا ہے۔ اَ عَاذَنَا اللّٰہ مِنْھَا۔ منافقین کی مزکورہ عادات و صفات سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ بچائے۔ النسآء
146 ١٤٦۔ ١ یعنی منافقین میں سے جو ان چار چیزوں کا خلوص دل سے اہتمام کرے گا، وہ جہنم میں جانے کی بجائے جنت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوگا۔ النسآء
147 ١٤٧۔ ١ شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں سے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنا۔ یہ گویا اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید و ربوبیت پر اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان ہے۔ ١٤٧۔ ٢ یعنی جو اس کا شکر کرے گا، وہ قدر کرے گا، جو دل سے ایمان لائے گا، وہ اس کو جان لے گا اور اس کے مطابق وہ بہترین جزا دے گا۔ النسآء
148 ١٤٨۔ ١ شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے سرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے البتہ اس سے الگ ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شائد وہ ظلم سے باز آ جائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو، اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر راہ گیر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لیے ایذاء نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب) النسآء
149 ١٤٩۔ ١ کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (جسے گالی دی گئی اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفو درگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لیے فرمایا " جَزَاۗءُ سَـیِّئَۃٍۢ بِمِثْلِہَا" 010:027 (برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے) اور حدیث میں بھی ہے کہ معاف کردینے سے اللہ تعالی عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔ صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع۔ النسآء
150 النسآء
151 ١٥١۔ ١ اہل کتاب کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ وہ بعض نبیوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں۔ جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) و حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عیسایؤں نے حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انبیاء علیہم السلام کے درمیان تفریق کرنے والے یہ پکے کافر ہیں۔ النسآء
152 ١٥٢۔ ١ یہ ایمانداروں کا شیوا بتایا گیا ہے کہ سب انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس طرح مسلمان ہیں وہ کسی بھی نبی کا انکار نہیں کرتے۔ اس آیت سے بھی ایک مذہب کی نفی ہوتی ہے جس کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اور وہ ان غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان باللہ رکھتے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس آخری رسالت کا انکار ہوگا تو اس انکار کے ساتھ ایمان باللہ غیر معتبر اور نامقبول ہے (مزید دیکھئے سورۃ بقرہ کی (آیت نمبر ١٢ کا حاشیہ) النسآء
153 ١٥٣۔ ١ یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے اور تختیوں پر لکھی ہوئی تورات لے کر آئے، اسی طرح آپ بھی آسمان پر جا کر لکھا ہوا قرآن مجید لے کر آئیں۔ یہ مطالبہ محض عناد، حجود اور تعنت کی بنا پر تھا۔ النسآء
154 النسآء
155 ١۔ ١٥٥ تقدیری عبارت یوں ہوگی فبنقضھم میثاقھم لعناھم۔ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفربآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔ النسآء
156 ١٥٦۔ ١ اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم (علیہ السلام) پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک ' حقیقت ثابتہ ' باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا یوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ النسآء
157 ١٥٧۔ ١ اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہو سکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ) سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٥٥ کے حاشیہ) مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔ ١٥٧۔ ٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد ١٢ یا ١٧ تھی جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے ۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی چڑھا دیا۔ جسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دی ہے درآنحالیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جاچکے تھے (ابن کثیر و فتح القدیر) ١٥٧۔ ٣ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا گیا جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مصلوب شخص عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں کوئی اور ہے، بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے ایک فرقے نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جسم کے لحاظ تو سولی دے دیے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف اور تردد اور شک کا شکار رہے۔ النسآء
158 ١٥٨۔ ١ یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسیر (رض) ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ (علیہ السلام) دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ ٢۔ ١٥٨ وہ زبردست اور غالب ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو اس کی پناہ میں آ جائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ جو فیصلہ کرتا ہے، حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ النسآء
159 ١٥٩۔ ١ قبل موتہ میں ہ ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت ایمان نافع نہیں۔ لیکن سالف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کر کے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہونگے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لا کر اس دنیا سے گزر چکے ہونگے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی دھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ اسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہوجائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حتی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ پھر حضرت ابو ہریرۃ (رض) فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو"وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ"(صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہلسنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ ١٥٩۔ ٢ یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی جیسا کہ سورۃ مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ( وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ) 5۔ المائدہ :117) ' میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا ـ ' النسآء
160 ١٦٠۔ ١ یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کردی تھیں (جن کی تفصیل سورۃ الآنعام۔ ١٤٦ میں ہے) النسآء
161 النسآء
162 ١٦٢۔ ١ ان سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے۔ ١٦٢۔ ٢ ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ ١٦٢۔ ٣ اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰہ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہر اور ان کا تزکیہ کرنا یا دونوں ہی مراد ہیں۔ ١٦٢۔ ٤ یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا اور سزا پر یقین رکھتے ہیں۔ النسآء
163 ١٦٣۔ ١ حضرت ابن عباس (رض) ما سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ نازل نہیں کیا اور یوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی و رسالت سے بھی انکار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس میں مذکورہ قول رد کرتے ہوئے رسالت محمدیہ کا اثبات کیا گیا۔ النسآء
164 ١٦٤۔ ١ جن نبیوں اور رسولوں کے اسمائے گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد ٢٤ یا ٢٥ ہے (١) آدم (٢) ادریس (٣) نوح (٤) ہود (٥) صالح (٦) ابراہیم (٧) لوط (٨) اسماعیل (٩) اسحاق (١٠) یعقوب (١١) یوسف (١٢) ایوب (١٣) شعیب (١٤) موسیٰ (١٥) ہارون (١٦) یونس (١٧) داؤد (١٨) سلیمان (١٩) الیاس (٢٠) الیسع (٢١) زکریا (٢٢) یحییٰ (٢٣) عیسیٰ (٢٤) ذوالکفل۔ (اکثر مفسرین کے نزدیک (٢٥) حضرت محمد صلوٰت اللہ و سلامہ وعلیہم اجمعین۔ ١٦٤۔ ٢ جن انبیاء رسل کے نام اور واقعات قرآن میں بیان نہیں کئے گئے، ان کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں جو بہت مشہور ہے ایک لاکھ ٢٤ ہزار اور ایک حدیث میں ٨ ہزار تعداد بتلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار وحالات میں مبشرین ومنذرین انبیاء آتے رہے ہیں۔ بالآخر یہ سلسلہ نبوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم فرما دیا گیا آپ سے پہلے کتنے نبی آئے؟ ان کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جتنے بھی دعویداران نبوت ہو کر گزرے یا ہوں گے، سب کے سب دجال اور کذاب ہیں اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور امت محمدیہ سے الگ ایک متوازی امت ہیں۔ جیسے امت بابیہ، بہائیہ اور امت مرزائیہ وغیرہ اسی طرح مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے والے لاہوری مرزائی بھی۔ ١٦٤۔ ٣ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خاص صفت ہے جس میں وہ دوسرے انبیاء سے ممتاز ہیں۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت کی روح سے امام ابن کثیر نے اس صفت ہم کلامی میں حضرت آدم (علیہ السلام) و حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی شریک مانا ہے (تفسیر ابن کثیر زیر آیت (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ) 003:253۔ النسآء
165 ١٦٥۔ ١ ایمان والوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دینا اور کافروں کو اللہ کے عذاب اور بھڑکتی ہوئی جہنم سے ڈرانا۔ ١٦٥۔ ٢ یعنی نبوت کا یہ سلسلہ ہم نے اس لئے قائم فرمایا کہ کسی کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمیں تو تیرا پیغام پہنچا ہی نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے سے) پہلے ہی ہلاک کردیتے تو وہ کہتے اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پیشتر تیری آیات کی پیروی کر لیتے النسآء
166 النسآء
167 النسآء
168 ١٦٨۔ ١ کیونکہ مسلسل کفر اور ظلم کا ارتکاب کر کے، انہوں نے اپنے دلوں کو سیاہ کرلیا جس سے اب ان کی ہدایت و مغفرت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ النسآء
169 النسآء
170 ١٧٠۔ ١ یعنی تمہارے کفر سے اللہ کا کیا بگڑے گا جیسے حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا ( اِنْ تَکْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ) 0014:008 (ابراہیم۔ ٨) اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب کفر کا راستہ اختیار کرلیں تو وہ اللہ کا کیا بگاڑیں گے؟ یقیناً اللہ تعالیٰ تو بے پروا تعریف کیا گیا ہے، اور حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل وآخر تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب میں متقی ہے تو اس سے میری بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر تمہارے اول و اخر انس و جن اس کے ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب میں بڑا نافرمان ہے تو اس سے میری اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تم سب ایک میدان میں جمع ہوجاؤ اور مجھ سے سوال کرو اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے (صحیح مسلم کتاب البر، باب تحریم، الظلم) النسآء
171 ١٧١۔ ٢ غلو کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت وبندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام وحلال کے اختیار وسے نواز دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے "اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ" 009:031 (انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) یہ رب بنانا حدیث کے مطابق ان کے حلال کیے کو حلال اور حرام کیے کو حرام سمجھنا تھا۔ درآنحالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن اہل کتاب نے یہ حق بھی اپنے علماء وغیرہ کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا۔ (لاتطرونی کما اطرت النصاری عیسیٰ ابن مریم! فانما انا عبدہ، فقولوا : عبد اللہ و رسولہ"(صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء مسند احمد جلد ١ صفحہ ٢٣ نیز دیکھئے مسند احمد جلد ١ صفحہ ١٥٣) تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔ لیکن افسوس امت محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ اسی طرح علماء وفقہا کو بھی دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا ہے۔ سچ فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے "جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے" یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔ ١٧١۔ ١ کلمۃ اللہ کا مطلب ہے کہ لفظ کن سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے سے حضرت مریم (علیہ السلام) تک پہنچایا گیا۔ روح اللہ کا مطلب وہ (پھونک) ہے جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا، جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کردیا۔ یوں عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں جسے لے کر جبرائیل (علیہ السلام) مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر) ١٧١۔ ٢ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔ بعض حضرت عیسیٰ کو اللہ اور بعض اللہ کا شریک اور بعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ پھر جو اللہ مانتے ہیں وہ (تین خداؤں) کے اور حضرت عیسیٰ کے ثالث ثلاثہ (تین سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین خدا کہنے سے باز آ جاؤ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔ النسآء
172 ١٧٢۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح بعض لوگوں نے فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا تھا، اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اس سے انہیں قطعاً کوئی انکار نہیں ہے۔ تم انہیں اللہ یا اس کی خدائی میں شریک کس بنیاد پر بناتے ہو۔ النسآء
173 ١٧٣۔ ١ بعض نے اس (زیادہ) سے مراد یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو شفاعت کا حق عطا فرمائے گا، یہ اذن شفاعت پا کر جن کی بابت اللہ چاہے گا شفاعت کریں گے۔ ١٧٣۔ ٢ یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت سے رکے رہے اور اس سے انکار و تکبر کرتے رہے۔ ١٧٣۔ ٣ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' بیشک جو لوگ میری عبادت سے استکبار (انکار و تکبر) کرتے ہیں، یقیناً ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونگے۔ النسآء
174 ١٧٤۔ ١ برہان ایسی دلیل قاطع جس کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش نہ رہے اور ایسی حجت جس سے ان کے شبہات زائل ہوجائیں، اسی لئے آگے اسے نور سے تعبیر فرمایا۔ ١٧٤۔ ٢ اس سے مراد قرآن کریم ہے جو کفر اور شرک کی تاریکیوں میں ہدایت کا نور ہے۔ ضلالت کی پگڈنڈیوں میں صراط مستقیم اور حبل اللہ المتین ہے۔ پس اس کے مطابق ایمان لانے والے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق ہیں۔ النسآء
175 النسآء
176 ١٧٦۔ ١ کلالہ کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے۔ جس کا باپ ہو نہ بیٹا یہاں پھر اس کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دی ہے جس کا صرف بیٹا نہ ہو۔ یعنی باپ موجود ہو۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ کلالہ کی پہلی تعریف ہی صحیح ہے کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث ہی نہیں ہوتی۔ باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ بیٹے کے ساتھ جس کا باپ بھی نہ ہو۔ یعنی بیٹے کی نفی تو نص سے ثابت ہے اور باپ کی نفی اشارۃ النص سے ثابت ہوجاتی ہے۔ ١٧٦۔ ٢ اسی طرح باپ بھی نہ ہو۔ اس لئے باپ بھائی کے قریب ہے، باپ کی موجودگی میں بھائی وارث ہی نہیں ہوتا اگر اس کا کلالہ عورت کا خاوند یا کوئی ماں جایا بھائی ہوگا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مال کا وارث بھائی قرار پائے گا۔ (ابن کثیر) ١٧٦۔ ٣ یہی حکم دو سے زائد بہنوں کی صورت میں بھی ہوگا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ کلالہ شخص کی دو یا دوسے زائد بہنیں ہوں تو انہیں کل مال کا دو تہائی حصۃ ملے گا ١٧٦۔ ٤ یعنی کلالہ کے وارث مخلوط (مرد اور عورت دونوں) ہوں تو پھر ' ایک مرد دو عورت کے برابر کے اصول پر ورثے کی تقسیم ہوگی۔ النسآء
0 المآئدہ
1 ١۔ ١ عقود عقد کی جمع ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہدوپیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی جن کا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عاقل و بالغ ٹھہرایا ہے اور عہد و پیماں کرنے پر معاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔ ١۔ ٢ بھیمہ چوپائے (چار ٹانگوں والے) جانور کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بہم، ابہام ہے بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل وفہم میں چونکہ ابہام ہے اس لیے ان کو بہیمہ کہا کہا جاتا ہے انعام اونٹ، گائے بکری بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے یہ بھیمتہ الانعام نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں جن کی تفصیل (سورہ الانعام آیت نمبر ١٤٣ میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلًا ہرن نیل گائے وغیرہ جن کا عمومًا شکار کیا جاتا ہے یہ بھی حلال ہیں۔ حالت احرام میں ان کا دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانور ذوناب اور جو پرندے ذومخلب نہیں ہیں وہ سب حلال ہیں جیسا کہ بقرہ آیت نمبر ١٧٣ کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذوناب کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنی کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہے اور چیرتا ہو مثلا شیر چیتا کتا بھیڑیا وغیرہ اور وہ پرندے جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو مثلًا شکرہ، باز، شاہیں، عقاب وغیرہ حرام ہیں۔ ١۔ ٣ ان کی تفصیل آیت نمبر ٣ میں آرہی ہے۔ المآئدہ
2 ٢۔ ١ شعائر شعیرۃ کی جمع ہے اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسے عام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بے حرمتی اور بے توقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج عمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ مت بنو، کہ یہ بے حرمتی ہے۔ ٢۔ ٢ (اشھر الحرام) مراد حرمت والے چاروں مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ مراد یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم سے منسوخ مانا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں دونوں احکام اپنے اپنے دائرے میں ہیں جن میں تعارض نہیں۔ ٢۔ ٣ ھَدی' ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے اور گلے میں پٹہ باندھتے تھے جو کے نشانی کے طور پر ہوتا تھا، مزید تاکید ہے کہ ان جانوروں کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ ٢۔ ٤ یعی حج عمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو اور نہ انہیں تنگ کرو، بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکھٹے حج عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت انما المشرکون نجس الخ نازل ہوئی تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ ٢۔ ٥ یہاں مراد اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔ ٢۔ ٦ یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے ٦ ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جا رہا ہے۔ ٢۔ ٧ یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے، کاش مسلمان اس اصول کو اپنا لیں۔ المآئدہ
3 ٣۔ ١ یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ دیکھیے آیت نمبر ١٧٣۔ ٣۔ ٢ گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔ ٣۔ ٣ کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مر گیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھالیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔ ٣۔ ٤ چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔ ٣۔ ٥ نظیحۃ منطوحۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کیے وہ مر گیا۔ ٣۔ ٦ یعنی شیر چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جیسے ذوناب کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں مر جانے کے باوجود ایسے جانور کو کھالیا جاتا تھا۔ ٣۔ ٧ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی منخنقۃ، موقوذۃ، متردیۃ، نطیحۃ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہییں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب وحرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہے اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔ ٣۔ ٨ مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ بناتے تھے۔ جسے نصب تھان یا آستانہ کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اھل بہ لغیر اللہ ہی کی ایک شکل تھی اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ وماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔ ٣۔ ٩ وان تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے تیر مراد ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھتے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لاتفعل والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد بغیر اللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسم تہیں یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔ ٣۔ ١٠ یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔ المآئدہ
4 ٤۔ ١ اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور ہر حرام خبیث۔ ٤۔ ٢ جوارح جارح کی جمع ہے جو کا سب کے معنی میں ہے۔ مراد شکار کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ مکلبین کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔ سکھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے۔ جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔ ٤۔ ٣ ایسے سدھارے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کر کے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کے اگر اس نے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو (صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید مسلم، کتاب الصید) المآئدہ
5 ٥۔ ١ اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ یعنی ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہی کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔ ٥۔ ٢ اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر عورتوں میں عام ہے۔ دوسرے اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کی ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں محتاج وضاحت نہیں۔ درآنحالانکہ ایمان کو بچانا فرض ہے، ایک جائز کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لیے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک دونوں مذکورہ چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہو سکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔ المآئدہ
6 ٦۔ ١ منہ دھوؤ، یعنی ایک ایک دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔ ٦۔ ٢ مسح پورے سر کا کیا جائے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کرلے۔ ٦۔ ٣ ارجلکم کا عطف وجوھکم پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ! ٦۔ ٤ جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض اور نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے (فتح القدیر) ٦۔ ٥ اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٢٣ میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں پر رکنا یا رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رض) نے آیت سن کر کہا اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو) (صحیح بخاری) ٦۔ ٦ اس لئے تیمم کی اجازت فرما دی ہے۔ ٦۔ ٧ اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے دعا یاد کرلی جائے المآئدہ
7 المآئدہ
8 ٨۔ ١، ٢ پہلے جملے کی تشریح سورۃ نساء آیت نمبر ١٣٥ میں دوسرے جملے کی سورۃ المائدۃ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک عادلانہ گواہی کی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جو حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا، اس عطیے پر آپ جب تک اللہ کے رسول کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد انکی خدمت میں آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا ' اللہ سے ڈرو اور اولاد کے درمیان انصاف کرو ' اور فرمایا کہ میں ' ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا ' (صحیح بخاری) المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 ١١۔ ١ اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلًا اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلا تامل فرمایا اللہ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے خلاف جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکا اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنو نفیر سے حسب وعدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رفقا سمیت تشریف لے گئے اور ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی تھی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہو سکتے ہیں (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر) المآئدہ
12 ١۔ ١٢ جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہرا وباطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و ثواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کردینا۔ ٢۔ ١٢ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جبابرہ سے قتال کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں بارہ نقیب مقرر فرما دیے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لیے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و راہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔ المآئدہ
13 ١٣۔ ١ یعنی اتنے انتظامات عہد موعید کے باوجود بنو اسرائیل نے عہد شکنی کی کہ جس کی بنا پر کہ وہ لعنت الٰہی کے موجب بنے، اس لعنت کے دینوی نتائج یہ سامنے آئے کہ ایک، ان کے دل سخت کردیئے گئے جس سے ان کے دل اثر پزیری سے محروم ہوگئے اور انبیاء کے وعظ و نصیحت ان کے لیے بے کار ہوگئے، دوسرے یہ کہ وہ کلمات الٰہی میں تحریف کرنے لگ گئے۔ اسی طرح اپنی بدعلت، خود ساختہ مزعومات اور اپنے تاویلات باطلہ کے اثبات کے لیے کلام الٰہی میں تحریف کر ڈالتے ہیں۔ ١٣۔ ٢ یہ تیسرا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں انہیں کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں رہی بلکہ بے عملی اور بدعملی ان کا شعار بن گئی اور وہ پستی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے دل ٹھیک رہے اور نہ ان کی فطرت مستقیم۔ ١٣۔ ٣ یعنی شذر خیانت اور مکر ان کے کردار جزو بن گیا ہے جس کے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔ ١٣۔ ٤ یہ تھوڑے سے لوگ وہی ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے اور ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔ ١٣۔ ٥ عفو و درگزر کا یہ حکم اس وقت دیا گیا جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کی جگہ حکم دیا گیا (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ) 009:029 ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے ' بعض کے نزدیک عفو و درگزر کا یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ 'یہ بجائے خود ایک اہم حکم ہے، حالات کے مطابق اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس کے بھی بعض دفعہ وہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں جن کے لئے قتال کا حکم ہے۔ المآئدہ
14 ١٤۔ ١ نصاری نصرۃ مدد سے ہے یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوال من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین میں کون میرا مددگار ہے؟ کے جواب میں ان کے چند مخلص پیروکاروں نے جواب دیا تھا (نحن انصار اللہ) ہم اللہ کے مددگار ہیں اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی یہود کی طرح اہل کتاب ہیں۔ ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے عہد لیا، لیکن انہوں نے بھی اس کی پرواہ نہیں کی، اس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثر پزیری سے خالی اور ان کے کردار کھوکھلے ہوگئے۔ ١٤۔ ٢ یہ عہد الٰہی سے انحراف اور بے عملی کی وہ سزا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قیامت تک کے لئے مسلط کردی گئی۔ چنانچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت و عناد رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر (کافر سمجھتے) کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی عبادت گاہ میں عبادت نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر بھی یہ سزا مسلط کردی گئی ہے۔ یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے، جن کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت و عناد کی دیواریں حائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ المآئدہ
15 ١٥۔ ١ یعنی انہوں نے تورات و انجیل میں جو تبدیلیاں اور تحریفات کیں، انہیں طشت ازبام کیا اور جن کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کیا، جیسے سزائے رجم۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ ١٥۔ ٢ نور اور کِتَابُ مُّیْن دونوں سے مراد قرآن کریم ہے، ان کے درمیان واو مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لیے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے اگر نور اور کتاب یہ الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ (یَّھدِیبِھِمَا اللّٰہَ) ہوتے، یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے، قرآن کریم کی اس خاص آیات سے واضح ہوگیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک یہ چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ جیسا کہ وہ اہل بدعت باور کراتے ہیں جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت نور من نور اللہ کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لیے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا محدث البانی لکھتے ہیں "فالحدیث صحیح بلا ریب، وھو من الادلۃ الظاھرۃ علی بطلان الحدیث المشھور "اول ماخلق اللہ نور نبیک یا جابر" مشہور حدیث جابر کہ اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا باطل ہے۔ المآئدہ
16 المآئدہ
17 ١٧۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور ملکیت تامہ کا بیان فرمایا ہے۔ مقصد عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کا رد وابطال ہے۔ حضرت عیسیٰ کے عین اللہ ہونے کے قائل پہلے تو کچھ ہی لوگ تھے یعنی ایک ہی فرقہ۔ یعقوبیہ کا یہ عقیدہ تھا لیکن اب تمام عیسائی الوہیت مسیح کے کسی نہ کسی انداز سے قائل ہیں۔ اس لئے مسیحیت میں اب عقیدہ تثلیث یا اقانیم ثلاثہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بہرحال قرآن نے اس مقام پر تصریح کردی کہ کسی پیغمبر اور رسول کو الٰہی صفات سے متصف قرار دینا کفر صریح ہے۔ اس کفر کا ارتکاب عیسائیوں نے، حضرت مسیح کو اللہ قرار دے کر کیا، اگر کوئی اور گروہ یا فرقہ کسی اور پیغمبر کو بشریت و رسالت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کرے گا تو وہ بھی اسی کفر کا ارتکاب کرے گا، المآئدہ
18 ١٨۔ ١ یہودیوں نے حضرت عزیر کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا اور اپنے آپ کو بھی ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے) اور اس کا محبوب قرار دے لیا۔ بعض کہتے ہیں یہاں ایک لفظ محذوف ہے یعنی اتباع ابناء اللہ ہم اللہ کے بیٹوں (عزیر و مسیح) کے پیروکار ہیں (دونوں مفہوموں میں سے کوئی سا بھی مفہوم مراد لیا جائے۔ اس سے ان کے تفاخر اور اللہ کے بارے میں بے جا اعتماد اظہار ہوتا ہے۔ جس کی اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں۔ ١٨۔ ٢ اس میں ان کے مذکورہ تفاخر کا بے بنیاد ہونا واضح کردیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور چہیتے ہوتے یا محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے تم جو چاہو کرو اللہ تم سے باز پرس نہیں کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گناہوں کی پادش میں سزا کیوں دیتا رہا ہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں دعووں کی بنیاد پر نہیں ہوتا نہ قیامت والے دن ہوگا بلکہ وہ تو ایمان و تقویٰ اور عمل دیکھتا ہے اور دنیا میں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ فرماتا ہے اور قیامت والے دن بھی اسی اصول پر فیصلہ ہوگا۔ ١٨۔ ٣ تاہم یہ عذاب یا مغفرت کا فیصلہ اسی سنت اللہ کے مطابق ہوگا، جس کی اس نے وضاحت فرما دی ہے کہ اہل ایمان کے لئے مغفرت اور اہل کفر و فسق کے لئے عذاب، تمام انسانوں کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوگا۔ اے اہل کتاب! تم بھی اسی کی پیدا کردہ مخلوق یعنی انسان ہو۔ تمہاری بابت فیصلہ دیگر انسانی مخلوق سے مختلف کیونکر ہوگا۔ المآئدہ
19 ١٩۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد رسول اللہ کے درمیان جو تقریباً ٥٧٠ یا ٦٠٠ سال کا فاصلہ ہے یہ زمانہ فترت کہلاتا ہے۔ اہل کتاب کو کہا جا رہا ہے کہ اس فترت کے بعد ہم نے اپنا آخری رسول بھیج دیا ہے اب تم یہ بھی نہ کہہ سکو گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر و نذیر پیغمبر ہی نہیں آیا۔ المآئدہ
20 ٢٠۔ ١ بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم کردیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئے۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا، جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے آج کل مغربی جمہوریت کا کا بوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران، مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستار بھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمران عادل ومتقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ ٢٠۔ ٢ یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی طرف، جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے، جیسے من و سلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لئے دریا سے راستہ بنا دیا وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانے میں فضیلت اور اونچے مقام کی حامل تھی لیکن پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد کی رسالت و بعث کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہوگیا ہے (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ) 003:110 تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لئے بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی مشروط ہے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ جو اسی آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس مقصد کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر امت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔ المآئدہ
21 ٢١۔ ١ بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے امارات مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہوگئے تھے اور پھر تب سے اس وقت مصر میں ہی رہے، جب تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپ کر) مصر سے نکال نہیں لے گئے۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لئے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ لیکن اس کے باوجود بنو اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر تیار نہ ہوئے (ابن کثیر) ٢١۔ ٢ اس سے مراد وہی فتح و نصرت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ان سے کر رکھا تھا۔ ٢١۔ ٣ یعنی جہاد سے اعراض مت کرو۔ المآئدہ
22 ٢٢۔ ١ بنو اسرائیل عمالقہ کی بہادری کی شہرت سے مرعوب ہوگئے تھے اور پہلے مرحلے پر ہی ہمت ہار بیٹھے۔ اور جہاد سے دست بردار ہوگئے۔ اللہ کے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کی کوئی پروا کی اور نہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ نصرت پر یقین کیا وہاں جانے سے صاف انکار کردیا۔ المآئدہ
23 ٢٣۔ ١ قوم موسیٰ (علیہ السلام) میں صرف یہ دو شخص صحیح معنوں میں ایماندار نکلے، جنہیں نصرت الٰہی پر یقین تھا انہوں نے قوم کو سمجھایا کہ تم ہمت تو کرو، پھر دیکھو کس طرح اللہ تمہیں غلبہ عطا فرماتا ہے۔ المآئدہ
24 ٢٤۔ ١ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے بدترین بزدلی، سوء ادبی اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو اور تیرا رب جا کر لڑے۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد و قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور پھر یہ کہا کہ ' یارسول اللہ! ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح قوم موسیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا ' (صحیح بخاری) المآئدہ
25 ٢٥۔ ١ اس میں نافرمان قوم کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا اظہار بھی ہے اور برات کا اعلان بھی۔ المآئدہ
26 ٢٦۔ ١ یہ میدان تیہ کہلاتا ہے جس میں چالیس سال یہ قوم اپنی نافرمانی اور جہاد سے اعراض کی وجہ سے سرگرداں رہی۔ اس میدان میں اس کے باوجود ان پر من و سلویٰ کا نزول ہوا جس سے اکتا کر انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ روز روز ایک ہی کھانا کھا کر ہمارا جی بھر گیا ہے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور دالیں ہمارے لئے پیدا فرمائے۔ یہیں ان پر بادلوں کا سایہ ہوا، پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی مارنے سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے اور اس طرح کے دیگر انعامات ہوتے رہے۔ چالیس سال بعد پھر ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ یہ بیت المقدس کے اندر داخل ہوئے۔ ٢٦۔ ٢ پیغمبر جب دیکھتا ہے دعوت و تبلیغ کے باوجود میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ جس میں اس کے لئے دین و دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اس کو سخت افسوس اور دلی صدمہ ہوتا ہے۔ یہی نبی کا بھی حال ہوتا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا لیکن آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا اور پیغام الہی لوگوں تک پہنچا دیا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان کامیابی کے نقطہ آغاز پر لاکھڑا کیا۔ لیکن اب وہ اپنی دون ہمتی اور بد دماغی کے سبب تیری بات ماننے کو تیار نہیں تو تو اپنے فرض سے سبک دوش ہوگیا اور اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے موقع پر غمگینی تو ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مراد اس تسلی سے یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے بعد اب تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔ المآئدہ
27 ٢٧۔ ١ آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔ ٢٧۔ ٢ یہ نذرانہ یا قربانی کس لئے پیش کی گئی؟ اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔ البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتداء میں حضرت آدم وحوا کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتی۔ دوسرے حمل سے پھر لڑکا اور لڑکی ہوتی، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بھائی بہن سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بدصورت تھی، جب کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی۔ اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا۔ لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کی بہن کی بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ جو خوبصورت تھی نکاح کرے۔ آدم (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا، لیکن وہ نہ سمجھا بالا خر حضرت آدم (علیہ السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہوجائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کردیا جائے گا، ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ویسے ہی دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کی بارگاہ میں نذر پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی اور قابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی ہابیل کی قربانی قبول ہونے پر قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔ المآئدہ
28 المآئدہ
29 ٢٩۔ ١ میرے گناہ کا مطلب قتل کا وہ گناہ جو مجھے اس وقت ہوتا جب میں تجھے قتل کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا (صحیح بخاری و مسلم کتاب الفتن) المآئدہ
30 ٣٠۔ ١ چنانچہ حدیث میں آتا ہے (لَا تَقْتُلُ نَفْسً ظُلُمًَا اِلَّا کَانَ عَلٰی اِبْنِ آدَمْ کفل من دمہا، لانہ کان اول من سن القتل) (الصحیح بخاری) جو قتل بھی ظلمًا ہوتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں ' کہ ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پر دے دی گئی تھی۔ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے کرنے والوں کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لئے الگ ہوگی جو انہیں وہاں بھگتنی ہوگی۔ قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے ' اِنْا للہِ وَ اِنِّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) 002:156 (ابن کثیر) المآئدہ
31 المآئدہ
32 ٣٢۔ ١ اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے بنو اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (بصری) سے پوچھا یہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لئے تھی، انہوں نے فرمایا، ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بنو اسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے (تفسیر ابن کثیر) ٣٢۔ ٢ اس میں یہود کو تنبیہ اور ملامت ہے کہ ان کے پاس انبیاء دلائل لے کر آتے رہے۔ لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا اس میں گویا نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازش کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، ان کی ساری تاریخ ہی مکرو وفساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیرالماکرین ہے۔ تمام سازشوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ المآئدہ
33 ٣٣۔ ١ اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مدینہ سے باہر، جہاں صدقے کے اونٹ تھے، بھیج دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب پیؤ، اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔ چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہوگئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چروا ہے کو قتل کردیا اور اونٹ ہنکا کرلے گئے۔ جب نبی کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی نے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کاٹ ڈالے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں، (کیونکہ انہوں نے بھی چروا ہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا حتّٰی کہ وہیں مر گئے۔ صحیح بخاری میں یہ بھی آتا ہے انہوں نے چوری بھی کی اور قتل بھی کیا، ایمان لانے کے بعد کفر بھی کیا اور اللہ و رسول کے ساتھ محاربہ بھی (صحیح بخاری) یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم عام ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ محاربہ کا مطلب ہے۔ کسی منظم اور مسلح جتھے کا اسلامی حکومت کے دائرے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملے کرنا، قتل وغارت گری کرنا، سلب ونہب، اغوا اور آبرو ریزی کرنا وغیرہ اس کی جو سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ امام خلیفہ وقت کو اختیار ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر محاربین نے قتل وسلب کیا اور دہشت گردی کی تو انہیں قتل اور سولی کی سزا دی جائے گی اور جس نے صرف قتل کیا، مال نہیں لیا اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے قتل کیا اور مال بھی چھینا اس کا ایک دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ اور جس نے نہ قتل کیا نہ مال لیا، صرف دہشت گردی کی اسے جلا وطن کردیا جائے گا لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ہے کہ سزا دینے میں امام کو اختیار حاصل ہے۔ (فتح القدیر) المآئدہ
34 ٣٤۔ ١ یعنی گرفتار ہونے سے پہلے اسلامی حکومت کی اطاعت کا اعلان کردیں تو پھر انہیں معاف کردیا جائے، مذکورہ سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن پھر اس امر میں اختلاف ہے کہ سزاؤں کی معافی کے ساتھ انہوں نے قتل کر کے یا مال لوٹ کر یا ابرو ریزی کر کے بندوں پر جو دست درازی کی یہ جرائم بھی معاف ہوجائیں گے یا ان کا بدلہ لیا جائے گا، بعض علماء کے نزدیک معاف نہیں ہوں گے بلکہ ان کا قصاص لیا جائے گا۔ (امام شوکانی اور امام ابن کثیر کا رجحان اس طرف ہے کہ مطلقاً انہیں معاف کردیا جائے گا اور اسی کو ظاہر آیت کا مقتضی بتلایا ہے۔ البتہ گرفتاری کے بعد توبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے۔ وہ مستحق سزا ہوں گے۔ المآئدہ
35 ٣٥۔ ١ وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ' اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو ' کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں ' و سیلہ جو قربت کے معنی میں ہے تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں، اسی طرح جن باتوں سے روکا گیا ہو ان کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری) المآئدہ
36 ٣٦۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ ایک جہنمی کو جہنم سے نکال کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا ' تو نے اپنی آرام گاہ کیسے پائی '؟ وہ کہے گا ' بدترین آرام گاہ ' اللہ تعالیٰ فرمائے گا"کیا تو زمین بھر سونا فدیہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرن پسند کرے گا ؟"وہ اثبات میں جواب دے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو دنیا میں اس سے بھی بہت کم کا تجھ سے مطالبہ کیا تھا تو نے وہاں کی پروا نہیں کی اور اسے دوبارہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا (صحیح مسلم) المآئدہ
37 ٣٧۔ ١ یہ آیت کافروں کے حق میں ہے، کیونکہ مومنوں کو بالاخر سزا کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ المآئدہ
38 ٣٨۔ ١ بعض فقہا ظاہری کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح محفوظ جگہ میں رکھی ہو یا غیر محفوظ۔ ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہا اس کے لئے حرز اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کے تعین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب رابع دینار یا تین درہم (یا ان کے مساوی قیمت کی چیز) ہے اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ (پہنچوں) سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یا کندھے سے نہیں۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے کتب حدیث و فقہ اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے)۔ المآئدہ
39 ٣٩۔ ١ اس توبہ سے مراد عند اللہ قبول توبہ ہے۔ یہ نہیں کہ توبہ چوری یا کسی اور قابل حد جرم کی سزا معاف ہوجائے گی حدود، توبہ سے معاف نہیں ہوں گی۔ المآئدہ
40 المآئدہ
41 ٤١۔ ١ نبی کریم کو اہل کفر و شرک کے ایمان نہ لانے اور ہدایت کا راستہ نہ اپنانے پر جو قلق اور افسوس ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو زیادہ غم نہ کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں تاکہ اس اعتبار سے آپ کو تسلی رہے کہ ایسے لوگوں کی بابت عند اللہ مجھ سے باز پرس نہیں ہوگی۔ ٤١۔ ٢ آیت نمر ٤١ تا ٤٤ کی شان نزول میں دو واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک تو دو شادی شدہ یہودی زانیوں (مرد عورت) کا۔ انہوں نے اپنی کتاب تورات میں تو رد وبدل کر ڈالا تھا، علاوہ ازیں اس کی کئی باتوں پر عمل بھی نہیں کرتے تھے۔ انہیں میں سے ایک حکم رجم بھی تھا جو ان کی کتاب میں شادی شدہ زانیوں کے لئے تھا اور اب بھی وہ موجود ہے لیکن وہ چونکہ اس سزا سے بچنا چاہتے تھے اس لئے آپس میں فیصلہ کیا کہ محمد کے پاس چلتے ہیں اگر انہوں نے ہمارے ایجاد کردہ طریقہ کے مطابق کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا کا کہا تو مان لیں گے اور اگر رجم کا فیصلہ دیا تو نہیں مانیں گے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ یہودی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کی بابت کیا ہے؟ انہوں نے تورات میں زنا کی سزا کوڑے مارنا اور رسوا کرنا ہے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، جاؤ تورات لاؤ تورات لا کر وہ پڑھنے لگے تو آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنے لگ گئے حضرت عبد اللہ بن السلام نے کہا یہاں سے ہاتھ ہٹاؤ تو وہ آیت وہاں موجود تھی۔ بالاخر انہیں اعتراف کرنا پڑا۔ چنانچہ دونوں زانیوں کو سنگسار کردیا (ابن کثیر)۔ ایک دوسرا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ یہود کا ایک قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے یہودی قبیلے سے زیادہ معزز اور محترم سمجھتا تھا اور اسی کے مطابق اپنے مقتول کی دیت سو وسق اور دوسرے قبیلے کے مقتول کی پچاس وسق مقرر کر رکھی۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو یہود کے دوسرے قبیلے کو کچھ حوصلہ ہوا جس کے مقتول کی دیت نصف تھی اور اس نے دیت سو وسق دینے سے انکار کردیا۔ قریب تھا کہ ان کے درمیان اس مسئلے پر لڑائی چھڑ جاتی، لیکن ان کے سمجھدار لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کرانے پر رضامند ہوگئے اس موقعے پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں سے ایک آیت میں قصاص میں برابری کا حکم دیا گیا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں ممکن ہے دونوں سبب ایک ہی وقت میں جمع ہوگئے ہوں اور ان سب کے لیے ان آیات کا نزول ہوا ہو۔ (ابن کثیر) المآئدہ
42 ٤٢۔ ١ سَمَّاعُوْن کے معنی ہیں بہت سننے والا اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لئے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لئے سننا، بعض مفسرینن نے پہلے معنی مراد لئے ہیں اور بعض نے دوسرے۔ المآئدہ
43 المآئدہ
44 ٤٤۔ ١ (لِلَّذیْنَ ھَادوْ ا) اس کا تعلق یَحُکْمُ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔ ٤٤۔ ٢ اَ سْلَمُوْا یہ نبِیِّنّّ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید و اخلاص پیش کی۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) 021:025 ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم سب میری ہی عبادت کرو"۔ اسی کو قرآن میں الدین بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۃ شوریٰ کی آیت (شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا) 042:013 میں کہا گیا ہے جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لیے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیا کے لیے کیا تھا۔ ٤٤۔ ٣ چنانچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔ ٤٤۔ ٤ کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ ٤٤۔ ٥ یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے ان میں رد وبدل کرو۔ ٤٤۔ ٦ پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہوگئے ہو؟ المآئدہ
45 ٤٥۔ ١ جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنو نفیر) کا دوسرے قبیلے (بنو قرظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بنسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔ ٤٥۔ ٢ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے میں مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الہی کو اپنائے اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الہی میں ظالم متصور ہوگا فاسق متصور ہوگا اور کافر متصور ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے تینوں لفظ استعمال کر کے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بد قسمتی کیا ہوگی؟ المآئدہ
46 ٤٦۔ ١ یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، نہ کہ اس کو جھٹلانے والے تھے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب (جھٹلایا) کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص و اہانت کی (کفر کا فتویٰ دے کر رسوا کیا) ٤٦۔ ٢ یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات و انجیل اور دیگر کتب آسمانی پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت و نجات کا ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا، یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح اور کامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا سرخرو رہے گا جو کٹ گیا ناکامی ونامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ "وحدت ادیان" کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی۔ اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہوگیا تو انجیل منسوخ ہوگئی۔ انجیل پر عمل کرنا بالکل جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لیے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمد علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کو تسلیم کئے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ بقرہ آیت ٢٦ کا حاشیہ۔ المآئدہ
47 ٤٧۔ ١ اہل انجیل کو یہ حکم اس وقت تھا جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا زمانہ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دور نبوت بھی ختم ہوگیا۔ اور انجیل کی پیروی کا حکم بھی۔ اب ایماندار وہی سمجھا جائے گا جو رسالت محمدیہ پر ایمان لائے گا اور قرآن کریم کی پیروی کرے گا۔ المآئدہ
48 ٤٨۔ ١ ہر آسمانی کتاب اپنے سے ما قبل کتاب کی مصدق رہی ہے جس طرح قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُھَیْمِنْ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف اور تغیر (یعنی کاٹ چھانٹ اور تبدیلی) بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے۔ ٤٨۔ ٢ اس سے پہلے آیت نمبر ٤٢ میں نبی کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں۔ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے، کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کریم کے مطابق فیصلے فرمائیں۔ ٤٨۔ ٣ یہ دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آرا یا ان کی خود ساختہ مزعومات و افکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے، جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ ٤٨۔ ٤ اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں جن کے بعض احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تو دوسری میں حلال تھیں، بعض میں کسی مسئلے میں تشدید تھی اور دوسرے میں تخفیف، لیکن دین سب کا ایک یعنی توحید پر مبنی تھا۔ اس لئے سب کی دعوت ایک ہی تھی۔ اس مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے "نحن معاشر الانبیاء اخوۃ لعلات، دیننا واحد"ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں۔ ہمارا دین ایک ہے" علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں باپ ایک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں مختلف تھیں۔ لیکن شریعت محمدیہ کے بعد اب ساری شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں ہیں اور اب دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ ٤٨۔ ٥ یعنی نزول قرآن کے بعد اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے۔ لیکن اس راہ نجات کو اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا، لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی، جب کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ المآئدہ
49 المآئدہ
50 ٥٠۔ ١ اب قرآن اور اسلام کے سوا، سب جاہلیت ہے، کیا یہ اب بھی روشنی اور ہدایت (اسلام) کو چھوڑ کر جاہلیت ہی کے متلاشی اور اور طالب ہیں؟ یہ استفہام، انکار اور توبیخ کے لئے ہے اور ' فا ' لفظ مقدر پر عطف ہے اور معنی ہیں ( یعرضون من حکمک بما انزل اللہ علیک ویتولون عنہ، یبتغون حکم الجاہلیۃ) تیرے اس فیصلے سے جو اللہ نے تجھ پر نازل کیا ہے یہ اعراض کرتے اور پیٹھ پھیرتے ہیں اور جاہلیت کے طریقوں کے متلاشی ہیں (فتح القدیر) ٥٠۔ ٢ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا 'اللہ کہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی ہو اور ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ہو۔ المآئدہ
51 ٥١۔ ١ اس میں یہود اور نصاریٰ سے موالات و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی گئی جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے سمجھا جائے گا۔ (مزید دیکھئے سورۃ آل عمران آیت ٢٨ اور آیت ١١٨ کا حاشیہ) ٥١۔ ٢ قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض و عناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔ ٥١۔ ٣ ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری (رض) اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبد اللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لئے گئے، جس پر حضرت عبادہ (رض) نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کردیا۔ لیکن عبد اللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ المآئدہ
52 ٥٢۔ ١ اس سے مراد نفاق ہے۔ یعنی منافقین یہودیوں سے محبت اور دوستی میں جلدی کر رہے ہیں۔ ٥٢۔ ٢ یعنی مسلمانوں کو شکست ہوجائے اور اس کی وجہ سے ہمیں بھی کچھ نقصان اٹھانا پڑے۔ یہودیوں میں دوستی ہوگی تو ایسے موقع پر ہمارے بڑے کام آئے گی۔ ٥٢۔ ٣ یعنی مسلمانوں کو۔ ٥٢۔ ٤ یہود ونصاریٰ پر جزیہ عائد کر دے یہ اشارہ ہے جو بنو قریظ کے قتل اور ان کی اولاد کے قیدی بنانے اور بنو نضیر کی جلا وطنی وغیرہ کی طرف، جس کا وقوع مستقبل قریب میں ہی ہوا۔ المآئدہ
53 المآئدہ
54 ٥٤۔ ١ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا واقعہ نبی کریم کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنہ مرتد کے خاتمے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق (رض) اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ ٥٤۔ ٢ مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں، ١۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا ٢۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا ٣۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، ٤۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔ ٥٤۔ ٣ یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں داری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہوجائے ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اسی لئے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔ المآئدہ
55 ٥٥۔ ١ جب یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا گیا تو اب سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ پھر وہ دوستی کن سے کریں؟ فرمایا کہ اہل ایمان کے دوست سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ہیں اور پھر ان کے ماننے والے اہل ایمان ہیں۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔ المآئدہ
56 ٥٦۔ ١ یہ حزب اللہ ہے (اللہ کی جماعت) کی نشاندہی اور اس کے غلبے کی نوید سنائی جا رہی ہیں۔ حزب اللہ وہی ہے جس کا تعلق صرف اللہ، رسول اور مومنین سے ہو اور کافروں، مشرکوں اور یہود ونصاریٰ سے چاہے وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہوں، وہ محبت و معاملات کا تعلق نہ رکھیں۔ جیسا کہ سورۃ مجادلہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ "تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہوں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، ان کے بیٹے ہوں، ان کے بھائی ہوں یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں، پھر خوشخبری دی گئی کہ "یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جنہیں اللہ کی مدد حاصل ہے، انہیں ہی اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا۔۔ اور یہی حزب اللہ ہے، کامیابی جس کا مقدر ہے المآئدہ
57 ٥٧۔ ١ اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہئے۔ المآئدہ
58 ٥٨۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو پاد مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے، جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہوتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے، شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لئے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث رسول بھی قرآن کی دین کا ماخذ اور اسی طرح حجت ہے۔ کیونکہ قرآن نے نماز کے لئے ' ندا ' کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ ' ندا 'کس طرح دی جائے گی؟ اس کے الفاظ کیا ہوں گے؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے۔ یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں، جو اس کی حجیت اور ماخذ دین ہونے پر دلیل ہیں۔ حجت حدیث کا مطلب : حدیث کے ماخذ دین اور حجت شرعیہ ہونے کا مطلب ہے، کہ جس طرح قرآن سے ثابت ہونے والے احکام و فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ اس طرح حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہونے والے احکام کا ماننا بھی فرض ہے، ان پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ صحیح حدیث چاہے متواتر ہو یا آحاد، قولی ہو، فعلی ہو یا تقریری۔ یہ سب قابل عمل ہیں۔ حدیث کا خبر واحد کی بنیاد پر یا قرآن سے زائد ہونے کی بنیاد پر یا ائمہ کے قیاس واجتہاد کی بنیاد پر یا راوی کی عدم فقاہت کے دعویٰ کی بنیاد پر یا عقلی استحالے کی بنیاد پر یا اسی قسم کے دیگر دعوؤں کی بنیاد پر، رد کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ سب حدیث سے اعراض کی مختلف صورتیں ہیں۔ المآئدہ
59 المآئدہ
60 ٦٠۔ ١ یعنی تم تو (اے اہل کتاب!) ہم سے یوں ناراض ہو جب کہ ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اللہ پر اور قرآن کریم اور اس سے قبل اتاری گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، کیا یہ بھی کوئی قصور یا عیب ہے؟ یعنی یہ عیب اور مذمت والی بات نہیں جیسا کہ تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ استشناء منقطع ہے۔ البتہ ہم تمہیں بتلاتے ہیں کہ یہ بدترین لوگ ہیں اور گمراہ ترین لوگ، جو نفرت اور مذمت کے قابل ہیں، کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کا غضب ہوا جن میں سے بعض اللہ تعالیٰ نے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی پوجا کی۔ اور اس آئینے میں تم اپنا چہرا اور کردار دیکھ لو! کہ یہ کن کی تاریخ ہے اور کون لوگ ہیں؟ کیا یہ تم ہی نہیں ہو؟ المآئدہ
61 ٦١۔ ١ یہ منافقین کا ذکر ہے جو نبی کی خدمت میں کفر کے ساتھ ہی آتے ہیں اور اسی کفر کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اور آپ کے واعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ دل میں تو کفر چھپا ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری سے مقصد ہدایت کا حصول نہیں، بلکہ دھوکہ اور فریب دینا ہوتا ہے، تو پھر ایسی حاضری سے فائدہ بھی کیا ہوسکتا ہے؟ المآئدہ
62 المآئدہ
63 ٦٣۔ ١ یہ علماء و مشائخ دین اور عباد و زہاد پر نکیر ہے کہ عوام کی اکثریت تمہارے سامنے بدکاری اور حرام خوری کا ارتکاب کرتی ہے لیکن تم انہیں منع نہیں کرتے ایسے حالات میں تمہاری یہ خاموشی بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتنی اہمیت ہے اور اس کے ترک پر کتنی سخت وعید (سزا) کی گئی ہے۔ احادیث میں بھی یہ مضمون وضاحت اور کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ المآئدہ
64 ٦٤۔ ١ یہ وہی بات ہے جو سورۃ آل عمران کی آیت ١٨١ میں کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب اور اسے اللہ کو قرض حسن دینے سے تعبیر کیا تو ان یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے ' لوگوں سے قرض مانگ رہا ہے اور وہ تعبیر کے اس حسن کو نہ سمجھ سکے جو اس میں پنہاں تھا۔ یعنی سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا، کوئی قرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اس کی کمال مہربانی ہے کہ وہ اس پر بھی خوب اجر عطا فرماتا ہے حتٰی کہ ایک ایک دانے کو سات سات سو دانے تک بڑاھا دیتا ہے۔ اور اسے قرض حسن سے اسی لیے تعبیر فرمایا کہ جتنا تم خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس سے کئی گنا تمہیں واپس لوٹائے گا۔ مغلولۃ کے معنی بخیلۃ (بخل والے کیے گئے۔ یعنی یہود کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اللہ کے ہاتھ واقعتاً بندھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ہاتھ تو انہی کے بندھے ہوئے ہیں یعنی بخیلی انہی کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے۔ خرچ کرتا ہے۔ وہ واسع الفضل اور جزیل العطاء ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ نیز اس نے اپنی مخلوقات کے لیے تمام حاجات وضروریات کا انتظام کیا ہوا ہے، ہمیں رات یا دن کو، سفر میں اور حضر میں اور دیگر تمام احوال میں جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، سب وہی مہیا کرتا ہے۔ (وَاٰتٰیکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ) 014:034"تم نے جو کچھ اس سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ تم گن نہیں سکتے انسان ہی نادان اور نہایت نہ شکرا ہے، حدیث میں بھی ہے نبی نے فرمایا کہ اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا ہے لیکن کوئی کمی نہیں آتی، ذرا دیکھو تو، جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کئے ہیں وہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی۔ ٦٤۔ ٢ یعنی یہ جب بھی آپ کے خلاف کوئی سازش کرتے ہیں یا لڑائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو باطل کردیتا ہے اور ان کی سازش کو انہی پر الٹا دیتا ہے۔ اور ان کو "چاہ کن را چاہ درپیش" کی سی صورت حال سے دوچار کردیتا ہے" ٦٤۔ ٣ ان کی عادت ثانیہ ہے کہ ہمیشہ زمین میں فساد پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتا المآئدہ
65 ٦٥۔ ١ یعنی وہ ایمان، جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے، ان میں سب سے اہم محمد رسول اللہ کی رسالت پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ ان پر نازل شدہ کتابوں میں بھی ان کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ واتقوا اور اللہ کی معاصی سے بچتے جن میں سب سے اہم وہ شرک ہے جس میں وہ مبتلا ہیں اور وہ جحود ہے جو آخری رسول کے ساتھ وہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ المآئدہ
66 ٦٦۔ ١ تورات اور انجیل کے پابند رہنے کا مطلب، ان کے ان حکام کی پابندی ہے جو ان میں انہیں دئے گئے، اور انہی میں ایک حکم آخری نبی پر ایمان لانا بھی تھا۔ اور وَمَا اُنزِ لَ سے مراد تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا ہے جن میں قرآن کریم بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے یہ اسلام قبول کرلیتے۔ ٦٦۔ ٢ اوپر نیچے کا ذکر یا بطور مبالغہ ہے، یعنی کثرت سے اور انواع واقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا ہے۔ یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ضرورت خوب بارش برساتا ہے اور ' نیچے سے مراد ' زمین ہے۔ یعنی زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کر کے خوب پیداوار دیتی۔ نتیجتًا شادابی اور خوش حالی کا دور دورہ ہوجاتا اور فصلوں سے پیدوار حاصل ہوتی۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا "اگر بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے تقوی اختیار کیا ہوتا تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے۔ ٦٦۔ ٣ لیکن ان کی اکثریت نے ایمان کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ اپنے کفر پر مصر اور رسالت محمدی سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ اسی اصرار اور انکار کو یہاں برے اعمال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ درمیانہ روش کی ایک جماعت سے مراد عبد اللہ بن سلام جیسے ٨۔ ٩ افراد ہیں جو یہود مدینہ میں سے مسلمان ہوئے۔ المآئدہ
67 ٦٧۔ ١ اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے، بلا کم و کاست اور بلا خوف ملامت۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ـ' تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟ انہوں نے کہا (ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کردیا اور خیر خواہی فرما دی۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اللّھُمّ ھَلْ بَلّغتُ (تین مرتبہ) یا اللّھُم ّفَاشْھَدُ (تین مرتبہ) صحیح مسلم کتاب حج ' یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ ' ٦٧۔ ٢ یہ حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوجاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی ہیبت و عظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعے سے اللہ نے وقتًا فوقتًا یہودیوں کے مکر و کید سے مطلع فرما کر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پر خطرناک حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔ المآئدہ
68 ٦٨۔ ١ یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال و اشیاء سے اہل ایمان کے ایمان و تصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر و طغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے ــ' فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں (بہرا پن) ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے '"اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے"(القرآن)۔ المآئدہ
69 ٦٩۔ ١ یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ بقرہ کی آیت ٦٢ میں بیان ہوا ہے، اسے دیکھ لیا جائے۔ المآئدہ
70 المآئدہ
71 ٧١۔ ١ یعنی سمجھے تھے کہ کوئی سزا نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ اصول الٰہی کے مطابق یہ سزا ہوئی کہ یہ حق کے دیکھنے سے مزید اندھے اور حق کے سننے سے مزید بہرے ہوگئے اور توبہ کے بعد پھر یہی عمل انہوں نے دہرایا ہے تو اس کی وہی سزا بھی دوبارہ مرتب ہوئی۔ المآئدہ
72 ٧٢۔ ١ یہی مضمون آیت نمبر ١٧ میں بھی گزر چکا ہے۔ یہاں اہل کتاب کی گمراہیوں کے ذکر میں اس کا پھر ذکر فرمایا۔ اس میں ان کے اس فرقے کے کفر کا اظہار ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عین اللہ ہونے کے قائل ہیں۔ ٧٢۔ ٢ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یعنی مسیح ابن مریم نے عالم شیر خوارگی میں سب سے پہلے اپنی زبان سے اپنی عبودیت ہی کا اظہار فرمایا، "انی عبد اللہ اٰتنی الکتاب وجعلنی نبیا" (میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں مجھے اس نے کتاب بھی عطا کی ہے) حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں۔ صرف یہ کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور عمر کہولت میں بھی انہوں نے یہی دعوت دی "ان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ھذا صراط مستقیم" یہ وہی الفاظ ہیں جو ماں کی گود میں بھی کہے تھے (ملاحظہ ہو سورۃ مریم، آیت ٣٦) اور جب قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جس کی خبر صحیح احادیث میں دی گئی ہے اور جس پر اہل سنت کا اجماع ہے، تب بھی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت کی طرف ہی بلائیں گے، نہ کہ اپنی عبادت کی طرف۔ ٧٢۔ ٣ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اپنی بندگی اور رسالت کا اظہار اللہ کے حکم اور مشیت سے اس وقت بھی فرمایا تھا جب وہ ماں کی گود میں یعنی شیر خوارگی کی حالت میں تھے۔ پھر سن کہولت میں یہ اعلان فرمایا۔ اور ساتھ ہی شرک کی شناعت وقباحت بھی بیان فرما دی کہ مشرک پر جنت حرام ہے اور اس کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا جو اسے جہنم سے نکال لائے جیسا کہ مشرکین سمجھتے ہیں۔ المآئدہ
73 ٧٣۔ ١ یہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا ذکر ہے جو تین خداؤں کا قائل ہے، جن کو وہ اقانیم ثلاثہ کہتے ہیں۔ ان کی تعبیر وتشریح میں اگرچہ خود ان کے مابین اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ، انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی اللہ قرار دے لیا، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھے گا۔ "ءانت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ" (کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟) (المائدۃ١١٢) اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ اور مریم علیہما السلام ان دونوں کو عیسائیوں نے اللہ بنایا، اور اللہ تیسرا اللہ ہوا، جو ثالث ثلاثہ (تین میں کا تیسرا) کہلایا پہلے عقیدے کی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بھی کفر سے تعبیر فرمایا۔ المآئدہ
74 المآئدہ
75 ٧٥۔ ١ صِدِّ یْقَۃُ کے معنی مومنہ اور ولیہ کے ہیں یعنی وہ بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں اور ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے تھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ (پیغمبر) نہیں تھیں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے اور انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام سمیت، حضرت سارہ (ام اسحاق علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بھی پیغمبر قرار دیا ہے، قرآن نے صراحت کی ہے کہ ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ مرد تھے (سورہ یوسف۔ ١٠٩)۔ ٧٥۔ ٢ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت مریم علیہا السلام دونوں کی الوہیت کی نفی اور بشریت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کھانا پینا، یہ انسانی حوائج وضروریات میں سے ہے۔ جو الٰہ ہو، وہ تو ان چیزوں سے ماوراء بلکہ وراء الوراء ہوتا ہے۔ المآئدہ
76 ٧٦۔ ١ یہ مشرکوں کی کم عقلی کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایسوں کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ نقصان پہنچانا تو کجا، وہ تو کسی کی بات سننے اور کسی کا حال جاننے کی ہی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ قدرت صرف اللہ ہی کے اندر ہے۔ اس لئے حاجت روا مشکل کشا بھی صرف وہی ہے۔ المآئدہ
77 ٧٧۔ ١ یعنی اتباع حق میں حد سے تجاور نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، اس میں مبالغہ کر کے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الویت پر فائز مت کرو، جیسے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معاملے میں تم نے کیا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمرہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت اور محبت ہوتی ہے، وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے، بد قسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ انہوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتٰی کہ ان کی طرف منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔ ٧٧۔ ٢ یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت لگو جو ایک نبی کو اللہ بنا کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ المآئدہ
78 ٧٨۔ ١ یعنی زبور میں جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔ ٧٨۔ ٢ یہ لعنت کے اسباب ہیں۔ ١۔ عصیان۔ یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کر کے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔ ٢۔ اور اعتداء، یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کر کے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔ المآئدہ
79 ٧٩۔ ١ وہ ایک دوسرے کو برائی سے روکتے نہیں تھے جو بجائے خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ بعض مفسرین نے اسی ترک نہی کو عصیان اور اعتدا قرار دیا ہے جو لعنت کا سبب بنا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا، بہت بڑا جرم اور لعنت غضب الہی کا سبب ہے۔ حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا، اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ لیکن دوسرے روز پھر اسی کے ساتھ اسے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، (یعنی اس کا ہم نوالہ وہ ہم پیالہ وہم نشین بن جاتا) درآں حالیکہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہی کے مستحق قرار پائے۔ پھر فرمایا کہ "اللہ کی قسم! تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو" ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا کرو"(ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں اس فریضے کے ترک پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ تم عذاب الہی کے مستحق بن جاؤ گے۔ پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہیں ہوں گی۔ (مسند احمد جلد ٥۔ ص ٣٨٨) المآئدہ
80 ٨٠۔ ١ یہ اہل کفر سے دوستانہ تعلق کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا اور اسی نارضگی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ المآئدہ
81 ٨١۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر صحیح معنوں میں ایمان ہوگا، وہ کافروں سے کبھی دوستی نہیں کرے گا۔ المآئدہ
82 ٨٢۔ ١ اس لئے کہ یہودیوں کے اندر عناد و جحود، حق سے اعراض و استکبار اور اہل علم و ایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کا قتل اور ان کی تکذیب ان کا شعار رہا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ کے قتل کی بھی کئی مرتبہ سازش کی، آپ پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم سعی کی۔ اور اس معاملہ میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔ ٨٢۔ ٢ رُھْبَانُ سے مراد نیک، عبادت گزار اور گوشہ نشین لوگ قَسِّیْسِیْنَ سے مراد علما وخطبا ہیں، یعنی ان عیسائیوں میں علم وتواضع ہے، اس لئے ان میں یہودیوں کی طرح حجود و استکبار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین مسیح میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو بایاں رخسار بھی ان کو پیش کر دو۔ یعنی لڑو مت۔ ان وجوہ سے یہ مسلمان کے، بہ نسبت یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عیسائیوں کا وصف یہودیوں کے مقابلے میں ہے، تاہم جہاں تک اسلام دشمنی کا تعلق ہے، کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ، اسلام کے خلاف یہ عناد عیسائیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب و ہلال کی صدیوں پر محیط معرکہ آرائی سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اور اب تو اسلام کے خلاف یہودی اور عیسائی دونوں ہی مل کر سرگرم عمل ہیں۔ اسی لئے قرآن نے دونوں سے دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ المآئدہ
83 المآئدہ
84 ٨٤۔ ١ حبشے میں، جہاں مسلمان مکی زندگی میں دو مرتبہ ہجرت کر کے گئے۔ اصحمۃ نجاشی کی حکوت تھی، یہ عیسائی مملکت تھی، یہ آیات حبشے میں رہنے والے عیسائیوں کے بارے میں ہی نازل ہوئیں ہیں تاہم روایات کی رو سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ علیہ کو اپنا مکتوب دیکر نجاشی کے پاس بھیجا تھا، جو انہوں نے جاکر سنایا، نجاشی نے وہ مکتوب سن کر حبشے میں موجود مہاجرین اور حضرت جعفر بن ابی طالب کو اپنے پاس بلایا اور اپنے علماء اور عباد و زباد کو بھی جمع کرلیا پھر حضرت جعفر کو قرآن پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت جعفر نے سورۃ مریم پڑھی جس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اعجازی ولادت اور ان کی عبدیت و رسالت کا ذکر ہے جسے سن کر وہ بڑے متاثر ہوئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور ایمان لے آئے۔ بعض کہتے ہیں کہ نجاشی نے اپنے کچھ علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایمان لے آئے (فتح القدیر) آیات میں قرآن سن کر ان پر جو اثر ہوا اس کا نقشہ کھیینچا گیا ہے اور ان کے ایمان لانے کا تذکرہ ہے قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر اس قسم کے عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے مثلا (وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم خاشعین للہ (سورہ آل عمران) یقینا اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے آگے عاجزی کرتے ہیں وغیرھا من الآیات اور حدیث میں آتا ہے کہ جب نجاشی کی موت کی خبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ نے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ حبشہ میں تمہارے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اس کی نماز جنازہ پڑھو چنانچہ ایک صحرا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ غائبانہ ادا فرائی (صحیح بخاری مناقب الانصار کتاب الجنائز۔ صحیح مسلم، کتاب الجنائز) ایک اور حدیث میں ایسے اہل کتاب کی بابت جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لائے بتلایا گیا ہے کہ انہیں دو گنا اجر ملے گا بخاری۔ کتاب العلم و کتاب النکاح) المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 ٨٧۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر کہا کہ یارسول اللہ! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہوجاتا ہے، اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کرلیا ہے، جس پر آیت نازل ہوئی، اس طرح سبب نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ زہد و عبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے (مثلًا عورت سے نکاح کرنے، رات کے وقت سونے، دن کے وقت کھانے پینے سے) اجتناب کرنا چاہتے تھے۔ نبی کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں منع فرمایا۔ حضرت عثمان بن مظعون نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی، ان کی بیوی کی شکایت پر آپ نے انہیں بھی روکا (کتب حدیث) بہرحال اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کرلینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا مشروبات سے ہو یا لباس سے ہو یا مرغوبات و جائز خواہشات سے۔ مسئلہ :۔ اس طرح اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی سوائے عورت کے البتہ اس صورت میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو بھی کفارہ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام کرلینا یہ قسم کھانے کے مرتبے میں ہے جو تکفیر یعنی کفارہ ادا کرنے کا متقاضی ہے لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ کی موجودگی میں محل نظر ہے۔ فالصحیح ما قالہ الشوکانی المآئدہ
88 المآئدہ
89 ٨٩۔ ١ قَسَمٌ جس کو عربی میں حَلْفٌ یا یَمِیْنٌ کہتے ہیں جن کی جمع اَحْلَافٌ اور ایمان ہے۔ تین قسم کی ہیں۔ ١۔ لَغْوٌ ٢۔ غَمُوْسٌ، ٣۔ مُعَقَّدَۃٌ . لَغْوٌ: وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادتًا بغیر ارادے اور نیت کے کھاتا رہتا ہے۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں.غَمُوْسٌ: وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے۔ یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے۔ لیکن اس پر کفارہ نہیں. مُعَقَّدَۃٌ: وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے اراداۃً نیۃً کھائے، ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔ ٨٩۔ ٢ اس کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں اس لئے اختلاف ہے۔ البتہ امام شافعی نے اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے، جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے، ایک مد (تقریبًا ٠ ١ چھٹانک) فی مسکین خوراک قرار دی ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو کفارہ جماع ادا کرنے کے لئے ١٥ صاع کھجوریں دی تھیں، جنہیں ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کرنا تھا، ایک صاع میں ٤ من ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لئے دس مد (یعنی سوا سیر یا چھ کلو) خوراک کفارہ ہوگی۔ (ابن کثیر) ٨٩۔ ٣ لباس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بظاہر مراد جوڑا ہے جس میں انسان نماز پڑھ سکے۔ بعض علماء خوراک اور لباس دونوں کے لئے عرف کو معتبر قرار دیتے ہیں (حاشیہ ابن کثیر، تحت آیت زیر بحث ) ٨٩۔ ٤ بعض علماء قتل خطا کی دیت پر قیاس کرتے ہوئے لونڈی، غلام کے لئے ایمان کی شرط عائد کرتے ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں، آیت میں عموم ہے مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔ ٨٩۔ ٥ یعنی جس کو مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے، یہ روزے اس کی قسم کا کفارہ ہوجائیں گے۔ بعض علماء پے درپے روزے رکھنے کے قائل ہیں۔ اور بعض کے نزدیک دونوں طرح جائز ہیں۔ المآئدہ
90 ٩٠۔ ١ یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔ لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ جوا پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال کے تیروں کو رجس (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کرکے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آجاؤ گے یا نہیں؟ جس مقصود اہل ایمان کی آزمائش ہے۔ چنانچہ، جو اہل ایمان تھے وہ تو منشائے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہوگئے اور کہا اُنْتَھَیْنَا رَبَّنَا! اے رب ہم باز آگئے، لیکن آجکل کے بعض "دانشور" کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے؟ (برین عقل و دانش بباید گریست)۔ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا نیز اس اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا ان مجتہدین کے نزدیک حرمت کے لئے کافی نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک پلید کام بھی جائز ہے شیطانی کام بھی جائز ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ اجتناب کا حکم دے وہ بھی جائز ہے اور جس کی بابت کہے کہ اس کا ارتکاب عدم فلاح اور اس کا ترک فلاح کا باعث ہے وہ بھی جائز ہے (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ١٥٦؁ۭ) 002:156 المآئدہ
91 ٩١۔ ١ یہ شراب اور جوا کے مزید معاشرتی اور دینی نقصانات ہیں، جو محتاج وضاحت نہیں ہیں۔ اس لئے شراب کو ام الخبائث کہا جاتا ہے اور جوا بھی ایسی بری لت ہے کہ یہ انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی اور بسا اوقات رئیس زادوں اور خاندانی جاگیر داروں کو مفلس و قلاش بنا دیتی ہے اَ عَا ذَنَا اللّٰہُ مِنْھُمَا۔ المآئدہ
92 المآئدہ
93 ٩٣۔ ١ حرمت شراب کے بعد بعض صحابہ (رض) کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمارے کئی ساتھی جنگوں میں شہید یا ویسے ہی فوت ہوگئے۔ جب کہ وہ شراب پیتے رہے ہیں۔ تو اس آیت میں اس شبہ کا ازالہ کردیا گیا کہ ان کا خاتمہ ایمان و تقویٰ پر ہی ہوا ہے کیونکہ شراب اس وقت تک حرام نہیں ہوئی تھی۔ المآئدہ
94 ٩٤۔ ١ شکار عربوں کی معاش کا ایک اہم عنصر تھا، اس لئے حالت احرام میں اس کی ممانعت کر کے ان کا امتحان لیا گیا۔ خاص طور پر حدیبیہ میں قیام کے دوران کثرت سے شکار صحابہ کے قریب آتے، لیکن انہی ایام میں ٤ آیات کا نزول ہوا جن کے متعلقہ احکام بیان فرمائے گئے۔ ٩٤۔ ٢ قریب کا شکار یا چھوٹے جانور عام طور پر ہاتھ ہی سے پکڑ لئے جاتے تھے دور کے یا بڑے جانوروں کے لئے تیر اور نیزے استعمال ہوتے تھے۔ اس لئے صرف ان دونوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ جس طرح بھی اور جس چیز سے بھی شکار کیا جائے، احرام کی حالت میں ممنوع ہے۔ المآئدہ
95 ٩٥۔ ١ امام شافعی نے اس سے مراد، صرف ان جانوروں کا قتل لیا ہے جو ماکول اللحم ہیں یعنی جو کھانے کے کام آتے ہیں۔ دوسرے برے جانوروں کا قتل وہ جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر علماء کے نزدیک اس میں کوئی تفریق نہیں۔ البتہ ان موذی جانوروں کا قتل جائز ہے جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور وہ پانچ ہیں کوا، چیل، بچھو، چوہا اور باؤلا کتا (صحیح مسلم) حضرت نافع سے سانپ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اس کے قتل میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ (ابن کثیر) اور امام احمد اور امام مالک اور دیگر علماء نے بھیڑیئے، درندے، چیتے اور شیر کو کلب عقور میں شامل کر کے حالت احرام میں ان کے قتل کی بھی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر ) ٩٥۔ ٢. "جان بوجھ کر" کے الفاظ سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ بغیر ارادہ کے معنی بھول کر قتل کر دے تو اس کے لئے فدیہ نہیں ہے۔ لیکن زیادہ علماء کے نزدیک بھول کر، یا غلطی سے بھی قتل ہوجائے تو فدیہ واجب ہوگا۔ مُتَعَمِّدًا کی قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط نہیں ہے۔ ٩٥۔ ٣ مساوی جانور (یا اس جیسے جانور) سے مراد خلقت قدو قامت میں مساوی ہونا ہے۔ قیمت میں مساوی ہونا نہیں ہے۔ مثلًا اگر ہرن کو قتل کیا گیا تو اس کی شکل (مساوی) بکری ہے، گائے کی مثل نیل گائے ہے وغیرہ۔ البتہ جس جانور کا مثل نہ مل سکتا ہو، وہاں اس کی قیمت بطور فدیہ لے کر مکہ پہنچا دی جائے۔ ٩٥۔ ٤ کہ مقتول جانور کی مثل (مساوی) فلاں جانور ہے اور اگر وہ غیر مثلی ہے یا مثل دستیاب نہیں ہے تو اس کی اتنی قیمت ہے۔ اس قیمت سے غلہ خرید کر مکہ کے مساکین میں فی مسکین ایک مد کے حساب سے تقسیم کردیا جائے گا۔ احناف کے نزدیک فی مسکین دو مد ہیں۔ ٩٥۔ ٥ یہ فدیہ، جانور یا اس کی قیمت، کعبہ پہنچائی جائے گی اور کعبہ سے مراد حرم ہے۔ (فتح القدیر) یعنی ان کی تقسیم حرم مکہ کی حدود میں رہنے والے مساکین پر ہوگی۔ ٩٥۔ ٦ اور یا تخییر کے لئے ہے۔ یعنی کفارہ، اطعام مساکین ہو یا اس کے برابر روزے۔ دونوں میں سے کسی ایک پر عمل کرنا جائز ہے۔ مقتول جانور کے حساب سے طعام میں جس طرح کی کمی بیشی ہوگی، روزوں میں بھی کمی بیشی ہوگی مثلًا محرم (احرام والے) نے ہرن قتل کیا ہے تو اس کی مسل بکری ہے، یہ فدیہ حرم مکہ میں ذبح کیا جائے گا، اگر یہ نہ ملے تو ابن عباس کے ایک قول کے مطابق چھ مساکین کو کھانا یا تین دن کے روزے رکھنے ہونگے، اگر بارہ سنگھا ہے یا اس جیسا کوئی جانور قتل کیا ہے تو اس کی مثل گائے ہے، اگر یہ دستیاب نہ ہو یا اس کی طاقت نہ ہو تو تیس مساکین کو کھانا یا تیس روزے رکھنے ہونگے (ابن کثیر) المآئدہ
96 ٩٦۔ ١ صَیْدُ، سے مراد زندہ جانور اور۔ طعَامُہُ سے مراد وہ مردہ (مچھلی وغیرہ) جسے سمندر یا دریا باہر پھینک دے یا پانی کے اوپر آجائے۔ جس طرح کے حدیث میں وضاحت ہے کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔ (تفصیل ملاحظہ ہو ابن کثیر) المآئدہ
97 ٩٧۔ ١ کعبہ کو البیت الحرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی حدود میں شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح اس میں اگر باپ کے قاتل سے بھی سامنا ہوجاتا تو اس سے بھی تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے قیاما للناس (لوگوں کے قیام اور گزران کا باعث) قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعے سے اہل مکہ کا نظم و انصرام بھی صحیح ہے اور ان کی ضروریات کی فراہمی کا ذریعہ بھی۔ اسی طرح حرمت والے مہینے (رجب، ذوالحجہ اور محرم) اور حرم میں جانے والے جانور ہیں کہ تمام چیزوں سے بھی اہل مکہ مزکورہ فوائد حاصل ہوتے تھے۔ المآئدہ
98 المآئدہ
99 المآئدہ
100 ١٠٠۔ ١ خَبِیْثُ (ناپاک) سے مراد حرام، یا کافر یا گناہ گار یا ردی۔ طیب (پاک) سے مراد حلال، یا مومن یا فرماں بردار اور عمدہ چیز ہے یا یہ سارے ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے جس چیز میں خبث (ناپاکی) ہوگی وہ کفر ہو، فسق و فجور ہو، اشیا و اقوال ہوں، کثرت کے باوجود وہ ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن میں پاکیزگی ہو۔ یہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لئے پلیدی کی وجہ سے اس چیز کی قیمت اور برکت ختم ہوجاتی ہے جب کہ جس چیز میں پاکیزگی ہوگی اس سے اس کی منفعت اور برکت میں اضافہ ہوگا۔ المآئدہ
101 ١٠١۔ ١ یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی صحابہ (رض) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) المآئدہ
102 ١٠٢۔ ١ کہیں اس کوتاہی کے مرتکب تم بھی ہوجاؤ۔ جس طرح ایک مرتبہ نبی نے فرمایا اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص نے سوال کیا ' کیا ہر سال ـ' آپ خاموش رہے، اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا پھر آپ نے فرمایا ' اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہر سال حج کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوتا ' تمہیں جن چیزوں کی بابت نہیں بتایا گیا، تم مجھ سے ان کی بابت سوال مت کرو، اس لئے کہ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف بھی تھا '۔ المآئدہ
103 ١٠٣۔ ١ یہ ان جانوروں کی قسمیں ہیں جو اہل عرب اپنے بتوں کی نذر کردیا کرتے تھے۔ ان کی مختلف تفسریں کی گئی ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب (رض) سے صحیح بخاری میں اس کی تفسیر حسب ذیل نقل کی گئی ہے وہ جانور جس کا دودھ دوہنا چھوڑ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بتوں کے لئے ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اس کے تھنوں کو ہاتھ نہ لگاتا، وہ جانور، جسے بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے اسے نہ سواری کے لئے استعمال کرتے اور نہ بار برداری کے لئے، جس سے پہلی دفعہ مادہ پیدا ہوتی اور اس کے بعد دوبارہ بھی مادہ ہی پیدا ہوتی یعنی ایک مادہ کے بعد دوسری مادہ مل گئی، ان کے درمیان کسی نر سے تفریق نہیں ہوئی، ایسی اونٹنی کو بھی بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے، بتوں کے لئے یہ نذر نیاز پیش کرنے کا سلسلہ آج بھی مشرکوں میں بلکہ بہت سے نام نہاد مسلمانوں میں بھی قائم و جاری ہے۔ المآئدہ
104 المآئدہ
105 ١٠٥۔ ١ بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کر دے گا تو اسکا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا ؟ جب کہ قرآن نے (جب تم خود ہی ہدایت پر چل رہے ہو) کی شرط عائد کی ہے۔ اس لئے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا ' لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو، میں نے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ، جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔ اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔ البتہ ایک صورت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ترک جائز ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اندر اس کی طاقت نہ پائے اور اس سے اس کی جان کو خطرہ ہے اس صورت میں فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان کے تحت اس کی گنجائش ہے آیت بھی اس صورت کی متحمل ہے۔ المآئدہ
106 ١٠٦۔ ١ تم میں سے ہوں کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہوں اور بعض نے کہا ہے (وصیت کرنے والے) کے قبیلے سے ہوں، اسی طرح (آخران من غیرکم) میں دو مفہوم ہونگے۔ یعنی من غیرکم سے مراد یا غیر مسلم اہل کتاب ہوں گے یا موصی کے قبیلے کے علاوہ کسی اور قبیلے سے۔ ١٠٦۔ ٢ یعنی سفر میں کوئی ایسا شدید بیمار ہوجائے کہ جسے زندہ بچنے کی امید نہ ہو تو وہ سفر میں دو عادل گواہ بنا کر جو وصیت کرنا چاہے، کر دے۔ ١٠٦۔ ٣ یعنی مرنے والے موصی کے ورثا کو شک پڑجائے کہ ان اوصیا نے مال میں خیانت یا تبدیلی کی ہے تو نماز کے بعد یعنی لوگوں کی موجودگی میں ان سے قسم لیں اور وہ قسم کھا کے کہیں ہم اپنی قسم کے عوض دنیا کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ یعنی جھوٹی قسم نہیں کھا رہے۔ المآئدہ
107 ١٠٧۔ ١ یعنی جھوٹی قسمیں کھائیں ہیں۔ ١٠٧۔ ٢ اولیان، اولی کا تثنیہ ہے، مراد ہے میت یعنی موصی (وصیت کرنے والا) کے قریب ترین دو رشتے دار من الذین استحق علیہم کا مطلب یہ ہے جن کے مقابلے پر گناہ کا ارتکاب ہوا تھا یعنی جھوٹی قسم کا ارتکاب کر کے ان کو ملنے والا مال ہڑپ کرلیا تھا، الاولیان یہ یا تو ھما مبتدا محذوف کی خبر ہے یا یقومان یا آخران کی ضمیر سے بدل ہے۔ یعنی یہ دو قریبی رشتہ دار، ان کی جھوٹی قسموں کے مقابلے میں اپنی قسم دیں گے۔ المآئدہ
108 ١٠٨۔ ١ یہ اس فائدے کا ذکر ہے جو اس حکم میں پنہاں ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اوصیا صحیح صحیح گواہی دیں گے کیونکہ انہیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کاروائیاں خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔ اس واقعہ کی شان نزول میں بدیل بن ابی مریم کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شام تجارت کی غرض سے گئے، وہاں بیمار اور قریب المرگ ہوگئے، ان کے پاس سامان ایک چاندی کا پیالہ تھا جو انہوں نے دو عیسائیوں کے سپرد کر کے اپنے رشتہ داروں تک پہنچانے کی وصیت کردی اور فوت ہوگئے، یہ دونوں وصی جب واپس آئے تو پیالہ تو انہوں نے بیچ کر پیسے آپس میں تقسیم کرلئے اور باقی سامان ورثا کو پہنچا دیا۔ سامان میں ایک رقعہ بھی تھا جس میں سامان کی فہرست تھی جس کی رو سے چاندی کا پیالہ گم تھا، ان سے کہا گیا تو انہوں نے جھوٹی قسم کھالی لیکن بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ پیالہ انہوں نے فلاں صراف کو بیچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان غیر مسلموں کے مقابلے میں قسمیں کھا کر ان سے پیالے کی رقم وصول کی۔ یہ روایت تو سندا ضعیف ہے۔ (ترمذی 3059 بہ تحقیق أحمد شاکر) تاہم ایک دوسری سند سے حضرت ابن عباس سے بھی مختصراً یہ مروی ہے، جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے (صحیح ترندی) المآئدہ
109 ١٠٩۔ ١ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا انبیاء و رسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔ انبیاء کو جتنا کچھ علم ہوتا ہے اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ثانیا ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی آگاہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ علام الغیب وہ ہوتا ہے۔ جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو، نہ کہ کسی کے بتلانے پر اور جس کو بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہو اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہی ہے۔ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین المآئدہ
110 ١١٠۔ ١ اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٨٧ میں گزرا۔ ١١٠۔ ٢ گود میں اسوقت کلام کیا، جب حضرت مریم علیہا السلام اپنے اس نومولود (بچے) کو لے کر اپنی قوم میں آئیں اور انہوں نے اس بچے کو دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور اس کی بابت استفسار کیا تو اللہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ نے شیر خوارگی کے عالم میں کلام کیا اور بڑی عمر میں کلام سے مراد، نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد دعوت تبلیغ ہے۔ ١١٠۔ ٣ اس کی وضاحت سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٤٨ میں گزر چکی ہے۔ ١١٠۔ ٤ ان معجزات کا ذکر بھی مذکورہ سورت کی آیت نمبر ٤٩ میں گزر چکا ہے۔ ١١٠۔ ٥ یہ اشارہ ہے اس سازش کی طرف جو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کرنے اور سولی دینے کے لئے تیار کی تھی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے بچا کر انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ ملاحظہ ہو سورۃ ء آل عمران آیت ٥٤۔ ١١٠۔ ٦ ہر نبی کے مخالفین، آیات الٰہی اور معجزات دیکھ کر انہیں جادو ہی قرار دیتے رہے ہیں، حالانکہ جادو تو شعبدہ بازی کا ایک فن ہے، جس سے انبیاء (علیہ السلام) کو کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں انبیاء کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات قادر مطلق اللہ تبارک وتعالی کی قدرت و طاقت کا مظہر ہوتے تھے کیونکہ وہ اللہ ہی کے حکم سے اور اس کی مشیت و قدرت سے ہوتے تھے کسی نبی کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا اللہ کے حکم اور مشیت کے بغیر کوئی معجزہ صادر کر کے دکھا دیتا اسی لئے یہاں بھی دیکھ لیجئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہر معجزے کے ساتھ اللہ نے چار مرتبہ یہ فرمایا باذنی کہ ہر معجزہ میرے حکم سے ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین مکہ نے مختلف معجزات کے دکھانے کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٩١۔ ٩٣ میں ذکر کی گئی ہے تو اس کے جواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا (سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا) میرا رب پاک ہے یعنی وہ تو اس کمزوری سے پاک ہے کہ وہ یہ چیزیں نہ دکھا سکے وہ تو دکھا سکتا ہے لیکن اس کی حکمت اس کی مقتضی ہے یا نہیں؟ یا کب مقتضی ہوگی؟ اس کا علم اسی کو ہے اور اسی کے مطابق وہ فیصلہ کرتا ہے لیکن میں تو صرف بشر اور رسول ہوں یعنی میرے اندر یہ معجزات دکھانے کی اپنے طور پر طاقت نہیں ہے بہرحال انبیاء کے معجزات کا جادو سے کو‏ئی تعلق نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو جادوگر اس کا توڑ مہیا کرلیتے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے سے ثابت ہے کہ دنیا بھر کے جمع شدہ بڑے بڑے جادوگر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کا توڑ نہ کرسکے اور جب ان کو معجزہ اور جادو کا فرق واضح طور پر معلوم ہوگیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ المآئدہ
111 ١١١۔ ١ حَوَارِیِّیْنَ سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار ہیں جو ان پر ایمان لائے ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد ٢١ بیان کی جاتی ہے۔ وحی سے مراد وہ وحی نہیں ہے جو بذریعہ فرشتہ انبیاء (علیہ السلام) پر نازل ہوتی تھیں بلکہ یہ وحی الہام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کے دلوں میں کردی جاتی تھی، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو اسی قسم کا الہام ہوا جسے قرآن نے وحی سے ہی تعبیر کیا۔ المآئدہ
112 ١١٢۔ ١ مَائِدَۃً ایسے برتن (سینی پلیٹ یا ٹرے وغیرہ) کو کہتے ہیں جس میں کھانا ہو۔ اسی لئے دسترخواں بھی اس کا ترجمہ کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی کھانا چنا ہوتا ہے۔ سورت کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں اس کا ذکر ہے۔ حواریین نے مزید اطمینان قلب کے لیے یہ مطالبہ کیا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتی کے مشاہدے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ ٢١٢۔ ٢ یعنی یہ سوال مت کرو، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش کا سبب بن جائے کیونکہ حسب طلب معجزہ دکھائے جانے کے بعد اس قوم کی طرف سے ایمان میں کمزوری عذاب کا بن سکتی ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اس مطالبے سے روکا اور انہیں اللہ سے ڈرایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے وحی کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم نبی تھیں اس لئے کہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے وحی آ‏ئی تھی صحیح نہیں۔ اس لئے کہ یہ وحی، وحی الہام ہی تھی جیسے یہاں اوحیت الی الحوارین میں ہے یہ وحی رسالت نہیں ہے۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 ١١٤۔ ١ اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بے ہنگم طریقے سے طرب و مسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیسا کہ آجکل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن عید منانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف و تمجید اور تکبیر و تحمید کریں۔ بعض اہل بدعت اس عید مائدہ سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں حالانکہ اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کردی جاتی دوسرے یہ پیغمبر کی زبان سے عید بتانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے تیسرے عید کا مفہوم و مطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے جب کہ عید میلاد میں ان میں سے کو‏‏ئی بات بھی نہیں ہے لہذا عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں۔ المآئدہ
115 ١١٥۔ ١ یہ مَائِدَ ۃً (خوان طعام) آسمان سے اترا یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں۔ اکثر علماء (امام شوکانی اور امام ابن ضریر طبری سمیت) اس کے نزول کے قائل ہیں اور ان کا استدلال قرآن کے الفاظ (اَنَّ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ) سے ہے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو یقینا سچا ہے لیکن اس اللہ کی طرف سے یقینی وعدہ قرار دینا اس لئے صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ اگلے الفاظ فَمَنْ یَّکْفُرْ اس وعدے کو مشروط ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرط سن کر کہ انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جس کے بعد اس کا نزول نہیں ہوا۔ امام ابن کثیر نے ان آثار کی اسانید کو جو امام مجاہد اور حضرت حسن بن بصری سے منقول ہیں صحیح قرار دیا ہے نیز کہا ہے کہ ان آثار کی تائید اس بات سے بھی ہوئی ہے کہ نزول مائدہ کی کوئی شہرت عیسائیوں میں ہے نہ اس کی کتابوں میں درج ہے۔ حالانکہ اگر یہ نازل ہوا ہوتا تو اسے ان کے ہاں مشہور بھی ہونا چاہیے تھا اور کتابوں میں بھی تواتراً ہوتا یا کم از کم آحاد سے نقل ہونا چاہیے تھا۔ المآئدہ
116 ١١٦۔ ١ یہ سوال قیامت والے دن ہوگا اور مقصد اس سے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنالینے والوں کی زجر و توبیخ ہے کہ جن کو تم معبود اور حاجت روا سمجھتے تھے، وہ تو اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی اللہ (معبود) بنالیا ہے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ من دون اللہ اللہ کے سوا معبود وہی نہیں ہیں جنہیں مشرکین نے پتھر یا لکڑی کی مورتیوں کی شکل میں بنا کر ان کی پوجا کی جس طرح کہ آج کل کے قبر پرست علماء اپنے عوام کو یہ باور کرا کے مغالطہ دیتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے نزدیک بندے بھی من دون اللہ میں شامل ہیں جن کی لوگوں نے کسی بھی انداز سے عبادت کی جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم کی عیسائیوں نے کی۔ ١١٦۔ ٢ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کتنے واضح الفاظ میں اپنی بابت علم غیب کی نفی فرما رہے ہیں۔ المآئدہ
117 ١١٧۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے توحید و عبادت رب کی یہ دعوت عالم شیر خوارگی میں بھی دی، جیسا کہ سورۃ مریم میں ہے اور عمر جوانی و کہولت میں بھی۔ ١١٧۔ ٢ توفیتنی کا مطلب ہے جب تو نے مچھے دنیا سے اٹھالیا جیسا کہ اس کی تفصیل سورۃ آل عمران کی آیت ٥٥ میں گزر چکی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پیغمبروں کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے یا جن کا مشاہدہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتلائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اس کا علم ازل سے ابد تک پر محیط ہوتا ہے۔ یہ صفت علم اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں اس لئے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں حدیث میں آتا ہے کہ میدان محشر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آپ کے کچھ امتی آنے لگیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ کر دوسری طرف لے جائیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے ان کو آنے دو یہ تو میرے امتی ہیں فرشتے آ کر بتلائیں گے انک لاتدری ما احدثوا بعدک اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نہیں جانتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سنیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بھی اس وقت یہی کہوں گا جو العبد الصالح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا (وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (صحیح بخاری، صحیح مسلم) المآئدہ
118 ١١٨۔ ١ یعنی مطلب یہ کہ یا اللہ! ان کا معاملہ تیری مشیت کے سپرد ہے اس لئے کہ تو فعال لما یرید بھی ہے جو چاہے کرسکتا ہے اور تجھ سے کوئی باز پرس کرنے والا بھی نہیں ہے (لَا یُسْــَٔـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْــَٔــلُوْنَ 23؀) 021:023 اللہ جو کچھ کرتا ہے اس سے باز پرس نہیں ہوگی لوگوں سے ان کے کاموں کی باز پرس ہوگی۔ گویا آیت میں اللہ کے سامنے بندوں کی عاجزی وبے بسی کا اظہار بھی ہے اور اللہ کی عظمت و جلالت اور اس کے قادر مطلق اور مختار کل ہونے کا بیان بھی اور پھر ان دونوں باتوں کے حوالے سے عفو و مغفرت کی التجا بھی سبحان اللہ! کیسی عجیب و بلیغ آیت ہے اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ ایک رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اسے ہی پڑھتے رہے حتی کہ صبح ہوگئی۔ (مسند احمد جلد ٥ ص ١١٩) المآئدہ
119 ١١٩۔ ١ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں، وہ دن ایسا ہوگا کہ صرف توحید ہی موحدین کو نفع پہنچائے گی، یعنی مشرکین کی معافی اور مغفرت کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ المآئدہ
120 المآئدہ
0 الانعام
1 ١۔ ١ ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ ٢ یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ الانعام
2 ٢۔ ١ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے تم جو خوراک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔ ٢۔ ٢ ٰ یعنی موت کا وقت۔ ٢۔ ٣ یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمٰی ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہوجائے گا۔ ٢۔ ٤ یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح سے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔ ( سورۃ یسین) الانعام
3 ٣۔ ١ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے، جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ دلیل بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں میں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو سب کو جانتا ہے (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلا تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔ الانعام
4 الانعام
5 ٥۔ ١ یعنی اس نکتہ چینی اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استھزا نہ کرتے۔ الانعام
6 ٦۔ ١ یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں درآں حالیکہ وہ طاقتور و قوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فروانی میں بھی تم سے بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بہت کامیاب و کامران ہے۔ یہ استدارج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ ٦۔ ٢ تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔ الانعام
7 ٧۔ ١ یہ ان کے عناد جحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتہ الہٰی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہونگے اور اسے ایک سحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ولو فتحنا علیہم بابا من السماء فظلو فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون (الحجر) اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ) 052:044 اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہ بہ تہ بادل ہیں۔ یعنی عذاب الہی کی کو‏ئی نہ کوئی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الہی کا کو‏ئی دخل انھیں تسلیم کرنا نہ پڑے حالانکہ کا‏ئنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ الانعام
8 ٨۔ ١ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیاء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضہ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے اور دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے۔؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ) 003:164 اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث رہی وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں فرشتوں میں سے ہونا چاہیے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ تشابھت قلوبھم اہل کفر و شرک رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے خاندان حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کرتے رہے جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے تو انھیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔ الانعام
9 ٩۔ ١ یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو انھیں نہیں بھیج سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب و مانوس ہونے کی بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا کیا فائدہ۔ الانعام
10 الانعام
11 الانعام
12 ١٢۔ ١ جس طرح حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر لکھ دیا اِنَّ رَحمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِیْ ـ "یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے" لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقینا عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد فرماں دار اور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ اہتمام صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دار الجزا ہے وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان و امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر و فسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ (وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ ۭ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ) 007:156 اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ الانعام
13 الانعام
14 ١٤۔ ١ ولی سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔ الانعام
15 ١٥۔ ١ یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔ الانعام
16 ١٦۔ ١ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا اس لئے کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے۔ جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا ؟ الانعام
17 ١٧۔ ١ یعنی نفع و ضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم و قضا کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد (صحیح بخاری، مسلم) جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے تو اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی ' نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ الانعام
18 ١٨۔ ١ یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بے بس ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان و عطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔ الانعام
19 ١٩۔ ١ یعنی اللہ ہی اپنی واحدنیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔ ١٩۔ ٢ ربیع بن انس کہتے ہیں اب جس کے پاس بھی قرآن پہنچ جائے اگر وہ سچا مطیع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دعوت دی اور اسطرح ڈرائے جس طرح آپ نے لوگوں کو ڈرایا (ابن کثیر) الانعام
20 ٢٠۔ ١ یعرفونہ میں ضمیر کا مرجع رسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئیں تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔ فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے۔ الانعام
21 ٢١۔ ١ یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعوا کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اس طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کیئے ہیں اور یوں یقینا نبی کی پیش گوئی کی تیس جھوٹے دجال ہونگے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گزستہ صدی میں بھی قادیاں کے ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا اور آج اس کے پیروکار اس لئے سچا نبی اور بعض مسیح معبود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔ ٢١۔ ٢ جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ ہی تکذیب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔ الانعام
22 الانعام
23 ٢٣۔ ١ فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں، بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کر کے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں۔ ثم لم یکن قیلھم عند فتنتنا ایاھم اعتذارا مما سلف منھم من الشرک باللہ۔ (جب ہم انھیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں جو انہوں نے شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے کوئی چارا نہ ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی پھر یہ انکار کس طرح کریں گے؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس (رض) نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کر کے اپنے شرک کرنے سے انکار کردیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگادے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہو سکیں گے (ابن کثیر) الانعام
24 ٢٤۔ ١ لیکن وہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو اللہ کا شریک اپنا حمائتی و مددگار اور سفارشی سمجھتے تھے، غائب ہونگے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ الانعام
25 ٢٥۔ ١ یعنی مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بے فائدہ ہے۔ ٢٥۔ ٢ علاوہ ازیں مجازاۃ علی کفرھم ان کے کفر کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر اور ان کے کان حق کو سننے سے عاجز ہیں۔ ٢٥۔ ٣ اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد و جحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں کہتے ہیں۔ الانعام
26 ٢٦۔ ١ یعنی عام لوگوں کو آپ سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔ ٢٦۔ ٢ لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا بگڑے گا ؟ اس طرح کے کام کر کے وہ خود ہی بے شعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔ الانعام
27 ٢٧۔ ١ یہاں لَوْ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہوگی ' تو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا۔ ٢٧۔ ٢ لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً ( رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ ١٠٧؁ قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِ ١٠٨؁) 023:107،108 اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں اللہ تعالیٰ فرما‏ئے گا اسی میں ذلیل و خوار پڑے رہو مجھ سے بات نہ کرو (رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ) 032:012 اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔ الانعام
28 ٢٨۔ ١ بَلْ جو إِضْرَاب (یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لیے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں (١) ان کے لئے وہ کفر اور عناد و تکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکار کرتے تھے، جیسے وہاں بھی کہیں گے ما کنا مشرکین (ہم تو مشرک ہی نہ تھے (٢) یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا۔ لیکن پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا (٣) یا منافقین کا نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے (تفسیر ابن کثیر)۔ ٢٨۔ ٢ یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ الانعام
29 ٢٩۔ ١ یہ بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر و عصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدہ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر و جرم کے راستے سے فوراً تائب ہوجائے۔ الانعام
30 ٣٠۔ ١ یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔ الانعام
31 ٣١۔ ١ اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دو چار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ فَرَّطْنَا فِیْھَا میں ضمیراَلسَّاعَۃُ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی یا الصَّفْقَۃُ (سودا) کی طرف راجع ہے جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا یعنی یہ سودا کر کے ہم نے سخت کوتاہی کی یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر و شرک کا ارتکاب کرکے جو کو تاہیاں کیں۔ (فتح القدیر) الانعام
32 الانعام
33 ٣٣۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی طرف سے اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم و ملال پہنچتا اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جا رہا ہے کی یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو وہ صادق و امین مانتے ہیں) اصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اور یہ ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایت میں ہے کہ ابو جہل نے ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ترمذی کی یہ روایت اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت و دیانت اور صداقت کے قائل تھے لیکن اس کے باوجود وہ آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے آج بھی جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حسن اخلاق رفعت کردار اور امانت و صداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں اور اس موضوع پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں انھیں سوچنا چاہئیے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے؟ الانعام
34 ٣٤۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلا واقع نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں، حتٰی کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہماری مدد آجائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے (اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) 040:051 یقینا ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ) 058:021 اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے وغیرہا من الایات (الصافات) ٣٤۔ ٢ بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب و منصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ٣٤۔ ٣ جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انھیں جھٹلایا، انھیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کردیا لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی و کامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔ الانعام
35 ٣٥۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاندین و کافرین کی تکذیب (جھٹلانا) جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ حتٰی کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھائیں، اول تو ایسا کرنا آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر بھی دکھائیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل و فہم نہیں کرسکتے البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اختیار و ارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا اس کے لیے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔ ٣٥۔ ٢ یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت و افسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر سے ہے اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت و مصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔ الانعام
36 ٣٦۔ ١ اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں یہ بھی چونکہ اپنی عقل فہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے اس لئے یہ بھی مردہ ہیں۔ الانعام
37 ٣٧۔ ١ یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کر دے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کردیا جائے، جس طرح بنی اسرئیل پر کیا گیا۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ تو یقینا ایسا کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے امتحان کا مسئلہ ختم ہوجاتا۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فورا انھیں اسی دنیا ہی میں سخت سزا دے دی جاتی یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔ ٣٧۔ ٢ جو اللہ کے حکم و مشیت کی حکمت کا ادراک نہیں کرسکتے۔ الانعام
38 ٣٨۔ ١ یعنی انھیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انھیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت و علم کے تحت داخل ہیں۔ ٣٨۔ ٢ کتاب دفتر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ۭ ( وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ) 016:089 (ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے)۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔ ٣٨۔ ٣ یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال (ثبوت) کیا ہے، جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا حساب کتاب بھی ہوگا، جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی نے فرمایا، کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (صحیح مسلم) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے یعنی سب کو موت آئے گی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں اور حدیث مذکور جس میں بکری سے بدلہ لیے جانے کا ذکر ہے بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب و کتاب کی اہمیت و عظمت کو واضح کرنا ہے یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کر کے ظالم سے مظلوم کو بدلہ دلا دیا جائے گا پھر دونوں معدوم کر دئیے جائیں گے۔ ( فتح القدیر) وغیرو اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ الانعام
39 ٣٩۔ ١ آیات الٰہی کو جھٹلانے والے چونکہ اپنے کانوں سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں، علاوہ ازیں یہ کفر اور ضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انھیں کوئی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہو سکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہوگئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے پھر فرمایا تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوجاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے مزید دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٦ کا حاشیہ الانعام
40 الانعام
41 ٤١۔ ١ اَرَءَیْتَکُمْ میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہے اس کے معنی اخبرونی (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے (دیکھئے سورۃ ء بقرہ آیت ٥٦١ کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسان ماحول، یا آباؤ اجداد کی مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے۔ نذر نیاز بھی انھی کے نام نکالتا ہے لیکن جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بے اختیار پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیئے۔ کاش لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔ الانعام
42 الانعام
43 ٤٣۔ ١ قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے ہیں دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھگتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہے۔ الانعام
44 الانعام
45 ٤٥۔ ١ اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ یہی بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انھیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی، قرآن کریم کی آیت اور حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ترقی اور خوشحالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انھیں ( اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ) 021:105 (مصداق قرار دیکر انھیں اللہ کے نیک بندے تک قرار دیتے ہیں) ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے۔ گمراہ قوموں یا افراد کی دنیاوی خوش حالی ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر و معاصی کا صلہ ہے۔ الانعام
46 ٤٦۔ ١ آنکھیں کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضا ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کرلے، جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضا ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضا کو ویسے ہی ختم کر دے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ مگر یہ کہ وہ خود کسی کو جچانا چاہے آیات کو مختلف پہلووں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔ الانعام
47 ٤٧۔ ١ بغتۃ بے خبری سے مراد رات اور جھرۃ خبر داری سے دن مراد ہے جسے سورۃ یونس میں بَیَاتًا اَوْ نَہَارًا سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آ جائے یا رات کو یا پھر بغتۃ وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آ جائے اور جھرۃ وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر و طغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاور کر جاتی ہیں۔ الانعام
48 ٤٨۔ ١ وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جلیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھی ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔ ٤٨۔ ٢ مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انھیں اندیشہ نہیں اور اپنے پی