Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 1- بسم اللہ کے آغاز میں أقْرَأُ، أبْدَأُ یا أَتْلُوا محذوف ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا، یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں۔ ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ“ سے پہلے ”أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“ پڑھنا بھی ضروری ہے ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ (النحل:98) ”جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔“ الفاتحة
2 1- اَلْحَمْدُ میں ”ال“ استغراق یا اختصاص کے لئے ہے، یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، یا اس کے لئے خاص ہیں، کیوں کہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی الله تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔ ”اللہ“ یہ اللہ کا ذاتی نام ہے، اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ الْحَمْدُ للهِ یہ کلمہ شکر ہے جس کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں [ لا إِلَهَ إلا اللهُ أَفْضَلُ الذِّكْرِ اور الْحَمْدُ للهِ کو أَفْضَلُ الدُّعَاءِ ] کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے [ الْحَمْدُ للهِ تَمْلأُ الْمِيزَانَ ] ”الْحَمْدُ للهِ میزان کو بھر دیتا ہے۔“ اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم) ۔ 2- رَبِّ، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جس کے معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کرکے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کا استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ عَالَمِينَ عَالَمٌ (جہان) کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعے کو عالم کہا جاتا ہے، اسی لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوقات کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلاً عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش وطیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوقات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں، لیکن رَبِّ الْعَالَمِينَ سب کی ضروریات، ان کے احوال وظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔ الفاتحة
3 1-رَحْمَن بر وزن فَعْلان اور رَحِيمٌ بر وزن فَعِيلٌ ہے۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں، جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علما کہتے ہیں: رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے، اسی لئے رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت عام ہے جس سے بلا تخصیص کافر ومومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہوگا، یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ {اللَّهُمَّ! اجْعَلْنَا مِنْهُمْ} (آمين) الفاتحة
4 1-دنیا میں بھی اگرچہ مکافات عمل کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے، تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا اور سزا دے گا۔ اسی طرح دنیا میں عارضی طور پر اور بھی کئی لوگوں کے پاس تحت الاسباب اختیارات ہوتے ہیں، لیکن آخرت میں تمام اختیارات کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا: ﴿لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ﴾ (غافر: 16) ”آج کس کی بادشاہی ہے؟ “ پھر وہی جواب دے گا: ﴿لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ (غافر: 16) ”صرف ایک غالب اللہ کے لئے“ ﴿يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ﴾ (الانفطار: 19) ”اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی، سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔“ یہ ہوگا جزا کا دن۔ الفاتحة
5 1-عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لئے انتہائی تذلل وعاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر”شریعت میں کمال محبت، خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے“ یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو، اس کی مافوق الاسباب طاقت کے سامنے عاجزی وبے بسی کا اظہار بھی ہو اور اسباب ومافوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ”نَعْبُدُكَ وَنَسْتَعِينُكَ“ ”ہم تیری عبادت کرتے اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں“ ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں مفعول کو فعل پر مقدم کرکے ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾‌ فرمایا، جس سے مقصد اختصاص پیدا کرنا ہے، یعنی ”ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں“ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ استعانت ہی کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کردیا گیا ہے، لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پاگیا ہے، وہ مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظرانداز کرکے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں، بیوی سے مدد چاہتے ہیں، ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ماتحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے، جس میں سارے کام ظاہری اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انبیا بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ عليہ السلام نے فرمایا: ﴿مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ﴾ (الصف: 14) ”اللہ کے دین کے لئے کون میرا مددگار ہے؟“۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ (المائدة: 2) ”نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو“، ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے، نہ شرک، بلکہ مطلوب ومحمود ہے۔ اس کا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کرسکتا ہو، جیسے کسی فوت شدہ شخص کو مدد کے لئے پکارنا ، اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا، اس کو نافع وضار باور کرنا اور دور ونزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اس کا نام ہے مافوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا، اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا۔ اسی کا نام شرک ہے، جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ {أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ توحید کی تین قسمیں : اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصراً بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید صفات۔ 1۔ توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس توحید کو ملاحدہ وزنادقہ کے علاوہ تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا ہے۔ مثلاً فرمایا: ”اے پیغمبر (ﷺ)! ان سے پوچھیں کہ تم کو آسمان وزمین میں رزق کون دیتا ہے، یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہےاور بےجان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ اللہ (یعنی یہ سب کام کرنے والا اللہ ہے)۔“ (یونس: 31) دوسرے مقام پر فرمایا: ”اگر آپ (ﷺ) ان سے پوچھیں کہ آسمان وزمین کا خالق کون ہے؟ تو یقیناً یہی کہیں گے کہ اللہ۔“ (الزمر: 38) ایک اور مقام پر فرمایا: ”اگر آپ (ﷺ) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے، یہ سب کس کا مال ہے، ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے، اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں۔ ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ (یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں)۔“ (المؤمنون: 84۔ 89) وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔ 2۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کے لئے، یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے، اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکٰوہ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجا کرنا، اس کے نام کی نذرونیاز دینا، اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا، اس کا طواف کرنا، اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ ہے کہ یہ تمام کام صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کئے جائیں۔ قبرپرستی کے مرض میں مبتلا عوام وخواص اس توحید الوہیت میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ 3۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان کو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلاً جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یہ یا اس قسم کی اور صفات الٰہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی، ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبرپرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ الفاتحة
6 1-ہدایت کے کئی مفہوم ہیں۔ راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزل مقصود پر پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد، توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزل مقصود) حاصل ہوجائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ”الإِسْلام“ ہے، جسے نبی (ﷺ) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن واحادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔ الفاتحة
7 1-یہ صراط مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر وہ لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا، یہ منعم علیہ گروہ ہے انبیا شہدا صدیقین اور صالحین کا۔ جیسا کہ سورۂ نساء میں ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ (النساء: 69) ”اور جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ہیں، وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا، اور صالحین، اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔“ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول (ﷺ) ہی کا راستہ ہے، نہ کہ کوئی اور راستہ۔ 2- بعض روایات سے ثابت ہے کہ ﴿مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ﴾ ”جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا“ سے مراد یہودی اور ﴿ضَالِّيْنَ﴾ ”گمراہوں“ سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ ”لا أَعْلَمُ خِلافًا بَيْنَ الْمُفَسِّرِينَ فِي تَفْسِيرِ ﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾ : بِالْيَهُود وَ ﴿الضَّالِّينَ﴾ بالنَّصَارَى“ (فتح القدیر)، اس لئے صراط مستقیم پر چلنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ دونوں کی گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے، آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، حضرت عزیر (عليہ السلام) کو ”ابن اللہ“ کہتے، اپنے احبار ورھبان کو حرام وحلال کرنے کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی شان میں غلو کیا اور انہیں ”ابْنُ اللهِ“ اور ”ثَالِثُ ثَلاثَةٍ“ (اللہ کا بیٹا اور تین خدا میں سے ایک) قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے، تاکہ ادبار ونکبت کے بڑھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکیں۔ سورۂ فاتحہ کے آخر میں آمین کہنے کی نبی (ﷺ) نے بڑی تاکید اور فضیلت فرمائی ہے۔ اس لئے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہیے۔ نبی (ﷺ) جہری نمازوں میں اونچی آواز سے آمین کہا کرتے تھے اور صحابہ (رضی الله عنہم) بھی، حتیٰ کہ مسجد گونج اٹھتی۔ (ابن ماجہ۔ ابن کثیر)، بنابریں آمین اونچی آواز سے کہنا سنت اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا معمول بہ ہے۔ آمین کے معنی مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ ”كَذَلِكَ فَلْيَكُنْ“ (اسی طرح ہو)، ”لا تُخَيِّبْ رَجَاءَنا“ (ہمیں نامراد نہ کرنا)، ”اللَّهُمَّ! اسْتَجِبْ لَنَا“ (اے اللہ ہماری دعا قبول فرمالے)۔ الفاتحة
0 البقرة
1 1-انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف۔ ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ بِمُرَادِهِ۔ البتہ نبی (ﷺ) نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ ”میں نہیں کہتا کہ ﴿الم﴾ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے اور ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔“ (سنن ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً) البقرة
2 1-اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے: ﴿تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (السجدة: 2) بعض علما نے کہا ہے کہ یہ خبر بمعنی نہی ہے۔ أَيْ :لا تَرْتَابُوا فِيهِ (اس میں شک نہ کرو)۔ علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں، ان کی صداقت میں، جو احکام ومسائل بیان کئے گئے ہیں، ان سے انسانیت کی فلاح ونجات وابستہ ہونے میں اور جو عقائد (توحید ورسالت اور معاد کے بارے میں) بیان کئے گئے ہیں، ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ 2- ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے، لیکن اس چشمۂ فیض سے سیراب صرف وہی لوگ ہوں گے، جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوکر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں، جن کے اندر ہدایت کی طلب، یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو انھیں ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہوسکتی ہے؟ البقرة
3 1-أُمُورٌ غَيْبِيَّةٌ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا ادراک عقل وحواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی الٰہی، جنت، دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشراجساد وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول (ﷺ) کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل واحساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفروضلالت ہے۔ 2- اقامت صلوٰۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا ہے، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔ 3- إِنْفَاقٌ کا لفظ عام ہے، جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب استطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے، بلکہ ماں باپ اور اہل وعیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔ البقرة
4 1-پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ جو کتابیں انبیاء(عليہم السلام) پر نازل ہوئیں، وہ سب سچی ہیں، وہ اب اپنی اصلی شکل میں دنیا میں پائی نہیں جاتیں، نیز اب ان پر عمل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وحی ورسالت کا سلسلہ آنحضرت (ﷺ) پر ختم کردیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔ البقرة
5 1-یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ وعمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت ومغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت وکامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں، بلکہ اس کا کفر وعناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔ البقرة
6 1-نبی (ﷺ) کی شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں اور اسی حساب سے آپ (ﷺ) کوشش فرماتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ) ورنہ آپ (ﷺ) کی دعوت وتبلیغ سے بےشمار لوگ مسلمان ہوئے، حتیٰ کہ پھر پورا جزیرۂ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آگیا۔ البقرة
7 1-یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ کفرومعصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہوچکی ہے، ان کے کان حق بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح لاسکتے ہیں؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے میں آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے معرفت کردگار حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف شفاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہی وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ (المطففين: 14) یعنی ”ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے۔“ (ترمذی، تفسیر سورۂ مطففین) اسی کیفیت کو قرآن نے ”ختم“ (مہر لگ جانے) سے تعبیر فرمایا ہے، جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ البقرة
8 1-یہاں سے تیسرے گروہ منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے، مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، کیوں کہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور نہ اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا۔ یوں اس فریب کاری کا سارا نقصان خود ان ہی کو پہنچا کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔ البقرة
9 البقرة
10 1-بیماری سے مراد وہی کفر ونفاق کی بیماری ہے، جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ البقرة
11 البقرة
12 1-فَسَاد، صَلاحٌ، کی ضد ہے، کفرومعصیت سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن وسکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں، اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے یا دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اصلاح وترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ البقرة
13 1-ان منافقین نے ان صحابہ (رضی الله عنہم) کو ”بےوقوف“ کہا، جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان ومال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آ کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) دولت ایمان ہی سے محروم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جدید وقدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلیٰ تر مقصد کے لئے دنیوی مفادات کو قربان کردینا، بے وقوفی نہیں، عین عقل مندی اور سعادت ہے۔ صحابہ (رضی الله عنہم) نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا ہے، اس لئے وہ پکے مومن ہی نہیں، بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان ان ہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہی کی طرح ایمان لائیں گے۔ ﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا﴾ (البقرة: 137). 2- ظاہر بات ہے کہ نفع عاجل (فوری فائدے) کے لئے نفع آجل (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظرانداز کردینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بےعلم رہے۔ البقرة
14 1-شیاطین سے مراد سرداران قریش ویہود ہیں جن کے ایما پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے، یا منافقین کے اپنے سردار۔ البقرة
15 1-”اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے“ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ جس طرح مسلمانوں کے ساتھ استہزا واستخفاف کا معاملہ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت وادبار میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزا سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتاً یہ استہزا نہیں ہے، ان کے فعل استہزا کی سزا ہے جیسے ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا﴾ (الشورى- 40) ”برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی ہے“ میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا ہے حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ اسی طرح ﴿يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ﴾، ﴿وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ﴾ وغیرہ آیات میں ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے استہزا فرمائے گا۔ جیسا کہ سورہ حدید کی آیت ﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ﴾ الآية میں وضاحت ہے۔ البقرة
16 1-تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے، جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر یہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے، ضروری نہیں کہ دنیا میں ہی اس گھاٹے کا انہیں علم ہوجائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل وفہم سے عاری سمجھتے تھے۔ البقرة
17 1-حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) اور دیگر صحابہ (رضی الله عنہم) نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے: کہ نبی (ﷺ) جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے، لیکن پھر جلد ہی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا، اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہوگیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں، دفعتاً وہ روشنی بجھ گئی، اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا۔ یہی حال منافقین کا تھا۔ پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے، مسلمان ہوئے تو روشنی میں آگئے۔ حلال وحرام اور خیروشر کو پہچان گئے، پھر وہ دوبارہ کفرونفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی۔ (فتح القدیر) البقرة
18 البقرة
19 البقرة
20 1-یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ ریب وشک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پس ان کے دل ریب وتردد میں اس بارش کی طرح ہیں جو اندھیروں (شکوک، کفر اور نفاق) میں اترتی ہے، گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں، حتیٰ کہ خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف ودہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا، کیوں کہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں، لیکن پھر جب اسلام یا مسلمانوں پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران وسرگردان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ (ابن کثیر) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق (اسلام) سے محروم رہتا ہے۔ 2- اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لئے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مواخذے سے کبھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔ البقرة
21 البقرة
22 1-ہدایت اور ضلالت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جارہی ہے۔ فرمایا کہ جب تمہارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے، تمہاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے، تو پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو؟ اگر تم عذاب خداوندی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو، جانتے بوجھتے شرک کا ارتکاب مت کرو۔ البقرة
23 1-توحید کے بعد اب رسالت کا اثبات فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے اپنے بندے پر جو کتاب نازل فرمائی ہے، اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے توتم اپنے تمام حمائیتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ واقعی یہ کلام کسی انسان کی کاوش نہیں ہے، کلام الٰہی ہی ہے اور ہم پر اور رسالت محمدیہ پر ایمان لا کر جہنم کی آگ سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے، جو کافروں کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔ البقرة
24 1-یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب وعجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا، لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقیناً قیامت تک قاصر رہیں گے۔ 2- پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندھک کے پتھر ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ أَصْنَامٌ (بت) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے: ﴿إِنَّكُم وَمَا تَعۡبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ﴾ [الأنبياء: 98] ”تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو، جہنم کا ایندھن ہوں گے۔“ 3- اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لئے تیار کی گئی ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے۔ یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں، جیسا کہ بعض متجددین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔ البقرة
25 1-قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان ثمر آور نہیں اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عنداللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا ہے؟ جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود ونمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود ومطرود۔ 2- مُتَشَابِهًا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے، یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی، ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے :[ مَا لا عَينٌ رَأَتْ، وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ] (صحیح بخاری، تفسیر الم السجدۂ) ”نہ کسی آنکھ نے انہیں دیکھا، نہ کسی کان نے ان کی بابت سنا (اور دیکھنا سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔“ 3- یعنی حیض ونفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ 4- خُلُودٌ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیش کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے۔ جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا ”اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اور اے جنتیو! اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے، اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا۔“ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون ألفا- وصحيح مسلم كتاب الجنة البقرة
26 1-جب اللہ تعالیٰ نے دلائل قاطعہ سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کردیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کردیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الٰہی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور کسی حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے اس میں حیا وحجاب بھی نہیں۔ فَوْقَهَا جو مچھر کے اوپر ہو، یعنی پر یا بازو، مراد اس مچھر سے بھی حقیر تر چیز۔ یا فَوْقُ کے معنی، اس سے بڑھ کر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی (مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز) کے ہوں گے۔ لفظ فَوْقَهَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ 2- اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت ومشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے ﴿نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾ [النساء: 115]. ”جس طرف کوئی پھرتا ہے، ہم اسی طرف اس کو پھیر دیتے ہیں“ اور حدیث میں: [ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَهُ ] (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ اللیل) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں، جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس آیت میں فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔ البقرة
27 1-مفسرین نے عَهْدٌ کے مختلف مفہوم بیان کئے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت جو اس نے اپنے اوامر بجا لانے اور نواہی سے باز رکھنے کے لئے انبیاء (عليہم السلام) کے ذریعے سے مخلوق کو کی۔ ۔ وہ عہد جو اہل کتاب سے تورات میں لیا گیا کہ نبی آخر الزمان (ﷺ) کے آجانے کے بعد تمہارے لئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ وہ عہدالست جو صلب آدم سے نکالنے کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا، جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے: ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ﴾ (الأعراف: 172) نقض عہد کا مطلب عہد کی پروا نہ کرنا ہے (ابن کثیر) 2- ظاہر بات ہے کہ نقصان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو ہی ہوگا، اللہ کا یا اس کے پیغمبروں اور داعیوں کا کچھ نہ بگڑے گا۔ البقرة
28 1-آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ ہے۔ پہلی موت سے مراد عدم (نیست یعنی نہ ہونا) ہے اور پہلی زندگی ماں کے پیٹ سے نکل کر موت سے ہمکنار ہونے تک ہے۔ پھر موت آجائے گی اور پھر آخرت کی زندگی دوسری زندگی ہوگی، جس کا انکار کفار اور منکرین قیامت کرتے ہیں۔ شوکانی نے بعض علماء کی رائے ذکر کی ہے کہ قبر کی زندگی (كَمَا هِيَ) دنیوی زندگی میں ہی شامل ہوگی (فتح القدیر) صحیح یہ ہے کہ برزخ کی زندگی، حیات آخرت کا پیش خیمہ اور اس کا سرنامہ ہے، اس لئے اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔ البقرة
29 1-اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے (اصل) حلت ہے۔ الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت نص سے ثابت ہو (فتح القدیر) 2- بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ ”پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا“ کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول، اللہ کی صفات میں سے ہے، جن پر اسی طرح بغیر تاویل کے ایمان رکھنا ضروری ہے۔ جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ 3- اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ (آسمان) ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو سماء سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے ﴿وَمِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ﴾ (الطلاق:12) ”اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں“ اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہوجاتی ہے : [ مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنْ الأَرْضِ ظُلْمًا، فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرْضِينَ ] (صحيح بخاري، بدء الخلق ما جاء في سبع أرضين) ”جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا۔“ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے۔ لیکن سورہ نازعات میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا ہے۔ ﴿وَالأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا﴾ ”زمین کو اس کے بعد بچھایا“ اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین ہی کی ہوئی ہے اور دَحْوٌ (صاف اور ہموار کرکے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر) البقرة
30 1-مَلائِكَةٌ (فرشتے) اللہ کی نوری مخلوق ہیں، جن کا مسکن آسمان ہے، جو اوامرالٰہی کے بجالانے اور اس کی تحمید وتقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ 2- خَلِيفَةٌ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔ 3- فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہیں تھا، بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے، جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں، ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں وہ مصلحت راجحہ جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ مفاسد کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔“ کیوں کہ ان میں انبیا، شہدا، وصالحین اور زہاد بھی ہوں گے۔ (ابن کثیر) ذریت آدم کی بابت فرشتوں کو کیسے علم ہوا کہ وہ فساد برپا کرے گی؟ اس کا اندازہ انہوں نے انسانی مخلوق سے پہلے کی مخلوق کے اعمال یا کسی اور طریقے سے کرلیا ہوگا۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی بتلا دیا تھا کہ وہ ایسے ایسے کام بھی کرے گی۔ یوں وہ کلام میں حذف مانتے ہیں کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً يَفْعَلُ كَذَا وَكَذَا (فتح القدیر) البقرة
31 البقرة
32 البقرة
33 1-اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص واشیا) کے نام اور ان کے خواص وفوائد کا علم ہے، جو اللہ تعالیٰ نے القا والہام کے ذریعے حضرت آدم (عليہ السلام) کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (عليہ السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فوراً سب کچھ بیان کردیا، جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت وفضیلت بیان فرما دی، جب یہ حکمت واہمیت علم فرشتوں پر واضح ہوئی، تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ البقرة
34 1-علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم (عليہ السلام) کی یہ دوسری تکریم ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں خضوع اور تذلل کے، اس کی انتہا ہے (زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا) (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترمذی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم (عليہ السلام) کو سجدہ کیا، جس سے ان کی تکریم وفضیلت فرشتوں پر واضح کردی گئی۔ کیوں کہ یہ سجدہ اکرام و تعظیم کے طور پر ہی تھا، نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا۔ 2- ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ ابلیس حسب صراحت قرآن جنات میں سے تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازاً فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا، اس لئےبحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا، لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس تھا۔ 3- یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔ البقرة
35 1-یہ حضرت آدم (عليہ السلام) کی تیسری بڑی فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔ 2- یہ درخت کس چیز کا تھا؟ اس کی بابت قرآن وحدیث میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کردیا گیا ہے جو بےاصل بات ہے، ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے، نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔ البقرة
36 1-شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا، یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے، اس کی بابت کوئی صراحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر (کہ میں آدم سے بہتر ہوں) سجدے سے انکار کیا، اسی طرح اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿وَلا تَقْرَبَا﴾ کی تاویل کرکے حضرت آدم (عليہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا، جس کی تفصیل سورۂ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کی دورازکار تاویل کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا 2- مراد آدم (عليہ السلام) اور شیطان ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ بنی آدم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ البقرة
37 1-حضرت آدم (عليہ السلام) جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ واستغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقعے پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی ودست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو (الاعراف) میں بیان کئے گئے ہیں ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا﴾ الآية بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الٰہی پر ”لا إِلهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ“ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ یہ روایت بےسند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیا (عليہم السلام) نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں، کسی نبی، ولی، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا، اس لئے نبی کریم (ﷺ) سمیت تمام انبیا کا طریقہ دعا یہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔ البقرة
38 البقرة
39 1-قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دنیا میں ہی رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم (عليہ السلام) کے واسطے سے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جارہا ہے کہ انبیا (عليہم السلام)کے ذریعے سے میری ہدایت (زندگی گزارنے کے احکام وضابطے) تم تک پہنچے گی، جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق، اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔ (ان پر خوف نہیں ہوگا) کا تعلق آخرت سے ہے۔ أيْ: فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَهُ مِنْ أَمْرِ الآخِرَةِ۔ اور (حزن نہیں ہوگا) کا تعلق دنیا سے۔ عَلَى مَا فَاتَهُمْ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا (جو فوت ہوگیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے) جس طرح دوسرے مقام پر ہے، ﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى﴾ (طٰہ: 123) جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت۔) (ابن کثیر) گویا ﴿لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ کا مقام ہر مومن صادق کو حاصل ہے۔ یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہو اور پھر اس ”مقام“ کا مفہوم بھی کچھ کا کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تمام مومنین و متقین بھی ”اولیاء اللہ“ ہیں اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق ہوسکتا ہے۔ البقرة
40 1-إِسْرَائِيلُ (بمعنی عبداللہ) حضرت یعقوب (عليہ السلام) کا لقب تھا۔ یہود کو بنواسرائیل کہا جاتا ہے یعنی یعقوب (عليہ السلام) کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے، جن سے یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیا ورسل ہوئے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جارہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخرالزمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کروگے تو میں بھی اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتاردیئے جائیں گے جو تمہاری غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا تم پر لاد دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت وادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا واجداد بھی مبتلا رہے۔ البقرة
41 1-”بِهِ“ کی ضمیر قرآن کی طرف، یا حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صحیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا اور جس نے محمد (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا، اس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) ”پہلے کافر نہ بنو“ کا مطلب ہے کہ ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے، مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کرچکے تھے۔ اس لئے انہیں تنبیہ کی جارہی ہےکہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر و جحود کا وبال تم پر پڑے گا۔ 2- ”تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو“ کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کرلو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال ومتاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور ثمن قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی ابطال حق یا اثبات باطل یا کتمان علم کا ارتکاب اور احقاق حق سے محض طلب دنیا کے لئے، گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر) البقرة
42 البقرة
43 البقرة
44 البقرة
45 1-صبر اور نماز ہر اللہ والے کے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ وتعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے، جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے [ِ اِذَا حَزَبَه أَمْرٌ فَزِعَ إِلَى الصَّلاةِ ] (احمد وابوداود بحوالہ فتح القدیر) ”نبی (ﷺ) کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔“ 2- نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے، لیکن خشوع وخضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان، بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو آسان کر دیتا اور آخرت سے بےفکری انسان کو بےعمل، بلکہ بدعمل بنا دیتی ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 1-یہاں سے دوبارہ بنی اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جارہے ہیں، جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جارہا ہے، جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا، نہ سفارش قبول ہوگی، نہ معاوضہ دے کر چھٹکارا ہوسکے گا، نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی، یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خَيْرُ أُمَّةٍ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں، اور ایمان و عمل سے محرومی پر سلب کر لئے جاتے ہیں، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک وبدعات کے ارتکاب کی وجہ سے ”خَيْرُ أُمَّةٍ“ کے بجائے ”شَرُّ أمَّةٍ“ بنی ہوئی ہے۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالى یہود کو یہ دھوکہ بھی تھا کہ ہم تو اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا، اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جو اہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ نبی (ﷺ) یقیناً شفاعت فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول بھی فرمائے گا (احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے) لیکن یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ إِحْدَاثٌ فِي الدِّينِ (بدعات) کے مرتکب اس سے محروم ہی رہیں گے۔ نیز بہت سے گناہ گاروں کو جہنم میں سزا دینے کے بعد آپ (ﷺ) کی شفاعت پر جہنم سے نکالا جائے گا، کیا جہنم کی یہ چند روزہ سزا قابل برداشت ہے کہ ہم شفاعت پر تکیہ کرکے معصیت کا ارتکاب کرتے رہیں؟ البقرة
48 البقرة
49 1-آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں، بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے: ﴿وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْن﴾ ہے ”ہم نے آل فرعون کو غرق کردیا“ یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر والے ہی نہیں تھے، اس کے فوجی اور دیگر پیروکار تھے۔ گویا قرآن میں ’’آل‘‘ مُتَّبِعِينَ (پیروکاروں) کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں ان شاء اللہ آئے گی۔ البقرة
50 1-سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا، ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۂ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا، جیسا کہ سرسید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیا ل ہے۔ البقرة
51 1-یہ گو سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نمائے سینا پہنچے . وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو تورات دینے کے لئے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون وموسیٰ علیہما السلام) کی موجودگی کے باوصف بچھڑے کو اپنا (معبود) سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد واعمال میں بری طرح مبتلا ہے، لیکن وہ سمجھتا یہ ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہوسکتا ہے؟ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے پجاریوں کے لئے خاص کردیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے ہیں جو پتھر کے پجاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ البقرة
52 البقرة
53 1-یہ بھی بحر قلزم پار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے (ابن کثیر) ممکن ہے کتاب یعنی تورات ہی کو فرقان سے بھی تعبیر کیا گیا ہو، کیوں کہ ہر آسمانی کتاب حق وباطل کو واضح کرنے والی ہوتی ہے، یا معجزات کو فرقان کہا گیا ہے کہ معجزات بھی حق و باطل کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البقرة
54 1-جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا، توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا : ﴿فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ﴾ ”اپنے کو آپس میں قتل کرو“ کی دو تفسیریں کی گئی ہیں : ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کردیاگیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ دوسری، یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کردیا گیا اور جو اس سے محفوظ رہے تھے، انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)۔ البقرة
55 1-حضرت موسیٰ (عليہ السلام) ستر آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اللہ تعالی کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں، ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مرگئے۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں جن پر بجلی گری، آخر والے اسے دیکھ رہے تھے، حتیٰ کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ البقرة
56 البقرة
57 1-اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے بحکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔ - مَنٌّ، بعض کے نزدیک ترنجبین ہے، یا اوس جو درخت یا پتھر پر گرتی، شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہوجاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری ومسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ ”کھنبی من کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) پر نازل ہوئی“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلا دقت بہم پہنچ جاتا تھا، اسی طرح کھنبی بغیر کسی کے بونے کے پیدا ہوجاتی ہے (تفسیر احسن التفاسیر) سَلْوَى بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کرکے کھا لیتے (فتح القدیر) البقرة
58 1-اس بستی سےمراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔ 2- سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدۂ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز وانکسار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔ 3- حِطَّةٌ اس کے معنی ہیں ”ہمارے گناہ معاف فرمادے۔“ البقرة
59 1-اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہ میں ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ان کو حکم دیا گیا تھا کہ سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حَبَّة فِي شَعرَةٍ (یعنی گندم بالی میں) کہتے رہے۔ اس سے ان کی اس سرتابی وسرکشی کا، جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الٰہی سے تمسخر واستہزا کا جس کا ارتکاب انہوں نے کیا، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اخلاق وکردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہیہ کے ساتھ اسی طرح کا ہوجاتا ہے۔ 2- یہ آسمانی عذاب کیا تھا؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ“ (صحيح مسلم، كتاب السلام باب الطاعون والطيرة والكهانة ونحوها حديث 2218) البقرة
60 1-یہ واقعہ بعض کے نزدیک تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحرائے سینا کا ہے، وہاں پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ چنانچہ پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ قبیلے بھی بارہ تھے۔ ہر قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے سیراب ہوتا۔ یہ بھی معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ البقرة
61 1-یہ قصہ بھی اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں ملک مصر نہیں، بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو، اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ۔ ان کا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت اور استکبار پر مبنی تھا، اس لئے زجروتوبیخ کے انداز میں ان سے کہا گیا ”تمہارے لئے وہاں مطلوبہ چیزیں ہیں۔“ 2- کہاں وہ انعامات واحسانات، جس کی تفصیل گزری؟ اور کہاں وہ ذلت ومسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کردی گئی؟ اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے، جس کی تاویل ارادۂ عقوبت یا نفس عقوبت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ كَمَا هُوَ شَأْنُهُ۔ (اپنی شان کے لائق) 3- یہ ذلت وغضب الٰہی کی وجہ بیان کی جارہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیا (عليہم السلام) اور داعیان حق کا قتل اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہود اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل ورسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہوسکتے ہیں: ”أَيْنَ مَا كَانُوا وَحَيْثُ مَا كَانُوا“ ”وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔“ 4- یہ ذلت ومسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْا(نافرمانی کی) کا مطلب ہے جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا، ان کا ارتکاب کیا اور (يَعْتَدُونَ) کا مطلب ہے مامور بہ کاموں میں حد سے تجاوز کرتے تھے۔ اطاعت و فرمانبرداری یہ ہے کہ مَنْهِيَّات سے باز رہا جائے اور مَأْمُورَات کو اس طرح بجا لایا جائے جس طرح ان کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعْتِدَاء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ البقرة
62 1-يَهُود هَوَادَةٌ (بمعنی محبت) سے یا تَهَوّدٌ (بمعنی توبہ) سے بنا ہے۔ گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ (عليہ السلام) کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے۔ 2- نَصَارَى، نَصْرَانٌ کی جمع ہے۔ جیسے سُكَارَى سَكْرَانُ کی جمع ہے۔ اس کا مادہ نصرت ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو کہا تھا: «نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ» حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے پیروکاروں کو نصاریٰ کہا جاتا ہے، جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔ 3- صَابِئِينَ صَابِئٌ کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقیناً ابتداءً کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے (اسی لئے قرآن میں یہودیت و عیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی، یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لا مذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔ 4- بعض جدید مفسرین کو اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے اور اس سے انہوں نے وحدت ادیان کا فلسفہ کشید کرنے کی مذموم سعی کی ہے۔ یعنی رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا اور اچھے عمل کرتا ہے، اس کی نجات ہوجائے گی، یہ فلسفہ سخت گمراہ کن ہے، آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح، کتاب الٰہی کے پیرو اور اپنے پیغمبر کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا؟ یا کیا معاملہ فرمائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ صرف یہودی ہی نہیں، نصاریٰ اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے، وہ سب نجات اخروی سے ہمکنار ہوں گے اور اسی طرح اب رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقیناً آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخرالزمان (ﷺ) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرھم۔ اس کی تائید بعض مرسل آثار سے ہوتی ہے، مثلاً مجاہد حضرت سلمان فارسی! سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (ﷺ) سے ان اہل دین کے بارے میں پوچھا جو میرے ساتھی تھے، عبادت گزار اور نمازی تھے (یعنی رسالت محمدیہ سے قبل وہ اپنے دین کے پابند تھے) تو اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا﴾۔ الآیۃ (ابن کثیر) قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے مثلاً ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلامُ﴾ (آل عمران: 19) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔ ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ﴾ (آل عمران: 85) جواسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا، وہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا اور احادیث میں بھی نبی (ﷺ) نے وضاحت فرمادی کہ اب میری رسالت پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کی نجات نہیں ہوسکتی، مثلاً فرمایا: [والَّذِي نَفْسِي بِيَدِه! لا يَسْمَعُ بِي رَجَلٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَّلا نَصْرَانِيٌّ ثُمّ لا يُؤْمِنُ بِي إِلا دَخَل النَّارَ] (صحيح مسلم ، كتاب الإيمان ، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد (ﷺ) ) ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ وحدت ادیان کی گمراہی، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت دخل ہے۔ اسی لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ البقرة
63 1-جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے ازراہ شرارت کہا کہ ہم سے تو ان احکام پر عمل نہیں ہوسکے گا تو اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کردیا، جس سے ڈر کرانہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ البقرة
64 البقرة
65 1-سَبْتٌ (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار، بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کرکے حکم الٰہی سےتجاوز کیا۔ ہفتے والے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں، انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں ان میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار والے دن ان کو پکڑ لیتے۔ البقرة
66 البقرة
67 1-بنی اسرائیل میں ایک لاولد مالدار آدمی تھا جس کا وارث صرف ایک بھتیجا تھا، ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کرکے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے لگے، بالآخربات حضرت موسیٰ (عليہ السلام) تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا، گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہوگیا اور قاتل کی نشاندہی کرکے مرگیا (فتح القدیر) البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 1-انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کردیتے تو حکم الٰہی پر عمل ہوجاتا، لیکن انہوں نے حکم الہیٰ پر سیدھے طریقے سے عمل کرنےکی بجائے، مین میخ نکالنا اور طرح طرح کے سوالات کرنے شروع کردیئے، جس پر اللہ تعالیٰ بھی ان پر سختی کرتا چلا گیا۔ اسی لئے دین میں تعمق اور سختی اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ البقرة
72 1-یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جس کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس قتل کا راز فاش کردیا، دراں حالیکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کرکیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو، اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت ہو یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کیا کرو تاکہ اگر وہ کسی وقت ظاہر ہوجائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو، بلکہ اس کے احترام ووقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے، اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت ورسوائی ہوتی ہے۔ البقرة
73 1-مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے استدلال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت کے دن دوبارہ مردوں کا زندہ ہونا، منکرین قیامت کے لئے ہمیشہ حیرت واستعجاب کا باعث رہا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف اسلوب اور پیرائے میں بیان فرمایا ہے سورہ بقرۂ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مثال: ﴿ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ﴾(البقرۂ :56) میں گزر چکی ہے۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے۔ تیسری مثال دوسرے پارے کی آیت نمبر 243 ﴿مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ﴾چوتھی آیت نمبر 259 ﴿فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ﴾اور پانچویں مثال اس کے بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے طیور اربعہ (چار چڑیوں) کی ہے۔ البقرة
74 1-یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا، دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر ”إِنَابَةٌ إِلَى اللهِ“ کا داعیہ اور توبہ واستغفار کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ دلوں کا سخت ہوجانا یہ افراد اور امتوں کے لئے سخت تباہ کن، اور اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلوں سے اثر پذیری کی صلاحیت سلب اور قبول حق کی استعداد ختم ہوگئی ہے، اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل فنا اور تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے: ﴿وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ (الحدید: 16) ”اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی، لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔“ 2- پتھروں کی سنگینی کے باوجود، ان سے جو جو فوائد حاصل ہوتے اور جو جو کیفیت ان پر گزرتی ہے، اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک واحساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل: 44) (مزید وضاحت کے لئے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 44 کا حاشیہ دیکھیے)۔ البقرة
75 1-اہل ایمان سے خطاب کرکے یہودیوں کی بابت کہا جارہا ہے کہ کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے، درآں حالیکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فریق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی میں جانتے بوجھتے تحریف (لفظی ومعنوی) کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے، یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعاً امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات، یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے، وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علما ومشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن وحدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ (دیکھیے سورۂ نساء آیت 77 کا حاشیہ) البقرة
76 1-یہ بعض یہودیوں کے منافقانہ کردار کی نقاب کشائی ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے، لیکن جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو اس بات پر ملامت کرتے کہ تم مسلمانوں کو اپنی کتاب کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جس سے رسول عربی کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس طرح تم خود ہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہو جو وہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کریں گے۔ البقرة
77 1-اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ یا نہ بتلاؤ، اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور وہ ان باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرماسکتا ہے۔ البقرة
78 1-یہ تو ان کے اہل علم کی باتیں تھیں۔ رہے ان کے ان پڑھ لوگ، وہ کتاب (تورات) سے تو بےخبر ہیں، لیکن وہ آرزوئیں ضرور رکھتے ہیں اور گمانوں پر ان کا گزارہ ہے، جس میں انہیں ان کے علما نے مبتلا کیا ہوا ہے، مثلاً ہم تو اللہ کے چہیتے ہیں۔ ہم جہنم میں اگر گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے اور ہمیں ہمارے بزرگ بخشوالیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جیسے کے آج کے جاہل مسلمانوں کو بھی علما ومشائخ نے ایسے ہی حسین جالوں اور پرفریب وعدوں میں پھنسا رکھا ہے۔ البقرة
79 1-یہ یہود کے علما کی جسارت اور خوف الٰہی سے بےنیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے (وَيْلٌ) جہنم میں ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔ (احمد، ترمذی، ابن حبان والحاکم بحوالۂ فتح القدیر) بعض علما نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے، لیکن یہ استدلال صحیح نہیں۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ البقرة
80 1-یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ سے عہد لیا ہے؟ یہ بھی استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ غلط کہتے ہیں اللہ کے ساتھ اس قسم کا کوئی عہد وپیمان نہیں ہے۔ 2- یعنی تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اگر جہنم میں گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سےہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نیک وبد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔ البقرة
81 البقرة
82 1-یہ یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے جنت وجہنم میں جانے کا اصول بیان کیا جارہا ہے۔ جس کے نامۂ اعمال میں برائیاں ہی برائیاں ہوں گی، یعنی کفر وشرک (کہ ان کے ارتکاب کی وجہ سے اگر بعض اچھے عمل بھی کئے ہوں گے تو وہ بھی بےحیثیت رہیں گے) تو وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہیں اور جو ایمان اور عمل صالح سے متصف ہوں گے وہ جنتی، اور جو مومن گناہ گار ہوں گے، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا، وہ چاہے گا تو اپنے فضل وکرم سے ان کے گناہ معاف فرما کر یا بطور سزا کچھ عرصہ جہنم میں رکھنے کے بعد یا نبی کی شفاعت سے ان کو جنت میں داخل فرما دے گا، جیسا کہ یہ باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ البقرة
83 البقرة
84 1-ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولاً صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے (جیسا کہ سورۂ الانبیاء آیت 25 اور دیگر آیات سے واضح ہے) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت وفرماں برداری اور ان کےساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے، اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے، اس کے بعد رشتے داروں، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے، اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے، جیسا کہ احادیث رسول (ﷺ) سے واضح ہے۔ اس عہد میں اقامت صلٰوۃ اور ایتائے زکٰوۃ کا بھی حکم ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں، حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے ا نکار، یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کے عہد خلافت میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔ البقرة
85 1-نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اسی طرح یہود مدینہ کے تین قبیلے تھے، بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنوقینقاع اور بنونضیر، خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں) کی مدد کرتے اور اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کولوٹتے، اور انہیں جلا وطن کردیتے۔ دراں حالیکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر ان ہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنالیا تھا، بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کردیتے، کسی حکم پر عمل کرلیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کوکوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مددکرنا، ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا تو انہوں نے بےمحابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑا لینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا۔ حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ البقرة
86 1-یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظرانداز کردینے کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت وسرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت ورسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت مقبول ہے جو مکمل ہو، بعض بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کرلینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت غوروفکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت ورسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مذکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے؟ البقرة
87 1-﴿وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ﴾ کے معنی ہیں کہ موسیٰ (عليہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں انبیاکا یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) پر ختم ہوگیا۔ ﴿بَيِّنَاتٌ﴾ سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو دیئے گئے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورۂ آل عمران (آیت 49) میں ہے۔ "رُوحُ الْقُدُسِ" سے مراد حضرت جبریل (عليہ السلام) ہیں، ان کو (روح القدس)اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے، جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو رُوحٌ کہا گیا ہے اور الْقُدُس سے ذات الٰہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے۔ ابن جریر نے اسی کو صحیح تر قرار دیا ہے، کیونکہ المائدۂ (آیت 10) میں (روح القدس) اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اس لئے (روح القدس) سے انجیل مراد نہیں ہوسکتی ایک اور آیت میں حضرت جبریل (عليہ السلام) کو ’’الرُّوحُ الأَمِينُ‘‘ فرمایا گیا ہے اور آنحضرت (ﷺ) نے حضرت حسان! کے متعلق فرمایا :[ اللَّهُمَّ! أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ]۔ ”اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے [ وَجِبْريلُ مَعَكَ ] ۔ ”جبریل (عليہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں۔“ معلوم ہوا کہ روح القدس سے مراد حضرت جبریل (عليہ السلام) ہی ہیں، (فتح البیان، ابن کثیر بحوالہ اشرف الحواشی) 2- جیسے حضرت محمد (ﷺ) اور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو جھٹلایا اورحضرت زکریا ویحییٰ علیھماالسلام کو قتل کیا۔ البقرة
88 1-یعنی ہم پر اے محمد (ﷺ) تیری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر ہے: ﴿وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ﴾ (حٰم السجدۂ: 5) ”ہمارے دل اس دعوت سے پردے میں ہیں، جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔“ 2- دلوں پر حق بات کا اثر نہ کرنا، کوئی فخر کی بات نہیں۔ بلکہ یہ تو ملعون ہونے کی علامت ہے، پس ان کا ایمان بھی تھوڑا ہے (جو عنداللہ نامقبول ہے) یا ان میں ایمان لانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔ البقرة
89 1-﴿يَسْتَفْتِحُونَ﴾ کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہ یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے، یااللہ آخری نبی جلد مبعوث فرما، تاکہ اس سے مل کر ہم مشرکین پر غلبہ حاصل کریں یعنی ”اسْتِفْتَاحٌ“ بمعنی ”اسْتِنْصَارٍ“ ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ أَيْ: يُخْبِرُهُمْ بِأَنَّهُ سَيُبْعَثُ۔ یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ البقرة
90 1-یعنی اس بات کی معرفت کے بعد بھی، کہ حضرت محمد رسول (ﷺ) ، وہی آخری پیغمبر ہیں، جن کے اوصاف تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور جن کی وجہ سے ہی اہل کتاب ان کے ایک (نجات دہندہ) کے طور پر منتظر بھی تھے، لیکن ان پر محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے کہ نبی (ﷺ) ہماری نسل میں سے کیوں نہ ہوئے، جیسا کہ ہمارا گمان تھا، یعنی ان کا انکار دلائل پر نہیں، نسلی منافرت اور حسد وعناد پر مبنی تھا۔ 2- غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب۔ کیوں کہ بار بار وہ غضب والے کام کرتے رہے، جیسا کہ تفصیل گزری، اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد (ﷺ) کا انکار کیا۔ البقرة
91 1-یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 2- یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیا (عليہم السلام) کو تم قتل نہ کرتے، اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔ البقرة
92 1-یہ ان کے انکار اور عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) آیات واضحات اور دلائل قاطعہ اس بات کی لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن تم نے اس کے باوجود حضرت موسی (عليہ السلام) کو بھی تنگ کیا اور الٰہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنالیا۔ البقرة
93 1-یہ کفر وانکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کہ سن لیا، یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ نیت کہ ہم نے کون سا عمل کرنا ہے؟ 2- ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے، کہ انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ دوسرے، اس کو أُشْرِبُوا (پلادی گئی) سے تعبیر کیا گیا، کیوں کہ پانی انسان کے رگ وریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزراس طرح نہیں ہوتا۔ (فتح القدیر) 3- یعنی عصیان اور بچھڑے کی محبت وعبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں میں گھر کر چکا تھا۔ البقرة
94 البقرة
95 1-حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے، یعنی یہودیوں کو کہا گیا کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کرلو، یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں مل کر یہ عرض کریں کہ یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار کردے، یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجر ان کے عیسائیوں کو دعوت مباہلہ دی گئی تھی، جیسا کہ آل عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی، عیسائیوں کی طرح، جھوٹے تھے، اس لئے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) البقرة
96 1-موت کی آرزو تو کجا، یہ تو دنیوی زندگی کے تمام لوگوں حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں، لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے بچا نہیں سکے گی۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعوؤں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق صرف وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیوں کہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعوؤں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقیناً وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطی آشکارا ہوجاتی۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا اعراض اور گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کرلیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہوگا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لئے طے کر رکھا ہے۔ البقرة
97 1-احادیث میں ہے کہ چند یہودی علما نبی (ﷺ) کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ (ﷺ) نے ان کا صحیح جواب دے دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، کیوں کہ نبی کے علاوہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ جب آپ (ﷺ) نے ان کے سوالات کا صحیح جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ آپ (ﷺ) پر وحی کون لاتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : جبریل۔ یہود کہنے لگے : جبریل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو حرب وقتال اور عذاب لے کر اترتا رہا ہے۔ اور اسی بہانے سے آپ (ﷺ) کی نبوت ماننے سے انکار کردیا (ابن کثیر وفتح القدیر) البقرة
98 1-یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے۔ حدیث میں ہے: [ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْحَرْبِ ] ۔(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع) ”جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا ہے“، گویا اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض وعناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ یونس، آیت62-63 ، لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں پر گنبد اور قبے بنائے جائیں، ان کی قبروں پر سالانہ عرس کے نام پر میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا جائے، ان کے نام کی نذرونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ، جیسا کہ بدقسمتی سے ”اولیاء اللہ کی محبت“ کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے۔ حالانکہ یہ ”محبت“ نہیں ہے، ان کی عبادت ہے، جو شرک اور ظلم عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فتنۂ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔ البقرة
99 البقرة
100 البقرة
101 1-اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ہم نے آپ (ﷺ) کو بہت سی آیات بینات عطا کی ہیں، جن کو دیکھ کر یہود کو بھی ایمان لے آنا چاہیئے تھا۔ علاوہ ازیں خود ان کی کتاب تورات میں بھی آپ (ﷺ) کے اوصاف کا ذکر اور آپ (ﷺ) پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے، لیکن انہوں نے پہلے بھی کسی عہد کی کب پروا کی ہے جو اس عہد کی وہ کریں گے؟ عہد شکنی ان کے ایک گروہ کی ہمیشہ عادت رہی ہے۔ حتیٰ کہ اللہ کی کتاب کو بھی اس طرح پس پشت ڈال دیا، جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔ البقرة
102 1-یعنی ان یہودیوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی تو کوئی پروا نہیں کی، البتہ شیطان کے پیچھے لگ کر نہ صرف جادو ٹونے پر عمل کرتے رہے، بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) بھی (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے ہی حکومت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حضرت سلیمان (عليہ السلام) جادو کا عمل نہیں کرتے تھے، کیوں کہ عمل سحر تو کفر ہے، اس کفر کا ارتکاب حضرت سلیمان (عليہ السلام) کیوں کر سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے زمانے میں جادوگری کا سلسلہ بہت عام ہوگیا تھا، حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے اس کے سدباب کے لئے جادو کی کتابیں لے کر اپنی کرسی یا تخت کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی وفات کے بعد ان شیاطین اور جادوگروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا ، بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی قوت واقتدار کا راز یہی جادو کا عمل تھا اور اسی بنا پر ان ظالموں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی کافر قرار دیا، جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے فرمائی (ابن کثیر۔ وغیرہ) واللہ اعلم۔ 2- بعض مفسرین نے ﴿وَمَا أُنْزِلَ﴾ میں ’’ما‘‘ نافیہ مراد لیا ہے اور ہاروت وماروت پر کسی چیز کے اترنے کی نفی کی ہے، لیکن قرآن کریم کا سیاق اس کی تائید نہیں کرتا۔ اسی لئے ابن جریر وغیرہ نے اس کی تردید کی ہے (ابن کثیر) اسی طرح ہاروت وماروت کے بارے میں بھی تفاسیر میں اسرائیلی روایات کی بھرمار ہے۔ لیکن کوئی صحیح مرفوع روایت اس بارے میں ثابت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تفصیل کے نہایت اختصار کےساتھ یہ واقعہ بیان کیا ہے، ہمیں صرف اس پر اور اسی حد تک ایمان رکھنا چاہیے (تفسیر ابن کثیر) قرآن کے الفاظ سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بابل میں ہاروت وماروت فرشتوں پر جادو کا علم نازل فرمایا تھا اور اس کا مقصد "واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ" یہ معلوم ہوتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ انبیا (عليہم السلام)کے ہاتھوں پر ظاہر شدہ معجزے، جادو سے مختلف چیز ہے اور جادو یہ ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا کیا گیا ہے (اس دور میں جادو عام ہونے کی وجہ سے لوگ انبیا کو بھی نعوذ باللہ جادوگر اور شعبدہ باز سمجھنے لگے تھے) اسی مغالطے سے لوگوں کو بچانے کے لئے اور بطور امتحان فرشتوں کو نازل فرمایا گیا۔ - دوسرا مقصد بنواسرائیل کی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی معلوم ہوتا ہے کہ بنواسرائیل کس طرح جادو سیکھنے کے لئے ان فرشتوں کے پیچھے پڑے اور یہ بتلانے کے باوجود کہ جادو کفر ہے اور ہم آزمائش کے لئے آئے ہیں، وہ علم سحر حاصل کرنے کے لئے ٹوٹے پڑ رہے تھے جس سے ان کا مقصد ہنستے بستے گھروں کو اجاڑنا اور میاں بیوی کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنا تھا۔ یعنی یہ ان کے گراوٹ ، بگاڑ اور فساد کے سلسلے کی اہم کڑی تھی اور اس طرح کے توہمات اور اخلاقی گراوٹ کسی قوم کی انتہائی بگاڑ کی علامت ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ 3- یہ ایسے ہی ہے جیسے باطل کی تردید کے لئے، باطل مذاہب کا علم کسی استاذ سے حاصل کیا جائے، استاذ شاگرد کو اس یقین دہانی پر باطل مذہب کا علم سکھائے کہ وہ اس کی تردید کرے گا۔ لیکن علم حاصل کرنے کے بعد وہ خود بدمذہب ہوجائے، یا اس کا غلط استعمال کرے تو استاذ اس میں قصوروار نہیں ہوگا۔ 4- أَيْ: إِنَّمَا نَحْنُ ابْتِلاءٌ وَاخْتِبَارٌ مِنَ اللهِ لِعِبادِهِ۔ ”ہم اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آزمائش ہیں۔“ (فتح القدیر)۔ 5- یہ جادو بھی اس وقت تک کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک اللہ کی مشیت اور اس کا اذن نہ ہو۔ اس لئے اس کے سیکھنے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جادو کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کو کفر قرار دیا ہے، ہر قسم کی خیر کی طلب اور ضرر کے دفع کے لئے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیا جائے، کیوں کہ وہی ہر چیز کا خالق ہے اور کائنات میں ہر کام اسی کی مشیت سے ہوتا ہے۔ البقرة
103 البقرة
104 1-رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجیئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کرکے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض وعناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہوجاتی، مثلاً وہ کہتے ”رَاعِينَا“ (ہمارے چرواہے) یا ”رَاعِنَا“ (احمق) وغیرہ، جیسے وہ ”السَّلامُ عَلَيْكُمْ“ کی بجائے”السَّامُ عَلَيْكُمْ“ (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم ”انْظُرْنَا“ کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ، جن میں تنقیص واہانت کا شائبہ ہو، ادب واحترام کے پیش نظر اور سد ذریعہ کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال واقوال میں مشابہت اختیار کرنے سے بچا جائے، تاکہ مسلمان [ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ]، (أبو داود، كتاب اللباس، باب في لبس الشهرة: وقال الألباني هذا إسناد حسن، بحواله حجاب المرأة ص104) ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ ان ہی میں شمار ہوگا“۔ کی وعید میں داخل نہ ہوں۔ البقرة
105 البقرة
106 البقرة
107 1-نسخ کے لغوی معنی تو نقل کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم کو بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں۔ یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے۔ جیسے آدم (عليہ السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائیوں کا آپس میں نکاح جائز تھا، بعد میں اسے حرام کردیا گیا، وغیرہ اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ”الفوزالکبیر“ میں ان کی تعداد صرف پانچ بیان کی ہے۔ یہ نسخ تین قسم کا ہے۔ ایک تو مطلقاً نسخ حکم یعنی ایک کو بدل کر دوسرا حکم نازل کردیا گیا۔ دوسرا ہے نسخ مع التلاوۂ۔ یعنی پہلے حکم کے الفاظ قرآن مجید میں موجود رکھے گئے ہیں، ان کی تلاوت ہوتی ہے لیکن دوسرا حکم بھی، جو بعد میں نازل کیا گیا، قرآن میں موجود ہے، یعنی ناسخ اور منسوخ دونوں آیات موجود ہیں۔ نسخ کی ایک تیسری قسم یہ ہے کہ ان کی تلاوت منسوخ کردی گئی۔ یعنی قرآن کریم میں نبی (ﷺ) نے انہیں شامل نہیں فرمایا، لیکن ان کا حکم باقی رکھا گیا۔ جیسے [ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ ]۔ (موطا امام مالک) ”شادی شدہ مرد اور عورت اگر زنا کا ارتکاب کریں تو یقیناً انہیں سنگسار کردیا جائے۔“ اس آیت میں نسخ کی پہلی دو قسموں کا بیان ہے ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ﴾ میں دوسری قسم اور ﴿أَوْ نُنْسِهَا﴾ میں پہلی قسم۔ ﴿نُنْسِهَا﴾ ”ہم بھلوادیتے ہیں“ کا مطلب ہے کہ اس کا حکم اور تلاوت دونوں اٹھا لیتے ہیں۔ گویا کہ ہم نے اسے بھلا دیا اور نیا حکم نازل کردیا۔ یا نبی (ﷺ) کے قلب سے ہی ہم نے اسے مٹا دیا اور اسے نسیاً منسیا کردیا گیا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا کہ زمین وآسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت وحکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کردے۔ یہ اس کی قدرت ہی کا ایک مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلاً ابومسلم اصفہانی معتزلی) اور آج کل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا ہے۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مذکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سلف صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔ البقرة
108 1-مسلمانوں (صحابہ رضی الله عنہم) کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر (ﷺ) سے از راہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشۂ کفر ہے۔ البقرة
109 البقرة
110 1-یہودیوں کو اسلام اور نبی (ﷺ) سے جو حسد اور عناد تھا اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دین اسلام سےپھیرنے کی مذموم سعی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو کہا جارہا ہے کہ تم صبر اور درگزر سے کام لیتے ہوئے، ان احکام وفرائض اسلام کو بجا لاتے رہو، جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ البقرة
111 1-یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جارہا ہے جس میں وہ مبتلاتھے۔ اللہ تعالی نے فرمایا : یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ البقرة
112 1- ﴿أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ﴾ کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور﴿وَهُوَ مُحْسِنٌ﴾ کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخرالزمان (ﷺ) کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی ان ہی اصولوں کے مطابق کئےگئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے، نہ کہ محض آرزوؤں پر۔ البقرة
113 1-یہودی تورات پڑھتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان سے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی تصدیق موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہودی حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی تکفیر کرتے تھے۔ عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) اور تورات کے مِنْ عِنْدِ اللهِ ہونے کی تصدیق ہے، اس کے باوجود یہ یہودیوں کی تکفیر کرتے ہیں، یہ گویا اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے کفروعناد اور اپنے اپنے بارےمیں خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کو ظاہر کیا جارہا ہے۔ 2- اہل کتاب کے مقابلے میں عرب کے مشرکین ان پڑھ (أُمِّيِّينَ) تھے، اس لئے انہیں بےعلم کہا گیا، لیکن وہ بھی مشرک ہونے کے باوجود یہود ونصاریٰ کی طرح، اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ وہی حق پر ہیں۔ اسی لئے وہ نبی (ﷺ) کو صابی یعنی بےدین کہا کرتے تھے۔ البقرة
114 1-جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں : ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا او ر اس کی تخریب میں حصہ لیا۔ ابن جریر طبری نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا ہے، جنہوں نے ایک تو نبی (ﷺ) اورآپ (ﷺ) کے صحابہ (رضی الله عنہم) کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آبا واجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ 2- تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے کہ اسےڈھا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔ 3- یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں تمکن اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا، چنانچہ جب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی (ﷺ) نے اعلان فرما دیا کہ آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدے کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا ہے کہ یہ خوشخبری اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوجائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں گے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر پہلے زیادتیاں کی ہیں، ان کے بدلے میں ہمیں سزا سے دوچار یا قتل نہ کردیا جائے۔ چنانچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہوگئی۔ البقرة
115 1-ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں اس وقت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے، پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہوجاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لئے ایک ہی آیت نازل ہوجاتی ہے۔ ایسی آیتوں کے شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے (ملخص از احسن التفاسیر)۔ البقرة
116 البقرة
117 1-یعنی وہ اللہ تو وہ ہے کہ آسمان وزمین کی ہر چیز کا وہ مالک ہے، ہر چیز اس کی فرماں بردار ہے، بلکہ آسمان وزمین کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لئے اسے صرف لفظ کن کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟۔ البقرة
118 1-اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی کیوں نہیں دکھا دیتا؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہوجائیں جس طرح کہ سورۂ بنی اسرائیل (آیت 90 تا 93) میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ 2- یعنی مشرکین عرب کے دل، کفروعناد اور انکار وسرکشی میں اپنے ماقبل کے لوگوں کے دلوں کے مشابہ ہوگئے۔ جیسے سورۂ ذاریات میں فرمایا گیا : ﴿كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ﴾۔ ”ان سے پہلے جو بھی رسول آیا، اس کو لوگوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کوو صیت کرجاتے تھے؟ نہیں یہ سب سرکش لوگ ہیں۔“ یعنی قدر مشترک ان سب میں سرکشی کا جذبہ ہے، اس لئے داعیان حق کے سامنے نئے نئے مطالبے رکھتے ہیں، یا انہیں دیوانہ گردانتے ہیں۔ البقرة
119 البقرة
120 1-یعنی یہودیت یا نصرانیت اختیار کرلے۔ 2- جواب اسلام کی صورت میں ہے، جس کی طرف نبی کریم (ﷺ) دعوت دے رہے ہیں، نہ کہ تحریف شدہ یہودیت ونصرانیت۔ 3- یہ اس بات پر وعید ہے کہ علم آجانے کے بعد بھی اگر محض ان برخود غلط لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی پیروی کی تو تیرا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ دراصل امت محمدیہ کو تعلیم دی جارہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لئے وہ بھی ایسا کام نہ کریں، نہ دین میں مداہنت اور بےجا تاویل کا ارتکاب کریں۔ البقرة
121 1-اہل کتاب کے ناخلف لوگوں کے مذموم اخلاق وکردار کی ضروری تفصیل کے بعد ان میں جو لوگ کچھ صالح اور اچھے کردار کے تھے، اس آیت میں ان کی خوبیاں، اور ان کے مومن ہونے کی خبر دی جارہی ہے۔ ان میں عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) اور ان جیسے دیگر افراد ہیں، جن کو یہودیوں میں سے قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔ 2- (وہ اس طرح پڑھتے ہیں، جس طرح پڑھنے کا حق ہے)۔ کے کئی مطلب بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں۔ جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے دوسرے یہودی کرتے تھے)۔ اس میں جو کچھ تحریر ہے، لوگوں کو بتلاتے ہیں، اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں۔ اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے، متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، انہیں علما سے حل کراتے ہیں اس کی ایک ایک بات کا اتباع کرتے ہیں (فتح القدیر) واقعہ یہ ہے کہ حق تلاوت میں یہ سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مذکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ 3- اہل کتاب میں سے جو نبی (ﷺ) کی رسالت پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں جائے گا۔ كَمَا فِي الصَّحِيحِ (ابن کثیر) البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 1-کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت، نارنمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب وکامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی عیسائی حتیٰ کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی اور سمجھی جاتی ہے۔ 2- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہی ہے: ﴿وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ﴾۔ (العنکبوت: 27) ”ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کردیا۔“ پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم (عليہ السلام) کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا۔ (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ (میرا وعدہ ظالموں سے نہیں) اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود، اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم ومشرک ہوں گے، ان کی شقاوت ومحرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی ہے۔ اگر ایمان وعمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے : ]مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه ] (صحيح مسلم ، كتاب الذكر والدعاء ... باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ...) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔“ البقرة
125 1-حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائیں : ایک ﴿مَثَابَةً لِلنَّاسِ﴾ ”لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ“ دوسرے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ۔ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بےقرار رہتا ہے۔ یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی، بلکہ روزافزوں رہتا ہے۔ دوسری خصوصیت (امن کی جگہ) یعنی یہاں کسی دشمن کا بھی خوف نہیں رہتا چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے اس احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ 2- مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) تعمیر کعبہ کرتے رہے۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے قدم کے نشانات ہیں۔ اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے، جسے ہر حاجی ومعتمر طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾۔ البقرة
126 1-اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی یہ دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی غیر ذی زرع (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت وتعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ البقرة
127 البقرة
128 البقرة
129 1-یہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول (ﷺ) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔“ (الفتح الربانی، ج 20،ص181،189) 2- کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کے بعد تعلیم کتاب وحکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر وثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم ومطلب بھی سمجھ میں آتا جائے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ ومطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفاہیم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ 3- تلاوت وتعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ (ﷺ) کی بعثت کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک وتوہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق وکردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔ البقرة
130 1-عربی زبان میں ”رَغِبَ“ کا صلہ ”عَنْ“ ہو تو اس کے معنی بےرغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی وہ عظمت وفضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت میں عطا فرمائی ہے اور یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بےرغبتی بےوقوفوں کا کام ہے، کسی عقل مند سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ البقرة
131 1-یہ فضیلت وبرگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اطاعت وفرمانبرداری کا بےمثال نمونہ پیش کیا۔ البقرة
132 1-حضرت ابراہیم (عليہ السلام) وحضرت یعقوب (عليہ السلام) نے الدِّينَ کی وصیت اپنی اولاد کو فرمائی جو یہودیت نہیں اسلام ہی ہے، جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت موجود ہے اور قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی اس کی تفصیل آئے گی۔ جیسے ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلامُ﴾ (آل عمران: 19) وغیرہ ”اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔“ البقرة
133 1-یہود کو زجروتوبیخ کی جارہی ہے کہ تم جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم ویعقوب (علیھما السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ کذب وزور اور بہتان ہوا اور اگر یہ کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مذکورہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا، کیوں کہ انہوں نے جو وصیت کی، وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت، یاعیسائیت یا وثنیت کی۔ تمام انبیا کا دین اسلام ہی تھا، اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے۔ اس کو نبی (ﷺ) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: [ الأَنْبِيَاءُ أَوْلادُ عَلاَّتٍ، أُمُّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِد ] (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء، باب ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا ﴾) ”انبیا کی جماعت اولاد علات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔“ البقرة
134 1-یہ بھی یہود کو کہا جارہا ہے کہ تمہارے آباواجداد میں جو انبیا وصالحین ہو گزرے ہیں، ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا، تمہیں نہیں، تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلاف کی نیکیوں پر اعتماد اور سہارا غلط ہے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایہ تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ البقرة
135 1-یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسائیت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (یعنی الٰہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) اور وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی آمیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں، اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن وحدیث میں محفوظ ہیں، جن میں توحید کا تصور بالکل بےغبار اور نہایت واضح ہے، جس سے یہودیت، عیسائیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال وعقائد میں جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں، اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیوں کہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن وحدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔ البقرة
136 1-یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیا (عليہم السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو جو کچھ بھی ملا،یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کا ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیا کے درمیان تفریق ہے جس کو اسلام نے جائز نہیں رکھا ہے۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیوں کہ ایک تووہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کردیا ہے۔ البقرة
137 1-صحابہ کرام (رضی الله عنہم) بھی اسی مذکورہ طریقے پر ایمان لائے تھے، اس لئے صحابہ (رضی الله عنہم) کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح اے صحابہ (رضی الله عنہم) ! تم ایمان لائے ہو تو پھر یقیناً وہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ اگر وہ ضد اور اختلاف میں منہ موڑیں گے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرنے والا ہے۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی یہ وعدہ پورا ہوا اور بنوقینقاع اور بنونضیر کو جلاوطن کردیا گیا اور بنوقریظہ قتل کئے گئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمان (رضی الله عنہ) کی شہادت کے وقت ایک مصحف عثمان ان کی اپنی گود میں تھا اور اس آیت کے جملہ ﴿فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ﴾ پر ان کے خون کے چھینٹے گرے بلکہ دھار بھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مصحف آج بھی ترکی میں موجود ہے۔ البقرة
138 1-عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جس کو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے، اس رسم کا نام ان کے ہاں (بپتسمہ) ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا کہ اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے، اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے، جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔ البقرة
139 1-کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص ونیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اس کے اوامر کا اتباع اور زواجر سے اجتناب کرتے ہیں، حالانکہ وہ ہمارا رب ہی نہیں، تمہارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے توتمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے اخلاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ البقرة
140 1-تم کہتے ہو کہ یہ انبیا اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ اس کی نفی فرماتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ زیادہ علم اللہ کو ہے یا تمہیں؟ 2- تمہیں معلوم ہے کہ یہ انبیا یہودی یا عیسائی نہیں تھے، اسی طرح تمہاری کتابوں میں آنحضرت (ﷺ) کی نشانیاں بھی موجود ہیں، لیکن تم ان شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سےمخفی نہیں۔ البقرة
141 1-اس آیت میں پھر کسب وعمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف انتساب یا ان پر اعتماد کو بےفائدہ قرار دیا گیا۔ کیوں کہ [ مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه ] (صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔“ مطلب ہے کہ اسلاف کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا، بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (فاطر۔ 18) ﴿وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى﴾ (النجم۔39) ”کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی سعی اس نے کی۔“ البقرة
142 1-جب آنحضرت (ﷺ) مکے سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ، مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، درآں حالیکہ آپ (ﷺ) کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے جو قبلہء ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھاتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دے دیا، جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچا دیا، حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے، اس طرح کرنے کا وہ پابند ہوتا ہے، اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا، اس طرف پھر جانا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق، مغرب ساری جہتیں اسی کی ہیں، اس لئے جہتوں کی کوئی اہمیت نہیں، ہر جہت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس جہت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل قبلہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی۔ البقرة
143 1- ﴿وَسَطٌ﴾ کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں، لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں اسی معنی میں اس کا استعمال ہوا ہے،یعنی جس طرح تمہیں سب سے بہتر قبلہ عطاکیاگیا ہے، اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے ﴿لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (سورۂ الحج۔78) ”رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔“ اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے ہاں محمد (ﷺ) اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ اس لئے اس کا ترجمہ عادل بھی کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ایک معنی وسط کے اعتدال کے بھی کئے گئے ہیں۔ یعنی امت معتدل یعنی افراط وتفریط سے پاک۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے اعتبار سے ہے کہ اس میں اعتدال ہے، افراط وتفریط نہیں۔ 2- یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، مومنین صادقین تو رسول اللہ (ﷺ) کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہا کرتے تھے، اس لئے ان کے تو ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع ہی میں اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ یہ مسجد قبلتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا۔ ﴿لِنَعْلَمَ﴾ ”تاکہ ہم جان لیں“ اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا، اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنےبھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں (فتح القدیر) 3- بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ (رضی الله عنہم) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے، یا ہم جتنے عرصے اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں،یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی، تمہیں پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ بھی واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔ البقرة
144 1-اہل کتاب کے مختلف صحیفوں میں خانہ کعبہ کے قبلۂ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور وحسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔ البقرة
145 1-کیوں کہ یہود کی مخالفت تو حسد وعناد کی بنا پر ہے، اس لئے دلائل کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ گویا اثرپذیری کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل صاف ہو۔ 2- کیوں کہ آپ (ﷺ) وحی الٰہی کے پابند ہیں، جب تک آپ (ﷺ) کو اللہ کی طرف سے ایسا حکم نہ ملے آپ ان کے قبلے کو کیوں کر اختیار کرسکتے ہیں۔ 3- یہود کا قبلہ صخرۂ بیت المقدس اور عیسائیوں کا بیت المقدس کی شرقی جانب ہے۔ جب اہل کتاب کے یہ دو گروہ بھی ایک قبلے پر متفق نہیں تو مسلمانوں سے کیوں یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ان کی موافقت کریں گے۔ 4- یہ وعید پہلے بھی گزرچکی ہے، مقصد امت کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن وحدیث کے علم کے باوجود اہل بدعت کے پیچھے لگنا، ظلم اور گمراہی ہے۔ البقرة
146 1-یہاں اہل کتاب کے ایک فریق کو حق کے چھپانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ ان میں ایک فریق عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) جیسے لوگوں کا بھی تھا جو اپنے صدق وصفائے باطنی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوا۔ البقرة
147 1-پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو بھی حکم اترتا ہے، وہ یقیناً حق ہے، اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ البقرة
148 1-یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک منہاج اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے: ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ﴾ [المائدة: 48]. یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستےیعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سلب اختیارات کے بغیر ممکن نہ تھا اور اختیار دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اےمسلمانو! تم تو خیرات کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو اور یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول (ﷺ) ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر اہل ادیان محروم ہیں۔ البقرة
149 البقرة
150 1-قبلہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم تین مرتبہ دہرایا گیا ہے، یا تو اس کی تاکید اور اہمیت واضح کرنے کے لئے، یا یہ چوں کہ نسخ حکم کا پہلا تجربہ تھا، اس لئے ذہنی خلجان دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے بار بار دہرا کر دلوں میں راسخ کردیا جائے، یا تعدد علت کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ ایک علت نبی (ﷺ) کی مرضی اور خواہش تھی، وہاں اسے بیان کیا۔ دوسری علت، ہر اہل ملت اور صاحب دعوت کے لئے ایک مستقل مرکز کا وجود ہے، وہاں اسے دہرایا۔ تیسری، علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے، وہاں اسے بیان کیا گیا ہے (فتح القدیر) 2- یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں کہ ہماری کتابوں میں تو ان کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور نماز یہ بیت المقدس کی طرف پڑھتے ہیں۔ 3- یہاں﴿ظَلَمُوا﴾ سے مراد معاندین (عنادرکھنے والے) ہیں یعنی اہل کتب میں سے جو معاندین ہیں، وہ یہ جاننے کے باوجود کہ پیغمبر آخرالزماں (ﷺ) کا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہوگا، وہ بطور عناد کہیں گے کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ بنا کر یہ پیغمبر (ﷺ) بالآخر اپنے آبائی دین ہی کی طرف مائل ہوگیا ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ 4- ظالموں سے نہ ڈرو۔ یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا مت کرو۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد ( (ﷺ) ) نے ہمارا قبلہ تو اختیار کرلیا ہے، عنقریب ہمارا دین بھی اپنا لیں گے۔ (مجھ ہی سے ڈرتے رہو)۔ جو حکم میں دیتا رہوں، اس پر بلاخوف عمل کرتے رہو۔ تحویل قبلہ کو اتمام نعمت اور ہدایت یافتگی سے تعبیر فرمایا کہ حکم الٰہی پر عمل کرنا یقیناً انسان کو انعام واکرام کا مستحق بھی بناتا ہے اور ہدایت کی توفیق بھی اسے نصیب ہوتی ہے۔ البقرة
151 1-كما (جس طرح) کا تعلق ماقبل کلام سے ہے، یعنی یہ اتمام نعمت اور توفیق ہدایت تمہیں اس طرح ملی جس طرح اس سے پہلے تمہارے اندر تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارا تزکیہ کرتا، کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا اور جن کا تمہیں علم نہیں، وہ سکھلاتا ہے۔ البقرة
152 1-پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح، تہلیل اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکرگزاری (کفران نعمت) ہے۔ شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ (ابراھیم: 7)۔ البقرة
153 1-انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں : آرام وراحت (نعمت) یا تکلیف وپریشانی۔ نعمت میں شکر الٰہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے استعانت کی تاکید ہے۔ حدیث میں ہے مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں (صحيح مسلم ، كتاب الزهد والرقائق ، باب المؤمن أمره كله خير حدیث 2999) صبر کی دو قسمیں ہیں : ایک محرمات اور معاصی کے ترک اور اس سے بچنے پر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا، احکام الٰہیہ کے بجا لانے میں جو مشقتیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر وضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پرعمل کرنا چاہے وہ نفس وبدن پر کتنی ہی گراں اور اللہ کی ناپسندیدہ باتوں سے بچنا، چاہے خواہشات ولذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھینچیں۔ (ابن کثیر)۔ البقرة
154 1-شہدا کو مردہ نہ کہنا، ان کے اعزاز وتکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ زندگی علیٰ قدر مراتب انبیا ومومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کے جوف (یا سینہ) میں جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں (ابن کثیر، نیز دیکھیے آل عمران۔ 169) البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 1-ان آیات میں صبر کرنے والوں کے لئے خوش خبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت [ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ] کے ساتھ [ اللَّهُمَّ آجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِّنْهَا ] پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الجنائز باب ما يقال عند المصيبة، حديث 918 )۔ البقرة
158 1-شَعَائِرُ شَعِيرَةٌ کی جمع ہے، جس کے معنی علامت کے ہیں، یہاں حج کے وہ مناسک (مثلاً موقف، سعی، منحر، ہدی (قربانی) کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ 2- صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (کوئی گناہ نہیں) سے بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کو یہ شبہ ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے علم مین جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: اگر اس کا یہ مطلب ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: ﴿فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهمَا﴾ ”اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں“ پھر اس کی شان نزول بیان فرمائی کہ انصار قبول اسلام سے قبل مناۂ طاغیہ (بت) کے نام کا تلبیہ پکارتے، جس کی وہ مشلل پہاڑی پر عبادت کرتے تھے اور پھر مکہ پہنچ کر ایسے لوگ صفا مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی گناہ نہیں۔ (صحيح بخاري، كتاب الحج باب وجوب الصفا والمروة) بعض حضرات نے اس کا پس منظر اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جاہلیت میں مشرکوں نے صفا پہاڑی پر ایک بت (اساف) مروہ پہاڑی پر نائلہ بت رکھا ہوا تھا، جنہیں وہ سعی کے دوران بوسہ دیتے یا چھوتے۔ جب مسلمان ہوئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیوں کہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسر التفاسیر)۔ البقرة
159 1-اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں، انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : [ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ، أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ ] (أبو داود ، كتاب العلم باب كراهية منع العلم ، وسنن ترمذي حديث 651 وقال حديث حسن) ”جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔“ البقرة
160 البقرة
161 1-اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، ان پر لعنت جائز ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ نصوح کرلی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا۔ البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے، ان کے مرتکبین کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں، ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پاسکتے ہیں۔ البقرة
162 البقرة
163 1-اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا : ﴿أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ (سورة ص: 5) ”کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے!۔“ اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کئے جارہے ہیں۔ البقرة
164 *یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم وتدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی اور آیت میں نہیں۔ 1- آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت وعظمت محتاج بیان ہی نہیں۔ 2- رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہوسکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ 3- سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق وآسائش بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ 4- بارش جو زمین کی شادابی وروئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ 5- ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل وحمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ 6- ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی، گرم بھی، بارآور بھی اورغیربارآور بھی، شرقی غربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ 7-بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے؟ یقیناً کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم وتدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ البقرة
165 1-مذکورہ دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اس کا شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے کرنی چاہیے، بعثت محمدی کے وقت ہی ایسا نہیں تھا، شرک کے یہ مظاہر آج بھی عام ہیں، بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کر گئی ہے، انہوں نے بھی نہ صرف غیر اللہ اور پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماویٰ وملجا اور قبلۂ حاجات بنا رکھا ہے، بلکہ ان سے ان کی محبت، اللہ سے بھی زیادہ ہے اور توحید کا وعظ ان کو بھی اسی طرح کھلتا ہے جس طرح مشرکین مکہ کو اس سے تکلیفیں ہوتی تھی، جس کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے : ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ (سورة الزمر:45) ”اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ان کے دل سکڑ جاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں۔“ ﴿اشْمَأزَّتْ﴾، دلوں کا تنگ ہونا۔ 2- تاہم اہل ایمان کو مشرکین کے برعکس اللہ تعالیٰ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ مشرکین جب سمندر وغیرہ میں پھنس جاتے ہیں تووہاں انہیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ ﴿فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (العنكبوت: 65) ﴿وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (لقمان:32) ﴿وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (يونس: 22) ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین سخت مصیبت میں مدد کے لئے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ البقرة
166 البقرة
167 1-آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بےبسی اور بےوفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کرلیں۔ البقرة
168 1-یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا کہ اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں وہ حرام کرلیتے تھے، جس کی تفصیل سورۂ الانعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”میں نے اپنے بندوں کو حنیف ( حق کے لیے یکسو) پیدا کیا، پس شیطانوں نے ان کو ان کے دین سے گمراہ کردیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں، وہ اس نے ان پر حرام کردیں۔“ (صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها ، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار) البقرة
169 البقرة
170 1-آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباواجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباواجداد بھی دینی بصیرت سے بےبہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں، اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباپرستی یا اپنے ائمہ وعلما کی اتباع غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔ البقرة
171 1-ان کافروں کی مثال جنہوں نے تقلید آبا میں اپنی عقل وفہم کو معطل کر رکھا ہے، ان جانوروں کی طرح ہے جن کو چرواہا بلاتا اور پکارتا ہے وہ جانور آواز تو سنتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جارہا ہے؟ اسی طرح یہ مقلدین بھی بہرے ہیں کہ حق کی آواز نہیں سنتے، گونگے ہیں کہ حق ان کی زبان سےنہیں نکلتا، اندھے ہیں کہ حق کے دیکھنے سے عاجز ہیں اور بےعقل ہیں کہ دعوت حق اور دعوت توحید وسنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں دعا سے قریب کی آواز اور ندا سے دور کی آواز مراد ہے۔ البقرة
172 1-اس میں اہل ایمان کو ان تمام پاکیزہ چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیب ہیں، حرام کردہ اشیا پاک نہیں، چاہے وہ نفس کو کتنی ہی مرغوب ہوں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا مرغوب ہے) دوسرایہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کرلیتے تھے (جس کی تفصیل سورۂ الانعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی، تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے) ، تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔ البقرة
173 1-اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے، لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں، جب کہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں حرام ہیں، اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے، یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی، حرام قرار دے لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں، حرام تو صرف یہ یہ ہیں۔ اس لئے حصر اضافی ہے، یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرے، حدیث میں دو اصول، جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے، بیان کردیئے گئے ہیں، وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں درندوں میں ذو ناب (وہ درندہ جو کچلیوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں، تیسرے، جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے، مثلاً گدھا، کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں، جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے، نہ کہ حدیث کو نظرانداز کرکے، صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد ہر وہ حلال جانور ہے، جو بغیر ذبح کئے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل سورۂ المائدہ میں ہے) مرگیا ہو۔ یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً گلا گھونٹ دیا جائے، یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے، یا جس طرح آج کل مشینی ذبح کا طریقہ ہے جس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے۔ البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں۔ ایک مچھلی، دوسری ٹڈی، وہ اس حکم میتہ سے مستثنیٰ ہیں۔ خون سے مراد دم مسفوح ہے۔ یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے۔ گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے۔ یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں : کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت، یہ بےغیرتی میں بدترین جانور ہے، اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ﴿وَمَا أُهِلَّ﴾ وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیراللہ کے نام پر پکارا جائے۔ اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے جائیں۔ جیسے مشرکین عرب لات وعزیٰ وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے، یا آگ کے نام پر، جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت، ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے، قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں، یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلاً داتا صاحب کی نیاز کے لئے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں) ، ان جانوروں کو، چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے، یہ حرام ہی ہوں گے۔ کیوں کہ اس سے مقصود، رضائے الہیٰ نہیں، رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ، یا خوف یا رجاء من غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے ڈر یا امید) ہے، جو شرک ہے۔ اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیا بھی غیر اللہ کے نام پر نذر نیاز اور چڑھاوے کی ہوں گی، حرام ہوں گی، جیسے قبروں پر لے جاکر یا وہاں سےخرید کر، قبور کے ارد گرد فقرا، ومساکین پر دیگوں اور لنگروں کی، یا مٹھائی اور پیسوں وغیرہ کی تقسیم، یا وہاں صندوقچی میں نذرنیاز کے پیسے ڈالنا، یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا، یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں، کیوں کہ یہ سب غیر اللہ کی نذرونیاز کی صورت ہیں اور نذر بھی . نماز، روزہ وغیرہ عبادات کی طرح، ایک عبادت ہے، اور عبادت کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ اسی لئے حدیث میں ہے : [ مَلْعُونٌ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ ] (صحيح الجامع الصغير وزيادته ألباني . جص) ”جس نے غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا، وہ ملعون ہے۔“ تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشاپوری ہے; ”أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ لَوْ أَنَّ مُسْلِمًا ذَبَحَ ذَبِيحَةً، يُرِيدُ بِذَبْحِهَا التَّقَرُّبَ إِلَى غَيْرِ اللهِ، صَارَ مُرْتَدًّا وَذَبِيحَتُهُ ذَبِيحَةُ مُرْتَدٍّ۔“ (تفسیر عزیزی ص 611 بحوالہ اشرف الحواشی) ”علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔“ البقرة
174 البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 1-یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاریٰ اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے تحویل قبلہ پر چہ میگوئیاں کررہے تھے، جس سے بعض مسلمان بھی بعض دفعہ کبیدہ خاطر ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال واخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ پھر آگے ان عقائدواعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات وصفات میں یکتا، تمام عیوب سے پاک ومنزہ اور قرآن وحدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری کو بغیر کسی تاویل یا تعطیل یا تکییف کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے، حشر نشر اور جنت ودوزخ پر یقین رکھا جائے۔ الْكِتَابِ سے مراد تمام آسمانی کتابوں کی صداقت پر ایمان ہے۔ اور فرشتوں کے وجود پر اور تمام پیغمبروں پر یقین رکھا جائے۔ ان ایمانیات کے ساتھ ان اعمال کو اپنایا جائے جس کی تفصیل اس آیت میں ہے۔ ﴿عَلَى حُبّهِ﴾ میں (ہ) ضمیر مال کی طرف راجع ہے، یعنی مال کی محبت کے باوجود مال خرچ کرے۔ ﴿الْبَأْسَاءِ﴾ سے تنگ دستی اور دشت فقر﴿الضَّرَّاء﴾ سے نقصان یا بیماری اور ﴿الْبَأْسِ﴾ سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہیہ سے سرمو انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لئے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایاہے۔ البقرة
178 1-زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں، اس لئے زور آور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے، ظلم وجور کا ارتکاب کرلیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقت ور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہوجاتا تو وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوںکو ، بلکہ بسااوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق وامتیاز کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ جو قاتل ہوگا، قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں وہی آزاد، غلام ہے تو بدلے میں وہی غلام اور عورت ہے تو بدلے میں وہی عورت ہی قتل کی جائے گی، نہ کہ غلام کی جگہ آزاد اور عورت کی جگہ مرد، یا ایک مرد کے بدلے میں متعدد مرد۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اگر عورت کو قتل کردے تو قصاص میں کوئی عورت قتل کی جائے گی، یا عورت مرد کو قتل کردے تو کسی مرد کو قتل کیا جائے گا (جیسا کہ ظاہری الفاظ سے مفہوم نکلتا ہے) بلکہ یہ الفاظ شان نزول کے اعتبار سے ہیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے مرد ہو یا عورت، طاقتور ہو یا کمزور۔ [ الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ ] - الحديث (سنن أبي داود ، كتاب الجهاد ، باب في السرية ترد على أهل العسكر) ’’تمام مسلمانوں کے خون (مرد ہو یا عورت) برابر ہیں‘‘۔ گویا آیت کا وہی مفہوم ہے جو قرآن کریم کی دوسری آیت، ﴿النَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ (المائدۂ: 45) کا ہے۔ احناف نے اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل کیا جائے گا لیکن جمہور علما اس کے قائل نہیں، کیوں کہ حدیث میں وضاحت ہے: [ لا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ ] (صحيح بخاري، كتاب الديات، باب لا يقتل المسلم بالكافر) ”مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا“ (فتح القدیر) مزید دیکھیے آیت 45، سورۂ المائدہ۔ 2- معافی کی دو صورتیں ہیں : ایک بغیر معاوضہ مالی یعنی دیت لئے بغیر ہی محض رضائے الٰہی کے لئے معاف کردینا، دوسری صورت، قصاص کی بجائے دیت قبول کرلینا، اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کا اتباع کرے۔ ﴿وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾ میں قاتل کو کہا جا رہا ہے کہ بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کرکے اس پر جو احسان کیا ہے، اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ ﴿هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلا الإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن) 3- یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص،معافی یا دیت تین صورتیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہے ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی، دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی، قصاص تھا نہ دیت۔ (ابن کثیر)۔ 4- قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کردے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا وآخرت میں بھگتنی ہوگی۔ البقرة
179 1-جب قاتل کو یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کردیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جراءت نہیں ہوگی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہوجاتا ہے، وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل وخونریزی سے محفوظ رکھتا ہے، جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے، اس کا مشاہدہ آج بھی سعودی معاشرے میں کیا جاسکتا ہے جہاں اسلامی حدود کے نفاذ کی یہ برکات الحمدللہ موجود ہیں۔ کاش دوسرے اسلامی ممالک بھی اسلامی حدود کا نفاذ کرکے اپنے عوام کو یہ پرسکون زندگی مہیا کرسکیں۔ البقرة
180 1-وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا۔ اب یہ منسوخ ہے۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ إِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ ، فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ] (أخرجه السنن بحواله ابن كثير) ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثا کے حصے مقرر کر دیئے ہیں) پس اب کسی وراث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں“، البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے جو وارث نہ ہوں، یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جاسکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ثلث (ایک تہائی) مال ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی (صحيح بخاري ، كتاب الفرائض باب ميراث البنات) البقرة
181 البقرة
182 1-جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتے دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور إِثْمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے (ایسرالتفاسیر) یا إِثْمًا سے مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل نہ کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل وانصاف کا اہتمام ضروری ہے، ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب، اس کے اخروی نجات کے نقطۂ نظر سے سخت خطرناک ہے۔ البقرة
183 1-صِيَامٌ، صَوْمٌ (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں، صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے، اللہ کی رضا کے لئے، رکے رہنا، یہ عبادت چوں کہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے، اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ البقرة
184 1-یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں، وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں۔ 2- يُطِيقُونَهُ کا ترجمہ يتَجَشَّمُونَهُ (نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں) کیا گیا ہے (یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، امام بخاری نے بھی اسے پسند کیا ہے) یعنی جو شخص زیادہ بڑھاپے یا ایسی بیماری کی وجہ سے، جس سے شفایابی کی امید نہ ہو، روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے، وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے، لیکن جمہور مفسرین نے اس کا ترجمہ (طاقت رکھتے) ہیں ہی کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے دیا کریں۔ لیکن بعد میں ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ کے ذریعے اسے منسوخ کرکے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کردیا گیا، تاہم زیادہ بوڑھے، دائمی مریض کے لئے اب بھی یہی حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں اور ”حَامِلَةٌ“ (حمل والی) اور ”مُرْضِعَةٌ“ (دودھ پلانے والی) عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہوں گی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں روزے کی قضا دیں (تحفة الأحوذي شرح ترمذي) 3- جو خوشی سے ایک مسکین کی بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ البقرة
185 1-رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ مکمل قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہوگیا، بلکہ یہ ہے کہ رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سےآسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں "بَيْتُ الْعِزَّةِ "میں رکھ گیا دیا۔ وہاں سے حسب حالات سالوں تک اترتا رہا۔ (ابن کثیر) اس لئے یہ کہنا کہ قرآن رمضان میں، یا لیلۃ القدر، یا لیلۃ مبارکہ میں اترا۔ یہ سب صحیح ہےکیوں کہ لوح محفوظ سے تو رمضان میں ہی اترا ہے اور لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکہ یہ ایک ہی رات ہے یعنی قدر کی رات، جو رمضان میں ہی آتی ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور پہلی وحی، جو غار حرا میں آئی، وہ رمضان میں آئی۔ اس اعتبار سے قرآن مجید اور رمضان المبارک کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم (ﷺ) اس ماہ مبارک میں حضرت جبریل (عليہ السلام) سے قرآن کا دورہ کیا کرتے تھے اور جس سال آپ (ﷺ) کی وفات ہوئی آپ (ﷺ) نے رمضان میں جبریل (عليہ السلام) کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا رمضان کی تین راتوں (23، 25 اور 27) میں آپ (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) کو باجماعت قیام اللیل بھی کرایا، جس کو اب تراویح کہا جاتا ہے (صحیح ترمذی و صحیح ابن ماجہ، البانی) یہ تراویح آٹھ رکعات مع وتر گیارہ رکعات تھیں جس کی صراحت حضرت جابر (رضی الله عنہ) کی روایت (جو قیام اللیل مروزی وغیرہ میں ہے) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت (صحیح بخاری) میں موجود ہے۔ نبی (ﷺ) کا 20 رکعات تراویح پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ چونکہ بعض صحابہ کرام (رضی الله عنہم) سے گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا ثابت ہے اس وجہ سے محض نفل کی نیت سے بیس رکعتیں یا اس سے کم یا زیادہ پڑھی جاسکتی ہیں۔ البقرة
186 1-رمضان المبارک کے احکام ومسائل کے درمیان دعا کا مسئلہ بیان کرکے یہ واضح کردیا گیا کہ رمضان میں دعا کی بھی بڑی فضیلت ہے، جس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، خصوصاً افطاری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت بتلایا گیا ہے (مسند أحمد، ترمذي ، نسائي، ابن ماجه بحواله ابن كثير) تاہم قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان آداب وشرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ جن میں سے دو یہاں بیان کئے گئے ہیں: ایک اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان اور دوسرا اس کی اطاعت وفرمانبرداری۔ اسی طرح احادیث میں حرام خوراک سے بچنے اور خشوع وخضوع کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ البقرة
187 1-ابتدائے اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشا کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی، سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھالیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ ﴿الرَّفَثُ﴾ سے مراد بیوی سے ہم بستری کرنا ہے ﴿الْخَيْطُ الأَبْيَضُ﴾ سے صبح صادق، اور ﴿لخَيْطُ الأسْوَدُ﴾ (سیاہ دھاری) سے مراد رات ہے (ابن کثیر) مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حالت جنابت میں روزہ رکھا جاسکتا ہے، کیوں کہ فجر تک اللہ تعالیٰ نے مذکورہ امور کی اجازت دی ہے اور صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) 2- یعنی رات ہوتے ہی (غروب شمس کے فوراً بعد) روزہ افطار کرلو۔ تاخیر مت کرو، جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔ دوسرا یہ کہ وصال مت کرو۔ وصال کا مطلب ہے کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا۔ اس سے نبی (ﷺ) نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث)۔ 3- اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس وکنار کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ ﴿عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ سے استدلال کیا گیا ہے کہ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ ازواج مطہرات نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔ اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف بیٹھنا صحیح نہیں۔ البتہ مسجد میں ان کے لئے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے، تاکہ مردوں سے کسی طرح کا اختلاط نہ ہو، جب تک مسجد میں معقول، محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو، عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور عورتوں کو بھی اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک نفلی عبادت ہی ہے، جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو، اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے۔ فقہ کا اصول ہے : [ دَرْءُ المَفَاسِدِ يُقَدَّمُ عَلَى جَلْبِ الْمَصَالحِ ]۔ ”مصالح کے حصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے۔“ البقرة
188 1-ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو، لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو، اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروالے اور اس طرح وہ دوسرے کا حق غصب کرلے۔ یہ ظلم ہے اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم عنداللہ مجرم ہوگا۔ (ابن کثیر) البقرة
189 1-انصار جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لئے گھر آنے کی ضرورت پڑ جاتی تو دروازے سے آنے کی بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو وہ نیکی سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ (ایسرالتفاسیر) البقرة
190 1-اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی ہے جو مسلمانوں سے آمادہ قتال رہتے تھے۔ تاہم زیادتی سے منع فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مثلہ مت کرو، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو، اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا، یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے ما ر ڈالنا بھی زیادتی ہے، جن سے بچا جائے۔ (ابن کثیر) البقرة
191 1-مکہ میں مسلمان چوں کہ کمزور اور منتشر تھے، اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا، ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں مجتمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف ان ہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے، اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا۔ قرآن کریم نے﴿اعْتِدَاءٌ﴾ (زیادتی کرنے) سے منع فرمایا، اس لئے نبی کریم (ﷺ) اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بدعہدی اور مثلہ نہ کرنا، نہ بچوں، عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت درویشوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کے جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرماتے (ابن کثیر۔ بحوالہ صحیح مسلم وغیرہ) ﴿حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ﴾ (جہاں بھی پاؤ) کا مطلب ہے ”تَمَكَّنْتُمْ مِنْ قِتَالِهِم“ ان کو قتل کرنے کی قدرت تمہیں حاصل ہوجائے (ایسرالتفاسیر) ﴿مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾ یعنی جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا، اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد، کفر وشرک ہے۔ یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے، اس لئے اس کو ختم کرنے کے لئے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ 2- حدود حرم میں قتال منع ہے، لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 1- 6 ہجری میں رسول اللہ (ﷺ) چودہ سو صحابہ (رضی الله عنہم) کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے، لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آسکیں گے۔ یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ جب دوسرے سال مسلمان حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کرکے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ میں جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظرانداز کرکے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے، یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو، بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظرانداز کرکے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ۔ (ابن کثیر) البقرة
195 1-اس سے بعض لوگوں نے ترک نفاق، بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے۔ اور یہ ساری ہی صورتیں ہلاکت کی ہیں، جہاد چھوڑ دو گے، یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز گرو گے تو یقیناً دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور۔ نتیجہ تباہی ہے۔ البقرة
196 1-یعنی حج یا عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اس کا پورا کرنا ضروری ہے، چاہے نفلی حج وعمرہ ہو۔ (ایسرالتفاسیر) 2- اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہوجائے تو ایک جانور (ہدی)۔ ایک بکری اور گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو، وہیں ذبح کرکے سرمنڈالو اور حلال ہوجاؤ، جیسے نبی (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رضی الله عنہم) نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کی تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی (ﷺ) نے ہجری والے عمرے کی قضا ہجری میں دی۔ 3- اس کا عطف ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ﴾ پر ہے اور اس کا تعلق حالت امن سے ہے، یعنی امن کی حالت میں اس وقت تک سر نہ منڈاؤ (احرام کھول کر حلال نہ ہو) جب تک تمام مناسک حج پورے نہ کرلو۔ 4- یعنی اس کو ایسی تکلیف ہوجائے کہ سر کے بال منڈانے پڑ جائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے۔ حدیث کی رو سے ایسا شخص مسکینوں کو کھانا کھلا دے، یا ایک بکری ذبح کردے، یا تین دن کے روزے رکھے۔ روزوں کے علاوہ پہلے دو فدیوں کی جگہ کے بارے میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ کھانا اور خون مکہ میں ہی دے، بعض کہتے ہیں کہ روزوں کی طرح اس کے لئے بھی کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے۔ امام شوکانی نے اسی رائے کی تائید کی ہے (فتح القدیر) 5- حج کی تین قسمیں ہیں ; "إِفْرَادٌ"،۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا۔ "قِرَانٌ"، حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرکے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں ہے۔ "حَجُّ تَمَتُّعٍ"۔ اس میں بھی حج وعمرہ دونوں کی نیت ہوتی ہے، لیکن پہلے صرف عمرہ کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے اور عمرہ کرکے پھر احرام کھول دیا جاتا ہے اور پھر ذوالحجہ کو حج کے لئے مکہ سے ہی دوبارہ احرام باندھا جاتا ہے، تمتع کے معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں۔ گویا درمیان میں احرام کھول کر فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ حج قران اور حج تمتع دونوں میں ایک ہدی (یعنی ایک بکری یا پھر اونٹ یا گائے کے ساتویں حصے) کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس آیت میں اسی حج تمتع کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ متمتع حسب طاقت ذو الحجہ کو ایک جانور کی قربانی دے، اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے ایام حج میں اور سات روزے گھر جاکر رکھے۔ ایام حج، جن میں روزے رکھنے ہیں، ذی الحجہ (یوم عرفات) سے پہلے، یا پھر ایام تشریق ہیں۔ (فتح القدیر) 6- یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدی یا روزے صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں، مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر) البقرة
197 1-اور یہ ہیں شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے، لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے، اس لئے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر ) مسئلہ : حج قران یا افراد کا احرام اہل مکہ، مکہ کے اندر سے ہی باندھیں گے۔ البتہ حج تمتع کی صورت میں عمرے کے احرام کے لئے حرم سے باہر حل میں جانا ان کے لئے ضروری ہے۔ (فتح الباري ، كتاب الحج وأبواب العمرة وموطأ إمام مالك) اسی طرح آفاقی لوگ حج تمتع میں ذوالحجہ کو مکہ سے ہی احرام باندھیں گے۔ البتہ بعض علما کے نزدیک اہل مکہ کو عمرے کے احرام کے لئے حدود حرم سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے وہ ہر طرح کے حج اور عمرے کے لئے اپنی اپنی جگہ سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں۔ تنبیہ : حافظ ابن القیم نے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے قول وعمل سے صرف دو قسم کے عمرے ثابت ہیں۔ ایک وہ جو حج تمتع کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور دوسرا وہ عمرہ مفردہ جو ایام حج کے علاوہ صرف عمرے کی نیت سے ہی سفر کرکے کیا جائے۔ باقی حرم سے جاکر کسی قریب ترین حل سے عمرے کے لئے احرام باندھ کر آنا غیرمشروع ہے۔ (الا یہ کہ جن کے احوال وظروف حضرت عائشہ جیسے ہوں) (زاد المعاد ج 2 طبع جدید) نوٹ : حدود حرم سے باہر کے علاقے کو حل اور بیرون مکہ سے آنے والے حجاج کو آفاقی کہا جاتا ہے۔ 2- صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ہے [ مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمّهُ ] (صحيح بخاري ، كتاب المحصر، باب قول الله عز وجل ﴿فَلَا رَفَثَ ﴾) ”جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے، جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔“ 3- تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے، بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے اور کہتے کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے۔ اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید فرمائی۔ البقرة
198 1-فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے، یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 2- 9 ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف، حج کا سب سے اہم رکن ہے، جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے۔ [ الْحَجُّ عَرَفَةُ ] (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے، بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشا کی دو رکعت (قصر) جمع کرکے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی۔ مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ حرم کے اندر ہے۔ یہاں ذکر الٰہی کی تاکید ہے۔ یہاں رات گزارنی ہے، فجر کی نماز غَلَسٌ ( اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے، طلوع آفتاب کے بعد منیٰ جایا جائے۔ البقرة
199 1-مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں وقوف کرکے واپس آنا ضروری ہے، لیکن عرفات چوں کہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے، بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے، چنانچہ حکم دیا جارہا ہے کہ جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔ البقرة
200 1-عرب کے لوگ حج سے فراغت کے بعد منیٰ میں میلہ لگاتے اور آباواجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے، مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ جب تم ذوالحجہ کو کنکریاں مارنے، قربانی کرنے، سرمنڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا ومروہ سے فارغ ہو جاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منیٰ میں قیام کرنا ہے تو وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو، جیسے جاہلیت میں تم اپنے آبا کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ البقرة
201 1-یعنی اعمال خیر کی توفیق، یعنی اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے، بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے ہیں۔ نبی (ﷺ) کثرت سے یہ دعا پڑھتے تھے۔ طواف کے دوران لوگ ہر چکر کی الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں، ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً﴾ رکن یمانی اور حجر اسود کے دمیان پڑھنا مسنون عمل ہے۔ البقرة
202 البقرة
203 1- مراد ایام تشریق ہیں، یعنی11، 12 اور 13 ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الٰہی، یعنی بہ آواز بلند تکبیرات مسنون ہیں، صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسا کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں [ اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، لا إِلَه إلا الله ، واللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، وللهِ الحَمْدُ ] کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ (نیل الاوطار۔ ج5ص86)۔ 2- رمی جمار (جمرات کو کنکریاں مارنا) دن افضل ہیں، لیکن اگر کوئی دو دن (11، 12 ذوالحجہ) کو کنکریاں مار کر منیٰ سے واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ البقرة
204 1- بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور متکبرین ہیں، جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو قرآن نے اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔ البقرة
205 البقرة
206 1- ﴿أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ﴾ تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور وانانیت کے ہیں۔ البقرة
207 1- یہ آیت، کہتے ہیں حضرت صہیب (رضي الله عنه) رومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہا کہ یہ مال سب یہاں کا کمایا ہوا ہے، اسے ہم ساتھ نہیں لے جانے دیں گے، حضرت صہیب (رضي الله عنه) نے یہ سارا مال ان کے حوالے کردیا اور دین ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ (ﷺ) نے سن کر فرمایا: ”صہیب نے نفع بخش تجارت کی ہے“ دو مرتبہ فرمایا (فتح القدیر) لیکن یہ آیت بھی عام ہے، جو تمام مومنین متقین اور دنیا کے مقابلے میں دین کو اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کو شامل ہے، کیوں کہ اس قسم کی تمام آیات کے بارے میں، جو کسی خاص شخص یا واقعہ کے بارے میں نازل ہوئیں یہ اصول ہے: ”الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ“ یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا، سبب نزول کے خصوص کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پس اخنس بن شریق (جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا) برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو اس جیسے برے کردار کا حامل ہوگا اور صہیب (رضي الله عنه) خیر اور کمال ایمان کی ایک مثال ہیں ہر اس شخص کے لئے جو ان صفات خیر وکمال سے متصف ہوگا۔ البقرة
208 1- اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ اس طرح نہ کرو کہ جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں، ان پر تو عمل کرلو اور دوسرے حکموں کو نظر انداز کردو۔ اسی طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو، اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو، بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ۔ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کردی گئی اور آج کل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی، جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں، بلکہ دین کو عبادات، یعنی مساجد تک محدود کرنا، اور سیاست اور ایوان حکومت سے دیس کو نکالا دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح عوام کو بھی سمجھایا جارہا ہے جو رسوم ورواج اور علاقائی ثقافت وروایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے، جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج۔ اور یہ کہا جا رہا ہےکہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لئے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا، برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے، تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔ البقرة
209 البقرة
210 1- یہ یا تو قیامت کا منظر ہے جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے۔ (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتے کے جلو میں اور بادلوں کے سائے میں ان کے سامنے آئے اور فیصلہ چکائے، تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول ہی نہیں، اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کرکے اپنی آخرت سنوار لو۔ البقرة
211 1- مثلاً عصائے موسیٰ، جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا، سمندر سے راستہ بنایا، پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے، بادلوں کا سایہ، من وسلویٰ کا نزول وغیرہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہمارے پیغمبر (ﷺ) کی صداقت کے دلیل تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے اعراض کیا۔ 2- نعمت کے بدلنے کے مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر اور اعراض کا راستہ اپنایا۔ البقرة
212 1- چوں کہ مسلمانوں کی اکثریت غربا پر مشتمل تھی جو دنیوی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم تھے، اس لئے کافر یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور میں شیوہ رہا ہے۔ 2- اہل ایمان کے فقر اور سادگی کا کفار جو استہزا وتمسخر اڑاتے، اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہا ہے کہ قیامت والے دن یہی فقرا اپنے تقویٰ کی بدولت بلند وبالا ہوں گے (بےحساب روزی) کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہوسکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے ان فقرا پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دیئے، جن سے سامان دنیا اور رزق کی فراوانی ہوگئی۔ البقرة
213 1- یعنی توحید پر۔یہ حضرت آدم(عليه السلام) سے حضرت نوح(عليه السلام)، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیا دیتے رہے، قائم رہے۔ آیت میں مفسرین صحابہ نے فَاخْتَلَفُوا محذوف مانا ہے، یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک ومظاہرپرستی عام ہوگئی۔ فَبَعَثَ اس کا عطف فَاخْتَلَفُوا ( جو محذوف ہے) پر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ اور حق اور توحید کو قائم وواضح کریں۔ (ابن کثیر) 2- اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس انحراف کا منبع بغض وعناد بنتا ہے، امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا، یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلافات کی شدت سے محفوظ رہی، لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا، اس سے اختلافات کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تاآنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیز بن کر رہ گیا ہے۔ فَهَدَى اللهُ الْمُسْلِمِينَ. 3- چنانچہ مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا، یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعے کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ(عليه السلام) کے بارے میں اختلاف کیا۔ یہود نے ان کی تکذیب کی اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا، اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور الٰہ بنا دیا۔ اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرماں بردار بندے تھے۔ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا، ایک نے یہودی اور دوسرے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ ﴿حَنِيفًا مُسْلِمًا﴾ تھے اور اس طرح کے دیگر کئی مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اذن یعنی اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔ البقرة
214 1- ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی (ﷺ) سے شکایت کی، جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی (ﷺ) نے فرمایا ( تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا، لیکن یہ ظلم وتشدد ان کو ان کی دین سے نہیں پھیر سکا )، پھر فرمایا: ( اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی اسلام کو غالب) فرمائے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا )۔ الحدیث (صحيح بخاري، كتاب الإكراه، باب من اختار الضرب والقتل والهوان على الكفر) مقصد نبی (ﷺ) کا مسلمانوں کے اندر حوصلہ اور استقامت کا عزم پیدا کرنا تھا۔ 2- اس لئے ( كُلُّ مَا هُوَ آتٍ فَهَوَ قَرِيبٌ )۔ ”ہر آنے والی چیز، قریب ہے“ اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے، اس لئے وہ قریب ہی ہے۔ البقرة
215 1- بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں، یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انفاق کایہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے، زکٰوۃ سے متعلق نہیں۔ کیوں کہ ماں باپ پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے۔ حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا ”مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا“ مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے۔ افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے ہیں کہ اس میں کراہیت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔ البقرة
216 1- جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو، چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے۔ اس لئے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ ہوسکتا ہے، اس میں تمہارے لئے بہتری ہو۔ جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح وغلبہ، عزت وسربلندی اور مال واسباب مل سکتا ہے، اسی طرح تم جس کو پسند کرو، (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھ رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لئے خطرناک ہوسکتا ہے، یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ البقرة
217 1- رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانۂ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے، جن میں قتال وجدال ناپسندیدہ تھا۔ اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا۔ نبی (ﷺ) کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہوگیا اور بعض کافر قیدی بنا لئے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہوگیا ہے۔ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقیناً حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے، لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا؟ یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر انہوں نے مجبور کردیا۔ علاوہ ازیں کفر وشرک بجائے خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اس لئے اگر مسلمانوں سے غلطی سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہوگیا تو کیا ہوا؟ اس پر واویلا کرنے کے بجائے ان کو اپنا نامۂ سیاہ بھی تو دیکھ لینا چاہیے۔ 2- جب یہ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد بنانے کی کوششوں سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقابلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو؟ 3- جو دین اسلام سے پھر جائے، یعنی مرتد ہوجائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیوی سزا قتل ہے۔ حدیث میں ہے :[ مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ] (صحيح بخاري ، كتاب الجهاد، باب لا يعذب بعذاب الله) آیت میں اس کی اخروی سزا بیان کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کئے گئے اعمال صالحہ بھی کفر ارتداد کی وجہ سے کالعدم ہوجائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اسی طرح کفر ارتداد سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگا جب خاتمہ کفر پر ہوگا، اگر موت سے پہلے تائب ہوجائے گا تو ایسا نہیں ہوگا، یعنی مرتد کی توبہ مقبول ہے۔ البقرة
218 البقرة
219 1- بڑا گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔ 2- فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے، مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی ومستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے۔ جنسی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی خرید وفروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جُوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے، لیکن یہ فائدے ان نقصانات ومفاسد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ (ان کا گناہ، ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے۔) اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام توقرار نہیں دیا گیا، تاہم اس کے لئے تمہید باندھ دی گئی ہے۔ اس آیت سے ایک بہت اہم اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز میں چاہے وہ کتنی بھی بری ہو،کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور دیگر اس قسم کی ایجادات ہی اور لوگ ان کے بعض فوائد بیان کرکے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے۔ خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق و کردار کے لحا ظ سے۔ اگر دینی نقطۂ نظر سے نقصانات و مفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ 3- اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے، یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا، جس پر فرضیت زکٰوۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا، تاہم افضل ضرور ہے، یا اس کے معنی ہیں ”مَا سَهُلَ وَتَيَسَّرَ وَلَمْ يَشُقْ عَلَى الْقَلْبِ“ (فتح القدير) ”جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے“ اسلام نے یقیناً انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے۔ لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیرکفالت افراد کی خبرگیری اور ان کی ضروریات کو مقدم رکھنے میں حکم دیا ہے۔ دوسرے، اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہل خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جائے۔ البقرة
220 1- جب یتیموں کا مال ظلما کھانے والوں کے لئے وعید نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رضي الله عنه) ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی، اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس وعید کے مستحق نہ قرار پاجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر ) 2- یعنی تمہیں بغرض اصلاح وبہتری بھی، ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔ البقرة
221 1- مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں۔ کیوں کہ اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہوسکتا۔ تاہم حضرت عمر (رضي الله عنه) نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا ہے (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظرانداز کرکے محض حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ”عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسب نسب، حسن وجمال یا دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو۔“ (صحيح بخاري- كتاب النكاح، باب الأكفاء في الدين - وصحيح مسلم ، كتاب الرضاع ، باب استحباب نكاح ذات الدين) اسی طرح آپ (ﷺ) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے۔ فرمایا :[ خيرُ متاعِ الدنيا المرأةُ الصالحةُ ] (صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب خير متاع الدنيا المرأة الصالحة) البقرة
222 1- بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے، اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے، اسے استحاضہ کہتے ہیں، جس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔ حیض کے ایام میں عورت سے نماز معاف ہے اور روزے رکھنا ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مرد کے لئے صرف ہم بستری منع ہے، البتہ بوس وکنار جائز ہے۔ اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر گھر کا ہر کام کرسکتی ہے، لیکن یہودیوں میں ان دنوں میں عورت کو بالکل نجس سمجھا جاتا تھا، وہ اس کے ساتھ اختلاط اور کھانا پینا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس کی بابت حضور (ﷺ) سے پوچھا تو یہ آیت اتری، جس میں صرف جماع کرنے سے روکا گیا۔ علیحدہ رہنے اور قریب نہ جانے کا مطلب صرف جماع سے ممانعت ہے۔ (ابن کثیر وغیرہ ) 2- جب وہ پاک ہوجائیں۔ اس کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں ” ایک خون بند ہوجائے“ یعنی پھر غسل کیے بغیر بھی پاک ہیں، مرد کے لئے ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ ابن حزم اور بعض ائمہ اس کے قائل ہیں۔ علامہ البانی نے بھی اس کی تائید کی ہے (آداب الزفاف ص 47) دوسرے معنی ہیں، خون بند ہونے کے بعد غسل کرکے پاک ہوجائیں۔ اس دوسرے معنی کے اعتبار سے عورت جب تک غسل نہ کرلے، اس سے مباشرت حرام رہے گی۔ امام شوکانی نے اس کو راجح قرار دیا ہے (فتح القدیر) ہمارے نزدیک دونوں مسلک قابل عمل ہیں، لیکن دوسرا قابل ترجیح۔ 3- ”جہاں سے اجازت دی ہے“ یعنی شرمگاہ سے۔ کیوں کہ حالت حیض میں بھی اسی کے استعمال سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جارہی ہے تو اس کا مطلب اسی (فرج، شرمگاہ) کی اجازت ہے، نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے، جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید صراحت کردی گئی ہے۔ البقرة
223 1- یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر (مُدْبِرَةً) مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جارہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ (اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو، آؤ) اور یہ کھیتی (موضع ولد) صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیرفطری فعل ہے ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر ) البقرة
224 1- یعنی غصے میں اس طرح کی قسم مت کھاؤ کہ میں فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا، فلاں سے نہیں بولوں گا، فلاں کے درمیان صلح نہیں کراؤں گا۔ اس قسم کی قسموں کے لئے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر کھا لو تو انہیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو (کفارۂ قسم کے لئے دیکھیے: سورۃ المائدۃ، آیت89) البقرة
225 1- یعنی جو غیرارادی اور عادت کے طور پر ہوں۔ البتہ عمداً جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ البقرة
226 1- إِيلاءٌ کے معنی قسم کھانے کے ہیں، یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھا لے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینے یا دو مہینے (مثلاً) تعلق نہیں رکھوں گا، پھر قسم کی مدت پوری کرکے تعلق قائم کرلیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں، ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا تو کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت کی تعیین کے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں، یا پھر اسے طلاق دے دیں (اسے چار مہینے سے زیادہ معلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے) پہلی صورت میں اسے کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا اور اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اس کو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے، یا طلاق دے، تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (تفسیر ابن کثیر ) البقرة
227 1- ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی از خود طلاق واقع نہیں ہوگی (جیسا کہ بعض علما کا مسلک ہے) بلکہ خاوند کے طلاق دینے سے طلاق ہوگی، جس پر اسے عدالت بھی مجبور کرے گی۔ جیسا کہ جمہور علما کا مسلک ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
228 1- اس سے وہ مطلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیوں کہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل ہے) جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو، وہ بھی نہ ہو (کیوں کہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں ہے) آئسہ بھی نہ ہو، یعنی جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو (کیوں کہ ان کی عدت تین مہینے ہے) گویا یہاں مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جا رہی ہے اور وہ تین قروء۔ جس کے معنی طہر یا تین حیض کے ہیں۔ یعنی تین طہریا تین حیض عدت گزار کے وہ دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہے۔ سلف نے قروء کے دونوں ہی معنی صحیح قرار دیئے ہیں، اس لئے دونوں کی گنجائش ہے (ابن کثیر وفتح القدیر) 2- اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں۔ حیض نہ چھپائیں، مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک یا دو حیض آئے ہیں، درآں حالیکہ اسے تینوں حیض آچکے ہوں۔ مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو) یا اگر رجوع کرنا نہ چاہتی ہو تو یہ کہہ دے کہ مجھے تو تین حیض آچکے ہیں جب کہ واقعتہً ایسا نہ ہو، تاکہ خاوند کا حق رجوع ثابت نہ ہوسکے۔ اسی طرح حمل نہ چھپائیں، کیوں کہ اس طرح دوسری جگہ شادی کرنے کی صورت میں نسب میں اختلاط ہوجائے گا۔ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہوجائے گا۔ یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔ 3- رجوع کرنے سے خاوند کا مقصد اگر تنگ کرنا نہ ہو تو عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عورت کے ولی کو اس حق میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ 4- یعنی دونوں کے حقوق ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، جن کے پورے کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں، تاہم مرد کو عورت پر فضیلت یا درجہ حاصل ہے، مثلاً فطری قوتوں میں، جہاد کی اجازت میں، میراث کے دو گنا ہونے میں، قوامیت اورحاکمیت میں اور اختیار طلاق ورجوع (وغیرہ) میں۔ البقرة
229 1- یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر) رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے، پہلی طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ حق طلاق ورجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا، آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، اس طرح اسے نہ بساتا تھا، نہ آزاد کرتا تھا۔ اللہ نے اس ظلم کا راستہ بند کردیا۔ اور پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق میں ہی ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے”طَلْقَتَانِ“ (دو طلاقیں) نہیں فرمایا، بلکہ الطَّلاقُ مَرَّتَانِ (طلاق دو مرتبہ) فرمایا، جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور انہیں بیک وقت نافذ کر دینا حکمت الٰہیہ کے خلاف ہے۔ حکمت الٰہیہ اسی بات کی مقتضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) اور اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلد بازی یا غصے میں کئے گئے کام کے ازالے کا موقع دیا جائے، یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینے میں ہی باقی رہتی ہے، نہ کہ تینوں کو بیک وقت نافذ کرکے سوچنے اور غلطی کا ازالہ کرنے کی سہولت سے محروم کردینے کی صورت میں، (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : کتاب مجموعہ مقالات علمیہ بابت۔ ایک مجلس کی تین طلاق)۔ اور (اختلاف امت اور صراط مستقیم)۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علما ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔ 2- یعنی رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے بسانا۔ 3- یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔ 4- اس میں خلع کا بیان ہے، یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے۔ خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو عدالت نکاح فسخ کردے گی۔ گویا خلع بذریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی۔ دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابوداود، ترمذی، نسائی والحاکم۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکیدکی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔ اگر ایسا کرے گی تو نبی (ﷺ) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی ہے کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گی۔ (ابن کثیر وغیرہ ) البقرة
230 1- اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے۔ یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح۔ البتہ یہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے، یا فوت ہوجائے تو اس کے بعد زوج اول سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ لیکن اس کے لئے بعض ملکوں میں جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے، یہ لعنتی فعل ہے۔ نبی (ﷺ) نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح، نکاح نہیں ہے، زناکاری ہے، اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ البقرة
231 1- الطَّلاقُ مَرَّتَانِ میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے۔ اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہو سکتا ہے، عدت گزرنے کے بعد نہیں۔ اس لئے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے۔ 2- بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے ، یا نکاح کرلیتے، یا آزاد کردیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ میں نے تو مذاق کیا تھا۔ اللہ نے اسے آیات الٰہی سے استہزا قرار دیا، جس سے مقصود اس سے روکنا ہے۔ اسی لئے نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق، یا نکاح یا آزادی نافذ ہوجائے گی۔ (تفسیر ابن کثیر) البقرة
232 1- اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو تم ان کو مت روکو۔ نبی (ﷺ) کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کردیا جس پر یہ آیت اتری (صحيح بخاري، كتاب النكاح ، باب لا نكاح إلا بولي) اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی (ﷺ) سے ہوتی ہے :[ لا نِكَاحَ إلا بِوَلِيٍّ ] ’’ولی کی اجازت سے بغیر نکاح نہیں‘‘، (رواه الخمسة إلا النسائي إرواء الغليل ص۔ صححه الألباني) ایک اور روایت میں ہے۔ [ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ]، (حواله مذكور وصححه أيضا الألباني) جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔ (حوالہ مذکور) ان احادیث کو علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی، دیگر محدثین کی طرح، صحیح اور احسن تسلیم کیا ہے۔ فیض الباری،ج کتاب النکاح) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ضرور ملحوظ رکھیں۔ اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظرانداز کرکے زبردستی نکاح کردے، تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے، کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے۔ اگر عورت من مانے طریقے سے ولی کی اجازت نظرانداز کرے گی تو وہ نکاح ہی صحیح نہیں ہوگا اور ولی زبردستی کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کرکے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔ ’’فَإِنِ اشْتَجَرُوا فالسُلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لا وَلِيَّ لَهَا‘‘ (إرواء الغليل) البقرة
233 1- اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔ اس میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہے تو وہ دو سال پورے دودھ پلائے۔ ان الفاظ سے اس سے کم مدت تک دودھ پلانے کی بھی گنجائش نکلتی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مدت رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، جیسا کہ ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مرفوعاً روایت ہے : [ لا يُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إِلا مَا فَتَقَ الأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ ، وَكَان قَبْلَ الفِطَامِ ]، (الترمذي ، كتاب الرضاع ، باب ما جاء أن الرضاعة لا تحرم إلا في الصغر دون الحولين) ”وہی رضاع (دودھ پلانا) حرمت ثابت کرتا ہے، جو چھاتی سے نکل کر آنتوں کو پھاڑے اور یہ دودھ چھڑانے (کی مدت) سے پہلے ہو۔“ چنانچہ اس مدت کے اندر کوئی بچہ کسی عورت کا اس طریقہ سے دودھ پی لے گا، جس سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، تو ان کے درمیان رضاعت کا وہ رشتہ قائم ہوجائے گا، جس کے بعد رضاعی بہن بھائیوں میں آپس میں اسی طرح نکاح حرام ہوگا جس طرح نسبی بہن بھائیوں میں حرام ہوتا ہے۔ [ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ ]۔ (صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب الشهادة على الأنساب والرضاع المستفيض والموت القديم) ”رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔“ 2- مَوْلُودٌ لَّهُ سے مراد باپ ہے۔ طلاق ہوجانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ شریعت سے انحراف ہے۔ اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق مطلقہ عورت کی روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو، جس طرح کہ اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ 3- ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلاً ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے، مگر مامتا کے جذبے کو نظرانداز کرکے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے، یا یہ کہ بغیر خرچ کی ذمہ داری اٹھائے، اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکارکردے، یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا، اس سے مالی مطالبہ کرے۔ 4- باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں، تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو اور نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متاثر ہو۔ 5- یہ ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کاما وجب (معاوضہ) دستور کے مطابق ادا کردیا جائے۔ البقرة
234 1- یہ عدت وفات ہر عورت کے لئے ہے، چاہے مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ ، جوان ہو یا بوڑھی۔ البتہ اس سے حاملہ عورت مستثنیٰ ہے، کیوں کہ اس کی عدت وضع حمل ہے۔ ﴿وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾۔ (الطلاق) ”حمل والی عورت کی مدت وضع حمل ہے۔“، اس عدت وفات میں عورت کو زیب وزینت کی (حتیٰ کہ سرمہ لگانے کی بھی) اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ مطلقہ رجعیہ کے لئے عدت کے اندر زیب وزینت ممنوع نہیں ہے اور مطلقہ بائنہ میں اختلاف ہے، بعض جواز کے اور بعض ممانعت کے قائل ہیں۔ (ابن کثیر ) 2- یعنی عدت گزرنے کے بعد وہ زیب وزینت اختیار کریں اور اولیا کی اجازت ومشاورت سے کسی اور جگہ نکاح کا بندوبست کریں، تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، اس لئے تم پر بھی (اے عورت کے ولیو !) کوئی گناہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوہ کے عقدثانی کو برا سمجھنا چاہیے، نہ اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہیے۔ جیسا کہ ہندوؤں کے اثرات سے ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ البقرة
235 1- یہ بیوہ یا وہ عورت، جس کو تین طلاقیں مل چکی ہوں، یعنی طلاق بائنہ۔ ان کی بابت کہا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران ان سے اشارے کنایے میں تو تم نکاح کا پیغام دے سکتے ہو (مثلاً میرا ارادہ شادی کرنے کا ہے، یا میں نیک عورت کی تلاش میں ہوں، وغیرہ) لیکن ان سے کوئی خفیہ وعدہ مت لو اور نہ مدت گزرنے سے قبل عقد نکاح پختہ کرو۔ لیکن وہ عورت جس کو خاوند نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں، اس کو عدت کے اندر اشارے کنائے میں بھی نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں، کیوں کہ جب تک عدت نہیں گزر جاتی، اس پر خاوند کا ہی حق ہے۔ ممکن ہے خاوند رجوع ہی کرلے۔ مسئلہ : بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جاہل لوگ عدت کے اندر ہی نکاح کرلیتے ہیں، اس کی بابت حکم یہ کہ اگر ان کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی ہے تو فوراً ان کے درمیان تفریق کرادی جائے اور اگر ہم بستری ہوگئی ہے تب بھی تفریق تو ضروری ہے، تاہم دوبارہ ان کے درمیان (عدت گزرنے کے بعد) نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، بعض علما کی رائے یہ ہے کہ ان کے درمیان اب کبھی باہم نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک دوسرے کے لئے ابداً حرام ہیں، لیکن جمہور علما ان کے درمیان نکاح کے جواز کے قائل ہیں (تفسیر ابن کثیر ) 2- اس سے مراد بھی وہی تعریض وکنایہ ہے جس کا حکم پہلے دیا گیا ہے، مثلاً میں تیرے معاملے میں رغبت رکھتا ہوں، یا ولی سےکہےکہ اس کے نکاح کی بابت فیصلہ کرنے سے قبل مجھے اطلاع ضرور کرنا۔ وغیرہ (ابن کثیر ) البقرة
236 1- یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے خلوت صحیحہ یعنی ہم بستری کے بغیر طلاق بھی دے دی تو اسے کچھ نہ کچھ فائدے دے کر رخصت کرو۔ یہ فائدہ (متعہ طلاق) ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے۔ خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے۔ تاہم محسنین کے لئے ہے یہ ضروری۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے، کسی نے کہا، خادم۔ کسی نے کہا 500 درہم۔ کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ، وغیرہ۔ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے۔ ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے، یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لئے ہے، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ تلخی، کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر، جو طلاق کا سبب ہوتا ہے، احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی ودلداری کا اہتمام کرنا، مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سدباب کا نہایت اہم ذریعہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے، مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتے ہیں۔ البقرة
237 1- یہ دوسری صورت ہے کہ مساس (خلوت صحیحہ) سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا۔ اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے۔ الا یہ کہ عورت اپنا یہ حق معاف کردے۔ اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ 2- اس سے مراد خاوند ہے، کیوں کہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے، یہ نصف حق مہر معاف کردے، یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے، اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کردے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل واحسان کو نہ بھولنے کی تاکید کرکے حق مہر میں بھی اسی فضل واحسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ملاحظہ : بعض نے بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ سے عورت کا ولی مراد لیا ہے کہ عورت معاف کردے یا اس کا ولی معاف کر دے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ ایک تو عورت کے ولی کے ہاتھ میں عقدۂ نکاح نہیں، دوسرے مہر عورت کا حق اور اس کا مال ہے، اسے معاف کرنے کا حق بھی ولی کو حاصل نہیں۔ اس لئے وہی تفسیر صحیح ہے جو آغاز میں کی گئی ہے (فتح القدیر ) ضروری وضاحت : طلاق یافتہ عورتوں کی چار قسمیں ہیں : 1- جن کا حق مہر بھی مقرر ہے، خاوند نے مجامعت بھی کی ہے ان کو پورا حق مہر دیا جائے گا۔ جیسا کہ آیت میں اس کی تفصیل ہے۔ 2- حق مہر بھی مقرر نہیں، مجامعت بھی نہیں کی گئی، ان کو صرف متعہ طلاق دیا جائے گا۔ 3- حق مہر مقرر ہے، لیکن مجامعت نہیں کی گئی، ان کو نصف مہر دینا ضروری ہے (ان دونوں کی تفصیل، زیرنظر آیت میں ہے )۔ 4-مجامعت کی گئی ہے، لیکن حق مہر مقرر نہیں، ان کے لئے مہر مثل ہے، مہر مثل کا مطلب ہے اس عورت کی قوم میں جو رواج ہے، یا اس جیسی عورت کے لئے بالعموم جتنا مہر مقرر کیا جاتا ہو۔ (نیل الاوطاروعون المعبود ) البقرة
238 1- درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جس کو اس حدیث رسول (ﷺ) نے متعین کردیا ہے جس میں آپ (ﷺ) نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صَلاة وُسْطَىٰ قراردیا۔ (صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب الدعاء على المشركين بالهزيمة وصحيح مسلم، كتاب المساجد ، باب الدليل لمن قال الصلاة الوسطى ....) البقرة
239 1- یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہے، پیادہ چلتے ہوئے سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو پھر اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا ہے۔ البقرة
240 1- یہ آیت، گو ترتیب میں مؤخر ہے، مگر منسوخ ہے، ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے، جس میں عدت وفات 4 مہینے 10 دن بتلائی گئی۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کردیا ہے، اس لئے اب خاوند کو عورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، نہ رہائش (سکنی) کی اور نہ نان ونفقہ کی۔ البقرة
241 1- یہ حکم عام ہے جو ہر مطلقہ عورت کو شامل ہے۔ اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک اور تطییب قلوب کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس کے بےشمار معاشرتی فوائد ہیں۔ کاش مسلمان اس نہایت اہم نصیحت پر عمل کریں، جسے انہوں نے بالکل فراموش کر رکھا ہے۔ آج کل کے بعض (مجتہدین) نے ”مَتَاعٌ“ اور ”مَتِّعُوهُنَّ“ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مطلقہ کو اپنی جائیداد میں سے باقاعدہ حصہ دو، یا عمر بھر نان ونفقہ دیتے رہو۔ یہ دونوں باتیں بےبنیاد ہیں، بھلا جس عورت کو مرد نے نہایت ناپسندیدہ سمجھ کر اپنی زندگی سے ہی خارج کردیا، وہ ساری عمر کس طرح اس کے اخراجات کی ادائیگی کے لئے تیار ہوگا؟ البقرة
242 البقرة
243 1- یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے، جس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں کی گئی۔ تفسیری روایات میں اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پیغمبر کا نام، جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ فرمایا، حزقیل بتلایا گیا ہے۔ یہ جہاد میں قتل کےڈر سے، یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کردیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے اس واقعے کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ، موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز و فرار کرکے تم ٹال نہیں سکتے۔ البقرة
244 البقرة
245 1- قَرْضٌ حَسَنٌ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا ہے یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ کبھی رزق میں کمی کرکے اور کبھی اس میں فراوانی کرکے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گناہ اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر، کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقیناً اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔ البقرة
246 1- مَلأ کسی قوم کے ان اشراف، سردار اور اہل حل وعقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں، جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں، ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفاسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنواسرائیل حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا، دین میں بدعات ایجاد کرلیں۔ حتیٰ کہ بتوں کی پوجا شروع کردی۔ انبیا ان کو روکتے رہے، لیکن یہ معصیت اور شرک سے باز نہیں آئے۔ اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا، جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا، ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا، بالآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے، جنہوں نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں۔ پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو، لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ 2- نبی کی موجودگی میں بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ، بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا، لیکن اللہ نے اس معاملہ کو رد نہیں فرمایا، بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کر دیا، جیسا کہ آگے آرہا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے بلکہ وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل وانصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں، بلکہ مطلوب ومحبوب بھی ہے۔ مزید دیکھیے : سورۃ المائدۃ، آیت 20 کا حاشیہ۔ البقرة
247 1- حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے بادشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا۔ یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے، جس پر انہوں نے اعتراض کیا۔ پیغمبر نے کہا کہ یہ میرا انتخاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں قیادت وسیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت وطاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے۔ وہ واسع الفضل ہے، جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت وعنایات سے نوازتا ہے، علیم ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ بادشاہت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ہے (معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں بتلایا گیا کہ یہ تقرری اللہ کی طرف سے ہے تو اس کے لئے انہوں نے مزید کسی نشانی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔ چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے)۔ البقرة
248 1- صندوق یعنی تابوت، جو توب سے ہے، جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ کیوں کہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے، یہ تابوت بھی ان کے دشمن ان سے چھین کر لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا۔ جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ کی نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح وسکینت کا سبب قرار دیا۔ سکینت کا مطلب ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیردل بھی کانپ اٹھتے ہیں، اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح وکامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء و صالحین کے تبرکات یقینا باذن اللہ اہمیت و افادیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں۔ جس طرح اس تابوت میں یقینا حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں بن جاتی، جس طرح آج کل "تبرکات" کے نام پر کئی جگہوں پر مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں، جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح خود ساختہ چیزوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جس طرح بعض لوگ نبی (ﷺ) کے نعل مبارک کی تمثال بنا کر اپنے پاس رکھنے کو، یا گھروں میں لٹکانے کو، یا مخصوص طریقے سے اس کے استعمال کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لئے اکشیر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذر و نیاز کی چیزوں کو اور لنگر کو متبرک سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ غیر اللہ کے نام کا چڑھاوا ہے جو شرک کے دائرے میں آتا ہے، اس کا کھانا قطعاً حرام ہے، قبروں کو غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ قبروں کو غسل دینا بھی خانہ کعبہ کے غسل کی نقل ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ گندا پانی متبرک کیسے ہوسکتا ہے؟ بہر حال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔ البقرة
249 1- یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے۔ (ابن کثیر) 2- اطاعت امیر ہرحال میں ضروری ہے، تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دوچند، بلکہ صد چند ہو جاتی ہے۔ دوسرے، جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک، پیاس اور دیگر شدائد کو نہایت صبر اور حوصلے سے برداشت کریں۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی۔ جس نے پانی پی لیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لیکن اس تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ ان کی تعداد میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔ اسی طرح نہ پینے والوں کی تعداد بتلائی گئی ہے، جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ اعلم۔ 3- ان اہل ایمان نے بھی، ابتداءً جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا، جس پر ان کے علما اور ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والوں نے کہا کہ کامیابی، تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فراوانی پر منحصر نہیں، بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔ البقرة
250 1- جالوت اس دشمن قوم کا کمانڈو اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقا کا مقابلہ تھا۔ یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر قوم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی اسی شہرت کے پیش نظر، عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبروثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح وکامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں، جیسے جنگ بدر میں نبی (ﷺ) نے نہایت الحاح وزاری سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔ البقرة
251 1- حضرت داود (عليه السلام) بھی، جو ابھی پیغمبر تھے نہ بادشاہ، اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے۔ ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور ان تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے سے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔ 2- اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داود (عليه السلام) کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔ حکمت سے بعض نے نبوت، بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی ہے، جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت وارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ 3- اس میں اللہ کی ایک سنت الٰہی کا بیان ہے کہ وہ انسانوں کے ہی ایک گروہ کے ذریعے سے، دوسرے انسانی گروہ کے ظلم اور اقتدار کا خاتمہ فرماتا رہتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا اور کسی ایک ہی گروہ کو ہمیشہ قوت واختیار سے بہرہ ور کئے رکھتا تو یہ زمین ظلم وفساد سے بھر جاتی۔ اس لئے یہ قانون الٰہی اہل دنیا کے لئے فضل الٰہی کا خاص مظہر ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج کی آیت 38 اور 40 میں بھی فرمایا ہے۔ البقرة
252 1- یہ گزشتہ واقعات، جو آپ (ﷺ) پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں، اے محمد (ﷺ) یقیناً آپ کی رسالت وصداقت کی دلیل ہیں، کیوں کہ آپ (ﷺ) نے یہ نہ کتاب میں پڑھے ہیں، نہ کسی سے سنے ہیں۔ جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں ہیں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کے بیان کو آپ (ﷺ) کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ البقرة
253 1- قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے «وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ» (بنی اسرائیل: 55) ”ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے“ اس لئے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی (ﷺ) نے جو فرمایا ہے[ لا تُخَيِّرُونِي مِنْ بَيْنِ الأَنْبِيَاءِ ] (صحيح بخاري ، كتاب التفسير ، سورة الأعراف ، باب135.مسلم، كتاب الفضائل، باب من فضائل موسى) ”تم مجھے انبیا کے درمیان فضیلت مت دو“، تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ امت کو انبیا (عليهم السلام) کی بابت ادب واحترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا، جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے سے فضیلت حاصل ہے، پورا علم نہیں ہے۔ اس لئے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا کہ اس سے دوسرے انبیا کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں کی بعض پر فضیلت اور تمام پیغمبروں پر نبی (ﷺ) کی فضیلت واشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو نصوص کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے فتح القدیر للشوکانی) 2- مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو دیئے گئے تھے، مثلاً احیائے موتی (مردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ۔ جس کی تفصیل سورۂ آل عمران میں آئے گی۔ روح القدس سے مراد حضرت جبریل ہیں، جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ 3- اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ مطلب اس کا یہ نہیں کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے۔ یہ اللہ کو سخت ناپسند ہے، اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر نار جہنم سے بچ جائیں۔ اسی لئے اس نے کتابیں اتاریں، انبیا (عليهم السلام) کا سلسلہ قائم کیا تاآنکہ نبی کریم (ﷺ) پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفا اور علما ودعاۃ کے ذریعے سے دعوت حق اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت وتاکید بیان فرمائی گئی۔ کس لئے؟ اسی لئے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں۔ لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کرکے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے، اس لئے کوئی اس اختیار و آزادی کا صحیح استعمال کرکے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار وآزادی کا غلط استعمال کرکے کافر۔ یہ گویا اس کی حکمت ومشیت ہے، جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ البقرة
254 1- یہود و نصاریٰ اور کفار ومشرکین اپنے اپنے پیشواؤں یعنی نبیوں، ولیوں، بزرگوں، پیروں، مرشدوں وغیرہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اسے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منواسکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں۔ اسی کو وہ شفاعت کہتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آج کل کے جاہلوں کا ہے کہ ہماے بزرگ اللہ کے پاس اڑ کر بیٹھ جائیں گے، اور بخشوا کر اٹھیں گے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں۔ پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات واحادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بےشک ہوگی، مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے۔ جنہیں اللہ اجازت دے گا۔ اور صرف اسی بندے کے بارے میں کرسکیں گے جس کے لئے اللہ اجازت دے گا۔ اور اللہ صرف اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا۔ یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے، انبیا ورسل بھی، اور شہدا وصالحین بھی۔ مگر اللہ پر ان میں کسی بھی شخصیت کا کوئی دباؤ نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ﴿وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾ (الأنبياء : 28)۔ البقرة
255 1- یہ آیت الکرسی ہے جس کی بڑی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً یہ آیت قرآن کی اعظم آیت ہے۔ اس کے پڑھنے سے رات کو شیطان سے تحفظ رہتا ہے۔ ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے وغیرہ (ابن کثیر) یہ اللہ تعالیٰ کی صفات جلال، اس کی علو شان اور اس کی قدرت وعظمت پر مبنی نہایت جامع آیت ہے۔ 2- كُرْسِيٌّ سے بعض نے مَوْضِعُ قَدَمَيْنِ (قدم رکھنے کی جگہ)، بعض نے علم،بعض نے قدرت وعظمت، بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے۔ لیکن صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محدثین اور سلف کا یہ مسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات جس طرح قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان کی بغیر تاویل اور کیفیت بیان کئے، ان پر ایمان رکھا جائے۔ اس لئے یہی ایمان رکھنا چاہیے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے جو عرش سے الگ ہے۔ اس کی کیفیت کیا ہے، اس پر وہ کس طرح بیٹھتا ہے؟ اس کو ہم بیان نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی حقیقت سے ہم بےخبر ہیں۔ البقرة
256 1- اس کی شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی یا عیسائی ہوگئے تھے، پھر جب یہ انصار مسلمان ہو گئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو یہودی یا عیسائی بن چکے تھے، زبردستی مسلمان بنانا چاہا ، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول کے اس اعتبار سے بعض مفسرین نے اسے اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب، اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں، تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے، یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لئے جبر نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے۔ تاہم کفر وشرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ اور جبرواکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباؤ ختم کرنا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں روڑہ بنی ہوئی ہو۔ تاکہ ہر شخص اپنی آزاد مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہوجائے۔ چونکہ روڑہ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لئے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی، جیسا کہ حدیث میں ہے [ الجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ]، ”جہاد قیامت تک جاری رہے گا“، خود نبی (ﷺ) نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے۔[ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ]، الحديث- (صحيح بخاري- كتاب الإيمان ، باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة) ”مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں“۔ اسی طرح سزائے ارتداد (قتل) سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں)۔ کیونکہ ارتداد کی سزا۔ قتل۔ سے مقصود جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بےشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو پھر اس سے بغاوت وانحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ کر اسلام لائے۔ کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہوسکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ اس لئے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر، قتل، چوری ، زنا، ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔ یہ جبر واکراہ نہیں ہے۔ بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل وغارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے۔ ایک کا مقصدملک کا نظریاتی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شروفساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد، ایک مملکت کے لئے ناگزیر ہیں۔ آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظرانداز کرکے جن الجھنوں، دشواریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ البقرة
257 البقرة
258 البقرة
259 1- أَوْ كَالَّذِي کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے (پہلے واقعہ کی طرح) اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا۔۔۔ یہ شخص کون تھا؟ اس کی بابت مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ زیادہ مشہور حضرت عزیر کا نام ہے جس کے بعض صحابہ وتابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے کے واقعہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام ونمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کردیا، حتیٰ کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ جب وہ سو سال کے بعد زندہ کرسکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ 2- کہا جاتا ہے کہ جب وہ شخص مذکور مرا تھا، اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی، اس سے اس نے یہ اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اور اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کہ اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ 3- یعنی یقین تو مجھے پہلے بھی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور عمل میں مزید پختگی اور اضافہ ہوگیا ہے۔ البقرة
260 1- یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا۔ یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعیین کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کئے۔ بس یہ چار مختلف پرندے تھے۔ فَصُرْهُنَّ کے ایک معنی أَمِلْهُنَّ کئے گئے ہیں یعنی ان کو ”ہلالے“ (مانوس کرلے) تاکہ زندہ ہونے کے بعد ان کو آسانی سے پہچان لے کہ یہ وہی پرندے ہیں اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ اس معنی کے اعتبار سے پھر اس کے بعد ثم قَطِّعْهُنَّ(پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرلے) محذوف ماننا پڑے گا۔ دوسرے معنی قطعھن (ٹکڑے ٹکڑے کرلے) کئے گئے ہیں۔ اس صورت میں کچھ محذوف مانے بغیر معنی ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف پہاڑوں پر ان کے اجزا باہم ملا کر رکھ دے، پھر تو آواز دے تو وہ زندہ ہو کر تیرے پاس آجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض جدید وقدیم مفسرین نے (جو صحابہ وتابعین کی تفسیر اور سلف کے منہج ومسلک کو اہمیت نہیں دیتے) فَصُرْهُنَّ کا ترجمہ صرف (ہلالے) کا کیا ہے۔ اور ان کے ٹکڑے کرنے اور پہاڑوں پر ان کے اجزا بکھیر نے اور پھر اللہ کی قدرت سے ان کے جڑنے کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں، اس سے واقعے کی ساری اعجازی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور مردے کو زندہ کر دکھانے کا سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود اللہ تعالیٰ کی صفت احیائے موتی اور اس کی قدرت کاملہ کا اثبات ہے۔ ایک حدیث میں ہےنبی (ﷺ) نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے اس واقعے کا تذکرہ کرکے فرمایا: [ نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ ]، (صحيح بخاري، كتاب التفسير) ”ہم ابراہیم (عليه السلام) سے زیادہ شک کرنے کے حق دار ہیں“۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابراہیم (عليه السلام) نے شک کیا، لہذا ہمیں ان سے زیادہ شک کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ بلکہ مطلب حضرت ابراہیم (عليه السلام) سے شک کی نفی ہے۔ یعنی ابراہیم (عليه السلام) نے احیائے موتی کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقیناً شک کرنے میں ان سے زیادہ حق دار ہوتے۔ (مزید وضاحت کے لئے دیکھیے فتح القدیر۔ للشوکانی ) البقرة
261 1- یہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے۔ اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات وصدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیاں [ الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا ]، ”ایک نیکی کا اجر دس گنا“، کی ذیل میں آئیں گی۔ (فتح القدیر) گویا نفقات وصدقات کا عام اجر وثواب، دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان واسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا، فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کئے جاسکتے۔ البقرة
262 1- انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کرکے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے۔ کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے: ”قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں ایک احسان جتلانے والا ہے۔“ (مسلم، كتاب الإيمان، باب غلظ تحريم إسبال الإزار والمنّ بالعطية البقرة
263 1- سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل وکرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مَغْفِرَةٌ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو اس سے چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے۔ یعنی سائل سے نرمی وشفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل ورسوا کرکے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اسی لئے حدیث میں کیا گیا ہے [ الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ ]، (صحيح مسلم كتاب الزكاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على نوع من المعروف) ”پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے“، نیز نبی (ﷺ) نے فرمایا ”تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔“ [ لا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلِقٍ ]۔ (مسلم، كتاب البرّ، باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء البقرة
264 1- اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ صدقہ وخیرات کرکے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا، اہل ایمان کا شیوہ نہیں، بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے، ایسے خرچ کی مثال صاف چٹان کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو ، کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہوجائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی، اسی طرح ریاکار کو بھی اس کے صدقہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ البقرة
265 1- یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پرفضا اور بلند چوٹی پر ہو، کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اس کو کافی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ان کے نفقات بھی، چاہے کم ہو یا زیادہ، عنداللہ کئی کئی گنا اجر وثواب کے باعث ہوں گے جَنَّةٌ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ، جس کے چاروں طرف باڑھ ہو اور باڑھ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے، جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی، پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا، دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اور جنت کو بھی اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ ربوۃ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وابل تیز بارش۔ البقرة
266 1- اسی ریا کاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لئے مزید مثال دی جارہی ہے کہ جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی اس سے بھرپور آمدنی کی امید ہو) ، وہ شخص بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں (یعنی وہ خود بھی ضعف پیری اور کبرسنی کی وجہ سے محنت ومشقت سے عاجز ہوچکا ہو اور اولاد بھی اس کے بڑھاپے کا سہارا تو کیا؟ خود اپنا بوجھ بھی اٹھانے کے قابل نہ ہو) اس حالت میں تیز وتند ہوائیں چلیں اور اس کا سارا باغ جل جائے۔ اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا نہ اس کی اولاد۔ یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا۔ کہ نفاق وریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت وفرصت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو؟ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنھما) اور حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہوجاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں(صحيح بخاري، كتاب التفسير، فتح القدير، للشوكاني وتفسير ابن جرير طبري البقرة
267 1- صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ من واذی اور ریاکاری سے پاک ہو (جیسا کہ گذشتہ آیات میں بتایا گیا ہے) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو۔چاہے وہ کاروبار (تجارت وصنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے۔ اور یہ جو فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو)۔ تو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔ حدیث میں ہے: [ إنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبا ]، ”اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک (حلال) چیز ہی قبول فرماتا ہے۔“ دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں، ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں، جیسا کہ آیت ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ کا بھی مفاد ہے۔ اس کی شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ )۔ 2- یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے، اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی اچھی چیز ہی خرچ کرو۔ البقرة
268 1- یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہوجاؤ گے۔ لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا۔ بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے اور ان کے لئے خفتہ آرزوؤں کو اس طرح جگاتا ہے کہ ان پر انسان بڑی سے بڑی رقم بے دھڑک خرچ کر ڈالتا ہے۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو، دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اور مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے۔ لیکن یہی شخص سینما، ٹیلی ویژن، شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بےتحاشا خرچ کرتا ہے۔ اور اس سے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔ البقرة
269 1- حِكْمَةٌ سے بعض کے نزدیک، عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ و منسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہوسکتے ہیں۔ صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ ”دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ (صحيح بخارى، كتاب العلم، باب الاغتباط في العلم والحكمة - مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلِّمه ....) البقرة
270 1- نَذْرٍ کا مطلب ہے کہ میرا فلاں کام ہوگیا یا فلاں ابتلا سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کروں گا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں۔ نذر بھی، نماز روزہ کی طرح، عبادت ہے۔ اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا ہے جو شرک ہے، جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر ونیاز کا یہ سلسلہ عام ہے، اللہ تعالیٰ اس شرک سے بچائے۔ البقرة
271 1- اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے، سوائے کسی ایسی صورت کے کہ علانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضیلت حاصل کرسکتے ہیں، وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ وخیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کوقیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا، ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا، کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضیلت کو بعض علما نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکٰوۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔ البقرة
272 1- تفسیری روایات میں اس کی شان نزول یہ بیان کی گئی ہے کہ مسلمان اپنے مشرک رشتے داروں کی مدد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہدایت کے راستے پر لگا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تم لوجہ اللہ جو بھی خرچ کرو گے، اس کا پورا اجر ملے گا جس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلم رشتے داروں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کرنا باعث اجر ہے۔ تاہم زکٰوۃ صرف مسلمانوں کا حق ہے یہ کسی غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی۔ البقرة
273 1- اس سے مراد وہ مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہر چیز سے کٹ گئے۔ دینی علوم حاصل کرنے والے طلبا اور علما بھی اس کی ذیل میں آسکتے ہیں۔ 2- گویا اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقر وغربت کے باوجود وہ تَعَفُّفْ ( سوال سے بچنا) اختیار کرتے اور الحاف (چمٹ کر سوال کرنا) سے گریز کرتے ہیں۔ بعض نے الحاف کے معنی کئے ہیں، بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلے صفت عفت بیان کی گئی ہے (فتح القدیر) اور بعض نے کہا ہے کہ وہ سوال میں الحاح وزاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے۔ اس لئے کہ الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے اس مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ [ مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک، دو دو لقمے کے لئے در در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ مسکین تو وہ ہے جو سوال سے بچتا ہے ]، پھر نبی (ﷺ) نے آیت ﴿لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾ کا حوالہ پیش فرمایا (صحیح بخاری، التفسیر والزکاۃ )۔ اس لئے پیشہ ور گداگروں کی بجائے، مہاجرین، دین کے طلبا علما اور سفید پوش ضرورت مندوں کا پتہ چلا کر ان کی امداد کرنی چاہیے۔ جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خودداری کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں حدیث میں آتا ہے کہ جس کے پاس ما يغني ہو [ یعنی اتنا سامان ہو جو اس کی کفایت کرتا ہو ]، لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں سے سوال کرے گا، تو قیامت والے دن اس کے چہرے پر زخم ہوں گے۔ (رواه أهل السنن الأربعة - ترمذي، كتاب الزكاة) اور بخاری ومسلم کی روایت میں ہے کہ ”ہمیشہ لوگوں سے سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا“۔ (بحواله مشكاة، كتاب الزكاة باب من لا تحل له المسالة ومن تحل له) البقرة
274 البقرة
275 1- رِبَا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اور شریعت میں اس کا اطلاق "رِبَا الْفَضْلِ اور رِبَا النَّسِيئَةِ" پر ہوتا ہے۔ "رِبَا الْفَضْلِ"، اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد وادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے، مثلاً گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے يَدًا بِيَدٍ( ہاتھوں ہاتھ) ہو۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کی بجائے، ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں، تب بھی سود ہے) "رِبَا النَّسِيئَةِ" کا مطلب ہے کسی کو (مثلاً) 6 مہینے کے لئے اس شرط پر سو روپے دینا، کہ واپسی 125 روپے ہوگی۔ 25روپے 6 مہینے کی مہلت کے لئے جائیں حضرت علی (رضي الله عنه) کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ "كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا" (فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 5، ص 28 ) ”قرض پر لیا گیا نفع سود ہے“، یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لئے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر لیا گیا سود حرام ہے اور زمانۂ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا۔ شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے۔ اس لئے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ (جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے) اس پر اضافہ، سود نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلاً قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے۔ بلکہ، منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے۔ بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چاہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے۔ یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیوی غرض ومنفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جس سے معاشرے میں اخوت، بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت و محبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بےروزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت سنگ دلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں، تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لئے لئے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔ 2- سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔ 3- حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے۔ دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے، جب کہ سود میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر یہ دونوں ایک کس طرح قبول ہوسکتے ہیں؟ 4- قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔ 5- کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رکھتا ہو یا سوء عمل اور فسادنیت کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے وعید ہے۔ البقرة
276 1- یہ سود کی معنوی اور روحانی مضرتوں اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف اب یورپی ماہرین معیشت بھی کرنے لگے ہیں۔ البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 1- یہ ایسی سخت وعید ہے جو اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس (رضی الله عنہما) نے کہا ہے کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو، تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے۔ (ابن کثیر ) 2- تم اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا۔ البقرة
280 1- زمانۂ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود، اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا، جس سے وہ تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے، احادیث میں بھی اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ؟ ایک سراسر ظلم، سنگ دلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام۔ مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پررحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام ؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت و افادیت کو سمجھ سکیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوار کرسکیں۔ البقرة
281 1- بعض آثار میں ہے کہ یہ قرآن کریم کی آخری آیت ہے جو نبی کریم (ﷺ) پر نازل ہوئی، اس کے چند دن بعد ہی آپ (ﷺ) دنیا سے رحلت فرما گئے۔ (ابن کثیر ) البقرة
282 1- جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات وخیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں دیون (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ کیونکہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ وخیرات کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا۔ پھر اپنی ضروریات وحاجات پوری کرنے کے لئے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے، اس میں بےاحتیاطی یا تساہل جھگڑوں کا باعث بھی ہے۔ اس لئے اس آیت میں، جسے آیہ الدین کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے، اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنے۔ اس کے لئے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کرلو، دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو، تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو، یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ 2- اس سے مراد مقروض ہے یعنی وہ اللہ سے ڈرتا ہوا رقم کی صحیح تعداد لکھوائے، اس میں کمی نہ کرے۔ آگے کہا جا رہا ہے کہ یہ مقروض اگر کم عقل یا کمزور بچہ یا مجنون ہے تو اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف کےساتھ لکھوالے تاکہ صاحب حق (قرض دینے والے) کو نقصان نہ ہو۔ 3- یعنی جن کی دین داری اور عدالت پر تم مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کریم کی اس نص سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں، سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھا لے۔ فقہائے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں، جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں، کیونکہ حدیث سے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا ثابت ہے اور دو عورتیں جب ا یک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا۔ (فتح القدیر )۔ 4- یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت وحکمت ہے۔ یعنی عورت عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے) اس میں عورت کے استخفاف اور فروتری کا اظہار نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں) بلکہ ایک فطری کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر مبنی ہے۔ مُكَابَرَةً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق وواقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔ 5- یہ لکھنے کے فوائد ہیں کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، گواہی بھی درست رہے گی (کہ گواہ کے فوت یا غائب ہونے کی صورت میں بھی تحریر کام آئے گی) اور شک وشبہہ سے بھی فریقین محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ شک پڑنے کی صورت میں تحریر دیکھ کر شک دور کر لیا جاسکتا ہے۔ 6- یہ وہ خرید وفروخت ہے جس میں ادھار ہو یا سودا طے ہوجانے کے بعد بھی انحراف کا خطرہ ہو۔ ورنہ اس سے پہلے نقد سودے کو لکھنے سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ بعض نے اس بیع سے مکان دکان، باغ یا حیوانات کی بیع مراد لی ہے۔ (ایسرالتفاسیر) 7- ان کو نقصان پہچانا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقے میں ان کو بلایا جائے کہ جس سے ان کی مصروفیات میں حرج یا کاروبار میں نقصان ہو یا ان کو جھوٹی بات لکھنے یا اس کی گواہی دینے پر مجبور کیا جائے۔ 8- یعنی جن باتوں کی تاکید کی گئی ہے، ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے اجتناب کرو۔ البقرة
283 1- اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے اور وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل وغیرہ نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جا رہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز دائن (قرض دینے والے) کے پاس رہن (گروی) رکھ دے۔ اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی۔ (صحیحین) تاہم اگر مَرْهُونَةٌ (گروی رکھی ہوئی چیز) ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حق دار مالک ہوگا نہ کہ دائن۔ البتہ اس پر دائن کا اگر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچہ وصول کرسکتا ہے۔ باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔ 2- یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کرسکتے ہو۔ امانت سے مراد یہاں قرض ہے، اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔ 3- گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے، اس لئے اس پر سخت وعید یہاں قرآن میں اور احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ اسی لئے صحیح گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہوجائے“، [ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِه قَبْل أَنْ يُسْأَلَهَا ]، (صحيح مسلم، كتاب الأقضية، باب بيان خير الشهود) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ [ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِشَرّ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَشْهَدُونَ قَبْلَ أنْ يُسْتَشْهَدُوا ]، (صحيح بخاري، كتاب الرقاق- مسلم، كتاب فضائل الصحابة) ”کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں۔“، مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ کتمان دل کا فعل ہے۔ علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغۂ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا اور اگر اس میں فساد آ جائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ [ أَلا! وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلا! وَهِيَ الْقَلْبُ ]۔ (صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه) البقرة
284 1- احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! نماز، روزہ، زکٰوۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال، جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، ہم بجا لاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں۔ لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں ہے اور وہ تو انسانی طاقت سے ہی ماورا ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرما دیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا۔ فی الحال تم «سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا» ہی کہو۔ چنانچہ صحابہ (رضی الله عنہم) کے جذبہ سمع وطاعت کو دیکھتے ہوئےاللہ تعالے نے اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ ”اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا“، سے منسوخ فرما دیا (ابن کثیر وفتح القدیر) صحیحین وسنن اربعہ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ [ إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ ]۔ (صحيح بخاري، كتاب العتق ، باب الخطأ والنسيان في العتاقة... ومسلم، كتاب الإيمان، باب تجوز أمته عن حديث النفس ....) ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کردیا جائے“، اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا، صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم وارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں۔ اس کے برعکس امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ محاسبہ معاقبہ کو لازم نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا بھی محاسبہ کرے، اس کو سزا بھی ضرور دے، بلکہ اللہ تعالیٰ محاسبہ تو ہر ایک کا کرے گا ، لیکن بہت سے لوگ ہوں گے کہ محاسبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا بلکہ بعض کے ساتھ تو یہ معاملہ فرمائے گا کہ اس کا ایک ایک گناہ یاد کراکے ان کا اس سے اعتراف کروائے گا اور پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈالے رکھا، جاآج میں ان کو معاف کرتا ہوں (یہ حدیث صحیح بخاری، مسلم وغیرہما میں ہے بحوالہ ابن کثیر) اور بعض علما نے کہا ہے کہ یہاں نسخ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ بعض دفعہ اسے وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے دل میں جو شبہ اس آیت سے پیدا ہوا تھا، اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا﴾ اور حدیث [ إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي... ]، وغیرہ سے دور کردیا گیا۔ اس طرح ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ البقرة
285 1- اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر ا ہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے اگلی آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ﴾ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وشفقت اور اس کے فضل وکرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا ہے جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ’’جو شخص سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہوجاتی ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری۔ ابن کثیر) یعنی اس عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے۔ نبی (ﷺ) کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں، ان میں سے ایک سورۂ بقرہ کی یہ آخری دو آیات بھی ہیں۔ (صحیح مسلم، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی) کئی روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ اس سورہ کی آخری آیات آپ (ﷺ) کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں (أحمد، نسائي ، طبراني، بيهقي، حاكم دارمي وغيره-در منثور) حضرت معاذ (رضي الله عنه) اس سورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔ (ابن کثیر) البقرة
286 البقرة
0 آل عمران
1 آل عمران
2 1- حَيّ اور قَيُّومٌ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں حی کا مطلب وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، اسے موت اور فنا نہیں۔ قیوم کا مطلب ساری کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتےتھے۔ گویا ان کو کہا جا رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانۂ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصے بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ، یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہوتا تو انہیں مخلوق کے بجائے الوہی صفات کا حامل اور قدیم ہونا چاہیےتھا۔ نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے۔ اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہو چکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو وہ رد نہیں ہوتی۔ ایک یہی آل عمران کی آیت، دوسری آیت الکرسی میں ﴿اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ اور تیسری سورء طٰہ میں ﴿وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ﴾ (ابن کثیر۔ تفسیر آیت الکرسی ) آل عمران
3 1- یعنی اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ آل عمران
4 1- اس سے پہلے انبیاء پرجو کتابیں نازل ہوئیں۔ یہ کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے یعنی جوباتیں ان میں درج تھیں، ان کی صداقت اور ان میں بیان کردہ پیش گوئیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن کریم بھی اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پہلے بہت سی کتابیں نازل فرمائیں۔ اگر یہ کسی اور کی طرف سے یا انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا تو ان میں باہم مطابقت کے بجائے مخالفت ہوتی۔ 2- یعنی اپنے اپنے وقت میں تورات اور انجیل بھی یقیناً لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ تھیں، اس لئے کہ ان کے اتارنے کا مقصد ہی یہی تھا۔ تاہم اس کے بعد ﴿وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ﴾ دوبارہ کہہ کر وضاحت فرما دی۔ کہ مگر اب تورات وانجیل کادور ختم ہو گیا، اب قرآن نازل ہو چکا ہے، وہ فرقان ہے اور اب صرف وہی حق وباطل کی پہچان ہے، اس کو سچا مانے بغیر عنداللہ کوئی مسلمان اور مومن نہیں۔ آل عمران
5 آل عمران
6 1- خوبصورت یا بدصورت، مذکر یا مونث، نیک بخت یا بدبخت، ناقص الخلقت یا تام الخلقت۔ جب رحم مادر میں یہ سارے تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے تو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) الٰہ کس طرح ہو سکتے ہیں جو خودبھی اسی مرحلۂ تخلیق سے گزر کر دنیا میں آئے ہیں جس کا سلسلہ اللہ نے رحم مادر میں قائم فرمایا ہے۔ آل عمران
7 1- مُحْكَمَاتٌ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر ونواہی، احکام ومسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا۔ اس کے برعکس آيَاتٌ مُتَشَابِهَاتٌ ہیں مثلاً اللہ کی ہستی، قضا وقدر کے مسائل، جنت دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اسی لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے (فتنے) برپا کرتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نےحضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو عبداللہ اور نبی کہا ہے یہ واضح اور محکم بات ہے۔ لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جوکہا گیا ہے، اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدلال کرتے ہیں۔ یہی حال اہل بدعت کاہے۔ قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں، وہ انہی مُتَشَابِهَاتٌ کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات مُحْكَمَاتٌ کوبھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے مُتَشَابِهَاتٌ بناتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهم نہ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پرعمل کرتا ہے اورمُتَشَابِهَاتٌ کے مفہوم کو بھی (اگر اس میں اشتباہ ہو) محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی کو (اصل کتاب) قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد کی گمراہی سے بھی۔ جَعَلَنَا اللهُ منْهُمْ 2- تاویل کے ایک معنی تو ہیں (کسی چیز کی اصل حقیقت) اس معنی کے اعتبار سےإِلا اللهُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طورپرصرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تاویل کے دوسرے معنی ہیں ”کسی چیزکی تفسیر وتعبیر اوربیان وتوضیح“ اس اعتبار سے الا اللہ پر وقف کے بجائے ﴿وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ﴾ پر بھی وقف کیا جاسکتاہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر وتوضیح کا علم رکھتے ہیں۔ ”تاویل“ کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں۔ (ملخص ازابن کثیر) آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 آل عمران
12 1- یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں۔ اور یہ پیش گوئی جلدہی پوری ہوگئی۔ چنانچہ بنو قینقاع اور بنو نضیر جلا وطن کیے گئے، بنو قریظہ قتل کیے گئے۔ پھر خیبر فتح ہوگیا اور تمام یہودیوں پر جزیہ عائد کر دیا گیا (فتح القدیر) آل عمران
13 1- یعنی ہر فریق، دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا تھا۔ کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے۔ مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا۔ اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر (یا 313 ) تھی، انہیں کافر 600 اور 700 کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالیکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب (تین گنا) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کے عزم وحوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرعوب ہو جاتے۔ جب وہ تین گنا کے بجائے دو گنا نظر آئےتو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ لیکن یہ دگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی، پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کرکے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے (ابن کثیر) یہ تفصیل سورۃ الانفال۔ آیت 44 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا۔ یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی۔ ایک تو اس لیے کہ یہ پہلی جنگ تھی۔ دوسرے، یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی۔ مسلما ن ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جا رہا تھا، مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ تو بچا کر لے گیا، لیکن کفار مکہ اپنی طاقت وکثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر میں یہ پہلا معرکہ برپا ہوا۔ تیسرے، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی، چوتھے، اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی، جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ آل عمران
14 1- شَهَوَاتٌ سے مراد یہاں مُشْتَهَيَاتٌ ہیں یعنی وہ چیزیں جوطبعی طور پر انسان کو مرغوب اورپسندیدہ ہیں۔ اسی لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ﴾ (الكهف: 7) ”ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اسے زمین کی زینت بنایاہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں“ سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (ﷺ) کا فرمان ہے: [ حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَالطِّيبُ ] (مسند احمد) ”عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہیں“۔ اسی طرح نبی (ﷺ) نے نیک عورت کو ”دنیا کی سب سے بہتر متاع“ قرار دیا ہے [ خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ ] اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی۔ ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ فرمان رسول (ﷺ) ہے: [ مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجِالِ مِنَ النِّسَاءِ ] (صحيح بخاري كتاب النكاح، باب ما يتقى من شؤم المرأة)(میرے بعد جو فتنے رونما ہوں گے، ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔) اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے۔ اگر اس سے مقصد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا وتکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مذموم۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الْوَلُودَ؛ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ] (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا) اس آیت سے رھبانیت کی تردیداور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ بَنِينٌ جمع ہے۔ مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت، صلۂ رحمی، صدقہ وخیرات اور اسے امور خیر میں خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری، دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور باربرداری کا کام لینا اور زمین سےاس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پرفخر وغرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش وعشرت سے زندگی گزارنا ہے تو یہ سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہوں گی۔ قَنَاطِيرُ قِنْطَارٌ (خزانہ) کی جمع ہے۔ مراد ہے خزانے یعنی سونے چاندی اورمال ودولت کی فراوانی اور کثرت۔ المُسَوَّمَةِ وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں۔ یا جہاد کےلئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے کوئی نشان یا نمبرلگادیا جائے (فتح القدیر وابن کثیر) آل عمران
15 1- اس آیت میں اہل ایمان کو بتلایا جا رہا ہے کہ دنیاکی مذکورہ چیزوں میں ہی مت کھو جانا، بلکہ ان سے بہتر تو وہ زندگی اور اس کی نعمتیں ہیں جو رب کے پاس ہیں، جن کے مستحق اہل تقویٰ ہی ہوں گے۔ اس لئے تم تقویٰ اختیار کرو۔ اگر یہ تمہارے اندر پیدا ہو گیا تو یقیناً تم دین ودنیاکی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹ لو گے۔ 2- پاکیزہ، یعنی وہ دنیاوی میل کچیل، حیض ونفاس اور دیگر آلودگیوں سے پاک ہوں گی اورپاک دامن ہونگی۔ اس سے اگلی دو آیات میں اہل تقویٰ کی صفات کا تذکرہ ہے۔ آل عمران
16 آل عمران
17 آل عمران
18 1- شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا، اور بیان کیا، اس کے ذریعے سے اس نےاپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اوراہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور فرشتوں کے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب وسنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر) آل عمران
19 1- اسلام وہی دین ہے جس کی دعوت وتعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اب اس کی کامل ترین شکل وہ ہے جسے نبی آخرالزمان حضرت محمد (ﷺ) نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جس میں توحید ورسالت اور آخرت پر اس طرح یقین وایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم (ﷺ) نے بتلایا ہے۔ اب محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کر لینا، یہ اسلام نہیں نہ اس سے نجات آخرت ہی ملے گی۔ ایمان واسلام اوردین یہ ہے کہ اللہ کوایک مانا جائے اور صرف اسی ایک معبود کی عبادت کی جائے، محمد رسول اللہ (ﷺ) سمیت تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔ اور نبی (ﷺ) کی ذات پر رسالت کا خاتمہ تسلیم کیاجائے اورایمانیات کے ساتھ ساتھ وہ عقائد واعمال اختیار کئے جائیں جو قرآن کریم میں یا حدیث رسول (ﷺ) میں بیان کئے گئے ہیں۔ اب اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین عنداللہ قبول نہیں ہو گا۔ ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (آل عمران: 85) نبی (ﷺ) کی رسالت پوری انسانیت کے لئے ہے۔ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ (الأعراف: 158) ”کہہ دیجئے! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں“، ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ (الفرقان: 1) ”برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کا ڈرانے والا ہو“ اور حدیث میں ہے، نبی (ﷺ) نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو یہودی یا نصرانی مجھ پرایمان لائے بغیر فوت ہوگیا، وہ جہنمی ہے۔“ (صحیح مسلم) مزید فرمایا [ بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ ] ”میں احمرواسود (یعنی تمام انسانوں کے لئے نبی بناکربھیجا گیاہوں“ اسی لئے آپ (ﷺ) نے اپنے وقت کے تمام سلاطین اور بادشاہوں کوخطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی (صحیحین۔ بحوالہ ابن کثیر ) 2- ان کے اس باہمی اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو ایک ہی دین کے ماننے والوں نے آپس میں برپا کر رکھا تھا مثلاً یہودیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں۔ اسی طرح عیسائیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں، پھر وہ اختلاف بھی مراد ہے جواہل کتاب کے درمیان آپس میں تھا۔ اور جس کی بناپر یہودی نصرانیوں کو اورنصرانی یہودیوں کوکہاکرتے تھے (تم کسی چیز پر نہیں ہو۔) نبوت محمدی (ﷺ) اور نبوت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں اختلاف بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سارے اختلافات دلائل کی بنیاد پر نہیں تھے، محض حسد اوربغض وعناد کی وجہ سے تھے یعنی وہ لوگ حق کو جاننے اورپہچاننے کے باوجود محض اپنے خیالی دنیاوی مفاد کے چکر میں غلط بات پر جمے رہتے اور اس کو دین باور کراتے تھے۔ تاکہ ان کی ناک بھی اونچی رہے اور ان کاعوامی حلقۂ ارادت بھی قائم رہے۔ افسوس آج مسلمان علما کی ایک بڑی تعداد ٹھیک انہی غلط مقاصد کے لئے ٹھیک اسی غلط ڈگر پر چل رہی ہے۔ -هَدَاهُمُ اللهُ وَإِيَّانَا- 3- یہاں ان آیتوں سے مراد وہ آیات ہیں جو اسلام کے دین الٰہی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ آل عمران
20 1- ان پڑھ لوگوں سے مراد مشرکین عرب ہیں جو اہل کتاب کے مقابلے میں بالعموم ان پڑھ تھے۔ آل عمران
21 1- یعنی ان کی سرکشی وبغاوت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی انہوں نے ناحق قتل نہیں کیابلکہ ان تک کو بھی قتل کر ڈالاجو عدل وانصاف کی بات کرتے تھے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین اور داعیان حق جو امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت وفضیلت بھی واضح کردی۔ آل عمران
22 آل عمران
23 1- ان اہل کتاب سے مراد مدینے کے وہ یہودی ہیں جن کی اکثریت قبول اسلام سے محروم رہی اوروہ اسلام، مسلمانوں اور نبی (ﷺ) کے خلاف مکروہ سازشوں میں مصروف رہے تاآنکہ ان کے دوقبیلے جلا وطن اورایک قبیلہ قتل کردیا گیا۔ آل عمران
24 1- یعنی کتاب اللہ کے ماننے سے گریز واعراض کی وجہ ان کایہ زعم باطل ہے کہ اول تووہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں، اوراگرگئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے۔ اور انہی من گھڑت باتوں نے انہیں دھوکےاور فریب میں ڈال رکھا ہے۔ آل عمران
25 1- قیامت والے دن ان کے یہ دعوے اور غلط عقائد کچھ کام نہ آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بے لاگ انصاف کے ذریعے سے ہر نفس کو، اس کے کیے کاپورا پورا بدلہ دے گا،کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
26 1- اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت وطاقت کا اظہار ہے، شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک وہی ہے الْخَيْرُ بِيَدِكَ کی بجائے بِيَدِكَ الْخَيْرُ (خبر کی تقدیم کے ساتھ) سے مقصود تخصیص ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں۔ ”شر“ کا خالق بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے، شر کا نہیں۔ اس لئے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے، بخلاف شر کے کہ یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اس لئے کہ شر بھی اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے، اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں۔ فَأَفْعَالُهُ كُلُّهَا خَيْرٌ (فتح القدير) آل عمران
27 1- رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں۔ رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہو جاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے۔ یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے یا بڑے ہوجاتے ہیں۔ 2- جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکالتا ہے پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان۔ اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی اور پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے کافر پیدا فرماتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاذ (رضي الله عنه) نے نبی (ﷺ) سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”تم آیت ﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ﴾ (آل عمران) پڑھ کر یہ دعا کرو [ رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَا تُعْطِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُمَا وَتَمْنَعُ مَنْ تَشَاءُ، ارْحَمْنِي رَحْمَةً تُغْنِينِي بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ، اللَّهُمَّ أغْنِنِي مِنَ الْفَقْرِ، وَاقْضِ عَنِّي الدَّيْنَ ] ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تواللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام فرما دے گا۔“ (مجمع الزوائد: 10/186- رجاله ثقات) آل عمران
28 1- اولیا ولی کی جمع ہے۔ ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے دلی محبت اورخصوصی تعلق ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ ﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ( البقرۃ: 257) یعنی ”اللہ اہل ایمان کا ولی ہے“۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت ومصلحت ان سے صلح ومعاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر، مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں، ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورۂ ممتحنہ میں ہے) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات (دوستی ومحبت) سے مختلف ہے۔ 2- یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 1- یہود اور نصاریٰ دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ تعالیٰ کو ہم سے محبت ہے، بالخصوص عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ومریم علیھما السلام کی تعظیم ومحبت میں جو اتنا غلو کیا کہ انہیں درجۂ الوہیت پر فائز کر دیا، اس کی بابت بھی ان کا خیال تھا کہ ہم اس طرح اللہ کا قرب اور اس کی رضا ومحبت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دعوؤں اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور اس کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسکا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میرے آخری پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کا اتباع کرو۔ اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الٰہی کا طالب اگر اتباع محمد (ﷺ) کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، تو پھر تو یقیناً وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے، ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا۔ نبی (ﷺ) کا بھی فرمان ہے[ مَنْ عَمِلَ عَمَلا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدُّ ] (متفق علیہ) جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ نہیں ہے یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے تو وہ مسترد ہے۔ 2- یعنی اتباع رسول (ﷺ) کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہوں گے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔ آل عمران
32 1- اس آیت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اطاعت رسول (ﷺ) کی پھر تاکید کرکے واضح کر دیا کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعت محمدی میں ہے اوراس سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔ اس آیت میں حجیت حدیث کے منکرین اور اتباع رسول (ﷺ) سے گریز کرنے والوں دونوں کے لئے سخت وعید ہے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. آل عمران
33 1- انبیا (عليهم السلام)کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ وہارون علیھما السلام کے والد اور دوسرے حضرت مریم علیہا السلام کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کا نام مفسرین نے حنَّة بِنْت فَاقُوذ لکھا ہے (تفسیر قرطبی وابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطافرمائی۔ ان میں پہلے حضرت آدم (عليه السلام) ہیں، جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی،انہیں مسجود ملائک بنایا،اسما کا علم انہیں عطا کیا اور انہیں جنت میں رہائش پذیر کیا، جس سے پھر انہیں زمین میں بھیج دیا گیا جس میں اس کی بہت سی حکمتیں تھیں۔ دوسرے حضرت نوح (عليه السلام) ہیں، انہیں اس وقت رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا، انہیں عمر طویل عطا کی گئی، انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی، لیکن چند افراد کے سوا، کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا، دوسرے تمام لوگوں کو غرق کر دیا گیا۔ آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی کہ ان میں انبیا وسلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے۔ حتیٰ کہ علی الاطلاق کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل (عليه السلام) کی نسل سے ہوئے۔ آل عمران
34 1- یا دوسرے معنی ہیں دین میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار۔ آل عمران
35 1- مُحَرَّرًا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف۔ آل عمران
36 1- اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہےاور عذر بھی۔ حسرت، اس طرح کہ میری امید کے برعکس لڑکی ہوئی ہے اور عذر، اس طرح کہ نذرسے مقصود تو تیری رضا کے لئے ایک خدمت گار وقف کرنا تھا اوریہ کام ایک مرد ہی زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہے تو اسے جانتا ہی ہے۔ (فتح القدیر ) 2- حافظ ابن کثیر نے اس سے اور احادیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچے کا نام ولادت کے پہلے روز رکھنا چاہئے اور ساتویں دن نام رکھنے والی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حافظ ابن القیم نے تمام احادیث پر بحث کر کے آخر میں لکھا ہے کہ پہلے روز، تیسرے روز یا ساتویں روز نام رکھا جا سکتاہے،اس مسئلے میں گنجائش ہے۔ والأَمْرُ فِيهِ وَاسِعٌ ( تحفۃ المودود) 3- اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ چنانچہ حدیث صحیح میں ہے کہ جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو مس کرتا (چھوتا) ہے جس سے وہ چیختا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مس شیطان سے حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے (عیسیٰ عليه السلام) کو محفوظ رکھا ہے۔ [ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلا مَسَّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّهِ إِيَّاهُ ، إِلا مَرْيَمَ وَابْنَهَا ] (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، مسلم، کتاب الفضائل) آل عمران
37 1- حضرت زکریا (عليه السلام) ، حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی تھے، اس لئے بھی، علاوہ ازیں اپنے وقت کے پیغمبر ہونے کے لحاظ سے بھی وہی سب سے بہتر کفیل بن سکتے تھے جو حضرت مریم علیہاالسلام کی مادی ضروریات اور علمی واخلاقی تربیت کے تقاضوں کا صحیح اہتمام کر سکتے تھے۔ 2- مِحْرَابٌ سے مراد حجرہ ہے جس میں حضرت مریم علیہا السلام رہائش پذیر تھیں۔ رزق سے مراد پھل۔ یہ پھل ایک تو غیر موسمی ہوتے، گرمی کے پھل سردی کے موسم میں اور سردی کے گرمی کے موسم میں ان کے کمرے میں موجود ہوتے، دوسرے حضرت زکریا (عليه السلام) یا کوئی اور شخص لا کر دینے والا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت زکریا (عليه السلام) نے از راہ تعجب وحیرت پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا اللہ کی طرف سے۔ یہ گویا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت تھی۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہا جاتا ہے یعنی جو ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت، جب چاہے صادر کر دے۔ اس لئے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے، جیسا کہ اہل بدعت اولیا کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کرا کے انہیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اس کی مزید وضاحت بعض معجزات کے ضمن میں آئے گی۔ آل عمران
38 آل عمران
39 1- بے موسمی پھل دیکھ کر حضرت زکریا (عليه السلام) کے دل میں بھی (بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود) یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسی طرح اولاد سے نواز دے۔ چنانچہ بے اختیار دعا کے لئےہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھ گئے،جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ 2- اللہ کے کلمے کی تصدیق سے مراد حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی تصدیق ہے۔ گویا حضرت یحییٰ، حضرت عیسی علیہما السلام سے بڑے ہوئے۔ دونوں آپس میں خالہ زاد تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی تائید کی۔ سیداً کے معنی ہیں سردار حصوراً کے معنی ہیں، گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکتے گویا کہ ان کو ان سے روک دیا گیا ہے۔ یعنی حَصُورٌبمعنی مَحْصُورٌ، بعض نے اس کے معنی نامرد کے کئے ہیں۔ لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ ایک عیب ہے جب کہ یہاں ان کا ذکر مدح اور فضیلت کے طور پر کیا گیا ہے۔ آل عمران
40 آل عمران
41 1- بڑھاپے میں معجزانہ طور پر اولاد کی خوشخبری سن کر اشتیاق میں اضافہ ہوا اورنشانی معلوم کرنی چاہی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تین دن کے لئے تیری زبان بند ہو جائے گی۔ جو ہماری طرف سے بطور نشانی ہوگی لیکن تو اس خاموشی میں کثرت سے صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کیا کر۔ تاکہ اس نعمت الہ۔ کا جو تجھے ملنے والی ہے، شکر ادا ہو۔ یہ گویا سبق دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طلب کے مطابق تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے تو اسی حساب سے اس کاشکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو۔ آل عمران
42 1- حضرت مریم علیہا السلام کا یہ شرف وفضل ان کے اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح احادیث میں حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) کو بھی خَيْرُ نِسَائِهَا (سب عورتوں میں بہتر) کہا گیا ہے۔ اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قراردیا گیا ہے۔ حضرت مریم، حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی)، حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رضي الله عنهن)۔ اور حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کی بابت کہا گیا ہے کہ انکی فضیلت دیگر تمام عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ (رضی الله عنها) بنت محمد (ﷺ) کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ آل عمران
43 آل عمران
44 1- آج کل کے اہل بدعت نے نبی کریم (ﷺ) کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان کے اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی (ﷺ) عالم الغیب ہوتے، تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو، اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اسی طرح حاضر وناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ ﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾ سے نبی کریم (ﷺ) کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے،غیر پیغمبر پر نہیں۔ آل عمران
45 1- حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس، باپ کے بغیر، اللہ کی خاص قدرت اوراسکے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔ 2- مَسِيحٌ مسح سے ہےأي: مَسَحَ الأَرْضَ یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا، یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے، کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے۔ ان دونوں معنوں کے اعتبار سے یہ فَعِيلٌ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے وہ یا تو بمعنی مفعول یعنی مَمْسُوحُ الْعَينِ ( اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا، (بخاری ومسلم) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لئے اسے بھی الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود ونصاریٰ کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں، یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریباً اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے۔ دجال کو مسیح اس لئے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے۔ اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں، دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا۔ مگر وہ اپنے اس دعویٰ سمیت تمام دعوؤں میں دجل وفریب کا اتنا بڑا پیکر ہوگا کہ اولین وآخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی اس لئے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی اورعَاسَ يَعُوسُ سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست وقیادت کے ہیں (قرطبی وفتح القدیر) آل عمران
46 1- حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کےمَهْدٌ ( گہوارے) میں گفتگو کرنے کا ذکر خود قرآن کریم کی سورۂ مریم میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ صحیح حدیث میں دو بچوں کا ذکر اور ہے۔ ایک صاحب جریج اور ایک اسرائیلی عورت کا بچہ (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ ﴾) اس روایت میں جن تین بچوں کا ذکر ہے، ان سب کا تعلق بنو اسرائیل سے ہے، کیونکہ ان کے علاوہ صحیح مسلم میں اصحاب الاخدود کے قصے میں بھی شیر خوار بچے کے بولنے کا ذکر ہے۔ اور حضرت یوسف کی بابت فیصلہ کرنے والے شاہد کے بارے میں جو مشہور ہے کہ وہ بچہ تھا، صحیح نہیں ہے۔ بلکہ وہ ذُو لِحْيَةٍ ( داڑھی والا) تھا (الضعیفہ۔ رقم 881) كَهْلٌ (ادھیڑ عمر) میں کلام کرنے کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ جب وہ بڑے ہو کر وحی اور رسالت سے سرفراز کئے جائیں گے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ کا قیامت کے قریب جب آسمان سے نزول ہوگا جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے، تو اس وقت جو وہ اسلام کی تبلیغ کریں گے، وہ کلام مراد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر وقرطبی) آل عمران
47 1- تیرا تعجب بجا، لیکن قدرت الٰہی کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، وہ تو جب چاہے اسباب عادیہ وظاہریہ کا سلسلہ ختم کرکے حکم کن سے پلک جھپکتے میں، جو چاہے کر دے۔ آل عمران
48 1- كِتَابٌ سے مراد کتابت (لکھنا) ہے۔ جیسا کہ ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے یا انجیل وتورات کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا (قرطبی) یاتورات وانجیل، الْكِتَابُ اورالْحِكْمَةُ کی تفسیر ہے۔ آل عمران
49 1- أَخْلُقُ لَكُمْ- أَي: أُصَوِّرُ وَأُقَدِّرُ لَكُمْ (قرطبی) یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے۔ یہاں اس کے معنی ظاہری شکل وصورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔ 2- دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں۔ نہیں، میں تو اس کا عاجز بندہ اور رسول ہی ہوں۔ یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے، معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت اور بالا تری نمایاں ہو سکے۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں جادوگری کا بڑا زور تھا، انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے جس سے ان پر حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی صداقت واضح ہوئی اور وہ ایمان لے آئے۔ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا، چنانچہ انہیں مردہ کو زندہ کر دینے، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینے کا معجزہ عطا فرمایا گیا جو کوئی بھی بڑا سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم (ﷺ) کے دور میں شعر وادب اور فصاحت وبلاغت کا زور تھا، چنانچہ انہیں قرآن جیسا فصیح وبلیغ اور پر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے فصحا وبلغا اور ادبا وشعرا عاجز رہے اور چیلنج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے۔ (ابن کثیر) آل عمران
50 1- اس سے مراد یا تو وہ بعض چیزیں ہیں جو بطور سزا اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کر دی تھیں یا پھر وہ چیزیں ہیں جو ان کے علما نےاجہتاد کے ذریعے سے حرام کی تھیں اور اجتہاد میں ان سے غلطی کا ارتکاب ہوا، حضرت عیسیٰ (عليه السلام) نے اس غلطی کا ازالہ کرکے انہیں حلال قرار دیا۔ (ابن کثیر) آل عمران
51 1- یعنی اللہ کی عبادت کرنے میں اور اس کے سامنے ذلت وعاجزی کے اظہار میں میں اور تم دونوں برابر ہیں۔ اس لئے سیدھا راستہ صرف یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ آل عمران
52 1- یعنی ایسی گہری سازشیں اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔ 2- بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آکر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے باشعورلوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی (ﷺ) نے بھی ابتدا میں، جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگاربننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں، جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی (ﷺ) کی انہوں نے قبل ہجرت اور بعد ہجرت مدد کی۔ اسی طرح یہاں حضرت عیسیٰ (عليه السلام) نے مدد طلب فرمائی۔ یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے، پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کر سکتے تھے؟ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لئے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے قول من انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ 3- حواریون، حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيِّ الزُّبَيْرُ ] (صحيح بخاري كتاب الجهاد، باب فضل الطليعة) ”ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر (رضي الله عنه) ہے۔“ آل عمران
53 آل عمران
54 1- حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا، یہاں ان کی طرف سے جو حکمران مقرر تھا،وہ کافر تھا۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے خلاف اس حکمراں کے کان بھر دیئے کہ یہ نَعُوذُ بِاللهِ بغیر باپ کے اور فسادی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حکمران نے ان کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو سولی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن اللہ نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی جگہ ان کے ہم شکل ایک آدمی کو انہوں نے سولی دے دی، اور سمجھتے رہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو سولی دی ہےمَكْرٌعربی زبان میں لطیف اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اور اس معنی میں یہاں اللہ تعالیٰ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ کہا گیا ہے۔ گویا یہ مکر، سئی (برا) بھی ہو سکتا ہے، اگر غلط مقصد کے لئے ہو اور خیر (اچھا) بھی ہو سکتا ہے اگر اچھے مقصد کے لئے ہو۔ آل عمران
55 1- المتوفی کا مصدر توفی اور مادہ وفی ہے جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسی لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پرمعطل کر دیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ ﴿إِنِّي مُتَوَفِّيكَ﴾ میں یہ اسی اپنے حقیقی اور اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی میں اے عیسیٰ (عليه السلام) تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھالوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور بعض نے اس کے مجازی معنی کےشہرت استعمال کے مطابق موت ہی کے معنی کئے ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ الفاظ میں تقدیم وتاخیر ہے یعنی رافعک (میں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں) کے معنی مقدم ہیں اور مُتَوَفِّيكَ (فوت کرنے والا ہوں) کے معنی متاخر، یعنی میں تجھے آسمان پر اٹھالوں گا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر وابن کثیر) 2- اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے، نبی (ﷺ) کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی۔ 3- اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا وہ دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا، گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے۔ یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ (عليه السلام) اور دیگر تمام انبیا کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح اور غیر محرف دین کی پیروی کرتے ہیں۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 1- یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بددعا کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ونزاع ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہیٰ میں یہ دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اس پر لعنت فرما۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 9 ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں وہ جو غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر بحث ومناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی (ﷺ) نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضی الله عنہم) کو بھی ساتھ لیا، اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل وعیال کو بلالو اور پھر مل کر جھوٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورہ کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں، چنانچہ نبی (ﷺ) نے ان پر جزیہ مقرر فرما دیا جس کی وصولی کے لئے آپ (ﷺ) نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رضي اللّٰه عنه) کو، جنہیں آپ (ﷺ) نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا، ان کے ساتھ بھیجا (ملخص از تفسیر ابن کثیر وفتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 1- کسی بت کو نہ صلیب کو، نہ آگ کو اور نہ کسی اور چیز کو، بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ 2- یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہما السلام کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ گھڑ رکھا ہے یہ غلط ہے، وہ رب نہیں ہیں انسان ہی ہیں۔ دوسرا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے اپنے احبار ورہبان کو حلال وحرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے، یہ بھی ان کو رب بنانا ہے جیسا کہ آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ﴾ اس پر شاہد ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے، حلال وحرام کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر ) 3- صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ (ﷺ) نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اور اسے کہاکہ تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دہرا اجر ملے گا، ورنہ ساری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ [ فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، يَؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ ] (صحيح بخاري، كتاب بدء الوحي) ”اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا۔ اسلام لے آ، اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تو نے قبول اسلام سے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہی ہو گا“۔ کیونکہ رعایا کے عدم قبول اسلام کاسبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت میں مذکور تین نکات یعنی (1) صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ (2) اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ (3) اورکسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا وہ کلمۂ سواء ہے جس پر اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ لہٰذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان ہی تین نکات اور اس کلمۂ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس وبنیاد بنانا چاہئے۔ آل عمران
65 1- حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) ان کے دین پر تھے، حالانکہ تورات، جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے،اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے، دونوں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں، پھر حضرت ابراہیم (عليه السلام) یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) اور موسیٰ (عليه السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا اور حضرت ابراہیم وعیسیٰ علیہما السلام کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا۔ (قرطبی) آل عمران
66 1- تمہارے علم ودیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب،کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے (جس کا ذکر پچھلی آیت میں کیا جا چکا ہے) بے اصل بھی ہیں اور بے عقلی کا مظہر بھی۔ توپھر تم اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں ہے یعنی حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی شان اور ان کی ملت حنیفیہ کے بارے میں، جس کی اساس توحید واخلاص پر ہے۔ آل عمران
67 1- حَنِيفًا مُسْلِمًا ( یک طرفہ خالص مسلمان) یعنی شرک سے بیزار اور صرف خدائے واحد کے پرستار۔ آل عمران
68 1- اسی لئے قرآن کریم میں نبی کریم (ﷺ) کو ملت ابراہیمی کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا﴾ ( النحل: 123) علاوہ ازیں حدیث میں ہے رسول (ﷺ) نے فرمایا: [ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيّ وُلاةً مِنَ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ وَلِـيِّي مِنْهُمْ أَبِي وَخَلِيلُ رِبِّي عَزّ وَجَلّ ] (ہر نبی کے نبیوں میں سے کچھ دوست ہوتے ہیں، میرے ولی (دوست) ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل (ابراہیم عليه السلام ہیں)۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ترمذی بحوالہ ابن کثیر ) آل عمران
69 1- یہ یہودیوں کے اس حسد وبغض کی وضاحت ہے جو وہ اہل ایمان سے رکھتے تھے اور اسی عناد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح وہ خود ہی بے شعوری میں اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آل عمران
70 1- قائل ہونے کا مطلب ہے کہ تمہیں نبی کریم (ﷺ) کی صداقت وحقانیت کا علم ہے۔ آل عمران
71 1- اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشاندہی کرکے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ پہلا جرم حق وباطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے۔ دوسرا کتمان حق۔ یعنی نبی کریم (ﷺ) کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے، انہیں لوگوں سے چھپانا، تاکہ نبی (ﷺ) کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے۔ اور یہ دونوں جرم جانتے بوجھتے کرتے تھے جس سے ان کی بدبختی دو چند ہوگئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورۂ بقرہ میں بھی کی گئی ہے ﴿وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة: 42) ”حق کو باطل کے ساتھ مت ملاؤ اور حق مت چھپاؤ اور تم جانتے ہو۔“ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے، جس میں یہودو نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنو نضیر، اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کابراہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی (ﷺ) کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ آل عمران
72 1- یہ یہودیوں کے ایک اور مکر کا ذکر ہے۔ جس سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے باہم طے کیا کہ صبح کو مسلمان ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے اسلام کے بارے میں شک پیدا ہو کہ یہ لوگ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین میں واپس چلے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلام میں ایسے عیوب اورخامیاں ہوں جو ان کے علم میں آئی ہوں۔ آل عمران
73 1- یہ آپس میں انہوں نے ایک دوسرے کو کہا۔ کہ تم ظاہری طور پر تو اسلام کا اظہار ضرور کرو لیکن اپنے ہم مذہب (یہود) کے سوا کسی اور کی بات پر یقین مت رکھنا۔ 2- یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس کا ماقبل اور ما بعد سے تعلق نہیں ہے۔ صرف ان کے مکر وحیلہ کی اصل حقیقت اس سے واضح کرنا مقصود ہے کہ ان کے حیلوں سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ جس کو ہدایت دے دے یا دینا چاہے، تمہارے حیلے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ 3- یہ بھی یہودیوں کا قول ہے اور اس کا عطف ”وَلا تُؤْمِنُوا“ پر ہے۔ یعنی یہ بھی تسلیم مت کرو کہ جس طرح تمہارے اندر نبوت وغیرہ رہی ہے، یہ کسی اور کو بھی مل سکتی ہے اور اس طرح یہودیت کے سوا کوئی اور دین بھی حق ہو سکتا ہے۔ آل عمران
74 1- اس آیت کے دو معنی بیان کئے جا تے ہیں۔ ایک یہ کہ یہودکے بڑے بڑے علما جب اپنے شاگردوں کو یہ سکھاتے کہ دن چڑھتے ایمان لاؤ اور دن اترتے کفر کرو تاکہ جو لوگ فی الواقع مسلمان ہیں وہ بھی مذبذب ہو کر مرتد ہو جائیں تو ان شاگردوں کو مزید یہ تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہراً مسلمان ہونا، حقیقتاً اور واقعتہً مسلمان نہ ہو جانا، بلکہ یہودی ہی رہنا۔ اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین،جیسی وحی وشریعت اور جیسا علم وفضل تمہیں دیا گیا ہے ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جا سکتا ہے،یا تمہارے بجائے کوئی اور حق پر ہے جو تمہارے خلاف اللہ کے نزدیک حجت قائم کر سکتا ہے۔ اور تمہیں غلط ٹھہرا سکتا ہے۔ اس معنی کی رو سے جملہ معترضہ کو چھوڑ کر عندربکم تک کل کا کل یہودکا قول ہوگا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اے یہودیو ! تم حق کو دبانے اور مٹانے کی یہ ساری حرکتیں اور سازشیں اس لئے کر رہے ہو کہ ایک تمہیں اس بات کا غم اور جلن ہے کہ جیسا علم وفضل، وحی وشریعت اور دین تمہیں دیا گیا تھا اب ویسا ہی علم وفضل اور دین کسی اور کو کیوں دے دیا گیا۔ دوسرا تمہیں یہ اندیشہ اور خطرہ بھی ہے کہ اگر حق کی یہ دعوت پنپ گئی،اور اس نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں تو نہ صرف یہ کہ تمہیں دنیا میں جو جاہ ووقار حاصل ہے وہ جاتا رہے گا۔ بلکہ تم نے جو حق چھپا رکھا ہے اس کا پردہ بھی فاش ہو جائے گا۔ اور اس بنا پر یہ لوگ اللہ کے نزدیک بھی تمہارے خلاف حجت قائم کر بیٹھیں گے۔ حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ دین وشریعت اللہ کا فضل ہے۔ اور یہ کسی کی میراث نہیں۔ بلکہ وہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اسے معلوم ہے کہ یہ فضل کس کو دینا چاہیئے۔ آل عمران
75 1- أُمِّيِّينَ ( ان پڑھ، جاہل) سے مراد مشرکین عرب ہیں یہود کے خائن لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ چونکہ مشرک ہیں اس لئے ان کا مال ہڑپ کر لینا جائز ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح کسی کا مال ہڑپ کر جانے کی اجازت دے سکتا ہے ؟ اور بعض تفسیری روایات میں ہے کہ نبی (ﷺ) نے بھی یہ سن کر فرمایا کہ ”اللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا، زمانۂ جاہلیت کی تمام چیزیں میرے قدموں تلے ہیں، سوائے امانت کے کہ وہ ہر صورت میں ادا کی جائے گی، چاہے وہ کسی نیکو کار کی ہو یا بدکار کی۔“ (ابن کثیر وفتح القدیر) افسوس ہے کہ یہود کی طرح آج بعض مسلمان بھی مشرکین کا مال ہڑپ کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ دارالحرب کا سود جائز ہے۔ اور حربی کے مال کے لئے کوئی عصمت نہیں۔ آل عمران
76 1- (قرار پورا کرے) کا مطلب، وہ عہد پورا کرے جو اہل کتاب سے یا ہر نبی کے واسطے سے ان کی امتوں سے نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا ہے اور (پرہیزگاری کرے) یعنی اللہ تعالیٰ کے محارم سے بچے اور ان باتوں پرعمل کرے جونبی (ﷺ) بیان فرمائیں۔ ایسے لوگ یقیناً مواخذۂ الہٰی سے نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ محبوب باری تعالیٰ ہوں گے۔ آل عمران
77 1- مذکورہ افرادکے برعکس دوسرے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ دو طرح کے لوگوں کو شامل ہے ایک تو وہ لوگ جو عہد الٰہی اور اپنی قسموں کو پس پشت ڈال کر تھوڑے سے دینی مفادات کے لئے نبی (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سودا بیچتے یا کسی کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ مثلاً نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا“ (صحيح بخاري، كتاب المساقاة، باب الخصومة في البئر والقضاء فيها- مسلم، كتاب الإيمان، باب وعيد من اقتطع حق مسلم...) نیز فرمایا: ”تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا، ان میں ایک وہ شخص ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعے سے اپنا سودا بیچتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار...) متعدد احادیث میں یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) آل عمران
78 1- یہ یہود کے ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے کتاب الٰہی (تورات) میں نہ صرف تحریف وتبدیلی کی بلکہ دو جرم اور بھی کئے کہ ایک تو زبان کو مروڑ کر کتاب کے الفاظ پڑھتے جس سے عوام کو خلاف واقعہ تاثر دینے میں وہ کامیاب رہتے۔ دوسرے، وہ اپنی خود ساختہ باتوں کو من عنداللہ باور کراتے۔ بدقسمتی سے امت محمدیہ کے مذہبی پیشواؤں میں بھی، نبی (ﷺ) کی پیشگوئی [ لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ] (تم اپنے سے پہلی امتوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے) کے مطابق بکثرت ایسے لوگ ہیں جو دنیوی اغراض، یا جماعتی تعصب یا فقہی جمود کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں۔ پڑھتے قرآن کی آیت ہیں اور مسئلہ اپنا خود ساختہ بیان کرتے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے مسئلہ قرآن سے بیان کیا ہے دراں حالیکہ اس مسئلے کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یا پھر آیات میں معنوی تحریف وملمع سازی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ باور یہی کرایا جائے کہ یہ من عنداللہ ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ آل عمران
79 1- یہ عیسائیوں کے ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو خدا بنایا ہوا ہے حالانکہ وہ ایک انسان تھے جنہیں کتاب وحکمت اور نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا، اور ایسا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے پجاری اور بندے بن جاؤ، بلکہ وہ تو یہی کہتا ہے کہ رب والے بن جاؤ۔ رَبَّانِيٌّ رب کی طرف منسوب ہے، الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے لئے ہے۔ (فتح القدیر ) 2- یعنی کتاب اللہ کی تعلیم وتدریس کے نتیجےمیں رب کی شناخت اور رب سے خصوصی ربط وتعلق قائم ہونا چاہیئے۔ اسی طرح کتاب اللہ کا علم رکھنے والے کے لئے ضرور ی ہے کہ وہ لوگوں کو بھی قرآن کی تعلیم دے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیں، تو کسی اور کو یہ حق کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے؟ (تفسیر ابن کثیر) آل عمران
80 1- یعنی نبیوں اور فرشتوں (یا کسی اور کو) رب والی صفات کا حامل باور کرانا یہ کفر ہے۔ تمہارے مسلمان ہو جانے کے بعد ایک نبی یہ کام بھلا کس طرح کر سکتا ہے؟ کیونکہ نبی کا کام تو ایمان کی دعوت دینا ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا نام ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی شان نزول میں یہ بات بیان کی ہے کہ بعض مسلمانوں نے نبی (ﷺ) سے اس بات کی اجازت مانگی کہ وہ آپ کو سجدہ کریں۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) اوربعض نے اس کی شان نزول میں یہ کہا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے جمع ہو کر نبی (ﷺ) سے کہا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت وپرستش کریں جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ اللہ کی پناہ، اس بات سے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں، اللہ نے مجھے نہ اس لئے بھیجا ہے نہ اس کا حکم ہی دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ سیرۃ ابن ہشام) آل عمران
81 1- یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا، جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ بعض مفسرین نے رَسُولٌ مُصَدِّقٌ سے الرَّسُولُ کا مفہوم مراد لیا ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کرکے ان پر ایمان لانا ہوگا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے۔ اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اور اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رضي الله عنه) تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی (ﷺ) یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (عليه السلام) بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو یقیناً گمراہ ہو جاؤ گے) (مسنداحمد، بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔ آل عمران
82 1- یہ اہل کتاب (یہود ونصاری) اور دیگر اہل مذاہب کو تنبیہ کہ بعثت محمدی کے بعد ان پر ایمان لانے کی بجائے، اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنا اس عہد کے خلاف ہے جو اللہ تعالی نے نبیوں کے واسطے سے ہر امت سے لیا اور اس عہد میں انحراف کفر ہے۔ فسق یہاں کفر کے معنی میں ہےکیونکہ نبوت محمدی سے انکار صرف فسق نہیں سراسر کفر ہے۔ آل عمران
83 1- جب آسمان اور زمین کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت ومشیت سے باہر نہیں، چاہے خوشی سے یا ناخوشی سے۔ توپھرتم اس کے سامنے قبول اسلام سے کیوں گریز کرتے ہو؟ اگلی آیات میں ایمان لانے کا طریقہ بتلا کر (کہ ہر نبی اور ہر منزل کتاب پر بغیر تفریق کے ایمان لانا ضروری ہے) پھر کہا جا رہا ہے کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں ہوگا، کسی اور دین کے پیروکاروں کے حصے میں سوائے گھاٹے کے اور کچھ نہیں آئے گا۔ آل عمران
84 1- یعنی تمام سچے نبیوں پر ایمان لانا کہ وہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کی طرف سے مبعوث تھے، نیز ان پر جو کتابیں اورصحیفے نازل ہوئے ان کی بابت بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ آسمانی کتابیں تھیں جو واقعی اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ ضروری ہے۔ گو اب عمل صرف قرآن کریم ہی پر ہوگا، کیونکہ قرآن نے پچھلی کتابوں کو منسوخ کر دیا۔ آل عمران
85 آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 1- انصار میں سے ایک مسلمان مرتد ہوگیا اورمشرکوں سے جا ملا، لیکن جلد ہی اسے ندامت ہوئی اور اس نے لوگوں کے ذریعے سے رسول اللہ (ﷺ) تک پیغام بھجوایا کہ ”هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ“ (کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟) اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا اگرچہ بہت سخت ہے کیونکہ اس نے حق کو پہچاننے کے بعد بغض وعناد اور سرکشی سے حق سے اعراض وانکار کیا۔ تاہم اگر کوئی خلوص دل سے توبہ اوراپنی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے، اس کی توبہ قابل قبول ہے۔ آل عمران
90 1- اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر ان کا انتقال ہو۔ 2- اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کوبیان فرمایا ہے ﴿وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ﴾ (الشوریٰ: 25)۔ ﴿أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ﴾ (التوبہ:104)۔ ”کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے“، اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ اس لئے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے ﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآنَ﴾ (النساء:18)۔ ”ان کی توبہ (قبول) نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ“۔ حدیث میں بھی ہے [ إنَّ اللهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ ] (مسنداحمد،ترمذی،بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر) ”اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے“، یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔ آل عمران
91 1- حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا (ہاں) اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، مگر تو شرک سے باز نہیں آیا۔ (مسند احمد وھکذا اخرجہ البخاری ومسلم، ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ اس نے اگر دنیا میں کچھ کام بھی کئے ہوں گے تو کفر کی وجہ سے وہ بھی ضائع ہی جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن جدعان کی بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا، کیا یہ اعمال اسے نفع دیں گے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا (نہیں) کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (صحیح مسلم، کتاب الایمان )۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے، تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ اور اگر بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں اور انہیں دے کر عذاب سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ﴾ ( البقرۃ: 123) ”اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ پہنچائے گی“۔ ﴿لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ﴾ ( سورۂ ابراہیم: 31) ”اس دن میں کوئی خرید وفروخت ہوگی نہ کوئی دوستی (ہی کام آئے گی)“۔ آل عمران
92 1- بر (نیکی بھلائی) سے مراد یہاں عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رضي الله عنه) جو مدینہ میں اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) ! بیرحا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ چنانچہ آپ (ﷺ) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کر دیا (مسند أحمد) اسی طرح اور بھی متعدد صحابہ نے اپنی پسندیدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کیں۔مِمَّا تُحِبُّونَ میں مِنْ تَبْعِيض کے لئے ہے یعنی ساری پسندیدہ چیزیں خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ۔ اس لئے کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ اچھی چیز صدقہ کی جائے۔ یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔ 2- تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔ آل عمران
93 1- یہ اور مابعد کی دو آیتیں یہود کے اس اعتراض پر نازل ہوئیں کہ انہوں نے نبی کریم (ﷺ) سے کہا کہ آپ (ﷺ) دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اونٹ کا گوشت بھی کھاتے ہیں جب کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ دین ابراہیمی میں حرام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہود کا دعویٰ غلط ہے۔ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے دین میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں۔ ہاں البتہ بعض چیزیں اسرائیل (حضرت یعقوب (عليه السلام) ) نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں اور وہ یہی اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ تھا (اس کی ایک وجہ نذر یا بیماری تھی) اور حضرت یعقوب (عليه السلام) کا یہ فعل بھی نزول تورات سے پہلے کا ہے، اس لئے کہ تورات تو حضرت ابراہیم (عليه السلام) وحضرت یعقوب (عليه السلام) کے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ پھر تم کس طرح مذکورہ دعویٰ کر سکتے ہو؟ علاوہ ازیں تورات میں بعض چیزیں تم (یہودیوں) پر تمہارے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ (سورة الأنعام: 46، النساء: 160) اگر تمہیں یقین نہیں تو تورات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے زمانے میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں اور تم پر بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں تو اس کی وجہ تمہاری ظلم وزیادتی تھی یعنی ان کی حرمت بطور سزا تھی۔ (أيسر التفاسير) آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 1- یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا؟ اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر،جو اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا گیا ہے، وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ آل عمران
97 1- اس میں قتال، خوں ریزی، شکار حتیٰ کہ درخت تک کا کاٹنا ممنوع ہے (صحيحين) 2- (راہ پا سکتے ہوں) کا مطلب زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پرامن ہو اور جان ومال محفوظ رہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت وتندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو۔ نیز عورت کے لئے محرم بھی ضروری ہے۔ (فتح القدير) یہ آیت ہر صاحب استطاعت کے لئے وجوب حج کی دلیل ہے اور احادیث سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے (تفسير ابن كثير) 3- استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے (کفر) سے تعبیرکیا ہے جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ احادیث وآثار میں بھی ایسے شخص کے لئے سخت وعید آئی ہے۔ (تفسير ابن كثير) آل عمران
98 آل عمران
99 1- یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔ آل عمران
100 1- یہودیوں کے مکر وفریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (ﷺ) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جاؤ۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا کہ پہلے ایک دوسرے کے سخت دشمن تھےاور اب اسلام کی برکت سے باہم شیروشکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جاکر جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان برپا ہوئی تھی اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس پر ان دونوں قبیلوں کے پرانے جذبات پھربھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کہ ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی۔ اور قریب تھا کہ ان میں باہم قتال بھی شروع ہو جائے کہ اتنے میں نبی (ﷺ) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہے وہ بھی نازل ہوئیں۔ (تفسير ابن كثير، فتح القدير وغيره) آل عمران
101 1- اعْتِصام باللہ کے معنی ہیں۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لینا اور اس کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرنا۔ آل عمران
102 1- اس کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام وفرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ (رضی الله عنہم) پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ ”اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو نازل فرما دی“۔ لیکن اسے ناسخ کی بجائے اس کی مُبَيّنٌ (بیان وتوضیح کرنے والی) قرار دیا جائے تو زیادہ صحیح ہے، کیونکہ نسخ وہیں ماننا چاہئے جہاں دونوں آیتوں میں جمع وتطبیق ممکن نہ ہو اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ معنی یہ ہوں گے (اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ) ”اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح اپنی طاقت کے مطابق ڈرنے کا حق ہے“ (فتح القدير) آل عمران
103 1- تقویٰ کے بعد اعْتِصَام بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ”سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں“ کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہی پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔ 2- وَلا تَفَرَّقُوا (اور پھوٹ نہ ڈالو) کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مذکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے،چنانچہ فرقہ بندی کے تاریخ دیکھ لیجئے، یہی چیز نمایاں ہو کر سامنے آئے گی، قرآن وحدیث کے فہم اور اس کی توضیح وتعبیر میں کچھ باہم اختلاف، فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے۔ یہ اختلاف تو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) وتابعین کے عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے۔ کیونکہ اس اختلاف کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت ایک ہی تھا قرآن اور حدیث رسول (ﷺ) لیکن جب شخصیات کے نام پر دبستان فکر معرض وجود میں آئے تو اطاعت وعقیدت کے یہ مرکز ومحور تبدیل ہوگئے۔ اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال وافکاراولین حیثیت کے اور اللہ رسول اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیئے کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلاگیا اورنہایت مستحکم ہوگیا۔ آل عمران
104 آل عمران
105 1- روشن دلیلیں آجا نے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلاف وتفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا۔ اور وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لئے اختلاف وتفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں۔ مگر وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور پنی عقل وذہانت کا سارا جوہر ہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل وتحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔ آل عمران
106 1- حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے اس سے اہل سنت والجماعت اور اہل بدعت وافتراق مراد لئے ہیں۔ (ابن كثير وفتح القدير) جس سے معلوم ہوا کہ اسلام وہی ہے جس پر اہل سنت وجماعت عمل پیرا ہیں اور اہل بدعت واہل افتراق اس نعمت اسلام سے محروم ہیں جو ذریعہ نجات ہے۔ آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 1- اس آیت میں امت مسلمہ کو (خیرامت) قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کر دی گئی ہے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو (خیرامت) ہے، بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اس نکتے کی وضاحت مقصود معلوم ہوتی ہے کہ جو امربالمعروف ونہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے ﴿كَانُوا لا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ﴾ ( المائدۃ: 79 ) ”وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے“ اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اکثر علما کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے یعنی علما کے ذمے داری ہے کہ وہ یہ فرض ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف ومنکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں۔ ان کے فریضئہ تبلیغ ودعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد امت کی طرف سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔ 2- جیسے عبداللہ بن سلام ! وغیرہ جو مسلمان ہو گئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لئے ”مِنْهُمْ“ میں مِنْ، تَبْعِيض کے لئے ہے۔ آل عمران
111 1- أَذًى ( ستانے) سے مراد زبانی بہتان تراشی اور افترا ہے جس سے دل کو وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے تاہم میدان حرب وضرب میں یہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا، پھر خیبر فتح ہو گیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تاآنکہ حروب صلیبیہ میں عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر قابض بھی ہوگئے مگر اسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے سال کے بعد واگزار کرالیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کے نتیجہ میں یہود ونصاریٰ کی مشترکہ سازشوں اور کوششوں سے بیت المقدس پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ تاہم ایک وقت آئے گا یہ صورت حال تبدیل ہو جائے گی بالخصوص حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے نزول کے بعد عیسائیت کا خاتمہ اور اسلام کا غلبہ یقینی ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
112 1- یہودپرجوذلت ومسکنت، غضب الٰہی کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے، اس سے وقتی طور پر بچاؤ کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا قبول کر لیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کی پناہ ان کو حاصل ہو جائے، اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلامی مملکت کے بجائے عام مسلمان ان کو پناہ دے دیں جیسا کہ ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے اوراسلامی مملکت کےحکمرانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ ادنیٰ مسلمان کی دی گئی پناہ کو بھی رد نہ کریں۔ دوسرا یہ کہ کسی بڑی غیر مسلم طاقت کی پشت پناہی ان کو حاصل ہو جائے۔ کیونکہ الناس عام ہے۔ اس میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں شامل ہیں۔ 2- یہ ان کے کرتوت ہیں جن کی پاداش میں ان پر ذلت مسلط کی گئی۔ آل عمران
113 آل عمران
114 آل عمران
115 1- یعنی سارے اہل کتاب ایسے نہیں جن کی مذمت پچھلی آیات میں بیان کی گئی ہے، بلکہ ان میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں، جیسےعبد الله بن سلام، أسد بن عبيد، ثَعلبة بن سعيہاورأسيد بن سعيہوغیرہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے شرف اسلام سے نوازا اور ان میں اہل ایمان وتقویٰ والی خوبیاں پائی جاتی ہیں رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ- قَائِمَةٌ کے معنی ہیں، شریعت کی اطاعت اور نبی کریم (ﷺ) کا اتباع کرنے والی يَسْجُدُونَ کا مطلب، رات کو قیام کرتے یعنی تہجد پڑھتے اور نمازوں میں تلاوت کرتے۔ اس مقام پر امر بالمعروف کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کا حکم دیتے اور آپ (ﷺ) کی مخالفت کرنے سے روکتے ہیں۔ اسی گروہ کا ذکر آگے بھی کیا گیا ہے۔ ﴿وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ﴾ (آل عمران: 199) آل عمران
116 آل عمران
117 1- قیامت والے دن کافروں کے نہ مال کچھ کام آئیں گے نہ اولاد حتیٰ کہ رفاہی اوربظاہر بھلائی کے کاموں پر وہ جو خرچ کرتے ہیں، وہ بھی بیکار جائیں گے اور ان کی مثال اس سخت پالے کی سی ہے جو ہری بھری کھیتی کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے، ظالم اس کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے اور اس سے نفع کی امید رکھے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک ایمان نہیں ہوگا۔ رفاہی کاموں پر رقم خرچ کرنے والوں کی چاہے دنیا میں کتنی ہی شہرت ہو جائے، آخرت میں انہیں ان کا کوئی صلہ نہیں ملے گا، وہاں تو ان کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ آل عمران
118 1- یہ مضمون پہلے بھی گزرچکا ہے - یہاں اس کی اہمیت کے پیش نظر پھر دہرایا جا رہا ہے۔ بطانہ، دلی دوست اور راز دار کو کہا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات وعزائم رکھتے ہیں، ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنہیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشاندہی فرما دی ہے یہ اور اس قسم کی دیگر آیات کے پیش نظر ہی علما وفقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضي الله عنه) نے ایک ذمی (غیر مسلم) کو کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا، حضرت عمر (رضي الله عنه) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ (تم انہیں اپنے قریب نہ کرو جب کہ اللہ نے انہیں دور کر دیا ہے، ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ نے انہیں ذلیل کر دیا ہے اور انہیں امین ورازدار مت بناؤ جب کہ اللہ نے انہیں خائن قراردیا ہے )۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں۔ (اس زمانے میں اہل کتاب کو سیکرٹری اور امین بنانے کی وجہ سے احوال بدل گئے ہیں اور اسی وجہ سے غبی لوگ سردار اور امرا بن گئے ہیں) (تفسیر قرطبی )۔ بدقسمتی سے آج کے اسلامی ممالک میں بھی قرآن کریم کے اس نہایت اہم حکم کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے اور اس کے برعکس غیر مسلم بڑے بڑے اہم عہدوں اور کلیدی مناصب پر فائز ہیں جن کے نقصانات واضح ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اپنی داخلی اور خارجی دونوں پالیسیوں میں اس حکم کی رعایت کریں تو یقیناً بہت سے مفاسد اور نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ 2- لا يَأْلُونَ کوتاہی اور کمی نہیں کریں گےخَبَالاکے معنی فساد اور ہلاکت کے ہیں مَا عَنِتُّمْ (جس سے تم مشقت اور تکلیف میں پڑو )عَنَتٌ بمعنی مَشَقّةٍ آل عمران
119 1- تم ان منافقین کی نماز اور اظہار ایمان کی وجہ سے ان کی بابت دھوکے کا شکار ہو جاتے ہو اور ان سے محبت رکھتے ہو۔ 2- عَضَّ يَعَضُّ کے معنی دانت سے کاٹنے کے ہیں۔ یہ ان کے غیظ وغضب کی شدت کا بیان ہے، جیسا کہ اگلی آیت ﴿إِنْ تَمْسَسْكُمْ﴾ میں بھی ان کی اسی کیفیت کا اظہار ہے۔ آل عمران
120 1- اس میں منافقین کی اس شدید عداوت کا ذکر ہے جو انہیں مومنوں کے ساتھ تھی اور وہ یہ کہ جب مسلمانوں کو خوش حالی میسر آتی،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو تائید ونصرت ملتی اورمسلمانوں کی تعداد وقوت میں اضافہ ہوتا تومنافقین کو بہت برا لگتا اور اگر مسلمان قحط سالی یا تنگدستی میں مبتلا ہوتے، یا اللہ کی مشیت ومصلحت سے دشمن، وقتی طور پرمسلمانوں پر غالب آجاتے (جیسے جنگ احد میں ہوا) تو بڑے خوش ہوتے۔ مقصدبتلانے کا یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ حال ہو، کیا وہ اس لائق ہو سکتے ہیں کہ مسلمان ان سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور انہیں اپنا رازدان اوردوست بنائیں؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ سے بھی دوستی رکھنے سے منع فرمایا ہے (جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر ہے) اسی لئے وہ بھی مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھتے، ان کی کامیابیوں سے ناخوش اور ان کی ناکامیوں سے خوش ہوتے ہیں۔ 2- یہ ان کے مکروفریب سے بچنے کا طریقہ اور علاج ہے۔ گویا منافقین اور دیگر اعدائے اسلام ومسلمین کی سازشوں سے بچنے کے لئے صبر اور تقویٰ نہایت ضروری ہے۔ اس صبر اور تقویٰ کے فقدان نے غیر مسلموں کی سازشوں کو کامیاب بنا رکھا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کافروں کی یہ کامیابی مادی اسباب ووسائل کی فراوانی اور سائنس وٹیکنالوجی میں ان کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی وزوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ اپنے دین پر استقامت (جو صبر کا متقاضی ہے) سے محروم اور تقویٰ سے عاری ہوگئے ہیں جو مسلمان کی کامیابی کی کلید اور تائید الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ آل عمران
121 1- جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد جنگ احد کا واقعہ ہے جو شوال 3 ہجری میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ جب جنگ بدر 2 ہجری میں کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے تو ان کفار کے لئے یہ بڑی بدنامی کا باعث اور ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیاری کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کی تعداد میں احد پہاڑ کے قریب خیمہ زن ہوگئے تو نبی کریم (ﷺ) نے صحابہ (رضي الله عنهم) سے مشورہ کیا کہ وہ مدینہ میں ہی رہ کر لڑیں یا مدینہ سے باہر نکل کرمقابلہ کریں، بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کا مشورہ دیا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پرجوش صحابہ (رضي الله عنهم) نے جنہیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، مدینہ سے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ (ﷺ) اندر حجرے میں تشریف لے گئے اور جب ہتھیار پہن کرباہر آئے، دوسری رائے والوں کوندامت ہوئی کہ شاید ہم نے رسول اللہ (ﷺ) کو آپ کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا چنانچہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! (ﷺ) آپ اگر اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہو یا لباس اتارے۔ چنانچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے مگر صبح دم جب مقام شوط پر پہنچے توعبداللہ بن ابی اپنے تین سوساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی۔ خواہ مخواہ جان دینے کا کیا فائدہ؟ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ (ابن کثیر ) آل عمران
122 1- یہ اوس اورخزرج کے دو قبیلے (بنو حارثہ اوربنوسلمہ) تھے۔ 2- اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کی کمزوری کو دور فرما کر ان کی ہمت باندھ دی۔ آل عمران
123 1- بہ اعتبار قلت تعداد اور قلت سامان کے، کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان 313 تھے اور یہ بھی بے سروسامان۔ صرف دوگھوڑے اورستر اونٹ تھے،باقی سب پیدل تھے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
124 آل عمران
125 1- مسلمان بدر کی جانب محض قافلہ قریش سے جو تقریباً نہتا تھاچھاپہ مارنے نکلے تھے۔ مگر بدر پہنچتے پہنچتے معلوم ہوا کہ مکہ سے مشرکین کا ایک لشکرجرار پورے غیظ وغضب اور جوش وخروش کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کی صف میں گھبراہٹ، تشویش اور جوش قتال کا ملا جلا رد عمل ہوا اور انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا وفریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار فرشتے اتارنے کی بشارت دی اور مزید وعدہ کیا کہ اگر تم صبرو تقویٰ پر قائم رہے اور مشرکین اسی حالت غیظ وغضب میں آدھمکے تو فرشتوں کی یہ تعداد پانچ ہزار کردی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مشرکین کا جوش وغضب برقرار نہ رہ سکا۔ (بدر پہنچنے سے پہلے ہی ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ ایک گروہ مکہ پلٹ گیا اور باقی جو بدر آئے ان میں سے اکثر سرداروں کی رائے تھی کہ لڑائی نہ کی جائے) اس لئے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہ آسکی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تعداد پوری کی گئی۔ 2- یعنی پہچان کے لئے ان کی مخصوص علامت ہوگی۔ آل عمران
126 آل عمران
127 1- یہ اللہ غالب وکار فرما کی مدد کا نتیجہ بتلایا جا رہا ہے۔ سورۂ انفال میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بتلائی گئی ہے۔ ﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ﴾ ( الانفال: 9) ”جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سنتے ہوئے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا“، ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے واقعتاً ایک ہزار ہی نازل ہوئے اور مسلمانوں کے حوصلے اور تسلی کے لئے تین ہزار کا اور پھر پانچ ہزار کا مزید مشروط وعدہ کیا گیا۔ پھر حسب حالات مسلمانوں کی تسلی کے نقطہ نظر سے بھی ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس لئے بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین ہزار پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا کیونکہ مقصد تو مسلمانوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنا تھا، ورنہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور وہ اپنی مدد کے لئے فرشتوں کا یا کسی اور کامحتاج ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، کفر کی طاقت کمزور ہوئی اور کافروں کا گھمنڈ خاک میں مل گیا۔ (ایسر التفاسیر) آل عمران
128 1- یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم (ﷺ) کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا ”وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کر دیا“، گویا آپ (ﷺ) نے ان کی ہدایت سے ناامیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے بعض کفار کے لئے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لئے بددعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی،چنانچہ آپ (ﷺ) نے بددعا کا سلسلہ بند فرما دیا۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیئے جو نبی کریم (ﷺ) کو مختار کل قراردیتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ (ﷺ) اسی راستے کی طرف بلانے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ 2- یہ قبیلےجن کے لئے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہوگئے۔ جن سے معلوم ہوا کہ مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ آل عمران
129 آل عمران
130 1- چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول (ﷺ) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لالچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کیشی کی تاکید کی جا رہی ہےاور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤکا یہ مطلب نہیں بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے۔ بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب، مطلقاً حرام ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یہ قید نہی (حرمت) کے لئے بطور شرط نہیں ہے بلکہ واقعے کی رعایت کے طور پر یعنی سود کی اس وقت جو صورتحال تھی، اس کا بیان واظہار ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سود کا یہ رواج عام تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مزید مدت میں اضافے کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا جس کی وجہ سے تھوڑی سی رقم بڑھ چڑھ کر کہیں پہنچ جاتی اور ایک عام آدمی کے لئے اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل حرام تمہیں کفر تک پہنچا سکتاہے،کیونکہ یہ اللہ ورسول سے محاربہ ہے۔ آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 1- مال ودولت دنیا کے پیچھے لگ کر آخرت تباہ کرنے کے بجائے، اللہ ورسول کی اطاعت کا اوراللہ کی مغفرت اور اس کی جنت کا راستہ اختیار کرو۔ جو متقین کے لئے اللہ نے تیار کی ہے۔ چنانچہ آگے متقین کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ آل عمران
134 1- یعنی محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر حال اور ہر موقعے پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ 2- یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کر دیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔ آل عمران
135 1- یعنی جب ان سے بہ تقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو فوراً توبہ واستغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔ آل عمران
136 آل عمران
137 1- جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا، جس میں سے تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبداللہ ابن جبیر (رضي الله عنه) کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کر دی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست، تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا۔ لیکن جب مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مال واسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ کہنے لگے کہ نبی (ﷺ) کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا کہ جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا، لیکن جب یہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال واسباب جمع کرنا شروع کر دیا اور وہاں نبی کریم (ﷺ) کے فرمان کی اطاعت میں صرف دس آدمی باقی رہ گئے۔ جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا جس سے مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی اور وہ غیر متوقع حملے سے سخت سراسیمہ ہوگئے جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی وبربادی اللہ ورسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر بنی ہے۔ آل عمران
138 آل عمران
139 1- گزشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب وکامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی بنیاد واضح کر دی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے ہیں۔ آل عمران
140 1- ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں تو کیا ہوا ؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتدا میں اسی طرح زخمی ہو چکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح وشکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کر دیتا ہے۔ آل عمران
141 1- احد میں مسلمانوں کوجو عارضی شکست ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوئی، اس میں بھی مستقبل کے لئے کئی حکمتیں پنہاں تھیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ آگے بیان فرما رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہر کر دے (کیونکہ صبر واستقامت ایمان کا تقاضا ہے) جنگ کی شدتوں اور مصیبتوں میں جنہوں نے صبر واستقامت کا مظاہرہ کیا، یقیناً وہ سب مومن ہیں۔ دوسری یہ کہ کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کر دے۔ تیسری یہ کہ ایمان والوں کو ان کے گناہوں سے پاک کر دے۔ تَمْحِيصٌ کے ایک معنی اختیار (چن لینا) کے لئے گئے ہیں۔ ایک معنی تطہیراور ایک معنی تخلیص کے کئے گئے ہیں۔ آخری دونوں کا مطلب گناہوں سے پاکی اور خلاصی ہے۔ (فتح القدیر) مرحوم مترجم نے پہلے معنی کو اختیار کیا ہے۔ چوتھی، یہ کافروں کو ہٹا دے۔ اور اس طرح کہ وقتی فتح یابی سے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگا اور یہی چیز ان کی تباہی وہلاکت کا سبب بنے گی۔ آل عمران
142 1- یعنی بغیر قتال وشدائد کی آزمائش کے تم جنت میں چلے جاؤ گے؟ نہیں بلکہ جنت ان لوگوں کو ملے گی جو آزمائش میں پورے اتریں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا﴾ ( البقرۃ: 214) ”کیا تم نے گمان (کیا کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر وہ حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھی، انہیں تنگ دستی اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ خوب ہلائے گئے“ مزید فرمایا ﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ﴾ (العنکبوت:2) ”کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی؟“۔ 2- یہ مضمون اس سے پہلے سورۂ بقرۃ میں گزر چکا ہے۔ یہاں موضوع کی مناسبت سے پھر بیان کیا جا رہا ہے کہ جنت یوں ہی نہیں مل جائے گی، اس کے لئے پہلے تمہیں آزمائش کی بھٹی سے گزارا اور میدان جہاد میں آزمایا جائے گا وہاں نرغۂ اعدا میں گھر کر تم سرفروشی اور صبر واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہو یا نہیں؟۔ آل عمران
143 1- یہ اشارہ ان صحابہ (رضي الله عنهم) کی طرف ہے جو جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ایک احساس محرومی رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ میدان کار زار گرم ہو تو وہ بھی کافروں کی سرکوبی کرکے جہاد کی فضیلت حاصل کریں۔ انہی صحابہ (رضي الله عنهم) نے جنگ احد میں جوش جہاد سے کام لیتے ہوئے مدینہ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن جب مسلمانوں کی فتح، کافروں کے اچانک حملے سے شکست میں تبدیل ہو گئی (جس کی تفصیل پہلے گزر چکی) تو یہ پرجوش مجاہدین بھی سراسیمگی کا شکار ہوگئے اور بعض نے راہ فرار اختیار کی۔ (جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی) اور بہت تھوڑے لوگ ہی ثابت قدم رہے۔ (فتح القدیر) اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ تم دشمن سے مڈھ بھیڑ کی آرزو مت کرو اللہ سے عافیت طلب کیا کرو تاہم جب ازخود حالات ایسے بن جائیں کہ تمہیں دشمن سے لڑنا پڑ جائے تو پھر ثابت قدم رہو اور یہ بات جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے (صحیحین بحوالہ ابن کثیر ) 2- رَأَيْتُمُوهُ اور تَنْظُرُونَ۔ دونوں کے ایک ہی معنی یعنی دیکھنے کے ہیں۔ تاکید اور مبالغے کے لئے دو لفظ لائے گئے ہیں۔ یعنی تلواروں کی چمک، نیزوں کی تیزی، تیروں کی یلغار اور جاں بازوں کی صف آرائی میں تم نے موت کا خوب مشاہدہ کر لیا۔ (ابن كثير وفتح القدير) آل عمران
144 1- محمد (ﷺ) صرف رسول ہی ہیں (یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ 2- جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد (ﷺ) قتل کر دیئے گئے۔ مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (ﷺ) کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہو جانا یا اس پر موت کا وارد ہو جانا، کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیا (عليه السلام) بھی قتل اور موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ اگر آپ (ﷺ) بھی (بالفرض) اس سے دوچار ہو جائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو پھر جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نبی کریم (ﷺ) کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر (رضي الله عنه) شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے، ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول (ﷺ) کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی،جس سے حضرت عمر (رضي الله عنه) بھی متاثر ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔ 3- یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو جنہوں نے صبر واستقامت کا مظاہرہ کرکے اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کیا۔ آل عمران
145 1- یہ کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ موت تو اپنے وقت پر آکررہے گی، پھر بھاگنے یا بزدلی دکھانے کا کیا فائدہ؟ اسی طرح محض دنیا طلب کرنے سے کچھ دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، اس کے برعکس آخرت کے طالبوں کو آخرت میں اخروی نعمتیں تو ملیں گی ہی، دنیا بھی اللہ تعالیٰ انہیں عطافرماتا ہے۔ آگے مزید حوصلہ افزائی اور نسل کے لئے پچھلےانبیا، اور ان کے پیروکاروں کے صبر اور ثابت قدمی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ آل عمران
146 1- یعنی ان کو جو جنگ کی شدتوں میں پست ہمت نہیں ہوتے اور ضعف اور کمزوری نہیں دکھاتے۔ آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 آل عمران
150 1- یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے کیونکہ احد کی شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کفار یا منافقین مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ تم اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ کافروں کی اطاعت ہلاکت وخسر ان کاباعث ہے۔ کامیابی اللہ کی اطاعت ہی میں ہے اور اس سے بہتر کوئی مددگارنہیں۔ آل عمران
151 1- مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کے بالکلیہ خاتمہ کے لئے بڑا اچھا ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ پھر انہیں اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر) صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہے جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ[ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ]، ”دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے“۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ (ﷺ) کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ﷺ) کے ساتھ آپ (ﷺ) کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں وترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کے بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔ آل عمران
152 1- اس وعدے سے بعض مفسرین نے تین ہزار اور ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکورہے تو اس سے مراد فتح ونصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا تھا۔ حتیٰ کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب وفاتح رہے جس کی طرف ﴿إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ﴾ سے اشارہ کیا گیا ہے۔ 2- اس تنازع اور عصیان سے مراد تیر اندازوں کا وہ اختلاف ہے جو فتح وغلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔ 3- اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ 4- یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔ 5- وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ 6- یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ 7- اس میں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے اس شرف وفعل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کرکے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کر دیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی؟ صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقعے پر ایک شخص نے حضرت عثمان (رضي الله عنه) پر بعض اعتراضات کئے کہ وہ جنگ بدر میں، بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے، نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر (رضي الله عنه) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو ان کی اہلیہ (بنت رسول (ﷺ)) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ رسول (ﷺ) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرما دیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوۂ احد) آل عمران
153 1- کفار کے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اورمسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی۔ یہ اس کا نقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ تُصْعِدُونَ إِصْعَادٌ سے ہے جس کے معنی اپنی رو بھاگے جانے یا وادی کی طرف چڑھے جانے یا بھاگنے کے ہیں۔ (طبری ) 2- نبی (ﷺ) اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے۔ [ إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! ]، ”اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ“۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا؟۔ 3- فَأَثَابَكُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا غَمًّا بِغَمٍّ بمعنی غَمًّا علی غَمٍّ ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد ہے، مال غنیمت اور کفار پر فتح وظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی (ﷺ) کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ (ﷺ) کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔ 4- یعنی یہ غم پر غم اس لئے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم وحوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔ آل عمران
154 1- مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کر دی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے سکینت اور نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میری ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا، وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا اور پھر گر جاتی، (صحیح بخاری) نُعَاسًا أَمَنَةً سے بدل ہے۔ طائفہ، واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہے (فتح القدیر ) 2- اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو تو اپنی جانوں ہی کی فکر تھی۔ 3- وہ یہ تھیں کہ نبی کریم (ﷺ) کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ 4- یعنی کیا اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح ونصرت کا امکان ہے؟ یا یہ کہ کیا ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جا سکتی ہے؟ 5- تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدداسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اس کے حکم سے ہوگی اور امرونہی بھی اسی کا ہوگا۔ 6- اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ رہنمائی کے طالب ہیں۔ 7- یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔ 8- اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ کی طرف سے لکھ دی گئی ہے۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضروروہاں کھینچ لے جاتی؟۔ 9- یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان، اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہو جائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔ 10- یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اورنفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے ؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں جنہیں عام لوگ بھی پھر دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔ آل عمران
155 1- یعنی احد میں مسلمانوں سے جو لغزش اور کوتاہی ہوئی اس کی وجہ سے ان کی پچھلی بعض کمزوریاں تھیں جس کی وجہ سے شیطان اس روز بھی انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس طرح بعض سلف کا قول ہے کہ ”نیکی کا بدلہ یہ ہے کہ اس کے بعد مزید نیکی کی توفیق ملتی ہے اور برائی کا بدلہ یہ ہے کہ اس کے بعد مزید برائی کاراستہ کھلتا ہے اور ہموار ہوتا ہے“۔ 2- اللہ تعالیٰ صحابہ (رضي الله عنهم) کی لغزشوں، ان کے نتائج اور حکمتوں کے بیان کے بعد پھر اپنی طرف سے ان کے معافی کا اعلان فرما رہا ہے۔ جس سے ایک تو ان کا محبوب بارگاہ الٰہی ہونا واضح ہے اور دوسرے، عام مومنین کو تنبیہ ہے کہ ان مومنین صادقین کو جب اللہ نے معاف فرما دیا ہے تو اب کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ انہیں ہدف ملامت یا نشانۂ تنقید بنائے۔ آل عمران
156 1- اہل ایمان کو اس فساد عقیدہ سے روکا جا رہا ہے جس کے حامل کفار اورمنافقین تھے کیونکہ یہ عقیدہ بزدلی کی بنیاد ہے اس کے برعکس جب یہ عقیدہ ہو کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے، نیز یہ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو اس سے انسان کے اندر عزم وحوصلہ اور اللہ کی راہ میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ 2- مذکورہ فساد عقیدہ دلی حسرت کا ہی سبب بنتاہے کہ اگر وہ سفر یا میدان جنگ میں جاتے بلکہ گھر میں ہی رہتے تو موت کی آغوش میں جانے سے بچ جاتے۔ درآں حالیکہ موت تو مضبوط قلعوں کے اندر بھی آجاتی ہے، ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ﴾ (النساء:78) ”تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں پالے گی اگرچہ تم ہو مضبوط قلعوں میں“۔ اس لئے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتے ہیں جن کے عقیدے صحیح ہیں۔ آل عمران
157 1- موت توہر صورت میں آنی ہے لیکن اگر موت ایسی آئے کہ جس کے بعد انسان اللہ کی مغفرت ورحمت کا مستحق قرار پائے تو یہ دنیا کے مال واسباب سے بہت بہتر ہے جس کے جمع کرنے میں انسان عمر کھپا دیتا ہے۔ اس لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے گریز نہیں، اس میں رغبت اور شوق ہونا چاہئے کہ اس طرح رحمت ومغفرت الٰہی یقینی ہو جاتی ہے بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ ہو۔ آل عمران
158 آل عمران
159 1- نبی (ﷺ) جو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالیٰ اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ آپ (ﷺ) کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی دعوت وتبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اگر آپ (ﷺ) کے اندر یہ نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس آپ (ﷺ) تند خو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کے بجائے، آپ (ﷺ) سے دور بھاگتے۔ اس لئے آپ درگزر سے ہی کام لیتے رہئیے۔ 2- یعنی مسلمانوں کی طیب خاطر کے لئے مشورہ کر لیا کریں۔ اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ مشاورت کا یہ حکم بعض کے نزدیک وجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے (ابن كثير)۔ امام شوکانی لکھتے ہیں (حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علما سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ یا ان کے بارے میں انہیں اشکال ہیں۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربر آوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام ووالیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات وترجیحات کے سلسلے میں مشورہ کریں۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ایسے حکمران کے وجوب پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو اہل علم واہل دین سے مشورہ نہیں کرتا۔ یہ مشورہ صرف ان معاملات تک محدود ہوگا جن کی بابت شریعت خاموش ہے یا جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ (فتح القدير) 3- یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہو جائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزرئیے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران ہی کا ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد وتوکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل وفہم پر۔ اگلی آیت میں بھی توکل علی اللہ کی مزید تاکید ہے۔ آل عمران
160 آل عمران
161 1- جنگ احد کے دوران جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال غنیمت دوسرے لوگ سمیٹ لے جائیں گے اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے تصور کیسے کر لیا کہ اس مال میں سے تمہارا حصہ تم کو نہیں دیا جائے گا۔ کیا تمہیں قائد غزوہ محمد (ﷺ) کی امانت پر اطمینان نہیں۔ یاد رکھو کہ ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ خیانت، نبوت کے منافی ہے۔ اگر نبی ہی خائن ہو تو پھر اس کی نبوت پر یقین کیوں کر کیا جا سکتا ہے ؟ خیانت بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ آل عمران
162 آل عمران
163 آل عمران
164 1- نبی کے بشر اور انسانوں میں سے ہی ہونے کو اللہ تعالیٰ ایک احسان کے طور پر بیان کر رہا ہے اور فی الواقع یہ احسان عظیم ہے کہ اس طرح ایک تو وہ اپنی قوم کی زبان اور لہجے میں ہی اللہ کا پیغام پہنچائے گا جسے سمجھنا ہر شخص کے لئے آسان ہوگا۔ دوسرے، لوگ ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مانوس اور اس کے قریب ہوں گے۔ تیسرے انسان کے لئے انسان، یعنی بشر کی پیروی تو ممکن ہے لیکن فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں اورنہ فرشتہ انسان کے وجدان وشعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس لئے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری خوبیوں سے محروم ہوتے جو تبلیغ ودعوت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے جتنے بھی انبیاء آئے ہیں سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ مثلاً فرمایا ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلا رِجَالا نُوحِي إِلَيْهِمْ﴾ (يوسف:109) ”ہم نے آپ (ﷺ) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ مرد تھے جن پر ہم وحی کرتے تھے“، ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الأَسْوَاقِ﴾ (سورة الفرقان:20) ”ہم نے آپ (ﷺ) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے، سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے تھے“۔ اور خود نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ﴾ (سورة حم السجدة: 6) ”آپ (ﷺ) کہہ دیجئے میں بھی تو تمہاری طرح صرف بشر ہی ہوں البتہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے“۔ آج بہت سے افراد اس چیز کو نہیں سمجھتے اور انحراف کا شکار ہیں۔ 2- اس آیت میں نبوت کے تین اہم مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ - تلاوت آیات۔ - تزکیہ۔ - تعلیم کتاب وحکمت۔ تعلیم کتاب میں تلاوت ازخود آجاتی ہے، تلاوت کے ساتھ ہی تعلیم ممکن ہے، تلاوت کے بغیر تعلیم کا تصور ہی نہیں۔ اس کے باوجود تلاوت کو الگ ایک مقصد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے جس سے اس نکتے کی وضاحت مقصود ہے کہ تلاوت بجائے خود ایک مقدس اور نیک عمل ہے، چاہے پڑھنے والا اس کا مفہوم سمجھے یا نہ سمجھے۔ قرآن کے معانی ومطالب کو سمجھنے کی کوشش کرنا یقیناً ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو یا اتنی فہم واستعداد بہم نہ پہنچ جائے، تلاوت قرآن سے اعراض یا غفلت جائز نہیں، تزکیے سے مراد عقائد اور اعمال واخلاق کی اصلاح ہے، جس طرح آپ (ﷺ) نے انہیں شرک سے ہٹا کر توحید پر لگایا اسی طرح نہایت بداخلاق اور بداطوار قوم کو اخلاق وکردار کی رفعتوں سے ہمکنار کر دیا، حکمت سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک حدیث ہے۔ 3- یہ إنْ مُخَفَّفَةٌ مِنَ الْمُثَقَّلَةِ ہے یعنی (إِنَّ) (تحقیق،یقیناً بلاشبہ) کے معنی ہیں۔ آل عمران
165 1- یعنی احد میں تمہارے ستر آدمی شہید ہوئے تو بدر میں تم نے ستر قتل کئے تھے اور ستر قیدی بنائے تھے۔ 2- یعنی تمہاری اس غلطی کی وجہ سے جو رسول اللہ (ﷺ) کے تاکیدی حکم کے باوجود پہاڑی مورچہ چھوڑ کر تم نے کی تھی، جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزری کہ اس غلطی کی وجہ سے کافروں کے ایک دستے کو اس درے سے دوبارہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ آل عمران
166 آل عمران
167 1- یعنی احد میں تمہیں جو کچھ نقصان پہنچا، وہ اللہ کے حکم سے ہی پہنچا ہے (تاکہ آئندہ تم اطاعت رسول کا کما حقہ اہتمام کرو) علاوہ ازیں اس کا ایک مقصد مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنا بھی تھا۔ 2- لڑائی جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اگر واقعی آپ لوگ لڑائی لڑنے چل رہے ہوتے تو ہم بھی ساتھ دیتے۔ مگر آپ تو لڑائی کے بجائے اپنے آپ کو تباہی کے دہانے میں جھونکتے جا رہے ہیں۔ ایسے غلط کام میں ہم کیوں آپ کا ساتھ دیں۔ یہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے اس لئے کہا کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تھی اور اس وقت کہا جب وہ مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے اور عبداللہ بن حرام انصاری (رضي الله عنه) انہیں سمجھا بجھا کر شریک جنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے (قدرے تفصیل گزر چکی ہے ) 3- اپنے نفاق اور ان باتوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں۔ 4- یعنی زبان سے تو ظاہر کیا جو مذکور ہوا لیکن دل میں یہ تھا کہ ہماری علیحدگی سے ایک تو مسلمانوں کے اندر بھی ضعف پیدا ہوگا۔ دوسرے، کافروں کو فائدہ ہوگا۔ مقصد اسلام، مسلمانوں اور نبی کریم (ﷺ) کو نقصان پہنچانا تھا۔ آل عمران
168 1- یہ منافقین کے اس قول کا رد ہے کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت ٹال کر دکھاؤ مطلب یہ ہے کہ تقدیر سے کسی کو مفر نہیں۔ موت بھی جہاں اور جیسے مقدر ہے، وہاں اور اسی صورت میں آکر رہے گی۔ اس لئے جہاد اور اللہ کی راہ میں لڑنے سے گریز وفرار یہ کسی کو موت کے شکنجے سے نہیں بچا سکتا۔ آل عمران
169 1- شہدا کی یہ زندگی حقیقی ہے یا مجازی، یقیناً حقیقی ہے لیکن اس کا شعور اہل دنیا کو نہیں جیسا کہ قرآن نے وضاحت کر دی ہے۔ ملاحظہ ہو (سورۂ بقرۃ آیت نمبر 154) پھر اس زندگی کا مطلب کیا ہے ؟ بعض کہتے ہیں قبروں میں ان کی روحیں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہاں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جنت کے پھلوں کی خوشبوئیں انہیں آتی ہیں۔ جس سے ان کے مشام جان معطر رہتے ہیں۔ لیکن حدیث سے ایک تیسری شکل معلوم ہوتی ہے اس لئے وہی صحیح ہے، وہ یہ کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کر دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں (فتح القدیر بحوالہ صحیح مسلم، کتاب الامارۃ) آل عمران
170 1- یعنی وہ اہل اسلام جو ان کے پیچھے دنیا میں زندہ ہیں یا مصروف جہاد ہیں، ان کی بابت وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی شہادت سے ہمکنار ہو کر یہاں ہم جیسی پرلطف زندگی حاصل کریں۔ شہدائے احد نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو دنیا میں زندہ ہیں، انہیں ہمارے حالات اور پرمسرت زندگی سے کوئی مطلع کرنے والا ہے؟ تاکہ وہ جنگ وجہاد سے اعراض نہ کریں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری یہ بات ان تک پہنچا دیتا ہوں اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں (مسند احمد 1/ 365-366، سنن ابی داود، کتاب الجھاد) علاوہ ازیں متعدد احادیث سے شہادت کی فضیلت ثابت ہے مثلاً ایک حدیث میں فرمایا [ مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ، لَهَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ، يَسُرُّهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا إِلا الشَّهِيدُ، فَإِنَّهُ يَسُرُّه أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى لِمَا يَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ ] (مسند احمد 3/126، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشھادۃ) ”کوئی مرنے والی جان، جس کو اللہ کے ہاں اچھا مقام حاصل ہے، دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرتی۔ البتہ شہید دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے۔ یہ آرزو وہ اس لئے کرتا ہے کہ شہادت کی فضیلت کا وہ مشاہدہ کر لیتا ہے“۔ حضرت جابر (رضي الله عنه) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تیرے باپ کو زندہ کیا اور اس سے کہا کہ مجھ سے اپنی کسی آرزو کا اظہار کر (تاکہ میں اسے پورا کر دوں) تیرے باپ نے جواب دیا کہ میری تو صرف یہی آرزو ہے کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، یہ تو ممکن نہیں ہے اس لئے کہ میرا فیصلہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جا سکتا۔ آل عمران
171 1- یہ استبشار، پہلے استبشار کی تاکید اور اس بات کا بیان ہے کہ ان کی خوشی محض خوف وحزن کے فقدان کی ہی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے بے پایاں فضل وکرم کی وجہ سے بھی ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ پہلی خوشی کا تعلق دنیا میں رہ جانے والے بھائیوں کی وجہ سے اور یہ دوسری خوشی اس انعام واکرام کی ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے خود ان پر ہوا۔ (فتح القدیر) آل عمران
172 1- جب مشرکین جنگ احد سے واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے تو ایک نہایت سنہری موقع ضائع کر دیا۔ مسلمان شکست خوردگی کی وجہ سے بے حوصلہ اور خوف زدہ تھے۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر بھرپور حملہ کر دینا چاہئے تھا تاکہ اسلام کا یہ پودا اپنی سرزمین (مدینہ) سے ہی نیست ونابود ہو جائے۔ ادھر مدینہ پہنچ کر نبی کریم (ﷺ) کو بھی اندیشہ ہوا کہ شاید وہ پھر پلٹ آئیں لہٰذا آپ (ﷺ) نے صحابہ کو لڑنے پر آمادہ کیا آپ (ﷺ) کے کہنے پر صحابہ باوجود اس بات کے کہ وہ اپنے مقتولین ومجروحین کی وجہ سے دل گرفتہ اور محزون ومغموم تھے، تیار ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے میل کے فاصلے پر واقع (حمراء الاسد) پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا۔ چنانچہ ان کا ارادہ بدل گیا اور وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے بجائے مکہ واپس چلے گئے۔ اس کے بعد نبی (ﷺ) اور آپ (ﷺ) کے رفقا بھی مدینہ واپس آگئے۔ آیت میں مسلمانوں کے اسی جذبہ اطاعت اللہ ورسول کی تعریف کی گئی ہے بعض نے اس کا سبب نزول حضرت ابوسفیان کی اس دھمکی کو بتلایا ہے کہ آئندہ سال بدر صغریٰ میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا۔ (ابوسفیان ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) جس پر مسلمانوں نے بھی اللہ ورسول کی اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جہاد میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کر لیا۔ (ملخص از فتح القدیر وابن کثیر مگر یہ آخری قول سیاق سے میل نہیں کھاتا ) آل عمران
173 1- حمراء الاسد اور کہا جاتا ہے کہ بدر صغریٰ کے موقع پر ابوسفیان نے بعض لوگوں کی خدمات مالی معاوضہ دے کر حاصل کیں اور ان کے ذریعے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلائی کہ مشرکین مکہ لڑائی کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ بعض روایات کی رو سے یہ کام شیطان نے اپنے چیلے چانٹوں کے ذریعے سے کیا۔ لیکن مسلمان اس قسم کی افواہیں سن کر خوف زدہ ہونے کے بجائے، مزید عزم وولولہ سے سرشار ہوگئے جس کو یہاں ایمان کی زیادتی سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ ایمان جتنا پختہ ہوگا، جہاد کا عزم اور ولولہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جامد قسم کی چیز نہیں ہے بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتلا ومصیبت کے وقت اہل ایمان کا شیوہ اللہ پر اعتماد وتوکل ہے، اسی لئے حدیث میں بھی [حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ] پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔ نیز صحیح بخاری وغیرہ میں ہے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔ (فتح القدیر ) آل عمران
174 1- نِعْمَةٌ سے مراد سلامتی ہے اور فَضْلٌ سے مراد وہ نفع ہے جو بدر صغریٰ میں تجارت کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ نبی کریم (ﷺ) نے بدر صغریٰ میں ایک گزرنے والے قافلے سے سامان تجارت خرید کر فروخت کیا جس سے نفع حاصل ہوا اور آپ (ﷺ) نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ (ابن کثیر) آل عمران
175 1- یعنی تمہیں اس وسوسے اور وہم میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ 2- یعنی جب وہ تمہیں اس وہم میں مبتلا کرے تو تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری ہی طرف رجوع کرو ! میں تمہیں کافی ہو جاؤں گا اور تمہارا ناصر رہوں گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ﴾ ( الزمر:36 ) ”کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے“؟ مزید ملاحظہ ہوں۔ ﴿كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي﴾ وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ آل عمران
176 1- نبی (ﷺ) کے اندر اس بات کی شدید خواہش تھی کہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں، اسی لئے ان کے انکار اور تکذیب سے آپ کو سخت تکلییف پہنچتی، اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ (ﷺ) کو تسلی دی کہ آپ (ﷺ) غمگین نہ ہوں، یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اپنی ہی آخرت برباد کر رہے ہیں۔ آل عمران
177 آل عمران
178 1- اس میں اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے) کا بیان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق کافروں کو مہلت عطا فرماتا ہے، وقتی طور پر انہیں دنیا کی فراغت وخوش حالی سے، فتوحات سے اور مال واولاد سے نوازتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پر اللہ کا فضل ہو رہا ہے لیکن اگر اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے والی نیکی اور اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو یہ دنیوی نعمتیں، فضل الٰہی نہیں مہلت الٰہی ہے، جس سے ان کے کفر وفسوق میں اضافہ ہی ہوتا ہے، بالآخر وہ جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق قرار پا جاتے ہیں، اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ مثلاً ﴿أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ﴾، ﴿نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لا يَشْعُرُونَ﴾ (المؤمنون: 55-56) ”کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کے مال واولاد میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ہم ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کررہے ہیں ؟ نہیں بلکہ وہ سمجھتے نہیں ہیں“۔ آل عمران
179 1- اس لئے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست واضح اور دشمن ذلیل ہو جائیں۔ مومن صابر، منافق سے الگ ہو جائیں جس طرح احد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبر وثبات اور جذبہ اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بے نقاب ہوگیا۔ 2- یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا کے ذریعےسے لوگوں کے حالات اور ان کے ظاہر وباطن کو نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں منکشف ہو جائیں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص؟۔ 3- ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کا علم عطا فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ بھی کسی کسی وقت اور کسی کسی نبی پر ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر نبی بھی (جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے) منافقین کے اندرونی نفاق اور ان کے مکروکید سے بے خبر ہی رہتا ہے (جس طرح کہ سورۂ توبہ کی آیت نمبر 101 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعراب اور اہل مدینہ میں جو منافق ہیں اے پیغمبر! آپ ان کو نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں) اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے۔ اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں ؟ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا، إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ﴾ ( الجن:26-27) ”عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہے، اور وہ اپنے غیب سے پسندیدہ رسولوں کو ہی خبردار کرتا ہے“ ظاہر بات ہے یہ امور غیبیہ وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق منصب وفرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ جو کچھ ہو چکا اور آئندہ قیامت تک جو ہونے والے ہے کاعلم۔ جیسا کہ بعض اہل باطل اس طرح کا علم غیب انبیاء علیھم السلام کے لئے اور کچھ اپنے ”ائمہ معصومین“ کے لئے باور کراتے ہیں۔ آل عمران
180 1- اس میں اس بخیل کا بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حتیٰ کہ اس میں سے فرض زکوۃ بھی نہیں نکالتا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت خوفناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کےگلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں“، [ مَنْ آتَاهُ اللهُ مَالا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثّلَ لَهُ شُجاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ، يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ]. (صحيح بخاري- كتاب تفسير، باب تفسير آل عمران، كتاب الزكاة - حديث نمبر 4565) آل عمران
181 1- جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ ( البقرۃ: 245) ”کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے“، تو یہود نے کہا اے محمد (ﷺ)! تیرا رب فقیر ہوگیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن کثیر) 2- یعنی مذکورہ قول جس میں اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اسی طرح ان کے (اسلاف) کا انبیاء علیھم السلام کو ناحق قتل کرنا، ان کے یہ سارے جرائم اللہ کی بارگاہ میں درج ہیں، جن پر وہ جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے۔ٍ آل عمران
182 آل عمران
183 1- اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی وصدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (ﷺ) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے بحکم الٰہی آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے کہ جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے؟“۔ آل عمران
184 1- نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ (ﷺ) یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سے بددل نہ ہوں۔ ایسا معاملہ صرف آپ (ﷺ) کے ساتھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ (ﷺ) سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو چکا ہے۔ آل عمران
185 1- اس آیت میں ایک تو اس اٹل حقیقت کا بیان ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں جس نے، اچھا یا برا، جو کچھ کیا ہوگا، اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تیسرا، کامیابی کا معیار بتلایا گیا ہے کہ کامیاب اصل میں وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لیا جس کے نتیجے میں جہنم سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔ چوتھا یہ کہ دنیا کی زندگی سامان فریب ہے، جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا، وہ خوش نصیب اور جو اس کے فریب میں پھنس گیا، وہ ناکام ونامراد ہے۔ آل عمران
186 1- اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (ﷺ) حضرت سعد بن عبادۃ (رضي الله عنه) کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبداللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (ﷺ) کی سواری سے جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (ﷺ) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبداللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (ﷺ) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہو جائے، آپ (ﷺ) نے ان سب کو خاموش کرایا، پھر آپ (ﷺ) حضرت سعد (رضي الله عنه) کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندگان کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (ﷺ) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض وعناد کا مظہر ہیں۔ اس لئے آپ۔ درگزر ہی سے کام لیں۔ (صحيح البخاري كتاب التفسير ملخصًا) 2- اہل کتاب سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (ﷺ) ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن وتشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبداللہ بن ابی بھی آپ (ﷺ) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ (ﷺ) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف سب وشتم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضرورت تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفوو درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیان حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دوچار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر) آل عمران
187 1- اس میں اہل کتاب کوزجر وتوبیخ کی جارہی ہے کہ ان سے اللہ نے یہ عہد لیا تھا کہ کتاب الٰہی (تورات اورانجیل) میں جو باتیں درج ہیں اور آخری نبی کی جو صفات ہیں، انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور انہیں چھپائیں گے نہیں۔ لیکن ان لوگوں نے دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے اللہ کے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا۔ یہ گویا اہل علم کو تلقین وتنبیہ ہے کہ ان کے ہاں جو علم نافع ہے، جس سے لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح ہو سکتی ہو، وہ لوگوں تک ضرور پہنچانا چاہئے اور دنیوی اغراض ومفادات کی خاطر ان کو چھپانا بہت بڑا جرم ہے۔ قیامت والے دن ایسے لوگوں کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی (کما فی الحدیث) آل عمران
188 1- اس میں ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو صرف اپنے واقعی کارناموں پر ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے کھاتے میں وہ کارنامے بھی درج یا ظاہر کئے جائیں جو انہوں نے نہیں کئے ہوتے۔ یہ بیماری جس طرح عہدرسالت کے بعض لوگوں میں تھی جس کے پیش نظر آیات کا نزول ہوا۔ اسی طرح آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں اور پروپیگنڈے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بننے والے لیڈروں میں یہ بیماری عام ہے۔أَعَاذَنَا اللهُ۔ اس آیت کے سباق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودی کتاب الٰہی میں تحریف وکتمان کے مجرم تھے، مگر وہ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہوتے تھے، یہی حال آج کے باطل گروہوں کا بھی ہے، وہ بھی لوگوں کو گمراہ کرکے ، غلط رہنمائی کرکے آیات الٰہی میں معنوی تحریف وتلبیس کرکے بڑے خوش ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل حق ہیں اور یہ کہ ان کے دجل وفریب کاری کی انہیں داد دی جائے۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾ آل عمران
189 آل عمران
190 1- یعنی جو لوگ زمین وآسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار ورموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل وعریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام جس میں ذرا خلل واقع نہیں ہوتا، یقیناً اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ آگے ان ہی اہل دانش کی صفات کاتذکرہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ﴾ سے لے کر آخر سورت تک یہ آیات نبی کریم (ﷺ) رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے، تو پڑھتے اور اس کے بعد وضو کرتے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ صحیح مسلم، کتاب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا، باب الدعاء فی صلٰوۃ اللیل وقیامہ) آل عمران
191 1- ان دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت وطاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہ نشانیاں ضرور ہیں لیکن کن کے لئے؟ اہل عقل ودانش کے لئے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان عجائبات تخلیق اور قدرت الٰہیہ کو دیکھ کر بھی جس شخص کو باری تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ ہو، وہ اہل دانش ہی نہیں۔ لیکن یہ المیہ بھی بڑا عجیب ہے کہ عالم اسلام میں (دانش ور) سمجھا ہی اس کو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ دوسری آیت میں اہل دانش کے ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان وزمین کی تخلیق میں غوروفکر کرنے کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا ”کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر اور بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو“ (صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ) ایسے لوگ جو ہر وقت اللہ کو یاد کرتے اور رکھتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق اور اس کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جن سے خالق کائنات کی عظمت وقدرت،اس کا علم واختیار اور اس کی رحمت وربوبیت کی صحیح معرفت انہیں حاصل ہوتی ہے تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ رب کائنات نے یہ کائنات یوں ہی بے مقصد نہیں بنائی ہے بلکہ اس سے مقصد بندوں کا امتحان ہے۔ جو امتحان میں کامیاب ہوگیا، اس کے لئے ابدالآباد تک جنت کی نعمتیں ہیں اور جو ناکام ہوا اس کے لئے عذاب نار ہے۔ اس لئے وہ عذاب نار سے بچنے کی دعا بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد والی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔ آل عمران
192 آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 1- فَاسْتَجَابَ یہاں أَجَابَ یعنی قبول فرمالی کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) 2- مرد ہو یا عورت کی وضاحت اس لئے کر دی کہ اسلام نے بعض معاملات میں، مرد اور عورت کے درمیان ان کے ایک دوسرے سے مختلف فطری اوصاف کی بنا پر جو فرق کیا ہے۔ مثلاً قوامیت وحاکمیت میں، کسب معاش کی ذمہ داری میں، جہاد میں حصہ لینے میں اور وراثت میں نصف حصہ ملنے میں، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ نیک اعمال کی جزا میں بھی شاید مرد وعورت کے درمیان کچھ فرق کیا جائے گا، نہیں ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہر نیکی کا جواجر ایک مرد کو ملے گا، وہ نیکی اگر ایک عورت کرے گی تو اس کو بھی وہی اجر ملے گا۔ 3- یہ جملہ معترضہ ہے اور اس کا مقصد پچھلے نکتے کی ہی وضاحت ہے یعنی اجرواطاعت میں تم مرد اور عورت ایک ہی ہو یعنی ایک جیسے ہی ہو۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) نے ایک مرتبہ عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر طبری، ابن کثیر وفتح القدیر) آل عمران
196 1- خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے شہر میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت وکاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے۔ یہ تجارتی سفر وسائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت وفروغ کی دلیل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکہ میں مبتلا نہیں ہو چاہئے، اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان سے محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال یہ کافر مبتلا ہوں گے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ﴿مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلادِ﴾ ( سورۃ المومن: 4) ”اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے“۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ، مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ﴾ (سورۂ یونس: 69-70) ﴿ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ﴾ ( سورۂ لقمان:24) آل عمران
197 1- یعنی یہ دنیا کے وسائل، آسائشیں اور سہولتیں بظاہر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، درحقیقت متاع قلیل ہی ہیں، کیونکہ بالآخر انہیں فنا ہونا ہے اور ان کے بھی فنا ہونے سے پہلےوہ حضرات خود فنا ہو جائیں گے، جو ان کے حصول کی کوششوں میں اللہ کو بھی فراموش کئے رکھتے ہیں اور ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں اور اللہ کی حدوں کو بھی پامال کرتے ہیں۔ آل عمران
198 1- ان کے برعکس جو تقویٰ اور خدا خوفی کی زندگی گزار کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ گو دنیا میں ان کے پاس خدا فراموشوں کی طرح دولت کے انبار اور رزق کی فراوانی نہ رہی ہوگی، مگر وہ اللہ کے مہمان ہوں گے جو تمام کائنات کا خالق ومالک ہے اور وہاں ان ابرار (نیک لوگوں) کو جو اجر وصلہ ملے گا، وہ اس سے بہتر ہوگا جو دنیا میں کافروں کو عارضی طور پر ملتا ہے۔ آل عمران
199 1- اس آیت میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جسے رسول کریم (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز کر دیا، جن کا مشن ہی اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا، آیات الٰہی میں تحریف تلبیس کرنا اور دنیا کے عارضی اور فانی مفادات کے لئے کتمان علم کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ مومنین اہل کتاب ایسے نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں، اللہ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچنے والے نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو علما ومشائخ دنیوی اغراض کے لئے آیات الٰہی میں تحریف یا ان کے مفہوم کے بیان میں دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں، وہ ایمان وتقویٰ سے محروم ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آیت میں جن مومنین اہل کتاب کا ذکر ہے، یہود میں سے ان کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی البتہ عیسائی بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے دین حق کو اپنایا۔ (تفسیر ابن کثیر) آل عمران
200 1- صبر کرو یعنی طاعات کے اختیار کرنے اور شہوات ولذات کے ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو۔ مصابرۃ (صابروا) جنگ کی شدتوں میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، یہ صبر کی سخت ترین صورت ہے۔ اس لئے اسے علیحدہ بیان فرمایا۔ رابطوا میدان جنگ یا محاذ جنگ میں مورچہ بند ہو کر ہمہ وقت چوکنا اور جہاد کے لئے تیار رہنا مرابطہ ہے۔ یہ بھی بڑےعزم وحوصلہ کا کام ہے۔ اسی لئے حدیث میں اس کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ [ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا ] (صحیح بخاری، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ) ”اللہ کے راستے (جہاد) میں ایک دن پڑاؤ ڈالنا (یعنی مورچہ بند ہونا) دنیا ومافیہا سے بہتر ہے“، علاوہ ازیں حدیث میں مکارہ (یعنی ناگواری کے حالات میں) مکمل وضو کرنے، مسجدوں میں زیادہ دور سے چل کر جانے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کو بھی رباط کہا گیا ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الطہارۃ ) آل عمران
0 النسآء
1 1- ایک جان سے مراد ابو البشر حضرت آدم (عليه السلام) ہیں اور﴿خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾میں مِنْهَا سے وہی جان یعنی آدم (عليه السلام) مراد ہیں یعنی آدم (عليه السلام) سے ان کی زوج (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (عليه السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد (یعنی آدم عليه السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے۔ [ إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ أَعْوَجَ وِإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاهُ ] (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، صحیح مسلم، کتاب الرضاع) ”کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا جاہے تو توڑ بیٹھے گا اور اگر تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے“۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے منقول رائے کی تائید کی ہے۔ قرآن کے الفاظ ﴿خَلَقَ مِنْهَا﴾ سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی جسے آدم کہا جاتا ہے۔ 2- وَالأَرْحَامَ کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ أَرْحَامٌ، رَحِمٌ کی جمع ہے۔ مراد رشتے داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں۔ اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناطوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اورفضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہاجاتا ہے۔ النسآء
2 1- یتیم جب بالغ اور باشعورہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو۔ خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو۔ ان گھٹیا چیزوں کو خبیث (ناپاک) اور عمدہ چیزوں کو طیب (پاک) سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ کر دیا کہ اس طرح بدلایا گیا مال، جو اگرچہ اصل میں تو طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا،بلکہ تمہارےحق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کرکھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔ النسآء
3 1- اس کی تفسیر حضرت عائشہ (رضی الله عنها) سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو وہ اس کے مال اور حسن وجمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کر لیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تو تم ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر) بلکہ ایک کے بجائے دو سے تین سے حتیٰ کہ چار عورتوں تک سے تم نکاح کر سکتے ہو، بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کر سکو، ورنہ ایک سے ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ نہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مزید صراحت اور تحدید کر دی گئی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ (ﷺ) کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لئے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) 2- یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کا فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت بلیغانہ انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ﴾ (سورة النساء: 129) ”اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے کہ بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو،اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو“۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔ النسآء
4 النسآء
5 النسآء
6 1- یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایت دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہےکہ جب تک یتیم کا مال تمہارے پاس رہا، تم نے اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں ؟ عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ یقیناً جب تم اس کی بارگاہ میں جاؤ گے تو تم سے حساب لے گا۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی (ﷺ) نے حضرت ابو ذر (رضي الله عنه) سے فرمایا ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لئے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سرپرست (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ) النسآء
7 1- اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتیں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہوں گی، انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیسا کہ 3 آیات کے بعد مذکور ہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔ النسآء
8 1- اسے بعض علما نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصہ دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیارو محبت کے انداز میں کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون وفرعون نہ بنو۔ النسآء
9 1- بعض مفسرین کے نزدیک اس کے مخاطب اوصیا ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں ان کے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، قطع نظر اس کے کہ وہ ان کی زیر کفالت ہیں یا نہیں بعض کے نزدیک اس کے مخاطب وہ ہیں جو قریب المرگ کے پاس بیٹھے ہوں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حق اللہ میں کوتاہی کر سکے نہ حقوق بنی آدم میں اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لئے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دوچار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بعد ان کے بچے فقروفاقہ سے دوچار ہو جائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر) النسآء
10 النسآء
11 1- اس کی حکمت اور اس کا مبنی برعدل وانصاف ہونا ہم واضح کر آئے ہیں۔ ورثا میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں تو پھر اس اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لڑکے چھوٹے ہوں یا بڑے، اسی طرح لڑکیاں چھوٹی ہو یا بڑی سب وراث ہوں گی۔ حتی کہ جنين ( ماں کے پیٹ میں زیر پرورش بچہ) بھی وراث ہوگا۔ البتہ کافر اولاد وارث نہ ہوگی۔ 2- یعنی بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کا دو تہائی (یعنی کل مال کے تین حصے کرکے دو حصے) دو سے زائد لڑکیوں کو دیئے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں، تب بھی انہیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ سعد بن ربیع (رضي الله عنه) احد میں شہید ہوگئے اور ان کی دو لڑکیاں تھیں۔ مگر سعد کے سارے مال پر ان کے ایک بھائی نے قبضہ کر لیا تو نبی (ﷺ) نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو ثلث مال دلوایا (ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، کتاب الفرائض) علاوہ ازیں سورۂ نساء کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہوں تو ان کے لئے بھی دو تہائی حصہ ہے لہٰذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی مال کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے (فتح القدیر) خلاصۂ مطلب یہ ہوا کہ دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہوں، تو دونوں صورتوں میں مال متروکہ سے دو تہائی لڑکیوں کا حصہ ہوگا، باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا۔ 3- ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں یہ پہلی صورت ہے کہ مرنے والے کی اگر اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو ایک ایک سدس ملے گا یعنی باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہو جائے گا البتہ اگر مرنے والے کی اولاد صرف ایک بیٹی ہو تو اس میں سے چونکہ صرف نصف مال (یعنی چھ حصوں میں سے 3 حصے) بیٹی کے ہوں گے اور ایک سدس (چھٹا حصہ) ماں کو اور ایک سدس باپ کو دینے کے بعد مزید ایک سدس باقی بچ جائے گا اس لئے بچنے والا یہ سدس بطور عصبہ باپ کے حصہ میں جائے گا یعنی اس صورت میں باپ کو دو سدس ملیں گے، ایک باپ کی حیثیت سے دوسرے، عصبہ ہونے کی حیثیت سے۔ 4- یہ دوسری صورت ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں اجماعاً شامل ہیں) اس صورت میں ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے میں دو گنا ہیں) باپ کو بطورعصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لئے ثلث (تیسرا حصہ) اورباقی باپ کے لئے ہوگا۔ 5- تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ، مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں، وہ بھائی چاہے سگے (عینی) ہوں یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں۔ یا باپ ایک ہو، مائیں مختلف ہوں یعنی علاتی بھائی بہن ہوں یا ماں ایک ہو، باپ مختلف ہوں یعنی اخیافی بھائی بہن ہوں۔ اگرچہ یہ بھائی بہن میت کے باپ کی موجودگی میں وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے لیکن ماں کے لئے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہوں گے تو ماں کے ثلث (تیسرے حصے) کو سدس (چھٹے حصے) میں تبدیل کر دیں گے۔ باقی سارا مال ( 5/6) باپ کے حصہ میں چلا جائے گا۔ بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دو بھائیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زیادہ بھائیوں کا مذکور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گاوہ سدس میں تبدیل نہیں ہوگا۔ (تفسیر ابن کثیر) 6- اس لئے تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق جس کا جتنا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے،وہ ان کو دو۔ النسآء
12 1- اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں، اس پر امت کے علما کا اجماع ہے (فتح القدیر وابن کثیر) اسی طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وراث ہونے والی موجودہ بیوی ہو یا کسی اور بیوی سے۔ اس طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کی وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے ہو یا پہلے کے کسی خاوند سے۔ 2- بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگر زیادہ ہوں گی تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا، ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا، یہ بھی اجماعی مسئلہ ہے (فتح القدیر) 3- کلالہ سے مراد وہ میت ہے جس کا باپ ہو نہ بیٹا۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے۔ اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کہ سرکو اس کے اطراف (کناروں) سے گھیر لے، کلالہ کو بھی کلالہ اس لئے کہتے ہیں کہ اصول وفروع کے اعتبار سے تو اس کا وارث نہ بنے لیکن اطراف وجوانب سے وارث قرار پا جائے (فتح القدیر وابن کثیر) اور کہا جاتا ہے کہ کلالہ کلل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تھک جانا۔ گویا اس شخص تک پہنچتے پہنچتے سلسلۂ نسل ونسب تھک گیا اور آگے نہ چل سکا۔ 4- اس سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں جن کی ماں ایک ہو باپ الگ الگ کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث اس طرح نہیں ہے اور اس کا بیان اسی سورت کے اخیر میں آرہا ہے اور یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے (فتح القدیر) اور دراصل نسل کے لئے مردو زن ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ﴾ کا قانون چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کےلئے اس جگہ اور بہن بھائیوں کے لئے آخری آیت نساء میں ہر دو جگہ یہی قانون ہے البتہ صرف ماں کی اولادمیں چونکہ نسل کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے وہاں ہر ایک کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے۔ بہرحال ایک بھائی یاایک بہن کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ 5- ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ نیز ان میں مذکر اور مونث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔ بلاتفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا، مرد ہو یا عورت۔ ملحوظہ :ماں زاد یعنی اخیافی بھائی بعض احکام میں دوسرے وارثوں سے مختلف ہیں۔(1)- یہ صرف اپنی ماں کی وجہ سے وارث ہوتے ہیں۔(2)- ان کے مرد اور عورت، حصے میں مساوی ہوں گے۔(3)- یہ اس وقت وارث ہوں گے جب کہ میت کلالہ ہو۔ پس باپ دادا بیٹا اور پوتے وغیرہ کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوں گے۔(4)- ان کے مرد وعورت کتنے بھی زیادہ ہوں، ان کا حصہ ثلث (ایک تہائی) سے زیادہ نہیں ہوگا اور جیسا کہ اوپر کہا گیا ان کو اپنے مرنے والے اخیانی بھائی سے جو مال ملے گا اس میں مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوگا یہ نہیں کہ مرد کو عورت سے دوگنا دیا جائے۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اپنے دور خلافت میں یہی فیصلہ کیا تھا اور امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے یہ فیصلہ یقیناً اس وقت ہی کیا ہوگا جب ان کے پاس نبی (ﷺ) کی کوئی حدیث ہوگی۔ (ابن کثیر) 6- میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تیسری مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ ورثے کی تقسیم، وصیت پر عمل کرنے اور فرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے تینوں جگہ وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے دین کا ذکر پہلے ہونا چاہئے تھا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمیت دیتے ہیں، نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی بھی وصول کر لیتے ہیں۔ لیکن وصیت پر عمل کرنے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل یا تغافل سے کام لیتے ہیں اس لئے وصیت کا پہلے ذکر فرما کر اس کی اہمیت واضح کر دی گئی۔ (روح المعانی ) ملحوظہ :اگربیوی کا حق مہر ادا نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی دین (قرض) میں شمار ہوگا اور اس کی ادائیگی بھی وراثت کی تقسیم سے پہلے ضروری ہے۔ نیز عورت کا حصہ شرعی اس مہر کے علاوہ ہوگا۔ 7- بایں طور کہ وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کر دیا جائے یا کسی کا حصہ گھٹا بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے درآں حالیکہ کچھ بھی نہ لیا ہو۔ گویا اضرارکا تعلق وصیت اور دین دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔ نیز ایسی وصیت بھی باطل ہوگی۔ النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 1- یہ بدکار عورتوں کی بدکاری کی وہ سزا ہے جو ابتدائے اسلام میں، جب کہ زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی، عارضی طور پر مقرر کی گئی تھی ہاں یہ بھی یاد رہے کہ عربی زبان میں ایک سے دس تک کی گنتی میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ عدد مذکر ہوگا تو معدود مونث اور عدد مونث ہوگا تو معدود مذکر۔ یہاں اربعہ (یعنی 4 کا عدد) مونث ہے، اس لئے اس کا معدود جو یہاں ذکر نہیں کیا گیا اور محذوف ہے، یقیناً مذکر آئے گا اور وہ ہے رجال یعنی اربعہ رجال جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اثبات زنا کے لئے چار مرد گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ گویا جس طرح زنا کی سزا سخت مقرر کی گئی ہے، اس کے اثبات کے گواہوں کی کڑی شرط عائد کر دی گئی ہے یعنی چار مسلمان مرد عینی گواہ، اس کے بغیر شرعی سزا کا اثبات ممکن نہیں ہوگا۔ 2- اس راستے سے مراد زنا کی وہ سزا ہے جو بعد میں مقرر کی گئی یعنی شادی شدہ زنا کار مرد وعورت کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ بدکار مرد وعورت کے لئے سو سو کوڑے کی سزا۔ (جس کی تفصیل سورۂ نور اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے) النسآء
16 1- بعض نے اس سے اغلام بازی مراد لی ہے یعنی عمل لواطت۔ دو مردوں کا ہی آپس میں بدفعلی کرنا اور بعض نے اس سے باکرہ مرد وعورت مراد لئے ہیں اور اس سے قبل کی آیت کو انہوں نے محصنات یعنی شادی شدہ کے ساتھ خاص کیا ہے اور بعض نے اس تثنیہ کے صیغے سے مرد اور عورت مراد لئے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ باکرہ ہوں یا شادی شدہ۔ ابن جریر طبری نے دوسرے مفہوم یعنی باکرہ (مرد وعورت) کو ترجیح دی ہے۔ اور پہلی آیت میں بیان کردہ سزا کو نبی (ﷺ) کی بتلائی ہوئی سزا سزائے رجم سے اور اس آیت میں بیان کردہ سزا کو سورہ نور میں بیان کردہ سو کوڑے کی سزا سے منسوخ قرار دیا ہے۔ (تفسیر طبری) 2- یعنی زبان سے زجرو توبیخ اور ملامت یا ہاتھ سے کچھ زدو کوب کر لینا۔ اب یہ منسوخ ہے، جیسا کہ گزرا۔ النسآء
17 النسآء
18 1- اس سے واضح ہے کہ موت کے وقت کی گئی توبہ غیر مقبول ہے، جس طرح کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ ضروری تفصیل آل عمران کی آیت 90 میں گزر چکی ہے۔ النسآء
19 1- اسلام سے قبل عورت پر ایک یہ ظلم بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مرجانے پر اس کے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس کی عورت کےبھی زبردستی وارث بن بیٹھتے تھے اور خود اپنی مرضی سے، اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے نکاح کر لیتے یا اپنے بھائی، بھتیجے سے اس کا نکاح کر دیتے، حتی کہ سوتیلابیٹا تک بھی مرنے والے باپ کی عورت سے نکاح کر لیتا یا اگر چاہتے تو اسے کسی بھی جگہ نکاح کرنے کی اجازت نہ دیتے اور وہ ساری عمر یوں ہی گزارنے پر مجبور ہوتی۔ اسلام نے ظلم کے اس تمام طریقوں سے منع فرما دیا۔ 2- ایک ظلم یہ بھی عورت پر کیا جاتا تھا کہ اگر خاوند کو وہ پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تو ازخود اس کو طلاق نہ دیتا (جس طرح ایسی صورت میں اسلام نے طلاق کی اجازت دی ہے) بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہو کر حق مہر یا جو کچھ خاوند نے اسے دیا ہوتا، از خود واپس کرکے اس سے خلاصی حاصل کرنے کو ترجیح دے اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا ہے۔ 3- کھلی برائی سے مراد بدکاری یا بدزبانی اور نافرمانی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں البتہ یہ اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے کہ وہ اس کا دیا ہوا مال یا حق مہر واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہو جائے جیسا کہ خلع کی صورت میں خاوند کو حق مہر واپس لینے کا حق دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت نمبر 229) 4- یہ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے جس کی قرآن نے بڑی تاکید کی ہے اور احادیث میں بھی نبی (ﷺ) نے اس کی بڑی وضاحت اور تاکید کی ہے ایک حدیث میں آیت کے اس مفہوم کو یوں بیان کیا گیا ہے [ لا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ سَخِطَ مِنْهَا خُلُقًا، رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ ]، (صحیح مسلم، کتاب الرضاع) ”مومن مرد (شوہر) مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو اس کی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہو گی“، مطلب یہ ہے کہ بے حیائی اور نشوز وعصیان کے علاوہ اگر بیوی میں کچھ اور کوتاہیاں ہوں جن کی وجہ سے خاوند اسے ناپسند کرتا ہو تو اسے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق نہ دے بلکہ صبر اور برداشت سے کام لے، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں سے اس کے لئے خیر کثیر پیدا فرما دے۔ یعنی نیک اولاد دے دے یا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے کاروبار میں برکت ڈال دے،وغیرہ وغیرہ۔ افسوس ہے کہ مسلمان قرآن وحدیث کی ان ہدایات کے برعکس ذرا ذرا سی باتوں میں اپنی بیویوں کو طلاق دے ڈالتے ہیں اور اس طرح اسلام کے عطا کردہ حق طلاق کو نہایت ظالمانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حق تو انتہائی ناگزیر حالات میں استعمال کے لئے دیا گیا تھا، نہ کہ گھر اجاڑنے، عورتوں پر ظلم کرنے اور بچوں کی زندگیاں خراب کرنے کے لئے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ اسلام کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دے کر عورت پر ظلم کرنے کا اختیار اسے دے دیا۔ یوں اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو خرابی اور ظلم باور کرایا جاتا ہے۔ النسآء
20 1- خود طلاق دینے کی صورت میں حق مہر واپس لینے سے نہایت سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہے۔ قنطار خزانے اور مال کثیر کو کہتے ہیں یعنی کتنابھی حق مہر دیا ہو واپس نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا کرو گے تو یہ ظلم (بہتان) اور کھلا گناہ ہوگا۔ النسآء
21 1- ”ایک دوسرے سے مل چکے ہو“ کا مطلب ہم بستری ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کنایتہً بیان فرمایا ہے۔ 2- ”مضبوط عہد وپیمان“ سے وہ عہد مراد ہے جو نکاح کے وقت مرد سے لیا جاتا ہے کہ تم ”اسے اچھے طریقے سے آباد کرنا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا“۔ النسآء
22 1- زمانۂ جاہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے باپ کی بیوی سے (یعنی سوتیلی ماں سے) نکاح کر لیتے تھے، اس سے روکا جا رہا ہے، کہ یہ بہت ہی بے حیائی کا کام ہے ﴿وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ﴾ کا عموم ایسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیتا ہے جس سے اس کے باپ نے نکاح کیا لیکن دخول سے قبل ہی طلاق دے دی۔ حضرت ابن عباس! سے بھی یہ بات مروی ہے اور علماء اسی کے قائل ہیں۔ (تفسیر طبری) النسآء
23 1- جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، ان کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسب، سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں، رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، ربائب (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکیاں) بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے۔ ان کے علاوہ باپ کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے۔ محرمات نسبی کی تفصیل! أُمَّهَاتٌ (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں۔ بَنَاتٌ (بیٹیاں) میں پوتیاں، نواسیاں اور پوتیوں،نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں۔ زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی، بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ بنت شرعی نہیں ہے۔ پس جس طرح ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ (اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالا جماع وہ وارث نہیں۔ اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر)۔ أَخَوَاتٌ (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی وعلاتی، عَمَّاتٌ (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں خالاتٌ( خالائیں) اس میں ماں کی سب مونث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کی بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی وفرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں، اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ وبلاواسطہ یا صلبی وفرعی شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ: رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی دو سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا تم سے پہلے یا بعد تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یاجس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا، چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائینگے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی ورضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں، اور اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا تایا بن جائیں گے اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہوں گے۔ قسم سوم سسرالی محرمات: بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے) اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو، تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا، البتہ کسی عورت سے نکاح کرکے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) رَبِيبَةٌ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اس کی حرمت مشروط ہے یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام، بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فِي حُجُورِكُمْ (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے، بطور شرط کے نہیں ہے۔ اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حَلِيلَةٌ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) سے فَعِيلَةٌ کے وزن پر بمعنی فَاعِلَةٍ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے۔ بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی ان کی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا۔ اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے مِنْ أَصْلابِكُمْ (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے۔ دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے۔ البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چار بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔ ملحوظة: زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اس کی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کر لے گا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی (دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اول الذکر مسلک کی تائید بعض احادیث سے ہوتی ہے۔ النسآء
24 1- قرآن کریم میں ”إِحْصَانٌ“ چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ (1) شادی (2) آزادی (3) پاک دامنی (4) اور اسلام۔ اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں (1) شادی شدہ عورتیں (2) آزاد عورتیں (3) پاک دامن عورتیں (4) اور مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے۔ اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ صحابہ (رضي الله عنهم) نے نبی (ﷺ) سے پوچھا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں، جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں تو شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ: نزول قرآن کے وقت غلام اور لونڈی کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا، البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس کے دو ذریعے تھے۔ ایک توبعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کر دیئے جاتے تھے۔ یہی خریدے ہوئے مرد وعورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے۔ مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا۔ دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا، کہ کافروں کی قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اوروہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں۔ قیدیوں کے لئے یہ بہترین حل تھا۔ کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یوں ہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہر حاصل مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الاّ یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں۔ اس صورت میں استبرائے رحم کے بعد وہ ان کے لئے حلال ہیں۔ 2- یعنی مذکورہ محرمات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں، اول یہ کہ طلب کرو ”أَنْ تَبْتَغُوا“ یعنی دونوں طرف سے ایجاب وقبول ہو۔ دوسری یہ کہ مال یعنی مہر ادا کرنا قبول کرو، تیسری یہ کہ ان کو شادی کی قید (دائمی قبضے) میں لانا مقصود ہو۔ صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعوں میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکین کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح )۔ چوتھی یہ کہ چھپی یاری دوستی نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو۔ یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں۔ اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کی دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفاً یہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معہود ذہنی ہے۔ 3- یہ اس امرکی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی کے ذریعے سے استمتاع اور تلذذ کرو۔ انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ 4- اس میں آپس کی رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ملحوظة: استمتاع کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی (ﷺ) نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا۔ النسآء
25 1- اس سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں کا مالک ہی لونڈیوں کا ولی ہے، لونڈی کا کسی جگہ نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نکاح نہیں کر سکتا۔ 2- یعنی لونڈیوں کو سو (100) کے بجائے (نصف یعنی) پچاس کوڑوں کی سزادی جائے گی۔ گویا ان کے لئے سزائے رجم نہیں ہے کیونکہ وہ نصف نہیں ہو سکتی اور غیر شادی شدہ لونڈی کی تعزیری سزا ہوگی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) 3- یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت ایسے لوگوں کے لئے ہے جو جوانی کے جذبات پر کنٹرول رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، اگر ایسا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا بہتر ہے جب تک کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کے قابل نہ ہو جائے۔ النسآء
26 النسآء
27 1- أَنْ تَمِيلُوا یعنی حق سے باطل کی طرف جھک جاؤ۔ النسآء
28 1- اس کمزوری کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ممکن آسانیاں اسے فراہم کی ہیں۔ انہیں میں لونڈیوں سے شادی کی اجازت ہے۔ بعض نے اس ضعف کا تعلق عورتوں سے بتلایا ہے یعنی عورت کے بارے میں کمزور ہے، اسی لئے عورتیں بھی باوجود نقصان عقل کے، اس کو آسانی سے اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں۔ النسآء
29 1- بِالْبَاطِلِ میں دھوکہ، فریب، جعل سازی، ملاوٹ کے علاوہ وہ تمام کاروبار بھی شامل ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے،جیسے قمار، ربا، وغیرہ۔ اسی طرح ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے۔ مثلاً بلا ضرورت فوٹو گرافی، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں اور فحش کیسٹیں وغیرہ۔ ان کا بنانا، بیچنا، مرمت کرنا سب ناجائز ہے۔ 2- اس کےلئے بھی شرط یہ ہے کہ یہ لین دین حلال اشیا کا ہو، حرام اشیاء کا کاروبار باہمی رضامندی کے باوجود ناجائز ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں رضامندی میں خیارمجلس کا مسئلہ بھی آجاتا ہے یعنی جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں سودا فسخ کرنے کا اختیار رہے گا جیسا کہ حدیث میں ہے [ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ] (صحيح بخاري- ومسلم كتاب البيوع) دونوں باہم سودا کرنے والوں کو، جب تک جدا نہ ہوں، اختیار ہے۔ 3- اس سے مراد خودکشی بھی ہو سکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکاب معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اس لئے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔ النسآء
30 1- یعنی منہیات کا ارتکاب، جانتے بوجھتے، ظلم وتعدی سے کرے گا۔ النسآء
31 1- کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کےنزدیگ وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو وہ کبیرہ ہے۔ احادیث میں مختلف کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے جنہیں بعض علما نے ایک کتاب میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے الكبائر للذهبي، الزواجر عن اقتراف الكبائر للهيتمي وغیرہ۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، عقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیں گے۔ سورۂ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے، البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کوبھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار ومداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام وفرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے شریعت کے اس مزاج کو سمجھ لیا تھا، اس لئے انہوں نے صرف وعدۂ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا، بلکہ مغفرت ورحمت الٰہی کے یقینی حصول کے لئے مذکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا۔ جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزؤں سے معمور ہیں۔ النسآء
32 1- اس کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) نے عرض کیا کہ مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے۔ اس پر آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 322) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت وطاقت اپنی حکمت وارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لئے اللہ کا خاص عطیہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح، ان کا پورا پورا صلہ انہیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سےاس کے فضل کا سوال کرنا چاہئے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کار کا جو فرق ہے، وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کے فضل سے کسب ومحنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ النسآء
33 1- مَوَالِي، مَوْلى کے جمع ہے۔ مولیٰ کے معنی ہیں دوست، آزاد کردہ غلام، چچا زاد، پڑوسی۔ لیکن یہاں اس سے مراد ورثا ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد عورت جو کچھ چھوڑ جائیں گے، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہوں گے۔ 2- اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ (محکم) مانتے ہیں اور أَيْمَانُكُمْ (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہو اور اسلام کے بعد بھی چلا آرہا تھا۔ نَصِيبَهُمْ (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاون وتناصر کا حصہ ہے اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے کیونکہ ایمانکم سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر، انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے، وارث ہوتا تھا لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا، اس لئے پھر ﴿وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ﴾ ( الانفال: 75 ) رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں نازل فرماکر اسے منسوخ کر دیا گیا۔ اب ﴿فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُم﴾ سے مراد دوستی ومحبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہوگا۔ اہل علم کے ایک گروہ نے اس سے مراد ایسے دو شخصوں کو لیا جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مولی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مذکورہ شخص لے گا۔ بشرطیکہ واقعتاً اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد بیوی اور شوہر ہیں اور اس کا عطف الأَقْرَبُونَ پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ماں باپ نے، قرابت داروں نے اور جن کو تمہارا عہد وپیان آپس میں باندھ چکا ہے (یعنی شوہر یا بیوی) انہوں نے جو کچھ چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کر دیئے ہیں۔ لہٰذا ان حقداروں کو ان کے حصے دو گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلاً جو حصے بیان کئے گئے تھے یہاں اجمالاً ان کی ادائیگی کی تاکید مزید کی گئی ہے۔ النسآء
34 1- اس میں مرد کی حاکمیت وقوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک وہبی ہے جو مردانہ قوت ودماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے، جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت وحیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا ہے، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بالکل واضح ہے،جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث میں ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے ”وہ قوم ہر گز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیئے“۔ (صحيح البخاري- كتاب المغازي- باب كتاب النبي إلى كسرى وقيصر وكتاب الفتن باب 18) 2- نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ ونصیحت کا نمبر ہے، دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھ دار عورت کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی ہے۔ اگر وہ اصلاح کر لے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بالکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارۂ کار باقی نہ رہے، لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔ النسآء
35 1- گھر کے اندر مذکورہ تینوں طریقے کار گر ثابت نہ ہوں تو یہ چوتھا طریقہ ہے اور اس کی بابت کہا کہ حکمین (فیصلہ کرنے والے) اگر مخلص ہوں گے تو یقیناً ان کی سعی اصلاح کامیاب ہوگی۔ تاہم ناکامی کی صورت میں حکمین کو تفریق بین الزوجین یعنی طلاق کا اختیار ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کو حاکم مجاز کے حکم یا زوجین کے توکیل بالفرقہ (جدائی کے لئے وکیل بنانا) کے ساتھ مشروط کرتے ہیں اور جمہور علماء اس کے بغیر اس اختیار کے قائل ہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفیسر طبری، فتح القدیر تفسیر ابن کثیر) النسآء
36 1- الْجَارِ الْجُنُبِ قرابت دار پڑوسی کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن سلوک کیا جائے، وہ رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار جس طرح کہ احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید بیان کی گئی ہے۔ 2- اس سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت وہم نشینی اختیار کرے۔ بلکہ اس کی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم، تعلم صناعت (کوئی کام سیکھنے) کے لئے یا کسی کاروباری سلسلے میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے۔ (فتح القدیر) 3- اس میں گھر، دوکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید احادیث میں آئی ہے۔ 4- فخر وغرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔“ (صحیح مسلم کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث نمبر 19) یہاں کبر کی بطور خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس پر عمل وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل کبر سے خالی ہوگا۔ متکبر اور مغرورشخص صحیح معنوں میں نہ حق عبادت ادا کر سکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام۔ النسآء
37 النسآء
38 1- بخل (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا) یا خرچ تو کرنا لیکن ریاکاری یعنی نمود ونمائش کے لئے کرنا۔ یہ دونوں باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں اور ان کی مذمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ یہاں قرآن کریم میں ان دونوں باتوں کو کافروں کا شیوہ اور ان لوگوں کا وطیرہ بتایا گیا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور شیطان ان کا ساتھی ہے۔ النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 1- ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یااللہ ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور ؟ پھر ان سب پر نبی کریم (ﷺ) گواہی دیں گے کہ یا اللہ! یہ سچے ہیں۔ آپ (ﷺ) یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ (ﷺ) پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کر دینے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (ﷺ) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی، وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”بس، اب کافی ہے“۔ حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا تو آپ (ﷺ) کی دونوں آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔ (صحيح بخاري، فضائل القرآن) بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ شہید (گواہ) کے معنی حاضر ناظر کے کرتے ہیں اور یوں نبی (ﷺ) کو حاضر ناظر باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی (ﷺ) کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ (ﷺ) کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے جو شرک ہے کیونکہ حاضر وناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق وواقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہو سکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے ﴿شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لئے حاضر وناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر وناظر ماننا پڑے گا۔ بہرحال نبی (ﷺ) کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ النسآء
42 النسآء
43 1- یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورۃ النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو، گویا اس وقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروط ہے ) 2- یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت ضروری ہے۔ 3- اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافری کی حالت میں اگر پانی نہ ملے تو جنابت کی حالت میں نماز پڑھ لو (جیسا کہ بعض نے کہا ہے) بلکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں تم مسجد کے اندر مت بیٹھو، البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی ضرورت پڑےتو گزر سکتے ہو بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انہیں ہر صورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی ہے۔ (ابن کثیر) ورنہ مسافر کا حکم آگے آرہا ہے۔ 4- (أ) بیمار سے مراد، وہ بیمار ہے جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو۔ (ب) مسافر عام ہے، لمبا سفر کیا ہو یا مختصر۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت تو مقیم کو بھی حاصل ہے، لیکن بیمار اور مسافر کو چونکہ اس قسم کی ضرورت عام طور پر پیش آتی تھی اس لئے بطور خاص اس کے لئےاجازت بیان کر دی گئی ہے۔ (ج) قضائے حاجت سے آنے والا۔ (د) اور بیوی سے مباشرت کرنے والا، ان کو بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیرلے۔ (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے قَالَ فِي التَّيَمُّمِ: ”ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ“ (مسند أحمد- عماررضی اللہ عنہ جلد 4 صفحہ 263) نبی (ﷺ) نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لئے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے۔ ﴿صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ سے مراد ”پاک مٹی“ ہے۔ زمین سے نکلنے والی ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے۔ [ جُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ ]، (صحيح مسلم- كتاب المساجد) ”جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لئے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے“۔ النسآء
44 النسآء
45 النسآء
46 1- یہودیوں کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہم نے سنا کے ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے یعنی اطاعت نہیں کریں گے۔ یہ دل میں کہتے یا اپنے ساتھیوں سے کہتے یا شوخ چشمانہ جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے منہ پر کہتے۔ اسی طرح ”غَيْرَ مُسْمَعٍ“ (تیری بات نہ سنی جائے) یہ بددعا کے طور پر کہتے یعنی تیری بات مقبول نہ ہو۔ ”رَاعِنَا“ کی بابت دیکھئے سورۃ البقرۃ آیت 104 کا حاشیہ۔ 2- یعنی ایمان لانے والے بہت ہی قلیل ہیں پہلے گزر چکا ہے کہ یہود میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ یا یہ معنی ہیں کہ بہت ہی کم باتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جب کہ ایمان نافع یہ ہے کہ سب باتوں پر ایمان لایا جائے۔ النسآء
47 1- یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے کرتوتوں کی پاداش میں یہ سزا دے سکتا ہے۔ 2- یہ قصہ سورۂ اعراف میں آئے گا، کچھ اشارہ پہلے بھی گزر چکا ہے یعنی تم بھی ان کی طرح ملعون قرار پا سکتے ہو۔ 3- یعنی جب وہ کسی بات کا حکم کر دے تو نہ کوئی اس کی مخالفت کر سکتا ہے اور نہ اسے روک ہی سکتا ہے۔ النسآء
48 1- یعنی ایسے گناہ جن سے مومن توبہ کئے بغیر ہی مر جائیں، اللہ تعالیٰ اگر کسی کے لئے چاہے گا، تو بغیر کسی قسم کی سزا دیئے معاف فرما دے گا اور بہت سوں کو سزا کے بعد اور بہت سوں کو نبی (ﷺ) کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔ لیکن شرک کسی صورت میں معاف نہیں ہوگا کیونکہ مشرک پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے۔ 2- دوسرے مقام پر فرمایا ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (سورۃ لقمان) شرک ظلم عظیم ہے حدیث میں اسے سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ”أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ الشِّرْكُ بِاللهِ“۔ النسآء
49 1- یہود اپنے منہ میاں مٹھو بنتے تھے مثلاً ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں وغیرہ، اللہ نے فرمایا تزکیہ کا اختیار بھی اللہ کو ہے اور اس کا علم بھی اسی کو ہے۔ فتیل کھجور کی گٹھلی کے کٹاو پرجو دھاگے یا سوت کی طرح نکلتا یا دکھائی دیتا ہے اس کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اتنا سا ظلم بھی نہیں کیاجائے گا۔ النسآء
50 1- یعنی مذکورہ دعوائے تزکیہ کرکے۔ 2- یعنی ان کی یہ حرکت اپنی پاکیزگی کا ادعا ان کے کذب وافترا کے لئے کافی ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت اور اس کی شان نزول کی روایات سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کی مدح وتوصیف بالخصوص تزکیہ نفوس کا دعویٰ کرنا صحیح اور جائز نہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم کے دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا گیا۔ ﴿فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى﴾ (النجم: 32) ”اپنے نفسوں کی پاکیزگی اور ستائش مت کرو، اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تم میں متقی کون ہے؟“ حدیث میں ہے حضرت مقداد (رضي الله عنه) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پرمٹی ڈال دیں [ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ ] ( صحیح مسلم، کتاب الزھد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک آدمی کو ایک دوسرے آدمی کی تعریف کرتے سنا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: [ وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ ] ”افسوس ہے تچھ پر تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی“ پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو کسی کا لامحالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے ”أَحْسِبُهُ کذا“ میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں، اللہ پر کسی کا تزکیہ بیان نہ کرے (صحيح بخاري كتاب الشهادات والأدب- مسلم كتاب الزهد) النسآء
51 1- اس آیت میں یہودیوں کے ایک اور فعل پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود ”جِبْت“ (بت، کاہن یا ساحر) اور ”طَاغُوتٌ“ (جھوٹےمعبودوں) پر ایمان رکھتے اور کفار مکہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں ”جِبْت“ کے یہ سارے مذکورہ معنی کئے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے [ إِنَّ الْعِيَافَةَ وَالطَّرْقَ وَالطِّيَرَةَ مِنَ الْجِبْتِ ] (سنن أبي داود كتاب الطب) ”پرندے اڑا کر، خط کھینچ کر، بدخالی اوربدشگونی لینا یہ جبت سے ہیں۔“ یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں اور یہود میں بھی یہ چیزیں عام تھی طاغوت کے ایک معنی شیطان بھی کئے گئے ہیں۔ دراصل معبود ان باطل کی پرستش، شیطان ہی کی پیروی ہے۔ اس لئے شیطان بھی یقیناً طاغوت میں شامل ہے۔ النسآء
52 النسآء
53 1- یہ استفہام انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تویہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد (ﷺ) کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہو جاتا۔ ”نَقِيرٌ“ اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) النسآء
54 1- ”أم“ (یا) ”بل“ کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے یعنی بلکہ یہ اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کردوسروں میں نبی (یعنی آخری نبی) کیوں بنایا؟ نبوت اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے۔ النسآء
55 1- یعنی بنو اسرائیل کو، جو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی ذریت اور آل میں سے ہیں، ہم نے نبوت بھی دی اور بڑی سلطنت وبادشاہی بھی۔ پھر بھی یہود کے یہ سارے لوگ ان پر ایمان نہیں لائے۔ کچھ ایمان لائے اور کچھ نے اعراض کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اے محمد! (ﷺ) اگر یہ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ان کی تو تاریخ ہی نبیوں کی تکذیب سے بھری ہوئی ہے حتیٰ کہ اپنی نسل کے نبیوں پر بھی یہ ایمان نہیں لائے۔ بعض نے ”آمَنَ بِهِ“ میں ”ھا“ کا مرجع نبی (ﷺ) کو بتلایا ہے یعنی ان یہود میں سے کچھ نبی (ﷺ) پر ایمان لائے اور کچھ نے انکارکیا۔ ان منکرین نبوت کا انجام جہنم ہے۔ النسآء
56 1- یعنی جہنم میں اہل کتاب کے منکرین ہی نہیں جائیں گے، بلکہ دیگر تمام کفار کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہے۔ 2- یہ جہنم کے عذاب کی سختی، تسلسل اور دوام کا بیان ہے۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) سے منقول بعض آثار میں بتلایا گیا ہے۔ کھالوں کی یہ تبدیلی دن میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ عمل میں آئے گی اور مسند احمد کی روایت کی رو سے جہنمی جہنم میں اتنے فربہ ہو جائیں گے کہ ان کے کانوں کی لو سے پیچھے گردن تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہوگا، ان کی کھال کی موٹائی ستر بالشت اور داڑھ احد پہاڑ جتنی ہوگی۔ النسآء
57 1- کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے لئے جو ابدی نعمتیں ہیں، ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ اہل ایمان جو اعمال صالحہ کی دولت سے مالا مال ہوں گے، جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ اعمال صالح کا ذکر کرکے واضح کر دیا کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایمان، عمل صالح کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے پھول ہو مگر خوشبو کے بغیر، درخت ہولیکن بے ثمر۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے دوسرے مسلمانوں نے اس نکتے کو سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ ان کی زندگیاں ایمان کے پھل، اعمال صالحہ سے مالا مال تھیں۔ اس دور میں بے عمل یا بدعملی کے ساتھ ایمان کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس کے برعکس آج ایمان صرف زبانی جمع خرچ کا نام رہ گیا ہے۔ اعمال صالحہ سے دعوے داران ایمان کا دامن خالی ہے۔ هَدَانَا اللهُ تَعَالَى، اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے عمل کرتا ہے جو اعمال صالحہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ مثلا راست بازی، امانت ودیانت، ہمدردی وغم گساری اور دیگر اخلاقی خوبیاں۔ لیکن ایمان کی دولت سے یہ محروم ہے تو اس کے یہ اعمال، دنیا میں تو اس کی شہرت ونیک نامی کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اللہ کی بارگاہ میں ان کی کوئی قدروقیمت نہ ہوگی اس لئے کہ ان کا سر چشمہ ایمان نہیں ہے جو اچھے اعمال کو عنداللہ بار آور بناتا ہے بلکہ صرف اور صرف دنیوی مفادات یا قومی اخلاق وعادات ان کی بنیاد ہے۔ 2- گھنی، گہری، عمدہ اور پاکیزہ چھاؤں جس کو ترجمہ میں پوری راحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے جنت میں ایک درخت ہے جس کا سایہ اتنا ہے کہ ایک سوار سو سال میں بھی اسے طے نہیں کر سکے گا یہ شجرۃ الخلد ہے۔ (مسند أحمد،جلد 2 ص 455، وأصله في البخاري، كتاب بدء الخلق باب نمبر 8 ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة) النسآء
58 1- اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان وکلید بردار چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے۔ مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ (ﷺ) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف وغیرہ کے بعد آپ (ﷺ) نے حضرت عثمان بن طلحہ (رضي الله عنه) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو چکے تھے، طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے (ابن كثير) آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ یہ بحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی ووطنی بنیاد یا قرابت وخاندان کی بنیاد یا کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر عہدہ ومنصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔ 2- اس میں حکام کو بطور خاص عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ”حاکم جب تک ظلم نہ کرے، اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے“۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام) 3- یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل وانصاف مہیا کرنا۔ النسآء
59 1- ”اولو الامر“ (اپنے میں سے اختیار والے) سے مراد بعض کے نزدیک امرا وحکام اور بعض کے نزدیک علماء وفقہاء ہیں مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ ﴿أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ﴾ ( الاعراف: 54) خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے، حکم بھی اسی کا ہے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ﴾ (يوسف: 40) حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ لیکن چونکہ رسول (ﷺ) منشاء الٰہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول (ﷺ) کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول (ﷺ) کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ (النساء: 80) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امراء وحکام کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امرا وحکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ ورسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لئے ”أَطِيعُوا اللهَ“ کے بعد ”أَطِيعُوا الرَّسُولَ“ تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن ”أَطِيعُوا أُولِي الأَمْر“ ِنہیں کہا کیونکہ أُولِي الأَمْرِکی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے [ لا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الْخَالِقِ ] (وقال الألباني حديث صحيح- مشكاة نمبر 3696، في لفظ لمسلم: [ لا طاعة في معصية اللهكتاب الإمارة باب وجوب طاعة الأمر في غير معصية حديث نمبر 1840، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ) (صحيح بخاري كتاب الأحكام باب نمبر 4) [ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً ] معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔ یہی حال علماء وفقہاء کا بھی ہے۔ (اگر اولو الامر میں ان کو بھی شامل کر لیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لئے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام وفرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد وہدایت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء وفقہاء بھی دینی امور ومعاملات میں حکام کی طرح یقیناً مرجعِ عوام ہیں۔ لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لئے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔ 2- اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد، قرآن کریم اور الرسول (ﷺ) سے مراد اب حدیث رسول ہے۔ یہ تنازعات کے ختم کرنے کے لئے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے۔ اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے، جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے، مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور اس کے اتحاد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ النسآء
60 النسآء
61 1- یہ آیات ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو اپنا فیصلہ عدالت میں لے جانے کے بجائے سردارانِ یہود یا سردارانِ قریش کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ تاہم ان کا حکم عام ہے اور اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو کتاب وسنت سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لئے ان دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا حال تو یہ ہوتا ہے ﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾۔(النور: 51) کہ جب انہیں اللہ ورسول (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ ”سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ یہی لوگ کامیاب ہیں۔ النسآء
62 1- یعنی جب اپنے اس کرتوت کی وجہ سے عتاب الٰہی کا شکار ہو کر مصیبتوں میں پھنستے ہیں تو پھر آکر کہتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد یہ نہیں تھا کہ وہاں سے ہم فیصلہ کروائیں یا آپ (ﷺ) سے زیادہ ہمیں وہاں انصاف ملے گا بلکہ مقصد صلح اور ملاپ کرانا تھا۔ النسآء
63 1- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم ان کے دلوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہیں (جس پر ہم انہیں جزا دیں گے) لیکن اے پیغمبر! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے درگزر ہی فرمائیے اور وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے اندر کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیئے ! جس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کی سازش کو عفو ودرگزر، وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے ہی ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہیئے۔ النسآء
64 1- مغفرت کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہی توبہ واستغفار ضروری اور کافی ہے۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتا۔ یہ اس لئے کہ چونکہ انہوں نے فعل خصومات (جھگڑوں کے فیصلے) کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ (ﷺ) کا استخفاف کیا تھا۔ اسلئے اس کے ازالے کے لئے آپ (ﷺ) کے پاس آنے کی تاکید کی۔ النسآء
65 1- اس آیت کی شان نزول میں ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جوبارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر (رضي الله عنه) سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی ہے۔ صحیح واقعہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر (رضی اللہ عنہ) کا جو رسول اللہ (ﷺ) کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی (ﷺ) تک پہنچا آپ (ﷺ) نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر (رضي الله عنه) کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ (ﷺ) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ (ﷺ) کا پھوپھی زاد ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحيح بخاري تفسير سورة النساء) آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (ﷺ) کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا، دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت بھی منکرین حدیث کے لئے تو ہے ہی، دیگر افراد کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو قول امام کے مقابلے میں حدیثِ صحیح سے انقباض ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ یا تو کھلے لفظوں میں اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یا اس کی دور ازکار تاویل کرکے یا ثقہ راویوں کو ضعیف باور کرا کے مسترد کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔ النسآء
66 1- آیت میں انہی نافرمان قسم کے لوگوں کی جبلت رویہ کی طرف اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرویا اپنے گھرں سے نکل جاؤ تو، جب یہ آسان باتوں پر عمل نہیں کر سکے تو اس پرعمل کس طرح کر سکتے تھے؟ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق ان کی بابت فرمایا ہے جو یقیناً واقعات کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخت حکموں پر عمل تو یقیناً مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ بہت شفیق اور مہربان ہے، اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لئے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جن کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لئے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہو۔ کیونکہ ایمان اطاعت سے زیادہ اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔ نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا اور بدی سے بدی متولد ہوتی ہے۔ یعنی اسکا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 1- اللہ ورسول کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے اس لئے حدیث میں آتا ہے [ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ] (صحيح بخاري كتاب الآداب باب نمبر 97، علامة حب الله عز وجل مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب المرء مع من أحب حديث نمبر 1640) آدمی انہی کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی، حضرت انس (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ صحابہ (رضي الله عنهم) کو جتنی خوشی اس فرمان رسول کو سن کر ہوئی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ (ﷺ) کی رفاقت پسند کرتے تھے۔ اس کی شان نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے نبی (ﷺ) سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ (ﷺ) کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور ہمیں اس سے فرو تر مقام ہی ملے گا اور یوں ہم آپ (ﷺ) کی اس صحبت ورفاقت اور دیدار سے محروم رہیں گے جو ہمیں دنیا میں حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر ان کی تسلی کا سامان فرمایا۔ (ابن کثیر) بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے بطور خاص نبی (ﷺ) سے جنّت میں رفاقت کی درخواست کی [ أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ ] جس پر نبی (ﷺ) نے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی [ فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ ] (صحيح مسلم كتاب الصلاة باب فضل السجود والحث عليه حديث نمبر488) پس تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے [ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ ] (ترمذي- كتاب البيوع باب ما جاء في التجار وتسمية النبي (ﷺ) إياهم) راستباز، امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا، ”صدیقیت“ کمال ایمان وکمال اطاعت کا نام ہے، نبوّت کے بعد اس کا مقام ہے، امت محمدیہ میں اس مقام میں حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) سب سے ممتاز ہیں۔ اور اسی لئے بالاتفاق غیر انبیاء میں وہ نبی (ﷺ) کے بعد افضل ہیں، ”صالح“ وہ ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کامل طور پر ادا کرے اور ان میں کوتاہی نہ کرے۔ النسآء
70 النسآء
71 1- حِذْرَكُمْ (اپنا بچاؤ اختیار کرو) اسلحہ اور سامان جنگ اور دیگر ذرائع سے۔ النسآء
72 1- یہ منافقین کا ذکر ہے۔ پس وپیش کا مطلب، جہاد میں جانے سے گریز کرتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں۔ النسآء
73 1- یعنی جنگ میں فتح وغلبہ اور غنیمت۔ 2- یعنی گویا وہ تمہارے اہل دین میں سے ہی نہیں بلکہ اجنبی ہیں۔ 3- یعنی مال غنیمت سے حصہ حاصل کرتا جو اہل دنیا کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔ النسآء
74 1- شَرَى يَشْرِي کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے ”فَلْيُقَاتِلْ“ کا فاعل الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ بنے گا لیکن اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الَّذِينَ مفعول بنے گا اور فَلْيُقَاتِلْ کا فاعل الْمُؤْمِنُ النَّافِرُ (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کو تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کر دیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہوں گے۔ (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے ) النسآء
75 1- ظالموں کی بستی سے مراد (نزول کے اعتبار سے) مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے، کافروں کے ظلم وستم سے تنگ آکراللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم ان مستضعفین کو کفار سے نجات دلانے کے لئے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمان اس طرح ظلم وستم کا شکار اورنرغۂ کفار میں گھرے ہوئے ہوں تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کو کافروں کے ظلم وستم سے بچانے کے لئے جہاد کریں۔ یہ جہاد کی دوسری قسم ہے۔ پہلی قسم ہے إعلاءِ كَلِمَةِ الله یعنی دین کی نشر واشاعت اور كَلِمَةِ الله کے غلبے کے لئے لڑنا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں اور مابعد کی آیت میں ہے۔ النسآء
76 1- مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔ 2- مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فراوانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ چیلے نہیں ٹھہر سکتے۔ النسآء
77 1- مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو ودرگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز زکواۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خواہش کے مطابق ہے۔ آیت قران میں تحریف آیت کا پہلا حصہ جس میں ”كَفِّ أَيْدِي“ (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کی حالت میں ہاتھوں کو روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط اور واہیات استدلال ہے۔ اس کے لئے ان صاحب نے آیت کے الفاظ میں بھی تحریف کی اور معنی میں بھی۔ یعنی لفظی اور معنوی دونوں قسم کے تحریف سے کام لیا ہے۔ 2- اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے موخر کیوں نہ کر دیا یعنی ”أَجَلٍ قَرِيبٍ“ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے۔ (تفسير ابن كثير) النسآء
78 1- ایسے کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا فانی اور اس کا فائدہ عارضی ہے جس کے لئے تم کچھ مہلت طلب کر رہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الٰہی کے صلے میں تم سزا وار ہوگے۔ دوسرے یہ کہ جہاد کرو یا نہ کرو، موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ؟ مضبوط برجوں سے مراد مضبوط اور بلند وبالا فصیلوں والے قلعے ہیں۔ ملحوظة: یعنی مسلمانوں کا چونکہ یہ خوف بھی طبعی تھا۔ اسی طرح تاخیر کی خواہش بھی بطور اعتراض یا انکار نہ تھی، بلکہ طبعی خوف کا ایک منطقی نتیجہ تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا اور نہایت مضبوط دلائل سے انہیں سہارا اور حوصلہ دیا۔ 2- یہاں سے پھر منافقین کی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سابقہ امت کے منکرین کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ بھلائی (خوشحالی، غلے کی پیداوار، مال واولاد کی فراوانی وغیرہ) اللہ کی طرف سے ہے اور برائی (قحط سالی، مال ودولت میں کمی وغیرہ) اے محمد! (ﷺ) تیری طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کے نتیجے میں یہ ابتلا آئی۔ جس طرح حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جب ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے (یعنی ہم اس کے مستحق ہیں) اور جب ان کو کوئی برائی پہنچتی ہے تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور ان کے پیروکاروں سے بدشگونی پکڑتے ہیں، (یعنی نعوذ باللہ ان کی نحوست کا نتیجہ بتلاتے ہیں) (الاعراف: 131) 3- یعنی بھلائی اور برائی دونوں اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہ لوگ قلت فہم وعلم اور کثرت جہل وظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔ النسآء
79 1- یعنی اس کے فضل وکرم سے ہے یعنی کسی نیکی یا اطاعت کا صلہ نہیں ہے۔ کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نعمتیں اتنی بے پایاں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت وطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ اسی لئے ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: جنت میں جو بھی جائے گا، محض اللہ کی رحمت سے جائے گا (اپنے عمل کی وجہ سے نہیں)، صحابہ (رضي الله عنهم) نے عرض کیا یا رسول اللہ! وَلا أنت؟َ آپ (ﷺ) بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ہاں جب تک اللہ مجھے بھی اپنے دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا۔ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل۔18) 2- یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ ﴿كُلّ مِّنۡ عِندِ ٱللَّهِ﴾ سے واضح ہے لیکن یہ برائی کسی گناہ کی عقوبت یا اس کا بدلہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح فرمایا ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ﴾ (الشورى: 30 ) ”تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے“ النسآء
80 النسآء
81 1- یعنی یہ منافقین آپ (ﷺ) کی مجلس میں جو باتیں ظاہر کرتے ہیں۔ راتوں کو ان کے برعکس باتیں کرتے اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ آپ (ﷺ) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر توکل کریں، ان کی باتیں اور سازشیں آپ (ﷺ) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کیونکہ آپ کا وکیل اور کارساز اللہ ہے۔ النسآء
82 1- قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور وتدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا (جیسا کہ کفار کا خیال ہے) تو اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض وتناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصّل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز وبلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت وبلاغت قائم نہیں رہتی۔ دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علاّم الغیوب کے سوا کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ تیسرے ان حکایات وقصص میں نہ باہمی تعارض وتضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض وتضاد واقع ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبرّا ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقیناً کلام الٰہی ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (ﷺ) پر نازل فرمایا ہے۔ النسآء
83 1- یہ بعض کمزور اورجلد باز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت وشکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل وہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے)، اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول (ﷺ) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم وتحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بے خبر رہنا نفع ہے؟ یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم اور نہایت مفید ہے لیکن عین حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت وافادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ”اسْتِنْبَاطٌ“ کا مادہ نَبْطٌ ہے نَبْطٌ اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے اسی لئے اسْتِنْبَاطٌ تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر ) النسآء
84 النسآء
85 النسآء
86 1- تَحِيَّةٌ اصل میں تَحْيِيَةٌ (تَفْعِيلَةٌ) ہے۔ یا کے یا میں ادغام کے بعد تَحِيَّةٌ ہوگیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدُّعَاءُ بِالْحَيَاةِ) یہاں یہ سلام کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السّلام علیکم کے جواب میں ورحمتہ اللہ کا اضافہ اور السّلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کر دیا جائے۔ لیکن اگر کوئی السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے۔ (ابن کثیر) ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السّلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اس کے ساتھ ورحمۃ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند أحمد جلد 4، ص 439، 440)، یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمّہ یعنی یہود ونصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرا، اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف وعلیکم کے ساتھ جواب دیا جائے۔ (صحيح بخاري، كتاب الاستيذان- مسلم، كتاب السلام) النسآء
87 النسآء
88 1- یہ استفہام انکار کے لئے ہے، یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ (صحیح بخاری سورۃ النساء، صحیح مسلم) کتاب المنافقین جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے۔ دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ 2- ”كَسَبُوا“ (اعمال) سے مراد، رسول کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے ”أَرْكَسَهُمْ“ اوندھا کر دیا۔ یعنی جس کفر وضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلاکر دیا، یا اس کے سبب ہلاک کر دیا۔ 3- جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر وعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کر سکتا۔ النسآء
89 1- ہجرت (ترک وطن) اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان بن گئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔ 2- یعنی جب تمہیں ان پر قدرت وطاقت حاصل ہو جائے۔ 3- حِل ہو یا حَرم۔ النسآء
90 1- یعنی جن سے لڑنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس سے دو قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں۔ ایک وہ لوگ، جو ایسی قوم سے ربط وتعلق رکھتے ہیں یعنی ایسی قوم کے فرد ہیں یا اس کی پناہ میں ہیں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے۔ دوسرے وہ جو تمہارے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ ان کے سینے اس بات سے تنگ ہیں کہ وہ اپنی قوم سے مل کر تم سے یا تم سے مل کر اپنی قوم سے جنگ کریں یعنی تمہاری حمایت میں لڑنا پسند کرتے ہیں نہ تمہاری مخالفت میں۔ 2- یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ ان کو لڑائی سے الگ کر دیا ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دل میں بھی اپنی قوم کی حمایت میں لڑنے کا خیال پیدا کر دیتا تو یقیناً وہ بھی تم سےلڑتے۔ اس لئے اگر واقعی لوگ جنگ سے کنارہ کش رہیں تو تم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام مت کرو۔ 3- کنارہ کش رہیں، نہ لڑیں، تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں، سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ تاکید اور وضاحت کے لئے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ تاکہ مسلمان ان کے بارے میں محتاط رہیں کیونکہ جو جنگ وقتال سے پہلے ہی علیحدہ ہیں اور ان کی یہ علیحدگی مسلمانوں کے مفاد میں بھی ہے، اسی لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے بطور امتنان اور احسان کے ذکر کیا ہے، تو ان کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کارویّہ یا غیر محتاط طرز عمل ان کے اندر بھی مخالفت ومخاصمت کا جذبہ بیدار کر سکتا ہے جو مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس لئے جب تک مذکورہ حال پر قائم رہیں، ان سے مت لڑو! اس کی مثال وہ جماعت بھی ہے جس کا تعلق بنی ہاشم سے تھا، یہ جنگ بدر والے دن مشرکین مکہ کے ساتھ میدان جنگ میں تو آئے تھے، لیکن یہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے تھے، جیسے حضرت عباس (رضي الله عنه) عّم رسول وغیرہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اسی لئے ظاہری طور پر کافروں کے کیمپ میں تھے۔ اس لئے نبی (ﷺ) نے حضرت عباس (رضي الله عنه) کو قتل کرنے سے روک دیا اور انہیں صرف قیدی بنانے پر اکتفا کیا۔ ”سِلْمٌ“ یہاں ”مُسَالَمَةُ“ یعنی صلح کے معنی میں ہے۔ النسآء
91 1- یہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہے جو منافقین کا تھا۔ یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں، اپنی قوم کے پاس جاتے تو شرک وبت پرستی کرتے تاکہ وہ انہیں اپنا ہی ہم مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ 2- ”الفِتْنَة“ سے مراد شرک بھی ہو سکتا ہے۔ ”أُرْكِسُوا فِيهَا“ اسی شرک میں لوٹا دیئے جاتے۔ یا ”الْفِتْنَة“ سے مراد قتال ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایا یعنی لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ 3- ”يُلْقُوا“ اور ”يَكُفُّوا“ کا عطف ”يَعْتَزِلُوكُمْ“ پر ہے یعنی سب نفی کے معنی میں ہیں، سب میں ”لم“ لگے گا۔ 4- اس بات پر کہ واقعی ان کے دلوں میں نفاق اور ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بغض وعناد ہے، تب ہی تو وہ بہ ادنیٰ کوشش دوبارہ فتنے (شرک یا تمہارے خلاف آمادۂ قتال ہونے) میں مبتلا ہو گئے۔ النسآء
92 1- یہ نفی، نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے جیسے ﴿وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ﴾ (الأحزاب: 53) ”تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول (ﷺ) کو ایذا پہنچاو“ یعنی حرام ہے۔ 2- غلطی کے اسباب ووجوہ متعدد ہو سکتے ہیں۔ مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہو جائے۔ 3- یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چیزیں ہیں۔ ایک بطور کفّارہ واستغفار ہے۔ یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے ”دِيَةٌ“ (خون بہا )۔ مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت ہے۔ اور دیت کی مقدار احادیث کی رو سے سو اونٹ یا اس کے مساوی قیمت سونے، چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ ملحوظة: خیال رہے کہ قتل عمد میں قصاص یا دیت مغلظہ ہے اور دیتِ مغلظہ کی مقدار سو اونٹ ہے جو عمر اور وصف کے لحاظ سے تین قسم یا تین معیار کے ہوں گے۔ جب کہ قتل خطا میں صرف دیت ہے۔ قصاص نہیں ہے۔ اس دیت کی مقدار سو اونٹ ہے مگر معیار اتنا کڑا نہیں۔ علاوہ ازیں اس دیت کی قیمت سنن ابی داود کی حدیث میں 800 دینار یا 8 ہزار درہم اور ترمذی کی روایت میں بارہ ہزار درہم بتلائی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دور خلافت میں قیمت دیت میں کمی بیشی اور مختلف پیشوں والوں کے اعتبار سے اس کی مختلف نوعیتیں مقرر فرمائی تھیں۔ (ارواء الغلیل جلد: 8) جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دیت (سو اونٹ) کی بنیاد پر اس کی قیمت ہر دور کے اعتبار سے مقرر کی جائے گی۔ (تفصیل کے لئے شروح حدیث وکتب فقہ ملاحظہ ہوں ) 4- معاف کر دینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔ 5- یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وراث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حق دار نہیں۔ بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس مسلمان نےاسلام قبول کرنے کے بعد چونکہ ہجرت نہیں کی، جب کہ ہجرت کی اس وقت بڑی تاکید تھی۔ اس کوتاہی کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے۔ (فتح القدیر ) 6- یہ ایک تیسری صورت ہے، اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے، بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔ 7- یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہوں گے۔ البتہ عذر شرعی کی وجہ سے ناغہ ہونے کی صورت میں نئے سرے سے روزے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو، سفر کے عذرشرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن كثير) النسآء
93 1- یہ قتل عمد کی سزا ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ (1) قتل خطا (جس کا ذکر ماقبل کی آیت میں ہے)۔ (2) قتل شبہ عمد جو حدیث سے ثابت ہے، (3) قتل عمد جس کا مطلب ہے، ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لئے وہ آلہ استعمال کرنا جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جا رہا ہے جیسے تلوار، خنجر وغیرہ۔ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ مثلاً اس کی سزا جہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا، نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا جرم ہے۔ احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ 2- مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علماء مذکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبولِ توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے۔ ﴿إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا﴾ ( الفرقان: 70) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں۔ ہرگناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا توبہ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے۔ یہاں اس کی سزا جہنم جو بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس جرم پر اسے دے سکتا ہے۔ اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود (ہمیشہ جہنم میں رہنے) کا مطلب بھی مُكْثٌ طَوِيلٌ (لمبی مدت) ہے۔ کیونکہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں کے لئے ہی ہے۔ علاوہ ازیں قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے تو جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بھی اس کی تلافی اور ازالہ فرما سکتا ہے اس طرح مقتول کو بھی بدلہ مل جائے گا اور قاتل کی بھی معافی ہو جائے گی۔ (فتح القدیر وابن کثیر ) النسآء
94 1- احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزرے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمانوں کو دیکھ کر چرواہے نے سلام کیا، بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لئے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے، چنانچہ انہوں نے بغیر تحقیق کئے اسے قتل کر ڈالا، اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح بخاري، ترمذي تفسير سورة النساء) بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی اس چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے (صحيح بخاري، كتاب الديات) مطلب یہ تھا کہ اس قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 2- یعنی تمہیں چند بکریاں، اس مقتول سے حاصل ہوگئیں، یہ کچھ بھی نہیں اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر غنیمتیں ہیں جو اللہ ورسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں بھی مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔ النسآء
95 1- جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رضي الله عنه) (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر وثواب حاصل نہیں کر سکیں گے درآں حالیکہ ہمارا گھر میں بیٹھ رہنا بطور شوق، یا جان کی حفاظت کے نہیں ہے بلکہ عذر شرعی کی وجہ سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ ( بغیر عذر کے) کا استثنا نازل فرمایا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ”حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ“ ان کو عذر نے روکا ہوا ہے (صحیح بخاری، کتاب الجہاد ) 2- یعنی جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے۔ یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔ النسآء
96 النسآء
97 1- یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب وجوار میں مسلمان توہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑکر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمان کو دیا جا چکا تھا۔ اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم بتلایا گیا ہے۔ جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات وظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دار الکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ 2- یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب وجوار ہے اور آگے ”ارض اللہ“ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔ النسآء
98 1- یہ ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہجرت سے مستثنیٰ کرنے کا حکم ہے جو اس کے وسائل سے محروم اور راستے سے بھی بے خبر تھے۔ بچے اگرچہ شرعی احکام کے مکلف نہیں ہوتے لیکن یہاں ان کا ذکر ہجرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ بچے تک بھی ہجرت کریں یا پھر یہاں بچوں سے مراد قریب البلوغت بچے ہوں گے۔ النسآء
99 النسآء
100 1- اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے مفارقت اختیار کرنے کی تلقین ہے۔ ”مُرَاغَمًا“ کے معنی جگہ، جائے قیام یا جائے پناہ ہے۔ اور”سَعَةً“ سے رزق یا جگہوں اور ملکوں کی کشادگی وفراخی ہے۔ 2- اس میں نیت کے مطابق اجر وثواب ملنے کی یقین دہانی ہے چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ امتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لئے نیکوں کی ایک بستی میں جا رہا تھا کہ راستے میں موت آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے نیکوں کی بستی کو، بہ نسبت دوسری بستی کے قریب تر کر دیا جس کی وجہ سے اسے ملائکہ رحمت اپنے ساتھ لے گئے۔ (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل نمبر 54 ومسلم كتاب التوبة، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله) اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے لیکن راستے میں ہی اسے موت آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ضرور ملے گا، گو ابھی وہ ہجرت کے عمل کو پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچا سکا ہو۔ جیسے حدیث میں بھی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا [ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ] عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے، [ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ] آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، جس نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لئے ہجرت کی پس، اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس نیت سے اس نے ہجرت کی۔ (صحيح بخاري، باب بدء الوحي ومسلم، كتاب الإمارة) یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر کام کو شامل ہے۔ یعنی اس کو کرتے وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی تو وہ مقبول، ورنہ مردود ہوگا۔ النسآء
101 1- اس میں حالت سفرمیں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ”إِنْ خِفْتُمْ“ (اگر تمہیں ڈر ہو) غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف کا بھی سفر خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اور بھی بعض مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے مثلاً: ﴿لا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾ ( آل عمران: 130)، ﴿وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا﴾ ( النور: 33) ”تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں“۔ چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ﴿وَرَبَائِبُكُمُ اللاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ﴾ (النسا: 23) ٰوَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔ بعض صحابہ (رضي الله عنهم) کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے، ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے، اس کے صدقے کو قبول کرو۔ (مسند احمد جلد 1، ص 25،36، وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث ) ملحوظة: سفر کی مسافت اور ایام قصر کی تعیین میں کافی اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے فرسخ یعنی ( کوس) والی روایت کو ترجیح دی ہے۔ (نیل الاوطار جلد 3 صفحہ220) اسی طرح بہت سے محققین علماء اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ دوران سفر کسی ایک مقام پر تین یا چار دن سے زیادہ قیام کی نیت نہ ہو، اور اگر اس سے زیادہ قیام کی نیت ہو تو پھر قصر کی اجازت نہیں (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح ) النسآء
102 1- اس آیت میں صلٰوۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ صلٰوۃ الخوف کے معنی ہیں، خوف کی نماز۔ یہ اس وقت مشروع ہے جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لئے تیار کھڑی ہوں اور ایک لمحے کی بھی غفلت مسلمانوں کے لئے سخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہو جائے تو صلٰوۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آکر نبی (ﷺ) کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہو گیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہوگیا اور مورچہ زن حصہ نماز کے لئے آگیا، بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت نماز پڑھائی، اس طرح آپ (ﷺ) کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی، بعض میں آتا ہے کہ دو دو رکعات پڑھائیں، اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو دو رکعت ہوئیں اور بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے، فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کر دو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے جا کر ڈٹ گئے۔ دوسرے حصے نے آکر نبی (ﷺ) کے پیچھے نماز پڑھی، آپ (ﷺ) نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کر لی۔ پھر ان کے ساتھ آپ (ﷺ) نے سلام پھیر دیا۔ اس طرح آپ (ﷺ) کی بھی دو رکعت اور فوج کے دنوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں (دیکھئے کتب حدیث )۔ النسآء
103 1- مراد یہی خوف کی نماز ہے اس میں چونکہ تخفیف کر دی گئی ہے، اس لئے اس کی تلافی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ 2- اس سے مراد ہے کہ جب خوف اور جنگ کی حالت ختم ہو جائے تو پھر نماز کو اس کے اس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔ 3- اس میں نماز کو مقرر وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔ النسآء
104 1- یعنی اپنے دشمن کے تعاقب کرنے میں کمزوری مت دکھاؤ، بلکہ ان کی خلاف بھرپور جدوجہد کرو اورگھات لگا کر بیٹھو !۔ 2- یعنی زخم تو تمہیں بھی اورانہیں بھی دونوں کو پہنچے ہیں لیکن ان زخموں پر تمہیں تو اللہ سے اجر کی امید ہے لیکن وہ اس کی امید نہیں رکھتے۔ اس لئے اجر آخرت کے حصول کے لئے جو محنت وکاوش تم کرسکتے ہو، وہ کافر نہیں کر سکتے۔ النسآء
105 1- ان آیات (104 سے 113تک) کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کے زرہ چرالی، جب اس کا چرچا ہوا اور اس کو اپنی چوری کے بے نقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اوربنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی (ﷺ) کی خدمت میں پہنچ گیا، ان سب نے کہا کہ زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے۔ یہودی نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ بنی ابیرق نے زرہ چوری کر کے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ابیرق (طعمہ یا بشیر وغیرہ) ہشیار تھے اور نبی (ﷺ) کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہی ہے اور وہ طعمہ پرالزام لگانے میں جھوٹا ہے، نبی (ﷺ) بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کر کے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی (ﷺ) بھی بہ حیثیت ایک انسان کے غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ (ﷺ) پر فوراً صورتِ حال واضح ہو جاتی۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (ﷺ) کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہو جانے کا مرحلہ آجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا ہے اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے۔ یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیا کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ 2- اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہے۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلی آیات میں بھی ان کے اور ان کے حمایتیوں کےغلط کردار کو نمایاں کرکے نبی (ﷺ) کو خبردار کیا جا رہا ہے۔ النسآء
106 1- یعنی بغیر تحقیق کئے آپ (ﷺ) نے جو خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے، اس پر اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے، اس کی حمایت ووکالت کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور اپنی چرب زبانی سے عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے گا درآں حالیکہ وہ صاحب حق نہ ہو تو ایسے فیصلے کی عنداللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اس بات کو نبی (ﷺ) نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا خبردار ! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں، اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں۔ ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل وحجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں درآں حالیکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں، اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحيح بخاري، كتاب الشهادة والحيل والأحكام- صحيح مسلم، كتاب الأقضية) النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 1- یعنی جب اس گناہ کی وجہ سے اس کا مواخذہ ہوگا تو کون اللہ کی گرفت سے اسے بچا سکے گا؟۔ النسآء
110 النسآء
111 1- اس مضمون کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (بنی اسرائیل: 15) (کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) یعنی کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوگا، ہر نفس کو وہی کچھ ملے گا جو وہ کما کر ساتھ لے گیا ہوگا۔ النسآء
112 1- جس طرح بنو ابیرق نے کیا کہ چوری خود کی اور تہمت کسی اور پر دھر دی۔ یہ زجرو توبیخ عام ہے۔ جو بنو ابیرق کو بھی شامل ہے اور ان کو بھی جو اس کی سی بدخصلتوں کے حامل اور ان جیسے برے کاموں کے مرتکب ہوں گے۔ النسآء
113 1- یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت ونگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء (عليهم السلام) کے لئے فرمایا ہے جو انبیا پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے۔ طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول (ﷺ) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (ﷺ) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کر دیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ 2- یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (ﷺ) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا علم دے کر فرمایا گیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ﴾ (الشوریٰ: 52) ”اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھاکہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“۔ ﴿وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ﴾ ( القصص:86) ”اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مگر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی)“ ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (ﷺ) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی، ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ (ﷺ) کو علم دیا گیا جن سے آپ (ﷺ) بےخبر تھے۔ یہ بھی گویا آپ (ﷺ) کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو، اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں، وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔ النسآء
114 1- نَجْوَى( سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ 2- یعنی صدقہ خیرات، معروف (جو ہر قسم کی نیکی کو شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں جو مشورے، خیر پر مبنی ہیں، جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت واہمیت بیان کی گئی ہے۔ 3- کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع جائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ نعوذ بالله من الرياء والنفاق۔ 4- احادیث میں اعمال مذکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہو جائے گا (صحيح مسلم، كتاب الزكاة) نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی طرح رشتے داروں، دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا، بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نفلی نمازوں اور نفلی صدقات وخیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا: [ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلاةِ وَالصَّدَقَةِ؟ قَالُوا بَلَى:قال: إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، قَالَ: وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ ] (ابوداود کتاب الادب۔ ترمذی،کتاب البرومسند احمد6 /444 ،445) حتی کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے [ لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، فَيَنْمِي خَيْرًا أو يَقُولُ خَيْرًا ] (بخاری، كتاب الصلح مسلم والترمذی، كتاب البر- أبو داود، كتاب الأدب)وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا یا اچھی بات کرتا ہے۔ النسآء
115 1- ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے۔ اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے رسول (ﷺ) کی مخالفت اورغیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر وضلال ہی ہے۔ بعض علما نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سےانحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علما وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رضی الله عنہم) کے بعد کسی مسئلے پر پوری امت کے اجماع واتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما وفقہا کا اتفاق ہو، تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رضی الله عنہم) کے اجماع کے انکار کی طرح، کفر ہے، اس لئے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکھٹا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ (صحیح ترمذی للالبانی حدیث نمبر 1759) النسآء
116 النسآء
117 1- إِنَاثٌ (عورتیں) سے مراد یا تو وہ بت ہیں جن کے نام مونث تھے جیسے لات، عزیٰ، مناۃ، نائلہ وغیرہ۔ یا مراد فرشتے ہیں کیونکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ 2- بتوں، فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت دراصل شیطان کی عبادت ہے، کیونکہ شیطان ہی انسان کو اللہ کے در سے چھڑا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ النسآء
118 1- مقرر شدہ حصہ سے، مراد وہ نذر ونیاز بھی ہو سکتی ہے جو مشرکین اپنے بتوں اور قبروں میں مدفون اشخاص کے نام نکالتے ہیں اور جہنمیوں کا وہ کوٹہ بھی ہو سکتا ہے جنہیں شیطان گمراہ کرکے اپنے ساتھ جہنم میں لے جائے گا۔ النسآء
119 1- یہ وہ باطل امیدیں ہیں جو شیطان کے وسوسوں اور دخل اندازی سے پیدا ہوتی اور انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں۔ 2- یہ بحیرہ اور سائبہ جانوروں کی علامتیں اور صورتیں ہیں۔ مشرکین ان کو بتوں کے نام وقف کرتے تو شناخت کے لئے ان کا کان وغیرہ چیر دیا کرتے تھے۔ 3-”تَغْيِيرُ خَلْقِ اللهِ“ (اللہ کی تخلیق کو بدلنا) کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہی جس کا ابھی یہاں ذکر ہوا یعنی کان وغیرہ کاٹنا، چیرنا، سوراخ کرنا، ان کے علاوہ اور کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، پتھر اور آگ وغیرہ اشیا مختلف مقاصد کے لئے بنائی ہیں، لیکن مشرکین نے ان کے مقصد تخلیق کو بدل کر ان کو معبود بنا لیا۔ یا تغییر کا مطلب تغییر فطرت ہے، یا حلت وحرمت میں تبدیلی ہے وغیرہ۔ اسی تغییر میں مردوں کی نس بندی کرکے اور اسی طرح عورتوں کے آپریشن کرکے انہیں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا۔ میک اپ کے نام پر ابروؤں کے بال وغیرہ اکھاڑ کر اپنی صورتوں کو مسخ کرنا اور وشم (یعنی گود نے گدوانا) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ سب شیطانی کام ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ جانوروں کو اس لئے خصی کرنا کہ ان سے زیادہ انتفاع ہو سکے یا ان کا گوشت زیادہ بہتر ہو سکے یا اسی قسم کا کوئی اور صحیح مقصد ہو، تو جائز ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے خصی جانور قربانی میں ذبح فرمائے ہیں۔ اگر جانور کو خصی کرنے کا جواز نہ ہوتا تو آپ (ﷺ) ان کی قربانی نہ کرتے۔ النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 1- شیطانی وعدے تو سراسر دھوکہ اور فریب ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں اللہ کے وعدے جو اس نے اہل ایمان سے کئے ہیں سچے اور برحق ہیں، اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے؟ لیکن انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ سچوں کی بات کو کم مانتا ہے اور جھوٹوں کے پیچھے زیادہ چلتا ہے، چنانچہ دیکھ لیجئے کہ شیطانی چیزوں کا چلن عام ہے اور ربانی کاموں کو اختیار کرنے والے ہر دور میں اور ہر جگہ کم ہی رہے ہیں اور کم ہی ہیں ﴿وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾ ( سبا: 13 ) (میرے شکر گزاربندے کم ہی ہیں)۔ النسآء
123 النسآء
124 1- جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اہل کتاب اپنے متعلق بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی خوش فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی محض امیدوں اور آرزوؤں سے نہیں ملے گی۔ اس کے لئے تو ایمان اور عمل صالح کی پونجی ضروری ہے۔ اگر اس کے برعکس نامۂ اعمال میں برائیاں ہوں گی تو اسے ہر صورت میں اس کی سزا بھگتنی ہوگی، وہاں کوئی ایسا دوست یا مدد گار نہیں ہوگا جو برائی کی سزا سے بچا سکے۔ آیت میں اہل کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی خطاب فرمایا ہے تاکہ وہ بھی یہود ونصاریٰ کی سی غلط فہمیوں، خوش فہمیوں اور عمل سے خالی آرزؤں اور تمناؤں سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔ لیکن افسوس مسلمان اس تنبیہ کے باوجود انہیں خام خیالیوں میں مبتلا ہوگئے جن میں سابقہ امتیں گرفتار ہوئیں۔ اور آج بےعملی اور بدعملی مسلمان کا بھی شعار بنی ہوئی ہے اور اس کے باوجود وہ امت مرحومہ کہلانے پر مصر ہے۔ هَدَانَا اللهُ تَعَالَى النسآء
125 1- یہاں کامیابی کا ایک معیار اور اس کا ایک نمونہ بیان کیا جارہا ہے۔ معیار یہ ہے کہ اپنے کو اللہ کے سپرد کردے، محسن بن جائے اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرے اور نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا۔ خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہو جائے کہ کسی اور کے لئے اس میں جگہ نہ رہے۔ خلیل (بروزن فعیل) بمعنی فاعل ہے جیسے علیم بمعنی عالم اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے۔ جیسے حبیب بمعنی محبوب اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقیناً اللہ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی علیہ الصلاۃ والسلام (فتح القدیر )۔ اور نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے: اللہ نے مجھےبھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا۔“ (صحيح مسلم، كتاب المساجد) النسآء
126 النسآء
127 1- عورتوں کے بارے میں جو سوالات ہوتے رہتے تھے، یہاں سے ان کے جوابات دیئے جا رہے ہیں۔ 2- ﴿وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ﴾ اس کا عطف ﴿اللهُ يُفْتِيكُمْ﴾ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بابت وضاحت فرماتا ہے اور کتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں جو اس سے قبل یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل ہو چکی ہیں، مراد ہے سورۂ نساء کی آیت 3 جس میں ان لوگوں کو اس بے انصافی سے روکا گیا ہے کہ وہ یتیم لڑکی سے ان کے حسن وجمال کی وجہ سے شادی تو کر لیتے ہیں لیکن مہر مثل دینے سے گریز کرتے تھے۔ 3- اس کے دو ترجمے کئے گئے ہیں، ایک تو یہی جو مرحوم مترجم نے کیا ہے، اس میں ”فی“ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ ”عن“ کا لفظ محذوف مان کر کیا گیا ہے یعنی ﴿تَرْغَبُونَ عَنْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ﴾ (تمہیں ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہ ہو) رَغِبَ کا صلہ عَنْ آئے تو معنی اعراض اور بے رغبتی کے ہوتے ہیں۔ جیسے ﴿وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ﴾ میں ہے یہ گویا دوسری صورت بیان کی گئی ہے کہ یتیم لڑکی بعض دفعہ بدصورت ہوتی تو اس کے ولی یا اس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثا خود بھی اس کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کا نکاح نہ کرتے، تاکہ کوئی اور شخص اس کے حصہ جائیداد میں شریک نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔ 4- اس کا عطف ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ پر ہے۔ یعنی ”وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ وَفِي الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ“ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم پر جو پڑھا جاتا ہے۔ (سورۃ النساء کی آیت نمبر 3) اور کمزور بچوں کی بابت جو پڑھا جاتا ہے اس سے مراد قرآن کا حکم ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ ہے جس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا گیا۔ جب کہ زمانۂ جاہلیت میں صرف بڑے لڑکوں کو ہی وارث سمجھا جاتاتھا، چھوٹے کمزور بچے اور عورتیں وراثت سے محروم ہوتی تھیں۔ شریعت نے سب کو وارث قرار دیا۔ 5- اس کا عطف بھی ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾پر ہے۔ یعنی کتاب اللہ کا یہ حکم بھی تم پر پڑھا جاتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بدصورت ہو تب بھی۔ دونوں صورتوں میں انصاف کرو (جیسا کہ تفصیل گزری)۔ النسآء
128 1- خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا (نشوز) اور اعراض کرنا معمول بنالے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کم تر خوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان ونفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کر لے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنین سودۃ (رضی الله عنها) نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے لئے ہبہ کر دی تھی جسے نبی (ﷺ) نے قبول فرما لیا تھا۔ (صحیح بخاری ومسلم- كتاب النكاح) 2- شح بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔ النسآء
129 1- یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کر سکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں ہے۔ خود نبی (ﷺ) کو بھی اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ (رضی الله عنها) سے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے۔ اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عنداللہ قابل مواخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی (ﷺ) نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی (ﷺ) نے بھی فرمایا ہےجس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کئے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہوگا، (ترمذی، كتاب النكاح) النسآء
130 1- یہ تیسری صورت ہے کہ کوشش کے باوجود اگرنباہ کی صورت نہ بنے تو پھر طلاق کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں [ أَبْغَضُ الْحَلالِ إِلَى اللهِ الطَّلاقُ ] (رواه أبو داود، مشكاة) ”طلاق حلال تو ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے“۔ اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس لئے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ مذکورہ حدیث میں صحت اسناد کے اعتبار سے اگرچہ ضعف ہے تاہم قرآن وسنت کی نصوص سے یہ واضح ہے کہ یہ حق اسی وقت استعمال کرنا چاہئے جب نباہ کی کوئی صورت کسی طرح بھی نہ بن سکے۔ ملحوظة:حدیث مذکور (أَبْغَضُ الْحَلالِ ...) کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے (ارواء الغلیل، نمبر 2040) تاہم عذر شرعی کے بغیر طلاق کے ناپسندیدہ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ النسآء
131 النسآء
132 النسآء
133 1- یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ وکاملہ کا اظہار ہے جب کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ﴾ ( محمد: 38) (اگر تم پھرو گے تووہ تمہاری جگہ اوروں کولے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے )۔ النسآء
134 1- جیسے کوئی شخص جہاد صرف مال غنیمت کے حصول کے لئے کرے تو کتنی نادانی کی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت دونوں کا ثواب عطا فرمانے پر قادر ہے تو پھر اس سے ایک ہی چیز کیوں طلب کی جائے؟ انسان دونوں ہی کا طالب کیوں نہ بنے؟ النسآء
135 1- اس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لئے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ 2- یعنی کسی مال دار کی مالداری کی وجہ سے رعایت کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔ 3- یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلا تَعْدِلُوا﴾ (المائدۃ: 8) ”تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو“۔ 4- ”تَلْوُوا“، ”لیی“ سے ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف وتغییر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا کتمان (چھپانا) اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل وانصاف کی تاکید اور اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے، ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً: *ہر حال میں عدل کرو اس سے سرمو انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست وبازو بنو۔ * صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔ * عدل وانصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔ * کسی مال دار کی اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے؟ * فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہئے۔ بلکہ ان سب کو نظر انداز کرکے بے لاگ عدل کرو۔ عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا، وہاں امن وسکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی الله عنہ) کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم، میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو، لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا اسی عدل کی وجہ سے آسمان وزمین کا یہ نظام قائم ہے (تفسیر ابن کثیر) النسآء
136 1- ایمان والوں کو ایمان لانے کی تاکید، تحصیل حاصل والی بات نہیں، بلکہ کمال ایمان اور اس پر استقرار واثبات کا حکم ہے۔ جیسے ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ کا مفہوم ہے۔ النسآء
137 1- بعض مفسرین نے اس سے مراد یہود لئے ہیں۔ یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے، لیکن حضرت عزیر (علیہ السلام) کا انکار کیا، پھر حضرت عزیر (علیہ السلام) پر ایمان لائے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد (ﷺ) کی نبوت کا بھی انکار کیا اور بعض نے اس سے مراد منافقین لئے ہیں، چونکہ مقصد ان کا مسلمانوں کو نقصان پہچانا تھا، اس لئے وہ بار بار اپنی مسلمانی کا ڈھونگ رچاتے تھے بالآخر کفر وضلالت میں اتنے بڑھ گئے کہ ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوگئی۔ النسآء
138 النسآء
139 1- جس طرح سورۂ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے کہ منافقین کافروں کے پاس جاکر یہی کہتے تھے کہ ہم تو حقیقت میں تمہارے ہی ساتھی ہیں، مسلمانوں سے تو ہم یوں ہی استہزا کرتے ہیں۔ 2- یعنی عزت، کافروں کے ساتھ موالات ومحبت سے نہیں ملے گی، کیونکہ یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ عزت اپنے ماننے والوں کو ہی عطا فرماتا ہے، دوسرے مقام پر فرمایا ﴿مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا﴾ (فاطر: 10) جو عزت کا طالب ہے، تو (اسے سمجھ لینا چاہئے کہ) عزت سب کی سب اللہ کے لئے ہے، اور فرمایا ﴿وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ﴾ (المنافقون: 8) عزت اللہ کے لئے ہے اس کے رسول کے لئے ہے اور مومنین کے لئے ہے لیکن منافق نہیں جانتے، یعنی وہ نفاق کے ذریعے سے اور کافروں سے دوستی کے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں، درآں حالیکہ یہ طریقہ ذلت وخواری کا ہے، عزت کا نہیں۔ النسآء
140 1- یعنی منع کرنے کےباوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں، جہاں آیات الٰہی کا استہزا کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہوگے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ (مسند أحمدجلد 1 ص 20، جلد 3 ص 339) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ ورسول (ﷺ) کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو، جیسے آج کل امرا، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے یا شادی بیاہ اور سالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں کیا جاتا ہے، سخت گناہ ہے ﴿إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ﴾ کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کر دینے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔ النسآء
141 1- یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پالیسی کے نتیجے میں حاصل ہواہے۔ جو ہم نے مسلمانوں میں ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔ 2- یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کر لی، لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کرکے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا، جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ 3- یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ (1) اہل اسلام کا یہ غلبہ قیامت والے دن ہوگا۔ (2) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے۔ (3) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمان کی دولت وشوکت کا بالکل خاتمہ ہی ہو جائے اور وہ حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہو جائیں۔ ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ (4) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں کہ ”یہ سب سے عمدہ معنی ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ﴾ (الشوری: 30) ”اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے“ (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی مغلوبیت ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ النسآء
142 1- اس کی مختصر توضیح سورۂ بقرہ کے آغاز میں ہو چکی ہے۔ 2- نماز اسلام کا اہم ترین رکن اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی وہ کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشا اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [أَثْقَلُ الصَّلاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلاةُ الْعِشَاءِ وَصَلاةُ الْفَجْرِ ... ] ( صحیح بخاری، مواقيت الصلاة- صحيح مسلم، كتاب المساجد) ”منافق پر عشا اور فجر کی نماز سب سے زیادہ بھاری ہے“۔ 3- یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے، تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔ 4- اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں ”أی لا يُصَلُّونَ إِلا صَلاةً قَلِيلَةً“ جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ ﴿وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ (البقرۃ: 45) سے واضح ہے، حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (یعنی غروب کے قریب) ہو جاتا ہے تو اٹھتاہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد- موطأ كتاب القرآن)۔ النسآء
143 1- کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہراً وباطناً وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ کافروں کے ساتھ۔ ظاہر ان کا مسلمانوں کے ساتھ ہے تو باطن کافروں کے ساتھ اور بعض منافق تو کفر وایمان کے درمیان متحیر اور تذبذب ہی کا شکار رہتے تھے۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے: ”منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو جفتی کے لئے دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے، (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے، کبھی دوسرے کی طرف“۔ (صحيح مسلم، كتاب المنافقين)۔ النسآء
144 1- یعنی اللہ نے تمہیں کافروں کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اب اگر تم دوستی کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو یہ دلیل مہیا کر رہے ہو کہ وہ تمہیں بھی سزا دے سکے (یعنی معصیت الٰہی اور حکم عدولی کی وجہ سے)۔ النسآء
145 1- جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ”هَاوِيَة“ کہلاتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا، منافقین کی مذکورہ عادات وصفات سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ بچائے۔ النسآء
146 1- یعنی منافقین میں سے جو ان چار چیزوں کا خلوص دل سے اہتمام کرے گا وہ جہنم میں جانے کے بجائے جنت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوگا۔ النسآء
147 1- شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں سے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنا۔ یہ گویا اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید وربوبیت پر اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان ہے۔ 2- یعنی جو اس کا شکر کرے گا، وہ قدر کرے گا، جو دل سے ایمان لائے گا، وہ اس کو جان لے گا اور اس کے مطابق وہ بہترین جزا سے نوازے گا۔ النسآء
148 1- شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ، الا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو، اسی طرح کھلے عام اور علی الا علان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے برسرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے اور اس کی وجہ سے اس برائی کا جرم دوچند بلکہ دہ چند، بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن کے الفاظ مذکورہ دونوں قسم کی برائیوں کے اظہار سے ممانعت کو شامل ہیں اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی شخص کو اس کی کردہ یا ناکردہ حرکت پر برا بھلا کہا جائے۔ البتہ اس سے ایک استثنا ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شاید وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ (ﷺ) نے اس سے فرمایا: ”تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو“ اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر رہ گزر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لئے ایذا نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داود، کتاب الادب) النسآء
149 1- کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ [ الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالا، فَعَلَى الْبَادِي، مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ ] (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب النهي من السباب حديث نمبر4587) ”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (یعنی جسے پہلے گالی دی گئی اور اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے۔“ لیکن بدلہ لینے کی اجازت کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفوودرگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لئے فرمایا ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ﴾ (الشوریٰ: 40) برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی ہے، مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور حدیث میں بھی ہے ”معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔“ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب العفو والتواضع) النسآء
150 النسآء
151 1- اہل کتاب کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ وہ بعض نبیوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں۔ جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وحضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) اور عیسائیوں نے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء (عليهم السلام) کے درمیان تفریق کرنے والے یہ پکے کافر ہیں۔ النسآء
152 1- یہ ایمانداروں کا شیوہ بتلایا کہ وہ سب انبیاء (عليهم السلام) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس طرح مسلمان ہیں کہ وہ کسی بھی نبی کا انکار نہیں کرتے۔ اس آیت سے بھی ”وحدت ادیان“ کی نفی ہوتی ہے جس کے قائلین کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ اور وہ ان غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان بااللہ رکھتے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس آخری رسالت کا انکار ہوگا تو اس انکار کےساتھ ایمان باللہ غیر معتبر اور نامقبول ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر62 کا حاشیہ) النسآء
153 1- یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے اور تختیوں پر لکھی ہوئی تورات لے کر آئے، اسی طرح آپ بھی آسمان پر جا کر لکھا ہوا قرآن مجید لے کر آئیں۔ یہ مطالبہ محض عناد، جحود اور تعنت کی بنا پر تھا۔ النسآء
154 النسآء
155 1- تقدیری عبارت یوں ہوگی ﴿فَبِنَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ﴾ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفر بآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔ النسآء
156 1- اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک حقیقت ثابتہ باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نَعُوذُ بِاللهِ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا اور یوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ النسآء
157 1- اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہوسکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 55 کے حاشیے میں مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا توانہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد 12 یا 17 تھی، جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی پر چڑھا دیا جسے حضرت عیسیٰ کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دی ہے درآں حالیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جا چکے تھے۔(ابن کثیر و فتح القدیر) 3- عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا، جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا کہ مصلوب شخص عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں، کوئی اور ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکار کرتا رہا۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے نسطوریہ فرقے نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف، تردد اورشک کا شکار رہے۔ النسآء
158 1- یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ احادیث حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کرکے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ (ﷺ) سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرۃ، حضرت عبداللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابوامامہ، نواس بن سمعان، عبداللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسید (رضی الله عنہم) ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ (علیہ السلام) دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لئے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور وفساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ 2- وہ زبردست اور غالب ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو اس کی پناہ میں آجائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ جو فیصلہ بھی کرتا ہے، حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ النسآء
159 1- ﴿قَبْلَ مَوْتِهِ﴾میں ”ہ“ کی ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسییٰ پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت کا ایمان نافع نہیں۔ لیکن سلف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کرکے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہوں گے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح اس دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لاکر اس دنیا سے گزر چکیں گے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی ڈھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چنانچہ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا) حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا“۔ پھر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو ﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ﴾ (صحیح بخاری- كتاب الأنبياء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہل سنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ 2- یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی۔ جیسا کہ سورۂ مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ﴾ میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا۔ النسآء
160 1- یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کردی تھیں۔ (جن کی تفصیل سورۃ الانعام: 146 میں ہے) النسآء
161 النسآء
162 1- ان سے مراد عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے۔ 2- ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ 3- اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰۃ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہیر اور ان کا تزکیہ کرنا، یا دونوں ہی مراد ہیں۔ 4- یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا وسزا کا یقین رکھتے ہیں۔ النسآء
163 1- حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسی (علیہ السلام) کے بعد کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ نازل نہیں کیا اور یوں نبی (ﷺ) کی وحی ورسالت سے بھی انکار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) جس میں مذکورہ قول کا رد کرتے ہوئے رسالت محمدیہ (ﷺ) کا اثبات کیا گیا ہے۔ النسآء
164 1- جن نبیوں اور رسولوں کے اسمائے گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تعداد 24 یا 25 ہے۔ (1) آدم (2) ادریس (3) نوح (4) ہود (5) صالح (6) ابراہیم (7) لوط (8) اسماعیل (9) اسحاق (10) یعقوب (11) یوسف (12) ایوب (13) شعیب (14) موسیٰ (15) ہارون (16) یونس (17) داود (18) سلیمان (19) الیاس (20) الیسع (21) زکریا (22) یحیی(23) عیسیٰ (24) ذوالکفل۔ (اکثر مفسرین کے نزدیک) (25)حضرت محمد صلوٰت اللہ وسلامہ علیہ و علیہم اجمعین۔ 2- جن انبیا ورسل کے نام اور واقعات قرآن میں بیان نہیں کئے گئے، ان کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں جو بہت مشہور ہے ایک لاکھ 24 ہزار اور ایک حدیث میں 8 ہزار تعداد بتلائی گئی ہے۔ لیکن یہ روایات سخت ضعیف ہیں۔ قرآن وحدیث سے صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار وحالات میں مبشرین ومنذرین (انبیاء) آتے رہے ہیں۔ بالآخر یہ سلسلۂ نبوت حضرت محمد پر ختم فرما دیا گیا۔ آپ سے پہلے کتنے نبی آئے (ﷺ) ان کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تاہم آپ (ﷺ) کے بعد جتنے بھی دعوے داران نبوت ہو گزرے یا ہوں گے، سب کے سب دجال اور کذاب ہیں اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور امت محمدیہ سے الگ ایک متوازی امت ہیں۔ جیسے امت بابیہ، بہائیہ اور امت مرزائیہ وغیرہ۔ اسی طرح مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے والے لاہوری مرزائی ہیں۔ 3- یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی وہ خاص صفت ہے جس میں وہ دوسرے انبیا سے ممتاز ہیں۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت کی رو سے امام ابن کثیر نے اس صفت ہم کلامی میں حضرت آدم (علیہ السلام) وحضرت محمد (ﷺ) کو بھی شریک مانا ہے۔ (تفسيرابن كثير زیر آیت ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ﴾ النسآء
165 1- ایمان والوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دینا اور کافروں کو اللہ کے عذاب اور بھڑکتی ہوئی جہنم سے ڈرانا۔ 2- یعنی نبوت یا انذار وتبشیر کا یہ سلسلہ ہم نے اس لئے قائم فرمایا کہ کسی کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمیں تو تیرا پیغام پہنچاہی نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى﴾ ( طہ: 134) اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے سے) پہلے ہی ہلاک کر دیتے تو وہ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پیشتر تیری آیات کی پیروی کرلیتے۔ النسآء
166 النسآء
167 النسآء
168 1- کیونکہ مسلسل کفر اور ظلم کا ارتکاب کرکے، انہوں نے اپنے دلوں کو سیاہ کرلیا ہے جس سے اب ان کی ہدایت و مغفرت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ النسآء
169 النسآء
170 1- یعنی تمہارے کفر سے اللہ کا کیا بگڑے گا جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا ﴿إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ (ابراہیم: 8) ”اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب کفر کا راستہ اختیار کرلیں تو وہ اللہ کا کیا بگاڑیں گے؟ یقیناً اللہ تعالیٰ تو بےپروا تعریف کیا گیا ہے“۔ اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول و آخر تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے تو اس سے میری بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر تمہارے اول و آخر اور انس وجن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے بڑا نافرمان ہو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو ! اگر تم سب ایک میدان میں جمع ہوجاؤ اور مجھ سے سوال کرو اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم) النسآء
171 1- ”غُلُوٌّ“ کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت وبندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام و حلال کے اختیار سے نواز دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبہ: 31) ”انہوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا“۔ یہ رب بنانا حدیث کے مطابق، ان کے حلال کئے کو حلال اور حرام کئے کو حرام سمجھنا تھا۔ دراں حالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن اہل کتاب نے یہ حق بھی اپنے علماء وغیرہ کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی (ﷺ) نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا [ لا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ؛ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ ] (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء مسند احمد جلد ا صفحہ 23، نیز دیکھیے مسند احمد جلد ا صفحہ 153) ”تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا“۔ لیکن افسوس امت محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھہرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ اسی طرح علماء وفقہاء کو بھی دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا ہے۔فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ سچ فرمایا نبی (ﷺ) نے [ لَتَتَّبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ ] ”جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے“۔ یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔ 2- ”كَلِمَةُ اللهِ“ کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ”كُنْ“ سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے سے حضرت مریم علیہا السلام تک پہنچایا گیا۔ روح اللہ کا مطلب وہ نفخة ( پھونک) ہے جو حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا، جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کردیا۔ یوں عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں، جسے لے کر جبریل (علیہ السلام) مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر )۔ 3- عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔ بعض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ، بعض اللہ کا شریک اوربعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ پھر جو اللہ مانتے ہیں وہ أَقَانِيمُ ثَلاثَةٌ ( تین خداؤں) کے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ثالث ثلاثہ (تین سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین خدا کہنے سے باز آجاؤ، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔ النسآء
172 1- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح بعض لوگوں نے فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا تھا، اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اس سے انہیں قطعاً کوئی انکار نہیں ہے۔ تم انہیں اللہ یا اس کی الوہیت میں شریک کس بنیاد پر بناتے ہو؟ النسآء
173 1- بعض نے اس (زیادہ) سے مراد یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو شفاعت کا حق عطا فرمائے گا، یہ اذن شفاعت پا کر جن کی بابت اللہ چاہے گا یہ شفاعت کریں گے۔ 2- یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت سے رکے رہے اور اس سے انکار و تکبر کرتے رہے۔ 3- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ (المؤمن: 60) ”بےشک جو لوگ میری عبادت سے استکبار (انکار وتکبر) کرتے ہیں، یقیناً ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے“۔ النسآء
174 1- برہان، ایسی دلیل قاطع، جس کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش نہ رہے اور ایسی حجت جس سے ان کے شبہات زائل ہوجائیں، اسی لئے آگے اسے نور سے تعبیر فرمایا۔ 2- اس سے مراد قرآن کریم ہے جو کفرو شرک کی تاریکیوں میں ہدایت کا نور ہے ضلالت کی پگڈندیوں میں صراط مستقیم اور حبل اللہ المتین ہے۔ پس اس کے مطابق ایمان لانے والے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔ النسآء
175 النسآء
176 1- ”كَلالَةٌ“ کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ ہو نہ بیٹا۔ یہاں پھر اس کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دیا ہے جس کا صرف بیٹا نہ ہو۔ یعنی باپ موجود ہو، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کلالہ کی پہلی تعریف ہی صحیح ہے۔ کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث ہی نہیں ہوتی۔ باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ بیٹے کے ساتھ جس کا باپ بھی نہ ہو۔ یوں بیٹے کی نفی تو نص سے ثابت ہے اور باپ کی نفی اشارۃ النص سے ثابت ہو جاتی ہے۔ ملحوظہ : بیٹے سے مراد بیٹا اور پوتا دونوں ہیں۔ اسی طرح بہن سے مراد سگی بہن یا علاتی (باپ شریک) بہن ہے۔ (ایسرالتفاسیر) احادیث سے ثابت ہے کہ کلالہ کی بہن کے ساتھ بیٹی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف اور بیٹی اور پوتی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف، پوتی کو سدس (چھٹا حصہ) اور بہن کو باقی یعنی ثلث دیا گیا۔ (فتح القدیر وابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کی اولاد موجود ہو تو بہن کو بحیثیت ذوی الفروض کچھ نہیں ملے گا۔ اب اگر وہ اولاد بیٹا ہو تو کسی اور حیثیت سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اور اگر بیٹی ہو تو بہن اس کے ساتھ عصبہ ہو جائے گی اورمَا بَقِيَ لے لے گی۔ یہ مابقی ایک بیٹی کی موجودگی میں نصف اور ایک سے زائد کی موجودگی میں ثلث ہوگا۔ 2- اسی طرح باپ بھی نہ ہو۔ اس لئے کہ باپ، بھائی سے قریب ہے، باپ کی موجودگی میں بھائی وارث ہی نہیں ہوتا اگر اس کلالہ عورت کا خاوند یا کوئی ماں جایا بھائی ہوگا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مال کا وارث بھائی قرار پائے گا۔ (ابن کثیر ) 3- یہی حکم دو سے زائد بہنوں کی صورت میں بھی ہوگا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ کلالہ شخص کی دو یا دو سے زائد بہنیں ہوں تو انہیں کل مال کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ 4- یعنی کلالہ کے وارث مخلوط (مرد اور عورت دونوں) ہوں تو پھر ”ایک مرد دو عورت کے برابر“ کے اصول پر ورثے کی تقسیم ہوگی۔ النسآء
0 المآئدہ
1 1- ”عُقُودٌ“ ”عَقْدٌ“ کی جمع ہے، جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں۔ اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لئے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہد و پیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی ہیں جن کا اللہ نے انسانوں کو مکلف ٹھہرایا ہے اور عہد وپیمان ومعاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔ 2- ”بَهِيمَةٌ“ چوپائے (چار ٹانگوں والے جانور) کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بَهْمٌ، إِبْهَامٌ ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل و فہم میں چونکہ ابہام ہے، اس لئے ان کو بَهِيمَةٌ کہا جاتا ہے۔ ”أَنْعَامٌ“ اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے۔ یہ بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں، جن کی تفصیل سورۃ الانعام آیت نمبر143میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ، جن کا عموماً شکار کیا جاتا ہے، یہ بھی حلال ہیں۔ البتہ حالت احرام میں ان کا اور دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانورذُو نَابٍ اور جو پرندے ذُو مِخْلَبٍ نہیں ہیں، وہ سب حلال ہیں، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت نمبر 173 کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذُو نَابٍ کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنے کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہو اور چیرتا ہو، مثلاً شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا وغیرہ اور ذُو مِخْلَبٍ کا مطلب ہے وہ پرندہ جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو۔ مثلاً شکرہ، باز ، شاہین، عقاب وغیرہ۔ 3- ان کی تفصیل آیت نمبر 3 میں آ رہی ہے۔ المآئدہ
2 1- ”شَعَائِرَ“، ”شَعِيرَةٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسےعام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بےحرمتی اور بےتوقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج وعمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ بھی مت بنو، کہ یہ بھی بےحرمتی ہی ہے۔ 2- ﴿الشَّهْرُ الْحَرَامُ﴾ مراد اس سے جنس ہے یعنی حرمت والے چاروں مہینوں (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو۔ بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ﴾ سے منسوخ مانا ہے۔ مگر اس کی ضرورت نہیں۔ دونوں احکام کے اپنے اپنے دائرے ہیں، جن میں تعارض نہیں۔ 3- ”هَدْيٌ“ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے۔ ”قَلائِدُ“ ”قلادَةٌ“ کی جمع ہے جو گلے کے پٹے کو کہا جاتا ہے، یہاں حج یا عمرہ کے موقع پر قربان کئے جانے والے ان جانوروں کو مراد لیا گیا ہے۔ جن کے گلوں میں علامت اور نشانی کے طور پر جوتے یا پٹے ڈال دیئے جاتے تھے پس قلائد سے مقصود وہی جانور ہوئے جنہیں حرم لے جایا جاتا تھا۔ یہ ھدی کی مزید تاکید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان جانوروں کو کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ 4- یعنی حج وعمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو نہ انہیں تنگ کرو۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکٹھے حج و عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب آیت ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا﴾ (التوبہ: 28) ”مشرکین تو پلید ہیں، پس اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں“ نازل ہوگئی، تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ (فتح القدیر ) 5- یہاں امر اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔ 6- یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے 6 ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے اس روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جارہا ہے۔ 7- یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے۔ جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے۔ کاش مسلمان اس اصول کو اپنا سکیں۔ المآئدہ
3 1- یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہورہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورۂ بقرہ میں گزرچکا ہے۔ (دیکھیےآیت نمبر 173) 2- گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔ 3- کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کئے مر گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھا لیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار: بندوق کا شکار کئے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائی گئی اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔ 4- چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔ 5- ”نَطِيحَةٌ“، ”مَنْطُوحَةٌ“ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کئے وہ مر گیا۔ 6- یعنی شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جسے ذو ناب (کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے) اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانۂ جاہلیت میں مرجانے کے باوجود ایسے جانور کو کھا لیا جاتا تھا۔ 7- جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لئے ہے یعنی مُنْخَنِقَةٌ، مَوْقُوذَةٌ، مُتَرَدِّيَةٌ، نَطِيحَةٌ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہیں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لئے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب و حرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہیں اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔ 8- مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کرکے ایک خاص جگہ، بناتے تھے۔ جسے نصب (تھان یا آستانہ) کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کئے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ ﴿وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾» ہی کی ایک شکل تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر، جہاں لوگ طلب حاجات کے لئے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لئے جانور (مرغا، بکرا وغیرہ) ذبح کرتے ہیں، یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ ﴿وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ﴾ میں داخل ہیں۔ 9- ﴿وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالأَزْلامِ﴾ کے دو معنی کئے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے، تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا، پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لئے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے، معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے مراد تیر ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھے تھے۔ ایک افْعَلْ ( کر) دوسرے میں لا تَفْعَلْ (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افْعَلْ والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لا تَفْعَلْ والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور ”اسْتِمْدَادٌ بِغَيْرِ اللهِ“ کی شکل ہے، اس لئے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسمت ہیں۔ یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔ 10- یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔ المآئدہ
4 1- اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور حرام خبیث۔ 2- ”جَوَارِحُ“، ”جَارِحٌ“ کی جمع ہے جو کاسب (کمانے والا) کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ ”مُكَلِّبِينَ“ کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لئے سدھایا گیا ہو۔ سدھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔ 3- ایسے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کرکے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کہ اگر اس نے اسے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی وہ مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو۔ (صحيح بخاری، كتاب الذبائح والصيد ،مسلم، كتاب الصيد المآئدہ
5 1- اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ گویا ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے، کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔ 2- اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں مفقود ہے۔ دوسرے، اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے۔ اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ درآں حالیکہ ایمان کو بچانا فرض ہے۔ ایک جائز کام کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لئے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک مذکورہ دونوں چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہوسکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔ المآئدہ
6 1- منہ دھوؤ یعنی ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔ 2- مسح پورے سر کا کیا جائے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کرلے۔ اگر سر پر پگڑی یا عمامہ ہو تو حدیث کی رو سے موزوں کی طرح اس پر بھی مسح جائز ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) علاوہ ازیں ایک مرتبہ ہی اس طرح مسح کرلینا کافی ہے۔ 3- ”أَرْجُلَكُمْ“ کا عطف ”وُجُوهَكُمْ“ پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ! اور اگر موزے یا جرابیں پہنی ہوئی ہیں (بشرطیکہ وضو کی حالت میں پہنی ہوں) تو حدیث کی رو سے پیر دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح بھی جائز ہے۔ ملحوظة: (1) اگر پہلے سے باوضو ہو تو نیا وضو کرنا ضروری نہیں۔ تاہم ہر نماز کے لئے تازہ وضو بہتر ہے۔ (2) وضو سے پہلے نیت فرض ہے۔ (3) وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنی بھی ضروری ہے۔ (4) داڑھی گھنی ہو تو اس کا خلال کیا جائے۔ (5) اعضا کو ترتیب وار دھویا جائے۔ (6) ”ان کے درمیان فاصلہ نہ کیا جائے“ یعنی ایک عضو دھونے کے بعد دوسرے عضو کے دھونے میں دیر نہ کی جائے۔ بلکہ سب اعضا تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے دھوئے جائیں۔ (7) اعضائے وضو میں سے کسی بھی عضو کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، ورنہ وضو نہیں ہوگا۔ (8) کوئی عضو بھی تین مرتبہ سے زیادہ نہ دھویا جائے۔ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، فتح القدیر وایسر التفاسیر ) 4- جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض یا نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ (فتح القدیر وایسر التفاسیر ) 5- اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 43میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں رکنا یا رکے رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رضی الله عنہ) نے آیت سن کر کہا ”اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں اور یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔“ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو۔) (صحیح بخاری۔ سورۃ المائدۃ) 6- اسی لئے تیمم کی اجازت مرحمت فرما دی ہے۔ 7- اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے یہ دعا یاد کرلی جائے۔ المآئدہ
7 المآئدہ
8 3-پہلے جملے کی تشریح سورۃ النساء آیت نمبر 135 میں اور دوسرے جملہ کی سورۃ المائدۃ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کے نزدیک عادلانہ گواہی کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے جو حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا، اس عطیے پر آپ جب تک اللہ کے رسول کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد نبی (ﷺ) کی خدمت میں آئے تو آپ (ﷺ) نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا ”اللہ سے ڈرو! اور اولاد کے درمیان انصاف کرو“ اور فرمایا کہ ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا“۔ (صحيح بخاری ومسلم، كتاب الهبة) المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 1- اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلاً اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (ﷺ) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد! (ﷺ) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ (ﷺ) نے بلا تامل فرمایا ”اللہ“ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کے خلاف، جب کہ آپ (ﷺ) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکہ اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کوبچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنونضیر سے حسب معاہدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (ﷺ) اپنے رفقا سمیت وہاں تشریف لے گئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (ﷺ) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے کہ ان سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ایسرالتفاسیر و فتح القدیر) المآئدہ
12 - جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (ﷺ) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہراً وباطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و صواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کر دینا۔ 2- اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جبابرہ سے قتال کے لئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں پر بارہ نقیب مقرر فرما دیئے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لئے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و رہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔ المآئدہ
13 1- یعنی اتنے انتظامات اور عہد مواعید کے باوجود بنو اسرائیل نے عہد شکنی کی، جس کی بنا پر وہ لعنت الٰہی کے مستحق بنے۔ اس لعنت کے دنیوی نتائج یہ سامنے آئے کہ ایک، ان کے دل سخت کردیئے گئے جس سے ان کے دل اثر پذیری سے محروم ہوگئے اور انبیاء کے وعظ و نصیحت ان کے لئے بےکار ہوگئے، دوسرے، یہ کہ وہ کلمات الٰہی میں تحریف کرنے لگ گئے۔ یہ تحریف لفظی اور معنوی دونوں طرح کی ہوتی تھی جو اس بات کی دلیل تھی کہ ان کی عقل و فہم میں کجی آگئی ہے اور ان کی جسارتوں میں بھی بےپناہ اضافہ ہوگیا ہے کہ اللہ کی آیتوں تک میں تصرف کرنے سے انہیں گریز نہیں۔ بدقسمتی اس قساوت قلبی اور کلمات الٰہی میں تحریف سے امت محمدیہ کے افراد بھی محفوظ نہیں رہے۔ مسلمان کہلانے والے عوام نہیں خواص بھی، جہلاء ہی نہیں علماء بھی، ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وعظ و نصیحت اور احکام الٰہی کی یاد دہانی ان کے لئے بےکار ہے، وہ سن کر ان سے ذرا اثر قبول نہیں کرتے اور جن غفلتوں اور کوتاہیوں کا وہ شکار ہیں، ان سے تائب نہیں ہوتے۔ اسی طرح اپنی بدعات، خودساختہ مزعومات اور اپنے تاویلات باطلہ کے اثبات کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کر ڈالتے ہیں۔ 2- یہ تیسرا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں انہیں کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں رہی بلکہ بےعملی اور بدعملی ان کا شعار بن گئی اور وہ پستی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے دل سلیم رہے نہ ان کی فطرت مستقیم۔ 3- یعنی شذر، خیانت اور مکر، ان کے کردار کا جزو بن گیا ہے جس کے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔ 4- یہ تھوڑے سے لوگ وہی ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے اور ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔ 5- عفو و درگزر کا یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا، جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کی جگہ حکم دیا گیا ﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ﴾ (التوبہ: 29)”ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے“۔ بعض کے نزدیک عفو و درگزر کا یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ایک اہم حکم ہے، حالات و ظروف کے مطابق اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس سے بھی بعض دفعہ وہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں جن کے لئے قتال کا حکم ہے۔ المآئدہ
14 1- ”نَصَارَى“ ”نُصْرَةٌ“ (مدد) سے ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوال ﴿مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ﴾ (اللہ کے دین میں کون میرا مددگار ہے؟) کے جواب میں ان کے چند مخلص پیروکاروں نے جواب دیا تھا ﴿نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ﴾ (ہم اللہ کے مددگار ہیں) اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی یہود کی طرح اہل کتاب ہیں۔ ان سے بھی اللہ نے عہد لیا، لیکن انہوں نے بھی اس کی پرواہ نہیں کی، اس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثر پذیری سے خالی اوران کے کردار کھوکھلے ہوگئے۔ 2- یہ عہد الٰہی سے انحراف اور بے عملی کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قیامت تک کے لئے مسلط کر دی گئی۔ چنانچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت وعناد رکھتے اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معبد میں عبادت نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر بھی یہ سزا مسلط کر دی گئی ہے۔ یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے، جن کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت و عناد کی دیواریں حائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ المآئدہ
15 1- یعنی انہوں نے تورات و انجیل میں جو تبدیلیاں اور تحریفات کیں، انہیں طشت از بام کیا اور جن کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کیا، جیسے سزائے رجم۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ 2- نُورٌ اور كِتَابٌ مُبِينٌ دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان ”واو“، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ”يَهْدِي بِهِ اللهُ“ (کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے) اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ”يَهْدِي بِهِمَا اللهُ“ ہوتے (یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے) قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہوگیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت (ﷺ) اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے۔ جیسا کہ وہ اہل بدعت باور کراتے ہیں جنہوں نے نبی کریم (ﷺ) کی بابت ”نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ“ کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اور آپ (ﷺ) کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لئے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی (ﷺ) کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا [ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمُ ] یہ روایت ترمذی اور ابوداود میں ہے۔ محدث البانی لکھتے ہیں: فَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ بِلا رَيبٍ وَهُو من الأَدِلَّةِ الظَّاهِرَةِ عَلَى بُطْلانِ الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ [ أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ نُور نَبِيِّكَ يَا جَابِرُ ] (تعليقات المشكاة جلد 1 ص 34) مشہور حدیث جابر کہ ”اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا“، باطل ہے۔ (خلاصۂ ترجمہ ) المآئدہ
16 المآئدہ
17 1- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور ملکیت تامہ کا بیان فرمایا ہے۔ مقصد عیسائیوں کے عقیدۂ الوہیت مسیح کا رد و ابطال ہے۔ حضرت مسیح کے عین اللہ ہونے کے قائل پہلے تو کچھ ہی لوگ تھے یعنی ایک ہی فرقہ۔ یعقوبیہ۔ کا یہ عقیدہ تھا لیکن اب تقریباً تمام عیسائی الوہیت مسیح کے کسی نہ کسی انداز سے قائل ہیں۔ اسی لئے مسیحیت میں اب عقیدۂ تثلیث یا اقانیم ثلاثہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بہرحال قرآن نے اس مقام پر تصریح کردی کہ کسی پیغمبر اور رسول کو الٰہی صفات سے متصف قرار دینا کفر صریح ہے۔ اس کفر کا ارتکاب عیسائیوں نے، حضرت مسیح کو اللہ قرار دے کر کیا، اگر کوئی اور گروہ یا فرقہ کسی اور پیغمبر کو بشریت ورسالت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کرے گا تو وہ بھی اسی کفر کا ارتکاب کرے گا۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذِهِ الْعَقِيدَةِ الْفَاسِدَةِ. المآئدہ
18 1- یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا۔ اور اپنے آپ کو بھی ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے) اور اس کا محبوب قرار دے لیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں ایک لفظ محذوف ہے یعنی ”أَتْبَاعُ أَبْنَاءِ اللهِ“ ہم اللہ کےبیٹوں (عزیر ومسیح) کے پیروکار ہیں۔ دونوں مفہوموں میں سے کوئی سا بھی مفہوم مراد لیا جائے، اس سے ان کے تفاخر اور اللہ کے بارے میں بےجا اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، جس کی اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں۔ 2- اس میں ان کے مذکورہ تفاخر کا بے بنیاد ہونا واضح کردیا گیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور چہیتے ہوتے یا محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم جو چاہو کرو، اللہ تعالیٰ تم سے بازپرس ہی نہیں کرے گا، تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں سزا کیوں دیتا رہا ہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں فیصلہ، دعووں کی بنیاد پر نہیں ہوتا نہ قیامت والے دن ہوگا، بلکہ وہ تو ا یمان و تقویٰ اور عمل دیکھتا ہے اور دنیا میں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ فرماتا ہے اور قیامت والے دن بھی اسی اصول پر فیصلہ ہوگا۔ 3- تاہم یہ عذاب یا مغفرت کا فیصلہ اسی سنت اللہ کے مطابق ہوگا، جس کی اس نے وضاحت فرما دی ہے کہ اہل ایمان کے لئے مغفرت اور اہل کفر وفسق کے لئے عذاب، تمام انسانوں کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوگا۔ اے اہل کتاب! تم بھی اسی کی پیدا کردہ مخلوق یعنی انسان ہو۔ تمہاری بابت فیصلہ دیگر انسانی مخلوق سے مختلف کیوں کر ہوگا ؟ المآئدہ
19 1- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کے درمیان جوتقریباً 570 یا 600 سال کا فاصلہ ہے یہ زمانۂ فترت کہلاتا ہے۔ اہل کتاب کو کہا جا رہا ہے کہ اس فترت کے بعد ہم نے اپنا آخری رسول (ﷺ) بھیج دیا ہے۔ اب تم یہ بھی نہ کہہ سکو گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر و نذیر پیغمبر ہی نہیں آیا۔ المآئدہ
20 1- بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم کردیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئے۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا۔ جیسے حضرت سلیمان (علیہ السلام)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے آج کل مغربی جمہوریت کا کابوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستاربھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمراں عادل و متقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ 2- یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی طرف، جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے، جیسے من و سلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لئے دریا سے راستہ بنا دینا۔ وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانے میں فضیلت اور اونچے مقام کی حامل تھی لیکن پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد (ﷺ) کی رسالت و بعثت کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہوگیا ہے۔ ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران: 110) ”تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لئے بنایا گیا ہے“، لیکن یہ بھی مشروط ہے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ جو اسی آیت میں بیان کردیا گیا ہے۔ ﴿تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾ ”تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس مقصد کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر امت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔ المآئدہ
21 1- بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے امارت مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہوگئے تھے اور پھر تب سے اس وقت تک مصر ہی میں رہے، جب تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپ کر) مصر سے نکال نہیں لے گئے۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لئے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت موسی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ لیکن اس کے باوجود بنواسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ (ابن کثیر ) 2- اس سے مراد وہی فتح و نصرت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ان سے کر رکھا تھا۔ 3- یعنی جہاد سے اعراض مت کرو۔ المآئدہ
22 1- بنو اسرائیل عمالقہ کی بہادری کی شہرت سے مرعوب ہوگئے اور پہلے مرحلے پر ہی ہمت ہار بیٹھے۔ اور جہاد سے دست بردار ہوگئے۔ اللہ کے رسول حضرت موسی (علیہ السلام) کے حکم کی کوئی پرواہ کی اور نہ اللہ تعالیٰ کے وعدۂ نصرت پر یقین کیا۔ اور وہاں جانے سے صاف انکار کردیا۔ المآئدہ
23 1- قوم موسیٰ (علیہ السلام) میں سے صرف یہ دو شخص صحیح معنوں میں ایماندار نکلے، جنہیں نصرت الٰہی پر یقین تھا، انہوں نے قوم کو سمجھایا کہ تم ہمت تو کرو، پھر دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ تمہیں غلبہ عطا فرماتا ہے۔ المآئدہ
24 1- لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے بد ترین بزدلی، سوء ادبی اور تمرد وسرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”تو اور تیرا رب جا کر لڑے“۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد و قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ ”یا رسول اللہ! ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح قوم موسیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا۔“ (صحيح بخاری، كتاب المغازي والتفسير) المآئدہ
25 1- اس میں نافرمان قوم کے مقابلے میں اپنی بےبسی کا اظہار بھی ہے اور براءت کا اعلان بھی۔ المآئدہ
26 1- یہ میدان تیہ کہلاتا ہے، جس میں چالیس سال یہ قوم اپنی نافرمانی اور جہاد سے اعراض کی وجہ سے سرگرداں رہی۔ اس میدان میں اس کے باوجود ان پر من وسلویٰ کا نزول ہوا، جس سے اکتا کر انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ روز روز ایک ہی کھانا کھا کر ہمارا جی بھر گیا ہے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور دالیں ہمارے لئے پیدا فرمائے۔ یہیں ان پر بادلوں کا سایہ ہوا، پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی مارنے سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے، اور اس طرح کے دیگر انعامات ہوتے رہے۔ چالیس سال بعد پھر ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ یہ بیت المقدس کے اندر داخل ہوئے۔ 2- پیغمبر، دعوت وتبلیغ کے باوجود جب دیکھتا ہے کہ میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں، جس میں اس کے لئے دین ودنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اس کو سخت افسوس اور دلی قلق ہوتا ہے۔ یہی نبی (ﷺ) کا بھی حال ہوتا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا ہے۔ لیکن آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے فریضۂ تبلیغ ادا کردیا اور پیغام الٰہی لوگوں تک پہنچا دیا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان کامیابی کے نقطۂ آغاز پر لاکھڑا کیا۔ لیکن اب وہ اپنی دون ہمتی اور بددماغی کے سبب تیری بات ماننے کو تیار نہیں تو، تو اپنے فرض سے سبک دوش ہو گیا اور اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے موقع پر غمگینی تو ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مراد اس تسلی سے یہ ہے کہ تبلیغ ودعوت کے بعد اب تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔ المآئدہ
27 1- آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔ 2- یہ نذر یا قربانی کس لئے پیش کی گئی؟ اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔ البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتدا میں حضرت آدم وحوا کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتی۔ دوسرے حمل سے پھر لڑکا لڑکی ہوتی، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بہن بھائی سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بدصورت تھی، جب کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی۔ اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا۔ لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کے بہن کی بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ جو خوبصورت تھی، نکاح کرے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا، لیکن وہ نہ سمجھا، بالآخر حضرت آدم (علیہ السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہو جائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کردیا جائے گا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ویسے ہی دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کی بارگاہ میں نذر پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی اور قابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی، ہابیل کی قربانی قبول ہونے پر قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔ المآئدہ
28 المآئدہ
29 1- میرے گناہ کا مطلب، قتل کا وہ گناہ ہے جو مجھے اس وقت ہوتا جب میں تجھے قتل کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ قاتل اورمقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا، اس لئے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا۔ (صحیح بخاری ومسلم كتاب الفتن) المآئدہ
30 1- چنانچہ حدیث میں آتا ہے [ لا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إلا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا؛ لأَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ] (صحيح بخاری، كتاب الأنبياء ومسلم، كتاب القسامة) ”جو قتل بھی ظلماً ہوتا ہے، (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا۔“ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ”ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پر دے دی گئی تھی“۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا [ مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ عُقُوبَتَهُ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدِّخِرُ لِصَاحِبِهِ فِي الآخِرَةِ؛ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ ] (أبو داود، كتاب الأدب- ابن ماجہ، كتاب الزهد ومسند أحمد 5/ 36-38) ”بغی (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مرتکبین کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لئے ذخیرہ ہوگی“ جو انہیں وہاں بھگتنی ہوگی اور قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (ابن کثیر) المآئدہ
31 المآئدہ
32 1- اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے بنو اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے پوچھا یہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لئے تھی؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بنواسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے“ (تفسیر ابن کثیر) 2- اس میں یہود کو زجروتوبیخ ہے کہ ان کے پاس انبیاء دلائل وبراہین لے کر آتے رہے۔ لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا۔ اس میں گویا نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازشیں کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ان کی ساری تاریخ ہی مکروفساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیر الماکرین ہے۔ تمام سازشوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ المآئدہ
33 1- اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی تو نبی (ﷺ) نے انہیں مدینہ سے باہر، جہاں صدقے کے اونٹ تھے، بھیج دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب پیو، اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔ چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہوگئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ ہنکا کر لے گئے۔ جب نبی (ﷺ) کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ (ﷺ) نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی (ﷺ) نے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کاٹ ڈالے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں، (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا حتیٰ کہ وہیں مر گئے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ انہوں نے چوری بھی کی، قتل بھی کیا، ایمان لانے کے بعد کفر بھی کیا اور اللہ ورسول کے ساتھ محاربہ بھی۔ ( صحيح بخاری كتاب الديات، والطب والتفسير- صحيح مسلم كتاب القسامة) یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم عام ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ محاربہ کا مطلب ہے۔ کسی منظم اور مسلح جتھے کا اسلامی حکومت کے دائرے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملے کرنا، قتل وغارت گری کرنا، سلب ونہب، اغوا اور آبروریزی کرنا وغیرہ اس کی جو سزائیں بیان کی گئی ہیں، امام (خلیفۂ وقت) کو اختیار ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے، دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر محاربین نے قتل وسلب کیا اور دہشت گردی کی تو انہیں قتل اور سولی کی سزا دی جائے گی اور جس نے صرف قتل کیا، مال نہیں لیا، اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے قتل کیا اور مال بھی چھینا، اس کا ایک دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ اور جس نے نہ قتل کیا نہ مال لیا، صرف دہشت گردی کی اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ہے کہ سزا دینے میں امام کو اختیار حاصل ہے۔ (فتح القدیر ) المآئدہ
34 1- یعنی گرفتار ہونے سے پہلے اگر وہ توبہ کرکے اسلامی حکومت کی اطاعت کا اعلان کردیں تو پھر انہیں معاف کردیا جائے گا، مذکورہ سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن پھر اس امر میں اختلاف ہےکہ سزاؤں کی معافی کے ساتھ ا نہوں نے قتل کر کے یا مال لوٹ کر یا آبروریزی کرکے بندوں، پر جو دست درازی کی یہ جرائم بھی معاف ہوجائیں گے یا ان کا بدلہ لیا جائے گا، بعض علماء کے نزدیک یہ معاف نہیں ہوں گے بلکہ ان کا قصاص لیا جائے گا۔ امام شوکانی اور امام ابن کثیر کا رحجان اس طرف ہے کہ مطلقاً انہیں معاف کردیا جائے گا اور اسی کو ظاہر آیت کا مقتضی بتلایا ہے۔ البتہ گرفتاری کے بعد توبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے۔ وہ مستحق سزا ہوں گے۔ (فتح القدیر وابن کثیر) المآئدہ
35 1- وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ”اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو“ کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں: ”إِنَّ الْوَسِيلَةَ - الَّتِي هِيَ الْقُرْبَةُ - تَصْدُقُ عَلَى التَّقْوَى وَعَلَى غَيْرِهَا مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ، الَّتِي يَتَقَرَّبُ الْعِبَادُ بِهَا إِلَى رَبِّهِمْ“ (وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے، تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں) اسی طرح منہیات ومحرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے منہیات ومحرمات کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ لیکن جاہلوں نے اس حقیقی وسیلے کو چھوڑ کر قبروں میں مدفون لوگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی (ﷺ) کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ (ﷺ )نے فرمایا ”جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا“۔ (صحیح بخاری- كتاب الأذان، صحيح مسلم، كتاب الصلاة) دعائے وسیلہ جو اذان کے بعد پڑھنی مسنون ہے: [اللَّهُمَّ! رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ؛ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتهُ ]. المآئدہ
36 1- حدیث میں آتا ہے کہ ایک جہنمی کو جہنم سے نکال کر اللہ کی بارگارہ میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا ”تو نے اپنی آرام گاہ کیسی پائی؟“، وہ کہے گا بد ترین آرام گاہ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”کیا تو زمین بھر سونا فدیہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا پسند کرے گا؟“ وہ اثبات میں جواب دے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”میں نے تو دنیا میں اس سے بھی بہت کم کا تجھ سے مطالبہ کیا تھا تو نے وہاں اس کی پروا نہیں کی“، اور اسے دوبارہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحيح مسلم، صفة القيامة، صحيح بخاری، كتاب الرقاق والأنبياء) المآئدہ
37 1- یہ آیت کافروں کے حق میں ہے، کیونکہ مومنوں کو بالآخر سزا کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ المآئدہ
38 1- بعض فقہاء ظاہری کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح وہ حرز (محفوظ جگہ) میں رکھی ہو یا غیر حرز میں۔ ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہاء اس کے لئے حرز اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کی تعیین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب ربع دینار یا تین درہم (یا ان کے مساوی قیمت کی چیز) ہے، اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ (پہنچوں) سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یا کندھے سے نہیں۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔ (تفصیلات کے لئے کتب حدیث و فقہ اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے )۔ المآئدہ
39 1- اس توبہ سے مراد عند اللہ قبول توبہ ہے۔ یہ نہیں کہ توبہ سے چوری یا کسی اور قابل حد جرم کی سزا معاف ہوجائے گی۔ حدود، توبہ سے معاف نہیں ہوں گی۔ المآئدہ
40 المآئدہ
41 1- نبی کریم (ﷺ) کو اہل کفر وشرک کے ایمان نہ لانے اور ہدایت کا راستہ نہ اپنانے پر جو قلق اور افسوس ہوتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو زیادہ غم نہ کرنے کی ہدایت فرما رہا ہے تاکہ اس اعتبار سے آپ کو تسلی رہے کہ ایسے لوگوں کی بابت عنداللہ مجھ سے باز پرس نہیں ہوگی۔ 2- آیت نمبر 41 تا 44 کی شان نزول میں دو واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک تو دو شادی شدہ یہودی زانیوں (مرد وعورت) کا۔ انہوں نے اپنی کتاب تورات میں تو ردوبدل کر ڈالا تھا، علاوہ ازیں اس کی کئی باتوں پر عمل بھی نہیں کرتے تھے۔ ان ہی میں سے ایک حکم رجم بھی تھا جو ان کی کتاب میں شادی شدہ زانیوں کے لئے تھا اور اب بھی موجود ہے لیکن وہ چونکہ اس سزا سے بچنا چاہتے تھے اس لئے آپس میں فیصلہ کیا کہ محمد (ﷺ) کے پاس چلتے ہیں اگر انہوں نے ہمارے ایجاد کردہ طریقہ کے مطابق کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا کا فیصلہ کیا تو مان لیں گے اور اگر رجم کا فیصلہ دیا تو نہیں مانیں گے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہودی نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (ﷺ) نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کی بابت کیا ہے؟ انہوں نے کہا تورات میں زنا کی سزا کوڑے مارنا اور رسوا کرنا ہے۔ عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، جاؤ تورات لاؤ، تورات لا کر وہ پڑھنے لگے تو آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے کی آیات پڑھ دیں۔ عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) نے کہا ہاتھ اٹھاؤ، ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم تھی۔ بالآخر انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ محمد (ﷺ) سچ کہتے ہیں، تورات میں آیت رجم موجود ہے۔ چنانچہ دونوں زانیوں کو سنگسار کردیا گیا۔ (ملاحظہ ہو صحیحین ودیگر کتب حدیث) ایک دوسرا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ یہود کا ایک قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے یہودی قبیلے سے زیادہ معزز اور محترم سمجھتا تھا اور اسی کے مطابق اپنے مقتول کی دیت سو وسق اور دوسرے قبیلے کے مقتول کی پچاس وسق مقرر کر رکھی تھی۔ جب نبی (ﷺ) مدینہ تشریف لائے، تو یہود کے دوسرے قبیلے کو کچھ حوصلہ ہوا جس کے مقتول کی دیت نصف تھی اور اس نے دیت سو وسق دینے سے انکار کردیا۔ قریب تھا کہ ان کے درمیان اس مسئلے پر لڑائی چھڑ جاتی، لیکن ان کے سمجھدار لوگ نبی (ﷺ) سے فیصلہ کرانے پر رضا مند ہوگئے اس موقعے پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں سے ایک آیت میں قصاص میں برابری کا حکم دیا گیا ہے۔ (یہ روایت مسند احمد میں ہے جس کی سند کو شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ہے۔ مسند احمد جلد 1، ص246۔ حدیث نمبر۔2212 ) امام ابن کثیر فرماتے ہیں ممکن ہے دونوں سبب ایک ہی وقت میں جمع ہوگئے ہوں اور ان سب کے لئے ان آیات کا نزول ہوا ہو۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
42 1- ”سَمَّاعُونَ“ کے معنی (بہت زیادہ سننے والے) اس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لئے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لئے سننا۔ بعض مفسرین نے پہلے معنی مراد لئے ہیں اور بعض نے دوسرے۔ المآئدہ
43 المآئدہ
44 1- ﴿لِلَّذِينَ هَادُوا﴾ اس کا تعلق ”يَحْكُمْ“ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔ 2- ”أَسْلَمُوا“ یہ ”نَبِيِّينَ“ کی صفت بیان کی کہ وہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد (ﷺ) دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پیغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید واخلاص پیش کی ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (الأنبياء: 25) ”ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم سب میری ہی عبادت کرو“۔ اسی کو قرآن میں الدين بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ شوریٰ کی آیت 13 ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا﴾ الآية میں کہا گیا ہے، جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لئے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیاء کے لئے کیا تھا۔ 3- چنانچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر وتبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔ 4- کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ 5- یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو، نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے ان میں رد و بدل کرو۔ 6- پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہوگئے ہو؟ المآئدہ
45 1- جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تھا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنونضیر) کا دوسرے قبیلے (بنوقریظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بہ نسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔ 2- یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے نے مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الٰہی کو اپنائے، اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الٰہی میں ظالم متصور ہوگا، فاسق متصور ہوگا اور کافر متصورہوگا۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے تینوں لفظ استعمال کرکے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی؟ ملحوظة: علمائے اصولیین نے لکھا ہے کہ پچھلی شریعت کا حکم، اگر اللہ نے برقرار رکھا ہے تو ہمارے لئے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس آیت میں بیان کردہ حکم غیر منسوخ ہے اس لئے یہ بھی شریعت اسلامیہ ہی کے احکام ہیں جیسا کہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے ﴿النَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ ( جان، بدلے جان کے) کے عموم سے دو صورتیں خارج ہوں گی۔ کہ کوئی مسلمان اگر کسی کافر کو قتل کر دے تو قصاص میں اس کافر کے بدلے مسلمان کو، اسی طرح غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، فتح الباری ونیل الاوطار وغیرہ) المآئدہ
46 1- یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسی (علیہ السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، اس کی تکذیب کرنے والے نہیں، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود بھی یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص واہانت کی۔ 2- یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات وانجیل اور دیگر صحائف آسمانی پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت ونجات کا واحد ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا۔ یہ گویا اسی بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح وکامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا، سرخرو رہے گا۔ جو کٹ گیا ناکامی ونامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ (وحدت ادیان) کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی، اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہوگیا تو انجیل منسوخ ہوگئی، انجیل پر عمل کرنا جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لئے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمدی (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) کو تسلیم کئے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو، سورۂ بقرہ آیت 62 کا حاشیہ۔ المآئدہ
47 1- اہل انجیل کو یہ حکم اس وقت تک تھا، جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا زمانہ تھا۔ نبی (ﷺ) کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دور نبوت بھی ختم ہوگیا۔ اور انجیل کی پیروی کا حکم بھی۔ اب ایماندار وہی سمجھا جائے گا جو رسالت محمدی پر ایمان لائے گا اور قرآن کریم کی اتباع کرے گا۔ المآئدہ
48 1- ہر آسمانی کتاب اپنے سے ماقبل کتاب کی مصدق رہی ہے جس طرح قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُهَيْمِنٌ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف وتغییر بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو یہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے۔ 2- اس سے پہلے آیت نمبر 42 میں نبی (ﷺ) کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں۔ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کریم کے مطابق فیصلے فرمائیں۔ 3- یہ دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آرا یا ان کے خود ساختہ مزعومات وافکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے، جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ 4- اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں جن کے بعض فروعی احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تو دوسری میں حلال تھیں، بعض میں کسی مسئلے میں تشدید تھی تو دوسری میں تخفیف، لیکن دین سب کا ایک یعنی توحید پر مبنی تھا۔ اس لحاظ سے سب کی دعوت ایک ہی تھی۔ اس مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ [ نَحْنُ مَعَاشِرَ الأَنْبِيَاءِ إِخْوَةٌ لِعَلاَّتٍ، دِينُنَا وَاحِدٌ ] (صحیح بخاری) ”ہم انبیا کی جماعت علاتی بھائی ہیں۔ ہمارا دین ایک ہے“۔ علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں باپ ایک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں (دستور اور طریقے) مختلف تھیں۔ لیکن شریعت محمدیہ کے بعد اب ساری شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں ہیں اور اب دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ 5- یعنی نزول قرآن کے بعد اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے لیکن اس راہ نجات کو اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا، لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی، جب کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ المآئدہ
49 المآئدہ
50 1- اب قرآن اور اسلام کے سوا، سب جاہلیت ہے، کیا یہ اب بھی روشنی اور ہدایت (اسلام) کو چھوڑ کر جاہلیت ہی کے متلاشی اور طالب ہیں؟ یہ استفہام، انکار اور توبیخ کے لئے ہے اور (فا) لفظ مقدر پر عطف ہے اور معنی ہیں ”يُعْرِضُونَ عَنْ حُكْمِكَ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ وَيَتَوَلَّوْنَ عَنْهُ، يَبْتَغُونَ حُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ“ (تیرے اس فیصلے سے جو اللہ نے تجھ پر نازل کیا ہے یہ اعراض کرتے اور پیٹھ پھیرتے ہیں اور جاہلیت کے طریقوں کے متلاشی ہیں) (فتح القدیر) 2- حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا [ أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثَةٌ: مُبْتَغٍ فِي الإِسْلامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَطَالِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لْيُرِيقَ دَمَهُ ] (صحیح بخاری- كتاب الديات) ”اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی ہو اور جو ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ہو۔“ المآئدہ
51 1- اس میں یہود ونصاریٰ سے موالات ومحبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے سمجھا جائے گا۔ (مزید دیکھئے سورۂ آل عمران آیت 28 اور آیت 118 کا حاشیہ) 2- قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کا اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض وعناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔ 3- ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری (رضی الله عنہ) اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبداللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لئے گئے، جس پر حضرت عبادہ (رضی الله عنہ) نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کردیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ المآئدہ
52 1- اس سے مراد نفاق ہے، یعنی منافقین یہودیوں سے محبت اور دوستی میں جلدی کر رہے ہیں۔ 2- یعنی مسلمانوں کو شکست ہوجائے اور اس کی وجہ سے ہمیں بھی کچھ نقصان اٹھانا پڑے۔ یہودیوں سے دوستی ہوگی تو ایسے موقعے پر ہمارے بڑے کام آئے گی۔ 3- یعنی مسلمانوں کو۔ 4- یہود ونصاریٰ پر جزیہ عائد کردے یہ اشارہ ہے بنوقریظہ کے قتل اور ان کی اولاد کے قیدی بنانے اور بنونضیر کی جلاوطنی وغیرہ کی طرف، جس کا وقوع مستقبل قریب میں ہی ہوا۔ المآئدہ
53 المآئدہ
54 1- اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا وقوع نبی کریم (ﷺ) کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنۂ ارتداد کے خاتمے کا شرف حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) اور ان کے رفقا کو حاصل ہوا۔ 2- مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی 4 نمایاں صفات بیان کی جارہی ہیں۔ 1۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا۔ 2۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا۔ 3۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ 4۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔ 3- یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ کی اطاعت وفرماں برداری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بھی بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہو جائے، ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ نتیجتاً وہ ان برائیوں کی دلدل سے نکل نہیں پاتے اور حق وباطل سے بچنے کی توفیق سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اسی لئے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔ المآئدہ
55 1- جب یہود ونصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا گیا تو اب اس سوال کا جواب دیا جارہا ہے کہ پھر وہ دوستی کن سے کریں؟ فرمایا کہ اہل ایمان کے دوست سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ہیں اور پھر ان کے ماننے والے اہل ایمان ہیں۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔ المآئدہ
56 1- یہ ”حِزْبُ اللهِ“ (اللہ کی جماعت) کی نشاندہی اور اس کے غلبے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ حزب اللہ وہی ہے جس کا تعلق صرف اللہ، رسول اور مومنین سے ہو اور کافروں، مشرکوں اور یہود ونصاریٰ سے چاہے وہ ان کے قریبی رشتے دار ہوں، وہ محبت وموالات کا تعلق نہ رکھیں، جیسا کہ سورۂ مجادلہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ”تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہوں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، ان کے بیٹے ہوں، ان کے بھائی ہوں یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں پھر خوشخبری دی گئی کہ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جنہیں اللہ کی مدد حاصل ہے، انہیں ہی اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا۔۔ اور یہی حزب اللہ ہے، کامیابی جس کا مقدر ہے“۔ (سورۂ مجادلہ آخری آیت) المآئدہ
57 1- اہل کتاب سے یہود ونصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں، اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہئے۔ المآئدہ
58 1- حدیث میں آتا ہے کہ جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ الحدیث (صحیح بخاری- كتاب الأذان، صحيح مسلم، كتاب الصلاة) شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لئے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث رسول (ﷺ) بھی قرآن کی طرح دین کا ماخذ اور اسی طرح حجت ہے۔ کیونکہ قرآن نے نماز کے لئے ”ندا“ کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ ”ندا“ کس طرح دی جائے گی؟ اس کے الفاظ کیا ہوں گے؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے۔ یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں، جو اس کی حجیت اور ماخذ دین ہونے پر دلیل ہیں۔ حجیت حدیث کا مطلب: حدیث کے ماخذ دین اور حجت شرعیہ ہونے کا مطلب ہے، کہ جس طرح قرآن کریم کی نص سے ثابت ہونے والے احکام وفرائض پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح حدیث رسول (ﷺ) سے ثابت ہونے والے احکام کا ماننا بھی فرض، ان پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ تاہم حدیث کا صحیح مرفوع اور متصل ہونا ضروری ہے۔ صحیح حدیث چاہے متواتر ہو یا آحاد، قولی ہو، فعلی ہو یا تقریری۔ یہ سب قابل عمل ہیں۔ حدیث کا خبر واحد کی بنیاد پر، یا قرآن سے زائد ہونے کی بنیاد پر یا ائمہ کے قیاس واجتہادات کی بنیاد پر یا راوی کی عدم فقاہت کے دعویٰ کی بنیاد پر یا عقلی استحالے کی بنیاد پر یا اسی قسم کے دیگر دعوؤں کی بنیاد پر، رد کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ سب حدیث سے اعراض کی مختلف صورتیں ہیں۔ المآئدہ
59 المآئدہ
60 1- یعنی تم تو (اے اہل کتاب!) ہم سے یوں ہی ناراض ہو جب کہ ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اللہ پر اور قرآن کریم اور اس سے قبل اتاری گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا یہ بھی کوئی قصور یا عیب ہے؟ یعنی یہ عیب اور مذمت والی بات نہیں، جیسا کہ تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ استثنا منقطع ہے۔ البتہ ہم تمہیں بتلاتے ہیں کہ بدترین لوگ اور گمراہ ترین لوگ، جو نفرت اور مذمت کے قابل ہیں، کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوا اور جن میں سے بعض کو اللہ نے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی پوجا کی۔ اور اس آئینے میں تم اپنا چہرہ اور کردار دیکھ لو! کہ یہ کن کی تاریخ ہے اور کون لوگ ہیں؟ کیا یہ تم ہی نہیں ہو؟ المآئدہ
61 1- یہ منافقین کا ذکر ہے۔ جو نبی (ﷺ) کی خدمت میں کفر کے ساتھ ہی آتے ہیں اور اسی کفر کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں، آپ (ﷺ) کی صحبت اور آپ کے وعظ ونصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ دل میں تو کفر چھپا ہوتا ہے اور رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضری سے مقصد ہدایت کا حصول نہیں، بلکہ دھوکہ اور فریب دینا ہوتا ہے۔ تو پھر ایسی حاضری سے فائدہ بھی کیا ہوسکتا ہے؟ المآئدہ
62 المآئدہ
63 1- یہ علماء ومشائخ دین اور عباد وزہاد پر نکیر ہے کہ عوام کی اکثریت تمہارے سامنے فسق وفجور اور حرام خوری کا ارتکاب کرتی ہے لیکن تم انہیں منع نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں تمہاری یہ خاموشی بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتنی اہمیت اور اس کے ترک پر کتنی سخت وعید ہے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی یہ مضمون وضاحت اور کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ المآئدہ
64 1- یہ وہی بات ہے جو سورہ آل عمران کی آیت 181 میں کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اسے اللہ کو قرض حسن دینے سے تعبیر کیا تو ان یہودیوں نے کہا کہ ”اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے“ لوگوں سے قرض مانگ رہا ہے اور وہ تعبیر کے اس حسن کو نہ سمجھ سکے جو اس میں پنہاں تھا۔ یعنی سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا، کوئی قرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اس کی کمال مہربانی ہے کہ وہ اس پر بھی خوب اجر عطا فرماتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ایک دانے کو سات سات سو دانے تک بڑھا دیتا ہے۔ اور اسے قرض حسن سے اسی لئے تعبیر فرمایا کہ جتنا تم خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس سے کئی گنا تمہیں واپس لوٹائے گا۔ ”مَغْلُولَةٌ“ کے معنی ”بَخِيلَةٌ“ (بخل والے) کئے گئے ہیں۔ یعنی یہود کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اللہ کے ہاتھ واقعتاً بندھے ہوئے ہیں، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہاتھ تو انہی کے بندھے ہوئے ہیں“ یعنی بخیلی انہی کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے۔ خرچ کرتا ہے۔ وہ وَاسِعُ الْفَضْلِ اورجَزِيلُ الْعَطَاءِ ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ نیز اس نے اپنی مخلوقات کے لئے تمام حاجات وضروریات کا انتظام کیا ہوا ہے، ہمیں رات یا دن کو، سفرمیں اور حضر میں اور دیگر تمام احوال میں جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، سب وہی مہیا کرتا ہے۔ ﴿وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا إِنَّ الإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ﴾ ( سورۂ ابراہیم: 34) ”تم نے جو کچھ اس سے مانگا، وہ اس نے تمہیں دیا، اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ تم گن نہیں سکتے، انسان ہی نادان اور نہایت ناشکرا ہے“۔ حدیث میں بھی ہے نبی (ﷺ)نے فرمایا: ”اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا ہے لیکن کوئی کمی نہیں آتی، ذرا دیکھو تو، جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کئے ہیں وہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی...“ (البخاری، كتاب التوحيد، باب ﴿ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ ﴾- مسلم، كتاب الزكاة، باب الحث على النفقة) 2- یعنی یہ جب بھی آپ کے خلاف کوئی سازش کرتے یا لڑائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو باطل کردیتا اور ان کی سازش کو انہی پر الٹا دیتا ہے اور ان کو ”چاہ کن را چاہ درپیش“ کی سی صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔ 3- ان کی عادت ثانیہ ہے کہ ہمیشہ زمین میں فساد پھیلانے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتا۔ المآئدہ
65 1- یعنی وہ ایمان، جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے، ان میں سب سے اہم محمد رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ ان پر نازل شدہ کتابوں میں بھی ان کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ ”وَاتَّقَوْا“ اور اللہ کی معاصی سے بچتے، جن میں سب سے اہم وہ شرک ہے جس میں وہ مبتلا ہیں اور وہ جحود ہے جو آخری رسول کے ساتھ وہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ المآئدہ
66 1- تورات اور انجیل کے پابند رہنے کا مطلب، ان کے ان احکام کی پابندی ہے جو ان میں انہیں دیئے گئے، اور انہی میں ایک حکم آخری نبی پر ایمان لانا بھی تھا۔ اور ”وَمَا أُنْزِلَ“ سے مراد تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا ہے جن میں قرآن کریم بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام قبول کرلیتے۔ 2- اوپر نیچے کا ذکر یا تو بطور مبالغہ ہے، یعنی کثرت سے اور انواع واقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا۔ یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ضرورت خوب بارشیں برساتا اور نیچے سے مراد زمین ہے۔ یعنی زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کرکے خوب پیداوار دیتی۔ نتیجتاً شادابی اور خوش حالی کا دور دورہ ہو جاتا۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ﴾ (الأعراف: 96) ”اگر بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہوتا تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکات کے (دروازے) کھول دیتے“۔ 3- لیکن ان کی اکثریت نے ایمان کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ اپنے کفر پر مصر اور رسالت محمدی سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ اسی اصرار اور انکار کو یہاں برے اعمال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ درمیانہ روش کی ایک جماعت سے مراد عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) جیسے 8 ،9 افراد ہیں جو یہود مدینہ میں سے مسلمان ہوئے۔ المآئدہ
67 1- اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ (ﷺ) پر نازل کیا گیا ہے، بلاکم وکاست اور بلاخوف لومۃ لائم آپ لوگوں تک پہنچا دیں، چنانچہ آپ (ﷺ) نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ ”جو شخص یہ گمان کرے کہ نبی (ﷺ) نے کچھ چھپا لیا، اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔“ (صحیح بخاری۔ 4855) اور حضرت علی (رضی الله عنہ) سے بھی جب سوال کیا گیا کہ تمہارے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے نازل شدہ کوئی بات ہے؟ تو انہوں نے قسم کھا کر نفی فرمائی اور فرمایا ”الا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللهُ رَجُلا“ (البتہ قرآن کا فہم ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی کو بھی عطا فرما دے) (صحیح بخاری -نمبر3-69) اورحجۃ الوداع کے موقع پر آپ (ﷺ) نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ”تم میرے بارے میں کیا کہو گے ؟ انہوں نے کہا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ، وَأَدَّيْتَ، وَنَصَحْتَ ( ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کردیا اور خیرخواہی فرما دی)، آپ (ﷺ) نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا [اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ] ( تین مرتبہ) یا [ اللَّهُمَّ فَاشْهَدْ ] ( تین مرتبہ) (صحيح مسلم، كتاب الحج، باب حجة النبي (ﷺ)) یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ 2- یہ حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے چچا ابوطالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی، اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ مسلمان ہوجاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی وہ ہیبت وعظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعہ پھر انصار مدینہ کے ذریعے سے آپ کا تحفظ فرمایا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوگئی تو آپ نے تحفظ کے ظاہری اسباب (پہرے وغیرہ) اٹھوا دیئے۔ اس کے بعد بارہا سنگین خطرے پیش آئے لیکن اللہ نے حفاظت فرمائی۔ چنانچہ وحی کے ذریعے سے اللہ نے وقتاً فوقتاً یہودیوں کے مکر وکید سے مطلع فرماکر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پرخطر حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔ ذَلِكَ مِنْ قُدْرَةِ اللهِ وَقَدَّرَهُ بِمَا شَاءَ، وَلا يَرُدُّ قَدَرَ اللهِ وَقَضَاءَهُ أَحَدٌ وَلا يَغْلِبُهُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ. المآئدہ
68 1- یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال واشیا سے اہل ایمان کے ایمان وتصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر وطغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے۔ مثلاً ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ﴾ (حم السجدة: 44) ”فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانو میں گرانی (بہراپن) ہے اور یہ ان پر اندھاپن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے“۔ ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلا خَسَارًا﴾ (بنی إسرائيل: 82) ”اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو نقصان ہی کا بڑھانا ہے۔ المآئدہ
69 1- یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ بقرۃ کی آیت 62 میں بیان ہوا ہے، اسے دیکھ لیا جائے۔ المآئدہ
70 المآئدہ
71 1- یعنی سمجھے یہ تھے کہ کوئی سزا مترتب نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ اصول الٰہی کے مطابق یہ سزا مترتب ہوئی کہ یہ حق کے دیکھنے سے مزید اندھے اور حق کے سننے سے مزید بہرے ہوگئے اور توبہ کے بعد پھر یہی عمل انہوں نے دہرایا ہے تو اس کی وہی سزا بھی دوبارہ مترتب ہوئی۔ المآئدہ
72 1- یہی مضمون آیت نمبر 17 میں بھی گزر چکا ہے۔ یہاں اہل کتاب کی گمراہیوں کے ذکر میں اس کا پھر ذکر فرمایا۔ اس میں ان کے اس فرقے کے کفر کا اظہار ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عین اللہ ہونے کا قائل ہے۔ 2- چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یعنی مسیح ابن مریم علیہما السلام نے عالم شیرخوارگی میں (اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب کہ بچے اس عمر میں قوت گویائی نہیں رکھتے) سب سے پہلے اپنی زبان سے اپنی عبودیت ہی کا اظہار فرمایا: ﴿إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا﴾ (سورة مريم: 30) ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، مجھے اس نے کتاب بھی عطا کی ہے“۔) حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا، میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں۔ صرف یہ کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اور عمر کہولت میں بھی انہوں نے یہی دعوت دی ﴿إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ﴾ ( آل عمران: 51) یہ وہی الفاظ ہیں جو ماں کی گود میں بھی کہے تھے (ملاحظہ ہو سورۂ مریم: 36) اور جب قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جس کی خبر صحیح احادیث میں دی گئی ہے اور جس پر اہل سنت کا اجماع ہے، تب بھی وہ نبی (ﷺ) کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت کی طرف ہی بلائیں گے، نہ کہ اپنی عبادت کی طرف۔ 3- حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اپنی بندگی اور رسالت کا اظہار اللہ کے حکم اور مشیت سے اس وقت بھی فرمایا تھا جب وہ ماں کی گود میں یعنی شیرخوارگی کی حالت میں تھے۔ پھر سن کہولت میں یہ اعلان فرمایا۔ اور ساتھ ہی شرک کی شناعت وقباحت بھی بیان فرما دی کہ مشرک پر جنت حرام ہے اور اس کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا جو اسے جہنم سے نکال لائے، جیسا کہ مشرکین سمجھتے ہیں۔ المآئدہ
73 1- یہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا ذکر ہے جو تین خداؤں کا قائل ہے، جن کو وہ ”أَقَانِيمُ ثَلاثَةٌ“ کہتے ہیں۔ ان کی تعبیر وتشریح میں اگرچہ خود ان کے مابین اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ، انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی الہیٰ (معبود) قرار دے لیا ہے، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن حضرت عیسی(علیہ السلام) سے پوچھے گا۔ ﴿أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (المائدۃ: 116) ”کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟“۔ اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ اور مریم علیہما السلام، ان دونوں کو عیساؤں نے الٰہ بنایا، اور اللہ تیسرا الٰہ ہوا، جو ”ثَالِثُ ثَلاثَةٍ“ (تین میں کا تیسرا کہلایا) پہلے عقیدے کی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بھی کفر سے تعبیر فرمایا۔ المآئدہ
74 المآئدہ
75 1- ”صِدِّيقَةٌ“ کے معنی مومنہ اور ولیہ کے ہیں یعنی وہ بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں اور ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے تھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ”نَبِيَّةٌ“ (پیغمبر) نہیں تھیں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے اور انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام سمیت، حضرت سارہ (ام اسحاق علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کونَبِيَّةٌ قرار دیا ہے۔ استدلال اس بات سے کیا ہے کہ اول الذکر دونوں سے فرشتوں نے آکر گفتگو کی اور حضرت ام موسیٰ کو خود اللہ تعالیٰ نے وحی کی۔ یہ گفتگو اور وحی نبوت کی دلیل ہے۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ دلیل ایسی نہیں جو قرآن کی نص صریح کا مقابلہ کر سکے۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ ہم نے جتنے رسول بھی بھیجے، وہ مرد تھے۔ (سورۂ یوسف: 109) 2- یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت مریم علیہا السلام دونوں کی الوہیت (الٰہ ہونے) کی نفی اور بشریت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کھانا پینا، یہ انسانی حوائج وضروریات میں سے ہے۔ جو الٰہ ہو، وہ تو ان چیزوں سے ماورا بلکہ وراء الوراء ہوتا ہے۔ المآئدہ
76 1- یہ مشرکوں کی کم عقلی کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایسوں کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ نفع نقصان پہنچانا تو کجا، وہ تو کسی کی بات سننے اور کسی کا حال جاننے کی ہی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ قدرت صرف اللہ ہی کے اندر ہے۔ اس لئے حاجت روا مشکل کشا بھی صرف وہی ہے۔ المآئدہ
77 1- یعنی اتباع حق میں حد سے تجاوز نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، اس میں مبالغہ کرکے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الوہیت پر فائز مت کرو، جیسے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معاملے میں تم نے کیا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمراہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت ومحبت ہوتی ہے، وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے، بدقسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ ا نہوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتیٰ کہ ان کی طرف منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول (ﷺ) کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔ 2- یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت لگو، جو ایک نبی کو الٰہ بنا کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ المآئدہ
78 1- یعنی زبور میں جو حضرت داود (علیہ السلام) پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔ 2- یہ لعنت کے اسباب ہیں:۔ 1۔ عصیان، یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کرکے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔ 2۔ اور اعْتِدَاءٌ یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کرکے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔ المآئدہ
79 1- اس پرمستزاد یہ کہ وہ ایک دوسرے کو برائی سے روکتے نہیں تھے۔ جو بجائے خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ بعض مفسرین نے اسی ترک نہی کو عصیان اور اعتدا قرار دیا ہے جو لعنت کا سبب بنا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا، بہت بڑا جرم اور لعنت وغضب الٰہی کا سبب ہے۔ حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا، اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لئے جائز نہیں۔ لیکن دوسرے روز پھر اسی کے ساتھ اسے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، (یعنی اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا) درآں حالیکہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہیٰ کے مستحق قرار پائے“ پھر فرمایا کہ ”اللہ کی قسم! تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو، ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا کرو (ورنہ تمہارا حال بھی یہی ہوگا )...“ الحدیث (ابو داود- كتاب الملاحم نمبر 4336) ایک دوسری راویت میں اس فریضے کے ترک پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ تم عذاب الٰہی کے مستحق بن جاؤ گے، پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہیں ہوں گی۔ (مسند احمد، جلد 5،ص 388) المآئدہ
80 1- یہ اہل کفر سے دوستانہ تعلق کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا اور اسی ناراضی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ المآئدہ
81 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر صحیح معنوں میں ایمان ہوگا، وہ کافروں سے کبھی دوستی نہیں کرے گا۔ المآئدہ
82 1- اس لئے کہ یہودیوں کے اندر عناد وجحود، حق سے اعراض واستکبار اور اہل علم وایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کا قتل اور ان کی تکذیب ان کا شعار رہا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے قتل کی بھی کئی مرتبہ سازش کی، آپ (ﷺ) پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم سعی کی۔ اور اس معاملے میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔ 2- ”رُهْبَانٌ“ سے مراد نیک، عبادت گزار اور گوشہ نشین لوگ اور ”قِسِّيسِينَ“ سے مراد علماء وخطباء ہیں، یعنی ان عیسائیوں میں علم وتواضع ہے، اس لئے ان میں یہودیوں کی طرح جحود واستکبار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین مسیحی میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو بایاں رخسار بھی اس کو پیش کر دو۔ یعنی لڑو مت۔ ان وجوہ سے یہ مسلمانوں کے، بہ نسبت یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عیسائیوں کا یہ وصف یہودیوں کے مقابلے میں ہے۔ تاہم جہاں تک اسلام دشمنی کا تعلق ہے، کم وبیش کے کچھ فرق کے ساتھ، اسلام کے خلاف یہ عناد عیسائیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب وہلال کی صدیوں پر محیط معرکہ آرائی سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اور اب تو اسلام کے خلاف یہودی اور عیسائی دونوں ہی مل کر سرگرم عمل ہیں۔ اسی لئے قرآن نے دونوں سے ہی دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ المآئدہ
83 المآئدہ
84 1- حبشے میں، جہاں مسلمان مکی زندگی میں دو مرتبہ ہجرت کرکے گئے۔ أَصْحَمَة نجاشی کی حکومت تھی، یہ عیسائی مملکت تھی۔ یہ آیات حبشے میں رہنے والے عیسائیوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاہم روایات کی رو سے نبی (ﷺ) نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری (رضی الله عنہ) کو اپنا مکتوب دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تھا، جو انہوں نے جا کر اسے سنایا، نجاشی نے وہ مکتوب سن کر حبشے میں موجود مہاجرین اور حضرت جعفر بن ابی طالب (رضی الله عنہ) کو اپنے پاس بلایا اور اپنے علماء اور عباد وزہاد (قسیسین) کو بھی جمع کرلیا، پھر حضرت جعفر (رضی الله عنہ) کو قرآن کریم پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت جعفر (رضی الله عنہ) نے سورۂ مریم پڑھی، جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اعجازی ولادت اور ان کی عبدیت ورسالت کا ذکر ہے جس سن کر وہ بڑے متاثر ہوئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور ایمان لے آئے۔ بعض کہتے ہیں کہ نجاشی نے اپنے کچھ علماء نبی (ﷺ) کے پاس بھیجے تھے، جب آپ (ﷺ) نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا تو بےاختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اور ایمان لے آئے۔ (فتح القدیر) آیات میں قرآن کریم سن کر ان پر جو اثر ہوا اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ان کے ایمان لانے کا تذکرہ ہے قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر اس قسم کے عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ﴿وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ﴾ (سورة آل عمران: 199) ”یقیناً اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی، ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے آگے عاجزی کرتے ہیں“ وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ اور حدیث میں آتا ہے کہ جب نجاشی کی موت کی خبر نبی (ﷺ) کو پہنچی تو آپ (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) سے فرمایا کہ حبشے میں تمہارے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے، اس کی نماز جنازہ پڑھو! چنانچہ ایک صحرا میں آپ (ﷺ) نے اس کی نماز جنازہ (غائبانہ) ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری، مناقب الأنصار وكتاب الجنائز، صحيح مسلم، كتاب الجنائز) ایک اور حدیث میں ایسے اہل کتاب کی بابت ، جو نبی (ﷺ) کی نبوت پر ایمان لائے بتلایا گیا ہے کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا (بخاری- كتاب العلم وكتاب النكاح) المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 حدیث میں آتا ہے ایک شخص نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آ کر کہا یا رسول اللہ! (ﷺ) جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہو جاتا ہے، اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا ہے، جس پر آیت نازل ہوئی۔ ( ترمذی- للألباني جلد 3 ص 46) اسی طرح سبب نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ (رضی الله عنہم) زہد وعبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے (مثلاً عورت سے نکاح کرنے، رات کے وقت سونے، دن کے وقت کھانے پینے سے) اجتناب کرنا چاہتے تھے۔ نبی (ﷺ) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ (ﷺ) نے انہیں منع فرمایا۔ حضرت عثمان بن مظعون (رضی الله عنہ) نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی، ان کی بیوی کی شکایت پر آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اس سے روکا۔ (کتب حدیث) بہرحال اس آیت اور احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کرلینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا تعلق ماکولات ومشروبات سے ہو یا لباس سے ہو یا مرغوبات وجائز خواہشات سے۔ مسئلہ:۔ اس طرح اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی، سوائے عورت کے۔ البتہ اس صورت میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ نبی (ﷺ) نے کسی کو بھی کفارۂ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام کرلینا، یہ قسم کھانے کے مرتبے میں ہے جو تکفیر (یعنی کفارہ ادا کرنے) کا متقاضی ہے۔ لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ کی موجودگی میں محل نظر ہے۔ فَالصَّحِيحُ مَا قَالَهُ الشَّوْكَانِيُّ۔ (امام شوکانی کا قول ہی صحیح ہے) المآئدہ
88 المآئدہ
89 1- قَسَمٌ جس کو عربی میں حَلْفٌ یا يَمِينٌ کہتے ہیں جن کی جمع أَحْلافٌ اور ایمان ہے، تین قسم کی ہیں۔ لَغْوٌ، غَمُوسٌ اور مُعَقَّدَةٌ، لَغْوٌ: وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادتًا بغیر ارادہ اور نیت کے کھاتا رہتا ہے۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ غَمُوسٌ: وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے۔ یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے۔ لیکن اس پر کفارہ نہیں۔ مُعَقَّدَةٌ: وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے ارادۃً اورنیتہً کھائے ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔ 2- اس کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے، اس لئے اختلاف ہے۔ البتہ امام شافعی نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے، جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے، ایک مد (تقریباً 10/ چھٹانک) فی مسکین خوراک قرار دی ہے۔ کیونکہ نبی (ﷺ) نے اس شخص کو کفارۂ جماع ادا کرنے کے لئے 15 صاع کھجوریں دی تھیں، جنہیں ساٹھ مسکینوں پر تقسیم کرنا تھا۔ ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لئے دس مد (یعنی سوا چھ سیر یا چھ کلو) خوراک کفارہ ہوگی۔ (ابن کثیر ) 3- لباس کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ بظاہر مراد جوڑا ہے جس میں انسان نماز پڑھ سکے۔ بعض علماء خوراک اور لباس دونوں کے لئے عرف کو معتبر قرار دیتے ہیں۔ (حاشیہ ابن کثیر، تحت آیت زیر بحث ) 4- بعض علماء قتل خطا کی دیت پر قیاس کرتے ہوئے لونڈی، غلام کے لئے ایمان کی شرط عائد کرتے ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں، آیت میں عموم ہے مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔ 5- یعنی جس کو مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے، یہ روزے اس کی قسم کا کفارہ ہو جائیں گے۔ بعض علماء پےدرپے روزے رکھنے کے قائل ہیں اور بعض کے نزدیک دونوں طرح جائز ہیں۔ المآئدہ
90 1- یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔ لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ، جوا پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال کے تیروں کو رجس (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کر کے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آؤ گے یا نہیں؟ جس سے مقصود اہل ایمان کی آزمائش ہے۔ چنانچہ جو اہل ایمان تھے، وہ تو منشائے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہوگئے۔ اور کہا انْتَهَيْنَا رَبَّنَا! اے رب ہم باز آگئے (مسند أحمدجلد 2، صفحہ 351) لیکن آج کل کے بعض دانشور کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے؟ ”برین عقل ودانش بباید گریست“ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا، نیز اس اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا مجتہدین کے نزدیک حرمت کے لئے کافی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک پلید کام بھی جائز ہے، شیطانی کام بھی جائز ہے، جس کے متعلق اللہ اجتناب کا حکم دے، وہ بھی جائز ہے اور جس کی بابت کہے کہ اس کا ارتکاب عدم فلاح اور اس کا ترک فلاح کا باعث ہے، وہ بھی جائز ہے۔ إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ المآئدہ
91 1- یہ شراب اور جوا کے مزید معاشرتی اور دینی نقصانات ہیں، جو محتاج وضاحت نہیں ہیں۔ اسی لئے شراب کو ام الخبائث کہا جاتا ہے اور جوا بھی ایسی بری لت ہے کہ یہ انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی اور بسااوقات رئیس زادوں اور پشتینی جاگیرداروں کو مفلس وقلاش بنا دیتی ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُمَا۔ المآئدہ
92 المآئدہ
93 1- حرمت شراب کے بعد بعض صحابہ رضی اللہ عنھم کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمارے کئی ساتھی جنگوں میں شہید یا ویسے ہی فوت ہوگئے۔ جب کہ وہ شراب پیتے رہے ہیں۔ تو اس آیت میں اس شبہے کا ازالہ کردیا گیا کہ ان کا خاتمہ ایمان وتقویٰ پر ہی ہوا ہے کیونکہ شراب اس وقت تک حرام نہیں ہوئی تھی۔ المآئدہ
94 1- شکار عربوں کی معاش کا ایک اہم عنصر تھا، اس لئے حالت احرام میں اس کی ممانعت کرکے ان کا امتحان لیا گیا۔ خاص طور پر حدیبیہ میں قیام کے دوران کثرت سے شکار صحابہ رضی اللہ عنھم کے قریب آتے، لیکن انہی ایام میں ان 4 آیات کا نزول ہوا جن میں اس سے متعلقہ احکام بیان فرمائے گئے۔ 2- قریب کا شکار یا چھوٹے جانور عام طور پر ہاتھ ہی سے پکڑ لئے جاتے ہیں اور دور کے یا بڑے جانوروں کے لئے تیر اور نیزے استعمال ہوتے تھے۔ اس لئے صرف ان دونوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ جس طرح بھی اور جس چیز سے بھی شکار کیا جائے، احرام کی حالت میں ممنوع ہے۔ المآئدہ
95 1- امام شافعی نے اس سے مراد، صرف ان جانوروں کا قتل لیا ہے جو ماکول اللحم ہیں یعنی جو کھانے کے کام میں آتے ہیں۔ دوسرے بری جانوروں کا قتل وہ جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک اس میں کوئی تفریق نہیں، ماکول اور غیرماکول دونوں قسم کے جانور اس میں شامل ہیں۔ البتہ ان موذی جانوروں کا قتل جائز ہے جن کا استثنا احادیث میں آیا ہے اور وہ پانچ ہیں کوا، چیل، بچھو، چوہا اور باؤلا کتا۔ (صحيح مسلم، كتاب الحج، باب ما يندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، وموطأ إمام مالك) حضرت نافع سے سانپ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، اس کے قتل میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں۔ (ابن کثیر) اور امام احمد اور امام مالک اور دیگر علماء نے بھیڑئیے، درندے، چیتے اور شیر کو کلب عقور (کاٹنے والے کتے) میں شامل کرکے حالت احرام میں ان کے قتل کی بھی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر) 2- ”جان بوجھ کر“ کے الفاظ سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ بغیر ارادہ کے یعنی بھول کر قتل کر دے تو اس کے لئے فدیہ نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک بھول کر، یا غلطی سے بھی قتل ہو جائے تو فدیہ واجب ہوا۔ ”مُتَعَمِّدًا“ کی قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط نہیں ہے۔ 3- مساوی جانور (یا اس جیسے جانور) سے مراد خلقت یعنی قدوقامت میں مساوی ہونا ہے۔ قیمت میں مساوی ہونا نہیں ہے، جیسا کہ احناف کا مسلک ہے۔ مثلاً اگر ہرن کو قتل کیا ہے تو اس کی مثل (مساوی) بکری ہے۔ گائے کی مثل نیل گائے ہے۔ وغیرہ۔ البتہ جس جانور کا مثل نہ مل سکتا ہو، وہاں اس کی قیمت بطور فدیہ لے کر مکہ پہنچا دی جائے گی۔ 4- کہ مقتول جانور کی مثل (مساوی) فلاں جانور ہے اور اگر وہ غیر مثلی ہے یا مثل دستیاب نہیں ہے تو اس کی اتنی قیمت ہے۔ اس قیمت سے غلہ خرید کر مکہ کے مساکین میں فی مسکین ایک مد کے حساب سے تقسیم کردیا جائے گا۔ احناف کے نزدیک فی مسکین دو مد ہیں۔ 5- یہ فدیہ، جانور یا اس کی قیمت، کعبہ پہنچائی جائے گی اور کعبہ سے مراد حرم ہے، (فتح القدیر) یعنی ان کی تقسیم حرم مکہ کی حدود میں رہنے والے مساکین پر ہوگی۔ 6- ”او“ (یا) تخييرکے لئے ہے یعنی کفارہ، اطعام مساکین ہو یا اس کے برابر روزے۔ دونوں میں سے کسی ایک پر عمل کرنا جائز ہے۔ مقتول جانور کے حساب سے طعام میں جس طرح کمی بیشی ہوگی، روزوں میں بھی کمی بیشی ہوگی۔ مثلاً محرم (احرام والے) نے ہرن قتل کیا ہے تو اس کی مثل بکری ہے، یہ فدیہ حرم مکہ میں ذبیح کیا جائے گا، اگر یہ نہ ملے تو ابن عباس (رضی الله عنہ) کے ا یک قول کے مطابق چھ مساکین کو کھانا یا تین دن کے روزے رکھنے ہوں گے، اگر اس نے بارہ سنگھا، سانبھر یا اس جیسا کوئی جانور قتل کیا ہے تو اس کی مثل گائے ہے، اگر یہ دستیاب نہ ہو یا اس کی طاقت نہ ہو تو بیس مسکین کو کھانا یا بیس دن کے روزے رکھنے ہوں گے۔ یا ایسا جانور (شترمرغ یا گورخر وغیرہ) قتل کیا ہے جس کی مثل اونٹ ہے تو اس کی عدم دستیابی کی صورت میں 30 مساکین کو کھانا یا 30 دن کے روزے رکھنے ہوں گے۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
96 1- ”صَيْدٌ“ سے مراد زندہ جانور اورطَعَامُهُ سے مراد وہ مردہ (مچھلی وغیرہ) ہے جسے سمندر یا دریا باہر پھینک دے یا پانی کے اوپر آجائے۔ جس طرح کہ حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ تفسیر ابن کثیر اور نیل الاوطار وغیرہ ) المآئدہ
97 1- کعبہ کو البیت الحرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی حدود میں شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح اس میں اگر باپ کے قاتل سے بھی سامنا ہو جاتا تو اس سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے”قِيَامًا لِلنَّاسِ“ (لوگوں کے قیام اور گزران کا باعث) قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعے سے اہل مکہ کا نظم وانصرام بھی صحیح ہے اور ان کے معاشی ضروریات کی فراہمی کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح حرمت والے مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) اور حرم میں جانے والے جانور (ھدی اور قلائد) بھی قِيَامًا لِلنَّاسِ ہیں کہ تمام چیزوں سے بھی اہل مکہ کو مذکورہ فوائد حاصل ہوتے تھے۔ المآئدہ
98 المآئدہ
99 المآئدہ
100 1- ”خَبِيثٌ“ (ناپاک) سے مراد حرام، یا کافر یا گناہ گار یا ردی۔ ”طیب“ (پاک) سے مراد حلال، یا مومن یا فرماں بردار اور عمدہ چیز ہے یا یہ سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس چیز میں خبث (ناپاکی) ہوگی وہ کفر ہو، فسق وفجور ہو، اشیا واقوال ہوں، کثرت کے باوجود وہ ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن میں پاکیزگی ہو۔ یہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ اس لئے خبث کی وجہ سے اس چیز کی منفعت اور برکت ختم ہوجاتی ہے جب کہ جس چیز میں پاکیزگی ہوگی اس سے اس کی منفعت اور برکت میں اضافہ ہوگا۔ المآئدہ
101 1- یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی (ﷺ) بھی صحابہ (رضی الله عنہم) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ (ﷺ) نے فرمایا ”مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی“۔ (صحيح البخاری نمبر 7289، وصحيح مسلم، كتاب الفضائل باب توقيره (ﷺ) وترك إكثار سؤاله) المآئدہ
102 1- کہیں اس کوتاہی کے مرتکب تم بھی نہ ہو جاؤ۔ جس طرح ایک مرتبہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے“ ایک شخص نے سوال کیا؟ کیا ہر سال؟ آپ (ﷺ) خاموش رہے، اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا، پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہر سال حج کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوتا“۔ (صحيح مسلم، كتاب الحج حديث نمبر 412، ومسند أحمد، سنن أبي داود، نسائي، ابن ماجه) اسی لئے بعض مفسرین نے ”عَفَا ٱللَّهُ عَنۡهَا“ کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ جس چیز کا تذکرہ اللہ نے اپنی کتاب میں نہیں کیا ہے، پس وہ ان چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ نے معاف کردیا ہے۔ پس تم بھی ان کی بابت خاموش رہو، جس طرح وہ خاموش رہا۔ (ابن کثیر) ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے اس مفہوم کو بایں الفاظ بیان فرمایا: [ ذَرُونِي مَا تُرِكْتُمْ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَثْرَةُ سُؤَالِهِمْ، وَاخْتِلافُهُمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ ] (صحيح مسلم، كتاب وباب مذكور) ”تمہیں جن چیزوں کی بابت نہیں بتایا گیا، تم مجھ سے ان کی بابت سوال مت کرو، اس لئے کہ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف بھی تھا۔“ المآئدہ
103 1- یہ ان جانوروں کی قسمیں ہیں جو اہل عرب اپنے بتوں کی نذر کر دیا کرتے تھے۔ ان کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب (رحمۃ اللہ علیہ) سے صحیح بخاری میں اس کی تفسیر حسب ذیل نقل کی گئی ہے۔”بَحِيرَةٍ“: وہ جانور، جس کا دودھ دوہنا چھوڑ دیا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ بتوں کے لئے ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اس کے تھنوں کو ہاتھ نہ لگاتا۔ ”سَآئِبَة“: وہ جانور، جسے وہ بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے، اسے نہ سواری کے لئے استعمال کرتے نہ باربرداری کے لئے۔ ”وَصِيلَةٍ“: وہ اونٹنی، جس سے پہلی مرتبہ مادہ پیدا ہوتی اور اس کے بعد پھر دوبارہ بھی مادہ ہی پیدا ہوتی۔ (یعنی ایک مادہ کے بعد دوسری مادہ مل گئی، ان کے درمیان کسی نر سے تفریق نہیں ہوئی) ایسی اونٹنی کو بھی وہ بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے اور ”حَامٍ“: وہ نر اونٹ، جس کی نسل سے کئی بچے ہوچکے ہوتے۔ (اور نسل کافی بڑھ جاتی) تو اس سے بھی باربرداری یا سواری کا کام نہ لیتے اور بتوں کے لئے چھوڑ دیتے اور اسے وہ حامی کہتے۔ اسی روایت میں یہ حدیث بھی بیان کی گئی ہے کہ سب سے پہلے بتوں کے جانور آزاد چھوڑنے والا شخص عمروبن عامر خزاعی تھا۔ نبی (ﷺ) فرماتے ہیں کہ میں نے اسے جہنم میں انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا (صحیح بخاری- تفسير سورة المائدة) آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو اس طرح مشروع نہیں کیا ہے، کیونکہ اس نے تو نذر ونیاز صرف اپنے لئے خاص کر رکھی ہے۔ بتوں کے لئے نذرونیاز کے طریقے مشرکوں نے ایجاد کئے ہیں اور بتوں اور معبودان باطل کے نام پر جانور چھوڑنے اور نذر نیاز پیش کرنے کا یہ سلسلہ آج بھی مشرکوں میں بلکہ بہت سے نام نہاد مسلمانوں میں بھی قائم و جاری ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ المآئدہ
104 المآئدہ
105 1- بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ امربالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کردے گا تو اس کا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا؟ جب کہ قرآن نے ﴿إِذَااهْتَدَيْتُمْ﴾(جب تم خود ہدایت پر چل رہے ہو) کی شرط عائد کی ہے۔ اسی لئے جب ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا کہ ”لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو، میں نے تو نبی (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے“۔ (مسند أحمد جلد 1ص5، ترمذی نمبر 2178، أبو داود نمبر 4338) اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔ البتہ ایک صورت میں امر بالعروف ونہی المنکر کا ترک جائز ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اندر اس کی طاقت نہ پائے اور اس سے اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس صورت میں [ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيْمَانِ ] کے تحت اس کی گنجائش ہے۔ آیت بھی اس صورت کی متحمل ہے۔ المآئدہ
106 1- تم میں سے ہوں کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ موصی (وصیت کرنے والے) کے قبیلے سے ہوں۔ اسی طرح ﴿آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ﴾ میں دو مفہوم ہوں گے یعنی ﴿مِنْ غَيْرِكُمْ﴾سے مراد یا غیر مسلم (اہل کتاب) ہوں گے یا موصی کے قبیلے کے علاوہ کسی اور قبیلے سے۔ 2- یعنی سفر میں کوئی ایسا شدید بیمار ہوجائے کہ جس سے زندہ بچنے کی امید نہ ہو تو وہ سفر میں دو عادل گواہ بنا کر جو وصیت کرنا چاہے، کردے۔ 3- یعنی مرنے والےمُوصِي کے ورثا کو شک پڑ جائے کہ ان اوصیا نے مال میں خیانت یا تبدیلی کی ہے تو وہ نماز کے بعد یعنی لوگوں کی موجودگی میں ان سے قسم لیں اور وہ قسم کھا کے کہیں ہم اپنی قسم کے عوض دنیا کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ یعنی جھوٹی قسم نہیں کھا رہے ہیں۔ المآئدہ
107 1- یعنی جھوٹی قسمیں کھائیں ہیں۔ 2- ”أَوْلَيَانِ“، أَوْلَى کا تثنیہ ہے، مراد ہے میت یعنی موصی (وصیت کرنے والے) کے قریب ترین دو رشتے دار ﴿مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ ... کا مطلب یہ ہے جن کے مقابلے پر گناہ کا ارتکاب ہوا تھا یعنی جھوٹی قسم کا ارتکاب کرکے ان کو ملنے والا مال ہڑپ کرلیا تھا۔”الأوْلَيَانِ“ یہ یا تو”هُمَا“ مبتدا محذوف کی خبر ہے یا”يَقُومَانِ“ یا ”آخَرَانِ“ کی ضمیر سے بدل ہے۔ یعنی یہ دو قریبی رشتے دار، ان کی جھوٹی قسموں کے مقابلے میں اپنی قسم دیں گے۔ المآئدہ
108 1- یہ اس فائدے کا ذکر ہے جو اس حکم میں پنہاں ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنےمیں اوصیا صحیح صحیح گواہی دیں گے کیونکہ انہیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کاروائیاں خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔ اس واقعہ کی شان نزول میں بدیل بن ابی مریم کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شام تجارت کی غرض سے گئے، وہاں بیمار اور قریب المرگ ہوگئے، ان کے پاس سامان اور چاندی کا ایک پیالہ تھا، جو انہوں نے دو عیسائیوں کے سپرد کرکے اپنے رشتہ داروں تک پہنچانے کی وصیت کردی اور وہ خود فوت ہوگئے، یہ دونوں وصی جب واپس آئے تو پیالہ تو انہوں نے بیچ کر پیسے آپس میں تقسیم کرلئے اور باقی سامان ورثا کو پہنچا دیا۔ سامان میں ایک رقعہ بھی تھا جس میں سامان کی فہرست تھی جس کی رو سے چاندی کا پیالہ گم تھا، ان سے کہا گیا تو انہوں نے جھوٹی قسم کھالی لیکن بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ پیالہ انہوں نے فلاں صراف کو بیچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان غیرمسلموں کے مقابلے میں قسمیں کھا کر ان سے پیالے کی رقم وصول کی۔ یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے۔ (ترمذی نمبر 3059، بہ تحقيق أحمد شاكر- مصر) تاہم ایک دوسری سند سے حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) سے بھی مختصراً یہ مروی ہے، جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحيح ترمذی، جلد 3، نمبر 2449) المآئدہ
109 1- انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم تو یقیناً انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی ہولناکیوں اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت وعظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو کلیتاً صرف اللہ ہی کو ہے۔ اسی لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو، توہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء ورسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ انبیاء کو جتنا کچھ بھی علم ہوتا ہے، اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ثانیاً ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی ہی آگاہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو، نہ کسی کے بتلانے پر اور جس کو بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہوا اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا، نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہے۔ فَافْهَمْ وَتَدَبَّرْ وَلا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ المآئدہ
110 1- اس سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 87 میں گزرا۔ 2- گود میں اس وقت کلام کیا، جب حضرت مریم علیہا السلام اپنے اس نومولود (بچے) کو لے کر اپنی قوم میں آئیں اور انہوں نے اس بچے کو دیکھ کر تعجب کا اظہار اور اس کی بابت استفسار کیا تو اللہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے شیرخوارگی کے عالم میں کلام کیا اور بڑی عمر میں کلام سے مراد، نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد دعوت وتبلیغ ہے۔ 3- اس کی وضاحت سورۃ آل عمران کی آیت 48 میں گزرچکی ہے۔ 4- ان معجزات کا ذکر بھی مذکورہ سورت کی آیت 49 میں گزرچکا ہے۔ 5- یہ اشارہ ہے اس سازش کی طرف جو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کرنے اور سولی دینے کے لئے تیار کی تھی۔ جس سے اللہ نے بچا کر انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ ملاحظہ ہو حاشیہ سورۃ آل عمران آیت 54۔ 6- ہر نبی کے مخالفین، آیات الٰہی اور معجزات دیکھ کر انہیں جادو ہی قرار دیتے رہے ہیں۔ حالانکہ جادو تو شعبدہ بازی کا ایک فن ہے، جس سے انبیاء علیہم السلام کو کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں انبیاء کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات قادر مطلق، اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت وطاقت کا مظہر ہوتے تھے، کیونکہ وہ اللہ ہی کے حکم سے اور اس کی مشیت وقدرت سے ہوتے تھے۔ کسی نبی کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا اللہ کے حکم اور مشیت کے بغیر کوئی معجزہ صادر کرکے دکھا دیتا، اسی لئے یہاں بھی دیکھ لیجئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہر معجزے کے ساتھ اللہ نے چار مرتبہ یہ فرمایا ”بِإِذْنِي“ کہ (ہر معجزہ میرے حکم سے ہوا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی (ﷺ) سے مشرکین مکہ نے مختلف معجزات کے دکھانے کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 91۔93 میں ذکر کی گئی ہے تو اس کے جواب میں نبی ﷺ نے یہی فرمایا ﴿سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلاَّ بَشَرًا رَسُولاً﴾ (میرا رب پاک ہے (یعنی وہ تو اس کمزوری سے پاک ہے کہ وہ یہ چیزیں نہ دکھا سکے، وہ تو دکھا سکتا ہے لیکن اس کی حکمت اس کی مقتضی ہے یا نہیں؟ یا کب مقتضی ہوگی؟ اس کا علم اسی کو ہے اور اسی کے مطابق وہ فیصلہ کرتا ہے) لیکن میں تو صرف بشر اور رسول ہوں) یعنی میرے اندر یہ معجزات دکھانے کی اپنے طور پر طاقت نہیں ہے۔ بہرحال انبیاء کے معجزات کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو جادوگر اس کا توڑ مہیا کرلیتے۔ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے سے ثابت ہے کہ دنیا بھر کے جمع شدہ بڑے بڑے جادوگر بھی حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کے معجزے کا توڑ نہ کرسکے اور جب ان کو معجزہ اور جادو کا فرق واضح طور پر معلوم ہوگیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ المآئدہ
111 1- ”حَوَارِيِّينَ“ سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وہ پیروکار ہیں جو ان پر ایمان لائے اور ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد 12 بیان کی جاتی ہے۔ وحی سے مراد یہاں وہ وحی نہیں جو بذریعہ فرشتہ انبیا علیہم السلام پر نازل ہوتی تھی بلکہ یہ وحی الہام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کے دلوں میں القا کردی جاتی ہے، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم علیہا السلام کو اسی قسم کا الہام ہوا جسے قرآن نے وحی ہی سے تعبیر کیا ہے۔ المآئدہ
112 مَائِدَةً“ ایسے برتن (سینی، پلیٹ یا ٹرے وغیرہ) کو کہتے ہیں جس میں کھانا ہو۔ اسی لئے دسترخوان بھی اس کا ترجمہ کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی کھانا چنا ہوتا ہے۔ سورت کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں اس کا ذکر ہے حَوَارِيِّينَ نے مزید اطمینان قلب کے لئے یہ مطالبہ کیا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتی کے مشاہدے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ 2- یعنی یہ سوال مت کرو، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش کا سبب بن جائے کیونکہ حسب طلب معجزہ دکھائے جانے کے بعد اس قوم کی طرف سے ایمان میں کمزوری عذاب کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اس مطالبے سے روکا اور انہیں اللہ سے ڈرایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے وحی کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت مریم نَبِيَّةٌ تھیں، اس لئے کہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے وحی آئی تھی، صحیح نہیں۔ اس لئے کہ یہ وحی، وحی الہام ہی تھی، جیسے یہاں ﴿أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ﴾ میں ہے یہ وحی رسالت نہیں ہے۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 1- اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا ہے کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بےہنگم طریقے سے طرب ومسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیسا کہ آج کل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ بلکہ آسمانی شریعتوں میں اس کی حیثیت ایک ملی تقریب کی ہوتی ہے، جس کا اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس روز پوری ملت اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی تکبیر وتحمید کے زمزمے بلند کرے۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس دن کو عید بنانے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف وتمجید اور تکبیر وتحمید کریں۔ بعض اہل بدعت اس عید مائدہ سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں۔ حالانکہ اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے، جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کردی جاتی۔ دوسرے یہ پیغمبر کی زبان سے عید بنانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ تیسرے عید کا مفہوم ومطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ عید میلاد میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے۔ لہذا عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔ ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں ہے۔ المآئدہ
115 1- یہ ”مَائِدَةٌ“ (خوان طعام) آسمان سے اترا یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صحیح اور صریح مرفوع حدیث نہیں۔ جمہور علماء (امام شوکانی اور امام ابن جریر طبری سمیت) اس کے نزول کے قائل ہیں اور ان کا استدلال قرآن کے الفاظ ﴿إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ﴾ سے ہے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو یقیناً سچا ہے لیکن اسے اللہ کی طرف سے یقینی وعدہ قرار دینا اس لئے صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ اگلے الفاظ ”فَمَنْ يَكْفُرْ“ اس وعدے کو مشروط ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرط سن کر انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جس کے بعد اس کا نزول نہیں ہوا۔ امام ابن کثیر نے ان آثار کی اسانید کو جو امام مجاہد اور حضرت حسن بصری سے منقول ہیں، صحیح قرار دیا ہے۔ نیز کہا ہے کہ ان آثار کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نزول مائدہ کی کوئی شہرت عیسائیوں میں ہے، نہ ان کی کتابوں میں درج ہے۔ حالانکہ اگر یہ نازل ہوا ہوتا تو اسے ان کے ہاں مشہور بھی ہونا چاہئے تھا اور کتابوں میں بھی تواتر سے یا کم از کم آحاد سے نقل ہونا چاہئے تھا۔ واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ المآئدہ
116 1- یہ سوال قیامت والے دن ہوگا اور مقصد اس سے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لینے والوں کی زجروتوبیخ ہے کہ جن کو تم معبود اور حاجت روا سمجھتے تھے، وہ تو خود اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی الٰہ (معبود) بنایا ہے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مِنْ دُونِ اللهِ (اللہ کے سوا معبود) وہی نہیں ہیں جنہیں مشرکین نے پتھر یا لکڑی کی مورتیوں کی شکل میں بنا کر ان کی پوجا کی، جس طرح آج کل کے قبر پرست علماء اپنےعوام کو یہ باور کراکے مغالطہ دیتے ہیں۔ بلکہ وہ اللہ کے نیک بندے بھی مِنْ دُونِ اللهِ میں شامل ہیں جن کی لوگوں نے کسی بھی انداز سے عبادت کی۔ جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم کی عیسائیوں نے کی۔ 2- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کتنے واضح الفاظ میں اپنی بابت علم غیب کی نفی فرما رہے ہیں۔ المآئدہ
117 1- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے توحید وعبادت رب کی یہ دعوت عالم شیرخوارگی میں بھی دی، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے اور عمر جوانی وکہولت میں بھی۔ 2- ”تَوَفَّيْتَنِي“ کا مطلب ہے جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا جیسا کہ اس کی تفصیل سورۃ آل عمران کی آیت 55 میں گزرچکی ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ پیغمبروں کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے یا جس کا مشاہدہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتلائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اس کا علم ازل سے ابد تک پر محیط ہوتا ہے۔ یہ صفت علم اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں۔ اس لئے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ میدان محشر میں نبی (ﷺ) کی طرف آپ کے کچھ امتی آنے لگیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ کر دوسری طرف لے جائیں گے، آپ (ﷺ) فرمائیں گے ان کو آنے دو یہ تو میرے امتی ہیں، فرشتے آپ کو بتلائیں گے ”إِنَّكَ لا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ“ (اے محمد! (ﷺ)) آپ ج نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں جب آپ یہ سنیں گے، تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت یہی کہوں گا جو العبد الصالح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ﴾ (صحیح بخاری، تفسير سورة المائدة وكتاب الأنبياء- صحيح مسلم، باب فناء الدنيا وبيان الحشر يوم القيامة المآئدہ
118 1- یعنی مطلب یہ کہ یا اللہ! ان کا معاملہ تیری مشیت کے سپرد ہے، اس لئے کہ تو فَعَّالٌ لما يُرِيدُ بھی ہے، (جو چاہے کر سکتا ہے) اور تجھ سے کوئی بازپرس کرنے والا بھی نہیں ہے۔ ﴿لا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ﴾ (الأنبياء: 23 ) اللہ جو کچھ کرتا ہے، اس سے بازپرس نہیں ہوگی، لوگوں سے ان کے کاموں کی باز پرس ہوگی۔ گویا آیت میں اللہ کے سامنے بندوں کی عاجزی و بےبسی کا اظہار بھی ہے اور اللہ کی عظمت وجلالت اور اس کے قادر مطلق اور مختار کل ہونے کا بیان بھی اور پھر ان دونوں باتوں کے حوالے سے عفوومغفرت کی التجا بھی۔ سبحان اللہ! کیسی عجیب وبلیغ آیت ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ ایک رات نبی (ﷺ) پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اسے ہی پڑھتے رہے، حتیٰ کہ صبح ہوگئی۔ (مسند احمد جلد 5، ص 149) المآئدہ
119 1- حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) نے اس کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں ''يَنْفَعُ الْمُوَحِّدِينَ تَوْحِيدُهُمْ'' وہ دن ایسا ہوگا کہ صرف توحید ہی موحدین کو نفع پہنچائے گی، یعنی مشرکین کی معافی اورمغفرت کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ المآئدہ
120 المآئدہ
0 الانعام
1 1- ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی انواع بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی تمام انواع کو شامل ہے۔ (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے، چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں، اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔ 2- یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ الانعام
2 1- یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم جو خوارک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہی غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جاکر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔ 2- یعنی موت کا وقت۔ 3- یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمیٰ ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال وفنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کاآغاز ہوجائے گا۔ 4- یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفارومشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح ہمیں دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا“ (سورۃ یٰسین) الانعام
3 1- اہل سنت یعنی سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے یعنی اس کے علم وخبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور وہ اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ استدلال بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے، وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو، سب کو جانتا ہے۔ (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً تفسیر طبری وابن کثیر وغیرہ۔ الانعام
4 الانعام
5 1- یعنی اس اعراض اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استہزانہ کرتے۔ الانعام
6 1- یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں درآں حالیکہ وہ طاقت وقوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فراوانی میں بھی تم سے بہت بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ بہت کامیاب وکامران ہے۔ یہ استدراج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ 2- تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔ الانعام
7 1- یہ ان کے عناد وجحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتۂ الٰہی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور اسے ایک ساحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسری مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ﴿وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ 1- لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ﴾ (الحجر: 14،15) ”اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے ہماری آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے“، ﴿وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ﴾ (الطور: 44) ”اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہہ بہ تہہ بادل ہیں“۔ یعنی عذاب الٰہی کی کوئی نہ کوئی ایسی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الٰہی کا کوئی دخل انہیں تسلیم کرنا نہ پڑے۔ حالانکہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ الانعام
8 1- اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت ورہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیا ورسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی ورسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضۂ تبلیغ ودعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات وجذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت ورہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے ﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ (آل عمران: 164) ”اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا“۔ لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لئے حیرت واستعجاب کا باعث رہی۔ وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں، فرشتوں میں سے ہونا چاہیئے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی۔ جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ ﴿تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ اہل کفر وشرک، رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ ان کے خاندان، حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کردیتے رہے۔ جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے (جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے) اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے توانہیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔ الانعام
9 1- یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول (ﷺ) بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو آ نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب ومانوس ہونے کے بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن یہ تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا بھی کیا فائدہ؟ الانعام
10 الانعام
11 الانعام
12 1- جس طرح حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر یہ لکھ دیا [ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي ] یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے“۔ (صحيح بخاری، كتاب التوحيد، وبدء الخلق، مسلم كتاب التوبة)، لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد، فرماں برداراور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کرنے کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ عموم صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دارالجزا ہے، وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر وفسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ﴾ (الأعراف: 156) ”اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں“۔ الانعام
13 الانعام
14 1- ”وَلِيٌّ“ سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔ الانعام
15 1- یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔ الانعام
16 1- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا :﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ﴾ (آل عمران: 185 ) ”جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا“، اس لئے کہ کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے۔ اور جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا؟ الانعام
17 1- یعنی نفع وضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم وقضا کو کوئی رد کرنےوالا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے [ اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ](صحيح بخاری، كتاب الاعتصام والقدر والدعوات- مسلم كتاب الصلاة والمساجد)۔ ”جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس سے تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی“، نبی (ﷺ) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ الانعام
18 1- یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بےبس ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان وعطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔ الانعام
19 1- یعنی اللہ تعالیٰ ہی اپنی وحدانیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔ 2- ربیع بن انس (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ اب جس کے پاس بھی یہ قرآن پہنچ جائے۔ اگر وہ سچا متبع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ (ﷺ) نے لوگوں کو دعوت دی اور اس طرح ڈرائے جس طرح آپ (ﷺ) نے لوگوں کو ڈرایا۔ (ابن کثیر) الانعام
20 1- ”يَعْرِفُونَهُ“ میں ضمیر کا مرجع رسول (ﷺ) ہیں یعنی اہل کتاب آپ (ﷺ) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ (ﷺ) کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔ فَإِنْ كُنْتَ لا تَدْرِي فَتِلْكَ مُصِيبَةٌ وَإِنْ كُنْتَ تَدْرِي فَالْمُصِيبَةُ أَعْظَمُ ”اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے“۔ الانعام
21 1- یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اسی طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوائے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کئے ہیں اور یوں یقیناً نبی (ﷺ) کی یہ پیش گوئی پوری ہوگئی کی تیس جھوٹے دجال ہوں گے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گذشتہ صدی میں بھی قادیان کے ایک شحض نے نبوت کا دعویٰ کیا اور آج اس کے پیروکار اسے اس لئے سچا نبی اوربعض مسیح موعود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔ 2- جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ مفتری (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ مکذب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔ الانعام
22 الانعام
23 1- فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں۔ بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کرکے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں ثُمَّ لَمْ يَكُنْ قِيلُهُمْ عِنْدَ فِتْنَتِنَا إِيَّاهُمْ اعْتِذَارًا مِمَّا سَلَفَ مِنْهُمْ مِنَ الشِّرْكِ بِاللهِ۔ ”جب ہم انہیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں انہوں نے جو شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے چارہ نہیں ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے“ یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی، پھر یہ انکار کس طرح کریں گے؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کرکے اپنے شرک کرنے سے ہی انکار کردیں گے تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤ ں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور پھر یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ (ابن کثیر) الانعام
24 1- لیکن وہاں اس کذب صریح کا کوئی فائدہ انہیں نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو وہ اللہ کا شریک اپنا حمایتی ومددگار سمجھتے تھے، غائب ہوں گے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ الانعام
25 1- یعنی یہ مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بے فائدہ ہے۔ 2- علاوہ ازیں مُجَازَاةً عَلَى كُفْرِهِمْ ان کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصراور ان کے کان حق کو سننےسے عاجز ہیں۔ 3- اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد وجحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں کہتے ہیں۔ الانعام
26 1- یعنی عام لوگوں کو آپ (ﷺ) سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔ 2- لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا بگڑے گا؟ اس طرح کے کام کرکے وہ خود ہی بےشعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔ الانعام
27 1- یہاں ”لَوْ“ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہو گی ’’تو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا“۔ 2- لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً ﴿رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ، قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلا تُكَلِّمُونِ﴾ (المؤمنون: 107، 108) ”اے ہمارے رب! ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اسی میں ذلیل وخوار پڑے رہو، مجھ سے بات نہ کرو“۔ ﴿رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ﴾ (الم السجدة: 12) ”اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، اب ہمیں یقین آگیا ہے“۔ الانعام
28 1- بَلْ جو إِضْرَاب ( یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لئے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے لئے وہ کفر اور عناد وتکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکارکرتے تھے، جیسے وہاں بھی ابتداءً کہیں گے مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یا رسول اللہ (ﷺ) اور قرآن کریم کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا، لیکن اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا۔ یا منافقین کا وہ نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر) 2- یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ الانعام
29 1- یہ بَعْث بَعْد الْمَوْتِ (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر وعصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدۂ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر وعصیان کے راستے سے فوراً تائب ہو جائے۔ الانعام
30 1- یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔ الانعام
31 1- اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دوچار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے ”فَرَّطْنَا فِيهَا“ میں ضمیر ”الساعۃ“ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی۔ یا ”الصَّفْقَةُ“ (سودا) کی طرف راجع ہے، جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے۔ اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا۔ یعنی یہ سودا کرکے ہم نے سخت کوتاہی کی، یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر وشرک کا ارتکاب کرکے جو کوتاہیاں کیں۔ (فتح القدیر ) الانعام
32 الانعام
33 1- نبی (ﷺ) کو کفار کی طرف سے اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم وحزن پہنچتا، اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو تو وہ صادق وامین مانتے ہیں) دراصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اوریہ ایک ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایت میں ہے کہ ابوجہل نے ایک بار رسول اللہ (ﷺ) سے کہا اے محمد! ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ترمذی کی یہ راویت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (ﷺ) کی امانت ودیانت اور صداقت کے قائل تھے، لیکن اس کے باوجود وہ آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے۔ آج بھی جو لوگ نبی (ﷺ) کے حسن اخلاق، رفعت کردار اور امانت وصداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے اور اس موضوع پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (ﷺ) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے؟ الانعام
34 1- نبی (ﷺ) کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہاہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے۔ پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں جس طرح انہوں نے تکذیب اور ایذا پر صبر سے کام لیا، حتیٰ کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہمار ی مدد آجائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے ﴿إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ (المؤمن: 51) ”یقیناً ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے“۔ ﴿كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي﴾ (المجادلة: 21) ”اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے“، وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ . (مثلا الصافات: 171، 172) 2- بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب ومنصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 3- جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انہیں جھٹلایا، انہیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصۂ حیات تنگ کردیا، لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی وکامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔ الانعام
35 1- نبی (ﷺ) کو معاندین وکافرین کی تکذیب سے جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگاکر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھا دیں، تو اول آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر دکھائیں بھی تو یہ ایمان لانے کے نہیں۔ کیوں کہ ان کا ایمان نہ لانا، اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل وفہم نہیں کرسکتے۔ البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اختیار وارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لئے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا، اس کے لئے لفظ ”كُنْ“ سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔ 2- یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت وافسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت وتقدیر سے ہے، اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت ومصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔ الانعام
36 1- اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں، یہ بھی چونکہ اپنی عقل وفہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے، اس لئے یہ بھی مردہ ہی ہیں۔ الانعام
37 1- یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کردے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کر دیا جائے، جس طرح بنی اسرائیل پر کیا گیا۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ تو یقینًا ایسا کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے ابتلا کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فوراً انہیں اسی دنیا میں سخت سزا دے دی جاتی۔ یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔ 2- جو اللہ کے حکم ومشیت کی حکمت بالغہ کا ادراک نہیں کرسکتے۔ الانعام
38 1- یعنی انہیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انہیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت وعلم کے تحت داخل ہیں۔ 2-کتاب (دفتر) سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ﴾ (النحل: 89) ”ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے“۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔ 3- یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کرکے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا بھی حساب کتاب ہوگا۔ جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا“۔ (صحيح مسلم-نمبر 1997) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے۔ یعنی سب کو موت آئے گی۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے۔ اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں، وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں۔ اور حدیث مذکور (جس میں بکری سے بدلہ لئے جانے کا ذکر ہے) بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب وکتاب کی اہمیت وعظمت کو واضح کرنا ہے۔ یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کرکے ظالم سے مظلوم کا بدلہ دلا دیا جائے گا۔ پھر دونوں معدوم کر دیئے جائیں گے۔ (فتح القدیر وغیرہ) اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ الانعام
39 1- آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے چونکہ اپنے کانوں سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہوسکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہوگئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ پھر فرمایا: تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوجاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اور اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 26 کا حاشیہ) الانعام
40 الانعام
41 1- ”أَرَأيْتَكُمْ“ میں کاف اور میم خطاب کے لئے ہے اس کے معنی ”أَخْبِرُونِي“ (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ آیت 165 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسانی ماحول، یا آبا واجداد کی تقلید نا سدید میں مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا ومشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر ونیاز بھی انہی کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب کسی ابتلا سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یہ سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بےاختیار انسان پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیے۔ کاش! لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔ الانعام
42 الانعام
43 1- قومیں جب اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہو کر ا پنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے، ان کے دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے۔ بلکہ اپنی بداعمالیوں پر تاویلات وتوجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہوتا ہے۔ الانعام
44 الانعام
45 1- اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انہیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔“ (مسند أحمد، جلد 4، صفحہ 145) قرآن کریم کی اس آیت اور حدیث نبوی (ﷺ) سے معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اور خوش حالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے، جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں ﴿أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ (الأنبياء: 105) کا مصداق قرار دے کر انہیں (اللہ کے نیک بندے) تک قرار دیتے ہیں۔ ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے، گمراہ قوموں یا افراد کی دنیوی خوش حالی، ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر ومعاصی کا صلہ ہے۔ الانعام
46 1- آنکھیں، کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضاء وجوارح ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کرلے جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضاء ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضاء کو ویسے ہی ختم کردے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، مگر یہ کہ وہ خود کسی کو بچانا چاہے۔ آیات کو مختلف پہلوؤں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کہ کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب وترہیب کے ذریعے سے، اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔ الانعام
47 1- ”بَغْتَةً“ (بےخبری) سے مراد رات اور ”جَهْرَةً“ (خبرداری) سے دن مراد ہے، جسے سورۂ یونس میں ﴿بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا﴾ (سورة يونس: 50) سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آجائے یا رات کو۔ یا پھربَغْتَةً وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آجائے اورجَهْرَةً وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر وطغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاوز کرجاتی ہیں۔ الانعام
48 1- وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جزیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھا ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔ 2- مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انہیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کرسکے، اس پر وہ مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں ہی جہانوں کا رب ہے۔ الانعام
49 1- یعنی ان کو عذاب اس لئے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر وتکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پرواہ نہیں کی اور اس کے محارم ومناہی کا ارتکاب بلکہ اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔ الانعام
50 1- میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت وطاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن ومشیت کے بغیر کوئی ایسا بڑا معجزہ صادر کرکے دکھا سکوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر تمہیں میری صداقت کا یقین ہوجائے۔ میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات میں تمہیں مطلع کر دوں، مجھے فرشتہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کہ تم مجھے ایسے خرق عادات امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: [ أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ ] مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول (ﷺ) ہی ہے۔ 2- یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا، گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن وکافر برابر نہیں ہوسکتے۔ الانعام
51 الانعام
52 1- یعنی یہ بےسہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکین کے اس طعن یا مطالبہ سے کہ اے محمد! (ﷺ) تمہارے اردگرد توغربا وفقرا کا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انہیں ہٹاو تو ہم بھی تمہارے ساتھ بیٹھیں، ان غربا کو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی حساب ان کے متعلق نہیں اور ان کا آپ کے متعلق نہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا جو آپ کے شایان شان نہیں۔ مقصد امت کو سمجھانا ہے کہ بےوسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور ان سے وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔ اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہوں۔ الانعام
53 1- ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز رؤسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا، انہیں تعذیب واذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ جن پراللہ نے احسان فرمایا ہے؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو یہ سب سے پہلے ہم پر ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ﴾ (الأحقاف: 11) ”اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے“ یعنی ان ضعفا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔ 2- یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے کہ اس کے شکرگزار بندے اور حق شناس کون ہیں؟ پس اس نے جن کے اندر شکرگزاری کی خوبی دیکھی، انہیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ ”اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔“ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه) الانعام
54 1- یعنی ان پر سلام کرکے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدرافزائی کریں۔ 2- اور انہیں خوشخبری دیں کہ تفضل واحسان کے طور پر اللہ تعالی نے اپنے شکرگزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا [ إنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي ] (صحيح بخاری ومسلم) ”میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے“۔ 3- اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے کہ اگر نادانی سے یا بہ تقاضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں تو پھر فوراً توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ وانابت سے اعراض نہیں کرتے۔ الانعام
55 الانعام
56 1- یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کر دوں تو یقیناً میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت وپرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ گمراہی اتنی ہی عام بھی ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔ هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى- الانعام
57 1- مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ (ﷺ) پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ [ إِنَّ اللهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صِوَرِكُمْ وَلا إِلى أَلْوَانِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ ] (صحيح مسلم ومسند أحمد / 539،85۔ابن ماجہ، كتاب الزهد، باب القناعة) 2- تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلد ہی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت یا کذب کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ یا تباہ کردے اور چاہے تو اس وقت تک تمہیں مہلت دے جب تک اس کی حکمت اس کی مقتضی ہو۔ 3- ”يَقُصُّ“ ”قَصَصٌ“ سے ہے یعنی يَقُصُّ قَصَصَ الْحَقّ (حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے) یا قَصَّ أَثَرَهُ (کسی کے پیچھے، پیروی کرنا) سے ہے یعنی يَتَّبِعُ الْحَقَّ فِيمَا يَحْكُمُ بِهِ (اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے)۔ (فتح القدیر ) الانعام
58 1- یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ تعالیٰ میرے اختیار میں یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلد ہی فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ کلیتاً اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل فرما دے۔ ضروری وضاحت: حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقعے پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی (ﷺ) کے خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ (ﷺ) حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والا پیدا فرمائے گا، جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے“ (صحيح بخاری، كتاب بدء الخلق، باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء ... وصحيح مسلم، كتاب الجهاد باب ما لقي النبي من أذى المشركين) یہ حدیث آیت زیرِ وضاحت کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے، اس لئے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جب کہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کئے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ (ﷺ) نے پسند نہیں فرمایا۔ الانعام
59 1- ”كِتَابٌ مُبِينٌ“ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں، اس لئے کفار ومشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات، اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ (صحيح بخاری تفسير سورة الأنعام) الانعام
60 1- یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئےاسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے۔ (وفات کی وضاحت کے لئے دیکھیئے آل عمران کی آیت 55 کا حاشیہ) 2- یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کر دیتا ہے۔ 3- یعنی یہ سلسلہ شب وروز اور وفات اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا۔ 4- یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ الانعام
61 1- یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّيِّينَ میں اور اگر بد ہوتا ہے تو سِجِّينٌ میں، بھیج دیتا ہے۔ الانعام
62 1- آیت میں ”رُدُّوْا“ (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ میں لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) اور پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی توجیہ بعض مفسرین نے اس طرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ ﴿اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا﴾ (الزمر: 42) اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے، اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے۔ ﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ﴾ (الم السجدة: 11) کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتۂ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے، اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورۂ نساء آیت 97 اور الانعام آیت 93 میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل آمر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں، وہ رگوں، شریانوں، پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کانے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کرکے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے۔ (تفسير روح المعاني جلد 5، صفحہ 5) حافظ ابن کثیر، امام شوکانی اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورۂ الم السجدۃ کی آیت سے اور مسند احمد (جلد 4، صفحہ 287) میں حضرت براء بن عازب (رضی الله عنہ) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان وانصار ہیں۔ اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے۔ (تفسير ابن كثير - الم السجدة )- والله أعلم- الانعام
63 الانعام
64 الانعام
65 1- یعنی آسمان سے، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب۔ یا امرا وحکام کی طرف سے ظلم وستم۔ 2- جیسے دھنسایا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہوجائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بددیانت اور خائن ہوجائیں۔ 3- ”يَلْبِسَكُمْأَيْ يَخْلُطَ أَمْرَكُمْ تمہارے معاملے کو غلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاوء۔ ”وَيُذِيقَ“: أَيْ يَقْتلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَتُذِيقَ كُلُّ طَائِفَةٍ الأُخْرَى أَلَمَ الْحَرْبِ۔ تمہارا ایک، دوسرے کو قتل کرے۔ اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کو لڑائی کا مزہ چکھائے (ایسرالتفاسیر) حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں۔۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے۔ 2۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ 3۔ آپس میں ان کی لڑائی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں۔ اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا۔ (صحیح مسلم، نمبر 2216) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف وَانْشِقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن وحدیث سے اعراض ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق وکردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے۔ جس میں تبدیلی ممکن نہیں ﴿فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلا، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا﴾ (فاطر: 43) الانعام
66 1- ”به“ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب (فتح القدیر ) 2- یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ (الكهف: 9) الانعام
67 الانعام
68 1- آیت میں خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ نساء آیت نمبر 140 میں بھی یہ مضمون گزرچکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جارہا ہو یا عملاً ان کا استخفاف کیا جا رہا ہو یا اہل بدعت واہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔ ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے، بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الٰہی کا باعث ہے۔ الانعام
69 1- ”مِنْ حِسَابِهِمْ“ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزا کرنے والوں سے ہے۔ یعنی جو لوگ ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے، تو استہزا بآیات اللہ کا جو گناہ، استہزا کرنے والوں کو ملے گا، وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔ 2- یعنی اجتناب وعلیحدگی کے باوجود وعظ ونصیحت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدور ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔ الانعام
70 1- ”تُبْسَلَأي: لِئَلاَّ تُبْسَلَ، بَسَلٌ کے اصل معنی تو منع کے ہیں، اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں۔ (1) تُسَلَّمُ (سونپ دیئے جائیں) (2) تُفْضَحُ (رسوا کردیا جائے) (3) تُؤَاخَذُ (مواخذہ کیا جائے) (4) تُجَازَى (بدلہ دیا جائے)۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ایک ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہیں اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کمایا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کردیاجائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے (پھنس نہ جائے) سے تعبیر کیا ہے۔ 2- دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی سفارش سے یا مالی معاوضہ دے کرچھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے۔ وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لے، نہ کوئی سفارشی ہو گا جو انہیں عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ دینے کے لئے کچھ ہوگا، اگر بالفرض ہو بھی تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ الانعام
71 1- یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ان ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راستے پر جارہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران وپریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجعت اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔ 2- مطلب یہ ہے کہ کفر وشرک اختیار کرکے جو گمراہ ہوگیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا، اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا ﴿فَإِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ﴾ (النحل: 37) ”اگر تو ان کی ہدایت کی خواہش رکھتا ہے (تو کیا ؟) بےشک اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا، جس کو وہ گمراہ کر دے، اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔“ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بنایا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے۔ جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جاچکی ہے۔ الانعام
72 1- ”وَأَنْ أَقِيمُوا“ کا عطف لِنُسْلِمَ پر ہے یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے مطیع ہوجائیں اور یہ کہ ہم نماز قائم کریں اور اس سے ڈریں۔ تسلیم وانقیاد الٰہی کے بعد سب سے پہلا حکم اقامت صلوۃ کا دیا گیا ہے جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے اور اس کے بعد تقویٰ کا حکم ہے کہ نماز کی پابندی تقویٰ اور خشوع کے بغیر ممکن نہیں ﴿وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ (البقرة: 45 ) الانعام
73 1- حق کے ساتھ یا بافائدہ پیدا کیا، یعنی ان کو عبث اور بےفائدہ (کھیل کود کے طور پر) پیدا نہیں کیا، بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔ 2- ”يَوْمَ“ فعل محذوف وَاذْكُر یا وَاتَّقُوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ کن (ہوجا) سے وہ جو چاہے گا، ہوجائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے۔ لیکن کن کے لئے؟ ایمان داروں کے لئے۔ دوسروں کو تو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔ 3- ”صُورٌ“ سے مراد وہ نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ”اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہیٰ کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انہیں کہا جائے تو اس میں پھونک دیں“۔ (ابن کثیر) ابوداود اور ترمذی میں ہے ”الصور قرن ينفخ فيه“ (نمبر 474۔ 4030 ،344) ”صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا“ بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے، نَفْخَةُ الصَّعْقِ (جس سے تمام لوگ بےہوش ہو جائیں گے) نَفْخَةُ الفَنَاءِ جس سے تمام لوگ فنا ہوجائیں گے۔ نَفْخَةُ الإِنْشَاءِ جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔ الانعام
74 1- مورخین حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہٰذا یہی صحیح ہے۔ الانعام
75 1- ”مَلَكُوتٌ“ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبہ سے رَغَبُوتٌ اور رَهْبَةٌ سے رَهَبُوتٌ اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت والوہیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم (عليہ السلام) کو مکاشفہ ومشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر) الانعام
76 1- یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے کہ غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہوسکتا۔ الانعام
77 الانعام
78 1- ”شَمْسٌ“ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا ووجود کے لئے اس کی اہمیت وافادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔ 2- یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لئے آخر میں قوم سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔ الانعام
79 1- رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے، مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود، اللہ عزوجل ہے جو آسمان وزمین کا خالق ہے۔ الانعام
80 1- جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لئے کچھ نہ کچھ دلائل تراش رکھے تھے۔ جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں، سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لئے ایسے (سہارے) تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ (دلائل) سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔ الانعام
81 1- یعنی مومن اور مشرک میں سے؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی دلیل کوئی نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا؟ الانعام
82 1- آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ (رضی الله عنہم) نے ظلم کا عام مطلب (کوتاہی، غلطی، گناہ، زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں آ کر کہنے لگے أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَه ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا اس سے وہ ظلم مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ جس طرح حضرت لقمان (عليہ السلام) نے اپنے بیٹے کو کہا تھا ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمان: 13) ”یقیناً شرک ظلم عظیم ہے“۔ (صحيح بخاری ، تفسير سورة الأنعام)۔ الانعام
83 1- یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم (عليہ السلام) کی قوم سے نہ بن پڑا۔ اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا، ﴿وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ﴾ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ﴾۔ الانعام
84 1- یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورۂ ہود،آیت 73،72 میں ہے، پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (عليہ السلام) ہوگا، جس کے معنی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے کہ یہ عقب (پیچھے) سے مشتق ہے۔ 2- ”ذُرِّيَّتِهِ“ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (عليہ السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں۔ یعنی حضرت نوح (عليہ السلام) کی اولاد میں سے داود اور سلیمان علیہما السلام کو۔ اور بعض نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو۔ اس لئے کہ ساری گفتگو ان ہی کے ضمن میں ہو رہی ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (عليہ السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیئے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (عليہ السلام) میں سے نہیں ہیں۔ وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (عليہ السلام) کے بھتیجے ہیں۔ اور ابراہیم (عليہ السلام) ، لوط (عليہ السلام) کے باپ نہیں، چچا ہیں۔ لیکن بطور تغلیب انہیں بھی ذریت ابراہیم (عليہ السلام) میں شمار کر لیا گیا ہے۔ اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے۔ جہاں حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کو اولاد یعقوب (عليہ السلام) کے آبا میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے۔ (دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 133) الانعام
85 1- عیسیٰ (عليہ السلام) کا ذکر حضرت نوح (عليہ السلام) یا حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اولاد میں اس لئے کیا گیا ہے (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شمار ہوتی ہے۔ جس طرح نبی (ﷺ) نے حضرت حسن (رضی الله عنہ) (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی الله عنہا) کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا [ إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ، مِنَ الْمُسْلِمِينَ ] صحيح بخاری ، كتاب الصلح، باب قول النبي للحسن بن علي، ابني هذا سيد ( تفصیل کے لئے دیکھیئے تفسیر ابن کثیر) الانعام
86 الانعام
87 1-آباء سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہیں۔ یعنی ان کے اصول وفروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام اجتبا اور ہدایت سے نوازا اجْتِبَاءٌ کے معنی ہیں چن لینا اور اپنے خاص بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہجَبَيْتُ الْمَاءَ فِي الحَوْضِ( میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا) سے مشتق ہے۔ پس اجْتِبَاءٌ کا مطلب ہوا اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔اصْطِفَاءٌ تخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے۔ جس کا مفعول مصطفیٰ (مجتبیٰ) مخلص اور مختار ہے۔ (فتح القدیر) الانعام
88 1- اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی (ﷺ) سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ (الزمر: 65) ”اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے“۔ حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔ الانعام
89 1- اس سے مراد رسول اللہ (ﷺ) کے مخالفین، مشرکین اور کفار ہیں۔ 2- اس سے مراد مہاجرین وانصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔ الانعام
90 1- اس سے مراد انبیا مذکورین ہیں۔ ان کی اقتدا کا حکم مسئلہ توحید میں اور ان احکام وشرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے۔ (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں، گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا۔ جیسا کہ آیت ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا﴾ (الشورى: 3) سے واضح ہے۔ 2- یعنی تبلیغ ودعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا وہ صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عنداللہ ملے گا۔ 3-جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انہیں کفر وشرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھیے۔ والا معاملہ ہوگا۔ الانعام
91 1- قَدَرٌ کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ ارسال رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انہیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے۔ علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ کسی انسان پر اللہ کا کلام کس طرح نازل ہوسکتا ہے؟ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ﴾ (يونس:20) ”کیا یہ بات لوگوں کے لئے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کرکے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کر دیا ہے؟“ دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولا﴾ (بني إسرائيل: 94) ”ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لئے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے؟“ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر 8 کے حاشیے میں بھی گزرچکی ہے۔ آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اسی خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ (عليہ السلام) پر تورات کس نے نازل کی تھی؟ (جس کو یہ بھی مانتے ہیں) 2- آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو، ظاہر کردیتے ہو اور جن کو چاہتے ہو، چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی (ﷺ) کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے: ”يَجْعَلُونَهُ“، اور ”يُبْدُونَهَا“ صیغہ غائب کے ساتھ والی قرات کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہوسکتا ہے؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت ورسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے متعلق اور تیسرے آیت کے ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور ”تَجْعَلُونَهُ“ سے یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ وَاللهُ أَعْلَمُ. 3- یہود سے متعلق ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔ 4- یہ ”مَنْ أَنْزَلَ“ (کس نے اتارا) کا جواب ہے۔ الانعام
92 الانعام
93 1- ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ غَمَرَاتٌ سے موت کی سختیاں مراد ہیں۔ ”فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے“ یعنی جان نکالنے کے لئے۔ الْيَوْمَ) سے مراد قبض روح کا دن ہے اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبدا قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آ تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد اور آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے . چاہے اسے کسی درندے نے کھا لیا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ 2- اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے۔ اسی طرح نبوت ورسالت کا انکار واستکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انہیں ذلت ورسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔ الانعام
94 1- فُرَادَى فَرْدٌ کی جمع ہے جس طرح سُكَارَى سَكْرَانٌ کی اور كُسَالَى كَسْلانٌ کی جمع ہے۔ مطلب ہے کہ تم علیحدہ علیحدہ ایک ایک کرکے میرے پاس آؤ گے۔ تمہارے ساتھ نہ مال ہوگا نہ اولاد اور نہ وہ معبود، جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا۔ یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں فائدہ پہنچانے پر قادر نہ ہوگی۔ اگلے جملوں میں ان ہی امور کی مزید وضاحت ہے۔ الانعام
95 1- یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بےمثل قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ فرمایا:۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گٹھلی (نواة، جمع نوى) کو، جسے کاشت کار زمین کی تہہ میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع واقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے، پانی بھی، جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے، لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلوں اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرما دیتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا بھی، کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کرسکتا ہو؟ 2- یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا، پھیلتا اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبودار، رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ یا سونگھ کر انسان فرحت وانبساط محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔ 3- یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کردیتا ہے۔ الانعام
96 1- اندھیرے اور روشنی کا خالق بھی وہی ہے۔ وہ رات کی تاریکی سے صبح روشن پیدا کرتا ہے جس سے ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔ 2- یعنی رات کو تاریکیوں میں بدل دیتا ہے تاکہ لوگ روشنی کی تمام مصروفیات ترک کرکے آرام کرسکیں۔ 3- یعنی دونوں کے لئے ایک حساب بھی مقدر ہے جس میں کوئی تغیر واضطراب نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کی اپنی اپنی منزلیں ہیں، جن پر وہ گرمی اور سردی میں رواں رہتے ہیں، جس کی بنیاد پر سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی اور گرمی میں اس کے برعکس دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔ جس کی تفصیل سورۂ یونس 5، سورۃ یٰسین 40 اور سورۂ اعراف 54 میں بھی بیان کی گئی ہے۔ الانعام
97 1- ستاروں کا یہاں یہ ایک اور فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رُجُومًا للشَّيَاطِينِ۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔ بعض سلف کا قول ہے ”مَن اعْتَقَدَ فِي هَذِهِ النُّجُومِ غَيْرَ ثَلاثِ، فقد أَخْطَأَ وكَذَبَ عَلَى اللهِ“ ان تین باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارےمیں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ بے بنیاد بھی ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ (حصہ) بتلایا گیا ہے۔ [ مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمَاً مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ ] (حسنه الألباني صحيح أبي داود رقم 3905) الانعام
98 1- اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَرٌّ سے رحم مادر اور مُسْتَوْدَعٌ سے صلب پدر مراد ہے۔ (فتح القدیر، ابن کثیر) الانعام
99 1- یہاں سے اس کی ایک اور عجیب صنعت (کاریگری) کا بیان ہو رہا ہے یعنی بارش کا پانی۔ جس سے وہ ہر قسم کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ 2- اس سے مراد وہ سبز شاخیں اور کونپلیں ہیں جو زمین میں دبے ہوئے دانے سے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ظاہر فرماتا ہے، پھر وہ پودا یا درخت نشوونما پاتا ہے۔ 3- یعنی ان سبز شاخوں سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔ جس طرح گندم اور چاول کی بالیاں ہوتی ہیں۔ مراد یہ سب غلہ جات ہیں مثلاً جو، جوار، باجرہ، مکئی، گندم اور چاول وغیرہ۔ 4- قِنْوَانٌ قِنْوٌ کی جمع ہے جیسے صِنْوٌ اور صِنْوَانٌ ہے۔ مراد خوشے ہیں۔ طَلْعٌ وہ گابھا یا گپھا ہے جو کھجور کی ابتدائی شکل ہے، یہی بڑھ کر خوشہ بنتا ہے اور پھر وہ رطب کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دَانِيَةٌ سے مراد وہ خوشے ہیں جو قریب ہوں۔ اور کچھ خوشے دور بھی ہوتے ہیں جن تک ہاتھ نہیں پہنچتے۔ بطور امتنان دانية کا ذکر فرما دیا ہے، مطلب ہے۔ مِنْهَا دَانِيَةٌ وَمِنْهَا بَعِيدَةٌ (کچھ خوشے قریب ہیں اور کچھ دور) بَعِيدَةٌ حذوف ہے۔ (فتح القدیر ) 5- جنات زیتون اور رمان یہ سب منصوب ہیں، جن کا عطف نبات پر ہے۔ یعنی فَأَخْرَجْنَا بِهِ جَنَّاتٍ یعنی بارش کے پانی سے ہم نے انگوروں کے باغات اور زیتوں اور انار پیدا کئے۔ 6- یعنی بعض اوصاف میں یہ باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض میں ملتے جلتے نہیں ہیں۔ یا ان کے پتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ پھل نہیں ملتے، یا شکل میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن مزے اور ذائقے میں باہم مختلف ہیں۔ 7- یعنی مذکورہ تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت اور اس کی حکمت ورحمت کے دلائل ہیں۔ الانعام
100 الانعام
101 1- یعنی جس طرح اللہ تعالی ان تمام چیزوں کے پیدا کرنےمیں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی طرح وہ اس لائق ہے کہ اس اکیلے کی عبادت کی جائے، عبادت میں کسی اور کو شریک نہ بنایا جائے۔ لیکن لوگوں نے اس ذات واحد کو چھوڑ کر جنوں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ مشرکین عبادت تو بتوں کی یا قبروں میں مدفون اشخاص کی کرتے ہیں لیکن یہاں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جنات سے مراد شیاطین ہیں اور شیاطین کے کہنے سے ہی شرک کیا جاتا ہے اس لئے گویا شیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلا سورۂ نساء: 117، سورۂ مریم: 44، سورۂ یٰسین: 60 ، سورۂ سبا: 41۔ الانعام
102 الانعام
103 1- أَبْصَارٌ بَصَرَةٌ (نگاہ) کی جمع ہے یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد رؤیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی اس کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اس لئے معتزلہ کا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں، کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی تھیں، ”جس شخص نے بھی دعویٰ کیا کہ نبی (ﷺ) نے (شب معراج میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعاً جھوٹ بولا ہے“۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الأنعام) کیونکہ اس آیت کی رو سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں یہ دیدار ممکن ہوگا۔ جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا۔ ﴿وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ، إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ (القيامة) ”کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“ الانعام
104 1- بَصَائِرُ بَصِيرَةٌ کی جمع ہے۔ جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے۔ یہاں مراد وہ دلائل وبراہین ہیں جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی (ﷺ) نے بھی ان احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنالے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا، تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا ﴿مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا﴾ ( بنی اسرائیل: 15) اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیروضاحت آیت کا ہے۔ 2- بلکہ صرف مبلغ، داعی اور بشیر ونذیر ہوں۔ راہ دکھلانا میرا کام ہے، راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ الانعام
105 1- یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا، وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا﴾ (الفرقان: 4۔ 5) ”کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعویٰ کرکے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ رکھا ہے“۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے تبیین وتشریح ہے تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے۔ الانعام
106 الانعام
107 1- اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا اور، اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے۔ (مزید دیکھیئے سورہ بقرۃ آیت 253 اور سورۃ الانعام آیت 35 کا حاشیہ) 2- یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مقصد نبی (ﷺ) کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے۔ اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابوطالب کو ضرورمسلمان کرلیتے، جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے۔ الانعام
108 1- یہ سد ذریعہ کے اس اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک مباح کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس مباح کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی (ﷺ) نے بھی فرمایا ہے کہ ”تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الكبائر وأكبرها) امام شوکانی لکھتے ہیں یہ آیت سد ذرائع کےلئے اصل اصیل ہے۔ (فتح القدیر) الانعام
109 1- جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ، أَيْ: حَلَفُوا أَيْمَانًا مُؤَكَّدَةً۔ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔ 2- یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ (عليہ السلام) ، احیائے موتی اور ناقۂ ثمود وغیرہ جیسا۔ 3- ان کا یہ مطالبۂ خرق عادت تعنت وعناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبریل (عليہ السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی یہ ایمان نہ لائے تو پھرانہیں ہلاک کردیا جائے گا، جسے نبی (ﷺ) نے پسند نہیں فرمایا۔ (ابن کثیر )۔ الانعام
110 1- اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے۔ (ابن کثیر) الانعام
111 1- جیسا کہ وہ بار بار اس کا مطالبہ ہمارے پیغمبر سے کرتے ہیں۔ 2- اور وہ حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت کی تصدیق کردیتے۔ 3- دوسرا مفہوم اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں، وہ سب ان کے روبرو پیش کردیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز جمع ہوکر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کردینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے۔ اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ، وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِيمَ﴾ (سورۃ یونس: 96۔ 97) ”جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں“۔ 4- اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور پھر اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا بھی لیں۔ الانعام
112 1- یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ (ﷺ) کی تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا گزرے، ان کی تکذیب کی گئی، انہیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ فرمائیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے سرکش، باغی، اور متکبر قسم کے ہیں۔ 2-وَحْيٌ خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پاجاتی ہے۔ 3- یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے لیکن وہ بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا ہے، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔ الانعام
113 1- یعنی شیطانی وساوس کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی اسے پسند کرتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جس حساب سے لوگوں کے اندر عقیدۂ آخرت کے بارے میں ضعف پیدا ہورہا ہے، اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔ الانعام
114 1- آپ کو خطاب کرکے دراصل امت کو تعلیم دی جارہی ہے۔ الانعام
115 1- اخبار وواقعات کے لحاظ سے سچا ہے اور احکام ومسائل کے اعتبار سے عادل ہے یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ کیونکہ اس نے انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اور انہی چیزوں سے روکا ہے جن میں نقصان اور فساد ہے۔ گو انسان اپنی نادانی یا اغوائے شیطانی کی وجہ سے اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔ 2- یعنی کوئی ایسا نہیں جو رب کے کسی حکم میں تبدیلی کردے، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں۔ 3- یعنی بندوں کے اقوال سننے والا اور ان کی ایک ایک حرکت و ادا کو جاننے والا ہے اور وہ اس کے مطابق ہر ایک کوجزا دے گا۔ الانعام
116 1- قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعے کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ﴾ (سورۃ یوسف: 103) ”آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں“۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق وصداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق وباطل کا معیار، دلائل وبراہین ہیں، لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔ جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ ”میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، باقی سب جہنمی۔ اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ (ﷺ) نے یہ بیان فرمائی کہ جو[ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي ] ’’میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا“ (أبو داود كتاب السنة، باب شرح السنة، نمبر 4596، ترمذي، كتاب الإيمان، باب ما جاء في افتراق هذه الأمة، وقد حسنه الترمذي في بعض النسخ وأقره الألباني في الطحاوية، حديث نمبر263) الانعام
117 الانعام
118 1- یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح یا نحر کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہوں جن کا کھانا مباح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جانور پر عمداً ان موقعوں پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال وطیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستثنیٰ ہے کہ جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا یا نہیں، اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد وہ اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم وتربیت سے پوری طرح بہرہ ور بھی نہیں تھے) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا [ سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوا ](صحيح بخاری- باب ذبيحة الأعراب نمبر5507) تم اللہ کا نام لے کر اسے کھالو یعنی التباس (شبہ) کی صورت میں یہ رخصت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہوجائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔ الانعام
119 1- جس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آرہی ہے، اس کے علاوہ بھی اور سورتوں نیز احادیث میں محرمات کی تفصیل بیان کردی گئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی حلال ہیں اور حرام جانور بھی عندالاضطرار سد رمق کی حد تک جائز ہیں۔ الانعام
120 الانعام
121 1- یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے اور یہی احناف کا مسلک ہے تاہم امام شافعی کامسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا عمداً چھوڑ دے اور وہ ”وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ“ کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ 2- شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا (سوائے سمندری میتہ کے کہ وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ الانعام
122 1- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو میت (مردہ) اور مومن کو حی (زندہ) قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ کافر کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت وبربادی ہے اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرما دیتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ ایمان و ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی وکامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ ﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ﴾ (سورة البقرة: 257)،﴿مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالأَعْمَى وَالأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلا﴾ (سورة هود:24) اور ﴿وَمَا يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ، وَلا الظُّلُمَاتُ وَلا النُّورُ، وَلا الظِّلُّ وَلا الْحَرُورُ، وَمَا يَسْتَوِي الأَحْيَاءُ وَلا الأَمْوَاتُ﴾ (سورة فاطر: 19۔ 22) الانعام
123 1- أَكَابِرَ، أَكْبَرُ کی جمع ہے، مراد کافروں اور فاسقوں کے سرغنے اور کھڑپینچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ عام طور پر دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں، اس لئے مخالفت حق میں بھی ممتاز ہوتے ہیں (یہی مضمون سورۂ سبا کی آیات 31 تا 33، سورۂ زخرف 23، سورۂ نوح 22 وغیرھا میں بھی بیان کیا گیا ہے )۔ 2- یعنی ان کی اپنی شرارت کا وبال اور اسی طرح ان کے پیچھے لگنے والے لوگوں کا وبال، انہی پر پڑے گا (مزید دیکھئے سورۂ عنکبوت 13، سورۂ نحل 25) الانعام
124 1- یعنی ان کے پاس بھی فرشتے وحی لے کر آئیں اور ان کے سروں پر بھی نبوت ورسالت کا تاج رکھا جائے۔ 2- یعنی یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو نبی بنایا جائے ؟ یہ تو اللہ ہی کا کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کی حکمت ومصلحت کو جانتا ہے اور اسے ہی معلوم ہے کہ کون اس منصب کا اہل ہے؟ مکہ کا کوئی چودھری ورئیس یا جناب عبداللہ وحضرت آمنہ کا دریتیم؟ الانعام
125 1- یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کردے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں ہے۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لیے کھول دے۔ 2- یعنی جس طرح سینہ تنگ کردیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔ الانعام
126 الانعام
127 1- یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر وضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان وہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کارساز ہے۔ الانعام
128 1- یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنالیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۂ یٰسین میں فرمایا: ”اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کردیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور اس شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کردیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے؟“ (یاسین: 60 / 62) 2- جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے کیا فائدہ حاصل کیا ؟ اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بناکر ان سے تلذذ حاصل کرنا ہے اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطانوں نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنادیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین وجنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بےوقوف بناکر فائدہ اٹھایا اور انسانوں کا فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انسان جنات کی بیان کردہ جھوٹی یا اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے رہے۔ 3- یعنی قیامت واقع ہوگئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانہ ہے۔ 4- اور اللہ کی مشیت کفار کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہی ہے جس کی اس نے بار بار قرآن کریم میں وضاحت کی ہے۔ بنابریں اس سے کسی کو مغالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ استثنا اللہ تعالیٰ کے مطلق ارادہ کے بیان کے لئے ہے جسے کسی چیز کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا اس لئے اگر وہ کفار کو جہنم سے نکالنا چاہے تو نکال سکتا ہے اس سے نہ وہ عاجز ہے نہ کوئی دوسرا روکنے والا۔ (ایسر التفاسیر ) الانعام
129 1- یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کا ساتھی اور مددگار بنایا (جیسا کہ گذشتہ آیت میں گذرا) اسی طرح ہم ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کردیتے ہیں اس طرح ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک و تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔ الانعام
130 1- رسالت ونبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے پہلے سے ہی ہے تو ان کی ہدایت کے لیے انھیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہوسکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم (ﷺ) کی رسالت بہرحال تمام جن وانس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔ 2- میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الانعام: 23) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔ الانعام
131 1- یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۂ فاطر آیت 24، سورۂ نحل 26، سورۂ بنی اسرائیل 15 اور سورۂ ملک 8 ، 9 وغیرہا میں بیان کی گئی ہے۔ الانعام
132 1- یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے باہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق وتفاوت ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہوں گے۔ الانعام
133 1- وہ غنی (بے نیاز) ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لئے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لئے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔ 2- یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیرمحدود قدرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹادیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست ونابود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ (مزید ملاحظہ ہو سورۂ نساء: 133، سورۂ ابراہیم: 20، سورۂ فاطر: 15۔ 17، سورۂ محمد: 38) الانعام
134 1- اس سے مراد قیامت ہے۔ (اور تم عاجز نہیں کرسکتے) کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔ الانعام
135 1- یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے بھی واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ، وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ﴾ (سورة هود: 121۔122) ”جو ایمان نہیں لاتے، ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاوء ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں“۔ 2- جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھایا، 8 / ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کے فتح کے بعد عرب قبائل فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا اور یہ دائرہ پھر پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔ الانعام
136 1- اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکا کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔ 2- یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات وخیرات نہ کرتے۔ 3- ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ الانعام
137 1- یہ اشارہ ہے ان کے بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔ 2- یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔ 3- یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے، ان کے ارادہ واختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔ الانعام
138 1- اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔ حِجْرٌ( بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُورٌ (ممنوع) کے معنی میں ہے۔ یہ پہلی صورت ہے کہ یہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین ہی کے لئے ہوتی۔ 2- یہ دوسری صورت ہے کہ وہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے۔ جیسے بَحِيرَة، سَائِبَة وغیرہ کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔ 3- یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے، اللہ کا نام نہ لیتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لئے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن وہ اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی ہم سب کچھ کررہے ہیں۔ الانعام
139 1- یہ ایک اور شکل ہے کہ جو جانور وہ اپنے بتوں کے نام وقف کرتے، ان میں سے بعض کے بارے میں کہتے کہ ان کا دودھ اور ان کے پیٹ سے پیدا ہونے والا زندہ بچہ صرف ہمارے مردوں کے لئے حلال ہے، عورتوں کے لئے حرام ہے۔ ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو پھر اس کے کھانے میں مرد وعورت برابر ہیں۔ 2- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں، ان پر عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ وہ اپنے فیصلوں میں حکیم ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں پوری طرح علم رکھنے والا ہے اور اپنے علم وحکمت کے مطابق وہ جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا۔ الانعام
140 الانعام
141 1- مَعْرُوشَاتٍ کا مادہ عَرْشٌ ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں جو ٹٹیوں (چھپروں، منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیرمعروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز وغیرہ کی بیلیں ہیں یا وہ تنے دار درخت ہیں جو بیل کی شکل میں نہیں ہوتے۔ یہ تمام بیلیں، درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون وانار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ 2- اس کے لئے دیکھئے آیت 99 کا حاشیہ۔ 3- یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ اس حق سے مراد بعض علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقۂ واجبہ یعنی عُشر، دسواں حصہ (اگر زمین بارانی ہو) یا نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہو ) 4- یعنی صدقہ وخیرات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ کل کو تم ضرورت مند ہوجاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات وزکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاوز نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح یہ بات لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو، کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم دونوں کے لئے مضر ہے۔ اسراف کے یہ سارے ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ درست ہیں، اس لئے سارے ہی مفہوم مراد ہوسکتے ہیں۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں بھی اسراف سے منع فرمایا ہے، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنالیا ہے۔فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 5- اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں ہے، صدقہ وخیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں۔ ہر چیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب ومحبوب ہے اور اسی کی تاکید کی گئی ہے۔ الانعام
142 1- حُمُولَةً (بوجھ اٹھانے والے) سے مراد، اونٹ، بیل، گدھا، خچر وغیرہ ہیں، جو باربرداری کے کام میں آتے ہیں اور فَرْشًا سے مراد زمین سے لگے ہوئے جانور۔ جیسے بکری وغیرہ جس کا تم دودھ پیتے یا گوشت کھاتے ہو۔ 2- یعنی پھلوں، کھیتوں اور چوپایوں سے۔ ان سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ان کو تمہارے لئے خوراک بنایا ہے۔ 3- جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کرلیا گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کو حلال کرلینا، یہ شیطان کی پیروی ہے۔ الانعام
143 1- یعنی أَنْشَأَ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ (اسی اللہ نے آٹھ زو پیدا کئے ) أَزْوَاجٌ، زَوْجٌ کی جمع ہے۔ ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زو (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک ایک فرد کو بھی زو کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کے لئے زو ہوتا ہے۔ قرآن کے اس مقام پر بھی ازوا، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی 8 افراد اللہ نے پیدا کئے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں۔ یہ نہیں کہ زو (معنی جوڑے) پیدا کئے کیوں کہ اس طرح تعداد 8 کے بجائے 16ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔ 2- یہ ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم سے نر اور مادہ ہے یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا بھی شامل ہے )۔ 3- مشرکین جو بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کرلیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو کسی کو بھی حرام نہیں کیا ہے۔ 4- تمہارے پاس حرام قرار دینے کی کوئی یقینی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِيرَةٌ، سَائِبَةٍ، وَصِيلَةٍ اورحَامٍ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔ الانعام
144 1- یہ بھی ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر اور مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہوگئیں۔ 2- یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو۔ 3- یعنی یہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا تھا (صحيح بخاری سورة المائدة- صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب النار يدخلها الجبارون والجنة ... يدخلها الضعفاء) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمرو بن لحی، خزاعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا والی بنا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی اور حجاز میں بت قائم کرکے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں (ابن کثیر) بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کرکے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کرلینا ، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔ الانعام
145 1- اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۂ بقرہ 173 کے حاشیے میں گذر چکی ہے۔ یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمۂ حصر سے کیا گیا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین کے جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا آرہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کررکھے تھے، اس سیاق اور ضمن میں یہ کہا جارہا ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے اس میں تو اس سے مقصود مشرکین کے حرام کردہ جانوروں کی حلت ہے یعنی وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے ان میں تو وہ شامل ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ حرام ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی ذکر ضرور کرتا۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینًا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض اور محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی (ﷺ) نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ نبی (ﷺ) نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لئے دو اصول بیان فرما دیئے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ ”او فِسْقًا“ کا عطف ”لَحْمَ خِنْزِير“ پر ہے۔ اس لئے منصوب ہے، معنی ہیں أَيْ: ذُبِحَ عَلَى الأَصْنَامِ، (وہ جانور جو بتوں کے نام پر ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کئے جائیں) یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جائے، تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں، غیراللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور صرف اسی کے تقرب ونیاز کے لئے کیا جائے، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔ الانعام
146 1- ناخن والے جانور سے مراد وہ ہاتھ والے جانور ہیں جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شترمرغ، بطخ، قاز، گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔ 2- یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (یا دنبے کی چکتی ہو) یا انتڑیوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ چربی کی یہ مقدار حلال تھی۔ 3- یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کے اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔ 4- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینًا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے ہیں۔ الانعام
147 1- اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ 2- یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔ الانعام
148 1- یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے۔ 2- اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا؟ عذاب الٰہی اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔ 3- یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو! لیکن ان کے پاس دلیل کہاں؟ وہاں تو صرف اوہام وظنون ہی ہیں۔ الانعام
149 الانعام
150 1- یعنی وہ جانور، جن کو مشرکین حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔ 2- کیوں کہ ان کے پاس سوائے کذب وافترا کے کچھ نہیں۔ 3- یعنی اس کا عدیل (برابر کا) ٹھہرا کر شرک کرتے ہیں۔ الانعام
151 1- یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم نے بلا دلیل مَا أَنْزَلَ اللهُ، محض اپنے اوہام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر حرام قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے۔ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے اور ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تمہیں ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔ 2- أَلا تُشْرِكُوا سے پہلے أَوْصَاكُمْ محذوف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں یہ ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم (ﷺ) نے بھی احادیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت سے بیان فرما دیا ہے اس کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاو میں آکر شرک کا عام ارتکاب کرتے ہیں۔ 3- اللہ تعالیٰ کی توحید واطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔ 4- زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آج کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور وشور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ 5- یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے۔ ﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ﴾ ( البقرۃ: 79) ”قصاص میں تمہاری زندگی ہے“۔ الانعام
152 1- جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے۔ اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے اس مال سے یعنی وراثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائیداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جائیداد کو ٹھکانے لگادیا جائے۔ 2- ناپ تول میں کمی کرنا، لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کرلینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں سے تھی۔ 3- یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کررہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے۔ اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں بھی عزت و سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔ الانعام
153 1- هَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت۔ اور یہی اسلام کے اصول ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے۔ اس لئے جو بھی مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ 2- صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یا رسول اللہ (ﷺ) کی راہ ایک ہی ہے۔ ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اسی ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں۔ یہی ملت مسلمہ کی وحدت واجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ حالانکہ اسے تاکید کی گئی ہے کہ ”دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ﴾ (الشورى) ”دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو“ گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (ﷺ) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے“۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا ”یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے“۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔ (مسنداحمد، جلد 1، ص 465،435۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے دیکھئے مسند احمد بہ تعلیق احمد شاکر نمبر 4142) بلکہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ دو دو خط داہنے اور بائیں کھینچے۔ یعنی کل چار خطوط کھینچے اور انہیں شیطان کا راستہ بتلایا۔ الانعام
154 1- قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا گیا ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت ورحمت کا باعث تھی۔ الانعام
155 1- اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔ الانعام
156 1- یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔ 2- اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چنانچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کردیا۔ الانعام
157 1- گویا یہ عذر بھی تم نہیں کرسکتے۔ 2- یعنی کتاب ہدایت ورحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کرکے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب واعراض کا راستہ اپناتا ہے، تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔ الانعام
158 1- قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد (ﷺ) کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آتے تو کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے، اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کا رب ان کے پاس آئے، یعنی قیامت برپا ہوجائے اور وہ اللہ کے روبرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے۔ جیسے قیامت کے قریب سور مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے؟ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سور (مشرق کے بجائے) مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے“ پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ﴾ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ الانعام ) 2- یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہیں ہوگا۔ 3- اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیرمقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ 4- یہ ایمان نہ لانے والوں اور توبہ نہ کرنے والوں کے لئے تہدید ووعید ہے۔ قرآن کریم میں یہی مضمون سورۂ محمد: 18 اور سورۂ مومن: 84 ، 85 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ الانعام
159 1- اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ (ﷺ) کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کرکے تفرق وتحزب کا راستہ اپناتے ہیں۔ ”شِيَعًا“ کے معنی فرقے اور گروہ، اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی ہو۔ (فتح القدیر) الانعام
160 1- یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان کا بیان ہے جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا۔ یہ کم ازکم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور احادیث دونوں سے ثابت ہے کہ بعض نیکیوں کا اجر کئی کئی سو گنا بلکہ ہزاروں گنا تک ملے گا۔ 2- یعنی جن گناہوں کی سزا مقرر نہیں ہے، اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں، یا اللہ نے اپنے فضل خا سے اسے معاف نہیں فرما دیا (کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا) تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے گا اور اس کے برابر ہی دے گا۔ الانعام
161 الانعام
162 الانعام
163 1- توحید الوہیت کی یہی دعوت تمام انبیا نے دی، جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ”مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہم نےآپ سے پہلے جتنے بھی انبیا بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، تم میری ہی عبادت کرو“ (الانبیاء: 25) چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی یہ اعلان فرمایا ﴿وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ (يونس: 72) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ أَسْلِمْ (فرمانبردار ہوجا) تو انہوں نے فرمایا ﴿أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (البقرة: 131) ”میں رب العالمین کے لئے مسلمان یعنی فرمانبردار ہوگیا“، حضرت ابراہیم السلام ویعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی ﴿فَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ (البقرة: 132) ”تمہیں موت اسلام پر آنی چاہیے“، حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی ﴿تَوَفَّنِي مُسْلِمًا﴾ (يوسف: 101) ”مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا“، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا ﴿فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ﴾ (يونس: 84) ”اگر تم مسلمان ہو تو اسی اللہ پر بھروسہ کرو“، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا ﴿وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ﴾ (المائدة: 111) اسی طرح اور بھی تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحید الوہیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ گو بعض بعض شرعی احکام ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ الانعام
164 1- یہاں رب سے مراد وہی الٰہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔ 2- یعنی اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے۔ اچھا یا برا۔ جو کچھ کیا ہوگا، اس کے مطابق جزا وسزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔ 3- اس لیے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کیے جاؤ، ہم اپنا کیے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی تمہارا فیصلہ ہوگا۔ الانعام
165 1- یعنی حکمران بناکر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔ 2- یعنی فقر وغنا، علم وجہل، صحت اور بیماری، جس کو جو کچھ دیا ہے، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔ الانعام
0 الاعراف
1 الاعراف
2 1- یعنی اس کے ابلاغ سے آپ کا دل تنگ نہ ہو کہ کہیں کافر میری تکذیب نہ کریں اور مجھے ایذا نہ پہنچائیں اس لئے کہ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہے یا حرج شک کے معنی میں ہے یعنی اس کے منزّل من اللہ ہونے کے بارے میں آپ اپنے سینے میں شک محسوس نہ کریں۔ یہ نہی بطور تعریض ہے اور اصل مخاطب امّت ہے کہ وہ شک نہ کرے۔ الاعراف
3 1- جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے یعنی قرآن، اور جو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا یعنی حدیث، کیونکہ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں“۔ ان دونوں کا اتباع ضروری ہے۔ ان کے علاوہ کسی کا اتباع ضروری نہیں بلکہ ان کا انکار لازمی ہے۔ جیسا کہ اگلے فقرے میں فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی مت کرو“۔ جس طرح زمانۂ جاہلیت میں سرداروں اور نجومیوں کاہنوں کی بات کو ہی اہمیت دی جاتی حتیٰ کہ حلال وحرام میں بھی ان کو سند تسلیم کیا جاتا تھا۔ الاعراف
4 1- ”قَائِلُونَ“ قَيْلُولَةٌ سے ہے، جو دوپہر کے وقت استراحت (آرام کرنے) کو کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا عذاب اچانک ایسے وقتوں میں آیا جب وہ آرام و راحت کے لئے بے خبر بستروں میں آسودۂ خواب تھے۔ الاعراف
5 1- لیکن عذاب آجانے کے بعد ایسے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے وضاحت گذر چکی ہے ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا﴾ (المؤمن: 85) ”جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو اس وقت ان کا ایمان لانا، ان کے لئے نفع مند نہیں ہوا“۔ الاعراف
6 1- امتوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا؟ وہاں وہ جواب دیں گے کہ ہاں! یااللہ تیرے پیغمبر تو یقیناً ہمارے پاس آئے تھے لیکن ہماری ہی قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویّہ اختیار کیا؟ پیغمبر اس سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ الاعراف
7 1- چونکہ ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کا علم رکھتے ہیں اس لئے ہم پھر دونوں (امتیوں اور پیغمبروں) کے سامنے ساری باتیں بیان کریں گے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا، ان کے سامنے رکھ دیں گے۔ الاعراف
8 الاعراف
9 1- ان آیات میں وزن اعمال کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو قیامت والے دن ہوگا اور جسے قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اور احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ترازو میں اعمال تولے جائیں گے، جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ ناکام ہوگا۔ یہ اعمال کس طرح تولے جائیں گے جب کہ یہ اعراض ہیں یعنی ان کا ظاہری وجود اور جسم نہیں ہے؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کو اجسام میں تبدیل فرما دے گا اور ان کا وزن ہوگا۔ دوسری رائے تو یہ ہے کہ وہ صحیفے اور رجسٹر تو لے جائیں گے جن میں انسان کے اعمال در ہوں گے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا۔ تینوں مسلکوں والوں کے پاس اپنے مسلک کی حمایت میں صحیح احادیث و آثار موجود ہیں، اس لئے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تینوں ہی باتیں صحیح ہوسکتی ہیں ممکن ہے کبھی اعمال، کبھی صحیفے اور کبھی صاحب عمل کو تولا جائے (دلائل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) بہرحال میزان اور وزن اعمال کا مسئلہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ اس کا انکار یا اس کی تاویل گمراہی ہے۔ اور موجودہ دور میں تو اس کے انکار کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں کہ بے وزن چیزیں بھی تولی جانے لگی ہیں۔ الاعراف
10 الاعراف
11 1- خَلَقْنَاكُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابوالبشر حضرت آدم (عليہ السلام) ہیں۔ الاعراف
12 1- ”أَلا تَسْجُدَ“ میں لا زائد ہے یعنی أَنْ تَسْجُدَ ( تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا) یا عبارت محذوف ہے ”یعنی تجھے کس چیز نے اس بات پر مجبور کیا کہ تو سجدہ نہ کرے۔“ (ابن کثیر وفتح القدیر) شیطان، فرشتوں میں سے نہیں تھا، بلکہ خود قرآن کی صراحت کے بموجب وہ جنات میں سے تھا۔ (الكهف: 50) لیکن آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سجدہ حکم میں شامل تھا جو اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا۔ اسی لئے اس سے باز پرس بھی ہوئی اور اس پر عتاب بھی نازل ہوا۔ اگر وہ اس حکم میں شامل ہی نہ ہوتا تو اس سے باز پرس ہوتی نہ وہ راندۂ درگاہ قرار پاتا۔ 2- شیطان کا یہ عذر (عذر گناہ بدتر از گناہ) کا آئینہ دار ہے۔ ایک تو اس کا یہ سمجھنا کہ افضل کو مفضول کی تعظیم کا حکم نہیں دیا جاسکتا، غلط ہے۔ اس لئے کہ اصل چیز تو اللہ کا حکم ہے، اس کے حکم کے مقابلے میں افضل وغیرافضل کی بحث اللہ سے سرتابی ہے۔ دوسرے، اس نے بہتر ہونے کی دلیل یہ دی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور یہ مٹی سے۔ لیکن اس نے اس شرف وعظمت کو نظر انداز کردیا جو حضرت آدم علیہ السلام کو حاصل ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی۔ اس شرف کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز بھی ہوسکتی ہے؟ تیسرا، نص کے مقابلے میں قیاس سے کام لیا، جو کسی بھی اللہ کو ماننے والے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں اس کا قیاس فاسد تھا۔ آگ، مٹی سے کس طرح بہتر ہے؟ آگ میں سوائے تیزی، بھڑکنے اور جلانے کے کیا ہے؟ جب کہ مٹی میں سکون اور ثبات ہے، اس میں نبات ونمو، زیادتی اور اصلاح کی صلاحیت ہے۔ یہ صفات آگ سے بہرحال بہتر اور زیادہ مفید ہیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ ”فرشتے نور سے، ابلیس آگ کی لپٹ سے اور آدم (عليہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں“۔ (صحيح مسلم كتاب الزهد، باب في أحاديث متفرقة) الاعراف
13 1- ”مِنْهَا“ کی ضمیر کا مرجع اکثر مفسرین نے جنت کو قرار دیا ہے اور بعض نے اس مرتبہ کو جو ملکوت اعلیٰ میں اسے حاصل تھا۔ فاضل مترجم نے اسی دوسرے مفہوم کے مطابق آسمان ترجمہ کیا ہے۔ٍ 2- اللہ کے حکم کے مقابلے میں تکبر کرنے والا احترام وتعظیم کا نہیں، ذلت وخواری کا مستحق ہے۔ الاعراف
14 الاعراف
15 1- اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کے مطابق اسے مہلت عطا فرمادی جو اس کی حکمت، ارادے اور مشیت کے مطابق تھی جس کا پورا علم اسی کو ہے۔ تاہم ایک حکمت یہ نظر آتی ہے کہ اس طرح اپنے بندوں کی وہ آزمائش کرسکے گا کہ کون رحمٰن کا بندہ بنتا ہے اور کون شیطان کا پجاری؟۔ الاعراف
16 1- گمراہ تو وہ اللہ کی تکوینی مشیت کے تحت ہوا۔ لیکن اس نے اسے بھی مشرکوں کی طرح الزام بنالیا، جس طرح وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ الاعراف
17 1- مطلب یہ ہے کہ ہر خیر اور شر کے راستے پر میں بیٹھوں گا۔ خیر سے ان کو روکوں گا اور شر کو ان کی نظروں میں پسندیدہ بناکر ان کو اختیار کرنے کی ترغیب دوں گا۔ 2- ”شَاكِرِينَ“ کے دوسرے معنی مُوَحِّدِينَ کے کئے گئے ہیں۔ یعنی اکثر لوگوں کو میں شرک میں مبتلا کردوں گا۔ شیطان نے اپنا یہ گمان فی الواقع سچا کر دکھایا ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (سورة سبأ: 20) ”شیطان نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، اور مومنوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر سب لوگ اس کے پیچھے لگ گئے“۔ اسی لئے احادیث میں شیطان سے پناہ مانگنے کی اور قرآن میں اس کے مکر وکید سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ الاعراف
18 الاعراف
19 1- یعنی صرف اس ایک درخت کو چھوڑ کہ جہاں سے اور جتنا چاہو، کھاؤ۔ ایک درخت کا پھل کھانے کی پابندی آزمائش کے طور پر عائد کردی۔ الاعراف
20 1- ”وَسْوَسَةٌ“ اور وِسْوَاسٌ، زَلْزَلَةٌ اور زِلْزَالٌ کے وزن پر ہے۔ پست آواز اور نفس کی بات۔ شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے، اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔ 2- یعنی شیطان کا مقصد اس بہکاو سے حضرت آدم وحوا کو اس لباس جنت سے محروم کرکے انہیں شرمندہ کرنا تھا، جو انہیں جنت میں پہننے کے لئے دیا گیا تھا ”سَوْآتٌسَوْءَةٌ (شرم گاہ) کی جمع ہے. شرم گاہ کوسَوْءَةٌ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ الاعراف
21 1- جنت کی جو نعمتیں اور آسائشیں حضرت آدم وحوا علیہما الّسلام کو حاصل تھیں، اس کے حوالے سے شیطان نے دونوں کو بہلایا اور جھوٹ بولا کہ اللہ تمہیں ہمیشہ جنت میں رکھنا نہیں چاہتا، اسی لئے اس درخت کا پھل کھانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس کی تاثیر ہی یہ ہے کہ جو اسے کھا لیتا ہے، وہ فرشتہ بن جاتا ہے یا دائمی زندگی اسے حاصل ہوجاتی ہے پھر قسم کھا کر اپنا خیرخواہ ہونا بھی ظاہر کیا، جس سے حضرت آدم وحّو ا علیہما السلام متاثر ہوگئے اس لئے کہ اللہ والے، اللہ کے نام پر آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ الاعراف
22 1- ”تَدْلِية“ اور ”إِدْلاءٌ“ کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے چھوڑ دینا۔ گویا شیطان ان کو مرتبہ علیا سے اتار کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے تک لے آیا۔ 2- یہ اس معصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم (عليہ السلام) وحوا سے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ہوئی اور پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا، جو اگرچہ غیرمرئی تھا لیکن ایک دوسرے کی شرم گاہ کے لئے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ (ابن کثیر ) 3- یعنی اس تنبیہ کے باوجود تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لئے بڑی کاوش ومحنت اور ہر وقت اس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ الاعراف
23 1- توبہ واستغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم (عليہ السلام) نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورۂ بقرہ، آیت 37 میں صراحت ہے۔ (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ اس کے جواز و اثبات میں عقلی و قیاسی دلائل دینے لگا۔ نتیجتاً وہ راندۂ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم (عليہ السلام) نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ”دلائل“ کے انبار فراہم کرنا، شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت ہوکر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا، بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔ اللَّهُمَّ! اجْعَلْنَا مِنْهُمْ۔ الاعراف
24 الاعراف
25 الاعراف
26 1- ”سَوْآتٌ“ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے۔ جیسے شرم گاہ اور ”رِيشًا“ وہ لباس جو حسن ورعنائی کے لئے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تکملہ واضافہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لئے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔ 2- اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح، خشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریباً ایک ہے کہ ایسا لباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کے بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ 3- اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب و زینت اور آرائش کے لئے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے۔ تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد وورع اور تقویٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی (ﷺ) یہ دعا پڑھا کرتے تھے [ الْحَمْدُ للهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي ] (ترمذي ، أبواب الدعوات - ابن ماجہ ، كتاب اللباس ، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبا جديدا) ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس سے میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں“۔ الاعراف
27 1- اس میں اہل ایمان کو شیطان اور اس کے قبیلے یعنی چیلے چانٹوں سے ڈرایا گیا ہے کہ کہیں وہ تمہاری غفلت اور سستی سے فائدہ اٹھا کر تمہیں بھی اس طرح فتنے اور گمراہی میں نہ ڈال دے جس طرح تمہارے ماں باپ (آدم و حوا) کو اس نے جنت سے نکلو دیا اور لباس جنت بھی اتروا دیا۔ بالخصوص جب کہ وہ نظر بھی نہیں آتے۔ تو اس سے بچنے کا اہتمام و فکر بھی زیادہ ہونی چاہئے۔ 2- یعنی بے ایمان قسم کے لوگ ہی اس کے دوست اور اس کے خاص شکار ہیں۔ تاہم اہل ایمان پر بھی وہ ڈورے ڈالتا رہتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو شرک خفی (ریاکاری) اور شرک جلی میں ہی ان کو مبتلا کر دیتا ہے اور یوں ان کو بھی ایمان کے بعد ایمان صحیح کی پونجی سے محروم کر دیتا ہے۔ الاعراف
28 1- اسلام سے قبل مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت کو اختیار کرکے طواف کرتے ہیں جو اس وقت تھی جب ہمیں ہماری ماؤں نے جنا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اس کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ہم جو لباس پہنے ہوتے ہیں اس میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں، اس لئے اس لباس میں طواف کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ وہ لباس اتار کر طواف کرتے اور عورتیں بھی ننگی طواف کرتیں، صرف شرم گاہ پر کپڑا یا چمڑے کا ٹکڑا رکھ لیتیں۔ اپنے اس شرمناک فعل کے لئے دو عذر انہوں نے اور پیش کئے۔ ایک تو یہ کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اس طرح ہی کرتے پایا ہے۔ دوسرا، یہ کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم دے ؟ یعنی تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جو اس نے نہیں کہی۔ اس آیت میں ان مقلدین کے لئے بڑی زجر و توبیخ ہے جو آباپرستی، پیرپرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں، جب انہیں بھی حق کی بات بتلائی جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے یہی کرتے آئے ہیں یا ہمارے امام اور پیر وشیخ کا یہی حکم ہے۔ یہی وہ خصلت ہے جس کی وجہ سے یہودی، یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پر اور بدعتی بدعتوں پر قائم رہے۔ (فتح القدیر) الاعراف
29 1- انصاف سے مراد یہاں بعض کے نزدیک ”لا إِلَهَ إِلا اللهُ“ یعنی توحید ہے۔ 2- امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ”اپنی نمازوں میں اپنا رخ قبلے کی طرف کرلو، چاہے تم کسی بھی مسجد میں ہو“ اور امام ابن کثیر نے اس سے استقامت بمعنی متابعت رسول مراد لی ہے اور اگلے جملے سے اخلاص للہ اور کہا ہے کہ ہر عمل کی مقبولیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے خالص رضائے الٰہی کے لئے ہو۔ آیت میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔ الاعراف
30 الاعراف
31 1- آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لئے انہیں کہا گیا کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔ 2- ”إِسْرَافٌ“ (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کہ کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے۔ ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ”جو چاہو، کھاوء۔ جو چاہو پہنو! البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبرسے“ (صحيح بخاری، كتاب اللباس، باب قول الله تعالى ﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي ﴾) بعض سلف کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلا تُسْرِفُوا﴾ اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرمادی ہے۔ (ابن کثیر ) بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لئے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت (گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا) ہر حال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ (فتح القدیر) جمعہ اور عید کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا حصہ ہے۔ (ابن کثیر) الاعراف
32 1- مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح بعض حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کرلی تھیں (جیسا کہ بعض صوفیا بھی ایسا کرتے ہیں) نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کردینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لئے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں، انہیں کون حرام کرنے والا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے حرام کرلینے سے اللہ کی حلال کردہ چیزیں حرام نہیں ہو جائیں گی، وہ حلال ہی رہیں گی۔ یہ حلال و طیب چیزیں اصلاً اللہ نے اہل ایمان ہی کے لئے بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور متمتع ہو لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دنیوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے۔ تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لئے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہوگی، اسی طرح ماکولات و مشروبات بھی حرام ہوں گے۔ الاعراف
33 1- علانیہ فحش باتوں سے مراد بعض کے نزدیک طوائفوں کے اڈوں پر جاکر بدکاری اور پوشیدہ سے مراد کسی ”گرل فرینڈ“ سے خصوصی تعلق قائم کرنا ہے۔ بعض کے نزدیک اول الذکر سے مراد محرموں سے نکاح کرنا ہے جو ممنوع ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک صورت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام ہے اور ہر قسم کی ظاہری بے حیائی کو شامل ہے (جیسے فلمیں، ڈرامے ، ٹی وی، وی سی آر، فحش اخبارات ورسائل، رقص وسرود اور مجروں کی محفلیں، عورتوں کی بے پردگی اور مردوں سے ان کا بے باکانہ اختلاط، مہندی اور شادی کی رسموں میں بے حیائی کے کھلے عام مظاہر وغیرہ، یہ سب فواحش ظاہرہ ہیں)۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا۔ 2- گناہ، اللہ کی نافرمانی کا نام ہے اور ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ”گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور لوگوں کے اس پر مطلع ہونے کو تو برا سمجھے“۔ (صحیح مسلم، کتاب البر) بعض کہتے ہیں گناہ وہ ہے جس کا اثر، کرنے والے کی اپنی ذات تک محدود ہو اور بغی یہ ہے کہ اس کے اثرات دوسروں تک بھی پہنچیں یہاں بغی کے ساتھ بغیر الحق کا مطلب، ناحق، ظلم وزیادتی مثلاً لوگوں کا حق غصب کرلینا، کسی کا مال ہتھیا لینا، ناجائز مارنا پیٹنا اور سب و شتم کرکے بے عزتی کرنا وغیرہ ہے۔ الاعراف
34 1- میعاد معین سے مراد وہ مہلت عمل ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ ہر گروہ کو آزمانے کے لئے عطا فرماتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بغاوت وسرکشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مہلت بعض دفعہ ان کی پوری زندگیوں تک ممتد ہوتی ہے۔ یعنی دنیوی زندگی میں وہ گرفت نہیں فرماتا بلکہ صرف آخرت میں ہی وہ سزا دے گا ان کی اجل مسمی قیامت کا دن ہی ہے اور جن کو دنیا میں وہ عذاب سے دوچار کر دیتا ہے، ان کی اجل مسمیٰ وہ ہے جب ان کا مواخذہ فرماتا ہے۔ الاعراف
35 1- یہ ان اہل ایمان کا حسن انجام بیان کیا گیا ہے جو تقویٰ اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے۔ قرآن نے ایمان کے ساتھ، اکثر جگہ، عمل صالح کا ذکر ضرور کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ ایمان وہی معتبر ہے جس کے ساتھ عمل بھی ہوگا۔ الاعراف
36 1- اس میں اہل ایمان کے برعکس ان لوگوں کا برا انجام بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے احکام کی تکذیب اور ان کے مقابلے میں استکبار کرتے ہیں۔ اہل ایمان اور اہل کفر دونوں کا انجام بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کردار کو اپنائیں جس کا انجام اچھا ہے اور اس کردار سے بچیں جس کا انجام برا ہے۔ الاعراف
37 1- اس کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں۔ ایک معنی عمل، رزق اور عمر کے کئے گئے ہیں۔ یعنی ان کے مقدر میں جو عمر اور رزق ہے اسے پورا کر لینے، اور جتنی عمر ہے، اس کو گزار لینے کے بعد بالآخر موت سے ہمکنار ہوں گے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیت ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ، مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ﴾ الآية (يونس: 69 ، 70) ”جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوں گے، دنیا کا چند روزہ فائدہ اٹھا کر، بالآخر ہمارے پاس ہی انہیں لوٹ کر آنا ہے۔“ الاعراف
38 1- ”أُمَمٌأمَّةٌ کی جمع ہے۔ مراد وہ فرقے اور گروہ ہیں جو کفروشقاق اور شرک وتکذیب میں ایک جیسے ہوں گے۔ ”فِي“ بمعنی ”مَعَ“ بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی تم سے پہلے انسانوں اور جنوں میں جو گروہ تم جیسے یہاں آچکے ہیں، ان کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاوء یا ان میں شامل ہوجاؤ۔ 2- ﴿لَعَنَتْ أُخْتَهَا﴾ اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔ أُخْتٌ بہن کو کہتے ہیں۔ ایک جماعت (امت) کو دوسری جماعت (امت) کی بہن بہ اعتبار دین، یا گمراہی کے کہا گیا۔ یعنی دونوں ہی ایک غلط مذہب کے پیرو یا گمراہ تھے یا جہنم کے ساتھی ہونے کے اعتبار سے ان کو ایک دوسری کی بہن قرار دیا گیا ہے۔ 3- ”ادَّارَكُوا“ کے معنی ہیں تَدَارَكُوا جب ایک دوسرے کو ملیں گے اور باہم اکٹھے ہوں گے۔ 4- ”أُخْرَىٰ“ (پچھلے) سے مراد بعد میں داخل ہونے والے اور اولیٰ (پہلے) سے مراد ان سے پہلے داخل ہونے والے ہیں۔ یا أُخْرَىٰ سےأَتْبَاعٌ ( پیروکار) اور أُولَى سے مَتْبُوعٌ لیڈر اور سردار ہیں۔ ان کا جرم چونکہ زیادہ شدید ہے کہ خود بھی راہ حق سے دور رہے اور دوسروں کو بھی کوشش کرکے اس سے دور رکھا، اس لئے یہ اپنے اتباع سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔ 5- جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ جہنمی کہیں گے ﴿رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ 1- رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا﴾ ( الاحزاب: 67۔ 68) ”اے ہمارے رب! ہم تو اپنے سرداروں اور بڑوں کے پیچھے لگے رہے، پس انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا، یااللہ ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو بڑی لعنت کر“۔ 6- یعنی اب ایک دوسرے کو طعنے دینے، کوسنے اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے کوئی فائدہ نہیں، تم سب ہی اپنی اپنی جگہ بڑے مجرم ہو اور تم سب ہی دوگنے عذاب کے مستحق ہو۔ اتباع اور متبوعین کا یہ مکالمہ سورۂ سبا: 31، 32 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ الاعراف
39 الاعراف
40 1- اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے۔ یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیسا کہ مسند احمد، جلد 2، صفحہ 364، 365 کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔ 2- یہ تعلیق بالمحال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گذرنا ممکن نہیں، اسی طرح اہل کفر کا جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ اونٹ کی مثال بیان فرمائی اس لئے کہ اونٹ عربوں میں متعارف تھا اور جسمانی اعتبار سے ایک بڑا جانور تھا۔ اور سوئی کا ناکہ (سوراخ) یہ اپنے باریک اور تنگ ہونے کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ ان دونوں کے ذکر نے اس تعلیق بالمحال کے مفہوم کو غایت درجے واضح کردیا ہے۔ تعلیق بالمحال کا مطلب ہے، ایسی چیز کے ساتھ مشروط کر دینا جو ناممکن ہو۔ جیسے اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اب کسی چیز کے وقوع کو، اونٹ کے سوئی کے ناکے میں داخل ہونے کے ساتھ مشروط کردینا، تعلیق بالمحال ہے۔ الاعراف
41 1- ”غَواشٍغَاشِيَةٌ کی جمع ہے۔ ڈھانپ لینے والی۔ یعنی آگ ہی ان کا اوڑھنا ہوگا یعنی اوپر سے بھی آگ نے ان کو ڈھانپا یعنی گھیرا ہوگا۔ الاعراف
42 1- یہ جملہ معترضہ ہے جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ایمان اور عمل صالح، یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جو انسانی طاقت سے زیادہ ہوں اور انسان ان پر عمل کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں۔ بلکہ ہر انسان ان کو بہ آسانی اپنا سکتا ہے اور ان کے مقتضیات کو بروئے عمل لاسکتا ہے۔ الاعراف
43 1- ”غِلٍّ“ اس کینے اور بغض کو کہا جاتا ہے جو سینوں میں مستور ہو۔ اللہ تعالیٰ اہل جنت پر یہ انعام بھی فرمائے گا کہ ان کے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض وعداوت کے جو جذبات ہوں گے، وہ دور کردے گا، پھر ان کے دل ایک دوسرے کے بارے میں آئینے کی طرح صاف ہوجائیں گے، کسی کے بارے میں دل میں کوئی کدورت اور عداوت نہیں رہے گی۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اہل جنت کے درمیان درجات و منازل کا جو تفاوت ہوگا، اس پر وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔ پہلے مفہوم کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ جنتیوں کو، جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا اور ان کے درمیان آپس کی جو زیادتیاں ہوں گی، ایک دوسرے کو ان کا بدلہ دیا دلایا جائے گا، حتیٰ کہ جب وہ بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت میں داخلے کی اجازت دے دی جائے گی (صحیح بخاری۔ کتاب المظالم، باب قصاص المظالم۔) جیسے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کی باہمی رنجشیں ہیں جو سیاسی رقابت میں ان کے درمیان ہوئیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے مجھے امید ہے کہ میں، عثمان اور طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم، ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ﴾( ابن کثیر) 2- یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی زندگی نصیب ہوئی اور پھر انہیں بارگاہ الہیٰ میں قبولیت کا درجہ بھی حاصل ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے اور اس کا فضل ہے۔ اگر یہ رحمت اور فضل الٰہی نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ سکتے۔ اسی مفہوم کی یہ حدیث ہے جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ”یہ بات اچھی طرح جان لو کہ تم میں سے کسی کو محض اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی۔ صحابہ (رضی الله عنہم) نے پوچھا یارسول اللہ! آپ (ﷺ) بھی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں میں بھی، اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک کہ رحمت الٰہی مجھے اپنے دامن میں نہیں سمیٹ لے گی۔“ (صحيح بخاری، كتاب الرقاق، باب القصد والمداومة على العمل - صحيح مسلم، كتاب صفة القيامة- باب لن يدخل أحد الجنة بعمله 3- یہ تصریح پچھلی بات اور حدیث مذکور کے منافی نہیں۔ اس لئے کہ نیک عمل کی توفیق بھی بجائے خود اللہ کا فضل و احسان ہے۔ الاعراف
44 1- یہی بات نبی (ﷺ) نے جنگ بدر میں جو کافر مارے گئے تھے اور ان کی لاشیں ایک کنوئیں میں پھینک دی گئی تھیں۔ انہیں خطاب کرتے ہوئے کہی تھی، جس پر حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے کہا تھا آپ ایسے لوگوں سے خطاب فرما رہے ہیں جو ہلاک ہوچکے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کی قسم، میں انہیں جو کچھ کہہ رہا ہوں، وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں، لیکن اب وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے (صحيح مسلم - كتاب الجنة ، باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار والبخاری، كتاب المغازي، باب قتل أبي جهل) الاعراف
45 الاعراف
46 1- ان دونوں کے درمیان سے مراد جنت دوزخ کے درمیان یا کافروں اور مومنوں کے درمیان ہے۔ حجاب (آڑ) سے وہ فصیل (دیوار) مراد ہے جس کا ذکر سورۂ حدید میں ہے ﴿فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ (الحديد: 13) پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا یہی اعراف کی دیوار ہے۔ 2- یہ کون ہوں گے؟ ان کی تعیین میں مفسرین کے درمیان خاصا اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ ان کی نیکیاں جہنم میں جانے سے اور برائیاں جنت میں جانے سے مانع ہوں گی اور یوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے تک وہ درمیان میں معلق رہیں گے۔ 3- ”سِيمَاءٌ“ کے معنی علامت کے ہیں۔ جنتیوں کے چہرے روشن اور تروتازہ اور جہنمیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوں گی۔ اس طرح وہ دونوں قسم کے لوگوں کو پہچان لیں گے۔ 4- یہاں ”يَطْمَعُونَ“ کے معنی بعض لوگوں نے يَعْلَمُونَ کے کئے ہیں یعنی ان کو علم ہوگا کہ وہ عنقریب جنت میں داخل کردیئے جائیں گے۔ الاعراف
47 الاعراف
48 1- یہ اہل دوزخ ہوں گے جن کو اصحاب الاعراف ان کی علامتوں سے پہچان لیں گے اور وہ اپنے جتھے اور دوسری چیزوں پر جو گھمنڈ کرتے تھے، اس کے حوالے سے انہیں یاد دلائیں گے کہ یہ چیزیں تمہارے کچھ کام نہ آئیں۔ الاعراف
49 1- اس سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو دنیا میں غریب ومسکین اور مفلس ونادار قسم کے تھے جن کا استہزا مذکورہ متکبرین اڑایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر یہ اللہ کے محبوب ہوتے تو ان کا دنیا میں یہ حال ہوتا؟ پھر مزید جسارت کرتے ہوئے دعویٰ کرتے کہ قیامت والے دن بھی اللہ کی رحمت ہم پر ہوگی (جس طرح دنیا میں ہورہی ہے) نہ کہ ان پر۔ بعض نے اس کا قائل اصحاب الاعراف کو بتلایا ہے اور بعض کہتے ہیں جب اصحاب الاعراف جہنمیوں کو یہ کہیں گے تمہارا جتھہ اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا تو اس وقت اللہ کی طرف سے جنتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھاتے تھے کہ ان پر اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔( تفسیر ابن کثیر) الاعراف
50 1- جس طرح پہلے گزر چکا ہے کہ کھانے پینے کی نعمتیں قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوں گی۔ ﴿خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ (الأعراف: 32) یہاں اس کی مزید وضاحت جنتیوں کی زبان سے کردی گئی ہے۔ الاعراف
51 1- حدیث میں آتا ہے، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس قسم کے بندے سے کہے گا ”کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دیئے تھے؟ تجھے عزت واکرام سے نہیں نوازا تھا؟ کیا اونٹ اور گھوڑے تیرے تابع نہیں کردیئے تھے؟ اور کیا تو سرداری کرتے ہوئے لوگوں سے چنگی وصول نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا کیوں نہیں؟ یااللہ یہ سب باتیں صحیح ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا، کیا تو میری ملاقات کا یقین رکھتا تھا؟ وہ کہے گا۔ نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، پس جس طرح تو مجھے بھولا رہا، آج میں تجھے بھول جاتا ہوں“۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الزھد) قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کو لہو ولعب بنانے والے وہی ہوتے ہیں جو دنیا کے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں سے چونکہ آخرت کی فکر اور اللہ کا خوف نکل جاتا ہے۔ اس لئے وہ دین میں بھی اپنی طرف سے جو چاہتے ہیں، اضافہ کرلیتے ہیں اور دین کے جس حصے کو چاہتے ہیں عملاً کالعدم قرار دیتے ہیں یا انہیں کھیل کود کا رنگ دے دیتے ہیں۔ اس لیے دین میں اپنی طرف سے بدعات کا اضافہ کرکے انہی کو اصل اہمیت دینا (جیسا کہ اہل بدعت کا شیوہ ہے) یہ بڑا جرم ہے، کیونکہ اس سے دین کھیل کود بن کر رہ جاتا ہے اور احکام وفرائض پر عمل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ الاعراف
52 1- یہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے ضمن میں ہی فرما رہا ہے کہ ہم نے تو اپنے علم کامل کے مطابق ایسی کتاب بھیج دی تھی جس میں ہر چیز کو کھول کر بیان کردیا تھا ۔ ان لوگوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا، تو ان کی بدقسمتی، ورنہ جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے، وہ ہدایت ورحمت الٰہی سے فیض یاب ہوئے گویا ہم نے تو (سورة بنی إسرائيل: 15) ”جب تک ہم رسول بھیج کر اتمام حجت نہیں کردیتے، ہم عذاب نہیں دیتے“ کے مطابق اہتمام کردیا تھا ۔ الاعراف
53 1- تاویل کا مطلب ہے، کسی چیز کی اصل حقیقت اور انجام ۔ یعنی کتاب الٰہی کے ذریعے سے وعدے، وعید اور جنت ودوزخ وغیرہ کا بیان تو کردیا گیا تھا ۔ لیکن یہ اس دنیا کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے منتظر تھے، سو اب وہ انجام ان کے سامنے آگیا ۔ 2- یعنی یہ جس انجام کے منتظر تھے، اس کے سامنے آجانے کے بعد اعتراف حق کرنے یا دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی آرزو اور کسی سفارشی کی تلاش، یہ سب بے فائدہ ہوں گی ۔ وہ معبود بھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وہ ان کی مدد کرسکیں گے نہ سفارش اور نہ عذاب جہنم سے چھڑا ہی سکیں گے ۔ الاعراف
54 1- یہ چھ دن اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ ہیں ۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم (عليہ السلام) کی تخلیق ہوئی ۔ ہفتے والے دن کہتے ہیں کوئی تخلیق نہیں ہوئی، اسی لئے اسے یوم السبت کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ سبت کے معنی قطع ( کاٹنے) کے ہیں یعنی اس دن تخلیق کا کام قطع ہوگیا ۔ پھر اس دن سے کیا مراد ہے؟ ہماری دنیا کا دن، جو طلوع شمس سے شروع ہوتا ہے اور غروب شمس پر ختم ہوجاتا ہے ۔ یا یہ دن ہزار سال کے برابر ہے؟ جس طرح کہ اللہ کے یہاں کے دن کی گنتی ہے، یا جس طرح قیامت کے دن کے بارے میں آتا ہے بظاہر یہ دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ایک تو اس وقت سورج چاند کا یہ نظام ہی نہیں تھا، آسمان وزمین کی تخلیق کے بعد ہی یہ نظام قائم ہوا دوسرے یہ عالم بالا کا واقعہ ہے جس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں ہے، اس لئے اس دن کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔ ہم قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہہ سکتے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ تو لفظ كُنْ سے سب کچھ پیدا کرسکتا تھا، اس کے باوجود اس نے ہر چیز کو الگ الگ تدریج کے ساتھ بنایا اس کی بھی اصل حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاہم بعض علما نے اس کی ایک حکمت لوگوں کو آرام، وقار اور تدریج کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے ۔ واللهُ أَعْلَمُ. 2- ”اسْتِوَاءٌ“ کے معنی علو اور استقرار کے ہیں سلف نے بلاکیف و بلاتشبیہ یہی معنی مراد لئے ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر بلند اور مستقر ہے ۔ لیکن کس طرح، کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کرسکتے نہ کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں ۔ نعیم بن حماد کا قول ہے ”جو اللہ کی مخلوق کےساتھ تشبیہ دے اس نے بھی کفر کیا اور جس نے اللہ کی، اپنے بارے میں بیان کردہ کسی بات کا انکار کیا، اس نے بھی کفر کیا“ اور اللہ کے بارے میں اس کی یا اس کے رسول کی بیان کردہ بات کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں ہے ۔ اس لئے جو باتیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں نص سے ثابت ہیں، ان پر بلا تاویل اور بلاکیف وتشبیہ ایمان رکھنا ضروری ہے۔ ( ابن کثیر ) ۔ 3- ”حَثِيثًا“ کے معنی ہیں نہایت تیزی سے اور مطلب ہے کہ ایک کے بعد دوسرا فوراً آجاتا ہے ۔ یعنی دن کی روشنی آتی ہے تو رات کی تاریکی فوراً کافور ہوجاتی ہے اور رات آتی ہے تو دن کا اجالا ختم ہوجاتا ہے اور سب دور ونزدیک سیاہی چھا جاتی ہے ۔ الاعراف
55 الاعراف
56 * ان آیات میں چار چیزوں کی تلقین کی گئی ہے: 1- اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری اور خفیہ طریقے سے دعا کی جائے جس طرح کہ حدیث میں بھی آتا ہے ۔ لوگو ! اپنے نفس کے ساتھ نرمی کرو (یعنی آواز پست رکھو ) تم جس کو پکار رہے ہو، وہ بہرا ہے نہ غائب، وہ تمہاری دعائیں سننے والا اور قریب ہے۔ (صحيح بخاری ، كتاب الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبة - ومسلم - كتاب الجنة ، باب استحباب خفض الصوت بالذكر) 2- دعا میں زیادتی نہ کی جائے یعنی اپنی حیثیت اور مرتبے سے بڑھ کر دعا نہ کی جائے۔ 3- اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلایا جائے یعنی اللہ کی نافرمانیاں کرکے فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیا جائے۔ 4- اس کے عذاب کا ڈر بھی دل میں ہو اور اس کی رحمت کی امید بھی ۔ اس طریقے سے دعا کرنے والے محسنین ہیں ۔ یقیناً اللہ کی رحمت ان کے قریب ہے ۔ الاعراف
57 1- اپنی الوہیت وربوبیت کے اثبات میں اللہ تعالیٰ مزید دلائل بیان فرما کر پھر اس سے احیاء موتی کا اثبات فرما رہا ہے ”بُشْرًابَشِيرٌ کی جمع ہے رحمتہ سے مراد یہاں مطر (بارش) ہے یعنی بارش سے پہلے وہ ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے جو بارش کی نوید ہوتی ہیں ۔ 2- بھاری بادل سے مراد پانی سے بھرے ہوئے بادل ہیں ۔ 3- ہر قسم کے پھل، جو رنگوں میں، ذائقوں میں، خوشبووں میں اور شکل وصورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ 4- جس طرح ہم پانی کے ذریعے سے مردہ زمین میں روئیدگی پیدا کردیتے ہیں اور وہ انواع واقسام کے غلے اور پھل پیدا کرتی ہے ۔ اسی طرح قیامت والے دن تمام انسانوں کو، جو مٹی میں مل کر مٹی ہوچکے ہوں گے، ہم دوبارہ زندہ کریں گے اور پھر ان کا حساب لیں گے ۔ الاعراف
58 1- علاوہ ازیں یہ تمثیل بھی ہوسکتی ہے ۔ ”الْبَلَدُ الطَّيِّبُ“ سے مراد سریع الفہم اور”الْبَلَدُ الخَبِيثُ“ سے کند ذہن، وعظ و نصیحت قبول کرنے والا دل اور اس کے برعکس دل ۔ قلب مومن یا قلب منافق یا پاکیزہ انسان اور ناپاک انسان ۔ مومن، پاکیزہ انسان اور وعظ ونصیحت قبول کرنے والا دل بارش کو قبول کرنے والی زمین کی طرح، آیات الٰہی کو سن کر ایمان وعمل صالح میں مزید پختہ ہوتا ہے اور دوسرا دل اس کے برعکس زمین شور کی طرح ہے جو بارش کا پانی قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے تو برائے نام جس سے پیداوار بھی نکمی اور برائے نام ہوتی ہے ۔ اسی کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے بیان فرمایا کہ ”مجھے اللہ تعالیٰ نے جو علم وہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال اس موسلادھار بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔ اس کے جو حصے زرخیز تھے، انہوں نے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے چارہ اور گھاس خوب اگایا (یعنی بھرپور پیداوار دی) اور اس کے بعض حصے سخت تھے، جنہوں نے پانی کو تو روک لیا (اندر جذب نہیں ہوا) تاہم اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا، خود بھی پیا ۔ کھیتوں کو بھی سیراب کیا اور کاشت کاری کی اور زمین کا کچھ حصہ بالکل چٹیل تھا، جس نے پانی روکا اور نہ کچھ اگایا ۔ پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کی دین میں سمجھ حاصل کی اور اللہ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا، اس سے اس نے نفع اٹھایا، پس خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھلایا اور مثال اس شخص کی بھی ہے جس نے کچھ نہیں سیکھا اور نہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا“۔ (صحيح بخاری ، كتاب العلم، باب فضل من علم وعلَّم) الاعراف
59 الاعراف
60 1- شرک اس طرح انسانی عقل کو ماؤف کردیتا ہے کہ انسان کو ہدایت، گمراہی اور گمراہی، ہدایت نظر آتی ہے ۔ چنانچہ قوم نوح کی بھی یہی قلبی ماہیت ہوئی، ان کو حضرت نوح (عليہ السلام)، جو اللہ کی توحید کی طرف اپنی قوم کو دعوت دے رہے تھے نَعُوذُ بِاللهِ گمراہ نظر آتے تھے۔ تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 1- حضرت نوح (عليہ السلام) اور حضرت آدم (عليہ السلام) کے درمیان دس قرنوں یا دس پشتوں کا فاصلہ ہے ۔ حضرت نوح (عليہ السلام) سے کچھ پہلے تک تمام لوگ اسلام پر قائم چلے آرہے تھے پھر سب سے پہلے توحید سے انحراف اس طرح آیا کہ اس قوم کے صالحین فوت ہوگئے تو ان کے عقیدت مندوں نے ان پر سجدہ گاہیں (عبادت خانے) قائم کردیں اور ان کی تصویریں بھی وہاں لٹکادیں، مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح ان کی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکر کریں گے اور ذکرالٰہی میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے ۔ جب کچھ وقت گزرا تو انہوں نے ان تصویروں کے مجسمے بنادئیے اور پھر کچھ اور عرصہ گزرنے کے بعد یہ مجسمے بتوں کی شکل اختیار کر گئے اور ان کی پوجا پاٹ شروع ہوگئی اور قوم نوح کے یہ صالحین وَدٌّ، سُوَاعٌ، يَعُوقُ، يَغوثُ اور نَسْرٌ معبود بن گئے ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (عليہ السلام) کو ان میں نبی بناکر بھیجا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی ۔ لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا، کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہیں کیا بالآخر اہل ایمان کے سوا سب کو غرق کردیا گیا ۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ قوم نوح نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ان ہی میں سے ایک آدمی نبی بن کر آگیا جو انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا ہے؟ یعنی ان کے خیال میں نبوت کے لئے انسان موزوں نہیں ۔ الاعراف
64 1- یعنی حق سے، حق کو دیکھتے تھے نہ اسے اپنانے کے لئے تیار تھے ۔ الاعراف
65 1- یہ قوم عاد، عاد اولیٰ ہے جن کی رہائش یمن میں ریتلے پہاڑوں میں تھی اور اپنی قوت و طاقت میں بےمثال تھی ۔ ان کی طرف حضرت ہود (عليہ السلام)، جو اسی قوم کے ایک فرد تھے، نبی بن کر آئے۔ الاعراف
66 1- کم عقلی ان کے نزدیک یہ تھی کہ بتوں کو چھوڑ کر، جن کی عبادت ان کے آبا واجداد سے ہوتی آرہی تھی، الہ واحد کی عبادت کی طرف دعوت دی جارہی ہے ۔ الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 1- ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت فرمایا ﴿لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلادِ (الفجر: 8) اس جیسی قوت والی قوم پیدا نہیں کی گئی اپنی اسی قوت کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر اس نے کہا ﴿مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے بہت زیادہ قوت والا ہے (حمٰ سجدۂ: ١٥ ) الاعراف
70 1- آباواجداد کی تقلید، ہر دور میں گمراہی کی بنیاد رہی ہے ۔ قوم عاد نے بھی یہی دلیل پیش کی اور شرک کو چھوڑ کر، توحید کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید کی یہ بیماری عام ہے ۔ 2- جس طرح قریش نے بھی رسول (ﷺ) کی دعوت توحید کے جواب میں کہا تھا ﴿اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الانفال: 32) ”اے اللہ! اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر بھیج دے“۔ یعنی شرک کرتے کرتے مشرک کی مت بھی ماری جاتی ہے ۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ یہ کہا جاتا یااللہ اگر یہ سچ ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ بہرحال قوم عاد نے اپنے پیغمبر حضرت ہود (عليہ السلام) سے کہہ دیا، کہ اگر تو سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ جس عذاب سے وہ ڈراتا ہے، بھیج دے ۔ الاعراف
71 1- رِجْسٌ کے معنی تو پلیدی کے ہیں ۔ لیکن یہاں یہ مقلوب (بدلا ہوا) ہے رِجْزٌ سے ۔ جس کے معنی عذاب کے ہیں ۔ یا پھر رِجْسٌ یہاں ناراضی اور غضب کے معنی میں ہے۔ (ابن کثیر) 2- اس سے مراد وہ نام ہیں جو انہوں نے اپنے معبودوں کے رکھے ہوئے تھے، مثلاً صَدَا، صُمُودٌ، هَبَ ۔ وغیرہ جیسے قوم نوح کے پانچ بت تھے جن کے نام اللہ نےقرآن میں ذکر کئے ہیں جیسے مشرکین عرب کے بتوں کے نام تھے۔ لاتٌ، عُزَّى، مَنَاتٌ، هُبَلٌ وغیرہ یا جیسے آج کل کے مشرکانہ عقائد واعمال میں ملوث لوگوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ۔ مثلاً داتا گنج بخش، خواجہ غریب نواز، بابا فرید گنج، مشکل کشا وغیرہ جن کے معبود یا مشکل کشا وگنج بخش وغیرہ ہونے کی کوئی دلیل ان لوگوں کے پاس نہیں ہے ۔ الاعراف
72 1- اس قوم پر بادتند کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل جاری رہا، جس نے ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور یہ قوم عاد کے لوگ، جنہیں اپنی قوت پربڑا ناز تھا، ان کے لاشے کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی طرح زمین پر پڑے نظر آتے تھے ۔( دیکھئے سورۂ الحاقہ: 6۔ 8، سورۂ ھود: 53۔ 56، سورۂ احقاف: 24 ۔ 25، وغیرھا من الآیات) الاعراف
73 1- یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے۔ ٩ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رضی الله عنہم) کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو ( صحيح بخاری ، كتاب الصلاة، باب الصلاة في مواضع الخسف، صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين ) ان کی طرف حضرت صالح (عليہ السلام) نبی بناکر بھیجے گئے ۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے نکلتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ حضرت صالح (عليہ السلام) نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد بھی اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کردیئے جائیں گے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کی بابت انہیں تاکید کردی گئی، کہ اسے بری نیت سے کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے ۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انہیں چنگھاڑا (صَيْحَةٌ ۔ سخت چیخ اور رَجْفَةٌ ۔ زلزلہ ) کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔ الاعراف
74 1- اس کا مطلب ہے کہ نرم زمین سے مٹی لے لے کر اینٹیں تیار کرتے ہو اور ان اینٹوں سے محل، جیسے آج بھی بھٹوں پر اسی طرح مٹی سے اینٹیں تیار کی جاتی ہیں ۔ 2- یہ ان کی قوت، صلابت بدن اور مہارت فن کا اظہار ہے ۔ 3- یعنی ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی اطاعت کا راستہ اختیا رکرو، نہ کہ کفران نعمت اور معصیت کا ارتکاب کر کے فساد پھیلاؤ ۔ الاعراف
75 1- یعنی جو دعوت توحید وہ لے کر آئے ہیں، وہ چونکہ فطرت کی آواز ہے، ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ صالح واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ جو ان کا سوال تھا، اس سے ان اہل ایمان نے تعرض ہی نہیں کیا ۔ کیونکہ ان کے رسول من اللہ ہونے کو وہ بحث کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کےنزدیک ان کی رسالت ایک مسلمہ حقیقت وصداقت تھی ۔ جیسا کہ فی الواقع تھی ۔ الاعراف
76 1- اس معقول جواب کے باوجود وہ اپنے استکبار اور انکار پر اڑے رہے ۔ الاعراف
77 الاعراف
78 1- یہاں ”رَجْفَةٌ“ (زلزلے) کا ذکر ہے ۔ دوسرے مقام پر صَيْحَةٌ ( چیخ ) کا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قسم کا عذاب ان پر آیا ۔ اوپر سے سخت چیخ اور نیچے سے زلزلہ ۔ ان دونوں عذابوں نے انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ الاعراف
79 1- یہ یا تو ہلاکت سے قبل کا خطاب ہے یا پھر ہلاکت کے بعد اسی طرح کا خطاب ہے جس طرح رسول اللہ (ﷺ) نے جنگ بدر ختم ہونے کے بعد قلیب بدر میں مشرکین کی لاشوں سے خطاب فرمایا تھا ۔ الاعراف
80 1- حضرت لوط (عليہ السلام) ، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم (عليہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں سے تھے پھر خود ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک علاقے میں نبی بناکر بھیجا ۔ یہ علاقہ اردن اور بیت المقدس کے درمیان تھا جسے سدوم کہا جاتا ہے ۔ یہ زمین سرسبز وشاداب تھی اور یہاں ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی ۔ قرآن نے اس جگہ کو مُؤْتَفِكَةٌ یا مُؤْتَفِكَاتٌ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے ۔ حضرت لوط (عليہ السلام) نے غالباً سب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی، ( جو ہر نبی کی بنیادی دعوت تھی اور سب سے پہلے وہ اسی کی دعوت اپنی قوم کو دیتے تھے ۔ جیسا کہ پچھلے نبیوں کے حالات میں، جن کا ذکر ابھی گذرا ہے، دیکھا جاسکتا ہے) جو دوسری بڑی خرابی مردوں کے ساتھ بدفعلی، قوم لوط میں تھی، اس کی شناعت وقباحت بیان فرمائی ۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا، اس گناہ کا نام ہی لواطت پڑگیا ۔ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ پہلے قوم کو اس جرم کی خطرناکی سے آگاہ کیا جائے ۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے ذریعے دعوت توحید بھی یہاں پہنچ چکی ہوگی ۔ لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض ائمہ کے نزدیک اس کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے یعنی مجرم اگر شادی شدہ ہو تو رجم، غیرشادی شدہ ہو تو سو کوڑے ۔ بعض کے نزدیک اس کی سزا ہی رجم ہے چاہے مجرم کیسا بھی ہو اور بعض کے نزدیک فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کر دینا چاہئے ۔ البتہ امام ابوحنیفہ صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، حد کے نہیں (تحفة الأحوذي جلد 5 ص17) الاعراف
81 1- یعنی مردوں کے پاس تم اس بے حیائی کے کام کے لئے محض شہوت رانی کی غرض سے آتے ہو، اس کے علاوہ تمہاری اور کوئی غرض ایسی نہیں ہوتی جو موافق عقل ہو ۔ اس لحاظ سے وہ بالکل بہائم کی طرح تھے جو محض شہوت رانی کے لئے ایک دوسرے پر چڑھتے ہیں ۔ 2- جو قضائے شہوت کا اصل محل اور حصول لذت کی اصل جگہ ہے ۔ یہ ان کی فطرت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی اللہ نے مرد کی جنسی لذت کی تسکین کے لئے عورت کی شرم گاہ کو اس کا محل اور موضع بنایا ہے اور ان ظالموں نے اس سے تجاوز کرکے مرد کی دبر کو اس کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ 3- لیکن اب اسی فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الٰہی سے تجاوز کو مغرب کی (مہذب) قوموں نے اختیار کرلیا ہے تو یہ انسانوں کا (بنیادی حق) قرار پاگیا ہے جس سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔ چنانچہ اب وہاں لواطت کو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے ۔ اور یہ سرے سے جرم ہی نہیں رہا ۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ. الاعراف
82 1- یہ حضرت لوط کو بستی سے نکالنے کی علت ہے۔ باقی ان کی پاکیزگی کا اظہار یا تو حقیقت کے طور پر ہے اور مقصد ان کا یہ ہوا کہ یہ لوگ اس برائی سے بچنا چاہتے ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہماری بستی ہی میں نہ رہیں یا استہزا اور تمسخر کے طور پر انہوں نے ایسا کہا ۔ الاعراف
83 1- إِنَّهَا كَانَتْ مِنَ الْبَاقِينَ فِي عَذَابِ اللهِ ، یعنی وہ ان لوگوں میں باقی رہ گئی جن پر اللہ کا عذاب آیا ۔ کیونکہ وہ بھی مسلمان نہیں تھی اور اس کی ہمدردیاں بھی مجرمین کے ساتھ تھیں بعض نے اس کا ترجمہ (ہلاک ہونے والوں میں سے) کیا ہے ۔ لیکن یہ لازمی معنی ہیں، اصل معنی وہی ہیں ۔ الاعراف
84 1- یہ خاص طرح کا مینہ کیا تھا ؟ پتھروں کا مینہ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ [هود: 82]. ”ہم نے ان پر تہ بہ تہ پتھروں کی بارش برسائی“۔ اس سے پہلے فرمایا : ﴿جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا ”ہم نے اس بستی کو (الٹ کر) نیچے اوپر کردیا“۔ 2- یعنی اے محمد! (ﷺ) دیکھئے تو سہی، جو لوگ علانیہ اللہ کی معاصی کا ارتکاب اور پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟ الاعراف
85 1- مدین حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا، پھر انہی کی نسل پر مبنی قبیلے کا نام بھی مدین اور جس بستی میں یہ رہائش پذیر تھے، اس کا نام بھی مدین پڑگیا ۔ یوں اس کا اطلاق قبیلے اور بستی دونوں پر ہوتا ہے ۔ یہ بستی حجاز کے راستے میں ”معان“ کے قریب ہے ۔ انہی کو قرآن میں دوسرے مقام پر أَصْحَابُ الأَيْكَة (بن کے رہنے والے) بھی کہا گیا ہے ۔ ان کی طرف حضرت شعیب (عليہ السلام) نبی بنا کر بھیجے گئے۔ (دیکھئے الشعراء: 176 کا حاشیہ) ملحوظہ: ہر نبی کو اس قوم کا بھائی کہا گیا ہے، جس کا مطلب اسی قوم اور قبیلے کا فرد ہے، جس کو بعض جگہ رَسُولا مِنْهُم یا مِنْ أَنْفُسِهِمْ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے اور مطلب ان سب کا یہ ہے کہ رسول اور نبی انسانوں میں سے ہی ایک انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے چن لیتا ہے اور وحی کے ذریعے سے اس پر اپنی کتاب اور احکام نازل فرماتا ہے ۔ 2- دعوت توحید کے بعد، اس قوم میں ناپ تول میں کمی کی جو بڑی خرابی تھی، اس سے اسے منع فرمایا اور پورا پورا ناپ اور تول کردینے کی تلقین کی ۔ یہ کوتاہی بھی بہت خطرناک ہے جس سے اس قوم کی اخلاقی پستی اور گراوٹ کا پتہ چلتا ہے جس کے اندر یہ ہو ۔ یہ بدترین خیانت ہے کہ پیسے پورے لئے جائیں اور چیز کم دی جائے ۔ اسی لئے سورۂ مطففین میں ایسے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی گئی ہے ۔ الاعراف
86 1- اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا جس کے نمونے آج کل کے متجددین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں بھی نظر آتے ہیں ۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. علاوہ ازیں راستے میں بیٹھنے کے اور بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں ۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لئے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ یا حضرت شعیب (عليہ السلام) کی طرف جانے والے راستوں میں بیٹھنا تاکہ ان کے پاس جانے والوں کو روکیں اور ان سے انہیں بدظن کریں، جیسے قریش مکہ کرتے تھے یا دین کے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا ۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کرلیں ۔ یا بعض کے نزدیک محصول اور چنگی وصول کرنے کے لئے ان کا راستوں پر بیٹھنا ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ یہ سب ہی کچھ کرتے ہوں ( فتح القدیر ) ۔ الاعراف
87 1- کفر پر صبر کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کے لئے تہدید اور سخت وعید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اہل حق کا اہل باطل پر فتح و غلبہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿فَتَرَبَّصُوٓاْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ [التوبة:52]. الاعراف
88 1- ان سرداروں کے تکبر اور سرکشی کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے ایمان وتوحید کی دعوت کو ہی رد نہیں کیا بلکہ اس سے بھی تجاوز کرکے اللہ کے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ یا تو اپنے آبائی مذہب پر واپس آجاؤ، نہیں تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے ۔ اہل ایمان کے اپنے سابق مذہب کی طرف واپسی کی بات تو قابل فہم ہے، کیونکہ انہوں نے کفر چھوڑ کر ایمان اختیار کیا تھا ۔ لیکن حضرت شعیب (عليہ السلام) کو بھی ملت آبائی کی طرف لوٹنے کی دعوت اس لحاظ سے تھی کہ وہ انہیں بھی نبوت اور تبلیغ ودعوت سے پہلے اپنا ہم مذہب ہی سمجھتے تھے، گو حقیقتاً ایسا نہ ہو ۔ یا بطور تغلیب انہیں بھی شامل کر لیا ہو ۔ 2- یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ہمزہ انکار کے لیے اور واو حالیہ ہے ۔ یعنی کیا تم ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹاؤ گے یا ہمیں اپنی بستی سے نکال دو گے درآں حالیکہ ہم اس مذہب کی طرف لوٹنا اور اس بستی سے نکلنا پسند نہ کرتے ہوں؟ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تم ہمیں ان میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرو ۔ الاعراف
89 1- یعنی اگر ہم دوبارہ اس دین آبائی کی طرف لوٹ آئے ، جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایمان وتوحید کی دعوت دے کر اللہ پر جھوٹ باندھا تھا؟ مطلب یہ تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہماری طرف سے ایسا ہو ۔ 2- اپنا عزم ظاہر کرنے کے بعد معاملہ اللہ کی مشیت کے سپرد کر دیا۔ یعنی ہم تو اپنی رضا مندی سے اب کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو بات اور ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ﴿حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ کی طرح تعلیق بالمحال ہے۔ 3- کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت رکھے گا اور ہمارے اور کفر واہل کفر کے درمیان حائل رہے گا، ہم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے گا اور اپنے عذاب سے محفوظ رکھے گا ۔ 4- اور اللہ جب فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ یہی ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو بچا کر مکذبین اور متکبرین کو ہلاک کر دیتا ہے ۔ یہ گویا عذاب الٰہی کے نزول کا مطالبہ ہے ۔ الاعراف
90 1- اپنے آبائی مذہب کو چھوڑنا اور ناپ تول میں کمی نہ کرنا، یہ ان کے نزدیک خسارے والی بات تھی درآں حالیکہ ان دونوں باتوں میں ان ہی کا فائدہ تھا ۔ لیکن دنیا والوں کی نظر میں تو نفع عاجل (دنیا میں فوراً حاصل ہو جانے والا نفع) ہی سب کچھ ہوتا ہے جو ناپ تول میں ڈنڈی مار کر انہیں حاصل ہو رہا تھا، وہ اہل ایمان کی طرح آخرت کے نفع آجل (دیر میں ملنے والے نفع) کے لیے اسے کیوں چھوڑتے؟ الاعراف
91 1- یہاں رَجْفَة زلزلہ کا لفظ آیا ہے اور سورۂ ہود آیت 94 میں صَيْحَةٌ ( چیخ ) کا لفظ ہے اور سورۂ شعراء ۔ 189 میں ظُلَّةٌ (بادل کا سایہ) کے الفاظ ہیں ۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ عذاب میں ساری ہی چیزو ں کا اجتماع ہوا ۔ یعنی سائے والے دن ان پر عذاب آیا۔ پہلے بادل نے ان پر سایہ کیا جس میں شعلے ، چنگاریاں اور آگ کے بھبھوکے تھے، پھر آسمان سے سخت چیخ آئی اور زمین سے بھونچال، جس سے ان کی روحیں پرواز کر گئیں اور بےجان لاشے ہوکر پرندوں کی طرح گھٹنوں میں منہ دے کر اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے ۔ الاعراف
92 1- یعنی جس بستی سے یہ اللہ کے رسول اور ان کے پیروکاروں کو نکالنے پر تلے ہوئے تھے ، اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہونے کے بعد ایسے ہوگئے جیسے وہ یہاں رہتے ہی نہ تھے ۔ 2- یعنی خسارے میں وہی لوگ رہے جنہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی، نہ کہ پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والے ۔ اور خسارہ بھی دونوں جہانوں میں ۔ دنیا میں بھی ذلت کا عذاب چکھا اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ عذاب شدید ان کے لیے تیار ہے۔ الاعراف
93 1- عذاب وتباہی کے بعد جب وہ وہاں سے چلے، تو انہوں نے وفور جذبات میں یہ باتیں کہیں۔ اور ساتھ ہی کہا کہ جب میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا اور اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا، تو اب میں ایسے لوگوں پر افسوس کروں تو کیوں کروں؟ جو اس کے باوجود اپنے کفر اور شرک پر ڈٹے رہے۔ الاعراف
94 1- ”بَأْسَاءُ“ وہ تکلیفیں جو انسان کے بدن کو لاحق ہوں یعنی بیماری اور ”ضَرَّاءُ“ سے مراد فقر وتنگ دستی ۔ مطلب یہ ہے کہ جس کسی بستی میں بھی ہم نے رسول بھیجا، انہوں نے اس کی تکذیب کی جس کی پاداش میں ہم نے ان کو بیماری اور محتاجی میں مبتلا کردیا جس سے مقصد یہ تھا کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں۔ الاعراف
95 1- یعنی فقروبیماری کے ابتلا سے بھی جب ان کے اندر رجوع الی اللہ کا داعیہ پیدا نہیں ہوا تو ہم نے ان کی تنگ دستی کو خوش حالی سے اور بیماری کو صحت وعافیت سے بدل دیا تاکہ وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں ۔ لیکن اس انقلاب حال سے بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ کبھی تنگی آگئی کبھی خوش حالی آگئی، کبھی بیماری تو کبھی صحت ، کبھی فقیری تو کبھی امیری ۔ یعنی تنگ دستی کا پہلا علاج ان کے لیے موثر ثابت ہوا، نہ خوش حالی، ان کے اصلاح احوال کے لیے کارگر ثابت ہوئی ۔ وہ اسے لیل ونہار کی گردش ہی سمجھتے رہے اور اس کے پیچھے کار فرما قدرت الٰہی اور اس کے ارادہ کو سمجھنے میں ناکام رہے تو ہم نے پھر انہیں اچانک اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا ۔ اسی لیے حدیث میں مومنوں کا معاملہ اس کے برعکس بیان فرمایا گیا ہے ۔ کہ وہ آرام وراحت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تکلیف پہنچنے پر صبر سے کام لیتے ہیں ، یوں دونوں ہی حالتیں ان کے لیے خیر اور اجر کا باعث ہوتی ہیں۔ ( صحيح مسلم- كتاب الزهد باب المؤمن أمره كله خير) الاعراف
96 الاعراف
97 الاعراف
98 الاعراف
99 1- ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ ایمان وتقویٰ ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنا لیں تو ان پر اللہ تعالیٰ آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی حسب ضرورت انہیں آسمان سےبارش مہیا فرماتا ہے اور زمین اس سے سیراب ہوکر خوب پیداوار دیتی ہے ۔ نتیجتاً خوش حالی وفراوانی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔ لیکن اس کے برعکس تکذیب اور کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قومیں اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہر جاتی ہیں، پھر پتہ نہیں ہو تاکہ شب وروز کی کس گھڑی میں عذاب آجائے اور ہنستی کھیلتی بستیوں کو آن واحد میں کھنڈر بنا کر رکھ دے۔ اس لیے اللہ کی ان تدبیروں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیئے۔ اس بے خوفی کا نتیجہ سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں۔ مکر کے مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورہ آل عمران آیت 54 کا حاشیہ ۔ الاعراف
100 1- یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر بھی قفل لگ جاتے ہیں، پھر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے۔ دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا، ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق کی آواز کے لیے ان کے کان بند ہو جاتے ہیں ۔ پھر انذار اور وعظ ونصیحت ان کے لیے بیکار ہو جاتے ہیں ۔ آیت میں ہدایت تَبْيِينٌ (وضاحت) کے معنی میں ہے، اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے۔ ﴿أَوَلَمْ يَهْدِ للَّذِينَ یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔ الاعراف
101 1- جس طرح گزشتہ صفحات میں چند انبیاء کا ذکر گزرا۔ بینات سے مراد دلائل وبراہین اور معجزات دونوں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے جب تک ہم نے حجت تمام نہیں کر دی، ہم نے انہیں ہلاک نہیں کیا ۔ کیونکہ: ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا [الإسراء: 15] ”جب تک ہم رسول نہیں بھیج دیتے ۔ عذاب نازل نہیں کرتے“۔ 2- اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یوم میثاق کو جب ان سے عہد لیا گیا تھا تو یہ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہ تھے، اس لیے جب ان کے پاس رسول آئے تو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لائے ۔ کیونکہ ان کی تقدیر میں ہی ایمان نہیں تھا جسے اللہ نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا تھا ۔ جس کو حدیث میں [ فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلقَ لَهُ ] (صحيح بخاری، تفسير سورة الليل) سے تعبیر کیا گیا ہے دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب پیغمبر ان کے پاس آئے تو وہ اس وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کر چکے تھے ۔ گویا ابتداءً جس چیز کی وہ تکذیب کرچکے تھے، یہی گناہ ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کر لی گئی، اسی کو اگلے جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ﴿وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [الأنعام: 109-110]. ”اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے (بدبخت) ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی آجائیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے)“۔ الاعراف
102 1- اس سے بعض نے عہد الست، جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، بعض نے عذاب ٹالنے کے لیے پیغمبروں سے جو عہد کرتے تھے، وہ عہد اور بعض نے عام عہد مراد لیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے ۔ اور یہ عہد شکنی، چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، فسق ہی ہے ۔ الاعراف
103 1- یہاں سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا ذکر شروع ہورہا ہے جو مذکورہ انبیاء کے بعد آئے جو جلیل القدر پیغمبر تھے، جنہیں فرعون مصر اور اس کی قوم کی طرف دلائل ومعجزات دے کر بھیجا گیا تھا ۔ 2- یعنی انہیں غرق کر دیا گیا، جیسا کہ آگے آئے گا۔ الاعراف
104 الاعراف
105 1- جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں واقعی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ رسول ہوں ۔ اس معجزے اور بڑی دلیل کی تفصیل بھی آگے آرہی ہے۔ 2- بنی اسرائیل ، جن کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، حضرت یوسف (عليہ السلام) کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ فرعون نے ان کو غلام بنا لیا تھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم کرتا تھا، جس کی تفصیل پہلے سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ فرعون اور اس کے درباری امراء نے جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے فرعون سے یہ دوسرا مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے تاکہ یہ اپنے آبائی مسکن میں جا کر عزت واحترام کی زندی گزاریں اور اللہ کی عبادت کریں۔ الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 1- یعنی اللہ تعالیٰ نے جو دو بڑے معجزے انہیں عطا فرمائے تھے، اپنی صداقت کے لیے انہیں پیش کر دیا ۔ الاعراف
109 1- معجزے دیکھ کر، ایمان لانے کے بجائے، فرعون کے درباریوں نے اسے جادو قرار دے کر یہ کہہ دیا کہ یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے جس سے اس کا مقصد تمہاری حکومت کو ختم کرنا ہے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے زمانے میں جادو کا بڑا زور اور اس کا عام چلن تھا، اس لیے انہوں نے معجزات کو بھی جادو سمجھا، جن میں سرے سے انسان کا دخل ہی نہیں ہوتا۔ خالص اللہ کی مشیت سے ظہور میں آتے ہیں۔ تاہم اس عنوان سے فرعون کے درباریوں کے لیے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے بارے میں فرعون کو بہکانے کا موقع مل گیا۔ الاعراف
110 الاعراف
111 الاعراف
112 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے زمانے میں جادوگری کو بڑا عروج حاصل تھا ۔ اسی لیے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے پیش کردہ معجزات کو بھی انہوں نے جادو سمجھا اور جادو کے ذریعے سے اس کا توڑ مہیا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا ”اے موسیٰ! (عليہ السلام) کیا تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری زمین سے نکال دے؟، پس ہم بھی اس جیسا جادو تیرے مقابلے میں لائیں گے، اس کے لیے کسی ہموار جگہ اور وقت کا ہم تعین کرلیں جس کی دونوں پابندی کریں، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے کہا کہ نو روز کا دن اور چاشت کا وقت ہے، اس حساب سے لوگ جمع ہوجائیں“۔ (سورہ طٰہ: 57۔59) الاعراف
113 الاعراف
114 1- جادوگر، چوں کہ طالب دنیا تھے، دنیا کمانے کے لیے ہی شعبدہ بازی کا فن سیکھتے تھے، اس لیے انہوں نے موقع غنیمت جانا کہ اس وقت تو بادشاہ کو ہماری ضرورت لاحق ہوئی ہے، کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اجرت حاصل کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا مطالبۂ اجرت، کامیابی کی صورت میں پیش کر دیا، جس پر فرعون نے کہا کہ اجرت ہی نہیں بلکہ تم میرے مقربین میں بھی شامل ہو جاؤ گے۔ الاعراف
115 1- جادوگروں نے یہ اختیار اپنے آپ پر مکمل اعتماد کرنے کی وجہ سے دیا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ ہمارے جادو کے مقابلے میں موسیٰ (عليہ السلام) کا معجزہ، جسے وہ ایک کرتب ہی سمجھتے تھے، کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اور اگر موسی (عليہ السلام) کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کا موقع دے بھی دیا تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، ہم اس کے کرتب کا توڑ بہر صورت مہّیا کرلیں گے ۔ الاعراف
116 1- لیکن موسیٰ (عليہ السلام) چونکہ اللہ کے رسول تھے اور اللہ کی تائید انہیں حاصل تھی، اس لیے انہیں اپنے اللہ کی مدد کا یقین تھا، لہذا انہوں نے بغیر کسی خوف اور تامل کے جادوگروں سے کہا کہ پہلے تم جو دکھانا چاہتے ہو، دکھاو! علاوہ ازیں اس میں یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ جادو گروں کے پیش کردہ جادو کا توڑ جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی طرف سے معجزانہ انداز میں پیش ہوگا تو یہ لوگوں کے لیے زیادہ متاثر کن ہوگا، جس سے ان کی صداقت واضح تر ہوگی اور لوگوں کے لیے ایمان لانا سہل ہو جائے گا ۔ 2- بعض آثار میں بتایا گیا ہے کہ یہ جادوگر 70 ہزار کی تعداد میں تھے ۔ بظاہر یہ تعداد مبالغے سے خالی نہیں، جن میں سے ہر ایک نے ایک ایک رسی اور ایک ایک لاٹھی میدان میں پھینکی، جو دیکھنے والوں کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ۔ یہ گویا بزعم خویش بہت بڑا جادو تھا جو انہوں نے پیش کیا ۔ الاعراف
117 1- لیکن یہ جو کچھ بھی تھا، ایک تخیل، شعبدہ بازی اور جادو تھا جو حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، چنانچہ موسیٰ (عليہ السلام) کے لاٹھی ڈالتے ہی سب کچھ ختم ہوگیا اور لاٹھی نے ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرکے سب کچھ نگل لیا۔ الاعراف
118 الاعراف
119 الاعراف
120 الاعراف
121 1- جادوگروں نے جو جادو کے فن اور اس کی اصل حقیقت کو جانتے تھے، یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ موسیٰ (عليہ السلام) نے جو کچھ یہاں پیش کیا ہے، جادو نہیں ہے، یہ واقعی اللہ کا نمائندہ ہےاور اللہ کی مدد سے ہی اس نے یہ معجزہ پیش کیا ہے۔ جس نے آن واحد میں ہم سب کے کرتبوں پر پانی پھیر دیا۔ چنانچہ انہوں نے موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ باطل، باطل ہے چاہے اس پر کتنے ہی حسین غلاف چڑھا لیے جائیں اور حق، حق ہے چاہے اس پر کتنے ہی پردے ڈال دیئے جائیں ، تاہم حق کا ڈنکا بج کر رہتا ہے۔ الاعراف
122 1- سجدے میں گر کر انہوں نے رب العالمین پر ایمان لانے کا اعلان کیا جس سے فرعونیوں کو مغالطہ ہوسکتا تھا کہ یہ سجدہ فرعون کو کیا گیا ہے جس کی الوہیت کے وہ قائل تھے، اس لیے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا رب کہہ کر واضح کر دیا کہ یہ سجدہ ہم جہانوں کے رب کو ہی کر رہے ہیں ۔ لوگوں کے خود ساختہ کسی رب کو نہیں۔ الاعراف
123 1- یہ جو کچھ ہوا، فرعون کے لیے بڑا حیران کن اور تعجب خیز تھا، اس لیے اسے اور تو کچھ نہیں سوجھا، اس نے یہی کہہ دیا کہ تم سب آپس میں ملے ہوئے ہو اور اس کا مقصد ہمارے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ اچھا! اس کا انجام عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ الاعراف
124 1- یعنی دایاں پاؤں اور بایاں ہاتھ یا بایاں پاؤں اور دایاں ہاتھ، پھر یہی نہیں،سولی پر چڑھا کر تمہیں نشان عبرت بھی بنا دوں گا۔ الاعراف
125 1- اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تو ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کرے گا تو تجھے بھی اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے اس جرم کی سخت سزا دے گا، اس لیے کہ ہم سب کو مرکر اسی کے پاس جانا ہے، اس کی سزا سے کون بچ سکتا ہے؟ گویا فرعون کے عذاب دنیا کے مقابلے میں اسے عذاب آخرت سے ڈرایا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ موت تو ہمیں آنی ہی آنی ہے، اس سے کیا فرق پڑے گا کہ موت سولی پر آئے یا کسی اور طریقے سے؟ الاعراف
126 1- یعنی تیرے نزدیک ہمارا یہی عیب ہے ۔ جس پر تو ہم سے ناراض ہوگیا ہے اور ہمیں سزا دینے پر تل گیا ہے۔ درآں حالیکہ یہ سرے سے عیب ہی نہیں ہے۔ یہ تو خوبی ہے، بہت بڑی خوبی، کہ جب حقیقت ہمارے سامنے واضح ہوکر آگئی تو ہم نے اس کے مقابلے میں تمام دنیاوی مفادات ٹھکرا دیئے اور حقیقت کو اپنا لیا۔ پھر انہوں نے اپنا روئے سخن فرعون سے پھیر کر اللہ کی طرف کرلیا اور اس کی بارگاہ میں دست بدعا ہوگئے۔ 2- تاکہ ہم تیرے اس دشمن کے عذاب کو برداشت کر لیں، اور حق میں متصلب اور ایمان پر ثابت قدم رہیں۔ 3-اس دنیاوی آزمائش سے ہمارے اندر ایمان سے انحراف آئے نہ کسی اور فتنے میں ہم مبتلا ہوں۔ الاعراف
127 1- یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت ایمان وتوحید کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں۔ فرعونیوں نے بھی یہی کہا۔ 2- فرعون کو بھی اگرچہ دعوائے ربوبیت تھا ﴿فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الأعْلَى [النازعات: 24]. ”میں تمہارا بڑا رب ہوں“ (وہ کہا کرتا تھا) لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معبود بھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے ۔ 3- ہمارے اس انتظام میں یہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ قتل ابناء کا یہ پروگرام فرعونیوں کے کہنے سے بنایا گیا اس سے قبل بھی، جب موسیٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی تھی، موسیٰ علیہ السلام کے بعد از ولادت خاتمے کے لیے اس نے بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد ان کو بچانے کی یہ تدبیر کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو خود فرعون کے محل میں پہنچوا کر اسی کی گود میں ان کی پرورش کروائی۔ الاعراف
128 1- جب فرعون کی طرف سے دوبارہ اس ظلم کا آغاز ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ سے مدد حاصل کرنے اور صبر کرنے کی تلقین کی اور تسلی دی کہ اگر تم صحیح رہے تو زمین کا اقتدار بالآخر تمہیں ہی ملے گا۔ الاعراف
129 1- یہ اشارہ ہے ان مظالم کی طرف جو ولادت موسیٰ علیہ السلام سے قبل ان پر ہوتے رہے۔ 2- جادوگروں کے واقعے کے بعد ظلم وستم کا یہ نیا دور ہے، جو موسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد شروع ہوا۔ 3- حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں، بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کرکے، زمین میں تمہیں اقتدار عطا فرمائے گا۔ اور پھر تمہاری آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ ابھی تو تکلیفوں کے ذریعے سے آزمائے جارہے ہو، پھر انعام واکرام کی بارش کرکے اور اختیار واقتدار سے بہرہ مند کرکے تمہیں آزمایا جائے گا۔ الاعراف
130 1- ”آلَ فِرْعَوْنَ“ سے مراد، فرعون کی قوم ہے۔ اور ”سِنِينَ“ سے قحط سالی۔ یعنی بارش کے فقدان اور درختوں میں کیڑے وغیرہ لگ جانے سے پیداوار میں کمی۔ مقصد اس آزمائش سے یہ تھا کہ اس ظلم اور استکبار سے باز آجائیں جس میں وہ مبتلا تھے۔ الاعراف
131 1- ”حَسَنَةٌ“ (بھلائی) سے مراد غلے اور پھلوں کی فراوانی اور”سيِّئَةٌ“ (برائی) سے اس کے برعکس اور قحط سالی اور پیداوار میں کمی۔ حَسَنَةٌ کا سارا کریڈٹ خود لے لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمرہ ہے اور بدحالی کا سبب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں۔ 2- ”طَآئِرٌ“ کے معنی ہیں ”اڑنے والا“ یعنی پرندہ ۔ چوں کہ پرندے کے بائیں یا دائیں اڑنے سے وہ لوگ نیک فالی یا بدفالی لیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ لفظ مطلق فال کے لیے بھی استعمال ہونے لگ گیا اور یہاں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خیر یا شر، جو خوش حالی یا قحط سالی کی وجہ سے انہیں پہنچتا ہے، اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکار اس کا سبب نہیں۔ کا مطلب ہوگا کہ ان کی بدشگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے اور وہ ان کا کفر وانکار ہے نہ کہ کچھ اور۔ یا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ ان کا کفر ہے۔ الاعراف
132 1- یہ اسی کفر وجحود کا اظہار ہے جس میں وہ مبتلا تھے، اور معجزات وآیات الٰہی کو اب بھی وہ جادوگری باور کرتے یا کراتے تھے۔ الاعراف
133 1- طوفان سے سیلاب یا کثرت بارش، جس سے ہر چیز غرق ہوگئی ، یا کثرت اموات مراد ہے، جس سے ہر گھر میں ماتم برپا ہوگیا۔ ”جَرَادٌ“ ٹڈی کو کہتے ہیں ، ٹڈی دل کا حملہ فصلوں کی ویرانی کے لیے مشہور ہے۔ یہ ٹڈیاں ان کے غلوں اور پھلوں کی فصلوں کو کھا کر چٹ کر جاتیں۔ ”قُمَّلٌ“ سے مراد جوں ہیں جو انسان کے جسم، کپڑے اور بالوں میں ہوجاتی ہیں یا گھن کا کیڑا ہے جو غلے میں لگ جاتا ہے تو اس کے بیشتر حصے کو ختم کر دیتا ہے۔ جووں سے انسان کو گھن بھی آتی ہے اور اس کی کثرت سے سخت پریشانی بھی ۔ اور جب یہ بطور عذاب ہوں تو اسے لاحق ہونے والی پریشانی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح گھن کا عذاب بھی معیشت کو کھوکھلا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ ”ضَفَادِعُضَفْدَعَةٌ کی جمع ہے یہ مینڈک کو کہتے ہیں جو پانی اور جوہڑوں، چھپڑوں میں ہوتا ہے۔ یہ مینڈک ان کے کھانوں میں، بستروں میں، ابلے ہوئے غلوں میں غرض ہر جگہ اور ہر طرف مینڈک ہی مینڈک ہوگئے، جس سے ان کا کھانا پینا، سونا اور آرام کرنا حرام ہوگیا۔ ”دم“ (خون) سے مراد ہے پانی کا خون بن جانا، یوں پانی پینا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ بعض نے خون سے مراد نکسیر کی بیماری لی ہے۔ یعنی ہر شخص کی ناک سے خون جاری ہوگیا، ”آيَاتٌ مُفَصَّلاتٌ“ یہ کھلے کھلے اور جدا جدا معجزے تھے، جو وقفے وقفے سے ان کے پاس آئے۔ الاعراف
134 الاعراف
135 1- یعنی ایک عذاب آتا تو اس سے تنگ آکر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے، ان کی دعا سے وہ ٹل جاتا تو ایمان لانے کے بجائے، پھر اس کفر وشرک پر جمے رہتے۔ پھر دوسرا عذاب آجاتا تو پھر اسی طرح کرتے۔ یوں کچھ کچھ وقفوں سے پانچ عذاب ان پر آئے۔ لیکن ان کے دلوں میں جو رعونت اور دماغوں میں جو تکبر تھا، وہ حق کی راہ میں ان کے لیے زنجیر پابنا رہا اور اتنی اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود وہ ایمان کی دولت سے محروم ہی رہے۔ الاعراف
136 1- اتنی بڑی بڑی نشانیوں کے باوجود وہ ایمان لانے کے لیے اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ بالآخر انہیں دریا میں غرق کر دیا گیا، جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ الاعراف
137 1- یعنی بنی اسرائیل کو، جن کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اور ان پر ظلم روا رکھتا تھا۔ اس بنا پر وہ فی الواقع مصر میں کمزور سمجھے جاتے تھے کیونکہ مغلوب اور غلام تھے ۔ لیکن جب اللہ نے چاہا تو اسی مغلوب اور غلام قوم کو زمین کا وارث بنا دیا۔ ﴿وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ [آل عمران: 26]. 2- زمین سے مراد شام کا علاقہ فلسطین ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے عمالقہ کے بعد بنی اسرائیل کو غلبہ عطا فرمایا، شام میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کی وفات کے بعد اس وقت گئے جب حضرت یوشع بن نون نے عمالقہ کو شکست دے کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ اور زمین کے ان حصوں میں برکتیں رکھیں، یعنی شام کے علاقے میں۔ جو بکثرت انبیا کا مسکن ومدفن رہا اور ظاہری شادابی وخوش حالی میں بھی ممتاز ہے۔ یعنی ظاہری وباطنی دونوں قسم کی برکتوں سے یہ زمین مالامال رہی ہے۔ مشارق مشرق کی جمع اور مغارب مغرب کی جمع ہے۔ حالانکہ مشرق اور مغرب ایک ایک ہی ہیں ۔ جمع سے مراد اس ارض بابرکت کے مشرقی اور مغربی حصے ہیں یعنی جہات مشرق ومغرب ۔ 3- یہ وعدہ یہی ہے جو اس سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی آیت 128، 129 میں فرمایا گیا ہے اور سورہ قصص میں بھی ۔ ﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ [القصص: 5-6]. ”ہم چاہتے ہیں کہ ان پر احسان کریں جو زمین میں کمزور سمجھے جاتے ہیں اور ان کو پیشوا بنائیں اور ملک کا وارث کریں اور ملک میں ان کو قوت وطاقت دیں اور فرعون وہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے ہیں“، اوریہ فضل واحسان اس صبر کی وجہ سے ہوا جس کا مظاہرہ انہوں نے فرعونی مظالم کے مقابلے میں کیا۔ 4- مصنوعات سے مراد کارخانے، عمارتیں اور ہتھیار وغیرہ ہیں اور يَعْرِشُونَ (جو وہ بلند کرتے تھے سے مراد اونچی اونچی عمارتیں بھی ہوسکتی ہیں اور انگوروں وغیرہ کے باغات بھی جو وہ چھپروں پر پھیلاتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی شہری عمارتیں، ہتھیار اور دیگر سامان بھی تباہ کر دیا اور ان کے باغات بھی۔ الاعراف
138 1- اس سے بڑی جہالت اور نادانی کیا ہوگی کہ جس اللہ نے انہیں فرعون جیسے بڑے دشمن سے نہ صرف نجات دی، بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے اسے اس کے لشکر سمیت غرق کر دیا اور انہیں معجزانہ طریق سے دریا عبور کروایا۔ وہ دریا پار کرتے ہی اس اللہ کو بھول کر پتھر کے خود تراشیدہ معبود تلاش کرنے لگ گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ بت گائے کی شکل کے تھے جو پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔ الاعراف
139 1- یعنی یہ مورتیوں کے پجاری جن کے حال نے تمہیں بھی دھوکے میں ڈال دیا، ان کا مقدر تباہی اور ان کا یہ فعل باطل اور خسارے کا باعث ہے۔ الاعراف
140 1- کیا جس اللہ نے تم پر اتنے احسانات کیے اور تمہیں جہانوں پر فضیلت بھی عطا کی، اسے چھوڑ کر میں تمہارے لیے پتھر اور لکڑی کے تراشے ہوئے بت تلاش کروں؟ یعنی یہ ناشکری اور احسان ناشناسی میں کس طرح کرسکتا ہوں؟ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ کے مزید احسانات کا تذکرہ ہے۔ الاعراف
141 1- یہ وہی آزمائشیں ہیں جن کا ذکر سورہ بقرہ میں بھی گزرا اور سورہ ابراہیم میں بھی آئے گا۔ الاعراف
142 1- فرعون اور اس کے لشکر کے غرق کے بعد ضرورت لاحق ہوئی کہ بنی اسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کوئی کتاب انہیں دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو تیس راتوں کے لیے کوہ طور پر بلایا، جس میں دس راتوں کا اضافہ کرکے اسے چالیس کر دیا گیا۔ حضرت موسی (عليہ السلام) نے جاتے وقت ہارون (عليہ السلام) کو، جو ان کے بھائی بھی تھے اور نبی بھی، اپنا جانشین مقرر کر دیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کی ہدایت واصلاح کا کام کرتے رہیں اور انہیں ہر قسم کے فساد سے بچائیں۔ اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے ۔ 2- حضرت ہارون (عليہ السلام) خود نبی تھے اور اصلاح کا کام ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا، حضرت موسی (عليہ السلام) نے انہیں محض تذکیر وتنبیہ کے طور پر یہ نصیحتیں کیں، میقات سے یہاں مراد وقت معین ہے۔ الاعراف
143 1- جب موسیٰ علیہ السلام طور پر گئے اور وہاں اللہ نے ان سے براہ راست گفتگو کی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اللہ کو دیکھنے کا بھی شوق پیدا ہوا، اور اپنے اس شوق کا اظہار ربِّ أرِنِي کہہ کر کیا ۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَنْ تَرَانِي (تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا) اس سے استدلال کرتے ہوئے معتزلہ نے کہا کہ لَنْ نَفْيُ تَأْبِيدٍ (ہمیشہ کی نفی) کے لیے آتا ہے۔ اس لیے اللہ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں۔ لیکن معتزلہ کا یہ مسلک صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ متواتر، صحیح اور قوی روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الہیٰ سے مشرف ہوں گے۔ تمام اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ اس نفی رویت کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ دنیا میں کوئی انسانی آنکھ اللہ کو دیکھنے پرقادر نہیں ہے۔ لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرما دے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوے کو برداشت کرسکے۔ 2- یعنی وہ پہاڑ بھی رب کی تجلی کو برداشت نہ کرسکا اور موسیٰ علیہ السلام بےہوش ہوکر گر پڑے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن سب لوگ بےہوش ہوں گے، (یہ بےہوشی امام ابن کثیر کے بقول میدان محشر میں اس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے کے لیے نزول اجلال فرمائے گا) اور جب ہوش میں آئیں گے تو میں ہوش میں آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (عليہ السلام) عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آئے یا انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کے بدلے میں میدان محشر کی بےہوشی سے مستثنیٰ رکھا گیا“۔ (صحيح بخاری- تفسير سورة الأعراف - صحيح مسلم، باب فضائل موسى عليہ السلام) 3- تیری عظمت وجلالت کا اور اس بات کا کہ میں تیرا عاجز بندہ ہوں، دنیا میں تیرے دیدار کا متحّمل نہیں ہوسکتا۔ الاعراف
144 1- یہ ہم کلامی کا دوسرا موقعہ تھا جس سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو مشرف کیا گیا ہے ۔ اس سے قبل جب آگ لینے گئے تھے تو اللہ نے ہم کلامی سے نوازا تھا اور پیغمبری عطا فرمائی تھی ۔ الاعراف
145 1- گویا تورات تختیوں کی شکل میں عطا فرمائی گئی جس میں ان کے لیے دینی احکام، امر ونہی اور ترغیب وترہیب کی پوری تفصیل تھی ۔ 2- یعنی رخصتوں کی ہی تلاش میں نہ رہیں جیسا کہ سہولت پسندوں کا حال ہوتا ہے ۔ 3- مقام (دار) سے مراد یا تو انجام یعنی ہلاکت ہے یا اس کا مطلب ہے کہ فاسقوں کے ملک پر تمہیں حکمرانی عطا کروں گا اور اس سے مراد ملک شام ہے جس پر اس وقت عمالقہ کی حکمرانی تھی ۔ جو اللہ کے نافرمان تھے ۔ (ابن کثیر) الاعراف
146 1- تکبر کا مطلب ہے اللہ کی آیات واحکام کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور لوگوں کو حقیر گرداننا۔ یہ تکبر، انسان کے لیے زیبا نہیں۔ کیونکہ اللہ خالق ہے اور وہ اس کی مخلوق ۔ مخلوق ہوکر، خالق کا مقابلہ کرنا اور اس کے احکام وہدایات سے اعراض وغفلت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اسی لیے تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اس آیت میں تکبر کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ انہیں آیات الٰہی سے دور ہی رکھتا ہے اور پھر وہ اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ کسی طرح کی بھی نشانی انہیں حق کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ [يونس: 96-97]. ”جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی وہ ایمان نہیں لائیں گے، چاہے ان کے پاس ہر طرح کی نشانی آجائے ۔ حتیٰ کہ وہ درد ناک عذاب دیکھ لیں“۔ 2- اس میں احکام الٰہیٰ سے اعراض کرنے والوں کی ایک اور عادت یا نفسیات کا بیان ہے کہ ہدایت کی کوئی بات ان کے سامنے آئے تو اسے تو نہیں مانتے، البتہ گمراہی کی کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے فوراً اپنا لیتے اور راہ عمل بنا لیتے ہیں ۔ قرآن کریم کی بیان کردہ اس حقیقت کا ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آج ہم بھی ہر جگہ اور ہر معاشرے میں حتیٰ کہ مسلمان معاشروں میں بھی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں کہ نیکی منہ چھپائے پھر رہی ہے اور بدی کو ہر کوئی لپک لپک کر اختیار کر رہا ہے۔ 3- یہ اس بات کا سبب بتلایا جارہا ہے کہ لوگ نیکی کے مقابلے میں بدی کو اور حق کے مقابلے میں باطل کو کیوں زیادہ اختیار کرتے ہیں؟ یہ سبب ہے آیات الٰہی کی تکذیب اور ان سے غفلت واعراض کا۔ یہ ہر معاشرے میں عام ہے۔ الاعراف
147 1- اس میں آیات الٰہی کی تکذیب اور آخرت کا انکار کرنے والوں کا انجام بتلایا گیا ہے کہ چونکہ ان کے عمل کی اساس عدل وحق نہیں، ظلم وباطل ہے۔ اس لیے ان کے نامۂ اعمال میں شرہی شر ہوگا جس کی کوئی قیمت اللہ کے ہاں نہ ہو گی ۔ ہاں اس شر کا بدلہ ان کو وہاں ضرور دیا جائے گا۔ الاعراف
148 1- موسیٰ (عليہ السلام) جب چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات اکٹھے کرکے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے جبریل (عليہ السلام) کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی شامل کر دی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیر رکھی تھی، جس کی وجہ سے بچھڑا کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا۔ (گو واضح کلام کرنے اور رہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں) اس میں اختلاف ہے کہ وہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، یا تھا وہ سونے کا ہی۔ لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گائے، بیل کی سی آواز اس میں سے نکلتی۔ (ابن کثیر) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ (عليہ السلام) بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں۔ ( یہ واقعہ سورۂ طٰہ میں آئے گا ) الاعراف
149 1- ﴿سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ محاورہ ہے جس کے معنی نادم ہونا ہیں، یہ ندامت موسیٰ (عليہ السلام) کی واپسی کے بعد ہوئی، جب انہوں نے آکر اس پر ان کی زجرو توبیخ کی، جیسا کہ سورۂ طٰہ میں ہے۔ یہاں اسے مقدم اس لیے کر دیا گیا ہے کہ ان کا فعل اور قول اکٹھا ہو جائے۔ ( فتح القدیر) الاعراف
150 1- جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے آکر دیکھا کہ وہ بچھڑے کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو سخت غضب ناک ہوئے اور جلدی میں تختیاں بھی، جو کوہ طور سے لائے تھے، ایسے طور پر رکھیں کہ دیکھنے والوں کو محسوس ہوا کہ انہوں نے نیچے پھینک دی ہیں، جسے قرآن نے ”ڈال دیں“ سے تعبیر کیا ہے ۔ تاہم اگر پھینک بھی دی ہوں تو اس میں سوء ادبی نہیں کیونکہ مقصد ان کا تختیوں کی بےادبی نہیں تھا، بلکہ دینی غیرت وحمیّت میں بے خود ہوکر غیر اختیاری طور پر ان سے یہ فعل سرزد ہوا۔ 2- حضرت ہارون وموسیٰ علیہما السلام آپس میں سگے بھائی تھے، لیکن یہاں حضرت ہارون (عليہ السلام) نے (ماں جائے) اس لیے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔ 3- حضرت ہارون (عليہ السلام) نے یہ اپنا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ قوم کو شرک جیسے جرم عظیم سے روکنے میں ناکام رہے۔ ایک اپنی کمزوری اور دوسرا، بنی اسرائیل کا عناد اور سرکشی کہ وہ انہیں قتل تک کر دینے پر آمادہ ہوگئے تھے اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے خاموش ہونا پڑا، جس کی اجازت ایسے موقعوں پر اللہ نے دی ہے۔ 4- میری ہی سرزنش کرنے سے دشمن خوش ہوں گے، جب کہ یہ موقع تو دشمنوں کی سرکوبی اور ان سے اپنی قوم کو بچانے کا ہے۔ 5- اور ویسے بھی عقیدہ وعمل میں مجھے کس طرح ان کے ساتھ شمار کیا جاسکتا ہے؟ میں نے نہ شرک کا ارتکاب کیا، نہ اس کی اجازت دی، نہ اس پر خوش ہوا، صرف خاموش رہا اور اس کے لیے بھی میرے پاس معقول عذر موجود ہے، پھر میرا شمار ظالموں (مشرکوں) کے ساتھ کس طرح ہوسکتا ہے؟ چنانچہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے اپنے اور اپنے بھائی ہارون (عليہ السلام) کے لیے مغفرت ورحمت کی دعا مانگی۔ الاعراف
151 الاعراف
152 1- اللہ کا غضب یہ تھا کہ توبہ کے لیے قتل ضروری قرار پایا۔ اور اس سے قبل جب تک جیتے رہے، ذلت ورسوائی کے وہ مستحق قرار پائے۔ 2- اور یہ سزا ان ہی کے لیے خاص نہیں ہے، جو بھی اللہ پر افترا کرتا ہے، اس کو ہم یہی سزا دیتے ہیں۔ الاعراف
153 1- ہاں جنہوں نے توبہ کرلی، ان کے لیے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے ۔ معلوم ہوا کہ توبہ سے ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے بشرطیکہ خالص توبہ ہو۔ الاعراف
154 1- ”نُسْخَةٌفُعْلَةٌ کے وزن پر بمعنی مفعول ہے ۔ یہ اس اصل کو بھی کہتے ہیں جس سے نقل کیا جائے اور نقل شدہ کو بھی نسخہ کہہ دیا جاتا ہے۔ یہاں نسخہ سے مراد یا تو وہ اصل الواح ہیں جن پر تورات لکھی گئی تھی، یا اس سے مراد وہ دوسرا نسخہ ہے جو تختیاں زور سے پھینکنے کی وجہ سے ٹوٹ جانے کے بعد اس سے نقل کرکے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم صحیح بات پہلی ہی لگتی ہے۔ کیونکہ آگے چل کر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے ان ”تختیوں کو اٹھا لیا“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تختیاں ٹوٹی نہیں تھیں ۔ بہرحال اس کا مرادی مفہوم ”مضامین“ ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے ۔ 2- تورات کو بھی، قرآن کریم کی طرح، انہی لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ اصل فائدہ آسمانی کتابوں سے ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ تو چونکہ اپنے کانوں کو حق کے سننے سے، آنکھوں کو حق کے دیکھنے سے بند کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس چشمۂ فیض سے وہ بالعموم محروم ہی رہتے ہیں۔ الاعراف
155 1- ان ستر آدمیوں کی تفصیل اگلے حاشیے میں آرہی ہے ۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے اور انہیں کوہ طور پر لے گئے، جہاں بطور عذاب انہیں ہلاک کر دیا گیا، جس پر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے کہا۔ 2- بنی اسرائیل کے یہ ستر آدمی کون تھے؟ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے تورات کے احکام انہیں سنائے تو انہوں نے کہا ہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ کتاب واقعی اللہ تعالی کی طرف سے ہی نازل شدہ ہے؟ ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کلام کرتے ہوئے نہ سن لیں، اسے نہیں مانیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ستر برگزیدہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں کوہ طور پر لے گئے ۔ وہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے ہمکلام ہوا جسے ان لوگوں نے بھی سنا لیکن وہاں انہوں نے ایک نیا مطالبہ کر دیا کہ ہم تو جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں گے، ایمان نہیں لائیں گے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جو پوری قوم کی طرف سے بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ اور معذرت کے لیے کوہ طور پر لے جائے گئے تھے اور وہاں جاکر انہوں نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہی ہیں کہ جنہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا لیکن انہیں اس سے منع نہیں کیا۔ ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ کے حکم سے کوہ طور پر لے جانے کے لیے چنا گیا تھا، وہاں جاکر انہوں نے اللہ سے دعائیں کیں۔ جن میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ ”یا اللہ، ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما، جو اس سے قبل تو نے کسی کو عطا نہیں کیا اور نہ آئندہ وہ کسی کو عطا کرنا “۔ اللہ تعالیٰ کو یہ دعا پسند نہیں آئی، جس پر وہ زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کر دیئے گئے ۔ زیادہ مفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں اور انہوں نے وہی واقعہ قرار دیا ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ آیت 56 میں آیا ہے ۔ جہاں ان پر صاعقہ (بجلی کی کڑک) سے موت وارد ہونے کا ذکر ہے اور یہاں رَجْفَةٌ (زلزلے) سے موت کا ذکر ہے۔ اس کی توجیہ میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے دونوں ہی عذاب آئے ہوں اوپر سے بجلی کی کڑک اور نیچے سے زلزلہ ۔ بہرحال حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی اس دعا والتجا کے بعد کہ اگر ان کو ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے قبل اس وقت ہلاک کرتا جب یہ بچھڑے کی عبادت میں مصروف تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا ۔ الاعراف
156 1- یعنی توبہ کرتے ہیں۔ 2- یہ اس کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح وفاسق اور مومن وکافر دونوں ہی اس کی رحمت سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے ”اللہ تعالیٰ کی رحمت کے 100 حصے ہیں۔ یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی رحمت کے 99 حصے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔“ (صحيح مسلم، نمبر2108 وابن ماجہ، نمبر4293) الاعراف
157 1- یہ آیت بھی اس امر کی وضاحت کے لیے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معبتر ہے جس کی تفصیلات محمد رسول اللہ (ﷺ) نے بیان فرمائی ہیں۔ اس آیت سے بھی تصور (وحدت ادیان) کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ 2- معروف، وہ ہے جسے شریعت نے اچھا اور منکر، وہ ہے جسے شریعت نے برا قرار دیا ہے ۔ 3- یہ بوجھ اور طوق وہ ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نفس کے بدلے نفس کا قتل ضروری تھا، (دیت یا معافی نہیں تھی) یا جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی، اس کا قطع کرنا ضروری تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے صرف دھونے کا حکم دیا ۔ جس طرح قصاص میں دیت اور معافی کی بھی اجازت دی ۔ وغیرہ اور آپ (ﷺ) نے بھی فرمایا ہے کہ ”مجھے آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے“۔ ( مسند أحمد جلد 5۔ ص 266جلد ۔ 6،ص116،233) لیکن افسوس! اس امت نے اپنے طور پر رسوم ورواج کے بہت سے بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں اور جاہلیت کے طوق زیب گلو کر لیے ہیں، جن سے شادی اور مرگ دونوں عذاب بن گئے ہیں ۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالَى ۔ 4- ان آخری الفاظ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ جو رسالت محمدیہ پر ایمان نہیں لائیں گے، وہ کامیاب نہیں، خاسر اور ناکام ہوں گے ۔ علاوہ ازیں کامیابی سے مراد بھی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم رسالت محمدیہ پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اسے دنیاوی خوش حالی وفراوانی حاصل ہو۔ جس طرح اس وقت مغربی اور یورپی اور دیگر بعض قوموں کا حال ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی یا کافر ومشرک ہونے کے باوجود مادی ترقی اور خوش حالی میں ممتاز ہیں۔ لیکن ان کی یہ ترقی عارضی وبطور امتحان واستدراج ہے۔ یہ ان کی اخروی کامیابی کی ضمانت یا علامت نہیں۔ اسی طرح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ المائدہ کی آیت 15میں نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے ۔ (جیسا وہاں بھی وضاحت کی گئی تھی) کیوں کہ جو نور آپ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہ قرآن مجید ہی ہے اس لیے اس (نور) سے خود نبی کریم (ﷺ) کی ذات مراد نہیں ہے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نور بھی ہے۔ جس سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ کا نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا، جس طرح اہل بدعت یہ ثابت کرتے ہیں۔ (مزید دیکھئے سورۂ المائدۂ آیت 15 کا حاشیہ) الاعراف
158 1- یہ آیت بھی رسالت محمدیہ کی عالم گیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ آپ (ﷺ) کہہ دیجئے کہ اے کائنات کے انسانو! میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ یوں آپ (ﷺ) پوری بنی نوع انسان کے نجات دہندہ اور رسول ہیں۔ اب نجات اور ہدایت نہ عیسائیت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذہب میں۔ نجات اور ہدایت اگر ہے تو صرف اسلام کے اپنانے اور اسے ہی اختیار کرنے میں ہے۔ اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں بھی آپ (ﷺ) کو النبی الاّمی کہا گیا ہے ۔ یہ آپ کی ایک خاص صفت ہے۔ امّی کے معنی ہیں ان پڑھ۔ یعنی آپ نے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذت (شاگردی) نہیں کیے، کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ (ﷺ) نے جو قرآن کریم پیش کیا، اس کے اعجاز وبلاغت کے سامنے دنیا بھر کے فصحا وبلغا عاجز آگئے اور آپ نے جو تعلیمات پیش کیں، ان کی صداقت وحقانیت کی ایک دنیا معترف ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں ورنہ ایک امی نہ ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات بیان کرسکتا ہے جو عدل وانصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح وکامرانی کے لیے ناگزیر ہیں، انہیں اپنائے بغیر دنیا حقیقی امن وسکون اور راحت وعافیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ الاعراف
159 1- اس سے مراد وہی چند لوگ ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، عبداللہ بن سلام وغیرہ ۔ رضی الله عنہم الاعراف
160 1- ’’أَسْبَاطٌسِبْطٌ کی جمع ہے، بمعنی پوتا۔ یہاں اسباط قبائل کے معنی میں ہیں۔ یعنی حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے معرض وجود میں آئے، ہر قبیلے پر اللہ تعالیٰ نے ایک ایک نقیب (نگران ) بھی مقرر فرما دیا تھا، ﴿وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا [المائدة: 12]. یہاں اللہ تعالیٰ ان بارہ قبیلوں کے بعض بعض صفات میں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے کی بنا پر ان کے الگ الگ گروہ ہونے کو بطور امتنان کے ذکر فرما رہا ہے ۔ الاعراف
161 الاعراف
162 1- 160 تا 162 آیات میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، یہ وہ ہیں جو پارہ الم، سورۂ بقرہ کے آغاز میں بیان کی گئی ہیں ۔ وہاں ان کی تفصیل ملاحظہ فرما لی جائے۔ الاعراف
163 1- ”وَسْئَلْهُمْ“ میں ”هُمْ“ ضمیر سے مراد یہود ہیں ۔ یعنی ان سے پوچھئے۔ اس میں یہودیوں کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اس واقعے کا علم نبی کریم (ﷺ) کو بھی ہے جو آپ (ﷺ) کی صداقت کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے وحی کے بغیر آپ (ﷺ) کو اس واقعے کا علم نہیں ہوسکتا تھا ۔ 2- اس بستی کی تعیین میں اختلاف ہے، کوئی اس کا نام ایلہ کوئی طبریہ کوئی ایلیا اور کوئی شام کی کوئی بستی، جو سمندر کے قریب تھی، بتلاتا ہے ۔ مفسرین کا زیادہ رجحان ”ایلہ“ کی طرف ہے جو مدین اور کوہ طور کے درمیان دریائے قلزم کے ساحل پر تھی۔ 3- ”حِيتَانٌحُوتٌ ( مچھلی ) کی جمع ہے۔ ”شُرَّعًاشَارِعٌ کی جمع ہے ۔ معنی ہیں پانی کے اوپر ابھر ابھر کر آنے والیاں ۔ یہ یہودیوں کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہیں جس میں انہیں ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے منع کردیا گیا تھا ۔ لیکن بطور آزمائش ہفتے والے دن مچھلیاں کثرت سے آتیں اور پانی کے اوپر ظاہر ہوہو کر انہیں دعوت شکار دیتیں ۔ اور جب یہ دن گزر جاتا تو اس طرح نہ آتیں۔ بالآخر یہودیوں نے ایک حیلہ کرکے حکم الٰہی سے تجاوز کیا کہ گڑھے کھود لیے تا کہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور جب ہفتے کا دن گزر جاتا تو پھر انہیں پکڑ لیتے۔ الاعراف
164 1- اس جماعت سے صالحین کی وہ جماعت مراد ہے جو اس حیلے کا ارتکاب بھی نہیں کرتی تھی اور حیلہ گروں کو سمجھا سمجھا کر ان کی اصلاح سے مایوس بھی ہوگئی تھی ۔ تاہم کچھ اور لوگ بھی سمجھانے والے تھے جو انہیں وعظ ونصیحت کرتے تھے ۔ صالحین کی یہ جماعت انہیں یہ کہتی کہ ایسے لوگوں کو وعظ ونصیحت کا کیا فائدہ جن کی قسمت میں ہلاکت وعذاب الٰہی ہے ۔ یا اس جماعت سے وہی نافرمان اور تجاوز کرنے والے مراد ہیں، جب ان کو وعظ کرنے والے نصیحت کرتے تو یہ کہتے کہ جب تمہارے خیال میں ہلاکت یا عذاب الٰہی ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیں کیوں وعظ کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے کہ ایک تو اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لیے تاکہ ہم تو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ معصیت الٰہی کا ارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنا اور پھر اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا بھی جرم ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ شاید یہ لوگ حکم الٰہی سے تجاوز کرنے سے باز ہی آجائیں ۔ پہلی تفسیر کی رو سے یہ تین جماعتیں ہوئیں ۔ (1) ۔ نافرمان اور شکار کرنے والی جماعت (2) ۔ وہ جماعت جو بالکل کنارہ کش ہوگئی، نہ وہ نافرمانوں میں تھی نہ منع کرنے والوں میں (3) ۔ وہ جماعت جو نافرمان بھی نہیں تھی۔ اور بالکل کنارہ کش بھی نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ نافرمانوں کو منع کرتی تھی۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ دو جماعتیں ہوں گی ۔ ایک نافرمانوں کی اور دوسری منع کرنے والوں کی۔ الاعراف
165 1- یعنی وعظ ونصیحت کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی اور نافرمانی پر اڑے رہے ۔ 2- یعنی وہ ظالم بھی تھے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرکے انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور انہیں جہنم کا ایندھن بنالیا اور فاسق بھی، کہ اللہ کے حکموں سے سرتابی کو انہوں نے اپناشیوہ اور وطیرہ بنا لیا ۔ الاعراف
166 1- ”عَتَوْا“ کے معنی ہیں، جنہوں نے اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کیا۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ نجات پانے والے صرف وہی تھے، جو منع کرتے تھے اور باقی دونوں عذاب الٰہی کی زد میں آئے؟ یا زد میں آنے والے صرف معصیت کار تھے؟ اور باقی دو جماعتیں نجات پانے والی تھیں؟ امام ابن کثیر نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔ الاعراف
167 1- ”تَأَذَّنَإِيذَانٌ بمعنی إِعْلامٍ (خبر دینا، جتلا دینا) سے باب تفعل ہے۔ یعنی وہ وقت بھی یاد کرو! جب آپ کے رب نے ان یہودیوں کو اچھی طرح باخبر کر دیا یا جتلا دیا تھا، ”لَيَبْعَثَنَّ“ میں لام تاکید ہے جو قسم کے معنی کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب میں مبتلا رکھیں گے، چنانچہ یہودیوں کی پوری تاریخ اسی ذلت ومسکنت اور غلامی ومحکومی کی تاریخ ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کے خلاف نہیں ہے اس لیے کہ وہ قرآن ہی کے بیان کردہ استثنا وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ کی مظہر ہے جو قرآنی حقیقت کے خلاف نہیں بلکہ اس کی مؤید ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے آل عمران: 112 کا حاشیہ) 2- یعنی اگر ان میں سے کوئی توبہ کرکے مسلمان ہو جائے گا تو وہ اس ذلت وسوء عذاب سے بچ جائے گا۔ الاعراف
168 1- اس میں یہود کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے اور ان میں سے بعض کے نیک ہونےکا ذکر ہے۔ اور ان کو دونوں طریقوں سے آزمائے جانے کا بیان ہے کہ شاید وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ الاعراف
169 1- ”خَلَفٌ“ (لام پر زبرکے ساتھ) صالح اولاد کو اور خَلْفٌ (بِسُكُونِ اللامِ) نالائق اولاد کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ناخلف کی ترکیب نالائق اولاد کے معنی میں مستعمل ہے۔ 2- ”أَدْنَىدُنُوٌّ (قریب) سے ماخوذ ہے یعنی قریب کا مال حاصل کرتے ہیں جس سے دنیا مراد ہے یا یہ دَنَاءَةٌ سے ماخوذ ہے جس سے مراد حقیر اور گرا پڑا مال ہے۔ مطلب دونوں سے ان کے دنیا کے مال ومتاع کے حرص کی وضاحت ہے۔ 3- یعنی طالب دنیا ہونے کے باوجود، مغفرت کی امید رکھتے ہیں۔ جیسے آج کل کے مسلمانوں کا بھی حال ہے۔ 4-اس کے باوجود وہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے باز نہیں آتے، مثلاً وہی مغفرت کی بات، جو اوپر گزری۔ 5- اس کا ایک دوسرا مفہوم مٹانا بھی ہوسکتا ہے، جیسے دَرَسَتِ الرِّيحُ الآثَارَ (ہوا نے نشانات مٹا ڈالے) یعنی کتاب کی باتوں کو مٹا ڈالا، محو کر دیا یعنی ان پر عمل ترک کر دیا۔ الاعراف
170 1- ان لوگوں میں سے جو تقویٰ کا راستہ اختیار کرلیں، کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں، جس سے مراد اصلی تورات ہے اور جس پر عمل کرتے ہوئے نبوت محمدی پر ایمان لے آئیں، نماز وغیرہ کی پابندی کریں، تو اللہ ایسے مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرے گا ۔ اس میں ان اہل کتاب (سیاق کلام سے یہاں بطور خاص یہود) کا ذکر ہے جو تقویٰ ، تمسک بالکتاب اور اقامت صلوٰۃٔ کا اہتمام کریں اور ان کے لیے آخرت کی خوش خبری ہے۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور رسالت محمدیہ پر ایمان لے آئیں۔ کیونکہ اب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ (ﷺ) پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں۔ الاعراف
171 1- یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) ان کے پاس تورات لائے اور اس کے احکام ان کو سنائے۔ تو انہوں نے پھر حسب عادت ان پر عمل کرنے سے انکار واعراض کیا، جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر پہاڑ کو بلند کر دیا کہ تم پر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا، جس سے ڈرتے ہوئے انہوں نے تورات پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ رفع جبل کا یہ واقعہ ان کے مطالبے پر پیش آیا، جب انہوں نے کہا کہ ہم تورات پر عمل اس وقت کریں گے جب اللہ تعالیٰ پہاڑ کو ہمارے اوپر بلند کرکے دکھائے۔ لیکن پہلی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے واللهُ أَعْلَمُ ۔ یہاں مطلق پہاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس سے قبل سورہ بقرہ آیت 63 اور آیت 93 میں دو جگہ اس واقعہ کا ذکر آیا ہے، وہاں اس کا نام صراحت کے ساتھ کوہ طور بتلایا گیا ہے۔ الاعراف
172 1- یہ عَهْدِ أَلَسْتُ کہلاتا ہے جو ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ سے بنی ہوئی ترکیب ہے ۔ یہ عہد حضرت آدم (عليہ السلام) کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک صحیح حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ”عرفہ والے دن نعمان جگہ میں اللہ تعالیٰ نے اصلاب آدم سے عہد (میثاق) لیا۔ پس آدم کی پشت سے ان کی ہونے والی تمام اولاد کو نکالا اور اس کو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ان سے پوچھا، (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟) سب نے کہا ” بَلَى، شَهِدْنَا“ (کیوں نہیں۔ ہم سب رب ہونے کی گواہی دیتے ہیں) (مسند أحمد ۔ جلد 1ص 272، والحاكم ۔ جلد ،2 ص 544، وصححه ووافقه الذهبي) امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں ”وَإِسْنَادُهُ لا مَطْعَنَ فِيهِ“ (فتح القدیر) (اس کی سند میں کوئی طعن نہیں) نیز امام شوکانی فرماتے ہیں ”یہ عالم ذر کہلاتا ہے اس کی یہی تفسیر صحیح اور حق ہے جس سے عدول اور کسی اور مفہوم کی طرف جانا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ مرفوع حدیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے اور اسے مجاز پر بھی محمول کرنا جائز نہیں ہے“۔ بہرحال اللہ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ اسی مفہوم کو رسول اللہ (ﷺ) نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ جس طرح جانور کابچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، اس کا ناک، کان کٹا نہیں ہوتا“۔ (صحيح بخاری- كتاب الجنائز ومسلم، كتاب القدر) اور صحیح مسلم کی روایت ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”میں نے اپنے بندوں کو حنیف (اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے والا) پیدا کیا ہے۔ پس شیطان ان کو ان کے دین (فطری) سے گمراہ کر دیتا ہے“۔ الحدیث (صحيح مسلم- كتاب الجنة) یہ فطرت یا دین فطرت، یہی رب کی توحید اور اس کی نازل کردہ شریعت ہے جو اب اسلام کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ الاعراف
173 1- یعنی ہم نے یہ اخذ عہد اور اپنی ربوبیت کی گواہی اس لیے لی تاکہ تم یہ عذر پیش نہ کرسکو کہ ہم تو غافل تھے یا ہمارے باپ دادا شرک کرتے آئے تھے، یہ عذر قیامت والے دن بارگاہ الٰہی میں مسموع نہیں ہوں گے۔ الاعراف
174 الاعراف
175 1- مفسرین نے اسے کسی ایک متعین شخص سے متعلق قرار دیا ہے جسے کتاب الٰہی کا علم حاصل تھا لیکن پھر وہ دنیا اور شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوگیا ۔ تاہم اس کی تعیین میں کوئی مستند بات مروی بھی نہیں۔ اس لیے اس تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عام ہے اور ایسے افراد ہر امت اور ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، جو بھی اس صفت کا حامل ہوگا، وہ اس کا مصداق قرار پائے گا۔ الاعراف
176 1- ”لَهَثٌ“ کہتے ہیں تھکاوٹ یا پیاس وغیرہ کی وجہ سے زبان کے باہر نکالنے کو۔ کتے کی یہ عادت ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو یا اس کے حال پر چھوڑ دو، دونوں حالتوں میں وہ بھونکنے سے باز نہیں آتا، اسی طرح اس کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ شکم سیر ہویا بھوکا، تندرست ہو یا بیمار، تھکا ماندہ ہو یا توانا، ہر حال میں زبان باہر نکالنے ہانپتا رہتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے، اسے وعظ کرو یا نہ کرو، اس کا حال ایک ہی رہے گا اور دنیا کے مال ومتاع کے لیے اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔ 2- اور اس قسم کے لوگوں سے عبرت حاصل کرکے، گمراہی سے بچیں اور حق کو اپنائیں۔ الاعراف
177 1- مثلاً تمیز ہے ۔ اصل عبارت یوں ہوگی سَاءَ مَثَلا! مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا۔ الاعراف
178 1- یہ اس کے قانون مشیت کا بیان ہے جس کی وضاحت پہلے دو تین مرتبہ کی جاچکی ہے۔ الاعراف
179 1- اس کا تعلق تقدیر سے ہے ۔ یعنی ہر انسان اور جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ دنیا میں جاکر اچھے یا برے کیا عمل کرے گا، اس کے مطابق اس نے لکھ رکھا ہے ۔ یہاں انہی دوزخیوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ کے علم کے مطابق دوزخ والے ہی کام کرنے تھے۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کرکے بتا دیا گیا کہ جن لوگوں کے اندر یہ چیزیں اسی انداز میں ہوں جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کا انجام برا ہے۔ 2- یعنی دل، آنکھ، کان یہ چیز یں اللہ نے اس لیے دی ہیں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پروردگار کو سمجھے، اس کی آیات کامشاہدہ کرے اور حق کی بات کو غور سے سنے۔ لیکن جو شخص ان مشاعر سے یہ کام نہیں لیتا، وہ گویا ان سے عدم انتفاع (فائدہ نہ اٹھانے) میں چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ اس لیے کہ چوپایے تو پھر بھی اپنے نفع نقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کر رہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنے والے شخص کے اندر تو یہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے کہ اس کے لیے مفید چیز کون سی ہے اور مضر کون سی؟ اسی لیے اگلے جملے میں انہیں غافل بھی کہا گیا ہے۔ الاعراف
180 1- ”حُسْنَىأَحْسَنُ کی تانیث ہے ۔ اللہ کے ان اچھے ناموں سے مراد اللہ کے وہ نام ہیں جن سے اس کی مختلف صفات، اس کی عظمت وجلالت اور اس کی قدرت وطاقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ صحیحین کی حدیث میں ان کی تعداد 99 (ایک کم سو) بتائی گئی ۔ اور فرمایا کہ ”جو ان کو شمار کرے گا، جنت میں داخل ہوگا، اللہ تعالیٰ طاق ہے طاق کو پسند فرماتا ہے“۔ ( بخاری، كتاب الدعوات، باب لله مائة اسم غير واحد- مسلم، كتاب الذكر، باب في أسماء الله تعالى وفضل من أحصاها)، شمار کرنے کا مطلب ہے: ان پر ایمان لانا، یا ان کو گننا اور انہیں ایک ایک کرکے بطور تبرک اخلاص کے ساتھ پڑھنا، یا ان کا حفظ، ان کے معانی کا جاننا اور ان سے اپنے کو متصف کرنا۔ ( مرقاۂ شرح مشکوٰۂ ، کتاب الدعوات، باب اسماء اللہ تعالیٰ ) بعض روایات میں ان 99 ناموں کو ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ روایات ضعیف ہیں اور علما نے انہیں مدرج قرار دیا ہے یعنی راویوں کا اضافہ۔ وہ نبی (ﷺ) کی حدیث کا حصہ نہیں ہیں۔ نیز علما نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اللہ کے ناموں کی تعداد 99 میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)۔ 2- ”الحاد“ کے معنی ہیں کسی ایک طرف مائل ہونا۔ اسی سے لحد ہے جو اس قبر کو کہا جاتا ہے جو ایک طرف بنائی جاتی ہے۔ دین میں الحاد اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد (کج روی) کی تین صورتیں ہیں۔ (1)۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کر دی جائے ۔ جیسے مشرکین نے کیا ۔ مثلاً اللہ کے ذاتی نام سے اپنے ایک بت کا نام لات اور اس کے صفاتی ناموں عَزِيزٌ سے عُزَّى ٰبنا لیا۔ (2)۔ یا اللہ کے ناموں میں اپنی طرف سے اضافے کر لینا، جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔ (3)۔ یا اس کے ناموں میں کمی کر دی جائے مثلاً اسے کسی ایک ہی مخصوص نام سے پکارا جائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کو برا سمجھا جائے۔ (فتح القدیر) اللہ کے ناموں میں الحاد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل یا تعطیل یا تشبیہ سے کام لیا جائے (ایسر التفاسیر) جس طرح معتزلہ، معطلہ اور مشبہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سب سے بچ کر رہو۔ الاعراف
181 الاعراف
182 الاعراف
183 1- یہ وہی استدراج وامہال ہے جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ افراد اور قوموں کو دیتا ہے۔ پھر جب اس کی مشیت مؤاخذہ کرنے کی ہوتی ہے تو کوئی اس سے بچانے پر قادر نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کی تدبیر بڑی مضبوط ہے۔ الاعراف
184 1- ”صَاحِبٌ“ سے مراد نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی ہے جن کی بابت مشرکین کبھی ساحر اور کبھی مجنون (نعوذ باللہ) کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے عدم تفکر کا نتیجہ ہے۔ وہ تو ہمارا پیغامبر ہے جو ہمارے احکام پہنچانے والا اور ان سے غفلت واعراض کرنے والوں کو ڈرانے والا ہے۔ الاعراف
185 1- مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر بھی اگر یہ غور کریں تو یقیناً یہ اللہ پر ایمان لے آئیں، اس کے رسول کی تصدیق اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں اور انہوں نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں، انہیں چھوڑ دیں اور اس بات سے ڈریں کہ انہیں موت اس حال میں آجائے کہ وہ کفر پر قائم ہوں۔ 2- ”حَدِيثٌ“ سے مراد یہاں قرآن کریم ہے ۔ یعنی نبی (ﷺ) کے انذار وتہدید اور قرآ ن کریم کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان سے بڑھ کر انہیں ڈرانے والی چیز اور کیا ہوگی جو اللہ کی طرف سے نازل ہو اور پھر یہ اس پر ایمان لائیں؟ الاعراف
186 الاعراف
187 1- ”سَاعَةٌ“ کے معنی گھڑی (لمحہ یا پل) کے ہیں ۔ قیامت کو ساعۃ اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ اچانک اس طرح آجائے گی کہ پل بھر میں ساری کائنات درہم برہم ہو جائے گی یا سرعت حساب کے اعتبار سے قیامت کی گھڑی کو ساعۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 2- ”أَرْسَى“ ”يُرْسِي“ کے معنی اثبات ووقوع کے ہیں، یعنی کب یہ قیامت ثابت یا واقع ہوگی؟ 3- یعنی اس کا یقینی علم نہ کسی فرشتے کو ہے نہ کسی نبی کو، اللہ کے سوا اس کا علم کسی کے پاس نہیں، وہی اس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ 4- اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ۔ اس کا علم آسمان اور زمین والوں پر بھاری ہے، کیونکہ وہ مخفی ہے اور مخفی چیز دلوں پر بھاری ہوتی ہے ۔ 5- حَفِيٌّ کہتے ہیں پیچھے پڑ کر سوال کرنے اور تحقیق کرنے کو ۔ یعنی یہ آپ (ﷺ) سے قیامت کے بارے میں اس طرح سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ نے رب کے پیچھے پڑ کر اس کی بابت ضروری علم حاصل کر رکھا ہے۔ الاعراف
188 1- یہ آیت اس بات میں کتنی واضح ہے کہ نبی (ﷺ) عالم الغیب نہیں۔ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے ۔ لیکن ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود اہل بدعت آپ (ﷺ) کو عالم الغیب باور کراتے ہیں۔ حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے، آپ (ﷺ) کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، اور آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”یہ قوم کیسے فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کے سر کو زخمی کر دیا“، کتب حدیث میں یہ واقعات بھی اور ذیل کے واقعات بھی درج ہیں، حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) پر تہمت لگی تو آپ پورا ایک مہینہ سخت مضطرب اور نہایت پریشان رہے۔ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا، جسے آپ نے بھی تناول فرمایا اور صحابہ نے بھی، حتیٰ کہ بعض صحابہ تو کھانے کے زہر سے شہید ہی ہوگئے اور خود نبی (ﷺ) عمر بھر اس زہر کے اثرات محسوس فرماتے رہے۔ یہ اور اس قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے واضح ہے کہ آپ کو عدم علم کی وجہ سے تکلیف پہنچی، نقصان اٹھانا پڑا، جس سے قرآن کی بیان کردہ حقیقت کا اثبات ہوتا ہے کہ ”اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی مضرت نہ پہنچتی“۔ الاعراف
189 1- ابتدا یعنی حضرت آدم (عليہ السلام) سے ۔ اسی لیے ان کو انسان اول اور ابو البشر کہا جاتا ہے۔ 2- اس سے مراد حضرت حوا ہیں، جو حضرت آدم (عليہ السلام) کی زوج بنیں۔ ان کی تخلیق حضرت آدم (عليہ السلام) سے ہوئی، جس طرح کہ منھا کی ضمیر سے، جو نفس واحدۂ کی طرف راجع ہے، واضح ہے (مزید دیکھئے سورہ نساء آیت 1، کا حاشیہ) 3- یعنی اس سے اطمینان وسکون حاصل کرے۔ اس لیے کہ ایک جنس اپنے ہی ہم جنس سے صحیح معنوں میں مانوس اور قریب ہوسکتی ہے جو سکون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ قربت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [الروم: 21]. ”اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے ( یا تمہاری جنس ہی میں سے ) جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان اس نے پیار ومحبت رکھ دی“۔ یعنی اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے جو جذبات اور کشش رکھی ہے، فطرت کے یہ تقاضے وہ جوڑا بن کر پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرب وانس حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ جو باہمی پیار میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے وہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا۔ 4- یعنی یہ نسل انسانی اس طرح بڑھی اور آگے چل کر جب ان میں سے ایک زوج یعنی میاں بیوی نے ایک دوسرے سے قربت کی۔ ”تَغَشَّاهَا“ کے معنی بیوی سے ہم بستری کرنا ہیں۔ یعنی وطی کرنے کے لیے ڈھانپا۔ 5- یعنی حمل کے ابتدائی ایام میں حتیٰ کہ نطفے سے عَلَقَةٌ اور عَلَقَةٌ سے مُضْغَةٌ بننے تک، حمل خفیف ہی رہتا ہے، محسوس بھی نہیں ہوتا اور عورت کو زیادہ گرانی بھی نہیں ہوتی۔ 6- بوجھل ہو جانے سے مراد، جب بچہ پیٹ میں بڑا ہو جاتا ہے تو جوں جوں ولادت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، والدین کے دل میں خطرات اور توہمات پیدا ہوتے جاتے ہیں (بالخصوص جب عورت کو اٹھراہ کی بیماری ہو) تو انسانی فطرت ہے کہ خطرات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، چنانچہ وہ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اور شکر گزاری کا عہد کرتے ہیں۔ الاعراف
190 1- شریک قرار دینے سے مراد یا تو بچے کا نام ایسا رکھنا ہے، مثلاً امام بخش، پیراں دتہ ، عبد شمس، بندۂ علی، وغیرہ، جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ بچہ فلاں بزرگ، فلاں پیر کی (نعوذ باللہ) نظر کرم کا نتیجہ ہے۔ یا پھر اپنے اس عقیدے کا اظہار کرے کہ ہم فلاں بزرگ یا فلاں قبر پر گئے تھے جس کے نتیجے میں یہ بچہ پیدا ہوا ہے۔ یا کسی مردہ کے نام کی نذر نیاز دے یا بچے کو کسی قبر پر لے جاکر اس کا ماتھا وہاں ٹکائے کہ ان کے طفیل بچہ ہوا ہے۔ یہ ساری صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں، جو بدقسمتی سے مسلمان عوام میں بھی عام ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ شرک کی تردید فرما رہا ہے ۔ الاعراف
191 الاعراف
192 الاعراف
193 1- یعنی تمہاری بتلائی ہوئی بات پر عمل نہیں کریں گے۔ ایک دوسرے مفہوم اس کا یہ ہے کہ اگر تم ان سے رشد وہدایت طلب کرو، تو وہ تمہاری بات نہیں مانیں گے، نہ تمہیں کوئی جواب ہی دیں گے (فتح القدیر) الاعراف
194 1- یعنی جب وہ زندہ تھے ۔ بلکہ اب تو تم خود ان سے زیادہ کامل ہو، اب وہ دیکھ نہیں سکتے، تم دیکھتے ہو۔ وہ سن نہیں سکتے، تم سنتے ہو۔ وہ کسی کی بات سمجھ نہیں سکتے، تم سمجھتے ہو۔ وہ جواب نہیں دے سکتے، تم دیتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین، جن کی مورتیاں بنا کر پوجتے تھے، وہ بھی پہلے اللہ کے بندے یعنی انسان ہی تھے، جیسے حضرت نوح (عليہ السلام) کی قوم کے پانچ بتوں کی بابت صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے۔ الاعراف
195 1- یعنی اب ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس موجود نہیں ہے ۔ مرنے کے ساتھ ہی دیکھنے، سننے، سمجھنے اور چلنے کی طاقت ختم ہوگئی۔ اب ان کی طرف منسوب یا تو پتھر یا لکڑی کی خود تراشیدہ مورتیاں ہیں یا گنبد، قبے اور آستانے ہیں جو ان کی قبروں پر بنا لیے گئے اور یوں استخواں فروشی کا کاروبار فروغ پذیر ہے۔ اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات ومنات 2- یعنی اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ یہ تمہارے مددگار ہیں تو ان سے کہو کہ میرے خلاف تدبیر کریں۔ الاعراف
196 الاعراف
197 1- جو اپنی مدد آپ کرنے پر قادر نہ ہوں، وہ بھلا دوسروں کی مدد کیا کریں گے؟ جو خود محتاج ہووے دوسرے کا بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا الاعراف
198 1- اس کا وہی مفہوم ہے جو آیت 193 کا ہے۔ الاعراف
199 1- بعض علماء نے اس کے معنی کیے ہیں ”خُذْ مَا عَفَا لَكَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ أَيْ: مَا فَضَلَ“ یعنی ”جو ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو“ اور یہ زکوٰۃ کی فرضیت سے قبل کا حکم ہے۔ ( فتح الباري، جلد 8، ص 305) لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام ابن جریر اور امام بخاری وغیرہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر (رضی الله عنہ)، کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر (رضی الله عنہ)، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر ان پر تنقید کرنے لگے کہ آپ ہمیں نہ پوری عطا دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر (رضی الله عنہ) غضب ناک ہوئے، یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر (رضی الله عنہ)، کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھیتجے تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنه، سے کہا کہ ”اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی (ﷺ) کو حکم فرمایا تھا۔ ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ [الأعراف: 199]. ”درگزر کو اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے“۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے“۔ جس پر حضرت عمر (رضی الله عنہ)، نے درگزر فرما دیا۔ ”وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللهِ“ اور حضرت عمر (رضی الله عنہ) اللہ کی کتاب کا حکم سن کر فوراً گردن خم کر دینے والے تھے۔ (صحيح بخاری - تفسير سورة الأعراف ) اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کر دینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلۂ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ 2- ”عُرْفٌ“ سے مراد معروف یعنی نیکی ہے ۔ 3- یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرما لیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں ۔ الاعراف
200 1- اور اس موقعے پر اگر آپ کو شیطان اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تو آپ اللہ کی پناہ طلب فرمائیں۔ الاعراف
201 1- اس میں اہل تقویٰ کی بابت بتلایا گیا ہے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہتے ہیں۔ طائف یا طیف، اس تخیل کو کہتے ہیں جو دل میں آئے یا خواب میں نظر آئے۔ یہاں اسے شیطانی وسوسے کے معنی میں استعمال کیا گیا، کیونکہ وسوسۂ شیطانی بھی خیالی تصورات کے مشابہ ہے۔ ( فتح القدیر) الاعراف
202 1- یعنی شیطان کافروں کو گمراہی کی طرف کھینچے لے جاتے ہیں، پھر وہ کافر (گمراہی کی طرف جانے میں) یا شیطان انکو لے جانے میں کوتاہی کمی نہیں کرتے۔ یعنی لا يُقْصِرُونَ کا فاعل کافر بھی بن سکتے ہیں اور إِخْوانُ الكُفَّارِ شیاطین بھی ۔ الاعراف
203 1- مراد ایسا معجزہ ہے جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق ظاہر کرکے دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطالبات سورۂ بنی اسرائیل، آیت: 90۔ 93 میں بیان کیے گئے ہیں۔ 2- ﴿لَوْلا اجْتَبَيْتَهَاکے معنی ہیں، تو اپنے پاس سے ہی کیوں نہیں بنا لاتا؟ اس کے جواب میں بتلایا گیا کہ آپ فرما دیں، معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کا پیروکار ہوں۔ ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیا ہے، یہ بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بصائر ( دلائل وبراہین) اور ہدایت وہ رحمت ہے۔ بشرطیکہ کوئی ایمان لانے والا ہو۔ الاعراف
204 1- یہ ان کافروں کو کہا جارہا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو کہتے تھے: ﴿لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ [فصلت: 26] ”یہ قرآن مت سنو اور شور کرو“، ان سے کہا گیا کہ اس کے بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ۔ بعض ائمۂ دین اسے عام مراد لیتے ہیں جب بھی قرآن پڑھا جائے، چاہے نماز ہو یا غیر نماز، سب کو خاموشی سے قرآن سننے کا حکم ہے اور پھر وہ اس عموم سے استدلال کرتے ہوئے جہری نمازوں میں مقتدی کے سورۂ فاتحہ پڑھنے کو بھی اس قرآنی حکم کے خلاف بتاتے ہیں ۔ لیکن دوسرے علماء کی رائے یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کی تاکید نبی (ﷺ) سے صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت کو صرف کفار کے متعلق ہی سمجھنا صحیح ہے، جیسا کہ اس کے مکی ہونے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن اگر اسے عام سمجھا جائے تب بھی اس عموم سے نبی (ﷺ) نے مقتدیوں کو خارج فرما دیا اور یوں قرآن کے اس عموم کے باوجود جہری نمازوں میں مقتدیوں کا سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہوگا۔ کیونکہ قرآن کے اس عموم کی یہ تخصیص صحیح وقوی احادیث سے ثابت ہے۔ بنا بریں جس طرح اور بعض عمومات قرآنی کی تخصیص احادیث کی بنیاد پر تسلیم کی جاتی ہے، مثلاً آیت ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا الآية (النور: 2) کے عموم سے شادی شدہ زانی کا اخراج، اور ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ (المائدۃ: 38) کے عموم سے ایسے چور کا اخراج یا تخصیص جس نے ربع دینار سے کم مالیت کی چیز چوری کی ہو یا چوری شدہ چیز، حرز میں نہ رکھی ہو، وغیرہ۔ اسی طرح ﴿فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا کے عمومی حکم سے مقتدی خارج ہوں گے اور ان کے لیے جہری نمازوں میں بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہوگا، کیونکہ نبی (ﷺ) نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ (جیسا کہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں یہ احادیث بیان کی گئی ہیں)۔ الاعراف
205 الاعراف
206 الاعراف
0 الانفال
1 1- ”أَنْفَالٌنَفَلٌ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ اس مال واسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اسے نفل (زیادہ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے یا اس لیے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ 2- یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کا رسول، اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو اسے تقسیم کرلو۔ 3- اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقویٰ، اصلاح ذات البین اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے۔ خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے، اس کے علاج کے لیے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیراپھیری اور خیانت کا بھی امکاں رہتا ہے اس کے لیے تقویٰ کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔ الانفال
2 1- ان آیات میں اہل ایمان کی 4 صفات بیان کی گئی ہیں; 1۔ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ 2۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ 3۔ تلاوت قرآن سے ان کے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) 4۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض وگریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کارفرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لیے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کرسکیں گے اور اس یقین واعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد واعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لیے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ اور مغفرت ورحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے ۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شمار فرما لے)۔ جنگ بدر کا پس منظر: جنگ بدر، جو 2 ہجری میں ہوئی، کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی۔ نیز بے سروسامانی کی وجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصراً اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابوسفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا، چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سا مال واسباب ہجرت کی وجہ سے مکہ رہ گیا تھا، یا کافروں نے چھین لیا تھا، نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا، ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ (ﷺ) نے اس تجارتی قافلے پر حملے کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابوسفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے، مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابوجہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی (ﷺ) کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ الانفال
3 الانفال
4 الانفال
5 1- یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا۔ پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمانوں کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا، اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مدبھیڑ ہوجانا، گو بعض طبائع کے لیے ناگوار تھا، لیکن اس میں بھی بالاخر فائدہ مسلمانوں ہی کا ہوگا۔ 2- یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند ایک افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ بھی صرف بے سروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔ الانفال
6 1- یعنی یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور اب لشکر قریش ہی سامنے ہے جس سے لڑائی ناگزیر ہے۔ 2- یہ بے سروسامانی کی حالت میں لڑنے کی وجہ سے بعض مسلمانوں کی جو کیفیت تھیں، اس کا اظہار ہے۔ الانفال
7 1- یعنی یا تو تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے گا، جس سے تمہیں بغیر لڑائی کے وافر مال واسباب مل جائے گا، بصورت دیگر لشکر قریش سے تمہارا مقابلہ ہوگا اور تمہیں غلبہ ہوگا اور مال غنیمت ملے گا۔ 2- یعنی تجارتی قافلہ، تاکہ بغیر لڑے مال ہاتھ آجائے۔ الانفال
8 1- لیکن اللہ اس کے برعکس یہ چاہتا تھا کہ لشکر قریش سے تمہاری جنگ ہو تاکہ کفر کی قوت وشوکت ٹوٹ جائے گو یہ امر مجرموں (مشرکوں) کے لیے ناگوار ہی ہو۔ الانفال
9 1- اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی، جب کہ کافر اس سے 3 گنا (یعنی ہزار کے قریب) تھے، پھر مسلمان نہتے اور بے سروسامان تھے جب کہ کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فراوانی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کا سہارا صرف اللہ ہی کی ذات تھی، جس سے وہ گڑگڑا کر مدد کی فریادیں کررہے تھے۔ خود نبی کریم (ﷺ) الگ ایک خیمے میں نہایت الحاح وزاری سے مصروف دعا تھے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب المغازی) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور ایک ہزار فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل لگاتار مسلمانوں کی مدد کے لیے آگئے۔ الانفال
10 1- یعنی فرشتوں کا نزول تو صرف خوش خبری اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لیے تھا ورنہ اصل مدد تو اللہ کی طرف سے تھی جو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کر سکتا تھا تاہم اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ فرشتوں نے عملاً جنگ میں حصہ نہیں لیا- احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں فرشتوں نے عملی حصہ لیا اور کئی کافروں کو انہوں نے تہ تیغ کیا۔ (دیکھئے: صحيح بخاری وصحيح مسلم كتاب المغازي، وفضائل الصحابة) الانفال
11 1- جنگ احد کی طرح جنگ بدر میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کر دی، جس سے ان کے دلوں کے بوجھ ہلکے ہوگئے اور اطمینان وسکون کی ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہوگئی ۔ 2- تیسرا انعام یہ کیا کہ بارش نازل فرما دی، جس سے ایک تو رتیلی زمین میں نقل وحرکت آسان ہوگئی ۔ دوسرے وضو وطہارت میں آسانی ہوگئی ۔ تیسرے اس سے شیطانی وسوسوں کا ازالہ فرما دیا گیا جو وہ اہل ایمان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تم اللہ کے نیک بندے ہوتے ہوئے بھی پانی سے دور ہو، دوسرے جنابت کی حالت میں تم لڑو گے تو کیسے اللہ کی رحمت ونصرت تمہیں حاصل ہوگی؟ تیسرے تم پیاسے ہو، جب کہ تمہارے دشمن سیراب ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔ 3- یہ چوتھا انعام ہے جو دلوں اور قدموں کو مضبوط کرکے کیا گیا۔ الانفال
12 1- یہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے اور خاص اپنی طرف سے جس جس طریقے سے مسلمانوں کی بدر میں مدد فرمائی، اس کا بیان ہے ۔ 2- ”بَنَانٍ“ ہاتھوں اور پیروں کے پور، یعنی ان کی انگلیوں کے اطراف (کنارے)، یہ اطراف کاٹ دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ معذور ہو جائیں گے۔ اس طرح وہ ہاتھوں سے تلوار چلانے کے اور پیروں سے بھاگنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ الانفال
13 الانفال
14 الانفال
15 1- زَحْفًا کے معنی ہیں ایک دوسرے کے مقابل اور دوبدو ہونا ۔ یعنی مسلمان اور کافر جب ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوں تو پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے [ اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ ] ”سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو!“ ان سات میں ایک التَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ (مقابلے والے دن پیٹھ پھیر جانا ہے) ( صحيح بخاری، نمبر 2766كتاب الوصايا وصحيح مسلم، كتاب الإيمان) الانفال
16 1- گزشتہ آیت میں پیٹھ پھیرنے سے جو منع کیا گیا ہے، دو صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں: ایک تَحَرُّفٌ کی اور دوسری تَحَيُّزٌ کی۔ تَحَرُّفٌ کے معنی ہیں ایک طرف پھر جانا۔ یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے، دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکست خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے لیکن پھر وہ ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کر دے۔ یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے بلکہ یہ جنگی چال ہے جو بعض دفعہ ضروری اور مفید ہوتی ہے تَحَيُّزٌ کے معنی ملنے اور پناہ لینے کے ہیں ۔ کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو بہ لطائف الحیل میدان جنگ سے ایک طرف ہو جائے، تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کرے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے ۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ 2- یعنی مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ کوئی شخص میدان جنگ سے پیٹھ پھیرے گا، اس کے لیے یہ سخت وعید ہے۔ الانفال
17 1- یعنی جنگ بدر کی ساری صورت حال تمہارے سامنے رکھ دی گئی ہے اور جس جس طرح اللہ نے تمہاری وہاں مدد فرمائی، اس کی وضاحت کے بعد تم یہ نہ سمجھ لینا کہ کافروں کا قتل، یہ تمہارا کارنامہ ہے۔ نہیں، بلکہ یہ اللہ کی اس مدد کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ طاقت حاصل ہوئی۔ اس لیے دراصل انہیں قتل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ 2- جنگ بدر میں نبی (ﷺ) نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کافروں کی طرف پھینکی تھی، جسے ایک تو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے مونہوں اور آنکھوں تک پہنچا دیا اور دوسرے، اس میں یہ تاثیر پیدا فرما دی کہ اس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، یہ معجزہ بھی، جو اس وقت اللہ کی مدد سے ظاہر ہوا، مسلمانوں کی کامیابی میں بہت مددگار ثابت ہوا ۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر! کنکریاں بےشک آپ نے پھینکی تھیں، لیکن اس میں تاثیر ہم نے پیدا کی تھی، اگر ہم اس میں یہ تاثیر پیدا نہ کرتے تو یہ کنکریاں کیا کرسکتی تھیں؟ اس لیے یہ بھی دراصل ہمارا ہی کام تھا نہ کہ آپ کا ۔ 3- بلاء یہاں نعمت کے معنی میں ہے۔ یعنی اللہ کی یہ تائید ونصرت، اللہ کا انعام ہے جو مومنوں پر ہوا۔ الانفال
18 1- دوسرا مقصد اس کا کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنا اور ان کی قوت وشوکت کو توڑنا تھا۔ الانفال
19 1- ابوجہل وغیرہ رؤسائے قریش نے مکہ سے نکلتے وقت دعا کی تھی کہ ”یا اللہ ہم میں سے جو تیرا زیادہ نافرمان اور قاطع رحم ہے، کل کو تو اسے ہلاک کر دے“ اپنے طور پر وہ مسلمانوں کو قاطع رحم اور نافرمان سمجھتے تھے، اس لیے اس قسم کی دعا کی۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرما دی تو اللہ تعالیٰ ان کافروں سے کہہ رہا ہے کہ تم فتح یعنی حق اور باطل کے درمیان فیصلہ طلب کر رہے تھے تو وہ فیصلہ تو سامنے آچکا ہے، اس لیے اب تم کفر سے باز آجاؤ ، تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر پھر تم دوبارہ مسلمانوں کے مقابلے میں آؤ گے تو ہم بھی دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری جماعت کثرت کے باوجود تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔ الانفال
20 الانفال
21 1- یعنی سن لینے کے باوجود، عمل نہ کرنا، یہ کافروں کا طریقہ ہے، تم اس رویے سے بچو ۔ اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کو بہرہ، گونگا، غیر عاقل اور بدترین خلائق قرار دیا گیا ہے ۔ دَوَابّ، دَابَّةٌ کی جمع ہے، جو بھی زمین پر چلنے پھرنے والی چیز ہے وہ دابہ ہے۔ مراد مخلوقات ہے۔ یعنی یہ سب سے بدتر ہیں جو حق کے معاملے میں بہرے گونگے اور غیر عاقل ہیں۔ الانفال
22 1- اسی بات کو قرآن کریم میں دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ﴿لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ [الأعراف: 179] ”ان کے دل ہیں ، لیکن ان سے سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ چوپائے کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ۔ یہ لوگ ( اللہ سے ) بے خبر ہیں“۔ الانفال
23 1- یعنی ان کے سماع کو نافع بنا کر ان کو فہم صحیح عطا فرما دیتا، جس سے وہ حق کو قبول کر لیتے اور اسے اپنا لیتے ۔ لیکن چونکہ ان کے اندر خیر یعنی حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ فہم صحیح سے ہی محروم ہیں ۔ 2- پہلے سماع سے مراد سماع نافع ہے اس دوسرے سماع سے مراد مطلق سماع ہے- یعنی اگر اللہ تعالیٰ انہیں حق بات سنوا بھی دے تو چونکہ ان کے اندر حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ بدستور اس سے اعراض ہی کریں گے۔ الانفال
24 1- لِمَا يُحْيِيكُمْ ایسی چیزوں کی طرف جس سے تمہیں زندگی ملے۔ بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے کہ اس میں تمہاری زندگی کا سروسامان ہے۔ بعض نے قرآن کے اوامر ونواہی اور احکام شرعیہ مرادلئے ہیں، جن میں جہاد بھی آجاتا ہے مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ اور رسول (ﷺ) کی بات مانو، اور اس پر عمل کرو، اسی میں تمہاری زندگی ہے۔ 2- یعنی موت وارد کرکے۔ جس کا مزہ ہر نفس کو چکھنا ہے، مطلب یہ ہے کہ قبل اس کے کہ تمہیں موت آجائے اللہ اور رسول کی بات مان لو اور اس پر عمل کر لو ۔ بعض نے کہا ہےکہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے جس طرح قریب ہے اس میں اسےبطور تمثیل بیان کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ امام ابن جریر نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے ان کے اور ان کے دلوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ انسان اس کی مشیت کے بغیر کسی چیز کو پا نہیں سکتا ۔ بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق قرار دیا ہے کہ مسلمان دشمن کی کثرت سے خوف زدہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے دلوں کے درمیان حائل ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں موجود خوف کو امن سے بدل دیا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت کے یہ سارے ہی مفہوم مراد ہو سکتے ہیں (فتح القدیر) امام ابن جریر کے بیان کردہ مفہوم کی تائید ان احادیث سےہوتی ہے، جن میں دین پر ثابت قدمی کی دعائیں کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا: ”بنی آدم کے دل، ایک دل کی طرح رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ انہیں جس طرح چاہتا ہےپھیرتا رہتا ہے“ پھر آپ (ﷺ) نے یہ دعا پڑھی ۔ [ اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ ، صَرِّفْ قُلُوبَنَا إِلَى طَاعَتِكَ ] (صحيح مسلم- كتاب القدر، باب تصريف الله تعالى القلوب كيف شاء) ”اے دلوں کے پھیرنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے“۔ بعض روایات میں [ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ] (سنن ترمذي - أبواب القدر) کے الفاظ ہیں۔ الانفال
25 1- اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام وخاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ ارضی وسماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک وبد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں، یا بعض احادیث میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، وہ مراد ہے۔ الانفال
26 1- اس میں مکی زندگی کے شدائد وخطرات کا بیان اور اس کے بعد مدنی زندگی میں مسلمان جس آرام وراحت اور آسودگی سے بفضل الٰہی ہمکنار ہوئے، اس کا تذکرہ ہے۔ الانفال
27 1- اللہ اور رسول کے حقوق میں خیانت یہ ہے کہ جلوت میں اللہ اور رسول (ﷺ) کا تابع دار بن کر رہے اور خلوت میں اس کے برعکس معصیت کار، اسی طرح یہ بھی خیانت ہے کہ فرائض میں سے کسی فرض کا ترک اور نواہی میں سے کسی بات کا ارتکاب کیا جائے ۔ اور ﴿وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ کا مطلب ایک شخص دوسرے کے پاس جو امانت رکھواتا ہے اس میں خیانت نہ کرے۔ نبی (ﷺ) نے بھی امانت کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی (ﷺ) اپنے اکثر خطبوں میں یہ ضرور ارشاد فرماتے تھے: [ لا إِيمَانَ لِمَنْ لا أَمَانَةَ لَهُ وَلا دِينَ لِمَنْ لا عَهْدَ لَهُ ] (مسند أحمد جلد 3 صفحة 135، وقال الألباني حديث جيد، تعليقات الألباني على المشكاة) ”اس کا ایمان نہیں، جس کے اندر امانت کی پاسداری نہیں اور اس کا دین نہیں، جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں“۔ الانفال
28 1- مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت پر اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے گریز کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ اس لئےان کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا گیا ہے، یعنی اس کےذریعے سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ پورے کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہے۔ بصورت دیگر ناکام ۔ اس صورت میں یہی مال اور اولاد اس کے لئے عذاب الٰہی کا باعث بن جائیں گے۔ الانفال
29 1- تقویٰ کا مطلب ہے، اوامرِ الٰہی کی مخالفت اور اس کے مناہی کے ارتکاب سے بچنا، اور فرقان کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں مثلا ایسی چیز جس سے حق وباطل کے درمیان فرق کیا جا سکے۔ مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیز اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر، جب عام انسان التباس واشتباہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں، صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں فتح نصرت اور نجات ومخرج بھی اس کے معنی کئے گئے ہیں۔ اور سارے ہی معانی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ تقویٰ سے یقینا یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ تکفیر سیئات، مغفرت ذنوب اور فضل عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔ الانفال
30 1- یہ اس سازش کا تذکرہ ہے جو روسائے مکہ نے ایک رات دارالندوہ میں تیار کی تھی اور بالآخر یہ طے پایا تھا کہ مختلف قبیلوں کے نوجوانوں کو آپ کے قتل پر مامور کیا جائے تاکہ کسی ایک کو قتل کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے بلکہ دیت دے کر جان چھوٹ جائے ۔ 2- چنانچہ اس سازش کے تحت ایک رات یہ نوجوان آپ کے گھر کے باہر اس انتظار میں کھڑے رہے کہ آپ (ﷺ) باہر نکلیں تو آپ کا کام تمام کر دیں اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس سازش سے آگاہ فرما دیا اور آپ (ﷺ)نے گھر سےباہر نکلتے وقت مٹی کی ایک مٹھی لی اور ان کے سروں پر ڈالتے ہوئے نکل گئے، کسی کو آپ (ﷺ) کے نکلنے کا پتہ ہی نہیں لگا، حتیٰ کہ آپ غار ثور میں پہنچ گئے ۔ یہ کافروں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر تھی ۔ جس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں کر سکتا ( مکر کے معنی کے لئےدیکھئے ۔ آل عمران ۔ 54کا حاشیہ ) ۔ الانفال
31 الانفال
32 الانفال
33 1- یعنی پیغمبر کی موجودگی میں قوم پر عذاب نہیں آتا، اس لحاظ سے آپ (ﷺ) کا وجود گرامی بھی ان کے حفظ وامان کا سبب تھا ۔ 2- اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آئندہ مسلمان ہو کر استغفار کریں گے، یا یہ کہ طواف کرتے وقت مشرکین ”غُفْرَانَكَ رَبَّنَا غُفْرَانكَ“ کہا کرتے تھے۔ الانفال
34 1- یعنی وہ مشرکین اپنے آپ کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) کا متولی سمجھتے تھے اور اس اعتبار سےجس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے۔ درآں حالیکہ وہ اس کے متولی ہی نہیں تھے، تَحَكُّمًا (زبردستی) بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس کے متولی تو متقی افراد ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد فتح مکہ ہے جو مشرکین کے لئے عذاب الیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں جس عذاب کی نفی ہے، جو پیغمبر کی موجودگی یا استغفار کرتے رہنے کی وجہ سے نہیں آتا، اس سے مراد عذاب استیصال اور ہلاکت کلی ہے۔ عبرت وتنبیہ کے طور پر چھوٹے موٹے عذاب اس کے منافی ہیں۔ الانفال
35 1- مشرکین جس طرح بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے۔ اسی طرح طواف کے دوران وہ انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹیاں اور ہاتھوں سے تالیاں بجاتے۔ اس کو بھی وہ عبادت اور نیکی تصور کرتے تھے ۔ جس طرح آج بھی جاہل صوفی مسجدوں اور آستانوں میں رقص کرتے، ڈھول پیٹتے اور دھمالیں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ یہی ہماری نماز اور عبادت ہے۔ ناچ ناچ کر ہم اپنے یار (اللہ ) کو منالیں گے ۔ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذِهِ الْخُرَافَاتِ ۔ الانفال
36 1- جب قریش مکہ کو بدر میں شکست ہوئی اور ان کے شکست خوردہ اصحاب مکہ واپس گئے۔ ادھر سےابوسفیان بھی اپنا تجارتی قافلہ لے کر وہاں پہنچ چکے تھے تو کچھ لوگ، جن کے باپ، بیٹے یا بھائی اس جنگ میں مارے گئے تھے، ابوسفیان اور جن کا اس تجارتی سامان میں حصہ تھا، ان کے پاس گئے اور ان سے استدعا کی کہ وہ اس مال کو مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے استعمال کریں۔ مسلمانوں نے ہمیں بڑا سخت نقصان پہنچایا ہے اس لئے ان سے انتقامی جنگ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہی لوگوں یا اسی قسم کا کردار اپنانے والوں کے بارے میں فرمایا کہ بے شک یہ لوگ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لئے اپنا مال خرچ کر لیں لیکن ان کے حصے میں سوائے حسرت اور مغلوبیت کے کچھ نہیں آئےگا اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ الانفال
37 1- یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہوگی کہ اہل سعادت کو اہل شقاوت سے الگ کر دیا جائےگا، جیسا کہ فرمایا ۔ ﴿وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ [يس: 59] ”اے گناہ گارو! آج الگ ہو جاؤ“، یعنی نیک لوگوں سے اور مجرموں یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اکھٹا کرکے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس کا تعلق دنیا سے ہے اور لام تعلیل کے لئے ہے۔ یعنی کافر اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے جو مال خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منافق کو مخلص سے علیحدہ کر دے۔ اس اعتبار سے آیت کے معنی ہوں گے، کفار کے ذریعے سے ہم تمہاری آزمائش کریں گے، وہ تم سےلڑیں گے اور ہم انہیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے تاکہ خبیث، طیب سے ممتاز ہو جائے۔ پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا یعنی سب کو جمع کر دے گا۔ ( ابن کثیر) الانفال
38 1- باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے، جس طرح حدیث میں بھی ہے (جس نے اسلام قبول کر کے نیکی کا راستہ اپنا لیا، اس سے اس کے گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نےجاہلیت میں کیے ہونگے اور جس نےاسلام لا کر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلےپچھلے سب عملوں کا مؤاخذہ ہوگا۔ (صحيح بخاری، كتاب استتابة المرتدين- وصحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب هل يؤاخذ بأعمال الجاهلية) ایک اور حدیث میں ہے [ الإسْلامُ يَجُبُّ مَا قَبْلَهُ ] (مسند أحمد ۔ جلد 4، ص 199) ”اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے“۔ 2- یعنی اگر وہ اپنے کفر وعناد پر قائم رہے تو جلد یا بہ دیر عذاب الٰہی کے مورد بن کر رہیں گے۔ الانفال
39 1- فتنہ سے مراد شرک ہے۔ یعنی اس وقت تک جہاد جاری رکھو، جب تک شرک کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ 2- یعنی اللہ کی توحید کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا جائے۔ 3- یعنی تمہارے لئے ان کا ظاہری اسلام ہی کافی ہے، باطن کا معاملہ اللہ کےسپرد کر دو، کیونکہ اس کو ظاہر وباطن ہر چیز کا علم ہے۔ الانفال
40 1- یعنی اسلام قبول نہ کریں اور اپنے کفر اور تمہاری مخالفت پر مصر رہیں ۔ 2- یعنی تمہارے دشمنوں پر تمہارا مددگار اور تمہارا حامی ومحافظ ہے۔ 3-پس کامیاب بھی وہی ہوگا جس کا مولیٰ اللہ ہو، اور غالب بھی وہی ہوگا جس کا مددگار وہ ہو۔ الانفال
41 1- غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے، کافروں پر لڑائی میں فتح وغلبہ حاصل ہونے کے بعد، حاصل ہو ۔ پہلی امتوں میں اس کے لئے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کرڈالتی ۔ لیکن امت مسلمہ کے لئے یہ مال غنیمت حلال کر دیا گیا اور جو مال بغیر لڑائی کے صلح کے ذریعے یا جزیہ وخراج سے وصول ہو، اسے فَيْءٌ کہا جاتا ہے ۔ کبھی غنیمت کو فَيْءٌ سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔ ”مِنْ شَيْءٍ“ سے مراد جو کچھ بھی ہو یعنی تھوڑا ہو یا زیادہ، قیمتی ہو یا معمولی، سب کو جمع کرکے اس کی تقسیم حسب ضابطہ کی جائے گی۔ کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ 2- اللہ کا لفظ تو بطور تبرک، نیز اس لئے بھی ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے۔ مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں بھی پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔ پانچواں حصہ، جسے عربی میں خمس کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کے پھر پانچ حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ رسول اللہ (ﷺ) کا ( اور آپ ﷺ کے بعد اسے مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ (ﷺ) بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے بلکہ آپ (ﷺ) نے فرمایا بھی ہے۔ ”وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ“ (سنن النسائي- وصححه الألباني في صحيح النسائي: 3858 ۔ ومسند أحمد جلد: 5، ص،319) یعنی میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ رسول اللہ (ﷺ) کے قرابت داروں کا، پھر یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ خمس حسب ضرورت خرچ کیا جائے گا۔ 3- اس نزول سے مراد فرشتوں کا اور آیات الٰہی ( معجزات وغیرہ ) کا نزول ہے جو بدر میں ہوا۔ 4- بدر کی جنگ 2 ہجری 17رمضان المبارک کو ہوئی۔ اس دن کو یوم الفرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح وغلبہ دے کر واضح کر دیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر وشرک باطل ہے۔ 5- یعنی مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں۔ الانفال
42 1- دنیا، دُنُوٌّ سے ہے بمعنی قریب- مراد ہے وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے نسبتاً دور تھا ۔ 2- اس سے مراد وہ تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابو سفیان (رضی الله عنہ) کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔ 3- یعنی اگر جنگ کے لئے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کے بغیر ہی پسپائی اختیار کر لیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا، اس لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہو جائیں۔ 4- یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کر چکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو وہ بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔ الانفال
43 1- اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو خواب میں کافروں کی تعداد تھوڑی دکھائی اور وہی تعداد آپ نے صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمائی، جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ اگر اس کے برعکس کافروں کی تعداد دکھائی جاتی تو صحابہ میں پست ہمتی پیدا ہونے اور باہمی اختلاف کا اندیشہ تھا۔ لیکن اللہ نے ان دونوں باتوں سے بچا لیا۔ الانفال
44 1- تاکہ وہ کافر بھی تم سے خوف کھا کر پیچھے نہ ہٹیں۔ پہلا واقعہ خواب کا تھا اور یہ دکھلانا عین قتال کے وقت تھا، جیسا کہ الفاظ قرآنی سے واضح ہے ۔ تاہم یہ معاملہ ابتداء میں تھا۔ لیکن جب باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی تو پھر کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آتے تھے جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت 13 سے معلوم ہوتا ہے۔ بعد میں زیادہ دکھانے کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ کثرت دیکھ کر ان کے اندر مسلمانوں کا خوف اور دہشت بیٹھ جائے، جس سے ان کے اندر بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو، اس کے برعکس پہلے کم دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ لڑنے سے گریز نہ کریں۔ 2- اس سب کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہوا تھا، وہ پورا ہو جائے۔ اس لئے اس نے اس کے اسباب پیدا فرما دیئے۔ الانفال
45 1- اب مسلمانوں کو لڑائی کے وہ آداب بتائے جا رہے ہیں جن کو دشمن سے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات ثبات قدمی اور استقلال ہے، کیونکہ اس کے بغیر میدان جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم اس سے تحرف اور تحیز کی وہ دونوں صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جن کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کیونکہ بعض دفعہ ثبات قدمی کے لئے بھی تحرف یا تحیز ناگزیر ہوتا ہے۔ دوسری ہدایت; اللہ کو کثرت سےیاد کرو۔ تاکہ مسلمان اگر تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد کے طالب رہیں اور اللہ بھی کثرت ذکر کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ رہے اور اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں تو کثرت کی وجہ سے ان کے اندر عجب اور غرور پیدا نہ ہو، بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر ہی رہے۔ الانفال
46 1- تیسری ہدایت، اللہ اور رسول کی اطاعت، ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کتنی سخت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ویسے تو ہر حالت میں اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے تاہم میدان جنگ میں اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے اور اس موقع پر تھوڑی سی بھی نافرمانی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔ چوتھی ہدایت کہ آپس میں تنازع اور اختلاف نہ کرو، اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور پانچویں ہدایت کہ صبر کرو! یعنی جنگ میں کتنی بھی شدت آجائے اور تمہیں کتنے بھی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ نبی (ﷺ) نے بھی ایک حدیث میں فرمایا: ”لوگو! دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو! تاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کا موقع پیدا ہو جائے تو صبر کرو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔“ (صحيح بخاری- كتاب الجهاد- باب كان النبي إذا لم يقاتل أول النهار أخر القتال حتى تزول الشمس) الانفال
47 1- مشرکین مکہ، جب اپنے قافلے کی حفاظت اور لڑائی کی نیت سے نکلے، تو بڑے اتراتے اور فخر وغرور کرتے ہوئے نکلے،مسلمانوں کو اس کا فرانہ شیوے سے روکا گیا ہے۔ الانفال
48 1- مشرکین جب مکہ سے روانہ ہوئے تو انہیں اپنے حریف قبیلے بنی بکر بن کنانہ سے اندیشہ تھا کہ وہ پیچھے سے انہیں نقصان نہ پہنچائے، چنانچہ شیطان سراقہ بن مالک کی صورت بنا کر آیا، جو بنی بکر بن کنانہ کے ایک سردار تھے، اور کہا انہیں نہ صرف فتح وغلبہ کی بشارت دی بلکہ اپنی حمایت کا بھی پورا پورا یقین دلایا۔ لیکن جب ملائکہ کی صورت میں امداد الٰہی اسے نظر آئی تو ایڑیوں کے بل بھاگ کھڑا ہوا۔ 2- اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا؟ تاہم اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے۔ مشرکین ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ 3- ممکن ہے یہ شیطان کے کلام کا حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے جملہ مستانفہ ہو۔ الانفال
49 1- اس سے مراد یا تو وہ مسلمان ہیں جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور مسلمانوں کی کامیابی کے بارے میں انہیں شک تھا، یا اس سے مراد مشرکین ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ میں رہنے والے یہودی مراد ہوں۔ 2- یعنی ان کی تعداد تو دیکھو اور سروسامان کا جو حال ہے، وہ بھی ظاہر ہے۔ لیکن یہ مقابلہ کرنے چلے ہیں مشرکین مکہ سے، جو تعداد میں بھی ان سے کہیں زیادہ ہیں اور ہر طرح کے سامان حرب اور وسائل سے مالا مال بھی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دین نے ان کو دھوکے اور فریب میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ موٹی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ 3- اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان اہل دنیا کو اہل ایمان کے عزم وثبات کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جن کا توکل اللہ کی ذات پر ہے، جو غالب ہے یعنی اپنے بھروسہ کرنے والوں کو بے سہارا نہیں چھوڑتا اور حکیم بھی ہے اور اس کے ہر فعل میں حکمت بالغہ ہے جس کے ادراک سے انسانی عقلیں قاصر ہیں۔ الانفال
50 1- بعض مفسرین نے اس جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی بابت قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے، جس سے بچنے کے لئے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی دبروں پر تلواریں مارتے۔ لیکن یہ آیت عام ہے جو ہر کافر ومشرک کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے ان کے مونہوں اور پشتوں (یا دبروں یعنی چوتڑوں) پر مارتے ہیں، جس طرح سورۂ انعام میں بھی فرمایا گیا ہے: ﴿وَالْمَلائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ﴾ (آیت: 93) فرشتے ان کو مارنے کے لئے ہاتھ دراز کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک فرشتوں کی یہ مار قیامت والے دن جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے ہوگی اور داروغئہ جہنم کہے گا ”تم جلنے کا عذاب چکھو“۔ الانفال
51 1- یہ ضرب وعذاب تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے، بلکہ وہ تو عادل ہے جو ہر قسم کے ظلم وجورسے پاک ہے۔ حدیث قدسی میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر ظلم حرام کیا ہے اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو، اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جو میں نے شمار کرکے رکھے ہوئے ہیں، پس جو اپنے اعمال میں بھلائی پائے، اس پر اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے برعکس پائے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔ (صحيح مسلم كتاب البر، باب تحريم الظلم) الانفال
52 1- ”دَأْبٌ“ کے معنی ہیں عادت۔ کاف تشبیہ کے لئے ہے۔ یعنی ان مشرکین کی عادت یا حال، اللہ کے پیغمبر کے جھٹلانے میں، اسی طرح ہے جس طرح فرعون اور اس سے قبل دیگر مکذبین کی عادت یا حال تھا۔ الانفال
53 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی سے اعراض کرکے اپنے احوال واخلاق کو نہیں بدل لیتی، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا ۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب فرما لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرے۔ الانفال
54 1- یہ اسی بات کی تاکید ہے جو پہلے گزری، البتہ اس میں ہلاکت کی صورت کا اضافہ ہے کہ انہیں غرق کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ واضح کر دیا کہ اللہ نے ان کو غرق کرکے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ﴾(فصلت: 46) الانفال
55 1- ”شَرُّ النَّاسِ“ (لوگوں میں سب سے بدتر) کے بجائے انہیں ”شَرُّ الدَّوَابِّ“ کہا گیا ہے۔ جو لغوی معنی کے لحاظ سے تو انسانوں اور چوپایوں وغیرہ سب پر بولا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کا استعمال چوپایوں کے لئے ہوتا ہے۔ گویا کافروں کا تعلق انسانوں سے ہی نہیں۔ کفر کا ارتکاب کرکے وہ جانور بلکہ جانوروں میں بھی سب سے بدتر جانور بن گئے ہیں۔ الانفال
56 1- یہ کافروں ہی کی ایک عادت بیان کی گئی ہے کہ ہر بار نقض عہد کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے عواقب سے ذرا نہیں ڈرتے۔ بعض لوگوں نے اس سے یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کو مراد لیا ہے، جن سے رسول اللہ (ﷺ) کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ کافروں کی مدد نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس کی پاسداری نہیں کی ۔ الانفال
57 1- شَرِّدْ بِهِمْ کا مطلب ہے کہ ان کو ایسی مار مار کہ جس سے ان کے پیچھے، ان کے حمایتیوں اور ساتھیوں میں بھگدڑ مچ جائے، حتیٰ کہ وہ آپ کی طرف اس اندیشے سے رخ ہی نہ کریں کہ کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو ان کے پیش روؤں کا ہوا ہے۔ الانفال
58 1- خیانت سے مراد ہے معاہد قسم سے نقض عہد کا خطرہ - اور عَلَى سَوَاءٍ (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں باقاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لاعلمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔ 2- یعنی یہ نقض عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا۔ جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنا شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں پر حملہ کر دیا جائے۔ ایک صحابی حضرت عمرو بن عبسہ (رضی الله عنہ) کے علم میں حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) کی یہ تیاری آئی تو انہوں نے اسے غدر سے تعبیر فرمایا اور ایک حدیث رسول بیان فرما کر اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا، جس پر حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) نے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔ (مسند أحمد جلد 5، ص - 111، أبو داود كتاب الجهاد، باب في الإمام يكون بينه وبين العدو عهد فيسير نحوه (إليه)، ترمذي، أبواب السير، باب ما جاء في الغدر) الانفال
59 الانفال
60 1- قُوَّةٍ کی تفسیر نبی (ﷺ) سے ثابت ہے یعنی تیراندازی (صحيح مسلم- كتاب الإمارة- باب فضل الرمي والحث عليه- وديگر كتب حديث) کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا، جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ اس آیت سے بھی واضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی یہ جنگی اہمیت وافادیت وضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لئے ﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیاروں (مثلاً میزائیل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔ الانفال
61 1- یعنی اگر حالت جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکہ اور فریب ہو، تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقیناً اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے ۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمانوں کا مفاد ہو ۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہو، مسلمان قوت ووسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور اورہزیمت خوردہ تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا ضروری ہے ۔ (سورۂ محمد: 35) ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ﴾ (الأنفال: 39) الانفال
62 الانفال
63 1- ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور مومنوں پر جو احسانات فرمائے، ان میں سے ایک بڑے احسان کا ذکرفرمایا ہے ۔ وہ یہ کہ نبی (ﷺ) کی مومنین کے ذریعے سے مدد فرمائی، وہ آپ کے دست وبازو اور محافظ ومعاون بن گئے ۔ مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے درمیان پہلے جو عداوت تھی، اسے محبت والفت میں تبدیل فرما دیا۔ پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اب ایک دوسرے کے جانثار بن گئے، پہلے ایک دوسرے کے دلی دشمن تھے،اب آپس میں رحیم وشفیق ہوگئے۔ صدیوں پرانی باہمی عداوتوں کو اس طرح ختم کرکے، باہم پیار اور محبت پیدا کر دینا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور اس کی قدرت ومشیت کی کار فرمائی تھی، ورنہ یہ ایسا کام تھا کہ دنیا بھر کے خزانے بھی اس پر خرچ کر دیئے جاتے تب بھی یہ گوہر مقصود حاصل نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا ذکر سورۂ آل عمران 103 ﴿إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ﴾ میں بھی فرمایا ہے اور نبی (ﷺ) نے غنائم حنین کے موقع پر انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے جماعت انصار! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں ہدایت نصیب فرمائی تم محتاج تھے، اللہ نے تمہیں میرے ذریعے سے خوشحال کر دیا اور تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے، اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں آپس میں جوڑ دیا نبی (ﷺ) جو بات کہتے، انصار اس کے جواب میں یہی کہتے ’’اللهُ وَرَسُولُهُ أَمَنّ‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں“۔ ( صحيح بخاری، كتاب المغازي، باب غزوة الطائف- صحيح مسلم- كتاب الزكاة باب إعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام) الانفال
64 الانفال
65 1- تَحْرِيضٌ کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا ۔چنانچہ اس کے مطابق نبی (ﷺ) جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقعے پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے، آپ (ﷺ) نے فرمایا :ایسی جنت میں جانے کے لئے کھڑے ہو جاؤ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے“، ایک صحابی عمیر بن حمام (رضی الله عنہ) نے کہا اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: ہاں، اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں بھی جنت میں جانے والوں میں سے ہوں گا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”تم اس میں جانے والوں میں سے ہوگے“۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں، ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا۔ ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ تو طویل زندگی ہوگی پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتیٰ کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے (رضی الله عنہ)۔ (صحيح مسلم- كتاب الإمارة- باب ثبوت الجنة للشهيد) 2- یہ مسلمانوں کے لئے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو پر اور سو ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔ الانفال
66 1- پچھلا حکم صحابہ (رضی الله عنہم) پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا، ایک مسلمان دس کافروں کے لئے، بیس دوسوکے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کرکے ایک اور دو کا تناسب کر دیا (صحیح بخاری ۔ تفسیر سورۂ الانفال) اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔ 2- یہ کہہ کر صبروثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے ۔ الانفال
67 1- جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لئے گئے۔ یہ کفر واسلام کا چونکہ پہلا معرکہ تھا۔ اس لئے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے۔ چنانچہ نبی (ﷺ) نے ان ستر قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے؟ ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ؟ جواز کی حد تک دونوں ہی باتوں کی گنجائش تھی ۔ اسی لئے دونوں ہی باتیں زیر غور آئیں۔ لیکن بعض دفعہ جواز وعدم جواز سے قطع نظر حالات وظروف کے اعتبار سے زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں بھی ضرورت زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی تھی۔ لیکن جواز کو سامنے رکھتے ہوئے کم تر صورت اختیار کر لی گئی، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ مشورے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ وغیرہ نے یہ مشورہ دیا کہ کفر کی قوت وشوکت توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سازشیں کریں گے۔ جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی رائے اس کے برعکس یہ تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کی جائے نبی (ﷺ) نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں، ﴿حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ﴾ کا مطلب ہے کہ اگر ملک میں کفر کا غلبہ ہے (جیسا کہ اس وقت عرب میں کفر کا غلبہ تھا) تو کافروں کی خوں ریزی کرکے کفر کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔ اس نکتے کو نظر انداز کرکے تم نے جو فدیہ قبول کیا ہے تو گویا، زیادہ بہتر صورت کو چھوڑ کر کم تر صورت کو اختیار کیا ہے جو تمہاری غلطی ہے۔ بعد میں جب کفر کا غلبہ ختم ہو گیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کر دے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کرلے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات وظروف کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔ الانفال
68 1- اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی؟ بعض نے کہا کہ اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتۂ تقدیر تھا کہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت حلال ہوگا، اس لئے تم نے فدیہ لے کر ایک جائز کام ہی کیا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا ۔ بعض نے اہل بدر کی مغفرت اس سےمراد لی ہے، بعض نے رسول اللہ (ﷺ) کی موجودگی کو عذاب سے مانع ہونا مراد لیا ہے وغیرہ۔ ( تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر ) الانفال
69 1- اس میں مال غنیمت کی حلت وپاکیزگی کو بیان کرکے فدیے کا جواز بیان فرما دیا گیا۔ جس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ لکھی ہوئی بات سے مراد شاید یہی حلت غنائم ہے۔ الانفال
70 1- یعنی ایمان واسلام لانے کی نیت اور اسے قبول کرنے کا جذبہ۔ 2- یعنی جو فدیہ تم سے لیا گیا ہے، اس سے بہتر تمہیں اللہ تعالیٰ قبول اسلام کے بعد عطا فرما دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عباس (رضی الله عنہ) وغیرہ جو ان قیدیوں میں تھے، مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیوی مال ودولت سے بھی خوب نوازا۔ الانفال
71 1- یعنی زبان سے تو اظہار اسلام کر دیں لیکن مقصد دھوکہ دینا ہو، تو اس سے قبل انہوں نے کفر وشرک کا ارتکاب کر کے کیا حاصل کیا ؟ یہی کہ وہ مسلمانوں کے قیدی بن گئے، اس لئے آئندہ بھی اگر وہ شرک کے راستے پر قائم رہے تو اس سے مزید ذلت ورسوائی کے سوا انہیں کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔ الانفال
72 1- یہ صحابہ مہاجرین کہلاتے ہیں جو فضیلت کے اعتبار سے صحابہ میں اول نمبر پر ہیں۔ 2- یہ انصار کہلاتے ہیں۔ یہ فضیلت میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 3- یعنی ایک دوسرے کے حمایتی اور مددگار ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جیسا کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ (ﷺ) نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کے درمیان رشتۂ اخوت قائم فرما دیا تھا حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنتے تھے (بعد میں وراثت کا حکم منسوخ ہوگیا) 4- یہ صحابہ کی تیسری قسم ہے جو مہاجرین وانصار کےعلاوہ ہیں۔ یہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے ہی علاقوں اور قبیلوں میں مقیم رہے۔ اس لئے فرمایا کہ تمہاری حمایت یا وراثت کے وہ مستحق نہیں۔ 5- مشرکین کے خلاف اگران کو تمہاری مدد کی ضرورت پیش آجائے تو پھر ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ 6- ہاں اگر وہ تم سےایسی قوم کے خلاف مدد کے خواہش مند ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان صلح اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے تو پھر ان مسلمانوں کی حمایت کے مقابلے میں، معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے۔ الانفال
73 1- یعنی جس طرح کافر ایک دوسرے کے دوست اور حمایتی ہیں اسی طرح اگر تم بھی ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت اور کافروں سے عدم موالات نہ کی، تو پھر بڑا فتنہ اور فساد ہوگا۔ اور وہ یہ کہ مومن اور کافر کے باہمی اختلاط اور محبت وموالات سےدین کے معاملے میں اشتباہ اور مداہنت پیدا ہوگی۔ بعض نے ﴿بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾ سے، وارث ہونا مراد لیا ہے ۔ یعنی کافر ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اسے وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر تم وراثت میں کفر وایمان کو نظر انداز کرکے محض قرابت کو سامنے رکھو گے تو اس سے بڑا فتنہ اور فساد پیدا ہوگا۔ الانفال
74 1- یہ مہاجرین وانصار کے انہی دو گروہوں کاتذکرہ ہے، جو پہلے بھی گزرا ہے ۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر ان کی فضیلت کے سلسلے میں ہے ۔ جب کہ پہلے ان کا ذکر ہے جو ایک دوسرے کی حمایت ونصرت کا وجوب بیان کرنے کے لئے تھا ۔ الانفال
75 1- یہ ایک چوتھے گروہ کا ذکر ہے جو فضیلت میں پہلے دو گروہوں کے بعد اور تیسرے گروہ سے، (جنہوں نے پہلے ہجرت نہیں کی تھی) پہلے ہے۔ 2- اخوت یا حلف کی بنیاد پر وراثت میں جو حصہ دار بنتے تھے، اس آیت سے اس کو منسوخ کر دیا گیا اب وارث صرف وہی ہوں گے جو نسبی اور سسرالی رشتوں میں منسلک ہوں گے۔ اللہ کی کتاب یا اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ لوح محفوظ میں اصل حکم یہی تھا۔ لیکن اخوت کی بنیاد پر صرف عارضی طور پر ایک دوسرے کا وارث بنا دیا گیا، جو اب ضرورت ختم ہونے پرغیر ضروری ہوگیا اور اصل حکم نافذ کر دیا گیا۔ الانفال
1 1- فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ)، حضرت علی (رضی الله عنہ) اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکے میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ (ﷺ) کے فرمان کے مطابق اعلان کر دیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی ہی اجازت نہیں ہوگی (صحيح بخاری كتاب الصلاة، باب ما يستر من العورة، مسلم كتاب الحج باب لا يحج البيت مشرك) التوبہ
2 1- یہ اعلان براءت ان مشرکین کے لئے تھا جن سے غیرمؤقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا چار مہینوں سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔ بصورت دیگر ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ، عرب سے نکل جائیں، اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی اختیار نہیں کریں گے تو حربی کافر شمار ہونگے، جن سے لڑنا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا تاکہ جزیرہ عرب کفر وشرک کی تاریکیوں سے صاف ہو جائے۔ 2- یعنی یہ مہلت اس لئے نہیں دی جا رہی ہے کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے مقصد صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی ہے تاکہ جو توبہ کر کے مسلمان ہونا چاہے، وہ مسلمان ہو جائے، ورنہ یاد رکھو کہ تمہاری بابت اللہ کی جو تقدیر ومشیت ہے، اسے ٹال نہیں سکتے اور اللہ کی طرف سے مسلط ذلت ورسوائی سے تم بچ نہیں سکتے۔ التوبہ
3 1- صحیحین (بخاری و مسلم) اور دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (10 ذوالحجہ) کا دن ہے۔ (ترمذي نمبر: 957، بخاري نمبر: 4655، مسلم نمبر:982)، اسی دن منیٰ میں اعلان براءت سنایا گیا۔ 10 ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے، وہ حج اکبر ہے، یہ بے اصل بات ہے۔ التوبہ
4 1- یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لئے مسلمانوں کے لئے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔ التوبہ
5 1- ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد وہی چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ یعنی رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور اعلان براءت 10 ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، کیونکہ حرمت والے مہینوں کے گزرنے کے بعد مشرکین کو پکڑنے اور قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں أَشْهُرٌ حُرُمٌ سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ 10 ذوالحجہ سے لے کر 10ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں أَشْهُرٌ حُرُمٌ اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی روسے ان چارمہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان براءت کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم بالصواب)۔ 2- بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو۔ اور بعض مفسرین نے ﴿وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ﴾ ( البقرة ۔191) ”مسجد حرام کے پاس مت لڑو! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے“۔ اس آیت سے تخصیص کی ہے اور صرف حدود حرم سے باہر حل میں قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر) 3- یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کر دو۔ 4- یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہاں جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔ 5- یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) نے مانعین زکوۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا اور فرمایا: [ والله لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاة وَالزَّكَاةِ ] (متفق عليه ، بحوالہ مشكاة كتاب الزكاة، فصل ثالث) ”اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کریں گے“۔ یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔ التوبہ
6 1- اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ وامان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کر سکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔ 2- یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت وصداقت کے وہ قائل ہوجائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ التوبہ
7 1- یہ استہفام نفی کے لئے ہے، یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ ہے، ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا ہے۔ 2- یعنی عہد کی پاسداری، اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ امر ہے۔ اس لئے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔ التوبہ
8 1- كَيْفَ، پھر بطور تاکید، نفی کے لئے ہے۔ الَّ کے معنی قرابت (رشتہ داری) اور ذِمَّہ کے معنی عہد کے ہیں۔ یعنی ان مشرکین کی زبانی باتوں کا کیا اعتبار، جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غالب آجائیں تو کسی قرابت اور عہد کا پاس نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلا کیف مشرکین کے لئے ہے اور دوسرے سے یہودی مراد ہیں، کیونکہ ان کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کی آیتوں کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور یہ وطیرہ یہودیوں کا ہی رہا ہے۔ التوبہ
9 التوبہ
10 1- بار بار وضاحت سے مقصود مشرکین اور یہود کی اسلام دشمنی اور ان کے سینوں میں مخفی عداوت کے جذبات کو بےنقاب کرنا ہے۔ التوبہ
11 1- نماز، توحید و رسالت کے اقرار کے بعد، اسلام کا سب سے اہم رکن ہے جو اللہ کا حق ہے، اس میں اللہ کی عبادت کے مختلف پہلو ہیں۔ اس میں دست بستہ قیام ہے، رکوع و سجود ہے، دعا و مناجات ہے، اللہ کی عظمت و جلالت کا اور اپنی عاجزی و بے کسی کا اظہار ہے۔ عبادت کی یہ ساری صورتیں اور قسمیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں، نماز کے بعد دوسرا اہم فریضہ زکٰوۃ ہے، جس میں عبادتی پہلو کے ساتھ ساتھ خقوق العباد بھی شامل ہیں، زکٰو ۃ سے معاشرے کے اور زکٰوہ دینے والے کے قبیلے کے ضرورت مند، مفلس نادار اور معذور و محتاج لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لئے حدیث میں بھی شہادت کے بعد ان ہی دو چیزوں کو نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کریں اور زکٰو ۃ دیں“۔ (صحيح بخاری كتاب الإيمان باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة مسلم، كتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) کا قول ہے: [ مَنْ لَمْ يُزَكِّ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ ] (حوالہ مذکورہ) ”جس نے زکوۃ نہیں دی اس کی نماز بھی نہیں“۔ التوبہ
12 1- أَيْمَانٌ، يَمِينٌ کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ ائمہ امام کی جمع ہے۔ مراد پیشوا اور لیڈر ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عہد توڑ دیں اور دین میں طعن کریں، تو ظاہری طور پر یہ قسمیں بھی کھائیں تو ان قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کفر کے ان پیشواؤں سے لڑائی کرو، ممکن ہے اس طرح اپنے کفر سے باز آجائیں۔ اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا، البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔ لیکن امام مالک، امام شافعی اور دیگر علماء طعن فی الدین کو نقض عہد بھی قرار دیتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک اس میں دونوں ہی چیزیں آجاتی ہیں لہذا اس ذمی کا قتل جائز ہے اسی طرح نقض عہد کی صورت میں بھی قتل جائزہے۔ (فتح القدیر) التوبہ
13 1- أَلا‌ حرف تحضیض ہے، جس سے رغبت دلائی جاتی ہے، اللہ تعالٰی مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔ 2- اس سے مراد دارالندوہ کی مشاورت ہے جس میں رؤسائے مکہ نے نبی (ﷺ) کے جلا وطن کرنے، قید کرنے یا قتل کرنے کی تجویزوں پر غور کیا۔ 3- اس سے مراد یا تو بدر کی جنگ میں مشرکین مکہ کا رویہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لئے گئے، لیکن اس کے باوجود کہ انہوں دیکھ لیا کہ وہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے وہ بدر کے مقام پر مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کرتے اور چھیڑ خانی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بالآخر جنگ ہو کر رہی۔ یا اس سے مراد قبیلہ بنی بکر کی وہ امداد ہے جو قریش نے ان کی کی، جب کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے حلیف قبیلے خزاعہ پر چڑھائی کی تھی دراں حالیکہ قریش کی یہ امداد معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ التوبہ
14 التوبہ
15 1- یعنی جب مسلمان کمزور تھے تو یہ مشرکین ان پر ظلم وستم کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے بڑے دکھی اور مجروح تھے، جب تمہارے ہاتھوں وہ قتل ہونگے اور ذلت و رسوائی ان کے حصے میں آئے گی تو فطری بات ہے کہ اس سے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے اور دلوں کا غصہ فرو ہوگا۔ التوبہ
16 1- یعنی بغیر امتحان اور آزمائش کے۔ 2- گویا جہاد کے ذریعے امتحان لیا گیا۔ 3- ”وَلِيجَةٌ“، گہرے اور دلی دوست کو کہتے ہیں مسلمانوں کو چونکہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا لہذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا، جس سے مخلص مومنوں کو دوسروں سے ممتاز کیا گیا۔ 4- مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پہلے ہی ہرچیز کا علم ہے۔ لیکن جہاد کی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص، فرماں بردار اور نافرمان بندے نمایاں ہو کر سامنے آجاتے، جنہیں ہر شخص دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔ التوبہ
17 1- مَسَاجِدَ اللهِ سے مراد مسجد حرام ہے جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ یہ تمام مساجد کا قبلہ و مرکز ہے یا عربوں میں واحد کے لئے بھی جمع کا استعمال جائز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے گھر (یعنی مسجد حرام) کو تعمیر یا آباد کرنا، یہ ایمان والوں کا کام ہے نہ کہ ان کا جو کفر و شرک کا ارتکاب اور اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ جیسے وہ تلبیہ میں کہا کرتے تھے: [ لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ، إِلا شَرِيكًا هُوَ لَكَ ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ ] ( صحيح مسلم- باب التلبية) یا اس سے مراد وہ اعتراف ہے جو ہر مذہب والا کرتا ہے کہ میں یہودی، نصرانی، صابی یا مشرک ہوں۔ (فتح القدیر) 2- یعنی ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں، جیسے طواف و عمرہ اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ۔ کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال ایسے درخت کی طرح ہیں جو بےثمر ہیں یا ان پھولوں کی طرح ہیں جن میں خو شبو نہیں ہے۔ التوبہ
18 1- جس طرح حدیث میں بھی ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا: [ إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسْجِدَ، فَاشْهَدُوا لَهُ بِالإِيمَانِ ] (ترمذي ، تفسير سورة التوبة) ”جب تم دیکھو کہ ایک آدمی مسجد میں پابندی سے آتا ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو“۔ قرآن کریم میں یہاں بھی ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے، وہ نماز زکٰو ۃ اور خشیت الٰہی ہے، جس سے نماز، زکٰوۃ اور تقویٰ کی اہمیت واضح ہے۔ التوبہ
19 1- مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا کام جو کرتے تھے، اس پر انہیں بڑا فخر تھا اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کیا تم سقایت حاج اور عمارت مسجد حرام کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں، بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، چاہے وہ صورۃً خیر ہی ہو۔ جیسا کہ پہلی آیت کے جملے ﴿حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ﴾( البقرۃ:217) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ بعض روایت میں اس کا سبب نزول مسلمانوں کی آپس میں ایک گفتگو کو بتلایا گیا ہے کہ ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے اس میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے۔ دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے۔ تیسرے نے کہا بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں۔ حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے جب انہیں اس طرح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ منبر رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آوازیں اونچی مت کرو۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح مسلم كتاب الإمارة، باب فضل الشهادة في سبيل الله) جس میں گو یا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت والے عمل ہیں۔ گفتگو کے حوالے سے اصل اہمیت وفضیلت تو جہاد کی بیان کرنی تھی لیکن ایمان باللہ کے بغیر چونکہ کوئی بھی عمل مقبول نہیں اس لیے پہلے اسے بیان کیا گیا۔ بہرحال اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ اس کا سبب نزول مشرکین کے مزعومات فاسدہ کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی اپنے اپنے طور پر بعض عملوں کو بعض پر زیادہ اہمیت دینا تھا جب کہ یہ کام شارع کا ہے نہ کہ مومنوں کا۔ مومنوں کا کام تو ہر اس بات پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے انہیں بتلائی جائے۔ 2- یعنی یہ لوگ چاہے کیسے بھی دعوے کریں۔ حقیقت میں ظالم ہیں یعنی مشرک ہیں، اس لئے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے یہ ہدایت الٰہی سے محروم ہیں۔ اس لئے ان کا اور مسلمانوں کا، جو ہدایت الٰہی سے بہرہ ور ہیں، آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ التوبہ
20 التوبہ
21 التوبہ
22 1- ان آیات میں ان اہل ایمان کی فضیلت بیان کی گئی جنہوں نے ہجرت کی اور اپنی جان مال کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا۔ فرمایا: اللہ کے ہاں انہی کا درجہ سب سے بلند ہے اور یہی کامیاب ہیں، یہی اللہ کی رحمت ورضامندی اور دائمی نعمتوں کے مستحق ہیں نہ کہ وہ جو خود اپنے منہ میاں مٹھو بنتے اور اپنے آبائی طور طریقوں کو ہی ایمان باللہ کے مقابلے میں عزیز رکھتے ہیں۔ التوبہ
23 1- یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو۔ سورة آل عمران: آيت 28-118- سورة المائدة: آيت 151 اور سورة المجادلة 22) یہاں جہاد و ہجرت کے موضوع کے ضمن میں (چونکہ اس کی اہمیت واضح ہے اس لئے) اسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے یعنی جہاد وہجرت میں تمہارے لئے تمہارے باپوں اور بھائیوں وغیرہ کی محبت آڑے نہ آئے، کیونکہ وہ ابھی تک کافر ہیں، تو پھر وہ تمہارے دوست ہو ہی نہیں سکتے، بلکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اگر تم ان سے محبت کا تعلق رکھو گے تو یاد رکھو تم ظالم قرار پاؤ گے۔ التوبہ
24 1- اس آیت میں بھی اس مضمون کو بڑے مؤکد انداز میں بیان کیا گیا ہے ”عشیرۃ“ اسم جمع ہے، وہ قریب ترین رشتہ دار جن کے ساتھ آدمی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے، یعنی کنبہ قبیلہ، ”اقتراف“ کسب (کمائی) کے معنی کے لئے آتا ہے، ”تجارت“ سودے کی خرید و فروخت کو کہتے ہیں جس کا مقصد نفع کا حصول ہو، ”کساد“ مندے کو کہتے ہیں یعنی سامان فروخت موجود ہو لیکن خریدار نہ ہو یا اس چیز کا وقت گز رچکا ہو، جس کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت نہ رہے۔ دونوں صورتیں مندے کی ہیں۔ ”مساکن“ سے مراد وہ گھر ہیں جنہیں انسان موسم کے شدائد و حوادث سے بچنے آبرومندانہ طریقے سے رہنے سہنے اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لئے تعمیر کرتا ہے، یہ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت بھی ناگزیر اور قلوب انسانی میں ان سب کی محبت بھی طبعی ہے (جو مذموم نہیں) لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور رسول کی محبت سے زیادہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں مانع ہو جائے، تو یہ بات اللہ کو سخت ناپسندیدہ اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے اور یہ وہ فسق (نافرمانی) ہے جس سے انسان اللہ کی ہدایت سے محروم ہو سکتا ہے۔ جس طرح کہ آخری الفاظ تہدید سے واضح ہے۔ احادیث میں نبی (ﷺ) نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے مثلا ایک موقع پر حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے کہا: ”یا رسول اللہ! مجھے آپ، اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”جب تک میں اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک وہ مومن نہیں“، حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے کہا ”پس واللہ! اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”اے عمر! اب تم مومن ہو“۔ (صحيح بخاری- كتاب الأيمان والنذر - باب كيف كان يمين النبي (ﷺ)) ایک دوسری روایت میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جاؤں“۔ (صحيح بخاری - كتاب الإيمان باب حب الرسول (ﷺ) من الإيمان- ومسلم كتاب الإيمان، باب باب بيان خصال من اتصف بهن وجد حلاوة الإيمان) ایک اور حدیث میں جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ”جب تم بَيْعُ عِينَةٍ (کسی کو مدت معینہ کے لییے چیز ادھاردے کر پھر اس سے کم قیمت پر خرید لینا) اختیار کر لو گے اور گایوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی وقانع ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالٰی تم پر ایسی ذلت مسلط فرمادے گا جس سے تمام وقت تک نہ نکل سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہیں لوٹو گے“۔ ( أبو داود، كتاب البيوع، باب النهي عن العينة - مسند أحمد جلد 2، ص42) التوبہ
25 التوبہ
26 التوبہ
27 1- حُنَیْن مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ یہاں هَوَازِن اور ثَقِیْف رہتے تھے، یہ دونوں قبیلے تیر اندازی میں مشہور تھے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے تھے جس کا علم رسول اللہ (ﷺ) کو ہوا تو آپ 12 ہزار کا لشکر لے کر ان قبیلوں سے جنگ کے لئے حنین تشریف لے گئے، یہ فتح مکہ کے 18، 19دن بعد، شوال کا واقعہ ہے۔ مذکورہ قبیلوں نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی اور مختلف کمین گاہوں میں تیر اندازوں کو مقرر کر دیا تھا۔ ادھر مسلمانوں میں یہ عجب پیدا ہوگیا کہ آج کم از کم قلت کی وجہ سے ہم مغلوب نہیں ہونگے۔ یعنی اللہ کی مدد کے بجائے اپنی کثرت تعداد پر اعتماد زیادہ ہوگیا۔ اللہ تعالٰی کو یہ عُجب کا کلمہ پسند نہیں آیا۔ نتیجتاً جب ہوازن کے تیر اندازوں نے مختلف کمین گاہوں سے مسلمانوں کے لشکر پر یک بارگی تیر اندازی کی تو اس غیر متوقع اور اچانک تیروں کی بچھاڑ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ میدان میں صرف رسول اللہ (ﷺ) اور سَو کے قریب مسلمان رہ گئے۔ آپ (ﷺ) مسلمانوں کو پکار رہے تھے ”اللہ کے بندو! میرے پاس آؤ میں اللہ کا رسول ہوں“ کبھی یہ رجزیہ کلمہ پڑھتے: [ أَنَا النَّبِيُّ لا كَذِبْ - أَنَا ابْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ ] پھر آپ (ﷺ) نے حضرت عباس (رضی الله عنہ) کو (جو نہایت بلند آواز تھے) حکم دیا کہ مسلمانوں کو جمع کرنے کے لئے آوازیں دیں۔ چنانچہ ان کی ندا سن کر مسلمان سخت پشیمان ہوئے اور دوبارہ میدان میں آگئے اور پھر اس طرح جم کر لڑے کہ اللہ نے فتح عطا فرمائی، اللہ تعالٰی کی مدد بھی حاصل ہوئی، جس سے ان کے دلوں سے دشمن کا خوف دور ہو گیا، دوسرے فرشتوں کا نزول ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے چھ ہزار کافروں کو قیدی بنایا (جنہیں بعد میں نبی (ﷺ) کی درخواست پر چھوڑ دیا گیا) اور بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا، جنگ کے بعد ان کے بہت سے سردار بھی مسلمان ہوگئے یہاں 3 آیت میں اللہ تعالٰی نے اس واقعے کا مختصر ذکر فرمایا ہے۔ التوبہ
28 1- مشرک کے (پلید، ناپاک) ہونے کا مطلب، عقائد و اعمال کے لحاظ سے ناپاک ہونا ہے۔ بعض کے نزدیک مشرک ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے ناپاک ہے۔ کیونکہ وہ طہارت (صفائی و پاکیزگی) کا اس طرح اہتمام نہیں کرتا، جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔ 2- یہ وہی حکم ہے جو سن 9 ہجری میں اعلان برات کے ساتھ کیا گیا تھا، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لئے ہے۔ ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہو سکتے ہیں جس طرح نبی کریم (ﷺ) نے ثمامہ بن اثال (رضی الله عنہ) کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا حتیٰ کہ اللہ نے ان کے دل میں اسلام کی اور نبی (ﷺ) کی محبت ڈال دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ علاوہ ازیں اکثر علماء کے نزدیک یہاں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے یعنی حدود حرم کے اندر مشرک کا داخلہ ممنوع ہے بعض آثار کی بنیاد پر اس حکم سے ذمی اور خدام کو مشثنیٰ کیا گیا ہے اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں یہود و نصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا۔ (ابن کثیر) 3- مشرکین کی ممانعت سے بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ حج کے موسم میں زیادہ اجتماع کی وجہ سے جو تجارت ہوتی ہے، یہ متاثر ہوگی۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، اس مفلسی (یعنی کاروبار کی کمی) سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالٰی عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا چنانچہ فتوحات کی وجہ سے کثرت سے مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ اور پھر بتدریج سارا عرب بھی مسلمان ہوگیا اور حج کے موسم میں حاجیوں کی ریل پیل پھر اسی طرح ہوگئی جس طرح پہلے تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوئی اور جو مسلسل روز افزوں ہی ہے۔ التوبہ
29 1- مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعد اس آیت میں یہود ونصاریٰ سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے (اگر وہ اسلام نہ قبول کریں) یا پھر وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ یہود ونصاریٰ باوجود اس بات کے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے، ان کی بابت کہا گیا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اس سے واضح کر دیا گیا کہ انسان جب تک اللہ پر اس طرح ایمان نہ رکھے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بتلایا ہے، اس وقت تک اس کا ایمان باللہ قابل اعتبار نہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کے ایمان باللہ کو غیر معتبر اس لئے قرار دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ نے حضرت عزیز و حضرت مسیح علیہما السلام کی ابنیت (یعنی بیٹا ہونے کا) اور الوہیت کا عقیدہ گھڑ لیا تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عقیدے کا اظہار ہے۔ التوبہ
30 التوبہ
31 1- اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم (رضی الله عنہ) کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (ﷺ) سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کر دیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے“۔ (صحيح ترمذي- للأباني- نمبر2471) کیونکہ حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالٰی کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن وحدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ التوبہ
32 1- یعنی اللہ نے رسول اللہ (ﷺ) کو جو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، یہود ونصاریٰ اور مشرکین چاہتے ہیں کہ اپنے جدال و افترا سے اس کو مٹا دیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سورج کی شعاعوں کو یا چاند کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دے پس! جس طرح یہ ناممکن ہے اسی طرح جو دین حق اللہ نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہے اس کا مٹانا بھی ناممکن ہے۔ وہ تمام دینوں پر غالب آ کر رہے گا، جیسا کہ اگلے جملے میں اللہ نے فرمایا، کافر کے لغوی معنی ہیں چھپانے والا اسی لئے رات کو بھی 'کافر' کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزوں کو اپنے اندھیروں میں چھپا لیتی ہے کاشت کار کو بھی 'کافر' کہتے ہیں کیونکہ وہ غلے کے دانوں کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ گویا کافر بھی اللہ کے نور کو چھپانا چاہتے ہیں یا اپنے دلوں میں کفر و نفاق اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض و عناد چھپائے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ التوبہ
33 1- دلائل و براہین کے لحاظ سے تو یہ غلبہ ہر وقت حاصل ہے۔ تاہم مسلمانوں نے دین پر عمل کیا تو انہیں دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہوا۔ اور اب بھی مسلمان اگر اپنے دین کے عامل بن جائیں تو ان کا غلبہ یقینی ہے، اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ حزب اللہ ہی غالب وفاتح ہوگا۔ شرط یہی ہے کہ مسلمان حزب اللہ بن جائیں۔ التوبہ
34 1- أَحْبَارٌ حِبْرٌ کی جمع ہے یہ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بات کو خوبصورت طریقہ سے پیش کرنے کا طریقہ رکھتا ہو خوبصورت اور منقش کپڑے کو ثَوْبٌ مُحَبَّرٌ کہا جاتا ہے مراد علماء یہود ہیں، رہبان راہب کی جمع ہے جو رہبنہ سے مشتق ہے۔ اس سے مراد علماء نصاریٰ ہیں بعض کے نزدیک یہ صوفیائے نصاریٰ ہیں۔ یہ دونوں ایک تو کلام اللہ میں تحریف و تغیر کر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق مسئلے بتاتے اور یوں لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، دوسرے اس طرح لوگوں سے مال اینٹھتے، جو ان کے لئے باطل اور حرام تھا۔ بدقسمتی سے بہت سے علماء مسلمین کا بھی یہی حال ہے اور یوں نبی (ﷺ) کی پیش گوئی کا مصداق ہیں جس میں آپ (ﷺ) نے فرمایا تھا، [ لَتَتَّبِعُنَّ سنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ] (صحيح بخاری كتاب الاعتصام میں نبی (ﷺ) کا یہ فرمان باب کا عنوان ہے) ”تم پچھلی امتوں کے طور طریقوں کی ضرور پیروی کرو گے“۔ 2- حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ یہ زکٰوۃ کے حکم سے پہلے کا حکم ہے۔ زکٰوۃ کا حکم نازل ہونے کے بعد زکٰوۃ کو اللہ تعالٰی نے مال کی طہارت کا ذریعہ بنا دیا ہے اس لئے علماء فرماتے ہیں کہ جس مال سے زکٰو ۃ ادا کر دی جائے وہ خزانہ نہیں ہے اور جس مال کی زکٰو ۃ ادا نہ کی جائے، وہ کنز (خزانہ) ہے، جس پر یہ قرآنی وعید ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ' جو شخص اپنے مال کی زکٰو ۃ ادا نہیں کرتا قیامت والے دن اس کے مال کو آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا، جس سے اس کے دونوں پہلوؤں کو، پیشانی کو اور کمر کو داغا جائے گا۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اور لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک اس کا یہی حال رہے گا اس کے بعد جنت یا جہنم میں اسے لے جایا جائے گا (صحيح مسلم- كتاب الزكاة ، باب إثم مانع الزكاة) یہ بگڑے ہوئے علماء اور صوفیا کے بعد بگڑے ہوئے اہل سرمایہ ہیں تینوں طبقے عوام کے بگاڑ میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اللَّهُمَّ! احْفَظْنَا مِنْهُمْ التوبہ
35 التوبہ
36 1- فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الٰہی ہے۔ یعنی ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالٰی نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال و جدال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اسی بات کو نبی کریم (ﷺ) نے ایسے بیان فرمایا ہے کہ ”زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے“۔ (صحيح بخاری، كتاب التفسير ، سورة توبة وصحيح مسلم ، كتاب القسامة ، باب تغليظ تحريم الدماء ) زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب، مشرکین عرب مہینوں میں جو تاخیر و تقدیم کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس کا خاتمہ ہے۔ 2- یعنی ان مہینوں کا اسی ترتیب سے ہونا جو اللہ نے رکھی ہے اور جن میں چار حرمت والے ہیں۔ اور یہی حساب صحیح اور عدد مکمل ہے۔ 3- یعنی حرمت والے مہینوں میں قتال کر کے ان کی حرمت پامال کر کے اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے۔ 4- لیکن حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد الا یہ کہ وہ لڑنے پر مجبور کر دیں، پھر حرمت والے مہینوں میں بھی تمہارے لئے لڑنا جائز ہوگا۔ التوبہ
37 1- ”نَسِيءٌ“ کے معنی پیچھے کرنے کے ہیں۔ عربوں میں بھی حرمت والے مہینوں میں قتال و جدال اور لوٹ مار کو سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مسلسل تین مہینے، ان کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، قتل و غارت سے اجتناب، ان کے لئے بہت مشکل تھا۔ اس لئے اس کا حل انہوں نے یہ نکال رکھا تھا جس حرمت والے مہینے میں قتل و غارت کرنا چاہتے اس میں وہ کر لیتے اور اعلان کر دیتے کہ اس کی جگہ فلاں مہینہ حرمت والا ہوگا مثلًا محرم کے مہینے کی حرمت توڑ کر اس کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے۔اس طرح حرمت والے مہینوں میں وہ تقدیم و تاخیر اور ادل بدل کرتے رہتے تھے۔ اس کو نَسِيءٌ کہا جاتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے اس کی بابت فرمایا کہ یہ کفر میں زیادتی ہے کیونکہ اس کا ادل بدل مقصود لڑائی اور دنیاوی مفادات کے حصول کے سوا کچھ نہیں۔ اور نبی (ﷺ) نے بھی اس کے خاتمے کا اعلان یہ کہہ کر فرمادیا کہ ”زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت میں آگیا ہے یعنی اب آئندہ مہینوں کی یہ ترتیب اسی طرح رہے گی جس طرح ابتدائے کائنات سے چلی آرہی ہے“۔ 2- یعنی ایک مہینے کی حرمت توڑ کر اس کی جگہ دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دینے سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالٰی نے چار مہینے حرمت والے رکھے ہیں، ان کی گنتی پوری رہے۔ یعنی گنتی پوری کرنے میں اللہ کی موافقت کرتے تھے، لیکن اللہ نے قتال وجدال اور غارت گری سے جو منع کیا تھا، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی، بلکہ انہیں ظالمانہ کاروائیوں کے لئے ہی وہ ادل بدل کرتے تھے۔ التوبہ
38 التوبہ
39 1- روم کے عیسائی بادشاہ ہرقل کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی تیاری کر رہا ہے چنانچہ نبی (ﷺ) نے بھی اس کے لئے تیاری کا حکم دے دیا۔ یہ شوال سن 9/ ہجری کا واقعہ ہے۔ موسم سخت گرمی کا تھا اور سفر بہت لمبا تھا۔ بعض مسلمانوں اور منافقین پر یہ حکم گراں گزرا، جس کا اظہار اس آیت میں کیا گیا ہے اور انہیں زجر وتوبیخ کی گئی ہے۔ یہ جنگ تبوک کہلاتی ہے جو حقیقت میں ہوئی نہیں۔ 20 روز مسلمان ملک شام کے قریب تبوک میں رہ کر واپس آگئے۔ اس کو جیش العسرۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس لمبے سفر میں اس لشکر کو کافی دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ”اثَّاقَلْتُمْ“ یعنی سستی کرتے اور پیچھے رہنا چاہتے ہو۔ اس کا مظاہرہ بعض لوگوں کی طرف سے ہوا لیکن اس کو منسوب سب کی طرف کر دیا گیا (فتح القدیر) التوبہ
40 1- جہاد سے پیچھے رہنے یا اس سے جان چھڑانے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم مدد نہیں کرو گے تو اللہ تعالٰی تمہاری مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر کی مدد اس وقت بھی کی جب اس نے غار میں پناہ لی تھی اور اپنے ساتھی (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ) سے کہا تھا ”غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے“ اس کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ جب ہم غار میں تھے تو میں نے نبی کریم (ﷺ) سے کہا اگر ان مشرکین نے (جو ہمارے تعاقب میں ہیں) اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو یقینا ہمیں دیکھ لیں گے حضرت نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: [ يَا أَبَا بَكْرٍ! مَا ظَنُّكَ بِاثْنَينَ اللهُ ثَالِثُهُمَا ] (صحيح بخاری- تفسير سورة التوبة) ”اے ابو بکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہےیعنی اللہ کی مدد اور اس کی نصرت جن کے شامل حال ہے“۔ 2- یہ مدد کی وہ دو صورتیں بیان فرمائی ہیں جن سے اللہ کے رسول (ﷺ) کی مدد فرمائی گئی۔ ایک سکینت، دوسری فرشتوں کی تائید۔ 3- کافروں کے کلمے سے شرک اور کلمۃ اللہ سے توحید مراد ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا گیا کہ ایک شخص بہادری کے جوہر دکھانے کے لئے لڑتا ہے، ایک قبائلی عصبیت و حمیت میں لڑتا ہے، ایک اور ریاکاری کے لئے لڑتا ہے۔ ان میں سے فی سبیل اللہ لڑنے والا کون ہے، آپ نے فرمایا ”جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے، وہ فی سبیل اللہ ہے“۔ (صحيح بخاری، كتاب العلم ، باب من سأل وهو قائم - عالما جالسا ومسلم، كتاب الإمارة ، باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا) التوبہ
41 1- اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں مثلًا انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر خوشی سے یا ناخوشی سے غریب ہو یا امیر جوان ہو یا بوڑھا پیادہ ہو یا سوار عیال دار ہو یا اہل و عیال کے بغیر۔ وہ پیش قدمی کرنے والوں میں سے ہو یا پیچھے لشکر میں شامل۔ امام شوکانی فرماتے ہیں آیت کا حمل تمام معانی پر ہو سکتا ہے، اس لئے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ 'تم کوچ کرو، چاہے نقل وحرکت تم پر بھاری ہو یا ہلکی۔ اور اس مفہوم میں مذکورہ تمام مفاہیم آجاتے ہیں۔ التوبہ
42 1- یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہو رہا ہے جنہوں نے عذر اور معذرت کر کے نبی (ﷺ) سے اجازت لے لی تھی دراں حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہیں تھا۔ ”عَرَضٌ“ سے مراد جو دنیاوی منافع سامنے آئیں مطلب ہے مال غنیمت۔ 2- یعنی آپ (ﷺ) کے ساتھ شریک جہاد ہوتے۔ لیکن سفر کی دوری نے انہیں حیلے تراشنے پر مجبور کر دیا۔ 3- یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر۔ کیونکہ جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔ التوبہ
43 1- یہ نبی کریم (ﷺ) کو کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں کو تو نے کیوں بغیر یہ تحقیق کئے کہ اس کے پاس معقول عذر بھی ہے یا نہیں؟ اجازت دے دی۔ لیکن اس توبیخ میں بھی پیار کا پہلو غالب ہے، اس لئے اس کوتاہی پر معافی کی وضاحت پہلے کر دی گئی ہے۔ یاد رہے یہ تنبیہ اس لئے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ورنہ تحقیق کے بعد ضرورت مندوں کو اجازت دینے کی آپ کو اجازت حاصل تھی۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ ﴿فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ﴾ ( النور -62) ”جب یہ لوگ تجھ سے اپنے بعض کاموں کی وجہ سے اجازت مانگیں، تو جس کو تو چاہے، اجازت دے دے“۔ جس کو چاہے کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس معقول عذر ہو، اسے اجازت دینے کا حق تجھے حاصل ہے۔ التوبہ
44 1- یہ مخلص ایمانداروں کا کردار بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ نہایت ذوق شوق کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر جہاد میں حصہ لیتے ہیں۔ التوبہ
45 1- یہ ان منافقین کا بیان ہے جنہوں نے جھوٹے حیلے تراش کر رسول اللہ (ﷺ) سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کر لی تھی۔ ان کی بابت کہا گیا ہے کہ یہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی عدم ایمان نے انہیں جہاد سے گریز پر مجبور کیا ہے۔ اگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوتا تو نہ جہاد سے یہ بھاگتے نہ شکوک و شبہات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے۔ ملحوظہ: خیال رہے کہ اس جہاد میں شرکت کے معاملے میں مسلمانوں کی چار قسمیں تھیں۔ پہلی قسم: وہ مسلمان جو بلا تامل تیار ہوگئے۔ دوسرے، وہ جنہیں ابتداء تردد ہوا اور ان کے دل ڈولے، لیکن پھر جلد ہی اس تردد سے نکل آئے۔ تیسرے، وہ جو ضعف اور بیماری یا سواری اور سفر خرچ نہ ہونے کی وجہ سے فی الواقع جانے سے معذور تھے اور جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی تھی۔ (ان کا ذکر آیت 91- 92 میں ہے) چوتھی قسم، وہ جو محض کاہلی کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔ اور جب نبی (ﷺ) واپس آئے تو انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے آپ کو توبہ اور سزا کے لئے پیش کردیا۔ ان کے علاوہ باقی منافقین اور ان کے جاسوس تھے، یہاں مسلمانوں کے پہلے گروہ اور منافقین کا ذکر ہے۔ مسلمانوں کی باقی تین قسموں کا بیان آگے چل کر آئے گا۔ التوبہ
46 1- یہ انہیں منافقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جنہوں نے جھوٹ بول کر اجازت حاصل کی تھی کہ اگر وہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے تو یقینا اس کے لئے تیاری کرتے۔ 2- ”فَثَبَّطَهُمْ“ کے معنی ہیں انکو روک دیا، پیچھے رہنا ان کے لئے پسندیدہ بنا دیا گیا، پس وہ سست ہوگئے اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں نکلے مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں ان کی شرارتیں اور سازشیں تھیں، اس لئے اللہ کی تقدیری مشیت یہی تھی کہ وہ نہ جائیں۔ 3- یہ یا تو اسی مشیت الٰہی کی تعبیر ہے جو تقدیرا لکھی ہوئی تھی یا بطور ناراضگی اور غضب کے رسول اللہ (ﷺ) کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اچھا ٹھیک ہے تم عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کی صف میں شامل ہو کر ان کی طرح گھروں میں بیٹھے رہو۔ التوبہ
47 1- یہ منافقین اگر اسلامی لشکر کے ساتھ شریک ہوتے تو غلط رائے اور مشورے دے کر مسلمانوں میں انتشار ہی کا باعث بنتے۔ 2- إِيضَاعٌ کے معنی ہوتے ہیں، اپنی سواری کو تیزی سے دوڑانا۔ مطلب یہ کہ چغل خوری وغیرہ کے ذریعے سے تمہارے اندر فتنہ برپا کرنے میں وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے اور فتنے سے مطلب اتحاد کو پارہ پارہ کر دینا اور ان کے مابین باہمی عداوت و نفرت پیدا کر دینا ہے۔ 3- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کی جاسوسی کرنے والے کچھ لوگ مومنین کے ساتھ بھی لشکر میں موجود تھے جو منافقین کو مسلمانوں کی خبریں پہنچایا کرتے تھے۔ التوبہ
48 1- اس لئے اس نے گزشتہ اور آئندہ امور کی تمہیں اطلاع دے دی ہے اور یہ بھی بتلا دیا ہے کہ یہ منافقین جو ساتھ نہیں گئے، تو تمہارے حق میں اچھا ہی ہوا، اگر یہ جاتے تو یہ یہ خرابیاں ان کی وجہ سے پیدا ہوتیں۔ 2- یعنی یہ منافقین تو، جب سے آپ مدینہ میں آئے ہیں، آپ کے خلاف فتنے تلاش کرنے اور معاملات کو بگاڑنے میں سرگرم رہے ہیں۔ حتیٰ کے بدر میں اللہ تعالٰی نے آپ کو فتح و غلبہ عطا فرما دیا، جو ان کے لئے بہت ہی ناگوار تھا، اسی طرح جنگ احد کے موقعے پر بھی ان منافقین نے راستے سے ہی واپس ہو کر مشکلات پیدا کرنے کی اور اس کے بعد بھی ہر موقعے پر بگاڑ کی کوشش کرتے رہے۔ حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا اور اکثر عرب مسلمان ہوگئے جس پر کف حسرت وافسوس مل رہے ہیں۔ التوبہ
49 1- ”مجھے فتنے میں نہ ڈالیے“ کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے اجازت نہیں دیں گے تو مجھے بغیر اجازت رکنے پر سخت گناہ ہوگا، اس اعتبار سے فتنہ، گناہ کے معنی میں ہوگا۔ یعنی مجھے گناہ میں نہ ڈالیے، دوسرا مطلب فتنے کا، ہلاکت ہے یعنی مجھے ساتھ لیجا کر ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ کہا جاتا ہے کہ جد بن قیس نے عرض کیا مجھے ساتھ نہ لے جائیں، روم کی عورتوں کو دیکھ کر میں صبر نہ کر سکوں گا۔ اس پر نبی (ﷺ) نے رخ پھیر لیا اور اجازت دے دی۔ بعد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ”فتنے میں تو وہ گر چکے ہیں“ یعنی جہاد سے پیچھے رہنا اور اس سے گریز کرنا، بجائے خود ایک فتنہ اور سخت گناہ کا کام ہے جس میں یہ ملوث ہی ہیں۔ اور مرنے کے بعد جہنم ان کو گھیر لینے والی ہے، جس سے فرار کا کوئی راستہ ان کے لئے نہیں ہوگا۔ التوبہ
50 1- سیاق کلام کے اعتبار سے حَسَنةٌ، سے یہاں کامیابی اور غنیمت اور سَيّئَةٌ سے ناکامی، شکست اور اسی قسم کے نقصانات جو جنگ میں متوقع ہوتے ہیں مراد ہیں۔ اس میں ان کے خبث باطنی کا اظہار ہے جو منافقین کے دلوں میں تھا اس لئے کہ مصیبت پر خوش ہونا اور بھلائی حاصل ہونے پر رنج اور تکلیف محسوس کرنا، غایت عداوت کی دلیل ہے۔ التوبہ
51 1- یہ منافقین کے جواب میں مسلمانوں کے صبر وثبات اور حوصلے کے لئے فرمایا جا رہا ہے کیونکہ جب انسان کو یہ معلم ہو کہ اللہ کی طرف سے مقدر کا ہر صورت میں ہونا ہے اور جو بھی مصیبت یا بھلائی ہمیں پہنچتی ہے اسی تقدیر الٰہی کا حصہ ہے، تو انسان کے لئے مصیبت کا برداشت کرنا آسان اور اس کے حوصلے میں اضافے کا سبب ہوتا ہے۔ التوبہ
52 1- یعنی کامیابی یا شہادت، ان دونوں میں سے جو چیز بھی ہمیں حاصل ہو، ہمارے لئے خیر(بھلائی) ہے۔ 2- یعنی ہم تہارے بارے میں دو برائیوں میں سے ایک برائی کا انتظار کر رہے ہیں کہ یا تو آسمان سے اللہ تعالٰی تم پر عذاب نازل فرمائے جس سے تم ہلاک ہو جاؤ یا ہمارے ہاتھوں سے اللہ تعالٰی تمہیں (قتل کرنے، یا قیدی بننے وغیرہ قسم کی) سزائیں دے۔ وہ دونوں باتوں پر قادر ہے۔ التوبہ
53 1- أَنْفِقُوا امر کا صیغہ۔ لیکن یہاں یہ یا تو شرط اور جزا کے معنی میں ہے۔ یعنی اگر تم خرچ کرو گے تو قبول نہیں کیا جائے گا یا یہ امر بمعنی خبر کے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں باتیں برابر ہیں، خرچ کرو یا نہ کرو۔ اپنی مرضی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، تب بھی نہ مقبول ہے۔ کیونکہ قبولیت کے لئے ایمان شرط اول ہے اور وہی تمہارے اندر مفقود ہے اور ناخوشی سے خرچ کیا ہوا مال، اللہ کے ہاں ویسے ہی مردود ہے، اس لئے کہ وہاں قصد صحیح موجود نہیں ہے جو قبولیت کے لئے ضروری ہے۔ یہ آیت بھی اسی طرح ہے جس طرح یہ ہے ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ﴾ ( التوبة ۔80) ”آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں“۔ (یعنی دونوں باتیں برابر ہیں)۔ التوبہ
54 1- اس میں ان کے صدقات کے عدم قبول کی تین دلیلیں بیان کی گئی ہیں، ایک ان کا کفر وفسق۔ دوسرا، کاہلی سے نماز پڑھنا، اس لئے وہ نماز پر نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے ترک کی سزا سے انہیں کوئی خوف ہے، کیونکہ رضا اور خوف، یہ بھی ایمان کی علامت ہے جس سے یہ محروم ہیں۔ اور تیسرا کراہت سے خرچ کرنا اور جس کام میں دل کی رضا نہ ہو وہ قبول کس طرح ہو سکتا ہے؟ بہرحال یہ تینوں وجوہات ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک وجہ بھی عمل کی نامقبولیت کے لئے کافی ہے۔ چہ جائیکہ تینوں وجوہات جہاں جمع ہوجائیں تو اس عمل کے مردود بارگاہ الٰہی ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ التوبہ
55 1- اس لئے کہ یہ سب بطور آزمائش ہے، جس طرح فرمایا: ﴿وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ﴾ ( طہ ۔131) ”اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں، ان پر نگاہ نہ کرنا، اور فرمایا: ﴿أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ، نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لا يَشْعُرُونَ﴾ (المؤمنون. 55-56) ”کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں،(تو اس سے) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں“۔ 2- امام ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری نے اس سے زکٰوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ مراد لیا ہے۔ یعنی ان منافقین سے زکٰوۃ و صدقات تو (جو وہ مسلمان ظاہر کرنے کے لئے دیتے ہیں) دنیا میں قبول کر لئے جائیں تاکہ اسی طریقے سے ان کو مالی مار بھی دنیا میں دی جائے۔ 3- تاہم ان کی موت کفر ہی کی حالت میں آئے گی۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کو صدق دل سے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنے کفر ونفاق پر ہی بدستور قائم ومصر ہیں۔ التوبہ
56 1- اس ڈر اور خوف کی وجہ سے جھوٹی قسمیں کھا کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی تم میں سے ہی ہیں۔ التوبہ
57 1- یعنی نہایت تیزی سے دوڑ کر وہ پناہ گاہوں میں چلے جائیں، اس لئے کہ تم سے ان کا جتنا کچھ بھی تعلق ہے، وہ محبت و خلوص پر نہیں، عناد، نفرت اور کراہت پر ہے۔ التوبہ
58 1- یہ ان کی ایک اور بہت بڑی کوتاہی کا بیان ہے کہ وہ نبی (ﷺ) کی ذات ستودہ صفات کو (نعوذ باللہ) صدقات و غنائم کی تقسیم میں غیر منصف باور کراتے، جس طرح ابن ذی الخویصرہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ (ﷺ) ایک مرتبہ تقسیم فرما رہے تھے کہ اس نے کہا "انصاف سے کام لیجئے" آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”افسوس ہے تجھ پر، اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟“۔ (صحيح بخاری- كتاب المناقب، باب علامات النبوة صحيح مسلم- كتاب الزكاة باب ذكر الخوارج ...)۔ 2- گویا اس الزام تراشی کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول تھا کہ اس طرح ان سے ڈرتے ہوئے انہیں زیادہ حصہ دیا جائے، یا وہ مستحق ہوں یا نہ ہوں، انہیں حصہ ضرور دیا جائے۔ التوبہ
59 التوبہ
60 1- اس آیت میں اس طعن کا دروازہ بند کرنے کے لئے صدقات کے مستحق لوگوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ صدقات سے مراد یہاں صدقات واجبہ یعنی زکٰوۃ ہے۔ آیت کا آغاز إنَّمَا سے کیا گیا ہے جو قصر کے صیغوں میں سے ہے اور الصدقات میں لام تعریف جنس کے لیے ہے یعنی صدقات کی یہ جنس (زکوٰۃ) ان آٹھ قمسوں میں مقصور ہے جن کا ذکر آیت میں ہے ان کے علاوہ کسی اور مصرف پر زکوۃ کی رقم کا استعمال صحیح نہیں۔ اہل علم کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ان آٹھوں مصارف پر تقسیم کرنا ضروری ہے؟ امام شافعی کی رائے کی رو سے زکٰوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ یا ان میں سے جس مصرف یا مصارف پر امام یا زکوۃ ادا کرنے والا مناسب سمجھے حسب ضرورت خرچ کرسکتا ہے امام شافعی وغیرہ پہلی رائے کے قائل ہیں اور امام مالک اور امام ابو حنیفہ وغیرہما دوسری رائے کے۔ اور یہ دوسری رائے ہی زیادہ صحیح ہے امام شافعی کی رائے کی رو سے زکوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے یعنی اقتضائے ضرورت اور مصالح دیکھے بغیر رقم کے آٹھ حصے کر کے آٹھوں جگہ پر کچھ کچھ رقم خرچ کی جائے۔ جبکہ دوسری رائے کے مطابق ضرورت اور مصالح کا اعتبار ضروری ہے جس مصرف پر رقم خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت یا مصالح کسی ایک مصرف پر خرچ کرنے کے متقتضی ہوں، تو وہاں ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے زکوۃ کی رقم خرچ کی جائے گی چاہے دوسرے مصارف پر خرچ کرنے کے لیے رقم نہ بچے اس رائے میں جو معقولیت ہے وہ پہلی رائے میں نہیں ہے۔ 2- ان مصارف ثمانیہ کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔ (ا،2) فقیر اور مسکین چونکہ قریب قریب ہیں اور ایک کا اطلاق دوسرے پر بھی ہوتا ہے یعنی فقیر کو مسکین اور مسکین کو فقیر کہہ لیا جاتا ہے۔ اس لئے ان کی الگ الگ تعریف میں خاصا اختلاف ہے۔ تاہم دونوں کے مفہوم میں یہ بات تو قطعی ہے کہ جو حاجت مند ہوں اور اپنی حاجات وضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم اور وسائل سے محروم ہوں ان کو فقیر اور مسکین کہا جاتا ہے مسکین کی تعریف میں ایک حدیث آتی ہے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ”مسکین وہ گھو منے پھر نے والا نہیں ہے جو ایک ایک یادو دو لقمے یا کھجور کے لیے گھر گھر پھرتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے“۔(صحیح بخاری ومسلم کتاب الزکوٰۃ) حدیث میں گویا اصل مسکین شخص مذکور کو قرار دیا گیا ہے ورنہ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) وغیرہ سے مسکین کی تعریف یہ منقول ہے کہ جو گداگر ہو، گھوم پھر کر اور لوگوں کے پیچھے پڑ کر مانگتا ہو اور فقیر وہ ہے جو نادار ہونے کے باوجود سوال سے بچے اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرے۔ (ابن کثیر) 3۔ عاملین سے مراد حکومت کے وہ اہلکار جو زکٰو ۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب کتاب پر معمور ہوں۔ 4۔ مولفۃ القلوب ایک تو وہ کافر ہے جو کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائے گا۔ دوسرے، وہ نو مسلم افراد ہیں جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔ تیسرے وہ افراد بھی ہیں جن کی امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے اور اس طرح وہ قریب کے کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں۔ یہ اور اس قسم کی دیگر صورتیں تالیف قلب کی ہیں جن پر زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے چاہے مذکورہ افراد مال دار ہی ہوں۔ احناف کے نزدیک یہ مصرف ختم ہوگیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں حالات وظروف کے مطابق ہر دور میں اس مصرف پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ 5۔ گردنیں آزاد کرانے میں بعض علماء نے اس سے صرف مکاتب غلام مراد لئے ہیں اوردیگر علماء نے مکاتب وغیر مکاتب ہر قسم کے غلام مراد لئے ہیں۔ امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ 6۔ غارمین سے ایک تو وہ مقروض مراد ہیں جو اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہوگئے اور ان کے پاس نقد رقم بھی نہیں ہے اور ایسا سامان بھی نہیں ہے جسے بیچ کر وہ قرض ادا کریں سکیں۔ دوسرے وہ ذمہ داراصحاب ضمانت ہیں جنہوں نے کسی کی ضمانت دی اور پھر وہ اس کی ادائیگی کے ذمہ دار قرار پاگئے یا کسی فصل تباہ یا کاروبار خسارے کا شکار ہوگیا اور اس بنیاد پر وہ مقروض ہو گیا۔ ان سب افراد کی زکوۃ کی مد سے امداد کرنا جائز ہے۔ 7۔ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد (چا ہے وہ مالدار ہی ہو) پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ حج اور عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے اسی طرح بعض علماء کے نزدیک تبلیغ ودعوت بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیونکہ اس سے بھی مقصد جہاد کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ 8۔ ابن السبیل سے مراد مسافرہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر، سفر میں مستحق امداد ہوگیا ہے چاہے وہ اپنے گھر یا وطن میں صاحب حیثیت ہی ہو، اس کی امداد زکٰو ۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے۔ التوبہ
61 1- یہاں سے پھر منافقین کا ذکر ہو رہا ہے نبی (ﷺ) کے خلاف ایک ہرزہ سرائی انہوں نے یہ کی کہ یہ کان کا کچا (ہلکا) ہے، مطلب ہے کہ یہ ہر ایک بات سن لیتا ہے یہ گویا آپ (ﷺ) کے حلم و کرم اور عفو وصفح کی صفت سے ان کو دھوکہ ہوا) اللہ نے فرمایا کہ نہیں، ہمارا پیغمبر شر وفساد کی کوئی بات نہیں سنتا جو بھی سنتا ہے تمہارے لئے اس میں خیر اور بھلائی ہے۔ التوبہ
62 التوبہ
63 التوبہ
64 التوبہ
65 1- منافقین آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے، مومنین کا استہزا کرتے حتیٰ کہ رسول اللہ (ﷺ) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے سے گریز نہ کرتے جس کی اطلاع کسی نہ کسی طریقے سے بعض مسلمانوں کو اور پھر رسول اللہ (ﷺ) کو ہو جاتی۔ لیکن جب ان سے پوچھا جاتا تو صاف مکر جاتے اور کہتے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہنسی مذاق کے لئے کیا تمہارے سامنے اللہ اور اس کی آیات و رسول ہی رہ گیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر مقصد تمہارا آپس میں ہنسی مذاق کا ہوتا تو اس میں اللہ، اس کی آیات ورسول درمیان میں کیوں آتے، یہ یقینا تمہارے اس خبث اور نفاق کا اظہار ہے جو آیات الٰہی اور ہمارے پیغمبر کے خلاف تمہارے دلوں میں موجود ہے۔ التوبہ
66 1- یعنی تم جو ایمان ظاہر کرتے رہے ہو۔ اللہ اور رسول کے استہزا کے بعد، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی۔ اول تو وہ بھی نفاق پر ہی مبنی تھا۔ تاہم اس کی بدولت ظاہری طور پر مسلمانوں میں تمہارا شمار ہوتا تھا اب اس کی بھی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ 2- اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے توبہ کر لی اور مخلص مسلمان بن گئے۔ 3- یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور کفر اور نفاق پر اڑے رہے اس لئے اس عذاب کی علت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ وہ مجرم تھے۔ التوبہ
67 1- منافقین، جو حلف اٹھا کر مسلمان باور کراتے تھے کہ ”ہم تم ہی میں سے ہیں“، اللہ تعالٰی نے اس کی تردید فرمائی، کہ ایمان والوں سے ان کا کیا تعلق؟ البتہ یہ سب منافق، چاہے مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی ہیں، یعنی کفر ونفاق میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ آگے ان کی صفات بیان کی جا رہی ہیں جو مومنین کی صفات کے بالکل الٹ اور برعکس ہیں۔ 2- اس سے مراد بخل ہے۔ یعنی مومن کی صفت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور منافق کی اس کے برعکس بخل، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ 3- یعنی اللہ تعالٰی بھی ان سے ایسا معاملہ کرے گا کہ گویا اس نے انہیں بھلا دیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿الْيَوْمَ نَنْسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا﴾ ( سورة الجاثية: 34) ”آج ہم تمہیں اس طرح بھلا دیں گے جس طرح تم ہماری ملاقات کے اس دن کو بھولے ہوئے تھے“، مطلب یہ کہ جس طرح انہوں نے دنیا میں اللہ کے احکامات کو چھوڑے رکھا۔ قیامت کے دن اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل وکرم سے محروم رکھے گا گویا نسیان کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف علم بلاغت کے اصول مشاکلت کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کی ذات نسیان سے پاک ہے۔ (فتح القدیر) التوبہ
68 التوبہ
69 1- یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔ 2- ”خَلاق“ کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہوگئے۔ 3- یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے۔ یا دوسرا مفہوم ہے کہ دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کروگے، بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے، لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا، اور کون؟“۔ (صحيح بخاری، كتاب الاعتصام مسلم، كتاب العلم)۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (بَاعًا بِبَاع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔ 4- أُولَئِكَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات وعادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر ونامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال واولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔ التوبہ
70 1- یہاں ان چھ قوموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جن کا مسکن ملک شام رہا ہے۔ یہ بلاد عرب کے قریب ہے اور ان کی کچھ باتیں انہوں نے شاید آبا واجداد سے سنی بھی ہوں قوم، نوح، جو طوفان میں غرق کر دی گئی۔ قوم عاد جو قوت اور طاقت میں ممتاز ہونے کے باوجود، باد تند سے ہلاک کر دی گئی۔ قوم ثمود جسے آسمانی چیخ سے ہلاک کیا گیا قوم ابراہیم، جس کے بادشاہ نمرود بن کنعان بن کوش کو مچھر سے مروا دیا گیا۔ اصحاب مدین (حضرت شعیب عليہ السلام کی قوم) جنہیں چیخ زلزلہ اور بادلوں کے سائے کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا اور اہل مؤتفکات۔ اس سے مراد قوم لوط ہے جن کی بستی کا نام 'سدوم' تھا ائتفاک کے معنی ہیں انقلاب الٹ پلٹ دینا۔ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے۔ دوسرے ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے پھینکا گیا جس سے پوری بستی اوپر نیچے ہوگئی اس اعتبار سے انہیں اصحاب مؤتفکات کہا جاتا ہے۔ 2- ان سب قوموں کے پاس، ان کے پیغمبر، جو ان ہی کی قوم ایک فرد ہوتا تھا آئے۔ لیکن انہوں نے ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ تکذیب اور عناد کا راستہ اختیار کیا، جس کا نتیجہ بالآخر عذاب الٰہی کی شکل میں نکلا۔ 3- یعنی یہ عذاب ان کے ظلم پر استمرار اور دوام کا نتیجہ ہے یوں ہی بلاوجہ عذاب الہٰی کا شکار نہیں ہوئے۔ التوبہ
71 1- منافقین کی صفات مذمومہ کے مقابلے مومنین کی صفات محمودہ کا ذکر ہو رہا ہے پہلی صفت وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون و غم خوار ہیں جس طرح حدیث میں ہے: [ الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ]( صحيح بخاری- كتاب الصلاة ، باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره- مسلم، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم) ”مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کی مضبوطی کا ذریعہ ہے“۔ دوسری حدیث میں فرمایا:[ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ، كَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْه عُضْوٌ ، تَدَاعَى لَه سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمّى وَالسَّهَرِ ]، ( صحيح مسلم، باب مذكور، والبخاري - كتاب الأدب، باب رحمة الناس والبهائم) ”مومنوں کی مثال، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تپ کا شکار ہو جاتا ہے اور بیدار رہتا ہے“۔ 2- یہ اہل ایمان کی دوسری خاص صفت ہے معروف وہ ہے جسے شریعت نے معروف (یعنی نیکی اور بھلائی) اور منکر وہ ہے جسے شریعت نے منکر (یعنی برا) قرار دیا ہے۔ نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا یا برا کہیں۔ 3- نماز، حقوق اللہ میں نمایاں ترین عبادت ہے اور زکٰوۃ حقوق العباد کے لحاظ سے، امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کا بطور خاص تذکرہ کر کے فرما دیا گیا کہ وہ ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ التوبہ
72 1- جو موتی اور یاقوت تیار کئے گئے ہوں گے۔ عدن کے کئی معنی کئے گئے ہیں۔ ایک معنی ہمیشگی کے ہیں۔ 2- حدیث میں بھی آتا ہے کہ جنت کی تمام نعمتوں کے بعد اہل جنت کو سب سے بڑی نعمت رضائے الٰہی کی صورت میں ملے گی (صحيح بخاری ومسلم- كتاب الرقاق وكتاب الجنة) التوبہ
73 1- اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے نبی (ﷺ) کے بعد اس کے مخاطب آپ (ﷺ) کی امت ہے، کافروں کے ساتھ منافقین سے بھی جہاد کرنے کا حکم ہے، اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اگر منافقین کا نفاق اور ان کی سازشیں بےنقاب ہوجائیں تو ان سے بھی اس طرح جہاد کیا جائے، جس طرح کافروں سے کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ ونصیحت کی جائے۔ یا وہ اخلاقی جرائم کارتکاب کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائیں تیسری رائے یہ ہے کہ جہاد کا حکم کفار سے متعلق ہے اور سختی کرنے کا منافقین سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں ان آراء میں آپس میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ حالات و ظروف کے مطابق ان میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرناجائز ہے۔ 2- ”غِلظَةرَأفة کی ضد ہے، جس کے معنی نرمی اور شفقت کرنے کے ہیں۔ اس اعتبار سے غلظۃ کے معنی سختی اور قوت سے دشمنوں کے خلاف اقدام ہے۔ محض زبان کی سختی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق کریمانہ کے ہی خلاف ہے، اسے آپ (ﷺ) اختیار کر سکتے تھے نہ اللہ تعالٰی ہی کی طرف سے اس کا حکم آپ کو مل سکتا تھا۔ 3- جہاد اور سختی کے حکم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔ التوبہ
74 1- مفسرین نے اس کی تفسیر میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں، جن میں منافقین نے رسول اللہ (ﷺ) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے جسے بعض مسلمانوں نے سن لیا اور انہوں نے آکر نبی (ﷺ) کو بتلایا، لیکن آپ کے استفسار پر مکر گئے بلکہ حلف تک اٹھا لیا کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی۔ جس پر یہ آیت اتری۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے نبی (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں رہ سکتا۔ 2- اس کی بابت بھی بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ مثلاً تبوک کی واپسی پر منافقین نے رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف ایک سازش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے کہ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپ کے پیچھے لگ گئے جہاں رسول اللہ (ﷺ) باقی لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ پر حملہ کر کے آپ کا کام تمام کر دیں گے اس کی اطلاع وحی کے ذریعے سے آپ کو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کر لیا۔ 3- مسلمانوں کی ہجرت کے بعد، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ منافقین مدینہ کو بھی اس کا خوب فائدہ حاصل ہوا اللہ تعالٰی اس آیت میں یہی فرما رہا ہے کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضگی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دیا ہے، بلکہ ان کو تو اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنا دیا۔ ملحوظہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) کا ذکر اس لئے ہے کہ اس غنا اور تونگری کا ظاہری سبب رسول اللہ (ﷺ) کی ذات گرامی ہی بنی تھی، ورنہ حقیقت میں غنی بنانے والا تو اللہ تعالیٰ ہے تھا۔ اس لئے آیت میں من فضلہ، واحد کی ضمیر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کردیا۔ التوبہ
75 التوبہ
76 1- اس آیت کو بعض مفسرین نے ایک صحابی حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں قرار دیا ہے لیکن سندا یہ صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس میں بھی منافقین کا ایک اور کردار بیان کیا گیا ہے۔ التوبہ
77 التوبہ
78 1- اس میں منافقین کے لئے سخت وعید ہے جو اللہ تعالٰی سے وعدہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے گویا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ان کی مخفی باتوں اور بھیدوں کو نہیں جانتا۔ حالانکہ اللہ تعالٰی سب کچھ جانتا ہے، کیونکہ وہ تو علام الغیوب ہے۔ غیب کی تمام باتوں سے باخبر ہے۔ التوبہ
79 1- مُطَّوِّعِينَ‌ کے معنی ہیں صدقات واجبہ کے علاوہ اپنی خوشی سے مزید اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے،”جہد“ کے معنی محنت ومشقت کے ہیں یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی محنت و مشقت سے کمائے ہوئے تھوڑے مال میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ آیت میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جب رسول اللہ (ﷺ) جنگ وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں سے چندے کی اپیل فرماتے تو مسلمان آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت اس میں حصہ لیتے کسی کے پاس زیادہ مال ہوتا وہ زیادہ صدقہ دیتا جس کے پاس تھوڑا ہوتا، وہ تھوڑا دیتا، یہ منافقین دونوں قسم کے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے زیادہ دینے والوں کے بارے میں کہتے اس کا مقصد ریاکاری اور نمود و نمائش ہے اور تھوڑا دینے والوں کو کہتے کہ تیرے اس مال سے کیا بنے گا یا اللہ تعالٰی تیرے اس صدقے سے بے نیاز ہے (صحيح بخاری، تفسير سورة توبة - مسلم- كتاب الزكاة، باب الحمل أجرة يتصدق بها...) یوں وہ منافقین مسلمانوں کا استہزا کرتے اور مذاق اڑاتے۔ 2- یعنی مومنین سے استہزا کا بدلہ انہیں اس طرح دیتا ہے کہ انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اس کا تعلق باب مشاکلت سے ہے جو علم بلاغت کا ایک اصول ہے یا یہ بددعا ہے اللہ تعالٰی ان سے بھی استہزا کا معاملہ کرے جس طرح یہ مسلمانوں کے ساتھ استہزا کرتے ہیں۔ (فتح القدیر) التوبہ
80 1- ستر کا عدد مبالغے اور تکثیر کے لئے ہے۔ یعنی تو کتنی ہی کثرت سے ان کے لئے استغفار کر لے اللہ تعالٰی انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے پر ان کو معافی مل جائے گی۔ 2- یہ عدم مغفرت کی علت بیان کر دی گئی ہے تاکہ لوگ کسی کی سفارش کی امید پر نہ رہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اگر یہ زاد آخرت کسی کے پاس نہیں ہوگا تو ایسے کافروں اور نافرمانوں کی کوئی شفاعت ہی نہیں کرے گا، اس لئے اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کے لئے شفاعت کی اجازت ہی نہیں دے گا۔ 3- اس ہدایت سے مراد وہ ہدایت ہے جو انسان کو مطلوب (ایمان) تک پہنچا دیتی ہے ورنہ ہدایت بمعنی رہنمائی یعنی راستے کی نشان دہی۔ اس کا اہتمام تو دنیا میں ہر مومن وکافر کے لیے کر دیا گیا ہے ﴿اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا﴾ (الدہر: 3) ﴿وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ﴾ (البلد: 10) ”اور ہم نے اس کو (خیروشر کے) کے دونوں راستے دکھا دیئے ہیں“۔ التوبہ
81 1- یہ ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک میں نہیں گئے اور جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کرلی۔ خلاف کے معنی ہیں پیچھے یا مخالفت۔ یعنی رسول اللہ (ﷺ) کے جانے کے بعد آپ کے پیچھے یا آپ کی مخالفت میں مدینہ میں بیٹھے رہے۔ 2- یعنی اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلے میں، دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، تو وہ کبھی پیچھے نہ رہتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی یہ آگ جہنم کی آگ کا 70 واں حصہ ہے۔ یعنی جہنم کی آگ کی شدت دنیا کی آگ سے 69 حصے زیادہ ہے۔ (صحيح بخاری- بدء الخلق باب صفة النار) اللهم احفظنا منها التوبہ
82 1- قَلِيلا اور كَثِيرًا یا تو مصدریت (یعنی ضِحْكًا قَلِيلا اور بُكَاءً كَثِيرًا) یا ظرفیت یعنی (زَمَانًا قَلِيلا وَزَمَانًا كَثِيرًا) کی بنیاد پر منصوب ہے اور امر کے دونوں صیغے بمعنی خبر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہنسیں گے تو تھوڑا اور روئیں گے بہت زیادہ۔ التوبہ
83 1- منافقین کی جماعت مراد ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالٰی آپ کو صحیح سلامت تبوک سے مدینہ واپس لے آئے جہاں یہ پیچھے رہ جانے والے منافقین بھی ہیں۔ 2- یعنی کسی اور جنگ کے لئے، ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کریں۔ 3- یہ آئندہ ساتھ نہ لے جانے کی علت ہے کہ تم پہلی مرتبہ ساتھ نہیں گئے۔ لہذا اب تم اس لائق نہیں کہ تمہیں کسی بھی جنگ میں ساتھ لے جایا جائے۔ 4- یعنی اب تمہاری اوقات یہی ہے کہ تم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو، جو جنگ میں شرکت کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، نبی کریم (ﷺ) کو یہ ہدایت اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان کے اس ہم وغم اور حسرت میں اور اضافہ ہو جو انہیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا۔ (اگر تھا) التوبہ
84 1- یہ آیت اگرچہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ لیکن اس کا حکم عام ہے ہر شخص جس کی موت کفر ونفاق پر ہو وہ اس میں شامل ہے۔ اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو اس کے بیٹے عبد اللہ (جو مسلمان اور باپ ہی کا ہم نام تھے) رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (بطور تبرک) اپنی قمیص عنایت فرما دیں تاکہ میں اپنے باپ کو کفنا دوں۔ دوسرا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ آپ نے قمیص بھی عنایت فرما دی اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے آپ (ﷺ) سے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے روکا ہے، آپ کیوں اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے“ یعنی روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ”اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے گا تو اللہ تعالٰی انہیں معاف نہیں فرمائے گا، تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ ان کے لئے استغفار کرلوں گا“، چنانچہ آپ نے نماز جنازہ پڑھا دی۔ جس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرما کر آئندہ کے لئے منافقین کے حق میں دعائے مغفرت کی قطعی ممانعت فرما دی (صحيح بخاری- تفسير سورة براءت ومسلم كتاب صفات المنافقين وأحكامهم) 2- یہ نماز جنازہ اور دعائے مغفرت نہ کرنے کی علت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے جن لوگوں کا خاتمہ کفر و فسق پر ہو، ان کی نہ نماز جنازہ پڑھنی چاہیے اور نہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جب نبی (ﷺ) قبرستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن ابی کو دفنایا جا چکا ہے، چنانچہ آپ (ﷺ) نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کراس پر اپنا لعاب دہن تھوکا، اپنی قمیص اسے پہنائی (صحيح بخاری كتاب اللباس - باب لبس القميص وكتاب الجنائز- صحيح مسلم ، كتاب صفات المنافقين وأحكامهم) جس سے معلوم ہوا کہ جو ایمان سے محروم ہوگا اسے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی دعائے مغفرت اور کسی کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گی۔ التوبہ
85 التوبہ
86 1- یہ انہیں منافقین کا ذکر ہے۔ جنہوں نے حیلے تراش کر پیچھے رہنا پسند کیا۔ أُولُو الطَّوْلِ سے مراد ہے صاحب حیثیت، مال دار طبقہ۔ یعنی اس طبقے کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ موجود تھا، قَاعِدِينَ سے مراد بعض مجبوریوں کے تحت گھروں میں رک جانے والے افراد ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کو خَوَالِفُ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے خَالِفَةٌ ، کی جمع ہے۔ یعنی پیچھے رہنے والی عورتیں۔ التوبہ
87 1- دلوں پر مہر لگ جانا یہ مسلسل گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے، اس کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔ التوبہ
88 التوبہ
89 1- ان منافقین کے برعکس اہل ایمان کا رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں انہیں اپنی جانوں کی پروا ہے نہ مالوں کی۔ ان کے نزدیک اللہ کا حکم سب پر بالا تر ہے، انہی کے لئے خیرات ہیں، یعنی آخرت کی بھلائیاں اور جنت کی نعمتیں اور بعض کے نزدیک دین ودنیا کے منافع اور یہی لوگ فلاح یاب اور فوز عظیم کے حامل ہونگے۔ التوبہ
90 1- ان مُعَذِّرِين کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور رہنے والے وہ اعرابی ہیں جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی۔ دوسری قسم ان میں وہ تھی جنہوں نے آکر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور بیٹھے رہے۔ اس طرح گویا آیت میں منافقین کے دو گروہوں کا تذ کرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں۔ اور مِنْهُمْ سے جھوٹے عذر پیش کرنے والے اور بیٹھ رہنے والے دونوں مراد ہوں گے اور دوسرے مفسرین نے مُعَذِّرُونَ سے مراد ایسے بادیہ نشین مسلمان لیے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت لی تھی اور مُعَذِّرُونَ ان کے نزدیک اصل میں مَعْتَذِرُوْنَ ہے تا کو ذال میں مدغم کر دیا گیا ہے اور معتذر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے منافقین جو بغیر عذر پیش کیے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصے میں جو وعید ہے اسی دوسرے گروہ کے لیے ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ ۔ التوبہ
91 1- اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا مثلاً (1) ضعیف وناتواں یعنی بوڑھے قسم کے لوگ، اور نابینا یا لنگڑے وغیرہ معذورین بھی اسی ذیل میں آجاتے ہیں، بعض نے انہیں بیماروں میں شامل کیا ہے، (2) بیمار، (3) جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا، اللہ اور رسول کی خیر خواہی سے مراد، جہاد کی ان کے دلوں میں تڑپ، مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کے دشمنوں سے عداوت، اور حتی الامکان اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ التوبہ
92 1- یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی (ﷺ) نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالٰی نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کر دیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ ”تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں“ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا [ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ ] ( صحيح البخاري كتاب الجهاد، باب من حبسه العذر عن الغزو- وصحيح مسلم، كتاب الإمارة باب ثواب من حبسه عن الغزو مرض ....) ”عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے“۔ التوبہ
93 1- یہ منافقین ہیں جن کا تذکرہ آیت 86، 87 میں گزرا۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر مخلص مسلمانوں کے مقابلے میں ہوا ہے کہ ”تَتَبَيَّنُ الأَشْيَاءُ بِأَضْدَادِهَا“ یعنی چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ خَوَالِفُ، خَالِفَةٌ (پیچھے رہنے والے) مرد عورتیں، بچے معذور اور شدید بیمار اور بوڑھے ہیں جو جنگ میں شرکت سے معذور ہیں۔ لا يَعْلَمُونَ کا مطلب ہے وہ نہیں جانتے کہ پیچھے رہنا کتنا بڑا جرم ہے، ورنہ شاید وہ رسول (ﷺ) سے پیچھے نہ رہتے۔ التوبہ
94 التوبہ
95 التوبہ
96 1- ان تین آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک کے سفر میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے نبی (ﷺ) اور مسلمانوں کو بخیریت واپسی پر اپنے عذر پیش کرکے ان کی نظروں میں وفادار بننا چاہتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا جب ان کے پاس آؤ گے تو یہ عذر پیش کریں گے، تم ان سے کہہ دو، کہ ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے اصل حالات سے ہمیں باخبر کر دیا ہے۔ اب تمہارے جھوٹے عذروں کا ہم اعتبار کس طرح کر سکتے ہیں؟ البتہ ان عذروں کی حقیقت مستقبل قریب میں مزید واضح ہو جائے گی، تمہارا عمل، جسے اللہ تعالٰی بھی دیکھ رہا ہے اور رسول (ﷺ) کی نظر بھی اس پر ہے، تمہارے عذروں کی حقیقت کو خود بے نقاب کر دے گا۔ اور اگر تم رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمانوں کو پھر بھی فریب اور مغالطہ دینے میں کامیاب رہے تو بالآخر ایک وقت وہ تو آئے گا ہی، جب تم ایسی ذات کی بارگاہ میں حاضر کئے جاؤگے جو ظاہر و باطن ہر چیز کو خوب جانتی ہے۔ اسے تو تم بہر صورت دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ اللہ تمہارا سارا کچا چٹھا تمہارے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ تمہارے لوٹنے پر یہ قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے اعراض یعنی درگزر کردو۔ پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ یہ لوگ اپنے عقائد واعمال کے لحاظ سے پلید ہیں، انہوں نے جو کچھ کیا ہے۔ اس کا بدلہ جہنم ہی ہے۔ تیسری آیت میں فرمایا یہ تمہیں راضی کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے۔ لیکن ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں کہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہوں نے جس فسق یعنی اطاعت الٰہی سے گریز وفرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی موجودگی میں اللہ تعالٰی ان سے راضی کیونکر ہو سکتا ہے؟۔ التوبہ
97 1- مذکورہ آیات میں ان منافقین کا تذکرہ تھا جو مدینہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔ اور کچھ منافقین وہ بھی تھے جو بادیہ نشین یعنی مدینہ کے باہر دیہاتوں میں رہتے تھے، دیہات کے ان باشندوں کو اعراب کہا جاتا ہے جو اعرابی کی جمع ہے شہریوں کے اخلاق و کردار میں درشتی اور کھردراپن زیادہ پایا جاتا ہے اس طرح ان میں جو کافر اور منافق تھے وہ کفر و نفاق میں بھی شہریوں سے زیادہ سخت اور احکام شریعت سے زیادہ بےخبر تھے اس آیت میں انہی کا تذکرہ اور انکے اسی کردار کی وضاحت ہے۔ بعض احادیث سے بھی ان کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلًا ایک موقع پر کچھ اعرابی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے پوچھا [ اَتُقَبْلُوْنَ صِبْیَانکُمْ ]، ”کیا تم اپنے بچے کو بوسہ دیتے ہو؟“، صحابہ (رضی الله عنہم) نے عرض کیا ”ہاں“ انہوں نے کہا ”واللہ! ہم تو بوسہ نہیں دیتے“ رسول اللہ (ﷺ) نے سن کر فرمایا ”اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں سے رحم وشفقت کا جذبہ نکال دیا ہے تو میرا اس میں کیا اختیار ہے؟“۔ (صحیح بخاری کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبیله ومعانقته۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمته (ﷺ) الصبیان والعیال) 2- اس کی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ شہر سے دور رہتے ہیں اور اللہ اور رسول (ﷺ) کی باتیں سننے کا اتفاق ان کو نہیں ہوتا۔ التوبہ
98 1- اب ان دیہاتیوں کی دو قسمیں بیان کی جا رہی ہیں یہ پہلی قسم ہے۔ 2- غُرْم تاوان اور جرمانے کو کہتے ہیں۔ یعنی ایسا خرچ ہو جو انسان کو نہایت ناگواری سے ناچار کرنا پڑ جاتا ہے۔ 3- دَوَائِرُ۔ دَا ئِرَۃ کی جمع ہے، گردش زمانہ یعنی مصائب و آلام یعنی وہ منتظر رہتے ہیں کہ مسلمان زمانے کی گردشوں یعنی مصائب کا شکار ہوں۔ 4- یہ بد دعا یا خبر ہے کہ زمانے کی گردش ان پر ہی پڑے۔ کیونکہ وہی اس کے مستحق ہیں۔ التوبہ
99 1- یہ اعراب کی دوسری قسم ہے جن کو اللہ نے شہر سے دور رہنے کے باوجود، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور اس ایمان کی بدولت ان سے وہ جہالت بھی دور فرما دی جو بدویت کی وجہ سے اہل بادیہ میں عام طور پر ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردہ مال کو جرمانہ سمجھنے کی بجائے۔ اللہ کے قرب کا اور رسول (ﷺ) کی دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ اشارہ ہے رسول اللہ (ﷺ) کے اس طرز عمل کی طرف، جو صدقہ دینے والوں کے بارے میں آپ (ﷺ) کا تھا۔ یعنی آپ ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک صدقہ لانے والے کے لئے آپ (ﷺ) نے دعا فرمائی [ اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ اَبِیْ اَوْفٰی ] (صحیح بخاری نمبر 4166 ، صحیح مسلم نمبر 756) ”اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحمت نازل فرما“ 2- یہ خوشخبری ہے کہ اللہ کا قرب انہیں حاصل ہے اور اللہ کی رحمت کے وہ مستحق ہیں۔ التوبہ
100 1- اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے ایک مہاجرین کا جنہوں نے دین کی خاطر، اللہ اور رسول (ﷺ) کے حکم پر مکہ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آگئے دوسرا انصار جو مدینہ میں رہائش پذیر تھے انہوں نے ہر موقع پر رسول اللہ (ﷺ) کی مدد اور حفاظت فرمائی اور مدینہ آنے والے مہاجرین کی خوب پذیرائی اور تواضع کی۔ اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے سابقون الاولون کا ذکر فرمایا ہے، یعنی دونوں گروہوں میں سے وہ افراد جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سب سے پہلے سبقت کی۔ اس کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک سابقون الاولون وہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ یعنی تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہونے والے مہاجرین و انصار۔ بعض کے نزدیک یہ وہ صحابہ (رضی الله عنہم) ہیں جو حدیبیہ میں بیعت رضوان میں حاضر تھے۔ بعض کے نزدیک یہ اہل بدر ہیں۔ امام شوکانی فرماتےہیں کہ یہ سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو ان مہاجرین و انصار کے خلوص اور احسان کے ساتھ پیروکار ہیں۔ اس گروہ سے مراد بعض کے نزدیک اصطلاحی تابعین ہیں جنہوں نے نبی (ﷺ) کو نہیں دیکھا لیکن صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کی صحبت سے مشرف ہوئے اور بعض نے اسے عام رکھا یعنی قیامت تک جتنے بھی انصار ومہاجرین سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمان ہیں، وہ اس میں شامل ہیں۔ ان میں اصطلاحی تابعین بھی آجاتے ہیں۔ 2- اللہ تعالٰی ان سے راضی ہوگیا کا مطلب ہے۔ کہ اللہ تعالٰی نے ان کی نیکیاں قبول فرما لیں، ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما دیا اور وہ ان پر ناراض نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے لئے جنت کی نعمتوں کی بشارت کیوں دی جاتی؟، جو اس آیت میں دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رضائے الٰہی مؤقت اور عارضی نہیں، بلکہ دائمی ہے اگر رسول اللہ (ﷺ) کے بعد صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو مرتد ہوجانا تھا (جیسا کہ ایک باطل ٹولے کا عقیدہ ہے) تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی بشارت سے نہ نوازتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب اللہ نے ان کی ساری لغزشیں معاف فرمادیں تو اب تنقیص وتنقید کے طور پر ان کی کوتاہیوں کا تذکرہ کرنا کسی مسلمان کی شان کے لائق نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی محبت اور پیروی رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے اور ان سے عداوت اور بغض وعناد رضائے الٰہی سے محرومی کا باعث ہے۔ ﴿فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾۔ التوبہ
101 1- مَرَدَ اور تَمَرَّدَ کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چنانچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَمْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے۔ ﴿مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ﴾کے معنی ہوں گے تَجَرَّدُوا عَلیَ النِّفَاقِ، گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کر لیا، یعنی اس پر ان کا اصرار اور استمرار ہے۔ 2- کتنے واضح الفاظ میں نبی (ﷺ) سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔ 3- اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔ التوبہ
102 1- یہ وہ مخلص مسلمان ہیں جو بغیر عذر کے محض تساہل کی وجہ سے تبوک میں نبی (ﷺ) کے ساتھ نہیں گئے بلکہ بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، اور اعتراف گناہ کر لیا۔ 2- بھلے سے مراد وہ اعمال صالحہ ہیں جو جہاد میں پیچھے رہ جانے سے پہلے کرتے رہے ہیں جن میں مختلف جنگوں میں شرکت بھی کی اور 'کچھ برے' سے مراد یہی تبوک کے موقع پر ان کا پیچھے رہنا۔ 3- اللہ تعالٰی کی طرف سے امید، یقین کا فائدہ دیتی ہے، یعنی اللہ تعالٰی ان کی طرف رجوع فرما کر ان کے اعتراف گناہ کو توبہ کے قائم مقام قرار دے کر انہیں معاف فرما دیا۔ التوبہ
103 1- یہ حکم عام ہے۔ صدقے سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکٰوۃ بھی ہوسکتی ہے اور نفلی صدقہ بھی۔ نبی (ﷺ) کو کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کو تطہیر اور ان کا تزکیہ فرما دیں۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زکٰوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ علاوہ ازیں صدقے کو صدقہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خرچ کرنے والا اپنے دعوائے ایمان میں صادق ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ لینے والے کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہیے۔ جس طرح یہاں اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر (ﷺ) کو دعا کرنے کا حکم دیا، اور آپ (ﷺ) اس کے مطابق دعا فرمایا کرتے تھے۔ اس حکم کے عموم سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ زکوۃ کی وصولی امام وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرے تو حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے طرز عمل کی روش میں اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ (ابن کثیر) التوبہ
104 1- صدقات قبول فرماتا ہے کا مطلب (بشرطیکہ وہ حلال کی کمائی سے ہو) اس میں اضافہ فرماتا ہے۔ جس طرح حدیث میں آیا ہے۔ نبی (ﷺ)نے فرمایا : ”اللہ تعالٰی تمہارے صدقے کی اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتٰی کہ ایک کھجور کے برابر صدقہ (بڑھ بڑھ کر) احد پہاڑ کی مثل ہو جاتا ہے“۔ (صحیح بخاری، کتاب الزکٰوۃ، ومسلم، کتاب الزکٰوۃ) التوبہ
105 1- رؤیت کا مطلب دیکھنا اور جاننا ہے۔ یعنی تمہارے عملوں کو اللہ تعالٰی ہی نہیں دیکھتا، بلکہ ان کا علم اللہ کے رسول (ﷺ) اور مومنوں کو بھی (بذریعہ وحی) ہو جاتا ہے (یہ منافقین ہی کے ضمن میں کہا جا رہا ہے) اس مفہوم کی آیت پہلے بھی گزر چکی ہے۔ یہاں مومنین کا بھی اضافہ ہے جن کو اللہ کے رسول (ﷺ) کے بتلانے سے علم ہو جاتا ہے۔ التوبہ
106 1- جنگ تبوک میں پیچھے رہنے والے ایک تو منافق تھے، دوسرے وہ جو بلا عذر پیچھے رہ گئے تھے۔ اور انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا لیکن انہیں معافی عطا نہیں کی گئی تھی، اس آیت میں اس گروہ کا ذکر ہے جن کے معاملے کو مؤخر کر دیا گیا تھا (یہ تین افراد تھے، جن کا ذکر آگے آرہا ہے)۔ 2- اگر وہ اپنی غلطی پر مصر رہے۔ 3- اگر وہ خالص توبہ کرلیں گے۔ التوبہ
107 1- اس میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک مسجد بنائی۔ اور نبی (ﷺ) کو باور کرایا کہ، بارش، سردی اور اس قسم کے موقع پر بیماروں اور کمزوروں کو زیادہ دور جانے میں دقت پیش آتی ہے ان کی سہولت کے لئے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے۔ آپ (ﷺ) وہاں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ آپ (ﷺ) اس وقت تبوک کے لئے پابہ رکاب تھے، آپ (ﷺ) نے واپسی پر نماز پڑھنے کا وعدہ فرمایا۔ لیکن واپسی پر وحی کے ذریعے سے اللہ تعالٰی نے منافقین کے اصل مقاصد کو بے نقاب کر دیا کہ اس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، کفر پھیلانا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا اور اللہ اور اللہ کے رسول (ﷺ) کے دشمنوں کے لئے کمین گاہ مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ 2- یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر وہ نبی کو فریب دینا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالٰی آپ (ﷺ) کو ان کے مکرو فریب سے بچا لیا اور فرمایا کہ ان کی نیت صحیح نہیں اور یہ جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں، اس میں جھوٹے ہیں۔ التوبہ
108 1- یعنی آپ (ﷺ) نے وہاں جاکر نماز پڑھنے کا جو وعدہ فرمایا، اس کے مطابق وہاں جاکر نماز نہ پڑھیں چنانچہ آپ (ﷺ) نہ صرف یہ کہ وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ اپنے چند ساتھیوں کو بھیج کر مسجد ڈھادی اور اسے ختم کر دیا اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ جو مسجد اللہ کی عبادت کے بجائے، مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی غرض سے بنائی جائے، وہ مسجد ضرار ہے، اس کو ڈھا دیا جائے تاکہ مسلمانوں میں تفریق و انتشار پیدا نہ ہو۔ 2- اس سے مراد کونسی مسجد ہے؟ اس میں اختلاف بعض نے اسے مسجد قبا اور بعض نے مسجد نبوی (ﷺ) قرار دیا ہے، سلف کی ایک جماعت دونوں کی قائل رہی ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آیت سے اگر مسجد قبا مراد ہے تو بعض احادیث میں مسجد نبوی کو ﴿أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى﴾ کا مصداق قرار دیا گیا ہے ان دونوں کے درمیان کوئی منافات نہیں۔ اس لئے کہ اگر مسجد قبا کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ اول یوم سے ہی اس کی بنیاد تقوٰی پر رکھی گئی ہے تو مسجد نبوی تو بطریق اولی اس صفت کی حامل اور اس کی مصداق ہے۔` 3- حدیث میں آتا ہے کہ اس سے مراد اہل قبا ہیں۔ نبی (ﷺ) نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالٰی نے تمہاری طہارت کی تعریف فرمائی ہے، تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم ڈھیلے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔ (بحوالہ ابن کثیر) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایسی قدیم مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی غرض سے تعمیر کی گئی ہوں، نیز صالحین کی جماعت اور ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے جو مکمل وضو کرنے اور طہارت و پاکیزگی کا صحیح صحیح اہتمام کرنے والے ہوں۔ التوبہ
109 1- اس میں مومن اور منافق کے عمل کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ مومن کا عمل اللہ کے تقوٰی پر اور اس کی رضامندی کے لئے ہوتا ہے۔ جب کہ منافق کا عمل ریاکاری اور فساد پر مبنی ہوتا ہے۔ جو اس حصہ زمین کی طرح ہے جس کے نیچے سے وادی کا پانی گزرتا ہے اور مٹی کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ وہ حصہ نیچے سے کھوکھلا رہ جاتا ہے۔ جس پر کوئی تعمیر کر لی جائے تو فوراً گر پڑے۔ ان منافقین کا مسجد بنانے کا عمل بھی ایسا ہی ہے جو انہیں جہنم میں ساتھ لے گرے گا۔ التوبہ
110 1- دل پاش پاش ہو جائیں، کا مطلب موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ یعنی موت تک یہ عمارت ان کے دلوں میں مزید شک و نفاق پیدا کرنے کا ذریعہ بنی رہے گی، جس طرح کہ بچھڑے کے پجاریوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی۔ التوبہ
111 1- یہ اللہ کے ایک خاص فضل و کرم کا بیان ہے کہ اس نے مومنوں کو، ان کی جان و مال کے عوض، جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیے، جنت عطا فرما دی، جب کہ یہ جان و مال بھی اسی کا عطیہ ہے۔ پھر قیمت اور معاوضہ بھی جو عطا کیا یعنی جنت وہ نہایت ہی بیش قیمت ہے۔ 2- یہ اسی سودے کی تاکید ہے کہ اللہ تعالٰی نے سچا وعدہ پچھلی کتابوں میں بھی اور قرآن میں بھی کیا ہے۔ اور اللہ سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ 3- یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے لیکن یہ خوشی اسی وقت منائی جاسکتی ہے جب مسلمان کو بھی یہ سودا منظور ہو۔ یعنی اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے انہیں دریغ نہ ہو۔ التوبہ
112 1- یہ انہیں مومنین کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں جن کی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ نے کر لیا ہے، وہ توبہ کرنے والے، یعنی گناہوں اور فواحش سے بچتے اور اپنے رب کی عبادت کرنے والے، زبان سے اللہ کی حمد اور ثنا بیان کرنے والے اور دیگر ان صفات کے حامل ہیں جو آیت میں مذکور ہیں۔ سیاحت سے مراد اکثر مفسرین نے روزے لیے ہیں اور اسی کو ابن کثیر نے صحیح ترین اور مشہور ترین قول قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے۔ تاہم سیاحت سے زمین کی سیاحت مراد نہیں ہے جس طرح کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عبادت کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں غاروں اور سنسان بیابانوں میں جاکر ڈیرے لگا لینا بھی اس سے مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رہبانیت اور جوگی پن کا ایک حصہ ہے جو اسلام میں نہیں ہے۔ البتہ فتنوں کے ایام میں اپنے دین کو بچانے کے لیے شہروں اور آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور بیابانوں میں جاکر رہنے کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان، باب من الدین الفرار من الفتن و کتاب الفتن باب التعرب۔ ای السکنی مع الاعراب۔ فی الفتنة) 2- مطلب یہ ہے کہ مومن کامل وہ ہے جو قول اور عمل اسلام کی تعلیمات کا عمدہ نمونہ ہو اور ان چیزوں سے بچنے والا ہو جن سے اللہ نے اسے روک دیا ہے اور یوں اللہ کی حدوں کو پامال نہیں، بلکہ ان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ ایسے ہی کامل مومن خوشخبری کے مستحق ہیں یہ وہ بات ہے جسے قرآن میں ﴿اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾ کے الفاظ میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہاں اعمال صالحہ کی قدرے تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔ التوبہ
113 1- اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ جب نبی (ﷺ) کے عم بزرگوار ابو طالب کا آخری وقت آیا تو نبی (ﷺ) ان کے پاس گئے جبکہ ان کے پاس ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے آپ (ﷺ) نے فرمایا چچا جان ”لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ پڑھ لیں، تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے لئے حجت پیش کر سکوں، ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا 'اے ابو طالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے انحراف کرو گے؟ (یعنی مرتے وقت یہ کیا کرنے لگے ہو؟ حتٰی کہ اسی حال میں ان کا انتقال ہوگیا) نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”جب تک اللہ تعالٰی کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جائے گا میں آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا“، جس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة التوبة) اور سورہ قصص کی آیت 56 ﴿إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی (ﷺ )نے اپنی والدہ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی اجازت طلب فرمائی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد ج 5، ص355) اور نبی (ﷺ) نے اپنی مشرک قوم کے لیے جو دعا فرمائی تھی [ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ ]۔ ”یا اللہ میری قوم بےعلم ہے اس کی مغفرت فرما دے“، یہ آیت کے منافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کامطلب ان کے لیے ہدایت کی دعا ہے۔ یعنی وہ میرے مقام و مرتبہ سے ناآشنا ہے، اسے ہدایت سے نواز دے تاکہ وہ مغفرت کی اہل ہوجائے۔ اور زندہ کفار ومشرکین کے لیے ہدایت کی دعا کرنی جائز ہے۔ التوبہ
114 1- یعنی ابراہیم (عليہ السلام ) پر بھی جب یہ بات واضح ہوگئی کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے اور جہنمی ہے تو انہوں نے اس سے اظہار براءت کر دیا اور اس کے بعد مغفرت کی دعا نہیں کی۔ 2- اور ابتداء میں باپ کے لئے مغفرت کی دعا بھی اپنے اسی مزاج کی نرمی اور حلیمی کی وجہ سے کی تھی۔ التوبہ
115 1- جب اللہ تعالٰی نے مشرکین کے حق میں مغفرت کی دعا کرنے سے روکا تو بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کو جنہوں نے ایسا کیا تھا یہ اندیشہ لا حق ہوا کہ ایسا کرکے انہوں نے گمراہی کا کام تو نہیں کیا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ جب تک بچنے والے کاموں کی وضاحت نہیں فرما دیتا، اس وقت تک اس پر مؤاخذہ بھی نہیں فرماتا نہ اسے گمراہی قرار دیتا ہے البتہ جب ان کاموں سے، جن سے روکا جا چکا ہو تو پھر اللہ تعالٰی اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ اس لئے جن لوگوں نے اس حکم سے قبل اپنے فوت شدہ مشرک رشتے داروں کے لئے مغفرت کی دعائیں کیں ہیں ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگا کیونکہ انہیں مسئلے کا اس وقت علم ہی نہ تھا۔ التوبہ
116 التوبہ
117 1- جنگ تبوک کے سفر کو 'تنگی کا وقت' قرار دیا۔ اس لئے کہ ایک تو موسم سخت گرمی کا تھا دوسرے، فصلیں تیار تھیں، تیسرے، سفر خاصا لمبا تھا اور چوتھے وسائل کی بھی کمی تھی۔ اس لئے اسے ”جَيش الْعسرَة“ (تنگی کا قافلہ یا لشکر) کہا جاتا ہے۔ توبہ کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے گناہ یا غلطی کا ارتکاب ہو۔ اس کے بغیر بھی رفع درجات اور غیر شعوری طور پر ہونے والی کوتاہیوں کے لئے توبہ ہوتی ہے۔ یہاں مہاجرین و انصار کے اس سے پہلے گروہ کی توبہ اس مفہوم میں ہے جنہوں نے بلا تأمل نبی (ﷺ)کے حکم جہاد پر لبیک کہا۔ 2- یہ اس دوسرے گروہ کا ذکر ہے جسے مذکورہ وجوہ سے ابتداءً تردد ہوا۔ لیکن پھر جلد ہی وہ اس کیفیت سے نکل آیا اور بخوشی جہاد میں شریک ہوا۔ دلوں میں تزلزل سے مراد دین کے بارے میں کوئی تزلزل یا شبہ نہیں ہے بلکہ مذکورہ دنیاوی اسباب کی وجہ سے شریک جہاد ہونے میں جو تذبذب اور تردد تھا وہ مراد ہے۔ التوبہ
118 1- خُلِّفُوا کا وہی مطلب ہے جو مُرْجَوْنَ کا ہے یعنی جن کا معاملہ مؤخر اور ملتوی کر دیا گیا تھا اور پچاس دن کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ تین صحابہ تھے۔ کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رضی الله عنہم) یہ تینوں نہایت مخلص مسلمان تھے۔ اس سے قبل ہر غزوے میں شریک ہوتے رہے۔ اس غزوہ تبوک میں صرف تساہلاً شریک نہیں ہوئے بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، تو سوچا کہ ایک غلطی (پیچھے رہنے کی) تو ہو ہی گئی ہے۔ لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ چنانچہ حاضر خدمت ہو کر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کر لیا اور اس کی سزا کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ نبی (ﷺ) نے انکے معاملے کو اللہ تعالٰی کے سپرد کر دیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا تاہم اس دوران صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتٰی کے بات چیت تک کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں مزید دس دن گزرے تو توبہ قبول کر لی گئی اور مذکورہ آیت نازل ہوئی (اس واقعہ کی پوری تفصیل حضرت کعب بن مالک رضی الله عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے)۔ ملاحظہ ہو ،(صحیح بخاری، کتاب المغازی باب غزوة تبوک۔ مسلم کتاب التوبة، باب حدیث توبة کعب بن مالک) 2- یہ ان ایام کی کیفیت کا بیان ہے۔ جس سے سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں گزرنا پڑا۔ 3- یعنی پچاس دن کے بعد اللہ نے ان کی آہ و زاری اور توبہ قبول فرمائی۔ التوبہ
119 1- سچائی ہی کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے ان تینوں صحابہ کی غلطی نہ صرف معاف فرما دی بلکہ ان کی توبہ کو قرآن بنا کر نازل فرما دیا۔ رضی الله عنہم ورضوا عنہ۔ اس لئے مومنین کو حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اس کا مطلب یہ ہی کہ جس کے اندر تقوٰی (یعنی اللہ کا خوف) ہوگا، وہ سچا بھی ہوگا اور جو جھوٹا ہوگا، سمجھ لو کہ اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ مومن سے کچھ اور کوتاہیوں کا صدور تو ہو سکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوتا۔ التوبہ
120 1- جنگ تبوک میں شرکت کے لئے چونکہ عام منادی کر دی گئی تھی، اس لئے معذورین، بوڑھے اور دیگر شرعی عذر رکھنے والوں کے علاوہ سب کے لئے اس میں شرکت ضروری تھی لیکن پھر بھی جو سکان مدینہ یا اطراف مدینہ میں اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اللہ تعالٰی ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ (ﷺ) سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا۔ 2- یعنی یہ بھی ان کے لئے زیبا نہیں کہ خود اپنی جانوں کا تحفظ کرلیں اور رسول اللہ (ﷺ) کی جان کے تحفظ کا انہیں خیال نہ ہو۔ بلکہ انہیں رسول کے ساتھ رہ کر اپنے سے زیادہ ان کی تحفظ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ 3- ذَلِكَ سے پیچھے نہ رہنے کی علت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی انہیں اس لئے پیچھے نہیں رہنا چایئے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو پیاس، تھکاوٹ، بھوک پہنچے گی یا ایسے اقدام، جن سے کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دشمنوں کے آدمیوں کو قتل یا ان کو قیدی بناؤ گے، یہ سب کے سب کام عمل صالح لکھے جائیں گے یعنی عمل صالح صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی مسجد میں یا کسی ایک گوشے میں بیٹھ کر نوافل، تلاوت، ذکر الٰہی وغیرہ کرے بلکہ جہاد میں پیش آنے والی ہر تکلیف اور پریشانی، حتیٰ کہ وہ کاروائیاں بھی جن سے دشمن کے دلوں میں خوف پیدا ہو یا غیظ بھڑکے، ان میں سے ہر ایک چیز اللہ کے ہاں عمل صالح لکھی جائے گی، اس لئے محض شوق عبادت میں بھی جہاد سے گریز صحیح نہیں، چہ جائے کہ بغیر عذر کے ہی آدمی جہاد سے جی چرائے؟ 4- اس سے مراد پیادہ، یا گھوڑوں وغیرہ پر سوار ہو کر ایسے علاقوں سے گزرنا ہے کہ ان کے قدموں کی چابوں اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے دشمن کے دلوں پر لرزہ طاری ہو جائے اور ان کی آتش غیظ بھڑک اٹھے۔ 5- ﴿وَلا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلا﴾ (التوبة: 120) ”دشمن سے کوئی چیز لیتے ہیں یا ان کی خبر لیتے ہیں“ سے مراد، ان کے آدمیوں کو قتل یا قیدی کرتے ہیں یا انہیں شکست سے دو چار کرتے اور مال غنیمت حاصل کرتے ہیں۔ التوبہ
121 1- پہاڑوں کے درمیان کےمیدان اور پانی کی گزرگاہ کو وادی کہتے ہیں۔ مراد یہاں مطلق وادیاں اور علاقے ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں تھوڑا یا زیادہ جتنا بھی خرچ کرو گے اسی طرح جتنے بھی میدان طے کرو گے، (یعنی جہاد میں تھوڑا یا زیادہ سفر کرو گے) یہ سب نیکیاں تمہارے نامہ اعمال میں درج ہونگی جن پر اللہ تعالٰی اچھا سے اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔ التوبہ
122 1- بعض مفسرین کے نزدیک اس کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے۔ اور مطلب یہ کہ پچھلی آیت میں جب پیچھے رہنے والوں کے لئے سخت وعید اور لعنت ملامت بیان کی گئی تو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا مرحلہ آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔ آیت میں انہیں حکم دیا گیا ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی شرکت ضروری ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ گروہ کی ہی شرکت کافی ہے۔ ان کے نزدیک ”لِيَتَفَقَّهُوا“ کا مخاطب پیچھے رہ جانے ولاا طائفہ ہے۔ یعنی ایک گروہ جہاد پر چلا جائے ”وَتَبْقَى طَائِفَةٌ“ (یہ مخذوف ہوگا) اور ایک گروہ پیچھے رہے، جو دین کا علم حاصل کرے۔ اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انہیں بھی احکام دین سے آگاہ کر کے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین سیکھنے کی اہمیت کا بیان، اس کی ترغیب اور طریقے کی وضاحت ہے اور وہ یہ کہ ہر بڑی جماعت یا قبیلے میں سےکچھ لوگ دین کا کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھربار چھوڑیں اور مدارس ومراکز علم میں جا کر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ ونصیحت کریں۔ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامرونواہی کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ اوامر الہی کو بجا لاسکے اور نواہی سے دامن کشاں رہے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے۔ التوبہ
123 1- اس میں کافروں سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔ کہ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ اور الأَقْرَبُ فَالأَقْرَبُ کے مطابق کافروں سے جہاد کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے پہلے جزیرہ، عرب میں آباد مشرکین سے قتال کیا، جب ان سے فارغ ہوگئے اور اللہ تعالٰی نے مکہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضر موت وغیرہ ممالک پر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دیا اور عرب کے سارے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے، تو پھر اہل کتاب سے قتال کا آغاز فرمایا اور 9 ہجری میں رومیوں سے قتال کے لئے تبوک تشریف لے گئے جو جزیرہ، عرب سے قریب ہے اسی کے مطابق آپ (ﷺ) کی وفات کے بعد خلفائے راشدین نے روم کے عیسائیوں سے قتال فرمایا، اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔ 2- یعنی کافروں کے لئے، مسلمانوں کے دلوں میں نرمی نہیں سختی ہونی چاہیے جیسا کہ ﴿اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ (الفتح: 29) صحابہ کی صفت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح ﴿اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ﴾ ( المائدہ: 54) اہل ایمان کی صفت ہے۔ التوبہ
124 1- اس سورت میں منافقین کے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے، یہ آیات اس کا بقیہ اور تتمہ ہیں۔ اس میں بتلایا جا رہا ہے جب ان کی غیر موجودگی میں کوئی سورت یا اس کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے اور ان کے علم میں بات آتی تو وہ استہزاء اور مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ اس سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے؟۔ 2- اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو بھی سورت اترتی ہے اس سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ایمان کے اضافے پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ آیت بھی اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جس طرح کہ محدثین کا مسلک ہے۔ التوبہ
125 1- روگ سے مراد نفاق اور آیات الٰہی کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ فرمایا: البتہ یہ سورت منافقین کو ان کے نفاق اور خبث میں اور بڑھاتی اور وہ اپنے کفر و نفاق میں اس طرح پختہ تر ہو جاتے ہیں کہ انہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوتا ہے جس طرح اللہ تعالٰی نے دوسرے مقام پر فرمایا :”ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لئے شفا اور رحمت ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی ان ظالموں کے خسارے میں اضافہ ہی فرماتا ہے“۔ (بنی اسرائیل: 82) یہ گویا ان کی بدبختی کی انتہا ہے کہ جس سے لوگوں کے دل ہدایت پاتے ہیں۔ وہی باتیں ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث ثابت ہوتی ہیں جس طرح کسی شخص کا مزاج اور معدہ بگڑ جائے، تو وہی غذائیں، جن سے لوگ قوت اور لذت حاصل کرتے ہیں، اس کی بیماری میں مزید بگاڑ اور خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ التوبہ
126 1- يُفْتَنُونَ کے معنی ہیں آزمائے جاتے ہیں۔ آفت سے مراد یا تو آسمانی آفات ہیں مثلًا قحط سالی وغیرہ (مگر یہ بعید ہے) یا جسمانی بیماریاں اور تکالیف ہیں یا غزوات ہیں جن میں شرکت کے موقع پر ان کی آزمائش ہوتی تھی۔ سیاق کلام کے اعتبار سے یہ مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ التوبہ
127 1- یعنی ان کی موجودگی میں سورت نازل ہوتی جس میں منافقین کی شرارتوں اور سازشوں کی طرف اشارہ ہوتا تو پھر یہ دیکھ کر کہ مسلمان انہیں دیکھ تو نہیں رہے، خاموشی سے کھسک جاتے۔ 2- یعنی آیات الٰہی میں غور و تدبر نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں کو خیر اور ہدایت سے پھیر دیا ہے۔ التوبہ
128 1- سورت کے آخر میں مسلمانوں پر نبی کی صورت میں جو احسان عظیم فرمایا گیا، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ آپ (ﷺ) کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ تمہاری جنس سے یعنی جنس بشریت سے ہیں (وہ نور یا اور کچھ نہیں) جیسا کہ فساد عقیدہ کے شکار لوگ عوام کو اس قسم کے گورکھ دھندے میں پھنساتے ہیں۔ 2- عَنَتٌ ایسی چیزیں جن سے انسان کو تکلیف ہو، اس میں دنیاوی مشقتیں اور آخروی عذاب دونوں آجاتے ہیں، اس پیغمبر پر، تمہاری ہر قسم کی تکلیف و مشقت گراں گزرتی ہے۔ اسی لئے آپ (ﷺ) نے فرما: ”میں آسان دین حنیفی دے کر بھیجا گیا ہوں“۔ (مسند احمد۔ جلد 5، ص 266، جلد 6 ص 233) ایک اور حدیث میں فرمایا: [إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ]، ”بیشک یہ دین آسان ہے“۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان) 3- تمہاری ہدایت اور تمہاری دینوی آخروی کے فائدے کے خواہشمند ہیں اور تمہارا جہنم میں جانا پسند نہیں فرماتے۔ اسی لئے آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”میں تمہیں تمہاری پشتوں سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں لیکن تم مجھ سے دامن چھڑا کر زبردستی نار جہنم میں داخل ہوتے ہو“۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب نمبر 26 الانتهاء من المعاصی) 4- یہ آپ کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے۔ یہ ساری خوبیاں آپ کے اعلٰی اخلاق اور کریمانہ صفات کی مظہر ہیں۔ یقینا آپ (ﷺ) صاحب خلق عظیم ہیں۔ التوبہ
129 1- یعنی آپ کی لائی ہوئی شریعت اور دین رحمت سے۔ 2- جو کفر و اعراض کرنے والوں کے مکرو کید سے مجھے بچا لے گا۔ 3- حضرت ابو الدردا (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ آیت ﴿حَسْبِیَ اللّٰہُ﴾ (الآیۃَ) صبح اور شام سات سات مرتبہ پڑھ لے گا، اللہ تعالٰی اس کے ہموم (فکر ومشکلات) کو کافی ہو جائے گا۔ (سنن ابی داود۔ نمبر 5081) التوبہ
0 یونس
1 1- اَلْحَکِیْمِ، کتاب یعنی قرآن مجید کی صفت ہے۔ اس کے ایک تو وہی معنی ہیں جو ترجمے میں اختیار کئے گئے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً اَلْمُحْکَمْ، یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام میں محکم (مضبوط) ہے۔ حکیم بمعنی حاکم۔ یعنی اختلافات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب۔ (البقرۃ: 23)، یعنی اللہ تعالٰی نے اس میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے ہیں۔ یونس
2 1- استفہام انکار تعجب کے لئے ہے، جس میں توبیخ کا پہلو بھی شامل ہے یعنی اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالٰی نے انسانوں میں سے ہی ایک آدمی کو وحی و رسالت کے لئے چن لیا، کیونکہ ان کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے وہ صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ اگر وہ کسی اور جنس سے ہوتا تو فرشتہ یا جن ہوتا اور وہ دونوں ہی صورتوں میں رسالت کا اصل مقصد فوت ہو جاتا، اس لئے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کی بجائے وحشت محسوس کرتا دوسرے، ان کے لئے اس کو دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اگر ہم کسی جن یا فرشتے کو انسانی قالب میں بھیجتے تو پھر وہی اعتراض آتا کہ یہ تو ہماری طرح کا ہی انسان ہے۔ اس لئے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ 2- ﴿قَدَمَ صِدْقٍ﴾ کا مطلب، بلند مرتبہ، اجر حسن اور وہ اعمال صالحہ ہیں جو ایک مومن آگے بھیجتا ہے۔ 3- کافروں کو جب انکار کے لئے بات نہیں سوجھتی تو یہ کہہ کر چھٹکارہ حاصل کر لیتے ہیں کہ یہ تو جادوگر ہے۔ نعوذ باللہ۔ یونس
3 1- اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورہ اعراف آیت 54 کا حاشیہ۔ 2- یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہرچیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔ 3- مشرکین و کفار، جو اصل مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالٰی پسند فرمائے گا۔ ﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى ﴾[الأنبياء: 28]. ﴿ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى ﴾[النجم: 26]. 4- یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طور پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ یونس
4 1- اس آیت میں قیامت کے وقوع، بارگاہ الٰہی میں سب کی حاضری اور جزا سزا کا بیان ہے، یہ مضمون قرآن کریم میں مختلف اسلوب سے متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ یونس
5 1- ضیاء ضوء کے ہم معنی ہے۔ مضاف یہاں محذوف ہے ذات ضیاء والقمر ذا نور، سورج کو چمکنے والا اور چاند کو نور والا بنایا۔ یا پھر انہیں مبالغے پر محمول کیا جائے گویا کہ یہ بذات خود ضیا اور نور ہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کی تدبیر کے ذکر کے بعد بطور مثال کچھ اور چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق تدبیر کائنات سے ہے جس میں سورج اور چاند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سورج کی حرارت اور تپش اور اس کی روشنی، کس قدر ناگزیر ہے اس سے ہر با شعور آدمی واقف ہے۔ اسی طرح چاند کی نورانیت کا جو لطف اور اس کے فوائد ہیں، وہ بھی محتاج بیان نہیں۔ حکماء کا خیال ہے کہ سورج کی روشنی بالذات ہے اور چاند کی نورانیت ہے جو سورج کی روشنی سے مستفاد ہے (فتح القدیر) واللہ اعلم بالصواب۔ 2- یعنی ہم نے چاند کی چال کی منزلیں مقرر کردی ہیں ان منزلوں سے مراد مسافت ہے جو وہ ایک رات اور ایک دن میں اپنی مخصوص حرکت یا چال کے ساتھ طے کرتا ہے یہ 28 منزلیں ہیں۔ ہر رات کو ایک منزل پر پہنچتا ہے جس میں کبھی خطا نہیں ہوتی۔ پہلی منزل میں وہ چھوٹا اور باریک نظر آتا ہے، پھر بتدریج بڑا ہوتا جاتا ہے حتٰی کے چودھویں شب یا چودھویں منزل پر وہ مکمل (بدر کامل) ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر وہ سکڑنا اور باریک ہونا شروع ہو جاتا ہے حتٰی کے آخر میں ایک یا دو راتیں چھپا رہتا ہے۔ اور پھر ہلال بن کر طلوع ہو جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر سکو۔ یعنی چاند کی ان منازل اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں۔ جن سے تمہیں ہرچیز کا حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یعنی سال 12 مہینے کا، مہینہ 29،30 دن کا ایک دن 24 گھنٹے یعنی رات اور دن کا۔ جو ایام استوا میں 12، 12 گھنٹے اور سردی گرمی میں کم و بیش ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دنیوی منافع اور کاروبار ہی ان منازل قمر سے وابستہ نہیں۔ دینی منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس طلوع بلال سے حج، صیام رمضان، اشہر حرم اور دیگر عبادات کی تعین ہوتی ہے جن کا اہتمام ایک مومن کرتا ہے۔ یونس
6 یونس
7 یونس
8 یونس
9 1- اس کے ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ دنیا میں ایمان کے سبب قیامت والے دن اللہ تعالٰی ان کے لئے پل صراط سے گزرنا آسان فرما دے گا، اس صورت میں یہ ”با“ سببیت کے لئے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ استعانت کے لئے ہے اور معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالٰی قیامت والے دن ان کے لئے ایک نور مہیا فرمائے گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے، جیسا کہ سورہ حدید میں اس کا ذکر آتا ہے۔ یونس
10 1- یعنی اہل جنت اللہ کی حمد و تسبیح میں ہر وقت تعریف کرتے رہیں گے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ”اہل جنت کی زبانوں پر تسبیح و تحمید کا اس طرح الہام ہوگا جس طرح سانس کا الہام کیا جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم، کتاب الجنة وصفة نعیمها، باب فی صفات الجنة وأهلهأ وتسبیحهم فیها بکرة وعشیا) یعنی جس طرح بے اختیار سانس کی آمدورفت رہتی ہی، اسی طرح اہل جنت کی زبانوں پر بغیر اہتمام کے حمدو تسبیح الٰہی کے ترانے رہیں گے۔ 2- یعنی ایک دوسرے کو اس طرح سلام کریں گے، نیز فرشتے بھی انہیں سلام عرض کریں گے۔ یونس
11 1- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح انسان خیر کے طلب کرنے میں جلدی کرتا ہے، اسی طرح وہ شر (عذاب) کے طلب کرنے میں بھی جلدی مچاتا ہے، اللہ کے پیغمبروں سے کہتا ہے اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے کر آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اگر ان کے اس مطالبے کے مطابق ہم جلدی عذاب بھیج دیتے تو کبھی کے یہ موت اور ہلاکت سے دوچار ہو چکے ہوتے۔ لیکن ہم مہلت دے کر انہیں پورا موقع دیتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جس طرح انسان اپنے لئے خیر اور بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے جنہیں ہم قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان غصے یا تنگی میں ہوتا ہے تو اپنے لئے اور اپنی اولاد وغیرہ کے لئے بد دعائیں کرتا ہے، جنہیں ہم اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ زبان سے تو ہلاکت مانگ رہا ہے، مگر اس کے دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کی بد دعاؤں کے مطابق، انہیں فوراً ہلاکت سے دوچار کرنا شروع کردیں، تو پھر جلدی ہی لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہو جایا کریں اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ " تم اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے اور اپنے مال و کاروبار کے لئے بد دعائیں مت کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعائیں، اس گھڑی کو پا لیں، جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں، پس وہ تمہاری بد دعائیں قبول فرما لے"۔ (سنن أبی داؤد، کتاب الوتر، باب النهی عن أن یدعو الأنسان علی أهله وماله ومسلم، کتاب الزهد، فی حدیث جابر الطویل یونس
12 1- یہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے۔ بلکہ بہت سے اللہ کے ماننے والے بھی اس کوتاہی کا عام ارتکاب کرتے ہیں کہ مصیبت کے وقت تو خوب اللہ اللہ ہو رہا ہے، دعائیں کی جا رہی ہیں توبہ استغفار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالٰی مصیبت کا وہ کڑا وقت نکال دیتا ہے تو پھر بارگاہ الٰہی میں دعا و گڑگڑانے سے غافل ہو جاتے ہیں اور اللہ نے ان کی دعائیں قبول کرکے جس امتحان اور مصیبت سے نجات دی، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق انہیں نصیب نہیں ہوتی۔ 2- یہ تزئین عمل، بطور آزمائش اور مہلت اللہ تعالٰی کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، وسوسوں کے ذریعے سے شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور انسان کےاس نفس کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، جو انسان کی برائی پر امادہ کرتا ہے،﴿ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ ﴾ (يوسف: 53). تاہم اس کا شکار ہوتے وہی لوگ ہیں جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ یہاں معنی یہ ہوئے کہ ان کے لیے دعا سے اعراض، شکر الہی سے غفلت اور شہوات و خواہشات کے ساتھ اشتغال کو مزین کردیا گیا ہے۔ (فتح القدیر) یونس
13 1- یہ کفار کو تنبیہ ہے کہ گزشتہ امتوں کی طرح تم بھی ہلاکت سے دو چار ہو سکتے ہو۔ یونس
14 1- خلائف، خلیفہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں، گزشتہ امتوں کا جانشین۔ یا ایک دوسرے کا جانشین۔ یونس
15 1- یعنی جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت و وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں۔ 2- مطلب یہ ہے کہ یا تو اس قرآن مجید کی جگہ قرآن ہی دوسرا لائیں یا پھر اس میں ہماری حسب خواہش تبدیلی کر دیں۔ 3- یعنی مجھ سے دونوں باتیں ممکن نہیں میرے اختیار میں ہی نہیں۔ 4- یہ اس کی مزید تاکید ہے۔ میں تو صرف اس بات کا پیرو ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں کسی کمی بیشی کا ارتکاب کروں گا تو یوم عظیم کے عذاب سے میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یونس
16 1- یعنی سارا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ چاہتا تو میں نہ تمہیں پڑھ کر سناتا نہ تمہیں اس کی کوئی اطلاع دی جاتی، بعض نے أَدْرَاكُمْ بِهِ کے معنی کیے ہیں أَعْلَمَكُمْ بِهِ عَلَى لِسَانِي، کہ وہ تم کو میری زبانی اس قرآن کی بابت کچھ بھی نہ بتلاتا۔ 2- اور تم بھی جانتے ہو کہ دعوائے نبوت سے قبل چالیس سال میں نے تمہارے اندر گزارے کیا میں نے کسی استاذ سے کچھ سیکھا ہے؟ اسی طرح تم میری امانت وصداقت کے بھی قائل رہے ہو۔ کیا اب یہ ممکن ہے کہ میں اللہ پر افترا باندھنا شروع کردوں؟ مطلب ان دونوں باتوں کا یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے نہ میں نے کسی سے سن یا سیکھ کر اسے بیان کیا ہے اور نہ یوں ہی جھوٹ موٹ اسے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ یونس
17 یونس
18 1- یعنی اللہ کی عبادت سے تجاوز کرکے نہ کہ اللہ کی عبادت ترک کرکے۔ کیونکہ مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اور غیر اللہ کی بھی۔ 2- جب کہ معبود کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں کو بدلہ اور اپنے نافرمانوں کو سزا دینے پر قادر ہے۔ 3- یعنی ان کی سفارش سے اللہ ہماری ضرورتیں پوری کر دیتا ہے ہماری بگڑی بنا دیتا ہے یا ہمارے دشمن کی بنائی ہوئی بگاڑ دیتا ہے۔ یعنی مشرکین بھی اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے تھے ان کو نفع اور ضرر میں مستقل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔ 4- یعنی اللہ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کا کوئی شریک بھی ہے یا اس کی بارگاہ میں سفارشی بھی ہونگے، گویا یہ مشرکین اللہ کو خبر دیتے ہیں کہ تجھے خبر نہیں۔ لیکن ہم تجھے بتلاتے ہیں کہ تیرے شریک بھی ہیں اور سفارشی بھی ہیں جو اپنے عقیدت مندوں کی سفارش کریں گے۔ 5- اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ مشرکین کی باتیں بے اصل ہیں۔ اللہ تعالٰی ان تمام باتوں سے پاک اور برتر ہے۔ یونس
19 1- یعنی یہ شرک، لوگوں کی اپنی ایجاد ہے ورنہ پہلے پہل اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ تمام لوگ ایک ہی دین اور ایک ہی طریقہ پر تھے اور وہ اسلام ہے جس میں توحید کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت نوح (عليہ السلام ) تک لوگ اسی توحید پر قائم رہے پھر ان میں اختلاف ہوگیا اور کچھ لوگوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا شروع کر دیا۔ 2- یعنی اگر اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا کہ، تمام حجت سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتا، اس طرح اس نے مخلوق کے لئے ایک وقت کا تعین نہ کیا ہوتا تو یقینا وہ ان کے مابین اختلافات کا فیصلہ اور مومنوں کو سعادت مند اور کافروں کو عذاب میں مبتلا کر چکا ہوتا۔ یونس
20 1- اس سے مراد کوئی بڑا اور واضح معجزہ، جیسے قوم ثمود کے لئے اونٹنی کا ظہور ہوا ان کے لئے صفا پہاڑی سونے کا یا مکے کے پہاڑوں کو ختم کرکے ان کی جگہ نہریں اور باغات بنانے کا یا اور اس قسم کا کوئی معجزہ صادر کرکے دکھلایا جائے۔ 2- یعنی اگر اللہ چاہے تو ان کی خواہشات کے مطابق وہ معجزے تو ظاہر کرکے دکھا سکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہ لائے تو پھر اللہ کا قانون یہ ہے کہ ایسی قوم کو فوراً وہ ہلاک کر دیتا ہے۔ اس لئے اس بات کا علم صرف اسی کو ہے کہ کسی قوم کے لئے اس کی خواہشات کے مطابق معجزے ظاہر کر دیتا اس کے حق میں بہتر ہے یا نہیں؟ اور اس طرح اس بات کا علم بھی صرف اسی کو ہے کہ ان کے مطلوبہ معجزے اگر ان کو دکھائے گئے تو انہیں، کتنی مہلت دی جائے گی، اسی لئے آگے فرمایا، " تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں"۔ یونس
21 1- مصیبت کے بعد نعمت کا مطلب ہے۔ تنگی، قحط سالی اور آلام ومصائب کے بعد، رزق کی فروانی، اسباب معیشت کی ارزانی وغیرہ۔ 2- اس کا مطلب ہے کہ ہماری ان نعمتوں کی قدر اور ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی ان کی وہ بری تدبیر ہے جو اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں۔ 3- یعنی اللہ کی تدبیر ان سے کہیں زیادہ تیز ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کا مواخذہ کرنے پر قادر ہے، وہ جب چاہے ان کی گرفت کر سکتا ہے، فوراً بھی اور اس کی حکمت تاخیر کا تقاضا کرنے والی ہو تو بعد میں بھی۔ مکر، عربی زبان میں خفیہ تدبیر اور حکمت عملی کو کہتے ہیں، جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ یہاں اللہ کی عقوبت اور گرفت کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یونس
22 1- يُسَيِّرُكُمْ وہ تمہیں چلاتا یا چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے " خشکی میں " یعنی اس نے تمہیں قدم عطا کئے جن سے تم چلتے ہو، سواریاں مہیا کیں، جن پر سوار ہو کر دور دراز کے سفر کرتے ہو " اور سمندر میں " یعنی اللہ نے تمہیں کشتیاں اور جہاز بنانے کی عقل اور سمجھ دی، تم نے وہ بنائیں اور ان کے ذریعے سے سمندر کا سفر کرتے ہو۔ 2- أُحِيطَ بِهِمْ کا مطلب ہے، جس طرح دشمن کسی قوم یا شہر کا احاطہ یعنی محاصرہ کر لیتا ہے اور وہ دشمن کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ جب سخت ہواؤں کے تھپیڑوں اور تلاطم خیز موجوں میں گھر جاتے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آتی ہے۔ 3- یعنی پھر وہ دعا میں غیر اللہ کی ملاوٹ نہیں کرتے جس طرح عام حالات میں کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو کہتے ہیں کہ یہ بزرگ بھی اللہ کے بندے ہیں، انہیں بھی اللہ نے اختیارات سے نواز رکھا ہے اور انہی کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ لیکن جب اس طرح شدائد میں گھر جاتے ہیں تو یہ سارے شیطانی فلسفے بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ یاد رہ جاتا ہے اور پھر صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ انسان کی فطرت میں اللہ واحد کی طرف رجوع کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔ انسان ماحول سے متاثر ہو کر اس جذبے یا فطرت کو دبا دیتا ہے لیکن مصیبت میں یہ جذبہ ابھر آتا ہے اور یہ فطرت عود کر آتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ توحید، فطرت انسانی کی آواز اور اصل چیز ہے، جس سے انسان کو انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے انحراف فطرت سے انحراف جو سراسر گمراہی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مشرکین، جب اس طرح مصائب میں گھر جاتے تو وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کے بجائے، صرف ایک اللہ کو پکارتے تھے چنانچہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رضی الله عنہ) کے بارے میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح کیا تو یہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ باہر کسی جگہ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے، تو کشتی طوفانی ہواؤں کی زد میں آگئی۔ جس پر ملاح نے کشتی میں سوار لوگوں سے کہا کہ آج اللہ واحد سے دعا کرو، تمہیں اس طوفان سے اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ (رضی الله عنہ) کہتے ہیں، میں نے سوچا اگر سمندر میں نجات دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو خشکی میں بھی یقینا نجات دینے والا وہی ہے۔ اور یہی بات محمد کہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں فیصلہ کر لیا اگر یہاں سے میں زندہ بچ کر نکل گیا تو مکہ واپس جا کر اسلام قبول کرلوں گا۔ چنانچہ یہ نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ (رضی الله عنہ) (سنن نسائي، أبو داود- نمبر 2683۔ وذكر الألباني في الصحيحة نمبر1723) لیکن افسوس! امت محمدیہ کے عوام اس طرح شرک میں پھنسے ہوئے ہیں کہ شدائد و آلام میں بھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے فوت شدہ بزرگوں کو ہی مشکل کشا سمجھتے اور انہی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آہ! فَلْيَبْكِ عَلَى الإسْلامِ مَنْ كَانَ بَاكِيًا یونس
23 1- یہ انسان کی ناشکری کی عادت کا ذکر ہے جس کا تذکرہ ابھی آیت 12 میں بھی گزرا، اور قرآن میں اور بھی متعدد مقامات پر اللہ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ 2- اللہ تعالٰی نے فرمایا، تم یہ ناشکری اور سرکشی کرلو، چار روزہ متاع زندگی سے فائدہ اٹھا کر بالآخر تمہیں ہمارے ہی پاس آنا ہے، پھر تمہیں، جو کچھ تم کرتے رہے ہو گے، بتلائیں گے یعنی ان پر سزا دیں گے۔ یونس
24 1- حَصِيدًا فعیل بمعنی مفعول ہے أَيْ: مَحْصُودًا یعنی محصود دنیا کی زندگی اس طرح کھیتی سے تشبیہ دے کر اس کے عارضی پن اور ناپائیداری کو واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی بھی بارش کے پانی سے نشمونما پاتی اور سر سبز وشاداب ہوتی ہے لیکن اس کے بعد اسے کاٹ کر فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یونس
25 یونس
26 1- اس زیادہ کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں لیکن حدیث میں اس کی تفسیر دیدار باری تعالٰی سے کی گئی ہے جس سے اہل جنت کو جنت کی نعمتیں دینے کے بعد، مشرف کیا جائے گا (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب إثبات رؤية المؤمنين في الآخرة لربهم) یونس
27 1- گزشتہ آیت میں اہل جنت کا تذکرہ تھا، اس میں بتلایا گیا تھا کہ انہیں ان کے نیک اعمال کی جزا کئی کئی گنا ملے گی اور پھر مزید دیدار الٰہی سے نوازے جائیں گے۔ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ برائی کا بدلہ برائی کے مثل ہی ملے گا ۔ سَيِّئَاتٌ سے مراد کفر اور شرک اور دیگر معاصی ہیں۔ 2- جس طرح کہ اہل ایمان کو بچانے والا اللہ تعالٰی ہوگا اس طرح انہیں اس روز اپنے فضل خاص سے نوازے گا علاوہ ازیں ان کے لئے اللہ تعالٰی اپنے مخصوص بندوں کو شفاعت کی اجازت بھی دے گا، جن کی شفاعت بھی وہ قبول فرمائے گا۔ 3- یہ مبالغہ ہے کہ ان کے چہرے اتنے سخت سیاہ ہونگے۔ اس کے برعکس اہل ایمان کے چہرے تروتازہ اور روشن ہونگے جس طرح سورۃ ال عمران، آیت 106 ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾ الآية اور سورۃ عبس 38-41 اور سورہ قیامت میں ہے۔ یونس
28 1- جَمِيعًا سے مراد، ازل سے ابد تک کے تمام اہل زمین انسان اور جنات ہیں، سب کو اللہ تعالٰی جمع فرمائے گا جس طرح کہ دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا﴾ (الکہف:47) ”ہم ان سب کو اکھٹا کریں گے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے“۔ 2- ان کے مقابلے میں اہل ایمان کو دوسری طرف کر دیا جائے گا یعنی اہل ایمان اور اہل کفر و شرک کو الگ الگ ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا جائے گا جیسے فرمایا ﴿وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یس:59) ﴿يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ﴾ (الروم:43) «اس دن لوگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ' یعنی دو گروہوں میں۔ أَيْ: يَصِيرُونَ صِدْعَيْنِ (ابن کثیر) 3- یعنی دنیا میں ان کے درمیان آپس میں جو خصوصی تعلق تھا وہ ختم کر دیا جائے گا اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود اس بات کا ہی انکار کریں گے کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، ان کو مدد کے لئے پکارتے تھے، ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے۔ یونس
29 1- یہ انکار کی وجہ ہے کہ ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں، تم کیا کچھ کرتے تھے اور ہم جھوٹ بول رہے ہوں تو ہمارے درمیان اللہ تعالٰی گواہ ہے اور وہ کافی ہے، اس کی گواہی کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی، یہ آیت اس بات پر نص صریح ہے کہ مشرکین جن کو مدد کے لئے پکارتے تھے،وہ محض پتھر کی مورتیاں نہیں تھیں (جس طرح کہ آج کل کے قبر پرست اپنی قبر پرستی کو جائز ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ اس قسم کی آیات تو بتوں کے لئے ہیں) بلکہ وہ عقل وشعور رکھنے والے افراد ہی ہوتے تھے جن کے مرنے کے بعد لوگ ان کے مجسمے اور بت بنا کر پوجنا شروع کر دیتے تھے۔ جس طرح کہ حضرت نوح (عليہ السلام ) کی قوم کے طرز عمل سے ثابت ہے جس کی تصریح صحیح بخاری میں موجود ہے۔ دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد، انسان کتنا بھی نیک ہو، حتیٰ کہ نبی و رسول ہو۔ اسے دنیا کے حالات کا علم نہیں ہوتا، اس کے ماننے والے اور عقیدت مند اسے مدد کے لئے پکارتے ہیں اس کے نام کی نذر نیاز دیتے ہیں، اس کی قبر پر میلے ٹھیلے کا انتظام کرتے ہیں، لیکن وہ بےخبر ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں کا انکار ایسے لوگ قیامت والے دن کریں گے۔ یہی بات سورۃ احقاف آیت 5-6 میں بھی بیان کی گئی ہے۔ یونس
30 1- یعنی جان لے گا یا مزہ چکھ لے گا۔ 2- یعنی کوئی معبود اور ”مشکل کشا“ وہاں کام نہیں آئے گا، کوئی کسی کی مشکل کشائی پر قادر نہیں ہوگا۔ یونس
31 1- اس آیت سے بھی واضح ہے کہ مشرکین اللہ تعالٰی کی مالکیت، خالقیت، ربوبیت اور اس کے مدبر الامور ہونے کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ اس کی الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے، اس لئے اللہ تعالٰی نے انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ آج کل کے مدعیان ایمان بھی اسی توحید الوہیت کے منکر ہیں۔ فَتَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ (هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى) یونس
32 1- یعنی رب اور الٰہ (معبود) تو یہی ہے جس کے بارے میں تمہیں خود اعتراف ہے کہ ہرچیز کا خالق و مالک اور مدبر وہی ہے، پھر اس معبود کو چھوڑ کر جو تم دوسرے معبود بنائے پھرتے ہو، وہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں تمہاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی؟ تم کہاں پھرے جاتے ہو؟ یونس
33 1- یعنی جس طرح مشرکین تمام تر اعتراف کے باوجود اپنے شرک پر قائم ہیں اور اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی کہ ایمان والے نہیں ہیں، کیونکہ یہ غلط راستہ چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں تو ہدایت اور ایمان انہیں کس طرح نصیب ہو سکتا ہے؟ یہ وہی بات ہے جسے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ﴿وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ﴾ (الزمر:71) ”لیکن عذاب کی بات کافروں پر ثابت ہوگئی“۔ یونس
34 1- مشرکین کے شرک کے کھوکھلے پن کو واضح کرنے کے لئے ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ بتلاؤ جنہیں تم اللہ کا شریک گردانتے ہو، کیا انہوں نے اس کائنات کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے؟ یا دوبارہ اسے پیدا کرنے پر قادر ہیں؟ نہیں یقینا نہیں پہلی مرتبہ بھی پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور روز قیامت دوبارہ وہی سب کو زندہ کرے گا۔ تو پھر ہدایت کا راستہ چھوڑ کر، کہاں پھرے جا رہے ہو؟ یونس
35 1- یعنی بھٹکے ہوئے مسافرین راہ کو راستہ بتانے والا اور دلوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف پھیرنے والا بھی اللہ تعالٰی ہی ہے۔ ان کے شرکاء میں کوئی ایسا نہیں جو یہ کام کر سکے۔ 2- یعنی پیروی کے لائق کون ہے؟ وہ شخص جو دیکھتا سنتا اور لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے؟ یا وہ جو اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے خود راستے پر چل بھی نہیں سکتا، جب تک دوسرے لوگ اسے راستے پر نہ ڈالدیں یا ہاتھ پکڑ کر لے نہ جائیں؟۔ 3- یعنی تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے؟ تم کس طرح اللہ کو اور اس کی مخلوق کو برابر ٹھہرائے جا رہے ہو؟ اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو بھی شریک عبادت بنا رہے ہو؟ جب کہ ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی ایک اللہ کو معبود مانا جائے اور عبادت کی تمام قسمیں صرف اسی کے لئے خاص مانی جائیں۔ یونس
36 1- لیکن بات یہ ہے کہ لوگ محض اٹکل پچو باتوں پر چلنے والے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ دلائل کے مقابلے میں اوہام و خیالات اور ظن وگمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ قرآن میں ظن، یقین اور گمان دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے، یہاں دوسرا معنی مراد ہے۔ 2- یعنی اس ہٹ دھرمی کی وہ سزا دے گا، کہ دلائل نہ رکھنے کے باوجود، یہ محض غلط وہم اور دیوانہ پن کے پیچھے لگے رہے اور عقل فہم سے ذرا کام نہ لیا۔ یونس
37 1- جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن گھڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل فرمائیں تھیں۔ 2- یعنی حلال و حرام اور جائز ناجائز کی تفصیل بیان کرنے والا۔ 3- اس کی تعلیمات میں، اس کے بیان کردہ قصص وواقعات میں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں۔ 4- یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ یہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے، جو ماضی اور مستقبل کو جاننے والا ہے۔ یونس
38 1- ان تمام حقائق اور دلائل کے بعد بھی، اگر تمہارا دعوٰی یہ ہے کہ یہ قرآن محمد (ﷺ) کا گھڑا ہوا ہے تو بھی تمہاری طرح ایک انسان ہے، تمہاری زبان بھی اسی طرح عربی ہے وہ تو ایک ہے، تم اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو تم دنیا بھر کے ادیبوں، فصحاوبلغا کو اور اہل علم و اہل قلم کو جمع کرلو اور اس قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت کے مثل بنا کر پیش کردو۔ قرآن مجید کا یہ چلینج آج تک باقی ہے، اس کا جواب نہیں ملا۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن۔ کسی انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں، بلکہ فی الواقع کلام الٰہی ہے اور حضرت محمد (ﷺ) پر اترا ہے۔ یونس
39 1- یعنی قرآن میں تدبر اور اس کے معنی پر غور کئے بغیر، اسکو جھٹلانے پر تل گئے۔ 2- یعنی قرآن نے جو پچھلے واقعات اور مستقبل کے امکانات بیان کئے ہیں، اس کی پوری سچائی اور حقیقت بھی ان پر واضح نہیں ہوئی، اس کے بغیر ہی تکذیب شروع کر دی، یا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے قرآن پر کما حقہ تدبر کئے بغیر ہی اس کو جھٹلایا حالانکہ اگر وہ صحیح معنوں میں اس پر تدبر کرتے اور ان امور پر غور کرتے، جو اسکے کلام الٰہی ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یقینا اس کے فہم اور معانی کے دروازے ان پر کھل جاتے۔ اس صورت میں تاویل کے معنی۔ قرآن کریم کے اسرار ومعارف اور لطائف و معانی کے واضح ہو جانے کے ہونگے۔ 3- یہ ان کفار ومشرکین کو تنبیہ وسرزنش ہے، کہ تمہاری طرح پچھلی قوموں نے بھی آیات الٰہی کو جھٹلایا تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا؟ اگر تم اس کو جھٹلانے سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ یونس
40 1- وہ خوب جانتا ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے؟ اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور گمراہی کا مستحق کون ہے اس کے لئے گمراہی کا راستہ چوپٹ کھول دیتا ہے۔ وہ عادل ہے، اس کے کسی کام میں شک نہیں۔ جو جس بات کا مستحق ہوتا ہے، اس کے مطابق وہ چیز اس کو عطا کر دیتا ہے۔ یونس
41 1- یعنی تمام تر سمجھانے اور دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر وہ جھٹلانے سے باز نہ آئیں تو پھر آپ یہ کہہ دیں، مطلب یہ ہے کہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے، سو وہ میں کر چکا ہوں، نہ تم میرے عمل کے ذمہ دار ہو اور نہ میں تمہارے عمل کا سب کو اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، وہاں ہر شخص سے اس کے اچھے یا برے عمل کی باز پرس ہوگی۔ یہ وہی بات ہے جو «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، لا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ» میں ہے اور حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے ان الفاظ میں کہی تھی ﴿إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ﴾ الآية ( الممتحنة: 4) ”بیشک ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد سے منکر ہیں“۔ یونس
42 1- یعنی ظاہری طور پر وہ قرآن سنتے ہیں، لیکن سننے کا مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے انہیں، اسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس طرح ایک بہرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب بہرا غیرعاقل بھی ہو، کیونکہ عقلمند بہرہ پھر بھی اشاروں سے کچھ سمجھ لیتا ہے۔ لیکن ان کی مثال تو غیر عاقل بہرے کی طرح ہے بالکل ہی بےبہرہ رہتا ہے۔ یونس
43 1- اسی طرح بعض لوگ آپ کی طرف دیکھتے ہیں لیکن مقصد ان کا بھی چونکہ کچھ اور ہوتا ہے اس لئے انہیں بھی اس طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس طرح ایک اندھے کو نہیں ہوتا۔ بالخصوص وہ اندھا جو بصارت کے ساتھ بصیرت سے بھی محروم ہو۔ لیکن ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی اندھا جو دل کی بصیرت سے بھی محروم ہو مقصد ان باتوں سے نبی کی تسلی ہے۔ جس طرح ایک حکیم اور طبیب کو جب معلوم ہو جائے کہ مریض علاج کروانے میں سنجیدہ نہیں اور میری ہدایت اور علاج کی پرواہ نہیں کرتا، تو وہ اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور وہ اس پر اپنا وقت صرف کرنا پسند نہیں کرتا۔ یونس
44 1- یعنی اللہ تعالٰی نے انہیں ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آنکھیں بھی دی ہیں، جن سے وہ دیکھ سکتے ہیں، کان دیئے ہیں، جن سے سن سکتے ہیں، عقل و بصیرت دی ہے جن سے حق اور باطل اور جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرکے وہ حق راستہ نہیں اپناتے، تو پھر یہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں اللہ تعالٰی نے تو ان پر ظلم نہیں کیا ہے۔ یونس
45 1- یعنی محشر کی سختیاں دیکھ کر انہیں دنیا کی ساری لذتیں بھول جائیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے معلوم ہوگی گویا وہ دنیا میں ایک آدھ گھڑی ہی رہے ہیں۔﴿لَمْ يَلْبَثُوا إِلا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا﴾ ( النازعات:46 )۔ 2- محشر میں مختلف حالتیں ہونگی، جنہیں قرآن میں مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ہے۔ ایک وقت یہ بھی ہوگا، جب ایک دوسرے کو پہچانیں گے، بعض مواقع ایسے آئیں گے کہ آپس میں ایک دوسرے پر گمراہی کا الزام دھریں گے، اور بعض موقعوں پر ایسی دہشت طاری ہوگی کہ ﴿فَلا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلا يَتَسَاءَلُونَ﴾ (المؤمنون:101) ”آپس میں ایک دوسرے کی رشتہ داریوں کا پتہ ہوگا اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے“۔ یونس
46 1- اس آیت میں اللہ تعالٰی فرما رہا ہے ہم ان کفار کے بارے میں جو وعدہ کر رہے ہیں اگر انہوں نے کفر و شرک پر اصرار جاری رکھا تو ان پر بھی عذاب الٰہی آسکتا ہے، جس طرح پچھلی قوموں پر آیا، ان میں سے بعض اگر ہم آپ کی زندگی میں بھیج دیں تو یہ بھی ممکن ہے، جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ لیکن اگر آپ اس سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لئے گئے، تب بھی کوئی بات نہیں، ان کافروں کو بالآخر ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ ان کے سارے اعمال و احوال کی ہمیں اطلاع ہے، وہاں یہ ہمارے عذاب سے کس طرح بچ سکیں گے، قیامت کے وقوع کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں اطاعت گزاروں کو ان کی اطاعت کا صلہ اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کی سزا دی جائے۔ یونس
47 1- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہر امت میں ہم رسول بھیجتے رہے۔ اور جب رسول اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرچکتا تو پھر ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیتے۔ یعنی پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو بچا لیتے اور دوسروں کو ہلاک کر دیتے۔ کیونکہ ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا﴾ ( بنی إسرائيل:15) اور ہماری عادت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب دینے لگیں۔ اور اس فیصلے میں ان پر کوئی ظلم نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ ظلم تو تب ہوتا جب بغیر گناہ کے ان پر عذاب بھیج دیا جاتا یا بغیر حجت تمام کیے، ان کا مواخذہ کرلیا جاتا۔ (فتح القدیر) اور دوسرا مفہوم اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق قیامت سے ہے یعنی قیامت والے دن ہر امت جب اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگی، تو اس امت میں بھیجا گیا رسول بھی ساتھ ہوگا۔ سب کے اعمال نامے بھی ہوں گے اور فرشتے بھی بطور گواہ پیش ہوں گے۔ اور یوں ہر امت اور اس کے رسول کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ اور حدیث میں آتا ہے کہ امت محمدیہ کا فیصلہ سب سے پہلے کیا جائے گا۔ جیسا کہ فرمایا ”ہم اگرچہ سب کے بعد آنے والے ہیں لیکن قیامت کو سب سے آگے ہوں گے“ اور تمام مخلوقات سے پہلے ہمارا فیصلہ کیا جائے گا۔ (صحيح مسلم- كتاب الجمعة، باب هداية هذه الأمة ليوم الجمعة ) ۔ (تفسیر ابن کثیر) یونس
48 یونس
49 1- یہ مشرکین کے عذاب الٰہی مانگنے پر کہا جا رہا ہے کہ میں تو اپنے نفس کے لئے بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ چہ جائیکہ کہ میں کسی دوسرے کو نقصان یا نفع پہنچا سکوں، ہاں سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی مشیت کے مطابق ہی کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ نے ہر امت کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اس وقت تک مہلت دیتا ہے۔ لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں نہ آگے سرک سکتے ہیں۔ تنبیہ: یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جب افضل الخلائق سید الرسل حضرت محمد (ﷺ) تک کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں، تو آپ کے بعد انسانوں میں اور کون سی ہستی ایسی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجت برآری اور مشکل کشائی پر قادر ہو؟ اسی طرح خود اللہ کے پیغمبر سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا ”یا رسول اللہ مدد“ اور ”أغثني يا رسول الله“ وغیرہ الفاظ سے استغاثہ واستعانت کرنا، کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کی اس آیت اور اس قسم کی دیگر واضح تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ شرک کے ذیل میں آتا ہے۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا یونس
50 1- یعنی عذاب تو ایک نہایت ہی ناپسندیدہ چیز ہے جس سے دل نفرت کرتے ہیں اور طبیعتیں انکار کرتی ہیں، پھر یہ اس میں کیا خوبی دیکھتے ہیں اور اس کو جلدی طلب کرتے ہیں۔ یونس
51 1- لیکن عذاب آنے کے بعد ماننے کا کیا فائدہ؟ یونس
52 یونس
53 1- یعنی وہ پوچھتے ہیں کہ یہ قیامت اور انسانوں کے مٹی ہو جانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھنا ایک برحق بات ہے؟ اور اللہ تعالٰی فرمایا، اے پیغمبر! ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا مٹی ہو کر مٹی میں مل جانا، اللہ تعالٰی کو دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز نہیں کر سکتا۔ اس لئے یقینا یہ ہو کر رہے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کی نظیر قرآن میں مزید صرف 2 آیتیں ہیں کہ جن میں اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ وہ قسم کھا کر قیامت کے وقوع کا اعلان کریں۔ ایک سورہ سبا، آیت 3 اور دوسرا سورہ تغابن آیت۔ 7۔ یونس
54 1- یعنی اگر دنیا بھر کا خزانہ دے کر وہ عذاب سے چھوٹ جائے تو دینے کے لئے آمادہ ہوگا۔ لیکن وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا؟ مطلب یہ ہے کہ عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ یونس
55 یونس
56 1- ان آیات میں آسمان اور زمین کے درمیان ہرچیز اللہ تعالٰی کی ملکیت نامہ، وعدہ الٰہی کے برحق، زندگی اور موت پر اس کا اختیار ہے، جو ذات اتنے اختیار کی مالک ہے، اس کی گرفت سے بچ کر کوئی کہاں جاسکتا ہے۔ اور اس نے حساب کتاب کے لئے ایک دن مقرر کیا ہوا ہے۔ اسے کون ٹال سکتا ہے؟ یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے، وہ ایک دن ضرور آئے گا اور ہر نیک و بد کو اس کے عملوں کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی۔ یونس
57 1- یعنی جو قرآن کو دل کی توجہ سے پڑھے اور اس کے معنی و مطالب پر غور کرے، اس کے لئے قرآن نصیحت ہے قرآن کریم ترغیب و ترہیب دونوں طریقوں سے واعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہونا پڑے گا اور ان کاموں سے روکتا ہے جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ 2- یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے اسے صاف کرتا ہے۔ 3- یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے ویسے تو یہ قرآن سارے جہان والوں کے لئے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب صرف اہل ایمان ہی ہوتے ہیں، اس لئے یہاں صرف انہی کے لئے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل آیت 82 اور سورہ الم سجدہ آیت 44 میں بھی بیان کیا گیا ہے (نیز ﴿هُدًى لِلْمُتَّقِينَ﴾ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں) یونس
58 1- خوشی، اس کیفیت کا نام ہے جو کسی مطلوب چیز کے حصول پر انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر اہل ایمان کو خوش ہونا چاہیے یعنی ان کے دلوں میں فرحت اور اطمینان کی کفییت ہونی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خوشی کے اظہار کے لیے جلسے جلوسوں کا، چراغاں کا، اور اس قسم کے غلط کام اور اسراف بےجا کا اہتمام کرو۔ جیسا کہ آج کل اہل بدعت اس آیت سے ”جشن عید میلاد“ اور اس کی غلط رسوم کا جواز ثابت کرتے ہیں۔ یونس
59 1- اس سے مراد وہی بعض جانوروں کا حرام کرنا جو مشرکین اپنے بتوں کے ناموں پر چھوڑ کر کیا کرتے ہیں تھے، جس کی تفصیل سورہ انعام میں گزر چکی ہے۔ یونس
60 1- یعنی قیامت والے دن اللہ تعالٰی ان سے کیا معاملہ فرمائے گا۔ 2- کہ وہ انسانوں کا دنیا میں فوراً مواخذا نہیں کرتا، بلکہ اس کے لئے ایک دن مقرر کر رکھا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں بلا تفریق مومن و کافر، سب کو دیتا ہے۔ یا جو چیزیں انسانوں کے لئے مفید اور ضروری ہیں، انہیں حلال اور جائز قرار دیا ہے، انہیں حرام نہیں کیا۔ 3- یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے، یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں۔ یونس
61 1- اس آیت میں اللہ تعالٰی نے نبی (ﷺ) اور مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور ہر لحظہ اور ہر گھڑی انسانوں پر اس کی نظر ہے۔ زمین آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز اس سے مخفی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورۃ انعام، آیت 59 میں گزر چکا ہےکہ ”اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں، جنہیں وہی جانتا ہے، اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے، اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب مبین میں (لکھی ہوئی) ہے“ اسی طرح سورۂ انعام کی آیت 38، اور سورۂ ھود کی آیت 6 میں بھی اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ وہ آسمان اور زمین میں موجود اشیاء کی حرکتوں کو جانتا ہے تو انسان اور جنوں کی حرکات واعمال سے کیوں کر بے خبر رہ سکتا ہے جو اللہ کی عبادت کے مکلف اور مامور ہیں؟۔ یونس
62 1- نافرمانوں کے بعد اللہ تعالٰی اپنے فرماں برداروں کا ذکر فرما رہا ہے اور وہ ہیں اولیاء اللہ۔ اولیاء ولی کی جمع ہے، جس کے معنی لغت میں قریب کے ہیں۔ اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے معنی ہوں گے، وہ سچے اور مخلص مومن جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ کا قرب حاصل کر لیا۔ اسی لیے اگلی آیت میں خود اللہ تعالٰی نے بھی ان کی تعریف ان الفاظ سے بیان فرمائی، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی اختیار کیا۔ اور ایمان وتقوی ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور اہم ترین ذریعہ ہے، اس لغت سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے۔ لوگ ولایت کے لیے اظہار کرامت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ کرامت کا ولایت سے چولی دامن کا ساتھ ہے نہ اس کے لیے شرط۔ یہ ایک الگ چیز ہے کہ اگر کسی سے کرامت ظاہر ہو جائے تو اللہ کی مشیت ہے، اس میں اس بزرگ کی مشیت شامل نہیں ہے۔ لیکن کسی متقی مومن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو، اس کی ولایت میں کوئی شک نہیں۔ 2- خوف کا تعلق مستقبل سے ہے اور غم (حزن) کا ماضی سے، مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے زندگی خدا خوفی کے ساتھ گزاری ہوتی ہے۔ اس لیے قیامت کی ہولناکیوں کا اتنا خوف ان پر نہیں ہوگا، جس طرح دوسروں کو ہوگا۔ بلکہ وہ اپنے ایمان وتقوی کی وجہ سے اللہ کی رحمت وفضل خاص کے امیدوار اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے والے ہوں گے۔ اسی طرح دنیا میں وہ جو کچھ چھوڑ گئے ہوں گے یا دنیا کی لذتیں انہیں حاصل نہ ہوسکی ہوں گی، ان پر انہیں کوئی حزن وملال نہیں ہوگا۔ ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں جو مطلوبہ چیزیں انہیں نہ ملیں، اس پر وہ غم وحزن کا مظاہرہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی قضا وتقدیر ہے۔ جس سے ان کے دلوں میں کوئی کدورت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ان کے دل قضائے الہی پر مسرور ومطمئن رہتے ہیں۔ یونس
63 یونس
64 1- دنیا میں خوشخبری سے مراد، رؤیائے صادقہ ہیں یا وہ خوشخبری ہے جو موت کے فرشتے ایک مومن کو دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ یونس
65 یونس
66 1- یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ محض ظن او تخمین اور رائے وقیاس کی کرشمہ سازی ہے۔ آج اگر انسان اپنے قوائے عقل و فہم کو صحیح طریقے سے استعمال میں لائے تو یقینا اس پر واضح ہو سکتا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے جس طرح وہ آسمان اور زمین کی تخلیق میں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر عبادت میں دوسرے کیوں کر اس کے شریک ہو سکتے ہیں۔ یونس
67 یونس
68 1- اور جو کسی کا محتاج نہ ہو، اسے اولاد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اولاد تو سہارے کے لئے ہوتی ہے اور جب وہ سہارے کا محتاج نہیں تو پھر اسے اولاد کی کیا ضرورت؟ 2- جب آسمان اور زمین کی ہرچیز اسی کی ہے تو ہرچیز اسی کی مملوک اور غلام ہوئی۔ پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اولاد کی ضرورت تو اسے ہوتی ہے، جسے کچھ مدد اور سہارے کی ضرورت ہو، جس کا حکم آسمان وزمین کی ہر چیز پر چلتا ہو، اسے کیا ضرورت لاحق ہوسکتی ہے؟ علاوہ ازیں اولاد کی ضرورت وہ شخص بھی محسوس کرتا ہے جو اپنے بعد مملوکات کا وارث دیکھنا یا پسند کرتا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کی ذات کو تو فنا ہی نہیں اس لئے اللہ کے لئے اولاد قرار دینا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا (مريم: 90-91). ”اس بات سے کہ وہ کہتے ہیں رحمٰن کی اولاد ہے، قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں“۔ یونس
69 1- افترا کے معنی جھوٹی بات کہنے کے ہیں۔ اس کے بعد مزید "جھوٹ " کا اضافہ تاکید کے لئے۔ 2- اس سے واضح ہے کہ کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی یعنی اللہ کے غضب اور اس کے عذاب سے بچ جانا محض دنیا کی عارضی خوش حالی، کامیابی نہیں۔ جیسا کہ بہت سے لوگ کافروں کی عارضی خوشحالی سے مغالطے کا اور شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے اگلی آیت میں فرمایا: ”یہ دنیا میں تھوڑا سا عیش کرلیں پھر ہمارے ہی پاس ان کو آنا ہے“ یعنی یہ دنیا کا عیش، آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل اور تھوڑا سا ہے جو شمار میں نہیں۔ اس کے بعد انہیں عذاب شدید سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کافروں، مشرکوں اور اللہ کے نافرمانوں کی دنیاوی خوشحالی اور مادی ترقیاں، یہ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ یہ قومیں کامیاب ہیں اور اللہ تعالٰی ان سے خوش ہے۔ یہ مادی کامیابیاں ان کی جہد مسلسل کا ثمرہ ہیں جو اسباب ظاہر کے مطابق ہر اس قوم کو حاصل ہوسکتی ہیں۔ جو اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی طرح محنت کرے گی، چاہے وہ مومن ہو یا کافر۔ علاوہ ازیں یہ عارضی کامیابیاں اللہ کے قانون مہلت کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہیں۔ جس کی وضاحت اس سے قبل بعض جگہ ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ یونس
70 یونس
71 1- یعنی جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کی مدد بھی حاصل کر لو ”اگر وہ تمہارے زعم کے مطابق تمہاری مدد کر سکتے ہیں“۔ 2- غُمَّۃً کے دوسرے معنی ہیں، ابہام اور پوشیدگی۔ یعنی میرے خلاف تمہاری تدبیر واضح اور غیر مبہم ہونی چاہئے۔ یونس
72 1- کہ جس کی وجہ سے تم یہ تہمت لگا سکو کہ دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو مال و دولت کا اکٹھا کرنا ہے۔ 2- حضرت نوح (عليہ السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی رہا گو شرائع مختلف اور مناہج متعدد رہے۔ جیسا کہ آیت ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا (المائدة: 48)، سے واضح ہے۔ لیکن دین سب کا اسلام تھا۔ ملاحظہ ہو سورۃ النمل 91، سورہ بقرہ 131-132، سورہ یوسف،101۔ سورہ یونس 84، سورہ اعراف 126، سورہ نمل 44، سورہ مائدہ 44 اور 111 اور سورہ انعام 162- 163۔ یونس
73 1- یعنی قوم نوح (عليہ السلام) نے تمام تر وعظ و نصیحت کے باوجود جھٹلانے کا راستہ نہیں چھوڑا چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت نوح (عليہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر بچا لیا اور باقی سب کو حتٰی کہ حضرت نوح (عليہ السلام) کے ایک بیٹے کو بھی غرق کر دیا۔ 2- یعنی زمین میں ان سے بچنے والوں کو ان سے پہلے کے لوگوں کا جانشین بنایا۔ پھر انسانوں کی آئندہ نسل انہی لوگوں بالخصوص حضرت نوح (عليہ السلام) کے تین بیٹوں سے چلی، اسی لئے حضرت نوح (عليہ السلام) آدم ثانی کہا جاتا ہے۔ یونس
74 1- یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے سچے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ 2- لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائے، محض اس لئے کہ جب اول اول یہ رسول ان کے پاس آئے تو فوراً بغیر غور و فکر کئے، ان کا انکار کر دیا۔ اور یہ پہلی مرتبہ کا انکار ان کے لئے مستقل حجاب بن گیا۔ اور وہ یہی سوچتے رہے کہ ہم تو پہلے انکار کر چکے ہیں، اب اس کو کیا ماننا، لہذا ایمان سے محروم رہے۔ 3- یعنی جس طرح ان گذشتہ قوموں پر انکے کفر و تکذیب کی وجہ سے مہریں لگتی رہیں ہیں اسی طرح آئندہ بھی جو قوم رسولوں کو جھٹلائے گی اور اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گی، ان کے دلوں پر مہر لگتی رہے گی اور ہدایت سے وہ، اسی طرح محروم رہے گی، جس طرح گذشتہ قومیں محروم رہیں۔ یونس
75 1- رسولوں کے عمومی ذکر کے بعد، حضرت موسیٰ و ہارون علیہا اسلام کا ذکر کیا جا رہا ہے، درآں حالیکہ رسول کے تحت میں وہ بھی آجاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا شمار جلیل القدر رسولوں میں ہوتا ہے اس لئے خصوصی طور پر ان کا الگ ذکر فرما دیا۔ 2- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے معجزات، بالخصوص نو آیات بینات، جن کا ذکر اللہ نے سورت نبی اسرائیل آیت 101 میں کیا ہے۔ مشہور ہیں۔ 3- لیکن چونکہ وہ بڑے بڑے جرائم اور گناہوں کے عادی تھے۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کے ساتھ بھی استکبار کا معاملہ کیا۔ کیونکہ ایک گناہ، دوسرے گناہ کا ذریعہ بنتا اور گناہوں پر اصرار بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جرأت پیدا کرتا ہے۔ یونس
76 1- جب انکار کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں ہوتی تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔ یونس
77 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے کہا ذرا سوچو تو سہی، حق کی دعوت اور صحیح بات کو تم جادو کہتے ہو، بھلا یہ جادو ہے؟ جادوگر تو کامیاب ہی نہیں ہوتے۔ یعنی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے اور ناپسندیدہ انجام سے بچنے میں وہ ناکام ہی رہتے ہیں اور میں تو اللہ کا رسول ہوں، مجھے اللہ کی مدد حاصل ہے اور اس کی طرف سے مجھے معجزات اور آیات بینات عطا کی گئی ہیں مجھے سحر وساحری کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اللہ کے عطا کردہ معجزات کے مقابلے میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟۔ یونس
78 1- یہ منکرین کی دیگر حجتیں ہیں جو دلائل سے عاجز آکر، پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم ہمارے آباء واجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو، دوسرے یہ کہ ہمیں جاہ و ریاست حاصل ہے، اسے ہم سے چھین کر خود اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہو اسلیے ہم تو کبھی بھی تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی تنقید آباء پر اصرار اور دنیاوی وجہ کی خواہش نے انہیں ایمان لانے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد آگے وہی قصہ ہے کہ فرعون نے ماہر جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا، جیسا کہ سورہ اعراف میں گزرا اور سورہ طہ میں بھی اس کی کچھ تفصیل آئے گی۔ یونس
79 یونس
80 یونس
81 1- چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بھلا جھوٹ بھی، سچ کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟ جادوگروں نے، چاہے وہ اپنی فن میں کتنے ہی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، جو کچھ پیش کیا، وہ جادو ہی تھا اور نظر کی شعبدہ بازی ہی تھی اور جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا پھینکا تو اس نے ساری شعبدہ بازیوں کو آن واحد میں ختم کر دیا۔ 2- اور یہ جادوگر بھی مفسدین تھے، جنہوں نے محض دنیا کمانے کے لئے جادوگری کا فن سیکھا ہوا تھا اور جادو کے کرتب دکھا کر لوگوں کو بیوقوف بناتے تھے، اللہ تعالٰی ان کے اس عمل فساد کو کس طرح سنوار سکتا تھا؟۔ یونس
82 1- یا کلمات سے مراد وہ دلائل و براہین ہیں، جو اللہ تعالٰی اپنی کتابوں میں اتارتا رہا جو پیغمبروں کو وہ عطا فرماتا تھا۔ یا وہ معجزات ہیں جو اللہ تعالٰی کے حکم سے انبیاء کے ہاتھوں سے صادر ہوتے تھے، یا اللہ کا وہ حکم ہے جو لفظ کُنْ سے صادر فرماتا ہے۔ یونس
83 1- قَوْمِهِ کے ”ہ“ ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو قرار دیا ہے۔ کیونکہ آیت میں ضمیر سے پہلے انہی کا ذکر ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ تو ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی صورت میں انہیں مل گئے اور اس اعتبار سے سارے بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ ﴿ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ﴾ سے مراد، فرعون کی قوم سے تھوڑے سے لوگ ہیں، جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لائے۔ انہیں میں سے اس کی بیوی (حضرت آسیہ) بھی ہیں۔ 2- قرآن کریم کی یہ صراحت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایمان لانے والے تھوڑے سے لوگ فرعون کی قوم میں سے تھے، کیونکہ انہی کو فرعون اس کے درباریوں اور حکام سے تکلیف پہنچانے کا ڈر تھا۔ بنی اسرئیل، ویسے تو فرعون کی غلامی و محکومی کی ذلت ایک عرصے سے برداشت کر رہے تھے۔ لیکن موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، نہ انہیں اس وجہ سے مزید تکالیف کا اندیشہ تھا۔ 3- اور ایمان لانے والے اس کے اسی ظلم و ستم کی عادت سے خوف زدہ تھے۔ یونس
84 1- بنی اسرائیل، فرعون کی طرف سے جس ذلت اور رسوائی کا شکار تھے، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے آنے کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی، اس لئے وہ سخت پریشان تھے، بلکہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے انہوں نے یہ تک کہہ دیا، اے موسٰی، جس طرح تیرے آنے سے پہلے ہم فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے تکلیفوں میں مبتلا تھے، تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ جس پر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے انہیں کہا تھا کہ امید ہے کہ میرا رب جلدی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تم صرف ایک اللہ سے مدد چاہو اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو (ملاحظہ ہو سورۃ الاعراف آیات 128-129) یہاں بھی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے انہیں تلقین کی کہ اگر تم اللہ کے سچے فرمانبردار ہو تو اسی پر توکل کرو۔ یونس
85 یونس
86 1- اللہ پر توکل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کیں۔ اور یقینا اہل ایمان کے لئے یہ ایک بہت بڑا ہتھیار بھی ہے اور سہارا بھی۔ یونس
87 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں کو ہی مسجدیں بنا لو اور ان کا رخ اپنے قبلے (بیت المقدس) کی طرف کر لو تاکہ تمہیں عبادت کرنے کے لئے باہر عبادت خانوں غیرہ میں جانے کی ضرورت ہی نہ رہے، جہاں تمہیں فرعون کے کارندوں کے ظلم و ستم کا ڈر رہتا ہے۔ یونس
88 1- جب موسیٰ (عليہ السلام) نے دیکھا کہ فرعون اور اس کی قوم پر وعظ نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور اس طرح معجزات دیکھ کر بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو پھر ان کے حق میں بد دعا فرمائی۔ جسے اللہ نے یہاں نقل فرمایا ہے۔ 2- یعنی اگر یہ ایمان لائیں بھی تو عذاب دیکھنے کے بعد لائیں، جو ان کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا۔ یہاں ذہن میں یہ اشکال نہیں آنا چاہیے کہ پیغمبر تو ہدایت کی دعا کرتے ہیں نہ کہ ہلاکت کی بد دعا۔ اس لئے کہ دعوت و تبلیغ اور ہر طرح سے اتمام حجت کے بعد، جب یہ واضح ہو جائے کہ اب ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو پھر آخری چارہ کار یہی رہ جاتا ہے کہ اس قوم کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے، یہ گو اللہ کی مشیت ہی ہوتی ہے جو بے اختیار پیغمبر کی زبان پر جاری ہو جاتی ہے جس طرح حضرت نوح (عليہ السلام) نے بھی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر اپنی قوم کے بارے بد دعا فرمائی۔ ﴿رَبِّ لا تَذَرْ عَلَى الأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا﴾ ”اے رب زمین پر ایک کافر کو بھی بسا نہ رہنے دے“۔ یونس
89 1- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اپنی بد دعا پر قائم رہنا، چاہے اس کے ظہور میں تاخیر ہو جائے۔ کیونکہ تمہاری دعا تو یقینا قبول کر لی گئی لیکن ہم اسے عملی جامہ کب پہنائیں گے؟ یہ خالص ہماری مشیت و حکمت پر موقوف ہے۔ چنانچہ بعض مفسرین نے بیان کیا کہ اس بد دعا کے چالیس سال بعد فرعون اور اس کی قوم ہلاک کی گئی اور بد دعا کے مطابق فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس وقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا، جس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسرا مطلب یہ کہ تم اپنی تبلیغ و دعوت۔ بنی اسرائیل کی ہدایت وراہنمائی اور اس کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جد و جہد جاری رکھو۔ 2- یعنی جو لوگ اللہ کی سنت، اس کے قانون، اور اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں جانتے، تم ان کی طرح مت ہونا بلکہ اب انتظار اور صبر کرو، اللہ تعالٰی اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق جلد یا بہ دیر اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ یونس
90 1- یعنی سمندر کو پھاڑ کر، اس میں خشک راستہ بنا دیا۔ (جس طرح کہ سورہ بقرہ آیت 50 میں گزرا اور مزید تفصیل سورہ شعراء میں آئے گی) اور تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پہنچا دیا۔ 2- یعنی اللہ کے حکم سے معجزانہ طریق پر بنے ہوئے خشک راستے پر، جس پر چل کر موسیٰ (عليہ السلام) اور ان کی قوم نے سمندر پار کیا تھا، فرعون اور اس کا لشکر بھی سمندر پار کرنے کی غرض سے چلنا شروع ہوگیا۔ مقصد یہ تھا کہ موسیٰ (عليہ السلام) بنی اسرائیل کو جو میری غلامی سے نجات دلانے کے لئے راتوں رات لے آیا تو اسے دوبارہ قید غلامی میں لایا جائے۔ جب فرعون اور اس کا لشکر، اس سمندری راستے میں داخل ہوگیا تو اللہ نے سمندر کو حسب سابق جاری ہو جانے کا حکم دے دیا۔ نتیجتاً فرعون سمیت سب کے سب غرق دریا ہوگئے۔ یونس
91 1- اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ اب ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ جب ایمان لانے کا وقت تھا، اس وقت تو نافرمانیوں اور فساد انگیزیوں میں مبتلا رہا۔ یونس
92 1- جب فرعون غرق ہوگیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہ آتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے سمندر کو حکم دیا، کہ اس نے اس کی لاش کو باہر خشکی پر پھینک دیا، جس کا مشاہدہ پھر سب نے کیا۔ مشہور ہے کہ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ یونس
93 1- یعنی ایک تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے، آپس میں اختلاف شروع کر دیا، پھر یہ اختلاف بھی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ علم آجانے کے بعد کیا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اختلاف محض عناد اور تکبر کی بنیاد پر تھا۔ یونس
94 1- یہ خطاب یا تو عام انسانوں کو ہے یا پھر نبی کے واسطے سے امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ کیونکہ نبی کو تو وحی کے بارے میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جو کتاب پڑھتے ہیں، ان سے پوچھ لیں کا مطلب ہے کہ قرآن مجید سے پہلے کی آسمانی کتابیں (تورات و انجیل وغیرہ) یعنی جن کے پاس یہ کتابیں موجود ہیں ان سے اس قرآن کی بابت معلوم کریں کیونکہ ان میں اس کی نشانیاں اور آخری پیغمبر کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ یونس
95 1- یہ بھی دراصل مخاطب امت کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تکذیب کا راستہ خسران اور تباہی کا راستہ ہے۔ یونس
96 یونس
97 1- یہ وہی لوگ ہیں جو کفر و مصیت الٰہی میں اتنے غرق ہو چکے ہوتے ہیں کہ کوئی و عظ ان پر اثر نہیں کرتا اور کوئی دلیل ان کے کارگر نہیں ہوتی۔ اسلئے نافرمانیاں کرکے قبول حق کی فطری استعداد و صلاحیت کو وہ ختم کر لئے ہوتے ہیں، ان کی آنکھیں اگر کھلتی ہیں تو اس وقت، جب عذاب الٰہی ان کے سروں پر آجاتا ہے، تب وہ ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ﴾ (المومن:85) ”جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا“۔ یونس
98 1- لَوْلَا یہاں تحضیض کے لیے هَلاَّ کے معنی میں ہے یعنی جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا، ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایسا ایمان لاتی جو اس کے لئے فائدہ مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس (عليہ السلام) کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو اللہ نے ان سے عذاب دور کر دیا مختصر پس منظر یہ کہ یونس (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہو رہی تو انہوں نے قوم میں اعلان کیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائے گا اور وہ خود وہاں سے نکل گئے۔ جب عذاب بادل کی طرح ان پر امڈ آیا تو وہ بچوں عورتوں سمیت ایک میدان میں جمع ہوگئے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں توبہ واستفغار شروع کر دیا۔ اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان سے عذاب ٹال دیا۔ حضرت یونس (عليہ السلام) آنے جانے والے مسافروں سے اپنی قوم کا حال معلوم کرتے رہتے تھے، انہیں جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے ان کی قوم سے عذاب ٹال دیا ہے، تو انہوں نے اپنی تکذیب کے بعد اس قوم میں جانا پسند نہیں کیا بلکہ ان سے ناراض ہو کر وہ کسی اور طرف روانہ ہوگئے، جس پر وہ کشتی کا واقعہ پیش آیا (جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی)۔ (فتح القدیر) البتہ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ قوم یونس ایمان کب لائی؟ عذاب دیکھ کر لائی، جب کہ ایمان لانا نافع نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے اسے اپنے اس قانون سے مستثنی کر کے اس کے ایمان کو قبول کرلیا۔ یا ابھی عذاب نہیں آیا تھا یعنی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان نافع نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم قوم یونس کا الا کے ساتھ جو استثنا کیا ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ 2- قرآن نے دنیوی عذاب کے دور کرنے کی صراحت تو کی ہے، اخروی عذاب کی بابت صراحت نہیں کی، اس لیے بعض مفسرین کے خیال میں اخروی عذاب ان سے ختم نہیں کیا گیا۔ لیکن جب قرآن نے یہ وضاحت کردی کہ دنیاوی عذاب، ایمان لانے کی وجہ سے ٹالا گیا تھا، تو پھر اخروی عذاب کی بابت صراحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اخروی عذاب کا فیصلہ تو ایمان اور عدم ایمان کی بنیاد پر ہی ہونا ہے۔ اگر ایمان لانے کے بعد قوم یونس اپنے ایمان پر قائم رہی ہوگی، (جس کی صراحت یہاں نہیں ہے)تو یقینا وہ اخروی عذاب سے بھی محفوظ رہے گی۔ البتہ بصورت دیگر عذاب سے بچنا صرف دنیا ہی کی حد تک ہی ہوگا۔ واللہ اعلم یونس
99 1- لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، کیونکہ یہ اس کی اس حکمت و مصلحت کے خلاف ہے، جسے مکمل طور پر وہی جانتا ہے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ نبی (ﷺ) کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں، اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مشیت الٰہی جو حکمت بالغہ اور مصلحت راجحہ پر مبنی ہے، اس کی مقتضی نہیں۔ اس لئے آگے فرمایا کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر کیسے مجبور کر سکتے ہیں؟ جب کہ آپ کے اندر اس کی طاقت ہے نہ اس کے آپ مکلف ہی ہیں۔ یونس
100 1- گندگی سے مراد عذاب یا کفر ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کی آیات پر غور نہیں کرتے، وہ کفر میں مبتلا رہتے ہیں اور یوں عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یونس
101 یونس
102 1- یعنی یہ لوگ، جن پر کوئی دلیل اور دھمکی اثر انداز نہیں ہوتی، لہذا ایمان نہیں لاتے۔ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی تاریخ دہرائی جائے جن سے پچھلی امتیں گزر چکی ہیں۔ یعنی اہل ایمان کو بچا کر (جیسا کہ اگلی آیت میں وضاحت ہے) باقی سب کو ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ اگر اسی بات کا انتظار ہے تو ٹھیک ہے، تم بھی انتظار کرو، میں بھی انتظار کر رہا ہوں۔ یونس
103 یونس
104 1- اس آیت میں اللہ تعالٰی اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ تمام لوگوں پر واضح کر دیں کہ میرا طریقہ اور مشرکین کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ 2- یعنی اگر تم میرے دین کے بارے میں شک کرتے ہو، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اور یہی دین حق ہے نہ کہ کوئی اور تو یاد رکھو میں ان معبودوں کی کبھی اور کسی حال میں عبادت نہیں کرونگا جن کی تم کرتے ہو۔ 3- یعنی موت و حیات اسی کے ہاتھ میں ہے، اسی لئے جب وہ چاہے تمہیں ہلاک کر سکتا ہے کیونکہ انسانوں کی جانیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ یونس
105 1- حَنِیْف کے معنی ہیں۔ یک سو، یعنی ہر دین کو چھوڑ کر صرف دین اسلام کو اپنانا اور ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونا۔ یونس
106 1- یعنی اگر اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کو آپ پکاریں گے جو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ ظلم کا ارتکاب ہوگا، ظلم کے معنی ہیں ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحِلِّهِ“، کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ عبادت چونکہ صرف اللہ کا حق ہے جس نے تمام کائنات بنائی ہے اور تمام اسباب حیات بھی وہی پیدا کرتا ہے تو اس مستحق عبادت ذات کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا نہایت ہی غلط ہے اس لئے شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں بھی خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) کو ہے لیکن اصل مخاطب افراد انسانی اور امت محمدیہ ہے۔ یونس
107 1- خیر کو یہاں فضل سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھلائی کا معاملہ فرماتا ہے، اعمال کے اعتبار سے اگرچہ بندے اس کے مستحق نہیں۔ لیکن یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ اعمال سے قطع نظر کرتے ہوئے، انسانوں پر پھر بھی رحم و کرم فرماتا ہے۔ یونس
108 1- حق سے مراد قرآن اور دین اسلام ہے، جس میں توحید الٰہی اور رسالت محمدیہ پر ایمان نہایت ضروری ہے۔ 2- یعنی اس کا فائدہ اسی کو ہوگا کہ قیامت والے دن اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا۔ 3- یعنی اس کا نقصان اور وبال اسی پر پڑے گا کہ قیامت کو جہنم کی آگ میں جلے گا۔ گویا کوئی ہدایت کا راستہ اپنائے گا، تو اس سے کوئی اللہ کی طاقت میں اضافہ نہیں ہو جائے گا اور اگر کوئی کفر اور ضلالت کو اختیار کرے گا تو اس سے اللہ کی حکومت و طاقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہو جائے گا۔ گویا ایمان و ہدایت کی ترغیب اور کفر وضلالت سے بچنے کی تاکید وترتیب، دونوں سے مقصد انسانوں ہی کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ اللہ کی اپنی کوئی غرض نہیں۔ 4- یعنی یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی گئی ہے کہ میں ہر صورت میں تمہیں مسلمان بنا کر چھوڑوں بلکہ میں تو صرف بشیر اور نذیر اور مبلغ اور داعی ہوں۔ میرا کام صرف اہل ایمان کو خوشخبری دینا، نافرمانوں کو اللہ کے عذاب اور اس کے مواخذے سے ڈرانا اور اللہ کے پیغام کی دعوت وتبلیغ ہے۔ کوئی اس دعوت کو مان کر ایمان لاتا ہے تو ٹھیک ہے، کوئی نہیں مانتا تو میں اس بات کا مکلف نہیں ہوں کہ اس سے زبردستی منوا کر چھوڑوں۔ یونس
109 1- اللہ تعالٰی جس چیز کی وحی کرے، اسے مضبوطی سے پکڑ لیں، جس کا امر کرے، اسے عمل میں لائیں، جس سے روکے رک جائیں اور کسی چیز میں کوتاہی نہ کریں۔ اور وحی کی اطاعت وپیروی میں جو تکلیفیں آئیں، مخالفین کی طرف سے جو ایذائیں پہنچیں اور تبلیغ و دعوت کی راہ میں جن دشواریوں سے گزرنا پڑے، ان پر صبر کریں اور ثابت قدمی سے سب کا مقابلہ کریں۔ 2- کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے، اس کی قدرت و طاقت بھی وسیع ہے اور اس کی رحمت بھی عام ہے اس لئے اس سے زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟۔ یونس
0 ھود
1 1- یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔ 2- پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔ 3- یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔ ھود
2 ھود
3 1- یہاں اس سامان دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر " متاع غرور " دھوکے کا سامان کہا ہے، یہاں اسے " متاع حسن " قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کر لے گا، اس کے لئے یہ متاع غرور ہے، کیونکہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے لئے یہ چند روزہ سامان زندگی متاع حسن ہے، کیونکہ اس نے اسے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔ 2- بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ھود
4 ھود
5 1- اس کی شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے، اس لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بخاری (تفسیر سورت ہود) میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہم بستری کے وقت برہنہ ہونا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اس لئے ایسے موقع پر وہ شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دوہرا کر لیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو کپڑوں میں ڈھانپ لیتے تھے، تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور اعلانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اس لئے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر بھی وہ نہیں چھپ سکتے، تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ؟۔ ھود
6 1- یعنی وہ کفیل اور ذمے دار ہے۔ زمین پر چلنے والی ہر مخلوق، انسان ہو یا جن، چرند ہو یا پرند، چھوٹی ہو یا بڑی، بحری ہو یا بری۔ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق وہ خوراک مہیا کرتا ہے۔ 2- مستقر اور مستودع کی تعریف میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک منتہائے سیر (یعنی زمین میں چل پھر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹھکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے نزدیک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزدیک زندگی میں انسان یا حیوان جہاں رہائش پذیر ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے (تفسیر ابن کثیر) امام شوکانی کہتے ہیں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمین ہے جس میں دفن ہو اور امام حاکم کی ایک روایت کی بنیاد پر اسی کو ترجیح دی ہے بہرحال جو بھی مطلب لیا جائے آیت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ اللہ تعالٰی کو ہر ایک کے مستقر ومستودع کا علم ہے اس لیے وہ ہر ایک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے۔ ھود
7 1- یہی بات صحیح احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل، مخلوقات کی تقدیر لکھی ' اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا“۔ (صحيح مسلم، كتاب القدر, نیز دیکھئے, صحيح بخاری، كتاب بدء الخلق) 2- یعنی یہ آسمان و زمین یوں ہی عبث اور بلا مقصد نہیں بنائے، بلکہ اس سے مقصود انسانوں (اور جنوں) کی آزمائش ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے؟۔ ملحوظہ: اللہ تعالٰی نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی فوت ہو جائے گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا، پھر وہ چاہے کتنا بھی زیادہ ہو، اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ھود
8 1- یہاں استعجال (جلد طلب کرنے) کو استہزا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ وہ استعجال، بطور استہزا ہی ہوتا تھا بہرحال مقصود یہ سمجھانا ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے تاخیر پر انسان کو غفلت نہیں کرنی چاہیے اس کی گرفت کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ ھود
9 1- انسانوں میں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہیں اس میں اور اگلی آیت میں ان کا بیان ہے۔ نا امیدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔ ھود
10 1- یعنی سمجھتا ہے کہ سختیوں کا دور گزر گیا، اب اسے کوئی تکلیف نہیں آئے گی۔ أُمَّةٌ کے مختلف مفہوم: آیت نمبر 8میں أُمَّةٌ کا لفظ آیا ہے۔ یہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ یہ ام سے مشتق ہے، جس کے معنی قصد کے ہیں۔ یہاں اس کے معنی اس وقت اور مدت کے ہیں جو نزول عذاب کے لیے مقصود ہے۔ (فتح القدیر) سورہ یوسف کی آیت 45وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ» میں یہی مفہوم ہے اس کے علاوہ جن معنوں میں اس کا استعمال ہوا ہے، ان میں ایک امام وپیشوا ہے۔ جیسے ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً﴾ ( النحل:120) ملت اور دین ہے، جیسے ﴿إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ﴾ ( الزخرف:23) جماعت اور طائفہ ہے۔ جیسے ﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ﴾ ( القصص:23)، ﴿وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ﴾ (الأعراف:159) وغیرھا۔ وہ مخصوص گروہ یا قوم ہے جس کی طرف کوئی رسول مبعوث ہو۔﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ﴾ (يونس:47) اس کو امت دعوت بھی کہتے ہیں اور اسی طرح پیغمبر پر ایمان لانے والوں کو بھی امت یا امت اتباع یا امت اجابت کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر) 2- یعنی جو کچھ اس کے پاس ہے، اس پر اتراتا اور دوسروں پر فخر و غرور کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم ان صفات مذمومہ سے اہل ایمان اور صاحب اعمال صالحہ مستشنٰی ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے۔ ھود
11 1- یعنی اہل ایمان، راحت و فراغت ہو یا تنگی اور مصیبت، دونوں حالتوں میں اللہ کے احکام کے مطابق طرز عمل اختیار کرتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے قسم کھا کر فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالٰی مومن کے لئے جو بھی فیصلہ فرماتا ہے، اس میں اس کے لئے بہتری کا پہلو ہوتا ہے۔ اگر اس کو راحت پہنچتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر کرتا ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لئے بہتر (یعنی اجر و ثواب کا باعث) ہے۔ یہ امتیاز ایک مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں“۔ (صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب المؤمن أمره كله خير) اور ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ”مومن کو جو بھی فکر و غم اور تکلیف پہنچتی ہے حتی کہ اسے کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کی غلطیاں معاف فرما دیتا ہے“۔(مسند احمد، جلد3، ص4) سورہ معاج کی آیات 19 تا 22 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ ھود
12 1- مشرکین نبی (ﷺ) کی بابت کہتے رہتے تھے کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ نازل کیوں نہیں ہوتا، یا اس کی طرف سے کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا، (الفرقان-18)ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ”ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ آپ کی بابت جو باتیں کہتے ہیں“ ان سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔ (سورۃ الحجر:98) اس آیت میں انہی باتوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ شاید آپ کا سینہ تنگ ہو اور کچھ باتیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں اور وہ مشرکین پر گراں گزرتی ہیں ممکن ہے آپ وہ انہیں سنانا پسند نہ کریں آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے، وہ آپ ہر صورت میں کئے جائیں۔ ھود
13 1- امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالٰی نے چلینج دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ محمد (ﷺ) کا بنایا ہوا قرآن ہے، تو اس کی نظیر پیش کر کے دکھا دو، اور تم جس کی چاہو، مدد حاصل کر لو، لیکن تم کبھی ایسا نہیں کر سکو گے۔ فرمایا ﴿قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا﴾(الاسراء:88) ’’اعلان کر دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا مشکل ہے، گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں‘‘۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے یہ چیلنج دیا کہ پورا قرآن بنا کر پیش نہیں کر سکتے تو دس سورتیں ہی بنا کر پیش کر دو۔ جیسا کہ اس مقام پر ہے۔ پھر تیسرے نمبر پر چیلنج دیا کہ چلو ایک سورت بنا کر پیش کرو جیسا کہ سورہ یونس کی آیت نمبر 39 اور سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا (تفسیر ابن کثیر، زیر بحث آیت سورہ یونس) اور اس بنا پر آخری چیلنچ یہ ہو سکتا ہے کہ اس جیسی ایک بات ہی بنا کر پیش کر دو۔ ﴿فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ﴾ (الطور:34) مگر ترتیب نزول سے چیلنج کی اس ترتیب کی تائید نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم با الصواب۔ ھود
14 1- یعنی کیا اس کے بعد بھی کہ تم اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر ہو، یہ ماننے کے لئے، کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے، آمادہ نہیں ہو اور نہ مسلمان ہونے کو تیار ہو؟ ھود
15 ھود
16 1- ان دو آیات کے بارے میں بعض کا خیال ہے اس میں اہل ریا کا ذکر ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں اور بعض کے نزدیک طالبان دنیا کا ذکر ہے۔ کیونکہ دنیادار بھی بعض اچھے عمل کرتے ہیں، اللہ تعالٰی ان کی جزا انہیں دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں ان کے لئے سوائے عذاب کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اسی مضمون کو قرآن مجید سورہ بنی اسرائیل آیات 18-21 اور سورہ، شوریٰ آیت 20 میں بیان کیا گیا ہے۔ ھود
17 1- منکرین اور کافرین کے مقابلے میں اہل فطرت اور اہل ایمان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ”اپنے رب کی طرف سے دلیل“ سے مراد وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالٰی نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور وہ ہے اللہ واحد کا اعتراف اور اسی کی عبادت جس طرح کہ نبی(ﷺ) کا فرمان ہے کہ ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“(صحيح بخاری- كتاب الجنائز ومسلم- كتاب القدر) یتلوہ کے معنی ہیں اس کے پیچھے یعنی اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو گواہ سے مراد قرآن ، یا محمد (ﷺ) ہیں ، جو اس فطرت صحیحہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس سے پہلے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی کتاب تورات بھی جو پیشوا بھی ہے اور رحمت کا سبب بھی یعنی کتاب موسیٰ (عليہ السلام) بھی قرآن پر ایمان لانے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منکر اور کافر ہے اور اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے دلیل پر قائم ہے، اس پر ایک گواہ (قرآن، یا پیغمبر اسلام ﷺ) بھی ہے، اسی طرح اس سے قبل نازل ہونے والی کتاب تورات، میں بھی اس کے لئے پیشوائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اور وہ ایمان لے آتا ہے کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک مومن ہے اور دوسرا کافر۔ ایک ہر طرح کے دلائل سے لیس ہے اور دوسرا بالکل خالی ہے۔ 2- یعنی جن کے اندر مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے وہ قرآن کریم اور نبی پر ایمان لائیں گے۔ 3- تمام فرقوں سے مراد روئے زمین پر پائے جانے والے مذاہب ہیں، یہودی، عیسائی، زرتشی، بدھ مت، مجوسی اور مشرکین و کفار وغیرہ، جو بھی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے یہ وہی مضمون ہے جسے اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کے جس یہودی، یا عیسائی نے بھی میری نبوت کی بابت سنا اور پھر مجھ پر ایمان نہیں لایا وہ جہنم میں جائے گا“ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا (ﷺ )إلى جميع الناس) یہ مضمون اس سے پہلے سورہ بقرہ آیت 62 اور سورہ نساء آیت 150-152 میں بھی گزر چکا ہے۔ 4- یہ وہی مضمون ہے جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ﴿وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ﴾ (سورۃ یوسف:103) ”تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے“، ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ( سورة سبأ:20) ”ابلیس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، مومنوں کے ایک گروہ کے سوا، سب اس کے پیروکار بن گئے“۔ ھود
18 1- یعنی جن کا اللہ نے کائنات میں تصرف کرنے کا یا آخرت میں شفاعت کا اختیار نہیں دیا ہے۔ ان کی بابت یہ کہا جائے کہ اللہ نے انہیں یہ اختیار دیا ہے۔ 2- حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے کہ " قیامت والے دن اللہ تعالٰی ایک مومن سے اس کے گناہوں کا اقرار و اعتراف کروائے گا کہ تجھے معلوم ہے کہ تو نے فلاں گناہ بھی کیا تھا، فلاں بھی کیا تھا، وہ مومن کہے گا ہاں ٹھیک ہے اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ میں نے ان گناہوں پر دنیا میں بھی پردہ ڈالے رکھا تھا، جا آج بھی انہیں معاف کرتا ہوں، لیکن دوسرے لوگ یا کافروں کا معاملہ ایسا ہوگا کہ انہیں گواہوں کے سامنے پکارا جائے گا اور گواہ یہ گواہی دیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا (صحيح بخاری- تفسير سورة هود)۔ ھود
19 1- یعنی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے، اس میں کجیاں تلاش کرتے اور لوگوں کو متنفر کرتے ہیں۔ ھود
20 1- یعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا تک پہنچا ہوا تھا کہ یہ اسے سننے اور دیکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے یا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے ان کو کان اور آنکھیں تو دی تھیں لیکن انہوں نے ان سے کوئی بات نہ سنی اور نہ دیکھی۔ گویا: ﴿فَمَآ اَغْنٰى عنہمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ﴾ (الاحقاف:26) ”نہ ان کے کانوں نے انہیں کوئی فائدہ پہنچایا، نہ ان کی آنکھوں اور دلوں نے“، کیونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق دیکھنے سے اندھے بنے رہے، جس طرح کہ وہ جہنم میں داخل ہوتے ہوئے کہیں گے، ﴿لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾ (الملک:10) ”اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج جنہم میں نہ جاتے“۔ ھود
21 ھود
22 ھود
23 ھود
24 1- پچھلی آیات میں مومنین اور کافرین اور سعادت مندوں اور بدبختوں، دونوں کا تذکرہ فرمایا۔ اب اس میں دونوں کی مثال بیان فرما کر دونوں کی حقیقت کو مزید واضح کیا جا رہا ہے۔ فرمایا، ایک کی مثال اندھے اور بہرے کی طرح ہے اور دوسرے کی دیکھنے اور سننے والے کی طرح۔ کافر دنیا میں حق کا روئے زیبا دیکھنے سے محروم اور آخرت میں نجات کے راستہ سے بےبہرہ، اسی طرح حق کے دلائل سننے سے بےبہرہ ہوتا ہے، اسی لئے ایسی باتوں سے محروم رہتا ہے جو اس کے لئے مفید ہوں۔ اس کے برعکس مومن سمجھ دار، حق کو دیکھنے والا اور حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ حق اور خیر کی پیروی کتا ہے، دلائل کو سنتا اور ان کے ذریعے سے شبہات کا ازالہ کرتا اور باطل سے اجتناب کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام نفی کے لیے ہے۔ یعنی دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔﴿لا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾(الحشر:20) ”جنتی دوزخی برابر نہیں ہو سکتے جنتی تو کامیاب ہونے والے ہیں“، ایک اور مقام پر اسے اس طرح بیان فرمایا ”اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔ اندھیرے اور روشنی، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندے اور مردے برابر نہیں“۔ (سورہ فاطر:19-20) ھود
25 ھود
26 1- یہ وہی دعوت توحید ہے جو ہر نبی نے آ کر اپنی اپنی قوم کو دی۔ جس طرح فرمایا ﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25) ”جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے، ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو“۔ 2- یعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لائے اور اس دعوت توحید کو نہیں اپنایا تو عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکو گے۔ ھود
27 1- یہ وہی شبہ ہے، جس کی پہلے کئی جگہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت و رسالت کا اجتماع بڑا عجیب تھا، جس طرح آج کے اہل بدعت کو بھی عجیب لگتا ہے اور وہ بشریت رسول (ﷺ) کا انکار کرتے ہیں۔ 2- حق کی تاریخ میں یہ بات بھی ہر دور میں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتداء میں اس کو اپنانے والے ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں بےنوا کم تر سمجھا جاتا تھا اور صاحب حیثیت اور خوش حال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتی کہ پیغمبروں کے پیروکاروں کی علامت بن گئی۔ چنانچہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفیان (رضی الله عنہ) سے نبی (ﷺ) کی بابت پوچھا تو اس میں ان سے ایک بات یہ بھی پوچھی کہ ”اس کے پیروکار معاشرے کے معزز سمجھے جانے والے لوگ ہیں یا کمزور لوگ“ حضرت ابو سفیان (رضی الله عنہ) نے جواب میں کہا ”کمزور لوگ“ جس پر ہرقل نے کہا ”رسولوں کے پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں“۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 7) قرآن کریم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خوش حال طبقہ ہی سب سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ (سورہ زخرف: 23) اور یہ اہل ایمان کی دنیاوی حیثیت تھی اور جس کے اعتبار سے اہل کفر انہیں حقیر اور کم تر سمجھتے تھے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ حق کے پیروکار معزز اور اشراف ہیں چاہے وہ مال ودولت کے اعتبار سے فروتر ہی ہوں اور حق کا انکار کرنے والے حقیر اور بےحیثیت ہیں چاہے وہ دنیوی اعتبار سے مال دار ہی ہوں۔ 3- اہل ایمان چونکہ، اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی عقل ودانش اور رائے کا استعمال نہیں کرتے، اس لئے اہل باطل یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بےسوچ سمجھ والے ہیں کہ اللہ کا رسول انہیں جس طرف موڑ دیتا ہے، یہ مڑ جاتے ہیں جس چیز سے روک دیتا ہے، رک جاتے ہیں۔ یہ بھی اہل ایمان کی ایک بڑی بلکہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ لیکن اہل کفر و باطل کے نزدیک یہ خوبی بھی ”عیب“ ہے۔ ھود
28 1- بَيِّنَةٍ سے مراد ایمان و یقین ہے اور رحمت سے مراد نبوت۔ جس سے اللہ تعالٰی نے حضرت نوح (عليہ السلام) کو سرفراز کیا تھا۔ 2- یعنی تم اس کے دیکھنے سے اندھے ہوگئے۔ چنانچہ تم نے اس کی قدر پہچانی اور نہ اسے اپنانے پر آمادہ ہوئے، بلکہ اس کو جھٹلایا اور اس کی تکذیب اور رد کے درپے ہوگئے۔ 3- جب یہ بات ہے تو ہدایت ورحمت تمہارے حصے میں کس طرح آ سکتی ہے؟۔ ھود
29 1- تاکہ تمہارے دماغوں میں یہ شبہ نہ آ جائے کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو دولت دنیا اکٹھا کرنا ہے۔ میں تو یہ کام صرف اللہ کے حکم پر اسی کی رضا کے لئے کر رہا ہوں، وہی مجھے اجر دے گا۔ 2- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح (عليہ السلام) کے سرداروں نے بھی معاشرے میں کمزور سمجھے جانے والے اہل ایمان کو حضرت نوح (عليہ السلام) سے اپنی مجلس یا اپنے قرب سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا ہوگا، جس طرح روسائے مکہ نے رسول اللہ سے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا، جس پر اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں تھیں ﴿وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ﴾ (سورة الأنعام: 52)، ”اے پیغمبر ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کرنا جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں“، ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عنہمْ﴾ (الكهف: 28)۔ ”اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھئے! جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں، اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے گزر کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کریں“۔ 3- یعنی اللہ اور رسول کے پیروکار کو حقیر سمجھنا اور پھر انہیں قرب نبوت سے دور کرنے کا مطالبہ کرنا، یہ تمہاری جہالت ہے۔ یہ لوگ تو اس لائق ہیں کہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے نہ کہ دور دھتکارا جائے۔ ھود
30 1- گویا ایسے لوگوں کو اپنے سے دور کرنا، اللہ کے غضب اور ناراضگی کا باعث ہے۔ ھود
31 1- بلکہ اللہ تعالٰی نے انہیں ایمان کی صورت میں خیر عظیم عطا کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ آخرت میں بھی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالٰی چاہے گا، تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گویا تمہارا ان کو حقیر سمجھنا ان کے لئے نقصان کا باعث نہیں، البتہ تم ہی عند اللہ مجرم ٹھہرو گے کہ اللہ کے نیک بندوں کو، جن کا اللہ کے ہاں بڑا مقام ہے، تم حقیر اور فرومایہ سمجھتے ہو۔ 2- کیونکہ میں ان کی بابت ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں، صرف اللہ جانتا ہے، تو یہ ظلم ہے۔ ھود
32 1- لیکن اس کے باوجود ہم ایمان نہیں لائے۔ 2- یہ وہی حماقت ہے جس کا ارتکاب گمراہ قومیں کرتی آئی ہیں کہ وہ اپنے پیغمبر سے کہتی رہی ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا کر ہمیں تباہ کروا دے۔ حالانکہ ان میں عقل ہوتی، تو وہ کہتیں کہ اگر سچا ہے اور واقعی اللہ کا رسول ہے، تو ہمارے لئے دعا کر کہ اللہ تعالٰی ہمارا سینہ بھی کھول دے تاکہ ہم اسے اپنا لیں۔ ھود
33 1- یعنی عذاب کا آنا خالص اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، یہ نہیں ہے کہ جب میں چاہوں، تم پر عذاب آ جائے۔ تاہم جب اللہ عذاب کا فیصلہ کر لے گا یا بھیج دے گا، تو پھر اس کو کوئی عاجز کرنے والا نہیں ہے۔ ھود
34 1- إِغْوَاءٌ بمعنی اضلال (گمراہ کرنا ہے)۔ یعنی تمہارا کفر وجحود اگر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں سے کسی انسان کو پلٹ کر آنا اور ہدایت کو اپنا لینا ناممکن ہے، تو اسی کیفیت کو اللہ تعالٰی کی طرف سے مہر لگا دینا کہا جاتا ہے، جس کے بعد ہدایت کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم بھی اسی خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہو تو پھر میں تمہاری خیر خواہی بھی کرنی چاہوں یعنی ہدایت پر لانے کی اور زیادہ کوشش کروں، تو یہ کوشش اور خیر خواہی تمہارے لئے مفید نہیں، کیونکہ تم گمراہی کے آخری مقام پر پہنچ چکے ہو۔ 2- ہدایت اور گمراہی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں وہ تمہیں تمہارے عملوں کی جزا دے گا۔ نیکوں کو انکے نیک عمل کی جزا اور بروں کو ان کی برائی کی سزا دے گا۔ ھود
35 1- بعض مفسرین کے نزدیک یہ مکالمہ قوم نوح (عليہ السلام) اور حضرت نوح (عليہ السلام) کے درمیان ہوا اور بعض کا خیال ہے کہ یہ جملہ معترضہ کے طور پر نبی اکرم (ﷺ) اور مشرکین مکہ کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ قرآن میرا گھڑا ہوا ہے اور میں اللہ کی طرف سے منسوب کرنے میں جھوٹا ہوں تو یہ میرا جرم ہے، اس کی سزا میں ہی بھگتوں گا۔ لیکن تم جو کچھ کر رہے ہو، جس سے میں بری ہوں، اس کا بھی تمہیں پتہ ہے؟ اس کا وبال تو مجھ پر نہیں، تم پر ہی پڑے گا کیا اس کی بھی تمہیں کچھ فکر ہے؟۔ ھود
36 1- یہ اس وقت کہا گیا کہ جب قوم نوح (عليہ السلام) نے عذاب کا مطالبہ کیا اور حضرت نوح (عليہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ یا رب! زمین پر ایک کافر بھی بسنے والا نہ رہنے دے۔ اللہ نے فرمایا: اب مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا، تو ان پر غم نہ کھا۔ ھود
37 1- ”یعنی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ”ہماری دیکھ بھال میں“ اس آیت میں اللہ رب العزت کے لئے صفت 'عین' کا اثبات ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور 'ہماری وحی سے' کا مطلب، اس کے طول و عرض وغیرہ کی جو کیفیات ہم نے بتلائی ہیں، اس طرح اسے بنا۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے کشتی کے طول و عرض، اس کی منزلوں اور کس قسم کی لکڑی اور دیگر سامان اس میں استعمال کیا گیا، اس کی تفصیل بیان کی ہے، جو ظاہر بات ہے کہ کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کی پوری تفصیل کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ 2- بعض نے اس سے مراد حضرت نوح (عليہ السلام) کے بیٹے اور اہلیہ کو لیا ہے جو مومن نہیں تھے اور غرق ہونے والوں میں سے تھے۔ بعض نے اس سے غرق ہونے والی پوری قوم مراد لی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی مہلت طلب مت کرنا کیونکہ اب ان کے ہلاک ہونے کا وقت آ گیا ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں، وقت مقرر میں یہ سب غرق ہو جائیں گے۔ (فتح القدیر)۔ ھود
38 1- مثلا کہتے، نوح! نبی بنتے بنتے اب بڑھئی بن گئے ہو؟ یا اے نوح! خشکی میں کشتی کس لئے تیار کر رہے ہو؟ ھود
39 1- اس سے مراد جہنم کا دائمی عذاب ہے، جو اس دنیوی عذاب کے بعد ان کے لئے تیار ہے۔ ھود
40 1- اس سے بعض نے روٹی پکانے والے تنور، بعض نے مخصوص جگہیں مثلا عین الوردہ اور بعض نے سطح زمین مراد لی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی آخری مفہوم کو ترجیح دی ہے یعنی ساری زمین ہی چشموں کی طرح ابل پڑی، اوپر سے آسمان کی بارش نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ 2- اس سے مراد مذکر اور مؤنث یعنی نر مادہ ہے اس طرح ہر ذی روح مخلوق کا جوڑا کشتی میں رکھ لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ نباتات بھی رکھے گئے تھے۔ وللہ اعلم۔ 3- یعنی جن کا غرق ہونا تقدیر الٰہی میں ثبت ہے اس سے مراد عام کفار ہیں، یا یہ استشناء ”أَهْلَكَ“ سے ہے یعنی اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کرا لے، سوائے ان کے جن پر اللہ کی بات سبقت کر گئی ہے یعنی ایک بیٹا (کنعان یا۔ یام) اور حضرت نوح (عليہ السلام) کی اہلیہ (وَاعِلَة) یہ دونوں کافر تھے، ان کو کشتی میں بیٹھنے والوں سے مستشنٰی کر دیا گیا۔ 4- یعنی سب اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرا لے۔ 5- بعض نے ان کی کل تعداد (مرد اور عورت ملا کر) 80اور بعض نے اس سے بھی کم بتلائی ہے۔ ان میں حضرت نوح (عليہ السلام) کے تین بیٹے، جو ایمان والوں میں شامل تھے، سام، حام، یافت اور ان کی بیویاں اور چوتھی بیوی، یام کی تھی، جو کافر تھا، لیکن اس کی بیوی مسلمان ہونے کی وجہ سے کشتی میں سوار تھی۔ (ابن کثیر) ھود
41 1- یعنی اللہ ہی کے نام سے اس کا پانی کی سطح پر چلنا اور اسی کے نام پر اس کا ٹھہرنا ہے۔ اس سے ایک مقصد اہل ایمان کو تسلی اور حوصلہ دینا بھی تھا کہ بلا خوف و خطر کشتی میں سوار ہو جاؤ، اللہ تعالٰی ہی اس کشتی کا محافظ اور نگران ہے اسی کے حکم سے چلے گی اور اسی کے حکم سے ٹھہرے گی۔ جس طرح اللہ تعالٰی نے دوسرے مقام پر فرمایا کہ 'اے نوح! جب تو اور تیرے ساتھی کشتی میں آرام سے بیٹھ جائیں تو کہو ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ، وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ﴾ (المومنون: 28،29) ”سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی اور کہہ کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر اتارنے والا ہے“۔ بعض علماء نے کشتی یا سواری پر بیٹھتے وقت ﴿بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا﴾ کا پڑھنا مستحب قرار دیا ہے، مگر حدیث سے ﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ﴾ (الزخرف: 13) پڑھنا ثابت ہے۔ ھود
42 1- یعنی جب زمین پر پانی تھا، حتٰی کے پہاڑ بھی پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، یہ کشتی حضرت نوح (عليہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دامن میں سمیٹے، اللہ کے حکم سے اور اس کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح رواں دواں تھی۔ ورنہ اتنے طوفانی پانی میں کشتی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے؟ اسی لئے دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے اسے بطور احسان ذکر فرمایا: ﴿إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 1- لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ﴾ (الحاقہ :12-11) ”جب پانی میں طغیانی آ گئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنا دیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں“۔ ﴿وَحَمَلْنَاهُ عَلَى ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ﴾۔ (القمر: 13۔14) ”اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی کشتی میں سوار کر لیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی بدلہ اسکی طرف سے جس کا کفر کیا گیا تھا“۔ 2- یہ حضرت نوح (عليہ السلام) کا چوتھا بیٹا تھا جس کا لقب کنعان اور نام 'یام' تھا، اسے حضرت نوح (عليہ السلام) نے دعوت دی کہ مسلمان ہو جا اور کافروں کے ساتھ شامل رہ کر غرق ہونے والوں میں سے مت ہو۔ ھود
43 1- اس کا خیال تھا کہ کسی بڑے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر میں پناہ حاصل کرلوں گا، وہاں پانی کیونکر پہنچ سکے گا۔ 2- باپ بیٹے کے درمیان یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ایک طوفانی موج نے اسے اپنی طغیانی کی زد میں لے لیا۔ ھود
44 1- نگلنا، کا استعمال جانور کے لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ کی خوراک کو نگل جاتا ہے۔ یہاں پانی کے خشک ہونے کو نگل جانے سے تعبیر کرنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ پانی بتدریخ خشک نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ کے حکم سے زمین نے سارا پانی دفعتا اس طرح اپنے اندر نگل لیا جس طرح جانور لقمہ نگل جاتا ہے۔ 2- یعنی تمام کافروں کو غرق آب کر دیا گیا۔ 3- جودی، پہاڑ کا نام ہے جو بقول بعض موصل کے قریب ہے، حضرت نوح علیہ السام کی قوم بھی اسی کے قریب آباد تھی۔ 4- بُعْدٌ، یہ ہلاکت اور لعنت الٰہی کے معنی میں ہے اور قرآن کریم میں بطور خاص غضب الٰہی کی مستحق بننے والی قوموں کے لئے اسے کئی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ ھود
45 1- حضرت نوح (عليہ السلام) نے غالبا شفقت پدری کے جذبے سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی اور بعض کہتے ہیں کہ انہیں یہ خیال تھا کہ شاید یہ مسلمان ہو جائے گا، اس لئے اس کے بارے میں یہ استدعا کی۔ ھود
46 1- حضرت نوح (عليہ السلام) نے قرابت نسبی کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اپنا بیٹا قرار دیا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے ایمان کی بنیاد پر قرابت دین کے اعتبار سے اس بات کی نفی فرمائی کہ وہ تیرے گھرانے سے ہے۔ اس لئے کہ ایک نبی کا اصل گھرانہ تو وہی ہے جو اس پر ایمان لائے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اور اگر کوئی ایمان نہ لائے تو چاہے وہ نبی کا باپ ہو، بیٹا ہو یا بیوی، وہ نبی کے گھرانے کا فرد نہیں۔ 2- یہ اللہ تعالٰی نے اس کی علت بیان فرما دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس ایمان اور عمل صالح نہیں ہوگا، اسے اللہ کے عذاب سے اللہ کا پیغمبر بھی بچانے پر قادر نہیں۔ آج کل لوگ پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں سے وابستگی کو ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور عمل صالح کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے حالانکہ جب عمل صالح کے بغیر نبی سے نسبی قرابت بھی کام نہیں آتی، تو یہ وابستگیاں کیا کام آ سکتی ہیں۔ 3- اس سے معلوم ہوا کہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتا، اس کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا وحی کے ذریعے سے اللہ تعالٰی اسے عطا فرما دیتا ہے۔ اگر حضرت نوح (عليہ السلام) کو پہلے سے علم ہوتا کہ ان کی درخواست قبول نہیں ہوگی تو یقینا وہ اس سے پرہیز فرماتے۔ 4- یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت نوح (عليہ السلام) کو نصیحت ہے، جس کا مقصد ان کو اس مقام بلند پر فائز کرنا ہے جو علمائے عاملین کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ہے۔ ھود
47 1- جب حضرت نوح (عليہ السلام) یہ بات جان گئے کہ ان کا سوال واقعہ کے مطابق نہیں تھا، تو فورا اس سے رجوع فرما لیا اور اللہ تعالٰی سے اس کی رحمت و مغفرت کے طالب ہوئے۔ ھود
48 1- یہ اترنا کشتی سے یا اس پہاڑ سے ہے جس پر کشتی جا کر ٹھہر گئی تھی۔ 2- اس سے مراد یا تو وہ گروہ ہیں جو حضرت نوح (عليہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، یا آئندہ ہونے والے وہ گروہ ہیں جو ان کی نسل سے ہونے والے تھے، اگلے فقرے کے پیش نظر یہی دوسرا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ 3- یہ وہ گروہ ہیں جو کشتی میں بچ جانے والوں کی نسل سے قیامت تک ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں کو دنیا کی چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے ہم دنیا کا ساز وسامان ضرور دیں گے لیکن بالآخر عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔ ھود
49 1- یہ نبی سے خطاب ہے اور آپ سے علم غیب کی نفی کی جا رہی ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جن سے ہم آپ کو خبردار کر رہے ہیں ورنہ آپ اور آپ کی قوم ان سے لا علم تھی۔ 2- یعنی آپ (ﷺ)کی قوم آپ کی جو تکذیب کر رہی ہے اور آپ (ﷺ) کو ایذائیں پہنچا رہی ہے، اس پر صبر سے کام لیجئے اس لئے کہ ہم آپ کے مددگار ہیں اور حسن انجام آپ کے اور آپ کے پیرو کاروں کے لئے ہی ہے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہیں۔ عاقبت، دنیا و آخرت کے اچھے انجام کو کہتے ہیں۔ اس میں متقین کی بڑی بشارت ہے کہ ابتدا میں چاہے انہیں کتنا بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے، تاہم بالآخر اللہ کی مدد و نصرت اور حسن انجام کے وہی مستحق ہیں جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ﴾(المومن: 51) ”ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والو کی مدد، دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے“۔ ﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ، إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ، وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾ (الصافات :171 تا 172) ”اور البتہ وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صادر ہو چکا ہے کہ وہ مظفر منصور ہوں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب اور برتر رہے گا“۔ ھود
50 1- بھائی سے مراد انہی کی قوم کا ایک فرد۔ 2- یعنی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا کر تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔ ھود
51 1- اور یہ نہیں سمجھتے کہ جو بغیر اجرت کے اور لالچ کے تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہے وہ تمہارا خیر خواہ ہے، آیت میں يَا قَوْمِ! سے دعوت کا ایک طریقہ کار معلوم ہوتا ہے یعنی بجائے یہ کہنے کے ”اے کافرو“ ”اے مشرکو“ ”اے میری قوم“ سے مخاطب کیا گیا ہے۔ ھود
52 1- حضرت ہود (عليہ السلام) نے توبہ و استغفار کی تلقین اپنی امت یعنی اپنی قوم کو کی اور اس کے دو فوائد بیان فرمائے جو توبہ اور استغفار کرنے والی قوم کو حاصل ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ قرآن کریم میں اور بھی بعض مقامات پر یہ فوائد بیان کئے گئے ہیں (ملاحظہ سورۂ نوح: 11) اور نبی (ﷺ) کا بھی فرمان ہے [ مَنْ لَزِمَ الاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ ] (أبو داود، كتاب الوتر، باب في الاستغفار، نمبر1518، وابن ماجہ ۔ نمبر3819)۔ ”جو پابندی سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کے لئے ہر فکر سے کشادگی، اور ہر تنگی سے راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی“۔ 2- یعنی میں تمہیں جو دعوت دے رہا ہوں، اس سے اعراض اور اپنے کفر پر اصرار مت کرو۔ ایسا کرو گے تو اللہ کی بارگاہ میں مجرم اور گناہ گار بن کر پیش ہو گے۔ ھود
53 1- ایک نبی دلائل وبراہین کی پوری قوت اپنے ساتھ رکھتا ہے لیکن شپرہ چشموں کو وہ نظر نہیں آتے قوم ہود (عليہ السلام) نے بھی اسی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بغیر دلیل کے محض تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو کس طرح چھوڑیں؟۔ ھود
54 1- یعنی تو جو ہمارے معبودوں کی توہین اور گستاخی کرتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے، معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معبودوں نے تیری اس گستاخی پر تجھے کچھ کہہ دیا ہے اور تیرا دماغ ماؤف ہو گیا ہے۔ جیسے آج کل کے نام نہاد مسلمان بھی اس قسم کے توہمات کا شکار ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ اشخاص اور بزرگ کچھ نہیں کر سکتے، تو کہتے ہیں کہ ان کی شان میں گستاخی ہے اور خطرہ ہے کہ اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کا وہ بیڑا غرق کر دیں۔ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذِهِ الْخُرَافَاتِ وَالأكَاذِيبِ۔ 2- یعنی ان تمام بتوں اور معبودوں سے بیزار ہوں اور تمہارا یہ عقیدہ کہ انہوں نے مجھے کچھ کر دیا ہے، بالکل غلط ہے، ان کے اندر یہ قدرت ہی نہیں کہ کسی کا ما فوق الاسباب طریقے سے نفع یا نقصان پہنچا سکیں۔ ھود
55 1- اور اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں ہے بلکہ تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ بت کچھ کر سکتے ہیں تو لو میں حاضر ہوں، تم اور تمہارے معبود سب ملکر میرے خلاف کچھ کر کے دکھاؤ۔ مزید اس سے نبی کے انداز کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس قدر بصیر پر ہوتا ہے کہ اسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ ھود
56 1- یعنی جس ذات کے ہاتھ میں ہرچیز کا قبضہ و تصرف ہے، وہی ذات ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے میرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود (عليہ السلام) کا یہ ہے کہ جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان پر بھی اللہ ہی کا قبضہ و تصرف ہے، اللہ تعالٰی ان کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے، وہ کسی کا کچھ نہیں کر سکتے۔ 2- یعنی وہ جو توحید کی دعوت دے رہا ہے یقیناً یہ دعوت ہی صراط مستقیم ہے اس پر چل کر نجات اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہو اور اس صراط مستقیم سے اعراض انحراف تباہی وبربادی کا باعث ہے۔ ھود
57 1- یعنی اس کے بعد میری ذمہ داری ختم اور تم پر حجت تمام ہوگی۔ 2- یعنی تمہیں تباہ کر کے تمہاری زمینوں اور املاک کا وہ دوسروں کو مالک بنا دے، تو وہ ایسا کرنے پر قادر ہے اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے بلکہ وہ اپنی مشیت و حکمت کے مطابق ایسا کرتا رہتا ہے۔ 3- یقیناً وہ مجھے تمہارے مکر وفریب اور سازشوں سے بھی محفوظ رکھے گا اور شیطانی چالوں سے بھی بچائے گا، علاوہ ازیں ہر نیک بد کو ان کے اعمال کے مطابق اچھی اور بری جزا دے گا۔ ھود
58 1- سخت عذاب سے مراد وہی الرِّ یْحَ الْعَقِیْمَ تیز آندھی کا عذاب ہے جس کے ذریعے سے حضرت ہود (عليہ السلام) کی قوم عاد کو ہلاک کیا گیا جس سے حضرت ہود (عليہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا گیا۔ ھود
59 1- عاد کی طرف صرف ایک نبی حضرت ہود (عليہ السلام) ہی بھیجے گئے تھے، یہاں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ اس سے یا تو یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک رسول کی تکذیب، یہ گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔ کیونکہ تمام رسولوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ قوم اپنے کفر اور انکار میں اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ حضرت ہود (عليہ السلام) کے بعد اگر ہم اس قوم میں متعدد رسول بھی بھیجتے، تو یہ قوم ان سب کی تکذیب ہی کرتی۔ اور اس سے قطعاً یہ امید نہ تھی کہ وہ کسی بھی رسول پر ایمان لے آتی۔ یا ہو سکتا ہے کہ اور بھی انبیاء بھیجے گئے ہوں اور اس قوم نے ہر ایک کی تکذیب کی۔ 2- یعنی اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کی لیکن جو لوگ اللہ کے حکموں سے سرکشی کرنے والے اور نافرمان تھے، ان کی اس قوم نے پیروی کی۔ ھود
60 1- لَعْنَہ کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری، امور خیر سے محرومی اور لوگوں کی طرف سے ملامت وبیزاری۔ دنیا میں یہ لعنت اس طرح کہ اہل ایمان میں ان کا ذکر ہمیشہ ملامت اور بیزاری کے انداز میں ہوگا اور قیامت میں اس طرح کہ وہاں علٰی رؤوس الاشہاد ذلت اور رسوائی سے دوچار اور عذاب الٰہی میں مبتلا ہوں گے۔ 2- بُعْد کا یہ لفظ رحمت سے دوری اور لعنت اور ہلاکت کے معنی کے لئے ہے، جیسا کہ اس سے قبل بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ ھود
61 1- وَ اِلَیٰ ثَمُوْدَ عطف ہے ما قبل پر۔ یعنی وَ اَرْسَلنَا اِلَیٰ ثُمُوْدَ ہم نے ثمود کی طرف بھیجا۔ یہ قوم تبوک اور مدینہ کے درمیان مدائن (حجر) میں رہائش پذیر تھی اور یہ قوم عاد کے بعد ہوئی۔ حضرت صالح (عليہ السلام) کو یہاں بھی ثمود کا بھائی کہا۔ جس سے مراد انہی کے خاندان اور قبیلے کا ایک فرد ہے۔ 2- حضرت صالح (عليہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی، جس طرح کہ انبیاء کا طریق رہا ہے۔ 3- یعنی ابتدا میں تمہیں زمین سے پیدا کیا اس طرح کہ تمہارے باپ آدم (عليہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی اور تمام انسان صلب آدم (عليہ السلام) سے پیدا ہوئے یوں گویا تمام انسانوں کی پیدائش زمین سے ہوئی۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم جو کچھ کھاتے ہو، سب زمین ہی سے پیدا ہوتا ہے اور اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے۔ جو رحم مادر میں جا کر وجود انسانی کا باعث ہوتا ہے۔ 4- یعنی تمہارے اندر زمین کو بسانے اور آباد کرنے کی استعداد اور صلاحیت پیدا کی، جس سے تم رہائش کے لئے مکان تعمیر کرتے، خوراک کے لئے کاشت کاری کرتے اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے صنعت و حرفت سے کام لیتے ہو۔ ھود
62 1- یعنی پیغمبر اپنی قوم میں چونکہ اخلاق وکردار اور امانت و دیانت میں ممتاز ہوتا ہے اس لئے قوم کی اس سے اچھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے حضرت صالح (عليہ السلام) کی قوم نے بھی ان سے یہ کہا۔ لیکن دعوت توحید دیتے ہی ان کی امیدوں کا یہ مرکز، ان کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا اور اس دین میں شک کا اظہار کیا جس طرف حضرت صالح (عليہ السلام) انہیں بلا رہے تھے یعنی دین توحید۔ ھود
63 1- بِیْنَۃٍ سے مراد وہ ایمان و یقین ہے، جو اللہ تعالٰی پیغمبر کو عطا فرماتا ہے اور رحمت سے نبوت، جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔ 2- نافرمانی سے مراد یہ ہے کہ اگر میں تمہیں حق کی طرف اور اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلانا چھوڑ دوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ 3- یعنی اگر میں ایسا کروں تو مجھے کوئی فائدہ تو نہیں پہنچا سکتے، البتہ اس طرح تم میرے نقصان و خسارے میں ہی اضافہ کرو گے۔ ھود
64 1- یہ وہی اونٹنی جو اللہ تعالٰی نے ان کے کہنے پر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک پہاڑ یا ایک چٹان سے برآمد فرمائی اس لئے اسے ”نَاقَةُ اللهِ“ (اللہ کی اونٹنی) کہا گیا ہے کیونکہ یہ خالص اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر مذکورہ خلاف عادت طریقے سے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کی بابت انہیں تاکید کر دی گئی تھی کہ اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جاؤ گے۔ ھود
65 1- لیکن ان ظالموں نے اس زبردست معجزے کے باوجود نہ صرف ایمان لانے سے گریز کیا بلکہ حکم الٰہی سے صریح سرتابی کرتے ہوئے اسے مار ڈالا، جس کے بعد انہیں تین دن کی مہلت دے دی گئی کہ تین دن کے بعد تمہیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دیا جائے گا۔ ھود
66 1- اس سے مراد وہی عذاب ہے جو وعدے کے مطابق چوتھے دن آیا اور حضرت صالح (عليہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے سوا، سب کو ہلاک کر دیا گیا۔ ھود
67 1- یہ عذاب صَيْحَةٌ (چیخ زور کی کڑک) کی صورت میں آیا، بعض کے نزدیک یہ حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کی چیخ تھی اور بعض کے نزدیک آسمان سے آئی تھی۔ جس سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقعہ ہو گئی، اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی بھونچال (رَجْفَةٌ) بھی آیا، جس نے سب کچھ تہ بالا کر دیا۔ جیسا کہ سورہ اعراف 78 میں ﴿فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ﴾ کے الفاظ ہیں۔ 2- جس طرح پرندہ مرنے کے بعد زمین پر مٹی کے ساتھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ موت سے ہم کنار ہو کر منہ کے بل زمین پر پڑے رہے۔ ھود
68 1- ان کی بستی یا خود یہ لوگ یا دونوں ہی، اس طرح حرف غلط کی طرح مٹا دیئے گئے، گویا وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے۔ ھود
69 1- یہ دراصل حضرت لوط (عليہ السلام) اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط (عليہ السلام) کی بستی بحیرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط (عليہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط (عليہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے پاس ٹھہرے اور انہیں بیٹے کی بشارت دی۔ 2- یعنی سَلَّمْنَا عَلَيْكَ سَلامًا ”ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں“۔ 3- جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سلام مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبارت ہوگی: أَمْرُكُمْ سَلامٌ یا عَلَيْكُمْ سَلامٌ۔ 4- حضرت ابرا ہیم (عليہ السلام) بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معذور ہیں، بلکہ انہوں نے انہیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کر دیا جائے۔ ھود
70 1- حضرت ابرا ہیم (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کی آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم (عليہ السلام) غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔ 2- اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا ان کے آثار سے جو ایسے موقع پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے ﴿إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ﴾ (الحجر:52) ”ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے“، چنانچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط (عليہ السلام) کی طرف جا رہے ہیں۔ ھود
71 1- حضرت ابراہیم کی اہلیہ کیوں ہنسیں؟ بعض کہتے ہیں کہ قوم لوط (عليہ السلام) کی فساد انگیزیوں سے وہ بھی آگاہ تھیں، ان کی ہلاکت کی خبر سے انہوں نے مسرت کی۔ بعض کہتے ہیں اس لئے ہنسی آئی کہ دیکھو آسمانوں سے ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور یہ قوم غفلت کا شکار ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ تقدیم و تاخیر ہے۔ اور اس ہنسنے کا تعلق اس بشارت سے ہے جو فرشتوں نے بوڑھے جوڑے کو دی۔ واللہ اعلم۔ ھود
72 1- یہ اہلیہ حضرت سارہ تھیں، جو خود بھی بوڑھی تھیں اور ان کا شوہر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) بھی بوڑھے تھے۔ اس لئے تعجب ایک فطری امر تھا، جس کا اظہار ان سے ہوا۔ ھود
73 1- یہ استفہام انکار کے لئے ہے۔ یعنی تو اللہ تعالٰی کے قضا وقدر پر کس طرح تعجب کا اظہار کرتی ہے جبکہ اس کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں۔ اور نہ وہ اسباب عادیہ ہی کا محتاج ہے، وہ تو جو چاہے، اس کے لفظ كُنْ (ہو جا) سے معرض وجود میں آ جاتا ہے۔ 2- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اہلیہ محترمہ کو یہاں فرشتوں نے 'اہل بیت' سے یاد کیا اور دوسرے ان کے لئے جمع مذکر مخاطب (عَلَيْكُمْ) کا صیغہ استعمال کیا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ 'اہل بیت' کے لئے جمع مذکر کے صیغے کا استعمال بھی جائز ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب 33 میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ کی ازواج مطہرات کو بھی اہل بیت کہا ہے اور انہیں جمع مذکر کے صیغے سے مخاطب بھی کیا ہے۔ ھود
74 1- اس مجادلہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے فرشتوں سے کہا کہ جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو، اسی میں حضرت لوط (عليہ السلام) بھی موجود ہیں۔ جس پر فرشتوں نے کہا ہم جانتے ہیں کہ لوط (عليہ السلام) بھی وہاں رہتے ہیں۔ لیکن ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچا لیں گے۔ (العنکبوت:32) ھود
75 ھود
76 1- یہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) سے کہا کہ اب اس بحث وتکرار کا کوئی فائدہ نہیں، اسے چھوڑیئے اللہ کا وہ حکم (ہلاکت کا) آ چکا ہے، جو اللہ کے ہاں مقدر تھا۔ اور اب یہ عذاب نہ کسی کے مجادلے سے رکے گا نہ کسی کی دعا سے ٹلے گا۔ ھود
77 1- حضرت لوط (عليہ السلام) کی اس سخت پریشانی کی وجہ مفسرین نے لکھی ہے کہ یہ فرشتے نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے، جو بے ریش تھے، جس سے حضرت لوط (عليہ السلام) نے اپنی قوم کی عادت قبیحہ کے پیش نظر سخت خطرہ محسوس کیا۔ کیونکہ ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ آنے والے یہ نوجوان، مہمان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو اس قوم کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ھود
78 1- جب اغلام بازی کے ان مریضوں کو پتہ چلا کہ چند خوبرو نوجوان لوط (عليہ السلام) کے گھر آئے ہیں تو دوڑے ہوئے آئے اور انہیں اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کیا، تاکہ ان سے اپنی غلط خواہشات پوری کریں۔ 2- یعنی تمہیں اگر جنسی خواہش ہی کی تسکین مقصود ہے تو اس کے لئے میری اپنی بیٹیاں موجود ہیں، جن سے تم نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کر لو۔ یہ تمہارے لئے ہر طرح سے بہتر ہے۔ بعض نے کہا کہ بنات سے مراد عام عورتیں ہیں اور انہیں اپنی لڑکیاں اس لئے کہا کہ پیغمبر اپنی امت کے لئے بمنزلہ باپ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے عورتیں موجود ہیں، ان سے نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کرو (ابن کثیر) 3- یعنی میرے گھر آئے مہمانوں کے ساتھ زیادتی اور زبردستی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک آدمی بھی ایسا سمجھدار نہیں ہے، جو میزبانی کے تقاضوں اور اس کی نزاکت کو سمجھ سکے، اور تمہیں اپنے برے ارادوں سے روک سکے، حضرت لوط (عليہ السلام) نے یہ ساری باتیں اس بنیاد پر کہیں کہ وہ ان فرشتوں کو فی الواقع نو وارد مسافر اور مہمان ہی سمجھتے رہے۔ اس لئے بجا طور پر ان کی مخالفت کو اپنی عزت ووقار کے لئے ضروری سمجھتے رہے۔ اگر ان کو پتہ چل جاتا یا وہ عالم الغیب ہوتے تو ظاہر بات ہے کہ انہیں یہ پریشانی ہرگز لاحق نہ ہوتی، جو انہیں ہوئی اور جس کا نقشہ یہاں قرآن مجید نے کھینچا ہے۔ ھود
79 * یعنی ایک جائز اور فطری طریقے کو انہوں نے بالکل رد کر دیا اور غیر فطری کام اور بےحیائی پر اصرار کیا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قوم اپنی اس بےحیائی کی عادت خبیثہ میں کتنی آگے جا چکی تھی اور کس قدر اندھی ہوگئی تھی۔ ھود
80 * قوت سے اپنے دست بازو اور اپنے وسائل کی قوت یا اولاد کی قوت مراد ہے اور رکن شدید (مضبوط آسرا) سے خاندان، قبیلہ یا اسی قسم کا کوئی مضبوط سہارامراد ہے۔ یعنی نہایت بےبسی کے عالم میں آرزو کر رہے ہیں کہ کاش! میرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتی یا کسی خاندان اور قبیلے کی پناہ اور مدد مجھے حاصل ہوتی تو آج مجھے مہمانوں کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی، میں ان بد قماشوں سے نمٹ لیتا اور مہمانوں کی حفاظت کر لیتا۔ حضرت لوط (عليہ السلام) کی یہ آرزو اللہ تعالٰی پر توکل کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے۔ اور توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم و مطلب بھی یہی ہے۔ کہ پہلے تمام ظاہری اسباب و وسائل بروئے کار لائے جائیں اور پھر اللہ پر توکل کیا جائے۔ یہ توکل کا نہایت غلط مفہوم ہے کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جاؤ اور کہو کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ اس لیے حضرت لوط (عليہ السلام) نے جو کچھ کہا، ظاہری اسباب کے اعتبار سے بالکل بجا کہا۔ جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ کا پیغمبر جس طرح عالم الغیب نہیں ہوتا اسی طرح مختار کل بھی نہیں ہوتا، (جیسا کہ آج کل لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے) اگر نبی دنیا میں اختیارات سے بہرہ ور ہوتے تو یقییناً حضرت لوط (عليہ السلام) اپنی بےبسی کا اور اس آرزو کا اظہار نہ کرتے جو انہوں نے مذکورہ الفاظ میں کیا۔ ھود
81 1- جب فرشتوں نے حضرت لوط (عليہ السلام) کی بےبسی اور ان کی قوم کی سرکشی کا مشاہدہ کر لیا تو بولے، اے لوط! گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تک تو کیا، اب یہ تجھ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اب رات کے ایک حصے میں، سوائے بیوی کے، اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جا! صبح ہوتے ہی اس بستی کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ ھود
82 ھود
83 1- اس آیت میں هِيَ کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک وہ نشان زدہ کنکریلے پتھر ہیں جو ان پر برسائے گئے اور بعض کے نزدیک اس کا مرجع وہ بستیاں ہیں جو ہلاک کی گئیں اور جو شام اور مدینہ کے درمیان تھیں اور ظالمین سے مراد مشرکین مکہ اور دیگر مکذبین یں۔ مقصد ان کو ڈرانا ہے کہ تمہارا حشر بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے جس سے گزشتہ قومیں دو چار ہوئیں۔ ھود
84 1- مدین کی تحقیق کے لئے دیکھئے سورۃ الاعراف، آیت 85 کا حاشیہ۔ 2- توحید کی دعوت دینے کے بعد اس قوم میں جو نمایاں اخلاقی خرابی۔ ناپ تول میں کمی کی تھی اس سے انہیں منع فرمایا۔ ان کا معمول بن چکا تھا جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی چیز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول میں زائد چیز لیتے اور جب خریدار (مشتری) کو کوئی چیز فروخت کرتے تو ناپ میں بھی کمی کر کے دیتے اور تول میں ڈنڈی مار لیتے۔ 3- یہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب اللہ تعالٰی تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے تمہیں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر تم یہ قبیح حرکت کیوں کرتے ہو۔ 4- یہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پھر اندیشہ ہے کہ قیامت والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گھیرنے والے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہ اس دن کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بھاگ کر کہیں چھپ سکے گا۔ ھود
85 1- انبیاء علیہم السلام کی دعوت دو اہم بنیادوں پر مشتمل ہوتی ہے (1)۔ حقوق اللہ کی ادائیگی (2)، حقوق العباد کی ادائیگی۔ اول الذکر کی طرف لفظ ﴿اعْبُدُوا اللَّهَ﴾ اور آخر الذکر کی جانب ﴿وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ﴾ (ھود:84) سے اشارہ کیا گیا اور اب تاکید کے طور پر انہیں انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپ تول کا حکم دیا جا رہا ہے اور لوگوں کو چیزیں کم کر کے دینے سے منع کیا جا رہا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کے ہاں یہ بھی ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالٰی نے ایک پوری سورت میں اس جرم کی شناعت و قباحت اور اس کی اخروی سزا بیان فرمائی ہے۔﴿وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ﴾ ( سورة المطففين: 1۔3) ”مطففین کے لیے ہلاکت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں، تو کم کر کے دیتے ہیں“۔ 2- اللہ کی نافرمانی سے، بالخصوص جن کا تعلق حقوق العباد سے ہو، جیسے یہاں ناپ تول کی کمی بیشی میں ہے، زمین میں یقیناً فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے انہیں منع کیا گیا۔ ھود
86 1- ﴿بَقِيَّتُ اللَّهِ﴾ سے مراد جو ناپ تول میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر، دیانتداری کے ساتھ سودا دینے کے بعد حاصل ہو۔ یہ چونکہ حلال و طیب ہے اور خیرو برکت بھی اسی میں ہے، اس لئے اللہ کا بقیہ قرار دیا گیا ہے۔ 2- یعنی میں تمہیں صرف تبلیغ کر سکتا ہوں اور اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں۔ لیکن برائیوں سے میں تمہیں روک دوں یا اس پر سزا دوں، یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، ان دونوں باتوں کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ ھود
87 1- صَلاةٌ سے مراد عبادت دین یا تلاوت ہے۔ 2- اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک زکوۃ و صدقات ہیں، جس کا حکم ہر آسمانی مذہب میں دیا گیا ہے اللہ کے حکم سے زکوٰۃ وصدقات کا اخراج، اللہ کے نافرمانوں پر نہایت شاق گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنی محنت و لیاقت سے مال کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں ہو۔ اور اس کا کچھ حصہ ایک مخصوص مد کے لیے نکالنے پر ہمیں مجبور کیوں کیا جائے؟ اسی طریقے سے کمائی اور تجارت میں حلال و حرام اور جائز وناجائز کی پابندی بھی ایسے لوگوں پر نہایت گراں گزرتی ہے، ممکن ہے ناپ تول میں کمی سے روکنے کو بھی انہوں نے اپنے مالی تصرفات میں دخل درمعقولات سمجھا ہو۔ اور ان الفاظ میں اس سے انکار کیا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحیح ہیں۔ 3- حضرت شعیب (عليہ السلام) کے لئے یہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔ ھود
88 1- رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) 2- یعنی جس کام سے میں تجھے روکوں، تم سے خلاف ہو کر وہ میں خود کروں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ 3- میں تمہیں جس کام کے کرنے یا جس سے روکنے کا حکم دیتا ہوں، اس سے مقصد اپنی مقدور بھر، تمہاری اصلاح ہی ہے۔ 4- یعنی حق تک پہنچنے کا جو میرا ارادہ ہے، وہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، اس لئے تمام معاملات میں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ ھود
89 1- یعنی ان کی جگہ تم سے دور نہیں، یا اس سبب میں تم سے دور نہیں جو ان کے عذاب کا موجب بنا۔ ھود
90 ھود
91 1- یہ یا تو انہوں نے بطور مذاق تحقیر کہا درانحالیکہ ان کی باتیں ان کے لئے ناقابل فہم نہیں تھیں۔ اس صورت میں یہاں فہم کی نفی مجازا ہوگی۔ یا ان کا مقصد ان باتوں کے سمجھنے سے معذوری کا اظہار ہے جن کا تعلق غیب سے ہے۔ مثلا بعث بعدالموت، حشر نشر، جنت و دوزخ وغیرہ اس لحاظ سے، فہم کی نفی حقیقتا ہوگی۔ 2- یہ کمزوری جسمانی لحاظ سے تھی، جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت شعیب (عليہ السلام) کی بینائی کمزور تھی یا وہ نحیف و لاغر جسم کے تھے یا اس اعتبار سے انہیں کمزور کہا کہ وہ خود بھی مخالفین سے تنہا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ 3- حضرت شعیب (عليہ السلام) کا قبیلہ کہا جاتا ہے کہ ان کا مددگار نہیں تھا، لیکن وہ قبیلہ چونکہ کفر وشرک میں اپنی ہی قوم کے ساتھ تھا، اس لئے اپنے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کا لحاظ، بہرحال حضرت شعیب (عليہ السلام) کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے میں مانع تھا۔ 4- لیکن چونکہ تیرے قبیلے کی حیثیت بہرحال ہمارےدلوں میں موجود ہے، اس لئے ہم درگزر سے کام لے رہے ہیں۔ ھود
92 1- کہ تم مجھے تو میرے قبیلے کی وجہ سے نظر انداز کر رہے ہو۔ لیکن جس اللہ نے مجھے منصب نبوت سے نوازا ہے اس کی کوئی عظمت نہیں اور اس منصب کا کوئی احترام تمہارے دلوں میں نہیں ہے اور اسے تم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہاں حضرت شعیب (عليہ السلام) نے أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنِّي (مجھ سے زیادہ ذی عزت) کی بجائے أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ اللہ سے زیادہ ذی عزت کہا جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ نبی کی توہین یہ دراصل اللہ کی توہین ہے۔ اس لیے کہ نبی اللہ کا مبعوث ہوتا ہے۔ اور اسی اعتبار سے اب علمائے حق کی توہین اور ان کو حقیر سمجھنا یہ اللہ کے دین کی توہین اور اس کا استخفاف ہے، اس لیے کہ وہ اللہ کے دین کے نمائندے ہیں۔ ﴿وَاتَّخَذْتُمُوهُ میں ھا کا مرجع اللہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اس معاملے کو، جسے لے کر اس نے مجھے بھیجا ہے، اسے تم نے پس پشت ڈال دیا ہے اور اس کی کوئی پروا تم نے نہیں کی۔ ھود
93 1- جب انہوں نے دیکھا کہ یہ قوم اپنے کفر و شرک پر مصر ہے اور وعظ و نصیحت کا بھی کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا، تو کہا اچھا تم اپنی ڈگر پر چلتے رہو، عنقریب تمہیں جھوٹے سچے کا اور اس بات کا کہ رسوا کن عذاب کا مستحق کون ہے؟ علم ہو جائے گا۔ ھود
94 1- اس چیخ سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے مابعد ہی بھونچال بھی آیا، جیسا کہ سورۃ اعراف: 91 اور سورۃ عنکبوت 37 میں ہے۔ ھود
95 1- یعنی لعنت، پھٹکار، اللہ کی رحمت سے محرومی اور دوری۔ ھود
96 1- آيَاتٌ سے بعض کے نزدیک تورات اور سلطان مبین سے معجزات مراد ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ آیات سے، آیات تسعہ اور سلطان مبین (روشن دلیل) سے عصا مراد ہے۔ عصا، اگرچہ آیات تسعہ میں شامل ہے لیکن معجزہ چونکہ نہایت ہی عظیم الشان تھا، اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ھود
97 1- مَلَاء قوم کے اشراف اور ممتاز قسم کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ (اس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے) فرعون کے ساتھ، اس کے دربار کے ممتاز لوگوں کا نام اس لئے لیا گیا ہے کہ اشراف قوم ہی ہر معاملے کے ذمہ دار ہوتے تھے اور قوم ان ہی کے پیچھے چلتی تھی۔ اگرچہ موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لے آتے تو یقیناً فرعون کی ساری قوم ایمان لے آتی۔ 2- رَشِيدٍ ذی رشد کے معنی میں ہے۔ یعنی بات تو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی رشد وہدایت والی تھی، لیکن اسے ان لوگوں نے رد کر دیا اور فرعون کی بات، رشد وہدایت سے دور تھی، اس کی انہوں نے پیروی کی۔ ھود
98 1- یعنی فرعون، جس طرح دنیا میں ان کا رہبر اور پیش رو تھا، قیامت والے دن بھی یہ آگے آگے ہی ہوگا اور اپنی قوم کو اپنی قیادت میں جہنم میں لے کر جائے گا۔ 2- وِرْدٌ پانی کے گھاٹ کو کہتے ہیں، جہاں پیاسے جا کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ لیکن یہاں جہنم کو ورد کہا گیا ہے۔ مَوْرُودٌ وہ مقام یا گھاٹ یعنی جہنم جس میں لوگ لے جائے جائیں گے یعنی جگہ بھی بری اور جانے والے بھی برے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا ھود
99 1- لَعْنَۃ سے پھٹکار اور رحمت الٰہی سے دوری و محرومی ہے، گویا دنیا میں بھی وہ رحمت الٰہی سے محروم اور آخرت میں میں بھی اس سے محروم ہی رہیں گے، اگر ایمان نہ لائے۔ 2- رِفْدً انعام اور عطیے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں لعنت کو رفد کہا گیا ہے۔ اسی لئے اسے برا انعام قرار دیا گیا مَرْفُوْد وہ انعام جو کسی کو دیا جائے۔ یہ الرفد کی تاکید ہے۔ ھود
100 1- قائم سے مراد وہ بستیاں، جو اپنی چھتوں پر قائم ہیں اور حَصِیْد بمعنی محصود سے مراد وہ بستیاں جو کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح نابود ہوگئیں۔ یعنی جن گزشتہ بستیوں کے واقعات ہم بیان کر رہے ہیں، ان میں سے بعض تو اب بھی موجود ہیں، جن کے آثار وکھنڈرات نشان عبرت ہیں اور بعض بالکل ہی صفہ ہستی سے معدوم ہو گیئں اور ان کا وجود صرف تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گیا ہے۔ ھود
101 1- ان کو عذاب اور ہلاکت سے دو چار کر کے۔ 2- کفر ومعاصی کا ارتکاب کر کے۔ 3- جب کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ انہیں نقصان سے بچائیں گے اور فائدہ پہنچائیں گے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو واضح ہوگیا کہ ان کا یہ عقیدہ فاسد تھا، اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔ ھود
102 1- یعنی جس طرح گزشتہ بستیوں کو اللہ تعالٰی نے تباہ اور برباد کیا، آئندہ بھی وہ ظالموں کی اسی طرح گرفت کرنے پر قادر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا: [ إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ] ”اللہ تعالٰی یقیناً ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت کرنے پر آتا ہے تو پھر اس طرح اچانک گرتا ہے کہ پھر مہلت نہیں دیتا“۔ ھود
103 1- یعنی مواخذہ الٰہی میں یا ان واقعات میں جو عبرت وموعظت کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ 2- یعنی حساب اور بدلے کے لئے۔ ھود
104 1- یعنی قیامت کے دن میں تاخیر کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی نے اس کے لئے ایک وقت معین کیا ہوا ہے۔ جب وہ وقت مقرر آ جائے گا، تو ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہوگی۔ ھود
105 1- گفتگو نہ کرنے سے مراد، کسی کو اللہ تعالٰی سے کسی طرح کی بات یا شفاعت کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ الا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طویل حدیث شفاعت میں ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: [ وَلا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلا الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ؛ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ ] (صحيح بخاری- كتاب الإيمان، باب فضل السجود، ومسلم، كتاب الإيمان، باب معرفة طريق الرؤية ) ”اس دن انبیاء کے علاوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہوگی اور انبیاء کی زبان پر بھی اس دن صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ! ہمیں بچا لے، ہمیں بچا لے“۔ ھود
106 ھود
107 1- ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ لگا ہے کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب دائمی نہیں ہے بلکہ موقت ہے یعنی اس وقت تک رہے گا جب تک آسمان و زمین رہیں گے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ کیونکہ یہاں ﴿مَا دَامَتِ السِّمٰوٰ تُ وَالْاَرْضُ﴾ اہل عرب کے روز مرہ کی گفتگو اور محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ عربوں کی عادت تھی کہ جب کسی چیز کا دوام ثابت کرنا مقصود ہوتا تو وہ کہتے تھےکہ هَذَا دَائِمٌ دَوَامَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ (یہ چیز اسی طرح ہمیشہ رہے گی۔ جس طرح آسمان و زمین کا دوام ہے) اسی محاورے کو قرآن کریم میں استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل کفر و شرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس کو قرآن نے متعدد جگہ ﴿خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا﴾ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم اس کا یہ بھی بیان کی گیا ہے کہ آسمان و زمین سے مراد جنس ہے۔ یعنی دنیا کے آسمان و زمین اور ہیں جو فنا ہو جائیں گے لیکن آخرت کے آسمان و زمین ان کے علاوہ اور ہوں گے، جیسا کہ قران کریم میں اس کی صراحت ہے، ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ (سورۃ ابراہیم:48)، ”اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دئیے جائیں گے“۔ اور آخرت کے یہ آسمان وزمین، جنت اور دوزخ کی طرح ہمیشہ رہیں گے۔ اس آیت میں یہی آسمان وزمین مراد ہے نہ کہ دنیا کے آسمان وزمین جو فنا ہو جائیں گے۔ (ابن کثیر) ان دونوں مفہوموں میں سے کوئی بھی مفہوم مراد لے لیا جائے، آیت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور وہ اشکال پیدا نہیں ہوتا جو مذکور ہوا۔ امام شوکانی نے اس کے اور بھی کئی مفہوم بیان کیے ہیں جنہیں اہل علم ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ (فتح القدیر) 2- اس استثناء کے بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ صحیح مفہوم یہی ہے کہ یہ استثناء ان گناہ گاروں کے لئے ہے جو اہل توحید واہل ایمان ہوں گے۔ اس اعتبار سے اس سے ما قبل آیت میں شَقِی کا لفظ عام یعنی کافر اور عاصی دونوں کو شامل ہوگا اور «إِلا مَا شَاءَ رَبُّكَ» سے عاصی مومنوں کا استثناء ہو جائے گا اور مَا شَآءِ میں مَا، مَنْ کے معنی میں ہے۔ ھود
108 1- یہ استثناء بھی عصاۃ اہل ایمان کے لئے ہے۔ یعنی دیگر جنتیوں کی طرح یہ نافرمان مومن ہمیشہ سے جنت میں نہیں رہیں ہوں گے، بلکہ ابتدا میں ان کا کچھ عرصہ جہنم میں گزرے گا اور پھر انبیاء اور اہل ایمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے یہ باتیں ثابت ہیں۔ 2- غیر مجذوذ کے معنی ہیں غیر مقطوع۔ یعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ دخول عارضی نہیں، ہمیشہ کے لئے ہوگا اور تمام جنتی ہمیشہ اللہ کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اور یہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے گا۔ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔ ھود
109 1- اس سے مراد وہ عذاب ہے جس کے وہ مستحق ہوں گے، اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ھود
110 1- یعنی کسی نے اس کتاب کو مانا اور کسی نے نہیں مانا۔ یہ نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا آیا ہے، کچھ لوگ ان پر ایمان لانے والے ہوتے اور دوسرے تکذیب کرنے والے۔ اس لئے آپ اپنی تکذیب سے نہ گھبرائیں۔ 2- اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالٰی نے پہلے ہی سے ان کے لئے عذاب کا ایک وقت مقرر کیا ہوا نہ ہوتا تو وہ انہیں فورا ہلاک کر ڈالتا۔ ھود
111 ھود
112 1- اس آیت میں نبی اور اہل ایمان کو ایک تو استقامت کی تلقین کی جا رہی ہے، جو دشمن کے مقابلے کے لئے ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ دوسرے طُغْيَانٌ یعنی بَغْيٌ (حد سے بڑھ جانے) سے روکا گیا ہے، جو اہل ایمان کی اخلاقی قوت اور رفعت کردار کے لئے بہت ضروری ہے۔ حتٰی کہ یہ تجاوز، دشمن کے ساتھ معاملہ کرتے وقت بھی جائز نہیں ہے۔ ھود
113 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ ظالموں کے ساتھ نرمی کرتے ہوئے ان سے مدد حاصل مت کرو۔ اس سے ان کو یہ تأثر ملے گا کہ گویا تم ان کی دوسری باتوں کو بھی پسند کرتے ہو۔ اس طرح یہ تمہارا ایک بہت بڑا جرم بن جائے گا جو تمہیں بھی ان کے ساتھ، نار جہنم کا مستحق بنا سکتا ہے۔ اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ ربط و تعلق کی بھی ممانعت نکلتی ہے، اگر مصلحت عامہ یا دینی منافع متقاضی ہوں۔ ایسی صورت میں دل سے نفرت رکھتے ہوئے ان سے ربط وتعلق کی اجازت ہوگی۔ جیسا کہ بعض احادیث سے واضح ہے۔ ھود
114 1- ”دونوں سروں“ سے مراد بعض نے صبح اور مغرب، اور بعض نے عشاء اور مغرب دونوں کا وقت مراد لیا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آیت معراج سے قبل نازل ہوئی ہو، جس میں پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔ کیونکہ اس سے قبل صرف دو ہی نمازیں ضروری تھیں، ایک طلوع شمس سے قبل اور ایک غروب سے قبل اور رات کے پچھلے پہر میں نماز تہجد۔ پھر نماز تہجد امت سے معاف کر دی گئی، پھر اس کا وجوب بقول بعض آپ (ﷺ) سے بھی ساقط کر دیا گیا۔ (ابن کثیر) وَاللهُ أَعْلَمُ۔ 2- جس طرح کہ احادیث میں بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا پانچ نمازیں، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، ان کے مابین ہونے والے گناہوں کو دور کرنے والے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے، ( صحيح مسلم- كتاب الطهارة- باب الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة ..... ) ایک اور حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ”بتلاؤ! اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر بڑی نہر ہو، وہ روزانہ اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو، کیا اس کے بعد اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ نے عرض کیا ' نہیں' آپ نے فرمایا ' اسی طرح پانچ نمازیں ہیں، ان کے ذریعے سے اللہ تعالٰی گناہوں اور خطاؤں کو مٹا دیتا ہے“۔ ( بخاری- كتاب المواقيت، باب الصلوات الخمس كفارة، ومسلم كتاب المساجد، باب المشي إلى الصلاة تمحى بها الخطايا وترفع به الدرجات ) ھود
115 ھود
116 1- یعنی گزشتہ امتوں میں ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو شر، منکرات اور فساد سے روکتے؟ پھر فرمایا، ایسے لوگ تھے تو سہی، لیکن بہت تھوڑے۔ جنہیں ہم نے اس وقت نجات دے دی، جب دوسروں کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا۔ 2- یعنی یہ ظالم۔ اپنے ظلم پر قائم اور اپنی مد ہوشیوں میں مست رہے حتٰی کہ عذاب نے انہیں آ لیا۔ ھود
117 ھود
118 ھود
119 1- ”اسی لئے“ کا مطلب بعض نے اختلاف اور بعض نے رحمت لیا ہے۔ دونوں صورتوں میں مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے انسانوں کو آزمائش کے لئے پیدا کیا ہے۔ جو دین حق سے اختلاف کا راستہ اختیار کرے گا، وہ آزمائش میں ناکام اور جو اسے اپنا لے گا، وہ کامیاب اور رحمت الٰہی کا مستحق ہوگا۔ 2- یعنی اللہ کی تقدیر اور قضاء میں یہ بات ثبت ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونگے جو جنت کے اور کچھ ایسے ہونگے جو جہنم کے مستحق ہوں گے اور جنت و جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دیا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، نبی نے فرمایا: جنت اور دوزخ آپس میں جھگڑ پڑیں، جنت نے کہا، کیا بات ہے کہ میرے اندر وہی لوگ آئیں گے جو کمزور اور معاشرے کے گرے پڑے لوگ ہوں گے؟ جہنم نے کہا میرے اندر تو بڑے بڑے جبار اور متکبر قسم کے لوگ ہوں گے" اللہ تعالٰی نے، جنت سے فرمایا تو میری رحمت کی مظہر ہے، تیرے ذریعے سے میں جس پر چاہوں اپنا رحم کروں۔ اور جہنم سے اللہ تعالٰی نے فرمایا تو میرے عذاب کی مظہر ہے تیرے ذریعے سے میں جس کو چاہوں سزا دوں۔ اللہ تعالٰی جنت اور دوزخ دونوں کو بھر دے گا۔ جنت میں ہمیشہ اس کا فضل ہوگا، حتٰی کہ اللہ تعالٰی ایسی مخلوق پیدا فرمائے گا جو جنت کے باقی ماندہ رقبے میں رہے گی اور جہنم، جہنمیوں کی کثرت کے باوجود «هَلْ مِنْ مَزِيدٍ» نعرہ بلند کرے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اس میں اپنا قدم رکھے گا جس پر جہنم پکار اٹھے گی قط قط وعزتک، بس، بس، تیری عزت و جلال کی قسم "۔ (صحيح بخاری، كتاب التوحيد، باب ما جاء في قوله تعالى﴿ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ ، وتفسير سورة ق - مسلم كتاب الجنة باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء) ھود
120 ھود
121 ھود
122 1- یعنی عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ حسن انجام کس کے حصے میں آتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہونگے۔ چنانچہ یہ وعدہ جلد ہی پورا ہوا اور اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمایا اور پورہ جزیرہ عرب اسلام کے زیر نگین آ گیا۔ ھود
123 ھود
0 یوسف
1 یوسف
2 1- آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد، لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہے اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ سکیں، اس لئے ہر آسمانی کتاب اس قومی زبان میں نازل ہوئی، جس قوم کی ہدایت کے لئے اتاری گئی تھی۔ قرآن کریم کے مخاطب اول چونکہ عرب تھے، اس لئے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا۔ علاوہ ازیں عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زبان ہے۔ اس لئے اللہ تعالٰی نے اس اشرف الکتاب (قرآن مجید) کو اشرف اللغات (عربی) میں اشرف الرسل (حضرت محمد ﷺ) پر اشرف الملائکہ (جبرائیل) کے ذریعے سے نازل فرمایا اور مکہ، جہاں اس کا آغاز ہوا، دنیا کا اشرف ترین مقام ہے اور جس مہینے میں نزول کی ابتدا ہوئی وہ بھی اشرف ترین مہینہ، رمضان ہے۔ یوسف
3 1- قصص، یہ مصدر ہے، اس کے معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے لگنا، مطلب دلچسپ واقعہ ہے۔ قصہ، محض کہانی یا طبع زاد افسانے کو نہیں کہا جاتا بلکہ ماضی میں گزر جانے والے واقعے کے بیان کو قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا اخبار ماضی کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقع میں حسد و عناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں، نفس امارہ کی شورشیں اور سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوادث کا نہایت دلچسپ بیان اور عبرت انگیز پہلو ہیں، اس لئے اس قرآن نے احسن القصص(بہترین بیان) سے تعبیر کیا ہے۔ 2- قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے نبی کریم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالٰی آپ کو بےخبر قرار نہ دیتا، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ(ﷺ) اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ پر وحی کے ذریعے سے ہی سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تھے، کہ کسی استاد سے سیکھ کر بیان فرما دیتے، نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے سن کر تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اہم جزئیات کے ساتھ آپ نشر کر دیتے۔ یہ یقیناً اللہ تعالٰی ہی نے وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے جیسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔ یوسف
4 1- یعنی اے محمد! (ﷺ) اپنی قوم کے سامنے یوسف (عليہ السلام) کا قصہ بیان کرو، جب اس نے اپنے باپ کو کہا باپ حضرت یعقوب (عليہ السلام) تھے، جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے اور حدیث میں بھی یہ نسب بیان کیا گیا ہے۔ [ الْكَرِيمُ ابْنُ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ] (مسند أحمد - جلد 2ص96)۔ 2- بعض مفسرین نے کہا ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف (عليہ السلام) کے بھائی ہیں جو گیارہ تھے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہیں اور خواب کی تعبیر چالیس یا اسی سال کے بعد اس وقت سامنے آئی جب یہ سارے بھائی اپنے والدین سمیت مصر گئے اور وہاں حضرت یوسف (عليہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، جیسا کہ یہ تفصیل سورت کے آخر میں آئے گی۔ یوسف
5 1- حضرت یعقوب (عليہ السلام) نے خواب سے اندازہ لگا لیا کہ ان کا یہ بیٹا عظمت شان کا حامل ہوگا، اس لئے انہیں اندیشہ ہوا کہ یہ خواب سن کر اس کے دوسرے بھائی بھی اس کی عظمت کا اندازہ کر کے کہیں اسے نقصان نہ پہنچائیں، بنا بریں انہوں نے یہ خواب بیان کرنے سے منع فرمایا۔ 2- یہ بھائیوں کے مکروفریب کی وجہ بیان فرما دی کہ شیطان چونکہ انسان کا ازلی دشمن ہے اس لئے وہ انسانوں کو بہکانے، گمراہ کرنے اور انہیں حسد و بغض میں مبتلا کرنے میں ہر وقت کوشاں اور تاک میں رہتا ہے۔ چنانچہ یہ شیطان کے لئے بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کے خلاف بھائیوں کے دلوں میں حسد اور بغض کی آگ بھڑکا دے۔ جیسا کہ فی الواقع بعد میں اس نے ایسا ہی کیا اور حضرت یعقوب (عليہ السلام) کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ یوسف
6 1- یعنی جس طرح تجھے تیرے رب نے نہایت عظمت والا خواب دکھانے کے لئے چن لیا، اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدگی بھی عطا کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔ ﴿تَأْوِيلُ الأَحَادِيثِ﴾ کے اصل معنی باتوں کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ یہاں خواب کی تعبیر مراد ہے۔ 2- اس سے مراد نبوت ہے جو یوسف (عليہ السلام) کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے مصر میں یوسف (عليہ السلام) نوازے گئے۔ 3- اس سے مراد حضرت یوسف (عليہ السلام) کے بھائی، ان کی اولاد وغیرہ ہیں، جو بعد میں انعامات الٰہی کے مستحق بنے۔ یوسف
7 1- یعنی اس قصے میں اللہ تعالٰی کی عظیم قدرت اور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ بعض مفسرین نے یہاں ان بھائیوں کے نام اور ان کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ یوسف
8 1- ”اس کا بھائی“ سے مراد بنیامین ہے۔ 2- یعنی ہم دس بھائی طاقتور جماعت اور اکثریت میں ہیں، جب کہ یوسف (عليہ السلام) اور بنیامین (جن کی ماں الگ تھی) صرف دو ہیں، اس کے باوجود باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں۔ 3- یہاں ضلال سے مراد غلطی ہے جو ان کے زعم کے مطابق باپ سے یوسف (عليہ السلام) اور بنیامین سے زیادہ محبت کی صورت میں صادر ہوئی۔ یوسف
9 1- اس سے مراد تائب ہو جانا ہے یعنی کنوئیں میں ڈال کر یا قتل کر کے اللہ سے اس گناہ کے لئے توبہ کرلیں گے۔ یوسف
10 1- جُبٌّ کنویں کو اور غَيَابَةٌ اس کی تہ اور گہرائی کو کہتے ہیں، کنواں ویسے بھی گہرا ہی ہوتا ہے اور اس میں گری ہوئی چیز کسی کو نظر نہیں آتی۔ جب اس کے ساتھ کنویں کی گہرائی کا بھی ذکر کیا تو گویا مبالغے کا اظہار کیا۔ 2- یعنی آنے جانے والے نو وارد مسافر، جب پانی کی تلاش میں کنوئیں پر آئیں گے تو ممکن ہے کسی کے علم میں آ جائے کہ کنوئیں میں کوئی انسان گرا ہوا ہے اور وہ اسے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں۔ یہ تجویز ایک بھائی نے ازراہ شفقت پیش کی تھی۔ قتل کے مقابلے میں یہ تجویز واقعتا ہمدردی کے جذبات ہی کی حامل ہے۔ بھائیوں کی آتش حسد اتنی بھڑکی ہوئی تھی کہ یہ تجویز بھی اس نے ڈرتے ڈرتے ہی پیش کی کہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کام اس طرح کر لو۔ یوسف
11 1- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس سے قبل بھی برداران یوسف (عليہ السلام) نے یوسف (عليہ السلام) کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ہوگی اور باپ نے انکار کر دیا ہوگا۔ یوسف
12 1- کھیل اور تفریح کا رجحان، انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اسی لئے جائز کھیل اور تفریح پر اللہ تعالٰی نے کسی دور میں بھی پابندی عائد نہیں کی۔ اسلام میں بھی اجازت ہے لیکن مشروط۔ یعنی ایسے کھیل اور تفریح جائز جن میں شرعی قباحت نہ ہو یا محرمات تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں۔ چنانچہ حضرت یعقوب (عليہ السلام) نے بھی کھیل کود کی حد تک کوئی اعتراض نہیں کیا۔ البتہ یہ خدشہ ظاہر کیا کہ تم کھیل کود میں مدہوش ہو جاؤ اور اسے بھڑیا کھا جائے، کیونکہ کھلے میدانوں اور صحراؤں میں وہاں بھیڑیئے عام تھے۔ یوسف
13 یوسف
14 1- یہ باپ کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اتنے بھائیوں کی موجودگی میں بھیڑیا یوسف (عليہ السلام) کو کھا جائے۔ یوسف
15 1- قرآن کریم نہایت اختصار کے ساتھ واقعہ بیان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انہوں نے یوسف (عليہ السلام) کو کنویں میں پھینک دیا، تو اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليہ السلام) کی تسلی اور حوصلے کے لئے وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تیری حفاظت ہی نہیں کریں گے بلکہ ایسے بلند مقام پر تجھے فائز کریں گے کہ یہ بھائی بھیک مانگتے ہوئے تیری خدمت میں حاضر ہونگے اور پھر تو انہیں بتائے گا کہ تم نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ اس طرح سنگ دلانہ معاملہ کیا تھا، جسے سن کر وہ حیران اور پشیمان ہو جائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ الاسلام اس وقت اگرچہ بچے تھے، لیکن جو بچے، نبوت پر سرفراز ہونے والے ہوں، ان پر بچپن میں بھی وحی آ جاتی ہےجیسے حضرت عیسیٰ ویحیٰی وغیرہم علیہم السلام پر آئی۔ یوسف
16 یوسف
17 1- یعنی اگر ہم آپ کے نزدیک ثقہ اور اہل صدق ہوتے، تب بھی یوسف (عليہ السلام) کے معاملے میں آپ ہماری بات کی تصدیق نہ کرتے، اب تو ویسے ہی ہماری حیثیت متہم اور مشکوک افراد کی سی ہے، اب آپ کس طرح ہماری بات کی تصدیق کریں گے؟۔ یوسف
18 1- کہتے ہیں کہ ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے یوسف (عليہ السلام) کی قمیص خون میں لت پت کر لی اور یہ بھول گئے کہ بھیڑیا اگر یوسف (عليہ السلام) کو کھاتا تو قمیص کو بھی پھٹنا تھا، قمیص ثابت کی ثابت ہی تھی جس کو دیکھ کر، علاوہ ازیں حضرت یوسف (عليہ السلام) کے خواب اور فراست نبوت سے اندازہ لگا کر حضرت یعقوب (عليہ السلام) نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا جو تم بیان کر رہے ہو، بلکہ تم نے اپنے دلوں سے ہی یہ بات بنا لی ہے، تاہم چونکہ، جو ہونا تھا، ہوچکا تھا، حضرت یعقوب اس کی تفصیل سے بےخبر تھے، اس لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ اور اللہ کی مدد کے علاوہ کوئی سہارا نہ تھا۔ 2- منافقین نے جب حضرت عائشہ (رضی الله عنها) ا پر تہمت لگائی تو انہوں نے بھی نبی (ﷺ) کے افہام وارشاد کے جواب میں فرمایا تھا۔ وَاللهِ لا أَجِدُ لِي وَلا لَكُمْ مَثَلا إِلا أَبَا يُوسُفَ ﴿فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ﴾ (صحيح بخاری ، تفسير سورة يوسف) ”اللہ کی قسم میں اپنے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثال پاتی ہوں جس سے یوسف (عليہ السلام) کے باپ یعقوب (عليہ السلام) کو سابقہ پیش آیا تھا اور انہوں نے فَصَبْرٌ جَمِيلٌ کہہ کر صبر کا راستہ اختیار کیا تھا“، یعنی میرے لیے بھی سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں۔ یوسف
19 1- وارد اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلے کے لئے پانی وغیرہ انتظام کرنے کی غرض سے قافلے کے آگے آگے چلتا ہے تاکہ مناسب جگہ دیکھ کر قافلے کو ٹھیرایا جا سکے یہ وراد (جب کنویں پر آیا اور اپنا ڈول نیچے لٹکایا تو حضرت یوسف (عليہ السلام) نے اس کی رسی پکڑ لی، وارد نے ایک خوش شکل بچہ دیکھا تو اسے اوپر کھنچ لیا اور بڑا خوش ہوا۔ 2- بِضَاعَةً سامان تجارت کو کہتے ہیں أَسَرُّوهُ کا فاعل کون ہے؟ یعنی یوسف کو سامان تجارت سمجھ کر چھپانے والا کون ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن کثیر نے برادران یوسف (عليہ السلام) کو فاعل قرار دیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب ڈول کے ساتھ یوسف (عليہ السلام) بھی کنویں سے باہر نکل آئے تو وہاں یہ بھائی بھی موجود تھے، تاہم انہوں نے اصل حقیقت کو چھپائے رکھا، یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا بھائی ہے اور حضرت یوسف (عليہ السلام) نے بھی قتل کے اندیشے سے اپنا بھائی ہونا ظاہر نہیں کیا بلکہ بھائیوں نے انہیں فروختنی قرار دیا تو خاموش رہے اور اپنا فروخت ہونا پسند کر لایا۔ چنانچہ اس وارد نے اہل قافلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایک بچہ فروخت ہو رہا ہے۔ مگر یہ بات سیاق سے میل کھاتی نظر نہیں آتی۔ ان کے برخلاف امام شوکانی نے أَسَرُّوهُ کا فاعل وارد اور اس کے ساتھیوں کو قرار دیا ہے کہ انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ بچہ کنویں سے نکلا ہے کیونکہ اس طرح تمام اہل قافلہ اس سامان تجارت میں شریک ہو جاتے بلکہ اہل قافلہ کو انہوں نے جا کر یہ بتلایا کہ کنویں کے مالکوں نے یہ بچہ ان کے سپرد کیا ہے تاکہ اسے وہ مصر جا کر بیچ دیں۔ مگر اقرب ترین بات یہ ہے کہ اہل قافلہ نے بچے کو سامان تجارت قرار دے کر چھپا لیا کہ کہیں اس کے عزیز واقارب اس کی تلاش میں نہ آ پہنچیں۔ اور یوں لینے کے دینے پڑ جائیں کیونکہ بچہ ہونا اور کنویں میں پایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کہیں قریب ہی کا رہنے والا ہے اور کھیلتے کودتے آ گرا ہے۔ 3- یعنی یوسف (عليہ السلام) کے ساتھ یہ جو کچھ ہو رہا تھا، اللہ کو اس کا علم تھا۔ لیکن اللہ نے یہ سب کچھ اس لیے ہونے دیا کہ تقدیر الہی بروئے کار آئے۔ علاوہ ازیں اس میں رسول اللہ (ﷺ) کے لیے اشارہ ہے یعنی اللہ تعالٰی اپنے پیغمبر کو بتلا رہا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ یقیناً ایذا پہنچا رہے ہیں اور میں انہیں اس سے روکنے پر قادر بھی ہوں۔ لیکن میں اسی طرح انہیں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران یوسف (عليہ السلام) کو مہت دی تھی۔ اور پھر بالآخر میں نے یوسف (عليہ السلام) کو مصر کے تخت پر جا بٹھایا اور اس کے بھائیوں کو عاجز ولاچار کر کے اس کے دربار میں کھڑا کر دیا اے پیغمبر ایک وقت آئے گا کہ آپ بھی اسی طرح سرخرو ہوں گے اور سرداران قریش آپ کے اشارہ ابرو اور جنبش لب کے منتظر ہوں گے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر یہ وقت جلد ہی آ پہنچا۔ یوسف
20 1- بھائیوں یا دوسری تفسیر کی رو سے اہل قافلہ نے بیچا۔ 2- کیونکہ گری پڑی چیز انسان کو یوں ہی کسی محنت کے بغیر مل جاتی ہے، اس لئے چاہے وہ کتنی بھی قیمتی ہو، اس کی صحیح قدر وقیمت انسان پر واضح نہیں ہوتی۔ یوسف
21 1- کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ریان بن ولید حکمران تھا اور یہ عزیز مصر، جس نے یوسف (عليہ السلام) کو خریدا اس کا وزیر خزانہ تھا، اس کی بیوی کا نام بعض نے راعیل اور بعض نے زلیخا بتلایا ہے واللہ اعلم۔ 2- یعنی جس طرح ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو کنویں سے ظالم بھائیوں سے نجات دی، اسی طرح ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو سرزمین مصر میں ایک معقول اچھا ٹھکانا عطا کیا۔ یوسف
22 1- یعنی نبوت یا نبوت سے قبل کی دانائی اور قوت فیصلہ۔ یوسف
23 1- یہاں سے حضرت یوسف (عليہ السلام) کا نیا امتحان شروع ہوا عزیز مصر کی بیوی، جس کو اس کے خاوند نے تاکید کی تھی کہ یوسف (عليہ السلام) کو اکرام واحترام کے ساتھ رکھے، وہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کے حسن وجمال پر فریفتہ ہوگئی اور انہیں دعوت گناہ دینے لگی، جسے حضرت یوسف (عليہ السلام) نے ٹھکرا دیا۔ یوسف
24 1- بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ﴿لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّه﴾(یوسف:24) کا تعلق ماقبل یعنی ﴿وَهَمَّ بِهَا﴾ سے نہیں بلکہ اس کا جواب محذوف ہے یعنی "لَوْلا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ لَفَعَلَ مَا هَمَّ بِهِ" ترجمہ یہ ہوگا کہ اگر یوسف (عليہ السلام) اللہ کی دلیل نہ دیکھتے تو جس چیز کا قصد کیا تھا وہ کر گزرتے۔ یہ ترجمہ اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور جن لوگوں نے اسے لَوْلَا کے ساتھ جوڑ کر یہ معنی بیان کئے ہیں کہ یوسف (عليہ السلام) نے قصد ہی نہیں کیا، ان مفسرین نے اسے عربی اسلوب کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور یہ معنی بیان کئے ہیں کہ قصد تو یوسف (عليہ السلام) نے بھی کر لیا تھا لیکن ایک تو یہ اختیاری نہیں تھا بلکہ عزیز مصر کی بیوی کی ترغیب اور دباؤ اس میں شامل تھا۔ دوسرے یہ کہ گناہ کا قصد کر لینا عصمت کے خلاف نہیں ہے، اس پر عمل کرنا عصمت کے خلاف ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) مگر محققین اہل تفسیر نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ یوسف (عليہ السلام) بھی اس کا قصد کر لیتے۔ اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھے ہوتے۔ یعنی انہوں نے اپنے رب کی برہان دیکھ رکھی تھی۔ اس لیے عزیز مصر کی بیوی کا قصد ہی نہیں کیا۔ بلکہ دعوت گناہ ملتے ہی پکار اٹھے ﴿مَعَاذَ اللَّهِ﴾۔ البتہ قصد نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ نفس میں ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی۔ ہیجان اور تحریک پیدا ہو جانا الگ بات ہے۔ اور قصد کر لینا الگ بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سرے سے ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہ ہو تو ایسے شخص کا گناہ سے بچ جانا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو تب ہی ہے کہ نفس کے اندر داعیہ اور تحریک پیدا ہو اور پھر انسان اس پر کنٹرول کرے اور گناہ سے بچ جائے۔ حضرت یوسف (عليہ السلام) نے اسی کمال صبر و ضبط کا بےمثال نمونہ پیش فرمایا۔ 2- یہاں پہلی تفسیر کے مطابق لَوْلاَ کا جواب محذوف ہے لَفَعَلَ مَا هَمَّ بِهِ یعنی اگر یوسف (عليہ السلام) رب کی برہان دیکھتے تو جو قصد کیا تھا کر گزرتے۔ یہ برہان کیا تھی؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رب کی طرف سے کوئی ایسی چیز آپ کو دکھائی گئی کہ اسے دیکھ کر آپ نفس کے داعیئے کے دبانے اور رد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اللہ تعالٰی اپنے پیغمبروں کی اسی طرح حفاظت فرماتا ہے۔ 3- یعنی جس طرح ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو برہان دکھا کر برائی یا اس کے ارادے سے بچا لیا، اسی طرح ہم نے اسے ہر معاملے میں برائی اور بےحیائی کی باتوں سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ کیونکہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ یوسف
25 1- جب حضرت یوسف (عليہ السلام) نے دیکھا کہ وہ عورت برائی کے ارتکاب پر مصر ہے، تو وہ باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑے، یوسف (عليہ السلام) کے پیچھے انہیں پکڑنے کے لئے عورت بھی دوڑی۔ یوں دونوں دروازے کی طرف لپکے اور دوڑے۔ 2- یعنی خاوند کو دیکھتے ہی خود معصوم بن گئی اور مجرم تمام تر یوسف (عليہ السلام) کو قرار دے کر ان کے لئے سزا بھی تجویز کر دی۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس تھی، مجرم خود تھی جب کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) بالکل بےگناہ اور برائی سے بچنے کے خواہش مند اور اس کے لئے کوشاں تھے۔ یوسف
26 1- حضرت یوسف (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ وہ عورت تمام الزام ان پر ہی دھر رہی ہے صورت حال واضح کر دی اور کہا کہ مجھے برائی پر مجبور کرنے والی یہی ہے۔ میں اس سے بچنے کے لئے باہر دروازے کی طرف بھاگتا ہوا آیا ہوں۔ 2- یہ انہی کے خاندان کا کوئی سمجھدار آدمی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا۔ فیصلے کو یہاں شہادت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، کیونکہ معاملہ ابھی تحقیق طلب تھا۔ شیر خوار بچے کی شہادت والی بات مستند روایات سے ثابت نہیں۔ صحیحین میں تین شیر خوار بچوں کے بات کرنے کی حدیث ہے جن میں یہ چوتھا نہیں ہے جس کا ذکر اس مقام پر کیا جاتا ہے۔ یوسف
27 یوسف
28 1- یہ عزیز مصر کا قول ہے جو اس نے اپنی بیوی کی حرکت قبیحہ دیکھ کر عورتوں کی بابت کہا، یہ نہ اللہ کا قول ہے نہ ہر عورت کے بارے میں صحیح، اس لئے اسے ہر عورت پر چسپاں کرنا اور اس بنیاد پر عورت کو مکر وفریب کا پتلا باور کرانا، قرآن کا ہرگز منشا نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ اس جملے سے عورت کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں۔ یوسف
29 1- یعنی اس کا چرچا مت کرو۔ 2- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز مصر پر حضرت یوسف (عليہ السلام) کی پاک دامنی واضح ہو گئی تھی۔ یوسف
30 1- جس طرح خوشبو کو پردوں سے چھپا یا نہیں جا سکتا ، عشق و محبت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ گو عزیز مصر نے حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اسے نظر انداز کرنے کی تلقین کی اور یقیناً آپ کی زبان مبارک پر اس کا کبھی ذکر بھی نہیں آیا ہوگا اس کے باوجود یہ واقعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور زنان مصر میں اس کا چرچا عام ہو گیا، عورتیں تعجب کرنے لگیں کی عشق کرنا تھا تو کسی پیکر حسن و جمال سے کیا جاتا، یہ کیا اپنے ہی غلام پر زلیخا فریفتہ ہو گئی، یہ تو اس کی ہی نادانی ہے۔ یوسف
31 1- زنان مصر کی غائبانہ باتوں اور طعن و ملامت کو مکر سے تعبیر کیا گیا، جس کی وجہ سے بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان عورتوں کو بھی یوسف کے بےمثال حسن و جمال کی اطلاعات پہنچ چکی تھیں۔ چنانچہ وہ اس پیکر حسن کو دیکھنا چاہتی تھیں چنانچہ وہ اپنے اس مکر خفیہ تدبیر میں کامیاب ہوگئیں اور امرأۃ العزیز نے یہ بتلانے کے لیے کہ میں جس پر فریفتہ ہوئی ہوں، محض ایک غلام یا عام آدمی نہیں ہے بلکہ ظاہر وباطن کے ایسے حسن سے آراستہ ہے کہ اسے دیکھ کر نقد دل و جان ہار جانا کوئی انہونی بات نہیں، لہذا ان عورتوں کی ضیافت کا اہتمام کیا اور انہیں دعوت طعام دی۔ 2- یعنی ایسی نشست گاہیں بنائیں جن میں تکئے لگے ہوئے تھے، جیسا کہ آج کل بھی عربوں میں ایسی فرشی نشست گاہیں عام ہیں۔ حتی کہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی ان کا اہتمام ہے۔ 3- یعنی حضرت یوسف (عليہ السلام) کو پہلے چھپائے رکھا، جب سب عورتوں نے ہاتھوں میں چھریاں پکڑ لیں تو امراۃ العزیز (زلیخا) نے حضرت یوسف (عليہ السلام) کو مجلس میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ 4- یعنی حسن یوسف (عليہ السلام) کی جلوہ آرائی دیکھ کر ایک تو ان کے عظمت وجلال شان کا اعتراف کیا اور دوسرے، ان پر بےخودی کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ چھریاں اپنے ہاتھوں پر چلا لیں۔ جس سے ان کے ہاتھ زخمی اور خون آلودہ ہوگئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کو نصف حسن دیا گیا ہے (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الإسراء) 5- اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فرشتے شکل وصورت میں انسان سے بہتر یا افضل ہیں۔ کیونکہ فرشتوں کو تو انسانوں نے دیکھا ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں انسان کے بارے میں تو اللہ تعالٰی نے خود قرآن کریم میں صراحت کی ہے کہ ہم نے اسے احسن تقویم بہترین انداز میں پیدا کیا ہے۔ ان عورتوں نے بشریت کی نفی محض اس لیے کی کہ انہوں نے حسن وجمال کا ایک ایسا پیکر دیکھا تھا جو انسانی شکل میں کبھی ان کی نظروں سے نہیں گزرا تھا اور انہوں نے فرشتہ اس لیے قرار دیا کہ عام انسان یہی سمجھتا ہے فرشتے ذات وصفات کے لحاظ سے ایسی شکل رکھتے ہیں جو انسانی شکل سے بالاتر ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ انبیاء کی غیر معمولی خصوصیات وامتیازات کی بناء پر انہیں انسانیت سے نکال کر نورانی مخلوق قرار دینا، ہر دور کے ایسے لوگوں کا شیوہ رہا ہے جو نبوت اور اس کے مقام سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ یوسف
32 1- جب امرأة العزیز نے دیکھا اس کی چال کامیاب رہی ہے اور عورتیں یوسف (عليہ السلام) کے جلوہ حسن آراء سے مد ہوش ہوگئیں تو کہنے لگی، کہ اس کی ایک جھلک سے تمہارا یہ حال ہو گیا ہے تو کیا تم اب بھی مجھے اس کی محبت میں گرفتار ہونے پر طعنہ زنی کروگی؟ یہی وہ غلام ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی ہو۔ 2- عورتوں کی مد ہوشی دیکھ کر اس کو مزید حوصلہ ہو گیا اور شرم وحیا کے سارے حجاب دور کر کے اس نے اپنے برے ارادے کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا۔ یوسف
33 1- حضرت یوسف (عليہ السلام) نے یہ دعا اپنے دل میں کی۔ اس لئے کہ ایک مومن کے لئے دعا بھی ایک ہتھیار ہے۔ حدیث میں آتا ہے، سات آدمیوں کو قیامت والے دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے ایک ایسی عورت دعوت گناہ دے جو حسن وجمال سے بھی آراستہ ہو اور جاہ ومنصب کی حامل ہو۔ لیکن وہ اس کے جواب میں کہہ دے کہ ”میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں“ (صحيح بخاری- كتاب الأذان، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة وفضل المساجد ومسلم، كتاب الزكاة باب فضل إخفاء الصدقة) یوسف
34 یوسف
35 1- عفت وپاک دامنی واضح ہو جانے کے باوجود یوسف (عليہ السلام) کو حوالہ زنداں کرنے میں یہی مصلحت ان کے پیش نظر ہو سکتی تھی کہ عزیز مصر حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اپنی بیوی سے دور رکھنا چاہتا ہوگا تاکہ وہ دوبارہ یوسف (عليہ السلام) کو اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش نہ کرے جیسا کہ وہ ایسا ارادہ رکھتی تھی۔ یوسف
36 1- یہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک شراب پلانے پر معمور تھا اور دوسرا نان بھائی تھا، کسی حرکت پر دونوں کو پس دیوار زنداں کردیا گیا۔ حضرت یوسف (عليہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت تقویٰ وراست بازی اور اخلاق وکردار کے لحاظ سے جیل میں دیگر تمام قیدیوں سے ممتاز تھے علاوہ ازیں خوابوں کی تعبیر کا خصوصی علم اور ملکہ اللہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ ان دونوں نے خواب دیکھا تو قدرتی طور پر حضرت یوسف (عليہ السلام) کی طرف انہوں نے رجوع کیا اور کہا ہمیں آپ محسنین میں سے نظر آتے ہیں، ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ محسن کے ایک معنی بعض نے یہ بھی کئے ہیں کہ خواب کی تعبیر آپ اچھی کر لیتے ہیں۔ یوسف
37 1- یعنی میں جو تعبیر بتلاؤں گا، وہ کاہنوں اور نجومیوں کی طرح ظن وتخمین پر مبنی نہیں ہوگی، جس میں خطا اور نیکی دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بلکہ میری تعبیر یقینی علم پر مبنی ہوگی جو اللہ کی طرف سے مجھے عطا کیا گیا ہے، جس میں غلطی کا امکان ہی نہیں۔ 2- یہ الہام اور علم الٰہی (جن سے آپ کو نوازا گیا) کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا جو اللہ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے، اس کے صلے میں اللہ تعالٰی کے یہ انعامات مجھ پر ہوئے۔ یوسف
38 1- اجداد کو بھی آباء کہا، اس لئے کہ وہ بھی آباء ہی ہیں۔ پھر ترتیب میں جد اعلٰی (ابراہیم علیہ السلام) پھر جد اقرب (اسحاق علیہ السلام) اور پھر باپ (یعقوب علیہ السلام) کا ذکر کیا، یعنی پہلے۔ پہلی اصل، پھر دوسری اصل اور پھر تیسری اصل بیان کی۔ 2- وہی توحید کی دعوت اور شرک کی تردید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین تعلیم اور دعوت ہوتی ہے۔ یوسف
39 1- قید خانے کے ساتھی۔ اسلئے قرار دیا کہ یہ سب ایک عرصے سے جیل میں محبوس چلے آ رہے تھے۔ 2- تفریق ذوات، صفات اور عدد کے لحاظ سے ہے۔ یعنی وہ رب، جو ذات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفرق، صفات میں ایک دوسرے سے مختلف اور تعداد میں باہم متنافی ہیں، وہ بہتر ہیں یا اللہ، جو اپنی ذات وصفات میں متفرد ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ سب پر غالب اور حکمران ہے؟۔ یوسف
40 1- اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان کا نام معبود تم نے خود ہی رکھ لیا ہے، دراں حالیکہ وہ معبود ہیں نہ ان کی بابت کوئی دلیل اللہ نے اتاری ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان معبودوں کے جو مختلف نام تم نے تجویز کر رکھے ہیں۔ مثلا خواجہ غریب نواز، گنج بخش، کرنی والا، کرماں والا وغیرہ یہ سب تمہارے خود ساختہ ہیں۔ ان کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ 2- یہی دین، جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے، درست اور قیم ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ 3- جس کی وجہ سے اکثر لوگ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ﴿وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ﴾ (سورۂ یوسف:106) ”ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں“ اور فرمایا ﴿وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ﴾ (سورۂ یوسف:103) ”اے پیغمبر تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے والے نہیں ہیں“۔ یوسف
41 1- توحید کا وعظ کرنے کے بعد اب حضرت یوسف (عليہ السلام) ان کے بیان کردہ خوابوں کی تعبیر بیان فرما رہے ہیں۔ 2- یہ وہی شخص ہے جس نے خواب میں اپنے کو انگور کا شیرہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تاہم آپ نے دونوں میں سے کسی ایک کی تعیین نہیں کی تاکہ مرنے والا پہلے ہی غم و حزن میں مبتلا نہ ہو جائے۔ 3- یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے سر پر خواب میں روٹیاں اٹھائے دیکھا تھا۔ 4- یعنی تقدیر الٰہی میں پہلے سے یہ بات ثبت ہے اور جو تعبیر میں بتلائی ہے۔ لا محالہ واقع ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ ”خواب، جب تک اس کی تعبیر نہ کی جائے، پرندے کے پاؤں پر ہے۔ جب اس کی تعبیر کر دی جائے تو واقع ہو جاتا ہے“ (مسند احمد بحوالہ ابن کثیر) یوسف
42 1- بِضْعَ کا لفظ تین سے لے کر نو تک عدد کے لیے بولا جاتا ہے، وہب بن منبہ کا قول ہے۔ حضرت ایوب (عليہ السلام) آزمائش میں اور یوسف (عليہ السلام) قید خانے میں سات سال رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال رہا اور بعض کے نزدیک بارہ سال اور بعض کے نزدیک چودہ سال قید خانے میں رہے۔ واللہ اعلم۔ یوسف
43 یوسف
44 1- أَضْغَاثٌ ضِغْثٌ کی جمع ہے جس کے معنی گھاس کے گٹھے کے ہیں۔ أَحْلامٍ حِلْمٌ (بمعنی خواب) کی جمع ہے۔ اضغاث احلام کے معنی ہوں گے خواب ہائے پریشان، یا خیالات منتشرہ، جن کی کوئی تعبیر نہ ہو۔ یہ خواب اس بادشاہ کو آیا، عزیز مصر جس کا وزیر تھا۔ اللہ تعالٰی کو اس خواب کے ذریعے سے یوسف (عليہ السلام) کی رہائی عمل میں لانی تھی۔ چنانچہ بادشاہ کے درباریوں، کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب پریشان کی تعبیر بتلانے سے عجز کا اظہار کر دیا، بعض کہتے ہیں کہ نجومیوں کے اس قول کا مطلب مطلقا علم تعبیر کی نفی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ علم تعبیر سے وہ بےخبر نہیں تھے نہ اس کی انہوں نے نفی کی، انہوں نے صرف خواب کی تعبیر بتلانے سے لا علمی کا اظہار کیا۔ یوسف
45 1- یہ قید کے دو ساتھیوں میں سے ایک نجات پانے والا تھا، جسے حضرت یوسف (عليہ السلام) نے کہا تھا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا، تاکہ میری رہائی کی صورت بن سکے۔ اسے اچانک یاد آیا اور اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو میں تمہیں آ کر اس کی تعبیر بتلاتا ہوں، چنانچہ وہ نکل کر سیدھا یوسف (عليہ السلام) کے پاس پہنچا اور خواب کی تفصیل بتا کر اس کی تعبیر کی بابت پوچھا۔ یوسف
46 یوسف
47 یوسف
48 1- حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اللہ تعالٰی نے علم تعبیر سے بھی نوازا تھا، اس لئے وہ اس خواب کی تہ تک فورا پہنچ گئے انہوں نے موٹی تازہ سات گایوں سے سات سال مراد لئے جن میں خوب پیداوار ہوگی، اور سات دبلی پتلی گایوں سے اس کے برعکس سات سال خشک سالی کے۔ اسی طرح سات سبز خوشوں سے مراد لیا کہ زمین خوب پیداوار دے گی اور سات خشک خوشوں کا مطلب یہ ہے کہ ان سات سالوں میں زمین کی پیداوار نہیں ہوگی۔ اور پھر اس کے لئے تدبیر بھی بتلائی کہ سات سال تم متواتر کاشتکاری کرو اور جو غلہ تیار ہو، اسے کاٹ کر بالیوں سمیت ہی سنبھال کر رکھو تاکہ ان میں غلہ زیادہ محفوظ رہے، پھر جب سات سال قحط کے آئیں گے تو یہ غلہ تمہارے کام آئے گا جس کا ذخیرہ تم اب کرو گے۔ 2- ﴿مِمَّا تُحْصِنُونَ سے مراد وہ دانے ہیں جو دوبارہ کاشت کے لئے محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔ یوسف
49 1- یعنی قحط کے سال گزرنے کے بعد پھر خوب بارش ہوگی، جس کے نتیجے میں کثرت پیداوار ہوگی اور تم انگوروں سے شیرہ نچوڑو گے، زیتون سے تیل نکالو گے اور جانوروں سے دودھ دوہو گے۔ خواب کی اس تعبیر کو خواب سے کیسی لطیف مناسبت حاصل ہے، جسے صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جسے اللہ تعالٰی ایسا صحیح وجدان، ذوق سلیم اور ملکہ راسخ عطا فرما دے جو اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليہ السلام) کو عطا فرمایا۔ یوسف
50 1- مطلب یہ ہے کہ جب وہ شخص تعبیر دریافت کر کے بادشاہ کے پاس گیا اور اسے تعبیر بتائی تو وہ اس تعبیر سے اور حضرت یوسف (عليہ السلام) کی بتلائی ہوئی تدبیر سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص، جسے ایک عرصے سے حوالہ زنداں کیا ہوا ہے، غیر معمولی علم وفضل اور اعلٰی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ 2- حضرت یوسف (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے، تو انہوں نے اس طرح محض عنایت خسروانہ سے جیل سے نکلنے کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح ہو جائے۔ کیونکہ داعی الی اللہ کے لئے یہ عفت وپاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔ یوسف
51 1- بادشاہ کے استفسار پر تمام عورتوں نے یوسف (عليہ السلام) کی پاک دامنی کا اعتراف کیا۔ 2- اب امرأة العزیز (زلیخا) کے لئے بھی یہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں رہا کہ یوسف (عليہ السلام) بےقصور ہے اور یہ پیش دستی میری ہی طرف سے ہوئی تھی، اس فرشتہ صفت انسان کا اس لغزش سے کوئی تعلق نہیں۔ یوسف
52 1- جب جیل میں حضرت یوسف (عليہ السلام) کو ساری تفصیل بتلائی گئی تو اسے سن کر یوسف (عليہ السلام) نے کہا اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے پاس جا کر انہوں نے یہ کہا اور بعض مفسرین کے نزدیک زلیخا کا قول ہے اور مطلب یہ ہے کہ یوسف (عليہ السلام) کی غیر موجودگی میں بھی اسے غلط طور پر متھم کر کے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتی بلکہ امانت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ یا یہ مطلب ہے کہ میں نے اپنے خاوند کی خیانت نہیں کی اور کسی بڑے گناہ میں واقع نہیں ہوئی۔ امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ 2- کہ وہ اپنے مکر وفریب میں ہمیشہ کامیاب ہی رہیں، بلکہ ان کا اثر محدود اور عارضی ہوتا ہے۔ بالآخر جیت حق اور اہل حق ہی کی ہوتی ہے، گو عارضی طور پر اہل حق کو آزمائشوں سے گزرنا پڑے۔ یوسف
53 1- اسے اگر حضرت یوسف (عليہ السلام) کا قول تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔ اور اگر یہ عزیزہ مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف (عليہ السلام) کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا۔ 2- یہ اس نے اپنی غلطی کی توجیہ یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔ 3- یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اللہ تعالٰی نے بچا لیا۔ یوسف
54 1- جب بادشاہ (ریان بن ولید) پر یوسف (عليہ السلام) کے علم وفضل کے ساتھ ان کے کردار کی رفعت اور پاک دامنی بھی واضح ہوگئی، تو اسے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش کرو، میں انہیں اپنے لئے منتخب کرنا یعنی اپنا مصاحب اور مشیر خاص بنانا چاہتا ہوں۔ 2- مَکِیْنُ مرتبہ والا، آمِین رموز مملکت کا راز دان۔ یوسف
55 1- خزائن خزانۃ کی جمع ہے خزانہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس میں چیزیں محفوظ کی جاتی ہیں زمین کے خزانوں سے مراد وہ گودام ہیں جہاں غلہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کا انتظام ہاتھ میں لینے کی خواہش اس لئے ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں (خواب کی تعبیر کی رو سے) جو قحط سالی کے ایام آنے والے ہیں، اس سے نمٹنے کے لئے مناسب انتطامات کئے جاسکیں اور غلے کی معقول مقدار بچا کر رکھی جاسکے، عام حالات میں اگرچہ عہدہ و منصب کی طلب جائز نہیں ہے، لیکن حضرت یوسف (عليہ السلام) کے اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص حالات میں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ قوم اور ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کی اچھی صلاحیت میرے اندر موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں، تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق اس مخصوص عہدے اور منصب کی طلب کر سکتا ہے علاوہ ازیں حضرت یوسف (عليہ السلام) نے تو سرے سے عہدہ و منصب طلب ہی نہیں کیا، البتہ جب بادشاہ مصر نے انہیں پیشکش کی تو پھر ایسے عہدے کی خواہش کی جس میں انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کا پہلو نمایاں دیکھا۔ 2- حَفِیْظ میں اس کی اس طرح حفاظت کروں گا کہ اسے کسی بھی غیر ضروری مصرف میں خرچ نہیں کروں گا عَلِیْم اس کو جمع کرنے اور خرچ کرنے اور اس کے رکھنے اور نکالنے کا بخوبی علم رکھتا ہے۔ یوسف
56 1- یعنی ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو زمین میں ایسی قدرت وطاقت عطا کی کہ بادشاہ وہی کچھ کرتا جس کا حکم حضرت یوسف (عليہ السلام) کرتے، اور سرزمین مصر میں اس طرح تصرف کرتے جس طرح انسان اپنے گھر میں کرتا ہے اور جہاں چاہتے، وہ رہتے، پورا مصر ان کے زیرنگین تھا۔ 2- یہ گویا اجر تھا ان کے صبر کا جو بھائیوں کے ظلم و ستم پر انہوں نے کیا اور ثابت قدمی کا جو زلیخا کی دعوت گناہ کے مقابلے میں اختیار کی اور اس کی اولو العزمی کا جو قید خانے کی زندگی میں اپنا رکھی۔ حضرت یوسف (عليہ السلام) کا یہ منصب وہ ہی تھا جس پر اس سے پہلے وہ عزیز مصر فائز تھا جس کی بیوی نے کو ورغلانے کی مذموم سعی کی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوگیا تھا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیز مصر، جس کا نام اطفیر تھا، فوت ہوگیا تو اس کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف (عليہ السلام) سے ہوگیا اور دو بچے بھی ہوئے، ایک نام افرائیم اور دوسرے کا نام میشا تھا، افرئیم ہی یوشع بن نون اور حضرت ایوب (عليہ السلام) کی بیوی رحمت کے والد تھے (تفسیر ابن کثیر) لیکن یہ بات کسی مستند روایت سے ثابت نہیں اس لئے نکاح والی بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عورت سے جس کردار کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے ایک نبی کے حرم سے اس کی وابستگی، نہایت نامناسب بات لگتی ہے۔ یوسف
57 یوسف
58 1- یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب خوش حالی کے سات سال گزرنے کے بعد قحط سالی شروع ہوگئی جس نے ملک مصر کے تمام علاقوں اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتیٰ کہ کنعان تک بھی اس کے اثرات جا پہنچے جہاں حضرت یعقوب (عليہ السلام) اور حضرت یوسف (عليہ السلام) کے بھائی رہائش پذیر تھے۔ حضرت یوسف (عليہ السلام) نے اپنے حسن تدبیر سے اس قحط سالی سے نمٹنے کے لئے جو انتظامات کئے تھے وہ کام آئے اور ہر طرف سے لوگ حضرت یوسف (عليہ السلام) کے پاس غلہ لینے کے لئے آرہے تھے حضرت یوسف (عليہ السلام) کی یہ شہرت کنعان تک بھی جا پہنچی کہ مصر کا بادشاہ اس طرح غلہ فروخت کر رہا ہے۔ چنانچہ باپ کے حکم پر یہ بردران یوسف (عليہ السلام) بھی گھر کی پونجی لے کر غلے کے حصول کے لئے دربار شاہی میں پہنچ گئے جہاں حضرت یوسف (عليہ السلام) تشریف فرما تھے، جنہیں یہ بھائی تو نہ پہچان سکے لیکن یوسف (عليہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔ یوسف
59 1- حضرت یوسف (عليہ السلام) نے انجان بن کر جب اپنے بھائیوں سے باتیں پوچھیں تو انہوں نے جہاں اور سب کچھ بتایا، یہ بھی بتا دیا کہ ہم دس بھائی اس وقت یہاں موجود ہیں۔ لیکن ہمارے دو بھائی (یعنی دوسری ماں سے) اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو جنگل میں ہلاک ہوگیا اور اس کے دوسرے بھائی کو والد نے اپنی تسلی کے لئے اپنے پاس رکھا ہے، اسے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا۔ جس پر حضرت یوسف (عليہ السلام) نے کہا کہ آئندہ اسے بھی ساتھ لے کر آنا، دیکھتے نہیں کہ میں ناپ بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نوازی اور خاطر مدارت بھی خوب کرتا ہوں۔ یوسف
60 1- ترغیب کے ساتھ یہ دھمکی ہے کہ اگر گیارہویں بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ تمہیں غلہ ملے گا نہ میری طرف سے اس خاطر مدارت کا اہتمام ہوگا۔ یوسف
61 1- یعنی ہم اپنے باپ کو اس بھائی کو لانے کے لئے پھسلائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یوسف
62 1- فِتْیَان (نوجوانوں) سے مراد یہاں وہ نوکر چاکر اور خادم و غلام ہیں جو دربار شاہی میں مامور تھے۔ 2- اس سے مراد وہ پونجی ہے جو غلہ خریدنے کے لئے برادران یوسف (عليہ السلام) ساتھ لائے تھے، پونجی چپکے سے ان کے سامانوں میں اس لئے رکھوا دی کہ ممکن ہے دوبارہ آنے کے لئے ان کے پاس مزید پونجی نہ ہو تو یہی پونجی لے کر آجائیں۔ یوسف
63 1- مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لئے غلہ بنیامین کے بھیجنے کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر یہ ساتھ نہیں جائے گا تو غلہ نہیں ملے گا۔ اس لئے اسے ضرور ساتھ بھجیں تاکہ ہم دوبارہ بھی اسی طرح غلہ مل سکے، جس طرح اس دفعہ ملا ہے، اور اس طرح کا اندیشہ نہ کریں جو یوسف (عليہ السلام) کو بھیجتے ہوئے کیا تھا، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ یوسف
64 1- یعنی تم نے یوسف (عليہ السلام) کو بھی ساتھ لے جاتے وقت اسی طرح حفاظت کا وعدہ کیا تھا لیکن جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے، اب میں تمہارا کس طرح اعتبار کروں؟۔ 2- تاہم چونکہ غلے کی شدید ضرورت تھی۔ اس لئے اندیشے کے باوجود بنیامین کو ساتھ بھیجنے سے انکار مناسب نہیں سمجھا اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ یوسف
65 1- یعنی بادشاہ کے اس حسن سلوک کے بعد، کہ اس نے ہماری خاطر تواضع بھی خوب کی اور ہماری پونجی بھی واپس کر دی، اور ہمیں کیا چاہیئے۔ 2- کیونکہ فی کس ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا تھا، غلہ دیا جاتا تھا، بنیامین کی وجہ سے ایک اونٹ کے بوجھ بھر غلہ مزید ملتا۔ 3- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بادشاہ کے لئے ایک بار شتر غلہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، آسان ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذَلِك کا اشارہ اس غلے کی طرف ہے جو ساتھ لائے تھے۔ اور يَسِيرٌ بمعنی قَلِيلٍ ہے یعنی جو غلہ ہم ساتھ لائے ہیں قلیل ہے بنیامین کے ساتھ جانے سے ہمیں کچھ غلہ اور مل جائے گا تو اچھی ہی بات ہے ہماری ضرورت زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہو سکے گی۔ یوسف
66 1- یعنی تمہیں اجتماعی مصیبت پیش آجائے یا تم سب ہلاک یا گرفتار ہو جاؤ، جس سے خلاصی پر تم قادر نہ ہو، تو اور بات ہے۔ اس صورت میں تم معذور ہو گے۔ یوسف
67 1- جب بنیامین سمیت، گیارہ بھائی مصر جانے لگے، تو یہ ہدایت دی، کیونکہ ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے، جو قد و قامت اور شکل و صورت میں بھی ممتاز ہوں، جب اکٹھے ایک ہی جگہ یا ایک ساتھ کہیں سے گزریں گے تو عموماً انہیں لوگ تعجب یا حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی چیز نظر لگنے کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ انہیں نظر بد سے بچانے کے لئے بطور تدبیر یہ حکم دیا ”نظر لگ جانا حق ہے“ جیسا کہ نبی کریم (ﷺ) سے بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً [الْعَيْنُ حَقٌّ]، ”نظر کا لگ جانا حق ہے“۔ ( صحيح بخاری، كتاب الطب، باب العين حق- وصحيح مسلم ، كتا السلام، باب الطب والمرض والرقى ) اور آپ (ﷺ) نے نظر بد سے بچنے کے لیے دعائیہ کلمات بھی اپنی امت کو بتالئے ہیں مثلا فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بَارَكَ الله ُکہو۔ ( موطأ إمام مالك، باب الوضوء من العين- تعليقات مشكاة ألباني - نمبر1286) جس کی نظر لگے اس کو کہا جائے کہ غسل کرے اور اس کے غسل کا یہ پانی اس شخص کے سر اور جسم پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہو (حوالہ مذکورہ) اسی طرح ’’مَا شَاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ‘‘ پڑھنا قرآن سے ثابت ہے (سورہ کہف:39) ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ نظر کے لیے بطور دم پڑھنا چاہیے۔ ( جامع ترمذي أبواب الطب، باب ما جاء في الرقية بالمعوذتين) 2- یعنی یہ تاکید بطور ظاہری اسباب، احتیاط اور تدبیر کے ہے جسے اختیار کرنے کا انسانوں کو حکم دیا گیا ہے، تاہم اس سے اللہ تعالٰی کی تقدیر وقضا میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہوگا وہی، جو اس کی قضا کے مطابق اس کا حکم ہوگا۔ یوسف
68 1- یعنی اس تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا، تاہم حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے جی میں جو (نظر بد لگ جانے کا) اندیشہ تھا، اس کے پیش نظر انہوں نے ایسا کہا۔ 2- یعنی یہ تدبیر وحی الٰہی کی روشنی میں تھی اور یہ عقیدہ بھی کہ حذر (احتیا طی تدبیر) قدر کو نہیں بدل سکتی، اللہ تعالٰی کے سکھلائے ہوئے علم پر مبنی تھا، جس سے اکثر لوگ بے بہرہ ہیں۔ یوسف
69 1- بعض مفسرین کہتے ہیں دو دو آدمیوں کو ایک ایک کمرے میں ٹھرایا گیا، یوں بنیامین جو اکیلے رہ گئے تو یوسف (عليہ السلام) نے انہیں تنہا الگ ایک کمرے میں رکھا اور پھر خلوت میں ان سے باتیں کیں اور انہیں پچھلی باتیں بتلا کر کہا کہ ان بھائیوں نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، اس پر رنج نہ کر اور بعض کہتے ہیں کہ بنیامین کو روکنے کے لئے جو حیلہ اختیار کرنا تھا، اس سے بھی انہیں آگاہ کر دیا تھا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔ (ابن کثیر) یوسف
70 1- مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ سقایہ (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا، پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا، اسے چپکے سے بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔ 2- الْعِير اصلاً ان اونٹوں، گدھوں یا خچر کو کہا جاتا ہے جن پر غلہ لاد کر لے جایا جاتا ہے۔ یہاں مراد اصحاب العیر یعنی قافلے والے۔ 3- چوری کی یہ نسبت اپنی جگہ صحیح تھی کیونکہ منادی حضرت یوسف (عليہ السلام) کے سوچے سمجھے منصوبے سے آگاہ نہیں تھا یا اس کے معنی ہیں کہ تمہارا حال چوروں کا سا ہے کہ بادشاہ کا پیالہ، بادشاہ کی رضامندی کے بغیر تمہارے سامان کے اندر ہے۔ یوسف
71 یوسف
72 1- یعنی میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کی تفتیش سے قبل ہی جو شخص یہ جام شاہی ہمارے حوالے کر دے گا تو اسے انعام یا اجرت کے طور پر اتنا غلہ دیا جائے گا جو ایک اونٹ اٹھا سکے۔ یوسف
73 1- برداران یوسف (عليہ السلام) چونکہ اس منصوبے سے بےخبر تھے جو حضرت یوسف (عليہ السلام) نے تیار کیا تھا، اس لئے قسم کھا کر انہوں نے اپنے چور ہونے کی اور زمین میں فساد برپا کرنے کی نفی کی۔ یوسف
74 1- یعنی اگر تمہارے سامان میں وہ شاہی پیالہ مل گیا تو پھر اس کی کیا سزا ہوگی۔ یوسف
75 1- یعنی چور کو کچھ عرصے کے لئے اس شخص کے سپرد کر دیا جاتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہوتی تھی۔ یہ حضرت یعقوب (عليہ السلام) کی شریعت میں سزا تھی، جس کے مطابق یوسف (عليہ السلام) کے بھائیوں نے یہ سزا تجویز کی۔ 2- یہ قول بھی برادران یوسف (عليہ السلام) ہی کا ہے، بعض کے نزدیک یہ یوسف (عليہ السلام) کے مصاحبین کا قول ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم بھی ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ لیکن آیت کا اگلا ٹکڑا کہ ”بادشاہ کے دین میں وہ اپنے بھائی کو پکڑ نہ سکتے تھے“ اس قول کی نفی کرتا ہے۔ یوسف
76 1- پہلے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ آخر میں بنیامین کا سامان دیکھا تاکہ انہیں شبہ نہ ہو کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ 2- یعنی ہم نے وحی کے ذریعے سے یوسف (عليہ السلام) کو یہ تدبیر سمجھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح غرض کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا جس کی ظاہری صورت حیلہ کی ہو، جائز ہے بشرطیکہ وہ طریقہ کسی نص شرعی کے خلاف نہ ہو (فتح القدیر) 3- یعنی بادشاہ مصر میں جو قانون اور دستور رائج تھا، اس کی روح سے بنیامین کو اس طرح روکنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اہل قافلہ سے پوچھا کہ بتلاؤ اس جرم کی سزا کیا ہو۔ 4- جس طرح یوسف (عليہ السلام) کو اپنی عنایات اور مہربانیوں سے بلند مرتبہ عطا کیا۔ 5- یعنی ہر عالم سے بڑھ کر کوئی نہ کوئی عالم ہوتا ہے اس لئے کوئی صاحب علم اس دھوکے میں مبتلا نہ ہو کہ میں ہی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب علم کے اوپر ایک علیم یعنی اللہ تعالٰی ہے۔ یوسف
77 1- یہ انہوں نے اپنی پاکیزگی وشرافت کے اظہار کے لئے کہا۔ کیونکہ حضرت یوسف (عليہ السلام) اور بنیامین، ان کے سگے اور حقیقی بھائی نہیں تھے، علاتی بھائی تھے، بعض مفسرین نے یوسف (عليہ السلام) کی چوری کے لئے دو راز کار باتیں نقل کی ہیں جو کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے کو تو نہایت با اخلاق اور باکردار باور کرایا اور یوسف (عليہ السلام) اور بنیامین کو کمزور کردار کا اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انہیں چور اور بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ 2- حضرت یوسف (عليہ السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (عليہ السلام) کی طرف چوری کے انتساب میں صریح کذب بیانی کا ارتکاب کیا۔ یوسف
78 1- حضرت یوسف کو عزیز مصر اس لئے کہا کہ اس وقت اصل اختیارات حضرت یوسف (عليہ السلام) کے ہی پاس تھے، بادشاہ صرف برائے نام فرماں روائے مصر تھا۔ 2- باپ تو یقینا بوڑھے ہی تھے، لیکن یہاں ان کا اصل مقصد بنیامین کو چھڑانا تھا۔ ان کے ذہن میں وہی یوسف (عليہ السلام) والی بات تھی کہ کہیں ہمیں پھر دوبارہ بنیامین کے بغیر باپ کے پاس جانا پڑے اور باپ ہم سے کہیں کہ تم نے میرے بنیامین کو بھی یوسف (عليہ السلام) کی طرح کہیں گم کر دیا۔ اس لئے یوسف (عليہ السلام) کے احسانات کے حوالے سے یہ بات کی کہ شاید وہ یہ احسان بھی کر دیں کہ بنیامین کو چھوڑ دیں اور اس کی جگہ کسی اور بھائی کو رکھ لیں۔ یوسف
79 1- یہ جواب اس لئے دیا کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کا اصل مقصد تو بنیامین کو روکنا تھا۔ یوسف
80 1- کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ 2- اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بےگناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔ 3- اللہ میرے لئے معاملہ فیصل کردے۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی طرح یوسف (عليہ السلام) (عزیز مصر) بنیامین کو چھوڑ دے اور میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دے، یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی قوت عطا کردے کہ میں بنیامین کو تلوار یعنی طاقت کے ذریعے سے چھڑوا کر اپنے ساتھ لے جاؤں ۔ یوسف
81 1- یعنی ہم نے جو عہد کیا تھا کہ ہم بنیامین کو باحفاظت واپس لے آئیں گے، تو یہ ہم نے اپنے علم کے مطابق عہد کیا تھا، بعد میں جو واقعہ پیش آگیا اور جس کی وجہ سے بنیامین کو ہمیں چھوڑنا پڑا، یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے ہم نے چوری کی جو سزا بیان کی تھی چور کو ہی چوری کے بدلے میں رکھ لیا جائے، تو یہ سزا ہم نے اپنے علم کے مطابق ہی تجویز کی تھی۔ اس میں کسی قسم کی بدنیتی شامل نہیں تھی۔ لیکن یہ اتفاق کی بات تھی کہ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو مسروقہ کٹورا بنیامین کے سامان سے نکل آیا۔ 2- یعنی مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے ہم بےخبر تھے۔ یوسف
82 1- الْقَرْيَةَ مراد مصر ہے جہاں وہ غلہ لینے گئے تھے۔ مطلب اہل مصر ہیں۔ اسی طرح وَالْعِيرَ سے مراد اصحاب العیر یعنی اہل قافلہ ہیں۔ آپ مصر جا کر اہل مصر سے اور اس قافلے والوں سے، جو ہمارے ساتھ آیا ہے، پوچھ لیں کہ ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں، وہ سچ ہے، اس میں جھوٹ کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔ یوسف
83 1- حضرت یعقوب (عليہ السلام) چونکہ حقیقت حال سے بےخبر تھے اور اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے سے انہیں حقیقت واقعہ سے آگاہ نہیں فرمایا۔ اس لئے وہ یہی سمجھے کہ میرے ان بیٹوں نے اپنی طرف سے بات بنا لی ہے۔ بنیامین کے ساتھ انہوں نے کیا معاملہ کیا؟ اس کا یقینی علم تو حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے پاس نہیں تھا، تاہم یوسف (عليہ السلام) کے واقعے پر قیاس کرتے ہوئے ان کی طرف سے حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے دل میں بجا طور پر شکوک شبہات تھے۔ 2- اب پھر سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں تھا، تاہم صبر کے ساتھ امید کا دامن بھی نہیں چھوڑا ۔ جمیعاً سے مراد یوسف علیہ السلام، بنیامین اور وہ بڑا بیٹا ہے جو مارے شرم کے وہیں مصر میں رک گیا تھا کہ یا تو والد صاحب مجھے اسی طرح آنے کی اجازت دے دیں یا پھر میں کسی طریقے سے بنیامین کو ساتھ لے کر آؤں گا۔ یوسف
84 1- یعنی اس تازہ صدمے نے یوسف (عليہ السلام) کی جدائی کے قدیم صدمے کو بھی تازہ کر دیا۔ 2- یعنی آنکھوں کی سیاہی، مارے غم کے، سفیدی میں بدل گئی تھی۔ یوسف
85 1- حَرَضٌ اس جسمانی عارضے یا ضعف عقل کو کہتے ہیں جو بڑھاپے، عشق یا پے درپے صدمات کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتا ہے، یوسف (عليہ السلام) کے ذکر سے بھائیوں کی آتش حسد پھر بھڑک اٹھی اور اپنے باپ کو یہ کہا۔ یوسف
86 1- اس سے مراد یا تو خواب ہے جس کی بابت انہیں یقین تھا کہ اس کی تعبیر ضرور سامنے آئے گی اور وہ یوسف (عليہ السلام) کو سجدہ کریں گے یا ان کا یقین تھا کہ یوسف (عليہ السلام) زندہ موجود ہیں، اور اس سے زندگی میں ضرور ملاقات ہوگی۔ یوسف
87 1- چنانچہ اس یقین سے سرشار ہو کر انہوں نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم دیا۔ 2- جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا ﴿قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ﴾ (الحجر:56) ”گمراہ لوگ ہی اللہ کی رحمت سے نا امید ہوتے ہیں“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو سخت حالات میں بھی صبر و رضا کا اور اللہ کی رحمت واسعہ کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ یوسف
88 1- یہ تیسری مرتبہ ان کا مصر جانا ہے۔ 2- یعنی غلہ لینے کے لئے ہم جو ثمن (قیمت) لے کر آئے ہیں، وہ نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ 3- یعنی ہماری حقیر پونجی کو نہ دیکھیں، ہمیں اس کے بدلے میں پورا ناپ دیں۔ 4- یعنی ہماری حقیر پونجی قبول کر کے ہم پر احسان اور خیرات کریں۔ اور بعض مفسرین نے اس کے معنی کیے ہیں کہ ہمارے بھائی بنیامین کو آزاد کر کے ہم پر احسان فرمائیں۔ یوسف
89 1- جب انہوں نے نہایت عاجزی کے انداز میں صدقہ و خیرات یا بھائی کی رہائی کی اپیل کی تو ساتھ ہی باپ کے بڑھاپے، ضعف اور بیٹے کی جدائی کے صدمے کا بھی ذکر کیا، جس سے یوسف (عليہ السلام) کا دل بھر آیا، آنکھیں نمناک ہوگئیں اور انکشاف حال پر مجبور ہوگئے۔ تاہم بھائیوں کی زیادتیوں کا ذکر کر کے ساتھ ہی اخلاق کریمانہ کا بھی اظہار فرما دیا کہ یہ کام تم نے ایسی حالت میں کیا جب تم جاہل اور نادان تھے۔ یوسف
90 1- بھائیوں نے جب عزیز مصر کی زبان سے اس یوسف (عليہ السلام) کا تذکرہ سنا، جسے انہوں نے بچپن میں کنعان کے ایک تاریک کنویں میں پھینک دیا تھا، تو وہ حیران بھی ہوئے اور غور سے دیکھنے پر مجبور بھی کہ کہیں ہم سے ہم کلام بادشاہ، یوسف (عليہ السلام) ہی تو نہیں؟ ورنہ یوسف (عليہ السلام) کے قصے کا اسے کس طرح علم ہو سکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تو یوسف (عليہ السلام) ہی تو نہیں؟۔ 2- سوال کے جواب میں اقرار و اعتراف کے ساتھ، اللہ کا احسان کا ذکر اور صبر و تقویٰ کے نتائج حسنہ بھی بیان کر کے بتلا دیا کہ تم نے مجھے ہلاک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن یہ اللہ تعالٰی کا فضل و احسان ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ کنوئیں سے نجات عطا فرمائی، بلکہ مصر کی فرمانروائی بھی عطا فرما دی اور یہ نتیجہ ہے اس صبر اور تقویٰ کا جس کی توفیق اللہ تعالٰی نے مجھے دی۔ یوسف
91 1- بھائیوں نے جب یوسف (عليہ السلام) کی شان دیکھی تو اپنی غلطی اور کوتاہی کا اعتراف کر لیا۔ یوسف
92 1- حضرت یوسف (عليہ السلام) نے بھی پیغمبرانہ عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ جو ہوا سو ہوا۔ آج تمہیں کوئی سرزنش اور ملامت نہیں کی جائے گی۔ فتح مکہ والے دن رسول اللہ (ﷺ) نے بھی مکہ کے ان کفار اور سردران قریش کو، جو آپ کے خون کے پیاسے تھے اور آپ کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی تھیں، یہی الفاظ ارشاد فرما کر انہیں معاف فرما دیا تھا۔ ﷺ ۔ یوسف
93 1- قمیص کے چہرے پر پڑنے سے آنکھوں کی بینائی کا بحال ہونا، ایک اعجاز اور کرامت کے طور پر تھا۔ 2- یہ یوسف (عليہ السلام) نے اپنے پورے خاندان کو مصر آنے کی دعوت دی۔ یوسف
94 1- ادھر یہ قمیص لے کر قافلہ مصر سے چلا اور ادھر حضرت یعقوب (عليہ السلام) کو اللہ تعالٰی کی طرف سے اعجاز کے طور پر حضرت یوسف (عليہ السلام) کی خوشبو آنے لگ گئی یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی، جب تک اللہ تعالٰی کی طرف سے اطلاع نہ پہنچے، پیغمبر بےخبر ہوتا ہے، چاہے بیٹا اپنے شہر کے کسی کنوئیں ہی میں کیوں نہ ہو، اور جب اللہ تعالٰی انتظام فرما دے تو پھر مصر جیسے دور دراز کے علاقے سے بھی بیٹے کی خوشبو آجاتی ہے۔ یوسف
95 1- ضَلالٌ سے مراد والہانہ محبت کی وہ وارفتگی ہے جو حضرت یعقوب (عليہ السلام) کو اپنے بیٹے یوسف (عليہ السلام) کے ساتھ تھی۔ بیٹے کہنے لگے، ابھی تک آپ اسی پرانی غلطی یعنی یوسف (عليہ السلام) کی محبت میں گرفتار ہیں۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یوسف (عليہ السلام) کی محبت دل سے نہیں گئی۔ یوسف
96 1- یعنی جب وہ خوشخبری دینے والا آگیا اور آکر وہ قمیص حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے چہرے پر ڈال دی تو اس سے معجزانہ طور پر ان کی بینائی بحال ہوگئی۔ 2- کیونکہ میرے پاس ایک ذریعہ علم وحی بھی ہے، جو تم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس وحی کے ذریعے سے اللہ تعالٰی اپنے پیغمبروں کو حالات سے مشیت ومصلحت آگاہ کرتا رہتا ہے۔ یوسف
97 یوسف
98 1- فی الفور مغفرت کی دعا کرنے کی بجائے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا، مقصد یہ تھا کہ رات کے پچھلے پہر میں، جو اللہ کے خاص بندوں کا اللہ کی عبادت کرنے کا خاص وقت ہوتا ہے، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کروں گا، دوسری بات یہ کہ بھائیوں کی زیادتی یوسف (عليہ السلام) پر تھی، ان سے مشورہ لینا ضروری تھا اس لئے انہوں نے تاخیر کی اور فوراً مغفرت کی دعا نہیں کی۔ یوسف
99 1- یعنی عزت واحترام کے ساتھ انہیں اپنے پاس جگہ دی اور ان کا خوب اکرام کیا۔ یوسف
100 1- بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سوتیلی ماں اور سگی خالہ تھیں کیونکہ یوسف (عليہ السلام) کی حقیقی ماں بنیامین کی ولادت کے بعد فوت ہوگئی تھیں۔ حضرت یعقوب (عليہ السلام) نے اس کی وفات کے بعد اس کی ہمشیرہ سے نکاح کر لیا تھا یہی خالہ اب حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے ساتھ مصر میں گئی تھیں (فتح القدیر) لیکن امام ابن جریرطبری نے اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ یوسف (عليہ السلام) کی والدہ فوت نہیں ہوئی تھیں اور وہی حقیقی والدہ تھیں۔ (ابن کثیر) 2- بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ادب و تعظیم کے طور پر یوسف (عليہ السلام) کے سامنے جھک گئے۔ لیکن ﴿وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا﴾ (یوسف:100) کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ وہ زمین پر یوسف (عليہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوئے، یعنی یہ سجدہ، سجدہ ہی کے معنی میں ہے۔ تاہم یہ سجدہ، سجدہ تعظیمی ہے سجدہ عبادت نہیں اور سجدہ تعظیمی حضرت یعقوب (عليہ السلام) کی شریعت میں جائز تھا۔ اسلام میں شرک کے سد باب کے لئے سجدہ تعظیمی کو بھی حرام کر دیا گیا ہے، اور اب سجدہ تعظیمی بھی کسی کے لئے جائز نہیں۔ 3- یعنی حضرت یوسف (عليہ السلام) نے جو خواب میں دیکھا تھا اتنی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اس کی تعبیر سامنے آئی کہ اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليہ السلام) کو تخت شاہی پر بٹھایا اور والدین سمیت تمام بھائیوں نے اسے سجدہ کیا۔ 4- اللہ کے احسانات میں کنویں سے نکلنے کا ذکر نہیں کیا تاکہ بھائی شرمندہ نہ ہوں۔ یہ اخلاق نبوی ہے۔ 5- مصر جیسے متمدن علاقے کے مقابلے میں کنعان کی حیثیت ایک صحرا کی تھی، اس لئے اسے بَدُوْ سے تعبیر کیا۔ 6- یہ بھی اخلاق کریمانہ کا ایک نمونہ ہے کہ بھائیوں کو ذرا مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور شیطان کو اس کارستانی کا باعث قرار دیا۔ یوسف
101 1- یعنی ملک مصر کی فرمانروائی عطا فرمائی، جیسا کہ تفصیل گزری۔ 2- حضرت یوسف (عليہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، جن پر اللہ کی طرف سے وحی کا نزول ہوتا اور خاص خاص باتوں کا علم انہیں عطا کیا جاتا۔ چنانچہ اس علم نبوت کی روشنی میں پیغمبر خوابوں کی تعبیر بھی صحیح طور پر کر لیتے۔ تھے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اس فن تعبیر میں خصوصی ملکہ حاصل تھا جیسا کہ قید کے ساتھیوں کے خواب کی اور سات موٹی گایوں کے خواب کی تعبیر پہلے گزری۔ 3- اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليہ السلام) پر جو احسانات کیے، انہیں یاد کرکے اور اللہ تعالٰی کی دیگر صفات کا تذکرہ کرکے دعا فرما رہے ہیں کہ جب مجھے موت آئے تو اسلام کی حالت میں آئے اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ اس سے مراد حضرت یوسف (عليہ السلام) کے آباواجداد، حضرت ابراہیم و اسحاق علیہا السلام وغیرہ مراد ہیں۔ بعض لوگوں کو اس دعا سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) نے موت کی دعا مانگی حالانکہ یہ موت کی دعا نہیں ہے آخر وقت تک اسلام پر استقامت کی دعا ہے۔ یوسف
102 1- یعنی یوسف (عليہ السلام) کے ساتھ، جب کہ انہیں کنوئیں میں پھینک آئے یا مراد حضرت یعقوب (عليہ السلام) ہیں یعنی ان کو یہ کہہ کر کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے اور یہ اس کی قمیص ہے، جو خون میں لت پت ہے ان کے ساتھ فریب کیا گیا۔ اللہ تعالٰی نے اس مقام پر بھی اس بات کی نفی فرمائی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کو غیب کا علم تھا لیکن یہ نفی مطلق علم کی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو آگاہ فرما دیا۔ یہ نفی مشاہدے کی ہے کہ اس وقت آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ اسی طرح ایسے لوگوں سے بھی آپ کا رابطہ و تعلق نہیں رہا ہے جن سے آپ نے سنا ہو۔ یہ صرف اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے اور بھی کئی مقامات پر اسی طرح غیب اور مشاہدے کی نفی فرمائی ہے۔ (مثلاً ملاحظہ ہو سورہ آل عمران:7، 44، القصص:46-45، سورۂ ص:70۔69)۔ یوسف
103 1- یعنی اللہ تعالٰی آپ کو پچھلے واقعات سے آگاہ فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں اور اللہ کے پیغمبروں کا راستہ اختیار کر کے نجات ابدی کے مستحق بن جائیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے کیونکہ وہ گذشتہ قوموں کے واقعات سنتے ہیں لیکن عبرت پذیری کے لئے نہیں، صرف دلچسپی اور لذت کے لئے، اس لئے وہ ایمان سے، محروم ہی رہتے ہیں۔ یوسف
104 1- کہ جس سے ان کو یہ شبہ ہو کہ یہ دعوائے نبوت تو صرف پیسے جمع کرنے کا بہانہ ہے۔ 2- تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں۔ اب دنیا کے لوگ اگر اس سے آنکھیں پھیرے رکھیں اور اس سے ہدایت حاصل نہ کریں تو لوگوں کا قصور اور ان کی بد قسمتی ہے، قرآن تو فی الواقع اہل دنیا کی ہدایت اور نصیحت ہی کے لئے آیا ہے۔ گر نہ بیند بروز شپره چشم چشمہ آفتاب را چہ گناه یوسف
105 1- آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں بیشمار چیزوں کا وجود، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک خالق وصانع ہے جس نے ان چیزوں کو وجود بخشا ہے اور ایک مدبر ہے جو ان کا ایسا انتظام کر رہا ہے کہ صدیوں سے یہ نظام چل رہا ہے اور ان میں کبھی آپس میں ٹکراؤ اور تصادم نہیں ہوا لیکن لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے یوں ہی گزر جاتے ہیں ان پر غور وفکر کرتے ہیں اور نہ ان سے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ یوسف
106 1- یہ وہ حقیقت ہے جسے قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ متعدد جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ مشرک یہ تو مانتے ہیں کہ آسمان اور زمین کا خالق، مالک، رازق اور مدبر صرف اللہ تعالٰی ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھرا لیتے ہیں۔ اور یوں اکثر لوگ مشرک ہیں یعنی ہر دور میں لوگ توحید ربوبیت کے تو قائل رہے ہیں لیکن توحید الوہیت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے آج کے قبر پرستوں کا شرک بھی یہی ہے کہ وہ قبروں میں مدفون بزرگوں کو صفات الوہیت کا حامل سمجھ کر انہیں مدد کے لیے پکارتے بھی ہیں اور عبادت کے کئی مراسم بھی ان کے لیے بجا لاتے ہیں ۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ یوسف
107 یوسف
108 1- یعنی توحید کی راہ ہی میری راہ ہے بلکہ ہر پیغمبر کی راہ رہی ہے اسی کی طرف میں اور میرے پیروکار پورے یقین اور دلائل شرعی کے ساتھ لوگوں کو بلاتے ہیں۔ 2- یعنی میں اس کی تنزیہ و تقدیس بیان کرتا ہوں اس بات سے کہ اس کا کوئی شریک، نظیر، مثیل یا وزیر ومشیر یا اولاد اور بیوی ہو وہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ یوسف
109 1- یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ تمام نبی مرد ہی ہوئے ہیں، عورتوں میں سے کسی کو نبوت کا مقام نہیں ملا، اسی طرح ان کا تعلق قریہ سے تھا، جو قصبہ دیہات اور شہر سب شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اہل بادیہ (صحرا نشینوں) میں سے نہیں تھا کیونکہ اہل بادیہ نسبتاً طبعیت کے سخت اور اخلاق کے کھردرے ہوتے ہیں اور شہری ان کی نسبت نرم، دھیمے اور با اخلاق ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں نبوت کے لئے ضروری ہیں۔ یوسف
110 1- یہ مایوسی اپنی قوم کے ایمان لانے سے ہوئی۔ 2- قرأت کے اعتبار سے اس آیت کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن سب سے مناسب مفہوم یہ ہے کہ ظَنُّوا کا فاعل قوم کفار کو قرار دیا جائے یعنی کفار عذاب کی دھمکی پر پہلے تو ڈرے لیکن جب زیادہ تاخیر ہوئی تو خیال کیا کہ عذاب تو آتا نہیں ہے، (جیسا کہ پیغمبر کی طرف سے دعویٰ ہو رہا ہے) اور نہ آتا نظر ہی آتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یوں ہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے۔ مطلب نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دینا ہے کہ آپ کی قوم پر عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی قوموں پر بھی عذاب میں بڑی بڑی تاخیر روا رکھی گئی ہے اور اللہ کی مشیت و حکمت کے مطابق انہیں خوب خوب مہلت دی گئی حتیٰ کہ رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ شاید انہیں عذاب کا یوں ہی جھوٹ موٹ کہہ دیا گیا ہے۔ 3- اس میں دراصل اللہ تعالٰی کے اس قانون مہلت کا بیان ہے، جو وہ نافرمانوں کو دیتا ہے، حتیٰ کہ اس بارے میں وہ اپنے پیغمبروں کی خواہش کے برعکس بھی زیادہ سے زیادہ مہلت عطا کرتا ہے، جلدی نہیں کرتا، یہاں تک کہ بعض دفعہ پیغمبر کے ماننے والے بھی عذاب سے مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان سے یوں ہی جھوٹ موٹ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محض ایسے وسوسے کا پیدا ہو جانا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ 4- یہ نجات پانے والے اہل ایمان ہی ہوتے تھے۔ یوسف
111 1- یعنی قرآن، جس میں قصہ یوسف (عليہ السلام) اور دیگر قوموں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں کوئی گھڑا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ یہ پچھلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں دین کے بارے میں ساری ضروری باتوں کی تفصیل ہے اور ایمان داروں کے لئے ہدایت ورحمت۔ یوسف
0 الرعد
1 الرعد
2 1- ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ﴾کا مفہوم اس سے قبل بیان ہو چکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالٰی کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشورى: 11) 2- اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾ (يٰس: 38)۔ ”اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے“۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کر لیتا ہے جس طرح فرمایا ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ﴾ (يٰس: 39)۔ ”ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دی ہیں“ سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہو سکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا ﴿لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (فصلت: 37) ”سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو“۔ ﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ﴾ (الأعراف: 54) ”سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں“۔ الرعد
3 1- زمین میں طول و عرض کا اندازہ بھی عام لوگوں کے لئے مشکل ہے اور بلند و بالا پہاڑوں کے ذریعے سے زمین میں گویا میخیں گاڑی ہیں، نہروں دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع واقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ 2- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نر مادہ دونوں بنائے، جیسا کہ موجودہ تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ دوسرا مطلب (جوڑے جوڑے کا) یہ ہے میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ اور سفید اور ذائقہ، اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔ الرعد
4 1- ”مُتَجٰوِرَاتٌ“ ایک دوسرے کے قریب اور متصل یعنی زمین کا ایک حصہ شاداب اور زرخیز ہے۔ خوب پیداوار دیتا ہے اس کے ساتھ ہی زمین شور ہے، جس میں کسی قسم کی بھی پیداوار نہیں ہوتی۔ 2- ”صِنْوانٌ“ کے ایک معنی ملے ہوئے اور ”غَيْرُ صِنْوانٍ“ کے جدا جدا کیے گئے ہیں دوسرا معنی صِنْوانٌ ایک درخت، جس کی کئی شاخیں اور تنے ہوں، جیسے انار، انجیر اور بعض کھجوریں۔ اور غَيْرُ صِنْوانٍ جو اس طرح نہ ہو بلکہ ایک ہی تنے والا ہو۔ 3- یعنی زمین بھی ایک، پانی، ہوا بھی ایک۔ لیکن پھل اور غلہ مختلف قسم اور ان کے ذائقے اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔ الرعد
5 1- یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ پیدا کیا، اس کے لئے دوبارہ اس چیز کا بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن کفار یہ عجیب بات کہتے ہیں کہ دوبارہ ہم کیسے پیدا کئے جائیں گے؟۔ الرعد
6 1- یعنی عذاب الٰہی سے قوموں اور بستیوں کی تباہی کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں، اس کے باوجود یہ عذاب جلدی مانگتے ہیں؟ یہ کفار کے جواب میں کہا گیا جو کہتے تھے کہ اے پیغمبر! اگر تو سچا ہے تو عذاب ہم پر لے آ۔ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ 2- یعنی لوگوں کے ظلم و معصیت کے باوجود وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنی تاخیر کرتا ہے کہ معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کے حلم و کرم اور عفو و درگزر کا نتیجہ ہے ورنہ وہ فوراً مواخذہ کرنے اور عذاب دینے پر آجائے تو روئے زمین پر کوئی انسان ہی باقی نہ رہے۔ ﴿وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ﴾ (فاطر:45) ”اور اگر اللہ تعالٰی لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ دھکڑ فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک متنفس کو نہ چھوڑتا“۔ 3- یہ اللہ کی دوسری صفت کا بیان ہے تاکہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتا رہے کیونکہ ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھنے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں اسی لیے قرآن کریم میں جہاں اللہ کی صفت رحیمی وغفوری کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہاری و جباری کا بیان بھی ملتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے تاکہ رجاء امید اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے تو انسان معصیت الہی پر دلیر ہو جاتا ہے اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ودماغ پر مسلط رہے تو اللہ کی رحمت سے مایوسی ہو جاتی ہے اور دونوں ہی باتیں غلط اور انسان کے لیے تباہ کن ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے’’الإِيمَانُ بَيْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ‘‘ ”ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے“ یعنی دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن کا نام ایمان ہے انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے بےپروا ہو اور نہ اس کی رحمت سے مایوس۔ اس مضمون کے ملاحظہ کے لیے دیکھئے (سورۃ الانعام:47، سورۃ الاعراف:167، سورۃ الحجر:49، 50) الرعد
7 1- ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی (ﷺ) کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، اے پیغمبر! تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔ 2- یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰی نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ ﴿وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلا فِيهَا نَذِيرٌ﴾ ( فاطر:24)۔ ”ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے“۔ الرعد
8 1- رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔ 2- اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر 9مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت 10 مہینے اور کسی وقت 7،8 مہینے ہو جاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ 3- یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔ الرعد
9 الرعد
10 الرعد
11 1- مُعَقِّبَاتٌ، مُعَقِّبَةٌ۔ کی جمع ہے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے، مراد فرشتے ہیں جو باری باری ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ دن کے فرشتے جاتے ہیں تو شام کے آجاتے ہیں شام کے جاتے ہیں تو دن کے آجاتے ہیں۔ 2- اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورہ انفال آیت 53 کا حاشیہ۔ الرعد
12 1- جس سے راہ گیر مسافر ڈرتے ہیں اور گھروں میں مقیم کسان اور کاشت کار اس کی برکت ومنفعت کی امید رکھتے ہیں۔ 2- بھاری بادلوں سے مراد، وہ بادل ہیں جس میں بارش کا پانی ہوتا ہے۔ الرعد
13 1- جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾ ( بنی إسرائيل:44) ”ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے“۔ 2- یعنی اس کے ذریعے جس کو چاہتا ہے، ہلاک کر ڈالتا ہے۔ 3- مِحَالٌ ۔ کے معنی قوت مواخذہ اور تدبیر وغیرہ کے کیے گئے ہیں یعنی وہ بڑی قوت والا، نہایت مواخذہ کرنے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔ الرعد
14 1- یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔ 2- یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آجا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انہیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔ 3- اور بےفائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہوگا۔ الرعد
15 1- اس میں اللہ تعالٰی کی عظمت و قدرت کا بیان ہے کہ ہرچیز پر اس کا غلبہ ہے اور ہرچیز اس کے ما تحت اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے، چاہے مومنوں کی طرح خوشی سے کریں یا مشرکوں کی طرح ناخوشی سے۔ اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ﴿اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ﴾ (النحل:48) ”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی کرتے ہیں“۔ اس سجدے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے یا دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ کافر سمیت تمام مخلوق اللہ کے حکم کے تابع ہے کسی میں اس سے سرتابی کی مجال نہیں اللہ تعالٰی کسی کو صحت دے بیمار کرے غنی کر دے یا فقیر بنا دے زندگی دے یا موت سے ہمکنار کرے ان تکوینی احکام میں کسی کافر کو بھی مجال انکار نہیں۔ الرعد
16 1- یہاں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار ہے۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ مشرکین کا جواب بھی یہی ہوتا تھا۔ 2- یعنی جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ آسمان و زمین کا رب اللہ ہے جو تمام اختیارات کا بلا شرکت غیر مالک ہے پھر تم اسے چھوڑ کر ایسوں کو کیوں دوست اور حمائتی سمجھتے ہو جو اپنی بابت بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ 3- یعنی جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے اس لئے کہ موحد توحید کی بصیرت سے معمور ہے جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں، وہ توحید کا نور دیکھتا ہے اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا، اس لئے وہ اندھا ہے۔ اسی طرح، جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایک اللہ کا پجاری، جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے، اور ایک مشرک، جو جہالت وتوہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، برابر نہیں ہو سکتے۔ 4- یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ یہ کسی شبے کا شکار ہوگئے ہوں بلکہ یہ مانتے ہیں کہ ہرچیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔ الرعد
17 1- بِقَدَرِهَا (وسعت کے مطابق) کا مطلب ہے نالے یعنی وادی (دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ) تنگ ہو تو کم پانی کشادہ ہو تو زیادہ پانی اٹھاتی ہے یعنی نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان کا جامع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو تشبیہ دی ہے دلوں کے ساتھ اس لیے کہ وادیوں نالوں میں پانی جا کر ٹھہرتا ہے جس طرح قرآن قرآن کا اور ایمان مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔ 2- اس جھاگ سے جو پانی کے اوپر آجاتا ہے اور جو مضمحل اور ختم ہو جاتا ہے اور ہوائیں جسے اڑا لے جاتی ہیں کفر مراد ہے، جو جھاگ ہی کی طرح اڑ جانے والا اور ختم ہو جانے والا ہے۔ 3- یہ دوسری شکل ہے کہ تانبے پیتل، سیسے یا سونے چاندی کو زیور یا سامان وغیرہ بنانے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آجاتا ہے۔ پھر یہ جھاگ دیکھتے دیکھتے ختم ہو جاتا ہے اور دھات اصلی شکل میں باقی رہ جاتی ہے۔ 4- یعنی جب حق اور باطل کا آپس میں اجتماع اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو باطل کو اسی طرح اثبات اور دوام نہیں ہوتا، جس طرح سیلابی ریلے کا جھاگ پانی کے ساتھ، دھاتوں کا جھاگ، جن کو آگ میں تپایا جاتا ہے دھاتوں کے ساتھ باقی نہیں رہتا بلکہ مضمحل اور ختم ہو جاتا ہے۔ 5- یعنی اس سے کوئی نفع نہیں ہوتا، کیونکہ جھاگ پانی یا دھات کے ساتھ باقی رہتا ہی نہیں ہے بلکہ آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے یا ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ باطل کی مثال بھی جھاگ ہی کی طرح ہے۔ 6- یعنی پانی اور سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرہ یہ چیزیں باقی رہتی ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے اور فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح حق باقی رہتا ہے جس کے وجود کو بھی زوال نہیں اور جس کا نفع بھی دائمی ہے۔ 7- یعنی بات کو سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، جیسے یہیں دو مثالیں بیان فرمائیں اور اسی طرح سورہ بقرہ کے آغاز میں منافقین کے لئے مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح سورہ نور، آیات 39،40 میں کافروں کے لئے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ اور احادیث میں بھی نبی (ﷺ) نے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو بہت سی باتیں سمجھائیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) الرعد
18 1- یہ مضمون اس سے قبل بھی دو تین جگہ گزر چکا ہے۔ 2- کیونکہ ان سے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیا جائے گا اور ان کا معاملہ [مَنْ نُوقِشَ الحِسَابَ عُذِّبَ] (جس سے حساب میں جرح کی گئی اس کا بچنا مشکل ہوگا، وہ عذاب سے دو چار ہو کر ہی رہے گا) کا آئینہ دار ہوگا۔ اسی لئے آگے فرمایا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ الرعد
19 1- یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے۔ 2- یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کر لیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے۔ الرعد
20 1- یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جا رہی ہیں، اللہ کے عہد سے مراد، اس کے احکام (اوامر و نواہی) ہیں جنہیں بجا لاتے ہیں۔ یا وہ عہد ہے، جو عَھْدِ الَسْت کہلاتا ہے، جس کی تفصیل سورہ اعراف میں گزر چکی ہے۔ 2- اس سے مراد وہ باہمی معاہدے اور وعدے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا وہ جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہیں۔ الرعد
21 1- یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔ الرعد
22 1- اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ یہ صبر کی ایک قسم ہے۔ تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، یہ دوسری قسم ہے۔ اہل دانش دونوں قسم کا صبر کرتے ہیں۔ 2- ان کی حدود و مواقیت، خشوع و خضوع اور اعتدال ارکان کے ساتھ۔ نہ کہ اپنے من مانے طریقے سے۔ 3- یعنی جہاں جہاں اور جب بھی، خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اپنوں اور بیگانوں میں اور خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ 4- یعنی ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، یا عفو ودرگزر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا :﴿اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ﴾ (حم السجدۃ:34) ”برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا ہو (اگر تم ایسا کرو گے) تو وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے، ایسا ہو جائے گا گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے“۔ 5- یعنی جو اعلٰی اخلاق کے حامل اور مزکورہ خوبیوں سے متصف ہوں گے، ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ الرعد
23 1- عدن کے معنی ہیں اقامت۔ یعنی ہمیشہ رہنے والے باغات۔ 2- یعنی اس طرح نیک قرابت داروں کو آپس میں جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتٰی کہ ادنٰی درجے کے جنتی کو اعلٰی درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابت دار کے ساتھ جمع ہو جائے۔ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ﴾ (الطور:21) ”اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ان کے عملوں سے ہم کچھ گھٹائیں گے نہیں“۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ نیک رشتے داروں کو اللہ تعالٰی جنت میں جمع فرما دے گا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایمان اور عمل صالح کی پونجی نہیں ہوگی، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا، چاہے اس کے دوسرے نہایت قریبی رشتے دار جنت میں چلے گئے ہوں۔ کیونکہ جنت میں داخلہ حسب نسب کی بنیاد پر نہیں، ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا۔[ مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ ]، (صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن)۔ جسے اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔ الرعد
24 الرعد
25 1- یہ نیکوں کے ساتھ بروں کا حشر بیان فرما دیا تاکہ انسان اس حشر سے بچنے کی کوشش کرے۔ الرعد
26 1- جب کافروں اور مشرکوں کے لئے یہ کہا کہ ان کے لئے برا گھر ہے، تو ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ دنیا میں تو انہیں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولتیں مہیا ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے فرمایا کہ دنیاوی اسباب اور رزق کی کمی بیشی یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت، جس کو صرف وہی جانتا ہے، کے مطابق کسی کو زیادہ دیتا ہے کسی کو کم رزق کی فروانی، اس بات کی دلیل؛ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس پر ناراض ہے۔ 2- کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے، باوجودیکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت و مسرت نہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، مہلت ہے پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آجائے۔ 3- حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت، آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے؟ (صحيح مسلم، كتاب الجنة ، باب فناء الدنيا وبيان الحسر يوم القيامة) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے ہوا، تو اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم دنیا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ، اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا (صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقاق) الرعد
27 الرعد
28 1- اللہ کے ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا ومناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان وتقویٰ بےقرار رہتے ہیں۔ الرعد
29 1- طُوْبٰی کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں مثلاً خیر، حسنٰی، کرامت، رشک، جنت میں مخصوص درخت یا مخصوص مقام وغیرہ مفہوم سب کا ایک ہی ہے یعنی جنت میں اچھا مقام اور اس کی نعمتیں اور لذتیں۔ الرعد
30 1- جس طرح ہم نے آپ کو تبلیغ رسالت کے لئے بھیجا ہے، اسی طرح آپ سے پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھے، ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی جس طرح آپ کی کی گئی اور جس طرح تکذیب کے نتیجے میں وہ قومیں عذاب الٰہی سے دو چار ہوئیں، انہیں بھی اس انجام سے بےفکر نہیں رہنا چاہیے۔ 2- مشرکین مکہ رحمٰن کے لفظ سے بڑا بدکتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی جب ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے الفاظ لکھے گئے تو انہوں نے کہا یہ رحمٰن رحیم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے۔ (ابن کثیر) 3- یعنی رحمٰن، میرا وہ رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ الرعد
31 1- امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ہر آسمانی کتاب کو قرآن کہا جاتا ہے، جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ "حضرت داؤد علیہ السلام، جانور کو تیار کرنے کا حکم دیتے اور اتنی دیر میں ایک مرتبہ قرآن کا ورد کر لیتے "۔ (صحيح بخاری كتاب الأنبياء، باب قول الله تعالى: ﴿ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ﴾ یہاں ظاہر بات ہے قرآن سے مراد زبور ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر پہلے کوئی آسمانی کتاب ایسی نازل ہوئی ہوتی کہ جسے سن کر پہاڑ رواں دواں ہو جاتے یا زمین کی مسافت طے ہو جاتی یا مردے بول اٹھتے تو قرآن کریم کے اندر یہ خصوصیت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی، کیونکہ یہ اعجاز و بلاغت میں پچھلی کتابوں سے فائق ہے۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر اس قرآن کے ذریعے سے معجزات ظاہر ہوتے، تب بھی کفار ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان لانا نہ لانا یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، معجزوں پر نہیں۔ اسی لئے فرمایا، سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ 2- جو ان کے مشاہدے یا علم میں ضرور آئے گا تاکہ وہ عبرت پکڑ سکیں۔ 3- یعنی قیامت واقع ہو جائے، یا اہل اسلام کو قطعی فتح و غلبہ حاصل ہو جائے۔ الرعد
32 1- حدیث میں آتا ہے [ إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ]، ”اللہ ظالم کو مہلت دیئے جاتا ہے حتٰی کہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں“۔اس کے بعد نبی (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾ (سورۂ ھود:102) ”اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی الم ناک اور سخت ہے“۔ (صحيح بخاری تفسير سورة هود ومسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم)۔ الرعد
33 1- یہاں اس کا جواب محذوف ہے یعنی کیا رب العزت اور وہ معبودان باطل برابر ہو سکتے ہیں جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، جو کسی کو نفع پہنچانے پرقادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر، نہ وہ دیکھتے ہیں اور نہ عقل وشعور سے بہرہ ور ہیں۔ 2- یعنی ہمیں بھی تو بتاؤ تاکہ انہیں پہچان سکیں اس لئے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ اس لئے آگے فرمایا، کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں، یعنی ان کا وجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ اگر زمین میں ان کا وجود ہوتا تو اللہ تعالٰی کے علم میں ضرور ہوتا، اس پر تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ 3- یہاں ظاہر ظن کے معنی میں ہے یعنی یا یہ صرف ان کی ظنی باتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کی عبادت اس گمان پر کرتے ہو کہ یہ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں اور تم نے ان کے نام بھی معبود رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ، "یہ تمہارے اور تمہارے باپوں کے رکھے ہوئے نام ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ یہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں"۔ (النجم۔23) 4- مکر سے مراد، ان کے وہ غلط عقائد و اعمال ہیں جن میں شیطان نے ان کو پھنسا رکھا ہے، شیطان نے گمراہیوں پر بھی حسین غلاف چڑھا رکھے ہیں۔ 5- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا﴾ (المائدہ:41)۔ ”جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے تو اللہ اس کے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا“، اور فرمایا۔ ﴿اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ﴾ ( النحل:37)۔ ”اگر تم ان کی ہدایت کی خواہش رکھتے ہو تو (یاد رکھو) اللہ تعالٰی اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا“۔ الرعد
34 1- اس سے مراد قتل اور اسیری ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں ان کافروں کے حصے آتی ہے۔ 2- جس طرح نبی (ﷺ) نے بھی لعنت ملامت کرنے والے جوڑے سے فرمایا تھا [ إِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ ]۔ (صحيح مسلم كتاب اللعان) دنیا کا عذاب، آخرت سے بہت ہلکا ہے ۔ علاوہ ازیں دنیا کا عذاب (جیسا کچھ اور جتنا کچھ بھی ہو) عارضی اور فانی ہے اور آخرت کا عذاب دائمی ہے، اسے زوال و فنا نہیں، مزید برآں جہنم کی آگ، دنیا کی آگ کی نسبت 69 گنا تیز ہے، اور اس طرح دوسری چیزیں ہیں۔ اس لئے عذاب کے سخت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ الرعد
35 1- اہل کفار کے انجام بد کے ساتھ اہل ایمان کا حسن انجام بیان فرما دیا تاکہ جنت کے حصول میں رغبت اور شوق پیدا ہو، اس مقام پر امام ابن کثیر نے جنت کی نعمتوں، لذتوں اور ان کی خصوصی کیفیات پر مشتمل احادیث بیان فرمائی ہیں۔ جنہیں وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔ الرعد
36 1- اس سے مراد مسلمان ہیں اور مطلب ہے جو قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ 2- یعنی قرآن کے صدق کے دلائل و شواہد دیکھ کر مزید خوش ہوتے ہیں۔ 3- اس سے مراد یہود ونصاریٰ اور کفار ومشرکین ہیں۔ بعض کے نزدیک کتاب سے مراد تورات وانجیل ہے، ان میں سے جو مسلمان ہوئے، وہ خوش ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے وہ یہود ونصاریٰ ہیں جو مسلمان نہیں ہوئے۔ الرعد
37 1- یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبانوں میں نازل کیں، اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں اتارا، اس لئے کہ آپ کے مخاطب اولین اہل عرب ہیں، جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کے لئے عذر بن جاتا۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتار کر یہ عذر بھی دور کر دیا۔ 2- اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ پیغمبر آخر الزماں انہیں اختیار کریں۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے قبلہ بنائے رکھنا اور ان کے معتقدات کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔ 3- اس سے مراد علم ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ کو عطا کیا گیا، جس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پر واضح کر دی گئی۔ 4- یہ دراصل امت کے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ الرعد
38 1- یعنی آپ سمیت جتنے بھی رسول اور نبی آئے، سب بشر ہی تھے، جن کا اپنا خاندان اور قبیلہ تھا اور بیوی بچے تھے وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کے لیے ان سے مانوس ہونا اور ان کے قریب ہونا ناممکن تھا جس سے ان کو بھیجنے کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامے میں آتے تو دنیا میں نہ ان کا خاندان اور قبیلہ ہوتا اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے جس سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحثییت جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مذکورہ آیت میں ازواجا سے رہبانیت کی تردید اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ہوتی ہے کیونکہ ذریۃ جمع ہے کم از کم تین ہوں گے۔ 2- یعنی معجزات کا صدور، رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ جب ان سے مطالبہ کیا جائے تو وہ صادر کر کے دکھا دیں بلکہ یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ معجزے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح اور کب دکھایا جائے۔ 3- یعنی اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا، اس کا ایک وقت مقرر ہے، اس وقت موعود پر یہ واقع ہو کر رہے گا اس لئے کہ اللہ کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔ اصل عبارت لکل کتاب أجل ہے،اور مطب ہے کہ ہر وہ امر، جسے اللہ نے لکھ رکھا ہے، اس کا ایک وقت مقرر ہے، یعنی معاملہ، کفار کے ارادے اور منشاء پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ الرعد
39 1- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں وہ جس حکم کو چاہے منسوخ کردے اور جسے چاہے باقی رکھے۔ دوسرے معنی یہ ہیں اس نے جو تقدیر لکھ رکھی ہے، اس میں محو و اثبات کرتا رہتا ہے، اس کے پاس لوح محفوط ہے۔ اس کی تائید بعض احادیث و آثار سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”آدمی گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے، دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے“ (مسند احمد جلد۔5 ص۔277) بعض صحابہ سے یہ دعا منقول ہے ’’اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا أَشْقِيَاءَ فَامْحُنَا وَاكْتُبْنَا سُعَدَاءَ، وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَأَثْبِتْنَا، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ‘‘ حضرت عمر (رضی الله عنہ) سے منقول ہے کہ وہ دوران طواف روتے ہوئے یہ دعا پڑھتے ـ’’اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَ عَلَيّ شِقْوَةً أَوْ ذَنْبًا فَامْحُهُ، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ فَاجْعَلْهُ سَعَادَةً وَمَغْفِرَةً‘‘۔( ابن کثیر)۔ ”اے اللہ اگر تو نے مجھ پر بدبختی اور گناہ لکھا ہے تو اسے مٹا دے، اس لئے کہ تو جو چاہے مٹائے اور جو چاہے باقی رکھے، تیرے پاس ہی لوح محفوظ ہے، پس تو بدبختی کو سعادت اور مغفرت سے بدل دے“۔ اس مفہوم پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حدیث میں تو آتا ہے [ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ ]۔ (صحیح بخاری نمبر 5076)۔ ”جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے“ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ محو واثبات بھی منجملہ قضاء وتقدیر ہی کے ہے۔( فتح القدیر)۔ الرعد
40 الرعد
41 1- یعنی عرب کی سرزمین مشرکین پر بتدریج تنگ ہو رہی ہے اور اسلام کو غلبہ وعروج حاصل ہو رہا ہے۔ 2- یعنی کوئی اللہ کے حکموں کو رد نہیں کر سکتا۔ الرعد
42 1- یعنی مشرکین مکہ سے قبل بھی لوگ رسولوں کے مقابلے میں مکر کرتے رہے ہیں، لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں ان کی کوئی تدبیر اور حیلہ کارگر نہیں ہوا، اسی طرح آئندہ بھی ان کا کوئی مکر اللہ کی مشیت کے سامنے نہیں ٹھر سکے گا۔ 2- وہ اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیک کو اس کی نیکی کی جزا اور بد کو اس کی بد کی سزا ۔ الرعد
43 1- پس وہ جانتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول اور اس کے پیغام کا داعی ہوں اور تم جھوٹے ہو۔ 2- کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مراد تورات اور انجیل کا علم ہے۔ یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں، جیسے عبد اللہ بن سلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم (رضی الله عنہم) یعنی یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرب کے مشرکین اہم معاملات میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے اور ان سے پوچھتے تھے، اللہ تعالٰی نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اہل کتاب جانتے ہیں، ان سے تم پوچھ لو۔ بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حاملین علم کتاب، مسلمان ہیں۔ اور بعض نے کتاب سے مراد لوح محفوظ لی ہے۔ یعنی جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ، مگر پہلا مفہوم زیادہ درست ہے۔ الرعد
0 ابراھیم
1 1- جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا ﴿هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ (سورہ الحدید:9) ۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے ۔ ﴿اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ ( البقرۃ:257)۔ ”اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے“۔ 2- یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کر لیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کر لے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی (ﷺ) باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کر سکے۔ ابراھیم
2 ابراھیم
3 1- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے مین میکھ نکالتے اور انہیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض وخواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ 2- اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔ ابراھیم
4 1- پھر جب اللہ تعالٰی نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ 2- لیکن اس بیان وتشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔ ابراھیم
5 1- یعنی جس طرح اے محمد (ﷺ) ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ (عليہ السلام) کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ (عليہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ 2- اَ یَّامَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالٰی کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔ 3- صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر ہی کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا "مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالٰی اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے "۔(صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب المؤمن أمره كله خير) ابراھیم
6 1- یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔ ابراھیم
7 1- تَأَذَّنَ کے معنی أَعْلَمَكُمْ بِوَعْدِهِ لَكُمْ، اس نے تمہیں اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کر دیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر) 2- نعمت پر شکر کرنے پر مزید انعامات سے نوازوں گا۔ 3- اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی (ﷺ) نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحيح مسلم، العيدين أوائل كتاب الصلاة) ابراھیم
8 1- مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ وہ تو بےنیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہو جائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے:۔ [ يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ مِنْكُمْ ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا، يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ , مَا نَقَصَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا ، يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، ، قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا إِلا كَمَا يُنْقِصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ فِي الْبَحْرِ ]۔(صحيح مسلم كتاب البر ، باب تحريم الظلم) ”اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے“۔ فَسُبْحَانَهُ وَتعَالَى الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ۔ ابراھیم
9 1- مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً (1)- انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، (2)۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو،(3)۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ (4)۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔(5)۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے ﴿عَضُّوا عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ﴾ (آل عمران:119)۔ ”وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں“۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔ 2- مُرِيبٌ یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔ ابراھیم
10 1- یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان وتوحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض وسماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے؟۔ 2- یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہو سکتا ہے؟۔ 3- یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔ 4- دلائل ومعجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور (ﷺ) سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔ ابراھیم
11 1- رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقینا ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالٰی انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی ورسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔ 2- ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ 3- یہاں مومنین سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔ ابراھیم
12 1- کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔ ابراھیم
13 1- جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا :﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾ ( سورة الصافات: 171-173)۔ ”اور پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ منصور اور کامیاب ہونگے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا“ ﴿كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي﴾ (المجادلة ۔21)۔ ”اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے“۔ ابراھیم
14 1- یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، ﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ (الأنبياء:105) ۔ ”ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے“۔ (مزید دیکھئے سورۃ الاعراف: 128، 137) چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالٰی نے نبی کریم (ﷺ) کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ (ﷺ)نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ﴿لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ﴾ (یوسف:92) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلاَمُهُ عَلَيْهِ 2- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى﴾ ( النازعات: 40-41)۔ ”جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقینا جنت اس کا ٹھکانہ ہے“۔ ﴿وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ﴾ (النازعات :46)۔ ”جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں“۔ ابراھیم
15 اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا ﴿اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ (الانفال:32) ”اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے“۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال:19) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح ونصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔ ابراھیم
16 1- صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہوگا۔ بعض احادیث میں اسے عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ (مسند احمد جلد 5 صفحہ 171) (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہوگا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ ابراھیم
17 1- یعنی انواع واقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہوگا۔ ابراھیم
18 1- قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس کا کوئی اجر وثواب انہیں نہیں ملے گا۔ ابراھیم
19 ابراھیم
20 1- یعنی اگر تم نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالٰی اس پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے، تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کر دے۔ ابراھیم
21 1- یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے ربرو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا۔ 2- بعض کہتے ہیں کہ جہنمی آپس میں کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہ وزاری کریں چنانچہ وہ روئیں گے اور خوب آہو زاری کریں گے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ملی، چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں، وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پس اس وقت کہیں گے ہم صبر کریں یا جزع وفزع، اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ ان کی باہمی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی۔ قرآن کریم میں اس کو اور بھی کئی جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ مؤمن (48-47) سورہ اعراف (39-38) سورہ الاحزاب (68-66) اس کے علاوہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کا الزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہوگا۔ اس کی مزید تفصیل اللہ تعالٰی نے سورہ سبا (31 ۔ 33) میں بیان فرمائی ہے۔ ابراھیم
22 1- یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا۔ 2- اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کئے تھے کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے۔ وہ حق پر تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب تھے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ﴿يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلا غُرُورًا﴾ ( النساء:120) ”شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکا ہیں“۔ 3- دوسرا یہ کہ میری باتوں میں کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی تھی، نہ میرا کوئی دباؤ ہی تم پر تھا۔ 4- ہاں میری صرف دعوت اور پکار تھی، تم نے میری بےدلیل پکار کو مان لیا اور پیغمبروں کی دلیل و حجت سے بھرپور باتوں کو رد کر دیا۔ 5- اس لئے قصور سارا تمہارا اپنا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا، دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کر دیا، اور مجرد دعوے کے پیچھے لگے رہے، جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں۔ 6- یعنی نہ میں تمہیں عذاب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس قہر و غضب سے مجھے بچا سکتے ہو جو اللہ کی طرف سے مجھ پر ہے۔ 7- مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں، اگر تم مجھے یا کسے اور کو اللہ کا شریک گردانتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی تھی اور اس کی تدبیر بھی وہی کرتا رہا، بھلا اس کا کوئی شریک کیونکر ہو سکتا تھا۔ 8- بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی شیطان ہی کا ہے اور یہ اس کے مذکورہ خطبے کا تتمہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان کا کلام مِنْ قَبْلُ پر ختم ہوگیا، یہ اللہ کا کلام ہے۔ ابراھیم
23 1- یہ اہل شقاوت واہل کفر کے مقابلے میں اہل سعادت اور اہل ایمان کا تذکرہ ہے۔ ان کا ذکر ان کے ساتھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اہل ایمان والا کردار اپنانے کا شوق ورغبت پیدا ہو۔ 2- یعنی آپس میں ان کا تحفہ ایک دوسرے کو سلام کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں فرشتے بھی ہر ہر دروازے سے داخل ہو ہو کر انہیں سلام عرض کریں گے۔ ابراھیم
24 ابراھیم
25 1- اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے، جو گرمی ہو یا سردی ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب وروز کے لمحات میں ہر آن اور ہر گھڑی آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں، كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ سے اسلام، یا لا اِلٰہ الا اللہ اور شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ ( صحيح بخاری، كتاب العلم، باب الفهم في العلم، ومسلم، كتاب صفة القيامة، باب مثل المؤمن مثل النخلة) ابراھیم
26 1- کلمئہ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرہ خبیثہ سے حنظل (اندرائن) کا درخت مراد ہے۔ جس کی جڑ زمین کے اوپر ہی ہوتی ہے اور ذرا سے اشارے سے اکھڑ جاتی ہے۔ یعنی کافر کے اعمال بالکل بےحیثیت۔ نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں، نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔ ابراھیم
27 1- اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ”موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں“۔ پس یہی مطلب ہے اللہ کے فرمان، ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ کا (صحيح بخاری، تفسير سورة إبراهيم، وصحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها ، باب عرض مقعد الميت عليه وإثبات عذاب القبر) ایک اور حدیث میں ہے کہ ”جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، وہ مومن ہوتا ہے تو جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرشتے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کی جگہ تیرے لئے جنت میں ٹھکانا بنا دیا ہے۔ پس وہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور اس کی قبر ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کی قبر کو قیامت تک نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم، باب مذکور) ایک اثر میں ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے [ مَنْ رَبُّكَ؟ مَا دِينُكَ ؟ مَنْ نَبِيُّكَ؟ ]۔ ”تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے“؟ پس اللہ تعالٰی اسے ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے رَبِّی اللّٰہُ (میرا رب اللہ ہے)، وَدِیْنِیَ الاِ سْلَامُ (میرا دین اسلام ہے) وَنَبِیِّی مُحَمَّد (اور میرے پیغمبر محمد ﷺ ہیں) (تفسیر ابن کثیر) ابراھیم
28 1- اس کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نے رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کروایا، تاہم اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ عام ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت محمد (ﷺ) کو اللہ تعالٰی نے رحمۃ للعالمین اور لوگوں کے لئے نعمت الٰہیہ بنا کر بھیجا، پس جس نے اس نعمت کی قدر کی، اسے قبول کیا، اس نے شکر ادا کیا، وہ جنتی ہوگیا اور جس نے اس نعمت کو رد کر دیا اور کفر اختیار کیے رکھا، وہ جہنمی قرار پایا۔ ابراھیم
29 ابراھیم
30 1- یہ تہدید وتوبیخ ہے کہ دنیا میں تم جو کچھ چاہو کر لو، مگر کب تک؟ بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔ ابراھیم
31 1- نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر اور نماز کو ٹھیک طریقہ کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، جس طرح کہ نبی (ﷺ) کی سنت ہے۔ انفاق کا مطلب ہے زکوۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے۔ اور اللہ تعالٰی کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔ قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں نہ خرید وفروخت ممکن ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔ ابراھیم
32 1- اللہ تعالٰی نے مخلوقات پر جو انعامات کئے ہیں، ان میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا آسمان کو چھت اور زمین کو بچھونا بنایا۔ آسمان سے بارش نازل فرما کر مختلف قسم کے درخت اور فصلیں اگائیں جن میں لذت و قوت کے لئے میوے اور فروٹ بھی ہیں اور انواع واقسام کے غلے بھی جن کے رنگ اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذائقے اور خوشبو اور فوائد بھی مختلف ہیں۔ کشتیوں اور جہازوں کو خدمت میں لگا دیا کہ وہ تلاطم خیز موجوں پر چلتے ہیں، انسانوں کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچاتے ہیں اور سامان تجارت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ زمینوں اور پہاڑوں سے چشمے اور نہریں جاری کر دیں تاکہ تم بھی سیراب ہو اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرو۔ ابراھیم
33 1- یعنی مسلسل چلتے رہتے ہیں، کبھی ٹھرتے نہیں رات کو، نہ دن کو۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں لیکن کبھی ان کا باہمی تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ 2- رات اور دن، ان کا باہمی تفاوت جاری رہتا ہے، کبھی رات، دن کا کچھ حصہ لے کر لمبی ہو جاتی ہے اور کبھی دن، رات کا کچھ حصہ لے کر لمبا ہو جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے چل رہا ہے، اس میں یک سر مو فرق نہیں آیا۔ ابراھیم
34 1- یعنی اس نے تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کیں جو تم اس سے طلب کرتے ہو، اور بعض کہتے ہیں جسے تم طلب کرتے ہو وہ بھی دیتا ہے اور جسے نہیں مانگتے، لیکن اسے پتہ ہے کہ وہ تمہاری ضرورت ہے، وہ بھی دے دیتا ہے۔ غرض تمہیں زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ 2- یعنی اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں انہیں کوئی شمار میں نہیں لا سکتا۔ چہ‌جائیکہ کوئی ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کرسکے۔ ایک اثر میں حضرت داؤد (عليہ السلام) کا قول نقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ' اے رب! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں؟ جب کہ شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے ' اللہ تعالٰی نے فرمایا ’’اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کر دیا جب کہ تو نے اعتراف کر لیا کہ یا اللہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں‘‘ (تفسیر ابن کثیر) 3- اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے غفلت کی وجہ سے انسان اپنے نفس کے ساتھ ظلم اور بے انصافی کرتا ہے۔ بالخصوص کافر، جو بالکل ہی اللہ سے غافل ہے۔ ابراھیم
35 1- ”اس شہر“ سے مراد مکہ ہے۔ دیگر دعاؤں سے قبل یہ دعا کی کہ اسے امن والا بنا دے، اس لئے کہ امن ہوگا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ امن و سکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود، خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں۔ جیسے آجکل کے عام معاشروں کا حال ہے۔ سوائے سعودی عرب کے۔ وہاں اس دعا کی برکت سے اور اسلامی حدود کے نفاذ سے آج بھی ایک مثالی امن قائم ہے۔ صَانَهَا اللهُ عَنِ الشُّرُورِ وَالْفِتَنِ۔ یہاں انعامات الٰہیہ کے ضمن میں اسے بیان فرما کر اشارہ کر دیا کہ قریش جہاں اللہ کے دیگر انعامات سے غافل ہیں اس خصوصی انعام سے بھی غافل ہیں کہ اس نے انہیں مکہ جیسے امن والے شہر کا باشندہ بنایا۔ ابراھیم
36 1- گمراہ کرنے کی نسبت ان پتھروں کی مورتیوں کی طرف کی جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، باوجود اس بات کے کہ وہ غیر عاقل ہیں، کیونکہ وہ گمراہی کا باعث تھیں اور ہیں۔ ابراھیم
37 1- مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میں مِن اولاد کے لئے ہے۔ یعنی بعض کہتے ہیں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے آٹھ صلبی بیٹے تھے، جن میں سے صرف حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کو یہاں بسایا (فتح القدیر) 2- عبادت میں صرف نماز کا ذکر کیا، جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے۔ 3- یہاں بھی من تبعیض کے لیے ہے ۔ کہ کچھ لوگ، مراد اس سے مسلمان ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ کس طرح دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور حج کے علاوہ بھی سارا سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) أَفْئِدَةَ النَّاسِ (لوگوں کے دلوں) کہتے تو عیسائی، یہودی، مجوسی اور دیگر تمام لوگ مکہ پہنچتے۔ مِنَ النَّاسِ کے مِنْ نے اس دعا کو مسلمانوں تک محدود کر دیا (ابن کثیر) 4- اس دعا کی تاثیر بھی دیکھ لی جائے کہ مکہ جیسی بےآب و گیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں حج کے موقع پر بھی، جب لاکھوں افراد مزید وہاں پہنچ جاتے ہیں، پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی، وَهَذَا مِنْ لُطْفِ اللهِ تَعَالَى وَكَرَمِهِ وَرَحْمَتِه وَبَرَكَتِهِ، اسْتِجَابَةً لِخَلِيلِهِ إِبْرَاهِيمَ - عليہ السلام کہا جاتا ہے کہ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد مانگی۔ جب کہ پہلی دعا اس وقت مانگی، جب اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے اسماعیل کو اللہ تعالٰی کے حکم پر وہاں چھوڑ کر چلے گئے (ابن کثیر) ابراھیم
38 1- مطلب یہ ہے کہ میری دعا کے مقصد کو تو بخوبی جانتا ہے، اس شہر کے لئے دعا سے اصل مقصد تیری رضا ہے تو تو ہرچیز کی حقیقت کو خوب جانتا ہے، آسمان وزمین کی کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں۔ ابراھیم
39 ابراھیم
40 1- اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی، جیسے اس سے قبل بھی اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی کہ انہیں پتھر کی مورتیوں کو پوجنے سے بچا رکھنا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے داعیوں کو اپنے گھر والوں کی ہدایت اور ان کی دینی تعلیم وتربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے تبلیغ ودعوت میں انہیں اولیت دینی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (ﷺ) کو بھی حکم دیا ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء:214) ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“۔ ابراھیم
41 1- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ ابھی ان پر اپنے ماں باپ کا عَدُوُّ اللهِ ہونا واضح نہیں ہوا تھا، جب یہ واضح ہوگیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اظہار سبکدوشی کر دیا۔ اس لئے کہ مشرکین کے لئے دعا کرنا جائز نہیں چاہے وہ قرابت قریبہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ابراھیم
42 1- یعنی قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے۔ اگر دنیا میں اللہ نے کسی کو زیادہ مہلت دے دی اور اس کے مرنے تک اس کا مواخذہ نہیں کیا تو قیامت کے دن تو وہ مواخذہ الٰہی سے نہیں بچ سکے گا، جو کافروں کے لئے اتنا ہولناک دن ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ابراھیم
43 1- مُهْطِعِينَ، تیزی سے دوڑ رہے ہونگے۔ دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ﴾۔ (القمر۔18) بلانے والے کی طرف دوڑیں گے اور حیرت سے ان کے سر اٹھے ہوئے ہونگے۔ 2- جو ہولناکیاں وہ دیکھیں گے اور جو فکر اور خوف اپنے بارے میں انہیں ہوگا، ان کے پیش نظر ان کی آنکھیں ایک لمحہ کے لئے بھی پست نہیں ہونگی اور کثرت خوف سے ان کے دل گرے ہوئے اور خالی ہونگے۔ ابراھیم
44 1- یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ کوئی حساب کتاب اور جنت دوزخ نہیں، دوبارہ کسے زندہ ہونا ہے۔ ابراھیم
45 1- یعنی عبرت کے لئے ہم نے تو ان کی پچھلی قوموں کے واقعات بیان کر دیئے ہیں، جن کے گھروں میں تم آباد ہو اور ان کے کھنڈرات بھی تمہیں دعوت غور وفکر دے رہے ہیں۔ اگر تم نے ان سے عبرت حاصل نہیں کی اور ان کے انجام سے بچنے کی فکر نہ کرو تو تمہاری مرضی۔ پھر تم بھی اسی انجام کے لئے تیار رہو۔ ابراھیم
46 1- یہ جملہ حالیہ ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ جو کیا وہ کیا، درآنحالیکہ انہوں نے باطل کے اثبات اور حق کے رد کرنے کے لئے مقدور بھر حیلے اور مکر کیے اور اللہ کو ان تمام چالوں کا علم ہے یعنی اس کے پاس درج ہے جس کی وہ ان کو سزا دے گا۔ 2- کیونکہ اگر پہاڑ ٹل گئے ہوتے تو اپنی جگہ برقرار نہ ہوتے، جب کہ سب پہاڑ اپنی اپنی جگہ ثابت اور برقرار ہیں۔ یہ ان نافیہ کی صورت میں ہے دوسرے معنی ان مخففۃ من المثقلۃ کے لیے گئے ہیں یعنی یقینا ان کے مکر تو اتنے بڑے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جاتے یہ تو اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے ان کے مکروں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جیسے مشریکن کے شرک کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا﴾ (سورة مريم: 90-91)۔ ”قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اس بات پر کہ انہوں نے کہا اللہ رحمٰن کی اولاد ہے“۔ ابراھیم
47 1- یعنی اللہ نے اپنے رسولوں سے دنیا اور آخرت میں مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ یقینا ایسا ہے، اس سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔ 2- یعنی اپنے دوستوں کے لئے اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے والا ہے۔ ابراھیم
48 1- امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت میں دونوں احتمال ہیں کہ یہ تبدیلی صفات کے لحاظ سے ہو یا ذات کے لحاظ سے۔ یعنی یہ آسمان وزمین اپنے صفات کے اعتبار سے بدل جائیں گے یا ویسے ہی ذاتی طور پر یہ تبدیلی آئے گی، نہ زمین رہے گی اور نہ یہ آسمان۔ زمین بھی کوئی اور ہوگی اور آسمان بھی کوئی اور۔ حدیث میں آتا ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :[ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَيْضَاءَ عَفْرَاءَ، كَقُرْصَةِ النَّقِيِّ لَيْس فِيهَا عَلَمٌ لأحَدٍ ]۔ (صحيح مسلم، صفة القيامة، باب في البعث والنشور) ’’ قیامت والے دن لوگ سفید بھوری زمین پر اکھٹے ہونگے جو میدہ کی روٹی کی طرح ہوگی۔ اس میں کسی کا کوئی جھنڈا (یا علامتی نشان) نہیں ہوگا‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے پوچھا کہ جب یہ آسمان و زمین بدل دئیے جائیں گے تو پھر لوگ اس دن کہاں ہونگے؟ نبی (ﷺ) نے فرمایا ”صراط پر“ یعنی پل صراط پر (حوالہ مذکور) ایک یہودی کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ ”لوگ اس دن پل کے قریب اندھیرے میں ہونگے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب بيان صفة مني الرجل) ابراھیم
49 ابراھیم
50 1- جو آگ سے فوراً بھڑک اٹھتی ہے۔ علاوہ ازیں آگ نے ان کے چہروں کو بھی ڈھانپا ہوگا۔ ابراھیم
51 ابراھیم
52 1- یہ اشارہ قرآن کی طرف ہے، یا پچھلی تفصیلات کی طرف جو ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا﴾ (ابراہیم: 42) سے بیان کی گئی ہیں۔ ابراھیم
0 الحجر
1 1- کتاب اور قرآن مبین سے مراد قرآن کریم ہی ہے، جو نبی (ﷺ) پر نازل ہوا۔ جس طرح ﴿قَدْ جَاءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ﴾ (المائدہ:15) میں نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن کریم ہی ہے۔ قرآن کریم کی تنکیرتفخیم شان کے لئے ہے۔ یعنی قرآن کامل اور نہایت عظمت وشان والا ہے۔ الحجر
2 1- یہ آرزو کب کریں گے؟ موت کے وقت، جب فرشتے انہیں جہنم کی آگ دکھاتے ہیں یا جب جہنم میں چلے جائیں گے یا اس وقت جب گنہگار ایمانداروں کو کچھ عرصہ بطور سزا، جہنم میں رکھنے کے بعد جہنم سے نکالا جائے گا یا میدان محشر میں، جہاں حساب کتاب ہو رہا ہوگا اور کافر دیکھیں گے کہ مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ رُبَمَا اصل میں تو تکثیر کے لئے ہے لیکن کبھی کمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے یہ آرزو ہر موقعے پر ہوتی رہے گی لیکن اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ الحجر
3 1- یہ تہدید وتوبیخ ہے کہ کافر ومشرک اپنے کفر وشرک سے باز نہیں آ رہے ہیں تو انہیں چھوڑ دیجئے یہ دنیاوی لذتوں سے محفوظ ہولیں اور اپنی امیدیں برلائیں۔ عنقریب انہیں اپنے کفر وشرک کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ الحجر
4 الحجر
5 1- جس بستی کو بھی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کرتے ہیں، تو فوراً ہلاک نہیں کر ڈالتے، بلکہ ہم ایک وقت مقرر کئے ہوئے ہیں، اس وقت تک اس بستی والوں کو مہلت دی جاتی ہے لیکن جب وہ مقررہ وقت آ جاتا ہے تو انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے پھر وہ اس سے آگے یا پیچھے نہیں ہوتے۔ الحجر
6 الحجر
7 1- یہ کافروں کے کفر وعناد کا بیان ہے کہ وہ نبی کو دیوانہ کہتے اور کہتے کہ اگر تو (اے محمد ﷺ) سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ کہ وہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے تاکہ وہ تیری رسالت کی تصدیق کریں یا ہمیں ہلاک کر دیں۔ الحجر
8 1- اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ فرشتے ہم حق کے ساتھ بھیجتے ہیں یعنی جب ہماری حکمت ومشیت عذاب بھیجنے کا تقاضا کرتی ہے تو پھر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور پھر وہ مہلت نہیں دیئے جاتے، فوراً ہلاک کر دیئے جاتے ہیں۔ الحجر
9 1- یعنی اس کو دست برد زمانہ سے اور تغیر وتبدل سے بچانا یہ ہمارا کام ہے۔ چنانچہ قرآن آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح یہ اترا تھا، گمراہ فرقے اپنے اپنے گمراہانہ عقائد کے اثبات کے لئے اس کی آیات میں معنوی تحریف تو کرتے رہتے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں لیکن پچھلی کتابوں کی طرح یہ لفظی تحریف اور تغیر سے محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں اہل حق کی ایک جماعت بھی تحریفات معنوی کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہر دور میں موجود رہی ہے، جو ان کے گمراہانہ عقائد اور غلط دلائل اور ثبوت بکھیرتی رہی ہے اور آج بھی وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کو یہاں ”ذکر“ (نصیحت) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اہل جہاں کے لئے ”ذکر“ (یاد دہانی اور نصیحت ہونے) کے پہلو کو، نبی (ﷺ) کی سیرت کے تابندہ نقوش اور آپ کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ گویا قرآن کریم اور سیرت نبوی (ﷺ) کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور رسول کو حاصل نہیں ہوا۔ الحجر
10 الحجر
11 1- یہ گویا نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ صرف آپ ہی کی تکذیب نہیں کی گئی، ہر رسول کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا۔ الحجر
12 1- یعنی کفر اور رسولوں کا استہزاء ہم مجرموں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں یا رچا دیتے ہیں، یہ نسبت اللہ نے اپنی طرف اس لئے کی کہ ہرچیز کا خالق اللہ تعالٰی ہی ہے گو ان کا فعل ان کی مسلسل معصیت کے نتیجے میں اللہ کی مشیت سے رونما ہوا۔ الحجر
13 1- یعنی ان کے ہلاک کرنے کا وہی طریقہ ہے جو اللہ نے پہلے مقرر کر رکھا ہے کہ تکذیب واستہزاء کے بعد وہ قوموں کو ہلاک کرتا ہے۔ الحجر
14 الحجر
15 1- یعنی ان کا کفر وعناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ فرشتوں کا نزول تو رہا ایک طرف، اگر خود ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں اور یہ ان دروازوں سے آسمان پر آ جائیں، تب بھی انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے اور رسولوں کی تصدیق نہ کریں بلکہ یہ کہیں کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے یا ہم پر جادو کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم آسمان پر آ جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ الحجر
16 1- ”بُرُوجٌبُرْجٌ کی جمع ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں۔ اسی سے تَبَرُّجٌ ہے جو عورت کے اظہار زینت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں آسمان کے ستاروں کو بُرُوجُ کہا گیا ہے کیونکہ وہ بلند اور ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بُرُوجٌ سے مراد شمس وقمر اور دیگر سیاروں کی منزلیں ہیں، جو ان کے لئے مقرر ہیں اور یہ 12 ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ عرب ان سیاروں کی منزلوں اور ان کے ذریعے سے موسم کا حال معلوم کرتے تھے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ ان سے تغیر پذیر ہونے والے واقعات وحوادث جاننے کا دعوی کرنا، جیسے آج کل بھی جاہلوں میں اس کا خاصا چرچہ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کو ان کے ذریعے سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کوئی تعلق دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات وحوادث سے نہیں ہوتا، جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف مشیت الہی ہی سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہاں ان برجوں یا ستاروں کا ذکر اپنی قدرت اور بے مثال صنعت کے طور پر کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ واضح کیا ہے کہ یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔ الحجر
17 1- ”رَجِيمٌمَرْجُومٌ کے معنی میں ہے، رَجْمٌ کے معنی ہیں سنگسار کرنا یعنی پتھر مارنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ جب آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو آسمان سے شہاب ثاقب اس پر ٹوٹ کر گرتے ہیں، پھر رجیم ملعون ومردود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جسے سنگسار کیا جاتا ہے اسے ہر طرف سے لعنت ملامت بھی کی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے یہی فرمایا ہے کہ ہم نے آسمانوں کی حفاظت فرمائی ہر شیطان رجیم سے۔ یعنی ان ستاروں کے ذریعے سے، کیونکہ یہ شیطان کو مار بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ الحجر
18 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ شیاطین آسمانوں پر باتیں سننے کے لئے جاتے ہیں، جن پر شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرتے ہیں، جن سے کچھ تو جل مر جاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اور بعض سن آتے ہیں۔ حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے۔ نبی (ﷺ) فرماتے ہیں ”جب اللہ تعالٰی آسمان پر کوئی فیصلہ فرماتا ہے، تو فرشتے اسے سن کر اپنے پر یا بازو پھڑ پھڑاتے ہیں (عجز ومسکنت کے اظہار کے طور پر) گویا وہ کسی چٹان پر زنجیر کی آواز ہے۔ پھر جب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کا خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں، اس نے جو کہا حق کہا اور وہ بلند اور بڑا ہے (اس کے بعد اللہ کا وہ فیصلہ اوپر سے نیچے تک یکے بعد دیگرے سنایا جاتا ہے) اس موقع پر شیطان چوری چھپے بات سنتے ہیں۔ اور یہ چوری چھپے بات سننے والے شیطان، تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں اور ایک آدھا حکم سن کر اپنے دوست نجومی یا کاہن کے کان میں پھونک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بیان کرتا ہے (ملخصاً۔ صحیح بخاری تفسیر سورۂ حجر) الحجر
19 1- مَوْزُونٌ بمعنی مَعْلُومٌ یا بہ اندازہ یعنی حسب ضرورت۔ الحجر
20 1- ”مَعَايِشَمَعِيشَةٌ کی جمع ہے یعنی زمین میں تمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشمار اسباب ووسائل پیدا کر دیئے۔ 2- اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں۔ یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کر دیا، جن پر تم سواری بھی کرتے ہو، سامان بھی لاد کر لے جاتے ہو اور انہیں ذبح کر کے کھا بھی لیتے ہو۔ غلام لونڈیاں ہیں، جن سے تم خدمت گزاری کا کام لیتے ہو۔ یہ اگرچہ سب تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالٰی ہے، تم نہیں ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم ان کے رازق ہو، اگر تم انہیں کھانا نہیں دو گے تو بھوکے مر جائیں گے۔ الحجر
21 1- بعض نے خزائن سے مراد بارش لی ہے کیونکہ بارش ہی پیداوار کا ذریعہ ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے اس سے مراد تمام کائنات کے خزانے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی حسب مشیت وارادہ عدم سے وجود میں لاتا رہتا ہے۔ الحجر
22 1- ہواؤں کو بوجھل، اس لئے کہا گیا کہ یہ ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں جن میں پانی ہوتا ہے۔ جس طرح لَقْحَةٌ حاملہ اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پیٹ میں بچہ اٹھائے ہوتی ہے۔ 2- یعنی یہ پانی جو ہم اتارتے ہیں، اسے تم ذخیرہ رکھنے پر بھی قادر نہیں ہو۔ یہ ہماری ہی قدرت و رحمت ہے کہ ہم اس پانی کو چشموں، کنوؤں اور نہروں کے ذریعے سے محفوظ رکھتے ہیں، ورنہ اگر ہم چاہیں تو پانی کی سطح اتنی نیچی کر دیں کہ چشموں اور کنوؤں سے پانی لینا تمہارے لئے ممکن نہ رہے، جس طرح بعض علاقوں میں اللہ تعالٰی بعض دفعہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھاتا ہے۔ اللَّهُمَّ احْفَظْنَا مِنْهُ۔ الحجر
23 الحجر
24 الحجر
25 الحجر
26 1- مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، تراب، بھیگی ہوئی طین، گوندھی ہوئی بدبودار ﴿حَمَإٍ مَسْنُونٍ﴾ یہ حَمَإٍ مَسْنُونٍ خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو صَلْصَالٍ اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو فَخَّارٌ (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا حَمَأٍ مَسْنُونٌ (گوندھی ہوئی سڑی ہوئی، بدبودار) مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (یعنی صلصال) ہو گیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صَلصَالِ کو قرآن میں دوسری جگہ كَالْفَخَّارِ (فخار کی ماند کہا گیا ہے ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ﴾ (الرحمن:14) ”پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا“۔ الحجر
27 1- جِنّ کو جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ سورہ رحمٰن میں جنات کی تخلیق ﴿مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ﴾ (الرحمن:15) سے بتلائی گئی ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے ﴿خُلِقَتِ الْمَلائِكَةُ مِنْ نُورِ وَخُلِقَ الْجَانّ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وَصَفَ لَكُمْ (كتاب الزهد، باب في أحاديث متفرقة) اس اعتبار سے لو والی آگ یا آگ کے شعلے کا ایک ہی مطلب ہوگا۔ الحجر
28 الحجر
29 1- سجدے کا یہ حکم بطور تعظیم کے تھا، عبادت کے طور پر نہیں، اور یہ چونکہ اللہ کا حکم تھا، اس لئے اس کے وجوب میں کوئی شک نہیں۔ تاہم شریعت محمدیہ میں بطور تعظیم بھی کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں۔ الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 1- شیطان نے انکار کی وجہ حضرت آدم (عليہ السلام) کا خاکی اور بشر ہونا بتلایا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور بشر کو اس کی بشریت کی بنا پر حقیر اور کم تر سمجھنا یہ شیطان کا فلسفہ ہے، جو اہل حق انبیاء علیہم السلام کی بشریت کے منکر نہیں، اس لئے کہ ان کی بشریت کو خود قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بشریت ان کی عظمت اور شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 الحجر
40 الحجر
41 1- یعنی تم سب کو بالآخر میرے پاس ہی لوٹ آنا ہے، جنہوں نے میرا اور میرے رسولوں کا اتباع کیا ہوگا، میں انہیں اچھی جزا دوں گا اور جو شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ہوگا اسے سخت سزا دوں گا جو جہنم کی صورت میں تیار ہے۔ الحجر
42 1- یعنی میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہوگا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا گناہ نہیں ہوگا کہ جس کے بعد نادم اور تائب نہ ہو کیونکہ وہی گناہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہے کہ جس کے بعد انسان کے اندر ندامت کا احساس اور توبہ و انابت الی اللہ کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ ایسے گناہ کے بعد ہی انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر دائمی تباہی وہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الحجر
43 1- یعنی جتنے بھی تیرے پیروکار ہوں گے، سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ الحجر
44 1- یعنی ہر دروازہ مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے خاص ہوگا۔ مثلاً ایک دروازہ مشرکوں کے لئے، ایک دروازہ دھریوں کے لئے۔ ایک زندیقوں، ایک زانیوں کے لئے۔ سود خوروں، چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے وغیرہ وغیرہ۔ یا سات دروازوں سے مراد سات طبق اور درجے ہیں۔ پہلا طبق یا درجہ جہنم ہے، دوسرا نطی۔ پھر حطمہ، پھر سعیر۔ پھر سقر، پھر حجیم، پھر ھاویہ، سب سے اوپر والا درجہ موحدین کے لئے ہوگا، جنہیں کچھ عرصہ سزا دینے کے بعد یا سفارش پر نکال لیا جائے گا، دوسرے میں یہودی، تیسرے میں عیسائی، چوتھے میں صابی، پانچویں میں مجوسی، چھٹے میں مشرکین اور ساتویں میں منافقین ہونگے، سب سے اوپر والے درجے کا نام جہنم ہے اس کے بعد اس ترتیب سے نام ہیں۔ (فتح القدیر) الحجر
45 1- جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لئے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لئے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہوگی۔ الحجر
46 1- سلامتی ہر قسم کی آفات سے اور امن ہر قسم کے خوف سے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو یا فرشتے اہل جنت کو سلامتی کی دعا دیں گے۔ یا اللہ کی طرف سے ان کی سلامتی اور امن کا اعلان ہوگا۔ الحجر
47 1- دنیا میں ان کے درمیان جو آپس میں حسد اور بغض وعداوت کے جذبات رہے ہوں گے، وہ ان کے سینوں سے نکال دیئے جائیں گے اور ایک دوسرے کے بارے میں ان کے آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہوں گے۔ الحجر
48 الحجر
49 الحجر
50 الحجر
51 الحجر
52 1- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو ان فرشتوں سے ڈر اس لئے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا تیار کردہ بھنا ہوا بچھڑا نہیں کھایا، جیسا کہ سورہ ھود میں تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کے جلیل القدر پیغمبر کو بھی غیب کا علم نہیں ہوتا، اگر پیغمبر عالم الغیب ہوتے تو حضرت ابراہیم (عليہ السلام) سمجھ جاتے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرشتے انسانوں کی طرح کھانے پینے کے محتاج نہیں ہیں۔ الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 1- کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں وہ ہر بات پر قادر ہے، کوئی بات اس کے لئے ناممکن نہیں۔ الحجر
56 1- یعنی اولاد کے ہونے پر میں تعجب اور حیرت کا اظہار کر رہا ہوں تو صرف اپنے بڑھاپے کی وجہ سے کر رہا ہوں یہ بات نہیں ہے کہ میں اپنے رب کی رحمت سے نا امید ہوں۔ رب کی رحمت سے نا امید تو گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں۔ الحجر
57 1- حضرت ابرہیم (عليہ السلام) نے ان فرشتوں کی گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ یہ صرف اولاد کی بشارت دینے ہی نہیں آئے ہیں بلکہ ان کی آمد کا اصل مقصد کوئی اور ہے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا۔ الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 الحجر
62 1- یہ فرشتے حسین نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اور حضرت لوط (عليہ السلام) کے لئے بالکل انجان تھے، اس لئے انہوں نے ان سے اجنبیت اور بیگانگی کا اظہار کیا۔ الحجر
63 1- یعنی عذاب الٰہی، جس میں تیری قوم کو شک ہے کہ وہ آ بھی سکتا ہے؟ الحجر
64 1- اس صریح حق سے عذاب مراد ہے جس کے لئے وہ بھیجے گئے تھے، اس لئے انہوں نے کہا ہم ہیں بھی بالکل سچے۔ یعنی عذاب کی جو بات ہم کر رہے ہیں۔ اس میں سچے ہیں۔ اب اس قوم کی تباہی کا وقت بالکل قریب آ پہنچا ہے۔ الحجر
65 1- تاکہ کوئی مومن پیچھے نہ رہے، تو ان کو آگے کرتا رہے۔ الحجر
66 1- یعنی لوط (عليہ السلام) کو وحی کے ذریعے سے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا کہ صبح ہونے تک ان لوگوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی، یا دَابِرَ سے مراد وہ آخری آدمی ہے جو باقی رہ جائے گا، فرمایا، وہ بھی صبح ہونے تک ہلاک کر دیا جائے گا۔ الحجر
67 1- ادھر تو حضرت لوط (عليہ السلام) کے گھر میں قوم کی ہلاکت کا یہ فیصلہ ہو رہا تھا۔ ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط (عليہ السلام) کے گھر میں خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں تو اپنی امرد پرستی کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور خوشی خوشی حضرت لوط (عليہ السلام) کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کو ان کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ ان سے بے حیائی کا ارتکاب کر کے اپنی تسکین کر سکیں۔ الحجر
68 1- حضرت لوط (عليہ السلام) نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مہمان ہیں انہیں میں کس طرح تمہارے سپرد کر سکتا ہوں، اس میں میری رسوائی ہے۔ الحجر
69 الحجر
70 1- انہوں نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اے لوط! تو ان اجنبیوں کا کیا لگتا ہے؟ اور کیوں ان کی حمایت کرتا ہے؟ کیا ہم نے تجھے منع نہیں کیا ہے کہ اجنبیوں کی حمایت نہ کیا کر، یا ان کو اپنا مہمان نہ بنایا کر! یہ ساری گفتگو اس وقت ہوئی جب کہ حضرت لوط (عليہ السلام) کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ اجنبی مہمان اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور وہ اسی ناہنجار قوم کو تباہ کرنے کے لئے آئے ہیں جو ان فرشتوں کے ساتھ بد فعلی کے لئے مصر تھی، جیسا کہ سورہ ھود میں یہ تفصیل گزر چکی ہے۔ یہاں ان کے فرشتے ہونے کا ذکر پہلے آ گیا ہے۔ الحجر
71 1- یعنی ان سے تم نکاح کر لو یا پھر اپنی قوم کی عورتوں کو اپنی بیٹیاں کہا، تم عورتوں سے نکاح کر لو یا جن کے حبالہ عقد میں عورتیں ہیں، وہ ان سے اپنی خواہش پوری کریں۔ الحجر
72 1- اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) سے خطاب فرما کر، ان کی زندگی کی قسم کھا رہا ہے، جس سے آپ کا شرف وفضل واضح ہے۔ تاہم کسی اور کے لئے اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی تو حاکم مطلق ہے، وہ جس کی چاہے قسم کھائے، اس سے کون پوچھنے والا ہے؟ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جس طرح شراب کے نشے میں دھت انسان کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے، اسی طرح یہ اپنی بد مستی اور گمراہی میں اتنے سرگرداں تھے کہ حضرت لوط (عليہ السلام) کی اتنی معقول بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ پائی۔ الحجر
73 1- ایک چنگھاڑ نے، جب کہ سورج طلوع ہو چکا تھا، ان کا خاتمہ کر دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ زوردار آواز حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کی تھی۔ الحجر
74 1- کہا جاتا ہے کہ ان کی بستیوں کو زمین سے اٹھا کر اوپر آسمان پر لے جایا گیا اور وہاں سے ان کو الٹا کر کے زمین پر پھینک دیا گیا۔ یوں اوپر والا حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر کر کے تہ و بالا کر دیا گیا، اور کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد محض اس بستی کا چھتوں سمیت زمین بوس ہو جانا ہے۔ 2- اس کے بعد کنکر قسم کے مخصوص پتھر برسائے گئے۔ اس طرح گویا تین قسم کے عذابوں سے انہیں دوچار کر کے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ الحجر
75 1- گہری نظر سے جائزہ لینے اور غور وفکر کرنے والوں کو مُتَوَسِّمِیْنَ کہا جاتا ہے۔ مُتَوَسِّمِیْنَ کے لئے اس واقعے میں عبرت کے پہلو اور نشانیاں ہیں۔ الحجر
76 1- مراد شاہراہ ہے، یعنی قوم لوط کی بستیاں مدینے سے شام کو جاتے ہوئے راستے میں پڑتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے کو انہی بستیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں یہ پانچ بستیاں تھیں، سَدُومُ (یہ مرکزی بستی تھی)، صَعْبَةُ, صَعوةُ، عَثْرَةُ اور دُومَا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل (عليہ السلام) نے اپنے بازو پر انہیں اٹھایا اور آسمان پر چڑھ گئے حتٰی کہ آسمان والوں نے ان کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں اور پھر ان کو زمین پر دے مارا (ابن کثیر) مگر اس بات کی کوئی سند نہیں۔ الحجر
77 الحجر
78 1- ”أَيْكَةُ“ گھنے درخت کو کہتے ہیں۔ اس بستی میں گھنے درخت ہونگے۔ اس لئے انہیں ”اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ“ (بن یا جنگل والے) کہا گیا۔ مراد اس سے قوم شعیب ہے اور ان کا زمانہ حضرت لوط (عليہ السلام) کے بعد ہے اور ان کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان قوم لوط کی بستیوں کے قریب ہی تھا۔ اسے مدین کہا جاتا ہے جو حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا اور اسی کے نام پر بستی کا نام پڑ گیا تھا۔ ان کا ظلم یہ تھا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے تھے، رہزنی ان کا شیوہ اور کم تولنا اور کم ناپنا ان کا وطیرہ تھا، ان پر جب عذاب آیا ایک بادل ان پر سایہ فگن ہو گیا پھر چنگھاڑ اور بھو نچال نے مل کر ان کو ہلاک کر دیا۔ الحجر
79 1- إِمَامٍ مُبِينٍ کے معنی بھی شاہراہ عام کے ہیں، جہاں سے شب و روز لوگ گزرتے ہیں۔ دونوں شہر سے مراد قوم لوط کا شہر اور قوم شعیب کا مسکن۔ مدین۔ مراد ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہی تھے۔ الحجر
80 1- حِجر حضرت صالح (عليہ السلام) کی قوم ثمود کی بستیوں کا نام تھا۔ انہیں ”اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ“ (حجر والے) کہا گیا ہے۔ یہ بستی مدینہ اور تبوک کے درمیان تھی۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح (عليہ السلام) کو جھٹلایا۔ لیکن یہاں اللہ تعالٰی نے فرمایا ”انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا“، یہ اس لئے کہ ایک پیغمبر کی تکذیب ایسے ہی ہے جیسے سارے پیغمبروں کی تکذیب۔ الحجر
81 1- ان نشانیوں میں وہ اونٹنی بھی تھی جو ان کے کہنے پر ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر کی گئی تھی، لیکن ظالموں نے اسے قتل کر ڈالا۔ الحجر
82 1- یعنی بغیر کسی خوف کے پہاڑ تراش لیا کرتے تھے۔ 9 ہجری میں تبوک جاتے ہوئے جب رسول اللہ (ﷺ) اس بستی سے گزرے تو آپ (ﷺ) نے سر پر کپڑا لپیٹ لیا اور اپنی سواری کو تیز کر لیا اور صحابہ سے فرمایا کہ روتے ہوئے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس بستی سے گزرو (ابن کثیر) صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ نمبر 433، مسلم نمبر 2285۔ الحجر
83 1- حضرت صالح (عليہ السلام) نے انہیں کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا، چنانچہ چوتھے روز ان پر یہ عذاب آ گیا۔ الحجر
84 الحجر
85 1- حق سے مراد وہ فوائد و مصالح ہیں جو آسمان و زمین کی پیدائش سے مقصود ہیں۔ یا حق سے مراد محسن (نیکوکار) کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی برائی کا بدلہ دینا ہے۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ”اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے تاکہ بروں کو ان کی برائیوں کا اور نیکوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دے“۔ (النجم: 31) الحجر
86 الحجر
87 1- سَبْعُ مَثَانِي سے مراد کیا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ یہ سات آیتیں ہیں اور جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں (مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے کیئے گئے ہیں) حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الحجر) ایک اور حدیث میں فرمایا [ أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ ] سورہ فاتحہ قرآن کا ایک جزء ہے اس لیے قرآن عظیم کا ذکر بھی ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ الحجر
88 1- یعنی ہم نے سورت فاتحہ اور قرآن عظیم جیسی نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں، اس لئے دنیا اور اس کی زینتیں اور ان مختلف قسم کے اہل دنیا کی طرف نہ نظر دوڑائیں جن کو دنیا فانی کی عارضی چیزیں ہم نے دی ہیں اور وہ جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں، اس پر غم نہ کھائیں اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں، یعنی ان کے لئے نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں۔ اس محاورہ کی اصل یہ ہے کہ جب پرندہ اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کو اپنے بازوؤں یعنی پروں میں لے لیتا ہے۔ یوں یہ ترکیب نرمی، پیار و محبت کا رویہ اپنانے کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔ الحجر
89 الحجر
90 1- بعض مفسرین کے نزدیک أَنْزَلْنَا کا مفعول الْعَذَابَ محذوف ہے۔ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں کھل کر ڈرانے والا ہوں عذاب سے، مثل اس عذاب کے، جو مُقْتَسِمِينَ پر نازل ہوا، مُقْتَسِمِينَ کون ہیں؟ جنہوں نے کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے قریش کی قوم مراد ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تقسیم کر دیا، اس کے بعض حصے کو شعر، بعض کو سحر (جادو) بعض کو کہانت اور بعض کو اساطیرالأولین (پہلوں کی کہانیاں) قرار دیا، بعض کہتے ہیں کہ مُقْتَسِمِينَ سے اہل کتاب اور قرآن سے مراد تورات و انجیل ہیں۔ انہوں نے ان آسمانی کتابوں کو متفرق اجزاء میں بانٹ دیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت صالح (عليہ السلام) کی قوم ہے جنہوں نے آپس میں قسم کھائی تھی کہ صالح (عليہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو رات کے اندھیرے میں قتل کر دیں گے ﴿تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ﴾ (النمل: 49) اور آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ”عِضِينَ“ کے ایک معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ اس کی بعض باتوں پر ایمان رکھنا اور بعض کے ساتھ کفر کرنا۔ الحجر
91 الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 1- اصْدَعْ کے معنی ہیں کھول کر بیان کرنا، اس آیت کے نزول سے قبل آپ (ﷺ) چھپ کر تبلیغ فرماتے تھے، اس کے بعد آپ نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی۔ (فتح القدیر) الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 الحجر
99 1- مشرکین آپ کو ساحر، مجنون، کاہن وغیرہ کہتے جس سے بشری جبلت کی وجہ سے آپ کبیدہ خاطر ہوتے، اللہ تعالٰی نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ حمد وثنا کریں، نماز پڑھیں اور اپنے رب کی عبادت کریں، اس سے آپ کو قلبی سکون بھی ملے گا اور اللہ کی مدد بھی حاصل ہوگی، سجدے سے یہاں نماز اور یقین سے مراد موت ہے۔ الحجر
0 النحل
1 1- اس سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ قیامت قریب آ گئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے، پس جلدی نہ مچاؤ، یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے۔ اسے مستقبل کے بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا، کیونکہ اس کا وقوع یقینی ہے۔ النحل
2 1- رُوحٌ سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ﴾ (الشوری:52) ”اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے، اور ایمان کیاہے“۔ 2- مراد انبیاء علیہم السلام ہیں جن پر وحی نازل ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الأنعام:124) ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے“۔ ﴿يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلاقِ﴾ (المؤمن:15) ”وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے (قیامت کے) دن سے لوگوں کو ڈرائے“۔ النحل
3 1- یعنی محض تماشے اور کھیل کود کے طور پر نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد پیش نظر ہے اور وہ ہے جزا و سزا، جیسا کہ ابھی تفصیل گزری ہے۔ النحل
4 1- یعنی ایک جامد چیز سے جو ایک جاندار کے اندر سے نکلتی ہے۔ جسے منی کہا جاتا ہے۔ اسے مختلف اطوار سے گزار کر ایک مکمل صورت دی جاتی ہے، پھر اس میں اللہ تعالٰی روح پھونکتا ہے اور ماں کے پیٹ سے نکال کر اس دنیا میں لاتا ہے جس میں وہ زندگی گزارتا ہے لیکن جب اسے شعور آتا ہے تو اسی رب کے معاملے میں جھگڑتا، اس کا انکار کرتا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔ النحل
5 1- اسی احسان کے ساتھ دوسرے احسان کا ذکر فرمایا کہ چوپائے (اونٹ، گائے اور بکریاں) بھی اسی نے پیدا کئے، جن کے بالوں اور اون سے تم گرم کپڑے تیار کر کے گرمی حاصل کرتے ہو۔ اسی طرح ان سے دیگر منافع حاصل کرتے ہو، مثلاً ان سے دودھ حاصل کرتے ہو، ان پر سواری کرتے ہو اور سامان لادتے ہو، ان کے ذریعے ہل چلاتے اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ النحل
6 1- تُرِيحُون جب شام کو چرا کر گھر لاؤ، تَسْرَحُونَ جب صبح چرانے کے لئے لے جاؤ، ان دونوں وقتوں میں یہ لوگوں کی نظروں میں آتے ہیں، جس سے تمہارے حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان دونوں اوقات کے علاوہ وہ نظروں سے اوجھل رہتے یا باڑوں میں بند رہتے ہیں۔ النحل
7 النحل
8 1- یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے تاہم زینت کا بھی باعث ہیں، گھوڑے خچر، اور گدھوں کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچر۔ علاوہ ازیں کھانے والے چوپاؤں کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ اس لئے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے، یہ صرف رکوب (سواری) کے لئے ہے۔ لیکن یہ استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ صحیح احادیث سے گھوڑے کی حلت ثابت ہے۔ حضرت جابر (رضی الله عنہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے گھوڑوں کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔ [ أَذِنَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ ] (صحيح بخاری، كتاب الذبائح، باب لحوم الخيل، ومسلم كتاب الصيد، باب في أكل لحوم الخيل) علاوہ ازیں صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے نبی (ﷺ) کی موجودگی میں خیبر اور مدینہ میں گھوڑا ذبح کرکے اس کا گوشت پکایا اور کھایا۔ آپ (ﷺ) نے منع نہیں فرمایا (ملاحظہ ہو صحيح مسلم، باب مذكور ومسند أحمد، ج 3 ص 356، أبو داود كتاب الأطعمة، باب في أكل لحوم الخيل) اسی لئے جمہور علماء اور سلف و خلف کی اکثریت گھوڑے کی حلت کی قائل ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)۔ یہاں گھوڑے کا ذکر محض سواری کے ضمن میں اس لئے کیا گیا ہے کہ اس کا غالب ترین استعمال اسی مقصد کے لئے ہے، وہ ساری دنیا میں ہمیشہ اتنا گراں اور قیمتی ہوا کرتا ہے کہ خوراک کے طور پر اس کا استعمال بہت ہی نادر ہے۔ بھیڑ بکری کی طرح اس کو خوراک کے لئے ذبح نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کو بلا دلیل حرام ٹھہرادیا جائے۔ 2- زمین کے زیریں حصے میں، اسی طرح سمندر میں، اور بے آب وگیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالٰی مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی میں انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آ جاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوئے دماغ اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردہ چیزوں کو مختلف انداز میں جوڑ کر تیار کرتا ہے، مثلاً بس، کار، ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بیشمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں۔ النحل
9 1- اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ”اور اللہ ہی پر ہے سیدھی راہ“ یعنی اس کا بیان کرنا۔ چنانچہ اس نے اسے بیان فرما دیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کر دیا، اسی لئے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیڑھی ہیں یعنی گمراہی کی ہیں۔ 2- لیکن اس میں چوں کہ جبر ہوتا اور انسان کی آزمائش نہیں ہوتی، اس لئے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا، بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے، انسان کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے۔ النحل
10 النحل
11 1- اس میں بارش کے وہ فوائد بیان کئے گئے ہیں، جو ہر مشاہدے اور تجربے کا حصہ ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ نیز ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ النحل
12 1- کس طرح رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، چاند اور سورج کس طرح اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور ان میں کبھی فرق واقع نہیں ہوتا، ستارے کس طرح آسمان کی زینت اور رات کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لئے دلیل راہ ہیں۔ یہ سب اللہ تعالٰی کی قدرت کاملہ اور سلطنت عظیمہ پر دلالت کرتے ہیں۔ النحل
13 1- یعنی زمین میں اللہ نے جو معدنیات، نباتات، جمادات اور حیوانات اور ان کے منافع اور خواص پیدا کئے ہیں، ان میں بھی نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ النحل
14 1- اس میں سمندری تلاطم خیز موجوں کو انسان کے تابع کر دینے کے بیان کے ساتھ، اس کے تین فوائد بھی ذکر کئے ہیں۔ ایک یہ کہ تم اس سے مچھلی کی شکل میں تازہ گوشت کھاتے ہو (مچھلی مردہ بھی ہو تب بھی حلال ہے)۔ علاوہ ازیں حالت احرام میں بھی اس کو شکار کرنا حلال ہے۔ دوسرا، اس سے تم موتی، سیپیاں اور جواہر نکالتے ہو، جن سے تم زیور بناتے ہو۔ تیسرا، اس میں تم کشتیاں اور جہاز چلاتے ہو، جن کے ذریعے سے تم ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہو، تجارتی سامان بھی لاتے ہو، لے جاتے ہو، جس سے تمہیں اللہ کا فضل حاصل ہوتا ہے جس پر تمہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ النحل
15 1- یہ پہاڑوں کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے اور اللہ کا ایک احسان عظیم بھی ہے، کیونکہ اگر زمین ہلتی رہتی تو اس میں سکونت ممکن ہی نہ رہتی۔ اس کا اندازہ ان زلزلوں سے کیا جا سکتا ہے جو چند سکینڈوں اور لمحوں کے لئے آتے ہیں، لیکن کس طرح بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو پیوند زمین اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ 2- نہروں کا سلسلہ بھی عجیب ہے، کہاں سے وہ شروع ہوتی ہیں اور کہاں کہاں، دائیں بائیں، شمال، جنوب، مشرق و مغرب ہر جہت کو سیراب کرتی ہیں۔ اس طرح راستے بنائے، جن کے ذریعے تم منزل مقصود پر پہنچتے ہو۔ النحل
16 النحل
17 1- ان تمام نعمتوں سے توحید کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ اللہ تو ان چیزوں کا خالق ہے، لیکن اس کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو، انہوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے؟ نہیں، بلکہ وہ تو خود اللہ کی مخلوق ہیں۔ پھر بھلا خالق اور مخلوق کس طرح برابر ہو سکتے ہیں؟ جبکہ تم انہیں معبود بنا کر اللہ کا برابر ٹھہرا رکھا ہے۔ کیا تم ذرا نہیں سوچتے؟ النحل
18 النحل
19 1- اور اس کے مطابق وہ قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔ نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی سزا۔ النحل
20 1- اس میں ایک چیز کا اضافہ ہے یعنی صفت کمال ”خالقیت“ کی نفی کے ساتھ نقصان یعنی کمی ”عدم خالقیت“ کا اثبات (فتح القدیر) النحل
21 1- مردہ سے مراد، وہ جماد (پتھر) بھی ہیں جو بے جان اور بے شعور ہیں۔ اور فوت شدہ صالحین بھی ہیں۔ کیونکہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا (جس کا انہیں شعور نہیں) وہ تو جماد کی بجائے صالحین ہی پر صادق آ سکتا ہے۔ ان کو صرف مردہ ہی نہیں کہا بلکہ مزید وضاحت فرما دی کہ ”وہ زندہ نہیں ہیں“ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ موت وارد ہونے کے بعد، دنیاوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی نہ دنیا سے کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے۔ 2- پھر ان سے نفع کی اور ثواب وجزا کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ النحل
22 1- یعنی ایک الٰہ کا ماننا منکرین اور مشرکین کے لئے بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں ﴿أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ (ص:5) ”اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود کر دیا ہے یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے“، دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ ( الزمر:45) ”جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکرین آخرت کے دل تنگ ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کا ذکر آ جاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں“۔ النحل
23 1- اسْتِكْبَارٌ کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے صحیح اور حق بات کا انکار کر دینا اور دوسروں کو حقیر وکمتر سمجھنا۔ کبر کی یہی تعریف حدیث میں بیان کی گئی ـ(صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب تحريم الكبر وبيانه) یہ کبر وغرور اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ حدیث میں ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہوگا“۔ (حوالۂ مذکور) النحل
24 1- یعنی اعراض اور استہزا کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مکذبین جواب دیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے تو کچھ بھی نہیں اتارا، اور محمد (ﷺ) ہمیں جو پڑھ کر سناتا ہے، وہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو کہیں سے سن کر بیان کرتا ہے۔ النحل
25 1- یعنی ان کی زبانوں سے یہ بات اللہ تعالٰی نے نکلوائی تاکہ وہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا ”جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا، تو اس شخص کو ان تمام لوگوں کا اجر ملے گا جو اس کی دعوت پر ہدایت کا راستہ اپنائیں گے اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا تو اس کو تمام لوگوں کے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا جو اس کی دعوت پر گمراہ ہوئے“۔ (أبو داود، كتاب السنة، باب لزوم السنة) النحل
26 1- بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود یا بخت نصر ہے، جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا، لیکن وہ ناکام واپس آئے اور بعض مفسرین کا خیال میں یہ ایک کہانی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر وشرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہونگے جس طرح کسی کے مکان کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں اور وہ چھت سمیت گر پڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد وقوم لوط وغیرہ۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا﴾ (الحشر:2)۔ 2- ”پس اللہ (کا عذاب) ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم وگمان بھی نہ تھا“۔ النحل
27 1- یعنی یہ تو وہ عذاب تھا جو دنیا میں ان پر آئے اور قیامت والے دن اللہ تعالٰی انہیں اس طرح ذلیل ورسوا کرے گا کہ ان سے پوچھے گا تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جو تم نے میرے لئے ٹھہرا رکھے تھے، اور جن کی وجہ سے تم مومنوں سے لڑتے جھگڑتے تھے۔ 2- یعنی جن کو دین کا علم نہیں تھا وہ دین کے پابند تھے وہ جواب دیں گے۔ النحل
28 1- یہ مشرک ظالموں کی موت کے وقت کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات ڈالتے ہیں یعنی سمع وطاعت اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو برائی نہیں کرتے تھے۔ جس طرح میدان محشر میں اللہ کے روبرو بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے ﴿وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ﴾ (الأنعام:23) ”اللہ کی قسم، ہم مشرک نہیں تھے“۔ دوسرے مقام پر فرمایا ”جس دن اللہ تعالٰی ان سب کو اٹھا کر اپنے پاس جمع کرے گا تو اللہ کے سامنے بھی یہ اسی طرح (جھوٹی) قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں“۔ (المجادلہ: 18) 2- فرشتے جواب دیں گے کیوں نہیں؟ یعنی تم جھوٹ بولتے ہو، تمہاری تو ساری عمر ہی برائیوں میں گزری ہے اور اللہ کے پاس تمہارے اعمال کا ریکارڈ محفوظ ہے تمہارے اس انکار سے اب کیا بنے گا۔ النحل
29 1- امام ابن کثیر فرماتے ہیں: ان کی موت کے فوراً بعد ان کی روحیں جہنم میں چلی جاتی ہیں اور ان کے جسم قبر میں رہتے ہیں (جہاں اللہ تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے جسم و روح میں بعد کے باوجود، ان میں ایک گونہ تعلق پیدا کر کے ان کو عذاب دیتا ہے، (اور صبح شام ان پر آگ پیش کی جاتی ہے) پھر جب قیامت برپا ہوگی تو ان کی روحیں ان کے جسموں میں لوٹ آئیں گی اور ہمیشہ کے لئے یہ جہنم میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ النحل
30 النحل
31 النحل
32 1- ان آیات میں ظالم مشرکوں کے مقابلے میں اہل ایمان و تقویٰ کا کردار اور ان کا حسن انجام بیان فرمایا ہے۔ جَعَلَنَا اللهُ مْنهُمْ آمِينَ يَا رَبَّ العَالَمِينَ 2- سورہ اعراف کی آیت 43 کے تحت یہ حدیث گزر چکی ہے کہ کوئی شخص بھی محض اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، جب تک اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنے عملوں کے بدلے جنت میں داخل ہو جاؤ، تو ان میں دراصل کوئی منافات نہیں۔ کیونکہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں، اس کے بغیر آخرت میں اللہ کی رحمت مل ہی نہیں سکتی۔ اس لئے حدیث مذکورہ کا مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے اور عمل کی اہمیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس لیے ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے: [ إِنَّ اللهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُم ] (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم ظلم المسلم)۔ النحل
33 1- یعنی کیا یہ بھی اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے یا رب کا حکم (یعنی عذاب یا قیامت) آجائے۔ 2- یعنی اس طرح سرکشی اور معصیت، ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کئے رکھی، جس پر وہ غضب الٰہی کے مستحق بنے۔ 3- اس لئے کہ اللہ نے تو ان کے لئے کوئی عذر ہی باقی نہیں چھوڑا۔ رسولوں کو بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کرا ن پر حجت تمام کردی۔ 4- یعنی رسولوں کی مخالفت اور ان کی تکذیب کرکے خود ہی انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ النحل
34 1- یعنی جب رسول ان سے کہتے کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ کا عذاب آ جائے گا۔ تو یہ استہزا کے طور پر کہتے کہ جا اپنے اللہ سے کہہ وہ عذاب بھیج کر ہمیں تباہ کر دے۔ چنانچہ اس عذاب نے انہیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے، پھر اس سے بچاؤ کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں رہا۔ النحل
35 1- اس آیت میں اللہ تعالٰی نے مشرکین کے ایک وہم اور مغالطے کا ازالہ فرمایا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں یا اس کے حکم کے بغیر ہی کچھ چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں، اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے ہمیں ان چیزوں سے روک کیوں نہیں دیتا، وہ اگر چاہے تو ہم ان کاموں کو کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ نہیں روکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مشیت کے مطابق ہے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے اس شبہے کا ازالہ ”رسولوں کا کام صرف پہنچا دینا ہے“ کہہ کر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اس سے روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے تو تمہیں ان مشرکانہ امور سے بڑی سختی سے روکا ہے۔ اسی لئے وہ ہر قوم میں رسول بھیجتا اور کتابیں نازل کرتا رہا ہے اور ہر نبی نے آ کر سب سے پہلے اپنی قوم کو شرک ہی سے بچانے کی کوشش کی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ شرک کریں کیونکہ اگر اسے یہ پسند ہوتا تو اس کی تردید کے لئے وہ رسول کیوں بھیجتا؟ لیکن اس کے باوجود اگر تم نے رسولوں کی تکذیب کر کے شرک کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے اپنی مشیت تکوینیہ کے تحت قہراً وجبراً تمہیں اس سے نہیں روکا، تو یہ اس کی حکمت ومصلحت کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت اس نے انسانوں کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی آزمائش ممکن ہی نہ تھی۔ ہمارے رسول ہمارا پیغام تم تک پہنچا کر یہی سمجھاتے رہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرو بلکہ اللہ کی رضا کے مطابق اسے استعمال کرو۔ ہمارے رسول یہی کچھ کر سکتے تھے، جو انہوں نے کیا اور تم نے شرک کر کے آزادی کا غلط استعمال کیا جس کی سزا دائمی عذاب ہے۔ النحل
36 1- مذکورہ شبہے کے ازالے کے لئے مزید فرمایا کہ ہم نے تو ہر امت میں رسول بھیجا اور یہ پیغام ان کے ذریعے سے پہنچایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ لیکن جن پر گمراہی ثابت ہو چکی تھی، انہوں نے اس کی پرواہ ہی نہ کی۔ النحل
37 1- اس میں اللہ تعالٰی فرما رہا ہے۔ اے پیغمبر! تیری خواہش یقیناً یہی ہے کہ یہ سب ہدایت کا راستہ اپنا لیں لیکن قوانین الہیہ کے تحت جو گمراہ ہوگئے ہیں، ان کو ہدایت کے راستے پر نہیں چلا سکتا، یہ تو اپنے آخری انجام کو پہنچ کر ہی رہیں گے، جہاں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ النحل
38 1- کیونکہ مٹی میں مل جانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھنا، انہیں مشکل اور ناممکن نظر آتا تھا۔ اسی لئے رسول جب انہیں بعث بعد الموت کی بابت کہتا تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس یعنی دوبارہ زندہ نہ ہونے پر قسمیں کھاتے ہیں، قسمیں بھی بڑی تاکید اور یقین کے ساتھ۔ 2- اس جہالت اور بےعلمی کی وجہ سے رسولوں کی تکذیب ومخالفت کرتے ہوئے دریائے کفر میں ڈوب جاتے ہیں۔ النحل
39 1- یہ وقوع قیامت کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ اس دن اللہ تعالٰی ان چیزوں میں فیصلہ فرمائے گا جن میں لوگ دنیا میں اختلاف کرتے تھے اور اہل حق اور اہل تقویٰ کو اچھی جزا اور اہل کفر و فسق کو ان کے برے عملوں کی سزا دے گا۔ نیز اس دن اہل کفر پر بھی یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قیامت کے عدم وقوع پر جو قسمیں کھاتے تھے ان میں وہ جھوٹے تھے۔ النحل
40 1- یعنی لوگوں کے نزدیک قیامت کا ہونا، کتنا بھی مشکل یا ناممکن ہو، مگر اللہ کے لئے تو کوئی مشکل نہیں اسے زمین اور آسمان ڈھانے کے لئے مزدوروں، انجینئروں اور مستریوں اور دیگر آلات ووسائل کی ضرورت نہیں۔ اسے تو صرف ”کُنْ“ کہنا ہے اس کے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ ﴿وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ﴾ (النحل:77) ”قیامت کا معاملہ پلک جھپکتے یا اس سے بھی کم مدت میں واقع ہو جائے گا“۔ النحل
41 1- ہجرت کا مطلب ہے اللہ کے دین کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا وطن، اپنے رشتہ دار اور دوست احباب چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جانا جہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہو سکے۔ اس آیت میں ان ہی مہاجرین کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کی ایذاؤں سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد عورتوں سمیت ایک سو یا اس سے زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان غنی (رضی الله عنہ) اور ان کی زوجہ، دختر رسول (ﷺ) حضرت رقیہ (رضی الله عنہا) بھی تھیں۔ 2- اس سے رزق طیب اور بعض نے مدینہ مراد لیا ہے، جو مسلمانوں کا مرکز بنا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں قولوں میں منافات نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن لوگوں نے اپنے کاروبار اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تھی، اللہ تعالٰی نے دنیا میں ہی انہیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ رزق طیب بھی دیا اور پورے عرب پر انہیں اقتدار وتمکن عطا فرمایا۔ 3- حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے جب مہاجرین و انصار کے وظیفے مقرر کئے تو ہر مہاجر کو وظیفہ دیتے ہوئے فرمایا۔ [ هَذَا مَا وَعَدَكَ اللهُ فِي الدُّنْيَا ] ”یہ وہ ہے جس کا اللہ نے دنیا میں وعدہ کیا ہے“۔ [ وَمَا ادَّخَرَ لَكَ فِي الآخِرَةِ أَفْضَلُ ] ”اور آخرت میں تیرے لیے جو ذخیرہ ہے وہ اس سے کہییں بہتر ہے“۔ (ابن کثیر) النحل
42 النحل
43 1- أَهْلُ الذِّكْرِ سے مراد اہل کتاب ہیں جو پچھلے انبیاء اور ان کی تاریخ سے واقف تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے، وہ انسان ہی تھے اس لئے محمد رسول اللہ (ﷺ) بھی اگر انسان ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں کہ تم ان کی بشریت کی وجہ سے ان کی رسالت کا انکار کر دو۔ اگر تمہیں شک ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء بشر تھے یا ملائکہ؟ اگر وہ فرشتے تھے تو پھر بیشک انکار کر دینا، اگر وہ بھی انسان ہی تھے تو پھر محمد رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت کا محض بشریت کی وجہ سے انکار کیوں؟ النحل
44 النحل
45 النحل
46 1- اس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں، مثلًا، (1)۔ جب تم تجارت اور کاروبار کے لئے سفر پر جاؤ، (2)۔ جب تم کاروبار کو فروغ دینے کے لئے مختلف حیلے اور طریقے اختیار کرو، (3)۔ یا رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے بستروں پر جاؤ۔ یہ تَقَلُّب کے مختلف مفہوم ہیں۔ اللہ تعالٰی جب چاہے ان صورتوں میں بھی تمہارا مواخذہ کر سکتا ہے۔ النحل
47 1- تَخَوُّفٍ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے سے ہی دل میں عذاب اور مواخذے کا ڈر ہو۔ جس طرح بعض دفعہ انسان کسی بڑے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، تو خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں اللہ میری گرفت نہ کر لے چنانچہ بعض دفعہ اس طرح مؤاخذہ ہوتا ہے۔ 2- کہ وہ گناہوں پر فوراً مواخذہ نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور اس مہلت سے بہت سے لوگوں کو توبہ واستغفار کی توفیق بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ النحل
48 1- اللہ تعالٰی کی عظمت وکبریائی اور اس کی جلالت شان کا بیان ہے کہ ہرچیز اس کے سامنے جھکی ہوئی اور مطیع ہے۔ جمادات ہوں یا حیوانات یا جن وانسان اور ملائکہ۔ ہر وہ چیز جس کا سایہ ہے اور اس کا سایہ دائیں بائیں جھکتا ہے تو وہ صبح وشام اپنے سائے کے ساتھ اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ امام مجاہد فرماتے ہیں جب سورج ڈھلتا ہے تو ہرچیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ النحل
49 النحل
50 1- اللہ کے خوف سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ 2- اللہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے بلکہ جس کا حکم دیا جاتا ہے، بجا لاتے ہیں، جس سے منع کیا جاتا ہے، اس سے دور رہتے ہیں۔ النحل
51 1- کیونکہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق ہے ہی نہیں۔ اگر آسمان وزمین میں دو معبود ہوتے تو نظام عالم قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا یہ فساد اور خرابی کا شکار ہو چکا ہوتا۔ ﴿لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلا اللَّهُ لَفَسَدَتَا﴾ (الأنبياء:22) اس لئے ثنویت (دو خداؤں) کا عقیدہ، جس کے مجوسی حامل رہے ہیں یا تعدد الٰہ (بہت سارے معبودوں) کا عقیدہ، جس کے اکثر مشرکین قائل رہے ہیں۔ یہ سب باطل ہیں۔ جب کائنات کا خالق ایک ہے اور وہی بلا شرکت غیر تمام کائنات کا نظم ونسق چلا رہا ہے تو معبود بھی صرف وہی ہے جو اکیلا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ نہیں ہیں۔ النحل
52 1- اسی کی عبادت و اطاعت دائمی اور لازم ہے۔ وَاصِبٌ کے معنی ہمیشگی کے ہیں ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ﴾ (الصافات:9) ”ان کے لئے عذاب ہے ہمیشہ کا“، اور اس کا وہی مطلب ہے جو دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ﴿فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ، أَلا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: 2۔3) ”پس اللہ کی عبادت کرو، اسی کے لئے بندگی کو خالص کرتے ہوئے، خبردار! اسی کے لئے خالص بندگی ہے“۔ النحل
53 1- جب سب نعمتوں کا دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو پھر عبادت کسی اور کی کیوں؟ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ قلب ووجدان کی گہرائیوں میں راسخ ہے جو اس وقت ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جب ہر طرف سے مایوسی کے بادل گہرے ہو جاتے ہیں۔ النحل
54 النحل
55 1- لیکن انسان بھی کتنا ناشکرا ہے کہ تکلیف (بیماری، تنگ دستی اور نقصان وغیرہ) کے دور ہوتے ہی وہ پھر رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ 2- یہ اس طرح ہی ہے جیسے اس سے قبل فرمایا تھا، ﴿قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِيْرَكُمْ اِلَى النَّارِ﴾ (ابراہیم:30) ”چند روزہ زندگی میں فائدہ اٹھالو! بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے“۔ النحل
56 1- یعنی جن کو یہ حاجت روا، مشکل کشا اور معبود سمجھتے ہیں، وہ پتھر کی مورتیاں ہیں یا جنات وشیاطین ہیں، جن کی حقیقت کا ان کو علم ہی نہیں۔ اسی طرح قبروں میں مدفون لوگوں کی حقیقت بھی کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ وہاں کیا معاملہ ہو رہا ہے؟ وہ اللہ کے پسندیدہ افراد میں ہیں یا کسی دوسری فہرست میں؟ ان باتوں کو کوئی نہیں جانتا لیکن ان ظالم لوگوں نے ان کی حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باوجود، انہیں اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے ان کے لیے بھی (نذر ونیاز کے طور پر) حصہ مقرر کرتے ہیں بلکہ اللہ کا حصہ رہ جائے تو بیشک رہ جائے ان کے حصے میں کمی نہیں کرتے جیسا کہ سورۃ الانعام:136 میں بیان کیا گیا ہے۔ 2- تم جو اللہ پر افترا کرتے ہو کہ اس کا شریک یا شرکا ہیں، اس کی بابت قیامت والے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ النحل
57 1- عرب کے بعض قبیلے (خزاعہ اور کنانہ) فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یعنی ایک ظلم تو یہ کیا کہ اللہ کی اولاد قرار دی۔ جب کہ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ پھر اولاد بھی مونث، جسے وہ اپنے لئے پسند ہی نہیں کرتے اللہ کے لئے اسے پسند کیا، جسے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى، تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى﴾ (النجم: 21۔22) ”کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے“۔ یہاں فرمایا کہ تم تو یہ خواہش رکھتے ہو کہ بیٹے ہوں، بیٹی کوئی نہ ہو۔ النحل
58 النحل
59 1- یعنی لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر ان کا تو یہ حال ہوتا ہے جو مذکور ہوا، اور اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ کیسا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالٰی بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکی کو حقیر اور کم تر سمجھتا ہے، نہیں اللہ کے نزدیک لڑکے اور لڑکی میں کوئی تمیز نہیں ہے، نہ جنس کی نبیاد پر حقارت اور برتری کا تصور اس کے ہاں ہے۔ یہاں تو صرف عربوں کی اس نا انصافی اور سراسر غیر معقول رویے کی وضاحت مقصود ہے، جو انہوں نے اللہ کے ساتھ اختیار کیا تھا، درآں حالیکہ اللہ کی برتری اور فوقیت کے وہ بھی قائل تھے۔ جس کا منطقی نتیجہ تو یہ تھا کہ جو چیز یہ اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اللہ کے لیے بھی اسے تجویز نہ کرتے لیکن انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ یہاں صرف اسی نا انصافی کی وضاحت کی گئی ہے۔ النحل
60 1- یعنی کافروں کے برے اعمال بیان کئے گئے ہیں انہیں کے لئے بری مثال یا صفت ہے یعنی جہل اور کفر کی صفت یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی جو بیوی اور اولاد یہ ٹھہراتے ہیں، یہ بری مثال ہے جو یہ منکرین آخرت اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں۔ 2- یعنی اس کی ہر صفت، مخلوق کے مقابلے میں اعلٰی و برتر ہے، مثلاً اس کا علم و سیع ہے، اس کی قدرت لا متناہی ہے، اس کی جود و عطا بے نظیر ہے۔ و علی ہذا القیاس یا یہ مطلب ہے کہ وہ قادر ہے، خالق ہے۔ رازق ہے اور سمیع و بصیر ہے وغیرہ (فتح القدیر) یا بری مثال کا مطلب نقص کوتاہی ہے اور مثل اعلی کا مطلب کمال مطلق ہر لحاظ سے اللہ کے لیے ہے۔ (ابن کثیر) النحل
61 1- یہ اس کا حلم ہے اور اس کی حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مواخذہ ہی کرتا ہے حالانکہ اگر ارتکاب معصیت کے ساتھ ہی وہ مواخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم اور معصیت اور کفر اور شرک اتنا عام ہے کہ روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہو جائے تو پھر عذابِ عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کر دیئے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ عند اللہ سرخرو رہیں گے جیسا کہ حدیث میں وضاحت آتی ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری، حدیث نمبر 2118، ومسلم، حدیث نمبر2206، 2210)۔ 2- یہ اس کی حکمت کا بیان ہے جس کے تحت وہ ایک خاص وقت تک مہلت دیتا ہے تاکہ ایک تو ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ دوسرا، ان کی اولاد میں سے کچھ ایماندار نکل آئیں۔ النحل
62 1- یعنی بیٹیاں، یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔ 2- یہ ان کی دوسری خرابی کا بیان ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ کرتے ہیں ان کی زبانیں یہ جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کا انجام اچھا ہے، ان کے لئے بھلائیاں ہیں اور دنیا کی طرح ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔ 3- یعنی یقیناً ان کا انجام ”اچھا“ ہے اور وہ ہے جہنم کی آگ، جس میں وہ دوزخیوں کے پیش رو یعنی پہلے جانے والے ہوں گے۔ فَرَط کے یہی معنی حدیث سے بھی ثابت ہیں۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا [ اَ نَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ] (صحيح بخاری، نمبر 6584 ومسلم، نمبر1793) ”میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا“ ایک دوسرے معنی مُفرَطُوْنَ کے یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں جہنم میں ڈال کر فراموش کر دیا جائے گا۔ النحل
63 1- جس کی وجہ سے انہوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی جس طرح اے پیغمبر! قریش مکہ تیری تکذیب کر رہے ہیں۔ 2- اَلْیَوْمَ سے یا تو زمانہ دنیا مراد ہے، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، یا اس سے مراد آخرت ہے کہ وہاں بھی یہ ان کا ساتھی ہوگا۔ یا وَلِيُّهُمُ میں ”ھم“ کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ یعنی یہی شیطان جس نے پچھلی امتوں کو گمراہ کیا، آج وہ ان کفار مکہ کا دوست ہے اور انہیں تکذیب رسالت پر مجبور کر رہا ہے۔ النحل
64 1- اس میں نبی (ﷺ) کا یہ منصب بیان کیا گیا کہ عقائد واحکام شرعیہ کے سلسلے میں یہود ونصاری کے درمیان اور اسی طرح مجوسیوں اور مشرکین کے درمیان اور دیگر اہل مذاہب کے درمیان جو باہم اختلاف ہے، اس کی اس طرح تفصیل بیان فرمائیں کہ حق اور باطل واضح ہو جائے تاکہ لوگ حق کو اختیار اور باطل سے پرہیز کریں۔ النحل
65 النحل
66 1- اَنْعَام (چوپائے) سے اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ، دنبہ) مراد ہوتے ہیں۔ 2- یہ چوپائے جو کچھ کھاتے ہیں، معدے میں جاتا ہے، اسی خوراک سے دودھ، خون، گوبر اور پیشاب بنتا ہے، خون رگوں میں اور دودھ تھنوں میں اسی طرح گوبر اور پیشاب اپنے اپنے مخرج میں منتقل ہو جاتا ہے اور دودھ میں نہ خون کی رنگت شامل ہوتی ہے اور نہ گوبر پیشاب کی بدبو۔ سفید اور شفاف دودھ باہر آتا ہے جو نہایت آسانی سے حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔ النحل
67 1- یہ آیت اس وقت اتری تھی جب شراب حرام نہیں تھی، اس لئے حلال چیزوں کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس میں سَكَرًا کے بعد رِزْقًا حَسَنًاہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شراب رزق حسن نہیں ہے۔ نیز یہ سورت مکی ہے۔ جس میں شراب کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ پھر مدنی سورتوں میں بتدریج اس کی حرمت نازل ہو گئی۔ النحل
68 1- وَحَیٌ سے مراد الہام اور وہ سمجھ بوجھ ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنی طبعی ضروریات کی تکمیل کے لئے حیوانات کو بھی عطا کی ہے۔ النحل
69 1- شہد کی مکھی پہلے پہاڑوں میں، درختوں میں، انسانی عمارتوں کی بلندیوں پر اپنا مسدس خانہ اور چھتہ اس طرح بناتی ہے کہ درمیان میں کوئی شگاف نہیں رہتا۔ پھر وہ باغوں، جنگلوں، وادیوں اور پہاڑوں میں گھومتی پھرتی ہے اور ہر قسم کے پھلوں کا جوس اپنے پیٹ میں جمع کرتی ہے اور پھر انہیں راہوں سے، جہاں جہاں سے وہ گزرتی ہے، واپس لوٹتی ہے اور اپنے چھتے میں آ کر بیٹھ جاتی ہے، جہاں اس کے منہ یا دبر سے وہ شہد نکلتا ہے جسے قرآن نے ”شَرَابٌ“ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی مشروب روح افزا۔ 2- کوئی سرخ، کوئی سفید، کوئی نیلا اور کوئی زرد رنگ کا، جس قسم کے پھلوں اور کھیتوں سے وہ خوراک حاصل کرتی ہے، اسی حساب سے اس کا رنگ اور ذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ 3- شِفَاء میں تنکیر تعظیم کے لئے ہے۔ یعنی بہت سے امراض کے لئے شہد میں شفا ہے۔ یہ نہیں کہ مطلقًا ہر بیماری کا علاج ہے۔ علمائے طب نے تشریح کی ہے کہ شہد یقیناً ایک شفا بخش قدرتی مشروب ہے۔ لیکن مخصوص بیماریوں کے لئے نہ کہ ہر بیماری کے لئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) کو حلوا (میٹھی چیز) اور شہد پسند تھا۔ (صحيح بخاری، كتاب الأشربة، باب شراب الحلواء والعسل)، ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”تین چیزوں میں شفا ہے، فصد کھلوانے (پچھنے لگانے) میں, شہد کے پینے میں, اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے منع کرتا ہوں“۔ (بخاری، باب الدواء بالعسل ) حدیث میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ اسہال (دست) کے مرض میں آپ (ﷺ) نے شہد پلانے کا مشورہ دیا، جس سے دستوں میں اضافہ ہوگیا، آکر بتلایا گیا، تو دوبارہ آپ (ﷺ) نے شہد پلانے کا مشورہ دیا، جس سے مزید فضلات خارج ہوئے اور گھر والے سمجھے کہ شاید مرض میں اضافہ ہوگیا ہے پھر نبی (ﷺ) کے پاس آئے آپ (ﷺ) نے تیسری مرتبہ فرمایا ”اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے“، جا اور اسے شہد پلا چنانچہ تیسری مرتبہ میں اسے شفائے کاملہ حاصل ہو گئی۔ (بخاری، باب دواء المبطون ومسلم، كتاب السلام، باب التداوي بسقي العسل) النحل
70 1- جب انسان طبعی عمر سے تجاوز کر جاتا ہے تو پھر اس کا حافظہ بھی کمزور ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ عقل بھی ماؤف، اور وہ نادان بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ یہی طویل عمر ہے جس سے نبی (ﷺ) نے بھی پناہ مانگی ہے۔ النحل
71 1- یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اتنا مال اور اسباب دنیا نہیں دیتے کہ تمہارے برابر ہو جائیں تو اللہ تعالٰی کب یہ پسند کرے گا کہ تم کچھ لوگوں کو، جو اللہ ہی کے بندے اور غلام ہیں اللہ کا شریک اور اس کے برابر قرار دے دو، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معاشی لحاظ سے انسانوں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے فطری نظام کے مطابق ہے۔ اسے جبری قوانین کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ اشتراکی نظام میں ہے۔ یعنی معاشی مساوات کی غیر فطری کوشش کی بجائے ہر کسی کو معاشی میدان میں کسب معاش کے لئے مساوی طور پر دوڑ دھوپ کے مواقع میسر ہونے چاہیں۔ 2- کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے غیر اللہ کے لیے نذر نیاز نکالتے ہیں اور یوں کفران نعمت کرتے ہیں۔ النحل
72 1- یعنی اللہ تعالٰی اپنے انعامات کا تذکرہ کر کے جو آیت میں مذکور ہیں، سوال کر رہا ہے کہ سب کچھ دینے والا تو اللہ ہے، لیکن یہ اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں اور دوسروں کا ہی کہنا مانتے ہیں۔ النحل
73 النحل
74 1- یعنی اللہ کو چھوڑ کر عبادت بھی ایسے لوگوں کی کرتے ہیں جن کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں۔ 2- جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر وناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات وضروریات سے آگاہ ہو جائے جب کہ اللہ تعالٰی تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہرچیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالٰی کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ؟ النحل
75 1- بعض کہتے ہیں کہ یہ غلام اور آزاد کی مثال ہے کہ پہلا شخص غلام اور دوسرا آزاد ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے بعض کہتے ہیں کہ یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔ پہلا کافر اور دوسرا مومن ہے۔ یہ برابر نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی اور اصنام (معبودانِ باطلہ) کی مثال ہے، پہلے سے مراد اصنام اور دوسرے سے اللہ ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے مطلب یہی ہے کہ ایک غلام اور آزاد، باوجود اس بات کے کہ دونوں انسان ہیں، دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور بھی بہت سی چیزیں دونوں کے درمیان مشترکہ ہیں، اس کے باوجود رتبہ اور شرف اور فضل ومنزلت میں تم دونوں کو برابر نہیں سمجھتے تو اللہ تعالٰی اور پتھر کی ایک مورتی یا قبر کی ڈھیری، یہ دونوں کس طرح برابر ہو سکتے ہیں؟ النحل
76 1- یہ ایک اور مثال ہے جو پہلے سے زیادہ واضح ہے۔ 2- اور ہر کام کرنے پر قادر ہے کیونکہ ہر بات بولتا اور سمجھتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ یعنی دین قویم اور سیرت صالحہ پر۔ یعنی افراط تفریط سے پاک۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں، اسی طرح اللہ تعالٰی اور وہ چیزیں، جن کو لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، برابر نہیں ہو سکتے۔ النحل
77 1- یعنی آسمان اور زمین میں جو چیزیں غائب ہیں اور وہ بیشمار ہیں اور انہی میں قیامت کا علم ہے۔ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لئے عبادت کے لائق بھی صرف ایک اللہ ہے نہ کہ وہ پتھر کے بت جن کو کسی چیز کا علم نہیں نہ وہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہیں۔ 2- یعنی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ وسیع وعریض کائنات اس کے حکم سے پلک جھپکنے میں بلکہ اس سے بھی کم لمحے میں تباہ برباد ہو جائے گی۔ یہ بات بطور مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت واقعہ ہے کیونکہ اس کی قدرت غیر متناہی ہے۔ جس کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے، اس کے ایک لفظ ”کُنْ“ سے سب کچھ ہو جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ تو یہ قیامت بھی اس کے کُنْ (ہو جا) کہنے سے برپا ہو جائے گی۔ النحل
78 1- ”شَیْئًا“ نکرہ ہے، تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بد بختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔ 2- تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کر سکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ 3- یعنی یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالی نے اس لئے عطا کی ہیں کہ انسان ان اعزا وجوارح کو اس طرح استعمال کرے جس سے اللہ تعالی راضی ہو جائے۔ ان سے اللہ کی عبادت واطاعت کرے۔ یہی اللہ کی ان نعمتوں کا عملی شکر ہے۔ حدیث میں آتا ہے ’’میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں۔ علاوہ ازیں نوافل کے ذریعے سے بھی وہ میرا زیادہ قرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے‘ حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں‘ تو میں اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور مجھ سے کسی چیز سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع) اس حدیث کا بعض لوگ غلط مفہوم لے کر اولیاء اللہ کو خدائی اختیارات کا حامل باور کراتے ہیں، حالانکہ حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اپنی اطاعت وعبادت اللہ کے لئے خالص کر لیتا ہے تو اسکا ہر کام صرف اللہ کی رضا کے لئے ہوتا ہے، اپنے کانوں سے وہی بات سنتا اور اپنی آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جسکی اللہ نے اجازت دی ہے، جس چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے یا پیروں سے چل کر اسکی طرف جاتا ہے تو وہ وہی چیز ہوتی ہے جسکو شریعت نے روا رکھا ہے۔ وہ انکو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ صرف اطاعت میں استعمال کرتا ہے۔ النحل
79 1- یہ اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے پرندوں کو اس طرح اڑنے کی اور ہواؤں کو انہیں اپنے دوش پر اٹھائے رکھنے کی طاقت بخشی۔ النحل
80 1- یعنی چمڑے کے خیمے، جنہیں تم سفر میں آسانی کے ساتھ اٹھائے پھرتے ہو، اور جہاں ضرورت پڑتی ہے اسے تان کر موسم کی شدتوں سے اپنے کو محفوط کر لیتے ہو۔ 2- ”أَصْوَاف“ صُوْف کی جمع۔ بھیڑ کی اون اَوْبَار، وَبَر، کی جمع، اونٹ کے بال، اَشْعَار، شَعَر، کی جمع، دنبے اور بکری کے بال۔ ان سے کئی قسم کی چیزیں تیار ہوتی ہیں، جن سے انسان کو مال بھی حاصل ہوتا ہے اور ان سے ایک وقت تک فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ النحل
81 1- یعنی درخت جن سے سایہ حاصل کیا جاتا ہے۔ 2- یعنی اون اور روئی کے کرتے جو عام پہننے میں آتے ہیں اور لوہے کی زرہیں اور خود جو جنگوں میں پہنی جاتی ہیں۔ النحل
82 النحل
83 1- یعنی اس بات کو جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ساری نعمتیں پیدا کرنے والا اور ان کو استعمال میں لانے کی صلاحیتیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالٰی ہے، پھر بھی اللہ کا انکار کرتے ہیں اور اکثر ناشکری کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ النحل
84 1- یعنی ہر امت پر اس امت کا پیغمبر گواہی دے گا کہ انہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی ان کافروں کو عذر پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اس لئے کہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر یا حجت ہوگی ہی نہیں۔ نہ ان سے رجوع یا عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی ضرورت بھی اس وقت پیش آتی ہے جب کسی کو گنجائش دینا مقصود ہو، لا يُسْتَعْتَبُونَ کےایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں اپنے رب کو راضی کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ وہ موقع تو دنیا میں دیا جا چکا ہے جو دارالعمل ہے۔ آخرت تو دارالعمل نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، وہاں تو اس چیز کا بدلہ ملے گا جو انسان دنیا سے کر کے گیا ہو گا، وہاں کچھ کرنے کا موقع کسی کو نہیں ملے گا۔ النحل
85 1- ہلکا نہ کرنے کا مطلب، درمیان میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا، عذاب اور مسلسل بلا توقف عذاب ہوگا۔ اور نہ ڈھیل ہی دیئے جائیں گے یعنی، ان کو فوراً لگاموں سے پکڑ کر اور زنجیروں میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا یا توبہ کا موقع نہیں دیا جائے گا، کیونکہ آخرت عمل کی جگہ نہیں، جزا کا مقام ہے۔ النحل
86 1- معبودان باطلہ کی پوجا کرنے والے اپنے اس دعوے میں جھوٹے تو نہیں ہوں گے۔ لیکن وہ شرکا جن کو یہ اللہ کا شریک گردانتے تھے، کہیں گے یہ جھوٹے ہیں۔ یہ یا تو شرکت کی نفی ہے ہمیں اللہ کا شریک ٹھہرانے میں یہ جھوٹے ہیں، بھلا اللہ کا شریک کوئی ہو سکتا ہے؟ یا اسلئے جھوٹا قرار دیں گے کہ وہ ان کی عبادت سے بالکل بےخبر تھے، جس طرح قرآن کریم نے متعدد جگہ اس بات کو بیان فرمایا ہے۔ ﴿فَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ﴾ (سورة يونس:29) ”ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ بطور گواہ کافی ہے کہ ہم اس بات سے بےخبر تھے کہ تم ہماری عبادت کرتے تھے“۔ (مزید دیکھیے سورۃ الاحقاف 6-5، سورۃ مریم:82-81، سورۃ العنکبوت:25، سورۃ الکہف:52)۔ وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ ایک یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کرنے کے لیے کبھی نہیں کہا تھا اس لیے تم ہی جھوٹے ہو۔ یہ شرکا اگر حجر وشجر ہوں گے تو اللہ تعالٰی انہیں قوت گویائی عطا فرمائے گا۔ جنات وشیاطین ہوں گے تو کوئی اشکال ہی نہیں ہے اور اگر اللہ کے نیک بندے ہوں گے جس طرح کہ متعدد صلحاء واتقیاء اور اولیاء اللہ کو لوگ مدد کے لیے پکارتے ہیں ان کے نام کی نذر نیاز دیتے ہیں اور ان کی قبروں پر جا کر ان کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح کسی معبود کی خوف ورجا کے جذبات کے ساتھ کی جاتی ہے۔ تو اللہ تعالٰی ان کو میدان محشر میں ہی بری فرما دے گا اور ان کی عبادت کرنے والوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) سے اللہ تعالٰی کا سوال اور ان کا جواب سورہ مائدہ کے آخر میں مذکور ہے۔ النحل
87 النحل
88 1- جس طرح جنت میں اہل ایمان کے درجات مختلف ہوں گے، اسی طرح جہنم میں کفار کے عذاب میں فرق ہوگا جو گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ہونگے، ان کا عذاب دوسروں کی نسبت شدید تر ہوگا۔ النحل
89 1- یعنی ہر نبی اپنی امت پر گواہی دے گا اور نبی اور آپ کی امت کے لوگ انبیاء کی بابت گواہی دیں گے کہ یہ سچے ہیں، انہوں نے یقیناً تیرا پیغام پہنچا دیا تھا (صحيح بخاری، تفسير سورة النساء) 2- کتاب سے مراد اللہ کی کتاب اور نبی کی تشریحات (احادیث) ہیں۔ اپنی احادیث کو بھی اللہ کے رسول نے " کتاب اللہ " قرار دیا ہے۔ جیسا کہ قصہ عسیف وغیرہ میں ہے (ملاحظہ ہو صحيح بخاری ، كتاب المحاربين باب هل يأمر الإمام رجلا فيضرب الحد غائبا عنه ، كتاب الصلاة باب ذكر البيع والشراء على المنبر في المسجد)اور ہرچیز کا مطلب ہے، ماضی اور مستقبل کی خبریں جن کا علم ضروری اور مفید ہے، اسی طرح حرام وحلال کی تفصیلات اور وہ باتیں جن کے دین ودنیا اور معاش ومعاد کے معاملات میں انسان محتاج ہیں۔ قرآن وحدیث دونوں میں یہ سب چیزیں واضح کر دی گئی ہیں۔ النحل
90 1- عدل کے مشہور معنی انصاف کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے، کسی کے ساتھ دشمنی یا عناد یا محبت یا قرابت کی وجہ سے، انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ کیونکہ دین میں زیادتی کا نتیجہ حد سے زیادہ گزر جانا ہے، جو سخت خراب ہے اور کمی، دین میں کوتاہی ہے یہ بھی ناپسندیدہ ہے۔ احسان کے ایک معنی حسن سلوک، عفو ودرگزر اور معاف کر دینے کے ہیں۔ دوسرے معنی تفضل کے ہیں یعنی حق واجب سے زیادہ دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا۔ مثلا کسی کام کی مزدوری سو روپے طے ہے لیکن دیتے وقت 10،20 روپے زیادہ دے دینا، طے شدہ سو روپے کی ادائیگی حق واجب ہے اور یہ عدل ہے۔ مزید 10،20 روپے یہ احسان ہے۔ عدل سے بھی معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے لیکن احسان سے مزید خوش گواری اور اپنائیت وفدائیت کے جذبات نشو ونما پاتے ہیں۔ اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کا اہتمام، عمل واجب سے زیادہ عمل جس سے اللہ کا قرب خصوصی حاصل ہوتا ہے۔ احسان کے ایک تیسرے معنی اخلاص عمل اور حسن عبادت ہے، جس کو حدیث میں [ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ] ”اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ”إِيَتَاءِ ذِي الْقُرْبَى“ (رشتے داروں کا حق ادا کرنا یعنی ان کی امداد کرنا ہے) اسے حدیث میں صلہ رحمی کہا گیا ہے اور اس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ عدل واحسان کے بعد اس کا الگ سے ذکر یہ بھی صلہ رحمی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔ ”فحشاء“ سے مراد بے حیائی کے کام ہیں۔ آج کل بےحیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا نام تہذیب ترقی اور آرٹ قرار پا گیا ہے۔ یا ”تفریح“ کے نام پر اس کا جواز تسلیم کر لیا گیا ہے۔ تاہم محض خوشنما لیبل لگا لینے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی اسی طرح شریعت اسلامیہ نے زنا اور اس کے مقدمات کو رقص وسرود بےپردگی اور فیشن پرستی کو اور مرد و زن کے بےباکانہ اختلاط اور مخلوط معاشرت اور دیگر اس قسم کی خرافات کو بے حیائی قرار دیا ہے، ان کا کتنا بھی اچھا نام رکھ لیا جائے مغرب سے درآمد شدہ یہ خباثتیں جائز قرار نہیں پا سکتیں۔ ”مُنْكَرٌ“ ہر وہ کام ہے جسے شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے اور ”بَغْيٌ“ کا مطلب ظلم وزیادتی کا ارتکاب۔ ایک حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ قطع رحمی اور بغی یہ دونوں جرم اللہ کو اتنے ناپسند ہیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے (آخرت کے علاوہ) دنیا میں بھی ان کی فوری سزا کا امکان غالب رہتا ہے۔ (ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب البغی) النحل
91 1- قَسَم ایک تو وہ ہے جو کسی عہد وپیمان کے وقت، اسے مزید پختہ کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو انسان اپنے طور پر کسی وقت کھا لیتا ہے کہ میں فلاں کام کروں گا یا نہیں کروں گا۔ یہاں آیت میں اول الذکر قسم مراد ہے کہ تم نے قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے۔ اب اسے نہیں توڑنا بلکہ عہد وپیمان کو پورا کرنا ہے جس پر تم نے قسم کھائی ہے۔ کیونکہ ثانی الذکر قسم کی بابت تو حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ: ”کوئی شخص کسی کام کی بابت قسم کھا لے، پھر وہ دیکھے کہ زیادہ خیر دوسری چیز میں ہے (یعنی قسم کے خلاف کرنے میں ہے) تو بہتری والے کام کو اختیار کرے اور قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے“۔ (صحیح مسلم۔ نمبر1272) نبی (ﷺ) کا عمل بھی یہی تھا۔ (صحیح بخاری نمبر 6623، مسلم نمبر 1269) النحل
92 1- یعنی مؤکد بہ حلف عہد کو توڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ تمثیل ہے۔ 2- یعنی دھوکہ اور فریب دینے کا ذریعہ بناؤ۔ 3- أربیٰ کے معنی اکثر کے ہیں، یعنی جب تم دیکھو کہ اب تم زیادہ ہوگئے ہو تو اپنے گمان سے حلف توڑ دو، جب کہ قسم اور معاہدے کے وقت وہ گروہ کمزور تھا، لیکن کمزوری کے باوجود وہ مطمئن تھا کہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن تم عذر اور نقص عہد کر کے نقصان پہنچاؤ۔ زمانہء جاہلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہد شکنی عام تھی، مسلمانوں کو اس اخلاقی پستی سے روکا گیا ہے۔ النحل
93 النحل
94 1- مسلمانوں کو دوبارہ مذکورہ عہد شکنی سے روکا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری اس اخلاقی پستی سے کسی کے قدم ڈگمگا جائیں اور کافر تمہارا یہ رویہ دیکھ کر قبول اسلام سے رک جائیں اور یوں تم لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے مجرم اور سزا کے مستحق بن جاؤ۔ بعض مفسرین نے أَيْمَانٌ يَمِينٌ (بمعنی قسم) کی جمع سے رسول اللہ (ﷺ) کی بیعت مراد لی ہے۔ یعنی نبی کی بیعت توڑ کر پھر مرتد نہ ہو جانا، تمہارے ارتداد کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسلام قبول کرنے سے رک جائیں گے اور یوں تم دگنے عذاب کے مستحق قرار پاؤ گے۔ (فتح القدیر) النحل
95 النحل
96 النحل
97 1- حیات طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے، اس لئے آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک مومن باکردار کو صالحانہ اور متقیانہ زندگی گزارنے اور اللہ کی عبادت واطاعت اور زہد وقناعت میں جو لذت وحلاوت محسوس ہوتی ہے، وہ ایک کافر اور نافرمان کو دنیا بھر کی آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود میسر نہیں آتی، بلکہ وہ ایک گونہ قلق و اضطراب کا شکار رہتا ہے۔ ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا﴾ (طه:124) ”جس نے میری یاد سے اعراض کیا اس کا گزران تنگی والا ہوگا“۔ النحل
98 1- خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) سے ہے لیکن مخاطب ساری امت ہے۔ یعنی تلاوت کے آغاز میں أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيِطَانِ الرَّجِيمِ پڑھا جائے۔ النحل
99 النحل
100 النحل
101 1- یعنی ایک حکم منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم نازل کرتے ہیں، جس کی حکمت ومصلحت اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے اور اس کے مطابق وہ احکام میں رد وبدل فرماتا ہے، تو کافر کہتے ہیں کہ یہ کلام اے محمد! (ﷺ) تیرا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی تو اس طرح نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ان کے اکثر لوگ بےعلم ہیں، اس لئے یہ نسخ کی حکمتیں اور مصلحتیں کیا جانیں۔ (مزید وضاحت کیلیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت 106 کا حاشیہ) النحل
102 1- یعنی یہ قرآن محمد کا اپنا گھڑا ہوا نہیں بلکہ اسے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) جیسے پاکیزہ ہستی نے سچائی کے ساتھ رب کی طرف سے اتارا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے،﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ، عَلَى قَلْبِكَ﴾ (الشعراء :193 ،194) ”اسے الروح الامین (جبرائیل علیہ السلام) نے تیرے دل پر اتارا ہے“۔ 2- اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ منسوخ کرنے والا اور منسوخ دونوں رب کی طرف سے ہیں۔ علاوہ ازیں منسوخی کی مصلحتیں بھی جب ان کے سامنے آتی ہیں تو ان کے اندر مزید ثبات قدمی اور ایمان میں رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ 3- اور یہ قرآن مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا ذریعہ ہے، کیونکہ قرآن بھی بارش کی طرح ہے، جس سے بعض زمینیں خوب شاداب ہوتی ہیں اور بعض میں کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ مومن کا دل صاف اور شفاف ہے جو قرآن کی برکت سے اور ایمان کے نور سے منور ہو جاتا ہے اور کافر کا دل زمین شور کی طرح ہے جو کفر وضلالت کی تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں قرآن کی ضیا پاشیاں بھی بے اثر رہتی ہیں۔ النحل
103 1- بعض غلام تھے جو تورات وانجیل سے واقف تھے، پہلے وہ عیسائی یا یہودی تھے، پھر مسلمان ہوگئے ان کی زبان بھی غیر فصیح تھی۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فلاں غلام، محمد کو قرآن سکھاتا ہے۔ 2- اللہ تعالٰی نے جواب میں فرمایا کہ یہ جس آدمی، یا آدمیوں کا نام لیتے ہیں وہ تو عربی زبان بھی روانی کے ساتھ نہیں بول سکتے، جب کہ قرآن تو ایسی صاف عربی زبان میں ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجاز بیان میں بےنظیر ہے اور چلینج کے باوجود اس کی مثل ایک سورت بھی بنا کر پیش نہیں کی جا سکتی، دنیا بھر کے فصحا وبلغا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ عرب اس شخص کو عجمی (گونگا) کہتے تھے جو فصیح وبلیغ زبان بولنے سے قاصر ہوتا تھا اور غیر عربی کو بھی عجمی کہا جاتا ہے کہ عجمی زبانیں بھی فصاحت وبلاغت میں عربی زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ النحل
104 النحل
105 1- اور ہمارا پیغمبر تو ایمانداروں کا سردار اور ان کا قائد ہے، وہ کس طرح اللہ پر افترا باندھ سکتا ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے اس پر نازل نہ ہوئی ہو، اور وہ یونہی کہہ دے کہ یہ کتاب مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اس لئے جھوٹا ہمارا پیغمبر نہیں، یہ خود جھوٹے ہیں جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے منکر ہیں۔ النحل
106 1- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ جان بچانے کے لئے قولاً یا فعلاً کفر کا ارتکاب کر لے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو وہ کافر نہیں ہوگا، نہ اس کی بیوی اس سے جدا ہوگی اور نہ اس پر دیگر احکام کفر لاگو ہونگیں۔ قَالَهُ الْقُرْطُبِي (فتح القدیر) 2- یہ مرتد ہونے کی سزا ہے کہ وہ غضب الٰہی اور عذاب عظیم کے مستحق ہوں گے اور اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورۂ بقرہ، آیت 217 اور آیت 256 کا حاشیہ)۔ النحل
107 1- یہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے (مرتد ہو جانے) کی علت ہے کہ انہیں ایک تو دنیا محبوب ہے۔ دوسرا اللہ کے ہاں یہ ہدایت کے قابل ہی نہیں ہیں۔ النحل
108 1- پس یہ وعظ ونصیحت کی باتیں سنتے ہیں نہ انہیں سمجھتے ہیں اور نہ وہ نشانیاں ہی دیکھتے ہیں جو انہیں حق کی طرف لے جانے والی ہیں۔ بلکہ یہ ایسی غفلت میں مبتلا ہیں جس نے ہدایت کے راستے ان کے لئے مسدود کر دیئے ہیں۔ النحل
109 النحل
110 1- یہ مکے کے ان مسلمانوں کا تذکرہ ہے جو کمزور تھے اور قبول اسلام کی وجہ سے کفار کے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے۔ بالآخر انہیں ہجرت کا حکم دیا گیا تو اپنے خویش و اقارب، وطن مالوف اور مال جائداد سب کچھ چھوڑ کر حبشہ یا مدینہ چلے گئے، پھر جب کفار کے ساتھ معرکہ آرائی کا مرحلہ آیا تو مردانہ وار لڑے اور جہاد میں بھرپور حصہ لیا اور پھر اس کی راہ کی شدتوں اور الم ناکیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ ان تمام باتوں کے بعد یقیناً تیرا رب ان کے لئے غفور ورحیم ہے یعنی رب کی مغفرت ورحمت کے حصول کے لئے ایمان اور اعمال صالح کی ضرورت ہے، جیسا کہ مذکورہ مہاجرین نے ایمان وعمل کا عمدہ نمونہ پیش کیا تو رب کی رحمت ومغفرت سے وہ شاد کام ہوئے۔ رضی الله عنہم وَرَضُوا عَنْهُ۔ النحل
111 1- یعنی کوئی اور کسی حمایت میں آگے نہیں آئے گا نہ باپ، نہ بھائی، نہ بیٹا نہ بیوی نہ کوئی اور۔ بلکہ ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔ بھائی بھائی سے، بیٹے ماں باپ سے، خاوند بیوی سے بھاگے گا۔ ہر شخص کو صرف اپنی فکر ہوگی جو اسے دوسرے سے بے پروا کر دے گی۔ ﴿لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ﴾ (عبس:37) ”ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسا مشغلہ ہوگا جو اسے مشغول رکھنے کیلیے کافی ہوگا“۔ 2- یعنی نیکی کے ثواب میں کمی کر دی جائے اور برائی کے بدلے میں زیادتی کر دی جائے۔ ایسا نہیں ہوگا کسی پر ادنیٰ سا ظلم بھی نہیں ہوگا۔ برائی کا اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا کسی برائی کا ہوگا۔ البتہ نیکی کی جزا اللہ تعالٰی خوب بڑھا چڑھا کر دے گا اور یہ اس کے فضل وکرم کا مظاہرہ ہوگا جو قیامت والے دن اہل ایمان کے لئے ہوگا۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ۔ النحل
112 1- اکثر مفسرین نے اس قریہ (بستی) سے مراد مکہ لیا ہے۔ یعنی اس میں مکہ اور اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب اللہ کے رسول نے ان کے لئے بد دعا فرمائی۔ [ اللَّهُمْ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ ] (بخاری نمبر 4821 ۔ مسلم نمبر2156) ”اے اللہ مضر (قبیلے) پر اپنی سخت گرفت فرما اور ان پر اس طرح قحط سالی مسلط کر دے، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ہوئی“ چنانچہ اللہ تعالٰی نے مکے کے امن کو خوف سے اور خوشحالی کو بھوک سے بدل دیا۔ حتیٰ کہ ان کا یہ حال ہو گیا کہ ہڈیاں اور درختوں کے پتے کھا کر انہیں گزارہ کرنا پڑا۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ غیر معین بستی ہے اور تمثیل کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے۔ کہ کفران نعمت کرنے والے لوگوں کا یہ حال ہوگا، وہ جہاں بھی ہوں اور جب بھی ہوں۔ اس کے اس عموم سے جمہور مفسرین کو بھی انکار نہیں ہے، گو نزول کا سبب ان کے نزدیک خاص ہے۔ الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ النحل
113 1- اس عذاب سے مراد وہی عذاب خوف وبھوک ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے، یا اس سے مراد کافروں کا وہ قتل ہے جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ النحل
114 النحل
115 1- اس کا مطلب یہ ہوا کہ حلال وطیب چیزوں سے تجاوز کر کے حرام اور خبیث چیزوں کا استعمال اور اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ 2- یہ آیت اس سے قبل تین مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہے۔ (البقرۃ:173)۔ (المائدہ:3)۔ (الانعام:145) میں۔ یہ چوتھا مقام ہے۔ جہاں اللہ نے اسے پھر بیان فرمایا ہے۔ اس میں لفظ إِنَّمَا حصر کے لئے ہے۔ لیکن یہ حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے۔ یعنی مخاطبین کے عقیدے اور خیال کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ ورنہ دوسرے جانور اور درندے وغیرہ بھی حرام ہیں، البتہ ان آیات سے یہ واضح ہے کہ ان میں جن چار محرکات کا ذکر ہے، اللہ تعالٰی ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔ اس کی ضروری تشریح گزشتہ مقامات پر کی جا چکی ہے، تاہم اس میں ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾ (جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے) جو چوتھی قسم ہے۔ اس کے مفہوم میں تاویلات رکیکہ اور توجیہات بعیدہ سے کام لے کر کر شرک کے لئے چور دروازہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی مزید وضاحت پیش خدمت ہے۔ جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کر دیا جائے اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ذبح کیا جائے اور ذبح کرتے وقت نام بھی اسی بت یا بزرگ کا لیا جائے بزعم خویش جس کو راضی کرنا مقصود ہے دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جس طرح کہ قبر پرستوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔ وہ جانوروں کو بزرگوں کیلیے نامزد تو کرتے ہیں مثلا یہ بکرا فلاں پیر کا ہے یہ گائے فلاں پیر کی ہے، یہ جانور گیارہویں کے لیے یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور ان کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقیناً حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا ہے اور یوں شرک کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ حالانکہ فقہاء نے اس دوسری صورت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾ میں داخل ہے چنانچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے ”ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے، اس لیے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ کوئی مسلمان اگر غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیح مرتد کا ذبیحہ ہوگا“ اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار میں ہے کہ ”کسی حاکم اور کسی طرح کسی بڑے کی آمد پر(حسن خلق یا شرع ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضامندی اور اس کی تعظیم کے طور پر) جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا اس لیے کہ وہ ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾ میں داخل ہے اگرچہ اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے“۔(کتاب الذبائح طبع قدیم 1277ھ ص277۔ فتاویٰ شامی ج 5 ، ص 203، مطبع میمنیہ، مصر) البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾ کا مدلول اور اس میں داخل نہیں سمجھتے اور اشتراک علت (تقرب لغیر اللہ) کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں۔ گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں صرف استدلال و احتجاج کے طریقے میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ دوسری صورت ﴿وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ﴾ (جو بتوں کے پاس یا تھانوں پر ذبح کیے جائیں) بھی داخل ہے، جسے سورۃ المائدہ میں محرمات میں ذکر کیا گیا ہے اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آستانوں درباروں اور تھانوں پر ذبح کیے گئے جانور بھی حرام ہیں اس لیے کہ وہاں ذبح کرنے کا یا وہاں لے جا کر تقسیم کرنے کا مقصد تَقَرُّبٌ لِغَيْرِ اللهِ ہی ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے آ کر رسول اللہ (ﷺ) سے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ جگہ میں اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ (ﷺ) نے پوچھا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی؟ لوگوں نے بتلایا نہیں پھر آپ (ﷺ) نے پوچھا کہ وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں منائی جاتی تھی؟ لوگوں نے اس کی بھی نفی کی، تو آپ (ﷺ) نے سائل کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔ ( ابو داود، كتاب الإيمان والنذور باب ما يؤمر به من وفاء النذر) اس سے معلوم ہوا کہ بتوں کے ہٹائے جانے کے بعد بھی غیر آباد آستانوں پر جا کر جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ ان آستانوں اور درباروں پر جا کر ذبح کیے جائیں جو پرستش اور نذر ونیاز کے لیے مرجع عوام ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ النحل
116 1- یہ اشارہ ہے ان جانوروں کی طرف جو وہ بتوں کے نام وقف کر کے ان کو اپنے لئے حرام کر لیتے تھے، جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔ (دیکھئے (المائدہ: 103، اور الانعام: 139۔ 141 کے حواشی) النحل
117 النحل
118 1- دیکھئے سورہ الا نعام:146 کا حاشیہ، نیز سورہ نساء: 160 میں بھی اس کا ذکر ہے۔ النحل
119 النحل
120 1- أُمَّةٌ کے معنی پیشوا اور قائد کے بھی ہیں۔ جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے اور امت بمعنی امت بھی ہے، اس اعتبار سے حضرت ابرہیم (عليہ السلام) کا وجود ایک امت کے برابر تھا۔ (امت کے معانی کے لئے (سورۂ ھود: 8 کا حاشیہ دیکھئے) النحل
121 النحل
122 النحل
123 1- مِلَّةَ کے معنی ایسا دین جسے اللہ تعالٰی نے اپنے کسی نبی کے ذریعے لوگوں کے لئے مشروع اور ضروری قرار دیا ہے۔ نبی (ﷺ) باوجود اس بات کے کہ آپ تمام انبیاء سمیت اولاد آدم کے سردار ہیں، آپ کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، جس سے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی امتیازی اور خصوصی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ویسے اصول میں تمام انبیاء کی شریعت اور ملت ایک ہی رہی جس میں رسالت کے ساتھ توحید ومعاد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ النحل
124 1- اس اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے ان کے لئے جمعہ کا دن مقرر فرمایا تھا، لیکن بنو اسرائیل نے اختلاف کیا اور ہفتے کا دن تعظیم وعبادت کے لئے پسند کیا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، موسیٰ! انہوں نے جو دن پسند کیا ہے، وہی دن ان کے لئے رہنے دو، بعض کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا تھا تعظیم کے لئے ہفتے میں کوئی ایک دن متعین کر لو۔ جس کے تعین میں ان کے درمیان اختلاف ہوا۔ پس یہود نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر ہفتے کا دن اور نصاریٰ نے اتوار کا دن مقرر کرلیا۔ اور جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانون کے لئے مخصوص کردیا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ نصاریٰ نے اتوار کا دن یہودیوں کی مخالفت کے جذبے سے اپنے لئے مقرر کیا تھا، اسی طرح عبادت کے لئے انہوں نے اپنے کو یہودیوں سے الگ رکھنے کے لئے صخرۂ بیت المقدس کی شرقی جانب کو بطور قبلہ اختیار کیا۔ جمعہ کا دن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مقرر کئے جانے کا ذکر حدیث میں موجود ہے۔ (ملاحظہ ہو۔ صحيح بخاری ، كتاب الجمعة ، باب هداية هذه الأمة ليوم الجمعة - ومسلم كتاب وباب مذكور) النحل
125 1- اس میں تبلیغ ودعوت کے اصول بیان کئے گئے ہیں جو حکمت، موعظہ حسنہ اور رفق وملامت پر مبنی ہیں۔ جدال بالأحسن، درشتی اور تلخی سے بچتے ہوئے نرم ومشفقانہ لب ولہجہ اختیار کرنا ہے۔ 2- یعنی آپ کا کام مذکورہ اصولوں کے مطابق وعظ و تبلیغ ہے، ہدایت کے راستے پر چلا دینا، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہدایت قبول کرنے والا کون ہے اور کون نہیں؟ النحل
126 1- اس میں اگرچہ بدلہ لینے کی اجازت ہے بشرطیکہ تجاوز نہ ہو، ورنہ یہ خود ظالم ہو جائے گا، تاہم معاف کر دینے اور صبر اختیار کرنے کو زیادہ بہتر قرار دیا گیا ہے۔ النحل
127 1- اس لئے کہ اللہ تعالٰی ان کے مکروں کے مقابلے میں اہل ایمان وتقویٰ اور محسنین کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو، اسے اہل دنیا کی سازشیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں، جیسا کہ ما بعد کی آیت میں ہے۔ النحل
128 النحل
0 الإسراء
1 1- سُبْحَانَ, سَبَحَ يَسْبَحُ کا مصدر ہے۔ معنی ہیں أُنَزِّهُ اللهَ تَنْزِيهًا یعنی میں اللہ کی ہر نقص سے تنزیہ اور براءت کرتا ہوں۔ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ كُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ 2- إِسْرَاءٌ کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَيْلا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہو جائے۔ یعنی رات کے ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔ 3- أَقْصَى ٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں ہے اور فلسطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک مسافت ”40“ دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔ 4- یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن ومدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ 5- یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہو گیا نبی کریم (ﷺ) کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء (عليہم السلام) سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج بِجَسَدِهِ الْعُنْصُرِيِّ‌ حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی (ﷺ) نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورہ نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ”معراج“ سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی 17 یا 27، کوئی رجب کی 27 اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر) الإسراء
2 الإسراء
3 1- طوفان نوح (عليہ السلام) کے بعد نسل انسانی نوح (عليہ السلام) کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتی نوح (عليہ السلام) میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ، نوح علیہ السلام، اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد (ﷺ) کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو۔ الإسراء
4 الإسراء
5 1- یہ اشارہ ہے اس ذلت اور تباہی کی طرف جو بابل کے فرمان روا بخت نصر کے ہاتھوں، حضرت مسیح (عليہ السلام) سے تقریبًا چھ سو سال قبل، یہودیوں پر یروشلم میں نازل ہوئی۔ اس نے بے دریغ یہودیوں کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا اور یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اللہ کے نبی حضرت شعیب (عليہ السلام) کو قتل کیا یا حضرت ارمیا (عليہ السلام) کو قید کیا اور تورات کے احکام کی خلاف ورزی اور معصیات کا ارتکاب کر کے فساد فی الارض کے مجرم بنے۔ بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر کے بجائے جالوت کو اللہ تعالٰی نے بطور سزا ان پر مسلط کیا، جس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ حتیٰ کہ طالوت کی قیادت میں حضرت داود (عليہ السلام) نے جالوت کو قتل کیا۔ الإسراء
6 1- یعنی بخت نصر یا جالوت کے قتل کے بعد ہم نے تمہیں پھر مال اور دولت، بیٹوں اور جاہ حشمت سے نوازا، جب کہ یہ ساری چیزیں تم سے چھن چکی تھیں۔ اور تمہیں پھر زیادہ جتھے والا اور طاقتور بنا دیا۔ الإسراء
7 1- یہ دوسری مرتبہ انہوں نے فساد برپا کیا کہ حضرت زکریا (عليہ السلام) کو قتل کر دیا اور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو بھی قتل کرنے کے درپے رہے، جنہیں اللہ تعالٰی نے زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔ اس کے نتیجے میں پھر رومی بادشاہ ٹیٹس کو اللہ نے ان پر مسلط کر دیا، اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا، ان کے اموال لوٹ لئے، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو غارت کیا اور انہیں ہمیشہ کے لئے بیت المقدس سے جلا وطن کر دیا۔ اور یوں ان کی ذلت و رسوائی کا خوب خوب سامان کیا۔ یہ تباہی 70ء میں ان پر آئی۔ الإسراء
8 1- یہ انہیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کر لی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت ورسوائی سے دو چار کر دیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کر چکے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کر چکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انہیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔ 2- یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انہیں بھگتنا ہو گا۔ الإسراء
9 الإسراء
10 الإسراء
11 1- انسان چونکہ جلد باز اور بے حوصلہ ہے اس لیے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لیے اسی طرح بد دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لیے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے یہ تو رب کا فضل وکرم ہے کہ وہ اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا یہی مضمون سورۂ یونس آیت 11 میں گزر چکا ہے۔ الإسراء
12 1- یعنی رات کو بے نور یعنی تاریک کر دیا تاکہ تم آرام کر سکو اور تمہاری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو جائے اور دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش کے ذریعے سے تم رب کا فضل تلاش کرو۔ علاوہ ازیں رات اور دن کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہفتوں، مہینوں اور برسوں کا شمار اور حساب تم کر سکو، اس حساب کے بھی بیشمار فوائد ہیں۔ اگر رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات یا دن ہی دن رہتا تو تمہیں آرام اور سکون کا یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا اور اسی طرح مہینوں اور سالوں کا حساب بھی ممکن نہ رہتا۔ 2- یعنی انسان کے لئے دین اور دنیا کی ضروری باتیں سب کھول کر ہم نے بیان کر دی ہیں تاکہ ان سے انسان فائدہ اٹھائیں، اپنی دنیا سنواریں اور آخرت کی بھی فکر اور اس کے لئے تیاری کریں۔ الإسراء
13 1- طَائِرٌ کے معنی پرندے کے ہیں اور عُنُقٌ کے معنی گردن کے۔ امام ابن کثیر نے طائر سے مراد انسان کے عمل لئے ہیں۔ فِي عُنُقِهِ کا مطلب ہے اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اس کو اچھی یا بری جزا دی جائے گی، گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے، اللہ کے ہاں اس کا پورا ریکارڈ محفوظ ہو گا۔ قیامت والے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور امام شوکانی نے طائر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے، جو اللہ تعالٰی نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے، جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا، وہ بھی اس کے علم میں تھا، یہی قسمت (سعادت مندی یا بد بختی) ہر انسان کے ساتھ گلے کے ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہو گی۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔ الإسراء
14 الإسراء
15 1- البتہ جو ضال (گمراہ) مُضل (گمراہ کرنے والے) بھی ہوں گے، انہیں اپنی گمراہی کے بوجھ کے ساتھ، ان کے گناہوں کا بار بھی (بغیر ان کے گناہوں میں کمی کیے) اٹھانا پڑے گا جو ان کی کوششوں سے گمراہ ہوئے ہوں گے، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات اور احادیث میں واضح ہے۔ یہ دراصل ان کے اپنے ہی گناہوں کا بھار ہوگا جو دوسروں کو گمراہ کر کے انہوں نے کمایا ہوگا۔ 2- بعض مفسرین نے اس سے صرف دنیوی عذاب مراد لیا ہے۔ یعنی آخرت کے عذاب سے مستثنٰی نہیں ہوں گے، لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ اللہ تعالٰی لوگوں سے پوچھے گا کہ تمہارے پاس میرے رسول نہیں آئے تھے؟ جس پر اثبات میں جواب دیں گے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارسال رسل اور انزال کتب کے بغیر وہ کسی کو عذاب نہیں دے گا۔ تاہم اس کا فیصلہ کہ کس قوم یا فرد تک اس کا پیغام نہیں پہنچا، قیامت والے دن وہ خود ہی فرمائے گا، وہاں یقینا کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہو گا۔ اسی طرح بہرا پاگل فاترالعقل اور زمانہ فترت یعنی دو نبیوں کے درمیانی زمانے میں فوت ہونے والے لوگوں کا مسئلہ ہے ان کی بابت بعض روایات میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی ان کی طرف فرشتے بھیجے گا اور وہ انہیں کہیں گے کہ جہنم میں داخل ہو جاؤ اگر وہ اللہ کے اس حکم کو مان کر جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو جہنم ان کے لیے گل وگلزار بن جائے گی بصورت دیگر انہیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسند أحمد، ج 4، ص 24، وابن حبان، ج 9، ص 226۔ علامہ البانی نے صحيح الجامع الصغير (نمبر 881) میں اسے ذکر کیا ہے) چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے مسلمانوں کے بچے تو جنت میں ہی جائیں گے البتہ کفار و مشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے کوئی توقف کا کوئی جنت میں جانے کا اور کوئی جہنم میں جانے کا قائل ہے، امام ابن کثیر نے کہا ہے کہ میدان محشر میں ان کا امتحان لیا جائے گا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنت میں اور جو نافرمانی کرے گا جہنم میں جائے گا امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ اس سے متضاد روایات میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے (تفسیر ابن کثیر ملاحظہ کیجئے)۔ مگر صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنت میں جائیں گے۔ دیکھئے صحیح بخاری (3: 251، 12: 348) مع الفتح الإسراء
16 1- اس میں وہ اصول بتلایا گیا ہے جس کی روح سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور یہ کہ ان کا خوش حال طبقہ اللہ کے حکموں کی نافرمانی شروع کر دیتا ہے اور انہی کی تقلید پھر دوسرے لوگ کرتے ہیں، یوں اس قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہو جاتی ہے اور وہ مستحق عذاب قرار پا جاتی ہے۔ الإسراء
17 1- وہ بھی اسی اصول ہلاکت کے تحت ہی ہلاک ہوئیں۔ الإسراء
18 1- یعنی دنیا کے ہر طالب کو دنیا نہیں ملتی، صرف اسی کو ملتی ہے جس کو ہم چاہیں، پھر اس کو بھی اتنی دنیا نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی ہم اس کے لئے فیصلہ کریں۔ لیکن اس دنیا طلبی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے۔ الإسراء
19 1- اللہ تعالٰی کے ہاں قدر دانی کے لئے تین چیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں: (1)۔ ارادہ آخرت، یعنی اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی، (2)۔ ایسی کوشش جو اس کے لائق ہو، یعنی سنت کے مطابق، (3)۔ ایمان کیونکہ اس کے بغیر تو کوئی عمل بھی قابل التفات نہیں۔ یعنی قبولیت عمل کے لئے ایمان کے ساتھ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ الإسراء
20 1- یعنی دنیا کا رزق اور اس کی آسائشیں ہم بلا تفریق مومن اور کافر، طالب دنیا اور طالب آخرت سب کو دیتے ہیں۔ اللہ کی نعمتیں کسی سے بھی روکی نہیں جاتیں۔ الإسراء
21 1- تاہم دنیا کی چیزیں کسی کو کم، کسی کو زیادہ ملتی ہیں، اللہ تعالٰی اپنی حکمت ومصلحت کے مطابق یہ روزی تقسیم فرماتا ہے۔ تاہم آخرت میں درجات کا یہ تفاضل زیادہ واضح اور نمایاں ہوگا اور وہ اس طرح کہ اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر جہنم میں جائیں گے۔ الإسراء
22 الإسراء
23 1- اس آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کر دیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ”ہوں“ تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بے بس اور لا چار ہوجاتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض و متصرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد وگرم چشیدہ تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔ الإسراء
24 1- پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایۂ شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لئے اپنے بازو پست کر دیتا ہے، یعنی تو بھی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور پُرشفقت معاملہ کرنا اور ان کی اسی طرح کفالت کر جس طرح انہوں نے بچپن میں تیری کی۔ یا یہ معنی ہیں کہ جب پرندہ اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلا لیتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازؤں کو پست کر لیتا ہے۔ اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی، والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔ الإسراء
25 الإسراء
26 1- قرآن کریم کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ غریب رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کر کے، ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے، نہ کہ کسی پر احسان ۔علاوہ ازیں رشتے داروں کے پہلے ذکر سے ان کی اولیت اور اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو، صلہ رحمی کہا جاتا ہے، جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔ الإسراء
27 1- تَبْذِيرٌ کی اصل بذر (بیج) ہے، جس طرح زمین میں بیج ڈالتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ صحیح جگہ پر پڑ رہا ہے یا اس سے ادھر اُدھر، بلکہ کسان بیج ڈالے چلا جاتا ہے۔ تَبْذِيرٌ (فضول خرچی) بھی یہی ہے کہ انسان اپنا مال بیج کی طرح اڑاتا پھرے اور خرچ کرنے میں حد شرع سے تجاوز کرے اور بعض کہتے ہیں کہ تبذیر کے معنی ناجائز امور میں خرچ کرنا ہیں چاہے تھوڑا ہی ہو۔ ہمارے خیال میں دونوں ہی صورتیں تبذیر میں آجاتی ہیں۔ اور یہ اتنا برا عمل ہے کی اس کے مرتکب کو شیطان سے مماثلت تامہ ہے اور شیطان کی مماثلت سے بچنا، چاہے وہ کسی ایک ہی خصلت میں ہو، انسان کے لئے واجب ہے، پھر شیطان کو كَفُورٌ (بہت ناشکرا) کہہ کر مزید بچنے کی تاکید کر دی ہے اگر شیطان کی مشابہت اختیار کرو گے تو تم بھی اس کی طرح كَفُورٌ قرار دئیے جاؤ گے۔ (فتح القدیر) الإسراء
28 1- یعنی مالی استطاعت کے فقدان کی وجہ سے، جس کے دور ہونے کی اور کشائش رزق کی تو اپنے رب سے امید رکھتا ہے۔ اگر تجھے غریب رشتے داروں، مسکینوں اور ضرورت مندوں سے اعراض کرنا یعنی اظہار معذرت کرنا پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کر، یعنی جواب بھی دیا جائے تو نرمی اور پیار و محبت کے لہجے میں نہ کہ ترشی اور بد اخلاقی کے ساتھ، جیسا کہ عام طور پر لوگ ضرورت مندوں اور غریبوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ الإسراء
29 1- گزشتہ آیت میں انکار کرنے کا ادب بیان فرمایا اب انفاق کا ادب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بخل کرے کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بےدریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان، قابل ملامت و مذمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکا ہارا اور پچھتانے والا) محسور اس جانور کو کہتے ہیں جو چل چل کر تھک چکا اور چلنے سے عاجز ہو چکا ہو۔ فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ، یہ کنایہ ہے بخل سے اور ”نہ اسے بالکل ہی کھول دے“ یہ کنایہ ہے فضول خرچی سے۔ مَلُومًا مَّحْسُورًا لَفُّ نَشْرٍ مُرَتَّبٌ ہے، یعنی ملوم بخل کا اور محسور فضول خرچی کا نتیجہ ہے۔ الإسراء
30 1- اس میں اہل ایمان کے لئے تسلی ہے کہ ان کے پاس وسائل رزق کی فروانی نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کے ہاں ان کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ رزق کی وسعت یا کمی، اس کا تعلق اللہ کی حکمت ومصلحت سے ہے جسے صرف وہی جانتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو قارون بنا دے اور اپنوں کو اتنا ہی دے کہ جس سے بہ مشکل وہ اپنا گذارہ کر سکیں۔ یہ اس کی مشیت ہے۔ جس کو وہ زیادہ دے، وہ اس کا محبوب نہیں، اور وہ قوت لا یموت کا مالک اس کا مبغوض نہیں۔ الإسراء
31 1- یہ آیت سورۃ الا نعام 151 میں بھی گزر چکی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ [ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ ] ۔ (صحيح بخاری- تفسير سورة البقرة، وكتاب الأدب، مسلم، كتاب التوحيد، باب ﴿فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا﴾) ”کہ تو اپنی اولاد اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی“۔ آج کل قتل اولاد کا گناہ عظیم طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات ”بہتر تعلیم و تربیت“ کے نام پر اور خواتین اپنے ”حسن“ کو برقرار رکھنے کے لئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ الإسراء
32 1- اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اتنا بڑا کہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کر لے تو اسے اسلامی معاشرے میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ پھر اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔ اس لئے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ، یعنی اس کے دواعی واسباب سے بھی بچ کر رہو، مثلًا غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط، کلام کی راہیں پیدا کرنا، اسی طرح عورتوں کا بے پردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا، وغیرہ ان تمام امور سے پرہیز ضروری ہے تاکہ اس بےحیائی سے بچا جا سکے۔ الإسراء
33 1- حق کے ساتھ قتل کرنے کا مطلب قصاص میں قتل کرنا ہے، جس کو انسانی معاشرے کی زندگی اور امن و سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ زانی اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ 2- یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق یا غلبہ یا طاقت دی گئی ہے کہ وہ قاتل کو حاکم وقت کے شرعی فیصلہ کے بعد قصاص میں قتل کر دیں یا اس سے دیت لے لیں یا معاف کر دیں اور اگر قصاص ہی لینا ہے تو اس میں زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو یا تین چار کو مار دیں، یا اس کا مثلہ کر کے یا عذاب دے کر ماریں، مقتول کا وارث، مدد دیا گیا ہے، یعنی امرا وحکام کو اس کی مدد کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس لئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ زیادتی کا ارتکاب کر کے اللہ کی ناشکری کرے۔ الإسراء
34 1- کسی کی جان کو ناجائز طریقے سے ضائع کرنے کی ممانعت کے بعد، اتلاف مال (مال کے ضائع کرنے) سے روکا جا رہا ہے اور اس میں یتیم کا مال سب سے زیادہ اہم ہے، اس لئے فرمایا کہ یتیم کے بالغ ہونے تک اس کے مال کو ایسے طریقے سے استعمال کرو، جس میں اس کا فائدہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ سوچے سمجھے بغیر ایسے کاروبار میں لگا دو کہ وہ ضائع یا خسارے سے دو چار ہو جائے۔ یا عمرِ شعور سے پہلے تم اسے اڑا ڈالو۔ 2- عہد سے وہ میثاق بھی مراد ہے جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور وہ بھی جو انسان آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے عہدوں کا پورا کرنا ضروری ہے اور نقص عہد کی صورت میں باز پرس ہوگی۔ الإسراء
35 1- اجر وثواب کے لحاظ سے بہتر ہے، علاوہ ازیں لوگوں کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں ناپ تول میں دیانت داری مفید ہے۔ الإسراء
36 1- قَفَا يَقْفُوکے معنی ہیں پیچھے لگنا، یعنی جس چیز کا علم نہیں، اس کے پیچھے مت لگو، یعنی بدگمانی مت کرو، کسی کی ٹوہ میں مت رہو، اسی طرح جس چیز کا علم نہیں، اس پر عمل مت کرو۔ 2- یعنی جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا کہ کیا اس نے سنا تھا، آنکھ سے سوال ہوگا کیا اس نے دیکھا تھا اور دل سے سوال ہوگا کیا اس نے جانا تھا؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں۔ یعنی ان اعضا کو اللہ تعالٰی قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا۔ الإسراء
37 1- اترا کر اور اکڑ کر چلنا، اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ قارون کو اسی بنا پر اس کے گھر اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا (القصص:81) حدیث میں آتا ہے ”ایک شخص دو چادریں پہنے اکڑ کر چل رہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک دھنستا چلا جائے گا“۔ (صحيح مسلم، كتاب اللباس، باب تحريم التبختر في المشي مع إعجابه بثيابه) اللہ تعالٰی کو تواضع اور عاجزی پسند ہے۔ الإسراء
38 1- یعنی جو باتیں مذکور ہوئیں، ان میں جو بھی بری ہیں، جن سے منع کیا گیا، وہ ناپسندیدہ ہیں۔ الإسراء
39 الإسراء
40 الإسراء
41 1- ہر ہر طرح کا مطلب ہے، وعظ ونصیحت، دلائل و بینات ، ترغیب و ترہیب اور امثال و واقعات، ہر طریقے سے بار بار سمجھایا گیا ہے تاکہ وہ سمجھ جائیں، لیکن وہ کفر شرک کی تاریکیوں میں اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ حق کے قریب ہونے کی بجائے، اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن جادو، کہانت اور شاعری ہے، پھر وہ اس قرآن سے کس طرح راہ یاب ہوں؟ کیونکہ قرآن کی مثال بارش کی ہے کہ اچھی زمین پر پڑے تو وہ بارش سے شاداب ہو جاتی ہے اور اگر وہ گندی ہے تو بارش سے بدبو میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ الإسراء
42 1- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر لشکر کشی کر کے غلبہ وقوت حاصل کر لیتا ہے، اسی طرح دوسرے معبود بھی اللہ پر غلبے کی کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے۔ اور اب تک ایسا نہیں ہوا، جب کہ ان معبودوں کو پوجتے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہی نہیں، کوئی با اختیار ہی نہیں، دوسرے معنی ہیں کہ وہ اب تک اللہ کا قرب حاصل کر چکے ہوتے اور یہ مشرکین جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں، انہیں بھی وہ اللہ کے قریب کر چکے ہوتے۔ الإسراء
43 1- یعنی واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی بابت جو کہتے ہیں کہ اس کے شریک ہیں، اللہ تعالٰی ان باتوں سے پاک اور بلند ہے۔ الإسراء
44 1- یعنی سب اسی کے مطیع اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہیں۔ گو ہم ان کی تسبیح و تحمید کو نہ سمجھ سکیں۔ اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے مثلًا حضرت داؤد (عليہ السلام) کے بارے میں آتا ہے ﴿اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ﴾ (ص:18) ”ہم نے پہاڑوں کو داؤد (عليہ السلام) کے تابع کر دیا، بس وہ شام کو اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں“۔ بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ﴿وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ﴾ ( البقرۃ:74) ”اور بعض اللہ تعالٰی کے ڈر سے گر پڑتے ہیں“، بعض صحابہ (رضی الله عنہم) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ انہوں نے کھانے سے تسبیح کی آواز سنی۔ ( صحيح بخاری- كتاب المناقب نمبر 1759)، ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں (بخاری، نمبر:3019 مسلم: نمبر1759)، اسی طرح جس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ (ﷺ) خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب لکڑی کا منبر بن گیا اور اسے آپ (ﷺ) نے چھوڑ دیا تو بچے کی طرح اس سے رونے کی آواز آتی تھی (بخاری نمبر3583) مکے میں ایک پتھر تھا جو رسول (ﷺ) کو سلام کیا کرتا تھا (صحیح مسلم 1782) ان آیات وصحیح حدیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جسے گو ہم نہ سمجھ سکیں، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تسبیح دلالت ہے یعنی یہ چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام کائنات کا خالق اور ہرچیز پر قادر صرف اللہ تعالٰی ہے۔ وَفِي كُلِّ شَيْءٍ لَهُ آيَةٌ تَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَاحِدٌ ”ہرچیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالٰی ایک ہے، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے کہ تسبیح اپنے حقیقی معنی میں ہے“۔ الإسراء
45 1- مَسْتُورٌ بمعنی سَاترٍ(مانع اور حائل) ہے مستور عن الابصار (آنکھوں سے اوجھل) پس وہ اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے اور ہدایت کے درمیان حجاب ہے۔ الإسراء
46 1- أَكِنَّةً، كِنَانٌ کی جمع ہے ایسا پردہ جو دلوں پر پڑ جائے۔ وَقْرٌ کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے انہیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر تو بھاگ ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان افعال کی نسبت اللہ کی طرف، بہ اعتبار خلق کے ہے۔ ورنہ ہدایت سے محرومی ان کے جمود وعناد ہی کا نتیجہ تھا۔ الإسراء
47 1- یعنی نبی (ﷺ) کو یہ سحر زدہ سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے قرآن سنتے اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، اس لئے ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ الإسراء
48 1- کبھی ساحر، کبھی مسحور، کبھی مجنون اور کبھی کاہن کہتے ہیں، پس اس طرح گمراہ ہو رہے ہیں، ہدایت کا راستہ انہیں کس طرح ملے۔ الإسراء
49 الإسراء
50 1- جو مٹی اور ہڈیوں سے زیادہ سخت ہے اور جس میں زندگی کے آثار پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے۔ الإسراء
51 1- یعنی اس سے بھی زیادہ سخت چیز، جو تمہارے علم میں ہو، وہ بن جاؤ اور پھر پوچھو کہ کون زندہ کرے گا؟۔ 2- أَنْغَضَ يُنْغِضُ کے معنی ہیں سر ہلانا۔ یعنی استہزاء کے طور پر سر ہلا کر وہ کہیں گے کہ یہ دوبارہ زندگی کب ہوگی؟۔ 3- قریب کا مطلب ہے، ہونے والی چیز ’’كُلُّ مَا هُوَ آتٍ فَهُوَ قَرِيبٌ‘‘ ”ہر وقوع پذیر ہونے والی چیز قریب ہے“۔ اور ”عسی“ بھی قرآن میں یقین اور واجب الوقوع کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی قیامت کا وقوع یقینی اور ضروری ہے۔ الإسراء
52 1- ”بلائے گا“ کا مطلب ہے قبروں سے زندہ کر کے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے یا اسے پہچانتے ہوئے اس کے پاس حاضر ہو جاؤ گے۔ 2- وہاں یہ دنیا کی زندگی بالکل تھوڑی معلوم ہوگی۔ ﴿كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا﴾۔ (النازعات:46) ۔ ”جب قیامت کو دیکھ لیں گے، تو دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی گویا اس میں ایک شام یا ایک صبح رہے ہیں“، اسی مضمون کو دیگر مقامات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ طہٰ 102، 104۔ الروم 55۔ المؤمنون 112، 114۔ بعض کہتے ہیں کہ پہلا نفخہ ہوگا تو سب مردے قبروں میں زندہ ہو جائیں گے۔ پھر دوسرے نفخے پر میدان محشر میں حساب کتاب کے لئے اکٹھے ہونگے۔ دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا اور اس فاصلے میں انہیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا، وہ سو جائیں گے۔ دوسرے صور پر اٹھیں گے تو کہیں گے ”افسوس، ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایاہے؟“ (سورۂ یس:52) (فتح القدیر) پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ الإسراء
53 1- یعنی آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، اچھے کلمات بولیں، اسی طرح کفار ومشرکین اور اہل کتاب سے اگر مخاطبت کی ضرورت پیش آئے تو ان سے مشفقانہ اور نرم لہجے میں گفتگو کریں۔ 2- زبان کی ذرا سی بے اعتدالی سے شیطان، جو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے، یا کفار یا مشرکین کے دلوں میں تمہارے لئے زیادہ بغض و عناد پیدا کر سکتا ہے۔ حدیث میں ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا ”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلوا دے اور وہ اس مسلمان بھائی کو جا لگے جس سے اس کی موت واقع ہو جائے پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے“۔ ( صحيح بخاری كتاب الفتن، باب من حمل علينا السلاح فليس منا- صحيح مسلم، كتاب البر، باب النهي عن الإشارة بالسلاح ) الإسراء
54 1- اگر خطاب مشرکین سے ہو تو رحم کے معنی قبول اسلام کی توفیق کے ہونگے اور عذاب سے مراد شرک پر ہی موت ہے، جس پر وہ عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر خطاب مومنین سے ہو تو رحم کے معنی ہوں گے کہ وہ کفار سے تمہاری حفاظت فرمائے گا اور عذاب کا مطلب ہے کفار کا مسلمانوں پر غلبہ و تسلط۔ 2- کہ آپ انہیں ضرور کفر کی دلدل سے نکالیں یا ان کے کفر پر جمے رہنے پر آپ سے باز پرس ہو۔ الإسراء
55 1- یہ مضمون ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ﴾ (البقرۃ:253) بھی گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ کفار مکہ کے جواب میں یہ مضمون دہرایا گیا ہے، جو کہتے تھے کہ کیا اللہ کو رسالت کے لئے یہ محمد (ﷺ) ہی ملا تھا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا کسی کو رسالت کے لئے منتخب کرنا اور کسی ایک نبی کو دوسرے پر فضیلت دینا، یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ الإسراء
56 الإسراء
57 1- مذکورہ آیت میں ”مِنْ دُونِ اللهِ“ سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی عبادت کرتے تھے، یا حضرت عزیر ومسیح علیہما السلام ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں اور انہیں الوہی صفات کا حامل مانتے تھے، یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور یہ صفت جمادات (پتھروں) میں نہیں ہو سکتی۔ اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ مِنْ دُونِ اللهِ (اللہ کے سوا جن کی عبات کی جاتی رہی ہے) وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین، کچھ انبیاء اور کچھ جنات تھے۔ اللہ تعالٰی نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، نہ کسی کی تکلیف دور کر سکتے ہیں نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں ”اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں“ کا مطلب اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ یہی الوسیلۃ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے۔ وہ نہیں ہے جسے قبر پرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو۔ کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت ہے جو شرک ہے۔ اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ الإسراء
58 1- کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ بات طے شدہ ہے، جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کہ ہم کافروں کی ہر بستی کو یا تو موت کے ذریعے سے ہلاک کر دیں گے اور بستی سے مراد، بستی کے باشندگان ہیں اور ہلاکت کی وجہ ان کا کفر وشرک اور ظلم وطغیان ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہلاکت قیامت سے قبل وقوع پذیر ہوگی، ورنہ قیامت کے دن تو بلا تفریق ہر بستی ہی شکست وریخت کا شکار ہو جائے گی۔ الإسراء
59 1- یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا مکے کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے، جس پر اللہ تعالٰی نے جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھر انہیں مہلت نہیں دی جائے گی۔ نبی (ﷺ) نے بھی اسی بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ یقینی ہلاکت سے بچ جائیں (مسند أحمد, ج 1، ص 258وقال أحمد شاكر في تعليقه على المسند (2333) إسناده صحيح)، اس آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے یہی مضمون بیان فرمایا کہ ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں اتار دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہم اس سے گریز اس لئے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں جو انہیں دکھا دی گئیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائے، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کر دی گئیں۔ 2- قوم ثمود کا بطور مثال تذکرہ کیا کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کر کے دکھائی گئی تھی، لیکن ان ظالموں نے، ایمان لانے کے بجائے، اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔ الإسراء
60 1- یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بےخوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔ 2- صحابہ وتابعین (رضی الله عنہم) نے اس رویا کی تفسیر عینی رؤیت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد زَقُّومٌ (تھوہر) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی (ﷺ) نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ الْمَلْعُونَةَ سے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ ﴿إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ، طَعَامُ الأَثِيمِ﴾ ( الدخان:44,43)۔ ”زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے“۔ 3- یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث و عناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی وطغیانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ الإسراء
61 الإسراء
62 1- یعنی اس پر غلبہ حاصل کرلوں گا اور اسے جس طرح چاہوں گا، گمراہ کرلوں گا۔ البتہ تھوڑے سے لوگ میرے داؤ سے بچ جائیں گے۔ آدم (عليہ السلام) و ابلیس کا یہ قصہ اس سے قبل سورہ بقرہ، اعراف اور حجر میں گزر چکا ہے۔ یہاں چوتھی مرتبہ اسے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں سورہ کہف طٰہٰ اور سورہ صٓ میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔ الإسراء
63 الإسراء
64 1- آواز سے مراد پر فریب دعوت یا گانے، موسیقی اور لہو و لعب کے دیگر آلات ہیں، جن کے ذریعے سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ 2- ان لشکروں سے مراد، انسانوں اور جنوں کے وہ سوار اور پیادے لشکر ہیں جو شیطان کے چیلے اور اس کے پیروکار ہیں اور شیطان ہی کی طرح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں، یا مراد ہے ہر ممکن ذرائع جو شیطان گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ 3- مال میں شیطان کی مشارکت کا مطلب حرام ذریعے سے مال کمانا اور حرام طریقے سے خرچ کرنا ہے اور اسی طرح مویشیوں کو بتوں کے ناموں پر وقف کر دینا مثلًا بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور اولاد میں شرکت کا مطلب، زنا کاری، عبدالات، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھنا، غیر اسلامی طریقے سے ان کی تربیت کرنا کہ برے اخلاق وکردار کے حامل ہوں، ان کو تنگ دستی کے خوف سے ہلاک یا زندہ درگور کر دینا، اولاد کو مجوسی، یہودی ونصرانی وغیرہ بنانا اور بغیر مسنون دعا پڑھے بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں شیطان کی شرکت ہو جاتی ہے۔ 4- کہ کوئی جنت و دوزخ نہیں ہے، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے وغیرہ۔ 5- غُرُورٌ (فریب) کا مطلب ہوتا ہے غلط کام کو اس طرح مزین کرکے دکھانا کہ وہ اچھا اور درست لگے۔ الإسراء
65 1- بندوں کی نسبت اپنی طرف کی، یہ بطور شرف اور اعزاز کے ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندوں کو شیطان بہکانے میں ناکام رہتا ہے۔ 2- یعنی جو صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بن جاتا ہے، اسی پر اعتماد اور توکل کرتا ہے تو اللہ بھی اس کا دوست اور کار ساز بن جاتا ہے۔ الإسراء
66 1- یہ اس کا فضل اور رحمت ہی ہے کہ اس نے سمندر کو انسانوں کے تابع کر دیا اور وہ اس پر کشتیاں اور جہاز چلا کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے اور کاروبار کرتے ہیں، نیز اس نے ان چیزوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی جن میں بندوں کے لئے منافع اور مصالح ہیں۔ الإسراء
67 1- یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ الإسراء
68 1- یعنی سمندر سے نکلنے کے بعد تم جو اللہ کو بھول جاتے ہو تو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خشکی میں بھی تمہاری گرفت کر سکتا ہے، تمہیں وہ زمین میں دھنسا سکتا ہے یا پتھروں کی بارش کر کے تمہیں ہلاک کر سکتا ہے، جس طرح بعض گزشتہ قوموں کو اس نے اس طرح ہلاک کیا۔ الإسراء
69 1- قَاصِفٌ، ایسی تند تیز سمندری ہوا جو کشتیوں کو توڑ دے اور انہیں ڈبو دے، تَبِيعًا انتقام لینے والا، پیچھا کرنے والا، یعنی تمہارے ڈوب جانے کے بعد ہم سے پوچھے کہ تو نے ہمارے بندوں کو کیوں ڈبویا؟ مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ سمندر سے بخریت نکلنے کے بعد، کیا تمہیں دوبارہ سمندر میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی؟ اور وہاں وہ تمہیں گرداب بلا میں نہیں پھنسا سکتا؟۔ الإسراء
70 1- یہ شرف اور فضل، بحیثیت انسان کے، ہر انسان کو حاصل ہے چاہے مومن ہو یا کافر۔ کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات و نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے۔ اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے جس طرح کی شکل و صورت، قد وقامت اور ہیئت اللہ تعالٰی نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں، جو عقل انسان کو دی گئی ہے، جس کے ذریعے سے اس نے اپنے آرام و راحت کے لئے بیشمار چیزیں ایجاد کیں۔ حیوانات وغیرہ اس سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں اسی عقل سے صحیح، مفید و مضر اور حسین قبیح کے درمیان تمیز کرنے پر قادر ہے۔ علاوہ ازیں کائنات کی تمام چیزوں کو اللہ تعالٰی نے انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے۔ چاند سورج، ہوا پانی اور دیگر بیشمار چیزیں ہیں جن سے انسان فیض یاب ہو رہا ہے۔ 2- خشکی میں گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں اور اپنی تیار کردہ سواریوں (ریلیں، گاڑیاں، بسیں، ہوائی جہاز، سائیکل اور موٹر سائیکل وغیرہ) پر سوار ہوتا ہے اور اسی طرح سمندر میں کشتیاں اور جہاز ہیں جن پر وہ سوار ہوتا ہے اور سامان لاتا لے جاتا ہے۔ 3- انسان کی خوراک کے لئے جو غلہ جات، میوے اور پھل ہیں سب اسی نے پیدا کئے اور ان میں جو جو لذتیں، ذائقے اور قوتیں رکھیں ہیں۔ انواع اقسام کے کھانے، یہ لذیذ و مرغوب پھل اور یہ قوت بخش اور مفرح مرکبات و مشروبات اور خمیرے اور معجونات، انسان کے علاوہ اور کس مخلوق کو حاصل ہیں؟۔ 4- مذکورہ تفصیل سے انسان کی، بہت سی مخلوقات پر، فضیلت اور برتری واضح ہے۔ الإسراء
71 1- إِمَامٌ کے معنی پیشوا، لیڈر اور قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے یعنی ہر امت کو اس کے پیغمبر کے حوالے سے پکارا جائے گا، بعض کہتے ہیں، اس سے آسمانی کتاب مراد ہے جو انبیاء کے ساتھ نازل ہوتی رہیں۔ یعنی اے اہل تورات! اے اہل انجیل! اور اے اہل قرآن! وغیرہ کہہ کر پکارا جائے گا بعض کہتے ہیں یہاں ”امام“ سے مراد نامہ اعمال ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائے گا تو اس کا نامہ اعمال اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی رائے کو امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔ 2- فَتِيلٌ اس جھلی یا تاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے یعنی ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔ الإسراء
72 1- أَعْمَى (اندھا) سے مراد دل کا اندھا ہے یعنی جو دنیا میں حق کے دیکھنے، سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے محروم رہا، وہ آخرت میں اندھا، اور رب کے خصوصی فضل وکرم سے محروم رہے گا۔ الإسراء
73 الإسراء
74 1- اس میں اس عصمت کا بیان ہے جو اللہ کی طرف سے انبیاء (عليہم السلام) کو حاصل ہوتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مشرکین اگرچہ نبی (ﷺ) کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، لیکن اللہ نے آپ کو ان سے بچایا اور آپ (ﷺ) ذرا بھی ان کی طرف نہیں جھکے۔ الإسراء
75 1- اس سے معلوم ہوا کہ سزا قدر ومنزلت کے مطابق ہوتی ہے۔ الإسراء
76 1- یہ اس سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی (ﷺ) کو مکے سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ 2- یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپ کو مکے سے نکال دیتے تو یہ بھی اس کے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔ الإسراء
77 1- یعنی یہ دستور پرانا چلا آرہا ہے جو آپ (ﷺ) سے پہلے رسولوں کے لئے بھی برتا جاتا رہا ہے کہ جب ان قوموں نے انہیں اپنے وطن سے نکال دیا یا انہیں نکلنے پر مجبور کر دیا تو پھر وہ قومیں بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ نہ رہیں۔ 2- چنانچہ اہل مکہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ رسول اللہ (ﷺ) کی ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد ہی میدان بدر میں وہ عبرت ناک ذلت وشکست سے دو چار ہوئے اور چھ سال بعد 8 ہجری میں مکہ ہی فتح ہوگیا اور اس ذلت وہزیمیت کے بعد وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ الإسراء
78 1- دُلُوكٌ کے معنی زوال کے اور غَسَق کے معنی تاریکی کے ہیں۔ آفتاب کے ڈھلنے کے بعد، ظہر اور عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قراءت لمبی ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے۔ جن کی تفیصلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے لئے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔ 2- یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے (صحیح بخاری، تفسیرسورہ بنی اسرائیل) ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے ”تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟“ فرشتے کہتے ہیں ”جب ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں“۔ ( البخاری كتاب المواقيت، باب فضل صلاة العصر ومسلم باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما ) الإسراء
79 1- بعض کہتے ہیں ”تہجد“ اضداد میں سے ہے جس کے معنی سونے کے بھی ہیں اور نیند سے بیدار ہونے کے بھی۔ اور یہاں یہی دوسرے معنی ہیں کہ رات کو سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ”ھجود“ کے اصل معنی تو رات کو سونے کے ہی ہیں، لیکن باب تفعّل میں جانے سے اس میں تجنّب کے معنی پیدا ہوگئے جیسے تأثم کے معنی ہیں اس نے گناہ سے اجتناب کیا، یا بچا، اس طرح تھجد کے معنی ہونگے، سونے سے بچنا جو رات کو سونے سے بچا اور قیام کیا۔ بہرحال تھجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔ 2- بعض نے اس کے معنی کئے ہیں یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ کے لئے خاص ہے، اس طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی (ﷺ) پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی، جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں۔ البتہ امت کے لئے تہجد کی نماز فرض نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نَافِلَةٗ (زائد) کا مطلب یہ ہے کہ یہ تہجد کی نماز آپ (ﷺ) کے رفع درجات کے لیے زائد چیزہے،کیونکہ آپ (ﷺ) تو مغفور الذنب ہیں،جب کہ امتیوں کے لیے یہ اور دیگر اعمال خیر کفارہ سیئات ہیں،اور بعض کہتے ہیں کہ نَافِلَةٗ نافلہ ہی ہے یعنی نہ آپ (ﷺ) پر فرض تھی نہ آپ (ﷺ) کی امت پر۔ یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقینا بہت ہے اور اس وقت اللہ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ تاہم یہ نماز فرض وواجب نہ نبی (ﷺ) پر تھی اور نہ آپ (ﷺ) کی امت پر ہی فرض ہے۔ 3- یہ وہ مقام ہے جو قیامت والے دن اللہ تعالٰی نبی (ﷺ) کو عطا فرمائے گا اور اس مقام پر ہی آپ (ﷺ) وہ شفاعت عظمٰی فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوگا۔ الإسراء
80 1- بعض کہتے ہیں کہ یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہوئی جب آپ کو مدینے میں داخل ہونے اور مکہ سے نکلنے کا مسئلہ درپیش تھا، بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں مجھے سچائی کے ساتھ موت دینا اور سچائی کے ساتھ قیامت والے دن اٹھانا۔ بعض کہتے ہیں کہ مجھے قبر میں سچا داخل کرنا اور قیامت کے دن جب قبر سے اٹھائے تو سچائی کے ساتھ قبر سے نکالنا وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ دعا ہے اس لئے اس کے عموم میں سب باتیں آجاتی ہیں۔ الإسراء
81 1- حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب نبی (ﷺ) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں تین سو ساٹھ بت تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ چھڑی کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ (الاسراء:81)۔ اور ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ﴾ پڑھتے جاتے۔ (صحيح بخاری، تفسير بنی إسرائيل وكتاب المظالم، باب هل تكسر الدنان التي فيها الخمر ومسلم- الجهاد، باب إزالة الأصنام من حول الكعبة ) الإسراء
82 1- اس مفہوم کی آیت سورۂ یونس:57 میں گزر چکی ہے، اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ الإسراء
83 1- اس میں انسان کی حالت وکیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ عام طور پر خوش حالی کے وقت اور تکلیف کے وقت مبتلا ہوتا ہے، خوشحالی میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور تکلیف میں مایوس ہو جاتا ہے، لیکن اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔ دیکھئے سورۂ ھود کی آیات 9-11 کے حواشی۔ الإسراء
84 1- اس میں مشرکین کے لئے تہدید ووعید ہے اور اس کا وہی مفہوم ہے جو سورہ ھود کی آیت 121-122 کا ہے۔ ﴿وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ﴾... شَاكِلَةٌ کے معنی نیت، دین، طریقے اور مزاج وطبیعت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں کافر کے لیے ذم اور مومن کے لیے مدح کا پہلو ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ایسا عمل کرتا ہے جو اس کے اخلاق وکردار پر مبنی ہوتا ہے جو اس کی عادت وطبیعت ہوتی ہے۔ الإسراء
85 1- روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی (ﷺ) سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری ( صحيح بخاری، تفسير سورة بنی إسرائيل ومسلم، كتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب سؤال اليهود النبيعن الروح ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ الإسراء
86 1- یعنی وحی کے ذریعے سے جو تھوڑا بہت علم دیا گیا ہے اگر اللہ تعالٰی چاہے تو اسے بھی سلب کرلے یعنی دل سے محو کر دے یا کتاب سے ہی مٹا دے۔ 2- جو دوبارہ اس وحی کو آپ کی طرف لوٹا دے۔ الإسراء
87 1- کہ اس نے نازل کردہ وحی کو سلب نہیں کیا یا وحی سے آپ (ﷺ) کو مشرف فرمایا۔ الإسراء
88 1- قرآن مجید سے متعلق یہ چلینج اس سے قبل بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہ چلینج آج تک تشنہ جواب ہے۔ الإسراء
89 1- یہ آیت اسی سورت کے شروع میں بھی گزر چکی ہے۔ الإسراء
90 1- ایمان لانے کے لئے قریش مکہ نے یہ مطالبات پیش کئے۔ الإسراء
91 الإسراء
92 1- یعنی ہمارے روبرو آکر کھڑے ہو جائیں اور ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ الإسراء
93 1- زُخْرُف کے اصل معنی زینت کے ہیں، مُزَخْرَفٌ مزین چیز کو کہتے ہیں۔ لیکن یہاں اسکے معنی سونے کے ہیں۔ 2- یعنی ہم میں سے ہر شخص اسے صاف صاف خود پڑھ سکتا ہو۔ 3- مطلب یہ ہے کہ میرے رب کے اندر تو ہر طرح کی طاقت ہے، وہ چاہے تو تمہارے مطالبے آن واحد میں لفظ ”کُنْ“ سے پورے فرما دے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو (تمہاری طرح) ایک بشر ہوں۔ کیا کوئی بشر ان چیزوں پر قادر ہے؟ جو مجھ سے مطالبہ کرتے ہو۔ ہاں، اس کے ساتھ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ لیکن رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اور وہ میں نے پہنچا دیا اور پہنچا رہا ہوں۔ لوگوں کے مطالبات پر معجزات ظاہر کر کے دکھانا یہ رسالت کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ اگر اللہ چاہے تو صدق رسالت کے لئے ایک آدھا معجزہ دکھا دیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی خواہشات پر اگر معجزے دکھانے شروع کر دیئے جائیں تو یہ سلسلہ کہیں بھی جا کر نہیں رک سکے گا ہر آدمی اپنی خواہش کے مطابق نیا معجزہ دیکھنے کا آرزو مند ہوگا اور رسول پھر اسی کام پر لگا رہے گا تبلیغ ودعوت کا اصل کام ٹھپ ہو جائے گا اس لیے معجزات کا صدور صرف اللہ کی مشیت سے ہی ممکن ہے اور میں بھی اس کی مشیت میں دخل اندازی کا مجاز نہیں۔ الإسراء
94 1- یعنی کسی انسان کا رسول ہونا، کفار ومشرکین کے لئے سخت تعجب کی بات تھی، وہ یہ بات مانتے ہی نہ تھے کہ ہمارے جیسا انسان، جو ہماری طرح چلتا پھرتا ہے، ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، ہماری طرح انسانی رشتوں میں منسلک ہے، وہ رسول بن جائے۔ یہی تعجب ان کے ایمان میں مانع رہا۔ الإسراء
95 1- اللہ تعالٰی نے فرمایا جب زمین میں انسان بستے ہیں تو ان کی ہدایت کے لئے رسول بھی انسان ہی ہوں گے۔ غیر انسان رسول، انسانوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دے ہی نہیں سکتا۔ ہاں اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ان کے لئے رسول بھی یقینا فرشتے ہی ہوتے۔ الإسراء
96 1- یعنی میرے ذمے جو تبلیغ ودعوت تھی، وہ میں نے پہنچا دی، اس بارے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے، کیونکہ ہرچیز کا فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔ الإسراء
97 1- میری تبلیغ ودعوت سے کون ایمان لاتا ہے، کون نہیں، یہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے، میرا کام صرف تبلیغ ہی ہے۔ 2- حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے تعجب کا اظہار کیا کہ اوندھے منہ کس طرح حشر ہوگا؟ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا، جس اللہ نے ان کو پیروں سے چلنے کی قوت عطا کی ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں منہ کے بل چلا دے۔ ( صحيح بخاری، سورة الفرقان، مسلم، صفة القيامة والجنة والنار، باب يحشر الكافر على وجهه 3- یعنی جس طرح وہ دنیا میں حق کے معاملے میں اندھے، بہرے اور گونگے بنے رہے، قیامت والے دن بطور جزا اندھے، بہرے اور گونگے ہوں گے۔ الإسراء
98 1- یعنی جہنم کی یہ سزا ان کو اس لئے دی جائیگی کہ انہوں نے ہماری نازل کردہ آیات کی تصدیق نہیں کی اور کائنات میں پھیلی ہوئی تکوینی آیات پر غور وفکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے وقوع قیامت اور بعث بعد الموت کو محال خیال کیا اور کہا کہ ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد ہمیں ایک نئی پیدائش کس طرح مل سکتی ہے؟۔ الإسراء
99 1- اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہ ان جیسوں کی پیدائش یا دوبارہ انہیں زندگی دینے پر بھی قادر ہے، کیونکہ یہ تو آسمان و زمین کی تخلیق سے زیادہ آسان ہے۔ ﴿لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ﴾ ( المؤمن:57)۔ ”آسمان اور زمین کی پیدائش انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا اور مشکل کام ہے“۔ اسی مضمون کو اللہ تعالٰی نے سورۃ الاحقاف 33 میں اور سورہ یٰسین 81-82 میں بھی بیان فرمایا ہے۔ 2- اس اجل (وقت مقرر) سے مراد موت یا قیامت ہے۔ یہاں سیاق کلام کے اعتبار سے قیامت مراد لینا زیادہ صحیح ہے یعنی ہم نے انہیں دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے اٹھانے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ﴿وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلا لأَجَلٍ مَعْدُودٍ﴾ ( هود ۔104)۔ ”ہم ان کے معاملے کو ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی مؤخر کر رہے ہیں“۔ الإسراء
100 1- خَشْيَةَ الإنْفَاقِ کا مطلب ہے۔ خَشْيَةَ أَنْ يُنْفِقُوا فَيَفْتَقِرُوا۔ اس خوف سے کہ خرچ کر کے ختم کر ڈالیں گے، اس کے بعد فقیر ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ خزانہ الٰہی جو ختم ہونے والا نہیں لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے، اس لئے بخل سے کام لیتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا ﴿اَمْ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا﴾ (النساء:53)۔ یعنی ان کو اگر اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں۔ نقیر کھجور کی گٹھلی میں جو گڑھا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں یعنی تل برابر بھی کسی کو نہ دیں یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں جس طرح حدیث میں ہے اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں کس قدر خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں۔ ”وہ بھرے کے بھرے ہیں“۔ ( البخاری- كتاب التوحيد، باب ﴿وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ ﴾- مسلم، كتاب الزكاة، باب الحث على النفقة وتبشير المنفق بالخلف الإسراء
101 1- وہ نو معجزے ہیں۔ ہاتھ، لاٹھی، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان، جراد (ٹڈی دل) قُمّل (کھٹمل، جوئیں) ضفادع (مینڈک) اور خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، بادلوں کا سایہ کرنا، من و سلوی وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) نے انْفِلاقُ بَحْرٍ (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے، ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔ الإسراء
102 الإسراء
103 الإسراء
104 1- بظاہر اس سرزمین سے مراد مصر ہے، جس سے فرعون نے موسیٰ (عليہ السلام) اور ان کی قوم کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گزار کر فلسطین میں داخل ہوئے۔ اس کی شہادت سورہ اعراف وغیرہ میں قرآن کے بیان سے ملتی ہے۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے۔ الإسراء
105 1- یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شَدِيدُ الْقُوَى، الأَمِينُ، الْمَكِينُ اور الْمُطَاعُ فِي الْمَلإِ الأَعْلَى ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ 2- مُبَشِّرٌ اطاعت گزار مومن کے لئے اور نَذِيرٌ نافرمان کے لئے۔ الإسراء
106 1- فَرَقْنَاهُ کے ایک دوسرے معنی بَيَّنَّاهُ وَأَوْضَحْنَاهُ (ہم نے اسے کھول کر وضاحت سے بیان کر دیا) بھی کئے گئے ہیں۔ الإسراء
107 1- یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انہیں آخری رسول (ﷺ) کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن ورسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔ الإسراء
108 1- مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ جو ہرچیز سے ناواقف ہیں اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو آپ پروا نہ کریں اس لیے کہ جو اہل علم ہیں اور وحی ورسالت کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں بلکہ قرآن سن کر وہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے اور رب کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں۔ الإسراء
109 1- ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑنے کا دوبارہ ذکر کیا، کیونکہ پہلا سجدہ اللہ کی تعظیم کے لئے اور بطور شکر تھا اور قرآن سن کر جو خشیت و رقت ان پر طاری ہوئی اور اس کی تاثیر واعجاز سے جس درجہ وہ متأثر ہوئے، اس نے دوبارہ انہیں سجدہ ریز کر دیا۔ الإسراء
110 1- جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ”رحمٰن“ یا ”رحیم“ نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) 2- اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ (ﷺ) چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالٰی نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ (رضی الله عنہم) بھی نہ سن سکیں( البخاری- التوحيد، باب قول الله تعالى ﴿ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ ﴾- ومسلم، الصلاة، باب التوسط في القراءة )، خود نبی (ﷺ) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی (ﷺ) کا گزر حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر (رضی الله عنہ) کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ (ﷺ) نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ)نے فرمایا میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر (رضی الله عنہ) سے فرمایا ”اپنی آواز قدرے بلند کرو“ اور حضرت عمر (رضی الله عنہ) سے کہا ”اپنی آواز کچھ پست رکھو“ ( مشكاة باب صلاة الليل، بحوالہ أبو داود ترمذي )۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر) الإسراء
111 الإسراء
0 الكهف
1 1- یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی ودنیاوی مصالح کی رعایت وحفاظت کرنے والی کتاب۔ الكهف
2 1- مِنْ لَّدنہ، جو اس اللہ کی طرف سے صادر یا نازل ہونے والا ہے۔ الكهف
3 الكهف
4 1- جیسے یہودیوں عیسائیوں اور بعض مشرکین (فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں) کا عقیدہ ہے۔ الكهف
5 1- اس کلمہ تہمت سے مراد یہی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جو نرا جھوٹ ہے۔ الكهف
6 1- بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس بات) سے مراد قرآن کریم ہے۔ کفار کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش آپ (ﷺ) رکھتے تھے اور ان کے اعراض وگریز سے آپ (ﷺ) کو سخت تکلیف ہوتی تھی، اس میں آپ (ﷺ) کی اسی کیفیت اور جذبے کا اظہار ہے۔ الكهف
7 1- روئے زمین میں جو کچھ ہے، حیوانات، جمادات، نباتات، معدنیات اور دیگر مدفون خزانے، یہ سب دنیا کی زینت اور رونق ہیں۔ الكهف
8 1- صَعِيدًا صاف میدان۔ جُرُزٌ۔ بالکل ہموار۔ جس میں کوئی درخت وغیرہ نہ ہو، یعنی ایک وقت آئے گا کہ یہ دنیا اپنی تمام تر رونقوں سمیت فنا ہو جائے گی اور روئے زمین ایک چٹیل اور ہموار میدان کی طرح ہو جائے گی، اس کے بعد ہم نیک وبد کو ان کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔ الكهف
9 1- یعنی یہ واحد بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدائش اور اس کا نظام، شمس و قمر اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بیشمار نشانیاں، کیا تعجب انگیز نہیں ہیں۔ کَھْف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے، بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے، بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع تھا بعض کہتے ہیں رَقِیْم بمعنی مَرْقُوْم ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی، جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اسے رقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر نام تحریر ہیں۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے اب الرقیب کہا جاتا ہے جو مرور زمانہ کے سبب الرقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ الكهف
10 1- یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں اصحاب کہف کہا گیا، (تفصیل آگے آرہی ہے) انہوں نے جب اپنے دین کو بچاتے ہوئے غار میں پناہ لی تو یہ دعا مانگی۔ اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لئے بڑا سبق ہے، آج کل کے نوجوانوں کا بیشتر وقت فضولیات میں برباد ہوتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ کاش! آج کے مسلمان نوجوان اپنی جوانیوں کو اللہ کی عبادت میں صرف کریں۔ الكهف
11 1- یعنی کانوں پر پردے ڈال کر ان کے کانوں کو بند کر دیا تاکہ باہر کی آوازوں سے ان کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں گہری نیند سلا دیا۔ الكهف
12 1- ان دو گروہوں سے مراد اختلاف کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ یا تو اسی دور کے لوگ تھے جن کے درمیان ان کی بابت اختلاف ہوا، یا عہد رسالت کے مومن وکافر مراد ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصحاب کہف ہی ہیں ان کے دو گروہ بن گئے تھے۔ ایک کہتا تھا ہم اتنا عرصہ سوئے رہے، دوسرا، اس کی نفی کرتا اور فریق اول سے کم وبیش مدت بتلاتا۔ الكهف
13 1- اب اجمال کے بعد تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ نوجوان، بعض کہتے ہیں عیسائیت کے پیروکار تھے اور بعض کہتے ہیں ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) سے پہلے کا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا، دقیانوس، جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے ان کے چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان وزمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے۔ فِتْیِۃ جمع قلت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ان کی تعداد 9 یا اس سے بھی کم تھی۔ یہ الگ ہو کر کسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کرتے، آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ کا چرچا ہوا، تو بادشاہ تک بات پہنچ گئی اور اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر کے ان سے پوچھا، تو وہاں انہوں نے برملا اللہ کی توحید بیان کی بالآخر پھر بادشاہ اور اپنی مشرک قوم کے ڈر سے اپنے دین کو بچانے کے لئے آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں پناہ گزین ہوگئے، جہاں اللہ تعالٰی نے ان پر نیند مسلط کر دی اور وہ تین سو نو (309) سال وہاں سوئے رہے۔ الكهف
14 1- یعنی ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے خویش واقارب کی جدائی اور عیش وراحت کی زندگی سے محرومی کا جو صدمہ انہیں اٹھانا پڑا، ہم نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا تاکہ وہ صدمات کو برداشت کرلیں۔ نیز حق گوئی کا فریضہ بھی جرأت اور حوصلے سے ادا کر سکیں۔ 2- اس قیام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک وہ طلبی ہے، جو بادشاہ کے دربار میں ان کی ہوئی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے توحید کا یہ وعظ بیان کیا، بعض کہتے ہیں کہ شہر سے باہر آپس میں ہی کھڑے، ایک دوسرے کو توحید کی بات سنائی، جو فرداً فرداً اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید باہم اکٹھے ہوگئے۔ 3- شَطَطًا کے معنی جھوٹ کے یا حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ الكهف
15 الكهف
16 1- یعنی جب تم نے اپنی قوم کے معبودوں سے کنارہ کشی کر لی ہے، تو اب جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کر لو۔ یہ اصحاب کہف نے آپس میں کہا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ایک غار میں جا چھپے، جب ان کے غائب ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا، لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے، جس طرح نبی (ﷺ) کی تلاش میں کفار مکہ غار ثور تک پہنچ جانے کے باوجود، جس میں آپ (ﷺ) حضرت ابو بکر (رضی الله عنہ) کے ساتھ موجود تھے، ناکام رہے تھے۔ الكهف
17 1- یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کر نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی، حالانکہ وہ غار میں کشادہ جگہ پر محو استراحت تھے۔ فَجْوَة کے معنی ہیں کشادہ جگہ۔ 2- یعنی سورج کا اس طرح نکل جانا کہ باوجود کھلی جگہ ہونے کے وہاں دھوپ نہ پڑے، اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ 3- جیسے دقیانوس بادشاہ اور اس کے پیروکار ہدایت سے محروم رہے تو کوئی انہیں راہ یاب نہیں کر سکا۔ الكهف
18 1- أَيْقَاظٌ, يَقِظٌ کی جمع اور رُقُودٌ راقد کی جمع ہے وہ بیدار اس لئے محسوس ہوتے تھے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھیں، جس طرح جاگنے والے شخص کی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں زیادہ کروٹیں بدلنے کی وجہ سے وہ بیدار نظر آتے تھے۔ 2- تاکہ ان کے جسموں کو مٹی نہ کھا جائے۔ 3- یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالٰی کی طرف سے انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جاسکے۔ الكهف
19 1- یعنی جس طرح ہم نے انہیں اپنی قدرت سے سلا دیا تھا، اسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انہیں اٹھا دیا اور اس حال میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے، اسی لئے آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے سوال کیا۔ 2- گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا، یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم، دن کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ 3- تاہم کثرت نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔ 4- بیدار ہونے کے بعد، خوراک جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس کا سر وسامان کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ 5- احتیاط اور نرمی کی تاکید اسی اندیشے کے پیش نظر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل کر ایک ویرانے میں آئے تھے۔ اسے تاکید کی کہ کہیں اس کے رویے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہو جائے اور کوئی نئی افتاد ہم پر نہ آپڑے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ الكهف
20 1- یعنی آخرت کی جس کامیابی کے لئے ہم نے صعوبت، مشقت برداشت کی، ظاہر بات ہے کہ اگر اہل شہر نے ہمیں مجبور کرکے پھر آبائی دین کی طرف لوٹا دیا، تو ہمارا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا، ہماری محنت بھی برباد جائے گی اور ہم نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ الكهف
21 1- یعنی جس طرح ہم نے سلایا اور جگایا، اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق یہ آگاہی اس طرح ہوئی جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا سکہ لے کر شہر گیا، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا، تو وہ حیران ہوا، اس نے ساتھ والی دکان والے کو دکھایا، وہ دیکھ کر حیران ہوا، جب کہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں، لیکن اس ”کل“ کو تین صدیاں گزر چکی تھیں، لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے؟ لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ نہ ملا ہو۔ یہ بات بادشاہ یا حاکم مجاز تک پہنچی اور اس ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور اصحاب کہف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے انہیں پھر وفات دے دی (ابن کثیر) 2- یعنی اصحاب کہف کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کا وعدہ الٰہی سچا ہے، منکرین کے لئے اس واقعہ میں اللہ کی قدرت کا ایک نمونہ موجود ہے۔ 3- إِذْ یا تو ظرف ہے أَعْثَرْنَا کا، یعنی ہم نے انہیں اس وقت ان کے حال سے آگاہ کیا، جب وہ بعث بعد الموت یا واقعہ قیامت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ یا یہاں اذْكُرْ محذوف ہے، یعنی وہ وقت یاد کرو، جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ 4- یہ کہنے والے کون تھے، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کے اہل ایمان تھے، بعض کہتے ہیں بادشاہ اور اس کے ساتھی تھے، جب جاکر انہوں نے ملاقات کی اور اس کے بعد اللہ نے انہیں پھر سلا دیا، تو بادشاہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ان کی حفاظت کے لئے ایک عمارت بنا دی جائے۔ 5- جھگڑا کرنے والوں کو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان کی بابت صحیح علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ 6- یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک؟ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو۔ کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا۔ [لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ ] (البخاری، كتاب الجنائز، باب ما يكره من اتخاذ المساجد على القبور- ومسلم كتاب المساجد واتخاذ الصور فيها )۔ اللہ تعالٰی یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا، حضرت عمر کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال (عليہ السلام) کی قبر دریافت ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کر دیا جا‏ئے تاکہ لوگوں کے علم میں نہ آئے کہ فلاں قبر فلاں پیغمبر کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر۔ الكهف
22 1- یہ کہنے والے اور ان کی مختلف تعداد بتلانے والے عہد رسالت کے مؤمن اور کافر تھے، خصوصاً اہل کتاب جو کتب آسمانی سے آگاہی اور علم کا دعویٰ رکھتے تھے۔ 2- یعنی علم ان میں سے کسی کے پاس نہیں، جس طرح بغیر دیکھے کوئی پتھر مارے، یہ بھی اس طرح اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں۔ 3- اللہ تعالٰی نے صرف تین قول بیان فرمائے، پہلے وہ دو قولوں کو رَجْمَا بِالْغَیْبِ (ظن وتخمین) کہہ کر ان کو کمزور رائے قرار دیا اور اس تیسرے قول کا ذکر اس کے بعد کیا، جس سے اہل تفسیر نے استدلال کیا ہے کہ یہ انداز اس قول کی صحت کی دلیل ہے اور فی الواقع ان کی اتنی ہی تعداد تھی (ابن کثیر) 4- بعض صحابہ (رضی الله عنہم) سے مروی ہے کہ وہ کہتے تھے میں بھی ان کم لوگوں میں سے ہوں جو یہ جانتے ہیں کہ اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی؟ وہ صرف سات تھے جیسا کہ تیسرے قول میں بتلایا گیا ہے (ابن کثیر) 5- یعنی صرف ان ہی باتوں پر اکتفاء کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے سے کردی گئی ہے۔ یا تعین عدد میں بحث وتکرار نہ کریں، صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعیین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ 6- یعنی بحث کرنے والوں سے ان کی بابت کچھ نہ پوچھیں، اس لئے کہ جس سے پوچھا جائے، اس کو پوچھنے والے سے زیادہ علم ہونا چاہئے، جب کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی یقینی علم کا ایک ذریعہ وحی، موجود ہے، جب کہ دوسروں کے پاس ذہنی تصور کے سوا کچھ بھی نہیں۔ الكهف
23 الكهف
24 1- مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی سے تین باتیں پوچھی تھیں، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کون تھے؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنا نبی (ﷺ) نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اس کے بعد 15 دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے۔ پھر جب آئے تو اللہ تعالٰی نے ان شاء اللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔ آیت میں ”غد“ سے مراد مستقبل ہے یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو ان شاء اللہ ضرور کہا کرو۔ کیونکہ انسان کو تو پتہ نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے، اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں۔ 2- یعنی اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت ان شاء اللہ کہنا بھول جاؤ، تو جس وقت یاد آجائے ان شاء اللہ کہہ لیا کرو، یا پھر رب کو یاد کرنے کا مطلب، اس کی تسبیح و تحمید اور اس سے استفغار ہے۔ 3- یعنی میں جس کا عزم ظاہر کر رہا ہوں، ممکن ہے اللہ تعالٰی اس سے زیادہ بہتر اور مفید کام کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔ الكهف
25 1- جمہور مفسرین نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے 309 سال بنتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ انہیں لوگوں کا قول ہے جو ان کی مختلف تعداد بتاتے ہیں، جس کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے ”کہ اللہ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم ہے“ جس کا مطلب وہ مذکورہ مدت کی نفی لیتے ہیں۔ لیکن جمہور کی تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور اس بتلائی ہوئی مدت سے اختلاف کرے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتلائی ہے تو یہی صحیح ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے؟۔ الكهف
26 1- یہ اللہ کی صفت علم وخبر کی مزید وضاحت ہے۔ الكهف
27 1- ویسے تو یہ حکم عام ہے کہ جس چیز کی بھی وحی آپ کی طرف کی جائے، اس کی تلاوت فرمائیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں۔ لیکن اصحاب کہف کے قصے کے خاتمے پر اس حکم سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں لوگ جو چاہیں، کہتے پھریں۔ لیکن اللہ تعالٰی نے اس کے بارے میں اپنی کتاب میں جو کچھ اور جتنا کچھ بیان فرما دیا ہے، وہی صحیح ہے، وہی لوگوں کو پڑھ کر سنا دیجئے، اس سے زیادہ دیگر باتوں کی طرف دھیان نہ دیجئے۔ 2- یعنی اگر اسے بیان کرنے سے گریز و انحراف کیا، یا اس کے کلمات میں تغیر و تبدیلی کی کوشش کی، تو اللہ سے آپ کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) سے ہے، لیکن اصل مخاطب امت ہے۔ الكهف
28 1- یہ وہی حکم ہے جو اس کے قبل سورہ الا نعام: 52 میں گزر چکا ہے۔ مراد ان سے وہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہیں جو غریب اور کمزور تھے۔ جن کے ساتھ بیٹھنا اشراف قریش کو گوارا نہ تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی (ﷺ) کے ساتھ تھے، میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابی (رضی الله عنہم) اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بات سنیں، نبی (ﷺ) کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع فرما دیا (صحيح مسلم- فضائل الصحابة، باب فضل سعد بن أبي وقاص) 2- یعنی ان کو دور کر کے آپ اصحاب شرف واہل غنی کو اپنے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ 3- فُرُطًا اگر افراط سے ہو تو معنی ہوں گے حد سے متجاوز اور اگر تفریط سے ہو تو معنی ہوں گے کہ ان کا کام تفریط پر مبنی ہے جس کا نتیجہ ضیاع اور ہلاکت ہے۔ الكهف
29 الكهف
30 1- قرآن کے انداز بیان کے مطابق جہنمیوں کے ذکر کے بعد اہل جنت کا تذکرہ ہے تاکہ لوگوں کے اندر جنت حاصل کرنے کا شوق ورغبت پیدا ہو۔ الكهف
31 1- زمانہ نزول قرآن اور اس سے ما قبل رواج تھا کہ بادشاہ، رؤسا سردران قبائل اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنتے تھے، جس سے ان کی امتیازی حیثیت نمایاں ہوتی تھی۔ اہل جنت کو بھی سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے۔ 2- سُنْدُس باریک ریشم اور إِسْتَبْرَق موٹا ریشم۔ دنیا میں مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس ممنوع ہیں، جو لوگ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں ان محرمات سے اجتناب کریں گے، انہیں جنت میں یہ ساری چیزیں میسر ہونگی۔ وہاں کوئی چیز ممنوع نہیں ہوگی بلکہ اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے، وہ موجود ہوگی۔ ﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ﴾۔ جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب جنت میں موجود ہے۔ الكهف
32 1- مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو شخص کون تھے؟ اللہ تعالٰی نے تفہیم کے لئے بطور مثال ان کا تذکرہ کیا ہے یا واقعی دو شخص ایسے تھے؟ اگر تھے تو یہ بنی اسرائیل میں گزرے ہیں یا اہل مکہ میں تھے، ان میں ایک مومن اور دوسرا کافر تھا۔ 2- جس طرح چار دیواری کے ذریعے سے حفاظت کی جاتی ہے، اس طرح ان باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے، جو باڑ اور چار دیواری کا کام دیتے تھے۔ 3- یعنی دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی جن سے غلہ جات کی فصلیں حاصل کی جاتی تھیں۔ یوں دونوں باغ غلے اور میووں کے جامع تھے۔ الكهف
33 1- یعنی اپنی پیداوار میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے بلکہ بھرپور پیداوار دیتے تھے۔ 2- تاکہ باغوں کو سیراب کرنے میں کوئی انقطاع واقع نہ ہو۔ یا بارانی علاقوں کی طرح بارش کے محتاج نہ رہیں۔ الكهف
34 1- یعنی باغوں کے مالک نے، جو کافر تھا، اپنے ساتھی سے کہا جو مومن تھا۔ 2- نَفَر (جتھے) سے مراد اولاد اور نوکر چاکر ہیں۔ الكهف
35 الكهف
36 1- یعنی وہ کافر عجب اور غرور میں ہی مبتلا نہیں ہوا بلکہ اس کی مد ہوشی اور مستقبل کی حسین اور لمبی امیدوں نے اسے اللہ کی گرفت اور سزا کے عمل سے بالکل غافل کر دیا۔ علاوہ ازیں اس نے قیامت کا ہی انکار کر دیا، پھر مذاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر قیامت برپا ہوئی بھی تو وہاں بھی حسن انجام میرا مقدر ہوگا۔ جن کا کفر طغیان حد سے تجاوز کر جاتا ہے، وہ مست مئے پندار ہو کر ایسے ہی متکبرانہ دعوے کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا: ﴿وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَى﴾ (حم السجدة: 50)۔ اگر مجھے رب کی طرف لوٹایا گیا تو وہاں بھی میرے لیے اچھائیاں ہی ہیں۔ ﴿أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا﴾ (مريم:77)۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا اور دعوی کیا کہ آخرت میں بھی مجھے مال واولاد سے نوازا جائے گا۔ الكهف
37 1- اس کی یہ باتیں سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کو وعظ وتبلیغ کے انداز میں سمجھایا کہ تو اپنے خالق کے ساتھ کفر کا ارتکاب کر رہا ہے جس نے تجھے مٹی اور قطرہ پانی سے پیدا کیا ابو البشر حضرت آدم (عليہ السلام) چونکہ مٹی سے بنائے گئے تھے اس لیے انسانوں کی اصل مٹی ہی ہوئی، پھر قریبی سبب وہ نطفہ بنا جو باپ کی صلب سے نکل کر رحم مادر میں گیا وہاں نو مہینے اس کی پرورش کی پھر اسے پورا انسان بنا کر ماں کے پیٹ سے نکالا بعض کے نزدیک مٹی سے پیدا ہونے کا مطلب ہے کہ انسان جو خوراک کھاتا ہے وہ سب زمین سے یعنی مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہے اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے جو عورت کے رحم میں جا کر انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے یوں بھی ہر انسان کی اصل مٹی ہی قرار پاتی ہے ناشکرے انسان کو اس کی اصل یاد دلا کر اسے اس کے خالق اور رب کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تو اپنی حقیقت اور اصل پر غور کر اور پھر رب کے ان احسانات کو دیکھ کہ تجھے اس نے کیا کچھ بنا دیا اور اس عمل تخلیق میں کوئی اس کا شریک اور مددگار نہیں ہے یہ سب کچھ کرنے والا صرف اور صرف وہ اللہ تعالٰی ہی ہے جس کو ماننے کے لیے تو تیار نہیں ہے آہ، کس قدر یہ انسان ناشکرا ہے؟۔ الكهف
38 1- یعنی میں تیری طرح بات نہیں کروں گا بلکہ میں تو اللہ کی ربوبیت اور اس کی واحدنیت کا اقرار واعتراف کرتا ہوں اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا ساتھی مشرک ہی تھا۔ الكهف
39 1- اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے کہا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت سرکشی اور غرور کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ کہا ہوتا، "مَا شَاءَ اللهُ لا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ" یعنی جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے، وہ چاہے تو اسے باقی رکھے اور چاہے تو فنا کر دے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ جس کو کسی کا مال، اولاد یا حال اچھا لگے تو اسے[ مَا شَاءَ اللهُ لا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ ] پڑھنا چاہیے (تفسير ابن كثير- بحوالہ مسند ابو يعلى) الكهف
40 1- دنیا یا آخرت میں۔ یا دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں۔ 2- حَسْبَان، غُفْرَان کے وزن پر۔ حساب سے ہے یعنی ایسا عذاب، جو کسی کے کرتوتوں کے نتیجے میں آئے۔ یعنی آسمانی عذاب کے ذریعے سے وہ محاسبہ کر لے۔ اور یہ جگہ جہاں اس وقت سرسبز وشاداب باغ ہے، چٹیل اور صاف میدان بن جائے۔ الكهف
41 1- یا درمیان میں جو نہر ہے جو باغ کو شادابی اور زرخیزی کا باعث ہے، اس کے پانی کو اتنا گہرا کر دے کہ اس سے پانی کا حصول ہی ناممکن ہو جائے اور جہاں پانی زیادہ گہرائی میں چلا جائے تو پھر وہاں بڑے بڑے ہارس پاور کی موٹریں اور مشینیں بھی پانی کو اوپر کھینچ لانے میں ناکام رہتی ہیں۔ الكهف
42 1- یہ کنایہ ہے ہلاکت و فنا سے۔ یعنی سارا باغ ہلاک کر ڈالا۔ 2- یعنی باغ کی تعمیر و اصلاح اور کاشتکاری کے اخراجات پر کف افسوس ملنے لگا۔ ہاتھ ملنا کنایہ، یہ ہے ندامت سے۔ 3- یعنی جن چھتوں، چھپروں پر انگوروں کی بیلیں تھیں، وہ سب زمین پر آرہیں اور انگوروں کی ساری فصل تباہ ہوگئی۔ 4- اب اسے احساس ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اس کے احکام کا انکار کرنا اور اس کے مقابلے میں سرکشی، کسی طرح بھی ایک انسان کے لئے زیبا نہیں، لیکن اب حسرت وافسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ الكهف
43 1- جس جتھے پر اس کو ناز تھا، وہ بھی اس کے کام نہیں آیا نہ وہ خود ہی اللہ کے عذاب سے بچنے کا کوئی انتظام کر سکا۔ الكهف
44 1- وَلايَةٌ ۔ کے معنی موالات اور نصرت کے ہیں یعنی اس مقام پر ہر مومن و کافر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کی مدد کرنے پر اور اس کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پھر اس موقع پر بڑے بڑے سرکش اور جبار بھی اظہار ایمان پر مجبور ہو جاتے ہیں، گو اس وقت کا ایمان نافع اور مقبول نہیں۔ جس طرح قرآن نے فرعون کی بابت نقل کیا ہے کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہنے لگا۔ ﴿آمَنْتُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ (سورۂ یونس:90)۔ ”میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر بنو اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں“۔ دوسرے کفار کی بابت فرمایا گیا: ”جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہا ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن کو ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ان کا انکار کرتے ہیں“۔ (سورۃ المومن: 84) اگر ولایت واو کے کسرے کے ساتھ ہو تو پھر اس کے معنی حکم اور اختیارات کے ہیں جیسا کہ ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر۔ 2- یعنی وہی اپنے دوستوں کو بہتر بدلہ دینے والا اور حسن عاقبت سے مشرف کرنے والا ہے۔ الكهف
45 1- اس آیت میں دنیا کی بے ثباتی اور ناپائداری کو کھیتی کی مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی میں لگے پودوں اور درختوں پر جب آسمان سے بارش برستی ہے تو پانی سے ملکر کھیتی لہلہا اٹھتی ہے، پودے اور درخت حیات نو سے شاداب ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ کھیتی سوکھ جاتی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یا فصل پک جانے کے سبب تو پھر ہوائیں اس کو اڑائے پھرتی ہیں۔ ہوا کا ایک جھونکا کبھی اسے دائیں اور کبھی بائیں جانب جھکا دیتا ہے۔ دنیا کی زندگی بھی ہوا کے ایک جھونکے یا اس پانی کے بلبلے یا کھیتی ہی کی طرح ہے، جو اپنی چند روزہ بہار دکھا کر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اور یہ سارے تصرفات اس ہستی کے ہاتھ میں ہیں جو ایک ہے اور ہرچیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالٰی نے دنیا کی مثال قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان فرمائی ہے۔ (مثلًا :یونس:25، الزمر:21، حدید: 50، وغیرہا من الآیات) الكهف
46 1- اس میں ان اہل دنیا کا رد ہے جو دنیا کے مال اسباب، قبیلہ اور خاندان اور آل اولاد پر فخر کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: یہ چیزیں تو دنیا فانی کی عارضی زینت ہیں۔ آخرت میں یہ چیزیں کچھ کام نہیں آئیں گی۔ اسی لئے اس سے آگے فرمایا کہ آخرت میں کام آنے والے عمل وہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں۔ 2- باقیات صالحات (باقی رہنے والی نییکیاں) کون سی یا کون کون سی ہیں؟ کسی نے نماز کو، کسی نے تحمید و تسبیح اور تکبیر و تہلیل کو اور کسی نے اعمال خیر کو مصداق قرار دیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے اور تمام نیکیوں کو شامل ہے۔ تمام فرائض وواجبات اور سنن ونوافل سب باقیات صالحات ہیں بلکہ برے کاموں سے اجتناب بھی ایک عمل صالح ہے، جس پر عند اللہ اجر وثواب کی امید ہے۔ الكهف
47 1- یہ قیامت کی ہولناکیاں اور بڑے بڑے واقعات کا بیان ہے۔ پہاڑوں کو چلائیں گے کا مطلب، پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ جائیں گے۔ ﴿وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ﴾ (القارعة ۔5) ”اور پہاڑ ایسے ہونگے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون“، مزید دیکھئے سورۂ طور: 9، 10۔ سورۂ نمل: 88۔ سورۂ طہٰ: 105، 107۔ زمین سے جب پہاڑ جیسی مضبوط چیزیں ختم ہو جائیں گی، تو مکانات، درخت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کس طرح وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ اسی لئے آگے فرمایا ”تو زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا“۔ 2- یعنی اولین و آخرین، چھوٹے بڑے، کافر ومومن سب کو جمع کریں گے، کوئی زمین کی تہ میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کسی جگہ چھپ سکے گا۔ الكهف
48 1- اس کے معنی ہیں کہ ایک ہی صف میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے، یا صفوں کی شکل میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونگے۔ الكهف
49 الكهف
50 1- قرآن کی اس صراحت نے واضح کر دیا کہ شیطان فرشتہ نہیں تھا، فرشتہ اگر ہوتا تو حکم الٰہی سے سرتابی کی اسے مجال ہی نہ ہوتی، کیونکہ فرشتوں کی صفت اللہ تعالٰی نے بیان فرمائی ہے ﴿لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ﴾ (التحریم:6)۔ ”وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے“۔ اس صورت میں یہ اشکال رہتا ہے اگر وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر اللہ کے حکم کا وہ مخاطب ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے مخاطب تو فرشتے تھے انہیں کو سجدے کا حکم دیا گیا تھا صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ وہ فرشتہ یقینا نہیں تھا لیکن وہ فرشتوں کے ساتھ ہی رہتا تھا اور ان ہی میں شمار ہوتا تھا اس لیے وہ بھی ”اسْجُدُوا لِآدَمَ“ کے حکم کا مخاطب تھا اور سجدہ آدم کے حکم کے ساتھ اس کا خطاب کیا جانا قطعی ہے ارشاد باری ہے۔ ﴿مَا مَنَعَكَ أَلا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ﴾۔ ”جب میں نے تجھے حکم دے دیا تو پھر تو نے سجدہ کیوں نہ کیا“۔ 2- فِسْق کے معنی ہوتے ہیں نکلنا، چوہا جب اپنے بل سے نکلتا ہے تو کہتے ہیں فَسَقَتِ الْفَأْرَةُ مِنْ جُحْرِهَا، شیطان بھی سجدہ تعظیم و تحیہ کا انکار کرکے رب کی اطاعت سے نکل گیا۔ 3- یعنی کیا تمہارے لئے یہ صحیح ہے کہ تم ایسے شخص کو اور اسکی نسل کو دوست بناؤ جو تمہارے باپ آدم (عليہ السلام) کا دشمن، تمہارا دشمن اور تمہارے رب کا دشمن ہے اور اللہ کو چھوڑ کر اس شیطان کی اطاعت کرو؟۔ 4- ایک دوسرا ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے ظالموں نے کیا ہی برا بدل اختیار کیا ہے یعنی اللہ کی اطاعت اور اسکی دوستی کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت اور اسکی دوستی جو اختیار کی ہے تو یہ بہت ہی برا بدل ہے جسے ان ظالموں نے اپنایا ہے۔ الكهف
51 1- یعنی آسمان اور زمین کی پیدائش اور اس کی تدبیر میں، بلکہ خود شیاطین کی پیدائش میں ہم نے ان سے یا ان میں سے کسی ایک سے کوئی مدد حاصل نہیں کی، یہ تو اسوقت موجود بھی نہ تھے۔ پھر تم اس شیطان اور اس کی ذریت کی پوجا یا ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو؟ اور میری عبادت واطاعت سے تمہیں گریز کیوں ہے؟ جب کہ یہ مخلوق ہیں اور میں ان سب کا خالق ہوں۔ 2- اور بفرض محال اگر میں کسی کو مددگار بناتا بھی تو ان کو کیسے بناتا، جبکہ یہ میرے بندوں کو گمراہ کرکے میری جنت اور میری رضا سے روکتے ہیں۔ الكهف
52 1- مَوْبِقٌ کے ایک معنی حجاب۔ پردے اور آڑ کے ہیں یعنی ان کے درمیان پردہ اور فاصلہ کر دیا جائے گا کیونکہ ان کے درمیان آپس میں عداوت ہوگی۔ نیز اس لئے کہ محشر میں یہ ایک دوسرے کو نہ مل سکیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جہنم میں پیپ اور خون کی مخصوص آبادی ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ مہلک کیا ہے، یہ ایک دوسرے کو مل ہی نہیں سکیں گے کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت کا سامان اور ہولناک چیزیں ہونگی۔ الكهف
53 1- جس طرح بعض روایات میں ہے کہ کافر ابھی چالیس سال کی مسافت پر ہوگا کہ یقین کر لے گا کہ جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے (مسند احمد جلد۔3، ص75) الكهف
54 1- یعنی ہم نے انسانوں کو حق کا راستہ سمجھانے کے لئے قرآن میں ہر طریقہ استعمال کیا، وعظ وتذکیر، امثال وواقعات اور دلائل وبراہین، علاوہ ازیں انہیں بار بار اور مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ لیکن انسان چونکہ سخت جھگڑالو ہے، اس لئے وعظ نصیحت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور نہ دلائل و براہین اس کے لئے کارگر۔ الكهف
55 1- یعنی تکذیب کی صورت میں ان پر بھی اسی طرح عذاب آئے، جیسے پہلے لوگوں پر آیا۔ 2- یعنی اہل مکہ ایمان لانے کے لئے ان دو باتوں میں سے کسی ایک کے منتظر ہیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد ایمان کی کوئی حیثیت ہی نہیں یا اس کے بعد ایمان لانے کا ان کو موقع ہی کب ملے گا؟۔ الكهف
56 1- اور اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑانا، یہ جھٹلانے کی بدترین قسم ہے۔ اس طرح جدال بالباطل کے ذریعہ سے (یعنی باطل طریقے اختیار کر کے) حق کو باطل ثابت کرنے کی سعی کرنا بھی نہایت مذموم حرکت ہے۔ اس جدال بالباطل کی ایک صورت یہ ہے جو کافر رسولوں کو یہ کہہ کر ان کی رسالت انکار کر دیتے رہے ہیں کہ تم ہمارے جیسے ہی انسان ہو۔ ﴿مَا أَنْتُمْ إِلا بَشَرٌ مِثْلُنَا﴾ (يٰس:15)۔ ہم تمہیں رسول کس طرح تسلیم کرلیں؟۔ دَحَضَ کے اصل معنی پھسلنے کے ہیں کہا جاتا ہے دَحَضَتْ رِجْلُهُ اس کا پیر پھسل گیا یہاں سے یہ کسی چیز کے زوال اور بطلان کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہتے ہیں دَحَضَتْ حُجَّتُهُ دُحُوضًا أي بَطَلَتْ اس کی حجت باطل ہوگئی اس لحاظ سے ادحض یدحض کے معنی ہوں گے باطل کرنا (فتح القدیر) الكهف
57 1- یعنی ان کے اس ظلم عظیم کی وجہ سے کہ انسان نے رب کی آیات سے اعراض کیا اور اپنے کرتوتوں کو بھولے رہے، ان کے دلوں پر ایسے پردے اور ان کے کانوں پر ایسے بوجھ ڈال دیئے گئے ہیں، جس سے قرآن کا سمجھنا، سننا اور اس سے ہدایت قبول کرنا ان کے لئے ناممکن ہوگیا۔ ان کو کتنا بھی ہدایت کی طرف بلا لو، یہ کبھی بھی ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔ الكهف
58 1- یعنی یہ تو رب غفور کی رحمت ہے کہ وہ گناہ پر فوراً گرفت نہیں فرماتا، بلکہ مہلت دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاداش عمل میں ہر شخص ہی عذاب الٰہی کے شکنجے میں کسا ہوتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے اور ہلاکت کا وقت آجاتا ہے، جو اللہ تعالٰی مقرر کئے ہوتا ہے تو پھر فرار کا کوئی راستہ اور بچاؤ کی کوئی سبیل ان کے لئے نہیں رہتی۔ مو‏‏ئلا کے معنی ہیں جائے پناہ راہ فرار۔ الكهف
59 1- اس سے مراد، عاد، ثمود اور حضرت شعیب (عليہ السلام) اور حضرت لوط (عليہ السلام) وغیرہ کی قومیں جو اہل حجاز کے قریب اور ان کے راستوں میں ہی تھیں۔ انہیں بھی اگرچہ ان کے ظلم کے سبب ہی ہلاک کیا گیا لیکن ہلاکت سے پہلے انہیں پورا موقع دیا گیا اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا ظلم و طغیان اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہدایت کے راستے بالکل مسدود ہو جاتے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی امید باقی نہیں رہی، تو پھر ان کی مہلت عمل ختم اور تباہی کا وقت شروع ہوگیا۔ پھر انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ یا اہل دنیا کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا گیا۔ یہ دراصل اہل مکہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے آخری پیغمبر اور اشرف الرسل حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی تکذیب کر رہے ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ مہلت تو سنت اللہ ہے، جو ایک وقت موعود تک ہر فرد گروہ اور قوم کو وہ عطا کرتا ہے جب یہ مدت ختم ہو جائے گی اور تم اپنے کفر وعناد سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تمہارا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو تم سے پہلی قوموں کا ہو چکا ہے۔ الكهف
60 1- نوجوان سے مراد حضرت یوشع بن نون (عليہ السلام) ہیں جو موسیٰ (عليہ السلام) کے وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔ 2- اس مقام کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے نہیں ہو سکی تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد صحرائے سینا کا وہ جنوبی راستہ ہے جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز دونوں آکر ملتے ہیں اور بحر احمر میں ضم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے مقامات جن کا ذکر مفسرین نے کیا ہے ان پر سرے سے مجمع البحرین کی تعبیر ہی صادق نہیں آتی۔ 3- حقب، کے ایک معنی 70یا 80سال اور دوسرے معنی غیر معین مدت کے ہیں یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب تک میں مجمع البحرین (جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں) نہیں پہنچ جاؤں گا، چلتا رہوں گا اور سفر جاری رکھوں گا، چاہے کتنا بھی عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انہوں نے ایک موقع پر ایک سائل کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ اللہ تعالٰی کو ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا اور وحی کے ذریعہ سے انہیں مطلع کیا کہ ہمارا ایک بندہ (خضر) ہے جو تجھ سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے پوچھا کہ یا اللہ اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں، وہیں ہمارا وہ بندہ بھی ہوگا۔ نیز فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاؤ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (زنبیل) سے نکل کر غائب ہو جائے تو سمجھ لینا کہ یہی مقام ہے (بخاری، سورہ کہف) چنانچہ اس کے حکم کے مطابق انہوں نے ایک مچھلی لی اور سفر شروع کر دیا۔ الكهف
61 الكهف
62 الكهف
63 1- یعنی مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی اور اس کے لئے اللہ تعالٰی نے سمندر میں سرنگ کی طرح راستہ بنا دیا۔ حضرت یوشع (عليہ السلام) نے مچھلی کو سمندر میں جاتے اور راستہ بنتے ہوئے دیکھا، لیکن حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو بتلانا بھول گئے۔ حتٰی کہ آرام کرکے وہاں سے پھر سفر شروع کر دیا، اس دن اور اس کے بعد رات سفر کر کے، جب دوسرے دن حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو تھکاوٹ اور بھوک محسوس ہوئی تو اپنے جوان ساتھی سے کہا لاؤ بھئی کھانا، کھانا کھالیں، اس نے کہا: مچھلی تو، جہاں ہم نے پتھر سے ٹیک لگا کر آرام کیا تھا، وہاں زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی تھی اور وہاں عجب طریقے سے اس نے اپنا راستہ بنایا تھا، جس کا میں آپ سے تذکرہ کرنا بھول گیا۔ شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ الكهف
64 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے کہا، اللہ کے بندے! جہاں مچھلی زندہ ہو کر غائب ہوئی تھی، وہی تو ہمارا مطلوبہ مقام تھا، جس کی تلاش میں ہم سفر کر رہے ہیں۔ چنانچہ اپنے نشانات دیکھتے ہوئے پیچھے لوٹے اور اسی مجمع البحرین پر واپس آگئے۔ قَصَصَا کے معنی ہیں پیچھے لگنا، پیچھے پیچھے چلنا۔ یعنی نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ الكهف
65 1- اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں وضاحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا، اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑ گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورہ کہف) 2- رَحْمَۃ سے مراد مفسرین نے وہ خصوصی انعامات مراد لئے ہیں جو اللہ نے اپنے اس خاص بندے پر فرمائے اور اکثر مفسرین نے اس سے مراد نبوت لی ہے۔ 3- اس سے علم نبوت کے علاوہ جس سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) بھی بہرہ ور تھے، بعض تکوینی امور کا علم ہے جس اللہ تعالٰی نے صرف حضرت خضر کو نوازا تھا، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے پاس بھی وہ علم نہیں تھا۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو، جو نبی نہیں ہوتے، علم الہام سے نوازتا ہے، جو بغیر استاد کے محض فیض کے سر چشمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ باطنی علم، شریعت کے ظاہری علم سے، جو قرآن وحدیث کی صورت میں موجود ہے، مختلف بلکہ بعض دفعہ اس کے مخالف اور معارض ہوتا ہے لیکن استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ حضرت خضر کی بابت تو اللہ تعالٰی نے خود ان کے علم خاص دیئے جانے کی وضاحت کر دی ہے، جب کہ کسی اور کے لئے ایسی وضاحت کہیں نہیں اگر اس کو عام کر دیا جائے تو پھر ہر شعبدہ باز اس قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے، چنانچہ اس طبقے میں یہ دعوے عام ہی ہیں۔ اس لئے ایسے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں۔ الكهف
66 الكهف
67 الكهف
68 1- یعنی جس کا پورا علم نہ ہو۔ الكهف
69 الكهف
70 الكهف
71 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو چونکہ اس علم خاص کی خبر نہیں تھی جس کی بنا پر خضر نے کشتی کے تختے توڑ دیئے تھے، اس لئے صبر نہ کر سکے اور اپنے علم وفہم کے مطابق اسے نہایت ہولناک کام قرارا دیا۔ إِمْرًا کے معنی ہیں الدَّاهِيَةُ الْعَظِيمَةُ، ”بڑا ہیبت ناک کام“۔ الكهف
72 الكهف
73 1- یعنی میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، سختی کا نہیں۔ الكهف
74 1- غلام سے مراد بالغ جوان بھی ہو سکتا ہے اور نابالغ بچہ بھی۔ 2- نُكْرًا یعنی ”فَظِيعًا مُنْكَرًا لا يُعْرَفُ فِي الشَّرْعِ“ کہ ایسا بڑا برا کام جس کی شریعت میں گنجائش نہیں، بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں ”أَنْكَرُ مِنَ الأَمْرِ الأَوَّلِ“ پہلے کام (کشتی کے تختے توڑنے) سے زیادہ برا کام۔ اس لئے کہ قتل، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ ممکن نہیں۔ جبکہ کشتی کے تختے اکھیڑ دینا، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو جو علم شریعت حاصل تھا، اس کی رو سے حضرت خضر کا یہ کام بہرحال خلاف شرع تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اعتراض کیا اور اسے نہایت برا کام قرار دیا۔ الكهف
75 الكهف
76 1- یعنی اب اگر سوال کروں تو اپنی مصاحبت کے شرف سے مجھے محروم کر دیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اس لئے کہ آپ کے پاس معقول عذر ہوگا۔ الكهف
77 1- یعنی یہ بخیلوں کی بستی تھی کہ مہمانوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا، دراں حالیکہ مسافروں کو کھانا کھلانا اور مہمان نوازی کرنا ہر شریعت کی اخلاقی تعلیمات کا اہم حصہ رہا ہے۔ نبی (ﷺ) نے بھی مہمان نوازی اور اکرام ضیف کو ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے۔ فرمایا :[ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ] (فيض القدير شرح الجامع الصغير: 5/209) ”جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت وتکریم کرے“۔ 2- حضرت خضر نے اس دیوار کو ہاتھ لگایا اور اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر سیدھی ہوگئی۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے۔ 3- حضرت موسیٰ (عليہ السلام)، جو اہل بستی کے رویے سے پہلے ہی کبیدہ خاطر تھے، حضرت خضر کے بلا معاوضہ احسان پر خاموش نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ جب ان بستی والوں نے ہماری مسافرت، ضرورت مندی اور شرف وفضل کسی چیز کا بھی لحاظ نہیں کیا تو یہ لوگ کب اس لائق ہیں کہ ان کے ساتھ احسان کیا جائے؟ الكهف
78 1- حضرت خضرنے کہا کہ موسیٰ (عليہ السلام)، یہ تیسرا موقعہ ہے کہ تو صبر نہیں کر سکا اور اب خود تیرے کہنے کے مطابق میں تجھے ساتھ رکھنے سے معذور ہوں۔ 2- لیکن جدائی سے قبل حضرت خضر نے تینوں واقعات کی حقیقت سے انہیں آگاہ اور باخبر کرنا ضروری خیال کیا تاکہ موسیٰ (عليہ السلام) کسی مغالطے کا شکار نہ رہیں اور وہ یہ سمجھ لیں کہ علم نبوت اور ہے، جس سے انہیں نوازا گیا ہے اور بعض اہم امور کا علم اور ہے جو اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت، حضرت خضر کو دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے ایسے کام کیے جو علم شریعت کی رو سے جائز نہیں تھے اور اسی لئے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) بجا طور پر ان پر خاموش نہیں رہ سکے تھے۔ انہی اہم امور کی انجام دہی کی وجہ سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ حضرت خضر انسانوں میں سے نہیں تھے اور اسی لئے وہ ان کی نبوت ورسالت یا دلائل کے بیچ میں نہیں پڑتے کیونکہ یہ سارے مناصب تو انسانوں کے ساتھ ہی خاص ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھے، لیکن اگر اللہ تعالٰی اپنے کسی نبی کو بعض اہم امور سے مطلع کر کے ان کے ذریعے سے کام کروا لے، تو اس میں بھی کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ جب وہ صاحب وحی خود اس امر کی وضاحت کر دے کہ میں نے یہ کام اللہ کے حکم سے ہی کئے ہیں تو گو بظاہر وہ خلاف شریعت ہی نظر آتے ہوں، لیکن جب ان کا تعلق ہی اہم امور سے ہے تو وہاں جواز اور عدم جواز کی حیثیت غیر ضروری ہے۔ جیسے تکوینی احکامات کے تھے کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی مرتا ہے، کسی کا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے، قوموں پر عذاب آتا ہے، ان میں سے بعض کام بعض دفعہ بہ اذن الٰہی فرشتے ہی کرتے ہیں، تو جس طرح یہ امور آج تک کسی کو خلاف شریعت نظر نہیں آئے۔ اسی طرح حضرت خضر کے ذریعے سے و قوع پذیر ہونے والے واقعات کا تعلق بھی چوں کہ اہم امور سے ہے اس لئے انہیں شریعت کی ترازو میں تولنا ہی غیر صحیح ہے۔ البتہ اب وحی ونبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد کسی شخص کا اس قسم کا دعویٰ ہرگز صحیح اور قابل تسلیم نہیں ہوگا جیسا کہ حضرت خضر سے منقول ہے کیونکہ حضرت خضر کا معاملہ تو آیت قرآنی سے ثابت ہے، اس لئے مجال انکار نہیں۔ لیکن اب جو بھی اس قسم کا دعویٰ یا عمل کرے گا، اس کا انکار لازمی اور ضروری ہے کیونکہ اب وہ یقینی ذریعہ علم موجود نہیں ہے جس سے اس کے دعوے اور عمل کی حقیقت واضح ہو سکے۔ الكهف
79 الكهف
80 الكهف
81 الكهف
82 1- حضرت خضر کی نبوت کے قائلین کی یہ دوسری دلیل ہے جس سے وہ نبوت خضر کا اثبات کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی غیر نبی کے پاس اس قسم کی وحی نہیں آتی کہ وہ اتنے اتنے اہم کام کسی اشارہ غیبی پر کر دے، نہ کسی غیر نبی کا ایسا اشارہ غیبی قابل عمل ہی ہے۔ نبوت خضر کی طرح حیات خضر بھی ایک حلقے میں مختلف ہے اور حیات خضر کے قائل بہت سے لوگوں کی ملاقاتیں حضرت خضر سے ثابت کرتے ہیں اور پھر ان سے ان کے اب تک زندہ ہونے پر دلیل پیش کرتے ہیں لیکن جس طرح حضرت خضر کی زندگی پر کوئی آیت شرعی نہیں ہے، اسی طریقے سے لوگوں کے مکاشفات یا حالت بیداری یا نیند میں حضرت خضر سے ملنے کے دعوے بھی قابل تسلیم نہیں۔ جب ان کا حلیہ ہی معقول ذرائع سے بیان نہیں کیا گیا ہے تو ان کی شناخت کس طرح ممکن ہے؟ اور کیوں کر یقین کیا جا سکتا ہے، کہ جن بزرگوں نے ملنے کے دعوے کئے ہیں، واقعی ان کی ملاقات خضر، موسیٰ (عليہ السلام) سے ہی ہوئی ہے، خضر کے نام سے انہیں کسی نے دھوکہ اور فریب نے مبتلا نہیں کیا۔ الكهف
83 1- یہ مشرکین کے اس تیسرے سوال کا جواب ہے جو یہودیوں کے کہنے پر انہوں نے نبی (ﷺ) سے کئے تھے، ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں۔ یہ نام اس لئے پڑا کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے یا اس لئے کہ اس نے مشرق ومغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کی قرن یعنی شعاع کا مشاہدہ کیا، بعض کہتے ہیں کہ اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں، قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی دو لٹوں دو مینڈھیوں یا دو زلفوں والا۔ قدیم مفسرین نے بالعموم اس کا مصداق سکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق ومغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ لیکن جدید مفسرین جدید تاریخی معلومات کی روشنی میں اس سے اتفاق نہیں کرتے بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اس پر جو داد تحقیق دی ہے اور اس شخص کی دریافت میں جو محنت و کاوش کی ہے، وہ نہایت قابل قدر ہے۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے (1)۔ کہ اس ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا، جس کو اللہ نے اسباب ووسائل کی فراوانی سے نوازا تھا۔ (2)۔ وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا، ایک ایسے پہاڑی درے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔ (3)۔ اس نے وہاں یاجوج ماجوج کا راستہ بند کرنے کے لئے ایک نہایت محکم بند تعمیر کیا۔ (4)۔ وہ عادل، اللہ کو ماننے والا اور آخرت پر ایمان رکھنے والا تھا۔ (5)۔ وہ نفس پرست اور مال ودولت کا حریص نہیں تھا۔ مولانا مرحوم فرماتے ہیں کہ ان خصوصیات کا حامل صرف فارس کا وہ عظیم حکمران ہے جسے یونانی سائرس، عبرانی خورس، اور عرب کیخسرو کے نام سے پکارتے ہیں، اس کا دور حکمرانی 539 قبل مسیح ہے۔ نیز فرماتے ہیں 1838ء میں سائرس کے ایک مجسّمے کا بھی انکشاف ہوا جس میں سائرس کا جسم، اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر ”ترجمان القرآن“ ج1، ص-399- 430، طبع قدیم) واللہ اعلم بالصواب۔ الكهف
84 1- سَبَبٌ کے اصلی معنی رسی کے ہیں، اس کا اطلاق ایسے ذریعے اور وسیلے پر ہوتا ہے جو حصول مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس اعتبار سے سَبَبًا کے معنی ہیں، ہم نے اسے ایسے ساز وسامان اور وسائل مہیا کیے، جن سے کام لے کر اس نے فتوحات حاصل کیں، دشمنوں کا غرور خاک میں ملایا اور ظالم حکمرانوں کو نیست ونابود کیا۔ الكهف
85 1- دوسرے سبب کے معنی راستے کے کئے گئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے مزید وسائل تیار اور مہیا کئے، جس طرح اللہ کے پیدا کردہ لوہے سے مختلف قسم کے ہتھیار اور اسی طرح دیگر خام مواد سے بہت سی اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ الكهف
86 1- عَيْنٍ سے مراد چشمہ یا سمندر ہے حَمِئَةٍ، کیچڑ، دلدل، وَجَدَ (پایا) یعنی دکھایا محسوس کیا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین جب مغربی جہت میں ملک پر ملک فتح کرتا ہوا، اس مقام پر پہنچ گیا جہاں آخری آبادی تھی وہاں گدلے پانی کا چشمہ یا سمندر تھا جو نیچے سے سیاہ معلوم ہوتا تھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا سورج اس چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ ساحل سمندر سے یا دور سے، جس کے آگے حد نظر تک کچھ نہ ہو، غروب شمس کا نظارہ کرنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج سمندر میں یا زمین میں ڈوب رہا ہے حالانکہ وہ اپنے مقام آسمان پر ہی ہوتا ہے۔ 2- قُلْنَا (ہم نے کہا) بذریعہ وحی، اسی سے بعض علماء نے نبوت پر ثبوت کیا ہے اور جو ان کی نبوت کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کے پیغمبر کے ذریعے سے ہم نے اس سے کہا۔ 3- یعنی ہم نے اس قوم پر غلبہ دے کر اختیار دے دیا کہ چاہے تو اسے قتل کرے اور قیدی بنا لے یا فدیہ لے کر بطور احسان چھوڑ دے۔ الكهف
87 1- یعنی جو کفر وشرک پر جما رہے گا، اسے ہم سزا دیں گے یعنی پچھلی غلطیوں پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ الكهف
88 الكهف
89 1- یعنی اب مغرب سے مشرق کی طرف سفر اختیار کیا۔ الكهف
90 1- یعنی ایسی جگہ پہنچ گیا جو مشرقی جانب کی آخری آبادی تھی، اس کو مطلع الشمس کہا گیا ہے۔ جہاں اس نے ایسی قوم دیکھی جو مکانوں میں رہنے کے بجائے میدانوں اور صحراؤں میں بسیرا کیے ہوئے، لباس سے بھی آزاد تھی۔ یہ مطلب ہے کہ ان کے اور سورج کے درمیان کوئی پردہ اور اوٹ نہیں تھی۔ سورج ان کے ننگے جسموں پر طلوع ہوتا۔ الكهف
91 1- یعنی ذوالقرنین کی بابت ہم نے جو بیان کیا ہے وہ اسی طرح ہے کہ پہلے وہ انتہائی مغرب اور پھر انتہائی مشرق میں پہنچا اور ہمیں اس کی تمام صلاحیتوں، اسباب ووسائل اور دیگر تمام باتوں کا پورا علم ہے۔ الكهف
92 1- یعنی اب اس کا رخ کسی اور طرف ہوگیا۔ الكهف
93 1- اس سے مراد دو پہاڑ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل تھے، ان کے درمیان کھائی تھی، جس سے یاجوج وماجوج ادھر آبادی میں آ جاتے اور اودھم مچاتے اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتے۔ 2- یعنی اپنی زبان کے سوا کسی اور کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ الكهف
94 1- ذو القرنین سے یہ خطاب یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہوا ہوگا یا اللہ تعالٰی نے ذوالقرنین کو جو خصوصی اسباب ووسائل مہیا فرمائے تھے، انہی میں مختلف زبانوں کا علم بھی ہو سکتا ہے اور یوں یہ خطاب براہ راست بھی ہو سکتا ہے۔ 2- یاجوج وماجوج یہ دو قومیں ہیں اور حدیث صحیح کے مطابق نسل انسانی میں سے ہیں اور ان کی تعداد، دوسری انسانی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی اور انہی سے جہنم زیادہ بھرے گی۔ (صحيح بخاری- تفسير سورة الحج- والرقاق، باب ﴿إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ﴾- ومسلم- كتاب الإيمان، باب قوله يقول الله لآدم، أخرج بعث النار) الكهف
95 1- قوت سے مراد یعنی تم مجھے تعمیراتی سامان اور رجال کار مہیا کرو۔ الكهف
96 1- بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ یعنی دونوں پہاڑوں کے سروں کے درمیان جو خلا تھا، اسے لوہے کی چھوٹی چھوٹی چادروں سے پر کر دیا۔ 2- قِطْرًا ۔ پگھلا ہوا سیسہ، یا لوہا یا تانبا۔ یعنی لوہے کی چادروں کو خوب گرم کر کے ان پر پگھلا ہوا لوہا، تانبا یا سیسہ ڈالنے سے وہ پہاڑی درہ یا راستہ ایسا مضبوط ہو گیا کہ اسے عبور کر کے یا توڑ کر یاجوج ماجوج کا ادھر دوسری طرف انسانی آبادیوں میں آنا ناممکن ہوگیا۔ الكهف
97 الكهف
98 1- یعنی یہ دیوار اگرچہ بڑی مضبوط بنا دی گئی جس کے اوپر چڑھ کر اس میں سوراخ کر کے یاجوج ماجوج کا ادھر آنا ممکن نہیں ہے لیکن جب میرے رب کا وعدہ آ جائے گا، تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج وماجوج کا ظہور ہے جیسا کہ احادیث میں ہے۔ مثلًا ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے اس دیوار کے تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا (صحیح بخاری، نمبر 3346 و مسلم، نمبر2208) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے باہر نکلنے کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل ان شا اللہ اسکو کھو دیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ زمین میں فساد پھیلائیں گے حتٰی کے لوگ قلعہ بند ہو جائیں گے، یہ آسمانوں پر تیر پھینکیں گے جو خون آلودہ لوٹیں گے، بالآخر اللہ تعالٰی ان کی گدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرما دے گا جس سے ان کی ہلاکت واقع ہو جائے گی۔ (مسند أحمد 12/ 511، جامع ترمذی نمبر 3153، والأحاديث الصحيحة للألباني، نمبر1735) صحیح مسلم میں نواس بن سمعان (رضی الله عنہ) کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج وماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا۔ ( كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب ذكر الدجال) جس سے ان حضرات کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ، یا منگول ترک جن میں چنگیز بھی تھا یا روسی یا چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا۔ یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں کیونکہ ان کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل وغارت گری اور شر وفساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے۔ الكهف
99 الكهف
100 الكهف
101 الكهف
102 1- حَسِبَ، بمعنی ظَنَّ ہے اور عِبَادِيَ (میرے بندوں) سے مراد ملائکہ، مسیح (عليہ السلام) اور دیگر صالحین ہیں، جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا ہے، اسی طرح شیاطین وجنات ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے اور استفہام زجر وتوبیخ کے لیے ہے۔ یعنی غیر اللہ کے یہ پجاری کیا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر اور میرے بندوں کی عبادت کر کے ان کی حمایت سے میرے عذاب سے بچ جائیں گے؟ یہ ناممکن ہے، ہم نے تو ان کافروں کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے جس میں جانے سے ان کو وہ بندے نہیں روک سکیں گے جن کی یہ عبادت کرتے اور ان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں۔ الكهف
103 الكهف
104 1- یعنی اعمال ان کے ایسے ہیں جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہیں، لیکن بزعم خویش سمجھتے یہ ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ اس سے مراد کون ہیں؟ بعض کہتے ہیں، یہود ونصاری ہیں، بعض کہتے ہیں مخالفین اور دیگر اہل بدعت ہیں، بعض کہتے ہیں کہ مشرکین ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جس میں ہر وہ فرد اور گروہ شامل ہے جس کے اندر مذکورہ صفات ہوں گی۔ آگے ایسے ہی لوگوں کی بابت مزید وعیدیں بیان کی جا رہی ہیں۔ الكهف
105 1- رب کی آیات سے مراد توحید کے وہ دلائل ہیں جو کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ آیات تشریعی ہیں اور جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیں اور پیغمبروں نے تبلیغ وتوضیح کی۔ اور رب کی ملاقات سے کفر کا مطلب آخرت کی زندگی اور دوبارہ جی اٹھنے سے انکار ہے۔ 2- یعنی ہمارے ہاں ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوگی یا یہ مطلب ہے کہ ہم ان کے لئے میزان کا اہتمام ہی نہیں کریں گے کہ جس میں ان کے اعمال تولے جائیں، اس لئے کہ اعمال تو موحدین کے تولے جائیں گے جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں ہونگی، جب کہ ان کے نامہ اعمال حسنات سے بالکل خالی ہوں گے جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن موٹا تازہ آدمی آئے گا، اللہ کے ہاں اس کا اتنا وزن نہیں ہوگا جتنا مچھر کے پر کا ہوتا ہے“، پھر آپ (ﷺ) نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری۔ سورہ کہف) الكهف
106 الكهف
107 1- جنت الفردوس، جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، اسی لئے نبی (ﷺ) نے فرمایا ”جب بھی تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو الفردوس کا سوال کرو، اس لئے کہ وہ جنت کا اعلیٰ حصہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں“ ۔ ( البخاری كتاب التوحيد، باب ﴿وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ﴾) الكهف
108 1- یعنی اہل جنت، جنت اور اس کی نعمتوں سے کبھی نہ اکتائیں گے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کریں۔ الكهف
109 1- كَلِمَاتٌ سے مراد، اللہ تعالٰی کا علم محیط، اس کی حکمتیں اور وہ دلائل وبراہین ہیں جو اس کی واحدنیت پر دال ہیں۔ انسانی عقلیں ان سب کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور دنیا بھر کے درختوں کے قلم بن جائیں اور سارے سمندر بلکہ ان کی مثل اور بھی سمندر ہوں، وہ سب سیاہی میں بدل جائیں، قلم گھس جائیں گے اور سیاہی ختم ہو جائے گی، لیکن رب کے کلمات اور اس کی حکمتیں ضبط تحریر میں نہیں آ سکیں گی۔ الكهف
110 1- اس لئے میں بھی رب کی باتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ 2- البتہ مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ اسی وحی کی بدولت میں نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اللہ کی طرف سے نازل کردہ وہ باتیں بیان کی ہیں جن پر مرور ایام کی دبیز تہیں پڑی ہوئی تھیں یا ان کی حقیقت افسانوں میں گم ہوگئی تھی۔ علاوہ ازیں اس وحی میں سب سے اہم حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہے۔ 3- عمل صالح وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو، یعنی جو اپنے رب کی ملاقات کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر عمل سنت نبوی کے مطابق کرے اور دوسرا اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اس لئے کہ بدعت اور شرک دونوں ہی ضبط اعمال کا سبب ہیں۔ اللہ تعالٰی ان دونوں سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ الكهف
0 مريم
1 مريم
2 1- حضرت زکریا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا۔ (صحيح مسلم، باب من فضائل زكريا) مريم
3 1- خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع وانابت اور خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انہیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ مريم
4 1- یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف وکبر (بڑھاپے) کا اظہار ہے۔ 2- اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔ مريم
5 1- اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ وارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز وانحراف نہ اختیار کرلیں۔ 2- ”اپنے پاس سے“ کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہو چکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔ مريم
6 مريم
7 1- اللہ تعالٰی نے نہ صرف دعا قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرما دیا۔ مريم
8 1- عَاقِرٌ اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِيًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا (عليہ السلام) کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی (عليہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر) مريم
9 1- فرشتوں نے حضرت زکریا کا تعجب دور کرنے کے لئے کہا کہ اللہ تعالٰی نے تجھے بیٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے مطابق یقیناً تجھے بیٹا ملے گا، اور یہ اللہ کے لئے قطعاً مشکل کام نہیں ہے کیونکہ جب وہ تجھے نیست سے ہست کر سکتا ہے تو تجھے ظاہری اسباب سے ہٹ کر بیٹا بھی دے سکتا ہے۔ مريم
10 1- راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہوگی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آ گئے ہیں۔ مريم
11 1- مِحْرَابٌ سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْبٌ سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔ 2- صبح وشام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح وتحمید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔ مريم
12 1- یعنی اللہ نے حضرت زکریا (عليہ السلام) کو یٰحیٰی (عليہ السلام) عطا فرمایا اور جب وہ کچھ بڑا ہوا، گو ابھی بچہ ہی تھا، اسے اللہ نے کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے یا ان پر مخصوص نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ 2- حُکْم سے مراد دانائی، عقل، شعور، کتاب میں درج احکام دین کی سمجھ، علم وعمل کی جامعیت یا نبوت مراد ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ حکم میں یہ ساری ہی چیزیں داخل ہوں۔ مريم
13 1- حَنَانًا، شفقت، مہربانی، یعنی ہم نے اس کو والدین اور اقربا پر شفقت ومہربانی کرنے کا جذبہ اور اسے نفس کی آلائشوں اور گناہوں سے پاکیزگی وطہارت بھی عطا کی۔ مريم
14 1- یعنی اپنے ماں باپ کی یا اپنے رب کی نافرمانی کرنے والا نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں والدین کے لئے شفقت ومحبت کا اور ان کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کا جذبہ اللہ تعالٰی پیدا فرما دے تو یہ اس کا خاص فضل وکرم ہے اور اس کے برعکس جذبہ یا رویہ، یہ اللہ تعالٰی کے فضل خاص سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ مريم
15 1- تین مواقع انسان کے لئے سخت ودہشت ناک ہو تے ہیں، 1۔ جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے، 2۔ جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے،3۔ اور جب اسے قبر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے کو میدان محشر کی ہولناکیوں میں گھرا ہوا پائے گا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کیلئے ہماری طرف سے سلامتی اور امان ہے۔ بعض اہل بدعت اس آیت سے یوم ولادت پر ”عید میلاد“ کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے تو پھر یوم وفات پر ”عید وفات“ یا ”عید ممات“ بھی منانی ضروری ہوئی کیونکہ جس طرح یوم ولادت کے لیے سلام ہے یوم وفات کے لیے بھی سلام ہے اگر محض لفظ ”سلام“ سے عید میلاد کا اثبات ممکن ہے تو پھر اسی لفظ سے عید وفات کا بھی اثبات ہوتا ہے لیکن یہاں وفات کی عید تو کجا، سرے سے وفات وممات ہی کا انکار ہے یعنی وفات نبوی (ﷺ) کا انکار کر کے نص قرآنی کا تو انکار کرتے ہی ہیں خود اپنے استدلال کی رو سے بھی آیت کے ایک جز کو تو مانتے ہیں اور اسی آیت کے دوسرے جز سے ان ہی کے استدلال کی روشنی میں جو ثابت ہوتا ہے اس کا انکار ہے۔ ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ ( البقرۃ:85) ”کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟“۔ مريم
16 مريم
17 1- یہ علیحدگی اور حجاب (پردہ) اللہ کی عبادت کی غرض سے تھا تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارت حیض کے لئے۔ اور مشرقی مکان سے مراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ 2- رُوْح سے مراد حضرت جبرائیل (عليہ السلام) ہیں، جنہیں کامل انسانی شکل میں حضرت مریم کی طرف بھیجا گیا، حضرت مریم نے جب دیکھا کہ ایک شخص بے دھڑک اندر آ گیا ہے تو ڈر گئیں کہ یہ بری نیت سے نہ آیا ہو۔ حضرت جبرائیل (عليہ السلام) نے کہا میں وہ نہیں ہوں جو تو گمان کر رہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں اور یہ خوشخبری دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالٰی تجھے لڑکا عطا فرمائے گا، بعض قراءتوں میں لِیَھَبَ صیغہ غائب ہے۔ متکلم کا صیغہ (جو موجودہ قراءت میں ہے) اس لئے بولا کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے باذن اللہ ان کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ اس لئے ہبہ کا تناسب اپنی طرف منسوب کر لیا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہی کا قول ہو اور یہاں حکایتًا نقل ہوا ہو۔ اس اعتبار سے تقدیر کلام یوں ہوگی۔ ’’أَرْسَلَنِي، يَقُولُ لَكِ أَرْسَلْتُ رَسُولِي إِلَيْكِ لأَهَبَ لَكِ‘‘ (أيسر التفاسير) ”یعنی اللہ نے مجھے تیرے لئے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میں نے تیری طرف اپنا قاصد یہ بتلانے کے لئے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں گا“ اس طرح حذف اور تقدیر کلام قرآن میں کئی جگہ ہے۔ مريم
18 مريم
19 مريم
20 مريم
21 1- یعنی یہ بات تو صحیح ہے کہ تجھے مرد سے مقاربت کا کوئی موقع نہیں ملا ہے، جائز طریقے سے نہ ناجائز طریقے سے۔ جب کہ حمل کے لئے عادتًا یہ ضروری ہے۔ 2- یعنی میں اسباب کا محتاج نہیں ہوں، میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور ہم اسے اپنی قدرت تخلیق کے لئے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے تمہارے باپ آدم کو مرد اور عورت کے بغیر، اور تمہاری ماں حوا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور اب عیسیٰ (عليہ السلام) کو پیدا کر کے چوتھی شکل میں بھی پیدا کرنے پر اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے صرف عورت کے بطن سے، بغیر مرد کے پیدا کر دینا۔ ہم تخلیق کی چاروں صورتوں پر قادر ہیں۔ 3- اس سے مراد نبوت ہے جو اللہ کی رحمت خاص ہے اور ان کے لئے بھی جو اس نبوت پر ایمان لائیں گے۔ 4- یہ اسی کلام کا تمتہ ہے جو جبرائیل (عليہ السلام) نے اللہ کی طرف سے نقل کیا ہے۔ یعنی یہ اعجازی تخلیق تو اللہ کے علم اور اس کی قدرت ومشیت میں مقدر ہے۔ مريم
22 مريم
23 1- موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوگا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ وزاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔ مريم
24 مريم
25 1- سَرِیّاَ چھوٹی نہر یا پانی کا چشمہ۔ یعنی بطور کرامت اور خرق عادت، اللہ تعالٰی نے حضرت مریم کے پاؤں تلے پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئی تازہ کھجوروں کا انتطام کر دیا۔ نداء دینے والے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) تھے، جنہوں نے وادی کے نیچے سے آواز دی اور کہا جاتا ہے کہ سَرِیّ بمعنی سردار ہے اور اس سے مراد عیسیٰ (عليہ السلام) ہیں اور انہی نے حضرت مریم کو نیچے سے آواز دی تھی۔ مريم
26 1- یعنی کھجوریں کھا، چشمے کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔ 2- یہ کہنا بھی اشارے سے تھا، زبان سے نہیں، علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیز ہے۔ مريم
27 مريم
28 1- ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کر دی، جیسے کہا جاتا ہے يَا أَخَا تَمِيمٍ! يا أخا العرب!، وغیرہ یا تقویٰ وپاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون (عليہ السلام) کی طرح انہیں سمجھتے ہوئے، انہیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ایسر التفاسیر وابن کثیر) مريم
29 مريم
30 1- یعنی قضا وقدر ہی میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مجھے کتاب اور نبوت سے نوازے گا۔ مريم
31 1- اللہ کے دین میں ثابت قدم، یا ہرچیز میں زیادتی، برتری اور کامیابی میرا مقدر ہے یا لوگوں کے لئے نافع، نیکی کے کام کرنے کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔ (فتح القدیر) مريم
32 1- صرف والدہ کے ساتھ حسن سلوک کے ذکر سے بھی واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ایک اعجازی شان کی حامل ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ لسلام بھی، حضرت یحیٰی (عليہ السلام) کی طرح ﴿بَرًّا بِوَالِدَيْهِ﴾ (ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا) کہتے، یہ نہ کہتے کہ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں باپ کا خدمت گزار اور اطاعت شعار نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں سرکشی اور قسمت میں بد بختی لکھی ہے، حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) نے ساری گفتگو ماضی کے صیغوں میں کی ہے حالاں کہ ان تمام باتوں کا تعلق مستقبل سے تھا، کیونکہ ابھی تو وہ شیر خوار بچے ہی تھے۔ یہ اس لئے کہ یہ اللہ کی تقدیر کے اٹل فیصلے تھے کہ گو ابھی یہ معرض ظہور میں نہیں آئے تھے لیکن ان کا وقوع اس طرح یقینی تھا جس طرح کے گزرے ہوئے واقعات شک وشبہ سے بالا ہوتے ہیں۔ مريم
33 مريم
34 1- یعنی یہ ہیں وہ صفات، جن سے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) متصف کئے گئے تھے نہ کہ ان صفات کے حامل، جو نصاریٰ نے حد سے گزر کر ان کے بارے میں باور کرائیں اور نہ ایسے، جو یہودیوں نے کمی کی اور نقص نکالنے سے کام لیتے ہوئے ان کی بابت کہا۔ اور یہی حق بات ہے۔ جس میں لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔ مريم
35 1- جس اللہ کی یہ شان اور قدرت ہو اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح اس کے لئے بغیر باپ کے پیدا کر دینا کون سا مشکل امر ہے۔ گویا جو اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی اعجازی ولادت سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی قدرت وطاقت کے منکر ہیں۔ مريم
36 مريم
37 1- یہاں الاحزاب سے مراد کتاب کے فرقے اور خود عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے بارے میں باہم اختلاف کیا۔ یہود نے کہا کہ وہ جادوگر اور(نعوذ باللہ) ولد الزنا یعنی یوسف نجار کے بیٹے ہیں۔ نصاریٰ کے نسطوریہ فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ ملکیہ یا سلطانیہ (کیتھولک) فرقے نے کہا وہ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ (تین خداؤں میں سے تیسرے) ہیں اور تیسرے فرقے یعقوبیہ (آرتھوڈکس) نے کہا، وہ اللہ ہیں۔ پس یہودیوں نے تفریط اور تقصیر کی عیسائیوں نے افراط وغلو (ایسرا لتفاسیر، فتح القدیر) 2- ان کافروں کے لئے جنہوں نے عیسیٰ (عليہ السلام) کے بارے میں اس طرح اختلاف اور افراط کا ارتکاب کیا، قیامت والے دن جب وہاں حاضر ہوں گے، ہلاکت ہے۔ مريم
38 1- یہ تعجب کے صیغے ہیں یعنی دنیا میں تو یہ حق کے دیکھنے اور سننے سے اندھے اور بہرے رہے لیکن آخرت میں یہ کیا خوب دیکھنے اور سننے والے ہونگے؟ لیکن وہاں یہ دیکھنا سننا کس کام کا؟ مريم
39 1- روز قیامت کو یوم حسرت کہا، اس لئے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے۔ بدکار حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکوکار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں؟۔ 2- یعنی حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیئے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا، جنتیوں اور دوزخیوں دونوں سے پوچھا جائے گا، اسے پہچانتے ہو، یہ کیا ہے؟ وہ کہیں گے، ہاں یہ موت ہے پھر ان کے سامنے اسے ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ اہل جنت! تمہارے لئے جنت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے، اب موت نہیں آئے گی۔ دوزخیوں سے کہا جائے گا۔ اے دوزخیو! تمہارے لئے دوزخ کا عذاب دائمی ہے۔ اب موت نہیں آئے گی (صحيح بخاری- سورة مريم، ومسلم، كتاب الجنة، باب النار يدخلها الجبارون .....) مريم
40 مريم
41 1- صِدِّيقٌ صِدْقٌ (سچائی سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول وعمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلٰی ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ وطہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سرفہرست حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رضی الله عنہ۔ مريم
42 مريم
43 1- جس سے مجھے اللہ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل ہوا، بعث بعد الموت اور غیر اللہ کے پجاریوں کے لئے دائمی عذاب کا علم ہوا۔ 2- جو آپ کی سعادت کو ابدی اور نجات سے ہمکنار کر دے گی۔ مريم
44 1- یعنی شیطان کے وسوسے اور اس کے بہکاوے سے آپ جو ایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سننے اور دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نفع نقصان پہنچانے کی قدرت، تو یہ دراصل شیطان ہی کی پرستش ہے۔ جو اللہ کا نافرمان ہے اور دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر ان کو اپنے جیسا بنانے پر تلا رہتا ہے۔ مريم
45 1- اگر آپ اپنے شرک وکفر پر باقی رہے اور اسی حال میں آپ کو موت آ گئی، تو عذاب الٰہی سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یا دنیا میں ہی آپ عذاب کا شکار نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر ہمیشہ کے لئے راندہ بارگاہ الٰہی ہو جائیں۔ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے اپنے باپ کے ادب واحترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے، نہایت شفقت اور پیار کے لہجے میں باپ کو توحید کا وعظ سنایا، لیکن توحید کا سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں بیان کیا جائے، مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت درشتی اور تلخی کے ساتھ موحد بیٹے کو کہا اگر تو میرے معبودوں سے روگردانی کرنے سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ مريم
46 1- مَلِيًّا دراز مدت، ایک عرصہ۔ دوسرے معنی اس کے صحیح وسالم کے کئے گئے ہیں۔ یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ تڑوا لینا۔ مريم
47 1- یہ سلام تحیہ نہیں ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کرتا ہے بلکہ ترک مخاطب کا اظہار ہے جیسے ﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلامًا﴾ (الفرقان:63)”جب بےعلم لوگ ان سے باتیں کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے“، اس میں اہل ایمان اور بندگان الٰہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ 2- یہ اس وقت کہا جب حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو مشرک کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کی ممانعت کا علم نہیں تھا، جب یہ علم ہوا تو آپ نے دعا کا سلسلہ موقوف کر دیا (التوبہ:114) مريم
48 مريم
49 1- حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق (عليہ السلام) کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے پوتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان کا ذکر بھی بیٹے کے ساتھ اور بیٹے ہی کی طرح کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم (عليہ السلام) توحید الٰہی کی خاطر باپ کو، گھر کو اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے، تو ہم نے انہیں اسحاق ویعقوب علیہما السلام سے نوازا تاکہ ان کی انس ومحبت، باپ کی جدائی کا صدمہ بھلا دے۔ مريم
50 1- یعنی نبوت کے علاوہ بھی اور بہت سی رحمتیں ہم نے انہیں عطا کیں، مثلا مال، مزید اولاد اور پھر اسی سلسلہ نسب میں عرصہ دراز تک نبوت کے سلسلے کو جاری رکھنا یہ سب سے بڑی رحمت تھی جو ان پر ہوئی اسی لیے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) ابو الانبیا کہلاتے ہیں۔ مريم
51 1- لِسَانَ صِدْقٍ سے مراد ثنائے حسن اور ذکر جمیل ہے لسان کی اضافت صدق کی طرف کی اور پھر اس کا وصف علو بیان کیا جس سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ بندوں کی زبانوں پر جو ان کا ذکر جمیل رہتا ہے، تو وہ واقعی اس کے مستحق ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ تمام ادیان سماویہ کو ماننے والے بلکہ مشرکین بھی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) اور ان کی اولاد کا تذکرہ بڑے اچھے الفاظ میں اور نہایت ادب واحترام سے کرتے ہیں۔ یہ نبوت واولاد کے بعد ایک اور انعام ہے جو ہجرت فی سبیل اللہ کی وجہ سے انہیں حاصل ہوا۔ 2- مُخْلَصٌ، مُصْطَفَى، مُجْتَبَى اور مُخْتَارٌ،چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے۔ یعنی رسالت وپیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص، رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الہٰی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آ رہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ متقابل بھی آئے ہیں، مثلاً سورۃ الحج آیت 52 میں۔ مريم
52 مريم
53 مريم
54 مريم
55 مريم
56 مريم
57 1- حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم (عليہ السلام) کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح (عليہ السلام) کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، رفعت مکان سے کیا مرادہے؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی طرح انہیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انہیں عطا کی گئی۔ وَاللهُ أَعْلَمُ مريم
58 1- گویا اللہ کی آیات کو سن کر وجد کی کیفیت کا طاری ہو جانا اور عظمت الٰہی کے آگے سجدہ ریز ہو جانا، بندگان الٰہی کی خاص علامت ہے۔ سجدہ تلاوت کی مسنون دعا یہ ہے ”سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ“ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی۔ بحالہ مشکوۃ، باب سجود القرآن) بعض روایات میں اضافہ ہے۔ فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ( عون المعبود, ج 1، ص533) مريم
59 1- انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت واعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہو سکتا ہے۔ غَيًّا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔ مريم
60 1- یعنی جو توبہ کر کے ترک صلٰوۃ اور جنسی خواہش کی پیروی سے باز آ جائیں اور ایمان وعمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرلیں تو ایسے لوگ مذکورہ انجام بد سے محفوظ اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ مريم
61 1- یعنی یہ ان کے ایمان ویقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان وتقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔ مريم
62 1- یعنی فرشتے بھی انہیں ہر طرف سے سلام کریں گے اور اہل جنت بھی آپس میں ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کریں گے۔ 2- امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہونگے، صرف اجالا ہی اجالا اور روشنی ہی روشنی ہوگی۔ حدیث میں ہے۔ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی، وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ رینٹ اور نہ بول وبراز۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے کی ہونگی، ان کا بخور، خوشبودار (لکڑی) ہوگی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہوگا۔ ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے نظر آئے گا، ان کے حسن جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بغض اور اختلاف نہیں ہوگا، ان کے دل، ایک دل کی طرح ہوں گے، صبح شام اللہ کی تسبیح کریں گے (صحيح بخاری- بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة وإنها مخلوقة ومسلم، كتاب الجنة، باب في صفات الجنة وأهلها مريم
63 مريم
64 1- نبی (ﷺ) نے ایک مرتبہ جبرائیل (عليہ السلام) سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری، تفسیر سورہ مریم)۔ مريم
65 1- یعنی نہیں ہے، جب اس کی مثل کوئی اور نہیں تو پھر عبادت بھی کسی اور کی جائز نہیں۔ مريم
66 1- انسان سے مراد یہاں کافر باحیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ 2- استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کر دیا جائے گا؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔ مريم
67 1- اللہ تعالٰی نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے ہم نے انسان پیدا کر دیا، تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیوں کر مشکل ہوگا؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ اسے پیدا کرنا؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنا دیا ہے۔ مريم
68 1- جِثِيٌّ, جَاثٍ کی جمع ہے جَثَا يَجْثُو سے۔ جَاثٍ گھٹنوں کے بل گرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ حال ہے یعنی ہم دوبارہ انہیں کو نہیں بلکہ ان شیاطین کو بھی زندہ کر دیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ان سب کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کر دیں گے کہ یہ محشر کی ہولناکیوں اور حساب کے خوف سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہونگے،حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”ابن آدم میری تکذیب کرتا ہے۔ حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں۔ ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے حالانکہ اسے یہ زیب نہیں دیتا۔ اس کا میری تکذیب کرنا تو یہ ہے کہ وہ میری بابت یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے ہرگز اس طرح دوبارہ زندہ نہیں کرے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا حالانکہ میرے لئے پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے (یعنی مشکل اگر ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ) اور اس کا مجھے ایذا پہنچانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری اولاد ہے، حالانکہ میں ایک ہوں، بےنیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ خود جنا گیا ہوں میرا کوئی ہمسر نہیں ہے“۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورہ اخلاص)۔ مريم
69 1- عِتِيًّا, بھی عَتَا يَعْتُو سےعَاتٍ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں بہت سرکش اور متمرد۔ مطلب یہ ہے کہ ہر گمراہ فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو ہم الگ کرلیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ کیونکہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں سزا وعقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ مريم
70 1- صِلِيًّا مصدر سماعی ہے صَلَى يَصْلِي کا،معنی ہیں داخل ہونا۔ یعنی جہنم میں داخل ہونے اور اس میں جلنے کے کون زیادہ مستحق ہیں، ہم ان کو خوب جانتے ہیں۔ مريم
71 مريم
72 1- اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں سے ہر مومن وکافر کو گزرنا ہوگا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کرلیں گے کچھ جہنم میں گر پڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے۔ (البخاری- كتاب الجنائز، ومسلم كتاب البر) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں﴿ حَتْمًا مَقْضِيًّا﴾ (قطعی فیصل شدہ امر) کہا گیا ہے، یعنی اس کا ورود جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وایسر التفاسیر) مريم
73 1- یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقراء مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب (رضی الله عنہم) جیسے فقیر لوگ ہیں، انکا دار الشوریٰ ”دار ارقم“ ہے۔ جب کہ کافروں میں ابو جہل، نضر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ (دارالندوہ) بہت عمدہ ہے۔ مريم
74 1- اللہ تعالٰی نے فرمایا، دنیا کی یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر فخر اور ناز کیا جائے، یا ان کو دیکھ کر حق وباطل کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ چیزیں تو تم سے پہلی امتوں کے پاس تھیں، لیکن تکذیب حق کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا گیا، دنیا کا یہ مال واسباب انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکا۔ مريم
75 1- علاوہ ازیں یہ چیزیں گمراہوں اور کافروں کو مہلت کے طور پر بھی ملتی ہیں، اس لئے یہ کوئی معیار نہیں۔ اصل اچھے برے کا پتہ تو اس وقت چلے گا، جب مہلت عمل ختم ہو جائے گی اور اللہ کا عذاب انہیں آ گھیرے گا یا قیامت برپا ہو جائے گی۔ لیکن اس وقت کا علم، کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ وہاں ازالے اور تدارک کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ مريم
76 1- اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے جس طرح قرآن سے، جن کے دلوں میں کفر اور شرک وضلالت کا روگ ہے۔ ان کی بدبختی وضلالت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان وہدایت میں اور پختہ ہو جاتے ہیں۔ 2- اس میں فقرا مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار ومشرکین جن مال واسباب پر فخر کرتے ہیں، وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ جن کا اجر وثواب تمہیں اپنے رب کے ہاں ملے گا۔ اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔ مريم
77 مريم
78 مريم
79 مريم
80 1- ان آیات کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ کہ حضرت عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) کے والد عاص بن وائل، جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھا۔ اس کے ذمے حضرت خباب بن ارت کا قرضہ تھا جو آہن گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت خباب (رضی اللہ عنہ) نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا جب تک تو محمد (ﷺ) کے ساتھ کفر نہیں کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دونگا۔ انہوں نے کہا یہ کام تو، تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے تب بھی نہیں کرونگا۔ اس نے کہا اچھا پھر ایسے ہی سہی، جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مجھے مال واولاد سے نوازا جائے گا تو میں وہاں رقم ادا کر دونگا (صحيح بخاری، كتاب البيوع، باب ذكر القين والحداد، وتفسير سورة مريم- مسلم، صفة القيامة باب سؤال اليهود عن الروح)، اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہوگی؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف اللہ تعالٰی اور آیات الہٰی کا استہزا وتمسخر ہے یہ جس مال واولاد کی بات کر رہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں یعنی مرنے کے ساتھ ہی ان سے اس کا تعلق ختم ہو جائے گا اور ہماری بارگاہ میں یہ اکیلا آئے گا نہ مال ساتھ ہوگا نہ اولاد اور نہ کوئی جتھہ۔ البتہ عذاب ہوگا جو اس کے لیے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ہم بڑھاتے رہیں گے۔ مريم
81 مريم
82 1- عِزًّا کا مطلب ہے یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدًّا کے معنی ہیں دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار۔ یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے، ان کے دشمن، ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف ہونگے۔ مريم
83 1- یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ مريم
84 1- اور جب وہ مہلت ختم ہو جائے گی تو عذاب الٰہی ان کیلئے ہمیشگی کے لئے بن جائیگا۔ آپ کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مريم
85 مريم
86 1- وَفْدٌ، وَافِدٌکی جمع ہے جیسے رَكْبٌ، رَاكِبٌ کی جمع ہے۔ مطلب یہ کہ انہیں اونٹوں، گھوڑوں پر سوار کرا کے نہایت عزت واحترام سے جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ وِرْدًا کے معنی پیاسے۔ اس کے برعکس مجرمین کو بھوکا پیاسا جہنم میں ہانک دیا جائے گا۔ مريم
87 1- قول وقرار (عہد) کا مطلب ایمان وتقوٰی ہے۔ یعنی اہل ایمان وتقوٰی میں سے جن کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، وہی شفاعت کریں گے، ان کے سوا کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ مريم
88 مريم
89 مريم
90 مريم
91 1- إِدًّا کے معنی بہت بھیانک معاملہ اور دَاهِيَةٌ (بھاری چیز اور مصبیت) کے ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے آسمان وزمین پھٹ سکتے ہیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔ مريم
92 مريم
93 1- جب سب اللہ کے غلام اور اس کے عاجز بندے ہیں تو پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور یہ اس کے لائق بھی نہیں ہے۔ مريم
94 1- یعنی آدم سے لے کر صبح قیامت تک جتنے بھی انسان، جن ہیں، سب کو اس نے گن رکھا ہے، سب اس کے قابو اور گرفت میں ہیں، کوئی اس سے مخفی ہے اور نہ مخفی رہ سکتا ہے۔ مريم
95 1- یعنی کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوگا، نہ مال ہی وہاں کچھ کام آئے گا ﴿يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ﴾ (الشعراء:88) ”اس دن نہ مال نفع دے گا، نہ بیٹے“، ہر شخص کو تنہا اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا اور جن کی بابت انسان دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے وہاں حمائتی اور مددگار ہوں گے، وہاں سب غائب ہو جائیں گے۔ کوئی کسی کی مدد کے لئے حاضر نہیں ہوگا۔ مريم
96 1- یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ”جب اللہ تعالٰی کسی (نیک) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل (عليہ السلام) کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل (عليہ السلام) بھی اس سے محبت کرنی شروع کر دیتے ہیں پھر جبرائیل (عليہ السلام) آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے“۔ (صحيح بخاری، كتاب الأدب، باب المقت من الله تعالى مريم
97 1- قرآن کو آسان کرنے کا مطلب اس زبان میں اتارنا ہے جس کو پیغمبر جانتا تھا یعنی عربی زبان میں، پھر اس کے مضمون کا کھلا ہونا، واضح اور صاف ہونا ہے۔ 2- لُدَّا (أَلَدُّ کی جمع) کے معنی جھگڑا لو کے ہیں مراد کفار ومشرکین ہیں۔ مريم
98 1- احساس کے معنی ہیں الإِدْرَاكُ بِالْحِسِّ، حس کے ذریعے سے معلومات حاصل کرنا۔ یعنی کیا تو ان کو آنکھوں سے دیکھ سکتا یا ہاتھوں سے چھو سکتا ہے؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان کا وجود ہی دنیا میں نہیں ہے کہ تو انہیں دیکھ یا چھو سکے رِكْزٌ صوتِ خفی کو کہتے ہیں یا اس کی ہلکی سی آواز ہی تجھے کہیں سے سنائی دے سکے۔ مريم
0 طه
1 طه
2 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑ جائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا﴾ (الكهف ۔6) ”پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے“، بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہو جائے گویا یہاں شَقَاءٌ عَنَاءٌ اور تَعَبٌ کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔ طه
3 طه
4 طه
5 1- بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالٰی عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ طه
6 1- ثَرَىٰ کے معنی ہیں اسفل السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ۔ طه
7 1- یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا أَخْفَىٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔ طه
8 1- یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنٰی ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اُسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت ومغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔ طه
9 طه
10 1- یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ (عليہ السلام) مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب عليہ السلام کی دختر نیک اختر تھیں) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انہیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انہیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہو جائے۔ طه
11 1- موسیٰ (عليہ السلام) جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورہ قصص: 30 میں صراحت ہے) آواز آئی۔ طه
12 1- جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ ہے، بعض کہتے ہیں کہ وہ ایسے گدھے کی کھال کی بنی ہوئی تھی جو غیر مدبوغ تھی۔ کیوں کہ جانور کی کھال دباغت کے بعد ہی پاک ہوتی ہے، مگر یہ قول محل نظر ہے۔ دباغت کے بغیر جوتیاں کیوں کر بن سکتی ہیں؟ یا وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ (عليہ السلام) کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم۔ 2- طُوًى وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے (فتح القدیر) طه
13 1- یعنی نبوت ورسالت اور ہم کلامی کے لئے۔ طه
14 1- یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔ 2- عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہو جائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِكْرِي کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اسلئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آ جاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ”جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے“۔ (صحيح بخاری، كتاب المواقيت، باب من نسي صلاة فليصل إذا ذكرها، ومسلم، كتاب المساجد باب قضاء الصلاة الفائتة) طه
15 طه
16 1- اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر ومراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں۔ طه
17 طه
18 طه
19 طه
20 طه
21 1- یہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ (عليہ السلام) کے نام سے مشہور ہے۔ طه
22 1- بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا ﴿فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَأهِ﴾ (القصص ۔32)، پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے ۔ طه
23 طه
24 1- فرعون کا ذکر اس لئے کیا کہ اس نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی سرکشی وطغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتٰی کہ وہ دعویٰ کرنے لگا تھا ﴿اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى﴾ (النازعات:24) ”میں تمہارا بلند تر رب ہوں“۔ طه
25 طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 طه
30 طه
31 طه
32 1- کہتے ہیں کہ موسیٰ (عليہ السلام) جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی (ابن کثیر) جب اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ (عليہ السلام) کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت وجباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں۔ اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون (عليہ السلام) کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ عليہ السلام سے بڑے تھے) بطور معین اور مددگار، میرا وزیر اور شریک کار بنا دے۔ وَزِيرٌ مُوَازِرٌ کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اسکا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون (عليہ السلام) میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔ طه
33 طه
34 1- یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کر سکیں۔ طه
35 1- یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔ طه
36 1- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ، اللہ تعالٰی نے زبان کی لکنت کو بھی دور فرما دیا ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ موسیٰ (عليہ السلام) نے چونکہ پوری لکنت دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی، اس لئے کچھ باقی رہ گئی تھی۔ باقی رہا فرعون کا یہ کہنا ﴿وَلا يَكَادُ يُبِينُ﴾ (الزخرف:52) ”یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا“، یہ ان کی تنقیص گزشتہ کیفیت کے اعتبار سے ہے۔ (ایسر التفاسیر) طه
37 1- قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالٰی بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ (عليہ السلام) کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے،(یعنی القائے الٰہی) سے انہیں، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کر دیا تھا۔ طه
38 طه
39 1- مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہواجب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔ 2- یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔ 3- چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت ونگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بیشمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالٰی اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ (عليہ السلام) سے وصول کر رہی ہے۔ (فَسُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ) طه
40 1- یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ (عليہ السلام) فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ (عليہ السلام) کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ (عليہ السلام) کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ (عليہ السلام) کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ (عليہ السلام) نے اللہ کی تدبیر ومشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔ 2- یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ (عليہ السلام) سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا۔ 3- فُتُونٌ دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابْتَلَيْنَاكَ ابْتِلاءً یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حُجْرَةٌ کی حُجُورٌاور بَدْرٌ کی بُدُورٌکی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلا جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔ 4- یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔ 5- یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا۔ یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔ طه
41 طه
42 1- اس میں داعیان الی اللہ کے لئے بڑا سبق ہے کہ انہیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے۔ طه
43 طه
44 1- یہ وصف بھی داعیان کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ طه
45 طه
46 1- تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، تردد کی کوئی ضرورت نہیں۔ طه
47 1- یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن وسلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی (ﷺ) نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، ”أَسْلِمْ تَسْلَمْ“ (اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے ﴿وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى﴾ بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔ طه
48 طه
49 طه
50 1- مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ”راہ سجھائی“ کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود وباش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔ طه
51 1- فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہوگا؟۔ طه
52 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے جواب میں فرمایا، ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے وہ اس کے مطابق جزا وسزا دے گا، پھر اس کا علم اس طرح ہرچیز کو محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہو سکتی، نہ اسے بھول ہی لا حق ہو سکتی ہے۔ جب کہ مخلوق کے علم میں دونوں نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم محیط کل نہیں، بلکہ ناقص ہے۔ دوسرا علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں، میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ آگے، رب کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔ طه
53 طه
54 1- یعنی ان انواع و اقسام کی پیداوار میں کچھ چیزیں تمہاری خوراک اور لذت اور راحت کا سامان ہیں اور کچھ تمہارے چوپاؤں اور جانوروں کے لئے ہیں۔ 2- نُهَى، نُهْيَةٌ کی جمع ہے، بمعنی عقل، أُولُو النُّهَى عقل والے۔ عقل کو نُهْيَةٌ اور عقلمند کو ذُو نُهْيَةٍ، اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالآخر انہی کی رائے پر معاملہ انتہا پذیر ہوتا ہے، یا اس لئے کہ یہ نفس کو گناہوں سے روکتے ہیں، يَنْهَوْنَ النَّفْسَ عَنِ الْقَبَائِحِ (فتح القدیر) طه
55 1- بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی (ﷺ) سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔ تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ 152۔ وارواء الغلیل، نمبر، 251، ج3۔ ص200، ( كلاهما للألباني ) طه
56 طه
57 1- جب فرعون کو دلائل واضحہ کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے؟۔ طه
58 1- مَوْعِدٌ مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہو سکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کر لے۔ 2- مَكَانًا سُوًى صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔ طه
59 1- اس سے مراد نو روز یا کوئی اور سالانہ میلے یا جشن کا دن ہے جسے وہ عید کے طور پر مناتے تھے۔ طه
60 1- یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آ گیا۔ طه
61 1- جب فرعون اجتماع گاہ میں جادو گروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نواز نے کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے بھی مقابلے سے پہلے انہیں وعظ کیا اور ان کے موجودہ رویے پر انہیں عذاب الٰہی سے ڈرایا۔ طه
62 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے وعظ سے ان میں باہم کچھ اختلاف ہوا اور بعض چپکے چپکے کہنے لگے کہ یہ واقعی اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں والی نہیں پیغمبرانہ لگتی ہے۔ بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔ طه
63 1- مُثْلَى، طَرِيقَةٌ کی صفت ہے یہ أَمْثَلُ کی تانیث ہے افضل کے معنی میں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھائی اپنے ”جادو“ کے زور سے غالب آ گئے، تو سادات واشراف اس کی طرف مائل ہو جائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارا بہترین طریقہ یا مذہب، اسے بھی یہ ختم کر دیں گے۔ یعنی اپنے مشرکانہ مذہب کو بھی انہوں نے ”بہترین“ قرار دیا جیسا کہ آج بھی ہر باطل مذہب اور فرقے کے پیروکار اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں سچ فرمایا اللہ نے ﴿كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ﴾ ( الروم ۔32) ’’ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر ریجھ رہا ہے‘‘۔ طه
64 طه
65 طه
66 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے انہیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوسرا ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں هَبَاءً مَنْثُورًا ہو جائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔ 2- قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کر دی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہو جاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کر سکتا۔ طه
67 طه
68 1- اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح انبیاءکو دیگر انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں، اسی طرح وہ جادو سے بھی متاثر ہوسکتے ہیں، جس طرح نبی (ﷺ) پر بھی یہودیوں نے جادو کیا تھا، جس کے کچھ اثرات آپ محسوس کرتے تھے، اسے بھی منصب نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیوں کہ اس سے کار نبوت متاثر نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ نبی کی حفاظت فرماتا ہے اور جادو سے وحی یا فریضہ رسالت کی ادائیگی کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔ اور ممکن ہے کہ یہ خوف اس لئے ہو کہ میری لاٹھی ڈالنے سے قبل ہی کہیں لوگ ان کرتبوں اور شعبدہ بازیوں سے متاثر نہ ہوجائیں، لیکن اغلب ہے کہ یہ خوف اس لئے ہوا کہ ان جادوگروں نے بھی جو کرتب دکھایا، وہ لاٹھیوں کے ذریعے سے ہی دکھایا، جب کہ موسیٰ (عليہ السلام) کے پاس بھی لاٹھی ہی تھی جسے انہیں زمین پر پھینکنا تھا، موسیٰ (عليہ السلام) کے دل میں یہ خیال آیا کہ دیکھنے والے اس سے شبہے اور مغالطے میں نہ پڑ جائیں اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ دونوں نے ایک ہی قسم کا جادو پیش کیا، اس لئے یہ فیصلہ کیسے ہو کہ کون سا جادو ہے اور کون سے معجزہ؟ کون غالب ہے کون مغلوب؟ گویا جادو اور معجزے کا جو فرق واضح کرنا مقصود ہے، وہ مذکورہ مغالطے کی وجہ سے حاصل نہ ہوسکے گا، اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کو بسا اوقات یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ہاتھ پر کس نوعیت کا معجزہ ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ خود معجزہ کو ظاہر کرنے پر قدرت تو دور کی بات ہے، یہ تو محض اللہ کا کام ہے کہ وہ انبیاء کے ہاتھ پر معجزات ظاہر فرمائے، بہرحال موسیٰ (عليہ السلام) کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا: موسیٰ! کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا، اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیات میں ہے۔ طه
69 طه
70 طه
71 1- مِنْ خِلافٍ (الٹے سیدھے) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں۔ طه
72 1- یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب وَالَّذِي فَطَرَنَا کا عطف مَا جَاءَنَا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آ چکیں۔ 2- یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کر لے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم وستم سے تو بچ جائیں گے، کیونکہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے ،تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے، وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے۔ رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مومن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ وایمان پر جو تکلیفیں آئیں، انہیں جس حوصلہ وصبر اور عزم واستقامت سے برداشت کرنا چاہیے، جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ ومنصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب وتحریض انہیں متزلزل کر سکی نہ تشدید وتعذیب کی دھمکیاں انہیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ طه
73 1- دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ”ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں“ اس صورت میں مَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خَطَایانا پر ہوگا۔ 2- یہ فرعون کے الفاظ، ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي﴾ (طہ:71) کا جواب ہے کہ اے فرعون! تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالٰی کے ہاں ہمیں اجر وثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔ طه
74 1- یعنی عذاب سے تنگ آ کر موت کی آرزو کریں گے، تو موت نہیں آئے گی اور رات دن عذاب میں مبتلا رہنا، کھانے پینے کو زقوم جیسا تلخ درخت اور جہنمیوں کے جسموں سے نچڑا ہوا خون اور پیپ ملنا، یہ کوئی زندگی ہوگی؟۔ اللَّهُمَّ أَجِرْنَا مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ طه
75 طه
76 1- جہنمیوں کے مقابلے میں اہل ایمان کو جو جنت کی پر آسائش زندگی ملے گی، اس کا ذکر فرمایا اور واضح کر دیا کہ اس کے مستحق وہ لوگ ہونگے جو ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ یعنی اعمال صالح اختیار اور اپنے نفس کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کریں گے۔ اس لئے کہ ایمان زبان سے صرف چند کلمات ادا کر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ و عمل کے مجموعے کا نام ہے۔ طه
77 1- جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالٰی نے موسیٰ (عليہ السلام) کو یہ حکم دیا۔ 2- اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ (عليہ السلام) نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ 3- خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔ طه
78 1- یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہو جا، چنانچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہوگیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہوگیا۔ غَشِيَهُمْ، کے معنی ہیں عَلاهُمْ وَأَصَابَهُمْ سمندر کا پانی ان پر غالب آ گیا۔ مَا غَشِيَهُمْ یہ تکرار تعظیم وتہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں”جو کہ مشہور ومعروف ہے“۔ طه
79 1- اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا۔ طه
80 1- وَوَاعَدْنَاكُمْ میں ضمیر جمع مخاطب کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (عليہ السلام) کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ (عليہ السلام) سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ (عليہ السلام) کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تھا۔ 2- مَنٌّ وَسَلْوَى کے نزول کا واقعہ، سورہ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ مَنٌّ کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سَلْوَىٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انہیں پکڑ کر پکاتے اور کھا لیتے۔ (ابن کثیر) طه
81 1- طُغْيَانٌ کے معنی ہیں تجاوز کرنا، یعنی حلال اور جائز چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوز مت کرو، یا اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے یا کفر ان نعمت کا ارتکاب کر کے اور نافرمانی کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، ان تمام مفہومات پر طغیان کا لفظ صادق آتا ہے اور بعض نے کہا کہ طغیان کا مفہوم ہے، ضرورت وحاجت سے زیادہ پرندے پکڑنا یعنی حاجت کے مطابق پرندے پکڑو اور اس سے تجاوز مت کرو۔ 2- دوسرے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ ہاویہ یعنی جہنم میں گرا۔ ہاویہ جہنم کا نچلا حصہ ہے، یعنی جہنم کی گہرائی والے حصے کا مستحق ہوگیا۔ طه
82 1- یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔ کفر وشرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتٰی کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ وایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کر لیا، حتٰی کہ موت بھی اسے کفر وشرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔ طه
83 طه
84 1- سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ (عليہ السلام) اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔ طه
85 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالٰی نے طور پر موسیٰ (عليہ السلام) کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف باحیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ ﴿أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ﴾ سے واضح ہے۔ طه
86 1- اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔ 2- کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ 3- قوم نے موسیٰ (عليہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت وعبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔ طه
87 1- یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہوگئی، آگے اس کی وجہ بیان کی۔ طه
88 1- زِينَةٌ سے زیورات اور الْقَوْمِ سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتًا لئے تھے، اسی لئے انہیں أَوْزَارٌ وِزْرٌ ( بوجھ) کی جمع، کہا گیاہے، کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انہیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا ، کچھ ڈالا، (اور وہ مٹی تھی جیسا کہ آگے صراحت ہے) پھر اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ (عليہ السلام) تو گمراہ ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ (عليہ السلام) کا معبود تو یہ ہے۔ طه
89 1- اللہ تعالٰی نے ان کی جہالت ونادانی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہو سکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع ونقصان پہنچانے پر اور حاجت برآوری پر قادر ہو۔ طه
90 طه
91 1- حضرت ہارون (عليہ السلام) نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی۔ 2- اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون (عليہ السلام) کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم وعبادت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ طه
92 طه
93 1- یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔ طه
94 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون (عليہ السلام) کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، مداہنت کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون (عليہ السلام) کی داڑھی اور سر پکڑ کر انہیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون (عليہ السلام) نے انہیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔ 2- سورہ اعراف میں حضرت ہارون (عليہ السلام) کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ ”قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہوگئی“ (آیت: 142) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون (عليہ السلام) نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انہیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہو جائے کیونکہ ہارون (عليہ السلام) کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) چوں کہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بے خبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون (عليہ السلام) کو انہوں نے سخت سست کہا ۔لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) کہ مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کر لینا چاہیے کیونکہ حضرت ہارون (عليہ السلام) نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔ طه
95 طه
96 1- جمہور مفسرین نے الرَّسُولِ سے مراد جبرائیل (عليہ السلام) لئے ہیں اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل (عليہ السلام) کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہوگئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔ طه
97 1- یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا لا مِسَاسَ۔ کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ وفن اور مکر وفریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔ 2- یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہرصورت بھگتنا پڑے گا۔ 3- اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام ونشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس أَثَرِ الرَّسُولِ کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔ طه
98 طه
99 1- یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ (عليہ السلام) کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور ان میں عبرت کے پہلو ہوں، انہیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔ 2- نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات وسعادت کا راستہ اپناتا ہے۔ طه
100 1- یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔ 2- یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہوگا۔ طه
101 1- جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا۔ طه
102 1- صُورٌ سے مراد وہ قَرْنٌ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل (عليہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہو جائے گی (مسند احمد: 2/191)، ایک اور حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”اسرافیل (عليہ السلام) نے قرن کا لقمہ بنایا ہوا ہے، (یعنی اسے منہ سے لگائے کھڑا ہے) پیشانی جھکائی یا موڑی ہوئی ہے، رب کے حکم کے انتظار میں ہے کہ کب اسے حکم دیا جائے اور وہ اس میں پھونک مار دے“۔ (ترمذی، باب صفة القيامة، باب ما جاء في الصور) حضرت اسرافیل (عليہ السلام) کے پہلے نفخے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے نفخے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا نفخہ مراد ہے۔ طه
103 1- شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔ طه
104 1- یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔ یعنی دنیا کی زندگی انہیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہوگی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ﴾ (الروم:55) ”جس دن قیامت برپا ہوگی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے“ یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلا سورہ فاطر: 37، سورۃ المؤمنون: 112۔114، سورۃ النازعات وغیرہ۔ مطلب یہی ہے فانی زندگی کو باقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔ طه
105 طه
106 طه
107 طه
108 1- یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہو جائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہو جائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی۔ پھر ایک آواز آئیگی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ داعی بلائے گا، جائیں گے۔ 2- یعنی اس داعی سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔ 3- یعنی مکمل سناٹا ہوگا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔ طه
109 1- یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہونگے؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالٰی سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورہ نجم:26، سورہ انبیاء: 28، سورہ سباء:23، سورہ النباء: 38 اور آیت الکرسی۔ طه
110 1- گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کر دی گئی ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جا سکے؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالٰی ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء وصلحا کی سفارش کے مستحق ہیں؟ کیونکہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت وکیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔ طه
111 1- اس لئے کہ اس روز اللہ تعالٰی مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا۔ (صحيح مسلم ، كتاب البر، مسند أحمد، ج 2، ص235)، اسی لئے نبی (ﷺ) نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا [لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا]، ”ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا“۔ دوسری حدیث میں فرمایا [إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ؛ فَإِنَّ الظُّلْمَ؛ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ] ( صحيح مسلم، كتاب مذكور، باب تحريم الظلم )، ”ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا“، سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔ طه
112 1- بے انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہونگی۔ طه
113 1- یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آ جائیں۔ 2- یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔ طه
114 1- جس کا وعدہ اور وعید حق ہے، جنت دوزخ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔ 2- جبرائیل (عليہ السلام) جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی (ﷺ) بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالٰی نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورۃ القيامۃ میں آئے گا۔ 3- یعنی اللہ تعالٰی سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔ اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتوٰی میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت وحرفت ہیں۔ نبی کریم (ﷺ) جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی ورسالت ہی کا علم ہے جو قرآن وحدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط وتعلق اللہ تعالٰی کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق وکردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا وعدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے۔ ’’اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا، وَالْحَمْدُ للهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ‘‘۔ ( ابن ماجہ، باب الانتفاع بالعلم والعمل المقدمة) طه
115 1- نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استفغار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم (عليہ السلام) نے کیا) حضرت آدم (عليہ السلام) کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم (عليہ السلام) اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالٰی نے حضرت آدم (عليہ السلام) کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم (عليہ السلام) کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انہیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہوگئے۔ طه
116 طه
117 1- یہ شقا، محنت ومشقت کے معنی میں ہے، یعنی جنت میں کھانے پینے، لباس اور مسکن جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں۔ جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑے گی، جس طرح کہ ہر انسان کو دنیا میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں صرف آدم (عليہ السلام) سے کہا گیا کہ محنت مشقت میں پڑ جائیگا۔ دونوں کو نہیں کہا گیا حالانکہ درخت کا پھل کھانے والے آدم (عليہ السلام) و حوا دونوں ہی تھے۔ اس لئے اصل مخاطب آدم ہی تھے۔ نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اللہ تعالٰی نے عورت کو اس محنت و مشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ ”اعزاز الہٰی“ ”طوق غلامی“ نظر آتا ہے جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بے قرار اور مصروف جہد ہے آہ! اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین اور دلفریب ہے۔ طه
118 طه
119 طه
120 طه
121 1- یعنی درخت کا پھل کھا کر نافرمانی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب یا راہ راست سے بہک گئے۔ طه
122 1- اس سے بعض لوگ استدال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم (عليہ السلام) سے مذکورہ غلطیوں کا ہونا، نبوت سے قبل ہوا، اور نبوت سے اس کے بعد آپ کو نوازا گیا۔ لیکن ہم نے گزشتہ صفحے میں اس ”معصیت“ کی حقیقت بیان کی ہے، وہ عصمت کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسا سہو ونسیان، جس کا تعلق تبلیغ رسالت اور تشریع سے نہ ہو، بلکہ ذاتی افعال سے ہو اور اس میں بھی اس کا سبب ضعف ارادہ ہو تو یہ دراصل وہ معصیت ہی نہیں ہے، جس کی بناء پر انسان غضب الٰہی کا مستحق بنتا ہے۔ اس پر جو معصیت کا اطلاق کیا گیا ہے تو محض ان کی عظمت شان اور مقام بلند کی وجہ سے کہ بڑوں کی معمولی غلطی کو بھی بڑا سمجھ لیا جاتا ہے، اس لئے آیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد اسے نبوت کے لئے چن لیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ندامت اور توبہ کے بعد ہم نے اسے پھر اسی مقام پر فائز کر دیا، جو پہلے انہیں حاصل تھا۔ ان کو زمین پر اتار نے کا فیصلہ، ہماری مشیت اور حکمت ومصلحت پر مبنی تھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہمارا غضب ہے جو آدم پر نازل ہوا ہے۔ طه
123 طه
124 1- اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ، قلق واضطراب، بےچینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں۔ 2- اس سے مراد فی الواقع آنکھوں سے اندھا ہونا ہے یا پھر بصیرت سے محرومی مراد ہے یعنی وہاں اس کو کوئی ایسی دلیل نہیں سوجھے گی جسے پیش کر کے وہ عذاب سے چھوٹ سکے۔ طه
125 طه
126 طه
127 طه
128 طه
129 1- یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انہیں ہم اسکے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر چکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالٰی نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا انہیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہو جانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ طه
130 1- بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔ طلوع شمس سے قبل فجر، غروب سے قبل، عصر رات کی گھڑیوں سے مغرب وعشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح وتوحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بد دل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالٰی جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔ 2- یہ متعلق ہے فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہو جائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہو جائے۔ طه
131 1- یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورہ آل عمران: 196، 197، سورہ حجر: 87، 88 اور سورہ کہف: 7 وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔ 2- اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال واسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ نبی (ﷺ) نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) قیصرو کسرٰی، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا، عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔ یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا (بخاری، سورة التحريم- مسلم- باب الإيلاء) طه
132 1- اس خطاب میں ساری امت نبی (ﷺ) کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔ طه
133 1- یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔ 2- ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی (ﷺ) کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ طه
134 1- مراد آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں۔ طه
135 1- یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔ 2- اس کا علم تمہیں اس سے ہو جائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے؟ چنانچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہوگیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔ طه
0 الأنبياء
1 1- وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہرچیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔ 2- یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بےخبر ہیں۔ الأنبياء
2 1- یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات وضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر وغور وفکر نہیں کرتے۔ الأنبياء
3 1- یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔ الأنبياء
4 1- وہ تمام بندوں کی باتیں سنتا ہے اور سب کے اعمال سے واقف ہے، تم جو جھوٹ بکتے ہو، اسے سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ الأنبياء
5 1- ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔ 2- یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ (عليہ السلام) کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔ الأنبياء
6 1- یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب وعناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔ الأنبياء
7 1- یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔ 2- أَهْلَ الذِّكْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو بھی گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔ اس سے بعض حضرات ”تقلید“ کا اثبات کرتے ہیں، جو غلط ہے۔ ”تقلید“ یہ ہے کہ ایک معین شخص، اور اس کی طرف منسوب ایک معین فقہ کو مرجع بنایا جائے اور اسی پر عمل کیا جائے۔ دوسرا، یہ کہ بغیر دلیل کے اس بات کو تسلیم کیا جائے جب کہ آیت میں اہل الذکر سے مراد کوئی متعین شخص نہیں ہے۔ بلکہ ہر وہ عالم ہے جو تورات و انجیل کا علم رکھتا تھا۔ اس سے تو تقلید شخصی کی نفی ہوتی ہے۔ اس میں تو علماء کی طرف رجوع کرنے کی تاکید ہے، جو عوام کے لئے ناگزیر ہے، جس سے کسی کو مجال انکار نہیں ہے۔ نہ کہ کسی ایک ہی شخصیت کا دامن پکڑ لینے کا حکم ۔ علاوہ ازیں تورات و انجیل، منصوص کتابیں تھیں یا انسانوں کی خود ساختہ فقہیں؟ اگر وہ آسمانی کتابیں تھیں تو مطلب یہ ہوا کہ علماء کے ذریعے سے نصوص شریعت معلوم کریں، جو آیت کا صحیح مفہوم ہے۔ الأنبياء
8 1- بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔ الأنبياء
9 1- یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار ومشرکین کو ہم نے ہلاک کر دیا۔ الأنبياء
10 الأنبياء
11 1- قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ اور ”کَمْ “ صیغہ تکثیر ہے۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ”قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں“۔ (سورہ بنی اسرائیل:17) الأنبياء
12 1- احساس کے معنی ہیں، حواس کے ذریعے سے ادراک کر لینا۔ یعنی جب انہوں نے عذاب یا اس کے آثار کو آتے دیکھا یا کڑک گرج کی آواز سن کر معلوم کر لیا، تو اس سے بچنے کے لئے راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ رَكْضٌ کے معنی ہوتے ہیں آدمی گھوڑے وغیرہ پر بیٹھ کر اس کو دوڑانے کے لیے ایڑ لگائے یہیں سے یہ بھاگنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ الأنبياء
13 1- یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزاء کے طور پر کہا۔ 2- یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمہیں حاصل تھیں جو تمہارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو۔ 3- اور عذاب کے بعد تمہارا حال احوال تو پوچھ لیا جائے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کس طرح بیتی اور کیوں بیتی؟ یہ سوال بطور طنز اور مذاق کے ہے، ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہی کب رہتے تھے؟ الأنبياء
14 الأنبياء
15 1- یعنی جب تک زندگی کے آثار ان کے اندر رہے، وہ اعتراف ظلم کرتے رہے۔ 2- حَصِیْد کٹی ہوئی کھیتی کو اور خُمُودٌ آگ کے بجھ جانے کو کہتے ہیں۔ یعنی بالآخر وہ کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر ہوگئے، کوئی تاب وتوانائی اور حس وحرکت ان کے اندر نہ رہی۔ 1- الأنبياء
16 1- بلکہ اس کے کئی مقاصد اور حکمتیں ہیں، مثلاً بندے میرا ذکر وشکر کریں، نیکوں کو نیکیوں کی جزا اور بدوں کو بدیوں کی سزا دی جائے۔ وغیرہ۔ الأنبياء
17 1- یعنی اپنے پاس سے ہی کچھ چیزیں کھیل کے لئے بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کر لیتے۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی اور پھر اس میں ذی روح اور ذی شعور مخلوق بنانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ 2- ”اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے“ عربی اسلوب کے اعتبار سے یہ زیادہ صحیح ہے بہ نسبت اس ترجمہ کے کہ ”ہم کرنے والے ہی نہیں“ (فتح القدیر) الأنبياء
18 1- یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیرو شر کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں، جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں وہ نابود ہو جاتا ہے۔ دَمْغٌ سر کی ایسی چوٹ کو کہتے ہیں جو دماغ تک پہنچ جائے، زَهَقَ کے معنی، ختم یا ہلاک وتلف ہوجانے کے ہیں۔ 2- یعنی رب کی طرف سے تم جو بےسروپا باتیں منسوب کرتے یا اس کی بابت باور کراتے ہو، (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے، ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہے۔ کیونکہ اسے کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے۔ الأنبياء
19 1- سب اسی کی ملک اور اسی کے غلام ہیں، پھر جب تم کسی غلام کو اپنا بیٹا اور کسی لونڈی کو بیوی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالٰی اپنے مملوکین اور غلاموں میں سے بعض کو بیٹا اور بعض کو بیوی کس طرح بنا سکتا ہے؟۔ 2- اس سے مراد فرشتے ہیں، وہ بھی اس کے غلام اور بندے ہیں، ان الفاظ سے ان کا شرف واکرام بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کے مقربین ہیں۔ اس کی بیٹیاں نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔ الأنبياء
20 الأنبياء
21 1- استفہام انکاری ہے یعنی نہیں کر سکتے۔ پھر وہ ان کو جو کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتے، اللہ کا شریک کیوں ٹھہراتے اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ الأنبياء
22 1- یعنی اگر واقع آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو کائنات میں تصرف کرنے والی دو ہستیاں ہوتیں، دو کا ارادہ و شعور اور مرضی کار فرما ہوتی اور جب دو ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا تو یہ نظمِ کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا جو ابتدائے آفرینش سے، بغیر کسی ادنیٰ توقف کے قائم چلا آرہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔ دونوں کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا، دونوں کے اختیارات ایک دوسرے کے مخالف سمت میں استعمال ہوتے۔ جس کا نتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا اور اب تک ایسا نہیں ہوا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ ومشیت کار فرما ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کے حکم پر ہوتا ہے اس کے دئیے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں۔ الأنبياء
23 الأنبياء
24 1- ﴿ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ﴾ سے قرآن اور دوسرے ذکر سے سابقہ کتب آسمانی مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں، سب میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن یہ مشرکین اس حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور بدستور اس توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ الأنبياء
25 الأنبياء
26 1- یعنی تمام پیغمبر بھی یہی توحید کا پیغام لے کر آئے۔ الأنبياء
27 1- اس میں مشرکین کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا وہ بیٹیاں نہیں، اس کے ذی عزت بندے اور اس کے فرماں بردار ہیں۔ علاوہ ازیں بیٹے، بیٹیوں کی ضرورت، اس وقت پڑتی ہے۔ جب عالم پیری میں ضعف واضمحلال، ایسے عوارض ہیں جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اس لئے اسے اولاد کی یا کسی سہارے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ الأنبياء
28 1- اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء صالحین کے علاوہ فرشتے بھی سفارش کریں گے۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، لیکن یہ سفارش انہی کے حق میں ہوگی جن کے لئے اللہ تعالٰی پسند فرمائے گا۔ اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالٰی سفارش اپنے نافرمان بندوں کے لئے نہیں، صرف گناہ گار مگر فرماں بردار بندوں یعنی اہل ایمان وتوحید کے لئے پسند فرمائے گا۔ الأنبياء
29 1- یعنی ان فرشتوں میں سے بھی اگر کوئی الٰہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو ہم اسے بھی جہنم میں پھینک دیں گے۔ یہ شرطیہ کلام ہے، جس کا وقوع ضروری نہیں۔ مقصد، شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔ جیسے ﴿قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ﴾ (الزخرف:81) ”اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں سے ہوں گا“ ﴿لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ (الزمر:65) ”اے پیغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے عمل برباد ہو جائیں گے“ یہ سب مشروط ہیں جن کا وقوع غیر ضروری ہے۔ الأنبياء
30 1- اس سے رؤیت عینی نہیں، رؤیت قلبی مراد ہے۔ یعنی کیا انہوں نے غور وفکر نہیں کیا؟ یا انہوں نے جانا نہیں؟۔ 2- رَتْقٌ کے معنی، بند کے اور فَتْقٌ کے معنی پھاڑنے، کھولنے اور الگ الگ کرنے کے ہیں۔ یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کر دیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہوگئی۔ 3- اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جاکر قرار پکڑتا ہے۔ الأنبياء
31 1- یعنی اگر زمین پر یہ بڑے بڑے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین جنبش اور لرزش ہوتی رہتی، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے لئے زمین مسکن اور مستقر بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی۔ ہم نے پہاڑوں کا بوجھ اس پر ڈال کر اسے ڈانوا ڈول ہونے سے محفوظ کر دیا۔ 2- اس سے مراد زمین یا پہاڑ ہیں، یعنی زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے یا پہاڑوں میں درے رکھ دیئے، جس سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنا جانا آسان ہوگیا، يَهْتَدُونَ کا ایک دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح ومفادات حاصل کر سکیں۔ الأنبياء
32 1- ﴿سَقْفًا مَحْفُوظًا﴾ زمین کے لئے محفوظ چھت، جس طرح خیمے اور قبے کی چھت ہوتی ہے یا اس معنی میں محفوظ کہ ان کو زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، ورنہ آسمان زمین پر گر پڑیں تو زمین کا سارا نظام تہ وبالا ہو سکتا ہے۔ یا شیاطین سے محفوظ جیسے فرمایا ﴿وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ﴾ ( الحجر:17) الأنبياء
33 1- یعنی رات کو آرام اور دن کو معاش کے لئے بنایا، سورج کو دن کی نشانی چاند کو رات کی نشانی بنایا، تاکہ مہینوں اور سالوں کا حساب کیا جاسکے، جو انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے۔ 2- جس طرح پیراک سطح آب پر تیرتا ہے، اسی طرح چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر تیرتے یعنی رواں دواں رہتے ہیں۔ الأنبياء
34 1- یہ کفار کے جواب میں، نبی (ﷺ) کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقینا محمد رسول اللہ (ﷺ) بھی مستشنٰی نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہوگئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء واولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذِهِ الْعَقِيدَةِ الْفَاسِدَةِ الَّتِي تُعَارِضُ الْقُرْآنَ۔ الأنبياء
35 1- یعنی کبھی مصائب و رنج و غم سے دو چار کرکے اور کبھی دنیا کے وسائل فراواں سے بہرہ ور کر کے۔ کبھی صحت و فراخی کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے، کبھی تونگری دیکر اور کبھی فقر وفاقہ میں مبتلا کر کے ہم آزماتے ہیں۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ شکر گزاری کون کرتا ہے اور ناشکری کون؟ صبر کون کرتا ہے اور ناصبری کون؟ شکر اور صبر، یہ رضائے الٰہی کا اور کفران نعمت اور ناصبری غضب الٰہی کا موجب ہے۔ 2- وہاں تمہارے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ اول الذکر لوگوں کے لئے بھلائی اور دوسروں کے لئے برائی۔ الأنبياء
36 1- اس کے باوجود یہ رسول اللہ (ﷺ) کا ہنسی ومذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ ﴿وَإِذَا رَأَوْكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولا﴾ (الفرقان ۔41) ”جب اے پیغمبر! یہ کفار مکہ تجھے دیکھتے ہیں تو تیرا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا؟“ الأنبياء
37 1- یہ کفار کے مطالبہ عذاب کے جواب میں ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت میں عجلت اور جلد بازی ہے اس لئے وہ پیغمبروں سے بھی جلدی مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے کہ اپنے اللہ سے کہہ کہ ہم پر فوراً عذاب نازل کروا دے۔ اللہ نے فرمایا جلدی مت کرو، میں عنقریب اپنی نشانیاں تمہیں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے مراد عذاب بھی ہو سکتا ہے اور صداقت رسول (ﷺ) کے دلائل وبراہین بھی۔ الأنبياء
38 الأنبياء
39 1- اس کا جواب مخذوف ہے، یعنی اگر یہ جان لیتے تو پھر عذاب کا جلدی مطالبہ نہ کرتے یا یقینا جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے یا کفر پر قائم نہ رہتے بلکہ ایمان لے آتے۔ الأنبياء
40 1- یعنی انہیں کچھ سجھائی نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں۔ 2- کہ وہ توبہ واعتذار کا اہتمام کرلیں۔ الأنبياء
41 1- رسول اللہ (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین کے استہزاء اور تکذیب سے بد دل نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تجھ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا، بالآخر وہی عذاب ان پر الٹ پڑا، یعنی اس نے انہیں گھیر لیا، جس کا وہ استہزاء و مذاق اڑایا کرتے تھے اور جس کا وقوع ان کے نزدیک ابھی مستبعد تھاجس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا﴾ (الأنعام : 34) ”تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے پس انہوں نے تکذیب پر اور ان تکلیفوں پر جو انہیں دی گئیں صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی“، رسول اللہ (ﷺ) کی تسلی کے ساتھ کفار ومشرکین کے لیے اس میں تہدید ووعید بھی ہے۔ الأنبياء
42 1- یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آسکتا ہے؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کر سکے؟ الأنبياء
43 1- اس کے معنی ہیں ”وَلَا ھُمْ یَجْارُوْنَ مِنْ عَذَابِنَا“ ”نہ وہ ہمارے عذاب سے ہی محفوظ ہیں“، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور اللہ کے عذاب سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوئی ہے اور وہ انہیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ الأنبياء
44 1- یعنی ان کی یا ان کے آبا واجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں؟ اور آئندہ بھی انہیں کچھ نہیں ہوگا؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ 2- یعنی ارض کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔ 3- یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔ الأنبياء
45 1- یعنی قرآن سنا کر انہیں وعظ ونصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کر دیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ ونصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ الأنبياء
46 1- یعنی عذاب کا ایک ہلکا سا چھٹا اور تھوڑا حصہ بھی پہنچے گا تو پکار اٹھیں گے اور اعتراف جرم کرنے لگ جائیں گے۔ الأنبياء
47 1- مَوَازِينُ، مِيزَانٌ (ترازو) کی جمع ہے وزن اعمال کے لئے قیامت والے دن یا تو کئی ترازو ہونگے یا ترازو تو ایک ہی ہوگی انسان کے اعمال تو بےوزن ہیں یعنی ان کا کوئی ظاہری وجود یا جسم تو ہے نہیں پھر وزن کس طرح ہوگا؟ یہ سوال آج سے قبل تک شاید کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سائنسی ایجادات نے اسے ممکن بنا دیا ہے۔ اب ان ایجادات کے ذریعے سے بےوزن چیزوں کا وزن بھی تولا جانے لگا ہے۔ جب انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے، تو اللہ کے لئے ان اعمال کا، جو اعراض ہیں، وزن کرنا کون سا مشکل امر ہے، اس کی تو شان ہی عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ انسانوں کو دکھلانے کے لئے ان بےوزن اعمال کو وہ اجسام میں بدل دے گا اور پھر وزن کرے، جیسا کہ حدیث میں بعض اعمالوں کے مجسم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلا! صاحب قرآن کے لئے ایک خوش شکل نوجوان کی شکل میں آئے گا۔ اور پوچھے گا، تو کون ہے؟ وہ کہے گا میں قرآن ہوں جسے تو راتوں کو (قیام اللیل) بیدار رہ کر اور دن کو پیاسا رہ کر پڑھا کرتا تھا ( مسند أحمد 5/ 348 ، 235 وابن ماجہ، كتاب الأدب، باب ثواب القرآن )، اسی طرح مومن کی قبر میں عمل صالح ایک خوش رنگ اور معطر نوجوان کی شکل میں آئے گا اور کافر اور منافق کے پاس اس کی برعکس شکل میں (مسند أحمد 5/287)۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ الاعراف 7 کا حاشیہ القِسْطَ مصدر اور الْمَوَازِينَ کی صفت ہے معنی ہیں ذَوَاتُ قِسْطٍ انصاف کرنے والی ترازو یا ترازوئیں۔ الأنبياء
48 1- یہ تورات کی صفات بیان کی گئی ہیں جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو دی گئی تھی۔ اس میں بھی متقین کے لئے ہی نصیحت تھی۔ جیسے قرآن کریم کو بھی ﴿هُدًى لِلْمُتَّقِينَ﴾ (البقرة ۔2) کہا گیا، کیونکہ جن کے دلوں میں اللہ کا تقوٰی نہیں ہوتا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، تو آسمانی کتاب ان کیلئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ کس طرح بنے، نصیحت یا ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس میں غور وفکر کیا جائے۔ الأنبياء
49 1- یہ متقین کی صفات ہیں، جیسے سورہ بقرہ کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر بھی متقین کی صفات کا تذکرہ ہے۔ الأنبياء
50 1- یہ قرآن، جو یاد دہانی حاصل کرنے والے کے لئے ذکر اور نصیحت اور خیر وبرکت کا حامل ہے، اسے بھی ہم نے ہی اتارا ہے۔ تم اس کے مُنَزَّل مِّنَ اللّٰہِ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو، جب کہ تمہیں اعتراف ہے کہ تورات اللہ کی طرف سے ہی نازل کردہ کتاب ہے۔ الأنبياء
51 1- مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم (عليہ السلام) کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقعہ، موسیٰ (عليہ السلام) کو ایتائے تورات سے پہلے کا ہے یا یہ مطلب ہے کہ ابراہیم (عليہ السلام) کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کر دی تھی۔ 2- یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔ الأنبياء
52 1- تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم (عليہ السلام) نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عَاكِفٌ، عُكُوفٌ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم وعبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں (مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں سمجھ عطا فرمائے۔ الأنبياء
53 1- جس طرح آج بھی جہالت وخرافات میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو بدعات ورسومات جاہلیہ سے روکا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کس طرح چھوڑیں جب کہ ہمارے آبا واجداد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہی جواب وہ حضرات دیتے ہیں جو نصوص کتاب وسنت سے اعراض کر کے علماء ومشائخ کے آراء وافکار سے چمٹے رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ الأنبياء
54 الأنبياء
55 1- یہ اس لئے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل توحید کی آواز ہی نہیں سنی تھی انہوں نے سوچا، پتہ نہیں، ابراہیم (عليہ السلام) ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا ہے۔ الأنبياء
56 1- یعنی میں مذاق نہیں کر رہا، بلکہ ایک ایسی چیز پیش کر رہا ہوں جس کا علم و یقین (مشاہدہ) مجھے حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمہارا معبود مورتیاں نہیں، بلکہ وہ رب ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان کا پیدا کرنے والا ہے۔ الأنبياء
57 1- یہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس سے مقصود بعض لوگوں کو سنانا تھا۔ مراد یہی وہ عملی کوشش ہے جو وہ زبانی وعظ کے بعد عملی اہتمام کی شکل میں کرنا چاہتے تھے۔ یعنی بتوں کی توڑ پھوڑ۔ الأنبياء
58 1- چنانچہ وہ جس دن اپنی عید یا کوئی جشن مناتے تھے، ساری قوم اس کے لئے باہر چلی گئی اور ابراہیم (عليہ السلام) نے موقع غنیمت جان کر انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، بعض کہتے ہیں کہ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی تاکہ وہ اس سے پوچھیں۔ الأنبياء
59 1- یعنی جب وہ جشن سے فارغ ہو کر آئے تو دیکھا کہ معبود تو ٹوٹے پڑے ہیں، تو کہنے لگے، یہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔ الأنبياء
60 1- ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے یہ اس کی کارستانی ہے۔ الأنبياء
61 1- یعنی اس کو سزا ملتی ہوئی دیکھیں تاکہ آئندہ کوئی اور یہ کام نہ کرے۔ یا یہ معنی ہیں کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے ابراہیم (عليہ السلام) کو بت توڑتے ہوئے دیکھا یا ان کے خلاف باتیں کرتے ہوئے سنا ہے۔ الأنبياء
62 الأنبياء
63 1- چنانچہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے پوچھا گیا، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول کر بتلا سکتے ہیں تو ذرا ان سے پوچھو تو سہی۔ یہ بطور اپنے مطلب کے بات کی یا انہوں نے کہا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو نہ کسی چیز سے آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ معبود نہیں ہو سکتا۔ نہ اس پر الہ کا اطلاق ہی صحیح ہے ایک حدیث صحیح میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے اس قول ﴿بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ کو لفظ کذب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابراہیم (عليہ السلام) نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لیے ایک (انی سقیم) اور دوسرا یہی اور تیسرا حضرت سارہ اپنی بیوی کو بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے اس حدیث صحیح کو قرآن کے خلاف باور کر کے اس کا انکار کر دیا ہے اور اس کی صحت پر اصرار غلو اور روایت پرستی قرار دیا ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں یقینا حقیقت کے اعتبار سے انہیں جھوٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن ظاہری شکل کے لحاظ سے ان کو کذب سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے گو یہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں درآں حالیکہ کوئی گناہ کا کام اللہ کے لیے نہیں ہو سکتا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو جیسے حضرت آدم (عليہ السلام) کے لیے عصی اور غوی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں حالانکہ خود قرآن میں ہی ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہو سکتے ہیں من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ظاہری قباحت کا پہلو۔ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا لیکن اس کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا لیکن چونکہ مقصد ان کا تعریض اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بےعقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جاکر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے درآنحالیکہ وہ لغزشیں نہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کی عظمت وجلال کیوجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔ الأنبياء
64 1- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑ گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیونکر ہو سکتا ہے؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔ الأنبياء
65 1- پھر اے ابراہیم (علیہ السلام) تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں، جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔ الأنبياء
66 الأنبياء
67 1- یعنی جب وہ خود ان کی بے بسی کے اعتراف پر مجبور ہوگئے تو پھر ان کی بےعقلی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسے بےبسوں کی تم عبادت کرتے ہو؟ الأنبياء
68 1- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے جب یوں اپنی حجت تمام کر دی اور ان کی ضلالت وحماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کر دیا کہ وہ لاجواب ہوگئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر وشرک نے ان کے دلوں کو بےنور کر دیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آجاتے، الٹا ابراہیم (عليہ السلام) کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کر دی، چنانچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو کہا جاتا ہے کہ منجنیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم (عليہ السلام) کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ، ٹھنڈی کے ساتھ ' سلامتی ' نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم (عليہ السلام) کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل وگلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔ الأنبياء
69 الأنبياء
70 الأنبياء
71 1- اس سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک شام ہے۔ جسے شادابی اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے۔ الأنبياء
72 1- نَافِلَۃ، زائد کو کہتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے تو صرف بیٹے کے لئے دعا کی تھی، ہم نے بغیر دعا مزید پوتا بھی عطا کر دیا۔ الأنبياء
73 الأنبياء
74 الأنبياء
75 1- حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے برادر زاد (بھتیجے) تھے اور حضرت ابراہیم (عليہ السلام) پر ایمان لانے والے اور ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کرکے شام جانے والوں میں سے تھے۔ اللہ نے ان کو بھی علم و حکمت یعنی نبوت سے نوازا۔ یہ جس علاقے میں نبی بنا کر بھیجے گئے، اسے عمورہ اور سدوم کہا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کے بحیرہ مردار سے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا۔ جس کا بڑا حصہ اب بحیرہ مردار کا جزو ہے۔ ان کی قوم لواطت جیسے فعل شنیع، گزر گاہوں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں پر آوازیں کسنا اور انہیں تنگ کرنا روڑے ریزے پھینکنا وغیرہ میں ممتاز تھی، جسے اللہ نے یہاں خبائث (پلید کاموں) سے تعبیر فرمایا ہے۔ بالآخر حضرت لوط (عليہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل کرکے یعنی انہیں اور ان کے پیروکار کو بچا کر قوم کو تباہ کر دیا گیا۔ الأنبياء
76 الأنبياء
77 الأنبياء
78 الأنبياء
79 1- مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر گئیں۔ حضرت داؤد (عليہ السلام) نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہو جائے۔ حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کر دی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کرکے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آجائے جو بکریوں کے چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کر دی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کر دیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد (عليہ السلام) کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد عليہ السلام اور سلیمان عليہ السلام دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں منصفین ہو سکتے ہیں، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہوگا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر)۔ 2- اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا)، ہر کہ ومہ کی اونچی آواز سے پہاڑوں میں گونج پیدا ہوسکتی ہے۔ بلکہ مطلب حضرت داود (عليہ السلام) کی تسبیح کے ساتھ پہاڑوں کا بھی تسبیح پڑھان ہے۔ نیز یہ مجازاً نہیں حقیقتاً تھا۔ 3- یعنی پرندے بھی داؤد (عليہ السلام) کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے،والطیر یا تو مفتوح ہے اور اس کا عطف الجبال پر ہے یا پھر یہ مرفوع ہے اور خبر محذوف کا مبتدا ہے یعنی والطیر مسخرات۔ مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد (عليہ السلام) کے لئے مسخر کر دیئے گئے تھے (فتح القدیر) 4- یعنی یہ تفہیم، ایتائے حکم اور تسخیر، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ الأنبياء
80 1- یعنی لوہے کو ہم نے داؤد (عليہ السلام) کے لئے نرم کر دیا تھا، وہ اس سے جنگی لباس، لوہے کی زریں تیار کرتے تھے، جو جنگ میں تمہاری حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ حضرت قتادہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد (عليہ السلام) سے پہلے بھی زریں بنتی تھیں۔ لیکن وہ سادہ بغیر کنڈوں اور بغیر حلقوں کے ہوتی تھیں، حضرت داؤد (عليہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے کنڈے دار حلقے والی زریں بنائیں (ابن کثیر) الأنبياء
81 1- یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد (عليہ السلام) کے لئے مسخر کر دیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے تابع کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے اعیان سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کر لے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔ الأنبياء
82 1- جنات بھی حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے تابع تھے جو ان کے حکم سے سمندروں میں غوتے لگاتے اور موتی اور جواہر نکال لاتے، اسی طرح دیگر عمارتی کام، جو آپ چاہتے کرتے تھے۔ 2- یعنی جنوں کے اندر جو سرکشی اور فساد کا مادہ ہے، اس سے ہم نے سلیمان (عليہ السلام) کی حفاظت کی اور وہ ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں رکھتے تھے۔ الأنبياء
83 الأنبياء
84 1- قرآن مجید میں حضرت ایوب (عليہ السلام) کو صابر کہا گیا ہے، (سورۂ ص:44) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں مال ودولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالٰی نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتٰی کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ 8ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال واولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ (اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی ایک روایت میں ملتی ہے ج4، ص244، ومجمع الزوائد8/208)، جس کا اظہار حضرت ایوب (عليہ السلام) نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے اس کے لئے 'ہم نے قبول کر لی' کے الفاظ استعمال فرمائے۔ الأنبياء
85 1- ذوالکفل کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں؟ بعض نے ان کی نبوت کے اور بعض ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابن جریر نے ان کی بابت توقف اختیار کیا ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں، قرآن میں نبیوں کے ساتھ ان کا ذکر ان کے نبی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ الأنبياء
86 الأنبياء
87 1- مچھلی والے سے مراد حضرت یونس (عليہ السلام) ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انہیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انہیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا، اس کی کچھ تفصیل سورۃ یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورہ صافات میں آئے گی۔ 2- ظُلُمَاتٌ, ظُلْمَةٌ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا۔ حضرت یونس (عليہ السلام) متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔ الأنبياء
88 1- ہم نے یونس (عليہ السلام) کی دعا قبول کی اور اسے اندھیروں سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور جو بھی مومن ہمیں اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا " جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایاہے"۔ (جامع ترندی نمبر 5503 وصححہ الالبانی) الأنبياء
89 الأنبياء
90 1- حضرت زکریا (عليہ السلام) کا بڑھاپے میں اولاد کے لئے دعا کرنا اور اللہ کی طرف سے اس کا عطا کیا جانا، اس کی ضروری تفصیل سورہ آل عمران اور سورہ طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ 2- یعنی وہ بانجھ اور ناقابل اولاد تھی، ہم نے اس کے اس نقص کا ازالہ فرما کر اسے نیک بچہ عطا فرمایا۔ 3- گویا قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیا جائے جن کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً الحاح وزاری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا ومناجات، نیکی کے کاموں میں سبقت، خوف وطمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رب کو پکارنا اور اس کے سامنے عاجزی اور خشوع خضوع کا اظہار۔ الأنبياء
91 1- یہ حضرت مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ الأنبياء
92 1- امۃ سے مراد یہاں دین یا ملت یعنی تمہارا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ دین ہے دین توحید، جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی اور ملت، ملت اسلام ہے جو تمام انبیاء کی ملت رہی۔ جس طرح نبی (ﷺ) نے فرمایا ' ہم انبیاء کی جماعت اولاد علات ہیں، (جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوں) ہمارا دین ایک ہی ہے ' (ابن کثیر) الأنبياء
93 1- یعنی دین توحید اور عبادت رب کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہوگیا اور انبیاء و رسل کے ماننے والے بھی گروہ بن گئے، کوئی یہودی ہو گیا، کوئی عیسائی، کوئی کچھ اور اور بد قسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگئیں اور یہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان سب کا فیصلہ، جب یہ بارگاہ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گے۔ تو وہیں ہوگا۔ الأنبياء
94 الأنبياء
95 1- حرام واجب کے معنی میں ہے، جیسا کہ ترجمے میں واضح ہے۔ یا پھر لَا یَرْجِعُوْنَ میں لَا زائد ہے، یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا، اس کا دنیا میں پلٹ کر آنا حرام ہے۔ الأنبياء
96 1- یاجوج ماجوج کی ضروری تفصیل سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی موجودگی میں قیامت کے قریب ان کا ظہور ہوگا اور اتنی تیزی اور کثرت سے یہ ہر طرف پھیل جائیں گے کہ ہر اونچی جگہ یہ دوڑتے ہوئے محسوس ہونگے۔ ان کی فساد انگیزیوں اور شرارتوں سے اہل ایمان تنگ آ جائیں گے حتٰی کی حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) اہل ایمان کو ساتھ لے کر کوہ طور پر پناہ گزیں ہو جائیں گے، پھر حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی بد دعا سے یہ ہلاک ہو جائیں گے اور ان کی لاشوں کی سڑاند اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوگی، حتٰی کہ اللہ تعالٰی پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے پھر ایک زور دار بارش نازل فرمائے گا، جس سے ساری زمین صاف ہو جائیگی۔ (یہ ساری تفصیلات صحیح حدیث میں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لئے تفسیر ابن کثیر ملاحطہ ہو) الأنبياء
97 1- یعنی یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وعدہ، جو برحق ہے، بالکل قریب آجائے گا اور جب یہ قیامت برپا ہو جائے گی شدت ہولناکی کی وجہ سے کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ الأنبياء
98 1- یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزٰی و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں (مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جارہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔پتھر کی مورتیوں کا اگرچہ کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ وہ تو غیر عاقل اور بے شعور ہیں۔ لیکن انہیں پجاریوں کے ساتھ جہنم میں صرف مشرکوں کو مزید ذلیل ورسوا کرنے کے لئے ڈالا جائے گا کہ جن معبودوں کو تم اپنا سہارا سمجھتے تھے، وہ بھی تمہارے ساتھ ہی جہنم میں، جہنم کا ایندھن ہیں۔ الأنبياء
99 1- یعنی اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو با اختیار ہوتے اور تمہیں جہنم جانے سے روک لیتے۔ لیکن وہ تو خود جہنم میں بطور عبرت کے جا رہے ہیں۔ تمہیں جانے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔ لہذا عابد ومعبود دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ الأنبياء
100 1- یعنی سارے کے سارے شدت غم والم سے چیخ اور چلا رہے ہونگے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے۔ الأنبياء
101 1- بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا تھا یا مشرکین کی طرف سے پیدا کیا جاسکتا تھا، جیسا کہ فی الواقع کیا جاتا ہے کہ عبادت تو حضرت عیسیٰ وعزیر علیہماالسلام، فرشتوں اور بہت سے صالحین کی بھی کی جاتی ہے تو کیا یہ بھی اپنے عابدین کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے؟ اس آیت میں اس کا ازالہ کر دیا گیا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ کے نیک بندے تھے جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لئے نیکی یعنی سعادت ابدی یا بشارت جنت ٹھہرائی جا چکی ہے۔ یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے۔ انہی الفاظ سے یہ مفہوم بھی واضح طور پر نکلتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں یہ خواہش رکھتے ہوں گے کہ ان کی قبروں پر بھی قبے بنیں اور لوگ انہیں قاضی الحاجات سمجھ کر ان کے نام کی نذرو نیاز دیں اور ان کی پرستش کریں، یہ بھی پتھر کی مورتیوں کی طرح جہنم کا ایندھن ہوں گے، کیونکہ غیر اللہ کی پرستش کے داعی ﴿سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى﴾‌ میں یقینا نہیں آتے۔ الأنبياء
102 الأنبياء
103 1- بڑی گھبراہٹ سے موت یا صور اسرافیل مراد ہے یا وہ لمحہ جب دوزخ اور جنت کے درمیان موت کو ذبح کر دیا جائے گا۔ دوسری بات یعنی صور اسرافیل اور قیام قیامت سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ الأنبياء
104 1- یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ﴾ ( الزمر:87) آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہونگے ' ' سِجِل کے معنی صحیفے یا رجسٹر کے ہیں لِلْکُتُبِ کے معنی ہیں عَلَی الْکِتَابِ بِمَعْنَی الْمَکْتُوْبِ (تفسیر ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے، اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔ الأنبياء
105 1- زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پند ونصیحت جیسا کہ ترجمہ میں درج ہے یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہونگے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے، اس وعدہ الٰہی کے مطابق، زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت حال کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ اور إِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوطُ کے مطابق جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہوگئے تو اقتدار سے بھی محروم کردئیے گئے اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہ ہے صالحیت یعنی اللہ رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اس کے حدود وضابطوں پر کاربند رہنا۔ الأنبياء
106 1- فی ‌ھذا سے مراد وہ وعظ وتنبیہ ہے جو اس سورت میں مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے بلاغ سے مراد کفایت ومنفعت ہے یعنی وہ کافی اور مفید ہے یا اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں مسلمانوں کے لئے بڑا فائدہ اور کفالت ہے عابدین سے، خشوع خضوع سے اللہ کی عبادت کرنے والے، اور شیطان اور خواہشات نفس پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دینے والے ہیں۔ الأنبياء
107 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتًا دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوگا اور اور چونکہ آپ (ﷺ) کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ (ﷺ) پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی (ﷺ) کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ (ﷺ) کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ (ﷺ) کی رحمت کا ایک حصہ تھا۔[ إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا بُعِثْتُ رَحْمَة ] (صحيح مسلم نمبر:2006) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب وشتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ (ﷺ) کی رحمت کا حصہ ہے (مسند أحمد 5/ 437 أبو داود نمبر 4659 والأحاديث الصحيحة للألباني نمبر1758) اسی لیے ایک حدیث میں آپ (ﷺ) نے فرمایا [ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ ] (صحيح الجامع الصغير نمبر2345) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔ الأنبياء
108 1- اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔ الأنبياء
109 1- یعنی جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم میری دعوت توحید واسلام سے منہ موڑ کر میرے دشمن ہو، اسی طرح تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں بھی تمہارا دشمن ہوں اور ہماری تمہاری آپس میں کھلی جنگ ہے۔ 2- اس وعدے سے مراد قیامت ہے یا غلبہ اسلام ومسلمین کا وعدہ یا وہ وعدہ جب اللہ کی طرف سے تمہارے خلاف جنگ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے گی۔ الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 1- یعنی اس وعدہ الٰہی میں تاخیر، میں نہیں جانتا کہ تمہاری آزمائش کے لئے ہے یا ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھانے کے لئے مہلت دینا ہے۔ 2- یعنی میری بابت جو تم مختلف باتیں کرتے رہتے ہو، یا اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہو، ان سب باتوں کے مقابلے میں وہ رب ہی مہربانی کرنے والا اور وہی مدد کرنے والا ہے۔ الأنبياء
0 الحج
1 الحج
2 1- آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہوگا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائیگی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہوگا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔ جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلا اللہ تعالٰی آدم (عليہ السلام) کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں 999 جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہونگے صرف عذاب کی شدت ہوگی۔ یہ بات صحابہ(رضی الله عنہم) پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہوگئے نبی (ﷺ) نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں) یہ 999 یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہوگا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہوگی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورہ حج) پہلی رائے بھی بےوزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہوگی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہوسکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہوگی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔ الحج
3 1- مثلًا یہ کہ اللہ تعالٰی دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا اس کی اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔ الحج
4 1- یعنی شیطان کی بابت تقدیر الٰہی میں یہ بات ثبت ہے۔ الحج
5 1- یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃ گاڑھا خون اور عَلَقَۃ سے مُضْغَۃ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہو جائے، ایسے بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے اور تکمیل کے بعد اس کی ولادت ہوجاتی ہے اور غیر مخلقۃ، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہو جائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ (لوتھڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحيح بخاری كتاب الأنبياء وكتاب القدر، مسلم كتاب القدر ، باب كيفية الخلق الآدميٍ) 2- یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔ 3- یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔ 4- یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل وکمال قوت وتمیز کی عمر، جو 30 سے 40 سال کے درمیان عمر ہے۔ 5- اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہو جانا اور یاداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہو جانا، جسے سورہ یٰسین میں ﴿وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ﴾ (یس:68) اور سورہ تین میں ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾(التین:5) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 6- یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے) پر اللہ تعالٰی کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کر سکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہوجائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کر دینا مشکل ہے؟ یقینا جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالٰی قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔ جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی (رضی الله عنہ) نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی (ﷺ) نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ (ﷺ) نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کا جی اٹھنا ہوگا۔ (مسند احمد جلد 4، ص11 ابن ماجہ المقدمہ، حدیث نمبر 180) الحج
6 الحج
7 الحج
8 الحج
9 1- ثانی اسم فاعل ہے موڑنے والا عطف کے معنی پہلو کے ہیں یہ یجادل سے حال ہے اس میں اس شخص کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو بغیر کسی عقلی اور نقلی دلیل کے اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے کہ وہ تکبر اور اعراض کرتے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتا ہے جیسے دوسرے مقامات پر اس کیفیت کو ان الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔﴿وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا﴾ (لقمان:7) ﴿لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ﴾ (المنافقون:5) ﴿اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ﴾ (الاسراء:83) الحج
10 الحج
11 1- حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہیں تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ وہ عسر ویسر کو دیکھے بغیر دین پر قائم رہتے ہیں، نعمتوں سے بہر ور ہوتے ہیں تو شکر ادا کرتے اور تکلیفوں سے دوچار ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں۔ اس کی شان نزول میں ایک مذبذب شخص کا طریقہ بھی اسی طرح کا بیان کیا گیا۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورة الحج) کہ ایک شخص مدینے آتا، اگر اس کے گھر بچے ہوتے، اسی طرح جانوروں میں برکت ہوتی، تو کہتا، یہ دین اچھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کہتا، یہ دین برا ہے۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور) الحج
12 الحج
13 1- بعض مفسرین کے نزدیک یدعو، یقول کے معنی میں ہے۔ یعنی غیر اللہ کا پجاری قیامت والے دن کہے گا کہ جس کا نقصان، اس کے نفع کے قریب تر ہے، وہ والی اور ساتھی یقینا برا ہے۔ یعنی اپنے معبودوں کے بارے یہ کہے گا کہ وہاں اس کی امیدوں کے محل ڈھے جائیں گے اور یہ معبود، جن کی بابت اس کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے عذاب سے اسے بچائیں گے، اس کی شفاعت کریں گے، وہاں خود وہ معبود بھی، اس کے ساتھ ہی جہنم کا ایندھن بنے ہونگے۔ مولیٰ کے معنی ولی اور مددگار کے اور عشیر کےمعنی ہم نشین، ساتھی اور قرابت دار کے ہیں۔ مددگار اور ساتھی تو وہ ہوتا ہے جو مصیبت کے وقت کام آئے، لیکن یہ معبود خود گرفتار عذاب ہوں گے یہ کسی کے کیا کام آئیں گے؟ اس لئے انہیں برا والی اور برا ساتھی کہا گیا۔ ان کی عبادت ضرر ہی ضرر ہے، نفع کا تو اس میں کوئی حصہ ہی نہیں ہے، پھر یہ جو کہا گیا ہے کہ ان کا نقصان، ان کے نفع سے قریب تر ہے، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا: ﴿وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ﴾ (سبا:24) ”بےشک ہم (یعنی اللہ کے ماننے والے) یا تم (اس کا انکار کرنے والے) ہدایت پر ہیں، یا کھلی گمراہی میں“۔ ظاہر بات ہے کہ ہدایت پر وہی ہیں جو اللہ کو ماننے والے ہیں۔ لیکن اسے واضح الفاظ میں کہنے کی بجائے کنائے اور استفہام کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جو سامع کے لئے زیادہ موثر اور بلیغ ہوتا ہے۔ یا اس کا تعلق دنیا سے ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ غیر اللہ کو پکارنے سے فوری نقصان تو اس کا ہوا کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ قریب نقصان ہے۔ اور آخرت میں تو اس کا نقصان تحقیق شدہ ہی ہے۔ الحج
14 الحج
15 1- اس کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص، جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے پیغمبر (ﷺ) کی مدد نہ کرے، کیونکہ اس کے غلبہ و فتح سے اسے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ اپنے گھر کی چھت پر رسی لٹکا کر اور اپنے گلے میں اس کا پھندا لے کر اپنا گلا گھونٹ لے، شاید یہ خود کشی اسے غیظ وغضب سے بچا لے جو محمد (ﷺ) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ کر اپنے دل میں پاتا ہے۔ اس صورت میں سماء سے مراد گھر کی چھت ہوگی۔ دوسرے معنی ہیں کہ ایک رسہ لے کر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو وحی یا مدد آتی ہے، اس کا سلسلہ ختم کرا دے (اگر وہ کر سکتا ہے) اور دیکھے کہ کیا اس کے بعد اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ہے؟ امام ابن کثیر نے پہلے مفہوم کو اور امام شوکانی نے دوسرے مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے اور سیاق سے یہی دوسرا مفہوم زیادہ قریب لگتا ہے۔ الحج
16 الحج
17 1- مجوس سے مراد ایران کے آتش پرست ہیں جو دو خداؤں کے قائل ہیں، ایک ظلمت کا خالق ہے، دوسرا نور کا، جسے وہ اہرمن اور یزداں کہتے ہیں۔ 2- ان میں مذکورہ گمراہ فرقوں کے علاوہ جتنے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں، سب آگئے۔ 3- ان میں سے حق پر کون ہے، باطل پر کون، یہ تو ان دلائل سے واضح ہو جاتا ہے جو اللہ اپنے قرآن میں نازل فرماتے ہیں اور اپنے آخری پیغمبر کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا، ﴿لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ﴾ (الفتح:28) یہاں فیصلے سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالٰی باطل پرستوں کو قیامت والے دن دے گا، اس سزا سے بھی واضح ہو جائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون کون۔ الحج
18 1- یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہوگا، بلکہ عدل وانصاف کے مطابق ہوگا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہرچیز کا علم ہے۔ 2- بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کر سکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں جو صرف عقلا کے ساتھ خاص ہے۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلا «مَنْ فِي السَّمَواتِ» سے مراد فرشتے ہیں ﴿وَمَنْ فِي الأَرْضِ﴾ سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں ﴿وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِه﴾ (الاسراء:44)۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالٰی کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انہیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے۔ (حم السجدہ: 37) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) نے پوچھا، جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا، اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جاکر سجدہ ریز ہو جاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحيح بخاری، بدء الخلق، باب صفة الشمس والقمر بحسبان - مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذی، أبواب السفر، باب ما يقول في سجود القرآن تحفة الأحوذي، صفحہ 402 ، ابن ماجہ 1053) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورۃ الرعد 15اور النحل 48، 49 میں بھی کیا گیا ہے۔ 3- یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔ 4- یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کرکے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انہیں بھی مجال انکار نہیں۔ 5- کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ الحج
19 1- ﴿هَذَانِ خَصْمَانِ﴾ یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں بعض نے اس سے مراد مذکورہ گمراہ فرقے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان کو لیا ہے۔ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں، مسلمان تو وحدانیت اور اس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں، جب کہ دوسرے اللہ کے بارے میں مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آجاتے ہیں، جس کے آغاز میں مسلمانوں میں ایک طرف حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدۃ (رضی الله عنہم) تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے (صحیح بخاری، تفسیر سورة الحج) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔ الحج
20 الحج
21 الحج
22 1- اس میں جہنمیوں کے عذاب کی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے جو انہیں وہاں بھگتنا ہوگا۔ الحج
23 1- جہنمیوں کے مقابلے میں یہ اہل جنت کا اور ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو اہل ایمان کو مہیا کی جائیں گی۔ الحج
24 1- یعنی جنت ایسی جگہ ہے جہاں پاکیزہ باتیں ہی ہونگی، وہاں بے ہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہوگی۔ 2- یعنی ایسی جگہ کی طرف جہاں ہر طرف اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کی صدائے دل نواز گونج رہی ہوگی۔ اگر اس کا تعلق دنیا سے ہو تو مطلب قرآن اور اسلام کی طرف رہنمائی ہے جو اہل ایمان کے حصے میں آتی ہے۔ الحج
25 1- روکنے والوں سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے 6 ہجری میں مسلمانوں کو مکہ جاکر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، اور مسلمانوں کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا تھا۔ 2- اس میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام سے مراد خاص مسجد (خانہ کعبہ) ہی ہے یا پورا حرم مکہ۔ کیونکہ قرآن میں بعض جگہ پورے حرم مکہ کے لیے بھی مسجد حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔، یعنی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جہاں تک خاص مسجد حرام کا تعلق ہے، اس کی بابت تو یہ بات متفقہ ہے کہ اس میں مقیم وغیر مقیم ملکی اور آفاقی سب کا حصہ مساوی ہے یعنی بلا تخصیص وتفریق ہر شخص رات اور دن کے کسی بھی حصے میں عبادت کرسکتا ہے۔ کسی کے لئے بھی کسی مسلمان کو عبادت سے روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ جن علما نے مسجد حرام سے مراد پورا حرم لیا ہے۔ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ پورا حرم مکی سب مسلمانوں کے لئے یکساں حیثیت رکھتا ہے اور اس کے مکانوں اور زمینوں کا کوئی مالک نہیں۔ اس لئے ان کی خرید وفروخت اور ان کو کرائے پر دینا ان کے نزدیک جائز نہیں۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج یا عمرے کے لئے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے، وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہرانے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہو سکتی ہیں اور ان میں مالکانہ تصرفات یعنی بیچنا، کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے، مثلاً منی، مزدلفہ اور عرفات کے میدان یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ یہ مسئلہ قدیم فقہاء کے درمیان خاصہ مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم آجکل تقریباً تمام کے تمام علماء ہی ملکیت خاص کے قائل ہوگئے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سرے سے اختلافی ہی نہیں رہا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے بھی امام ابو حنیفہ اور فقہاء کا مسلک مختار اسی کو قرار پایا ہے۔ (ملاحظہ ہو معارف القرآن جلد 6صفحہ253) 3- الحاد کے لفظی معنی تو کج روی کے ہیں یہاں یہ عام ہے، کفر و شرک سے لے کر ہر قسم کے گناہ کے لئے حتٰی کہ بعض عملا الفاظ قرآنی کے پیش نظر اس بات تک قائل ہیں کہ حرم میں اگر کسی گناہ کا ارادہ بھی کر لے گا، (چاہے اس پر عمل نہ کر سکے) تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ محض ارادے پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، جیسا کہ دیگر آیات سے واضح ہے۔ تاہم ارادہ اگر عزم مصمم کی حد تک ہو تو پھر گرفت ہو سکتا ہے۔ (فتح القدیر) الحج
26 1- یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جو مذکورہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔ 2- یعنی بیت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم (عليہ السلام) کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح (عليہ السلام) کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ' سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصٰی تعمیر ہوئی ' (مسند احمد 5۔150، 166- 167 ومسلم کتاب المساجد) 3- یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آکر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔ 4- کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کر لیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا الحج
27 1- جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہو جائیں گے۔ 2- یہ اللہ تعالٰی کی قدرت ہے کہ مکہ کے پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ نحیف سی صدا، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں ہر حاجی اور معتمر کرتا ہے۔ الحج
28 1- یہ فائدے دینی بھی ہیں کہ نماز، طواف اور مناسک حج و عمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت و رضا حاصل کی جائے اور دنیاوی بھی کہ تجارت اور کاروبار سے مال و اسباب دنیا میسر آجائے۔ 2- بِهِيمَةُ الأَنعَامِ پالتو جانوروں سے مراد اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ دنبے) ہیں۔ ان پر اللہ کا نام لینے کا مطلب ان کو ذبح کرنا جو اللہ کے نام لے کر ہی کیا جاتا ہے اور ایام معلومات سے مراد، ذبح کے ایام ' ایام تشریق ہیں، جو یوم (10 ذوالحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں۔ یعنی 11، 12اور 13 ذوالحجہ تک قربانی کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر ایام معلومات سے عشرہ ذوالحجہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد لئے جاتے ہیں۔ تاہم یہاں "معلومات"جس سیاق میں آیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایام تشریق مراد ہیں۔ واللہ اعلم الحج
29 1- یعنی10 ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ (یا جمرہ عقبہ) کو کنکریاں مارنے کے بعد حاجی کو تحلل اول (یا تحلّل اصغر) حاصل ہو جاتا ہے، جس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے اور بیوی سے مباشرت کے سوا، دیگر وہ تمام کام اس کے لئے جائز ہو جاتے ہیں، جو حالت احرام میں ممنوع ہوتے ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پھر وہ بالوں، ناخنوں وغیرہ کو صاف کرلے، تیل خوشبو استعمال کرے اور سلے ہوئے کپڑے پہن لے وغیرہ۔ 2- اگر کوئی مانی ہوئی ہو، جیسے لوگ مان لیتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائی، تو ہم فلاں نیکی کا کام کریں گے۔ 3- عتیق کے معنی قدیم کے ہیں مراد خانہ کعبہ ہے کہ حلق یا تقصیر کے بعد افاضہ کرلے، جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں، اور یہ حج کا رکن ہے جو وقوف عرفہ اور جمرہ عقبہ (یا جمرہ کبرٰی) کو کنکریاں مارنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جب کہ طواف قدوم بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنت ہے اور طواف وداع سنت مؤکدہ (یا واجب) ہے۔ جو اکثر اہل علم کے نزدیک عذر سے ساقط ہو جاتا ہے، جیسے حائضہ عورت سے بالاتفاق ساقط ہو جاتا ہے (ایسر التفاسیر) الحج
30 1- ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔ 2- "جو بیان کئے گئے ہیں " کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کر دیا گیا، جیسے آیت ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ﴾ (المائدہ:3) میں تفصیل ہے۔ 3- رجس کے معنی گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔ 4- جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اسکی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلًا اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یافلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہوگاجیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کر لینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔ الحج
31 1- حنفاء حنیف کی جمع ہے جس کے مصدری معنی ہیں مائل ہونا ایک طرف ہونا، یک رخا ہونا یعنی شرک سے توحید کی طرف اور کفر و باطل سے اسلام اور دین حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے۔ یا ایک طرف ہو کر خالص اللہ کی عبادت کرتے ہوئے۔ 2- یعنی جس طرح بڑے پرندے، چھوٹے جانوروں کو نہایت تیزی سے جھپٹا مار کر انہیں نوچ کھاتے ہیں یا ہوائیں کسی کو دور دراز جگہوں پر پھینک دیں اور کسی کو اس کا سراغ نہ ملے۔ دونوں صورتوں میں تباہی اس کا مقدر ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ سلامت فطرت اور طہارت نفس کے اعتبار سے طہر و صفا کی بلندی پر فائز ہو جاتا ہے اور جوں ہی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اپنے کو بلندی سے پستی میں اور صفائی سے گندگی اور کیچڑ میں پھینک لیتا ہے. الحج
32 1- شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت اور نشانی کے ہیں جیسے جنگ میں ایک شعار (مخصوص لفظ بطور علامت) اختیار کرلیا جاتا ہے جس سے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانتے ہیں اس اعتبار سے شعائر اللہ وہ ہیں، جو اسلام کے نمایاں امتیازی احکام ہیں، جن سے ایک مسلمان کا امتیاز اور تشخص قائم ہوتا ہے اور دوسرے اہل مذاہب سے الگ پہچان لیا جاتا ہے، صفا، مروہ پہاڑیوں کو بھی اس لئے شعائر اللہ کہا گیا ہے کہ مسلمان حج وعمرے میں ان کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ یہاں حج کے دیگر مناسک خصوصاً قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس تعظیم کو دل کا تقوٰی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی دل کے ان افعال سے جن کی بنیاد تقوٰی ہے۔ الحج
33 1- وہ فائدہ، سواری، دودھ، مزید نسل اور اون وغیرہ کا حصول ہے۔ وقت مقرر مراد (ذبح کرنا) ہے یعنی ذبح نہ ہونے تک تمہیں ان سے مذکورہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور سے، جب تک وہ ذبح نہ ہو جائے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک قربانی کا جانور اپنے ساتھ ہانکے لے جا رہا تھا۔ نبی (ﷺ) نے اس سے فرمایا اس پر سوار ہو جا، اس نے کہا یہ حج کی قربانی ہے، آپ (ﷺ) نے فرمایا، اس پر سوار ہو جا۔ (صحيح بخاری، كتاب الحج، باب ركوب البدن) الحج
34 1- حلال ہونے سے مراد جہاں ان کا ذبح کرنا حلال ہوتا ہے۔ یعنی یہ جانور، مناسک حج کی ادائیگی کے بعد، بیت اللہ اور حرم مکی میں پہنچتے ہیں اور وہاں اللہ کے نام پر ذبح کر دئیے جاتے ہیں، پس مذکورہ فوائد کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے ہی حرم کے لئے قربانی دی جاتی ہے، تو حرم میں پہنچتے ہی ذبح کر دیئے جاتے ہیں اور فقراء مکہ میں ان کا گوشت تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ 2- مَنْسَكٌ، نَسَكَ، يَنْسُكُ کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحہ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نُسُكٌ ہے اس کے معنی اطاعت وعبادت کے بھی ہیں۔ کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے،یا مَنْسِكٌ (سین کی فتح یا کسرے کے ساتھ) اسم ظرف ہے۔ مَوْضِعُ نَحْرٍ (ذبح کرنے کی جگہ) یا مَوْضِعُ عِبَادَةٍ ۔ اسی سے مناسک حج ہے یعنی وہ جگہیں، جہاں حج کے اعمال وارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منٰی اور مکہ۔ مطلق ارکان واعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔ الحج
35 الحج
36 1- بدْنٌ، بَدَنةٌ کی جمع ہے یہ جانور عام طور پر موٹا تازہ ہوتا ہے اس لیے بدنۃ کہا جاتا ہے۔ فربہ جانور۔ اہل لغت نے اسے صرف اونٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن حدیث کی رو سے گائے پر بھی بدنۃ کا اطلاق صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ اونٹ اور گائے جو قربانی کے لیے لے جائیں یہ بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خاص اور ان کی علامت ہیں۔ 2- صَوَافَّ مَصْفُوفَةً (صف بستہ یعنی کھڑے ہوئے) معنی میں ہے اونٹ کو اسی طرح کھڑے کھڑے نحر کیا جاتا ہے کہ بایاں ہاتھ پاؤں اس کا بندھا ہوا اور تین پاؤں پر وہ کھڑا ہوتا ہے۔ 3- یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بےروح ہو کر زمین پر گرے تب اسے کاٹنا شروع کرو۔ کیونکہ جی دار جانور کا گوشت کاٹ کر کھانا ممنوع ہے۔ ﴿مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ، فَهُوَ مَيْتَةٌ﴾ ( أبو داود، كتاب الصيد، باب في صيد قطع منه قطعة- ترمذی، أبواب الصيد، باب ما جاء ما قطع من الحي فهو ميت، وابن ماجہ) ”جس جانور سے اس حال میں گوشت کاٹا جائے کہ وہ زندہ ہو تو وہ (کاٹا) ہوا گوشت مردہ ہے“۔ 4- بعض علماء کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے ہے یعنی قربانی کا گوشت کھانا، قربانی کرنے والے کے لئے واجب ہے یعنی ضروری ہے اور اکثر علماء کے نزدیک یہ امر جواز کے لئے ہے۔ یعنی اس امر کا مقصد صرف جواز کا اثبات یعنی اگر کھا لیا جائے تو جائز یا پسندیدہ ہے اور اگر کوئی نہ کھائے بلکہ سب کا سب تقسیم کر دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ 5- قانع کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں یعنی وہ سوال نہ کرے اور معتر کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں اور تیسرا سائلین اور معاشرے کی ضرورت مند افراد کے لیے۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں نے تمہیں (پہلے) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو دوسری روایت کے الفاظ ہیں پس کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو"۔ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں "پس کھاؤ، کھلاؤ اور صدقہ کرو" (البخاری کتاب الاضاحی ۔ مسلم کتاب الاضاحی، باب بیان ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث والسنن) بعض علما دو حصے کرنے کے قائل ہیں۔ نصف اپنے لئے اور نصف صدقے کے لئے، وہ اس سے ما قبل گزرنے والی آیت ﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ﴾ سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت کسی بھی آیت یا حدیث سے اس طرح کے دو یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نہیں نکلتا بلکہ ان میں مطلقاً کھانے کھلانے کا حکم ہے۔ اس لئے اس اطلاق کو اپنی جگہ برقرار رہنا چاہیے اور کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہیے۔ البتہ قربانی کی کھالوں کی بابت اتفاق ہے کہ اسے یا تو اپنے استعمال میں لاؤ یا صدقہ کردو، اسے بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، (مسند احمد: 4/15) تاہم بعض علماء نے کھال خود بیچ کر اس کی قیمت فقراء پر تقسیم کرنے کی رخصت دی ہے، (ابن کثیر) ایک ضروری وضاحت: قرآن کریم میں یہاں قربانی کا ذکر مسائل حج کے ضمن میں آیا ہے، جس سے منکرین حدیث یہ استدلال کرتے ہیں کہ قربانی صرف حاجیوں کے لیے ہی ہے۔ دیگر مسلمانوں کے لئے یہ ضروری نہیں۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ قربانی کرنے کا مطلق حکم بھی دوسرے مقام پر موجود ہے، ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر:2) ’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر‘‘۔ اس کی تبیین و تشریح (عملی) نبی (ﷺ) نے اس طرح فرمائی کہ آپ (ﷺ) خود مدینے میں ہر سال 10 ذوالحجہ کو قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں کو بھی قربانی کرنے کی تاکید کرتے رہے۔ چنانچہ صحابہ (رضی الله عنہم) بھی کرتے رہے۔ علاوہ ازیں آپ (ﷺ) نے قربانی کی بابت جہاں دیگر بہت سی ہدایات دیں، وہاں یہ بھی فرمایا کہ 10 ذوالحجہ کو ہم سب سے پہلے (عید کی) نماز پڑھیں اور اس کے بعد جاکر جانور ذبح کریں، فرمایا، "جس نے نماز (عید) سے قبل اپنی قربانی کرلی، اس نے گوشت کھانے میں جلدی کی، اس کی قربانی نہیں ہوئی، (صحيح بخاری ، كتاب العيدين ، باب التبكير إلى العيد ، ومسلم كتاب الأضاحي ، باب ... وقتها) اس سے بھی واضح ہے کہ قربانی کا حکم ہر مسلمان کے لئے ہے وہ جہاں بھی ہو۔ کیوں کہ حاجی تو عید الاضحیٰ کی نماز ہی نہیں پڑھتے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم غیر حاجیوں کے لئے ہی ہے۔ تاہم یہ واجب نہیں ہے۔ سنت مؤکدہ ہے۔ اسی طرح دکھلاوے کی نیت سے کی گئی قربانیاں کرنے کا رواج بھی خلاف سنت ہے۔ حدیث کے مطابق پورے گھر کے افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔ صحابہ کا عمل اسی کے مطابق تھا، (ترمذی، أبواب الأضاحي، ما جاء أن الشاة الواحدة تجزئ عن أهل البيت، وابن ماجہ) الحج
37 الحج
38 1- جس طرح 6 ہجری میں کافروں نے اپنے غلبے کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ نہیں کرنے دیا، اللہ تعالٰی نے دو سال بعد ہی کافروں کے اس غلبہ کو ختم فرما کر مسلمانوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا دیا اور مسلمانوں کو ان پر غالب کر دیا۔ الحج
39 1- اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بے وسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اسی طرح اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کوشش نہ کی جائے اور باطل کی سرکوبی نہ کی جائے تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ، آیت 251 کا حاشیہ)۔ صَوَامِعُ (صَوْمَعَةٌ کی جمع) سے چھوٹے گرجے اور بِيَعٌ ( بِيعَةٌ کی جمع) سے بڑے گرجے صَلَوَاتٌ سے یہودیوں کے عبادت خانے اور مساجد سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں۔ الحج
40 الحج
41 1- اس آیت میں اسلامی حکومت کے بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت وخوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن وخوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہرآنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل وغارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح وکامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ وزکوۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی ممللکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ 2- یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔ الحج
42 الحج
43 الحج
44 1- اس میں نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ نئی بات نہیں ہے پچھلی قومیں بھی اپنے پیغمبروں کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور میں بھی انہیں مہلت دیتا رہا۔ پھر جب ان کا وقت مہلت ختم ہوگیا تو انہیں تباہ برباد کر دیا گیا۔ اس میں تعریض وکنایہ ہے مشرکین مکہ کے لیے کہ تکذیب کے باوجود تم ابھی تک مؤاخذہ الہی سے بچے ہوئے ہو تو یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمارا کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے جو وہ ہر قوم کو دیا کرتا ہے لیکن اگر وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اطاعت وانقیاد کا راستہ اختیار نہیں کرتی تو پھر اسے ہلاک یا مسلمانوں کے ذریعے سے مغلوب اور ذلت ورسوائی سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ 2- یعنی کس طرح میں نے انہیں اپنی نعمتوں سے محروم کرکے عذاب وہلاکت سے دو چار کر دیا۔ الحج
45 الحج
46 1- اور جب کوئی قوم ضلالت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ عبرت کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے، تو ہدایت کی بجائے، گذشتہ قوموں کی طرح تباہی اس کا مقدر بن کر رہتی ہے۔ آیت میں عمل و عقل کا تعلق دل کی طرف کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل کا محل دل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لئے عقل وفہم کے حصول میں عقل اور دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا ربط وتعلق ہے (فتح القدیر، ایسر التفاسیر) الحج
47 1- اس لئے یہ لوگ تو اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے اس اعتبار سے وہ اگر کسی کو ایک دن (24گھنٹے) کی مہلت دے تو ہزار سال، نصف یوم کی مہلت تو پانچ سو سال، 6گھنٹے (جو 24 گھنٹے کا چوتھائی ہے) مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لئے درکار ہے، وَهَلُمَّ جَرًّا اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم وبیش چالیس سال کی مہلت ہے (ایسر التفاسیر) ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں اس لیے تقدیم وتاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جلدی مانگتے ہیں وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرکے رہے گا اور بعض نے اسے آخرت پر محمول کیا ہے کہ شدت ہولناکی کی وجہ سے قیامت کا ایک دن ہزار سال بلکہ بعض کو پچاس ہزار سال کا لگے گا اور بعض نے کہا کہ آخرت کا دن واقعی ہزار سال کا ہوگا۔ الحج
48 1- اسی لئے یہاں قانون مہلت کو پھر بیان کیا ہے کہ میری طرف سے عذاب میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہو جائے، تاہم میری گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، نہ کہیں فرار ہو سکتا ہے۔ اسے لوٹ کر بالآخر میرے ہی پاس آنا ہے۔ الحج
49 1- یہ کفار و مشرکین کے مطالبہ عذاب پر کہا جا رہا ہے کہ میرا کام تو انذار وتبشیر ہے۔ عذاب بھیجنا، یہ اللہ کا کام ہے، وہ جلدی گرفت فرما لے یا اس میں تاخیر کرے، وہ اپنی حسب ومشیت و مصلحت یہ کام کرتا ہے۔ جس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس خطاب کے اصل مخاطب اگرچہ اہل مکہ ہیں۔ لیکن چونکہ آپ پوری نوع انسانی کے لئے رہبر اور رسول بن کر آئے تھے، اس لئے خطاب يَا أَيُّهَا النَّاسُ! کے الفاظ سے کیا گیا، اس میں قیامت تک ہونے والے وہ کفار ومشرکین آگئے جو اہل مکہ کا سا رویہ اختیار کریں گے۔ الحج
50 الحج
51 1- مُعَاجِزِينَ کا مطلب ہے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہمیں عاجز کر دیں گے، تھکا دیں گے اور ہم ان کی گرفت کرنے پر قادر نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے کہ وہ بعث بعد الموت اور حساب کتاب کے منکر تھے۔ الحج
52 1- تَمَنَّى کے ایک معنی ہیں آرزو کی یا دل میں خیال آیا۔ دوسرے معنی ہیں پڑھایا تلاوت کی۔ اسی اعتبار سے أُمْنِيَّةٌ کا ترجمہ آرزو، خیال یا تلاوت ہوگا پہلے معنی کے اعتبار سے مفہوم ہوگا اس کی آرزو میں شیطان نے رکاوٹیں ڈالیں تاکہ وہ پوری نہ ہوں۔ اور رسول و نبی کی آرزو یہی ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایمان لے آئیں، شیطان رکاوٹیں ڈال کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایمان سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مفہوم ہوگا کہ جب بھی اللہ کا رسول یا نبی وحی شدہ کلام پڑھتا اور اس کی تلاوت کرتا ہے۔ تو شیطان اس کی قرأت وتلاوت میں اپنی باتیں ملانے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بابت لوگوں کے دلوں میں شبہے ڈالتا اور مین میخ نکالتا ہے۔ اللہ تعالٰی شیطان کی رکاوٹوں کو دور فرما کر یا تلاوت میں ملاوٹ کی کوشش ناکام فرما کر شیطان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ فرما کر اپنی بات کو یا اپنی آیات کو محکم (پکا) فرما دیتا ہے۔ اس میں نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ شیطان کی یہ کارستانیاں صرف آپ (ﷺ) کے ساتھ ہی نہیں ہیں، آپ (ﷺ) سے پہلے جو رسول اور نبی آئے، سب کے ساتھ یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ تاہم آپ (ﷺ) گھبرائیں نہیں شیطان کی ان شرارتوں اور سازشوں سے جس طرح ہم پچھلے انبیاء علیہم السلام کو بچاتے رہے ہیں یقینا آپ (ﷺ) بھی محفوظ رہیں گے اور شیطان کے علی الرغم اللہ تعالٰی اپنی بات کو پکا کرکے رہے گا۔ یہاں بعض مفسرین نے غرانیق علی کا قصہ بیان کیا ہے جو محققین کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے اس لیے اسے یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھی کی گئی ہے۔ الحج
53 1- یعنی شیطان یہ حرکتیں اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور اس کے جال میں لوگ پھنس جاتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ونفاق کا روگ ہوتا ہے گناہ کرکے ان کے دل سخت ہو چکے ہوتے ہیں۔ الحج
54 1- یعنی یہ القائے شیطانی، جو دراصل اغوائے شیطانی ہے، اگر اہل مشرکین اور اہل کفر وشرک کے حق میں فتنے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف جو علم معرفت کے حال ہیں، ان کے ایمان ویقین میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ کی نازل کردہ بات یعنی قرآن حق ہے۔ جس سے ان کے دل بارگاہ الٰہی میں جھک جاتے ہیں۔ 2- دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دنیا میں اس طرح کی ان کی راہنمائی حق کی طرف کر دیتا ہے اور اس کے قبول اور اتباع کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے باطل کی سمجھ بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس سے انہیں بچا بھی لیتا ہے اور آخرت میں سیدھے راستے کی راہنمائی یہ ہے کہ انہیں جہنم کے عذاب الیم وعظیم سے بچا کر جنت میں داخل فرمائے گا اور وہاں اپنی نعمتوں اور دیدار سے انہیں نوازے گا۔ اللَّهُمَّ ! اجْعَلْنَا مِنْهُمْ الحج
55 1- یَوْمِ عَقِیْمِ (بانجھ دن) سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اسے عقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد کوئی دن نہیں ہوگا، جس طرح عقیم اس کو کہا جاتا ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ یا اس لئے کہ کافروں کے لئے اس دن کوئی رحمت نہیں ہوگی، گویا ان کے لئے خیر سے خالی ہوگا۔ جس طرح باد تند کو، جو بطور عذاب کے آتی رہی ہے الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ کہا گیا ہے۔ ﴿اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ﴾ (الذاریات:41) ”جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی“۔ یعنی ایسی ہوا جس میں کوئی خیر تھی نہ بارش کی نوید۔ الحج
56 1- یعنی دنیا میں تو عارضی طور پر بطور انعام یا بطور امتحان لوگوں کو بھی بادشاہتیں اور اختیار و اقتدار مل جاتا ہے لیکن آخرت میں کسی کے پاس بھی کوئی بادشاہت اور اختیار نہیں ہوگا۔ صرف ایک اللہ کی بادشاہی اور اس کی فرمان روائی ہوگی، اسی کا مکمل اختیار اور غلبہ ہوگا ، ﴿الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا﴾ (الفرقان:26) ”بادشاہی اس دن ثابت ہے واسطے رحمان کے اور یہ دن کافروں پر سخت بھاری ہوگا“، ﴿لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ (المومن:16)۔ اللہ تعالٰی پوچھے گا ”آج کس کی بادشاہی ہے؟“ پھر خود ہی جواب دے گا ”ایک اللہ غالب کی“۔ الحج
57 الحج
58 1- یعنی اسی ہجرت کی حالت میں موت آگئی یا شہید ہوگئے۔ 2- یعنی جنت کی نعمتیں جو ختم نہ ہونگیں نہ فنا۔ 3- کیونکہ وہ بغیر حساب کے، بغیر استحقاق کے اور بغیر سوال کے دیتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان بھی جو ایک دوسرے کو دیتے ہیں تو اسی کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ اس لئے اصل رازق وہی ہے۔ الحج
59 1- کیونکہ جنت کی نعمتیں ایسی ہونگیں، [ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ]، ”جنہیں آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور دیکھنا سننا تو کجا، کسی انسان کے دل میں ان کا وہم و گمان بھی نہیں گزرا“، بھلا ایسی نعمتوں سے بہرا یاب ہو کر کون خوش نہیں ہوگا؟ 2- عَلِیْم وہ نیک عمل کرنے والوں کے درجات اور ان کے مراتب استحقاق کو جانتا ہے۔ کفر و شرک کرنے والوں کی گستاخیوں اور نافرمانیوں کو دیکھتا ہے۔ لیکن ان کا فوری مؤاخذہ نہیں کرتا۔ الحج
60 1- یعنی یہ کہ مہاجرین سے بطور خاص شہادت یا طبعی موت پر ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا۔ 2- عقوبت اس سزا یا بدلے کو کہتے ہیں جو کسی فعل کی جزا ہو۔ مطلب یہ کہ کسی نے اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جس سے زیادتی کی گئی ہے، اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینے کے بعد، جب کہ ظالم اور مظلوم دونوں برابر سرابر ہو چکے ہوں، ظالم، مظلوم پھر زیادتی کرے تو اللہ تعالٰی اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ یعنی یہ شبہ نہ ہو کہ مظلوم نے معاف کر دینے کی بجائے بدلہ لے کر غلط کام کیا ہے، نہیں، بلکہ اس کی بھی اجازت اللہ ہی نے دی ہے، اس لئے آئندہ بھی اللہ کی مدد کا مستحق رہے گا۔ 3- اس میں پھر معاف کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ درگزر کرنے والا ہے۔ تم بھی درگزر سے کام لو۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ بدلہ لینے میں۔ جو بقدر ظلم ظالم ہوگا۔ جتنا ظلم کیا جائے گا، اس کی اجازت چونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ معاف ہے۔ بلکہ اسے ظلم اور سیئہ بطور مشاکلت کے کہا جاتا ہے، ورنہ انتقام یا بدلہ سرے سے ظلم یا سیئہ ہی نہیں ہے۔ الحج
61 1- یعنی جو اللہ اس طرح کام کرنے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس کے جن بندوں پر ظلم کیا جائے ان کا بدلہ وہ ظالموں سے لے۔ الحج
62 1- اس لئے اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق ہے اس کے وعدے حق ہیں، اس کا اپنے اولیاء کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرنا حق ہے، وہ اللہ عزوجل اپنی ذات میں، اپنی صفات میں اور اپنے افعال میں حق ہے۔ الحج
63 1- لَطِیْف (باریک بین) ہے، اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو محیط ہے یا لطف کرنے والا یعنی اپنے بندوں کو روزی پہنچانے میں لطف و کرم سے کام لیتا ہے۔ خَیْر وہ ان باتوں سے باخبر ہے جن میں اس کے بندوں کے معاملات کی تدبیر اور اصلاح ہے۔ یا ان کی ضروریات وحاجات سے آگاہ ہے۔ الحج
64 1- پیدائش کے لحاظ سے بھی، ملکیت کے اعتبار سے بھی اور تصرف کرنے کے اعتبار سے بھی۔ اس لئے سب مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ غنی بےنیاز ہے۔ اور جو ذات سارے کمالات اور اختیارات کا منبع ہے، ہر حال میں تعریف کی مستحق بھی وہی ہے۔ الحج
65 1- مثلًا جانور، نہریں، درخت اور دیگر بیشمار چیزیں، جن کے منافع سے انسان بہرہ ور اور لذت یاب ہوتا ہے۔ 2- یعنی اگر وہ چاہے تو آسمان زمین پر گر پڑے، جس سے زمین پر ہرچیز تباہ ہو جائے۔ ہاں قیامت والے دن اس کی مشیت سے آسمان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ 3- اس لئے اس نے مذکورہ چیزوں کو انسان کے تابع کر دیا ہے اور آسمان کو بھی ان پر گرنے نہیں دیتا۔ تابع (مسخر) کرنے کا مطلب ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا اس کے لئے ممکن یا آسان کر دیا گیا ہے۔ الحج
66 1- یہ بحیثیت جنس کے ہے۔ بعض افراد کا اس ناشکری سے نکل جانا اس کے منافی نہیں، کیونکہ انسانوں کی اکثریت میں یہ کفر وجحود پایا جاتا ہے۔ الحج
67 1- یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ (عليہ السلام) کے لئے، انجیل امت عیسیٰ (عليہ السلام) کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔ 2- یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ (ﷺ) کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ (ﷺ) سے جھگڑیں۔ 3- یعنی آپ (ﷺ) ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔ الحج
68 الحج
69 1- یعنی بیان اور اظہار حجت کے بعد بھی اگر یہ جھگڑے سے باز نہ آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں کہ اللہ تعالٰی ہی تمہارے اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن فرمائے گا، پس اس دن واضح ہو جائے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ کیونکہ وہ اس کے مطابق سب کو جزا دے گا۔ الحج
70 1- اس میں اللہ تعالٰی نے اپنے کمال علم اور مخلوقات کے احاطے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی اس کی مخلوقات کو جو جو کچھ کرنا تھا، اس کو علم پہلے سے ہی تھا، وہ ان کو جانتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے علم سے یہ باتیں پہلے ہی لکھ دیں۔ اور لوگوں کو یہ بات چاہے، کتنی ہی مشکل معلوم ہو، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ یہ وہی تقدیر کا مسئلہ ہے، اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، جسے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا گیا ”اللہ تعالٰی آسمان وزمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا، مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں“۔ (صحيح مسلم، كتاب القدر، باب حجاج آدم وموسى) اور سنن کی روایت ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ”اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا، اور اس کو کہا ”لکھ“ اس نے کہا، کیا لکھوں؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو کچھ ہونے والا ہے، سب لکھ دے۔ چنانچہ اس نے اللہ کے حکم سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا“۔ (أبو داود كتاب السنة، باب في القدر، ترمذی أبواب القدر وتفسير سورة ن، مسند أحمد 5 /317) الحج
71 1- یعنی ان کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے، جسے آسمانی کتاب سے یہ دکھا سکیں، نہ عقلی دلیل ہے جسے غیر اللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کر سکیں۔ الحج
72 1- اپنے ہاتھوں سے دست درازی کرکے یا بد زبانی کے ذریعے سے۔ یعنی مشرکین اور اہل ضلالت کے لئے اللہ کی توحید اور رسالت وقیامت کا بیان ناقابل برداشت ہوتا ہے، جس کا اظہار، ان کے چہرے سے اور بعض دفعہ ہاتھوں اور زبانوں سے ہوتا ہے۔ یہی حال آج کے اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کا ہے، جب ان کی گمراہی، قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح کی جاتی ہے تو ان کا رویہ بھی آیات قرآنی اور دلائل کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا ہے، جس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے (فتح القدیر) 2- یعنی ابھی تو آیات الٰہی سن کر صرف تمہارے چہرے ہی حیران ہوتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا، اگر تم نے اپنے اس روئیے سے توبہ نہیں کی، کہ اس سے کہیں زیادہ بدتر حالات سے تمہیں دو چار ہونا پڑے گا، اور وہ ہے جہنم کی آگ میں جلنا، جس کا وعدہ اللہ نے اہل کفر و شرک سے کر رکھا ہے۔ الحج
73 1- یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بےجان مورتیاں ہی نہیں ہوتی تھیں، جیسا کہ آج کل قبر پرستی کا جواز پیش کرنے ولے لوگ باور کراتے ہیں بلکہ یہ عقل و شعور رکھنے والی چیزیں بھی تھیں۔ یعنی اللہ کے نیک بندے بھی تھے، جن کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا، اسی لئے اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ سب اکٹھے بھی ہوجائیں تو ایک حقیر ترین شے مکھی، بھی پیدا نہیں کرسکتے، محض پتھر کی مورتیوں کو یہ چیلنج نہیں دیا جاسکتا۔ 2- یہ ان کی مزید بے بسی اور لاچارگی کا اظہار ہے کہ پیدا کرنا تو کجا، یہ تو مکھی کو پکڑ کر اس کے منہ سے اپنی وہ چیز بھی واپس نہیں لے سکتے، جو وہ ان سے چھین کر لے جائے۔ 3- طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بےبسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ" اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے "۔ (صحيح بخاری، كتاب اللباس ، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صور) الحج
74 1- یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کی بےبس مخلوق کو اس کا ہمسر اور شریک قرار دے لیتے ہیں۔ اگر ان کو اللہ تعالٰی کی عظمت وجلالت، اس کی قدرت وطاقت اور اس کی بےپناہی کا صحیح صحیح اندازہ اور علم ہو تو وہ کبھی اس کی خدائی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ الحج
75 1- رسُلٌ رَسُولٌ (فرستادہ، بھیجا ہوا قاصد) کی جمع ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرشتوں سے بھی رسالت کا یعنی پیغام رسانی کا کام لیا ہے، جیسے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کو اپنی وحی کے لئے منتخب کیا کہ وہ رسولوں کے پاس وحی پہنچائیں۔ یا عذاب لے کر قوموں کے پاس جائیں اور لوگوں میں سے بھی، جنہیں چاہا، رسالت کے لئے چن لیا اور انہیں لوگوں کی ہدایت وراہنمائی پر مامور فرمایا۔ یہ سب اللہ کے بندے تھے، گو منتخب اور چنیدہ تھے لیکن کسی کے لئے؟ خدائی اختیارات میں شرکت کے لئے؟ جس طرح کے بعض لوگوں نے انہیں اللہ کا شریک گردان لیا۔ نہیں، بلکہ صرف اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے۔ 2- وہ بندوں کے اقوال سننے والا ہے اور بصیر ہے۔ یعنی یہ جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے؟ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه﴾ (الانعام:124) ”اس موقع کو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے“۔ الحج
76 1- جب تمام معاملات کا مرجع اللہ ہی ہے تو پھر انسان اس کی نافرمانی کرکے کہاں جا سکتا ہے اور اس کے عذاب سے کیونکر بچ سکتا ہے؟ کیا اس کے لئے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اس کی اطاعت اور فرماں برداری کا راستہ اختیار کر کے اس کی رضا حاصل کرے؟ چنانچہ اگلی آیت میں اس کی صراحت کی جا رہی ہے۔ الحج
77 1- یعنی اس نماز کی پابندی کرو جو شریعت میں مقرر کی گئی ہے۔ آگے عبادت کا بھی حکم آرہا ہے۔ جس میں نماز بھی شامل تھی، لیکن اس کی اہمیت وافضلیت کے پیش نظر اس کا خصوصی حکم دیا۔ 2- یعنی فلاح (کامیابی) اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی افعال خیر اختیار کرنے میں ہے، نہ کہ اللہ کی عبادت واطاعت سے گریز کرکے محض مادی اسباب ووسائل کی فراہمی اور فراوانی میں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔ الحج
78 1- اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار ومشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجاآوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی اور مغلوبیت کے لئے کی جائے۔ 2- یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو، (ورنہ تھوڑی بہت محنت و مشقت تو ہر کام میں ہی اٹھانی پڑتی ہے) بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کر دیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کر دیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔ 3- عرب حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے (عرب ہونے کے ناطے سے) حضرت ابراہیم (عليہ السلام) باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم (عليہ السلام) کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔ 4- هو کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم (عليہ السلام) ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالٰی ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ 5- یہ گواہی، قیامت والے دن ہوگی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیت 143 کا حاشیہ۔ الحج
0 المؤمنون
1 1- فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، مفلح (کامیاب) بھی وہ ہوتا ہے جو صعوبتوں کو قطع کرتے ہوئے مطلب تک پہنچ جاتا ہے، یا کامیابی کی راہیں اس کے لئے کھل جاتی ہیں، اس پر بند نہیں ہوتیں۔ شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت وکامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔ المؤمنون
2 1- خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔ المؤمنون
3 1- لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں، ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انہیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔ المؤمنون
4 1- اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق وکردار کی پاکیزگی ہو۔ المؤمنون
5 المؤمنون
6 المؤمنون
7 1- اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعًا اجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہوگی۔ المؤمنون
8 1- امَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔ المؤمنون
9 1- آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت وفضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ المؤمنون
10 المؤمنون
11 1- ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہونگے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلٰی حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین، فی سبیل اللہ، وکتاب التوحید، باب ﴿ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ ) المؤمنون
12 1- مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم (عليہ السلام) کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔ المؤمنون
13 1- محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے، جہاں نو مہینے بچہ بڑی حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے۔ المؤمنون
14 1- اس کی کچھ تفصیل سورہ حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں مُخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت، مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کر دی ہے۔ مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ﴾ (التین:4) ”ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا“۔ 2- اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل وصورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔ 3- خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کر سکے جو اللہ تعالٰی نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر وبرکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔ المؤمنون
15 المؤمنون
16 المؤمنون
17 1- طَرَائِقَ، طَرِيقَةٌ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انہیں طرائق کہا۔ یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انہیں طرائق قرار ریا۔ 2- خَلَق سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں (فتح القدیر) اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہرچیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) المؤمنون
18 1- یعنی نہ زیادہ کہ جس سے تباہی پھیل جائے اور نہ اتنا کم کہ پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو۔ 2- یعنی یہ انتطام بھی کیا کہ سارا پانی برس کر فوراً بہہ نہ جائے اور ختم نہ ہو جائے بلکہ ہم نے چشموں، نہروں، دریاؤں اور تالابوں اور کنوؤں کی شکل میں اسے محفوظ بھی کیا، تاکہ ان ایام میں جب بارشیں نہ ہوں، یا ایسے علاقے میں جہاں بارش کم ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت زیادہ ہے، ان سے پانی حاصل کر لیا جائے۔ 3- یعنی جس طرح ہم اپنے فضل و کرم سے پانی کا ایسا وسیع انتظام کیا ہے، وہیں ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ پانی کی سطح اتنی نیچی کر دیں کہ تمہارے لئے پانی کا حصول ناممکن ہو جائے۔ المؤمنون
19 1- یعنی ان باغوں میں انگور اور کھجور کے علاوہ اور بہت سے پھل ہوتے ہیں، جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو اور کچھ کھاتے ہو۔ المؤمنون
20 1- اس سے زیتون کا درخت مراد ہے، جس کا روغن تیل کے طور پر اور پھل سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سالن کو صِبْغٍ، رنگ کہا ہے کیونکہ روٹی، سالن میں ڈبو کر، گویا رنگی جاتی ہے۔ طُوْرِ سَیْنَآءَ (پہاڑ) اور اس کا قرب و جوار خاص طور پر اس کی عمدہ قسم کی پیداوار کا علاقہ ہے۔ المؤمنون
21 المؤمنون
22 1- یعنی رب کی ان نعمتوں سے تم فیض یاب ہوتے ہو، کیا وہ اس لائق نہیں کہ تم اس کا شکر ادا کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت اور اطاعت کرو۔ المؤمنون
23 المؤمنون
24 1- یعنی یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے، یہ کس طرح نبی اور رسول ہو سکتا ہے؟ اور اگر یہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے تو اصل مقصد اس سے تم پر فضیلت اور برتری حاصل کرنا ہے۔ 2- اور اگر واقع اللہ اپنے رسول کے ذریعہ سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، تو وہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا نہ کہ کسی انسان کو، وہ ہمیں آ کر توحید کا مسئلہ سمجھاتا۔ 3- یعنی اس کی دعوت توحید، ایک نرالی دعوت ہے، اس سے پہلے ہم نے اپنے باپ دادوں کے زمانے میں تو یہ سنی ہی نہیں۔ المؤمنون
25 1- یہ ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، بیوقوف اور کم عقل سمجھتا اور کہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ہی دیوانہ ہے اسے ایک وقت تک ڈھیل دو، موت کے ساتھ ہی اس کی دعوت بھی ختم ہو جائے گی یا ممکن ہے اس کی دیوانگی ختم ہو جائے اور اس دعوت کو ترک کر دے۔ المؤمنون
26 1- ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ و دعوت کے بعد، بالآخر رب سے دعا کی، ﴿فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ﴾ (القمر ۔10) ”نوح (عليہ السلام) نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر“، اللہ تعالٰی نے دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق کشتی تیار کرو۔ المؤمنون
27 1- یعنی ان کی ہلاکت کا حکم آ جائے۔ 2- تنور پر حاشیہ سورہ ہود میں گزر چکا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین مراد ہے کہ ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہوگئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔ نوح (عليہ السلام) کو ہدایت جاری ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے۔ 3- یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات ہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا (نر مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے۔ 4- یعنی جن کی ہلاکت کا فیصلہ، ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہو چکا ہے، جیسے زوجہ نوح (عليہ السلام) اور انکا پسر۔ 5- یعنی جب عذاب کا آغاز ہو جائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے۔ کیونکہ ان کے غرق کرنے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ المؤمنون
28 المؤمنون
29 1- کشتی میں بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ان ظالموں کو بالآخر غرق کر کے، ان سے نجات عطا فرمائی اور کشتی کے خیرو عافیت کے ساتھ کنارے پر لگنے کی دعا کرنا ﴿وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ﴾ (المومنون:29)۔ 2- اس کے ساتھ وہ دعا بھی پڑھ لی جائے جو نبی (ﷺ)، سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ، اللّٰہ اَکْبَرْ، ا للّٰہُ اَکْبَرْ ﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ. وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ﴾ (الزخرف:13) المؤمنون
30 1- یعنی اس سرگزشت نوح (عليہ السلام) میں اہل ایمان کو نجات اور کفروں کو ہلاک کر دیا گیا، نشانیاں ہیں اس امر پر کہ انبیاء جو کچھ اللہ کی طرف سے لے کر آتے ہیں، ان میں وہ سچے ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر اور کشمکش حق و باطل میں ہر بات سے آگاہ ہے اور وقت آنے پر اس کا نوٹس لیتا ہے اور اہل باطل کی پھر اس طرح گرفت کرتا ہے کہ اس کے شکنجے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔ 2- اور ہم انبیاء ورسل کے ذریعے سے یہ آزمائش کرتے رہے ہیں۔ المؤمنون
31 1- اکثر مفسرین کے نزدیک قوم نوح کے بعد، جس قوم کو اللہ نے پیدا فرمایا اور ان میں رسول بھیجا، وہ قوم عاد ہے کیونکہ اکثر مقامات پر قوم نوح کے جانشین کے طور پر عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ قوم ثمود ہے کیونکہ آگے چل کر ان کی ہلاکت کے ذکر میں کہا گیا کہ زبردست چیخ نے ان کو پکڑ لیا، اور یہ عذاب قوم ثمود پر آیا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرت شعیب (عليہ السلام) کی قوم اہل میں ہیں کہ ان کی ہلاکت بھی چیخ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ المؤمنون
32 1- یہ رسول بھی ہم نے انہی میں سے بھیجا، جس کی نشو ونما ان کے درمیان ہی ہوئی تھی، جس کو وہ اچھی طرح پہچانتے تھے، اس کے خاندان، مکان اور جائے پیدائش ہرچیز سے واقف تھے۔ 2- اس نے آ کر سب سے پہلے وہی توحید کی دعوت دی جو ہر نبی کی دعوت وتبلیغ کا سرنامہ رہی۔ المؤمنون
33 1- یہ سرداران قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کی تکذیب میں سرگرم رہے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہیں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔ 2- یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیاوی آسائشوں کی فروانی، یہ دو بنیادی سبب تھے، اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے۔ آج بھی باطل انہیں اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔ 3- چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے؟جیسے آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔ المؤمنون
34 1- وہ خسارہ ہی ہے کہ اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر تم اس کی فضیلت وبرتری کو تسلیم کر لو گے، جب کہ ایک بشر، دوسرے بشر سے افضل کیوں کر ہو سکتا ہے۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو منکرین بشریت رسول کے دماغوں میں رہا۔ حالانکہ اللہ تعالٰی جس بشر کو رسالت کے لیے چن لیتا ہے تو وہ اس وحی رسالت کی وجہ سے دوسرے تمام غیر نبی انسانوں سے شرف وفضل میں بہت بالا اور نہایت ارفع ہو جاتا ہے۔ المؤمنون
35 المؤمنون
36 1- هَيْهَاتَ، جس کے معنی دور کے ہیں، دو مرتبہ تاکید کے لیے ہے۔ المؤمنون
37 المؤمنون
38 1- یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ، یہ ایک افترا ہے جو یہ شخص اللہ پر باندھ رہا ہے۔ المؤمنون
39 1- بالآخر، حضرت نوح (عليہ السلام) کی طرح، اس پیغمبر نے بھی بارگاہ الٰہی میں، مدد کے لئے، دست دعا دراز کر دیا۔ المؤمنون
40 1- عَمَّا میں ”ما“ زائد ہے جو جار مجرور کے درمیان، قلت زمان کی تاکید کے لیے آیا ہے جیسے ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ﴾ (آل عمران۔159) میں ”ما“ زائد ہے یعنی بہت جلد عذاب آنا ہے جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتاوا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ یعنی بہت جلد عذاب آنے والا ہے، جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ المؤمنون
41 1- یہ چیخ کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کی چیخ تھی، بعض کہتے ہیں کہ ویسے ہی سخت چیخ تھی، جس کے ساتھ باد صر صر بھی تھی۔ دونوں نے مل کر ان کو چشم زدن میں فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ 2- غُثْآءَ اس کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جو سیلابی پانی کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں درختوں کے پتے، خشک تنے، تنکے اور اسی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ جب پانی کا زور ختم ہو جاتا ہے، تو خشک ہو کر بیکار پڑے ہوتے ہیں، یہی حال ان منکرین اور متکبرین کا ہوا۔ المؤمنون
42 1- اس سے مراد حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کی قومیں ہیں، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں اسی ترتیب سے ان کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بعض کے نزدیک بنو اسرائیل مراد ہیں۔ قرون، قرن کی جمع ہے اور یہاں بمعنی امت استعمال ہوا ہے۔ المؤمنون
43 1- یعنی سب امتیں بھی قوم نوح اور عاد کی طرح، جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا تو تباہ اور برباد ہوگئیں، ایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوئیں۔ جیسے فرمایا ﴿إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ (یونس:49) المؤمنون
44 1- تَتْرَا کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔ 2- ہلاکت اور بربادی میں۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔ 3- جس طرح اَعَاجِیْبُ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح اَحَادیْثُ اُحْدُوْثَۃً کی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلو قات کے واقعات اور قصص۔ المؤمنون
45 1- آیات سے مراد وہ نو آیات ہیں، جن کا ذکر سورہ اعراف میں ہے، جن کی وضاحت گزر چکی ہے اور سُلْطَانٍ مُبِیْنٍ سے مراد واضح اور پختہ دلیل ہے، جس کا کوئی جواب فرعون اور اس کے درباریوں سے نہ بن پڑا۔ المؤمنون
46 1- استکبار اور اپنے کو بڑا سمجھنا، اس کی بنیادی وجہ بھی وہی عقیدہ آخرت سے انکار اور اسباب دنیا کی فروانی ہی تھی، جس کا ذکر پچھلی قوموں کے واقعات میں گزرا۔ المؤمنون
47 1- یہاں بھی انکار کے لیے دلیل انہوں نے حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کی بشریت ہی پیش کی اور اسی بشریت کی تاکید کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسی قوم کے افراد ہیں جو ہماری غلام ہے۔ المؤمنون
48 المؤمنون
49 1- امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مومنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔ المؤمنون
50 1- کیونکہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم (عليہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اور ہوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم (عليہ السلام) سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ 2- رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ (عليہ السلام) کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورہ مریم میں گزرا۔ المؤمنون
51 1- طَيِّبَاتٌ‌ سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کر دی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ گو خبائث خور قوموں کو اپنے ماحول اور عادت کی وجہ سے ان میں ایک گونہ لذت ہی محسوس ہوتی ہو۔ عمل صالح وہ ہے جو شریعت یعنی قرآن و حدیث کے موافق ہو، نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا سمجھیں کیوں کہ لوگوں کو تو بدعات بھی بہت اچھی لگتی ہیں بلکہ اہل بدعت کے ہاں جتنا اہتمام بدعات کا ہے، اتنا فرائض اسلام اور سنن و مستحبات کا بھی نہیں ہے۔اکل حلال کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسر کے معاون ہیں۔ اکل حلال سے عمل صالح آسان اور عمل صالح انسان کو اکل حلال پر آمادہ اور اسی پر قناعت کرنے کا سبق دیتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد (عليہ السلام) کے بارے میں آتا ہے [ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ كَسْبِ يَدِهِ ] (صحیح بخاری، کتاب البیوع باب کسب الرجل وعمله بیده) ”کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے“ اور نبی (ﷺ) نے فرمایا " ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا ہوں"۔(صحیح بخاری، کتاب الاجارة، باب رعی الغنم علی قراریط) آج کل بلیک میلروں، سمگلروں، رشوت وسود خوروں اور دیگر حرام خوروں نے محنت کرکے حلال روزی کھانے والوں کو حقیر اور پست طبقہ بنا کر رکھ دیا ہے دراں حالیکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں حرام خوروں کے لئے عزت و شرف کا کوئی مقام نہیں، چاہے وہ قارون کے خزانوں کے مالک ہوں، احترام وتکریم کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو محنت کرکے حلال کی روزی کھاتے ہیں چاہے روکھی سوکھی ہی ہو۔ اس لئے نبی (ﷺ) نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا ہےکہ ”اللہ تعالیٰ حرام کمائی والے کا صدقہ قبول فرماتا ہے نہ اس کی دعا“۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب قبول الصدقة من الکسب الطیب) المؤمنون
52 1- اُ مَّۃ سے مراد دین ہے، اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ وعمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔ المؤمنون
53 المؤمنون
54 1- غمرة، ماء کثیر کو کہتے ہیں جو زمین کو ڈھانپ لیتا ہے۔ گمراہی کی تاریکیاں بھی اتنی گمبھیر ہوتی ہیں کہ اس میں گھرے ہوئے انسان کی نظروں سے حق اوجھل ہی رہتا ہے عُمرۃ، حیرت، غفلت اور ضلالت ہے۔ آیت میں بطور دھمکی ان کو چھوڑنے کا حکم ہے، مقصود وعظ ونصیحت سے روکنا نہیں ہے۔ المؤمنون
55 المؤمنون
56 المؤمنون
57 المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 1- یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ نامقبول قرار نہ پائے۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے پوچھا ”ڈرنے والے کون ہیں؟ وہ جو شراب پیتے، بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں؟ نبی (ﷺ) نے فرمایا، نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نا مقبول نہ ٹھہریں“۔ (ترمذی تفسیر سورہ المومنون۔ مسند احمد 6/195،160)۔ المؤمنون
61 المؤمنون
62 1- ایسی ہی آیت سورہ بقرہ کے آخر میں گزر چکی ہے۔ المؤمنون
63 1- یعنی شرک کے علاوہ دیگر کبائر یا وہ اعمال مراد ہیں، جو مومنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔ المؤمنون
64 1- مترفین سے مراد آسودہ حال (متنعمین) ہیں۔ عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستۃ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔اور توبہ و ندامت کی طرف نہیں آتی۔ یہاں مترفین سے مراد وہ کفار ہیں، جنہیں مال و دولت کی فراوانی اور اولاد واحفاد سے نواز کر مہلت دی گئی۔ جس طرح کہ چند آیات قبل ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی (ﷺ) کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔ المؤمنون
65 1- یعنی دنیا میں عذاب الٰہی سے دوچار ہو جانے کے بعد کوئی چیخ پکاراور جزع وفزع انہیں اللہ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتی۔ اسی طرح عذاب آخرت سے بھی انہیں چھڑانے والا یا مدد کرنے والا، کوئی نہیں ہوگا۔ المؤمنون
66 1- یعنی قرآن مجید یا کلام الٰہی، جن میں پیغمبر کے فرمودات بھی شامل ہیں۔ 2- نکوص کے معنی ہیں "رجعت قھقری" (الٹے پاؤں لوٹنا) لیکن بطور استعارہ اعراض اور روگردانی کے معنی ومفہوم میں استمعمال ہوتا ہے۔ یعنی آیات واحکام الٰہی سن کر تم منہ پھیر لیتے تھے اور ان سے بھا گتے تھے۔ المؤمنون
67 1- به کا مرجع جمہور مفسرین نے ”البیت العتیق“ (خانہ کعبہ) یا حرم لیا ہے۔ یعنی انہیں اپنی تولیت خانہ کعبہ اور اس کا خادم ونگران ہونے کا جو غرور تھا، اس کی بنا پر آیات الٰہی کا انکار کیا اور بعض نے اس کا مرجع قرآن کو بنایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل میں کھلبلی پیدا ہو جاتی جو انہیں قرآن پر ایمان لانے سے روک دیتی۔ 2- سَمَر کے معنی ہیں رات کی گفتگو یہاں اس کے معنی خاص طور پر ان باتوں کے ہیں جو قرآن کریم اور نبی (ﷺ) کے بارے میں وہ کرتے تھے اور اس کی بنا پر وہ حق کی بات سننے اور قبول کرنے سے انکار کر دیتے۔ یعنی چھوڑ دیتے۔ اور بعض نے ہجر کے معنی فحش گوئی کے کئے ہیں۔ یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں بے ہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو، جن میں کوئی بھلائی نہیں (فتح القدیر) المؤمنون
68 1- بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کر لیتے تو انہیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہو جاتی۔ 2- یہ أَم منقطعہ یا انتقالیہ یعنی بل کے معنی میں ہے، یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کر لینا چاہیے تھا۔ المؤمنون
69 1- یہ بطور توبیخ کے ہے، کیونکہ وہ پیغمبر کے نسب، خاندان اور اسی طرح اس کی صداقت وامانت، راست بازی اور اخلاق وکردار کی بلندی کو جانتے تھے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔ المؤمنون
70 1- یہ بھی زجر وتوبیخ کے طور پر ہی ہے یعنی اس پیغمبر نے ایسا قرآن پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اور امن وسکون کا باعث ہیں۔ کیا ایسا قرآن اور ایسی تعلیمات ایسا شخص بھی پیش کر سکتا ہے جو دیوانہ اور مجنون ہو؟۔ 2- یعنی ان کے اعراض اور استکبار کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت (ناپسندیدگی) ہے جو عرصہ دراز سے باطل کو اختیار کئے رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔ المؤمنون
71 1- حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین وآسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتا ہے؟ وعلى هذا القياس دیگر ان کی خواہشات ہیں۔ المؤمنون
72 المؤمنون
73 المؤمنون
74 1- یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔ المؤمنون
75 1- اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض وعناد تھا اور کفر وشرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔ المؤمنون
76 1- عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی (ﷺ) کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ آپ (ﷺ) نے دعا فرمائی تھی [ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ ]، (البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء علی المشرکین، ومسلم، کتاب المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاة اذا نزلت بالمسلمین نازلة) ”اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انہیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما“ چنانچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہوگئے جس پر حضرت سفیان نبی (ﷺ) کے پاس آئے اور انہیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) المؤمنون
77 1- اس سے دنیا کا عذاب بھی مراد ہو سکتا ہے اور آخرت کا بھی، جہاں وہ تمام راحت اور خیر سے مایوس اور محروم ہوں گے اور تمام امیدیں منقطع ہو جائیں گی۔ المؤمنون
78 1- یعنی عقل وفہم اور سننے کی صلاحتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔ المؤمنون
79 1- اس میں اللہ کی قدرت عظیمہ کا بیان ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں پیدا کر کے مختلف اطراف میں پھیلا دیا ہے۔ تمہارے رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف، زبانیں بھی مختلف اور عادات ورسومات بھی مختلف۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ تم سب کو زندہ کر کے وہ اپنی بارگاہ میں جمع فرمائے گا۔ المؤمنون
80 1- یعنی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا، پھر رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا۔ 2- جس سے تم یہ سمجھ سکو کہ یہ سب کچھ اس ایک اللہ کی طرف سے ہے جو ہرچیز پر غالب ہے اور اس کے سامنے ہرچیز جھکی ہے۔ المؤمنون
81 المؤمنون
82 المؤمنون
83 1- اساطیر، اسطورة کی جمع ہے یعنی مسطرة مکتوبة لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے آباؤ اجداد سے، لیکن ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ المؤمنون
84 المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 1- یعنی جب تمہیں تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیا کا خالق بھی ایک اللہ ہے آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے، تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے، پھر تم اس کی وحدانیت کو تسلیم کر کے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟۔ المؤمنون
88 1- یعنی جس کی حفاظت کرنا چاہے اسے اپنی پناہ میں لے لے، کیا اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ 2- یعنی جس کو وہ نقصان پہنچانا چاہے، کیا کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی ہے کہ وہ اسے نقصان سے بچا لے اور اللہ کے مقابلے میں اپنی پناہ میں لے لے؟۔ المؤمنون
89 1- یعنی پھر تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو؟ قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالٰی کی ربوبیت، اسکی خالقیت ومالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے۔ انہیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا۔ یعنی عبادت صرف ایک اللہ کی نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے اس لئے نہیں کہ آسمان وزمین کی تخلیق یا تدبیر میں کوئی اور بھی شریک ہے بلکہ صرف اس مغالطے کی بنا پر کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے اختیار دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ یہی مغالطہ آج کل کے مردہ پرست اہل بدعت کو ہے جس کی بنیاد پر وہ فوت شدگان کو مدد کے لئے پکارتے ، ان کے نام کی نذر نیاز دیتے اور ان کو اللہ کی عبادت میں شریک گردانتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ میں نے کسی فوت شدہ بزرگ، ولی یا نبی کو اختیارات دے رکھے ہیں، تم ان کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرو، یا انہیں مدد کے لئے پکارو، یا ان کے نام کی نذر نیاز دو۔ اسی لئے اللہ نے آگے فرمایا کہ ہم نے انہیں حق پہنچادیا۔ یعنی یہ اچھی طرح واضح کردیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور یہ اگر اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک کررہے ہیں، تو اس لئے نہیں کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے، نہیں، بلکہ محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اور آباء پرستی کی وجہ سے اس شرک کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ورنہ حقیقت میں یہ بالکل جھوٹے ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے نہ اس کا کوئی شریک ، اگر ایسا ہوتا، تو ہر شریک اپنے حصے کی مخلوق کا انتظام اپنی مرضی سے کرتا اور ہر ایک شریک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا۔ اور جب ایسا نہیں ہے اور نظام کائنات میں ایسی کشاکشی نہیں ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور برتر ہے، جو مشرکین اس کی بابت باور کراتے ہیں۔ المؤمنون
90 المؤمنون
91 المؤمنون
92 المؤمنون
93 المؤمنون
94 1- چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) دعا فرماتے تھے [ وإِذَا أَرَدْتَ بِقَوْمٍ فِتْنَةً فَتَوَفَّنِي إِلَيكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ ]، (ترمذی تفسیر سورۃ ص و مسند احمد، جلد 5، ص 243)۔ ”اے اللہ جب تو کسی قوم پر آزمائش یا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے“۔ المؤمنون
95 المؤمنون
96 1- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ’’ برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا ‘‘۔ حٰم السجدہ (34۔35) المؤمنون
97 1- چنانچہ نبی (ﷺ) شیطان سے اس طرح پناہ مانگتے [ أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنَ هَمْزِهِ وِنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ] (أبو داود، كتاب الصلاة، باب ما يستفتح الصلاة من الدعاء، ترمذی ، باب ما يقول عند افتتاح الصلاة) المؤمنون
98 1- اس لئے نبی (ﷺ) نے تاکید فرمائی کہ ہر اہم کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرو یعنی بسم اللہ پڑھ کر، کیونکہ اللہ کی یاد، شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔ اسی لئے آپ یہ دعا بھی مانگتے تھے۔ [ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَدْمِ وَمِنَ الْغَرَقِ ، وَأَعُوذُ بِكَ أَن يَّتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ ] (أبو داود ، كتاب الوتر، باب في الاستعاذة) رات کو گھبراہٹ میں آپ یہ دعا بھی پڑھتے تھے۔ [ باسْمِ اللهِ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَةِ مِنْ غَضَبِه، وَعِقَابِه، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ ] ( مسند أحمد ،2/181 أبو داود كتاب الطب، باب كيف الرقى - ترمذی ، أبواب الدعوات) المؤمنون
99 المؤمنون
100 1- یہ آرزو، ہر کافر موت کے وقت، دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت، بارگاہ الٰہی میں قیامت کے وقت اور جہنم میں دھکیل دیئے جانے کے وقت کرتا ہے اور کرے گا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو متعدد، جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ منافقون:10-11، ابراھیم:44، اعراف: 53، السجدة: 12۔ الانعام: 27-28۔ الشوریٰ: 24۔ المؤمن: 11- 12۔ فاطر: 37 وغیرها من الآیات۔ 2- کَلَّا، ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے۔ 3- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ایسی بات ہے کہ جو ہر کافر نزع (جان کنی) کے وقت کہتا ہے۔ دوسرے معنی ہیں کہ یہ صرف بات ہی بات ہے عمل نہیں، اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو ان کا یہ قول، قول ہی رہے گا عمل اصلاح کی توفیق انہیں پھر نصیب نہیں ہوگی، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ﴾ (الأنعام ،28) ”اگر انہیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تو یہ پھر وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا“۔ کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا، بلکہ عمل صالح کے لئے دنیا میں آنے کی آرزو کرے گا۔ اس لئے زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عمل صلاح کر لئے جائیں تاکہ کل قیامت کو یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے (ابن کثیر) 4- دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اسے یہاں برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہوگا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی ہے۔ انسان کا وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہوگا، بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہوگا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا یا دریاؤں میں بہا دیا ہوگا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہوگا، مگر اللہ تعالٰی سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔ المؤمنون
101 1- محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ابتداء ایسا ہوگا، بعد میں وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور ایک دوسرے سے پوچھ گچھ بھی کریں گے۔ المؤمنون
102 المؤمنون
103 المؤمنون
104 1- چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ انسانی وجود کا سب سے اہم اور اشرف حصہ ہے، ورنہ جہنم تو پورے جسم کو ہی محیط ہوگی۔ 2- کَلَح کے معنی ہوتے ہیں ہونٹ سکڑ کر دانت ظاہر ہو جائیں۔ ہونٹ گویا دانتوں کا لباس ہیں، جب یہ جہنم کی آگ سے سمٹ اور سکڑ جائیں گے تو دانت ظاہر ہو جائیں گے، جس سے انسان کی صورت بدشکل اور ڈراؤنی ہو جائے گی۔ المؤمنون
105 المؤمنون
106 1- لذات اور شہوات کو، جو انسان پر غالب رہتی ہیں، یہاں بدبختی سے تعبیر کیا ہے کیوں کہ ان کا نتیجہ، دائمی بدبختی ہے۔ المؤمنون
107 المؤمنون
108 المؤمنون
109 المؤمنون
110 المؤمنون
111 1- دنیا میں اہل ایمان کے لئے ایک صبر آزما مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب دین و ایمان پر عمل کرتے ہیں تو دین سے ناآشنا اور ایمان سے بےخبر لوگ انہیں ہنسی مذاق و ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کتنے ہی کمزور ایمان والے ہیں کہ وہ ان ملامتوں سے ڈر کر بہت سے احکام اللہ پر عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں، جیسے داڑھی ہے، پردے کا مسئلہ ہے، شادی بیاہ کی ہندوانہ رسومات سے اجتناب ہے وغیرہ وغیرہ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی بھی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ و رسول کی اطاعت سے کسی بھی موقع پر انحراف نہیں کرتے، ﴿وَلا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ﴾ اللہ تعالٰی قیامت والے دن انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور انہیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ ۔ المؤمنون
112 المؤمنون
113 1- اس سے مراد فرشتے ہیں، جو انسانوں کے اعمال اور عمریں لکھنے پر مامور ہیں یا وہ انسان مراد ہیں جو حساب کتاب میں مہارت رکھتے ہیں۔ قیامت کی ہولناکیاں، ان کے ذہنوں سے دنیا کی عیش و عشرت کو محو کر دیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی جیسے دن یا آدھا دن۔ اس لئے وہ کہیں گے کہ ہم تو ایک دن یا اس سے بھی کم وقت دنیا میں رہے۔ بیشک تو فرشتوں سے یا حساب جاننے والوں سے پوچھ لے۔ المؤمنون
114 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یقینا دنیا کی زندگی بہت ہی قلیل ہے۔ لیکن اس نکتے کو دنیا میں تم نے نہیں جانا کاش تم دنیا میں اس کی حقیقت سے دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ ہو جاتے، تو آج تم بھی اہل ایمان کی طرح کامیاب وکامران ہوتے۔ المؤمنون
115 المؤمنون
116 1- یعنی وہ اس سے بہت بلند کہ وہ تمہیں بغیر کسی مقصد کے یوں ہی ایک کھیل کے طور پر بےکار پیدا کرے۔ اور تم جو چاہو کرو، تم سے اس کی کوئی باز پرس ہی نہ ہو۔ بلکہ اس نے تمہیں ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا۔ اسی لئے آگے فرمایا وہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ 2- عرش کی صفت کریم بیان فرمائی کہ وہاں سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ المؤمنون
117 1- اس سے معلوم ہوا کہ فلاح اور کامیابی آخرت میں عذاب الٰہی سے بچ جانا ہے، محض دنیا کی دولت اور آسائشوں کی فروانی، کامیابی نہیں، یہ دنیا میں کافروں کو بھی حاصل ہے، لیکن اللہ تعالٰی ان سے فلاح کی نفی فرما رہا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اصل فلاح آخرت سے فلاح ہے جو اہل ایمان کے حصے آئے گی، نہ کہ دنیاوی مال واسباب کی کثرت، جو کہ بلا تفریق مومن اور کافر، سب کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ المؤمنون
118 المؤمنون
0 النور
1 1- قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان کردہ احکام کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ النور
2 1- بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورۃ النساء آیت 15 میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد وعورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحيح مسلم، كتاب الحدود باب حد الزنى- والسنن) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کو عملا سزائے رجم دی اور سو کوڑے (جو چھوٹی سزا ہے) بڑی سزا میں مدغم ہوگئے اور اب شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔ عہد رسالت مآب (ﷺ) کے بعد خلفائے راشدین اور عہد صحابہ (رضی الله عنہم) میں بھی یہی سزا دی گئی اور بعد میں تمام امت کے فقہاء وعلماء بھی اسی کے قائل رہے اور آج تک قائل ہیں۔ صرف خوارج نے اس سزا کا انکار کیا۔ برصغیر میں اس وقت بھی کچھ ایسے افراد ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں۔ اس انکار کی اصل بنیاد ہی انکار حدیث پر ہے۔ کیونکہ رجم کی سزا صحیح اور نہایت قوی احادیث سے ثابت ہے۔ اور اس کے روایت کرنے والے بھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ علماء نے اسے متواتر روایات میں شمار کیا ہے۔ اسلیئے حدیث کی حجیت کا اور دین میں اس کے ماخذ شرعی ہونے کا قائل شخص رجم کا انکار نہیں کرسکتا۔ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔ 3- تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزعم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ دراں حالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔ النور
3 1- اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ (1) بعض کہتے ہیں کہ یہ غالب احوال کے اعتبار سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ عام طور پر بدکار قسم کے لوگ نکاح کے لئے اپنے ہی جیسے لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں، چنانچہ زانیوں کے اکثریت زانیوں کے ساتھ ہی نکاح کرنا پسند کرتی ہے اور مقصود اس سے اہل ایمان کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح زنا ایک نہایت قبیح اور بڑا گناہ ہے، اسی طرح زناکاروں کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرنا بھی منع اور حرام ہے۔ امام شوکانی نے اس مفہوم کو راجح قرار دیا ہے اور احادیث میں اس کا جو سبب نزول بیان کیا گیا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ بعض صحابہ (رضی الله عنہم) نے بدکار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا، اسی سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا ہے کہ ایک شخص نے جس عورت سے یا عورت نے جس مرد سے بدکاری کی ہو، ان کا آپس میں نکاح جائز نہیں، ہاں اگر وہ خالص توبہ کرلیں تو پھر ان کے درمیان نکاح جائز ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) (2) بعض کہتے ہیں کہ یہاں نکاح، سے مراد معروف نکاح نہیں ہے بلکہ یہ جماع کے معنی میں ہے اور مقصد زنا کی شناعت و قباحت بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بدکار مرد اپنی جنسی خواہش کی ناجائز طریقے سے تسکین کے لئے بدکار عورت کی طرف اور اسی طرح بدکار عورت بدکار مرد کی طرف رجوع کرتی ہے، مومنوں کے لئے ایساکرنا یعنی زناکاری حرام ہے۔ اور مشرک مرد و عورت کا ذکر اس لئے کردیا کہ شرک بھی زنا سے ملتا جلتا گناہ ہے، جس طرح مشرک اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتا ہے، اسی طرح ایک زناکار اپنی بیوی کو چھوڑ کر یا بیوی اپنے خاوند کو چھوڑ کر غیروں سے اپنا منہ کالا کراتی ہے۔ یوں مشرک اور زانی کے درمیان ایک عجیب معنوی مناسبت پائی جاتی ہے۔ النور
4 1- اس میں قذف (بہتان تراشی) کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے (اسی طرح جو عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے) اور بطور ثبوت چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں (1) انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں (2) ان کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے (3) وہ عند اللہ وعند الناس فاسق ہیں۔ النور
5 1- توبہ سے کوڑوں کی سزا تو معاف نہیں ہوگی، تائب ہو جائے یا اصرار کرے، یہ سزا تو بہرحال ملے گی۔ البتہ دوسری دو باتیں جو ہیں، مردود الشہادۃ اور فاسق ہونا، اس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء اس استثنا کو فسق تک محدود رکھتے ہیں۔ یعنی توبہ کے بعد فاسق نہیں رہے گا۔ اور بعض مفسرین دونوں جملوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں، یعنی توبہ کے بعد مقبول الشہادۃ بھی ہو جائے گا۔امام شوکانی نے اسی دوسری رائے کو ترجیح دی ہے اور ابداً کا مطلب بیان کیا ہے مادام قاذفاً یعنی جب تک وہ بہتان تراشی پر قائم رہے جس طرح کہا جائے کہ کافر کی شہادت کبھی قبول نہیں، تو یہاں "کبھی" کا مطلب یہی ہوگا کہ جب تک وہ کافر ہے۔ النور
6 النور
7 1- اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔ النور
8 النور
9 1- یعنی اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائی گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔ اسے لعان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں، نبی (ﷺ) کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے، جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے، وہی واقعات ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ النور
10 1- اس کا جواب محذوف ہے، تو تم میں سے جھوٹے پر فوراً اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن چونکہ وہ تو اب ہے اور حکیم بھی، اس لئے ایک تو اس نے ستر پوشی کر دی، تاکہ اس کے بعد اگر کوئی سچے دل سے توبہ کر لے تو وہ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے گا اور حکیم بھی ہے کہ اس نے لعان جیسا مسئلہ بیان کر کے غیور مردوں کے لئے ایک نہایت معقول اور آسان تجویز مہیا کر دی۔ النور
11 1- إِفْكٌ سے مراد وہ واقعہ إِفْكٌ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کی براءت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ مختصراً یہ واقعہ یوں ہے کہ حکم حجاب کے بعد غزوۂ بنی المصطلق (مریسیع) سے واپسی پر نبی کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے مدینہ کے قریب ایک جگہ قیام فرمایا، صبح کو جب وہاں سے روانہ ہوئے تو حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کا ہودج بھی، جو خالی تھا، اہل قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ ام المومنین (رضی الله عنہا) اس کے اندر ہی ہوں گی۔ اور وہاں سے روانہ ہوگئے، درآں حالیکہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئی ہوئی تھیں، جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلا گیا۔ تو یہ سوچ کر وہیں لیٹ رہیں کہ جب ان کو میری غیر موجودگی کا علم ہوگا تو تلاش کے لئے واپس آئیں گے۔ تھوڑی دیر بعد صفوان بن معطل سلمی (رضی الله عنہ) آگئے، جن کی ذمہ داری یہی تھی کہ قافلے کی رہ جانے والی چیزیں سنبھال لیں۔ انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو حکم حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی انا للہ الخ پڑھا اور سمجھ گئے قافلہ غلطی سے یا بےعلمی میں حضرت ام المومنین (رضی الله عنہا) کو یہیں چھوڑ کر آگے چلا گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے انہیں اپنے اونٹ پر بٹھایا اور خود نکیل تھامے پیدل چلتے قافلے کو جاملے۔ منافقین نے جب حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو اس طرح بعد میں اکیلے حضرت صفوان (رضی الله عنہ) کےساتھ آتے دیکھا تو اس موقع کو بہت غنیمت جانا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے کہا کہ یہ تنہائی اور علیحدگی بے سبب نہیں اور یوں انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو حضرت صفوان (رضی الله عنہ) کے ساتھ مطعون کردیا، دراں حالیکہ دونوں ان باتوں سے یکسر بےخبر تھے۔ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے، مثلاً حضرت حسان (رضی الله عنہ) ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش (رضی الله عنہم) (اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے) نبی کریم (ﷺ) نے پورے ایک مہینے تک، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے براءت نازل نہیں ہوئی، سخت پریشان رہے اور حضرت عائشہ (رضی الله عنہ) لاعلمی میں اپنی جگہ بےقرار ومضطرب۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعے کو اختصار وجامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ إِفْكٌ کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقعے میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا دیا تھا یعنی حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) تو ثنا وتعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔ 2- ایک گروہ اور جماعت کو عصبہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصبیت کا باعث ہوتے ہیں۔ 3- کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کی براءت سے ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف وفضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و موعظت کے اور کئی پہلو ہیں۔ 4- اس سے مراد عبداللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔ النور
12 1- یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جارہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہے۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) پر اتہام طرازی کی گئی تو تم نے اپنے پر قیاس کرتے ہوئے فوراً اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا؟ النور
13 النور
14 النور
15 النور
16 1- دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ بھی پیش نہیں کیا۔ جب کہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشوں کو جھوٹا نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حضرت حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش (رضی الله عنہم) کو حد قذف لگائی گئی۔ (مسند أحمد جلد۔ 6 ، ص 30، ترمذی نمبر 3181 ،ابوداود نمبر 4744 ابن ماجہ، نمبر 2567 ) عبداللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا میں ہی پاک کردیا گیا۔ دوسرے، اس کے پیچھے ایک پورا جتھہ تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلحتاً اسے سزا دینے سے گریز کیا گیا۔ (فتح القدیر)۔ تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فضل واحسان تم پر نہ ہوتا تو تمہارا یہ رویہ کہ تم نے بلا تحقیق اس افواہ کو آگے پھیلانا شروع کردیا۔ عذاب عظیم کا باعث تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افواہ سازی اور اس کی نشرواشاعت بھی جرم عظیم ہے۔ جس پر انسان عذاب عظیم کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ چوتھی بات، کہ یہ معاملہ براہ راست حرم رسول (ﷺ) اور ان کی عزت وآبرو کا تھا لیکن تم نے اسے قرار واقعی اہمیت نہیں دی، اور اسے ہلکا سمجھا۔ اس سے بھی یہ سمجھانا مقصود ہے کہ محض آبروریزی ہی بڑا جرم نہیں ہے کہ جس کی حد سو کوڑے یا رجم ہے بلکہ کسی کی عزت وآبرو پر اس طرح حملہ کرنا اور کسی عفت مآب خاندان کی تذلیل واہانت کا سروسامان کرنا بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، اسے ہلکا مت سمجھو۔ اسی لئے آگے پھر مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمیں ایسی بات منہ سےنکالنی بھی لائق نہیں۔ یہ یقیناً بہتان عظیم ہے۔ اسی لئے امام مالک فرماتے ہیں کہ جو نام نہاد مسلمان حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) پر بےحیائی کا الزام عائد کرے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ کی اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر)۔ النور
17 النور
18 النور
19 1- فَاحِشَةٌ کے معنی بےحیائی کے ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بےحیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا وآخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے، جس سے بےحیائی کے بارے میں اسلام کے مزاج کا اور اللہ تعالیٰ کی منشا کا اندازہ ہوتا ہے کہ محض بےحیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت عند اللہ اتنا بڑا جرم ہے تو جو لوگ رات دن ایک مسلمان معاشرے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور فلموں ڈراموں کے ذریعے سے بےحیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں، اللہ کے ہاں یہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہوں گے؟ اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کیوں کر اشاعت فاحشہ کے جرم سے بری الذمہ قرار پائیں گے؟ اسی طرح اپنے گھروں میں ٹی وی لا کر رکھنے والے، جس سے ان کی آئندہ نسلوں میں بےحیائی پھیل رہی ہے، وہ بھی اشاعت فاحشہ کے مجرم کیوں نہیں ہوں گے؟ اور یہی معاملہ فواحش اور منکرات سے بھرپور روزنامہ اخبارات کا ہے کہ ان کا بھی گھروں کے اندر آنا، اشاعت فاحشہ کا ہی سبب ہے، یہ بھی عنداللہ جرم ہوسکتا ہے۔ کاش مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس بےحیائی کے طوفان کو روکنے کے لئے اپنی مقدور بھر سعی کریں۔ النور
20 1- جواب محذوف ہے، تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا۔ یہ محض اس کا فضل اور اس کی شفقت ورحمت ہے کہ اس نے تمہارے اس جرم عظیم کو معاف فرمادیا۔ النور
21 1- اس مقام پر شیطان کی پیروی سے ممانعت کے بعد یہ فرمانا کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا، اس سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعہ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل وکرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے، جس میں بعض مسلمان بہہ گئے تھے۔ اس لئے شیطان کے داؤ اور فریب سے بچنے کے لئے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہوگئے ہیں، ان کو زیادہ ہدف ملامت مت بناؤ ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔ النور
22 1- حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابوبکر (رضی الله عنہ) ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری امر تھا چنانچہ نزول برا کے بعد غصے میں انہوں نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیقیت، اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کے اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی معافی اور د گزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہ انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) بےساختہ پکار اٹھے، کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے اس کے بعدانہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے حسب سابق مسطح کی مالی سرپرستی شروع فرما دی (فتح القدیر، ابن کثیر) النور
23 1- بعض مفسرین نے اس آیت کو حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) اور دیگر ازواج مطہرات (رضی الله عنہ) ن کے ساتھ خاص قرار دیا ہے کہ اس آیت میں بطور خاص ان پر تہمت لگانے کی سزا بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے لئے توبہ نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے اسے عام ہی رکھا ہے اور اس میں وہی حد قذف بیان کی گئی ہے، جو پہلے گزرچکی ہے۔ اگر تہمت لگانے والا مسلمان ہے تو لعنت کا مطلب ہوگا کہ وہ قابل حد ہے اور مسلمانوں کے لئے نفرت اور بعد کا مستحق۔ اور اگر کافر ہے، تو مفہوم واضح ہی ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں ملعون یعنی رحمت الٰہی سے محروم ہے۔ النور
24 1- جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی اور احادیث میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ النور
25 النور
26 1- اس کا مفہوم تو یہی بیان کیا گیا ہے جو ترجمے سے واضح ہے . اس صورت میں یہ ﴿الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً﴾کے ہم معنی آیت ہوگی، اور خبیثات اور خبیثون سے زانی مرد وعورت اور طیبات اور طیبون سے مراد پاک دامن عورت اور مرد ہوں گے۔ دوسرے معنی اس کے ہیں کہ ناپاک باتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک باتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ باتوں کے لئے ہیں اور مطلب یہ ہوگا کہ ناپاک باتیں وہی مرد وعورت کرتے ہیں جو ناپاک ہیں اور پاکیزہ باتیں کرنا پاکیزہ مردوں اور عورتوں کا شیوہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے، اس بات کی طرف کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) پر ناپاکی کا الزام عائد کرنے والے ناپاک اور ان سے اس کی براءت کرنے والے پاک ہیں۔ 2- اس سے مراد جنت کی روزی ہے جو اہل ایمان کو نصیب ہوگی۔ النور
27 1- گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہےتاکہ مرد وعورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور پر زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اسْتِينَاسٌ کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ بعض نے تَسْتَأْنِسُوا کے معنی تَسْتَأْذِنُوا کے کئے ہیں، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے۔ اسی طرح آپ (ﷺ) کا یہ معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ (ﷺ) اجازت طلب فرماتے، اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ (ﷺ) واپس لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ (ﷺ) کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ (ﷺ) دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جس میں بےپردگی کا امکان رہتا ہے (ملاحظہ ہو صحيح بخاری، كتاب الاستئذان باب التسليم والاستئذان ثلاثا- مسند أحمد 3 / 138 أبو داود، كتاب الأدب، باب كم مرة يسلم الرجل في الاستئذان) اسی طرح آپ (ﷺ) نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں۔ (البخاری، كتاب الديات، باب من اطلع في بيت قوم ففقئوا عينه فلا دية له- مسلم، كتاب الآداب، باب تحريم النظر في بيت غيره) آپ (ﷺ) نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے؟ تو اس کے جواب میں میں، میں کہا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے۔ (صحيح بخاری، كتاب الاستئذان باب إذا قال من ذا؟ قال أنا- ومسلم، كتاب الآداب باب كراهة قول المستأذن أنا إذا قيل من هذا؟ وأبو داود، كتاب الأدب 2- یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔ النور
28 النور
29 1- اس سے مراد کون سے گھر ہیں، جن میں بغیر اجازت لئے داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ گھر ہیں، جو بطور خاص مہمانوں کے لئے الگ تیار یا مخصوص کردیئے گئے ہوں۔ ان میں صاحب خانہ کی پہلی مرتبہ اجازت کافی ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرائے ہیں جو مسافروں کے لئے ہی ہوتی ہیں یا تجارتی گھر ہیں، مَتَاعٌ کے معنی، منفعت کے ہیں یعنی جن میں تمہارا فائدہ ہو۔ 2- اس میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے جو دوسروں کے گھروں میں داخل ہوتے وقت مذکورہ آداب کا خیال نہیں رکھتے۔ النور
30 1- جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی غض بصر (آنکھوں کو پست رکھنے یا بند رکھنے) کا حکم دے دیا تاکہ اجازت طلب کرنے والا بھی بالخصوص اپنی نگاہوں پر کنٹرول رکھے۔ 2- یعنی ناجائز استعمال سے اس کو بچائیں یا انہیں اس طرح چھپا کر رکھیں کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں کیوں کہ دونوں ہی مطلوب ہیں۔ علاوہ ازیں نظروں کی حفاظت کا پہلے ذکر کیا کیونکہ اس میں بےاحتیاطی ہی، حفظ فروج سے غفلت کا سبب بنتی ہے۔ النور
31 1- عورتیں بھی اگرچہ غض بصر اور حفظ فروج کے پہلے حکم میں داخل تھیں، جو تمام مومنین کو دیا گیا ہے اور مومنین میں مومن عورتیں بھی بالعموم شامل ہی ہوتی ہیں لیکن ان مسائل کی اہمیت کے پیش نظر عورتوں کو بھی بطور خاص دوبارہ وہی حکم دیا جارہا ہے جس سے مقصود تاکید ہے بعض علما نے اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح مردوں کے لئے عورتوں کو دیکھنا ممنوع ہے اسی طرح عورتوں کے لئے مردوں کو دیکھنا مطلقاً ممنوع ہے۔ اور بعض نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جس میں حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کا حبشیوں کا کھیل دیکھنے کا ذکر ہے (صحيح بخاری، كتاب الصلاة، باب أصحاب الحراب في المسجد) بغیر شہوت کے مردوں کی طرف دیکھنے کی عورتوں کو اجازت دی ہے۔ 2- زینت سے مراد وہ لباس ہے اور زیور ہے جو عورتیں اپنے حسن وجمال میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے پہنتی ہیں، جس کی تاکید انہیں اپنے خاوندوں کے لئے کی گئی ہے۔ جب لباس اور زیور کا ا ظہار غیر مردوں کے سامنے عورت کے لئے ممنوع ہے جسم کو عریاں اور نمایاں کرنے کی اجازت اسلام میں کب ہوسکتی ہے؟ یہ تو بطریق اولیٰ حرام اور ممنوع ہوگا۔ 3- اس سے مراد وہ زینت اور حصہ جسم ہے جس کا چھپانا اور پردہ کرنا ممکن نہ ہو۔ جیسے کسی کو کوئی چیز پکڑاتے یا اس سے لیتے ہوئے ہتھیلیوں کا، یا دیکھتے ہوئے آنکھوں کا ظاہر ہوجانا۔ اس ضمن میں ہاتھ میں جو انگوٹھی پہنی ہوئی یا مہندی لگی ہو، آنکھوں میں سرمہ، کاجل ہو یا لباس اور زینت کو چھپانے کے لئے جو برقعہ یا چادر لی جاتی ہے، وہ بھی ایک زینت ہی ہے۔ تاہم یہ ساری زینتیں ایسی ہیں، جن کا اظہار بوقت ضرورت یا بوجہ ضرورت مباح ہے۔ 4- تاکہ سر، گردن، سینے اور چھاتی کا پردہ ہوجائے، کیونکہ انہیں بھی بے پردہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 5- یہ وہی زینت (سنگھار) یا آرائش ہے جسے ظاہر کرنے کی ممانعت اس سے پہلے کی گئی تھی۔ یعنی لباس اور زیور وغیرہ کی، جو چادر یا برقعہ کے نیچے ہوتی ہے۔ یہاں اس کا ذکر اب استثنا کے ضمن میں آیا ہے۔ یعنی ان ان لوگوں کے سامنے اس زینت کا اظہار جائز ہے۔ 6- ان میں سرفہرست خاوند ہے، اسی لئے خاوند کو سب پر مقدم بھی کیا گیا ہے۔ کیونکہ عورت کی ساری زینت خاوند ہی کے لئے ہوتی ہے، اور خاوند کے لئے تو عورت کا سارا بدن ہی حلال ہے۔ اس کے علاوہ جن محارم اور دیگر بعض افراد کا ہر وقت گھر میں آنا جا نارہتا ہے اور قربت اور رشتہ داری کی وجہ سے یا دیگر وجوہ سے طبعی طور پر ان کی طرف جنسی میلان بھی نہیں ہوتا، جس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ تو شریعت نے ایسے لوگوں کے سامنے، جن سے کوئی خطرہ نہ ہو اور تمام محارم کے سامنے زینت ظاہر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ اس مقام پر ماموں اور چچا کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ جمہور علما کے نزدیک یہ بھی ان محارم میں سے ہیں جن کے سامنے اظہار زینت کی اجازت دی گئی ہے اور بعض کے نزدیک یہ محارم میں سے نہیں ہیں (فتح القدیر)۔ 7- باپ میں دادا، پردادا، نانا، پرنانا اور اس سے اوپر سب شامل ہیں۔ اسی طرح خسر میں خسر کا باپ، دادا، پردادا، اوپر تک۔ بیٹوں میں پوتا، پرپوتا، نواسہ پرنواسہ نیچے تک۔ خاوندوں کے بیٹوں میں پوتے، پرپوتے، نیچے تک، بھائیوں میں تینوں قسم کے بھائی (عینی، اخیافی اور علاتی) اور ان کے بیٹے، پوتے، پرپوتے، نواسے، نیچے تک۔ بھتیجوں میں ان کے بیٹے، نیچے تک اور بھانجوں میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد شامل ہے۔ 8- ان سے مراد مسلمان عورتیں ہیں جن کو اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ وہ کسی عورت کی زینت، اس کا حسن وجمال اور جسمانی خدوخال اپنے خاوند کے سامنے بیان کریں۔ ان کے علاوہ کسی بھی کافر عورت کے سامنے اظہار زینت منع ہے یہی رائے حضرت عمرو عبداللہ بن عباس (رضی الله عنہ) ومجاھد اور امام احمد بن حنبل سے منقول ہے۔ بعض نے اس سے وہ مخصوص عورتیں مراد لی ہیں، جو خدمت وغیرہ کے لئے ہر وقت ساتھ رہتی ہیں، جن میں باندیاں (لونڈیاں) بھی شامل ہیں۔ 9- بعض نے اس سے مراد صرف لونڈیاں اور بعض نے صرف غلام لئے ہیں اور بعض نے دونوں ہی۔ حدیث میں بھی صراحت ہے کہ غلام سے پردے کی ضرورت نہیں ہے۔ (أبو داود- كتاب اللباس باب في العبد ينظر إلى شعر مولاته) اس طرح بعض نے اسے عام رکھا ہے جس میں مومن اور کافر دونوں غلام شامل ہیں۔ 10- بعض نے ان سے صرف وہ افراد مراد لئے ہیں جن کا گھر میں رہنے سے، کھانے پینے کے سوا کوئی اور مقصد نہیں۔ بعض نے بےوقوف ، بعض نے نامرد ا ور خصی اور بعض نے بالکل بوڑھے مراد لئے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ جن کے اندر بھی قرآن کی بیان کردہ صفت پائی جائے گی، وہ سب اس میں شامل اور دوسرے خارج ہوں گے۔ 11- ان سے ایسے بچے خارج ہوں گے جو بالغ ہوں یا بلوغت کے قریب ہوں کیونکہ وہ عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف ہوتے ہیں۔ 12- تاکہ پازیبوں کی جھنکار سے مرد اس کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ اسی میں اونچی ایڑی کے وہ سینڈل بھی آجاتے ہیں جنہیں عورت پہن کر چلتی ہے ٹک ٹک کی آواز، زیور کی جھنکار سے کم نہیں ہوتی۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ عورت کے لئے خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں، جو عورت ایسا کرتی ہے، وہ بدکار ہے (ترمذی، أبواب الاستئذان، أبو داود، كتاب الترجل 13- یہاں پردے کے احکام میں توبہ کا حکم دینے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان احکام کی جو خلاف ورزی بھی تم کرتے رہے ہو، وہ چونکہ اسلام سے قبل کی باتیں ہیں، اس لئے اگر تم نے سچے دل سے توبہ کرلی اور ان احکام مذکورہ کے مطابق پردے کا صحیح اہتمام کرلیا تو فلاح وکامیابی اور دنیا وآخرت کی سعادت تمہارا مقدر ہے النور
32 1- ۔أَيَامَى، أَيِّمٌ کی جمع ہے، أَيِّمٌ ایسی عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند نہ ہو، جس میں کنواری، بیوہ اور مطلقہ تینوں آجاتی ہیں۔ اور ایسے مرد کو بھی أَيِّمٌ کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو۔ آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کر دو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کر لو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مردو عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی۔ جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح امر کے صیغے سے بعض نے استدلال کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب کہ بعض نے اسے مباح اور بعض نے مستحب قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت موکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے اعراض سخت وعید کا باعث ہے۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ وَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ] (البخاری نمبر 50 63، ومسلم، نمبر 1020 ) "جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں۔ 2- یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں یا نہیں؟ بعض اکراہ کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (ایسرالتفاسیر)۔ 3- یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیئے۔ ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت وفراخی میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے۔ تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے۔ 1۔ نکاح کرنے والا، جو پاک دامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔ 2۔ مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے۔ 3۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ (ترمذی- أبواب فضائل الجهاد، باب ما جاء في المجاهد والمكاتب والنكاح النور
33 1- حدیث میں پاک دامنی کے لئے، جب تک شادی کی استطاعت حاصل نہ ہوجائے، نفلی روزے رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ فرمایا (اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہے، اسے (اپنے وقت پر) شادی کرلینی چاہیئے، اس لئے کہ اس سے آنکھوں اور شرم گاہ کی حفاظت ہوجاتی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا، اسے چاہیئے کہ وہ (کثرت سے نفلی) روزے رکھے، روزے اس کی جنسی خواہش کو قابو میں رکھیں گے ( البخاری، كتاب الصوم، باب الصوم لمن خاف على نفسه العزوبة مسلم- أول كتاب النكاح)۔ 2- مُكَاتَبٌ، اس غلام کوکہا جاتا ہے جو اپنے مالک سے معاہدہ کرلیتا ہے کہ میں اتنی رقم جمع کرکے ادا کردوں گا تو آزادی کا مستحق ہوجاؤں گا۔ (بھلائی نظر آنے) کا مطلب ہے، اس کے صدق وامانت پر تمہیں یقین ہو یا کسی حرفت وصنعت سے وہ آگاہی رکھتا ہو۔ تاکہ وہ محنت کرکے کمائے اور رقم ادا کردے۔ اسلام نے چونکہ زیادہ سے زیادہ غلامی کی حوصلہ شکنی کی پالیسی اپنائی تھی، اس لئے یہاں بھی مالکوں کو تاکید کی گئی کہ مکاتبت کے خواہش مند غلاموں سے معاہدہ کرنے میں تامل نہ کرو بشرطیکہ تمہیں ان کے اندر ایسی بات معلوم ہو کہ جس سے تمہاری رقم کی ادائیگی بھی ممکن ہو۔ بعض علما کے نزدیک یہ امروجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے۔ 3- اس کا مطلب ہے کہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لئے اس نے جو معاہدہ کیا ہے اور اب وہ رقم کا ضرورت مند ہے تاکہ معاہدے کے مطابق وہ رقم ادا کردے تو تم بھی اس کے ساتھ مالی تعاون کرو، اگر اللہ نے تمہیں صاحب حیثیت بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے جو مصارف ثمانیہ (التوبہ: 60) میں بیان فرمائے ہیں، ان میں ایک وفي الرِّقَابِ بھی ہے جس کے معنی ہیں، گردنیں آزاد کرانے میں۔ یعنی غلاموں کی آزادی پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔ 4- زمانۂ جاہلیت میں لوگ محض دنیوی مال کے لئے اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرتے تھے۔ چنانچہ خواہی نخواہی انہیں یہ داغ ذلت برداشت کرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا ﴿إِنْ أَرَدْنَ غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ مقصد یہ نہیں ہے کہ اگر وہ بدکاری کو پسند کریں تو پھر تم ان سے یہ کام کروالیا کرو۔ بلکہ حکم دینا یہ مقصود ہے کہ لونڈیوں سے، دنیا کے تھوڑے سے مال کے لئے، یہ کام مت کرواؤ، اس لئے کہ اس طرح کی کمائی ہی حرام ہے۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ 5- یعنی جن لونڈیوں سے جبراً یہ بےحیائی کا کام کروایا جائے گا، تو گناہ گار مالک ہوگا یعنی جبر کرنے والا، نہ کہ لونڈی جو مجبور ہے۔ حدیث میں آتا ہے ”میری امت سے، خطا، نسیان اور ایسے کام جو جبر سے کرائے گئے ہوں، معاف ہیں“۔ (ابن ماجہ، كتاب الطلاق، باب طلاق المكره والناسي النور
34 النور
35 1- یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو نہ آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان وزمین میں کسی کو ہدایت ہی نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان وزمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بہ حیثیت صفات کے) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث میں بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے۔ [ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ ] (البخاری، باب التهجد بالليل، ومسلم كتاب صلاة المسافرين باب الدعاء في صلاة الليل) پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے (ایسرالتفاسیر)۔ 2- یعنی جس طرح ایک طاق میں ایسا چراغ ہو، جو شیشے کی قندیل میں ہو، اس میں ایک بابرکت درخت کا ایسا خاص تیل ڈالا گیا ہو کہ وہ آگ (دیا سلائی) دکھائے بغیر ہی بذات خود روشن ہوجانے کے قریب ہو۔ یوں یہ ساری روشنیاں ایک طاق میں مجتمع ہوگئیں اور وہ بقعہ نور بن گیا۔ اسی طرح اللہ کے نازل کردہ دلائل وبراہین کی حیثیت ہے کہ وہ واضح بھی ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر بھی یعنی نور علیٰ نور جو مشرقی ہے، نہ مغربی کا مطلب ہے، وہ درخت ایسے کھلے میدان اور صحرا میں ہے کہ اس پر دھوپ صرف سورج کے چڑھنے کے وقت یا غروب کے وقت ہی نہیں پڑتی، بلکہ سارا دن وہ دھوپ میں رہتا ہے اور ایسے درخت کا پھل بہت عمدہ ہوتا ہے اور مراد اس سے زیتون کا درخت ہے جس کا پھل اور تیل سالن کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور چراغ میں تیل کے طور پر بھی۔ 3- نُورٌ سے مراد ایمان و اسلام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جن کے اندر ایمان کی رغبت اور اس کی طلب دیکھتا ہے، ان کی اس نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے، جس سے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں۔ 4- جس طرح اللہ نے یہ مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اور اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔ النور
36 1- جب اللہ تعالیٰ نے قلب مومن کو اور اس میں جو ایمان وہدایت اور علم ہے، اس کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی جو شیشے کی قندیل میں ہو اور جو صاف شفاف تیل سے روشن ہو۔ تو اب اس کا محل بیان کیا جارہا ہے کہ یہ قندیل ایسے گھروں میں ہیں، جن کی بابت حکم دیا گیا ہے کہ انہیں بلندکیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے۔ مراد مسجدیں ہیں، جو اللہ کو زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ بلندی سے مراد محض سنگ وخشت کی بلندی نہیں ہے بلکہ اس میں مسجدوں کو گندگی، لغویات اور غیرمناسب اقوال و افعال سے پاک رکھنا بھی شامل ہے۔ ورنہ محض مسجدوں کی عمارتوں کو عالی شان اور فلک بوس بنا دینا، مطلوب نہیں ہے بلکہ احادیث میں مسجدوں کو زرنگار اور زیادہ آراستہ وپیراستہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو اسے قرب قیامت کی علامات میں سے بتلایا گیا ہے۔ (أبو داود، كتاب الصلاة باب في بناء المساجد) علاوہ ازیں، جس طرح مسجدوں میں تجارت وکاروبار اور شور وشغب ممنوع ہیں کیونکہ یہ مسجد کے اصل مقصد، عبادت کے منفی ہیں۔ اسی طرح اللہ کا ذکر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ صرف ایک اللہ کا ذکر کیا جائے، اسی کی عبادت کی جائے اور صرف اسی کو مدد کے لئے پکارا جائے۔ ﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾ (سورة جن: 18) ”مسجدیں، اللہ کے لئے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو“۔ 2- تسبیح سے مراد نماز ہے۔ آصَالٌ، أَصِيلٌ کی جمع ہے بمعنی شام۔ یعنی اہل ایمان، جن کے دل ایمان و ہدایت کے نور سے روشن ہوتے ہیں، صبح وشام مسجدوں میں اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ النور
37 1- اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ اگرچہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ وہ نہایت سادہ لباس میں، بغیر خوشبو لگائے اور باپردہ جائیں، جس طرح کہ عہد رسالت مآب (ﷺ) میں عورتیں مسجد نبوی میں نماز کے لئے حاضر ہوتی تھیں۔ تاہم ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ حدیث میں بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے۔ (أبو داود، كتاب الصلاة، باب التشديد في ذلك، مسند أحمد، 6 / 297 ، 301)۔ 2- یعنی شدت فزع اور ہولناکی کی وجہ سے۔ جس طرح دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ﴾ (سورة المؤمن: 18) ”ان کو قیامت والے دن سے ڈراؤ ، جس دن دل، گلوں کے پاس آجائیں گے، غم سے بھرے ہوئے“۔ ابتداءً دلوں کی یہ کیفیت سب کی ہی ہوگی، مومن کی بھی اور کافر کی بھی۔ النور
38 1- قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کی نیکیوں کا بدلہ اضعافا مضاعفہ (کئی کئی گنا) کی صورت میں دیا جائے گا اور بہت سوں کو بےحساب ہی جنت میں داخل کردیا جائے گا اور وہاں رزق کی فراوانی اور اس میں جو تنوع وتلذذ ہوگا، اس کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ النور
39 1- أَعْمَالٌ سے مراد، وہ اعمال ہیں جنہیں کافر ومشرک نیکیاں سمجھ کر کرتے ہیں، جیسے صدقہ وخیرات، صلۂ رحمی، بیت اللہ کی تعمیر اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ۔ سَرَابٌ، اس چمکتی ہوئی ریت کو کہتے ہیں، جو دور سے سورج کی شعاعوں کی وجہ سے پانی نظر آتی ہے۔ سَرَابٌ کے معنی ہی چلنے کے ہیں۔ وہ ریت، چلتے ہوئے پانی کی طرح نظر آتی ہے قِيعَةٌ، قَاعٌ کی جمع ہے، زمین کا نشیبی حصہ، جس میں پانی ٹھہر جاتا ہے یا چٹیل میدان، یہ کافروں کے عملوں کی مثال ہے کہ جس طرح سراب دور سے پانی نظر آتا ہے حالانکہ وہ ریت ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کافر کے عمل عدم ایمان کی وجہ سے اللہ کے ہاں بالکل بے وزن ہوں گے، ان کا کوئی صلہ انہیں نہیں ملے گا۔ ہاں جب وہ اللہ کے پاس جائے گا، تو وہ اس کے عملوں کا پورا پورا حساب چکا لے گا۔ النور
40 1- یہ دوسری مثال ہے کہ ان کے اعمال اندھیروں کی طرح ہیں، یعنی انہیں سراب سے تشبیہ دے لو یا اندھیروں سے۔ یا گزشتہ مثال کافر کے اعمال کی تھی اور اس کے کفر کی مثال ہے جس میں کافر ساری زندگی گھرا رہتا ہے، کفروضلالت کی اندھیری، اعمال سیۂ وعقائد مشرکانہ کی اندھیری اور رب سے اور اس کے عذاب اخروی سے عدم واقفیت کی اندھیری۔ یہ اندھیریاں اسے راہ ہدایت کی طرف نہیں آنے دیتیں۔ جس طرح اندھیرے میں انسان کو اپنا ہاتھ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ 2- یعنی دنیا میں ایمان واسلام کی روشنی نصیب نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی اہل ایمان کو ملنے والے نور سے وہ محروم رہیں گے۔ النور
41 1- صَافَّاتٌ کے معنی ہیں باسطات اور اس کا مفعول أَجْنِحَتَهَا محذوف ہے۔ اپنے پر پھیلائے ہوئے۔ ﴿مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ میں پرندے بھی شامل تھے۔ لیکن یہاں ان کاذکر الگ سے کیا، اس لئے کہ پرندے، تمام حیوانات میں ایک نہایت ممتاز مخلوق ہیں، جو اللہ کی قدرت کاملہ سے آسمان وزمین کے درمیان فضا میں اڑتے ہوئے اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ یہ مخلوق اڑنے پر بھی قدرت رکھتی ہے جس سے دیگر تمام حیوانات محروم ہیں اور زمین پر چلنے پھرنے کی قدرت بھی رکھتی ہے۔ 2- یعنی اللہ نے ہر مخلوق کو یہ علم الہام والقا کیا ہے کہ وہ اللہ کی تسبیح کس طرح کرے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بخت واتفاق کی بات نہیں بلکہ آسمان وزمین کی ہر چیز کا تسبیح کرنا اور نماز ادا کرنا یہ بھی اللہ ہی کی قدرت کا ایک مظہر ہے، جس طرح ان کی تخلیق اللہ کی ایک صنعت بدیع ہے، جس پر اللہ کے سوا کوئی قادر نہیں۔ 3- یعنی اہل زمین واہل آسمان جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، سب اس کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں تو دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی تسبیح وتحمید اور اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں۔ لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جس پر یقیناً وہ اللہ کی گرفت کی مستحق ہوگی۔ النور
42 1- پس وہی اصل حاکم ہے، جس کے حکم کا کوئی تعاقب کرنے والا نہیں اور وہی معبود برحق ہے، جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں وہ ہر ایک کے بارے میں عدل وانصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔ النور
43 1- اس کا ایک مطلب تو یہی ہے جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے کہ آسمان میں اولوں کے پہاڑ ہیں جن سے وہ اولے برساتا ہے۔ (ابن کثیر) دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ سماء بلندی کےمعنی میں ہے اور جبال کے معنی ہیں بڑے بڑے ٹکڑے، پہاڑوں جیسے، یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں سے بارش ہی نہیں برساتا بلکہ بلندیوں سے جب چاہتا ہے برف کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی نازل فرماتا ہے، (فتح القدیر) یا پہاڑ جیسے بڑے بڑے بادلوں سے اولے برساتا ہے۔ 2- یعنی وہ اولے اور بارش بطور رحمت جنہیں چاہتا ہے، پہنچاتا ہے اور جنہیں چاہتا ہے ان سے محروم رکھتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ژالہ باری (اولے) کے عذاب سے جسے چاہتا ہے دوچار کر دیتا ہے۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ اور کھیتیاں برباد ہو جاتی ہیں اور جن پر اپنی رحمت کرنا چاہتا ہے ان کو اس سے بچا لیتا ہے۔ 3- یعنی بادلوں میں چمکنے والی بجلی، جو عام طور پر بارش کی نوید جاں فزاں ہوتی ہے اس میں اتنی شدت کی چمک ہوتی ہے کہ وہ آنکھوں کی بصارت لے جانے کے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ بھی اس کی صناعی کاایک نمونہ ہے۔ النور
44 1- یعنی کبھی دن بڑے،راتیں چھوٹی اور کبھی اس کے برعکس۔ یا کبھی دن کی روشنی، کو بادلوں کی تاریکیوں سے اور رات کے اندھیروں کو چاند کی روشنی سے بدل دیتا ہے۔ النور
45 1- جس طرح سانپ، مچھلی اور دیگر حشرات الارض کیڑے مکوڑے ہیں۔ 2- جیسے انسان اور پرند ہیں۔ 3- جیسے تمام چوپائے اور دیگر حیوانات ہیں۔ 4- یہ اشارہ اس بات کی طرف کہ بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو چار سے بھی زیادہ پاؤں رکھتے ہیں، جیسے کیکڑا، مکڑی اور بہت سے زمینی کیڑے۔ النور
46 1- آيَاتٌ مُبَيِّنَاتٌ سے مراد قرآن کریم ہے۔ جس میں ہر چیز کا بیان ہے جس کا تعلق انسان کے دین و اخلاق سے ہے جس پر اس کی فلاح وسعادت کا انحصار ہے۔ ﴿مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ﴾ (الأنعام - 138) ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان میں کوتاہی نہیں کی)۔ جسے ہدایت نصیب ہونی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے نظر صحیح اور قلب صادق عطا فرما دیتا ہے جس سے اس کے لئے ہدایت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ صراط مستقیم سے مراد یہی ہدایت کا راستہ ہے جس میں کوئی کجی نہیں، اسے اختیار کرکے انسان اپنی منزل مقصود جنت تک پہنچ جاتا ہے۔ النور
47 1- یہ منافقین کا بیان ہے جو زبان سے اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن دلوں میں کفر وعناد تھا یعنی اعتقاد صحیح سے محروم تھے۔ اس لئے زبان سے اظہار ایمان کے باوجود ان کے ایمان کی نفی کی گئی۔ النور
48 النور
49 1- کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عدالت نبوی (ﷺ) سے جو فیصلہ صادر ہوگا، اس میں کسی کی رو رعایت نہیں ہوگی، اس لئے وہاں اپنا مقدمہ لے جانے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ ہاں اگر وہ جانتے ہیں کہ مقدمے میں وہ حق پر ہیں اور ان ہی کے حق میں فیصلہ ہونے کا غالب امکان ہے، تو پھر خوشی خوشی وہاں آتے ہیں إِذْعَانٌ کے معنی ہوتے ہیں، اقرار اور انقیاد واطاعت کے۔ النور
50 1- جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض وگریز کی وجہ بیان کی جارہی ہےکہ یا تو ان کے دلوں میں کفر ونفاق کا روگ ہے یا انہیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ جب قضا وفیصلے کے لئے ایسے حاکم وقاضی کی طرف بلایا جائے جو عادل اور قرآن وسنت کا عالم ہو، تو اس کے پاس جانا ضروری ہے۔ البتہ اگر وہ قاضی کتاب وسنت کے علم اور ان کے دلائل سے بےبہرہ ہو تو اس کے پاس فیصلے کے لئے جانا ضروری نہیں۔ النور
51 1- یہ اہل کفر ونفاق کے مقابلے میں اہل ایمان کے کردار وعمل کا بیان ہے۔ النور
52 1- یعنی فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور ان ہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقویٰ سے متصف ہیں، نہ کہ دوسرے لوگ، جو ان صفات سے محروم ہیں۔ النور
53 1- جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ، میں جَهْدٌ فعل محذوف کا مصدر ہے جو بطور تاکید کے ہے، يَجْهَدُونَ أَيْمَانَهُمْ جَهْدًا یا یہ حال کی وجہ سے منصوب ہے یعنی مُجْتَهِدِينَ فِي أَيْمَانِهِمْ، مطلب یہ ہے کہ اپنی وسعت بھر قسمیں کھا کر کہتے ہیں (فتح القدیر)۔ 2- اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ طاعت معروفہ ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہوجاؤ۔ (ابن کثیر)۔ 3- یعنی وہ تمہارے سب کے حالات سے باخبر ہے۔ کون فرمانبردار ہے اور کون نافرمان؟ پس حلف اٹھا کر اطاعت کے اظہار کرنے سے، جب کہ تمہارے دل میں اس کے خلاف عزم ہو، تم اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، اس لئے کہ وہ پوشیدہ ہے، پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے اور وہ تمہارے سینوں میں پلنے والے رازوں سے بھی آگاہ ہے اگرچہ تم زبان سے اس کے خلاف اظہار کرو!۔ النور
54 1- یعنی تبلیغ ودعوت، جو وہ ادا کر رہا ہے۔ 2- یعنی اس کی دعوت کو قبول کرکے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔ 3- اس لئے کہ وہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔ 4- کوئی اس کی دعوت کو مانے یا نہ مانے جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ﴾ (الرعد: 40) ”اے پیغمبر ! تیرا کام صرف (ہمارے احکام) کو پہنچا دینا ہے (کوئی مانتا ہے یا نہیں) یہ حساب ہماری ذمہ داری ہے“۔ النور
55 1- بعض نے اس وعدۂ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان وعمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیرالقرون میں، اس وعدۂ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین پر غلبہ عطا فرمایا، اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو، امن سے بدل دیا۔ پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا۔ نبی کریم (ﷺ) نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں، وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلاً آپ (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آکر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحيح بخاری، كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام) نبی کریم (ﷺ) نے یہ بھی فرمایا تھا [ إِنَّ اللهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا ] (صحيح مسلم كتاب الفتن وأشراط الساعة- باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض) ”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے سکیڑ دیا، پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لئے زمین سکیڑ دی گئی“۔ حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس وشام اور مصروافریقہ اور دیگر دوردراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر وشرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن و استحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔ 2- یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق، اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ 3- اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر وفسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ النور
56 1- یہ گویا مسلمانوں کو تاکید کی گئی کہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے جس پر چل کر صحابہ کرام کو یہ رحمت اور مدد حاصل ہوئی۔ النور
57 1- یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔ النور
58 1- غلاموں سے مراد، باندیاں اور غلام دونوں ہیں ثَلاثَ مَرَّاتٍ کا مطلب اوقات، تین وقت ہیں، یہ تینوں اوقات ایسے ہیں کہ انسان گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ بہ کار خاص مصروف، یا ایسے لباس میں ہوسکتا ہے کہ جس میں کسی کا ان کو دیکھنا جائز اور مناسب نہیں۔ اس لئے ان اوقات ثلاثہ میں گھر کے ان خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ بغیر اجازت طلب کئے گھر کے اندر داخل ہوں۔ 2- عَوْرَاتٍ، عَوْرَةٌ کی جمع ہے، جس کے اصل معنی خلل اور نقص کے ہیں۔ پھر اس کا اطلاق ایسی چیز پر کیا جانے لگا جس کا ظاہر کرنا اوراس کو دیکھنا پسندیدہ نہ ہو۔ خاتون کو بھی اسی لئے عورت کہا جاتا ہے کہ اس کا ظاہر اور عریاں ہونا اور دیکھنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ یہاں مذکورہ تین اوقات میں عورات کہا گیا ہے یعنی یہ تمہارے پردے اور خلوت کے اوقات ہیں جن میں تم اپنے مخصوص لباس اور ہیئت کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔ 3- یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آجاسکتے ہیں۔ 4- یہ وہی وجہ ہے جو حدیث میں بلی کے پاک ہونے کی بیان کی گئی ہے۔ [ إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ؛ إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ ]، ”بلی ناپاک نہیں ہے اس لئے کہ وہ بکثرت تمہارے پاس (گھر کے اندر) آنے جانے والی ہے“۔ (أبو داود، كتاب الطہارة باب سؤر الهرة، ترمذی، كتاب وباب مذكور وغيره) خادم اور مالک، ان کو بھی آپس میں ہر وقت ایک دوسرے سے ملنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی ضرورت عامہ کے پیش نظر اللہ نے یہ اجازت مرحمت فرما دی، کیونکہ وہ علیم ہے، لوگوں کی ضروریات اور حاجات کو جانتا ہے اور حکیم ہے، اس کے ہر حکم میں بندوں کے مفادات اور حکمتیں ہیں۔ النور
59 1- ان بچوں سے مراد احرار بچے ہیں، بلوغت کے بعد ان کا حکم عام مردوں کا سا ہے، اس لئے ان کے لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی کے گھر آئیں تو پہلے اجازت طلب کریں۔ النور
60 1- ان سے مراد وہ بوڑھی اور ازکار رفتہ عورتیں ہیں جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو اور ولادت کے قابل نہ رہی ہوں۔ اس عمر میں بالعموم عورت کے اندر مرد کے لئے فطری طور پر جو جنسی کشش ہوتی ہے، وہ ختم ہوجاتی ہے، نہ وہ کسی مرد سے نکاح کی خواہش مند ہوتی ہیں، نہ مرد ہی ان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو پردے میں تخفیف کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کپڑے اتار دیں سے وہ کپڑا مراد ہے جو شلوار قمیص کے اوپر عورت پردے کے لئے بڑی چادر، یا برقعہ وغیرہ کی شکل میں لیتی ہے بشرطیکہ مقصد اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کا اظہار نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود اگر بناؤ سنگھار کے ذریعے سے اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو اس تخفیف پردہ کے حکم سے وہ مستثنیٰ ہوگی اور اس کے لئے مکمل پردہ کرنا ضروری ہوگا۔ 2- یعنی مذکورہ بوڑھی عورتیں بھی پردے میں تخفیف نہ کریں بلکہ بدستور بڑی چادر یا برقعہ بھی استعمال کرتی رہیں تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ النور
61 1- اس کا ایک مطلب تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جہاد میں جاتے ہوئے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ، آیت میں مذکور معذورین کو اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے اور انہیں گھر کی چیزیں بھی کھانے پینے کی اجازت دے دیتے۔ لیکن یہ معذور صحابہ (رضی الله عنہم) اس کے باوجود، مالکوں کی غیر موجودگی میں، وہاں سے کھانا پینا جائز نہ سمجھتے، اللہ نے فرمایا کہ مذکورہ افراد کے لئے اپنے اقارب کے گھروں سے یا جن گھروں کی چابیاں ان کے پاس ہیں، ان کے کھانے پینے میں کوئی حرج (گناہ) نہیں ہے۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ تندرست صحابہ (رضی الله عنہم) ، معذور صحابہ (رضی الله عنہم) کے ساتھ بیٹھ کر کھانا، اس لئے ناپسند کرتے کہ وہ معذوری کی وجہ سے کم کھائیں گے اور یہ زیادہ کھا جائیں گے، اس طرح ان کے ساتھ کھانے میں ظلم کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ اسی طرح خود معذور صحابہ (رضی الله عنہم) بھی، دیگر لوگوں کے ساتھ کھانا اس لئے پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ ان کے ساتھ کھانے میں کراہت محسوس نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لئے وضاحت فرما دی کہ اس میں کوئی گناہ والی بات نہیں ہے۔ 2- تاہم بعض علما نے صراحت کی ہے کہ اس سے وہ عام قسم کا کھانا مراد ہے جس کے کھا جانے سے کسی کو گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ایسی عمدہ چیزیں جو مالکوں نے خصوصی طور پر الگ چھپا کر رکھی ہوں تاکہ کسی کی نظر ان پر نہ پڑے، اسی طرح ذخیرہ شدہ چیزیں، ان کا کھانا اور ان کو ا پنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔ (ایسرالتفاسیر) اسی طرح یہاں بیٹوں کے گھر انسان کے اپنے ہی گھر ہیں، جس طرح حدیث میں آتا ہے [ أَنْتَ وَمَالُكَ لأَبِيكَ ] (ابن ماجہ نمبر 2291۔ مسند أحمد 2 / 179 ،204، 214) تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ دوسری حدیث ہے ولد الرجل من كسبه (ابن ماجہ نمبر 2137 ، أبو داود نمبر 3528، وصححه الألباني) آدمی کی اولاد، اس کی کمائی سے ہے۔ 3- اس میں ایک اور تنگی کا ازالہ فرما دیا گیا ہے۔ بعض لوگ اکیلے کھانا پسند نہیں کرتے تھے، اور کسی کو ساتھ بٹھا کر کھانا ضروری خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اکھٹے کھا لو یا الگ الگ، دونوں طرح جائز ہیں، گناہ کسی میں نہیں۔ البتہ اکٹھے ہو کر کھانا زیادہ باعث برکت ہے، جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر)۔ 4- اس میں اپنے گھروں میں داخل ہونے کا ادب بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام عرض کرو، آدمی کے لئے اپنی بیوی یا اپنے بچوں کو سلام کرنا بالعموم گراں گزرتا ہے۔ لیکن اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ایسا کریں۔ آخر اپنے بیوی بچوں کو سلامتی کی دعا سے کیوں محروم رکھا جائے۔ النور
62 1- یعنی جمعہ و عیدین کے اجتماعات میں یا داخلی وبیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ (ﷺ) سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔ النور
63 1- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو، رسول اللہ (ﷺ) کو اس طرح مت پکارو۔ مثلاً یا محمد (ﷺ) نہیں بلکہ یا رسول اللہ، یا نبی اللہ وغیرہ کہو۔ (یہ آپ کی زندگی کے لئے تھا جب کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو ضرورت پیش آتی تھی کہ آپ سے مخاطب ہوں) دوسرے معنی یہ ہیں کہ رسول کی بددعا کو دوسروں کی بد دعا کی طرح مت سمجھو، اس لئے کہ آپ کی دعا تو قبول ہوتی ہے۔ اس لئے نبی کی بددعا مت لو، تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ 2- یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔ 3- اس آفت سے مراد دلوں کی وہ کجی ہے جو انسان کو ایمان سے محروم کردیتی ہے۔ یہ نبی کریم (ﷺ) کے احکام سے سرتابی اور ان کی مخالفت کرنے کا نتیجہ ہے۔ اور ایمان سے محرومی اور کفر پر خاتمہ، جہنم کے دائمی عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ آیت کے اگلے جملے میں فرمایا۔ پس نبی کریم (ﷺ) کے منہاج، طریقے اور سنت کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیئے۔ اس لئے جو اقوال واعمال اس کےمطابق ہوں گے، وہی بارگاہ الٰہی میں مقبول اور دوسرے سب مردود ہوں گے۔ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے [ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ] (البخاری- كتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا على صلح جور- ومسلم، كتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور- والسنن) ”جس نے ایسا کام کیا، جو ہمارے طریقے پر نہیں ہے، وہ مردود ہے“۔ النور
64 1- خلق کے اعتبار سے بھی، ملک کے اعتبار سے بھی اور ماتحتی کے اعتبار سے بھی۔ وہ جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس چیز کا چاہے، حکم دے۔ پس اس کے رسول (ﷺ) کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول کے کسی حکم کی مخالفت نہ کی جائے اور جس سے اس نے منع کردیا ہے، اس کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اس لئے کہ رسول (ﷺ) کے بھیجنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ 2- یہ مخالفین رسول (ﷺ) کو تنیبہ ہے کہ جو کچھ حرکات تم کر رہے ہو، یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ سے مخفی رہ سکتی ہیں۔ اس کے علم میں سب کچھ ہے اور وہ اس کے مطابق قیامت والے دن جزا وسزا دے گا۔ النور
0 الفرقان
1 1- فرقان کے معنی ہیں حق وباطل، توحید وشرک اور عدل وظلم کے درمیان فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔ 2- اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم (ﷺ) کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی ورہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ (الأعراف - 158) اور حدیث میں بھی فرمایا [بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِم] (صحيح مسلم، كتاب المساجد) [ كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً ] (صحيح بخاری، كتاب التيمم ومسلم كتاب المساجد) ”مجھے احمر واسود سب کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف معبوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں“۔ رسالت ونبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔ الفرقان
2 1- یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں متصرف صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔ 2- اس میں نصاریٰ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ 3- اس میں صنم پرست مشرکین اور ثنویت (دو خداؤں شر اور خیر، ظلمت اور نور کے خالق) کے قائلین کا رد ہے۔ 4- ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت ومشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جواس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کردی ہے۔ الفرقان
3 1- لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا ہے جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کرسکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں۔ اس کے بعد منکرین ثبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔ الفرقان
4 1- مشرکین کہتے تھے کہ محمد (ﷺ) نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض موالی (مثلاً ابوفکیہہ یسار، عداس اور جبروغیرہم) سے مدد لی ہے۔ جیسا کہ سورۃ النحل، آیت 103 میں اس کی ضروری تفصیل گزرچکی ہے۔ یہاں قرآن نے اس الزام کو ظلم اور جھوٹ سے تعبیر کیا ہے، بھلا ایک امی شخص دوسروں کی مدد سے ایسی کتاب پیش کر سکتا ہے جو فصاحت وبلاغت اور اعجاز کلام میں بےمثال ہو، حقائق ومعارف بیانی میں بھی معجزنگار ہو، انسانی زندگی کے لئے احکام وقوانین کی تفصیلات میں بھی لاجواب ہو اور اخبار ماضیہ اور مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی نشاندہی اور وضاحت میں بھی اس کی صداقت مسلم ہو۔ الفرقان
5 الفرقان
6 1- یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے؟ یقیناً نہیں ہے۔ بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان وزمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ 2- اس لئے وہ عفو ودرگزر سے کام لیتا ہے۔ ورنہ ان کا قرآن سازی بڑا سخت ہے جس پر وہ فوری طور پرعذاب الٰہی کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ الفرقان
7 1- قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اور یہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیوں کہ ان کے خیال میں بشریت، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا اور بازاروں میں آتا جاتا ہے۔ اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے۔ حالانکہ رسول کو تو بشر نہیں ہونا چاہیئے۔ 2- مذکورہ اعتراض سے نیچے اتر کر کہا جا رہا ہے کہ چلو کچھ اور نہیں تو ایک فرشتہ ہی اس کے ساتھ ہو جو اس کا معاون اور مصدق ہو۔ الفرقان
8 1- تاکہ طلب رزق سے وہ بے نیاز ہوتا۔ 2- تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہوجاتی۔ 3- یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ اور مختل ہے۔ الفرقان
9 1- یعنی اے پیغمبر ! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحور ومجنون اور کبھی کذاب وشاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل وفہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کرکے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں، انہیں راہ راست کس طرح نصیب ہوسکتی ہے؟ الفرقان
10 1- یعنی یہ آپ کے لئے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لئے ان کا کردینا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کرسکتا ہے جو ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب وعناد کے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لئے۔ الفرقان
11 1- قیامت کا یہ جھٹلانا ہی تکذیب رسالت کا بھی باعث ہے۔ الفرقان
12 1- یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ﴾ (سورة الملك - 7،8) (جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے) اچھلتی ہوگی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑےگی)۔ جہنم کا دیکھنا اور چلانا، ایک حقیقت ہے، استعارہ نہیں۔ اللہ کے لئے اس کے اندر احساس و ادراک کی قوت پیدا کردینا، مشکل نہیں ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ آخر قوت گویائی بھی تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرمائے گا اور وہ ﴿هَلْ مِنْ مَزِيدٍ﴾ کی صدا بلند کرے گی (سورۂ ق: 30) الفرقان
13 الفرقان
14 1- یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آکر آرزو کریں گے کہ کاش انہیں موت آجائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں، تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع واقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے! الفرقان
15 1- (یہ) اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جوکفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ واطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ واطاعت کا راستہ اختیار کرلیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔ الفرقان
16 1- یعنی ایسا وعدہ، جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا، جیسے قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے اپنے ذمے یہ وعدہ واجب کرلیا ہے جس کا اہل ایمان اس سے مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہ محض اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کے لئے اس حسن جزا کو اپنے واسطے ضروری قرار دے لیا ہے۔ الفرقان
17 1- دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح علیہما السلام اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعور وادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا۔ اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ! تم نے میرے بندوں کو ا پنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کرکے گمراہ ہوئے تھے؟ الفرقان
18 1- یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کارساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کے بجائے ہمیں اپنا ولی اور کارسازسمجھو۔ 2- یہ شرک کی علت ہے کہ دنیا کے مال واسباب کی فراوانی نے انہیں تیری یاد سے غافل کردیا اور ہلاکت وتباہی ان کا مقدر بن گئی۔ الفرقان
19 1- یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے براءت کا اعلان کردیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کرسکو؟ 2- ظلم سے مراد وہی شرک ہے، جیسا کہ سیاق سے بھی واضح ہے اور قرآن میں دوسرے مقام پر شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمان: 13)۔ الفرقان
20 1- یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔ 2- یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب وتجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ 3- یعنی ہم نے ا ن انبیا کی اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھا، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے۔ اسی لئے آگے فرمایا (کیا تم صبر کرو گے)؟ 4- یعنی وہ جانتا ہے کہ وحی ورسالت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں؟ ﴿اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾ (الأنعام: 124) حدیث میں بھی آتا ہے رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ بادشاہ نبی بنوں یا بندہ رسول؟ میں نے بندہ رسول بننا پسند کیا (ابن کثیر)۔ الفرقان
21 1- یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کے بجائے ، کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔ 2- یعنی رب آکر ہمیں کہتا کہ محمد (ﷺ) میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمارے لیے ضروری ہے۔ 3- اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے۔ اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرمالے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیوں کر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟ الفرقان
22 1- اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی، اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اورکہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سےنکل، جسم سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے، جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ سورۃ الانفال: 50 سورۃ الانعام:93 میں ہے۔ اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار (جان کنی کے وقت) یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کو نوید جاں فزا سناتے ہیں۔ جیسا کہ سورۂ حم السجدۃ: 30۔ 32 میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ (فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں، اے پاک روح، جو پاک جسم میں تھی، نکل! اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے)۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مسند احمد2 / 364۔ 365 ابن ماجہ، كتاب الزهد، باب ذكر الموت) بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں۔ اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ مومنوں کو رحمت و رضوان الٰہی کی خوش خبری اور کافروں کو ہلاکت وخسران کی خبر دیتے ہیں۔ 2- حِجْرٌ کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کی بے وقوفی یا صغر سنی کی وجہ سے اس کے اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دےتو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِي عَلَى فُلانٍ کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے (حطیم) کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے۔ طواف کرتے وقت، اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سےممتاز کردیاگیا ہے۔ اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے، اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسانوں کے لائق نہیں ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوش خبری متقین کو دی جاتی ہے۔ یعنی یہ حَرَامًا مُحَرَّمًا عَلَيْكُمْ کے معنی میں ہے۔ آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پرحرام ہیں، اس کے مستحق صرف اہل ایمان و تقویٰ ہوں گے۔ الفرقان
23 1- هَبَاءً ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کےاندر داخل ہونےوالی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انہیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے۔ کیوں کہ وہ ایمان واخلاص سے بھی خالی ہوں گے اور موافقت شریعت سے بھی عاری۔ جب کہ عنداللہ قبولیت کےلیے دونوں شرطیں ضروری ہیں۔ ایمان و اخلاص بھی اور شریعت اسلامیہ کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بے حیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر چکی ہیں ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ: 264، سورۃ ابراہیم: 18 اور سورۃ النور:29۔ الفرقان
24 1- بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہےکہ اہل ایمان کے لیے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اوران کا حساب اتنا آسان ہوگا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہوجائیں گے اورجنت میں یہ اپنے اہل خاندان اور حورعین کےساتھ دوپہر کو استراحت فرما ہوں گے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے یہ دن اتنا ہلکا ہوگا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرلینا۔ (مسند احمد 4 / 75) الفرقان
25 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور بادل سایہ فگن ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کےجلو میں، میدان محشرمیں ، جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی، حساب کتاب کے لیے جلوہ فرما ہوگا، جیسا کہ سورۂ بقرۃ آیت، 210 سے بھی واضح ہے۔ الفرقان
26 الفرقان
27 الفرقان
28 1- اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیے،اس لیے کہ صحبت صالح سے انسان اچھا اور صحبت طالح سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کاانتخاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اسی لیے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اوربری صحبت سےاجتناب کو ایک بہترین مثال سے واضح کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مسلم، كتاب البر والصلة، باب استحباب مجالسة الصالحين ...)۔ الفرقان
29 الفرقان
30 1- مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور وفکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کےخلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔ الفرقان
31 1- یعنی جس طرح اے محمد! (ﷺ) تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہ گار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے سورۃ الانعام آیت 112 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ 2- یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے، اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔ الفرقان
32 1- جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔ 2- اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو 23 سال میں تھوڑ تھوڑا کرکے اتارا تاکہ اے پیغمبر ! تیرا اور اہل ایمان کال مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہوجائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَـزَّلْنَاهُ تَنْـزِيلا﴾ (سورة بنی إسرائيل: 106) ”اور قرآن، اس کو ہم نےجدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا“ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے۔ بارش جب بھی نازل ہوتی ہے،مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتاً فوقتاً نازل ہو، نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔ الفرقان
33 1- یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت وعلت بیان کی جارہی ہے کہ یہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کردیں گے اور یوں انہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ الفرقان
34 الفرقان
35 الفرقان
36 الفرقان
37 الفرقان
38 1- رَسٌّ کے معنی کنویں کے ہیں أَصْحَابُ الرَّسِّ، کنویں والے۔ اس کی تعیین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا ہے کہ اس سےمراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورۃ البروج میں ہے (ابن کثیر)۔ 2- قَرْنٌ کے صحیح معنی ہیں، ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہوجائیں تو دوسری نسل دوسرا قرن کہلائے گی۔ (ابن کثیر)، اس معنی میں ہر نبی کی امت بھی ایک قرن ہوسکتی ہے۔ الفرقان
39 1- یعنی دلائل کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی۔ 2- یعنی اتمام حجت کے بعد۔ الفرقان
40 1- بستی سے، قوم لوط کی بستیاں سدوم اور عمورہ وغیرہما مراد ہیں اوربری بارش سے پتھروں کی بارش مراد ہے۔ ان بستیوں کوالٹ دیا گیا تھا اور اس کےبعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی تھی جیسا کہ سورۂ ہود۔ 82 میں بیان کیاگیا ہے۔ یہ بستیاں شام وفلسطین کے راستے میں پڑتی ہیں، جن سے گزر کر ہی اہل مکہ آتے جاتے تھے۔ 2- اس لیےان تباہ شدہ بستیوں اوران کے کھنڈرات دیکھنے کے باوجود عبرت نہیں پکڑتے۔ اورآیات الٰہی اور اللہ کے رسول کی تکذیب سے باز نہیں آتے۔ الفرقان
41 1- دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا ﴿أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ﴾ (الأنبياء:36) ”کیا یہی وہ شحص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟“ یعنیٰ ان کی بابت کہتا ہے کہ وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کااظہار ہی مشرکین کے نزدیک ان کےمعبودوں کی توہین تھی، جیسے آج بھی قبر پرستوں کو کہاجائے کہ قبروں میں مدفون بزرگ کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ الفرقان
42 1- یعنی ہم ہی اپنے آباو اجداد کی تقلید اور روایتی مذہب سے وابستگی کی وجہ سے غیراللہ کی عبادت سے باز نہیں آئے ورنہ اس پیغمبر (ﷺ) نے تو ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا یہ قول نقل فرمایا کہ کس طرح وہ شرک پر جمے ہوئے ہیں کہ اس پر فخر کر رہے ہیں۔ 2- یعنی اس دنیا میں تو ان مشرکین اور غیراللہ کے پجاریوں کو اہل توحید گمراہ نظر آتے ہیں لیکن یہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور وہاں انہیں شرک کی وجہ سے عذاب الٰہی سے دوچار ہونا پڑے گا تو پتہ لگے گا کہ گمراہ کون تھا؟ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے یا دردرپر اپنی جبینیں جھکانے والے؟ الفرقان
43 1- یعنی جو چیز اس کے نفس کواچھی لگی، اسی کو اپنا دین و مذہب بنالیا، کیا ایسے شخص کو تو راہ یاب کرسکتا ہے یا اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے گا؟ اس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا، پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے، پس اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اورجسے چاہتا ہے راہ یاب۔ پس تو ان پر حسرت و افسوس نہ کر) (فاطر۔ 8) حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں آدمی ایک عرصےتک سفید پتھر کی عبادت کرتا رہتا، جب اسے اس سے اچھا پتھر نظر آجاتا تو وہ پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرے پتھر کی پوجا شروع کردیتا (ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ ایسے اشخاص، جو عقل وفہم سے اس طرح عاری اورمحض خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں۔ اے پیغمبر کیا تو ان کو ہدایت کے راستے پر لگا سکتا ہے؟ یعنی نہیں لگا سکتا۔ الفرقان
44 1- یعنی یہ چوپائے جس مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، اسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسان، جسے صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا تھا، وہ رسولوں کی یاد دہانی کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتا اور دردر پر اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ یقیناً چوپائے سے بھی زیادہ بد تر اور گمراہ ہے۔ الفرقان
45 1- یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹنا اور سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ 2- یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا ،سورج کی دھوپ سائے کوختم ہی نہ کرتی۔ 3- یعنی دھوپ سے ہی سائے کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔ الفرقان
46 1- یعنی وہ سایہ آہستہ آہستہ ہم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اس کی جگہ رات کا گمبھیر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ الفرقان
47 1- یعنی لباس، جس طرح لباس انسانی دھانچے کو چھپالیتا ہے، اسی طرح رات تمہیں اپنی تاریکی میں چھپالیتی ہے۔ 2- سبات کے معنی کاٹنےکے ہوتے ہیں۔ نیند انسان کے جسم کو عمل سے کاٹ دیتی ہے، جس سےاس کو راحت میسر آتی ہے۔ بعض کےنزدیک سبات کے معنی تمدد پھیلنے کے ہیں۔ نیند میں بھی انسان دراز ہو جاتا ہے، اس لیے اسے سبات کہا (ایسرالتفاسیرو فتح القدیر)۔ 3- یعنی نیند، جو موت کی بہن ہے، دن کو انسان اس نیند سے بیدار ہو کر کاروبار اور تجارت کے لیے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) صبح بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ [ الْحَمْدِ للهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا وَإِلَيهِ النُّشُورُ ] (رواه البخاری- مشكاة، كتاب الدعوات) ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اکٹھے ہونا ہے“۔ الفرقان
48 1- طہورٌ (بِفَتْحِ الطَّاءِ) فعول کے وزن پر آلے کے معنی میں ہے یعنی ایسی چیز جس سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ جیسے وضو کے پانی کو وضو اورایندھن کو وقود کہا جاتا ہے، اس معنی میں پانی طاہر (خود بھی پاک) اور مطہر (دوسروں کو پاک کرنے والا) بھی ہے۔ حدیث میں بھی ہے [إِنَّ الْمَاءَ طہورٌ لا يُنَجِّسُه شَيْءٌ ] (أبو داود والترمذی ـ نمبر 66 النسائي و ابن ماجہ وصححه الألباني في السنن) ”پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ ہاں اگر اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ بدل جائے تو ایسا پانی ناپاک ہے۔ كَمَا فِي الحَدِيثِ۔ الفرقان
49 الفرقان
50 1- یعنی قرآن کریم کو۔ اور بعض نے صَرَّفْنَاهُ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں، کبھی دوسرے علاقے میں۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے، دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے، پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت ومشیت ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے، کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں اور کبھی کسی اور علاقے میں۔ 2- اور ایک کفر اور ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔ الفرقان
51 1- لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور صرف آپ کو ہی تمام بستیوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ الفرقان
52 1- جَاهِدْهُمْ بِهِ میں ”ھا“ کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں، یہ آیت مکی ہے، ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا۔ اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامر ونواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر وتوبیخ اور وعیدیں ہیں، وہ واضح کریں۔ الفرقان
53 1- آب شیریں کو فُرَاتٌ کہتے ہیں، فرات کے معنی ہیں کاٹ دینا، توڑ دینا، میٹھا پانی پیاس کو کاٹ دیتا ہے یعنی ختم کردیتا ہے۔ أُجَاجٌ سخت کھاری یا کڑوا۔ 2- جوایک دوسرے سےملنے نہیں دیتی۔ بعض نے حِجْرًا مَحْجُورًا کےمعنی کیے ہیں حَرَامًا مُحَرَّمًا ، ان پر حرام کردیاگیا ہےکہ میٹھا پانی کھاری یا کھاری پانی میٹھا ہوجائے۔ اوربعض مفسرین نے مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ کا ترجمہ کیا ہے، خَلَقَ الْمَاءَيْنِ، دوپانی پیدا کیے، ایک میٹھا اور دوسرا کھاری۔ میٹھا پانی تو وہ ہے جو نہروں،چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جس کو انسان اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے اور کھاری پانی وہ ہے جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سمندروں میں ہے، جو کہتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ ہیں اورایک چوتھائی حصہ خشکی کا ہے جس میں انسانوں اور حیوانوں کا بسیرا ہے۔ یہ سمندر ساکن ہیں۔ البتہ ان میں مدوجزر ہوتا رہتا اور موجوں کا تلاطم جاری رہتا ہے۔ سمندری پانی کے کھاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے۔ میٹھا پانی زیادہ دیر تک کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے، اس کے ذائقے، رنگ یا بو میں تبدیلی آجاتی ہے۔ کھاری پانی خراب نہیں ہوتا، نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ رنگ اور بو۔ اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا، تو اس میں بدبو پیدا ہوجاتی، جس سے انسانوں اورحیوانوں کا مین میں رہنا مشکل ہو جاتا۔ اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد۔ اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ سمندر موجود ہیں اور ان میں ہزاروں جانور مرتے ہیں اور انہی میں گل سڑجاتے ہیں۔ لیکن اللہ نے ان میں ملاحت (نمکیات) کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی۔ ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور ان کا پانی بھی پاک ہے حتیٰ کہ ان کا مردار بھی حلال ہے۔ کما فی الحدیث۔ (موطأ إمام مالك، ابن ماجہ، أبو داود ، الترمذی ، كتاب الطہارة ، النسائي ، كتاب المياه) تفسير ابن كثير۔ الفرقان
54 1- نسب سےمراد وہ رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اورصھر سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتے داریوں کی تفصیل آیت ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ﴾ (النساء۔ 23) اور ﴿وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ﴾ (النساء ۔ 23) میں بیان کردی گئی ہے۔ اور رضاعی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا [ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاِع مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ ] (البخاری ـ نمبر 2645 - ومسلم، نمبر 1070)۔ الفرقان
55 الفرقان
56 الفرقان
57 1- یعنی یہی میرا اجر ہے کہ رب کا راستہ اختیار کر لو۔ الفرقان
58 الفرقان
59 الفرقان
60 1- رَحْمَن، رَحِيمٌ اللہ کی صفات اور اسمائے حسنٰی میں سے ہیں لیکن اہل جاہلت، اللہ کو ان ناموں سے نہیں پہچانتے تھے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب نبی (ﷺ) نےمعاہدے کے آغاز پر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھوایا، تو مشرکین مکہ نے کہا، ہم رحمٰن ورحیم کو نہیں جانتے۔ بِاسْمكَ اللَّهُمَّ! لکھو۔ (سیرت ابن ہشام: 2 / 317) مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل:110۔ الرعد:30۔ یہاں بھی ان کا رحمٰن کے نام سے بدکنے اور سجدہ کرنے سے گریز کرنے کا ذکر ہے۔ الفرقان
61 1- بُرُوجٌ بُرْجٌ کی جمع ہے، سلف کی تفسیر میں بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے لیے گئے ہیں۔ اور اسی مراد پر کلام کا نظم واضح ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور سورج اور چاند بنائے۔ بعد کے مفسرین نےاس سے اہل نجوم کے مصطلحہ بروج مراد لے لیے۔ اور یہ بارہ برج ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت۔ اور یہ برج سات بڑے سیاروں کی منزلیں ہیں۔ جن کے نام ہیں۔ مریخ، زہرہ، عطارد، قمر، شمس، مشتری اورزحل۔ یہ کواکب (سیارے) ان برجوں میں اس طرح اترتے ہیں، جیسے یہ ان کے لیے عالی شان محل ہیں (ایسرالتفاسیر)۔ الفرقان
62 1- یعنی رات جاتی ہے تو دن آجاتا ہے اور دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے۔ دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوتے، اس کے فوائد ومصالح محتاج وضاحت نہیں۔ بعض نے خِلْفَةً کے معنی ایک دوسرے کے مخالف کے کیے ہیں۔ یعنی رات تاریک ہے تو دن روشن۔ الفرقان
63 1- سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترک بحث ومجادلہ ہے۔ یعنی اہل ایمان، اہل جہالت و اہل سفاہت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقعوں پر اعراض وگریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے۔ الفرقان
64 الفرقان
65 1- اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کےبندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آجائیں، اس لیے وہ عذاب جہنم سے بھی پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کےباوجود اللہ کےعذاب اور اس کےمواخذے سے انسان کو بے خوف اور اپنی عبادات و طاعات الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾ (المؤمنون: 60) ”اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں۔ اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں“ ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انہیں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونا ہے، بلکہ اس کے ساتھ، اس کا بھی کہ ان کا صدقہ وخیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا، نہیں، اے ابوبکر کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نامقبول نہ ہوجائیں۔ (الترمذی، كتاب التفسير، سورة المؤمنون الفرقان
66 الفرقان
67 1- اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ نہ کرنا بخیلی اور اللہ کے احکام واطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات میں حد اعتدال سے تجاوز بھی اسراف میں آسکتا ہے، اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔ الفرقان
68 1- اور حق کے ساتھ قتل کرنے کی تین صورتیں ہیں، اسلام کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے، جسے ارتداد کہتے ہیں، یا شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے یا کسی کو قتل کردے۔ ان صورتوں میں قتل کیا جائے گا۔ 2- حدیث میں ہے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا گیا ، کون سا گناہ سب سےبڑا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا، یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراے دراں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے کہا، اس کےبعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا، اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، اس نے پوچھا، پھر کون سا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا، یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ان باتوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (البخاری، تفسير سورة البقرة ، مسلم ، كتاب الإيمان ، باب كون الشرك أقبح الذنوب الفرقان
69 الفرقان
70 1- اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو۔ اور سورۂ نساء کی آیت 93 میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے، تو وہ اس صورت پر محمول ہوگی، جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو اور بغیر توبہ کیے ہی فوت ہوگیا ہو۔ ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمی کے قاتل نےبھی خالص توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔ (صحيح مسلم، كتاب التوبة 2- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حال تبدیل فرمادیتا ہے، اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ برائیاں کرتا تھا، اب نیکیاں کرتا ہے، پہلے شرک کرتا تھا، اب صرف الہٰ واحد کی عبادت کرتا ہے، پہلےکافروں کےساتھ مل کرمسلمانوں سے لڑتا تھا، اب مسلمانوں کی طرف سے کافروں سے لڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ دوسرے معنی ہیں کہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ”میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہوگا۔ یہ وہ آدمی ہوگا کہ قیامت کےدن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے، بڑے گناہ ایک طرف رکھ دیئے جائیں گے۔ اس کو کہا جائے گا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دے گا، انکار کی اسے طاقت نہ ہوگی، علاوہ ازیں اس بات سے بھی ڈر رہا ہوگا کہ ابھی تو بڑے گناہ بھی پیش کیے جائیں گے۔ کہ اتنے میں اس سے کہا جائے گا کہ جا، تیرے لیے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی یہ مہربانی دیکھ کر وہ کہے گا، کہ ابھی تو میرے بہت سےاعمال ایسے ہیں کہ میں انہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کرکے رسول اللہ (ﷺ) ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ (ﷺ) کے دانت ظاہر ہوگئے“ (صحيح مسلم كتاب الإيمان ، باب أدنى أهل الجنة منزلة فيها الفرقان
71 1- پہلی توبہ کا تعلق کفر وشرک سے ہے۔ اس توبہ کا تعلق دیگر معاصی اور کوتاہیوں سے ہے۔ الفرقان
72 1- زور کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لیے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر وشرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً لہو ولعب، گانا اور دیگر بیہودہ جاہلانہ رسوم وافعال، سب اس میں شامل ہیں اورعبادالرحمٰن کی یہ صفت بھی ہےکہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹ کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے۔ 2- لَغْوٌ ہر وہ بات اور کام ہے ، جس میں شرعًا کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی وہ شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت ووقار سے گزر جاتے ہیں۔ الفرقان
73 1- یعنی وہ ان سے اعراض وغفلت نہیں برتتے، جیسے وہ بہرے ہوں کہ سنیں ہی نہیں یا اندھے ہوں کہ دیکھیں ہی نہیں۔ بلکہ وہ غور اور توجہ سے سنتے اور انہیں آویزہ گوش اور حرزجان بناتے ہیں۔ الفرقان
74 1- یعنی انہیں اپنا بھی فرماں بردار بنا اور ہمارا بھی اطاعت گزار، جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ 2- یعنی ایسا اچھا نمونہ کہ خیرمیں وہ ہماری اقتدا کریں۔ٍ الفرقان
75 الفرقان
76 الفرقان
77 1- دعا والتجا کا مطلب، اللہ کو پکارنا اور اس کی عبادت کرنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد تخلیق اللہ کی عبادت ہے، اگر یہ نہ ہو تو اللہ کو تمہاری کوئی پروا نہ ہو۔ یعنی اللہ کے ہاں انسان کی قدر وقیمت، اس کے اللہ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے۔ 2- اس میں کافروں سے خطاب ہےکہ تم نے اللہ کو جھٹلادیا ہے، سو اب اس کی سزا بھی لازماً تمہیں چکھنی ہے۔ چنانچہ دنیا میں یہ سزا بدر میں شکست کی صورت میں انہیں ملی اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انہیں دوچار ہونا پڑے گا۔ الفرقان
0 الشعراء
1 الشعراء
2 الشعراء
3 1- نبی (ﷺ) کو انسانیت سے جو ہمدردی اور ان کی ہدایت کے لیے جو تڑپ تھی ، اس میں اس کا اظہار ہے۔ الشعراء
4 1- یعنی جسے مانے اور جس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح جبر کا پہلو شامل ہو جاتا، جب کہ ہم نے انسان کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اس لیے ہم نے ایسی نشانی بھی اتارنے سے گریز کیا، جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو۔ اور صرف انبیا ورسل بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ الشعراء
5 الشعراء
6 1- یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا، جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزا ومذاق کرتے ہیں۔ یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے، جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں، بصورت دیگرآخرت میں تو اس سےکسی صورت چھٹکارا نہیں ہوگا۔ ﴿مَا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَ﴾ نہیں کہا بلکہ ﴿مَا كَانُوا بِه يَسْتَهْزِءُونَ﴾ کہا۔ کیوں کہ استہزا ایک تو اعراض وتکذیب کو بھی مستلزم ہے۔ دوسرے، یہ اعراض وتکذیب سے زیادہ بڑاجرم ہے (فتح القدیر) الشعراء
7 1- زَوْجٌ کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کیے گئے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کےلیے بہتر اور فائدے مند ہیں جس طرح غلہ جات ہیں، پھل میوے ہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔ الشعراء
8 1- یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کرسکتا ہے، تو کیا وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔ 2- یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔ الشعراء
9 1- یعنی ہر چیز پر اس کا غلبہ اور انتقام لینے پر وہ ہر طرح قادر ہے لیکن چوں کہ وہ رحیم بھی ہے اس لیے فوراً گرفت نہیں فرماتا بلکہ پوری مہلت دیتا ہے اور اس کے بعد مواخذ ہ کرتا ہے۔ الشعراء
10 1- یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آرہے تھے، راستے میں انہیں حرارت حاصل کرنے کے لیے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں ندائے غیبی نے ان کااستقبال کیا اورانہیں نبوت سے سرفراز کردیا گیا اور ظالموں کواللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ ان کو سونپ دیا گیا۔ الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 1- اس خوف سے کہ وہ نہایت سرکش ہے، میری تکذیب کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ طبعی خوف انبیا کو بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ 2- یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) زیادہ فصیح اللسان نہیں تھے۔ یا اس طرف کہ زبان پر انگارہ رکھنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہوگئی تھی، جسے اہل تفسیر بیان کرتےہیں۔ 3- یعنی ان کی طرف جبرائیل (عليہ السلام) کو وحی دے کر بھیج اور انہیں بھی وحی ونبوت سے سرفراز فرما کر میرا معاون بنا۔ الشعراء
14 1- یہ اشارہ ہے اس قتل کی طرف، جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے غیر ارادی طور پر ہوگیا تھا اور مقتول قبطی یعنی فرعون کی قوم سے تھا، اس لیے فرعون اس کے بدلے میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس کی اطلاع پاکر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ اس واقعے پر اگرچہ کئی سال گزر چکے تھے، مگر فرعون کے پاس جانے میں واقعی یہ امکان موجود تھا کہ فرعون ان کو اس جرم میں پکڑ کر قتل کی سزا دینے کی کوشش کرے۔ اس لیے یہ خوف بھی بلا جواز نہیں تھا۔ الشعراء
15 1- اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام اس کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ آیات سے مراد وہ دلائل وبراہین ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو دیئے گئے تھے، جیسے ید بیضا اور عصا۔ 2- یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہوں گے۔ اس لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضۂ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بے پرواہ نہیں ہو جائیں گے۔ بلکہ ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے۔ معیت کا مطلب مصاحبت نہیں، بلکہ نصرت ومعاونت ہے۔ الشعراء
16 الشعراء
17 1- یعنی ایک بات یہ کہو کہ ہم تیرے پاس اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ رب العالمین کے نمائندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ تو نے (چار سو سال سے) بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے، ان کو آزاد کردے تاکہ میں انہیں شام کی سر زمین پر لے جاؤں، جس کا اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ الشعراء
18 1- فرعون نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کے بجائے ، ان کی تحقیر وتنقیص کرنی شروع کر دی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا ، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے؟ 2- بعض کہتے ہیں کہ 18 سال فرعون کے محل میں بسر کیے، بعض کے نزدیک 30 اور بعض کے نزدیک چالیس سال۔ یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزارنے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا ہے؟ الشعراء
19 1- پھر ہمارا ہی کھا کر ہماری ہی قوم کے ایک آدمی کو قتل کرکے ہماری ناشکری بھی کی۔ الشعراء
20 1- یعنی یہ قتل ارادتاً نہیں تھا بلکہ ایک گھونسہ ہی تھا جو اسے مارا گیا تھا، جس سے اس کی موت ہی واقع ہوگئی۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ بھی نبوت سے قبل کا ہے جب کہ مجھ کو علم کی یہ روشنی نہیں دی گئی تھی۔ الشعراء
21 1- یعنی پہلے جو کچھ ہوا، اپنی جگہ، لیکن اب میں اللہ کا رسول ہوں، اگر میری اطاعت کرے گا تو بچ جائے گا، بصورت دیگر ہلاکت تیرا مقدر ہوگی۔ الشعراء
22 1- یعنی یہ اچھا احسان ہے جو تو مجھے جتلا رہاہے کہ مجھے تو یقیناً تو نے غلام نہیں بنایا اور آزاد چھوڑے رکھا لیکن میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس ظلم عظیم کے مقابلے میں اس احسان کی آخر حیثیت کیا ہے؟ الشعراء
23 1- یہ اس نے بطور استفہام کے نہیں ، بلکہ استکبار اور استنکار کے طور پر کہا ، کیونکہ اس کا دعوی تو یہ تھا ﴿مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي﴾ (القصص۔ 38) ’’ میں اپنے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود جانتا ہی نہیں ‘‘۔ الشعراء
24 الشعراء
25 1- یعنی کیا تم اس بات پر تعجب نہیں کرتے کہ میرے سوا بھی کوئی اور معبود ہے؟ الشعراء
26 الشعراء
27 الشعراء
28 1- یعنی جس نے مشرق کو مشرق بنایا، جس سے کواکب طلوع ہوتے ہیں اور مغرب کو مغرب بنایا جس میں کواکب غروب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کے درمیان جو کچھ ہے، ان سب کا رب اور ان کا انتظام کرنے والا بھی وہی ہے۔ الشعراء
29 1- فرعون نے جب دیکھا کہ موسیٰ (عليہ السلام) مختلف انداز سے رب العالمین کی ربوبیت کاملہ کی وضاحت کر رہے ہیں، جس کا کوئی معقول جواب اس سےنہیں بن پارہا ہے۔ تو اس نے دلائل سے صرف نظر کرکے دھمکی دینی شروع کردی اور موسیٰ (عليہ السلام) کو حوالۂ زنداں کرنے سے ڈرایا۔ الشعراء
30 1- یعنی ایسی کوئی چیز یا معجزہ جس سے واضح ہو جائے کہ میں سچا اور واقعی اللہ کا رسول ہوں، تب بھی تو میری صداقت کو تسلیم نہیں کرے گا؟ الشعراء
31 الشعراء
32 1- بعض جگہ ثُعْبَانٌ کو حَيَّةٌ اور بعض جگہ جَانٌّ کہا گیاہے۔ ثُعْبَانٌ وہ سانپ ہوتا ہے جو بڑا ہو اور جَانٌّ چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں اور حَيَّةٌ چھوٹے بڑے دونوں قسم کے سانپوں پر بولا جاتا ہے۔ (فتح القدیر) گویا لاٹھی نے پہلے چھوٹے سانپ کی شکل اختیار کی پھر دیکھتے دیکھتے اژدھا بن گئی۔ وَاللهُ أَعْلَمُ۔ الشعراء
33 1- یعنی گریبان سے ہاتھ نکالا تو وہ چاند کےٹکڑے کی طرح چمکتا تھا۔ یہ دوسرا معجزہ موسیٰ (عليہ السلام) نے پیش کیا۔ الشعراء
34 1- فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی تصدیق کرتا اور ایمان لاتا، اس نے تکذیب وعناد کا راستہ اختیار کیا اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی بابت کہا کہ یہ تو کوئی بڑا فنکار جادوگر ہے۔ الشعراء
35 1- پھر اپنی قوم کو مزید بھڑکانے کے لیے کہاکہ وہ ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے سے تمہیں یہاں سے نکال کر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اب بتلاؤ ! تمہاری کیا رائے ہے؟ یعنی اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ الشعراء
36 الشعراء
37 1- یعنی ان دونوں کو فی الحال اپنے حال پر چھوڑ دو، اور تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کرکے ان کا باہمی مقابلہ کیا جائے تاکہ ان کے کرتب کا جواب اور تیری تائید ونصرت ہوجائے۔ اور یہ اللہ ہی کی طر ف سے تکوینی انتظام تھا تاکہ لوگ ایک ہی جگہ جمع ہوجائیں اور ان دلائل وبراہین کا بہ چشم سرخود مشاہدہ کریں، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو عطا فرمائے تھے۔ الشعراء
38 1- چنانچہ جادوگروں کی ایک بہت بڑی تعداد مصر کے اطراف وجوانب سے جمع کر لی گئی، ان کی تعداد 12 ہزار ، 17 ہزار ، 19 ہزار ،30 ہزار اور80 ہزار (مختلف اقوال کے مطابق) بتلائی جاتی ہے۔ اصل تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ کسی مستند ماخذ میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات اس سے قبل سورۂ اعراف، سورۂ طہ میں بھی گزر چکی ہیں۔ گویا فرعون کی قوم، قبط، نے اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سےبجھانا چاہا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ کفر وایمان کے معرکے میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کفر خم ٹھونک کر ایمان کےمقابلے میں آتا ہے، تو ایمان کو اللہ تعالیٰ سرخروئی اور غلبہ عطا فرماتا ہے۔ جس طرح فرمایا، ﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ (الأنبياء۔ 18) ”بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں، پس وہ اس کا سر توڑ دیتا ہےاور جھوٹ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے“۔ الشعراء
39 1- یعنی عوام کو بھی تاکید کی جارہی ہے کہ تمہیں بھی یہ معرکہ دیکھنے کے لیے ضرور حاضر ہونا ہے۔ الشعراء
40 الشعراء
41 الشعراء
42 الشعراء
43 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی طرف سےجادوگروں کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کےلیے کہنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان پر یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کا پیغمبر اتنی بڑی تعداد میں نامی گرامی جادوگروں کے اجتماع اور ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیوں سےخوف زدہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ جب بعد میں اللہ کے حکم سے یہ ساری شعبدہ بازیاں آن واحد میں ختم ہوجائیں گی تو دیکھنے والوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور شاید اس طرح زیادہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بلکہ جادوگر ہی سب سے پہلے ایمان لے آئے۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ الشعراء
44 1- جیسا کہ سورۂ اعراف اور طٰہ میں گزرا کہ ان جادوگروں نے اپنے خیال میں بہت بڑا جادو پیش کیا ﴿سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ﴾ (سورة الأعراف۔:116) حتیٰ کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے بھی اپنے دل میں خوف محسوس کیا، ﴿فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى﴾ (طہ۔ 67) چنانچہ ان جادوگروں کو اپنی کامیابی اور برتری کابڑا یقین تھا، جیسا کہ یہاں ان الفاظ سے ظاہر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو تسلی دی، کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ذرا اپنی لاٹھی زمین پر پھینکو اور پھر دیکھو۔ چنانچہ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ اس نے ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرلی اور ایک ایک کرکے ان کے سارے کرتبوں کو وہ نگل گیا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ الشعراء
45 الشعراء
46 الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 1- فرعون کے لیے یہ واقعہ بڑا عجیب اور نہایت حیرت ناک تھا کہ جن جادوگروں کے ذریعے سے وہ فتح و غلبے کی آس لگائے بیٹھا تھا، وہی نہ صرف مغلوب ہوگئے بلکہ موقع پر ہی وہ اس رب پر ایمان لے آئے، جس نے حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کو دلائل ومعجزات دے کر بھیجا تھا۔ لیکن بجائے اس کے کہ فرعون بھی غور وفکر سےکام لیتا اور ایمان لاتا، اس نے مکابرہ اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور جادوگروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا اورکہاکہ تم سب اسی کے شاگرد لگتے ہو اورتمہارا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے ذریعے سے تم ہمیں یہاں سے بے دخل کردو، ﴿إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا﴾ (الأعراف: 123) ۔ 2- الٹے طور پر ہاتھ پاؤں کاٹنے کا مطلب، دایاں ہاتھ اور بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر ہے۔ اس پر سولی مستزاد۔ یعنی ہاتھ پیر کاٹنے سے بھی اس کی آتش غضب ٹھنڈی نہ ہوئی، مزید اس نے سولی پر لٹکانے کا اعلان کیا۔ الشعراء
50 1- لا ضَيْرَ کوئی حرج نہیں یا ہمیں کوئی پروا نہیں۔ یعنی اب جو سزا چاہے دے لے، ایمان سے نہیں پھر سکتے۔ الشعراء
51 1- أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ اس اعتبار سے کہا کہ فرعون کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور انہوں نے قبول ایمان میں سبقت کی۔ الشعراء
52 1- جب بلاد مصر میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا قیام لمبا ہوگیا اور ہر طرح سےانہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کردی۔ لیکن اس کےباوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب ونکال سے دوچار کرکے سامان عبرت بنادیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (عليہ السلام) کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایاکہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔ الشعراء
53 الشعراء
54 1- یہ بطور تحقیرکے کہا، ورنہ ان کی تعداد چھ لاکھ بتلائی جاتی ہے۔ الشعراء
55 1- یعنی میری اجازت کے بغیران کا یہاں سے فرار ہونا ہمارے لیے غیظ وغضب کا باعث ہے۔ الشعراء
56 1- اس لیے ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔ الشعراء
57 الشعراء
58 1- یعنی فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں کیا نکلا، کہ پھرپلٹ کر اپنے گھروں اور باغات میں آنا نصیب ہی نہیں ہوا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومشیت سےانہیں تمام نعمتوں سے محروم کرکے ان کا وارث دوسروں کو بنادیا۔ الشعراء
59 1- یعنی جو اقتدار اوربادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نےبنی اسرائیل کو عطا کردی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیوی جاہ و جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطاکیا۔ کیوں کہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورۂ دخان میں فرمایا گیا ہے ﴿وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ﴾ کہ ”ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا“ (ایسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرين میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورۂ شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانےکی صراحت آگئی ہے، تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہوگی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونےکا حکم دیا گیا۔ اور ان کےانکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ موخر کرکے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا۔ پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چنانچہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی قبر، حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے۔ اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں، ویسی ہی نعمتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں۔ لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ الشعراء
60 1- یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ بنی اسرائیل راتوں رات یہاں سےنکل گئے ہیں، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ الشعراء
61 1- یعنی فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ گھبرا اٹھے کہ آگےسمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، اب بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟ اب پھر دوبارہ وہی فرعون اور اس کی غلامی ہوگی۔ الشعراء
62 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقیناً نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔ الشعراء
63 1- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ راہنمائی اور نشاندہی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، جس سے دائیں طرف کا پانی دائیں اور بائیں طرف کا بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ میں راستہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ راستے بن گئے تھے، واللہ اعلم۔ 2- فِرْقٍ : قطعہ بحرسمندر کا حصہ، طَوْدٌ ،پہاڑ یعنی پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کا صدور ہوا تاکہ موسیٰ (عليہ السلام) اور ان کی قوم فرعون سے نجات پالے، اس تائید الٰہی کے بغیر فرعون سے نجات ممکن نہیں تھی۔ الشعراء
64 1- اس سے مراد فرعون اور اس کا لشکر ہے یعنی ہم نے دوسروں کو سمندر کے قریب کردیا۔ الشعراء
65 الشعراء
66 1- موسیٰ (عليہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہم نے نجات دی اور فرعون اور اس کا لشکر جب انہی راستوں سے گزرنے لگا تو ہم نے سمندر کو دوبارہ حسب دستور رواں کردیا، جس سے فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا۔ الشعراء
67 1- یعنی اگرچہ اس واقعے میں، جو اللہ کی نصرت ومعونت کا واضح مظہر ہے، بڑی نشانی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ الشعراء
68 الشعراء
69 الشعراء
70 الشعراء
71 1- یعنی رات دن ان کی عبادت کرتے ہیں۔ الشعراء
72 الشعراء
73 1- یعنی اگر تم ان کی عبادت ترک کردو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں؟ الشعراء
74 1- جب وہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکتے تو یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل کرلیا۔ جیسے آج بھی لوگوں کو قرآن وحدیث کی بات بتلائی جائے تو یہی عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے خاندان میں تو ہمارے آباواجداد سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔ الشعراء
75 1- أَفَرَأَيْتُمْ؟ کے معنی ہیں فَهَلْ أَبْصَرْتُمْ وَتَفَكَّرْتُمْ؟ کیا تم نے غور وفکر کیا؟ الشعراء
76 1- اس لیے کہ تم سب اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنے والے ہو۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہےکہ جن کی تم اور تمہارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں، وہ سب معبود میرے دشمن ہیں یعنی میں ان سے بیزار ہوں۔ الشعراء
77 1- یعنی وہ دشمن نہیں، بلکہ وہ تو دنیا وآخرت میں میرا ولی اور دوست ہے۔ الشعراء
78 1- یعنی دین ودنیا کے مصالح اور منافع کی طرف۔ الشعراء
79 1- یعنی انواع واقسام کے رزق پیدا کرنے والا اور جو پانی ہم پیتے ہیں، اسے مہیا کرنے والا بھی وہی اللہ ہے۔ الشعراء
80 1- بیماری کو دور کرکے شفا عطا کرنے والا بھی وہی ہے۔ یعنی دواؤں میں شفا کی تاثیر بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ ورنہ دوائیں بھی بےاثر ثابت ہوتی ہیں۔ بیماری بھی اگرچہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ہی آتی ہے۔ لیکن اس کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی۔ بلکہ اپنی طرف کی۔ یہ گویا اللہ کے ذکر میں اس کے ادب واحترام کے پہلو کو ملحوظ رکھا۔ الشعراء
81 1- یعنی قیامت والے دن، جب وہ سارے لوگوں کو زندہ فرمائے گا، مجھے بھی زندہ کرے گا۔ الشعراء
82 1- یہاں امید، یقین کےمعنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہوگی۔ اسی لیے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لیے عَسَى کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔ خَطِيْئَتِي، خَطِيئَةٌ واحد کا صیغہ ہے لیکن خَطَايَا (جمع) کے معنی میں ہے۔ انبیا علیہم السلام اگرچہ معصوم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں۔ پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئےبارگاہ الٰہی میں عفو طلب ہوں گے۔ الشعراء
83 1- حکم یا حکمت سے مراد علم وفہم، قوت فیصلہ، یا نبوت ورسالت یا اللہ کے حدود واحکام کی معرفت ہے۔ الشعراء
84 1- یعنی جو لوگ میرے بعد قیامت تک آئیں گے، وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں، اس سےمعلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثنائے حسن کی صورت میں بھی عطا فرماتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا ذکر خیر ہرمذہب کے لوگ کرتے ہیں، کسی کو بھی ان کی عظمت و تکریم سےانکار نہیں ہے۔ الشعراء
85 الشعراء
86 1- یہ دعا اس وقت کی تھی، جب ان پر یہ واضح نہیں تھا کہ مشرک (اللہ کے دشمن) کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں ،جب اللہ نے یہ واضح کردیا، تو انہوں نے اپنے باپ سے بھی بیزاری کا اظہار کردیا۔ (التوبۃ: 114) الشعراء
87 1- یعنی تمام مخلوق کے سامنے میرا مواخذہ کرکے یا عذاب سے دوچار کرکے حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن جب حضرت ابراہیم (عليہ السلام) اپنے والد کو برے حال میں دیکھیں گے، تو ایک مرتبہ پھر اللہ کی بارگاہ میں ان کے لیے مغفرت کی درخواست کریں گے اورفرمائیں گے یا اللہ ! اس سے زیادہ میرے لیے رسوائی اور کیا ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر ان کے باپ کو نجاست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحيح بخاری، سورة الشعراء وكتاب الأنبياء ، باب قول الله ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾ الشعراء
88 الشعراء
89 1- قلب سلیم یا بے عیب دل سے مراد وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو۔ یعنی قلب مومن۔ اس لیے کہ کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں، بدعت سے خالی اور سنت پر مطمئن دل، بعض کے نزدیک، دنیا کے مال و متاع کی محبت سے پاک دل اور بعض کے نزدیک، جہالت کی تاریکیوں اور اخلاقی رذالتوں سے پاک دل۔ یہ سارے مفہوم بھی صحیح ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ قلب مومن مذکورہ تمام ہی برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔ الشعراء
90 الشعراء
91 1- مطلب یہ ہے کہ جنت اور دوزخ میں دخول سے پہلے ان کو سامنے کردیا جائے گا۔ جس سے کافروں کے غم میں اور اہل ایمان کے سرور میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ الشعراء
92 الشعراء
93 1- یعنی تم سے عذاب ٹال دیں یا خود اپنے نفس کو اس سے بچالیں۔ الشعراء
94 1- یعنی معبودین اور عابدین سب کو مال ڈنگر کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیا جائے گا۔ الشعراء
95 1- اس سے مراد وہ لشکر ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔ الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 1- دنیا میں تو ہر ترشا ہوا پتھر اور قبر پر بنا ہوا خوش نما قبہ، مشرکوں کو خدائی اختیارات کاحامل نظر آتا ہے۔ لیکن قیامت کو پتہ چلے گا کہ یہ تو کھلی گمراہی تھی کہ وہ انہیں رب کے برابر سمجھتے رہے۔ الشعراء
99 1- یعنی وہاں جاکر احساس ہوگا کہ ہمیں دوسرے مجرموں نے گمراہ کیا۔ دنیا میں انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام گمراہی ہے، بدعت ہے، شرک ہے تو نہیں مانتے، نہ غور وفکر سے کام لیتے ہیں کہ حق وباطل ان پر واضح ہوسکے۔ الشعراء
100 الشعراء
101 1- گناہ گار اہل ایمان کی سفارش تو اللہ کی اجازت کے بعد انبیا وصلحا بالخصوص حضرت نبی کریم (ﷺ) فرمائیں گے۔ لیکن کافروں اور مشرکوں کے لیے سفارش کرنے کی کسی کو اجازت ہوگی نہ حوصلہ، اور نہ وہاں کوئی دوستی ہی کام آئے گی۔ الشعراء
102 1- اہل کفروشرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرکے اللہ کو خوش کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہےکہ اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔ الشعراء
103 1- یعنی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا بتوں کے بارے میں اپنی قوم سے مناظرہ و محاجہ اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل، یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ 2- بعض نے اس کا مرجع مشرکین مکہ یعنی قریش کو قرار دیا ہے۔ یعنی ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں۔ الشعراء
104 الشعراء
105 1- قوم نوح (عليہ السلام) نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح (عليہ السلام) کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف اور اس کو مستلزم ہے۔ اس لیے فرمایا کہ قوم نوح (عليہ السلام) نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ الشعراء
106 1- بھائی اس لیے کہا کہ حضرت نوح (عليہ السلام) ان ہی کی قوم کے ایک فرد تھے۔ الشعراء
107 1- یعنی اللہ نے جو پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے، وہ بلاکم وکاست تم تک پہنچانے والا ہوں، اس میں کمی بیشی نہیں کرتا۔ الشعراء
108 1- یعنی میں تمہیں جو ایمان باللہ اور شرک نہ کرنے کی دعوت دے رہا ہوں، اس میں میری اطاعت کرو۔ الشعراء
109 1- میں تمہیں جو تبلیغ کر رہا ہوں ، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا، بلکہ اس کا اجر رب العالمین ہی کے ذمے ہے جو قیامت کو وہ عطا فرمائے گا۔ الشعراء
110 1- یہ تاکید کے طور پر بھی ہے اور الگ الگ سبب کی بنا پر بھی، پہلے اطاعت کی دعوت، امانت داری کی بنیاد پر تھی اور اب یہ دعوت اطاعت عدم طمع کی وجہ سے ہے۔ الشعراء
111 1- الأَرْذَلُونَ، أَرْذَلُ کی جمع ہے جاہ ومال نہ رکھنے والے، اور اس کی وجہ سےمعاشرے میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو حقیرسمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ الشعراء
112 1- یعنی مجھے اس بات کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا ہے کہ میں لوگوں کے حسب و نسب، امارت و غربت اور ان کے پیشوں کی تفتیش کروں بلکہ میری ذمہ داری صرف یہ ہےکہ ایمان کی دعوت دوں اور جو اسے قبول کرلے، چاہے وہ کسی حیثیت کا حامل ہو، اسے اپنی جماعت میں شامل کر لوں۔ الشعراء
113 1- یعنی ان کے ضمائر اور اعمال کی تفتیش یہ اللہ کا کام ہے۔ الشعراء
114 1- یہ ان کی اس خواہش کا جواب ہے کہ کمتر حیثیت کے لوگوں کو اپنے سے دور کردے، پھر ہم تیری جماعت میں شامل ہوجائیں گے۔ الشعراء
115 1- پس جو اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرے گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، چاہے دنیا کی نظر میں وہ شریف ہو یا رذیل، جلیل ہو یا حقیر۔ الشعراء
116 الشعراء
117 الشعراء
118 الشعراء
119 الشعراء
120 1- یہ تفصیلات کچھ پہلے بھی گزر چکی ہیں اور کچھ آئندہ بھی آئیں گی کہ حضرت نوح (عليہ السلام) کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے باوجود ان کی قوم کے لوگ بداخلاقی اور اعراض پر قائم رہے، بالآخر حضرت نوح (عليہ السلام) نےبد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے کشتی بنانے کا اور اس میں مومن انسانوں، جانوروں اور ضروری ساز وسامان رکھنے کا حکم دیا اور یوں اہل ایمان کو تو بچا لیا گیا اور باقی سب لوگوں کو، حتیٰ کہ بیوی اور بیٹے کو بھی، جو ایمان نہیں لائے تھے، غرق کردیا گیا۔ الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 1- عاد، ان کے جداعلیٰ کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نا م پڑ گیا۔ یہاں عاد کو قبیلہ تصور کرکے كَذَّبَتْ (صغیہ مونث) لایا گیا ہے۔ الشعراء
124 1- ہود (عليہ السلام) کو بھی عاد کا بھائی اسی لیےکہا گیا ہےکہ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا، جس کی طرف اسےمبعوث کیاجاتا تھا اور اسی اعتبار سےانہیں اس قوم کا بھائی قرار دیاگیا ہے، جیسا کہ آگے بھی آئے گا اور انبیا ورسل کی یہ (بشریت) بھی ان کی قوموں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ نبی کو بشر نہیں، مافوق البشر ہونا چاہیے۔ آج بھی اس مسلمہ حقیقت سے بے خبر لوگ پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم (ﷺ) کو مافوق البشر باور کرانے پر تلے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بھی خاندان قریش کے ایک فرد تھے جن کی طرف اولاً ان کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا۔ الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 1- رِيعٍ، رِيعَةٌ کی جمع ہے۔ ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، دریا یا گھاٹی یہ ان گزرگاہوں پر کوئی عمارت تعمیر کرتے جو ارتفاع اور علو میں ایک نشانی یعنی ممتاز ہوتی۔ لیکن اس کا مقصد اس میں رہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک کھیل کود ہوتا تھا۔ حضرت ہود (عليہ السلام) نے منع فرمایا کہ یہ تم ایسا کام کرتےہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے جس سے دین اور دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ بلکہ اس کے بیکار محض اور عبث ہونے میں کوئی شک نہیں۔ الشعراء
129 1- اسی طرح وہ بڑی مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کرتے تھے، جیسے وہ ہمیشہ انہی محلات میں رہیں گے۔ الشعراء
130 1- یہ ان کے ظلم وتشدد اور قوت وطاقت کی طرف اشارہ ہے۔ الشعراء
131 1- جب ان کے اوصاف قبیحہ بیان کیے جو ان کے دنیا میں انہماک اور ظلم وسرکشی پر دلالت کرتے ہیں توپھر انہیں دوبارہ تقویٰ اور اپنی اطاعت کی دعوت دی۔ الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 1- یعنی اگر تم نے اپنے کفر پر اصرار جاری رکھا اور اللہ نے تمہیں جو یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کا شکر ادا نہیں کیا، تو تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا جاؤ گے۔ یہ عذاب دنیا میں بھی آسکتا ہے اور آخرت تو ہے ہی عذاب وثواب کے لیے۔ وہاں تو عذاب سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ الشعراء
136 الشعراء
137 1- یعنی وہی باتیں ہیں جو پہلے بھی لوگ کرتے آئے ہیں یایہ مطلب ہے کہ ہم جس دین اور عادات وروایات پر قائم ہیں، وہ وہی ہیں جن پر ہمارے آبا واجداد کار بند رہے، مطلب دونوں صورتوں میں یہ ہے کہ ہم آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔ الشعراء
138 1- جب انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم تو اپنا آبائی دین نہیں چھوڑیں گے، تو اس میں عقیدۂ آخرت کا انکار بھی تھا۔ اس لیےانہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا اندیشہ تو اسے ہوتا ہے جو اللہ کو مانتا اور روز جزا کو تسلیم کرتا ہے۔ الشعراء
139 1- قوم عاد، دنیا کی مضبوط ترین اور قوی ترین قوم تھی، جس کی بابت اللہ نے فرمایا ہے۔ ﴿الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلادِ﴾ (الفجر) ”اس جیسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی“ یعنی جو قوت اور شدت وجبروت میں اس جیسی ہو۔ اسی لیے یہ کہا کرتی تھی۔ ﴿مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ (حم السجدة: 15) ”کون قوت میں ہم سے زیادہ ہے؟“ لیکن جب اس قوم نے بھی کفر کا راستہ چھوڑ کر ایمان وتقویٰ اختیار نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کی صورت میں ان پر عذاب نازل فرمایا جو مکمل سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط رہا۔ باد تند آتی اور آدمی کو اٹھا کر فضا میں بلند کرتی اور پھر زور سے سر کے بل زمین پر پٹخ دیتی۔ جس سے اس کا دماغ پھٹ اور ٹوٹ جاتا اور بغیر سر کے ان کے لاشے اس طرح زمین پر پڑے ہوتے گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ انہوں نے پہاڑوں، کھووں اور غاروں میں بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنارکھی تھیں، پینے کے لیے گہرے کنوئیں کھود رکھے تھے، باغات کی کثرت تھی۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو کوئی چیز ان کے کام نہ آئی اور انہیں صفحۂ ہستی سےمٹا کر رکھ دیاگیا۔ الشعراء
140 الشعراء
141 1- ثمود کامسکن حجر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آج کل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسرالتفاسیر) یہ عرب تھے۔ نبی (ﷺ) تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 1- یعنی یہ نعمتیں کیا تمہیں ہمیشہ حاصل رہیں گی، نہ تمہیں موت آئے گی نہ عذاب؟ استفہام انکاری اور تو بیخی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہوگا بلکہ عذاب یا موت کے ذریعے سے، جب اللہ چاہے گا، تم ان نعمتوں سے محروم ہو جاؤ گے۔ اس میں ترغیب ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ اور ترہیب ہے کہ اگر ایمان و شکر کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تباہی وبربادی تمہارا مقدر ہے۔ الشعراء
147 الشعراء
148 1- یہ ان نعمتوں کی تفصیل ہے جن سے وہ بہرہ ور تھے، طلع، کھجور کے اس شگوفے کو کہتے ہیں جو پہلے پہل نکلتا یعنی طلوع ہوتا ہے، اس کے بعد کھجور کا یہ پھل بلح، پھر بسر، پھر رطب اور اس کے بعد تمر کہلاتا ہے۔ (ایسر التفاسیر) باغات میں دیگر پھلوں کے ساتھ کھجور کا پھل بھی آجاتا ہے۔ لیکن عربوں میں چونکہ کھجور کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے اس کا خصوصی طور پر بھی ذکر کیا۔ هَضِيمٌ کے اور بھی کئی معانی بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً لطیف اور نرم ونازک۔ تہہ بہ تہہ وغیرہ۔ الشعراء
149 1- فَارِهِينَ یعنی ضرورت سےزیادہ تصنع، تکلف اور فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا اتراتے اور فخر وغرور کرتے ہوئے۔ جیسے آج کل لوگوں کا حال ہے۔ آج بھی عمارتوں پر غیر ضروری آرائشوں اور فنکارانہ مہارتوں کا خوب خوب مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری اور فخر وغرور کا اظہار بھی۔ الشعراء
150 الشعراء
151 1- مُسْرِفِينَ سے مراد وہ رؤسا اور سردار ہیں جو کفر وشرک کے داعی اور مخالفت حق میں پیش پیش تھے۔ الشعراء
152 الشعراء
153 الشعراء
154 الشعراء
155 1- یہ وہی اونٹنی تھی جو ان کے مطالبے پر پتھر کی ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تھی۔ ایک دن اونٹنی کے لیےاور ایک دن ان کے لیے پانی مقرر کردیا گیا تھا، اور ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ جو دن تمہارا پانی لینے کا ہوگا، اونٹنی گھاٹ پر نہیں آئے گی اور جو دن اونٹنی کے پانی پینے کا ہوگا، تمہیں گھاٹ پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ الشعراء
156 1- دوسری بات انہیں یہ کہی گئی کہ اس اونٹنی کو کوئی بری نیت سے ہاتھ نہ لگائے، نہ اسے نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ یہ اونٹنی اسی طرح ان کے درمیان رہی۔ گھاٹ سے پانی پیتی اور گھاس چارہ کھاکر گزارہ کرتی۔ اور کہا جاتا ہےکہ قوم ثمود اس کا دودھ دوہتی اور اس سے فائدہ اٹھاتی۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ الشعراء
157 1- یعنی باوجود اس بات کے کہ وہ اونٹنی،اللہ کی قدرت کی ایک نشانی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی، قوم ثمود ایمان نہیں لائی اور کفروشرک کے راستے پر گامزن رہی اور اس کی سرکشی یہاں تک بڑھی کہ بالآخر قدرت کی زندہ نشانی (اونٹنی) کی کوچیں کاٹ ڈالیں یعنی اس کے ہاتھوں اور پیروں کو زخمی کردیا، جس سے وہ بیٹھ گئی اور پھر اسے قتل کردیا۔ 2- یہ اس وقت ہوا جب اونٹنی کےقتل کے بعد حضرت صالح (عليہ السلام) نے کہا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت ہے، چوتھے دن تمہیں ہلاک کردیا جائے گا۔ اس کے بعد جب واقعی عذاب کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہوگئیں، تو پھر ان کی طرف سے بھی اظہار ندامت ہونے لگا۔ لیکن علامات عذاب دیکھ لینے کے بعد ندامت اور توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ الشعراء
158 1- یہ عذاب زمین سے بھونچال (زلزلے) اور اوپر سے سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا، جس سے سب کی موت واقع ہوگئی۔ الشعراء
159 الشعراء
160 1- حضرت لوط (عليہ السلام) ، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بھائی ھاران بن آذر کے بیٹے تھے۔ ان کو حضرت ابراہیم (عليہ السلام) ہی کی زندگی میں نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ ان کی قوم (سدوم) اور (عموریہ) میں رہتی تھی۔ یہ بستیاں شام کے علاقے میں تھیں۔ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 1- یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتدا اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لیے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی وہ بدفعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا لیکن اب یہ بدفعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کرلیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب یہ سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مزاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد وعورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضا مندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بدفعلی کرنی کیونکر گناہ اور ناجائز ہوسکتا ہے؟ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ 2- عَادُونَ، عاد کی جمع ہے۔ عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا۔ یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کی فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام۔ قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے اس حد سے تجاوز کیا۔ الشعراء
167 1- یعنی حضرت لوط (عليہ السلام) کے وعظ ونصیحت کے جواب میں اس نے کہا کہ تو بڑا پاک باز بنا پھرتا ہے۔ یاد رکھنا اگر تو باز نہ آیا تو ہم اپنی بستی میں تجھے رہنے ہی نہ دیں گے۔ آج بھی بدیوں کا اتنا غلبہ اور بدوں کا اتنا زور ہے کہ نیکی منہ چھپائے پھرتی ہے، اور نیکوں کے لیےعرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ الشعراء
168 1- یعنی میں اسے پسند نہیں کرتا اور اس سے سخت بیزار ہوں۔ الشعراء
169 الشعراء
170 الشعراء
171 1- اس سے مراد حضرت لوط (عليہ السلام) کی بوڑھی بیوی ہے جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، چنانچہ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہی ہلاک کردی گئی۔ الشعراء
172 الشعراء
173 1- یعنی نشان زندہ کنکر پتھروں کی بارش سے ہم نے ان کو ہلاک کیا اور ان کی بسیتوں کو ان پر الٹ دیاگیا، جیسا کہ سورۂ ہود۔ 83،82 میں بیان ہوا۔ الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 1- أَيْكَةَ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب (عليہ السلام) کی قوم اور بستی (مدین) کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی ہیں گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کی نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب (عليہ السلام) کا دائرۂ نبوت اور حدود دعوت وتبلیغ، مدین سے لے کر اس نواحی آبادی تک تھا، جہاں ایکہ درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اصحاب الایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب (عليہ السلام) تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔ ایکہ، چونکہ قوم نہیں، بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا، جس طرح کہ دوسرے انبیا کے ذکر میں ہے۔ البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب (عليہ السلام) کا نام لیاگیا ہے، وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے، کیونکہ مدین، قوم کا نام ہے۔ ﴿وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا﴾ (الأعراف: 85) بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ اور مدین کو الگ الگ بستیاں قرار دے کر کہا ہے کہ یہ مختلف دو امتیں ہیں، جن کی طرف باری باری حضرت شعیب (عليہ السلام) کو بھیجا گیا۔ ایک مرتبہ مدین کی طرف اور دوسری مرتبہ اصحاب الایکہ کی طرف۔ لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے، ﴿أَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ﴾ کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا، یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیاجارہا ہے، جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے، دو نہیں۔ الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 1- یعنی جب تم لوگوں کوناپ کردو تو اسی طرح پورا دو، جس طرح لیتے وقت تم پورا ناپ کر لیتے ہو۔ لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ مت رکھو، کہ دیتے وقت کم دو اور لیتے وقت پورا لو !۔ الشعراء
182 1- اسی طرح تول میں ڈنڈی مت مارو، بلکہ پورا صحیح تول کردو !۔ الشعراء
183 1- یعنی لوگوں کو دیتے وقت ناپ یا تول میں کمی مت کرو۔ 2- یعنی اللہ کی نافرمانی مت کرو، اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ بعض نے اس سے مراد وہ رہزنی لے لی ہے، جس کا ارتکاب بھی یہ قوم کرتی تھی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے، ﴿وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ﴾ (الأعراف: 86) ”راستوں میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے مت بیٹھو“۔ (ابن کثیر)۔ الشعراء
184 1- جِبِلَّةٌ اور جِبِلٌّ، مخلوق کے معنی میں ہے، جس طرح دوسرے مقام پر شیطان کے بارے میں فرمایا ﴿وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلا كَثِيرًا﴾ (سورة يس: 62) ”اس نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو گمراہ کیا“ اس کا استعمال بڑی جماعت کے لیے ہوتا ہے۔ وَهُوَ الْجَمْعُ ذُو الْعَدَدِ الْكَثِيرِ مِنَ النَّاسِ (فتح القدير)۔ الشعراء
185 الشعراء
186 1- یعنی تو جو دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے اللہ نے وحی ورسالت سے نوازا ہے، ہم تجھے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے ہیں، کیونکہ تو بھی ہم جیسا ہی انسان ہے۔ پھر تو اس شرف سے مشرف کیونکر ہوسکتا ہے؟ الشعراء
187 1- یہ حضرت شعیب (عليہ السلام) کی تہدید کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تو واقعی سچا ہے تو جاہم تجھے نہیں مانتے، ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا کر دکھا!۔ الشعراء
188 1- یعنی تم جو کفر وشرک کر رہے ہو، سب اللہ کے علم میں ہے اور وہی اس کی جزا تمہیں دے گا، اگر چاہے گا تو دنیا میں بھی دے دے گا، یہ عذاب اور سزا اس کے اختیار میں ہے۔ الشعراء
189 1- انہوں نے بھی کفار مکہ کی طرح آسمانی عذاب مانگا تھا، اللہ نے اس کے مطابق ان پر عذاب نازل فرمادیا اور وہ اس طرح کہ بعض روایات کے مطابق سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کردی، اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا اور یہ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے اس سائے تلے جمع ہوگئے اور کچھ سکھ کا سانس لیا۔ لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہوگئے، زمین زلزلے سے لرز اٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے انہیں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیا۔ یوں تین قسم کا عذاب ان پر آیا اور یہ اس دن آیا جس دن ان پر بادل سایہ فگن ہوا، اس لیے فرمایا کہ سائے والے دن کے عذاب نے انہیں پکڑ لیا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تین مقامات پر قوم شعیب (عليہ السلام) کی ہلاکت کا ذکر کیا ہے اور تینوں جگہ موقع کی مناسبت سے الگ الگ عذاب کا ذکر کیا ہے۔ سورۂ اعراف ، 88 میں زلزلہ کا ذکر ہے، سورۂ ہود، 94 میں صيحة(چیخ) کا اور یہاں شعراء میں آسمان سے ٹکڑے گرانے کا۔ یعنی تین قسم کا عذاب اس قوم پر آیا۔ الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 الشعراء
193 1- کفار مکہ نے قرآن کےوحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ اور دعوت محمدیہ کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو پڑھ سکتا نہ لکھ سکتا ہے۔ گزشتہ انبیا اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کرسکتا تھا؟ اس لیے یہ قرآن یقیناً اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانت دار فرشتہ یعنی جبرائیل (عليہ السلام) لے کر آئے۔ الشعراء
194 1- دل کا بطور خاص اس لیے ذکر فرمایا کہ حواس باطنہ میں دل ہی سب سے زیادہ ادراک او رحفظ کی قوت رکھتا ہے۔ 2- یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ الشعراء
195 الشعراء
196 1- یعنی جس طرح پیغمبرآخرالزماں (ﷺ) کے ظہور وبعثت کا اور آپ (ﷺ) کی صفات جمیلہ کا تذکرہ پچھلی کتابوں میں ہے، اسی طرح اس قرآن کے نزول کی خوشخبری بھی صحف سابقہ میں دی گئی تھی۔ ایک دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ یہ قرآن مجید، بہ اعتبار ان احکام کے، جن پر تمام شریعتوں کا اتفاق رہا ہے، پچھلی کتابوں میں بھی موجود رہا ہے۔ الشعراء
197 1- کیونکہ ان کتابوں میں آپ (ﷺ) کا اور قرآن کا ذکر موجود ہے۔ یہ کفار مکہ، مذہبی معاملات میں یہود کی طرف رجوع کرتے تھے، اس اعتبار سے فرمایا کہ کیا ان کا یہ جاننا اوربتلانا اس بات کی دلیل نہیں کہ محمد (ﷺ) ،اللہ کے سچے رسول اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ پھر یہ یہود کی اس بات کو مانتے ہوئے پیغمبر پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟۔ الشعراء
198 الشعراء
199 1- یعنی کسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ کہتے کہ یہ تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ جیسے حٰم السجدۃ۔ 44 میں ہے۔ الشعراء
200 1- یعنی سَلَكْنَاهُ میں ضمیر کا مرجع کفر وتکذیب اور جحود وعناد ہے۔ الشعراء
201 الشعراء
202 الشعراء
203 1- لیکن مشاہدۂ عذاب کے بعد مہلت نہیں دی جاتی، نہ اس وقت کی توبہ ہی مقبول ہے، ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا﴾ (المؤمن: 85)۔ الشعراء
204 1- یہ اشارہ ہے ان کے مطالبے کی طرف جو اپنے پیغمبر سے کرتے رہے ہیں کہ اگر تو سچا ہےتو عذاب لے آ۔ الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 1- یعنی اگر ہم انہیں مہلت دے دیں اور پھر انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لیں، تو کیا دنیا کا مال ومتاع ان کے کچھ کام آئ ے گا؟ یعنی انہیں عذاب سے بچاسکے گا؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ ﴿وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ﴾ (البقرة: 96) ﴿وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى﴾ (الليل: 11)۔ الشعراء
208 الشعراء
209 1- یعنی ارسال رسل اور انذار کے بغیر اگر ہم کسی بستی کو ہلاک کردیتے تو یہ ظلم ہوتا، ہم نے ایسا ظلم نہیں کیا بلکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق ہم نے پہلے ہر بستی میں رسول بھیجے، جنہوں نے اہل قریہ کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور اس کے بعد جب انہوں نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو ہم نے انہیں ہلاک کیا۔ مضمون بنی اسرائیل: 15 اور قصص: 59 وغیرہ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ الشعراء
210 الشعراء
211 الشعراء
212 1- ان آیات میں قرآن کی، شیطانی دخل اندازیوں سے،محفوظیت کا بیان ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شیاطین کا قرآن لیکر نازل ہونا، ان کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد شر وفساد اور منکرات کی اشاعت ہے، جب کہ قرآن کا مقصد نیکی کا حکم اور فروغ اور منکرات کا سدباب ہے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم منافی ہیں۔ دوسرے، یہ کہ شیاطین اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے، تیسرے، نزول قرآن کے وقت شیاطین اس کے سننے سے دور اور محروم رکھے گئے، آسمانوں پر ستاروں کو چوکیدار بنا دیا گیا تھا اور جو بھی شیطان اوپر جاتا یہ ستارے اس پر برق خاطف بن کر گرتے اور بھسم کر دیتے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کو شیاطین سے بچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ الشعراء
213 الشعراء
214 1- پیغمبر کی دعوت صرف رشتے داروں کے لیے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لیے ہوتی ہے اور نبی (ﷺ) تو پوری نسل انسانی کے لیے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتے داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ایک ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی (ﷺ) صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور يَا صَبَاحَاهُ کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کردے، اس کے ذریعے سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے؟ سب نےکہا ہاں، یقیناً ہم تصدیق کریں گے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیربنا کربھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا تَبًّا لَكَ أَمَا دَعَوْتَنَا إِلا لِهَذَا ”تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے بلایا تھا؟“ اس کے جواب میں سورۂ تبت نازل ہوئی (صحيح بخاری، تفسير سورة المسد) آپ (ﷺ) نے اپنی بیٹی فاطمہ (رضی الله عنہا) اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ (رضی الله عنہا) کو بھی فرمایا، تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کر لو، میں وہاں تمہارے کام نہیں آ سکوں گا (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ الشعراء
215 الشعراء
216 الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 1- یعنی جب تو تنہا ہوتا ہے، تب بھی اللہ دیکھتا ہے اور جب لوگوں میں ہوتا ہے تب بھی۔ الشعراء
220 الشعراء
221 الشعراء
222 1- یعنی اس قرآن کے نزول میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے، کیونکہ شیطان تو جھوٹوں اور گناہ گاروں (یعنی کاہنوں، نجومیوں وغیرہ) پر اترتے ہیں نہ کہ انبیا وصالحین پر۔ الشعراء
223 1- یعنی ایک آدھ بات، جو کسی طرح وہ سننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کاہنوں کو آکر بتلادیتے ہیں، جن کے ساتھ وہ جھوٹی باتیں اور ملا لیتے ہیں (جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے۔) ملاحظہ ہو (صحيح بخاری، كتاب التوحيد ، باب قراءة الفاجر والمنافق وبدء الخلق ، باب صفة إبليس وجنوده، صحيح مسلم، كتاب السلام باب تحريم الكهانة وإتيان الكهان﴿يُلْقُونَ السَّمْعَ﴾ شیاطین آسمان سے سنی ہوئی بعض باتیں کاہنوں کو پہنچا دیتے ہیں، اس صورت میں سمع کے معنی مسموع کے ہوں گے۔ لیکن اگر اس کا مطلب حاسۂ سماعت (کان) ہے، تو مطلب ہوگا کہ شیاطین آسمانوں پر جاکر کان لگا کر چوری چھپے بعض باتیں سن آتے ہیں اور پھر انہیں کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ الشعراء
224 الشعراء
225 الشعراء
226 1- شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ مدح وذم میں، اصول و ضابطے کے بجائے، ذاتی پسند و ناپسند کےمطابق اظہار رائے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں۔ اسی قسم کے اشعار کے لیے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ ”پیٹ کو لہو پیپ سے بھر جانا، جو اسے خراب کردے، شعر سے بھرجانے سے بہتر ہے“۔ (ترمذی، ابواب الآداب و مسلم وغیرہ) یہاں اس کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا پیغمبر کاہن ہے نہ شاعر۔ اس لیے کہ یہ دونوں ہی جھوٹے ہیں۔ چنانچہ دوسرے مقامات پر بھی آپ (ﷺ) کے شاعر ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ یٰسین:69 ،سورۃ الحاقہ: 40 - 43۔ الشعراء
227 1- اس سے ان شاعروں کو مستثنیٰ فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ مومن، عمل صالح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر غلط شاعری، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط وتفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سےعاری ہوں۔ 2- یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعراء کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی ہجو (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت (رضی الله عنہ) کافروں کی ہجویہ شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی (ﷺ) ان کو فرماتے کہ ”ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل (عليہ السلام) بھی تمہارے ساتھ ہیں“۔ (صحيح بخاری، كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة، مسلم، فضائل حسان بن ثابت) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی شاعری جائز ہے جس میں کذب ومبالغہ نہ ہو اور جس کے ذریعے سے مشرکین وکفار اور مبتدعین واہل باطل کو جواب دیا جائے اور مسلک حق اور توحید و سنت کا اثبات کیاجائے۔ 3- یعنی أَيَّ مَرْجَع يَرْجِعُونَ یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لیے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ”تم ظلم سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہوگا“۔ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم)۔ الشعراء
0 النمل
1 النمل
2 النمل
3 1- یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہوں گے جو ہدایت کے طالب ہوں گے، جو لوگ اپنےدل ودماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کرلیں گے، قرآن انہیں کس طرح سیدھی راہ پر لگاسکتا ہے؟ ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہوسکتے، درآں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔ النمل
4 1- یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لیےکی گئی ہےکہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکیوں کے لیے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لیے بدی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔ 2- یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔ النمل
5 النمل
6 النمل
7 1- یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آرہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لیے آگ کی ضرورت تھی۔ النمل
8 1- دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ ایک سرسبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فِي النَّارِ میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک وتعالی اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَهَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب، (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ”اگر اپنی ذات کو بے نقاب کردے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے“۔ (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب إن الله لا ينام..) تفصیل کے لیے دیکھیں فتاوى ابن تيميہ ج 5 ص459۔ 464)۔ 2- یہاں اللہ کی تنزیہ وتقدیس کا مطلب یہ ہے کہ اس ندائے غیبی سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس آگ یا درخت میں اللہ حلول کئے ہوئے ہے، جس طرح کہ بہت سے مشرک سمجھتے ہیں بلکہ یہ مشاہدۂ حق کی ایک صورت ہے جس سے نبوت کے آغاز میں انبیاء علیہم السلام کو بالعموم سرفراز کیا جاتا ہے۔ کھبی فرشتے کےذریعے سے اور کبھی خود اللہ تعالیٰ اپنی تجلی اور ہمکلامی سے جیسے یہاں موسیٰ (عليہ السلام) کے ساتھ معاملہ پیش آیا۔ النمل
9 1- درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے لیے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ ! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔ النمل
10 1- اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ (عليہ السلام) اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے۔ دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔ النمل
11 1- یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرمالے۔ 2- یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کر لیتا ہوں۔ النمل
12 1- یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انہیں دیاگیا۔ 2- فِي تِسْعِ آيَاتٍ یعنی یہ دو معجزے ان 9 نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان 9 نشانیوں کی تفصیل کے لیے دیکھئے، سورۂ بنی اسرائیل، آیت۔ 101 کاحاشیہ۔ النمل
13 1- مُبْصِرَةً، واضح اور روشن یا یہ اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے۔ النمل
14 1- یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔ النمل
15 1- سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے، اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا قصہ مختصراً بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داود (عليہ السلام) وسلیمان (عليہ السلام) کا یہ قصہ ہے۔ انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد (ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت حضرت داود (عليہ السلام) اور سلیمان (عليہ السلام) کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داود (ﷺ) کو لوہے کی صنعت کاعلم اور حضرت سلیمان (عليہ السلام) کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا۔ ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا، لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہےکہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ النمل
16 1- اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان (عليہ السلام) قرار پائے۔ ورنہ حضرت داود (عليہ السلام) کے اور بھی بیٹے تھے جو اس وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیا کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال واسباب چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے،جیسا کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے۔ (البخاری كتاب الفرائض، ومسلم، كتاب الجهاد)۔ 2- بولیاں تو تمام جانوروں کی سکھلائی گئی تھیں۔ لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا ہے کہ پرندے سائے کے لیے ہر وقت ساتھ رہتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چیونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر)۔ 3- جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن وانس اور طیور وحیوانات کی تسخیر وغیرہ۔ النمل
17 1- اس میں حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی اس انفرادی خصوصیت وفضیلت کاذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جنات، حیوانات اور چرند وپرند حتیٰ کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان (عليہ السلام) کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لیے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔ 2- یہ ترجمہ (توزیع بمعنی تفریق) کےاعتبار سے ہے۔ یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کردیا جاتا تھا، مثلاً انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کے گروہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے معنی اس کے (پس وہ روکے جایا کرتے تھے) یعنی یہ لشکر اتنی بڑی تعداد میں ہوتا تھا کہ راستے میں روک روک کر ان کو درست کیا جاتا تھا کہ شاہی لشکر بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہو یہ وَزَعَ يَزَعُ سے ہے، جس کے معنی روکنے کے ہیں۔ اسی مادے میں ہمزۂ سلب کا اضافہ کرکے أَوْزِعْنِي بنایا گیا ہے۔ جو اگلی آیت نمبر 19 میں آرہا ہے یعنی ایسی چیزیں مجھ سے دور فرمادے، جو مجھے تیری نعمتوں پر تیرا شکر کرنے سے روکتی ہیں۔ اس کو اردو میں ہم الہام وتوفیق سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ (فتح القدیر، ایسرالتفاسیر وابن کثیر)۔ النمل
18 1- اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہے۔ گویا وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے، اسی لیے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے خبری میں ہم روند نہ دیئے جائیں۔ تیسرا، یہ کہ حیوانات بھی اسی عقیدۂ صحیحہ سے بہرور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا، یہ کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔ النمل
19 1- چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔ 2- اس سے معلوم ہوا کہ جنت، مومنوں ہی کا گھر ہے، اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوسکے گا۔ اسی لیے حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا (سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ (رضی الله عنہم) نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ بھی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”ہاں، میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا، جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی“۔ (صحيح بخاری نمبر 6467۔ مسلم نمبر۔ 217)۔ النمل
20 1- یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔ النمل
21 النمل
22 1- احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا۔ 2- سَبَأٌ ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعاء (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے۔ (فتح القدیر)۔ النمل
23 1- یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آج کل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتاہے تو عورت کیوں نہیں ہوسکتی؟ حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ بعض لوگ ملکہ سبا (بلقیس) کے اس ذکر سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کی سربراہی جائز ہے۔ حالانکہ قرآن نے ایک واقعے کے طور پر اس کا ذکر کیا ہے ، اس سے اس کے جواز یا عدم جواز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن وحدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ 2- کہا جاتا ہے کہ اس کا طول 80 ہاتھ عرض 40 ہاتھ اور اونچائی 30 ہاتھ تھی اور اس میں موتی ، سرخ یاقوت اور سبز زمرد جڑے ہوئےتھے ، واللہ اعلم (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔ النمل
24 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیا بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان (عليہ السلام) کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بے خبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس وشعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہاں ہدہد نے حیرت واستعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لیے سورج کی عبادت کو بھلا کرکے دکھلایا ہوا ہے۔ النمل
25 1- أَلا يَسْجُدُوا اس کا تعلق بھی زَيَّنَ کے ساتھ ہے۔ یعنی شیطان نے یہ بھی ان کے لیے مزین کردیا ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں۔ یا اس میں لا يَهْتَدُونَ عامل ہے اور لا زائد ہے۔ یعنی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ سجدہ صرف اللہ کو کریں۔ (فتح القدیر) ۔ 2- یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔ خَبْءٌ مصدر ہے مفعول مَخْبُوءٌ (چھپی ہوئی چیز) کےمعنی ہیں۔ النمل
26 النمل
27 1- مالک تو اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لیے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرے، یہ واضح کرنے کے لیے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے اس عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحیدکا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت وشان کو بیان کیا ہے، اس لیے حدیث میں آتا ہے ”چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا“ (مسند أحمد / 332۔ أبو داود، كتاب الأدب، باب في قتل الذر، وابن ماجہ كتاب الصيد، باب ما ينهى عن قتله) صرد (لٹورا) اس کا سر بڑا، پیٹ سفید اور پیٹھ سبز ہوتی ہے، یہ چھوٹے چھوٹے پرندوں کا شکار کرتا ہے۔ (حاشیہ ابن کثیر)۔ النمل
28 1- یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔ النمل
29 النمل
30 النمل
31 1- جس طرح نبی (ﷺ) نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان (عليہ السلام) نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے۔ لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔ النمل
32 النمل
33 1- یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پامردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لیے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں۔ 2- اس لیے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہوگا، بجا لائیں گے۔ النمل
34 1- یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔ 2- یعنی قتل و غارت گری کرکے اور قیدی بنا کر۔ 3- بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہےجو ملکۂ سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ النمل
35 1- اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ سلیمان (عليہ السلام) کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقیناً اس کا مقصد دین کی اشاعت وسربلندی ہے، پھر ہمیں اطاعت کیے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔ النمل
36 1- یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اپنے اس ہدیے سے میرے مال ودولت میں کیا اضافہ کرسکتے ہو؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کرسکتے۔ 2- یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم ہی اس ہدیے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لیے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں ہے۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔ النمل
37 1- یہاں صیغۂ واحد سے مخاطب کیا، جب کہ اس سے قبل صیغۂ جمع سے خطاب کیاتھا۔ کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کبھی امیر کو۔ 2- حضرت سلیمان (عليہ السلام) نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لیے ان کی طرف سے تو لوگوں کو ذلیل و خوار کیاجانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ وقتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ کیونکہ جنگ نام ہی کشت وخون اور اسیری کا ہے اور ذلت وخواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل وخوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی (ﷺ) کا طرز عمل اور اسوۂ حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔ النمل
38 1- حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگالیا کہ وہ سلیمان (عليہ السلام) کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مطیع ومنقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کردی۔ سلیمان (عليہ السلام) کو بھی ان کی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انہیں مزید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور ان کے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔ النمل
39 1- اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لیے حضرت سلیمان (عليہ السلام) صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔ 2- اس سےمعلوم ہوا کہ وہ یقیناً ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے . کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن (سبا) جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھالائے۔ اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے، 4،3 گھنٹے میں طے کرلے۔ ایک طاقت ور سے طاقت ور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔ 3- یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔ النمل
40 1- یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیاگیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالیٰ نے کرامت اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ او روہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ومشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کے سراغ لگانےکی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کارفرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کرسکتی ہے۔ حضرت سلیمان (عليہ السلام) بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئےجب انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔ النمل
41 1- یعنی اس کے رنگ روپ یا وضع وہیئت میں تبدیلی کردو۔ 2- یعنی وہ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ یہ تخت اسی کا ہے یا اس کو سمجھ نہیں پاتی؟ دوسرا مطلب ہے کہ وہ راہ ہدایت پاتی ہے یا نہیں؟ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی اس پر راہ ہدایت واضح ہو تی ہے یا نہیں؟ النمل
42 1- ردوبدل سے چونکہ اس کی وضع وہیئت میں کچھ تبدیلی آگئی تھی، اس لیے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور ردوبدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان ہی لیتا ہے، اس لیے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا (یہ گویا وہی ہے) اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔ النمل
43 1- یعنی یہاں آنے سےقبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہوگئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر وشوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان (عليہ السلام) کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکۂ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی۔ 2- یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور صَدَّهَا کا فاعل مَا كَانَتْ تَعْبُدُ ہے یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا، وہ غیراللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لیے توحید کی حقیقت سے بے خبر رہی بعض نے صَدَّهَا کا فاعل اللہ کو اور بعض نے سلیمان (عليہ السلام) کو قرار دیا ہے۔ یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان (عليہ السلام) نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ (فتح القدیر)۔ النمل
44 1- یہ محل شیشے کا بنا ہوا تھا جس کا صحن اور فرش بھی شیشے کا تھا۔ لُجَّةً گہرے پانی یا حوض کو کہتے ہیں۔ حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہر دکھانے کے بعد مناسب سمجھا کہ اسے اپنی اس دنیوی شان و شوکت کی بھی ایک جھلک دکھلادی جائے جس میں اللہ نے انہیں تاریخ انسانیت میں ممتاز کیا تھا۔ چنانچہ اس محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا، جب وہ داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پائنچے چڑھالیے۔ شیشے کافرش اسے پانی معلوم ہوا جس سے اپنے کپڑوں کو بچانے کے لیے اس نے کپڑے سمیٹ لیے۔ 2- یعنی جب اس پر فرش کی حقیقت واضح ہوئی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہوگیا اور اعتراف قصور کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ صاف چکنے گھڑے ہوئے پتھروں کو مُمَرَّدٌ کہا جاتا ہے۔ اسی سے امرد ہے جو اس خوش شکل بچے کو کہا جاتا ہے جس کے چہرے پر ابھی داڑھی مونچھ نہ ہو۔ جس درخت پر پتے نہ ہوں اسے شجرۃ مرداء کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر) لیکن یہاں یہ تعبیر یا جڑاؤ کےمعنی میں ہے۔ یعنی شیشوں کا بنا ہوا یا جڑا ہوا محل۔ ملحوظہ: ملکۂ سبا (بلقیس) کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟ قرآن میں یا کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی۔ تفسیری روایات میں یہ ضرور ملتا ہے کہ ان کا باہم نکاح ہوگیا تھا۔ لیکن قرآن وحدیث اس صراحت سے خاموش ہیں تو اس کی بابت خاموشی ہی بہتر ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ النمل
45 1- ان سےمراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔ النمل
46 1- یعنی ایمان قبول کرنے کے بجائے تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عناد وسرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح (عليہ السلام) نے یہ کہا۔ النمل
47 1- اطَّيَّرْنَا اصل میں تَطَيَّرْنَا ہے۔ اس کی اصل طیر (اڑنا) ہے۔ عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کرگزرتے یا سفر پر روانہ ہو جاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو اسے بدشگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بدشگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ تفاؤل جائز ہے۔ 2- یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے، کیونکہ قضا وتقدیر اسی کےاختیار میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہیں جونحوست (قحط وغیرہ) پہنچی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔ (فتح القدیر)۔ 3- یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جائے۔ النمل
48 النمل
49 1- یعنی صالح (عليہ السلام) کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کردیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح (عليہ السلام) نے کہاکہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح (عليہ السلام) اور ان کے گھر والوں کا صفایا کردیں۔ 2- یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے نہ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انہیں قتل کرگیا ہے۔ النمل
50 1- ان کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے باہم حلف اٹھایا کہ رات کی تاریکی میں اس منصوبۂ قتل کو بروئے کار لائیں اور تین دن پورے ہونے سے پہلے ہی ہم صالح (عليہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو ٹھکانے لگادیں۔ 2- یعنی ہم نے ان کی اس سازش کا بدلہ دیا اور انہیں ہلاک کردیا۔ اسے بھی مَكَرْنَا مَكْرًا سے مشاکلت کے طور پر تعبیر کیا گیا ہے۔ 3- اللہ کی اس تدبیر (مکر) کو سمجھتے ہی نہ تھے۔ النمل
51 1- یعنی ہم نےمذکورہ 9 سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کردیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر وحجود میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو بالفعل ان کے منصوبۂ قتل میں شریک نہ ہوسکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشا اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لیے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو 9 افراد نے حضرت صالح (عليہ السلام) اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لیے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔ النمل
52 النمل
53 النمل
54 1- یعنی لوط (عليہ السلام) کا قصہ یاد کرو، جب لوط (عليہ السلام) نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔ 2- یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بے حیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سےدیکھنا مراد ہو تو معنی ہوں گے کہ نظروں کے سامنےیہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔ النمل
55 1- یہ تکرار تو بیخ کے لیے ہے کہ یہ بے حیائی وہی لواطت ہے جو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے غیر طبعی شہوت رانی کے طور پر کرتے ہو۔ 2- یا اس کی حرمت سے یا اس معصیت کی سزا سے تم بے خبر ہو۔ ورنہ شاید یہ کام نہ کرتے۔ النمل
56 1- یہ بطور طنز اور استہزا کے کہا۔ النمل
57 1- یعنی پہلے ہی اس کی بابت یہ اندازہ یعنی تقدیر الٰہی میں تھا کہ وہ انہی پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی جو عذاب سے دوچار ہوں گے۔ النمل
58 1- ان پر جو عذاب آیا، اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے کہ ان کی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا اور اس کے بعد ان پر تہہ بہ تہہ کنکر پتھروں کی بارش ہوئی۔ 2- یعنی جنہیں پیغمبروں کے ذریعے سے ڈرایا گیا اور ان پر حجت قائم کردی گئی۔ لیکن وہ تکذیب وانکار سے باز نہیں آئے۔ النمل
59 1- جن کو اللہ نے رسالت اور بندوں کو رہنمائی کے لیے چنا تاکہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ 2- یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ ہی کی عبادت بہتر ہے کیونکہ جب خالق، رازق اور مالک وہی ہے تو عبادت کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہوسکتا ہے؟ جو نہ کسی چیز کا خالق ہے نہ رازق اور مالک ۔خَيْرٌ اگرچہ تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں تفضیل کے معنی میں نہیں ہے، مطلق بہتر کے معنی میں ہے، اس لیے کہ معبود ان باطلہ میں تو سرے سے کوئی خیر ہے ہی نہیں۔ النمل
60 1- یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دیئے جارہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش ، رزق اور تدبیر وغیرہ میں متفرد ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا۔ اسی طرح زمین اور اس میں پہاڑ، نہریں، چشمے، سمندر، اشجار کھیتیاں اور انواع واقسام کے طیور وحیوانات وغیرہ پیدا کرنے والا اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے بارونق باغات اگانے والا کون ہے؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے؟ ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (مثلاً سورۃ العنکبوت۔63)۔ 2- یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو؟ یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو؟ یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔ أمن کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے، اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں؟ (ابن کثیر)۔ 3- اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔ النمل
61 1- یعنی ساکن اور ثابت، نہ ہلتی ہے، نہ ڈولتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر رہنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ زمین پر بڑے بڑے پہاڑ بنانے کا مقصد بھی زمین کو حرکت کرنے سے اور ڈولنے سے روکنا ہی ہے۔ 2- اس کی تشریح کے لیے دیکھیں سورۃ الفرقان ، 53 کا حاشیہ۔ النمل
62 1- یعنی وہی اللہ ہے جسے شدائد کے وقت پکارا جاتا اور مصیبتوں کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں مُضْطَرٌّ (لاچار) اس کی طرف رجوع کرتا اور برائی کو وہی دور کرتا ہے۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ الاسراء: 67 ، سورۃ النمل: 53۔ 2- یعنی ایک امت کے بعد دوسری امت، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کرتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سب کو ایک ہی وقت میں وجود بخش دیتا تو زمین بھی تنگ دامانی کا شکوہ کرتی، اکتساب معیشت میں بھی دشواریاں پیدا ہوتیں اور یہ سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں ہی مصروف وسرگرداں رہتے۔ یعنی یکے بعد دیگرے انسانوں کو پیدا کرنا اور ایک کو دوسرے کا جانشین بنانا، یہ بھی اس کی کمال مہربانی ہے۔ النمل
63 1- یعنی آسمانوں پر ستاروں کو درخشانی عطا کرنے والا کون ہے؟ جن سے تم تاریکیوں میں راہ پاتے ہو۔ پہاڑوں اور وادیوں کا پیدا کرنے والا کون ہے جو ایک دوسرے کے لیے سرحدوں کا کام بھی دیتے ہیں اور راستوں کی نشاندہی کا بھی۔ 2- یعنی بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں، جو بارش کی پیامبر ہی نہیں ہوتیں، بلکہ ان سے خشک سالی کے مارے ہوئے لوگوں میں خوشی کی لہر بھی دوڑ جاتی ہے۔ النمل
64 1- یعنی قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا۔ 2- یعنی آسمان سے بارش نازل فرما کر، زمین سے اس کے مخفی خزانے (غلہ جات اور میوے) پیدا فرماتا ہے اور یوں آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ النمل
65 1- یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ متفرد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی والہام کے ذریعے سے انہیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ عالم الغیب تو وہ ہے جو بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے ذاتی طور پر ہر چیز کا علم رکھے، ہر حقیقت سے باخبر ہو اور مخفی سے مخفی چیز بھی اس کے دائرہ علم سے باہر نہ ہو۔ یہ صفت صرف اور صرف اللہ کی ہے اس لیے صرف وہی عالم الغیب ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی عالم الغیب نہیں۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی (ﷺ) آئندہ کل کو پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لیے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان وزمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ (صحيح بخاری نمبر 48 55 ، صحيح مسلم نمبر 287 الترمذی نمبر3068) حضرت قتادہ (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ کے احکام سے بے خبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہوگا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہوگا، فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہوگا تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہوسکتا ہے؟ جب کہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان وزمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر) النمل
66 1- یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔ یا ان کا علم آخرت کے بارے میں برابر ہے جیسے نبی (ﷺ) نے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کے استفسار پر فرمایا تھا کہ قیامت کے بارے میں مسئول عنہا (نبی اکرم ﷺ) بھی سائل (حضرت جبرائیل عليہ السلام) سے زیادہ علم نہیں رکھتے یا یہ معنی ہیں کہ ان کا علم مکمل ہوگیا، اس لیے کہ انہوں نے قیامت کے بارے میں کیے گئے وعدوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، گویہ علم اب ان کے لیے نافع نہیں ہے کیونکہ دنیا میں وہ اسے جھٹلاتے رہے تھے جیسے فرمایا: ﴿أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ﴾ (سورة مريم: 38) 2- یعنی دنیا میں آخرت کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ اندھے ہیں کہ اختلال عقل وبصیرت کی وجہ سے آخرت پر یقین سے محروم ہیں۔ النمل
67 النمل
68 1- یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں، بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آرہے ہیں۔ النمل
69 1- یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس کی زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقیناً سچ ہے۔ النمل
70 النمل
71 النمل
72 1- اس سے مراد جنگ بدر کا وہ عذاب ہے جو قتل اور اسیری کی شکل میں کافروں کو پہنچایا یا عذاب قبر ہے رَدِفَ ، قرب کے معنی میں ہے، جیسے سواری کی عقبی نشست پر بیٹھنے والے کو ردیف کہا جاتا ہے۔ النمل
73 1- یعنی عذاب میں تاخیر، یہ بھی اللہ کے فضل وکرم کا ایک حصہ ہے، لیکن لوگ پھر بھی اس سے اعراض کرکے ناشکری کرتے ہیں۔ النمل
74 النمل
75 1- اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ان ہی غائب چیزوں میں اس عذاب کا علم بھی ہے جس کے لیے یہ کفار جلدی مچاتے ہیں۔ لیکن اس کا وقت بھی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جسے صرف وہی جانتا ہے اور جب وہ وقت آجاتا ہے جو اس نے کسی قوم کی تباہی کے لیے لکھ رکھا ہوتا ہے، تو پھر اسے تباہ کر دیتا ہے۔ یہ مقررہ وقت آنے سے پہلے جلدی کیوں کرتے ہیں؟ النمل
76 1- اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کے عقائد بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی تنقیص اور توہین کرتے تھے اور عیسائی ان کی شان میں غلو۔ حتیٰ کہ انہیں، اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دے دیا . قرآن کریم نے ان کے حوالے سے ایسی باتیں بیان فرمائیں ، جن سے حق واضح ہو جاتا ہے اور اگر وہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کو مان لیں تو ان کے عقائدی اختلافات ختم اور ان کا تفرق وانتشار کم ہوسکتا ہے۔ النمل
77 1- مومنوں کا اختصاص اس لیے کہ وہی قرآن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ انہی میں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں جو ایمان لے آئے تھے۔ النمل
78 1- یعنی قیامت میں ان کے اختلافات کا فیصلہ کرکے حق کو باطل سے ممتاز کر دے گا اور اس کے مطابق جزا وسزا کا اہتمام فرمائے گا یا انہوں نے اپنی کتابوں میں جو تحریفات کی ہیں، دنیا میں ہی ان کا پردہ چاک کرکے ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ النمل
79 1- یعنی اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دیں اور اسی پر اعتماد کریں، وہی آپ کا مددگار ہے۔ ایک تو اس لیے کہ آپ دین حق پر ہیں، دوسری وجہ آگے آرہی ہے۔ النمل
80 1- یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ ونصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔ 2- یعنی وہ حق سے مکمل طور پر گریزاں اور متنفر ہیں کیونکہ بہرہ آدمی رو در رو بھی کوئی بات نہیں سن پاتا چہ جائیکہ اس وقت سن سکے جب وہ منہ موڑ لے اور پیٹھ پھیرے ہوئے ہو۔ قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سماع موتی کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے۔ مردے کسی کی بات نہیں سن سکتے۔ البتہ اس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جہاں سماعت کی صراحت کسی نص سے ثابت ہوگی۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ مردے کو جب دفنا کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے (صحيح بخاری نمبر 338 ، صحيح مسلم نمبر 2201) یا جنگ بدر میں کافر مقتولین کو جو قلیب بدر میں پھینک دیئے گئے تھے۔ نبی (ﷺ) نے خطاب فرمایا، جس پر صحابہ نے کہا ”آپ (ﷺ) بے روح جسموں سے گفتگو فرما رہے ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”یہ تم سے زیادہ میری بات سن رہے ہیں“۔ یعنی معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات مردہ کافروں کو سنوا دی (صحيح بخاری نمبر 1307) النمل
81 1- یعنی جن کو اللہ تعالیٰ حق سے اندھا کر دے، آپ ان کی اس طرح رہنمائی نہیں فرما سکتے جو انہیں مطلوب یعنی ایمان تک پہنچا دے۔ النمل
82 1- یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔ 2- یہ دابہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا (قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور کا نکلنا ہے۔ (صحيح مسلم كتاب الفتن، باب في الآيات التي تكون قبل الساعة، والسنن ) دوسری روایت میں ہے (سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہوگی ، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے ، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے فوراً بعد ہی ظاہر ہو جائے گی (صحيح مسلم، باب في خروج الدجال ومكثه في الأرض) 3- یہ جانور کے نکلنے کی علت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی یہ نشانی اس لیے دکھلائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں یا آیتوں (احکام) پر یقین نہیں رکھتے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ وہ جانور اپنی زبان سے ادا کرے گا۔ تاہم اس جانور کے لوگوں سے کلام کرنے میں تو کوئی شک نہیں کیونکہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے۔ النمل
83 1- یا قسم قسم کر دیئے جائیں گے۔ یعنی زانیوں کا ٹولہ، شرابیوں کا ٹولہ وغیرہ۔ یا یہ معنی ہیں کہ ان کو روکا جائے گا۔ یعنی ان کو ادھر ادھر اور آگے پیچھے ہونے سے روکا جائے گا اور سب کو ترتیب وار لا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ النمل
84 1- یعنی تم نے میری توحید اور دعوت کے دلائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اس کے بغیر ہی میری آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔ 2- کہ جس کی وجہ سے تمہیں میری باتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ النمل
85 1- یعنی ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا کہ جسے وہ پیش کرسکیں۔ یا قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے بولنے کی قدرت سے ہی محروم ہوں گے اور بعض کے نزدیک یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔ النمل
86 1- تاکہ وہ اس میں کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرسکیں۔ النمل
87 1- صور سے مراد وہی قرن ہے جس میں اسرافیل (عليہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے۔ یہ نفخے دو یا دو سے زیادہ ہوں گے۔ پہلے نفخے (پھونک) میں ساری دنیا گھبرا کر بےہوش اور دوسرے نفخے میں موت سے ہمکنار ہوجائے گی۔ تیسرے نفخے میں سب لوگ قبروں سے زندہ ہوکر اٹھ کھڑے ہوں گے اور بعض کے نزدیک ایک اور چوتھا نفخہ ہوگا جس سے سب لوگ میدان محشر میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ یہاں کون سا نفخہ مراد ہے؟ امام ابن کثیر کے نزدیک یہ پہلا نفخہ اور امام شوکانی کے نزدیک تیسرا نفخہ ہے جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔ 2- یہ مستثنیٰ لوگ کون ہوں گے۔ بعض کے نزدیک انبیا وشہدا، بعض کے نزدیک فرشتے اور بعض کے نزدیک سب اہل ایمان ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تمام مذکورین ہی اس میں شامل ہوں کیونکہ اہل ایمان حقیقی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے (جیسا کہ آگے آرہا ہے) النمل
88 1- یہ قیامت والے دن ہوگا کہ پہاڑ اپنی جگہوں پر نہیں رہیں گے بلکہ بادلوں کی طرح چلیں گے اور اڑیں گے۔ 2- یعنی یہ اللہ کی عظیم قدرت سے ہوگا جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن وہ ان مضبوط چیزوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح کر دینے پر قادر ہے۔ النمل
89 1- یعنی حقیقی اور بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوں گے۔ ﴿لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الأَكْبَرُ﴾ (الأنبياء: 103) النمل
90 النمل
91 1- اس سےمراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ (ﷺ) کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا۔ حرمت والا کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا، درخت کاٹنا حتیٰ کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے۔ (بخاری كتاب الجنائز، مسلم كتاب الحج باب تحريم مكة وصيدها، والسنن) النمل
92 1- یعنی میرا کام صرف تبلیغ ہے۔ میری دعوت وتبلیغ سے جو مسلمان ہو جائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، اور جو میری دعوت کو نہیں مانے گا، تو میرا کیا؟ اللہ تعالیٰ خود ہی اس سے حساب لے لے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا۔ النمل
93 1- کہ جو کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک حجت قائم نہیں کردیتا۔ 2- دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ﴾ (سورة حم السجدة: 53) ”ہم انہیں آفاق وانفس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے تاکہ ان پر حق واضح ہو جائے“۔ اگر زندگی میں یہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو موت کے وقت تو ان نشانیوں کو دیکھ کر ضرور پہچان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت کی معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس لیے کہ اس وقت ایمان مقبول نہیں۔ 3- بلکہ ہر چیز کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس میں کافروں کے لیے ترہیب شدید اور تہدید عظیم ہے۔ النمل
0 القصص
1 القصص
2 القصص
3 1- یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کر دینا جس طرح وہ پیش آئے، ناممکن ہے۔ تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہوگا، کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔ القصص
4 1- یعنی ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔ 2- جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔ 3- اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن ابتلا وآزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم رانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔ 4- جس کی وجہ بعض نجومیوں کی یہ پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کر دیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقیناً ہوکر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی طرف سے یہ خوشخبری منتقل ہوتی چلی آرہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہوگا جس کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہوگی۔ قبطیوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کر دیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کر دیا۔ (ابن کثیر) القصص
5 1- چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق ومغرب کا وارث (مالک وحکمران) بنا دیا (الاعراف: 137) نیز انہیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔ القصص
6 1- یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللهُ أَعْلَمُ۔ 2- یعنی انہیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک ولشکر کی تباہی ہوگی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔ القصص
7 1- وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے ، جو انبیا پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے ام موسیٰ (عليہ السلام) کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آجاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں اقرع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء) 2- یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہو جانے سے نہ ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔ 3- یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہو جائے اور پھر مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کر دیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں۔ حضرت ہارون (عليہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہیں کیے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ (عليہ السلام) قتل والے سال میں پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سروسامان اس طرح پیدا فرمایا کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے، جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آجائیں۔ اس لیے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہوگیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا، جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی والقا کے ذریعے سے موسیٰ (عليہ السلام) کی ماں کو سمجھا دیا۔ چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر) القصص
8 1- یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا ہی تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔ 2- یہ لام عاقبت کے لیے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کر لیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج وغم کا باعث، ثابت ہوا۔ 3- یہ ماقبل کی تعلیل ہے کہ موسیٰ (عليہ السلام) ان کے لیے دشمن کیوں ثابت ہوئے؟ اس لیے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطا کار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کوہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔ القصص
9 1- یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین وجمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ (عليہ السلام) نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لیے تھے تو فرعون نے ان کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ (ایسر التفاسیر) جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لیے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔ 2- کیوں کہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔ 3- کہ یہ بچہ، جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لیے سینکڑوں بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ القصص
10 1- یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ (خالی) ہوگیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ (عليہ السلام) کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بےقراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 2- یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ نے اس موسیٰ (عليہ السلام) کو بخیریت واپس لوٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہوگا۔ القصص
11 1- خواہر موسیٰ (عليہ السلام) کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی والدہ مریم بنت عمران تھیں۔ نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔ 2- چنانچہ وہ دریا کے کنارے کنارے ، دیکھتی رہی تھی، حتیٰ کہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔ القصص
12 1- یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ (عليہ السلام) کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کر دیا، چنانچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انہیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ 2- یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں ، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں (ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لیے پرورش کرے)۔ القصص
13 1- چنانچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ (عليہ السلام) سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ، چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ (عليہ السلام) کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔ 2- جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدۂ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچے کی صحیح پرورش اور نگہداشت ہوسکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی اپنے گھر لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دی جائے گی ، سبحان اللہ ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ (عليہ السلام) کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ ﴿فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ﴾ ایک مرسل روایت میں ہے ”اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ (عليہ السلام) کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے“ (مراسیل أبی داود) 3- یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ”ہوسکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لیے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لیے شرکا پہلو ہو“ (البقرۃ: 216) دوسرے مقام پر فرمایا ”ہوسکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لیے خیر کثیر پیدا فرما دے“ (النساء: 19) اس لیے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند وناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کرلے کہ اسی میں اس کے لیے خیر اور حسن انجام ہے۔ القصص
14 1- حکم اور علم سے مراد اگر نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے ، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل ودانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ماحول میں رہ کر سیکھے۔ القصص
15 1- اس سے بعض نے مغرب اور عشا کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا ہے۔ جب لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ 2- یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔ 3- اسے شیطانی فعل اس لیے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا مقصد اسے ہر گز قتل کرنا نہیں تھا۔ 4- جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے وہ جو جو جتن کرتا ہے، وہ بھی مخفی نہیں۔ القصص
16 1- یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبائر سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی حفاظت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لیے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انہیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انہیں قتل نہ کر دے۔ القصص
17 1- یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہوگا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔ بعض نے اس انعام سے مراد اس گناہ کی معافی لی ہے جو غیر ارادی طور پر قبطی کے قتل کی صورت میں ان سے صادر ہوا۔ القصص
18 1- خَائِفًا کے معنی ڈرتے ہوئے يَتَرَقَّبُ ، ادھر ادھر جھانکتے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا۔ 2- یعنی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا ہوا پایا گیا تھا اور آج پھر تو کسی سے دست بہ گریبان ہے، تو تو صریح بےراہ یعنی جھگڑالو ہے۔ القصص
19 1- یعنی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے چاہا کہ قبطی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔ 2- فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ (عليہ السلام) شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسیٰ ! ﴿أَتُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَنِي جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آگئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ (عليہ السلام) ہے، اس نے جاکر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ (عليہ السلام) کو قتل کرنے کا عزم کرلیا۔ القصص
20 1- یہ آدمی کون تھا؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم سے تھا جو درپردہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ (عليہ السلام) کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اور اقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔ القصص
21 1- جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آسکیں۔ 2- یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے قتل کا مشورہ کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے؟ کیوں کہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چنانچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انہیں راستے کی نشاندہی کی، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ (ابن کثیر) القصص
22 1- چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرما دی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔ القصص
23 1- یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) حضرت یعقوب (عليہ السلام) کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے پوتے (حضرت اسحاق عليہ السلام کے بیٹے) تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ (عليہ السلام) کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسر التفاسیر) اور یہی حضرت شعیب (عليہ السلام) کا مسکن ومبعث بھی تھا۔ 2- دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں؟ 3- تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔ رُعَاءٌ، رَاعٍ (چرواہا) کی جمع ہے۔ 4- اس لیے وہ خود گھاٹ پر پانی پلانے کے لیے نہیں آسکتے۔ القصص
24 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) اتنا لمبا سفر کرکے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چنانچہ جانورو ں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آکر مصروف دعا ہوگئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادات پر، قوت وطاقت پر اور مال پر (ایسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔ القصص
25 1- اللہ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی دعا قبول فرما لی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آگئی۔ لڑکی کی شرم وحیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے۔ اور مردوں کی طرح حیا وحجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لیے شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ 2- بچیوں کا باپ کون تھا؟ قرآن کریم نے صراحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب (عليہ السلام) کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب (عليہ السلام) کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لیے یہاں حضرت شعیب (عليہ السلام) کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب (عليہ السلام) کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے بچیوں کے ساتھ جو ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جاکر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی داعیہ پیدا ہوا کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کر دی جائے۔ 3- یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم وستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔ القصص
26 1- بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقت ور بھی ہے اور امانت دار بھی۔ جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لیے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا۔ اسی طرح جب میں اس کو بلا کر اپنے ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے۔ لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا کہ تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشاندہی کے لیے پیچھے سے پتھر، کنکری مار دیا کر، وَاللهُ أَعْلَمُ بِحَالِ صِحَّتِهِ۔ (ابن کثیر) القصص
27 1- ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شریعت الٰہیہ میں یہ مذموم نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اس سے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لیے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے، بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے۔ عہد رسالت مآب (ﷺ) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔ 2- اس سے علما نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے۔ 3- یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایذا محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔ 4- نہ جھگڑا کروں گا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لوں گا۔ القصص
28 1- یعنی آٹھ سال کے بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ 2- یہ بعض کے نزدیک شعیب (عليہ السلام) یا برادر زادہ شعیب (عليہ السلام) کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا۔ ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو۔ کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ (عليہ السلام) کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوگیا۔ باقی تفصیلات اللہ نے ذکر نہیں کی ہیں۔ ویسے اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ صحت نکاح کے لیے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔ القصص
29 1- حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ عليہ السلام کے لیے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا (فتح الباري كتاب الشهادات، باب من أمر بإنجاز الوعد) 2- اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جاسکتا ہے۔ القصص
30 1- یعنی آواز وادی کے کنارے سے آرہی تھی، جو مغربی جانب سے پہاڑ کے دائیں طرف تھی، یہاں درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے جو دراصل رب کی تجلی کا نور تھا۔ 2- یعنی اے موسیٰ! تجھ سے جو اس وقت مخاطب اور ہم کلام ہے، وہ میں اللہ ہوں رب العالمین۔ القصص
31 1- یہ موسیٰ (عليہ السلام) کا وہ معجزہ ہے جو کوہ طور پر، نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد ان کو ملا۔ چونکہ معجزہ خرق عادت معاملے کو کہا جاتا ہے یعنی جو عام عادات اور اسباب ظاہری کے خلاف ہو۔ ایسا معاملہ چونکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں۔ چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے جب موسیٰ (عليہ السلام) کے اپنے ہاتھ کی لاٹھی ، زمین پر پھینکنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پھنکارتی سانپ بن گئی، تو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) بھی ڈر گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا خوف دور ہوا اور یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کے لیے بطور دلیل یہ معجزہ انہیں عطا فرمایا ہے۔ القصص
32 1- یہ يَدٌ بَيْضَاءُ دوسرا معجزہ تھا جو انہیں عطا کیا گیا۔ كَمَا مَرَّ۔ 2- لاٹھی کے اژدھا بن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو لاحق ہوتا تھا، اس کا حل بتلا دیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کر یعنی بغل میں دبا لیا کر، جس سے خوف جاتا رہا کرے گا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف دور ہو جائے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی اقتدا میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم از کم ہلکا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ 3- یعنی فرعون اور اس کی جماعت کے سامنے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرو۔ یہ لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں اور اللہ کے دین کے مخالف ہیں۔ القصص
33 1- یہ وہ خطرہ تھا جو واقعی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوچکا تھا۔ القصص
34 1- اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی ، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں۔ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے مقابلے میں حضرت ہارون (عليہ السلام) فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ رِدْءًا کے معنی ہیں معین، مددگار، تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون (عليہ السلام) اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔ القصص
35 1- یعنی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی دعا قبول کرلی گئی اور ان کی سفارش پر حضرت ہارون (عليہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ان کا ساتھی اور مددگار بنا دیا گیا۔ 2- یعنی ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے، فرعون اور اس کے حوالی موالی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ 3- یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا مثلاً المائدۃ: 67، الاحزاب: 39 ، المجادلۃ: 21، المومن: 51 ،52۔ القصص
36 1- یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ ہمارے لیے بالکل نئی ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے۔ مشرکین مکہ نے بھی نبی (ﷺ) کی بابت کہا تھا ﴿أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ (ص: 5) ”اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کرکے) ایک ہی معبود بنا دیا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے“۔ القصص
37 1- یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لیے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہوگی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی؟۔ 2- اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت ومغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا۔ القصص
38 1- ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں۔ کیونکہ ظلم کے معنی ہیں ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحَلِّهِ“ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت ومغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوش حالی اور مال واسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ عارضی کامیابی اہل کفر وشرک کو بھی دنیا میں مل جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان سے کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوش حالی وفراوانی۔ 2- یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر۔ ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔ 3- یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے؟ 4- یعنی موسیٰ (عليہ السلام) جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالنہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔ القصص
39 1- زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور استکبار کا مطلب، بغیر استحقاق کے اپنے کو بڑا سمجھنا ہے۔ یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ (عليہ السلام) کے دلائل ومعجزات کا رد کر سکتی لیکن استکبار بلکہ عدوان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔ القصص
40 1- یعنی جب ان کا کفر وطغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا (جس کی تفصیل سورۂ شعراء میں گزر چکی ہے)۔ القصص
41 1- یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام وپیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔ القصص
42 1- یعنی دنیا میں بھی ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بدحال ہوں گے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں۔ جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔ القصص
43 1- یعنی فرعون اور اس کی قوم یا قوم نوح وعاد وثمود وغیرہ کی ہلاکت کے بعد موسیٰ (عليہ السلام) کو کتاب (تورات) دی۔ 2- جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ 3- یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انہیں خیر ورشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔ القصص
44 1- یعنی کوہ طور پر جب ہم نے موسیٰ (عليہ السلام) سے کلام کیا اور اسے وحی ورسالت سے نوازا، اے محمد! (ﷺ) تو نہ وہاں موجود تھا اور نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں سے تھا۔ بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں جو ہم وحی کے ذریعے سے تجھے بتلا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ تو اللہ کا سچا پیغمبر ہے۔ کیونکہ نہ تو نے یہ باتیں کسی سے سیکھی ہیں نہ خود ہی ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ آل عمران:44 سورہ ھود: 49،100، سورہ یوسف:102 سورہ طہ:99 وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔ القصص
45 1- قُرُونٌ، قَرْنٌ کی جمع ہے، زمانہ۔ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد! (ﷺ) آپ کے اور موسی، (عليہ السلام) کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔ 2- یعنی مرور ایام سے شرائع واحکام بھی متغیر ہوگئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے عہد کو فراموش کر دیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہوگئی کہ ایک نئے نبی کو مبعوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زمان کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت ورسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لیے آپ کی نبوت پر انہیں تعجب ہورہا ہے اور اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 3- جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہو جاتے۔ 4- اور اسی اصول سے ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات وواقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔ القصص
46 1- یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ (عليہ السلام) کے اس واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔ 2- یعنی آپ کا یہ علم، مشاہدہ و رویت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔ 3- اس سے مراد، اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی (ﷺ) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف ہی ہوتی رہی۔ بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی (ﷺ) پہلے نبی تھے اور سلسلۂ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے نہیں سمجھی گئی ہوگی کہ دوسرے انبیا کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لیے کفر وشرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لیے باقی نہیں چھوڑا ہے۔ القصص
47 1- یعنی ان کے اسی عذر کو ختم کرنے کے لیے ہم نے آپ کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا ہے۔ کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیا کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہوچکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نئے نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ (ﷺ) کی تعلیمات (قرآن وحدیث) کو مسخ ہونے اور تغییر وتحریف سے محفوظ رکھا ہے اور ایسا تکوینی انتظام فرما دیا ہے جس سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اور جو شخص اس (ضرورت) کا دعویٰ کرکے نبوت کا ڈھونگ رچاتا ہے، وہ جھوٹا اور دجال ہے۔ القصص
48 1- یعنی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے سے معجزات ، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ۔ 2- یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ؟ جنہیں ایمان نہیں لانا ہے، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ (عليہ السلام) کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہوگئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا؟ یا يَكْفُرُوا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ (عليہ السلام) کے ساتھ کفر نہیں کیا؟ 3- پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ وہارون علیہماالسلام ہوں گے اور سِحْرَانِ بمعنی سَاحِرَانِ ہوگا۔ اور دوسرے مفہوم میں اس سے قرآن اور تورات مراد ہوں گے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ (عليہ السلام) اور محمد (ﷺ) کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر) القصص
49 1- یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ قرآن مجید اور تورات دونوں جادو ہیں، تو تم کوئی اور کتاب الٰہی پیش کر دو، جو ان سے زیادہ ہدایت والی ہو، میں اس کی پیروی کر لوں گا۔ کیونکہ میں تو ہدایت کا طالب اور پیرو ہوں۔ القصص
50 1- یعنی قرآن وتورات سے زیادہ ہدایت والی کتاب پیش نہ کرسکیں اور یقیناً نہیں کرسکیں گے۔ 2- یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا یہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس لحاظ سے یہ قریش مکہ سب سے بڑے گمراہ ہیں جو اسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ 3- اس میں اللہ کی اسی سنت (طریقے) کا بیان ہے جو ظالموں کے لیے اس کے ہاں مقرر ہے کہ وہ ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے کہ انبیا کی تکذیب ، آیات الٰہی سے اعراض اور مسلسل کفر وعناد ایسا جرم ہے کہ جس سے قبول حق کی استعداد اور اثر پذیری کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد انسان ظلم وعصیان اور کفر وشرک کی تاریکیوں میں ہی بھٹکتا پھرتا ہے، اسے ایمان کی روشنی نصیب نہیں ہوتی۔ القصص
51 1- یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل، لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ 2- مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کرکے ایمان لے آئیں۔ القصص
52 1- اس سے مراد وہ یہودی ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) وغیرہ۔ یا وہ عیسائی ہیں جو حبشہ سے نبی (ﷺ) کی خدمت میں آئے تھے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر مسلمان ہوگئے تھے۔ (ابن کثیر) القصص
53 1- یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا او ر ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاریٰ وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم (ﷺ) پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آرہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیا کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ القصص
54 1- صَبْرٌ سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الٰہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آگیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لیے دوہرا اجر ہے ، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا، تین آدمیوں کے لیے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔ (صحيح بخاری، كتاب العلم، باب تعليم الرجل أمته وأهله- مسلم، كتاب الإيمان، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا) 2- یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کر دیتے اور درگزر سےکام لیتے ہیں۔ القصص
55 1- یہا ں لغو سے مراد وہ سب وشتم اور دین کے ساتھ استہزا ہے جو مشرکین کرتے تھے۔ 2- یہ سلام، سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ ہے یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں۔ جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں، جاہلوں کو دور ہی سے سلام ، ظاہر ہے سلام سے مراد ترک مخاطبت ہی ہے۔ القصص
56 1- یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی (ﷺ) کے ہمدرد اور غم گسار چچا جناب ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ (ﷺ) نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ ’’لا إِلَهَ إِلا اللهُ‘‘ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کرسکوں۔ لیکن وہاں دوسرے روسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگیا۔ نبی (ﷺ) کو اس بات کا بڑا قلق اور صدمہ تھا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی (ﷺ) پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ ودعوت اور رہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے راستے پر چلا دینا، یہ ہمارا کام ہے، ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة القصص- مسلم، كتاب الإيمان، باب أول الإيمان- قول لا إله إلا الله) القصص
57 1- یعنی ہم جہاں ہیں، وہاں ہمیں رہنے نہ دیا جائے گا اور ہمیں اذیتوں سے یا مخالفین سے جنگ وپیکار سے دو چار ہونا پڑے گا۔ یہ بعض کفار نے ایمان نہ لانے کا عذر پیش کیا۔ اللہ نے جواب دیا . . .۔ 2- یعنی ان کا یہ عذر غیر معقول ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو، جس میں یہ رہتے ہیں، امن والا بنایا ہے۔ جب یہ شہر ان کے کفر وشرک کی حالت میں ان کے لیے امن کی جگہ ہے تو کیا اسلام قبول کر لینے کے بعد وہ ان کے لیے امن کی جگہ نہیں رہے گا؟ 3- یہ مکے کی وہ خصوصیت ہے جس کا مشاہدہ لاکھوں حاجی اور عمرہ کرنے والے ہر سال کرتے ہیں کہ مکے میں پیداوار نہ ہونے کے باوجود نہایت فراوانی سے ہر قسم کا پھل بلکہ دنیا بھر کا سامان ملتا ہے۔ القصص
58 1- یہ اہل مکہ کو ڈرایا جارہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوکر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈر بنی ہوئی ہیں یا صرف صفحات تاریخ پر ان کا نام رہ گیا ہے۔ اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر کے لیےسستا لیں تو سستا لیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہنا پسند نہیں کرتا۔ 2- یعنی ان میں سے تو کوئی بھی باقی نہ رہا جو ان کے مکانوں اور مال ودولت کا وارث ہوتا۔ القصص
59 1- یعنی اتمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ أُمِّهَا (بڑی بستی) کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے ذیل میں آجاتے رہے ہیں۔ 2- یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر وشرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انہیں ہلاک کر دیا جاتا۔ یہی مضمون سورہ ھود: 117 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ القصص
60 1- یعنی کیا اس حقیقت سے بھی تم بےخبر ہو کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور حقیر بھی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے اپنے پاس جو نعمتیں ، آسائشیں اور سہولتیں تیار کر رکھی ہیں، وہ دائمی بھی ہیں اور عظیم بھی۔ حدیث میں ہے ”اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہوگا؟“ (صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب فناء الدنيا وبيان الحشر) القصص
61 1- یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہوگا۔ مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دوچار۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ القصص
62 1- یعنی وہ اصنام یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے ، انہیں مدد کے لیے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں؟ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں؟ یہ تقریع وتوبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کو مجال دم زدنی ہوگی؟ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت 194 اور دیگر بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ القصص
63 1- یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور داعیان کفروشرک وغیرہ، وہ کہیں گے۔ 2- یہ ان جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو داعیان کفر وضلال نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔ 3- یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کیے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نےان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنیٰ سے اشارے پر ہماری طرح ہی انھوں نے بھی گمراہی اختیار کر لی۔ 4- یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ 5- بلکہ درحقیقت اپنی ہی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین ، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کر دیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة الأنعام: 49 سورة مريم: 82،81 ، سورة الأحقاف: 5-6، سورة العنكبوت:25 سورة القمر: 167-166 وغيرها من الآيات۔ القصص
64 1- یعنی ان سے مدد طلب کرو، جس طرح دنیا میں کرتے تھے۔ کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں؟ پس وہ پکاریں گے۔ لیکن وہاں کس کو یہ جرات ہوگی کہ جو یہ کہے کہ ہاں ہم تمہاری مدد کرتے ہیں؟ 2- یعنی یقین کرلیں گے کہ ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ 3- یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ہدایت کا راستہ اپنا لیتے تو آج وہ اس حشر سے بچ جاتے۔ سورۃ الکہف: 53-52 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ القصص
65 1- اس سے پہلے کی آیات میں توحید سے متعلق سوال تھا، یہ ندائے ثانی رسالت کے بارے میں ہے، یعنی تمہاری طرف ہم نے رسول بھیجے تھے، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ان کی دعوت قبول کی تھی؟ جس طرح قبر میں سوال ہوتا ہے، تیرا پیغمبر کون ہے؟ اور تیرا دین کون سا ہے؟ مومن تو صحیح جواب دے دیتا ہے۔ لیکن کافر کہتا ہے هَاهْ هَاهْ لا أَدْرِي مجھے تو کچھ معلوم نہیں، اسی طرح قیامت والے دن انہیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں سوجھے گا۔ اسی لیے آگے فرمایا ”ان پر تمام خبریں اندھی ہو جائیں گی“۔ یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کرسکیں۔ یہاں دلائل کو اخبار سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان کے باطل عقائد کے لیے حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، صرف قصص وحکایات ہیں۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کے پاس من گھڑت کراماتی قصوں کے سوا کچھ نہیں۔ القصص
66 1- کیونکہ انہیں یقین ہوچکا ہوگا کہ سب جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔ القصص
67 القصص
68 1- یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائیکہ کوئی مختار کل ہو۔ القصص
69 القصص
70 القصص
71 القصص
72 القصص
73 1- دن اور رات، یہ دونوں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کرسکیں۔ اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقے سے سونے کا موقع نہ پاتا، جب کہ معاشی تگ ودو اور کاروبار جہاں کے لیے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ جاگ کر مصروف تگ وتاز ہوتے، تو سونے والوں کے آرام وراحت میں خلل پڑتا، نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے، جب کہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون وتناصر کا محتاج ہے اس لیے اللہ نے رات کو تاریک کر دیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کی نیند اور آرام میں مخل نہ ہوسکے۔ اسی طرح دن کو روشن بنایا تاکہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار بہتر طریقے سے کرسکے۔ دن کی یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ، اسے ہر شخص بآسانی سمجھتا اور اس کا ادراک رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کے حوالے سے اپنی توحید کا اثبات فرمایا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ دن اور رات کا یہ نظام ختم کرکے ہمیشہ کے لیے تم پر رات ہی مسلط کر دے۔ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دے؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لیے دن ہی دن رکھے تو کیا کوئی تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کرسکتا ہے، جس میں تم آرام کرسکو؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن اور رات کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ رات آتی ہے تو دن کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور تمام مخلوق آرام کر لیتی ہے اور رات جاتی ہے تو دن کی روشنی سے کائنات کی ہر چیز نمایاں اور واضح تر ہو جاتی ہے اور انسان کسب ومحنت کے ذریعے سے اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرتا ہے۔ 2- یعنی اللہ کی حمد وثنا بھی بیان کرو (یہ زبانی شکر ہے) اور اللہ کی دی ہوئی دولت، صلاحیتوں اور توانائیوں کو اس کے احکام وہدایات کے مطابق استعمال کرو۔ (یہ عملی شکر ہے) القصص
74 القصص
75 1- اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کر دیں گے۔ 2- یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود تم جو میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔ 3- یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہوں گے، کوئی جواب اور دلیل انہیں نہیں سوجھے گی۔ 4- یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔ القصص
76 1- اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال ودولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔ 2- تَنُوءُ کے معنی ہیں تَمِيلُ (جھکنا) یعنی جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے، اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقت ور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے دقت اور گرانی محسوس کرتی تھی۔ 3- یعنی مال ودولت پر فخر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل ، معنی کیے ہیں، بخل مت کر۔ 4- یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ القصص
77 1- یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر وثواب ملے گا۔ 2- یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر۔ مباحات دنیا کیا ہیں؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔ 3- اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر خرچ کرکے ان پر احسان کر۔ 4- یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔ القصص
78 1- ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب وتجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اس کا نتیجہ اور ثمر ہے، اللہ کے فضل وکرم سے اس کا کیا تعلق ہے؟ دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے (جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے ﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ﴾ (القصص۔ 78) أَيْ: عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللهِ یعنی ”مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا“۔ ایک مقام پر ہے جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے هَذَا لِي (حم السجدة: 50) أَيْ: هَذَا أَسْتَحِقُّهُ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔ 2- یعنی قوت اور مال کی فراوانی ، یہ فضیلت کا باعث نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ وبرباد نہ ہوتیں۔ اس لیے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔ 3- یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے وہ مستحق عذاب قرار دے دیئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔ القصص
79 1- یعنی زینت وآرائش اور خدم وحشم کے ساتھ۔ 2- یہ کہنے والے کون تھے؟ بعض کے نزدیک ایمان والے ہی تھے جو اس کی امارت وشوکت کے مظاہر سے متاثر ہوگئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔ القصص
80 1- یعنی جن کے پاس دین کا علم تھااور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لیے جو اجر وثواب رکھا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم وگمان میں ان کا گزر ہوا“۔ (البخاری، كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى ﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ﴾، ومسلم، كتاب الإيمان، باب أدنى أهل الجنة منزلة) 2- یعنی يُلَقَّاهَا میں ”ھا“ کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہوگی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آخرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔ القصص
81 1- یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ”ایک آدمی اپنی ازار زمین میں لٹکائے جارہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا“ (البخاری، كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء) القصص
82 1- مکان سے مراد وہ دنیاوی مرتبہ ومنزلت ہے جو دنیا میں کسی کو عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، امس ، گزشتہ کل کو کہتے ہیں۔ مطلب زمانہ قریب ہے۔ وَيْكَأَنَّ، اصل میں ”وَيْلَكَ اعْلَمْ أَنَّ“ ہے اس کو مخفف کرکے وَيْكَأَنَّ ، بنا دیا گیا ہے ، یعنی وَيْكَ أَنَّ۔ یعنی افسوس یا تعجب ہے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ . . . . بعض کے نزدیک یہ أَلَمْ تَرَ کے معنی میں ہے، (ابن کثیر) جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت وحشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دے دیتا ہے اور کسی کو کم۔ اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فراوانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی ناراضی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہی ہے۔ 2- یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔ 3- یعنی قارون نے دولت پاکر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راستہ اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔ القصص
83 1- عُلُوٌّ کا مطلب ہے ظلم وزیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر وغرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل واخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیشی کی بجائے اطاعت کیشی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔ القصص
84 1- یعنی کم ازکم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لیے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔ 2- یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل وکرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہوگا۔ القصص
85 1- یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ ودعوت آپ پر فرض کی ہے۔ 2- یعنی آپ کے مولد مکہ ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ 8 ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔ 3- یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی (ﷺ) کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سے انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟ القصص
86 1- یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لیے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہوگا۔ 2- یعنی یہ نبوت وکتاب سے سرفرازی ، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے ، جسے محنت اور سعی وکاوش سے حاصل کیا جاسکتا رہا ہو۔ بلکہ یہ سراسر ایک وہبی چیز تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت ورسالت سے مشرف فرماتا رہا۔ حتیٰ کہ حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کو اس سلسلہ الذہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا گیا۔ 3- اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔ القصص
87 1- یعنی ان کافروں کی باتیں، ان کی ایذا رسانی اور ان کی طرف سے تبلیغ ودعوت کی راہ میں رکاوٹیں، آپ کو قرآن کی تلاوت اور اس کی تبلیغ سے نہ روک دیں۔ بلکہ آپ پوری تن دہی اور یکسوئی سے رب کی طرف بلانے کا کام کرتے رہیں۔ القصص
88 1- یعنی کسی اور کی عبادت نہ کرنا، نہ دعا کے ذریعے سے، نہ نذر ونیاز کے ذریعے سے، نہ ہی قربانی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف ایک اللہ کے لیے خاص ہیں۔ قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو مافوق الاسباب طریقے سے پکارنا، ان سے استمداد واستغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔ 2- وَجْهَهُ (اس کا منہ) سے مراد اللہ کی ذات ہے جو وجہ (چہرہ) سے متصف ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہو جانے والی ہے۔ ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ﴾ (الرحمن۔ 26- 27) 3- یعنی اسی کا فیصلہ، جو وہ چاہے، نافذ ہوتا ہے اور اسی کا حکم، جس کا وہ ارادہ کرے، چلتا ہے۔ 4- تاکہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا دے۔ القصص
0 العنكبوت
1 العنكبوت
2 1- یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لیے، انہیں چھوڑ دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انہیں جان ومال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعے سے جانچا پر کھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا، سچے جھوٹے کا اور مومن ومنافق کا پتہ چل جائے۔ العنكبوت
3 1- یعنی یہ سنت الٰہی ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لیے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس ظلم وستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ (ﷺ) سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ یہ تشدد وایذا تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ (صحيح بخاری، كتاب أحاديث الأنبياء، باب علامات النبوة في الإسلام) حضرت عمار، ان کی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔ العنكبوت
4 1- یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آسکیں گے۔ 2- یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی . پھر اس کی نافرمانی کرکے اس کے مواخذہ وعذاب سے بچنا کیوں کر ممکن ہے؟ العنكبوت
5 1- یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر وثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں برلائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزا عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقیناً برپا ہوکر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہوگی۔ 2- وہ بندوں کی باتوں اور دعاوں کا سننے والا اور ان کے چھپے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے۔ اس کے مطابق وہ جزا وسزا بھی یقیناً دے گا۔ العنكبوت
6 1- اس کا مطلب وہی ہے جو ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ﴾ (الجاثية: 15) کا ہے یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو بندوں کے افعال سے بےنیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت واضافہ نہیں ہوگا اور سب نافرمان ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہوگی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔ العنكبوت
7 1- یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ محض اپنے فضل وکرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر وثواب دے گا۔ العنكبوت
8 1- قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (الہٰ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقے سے وہی سمجھ سکتا اور انہیں ادا کرسکتا ہے جو والدین کی اطاعت وخدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور اس کی تربیت وپرداخت، ان کی غایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لیے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ یقیناً خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید وعبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لیے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضی کو رب کی ناراضی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ 2- یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم بھی شامل ہے) اور اس کے لیے خاص کوشش بھی کریں۔ (جیسا کہ مجاہدہ کے لفظ سے واضح ہے) تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ [ لا طَاعَةَ لأَحَدٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ] (مسند أحمد5/66 والصحيحة للألباني، نمبر 179) ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں“۔ اس آیت کی شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی الله عنہ) ، کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر ان کی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (ﷺ) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح مسلم، ترمذي، تفسير سورة العنكبوت) العنكبوت
9 1- یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہوگا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنا بریں [ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ] کے تحت وہ زمرۂ صالحین میں ہوگا۔ العنكبوت
10 1- اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انہیں ایذا پہنچتی ہے تو عذاب الٰہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتاً وہ ایمان سے پھر جاتے اور دین عوام کو اختیار کر لیتے ہیں۔ 2- یعنی مسلمانوں کو فتح وغلبہ نصیب ہو جائے۔ 3- یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہے، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جاکر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا اور مسلمانوں سے تم کو نہیں بچایا تھا۔ (النساء: 141) 4- یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھ ہونا ظاہر کرتے ہو۔ العنكبوت
11 1- اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہو جائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے ، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ﴾ (سورة محمد: 31) ”ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالت بھی جانچیں گے“۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار وامتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا: ﴿مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ﴾ (سورة آل عمران: 179) ”نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے“۔ العنكبوت
12 1- یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آو، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لیے کہ وہی دین صحیح ہے۔ اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہوگے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔ 2- اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔ قیامت کا دن تو ایسا ہوگا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ وہاں تو ایک دوست ، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ ﴿وَلا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا﴾ (المعارج: 10) حتیٰ کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے ﴿وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى﴾ (سورة فاطر: 18) اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔ العنكبوت
13 1- یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہوگا جو ان کی سعی وکاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورۃ النحل آیت 25 میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے ، اس کے لیے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہوگا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہوگا، اس کے لیے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہوں گے، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ (أبو داود، كتاب السنة، باب لزوم السنة ،ابن ماجہ، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة) اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم (عليہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہوگا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا (مسند أحمد 1/383 وقد أخرجه الجماعة سوى أبي داود من طرق ) العنكبوت
14 1- قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت وتبلیغ کی عمر ہے۔ ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لیے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں، وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ العنكبوت
15 العنكبوت
16 العنكبوت
17 1- أَوْثَانٌ وَثَنٌ کی جمع ہے۔ جس طرح أَصْنَامٌ، صَنَمٌ کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم ، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ ﴿تَخْلُقُونَ إِفْكًا کے معنی ہیں تُكَذِّبُونَ كَذِبًا ، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں ’’تَعْمَلُونَهَا وَتَنْحِتُونَهَا لِلإِفْكِ‘‘، جھوٹے مقصد کے لیے انہیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر تم جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انہیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے۔ یا یہ بت تو وہ ہیں جنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور گھڑتے ہو اور جب ان کی ایک خاص شکل وصورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ اب ان میں خدائی اختیارات آگئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کرکے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کر لیتے ہو۔ 2- یعنی جب یہ بت تمہاری روزی کے اسباب ووسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لاکر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔ 3- یعنی مرکر اور پھر دوبارہ زندہ ہوکر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟ العنكبوت
18 1- یہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا قول بھی ہوسکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی (ﷺ) کو تسلی دی جارہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔ پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی وہ ہلاکت وتباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔ 2- اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اس کی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق، جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ العنكبوت
19 1- توحید ورسالت کے اثبات کے بعد، یہاں سے معاد (آخرت) کا اثبات کیا جارہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہیں تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مرکر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام ونشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ 2- یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔ العنكبوت
20 1- یعنی آفاق میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھو زمین پر غور کرو، کس طرح اسے بچھایا، اس میں پہاڑ ، وادیاں، نہریں اور سمندر بنائے، اسی سے انواع واقسام کی روزیاں اور پھل پیدا کیے۔ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا کوئی بنانے والا ہے؟ العنكبوت
21 1- یعنی وہی اصل حاکم اور متصرف ہے، اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ تاہم اس کا عذاب یا رحمت، یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوگی، بلکہ ان اصولوں کے مطابق ہوگی جو اسنے اس کے لیے طے کر رکھے ہیں۔ العنكبوت
22 العنكبوت
23 1- اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفیض ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائشیں اور مال ودولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾ (الأعراف: 156) ”میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے“۔ لیکن آخرت چونکہ دارالجزا ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا، اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہوگی، جیسے عمل کیے ہوں گے، اسی کی جزا اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بےلاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک وبد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن وکافر دونوں ہی رحمت الٰہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو ان کی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے ناامید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الٰہی نہیں آئے گی۔ سورۂ اعراف میں ان کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ ﴿فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ﴾ (الأعراف: 156) ”میں یہ رحمت (آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے“۔ العنكبوت
24 1- ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جارہا ہے۔ درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت وطاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم (عليہ السلام) ہی کے وعظ کا حصہ ہے، جس میں انہوں نے توحید ومعاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سےنہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم وتشدد کی اس کارروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو۔ چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کرکے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو منجنیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔ 2- یعنی اللہ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا، جیسا کہ سورہ انبیاء میں گزرا۔ العنكبوت
25 1- یعنی یہ تمہارے قومی بت ہیں جو تمہاری اجتماعیت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ 2- یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کے بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع ، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ العنكبوت
26 1- حضرت لوط (عليہ السلام) ، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی (سدوم) کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔ 2- یہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط (عليہ السلام) نے۔ اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہی ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم (عليہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے لوط (عليہ السلام) کے لیے اپنے علاقے، (كوثى) میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوگئی تو وہاں سے ہجرت کرکےشام کے علاقےمیں چلے گئے۔ تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اہلیہ سارہ تھیں۔ العنكبوت
27 1- یعنی حضرت اسحاق (عليہ السلام) سے یعقوب (عليہ السلام) ہوئے ، جن سے بنی اسرائیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیا ہوئے، اور کتابیں آئیں۔ آخر میں حضرت نبی کریم (ﷺ) حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کی نسل سے نبی ہوئے اور آپ (ﷺ) پر قرآن نازل ہوا۔ 2- اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتیٰ کہ مشرکیں بھی) حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی عزت وتکریم کرتے ہیں اورمسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کےپیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہوں گے؟ 3- یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہوں گے۔ اسی مضمون کو دوسرے مقام پراس طرح بیان فرمایا ﴿وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ﴾ (سورة النحل: 122) العنكبوت
28 1- اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط (عليہ السلام) نے ہی سب سے پہلے کیا، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔ العنكبوت
29 1- یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ اس کے لیے طبعی طریقے تمہارے لیے ناکافی ہوگئے ہیں اور غیر طبعی طریقہ تم نے اختیار کر لیا ہے۔ جنسی شہوت کی تسکین کے لیے طبعی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے مباشرت کی صورت میں رکھا ہے۔ اسے چھوڑ کر اس کام کے لیے مردوں کی دبر استعمال کرنا غیر فطری اور غیر طبعی طریقہ ہے۔ 2- اس کے ایک معنی تو یہ کیے گئے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں، نوواردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بےحیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لیے راستوں سے گزرنا مشکل ہوگیا اور لوگ گھروں میں بیٹھے رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ دوسرے معنی ہیں کہ تم آنے جانے والوں کو لوٹ لیتے اور قتل کر دیتے ہو یا ازراہ شرارت انہیں کنکریاں مارتے ہو۔ تیسرے معنی کیے گئے ہیں کہ سرراہ ہی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس سے وہاں سے گزرتے ہوئے لوگ شرم محسوس کرتے ہیں۔ ان تمام صورتوں سے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ کسی ایک خاص سبب کی تعیین تو مشکل ہے تاہم وہ ایسا کام ضرور کرتے تھے ، جس سے عملاً راستہ بند ہو جاتا تھا۔ قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کیے گئے ہیں۔ یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کے بجائے مردوں کی دبر استعمال کرکے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئےہو۔ (فتح القدیر) 3- یہ بےحیائی کیا تھی؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلاً لوگوں کو کنکریاں مارنا ، اجنبی مسافر کا استہزا واستخفاف ، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قمار بازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں (کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں)۔ 4- حضرت لوط (عليہ السلام) نے جب انہیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہا . . .۔ العنكبوت
30 1- یعنی جب حضرت لوط (عليہ السلام) قوم کی اصلاح سے ناامید ہوگئے تو اللہ سے مدد کی دعا فرمائی . . .۔ العنكبوت
31 1- یعنی حضرت لوط (عليہ السلام) کی دعا قبول فرمالی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہلاک کرنے کے لیے بھیج دیا۔ وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے پاس گئے اور انہیں اسحاق (عليہ السلام) ویعقوب (عليہ السلام) کی خوش خبری دی اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم لوط (عليہ السلام) کی بستی ہلاک کرنے آئے ہیں۔ العنكبوت
32 1- یعنی ہمیں علم ہے کہ اخیار اور مومن کون ہیں اور اشرار کون؟۔ 2- یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مومنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی، اس لیے اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔ العنكبوت
33 1- ﴿سِيءَ بِهِمْ﴾ کے معنی ہیں ان کے پاس ایسی چیز آئی جو انہیں بری لگی اور اس سے ڈر گئے۔ اس لیے کہ لوط (عليہ السلام) نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انہیں ہوگیا تو وہ ان سے زبردستی بے حیائی کا ارتکاب کریں گے، جس سے میری رسوائی ہوگی۔ ﴿ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا یہ کنایہ ہے عاجزی سے جیسے ضَاقَتْ يَدُهُ (ہاتھ کا تنگ ہونا) کنایہ ہے فقر سے۔ یعنی ان خوش شکل مہمانوں کو بدخصلت قوم سے بچانے کی کوئی تدبیر انہیں نہیں سوجھی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔ 2- فرشتوں نے حضرت لوط (عليہ السلام) کی اس پریشانی اور غم وحزن کی کیفیت کو دیکھا تو انہیں تسلی دی، اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور حزن نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو، سوائے آپ کی بیوی کے، نجات دلانا ہے۔ العنكبوت
34 1- اس آسمانی عذاب سے وہی عذاب مراد ہے جس کے ذریعے سے قوم لوط کو ہلاک کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل (عليہ السلام) نے ان کی بستیوں کو زمین سے اکھیڑا آسمان کی بلندیوں تک لے گئے، پھر ان کو ان ہی پر الٹا دیا گیا، اس کے بعد کھنگر پتھروں کی بارش ان پر ہوئی اور اس جگہ کو سخت بدبودار بحیرہ (چھوٹے سمندر) میں تبدیل کر دیا گیا۔ (ابن کثیر) العنكبوت
35 1- یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبودار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں۔ مگر کن کے لیے؟ دانش مندوں کے لیے۔ 2- اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب وعوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج وآثار کو دیکھتے ہیں لیکن جو لوگ عقل وشعور سے بےبہرہ ہوتے ہیں، انہیں ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو ان جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبج کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل ودانش سے بےبہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔ العنكبوت
36 1- مدین حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا۔ ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑ گیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلہ مدین کی طرف حضرت شعیب (عليہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط (عليہ السلام) کی بستی کے قریب ہی تھا۔ 2- اللہ کی عبادت کے بعد، انہیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لیے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لیے کہ وہ اسے فراموش کیے ہوئے تھے اور معصیتوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فراموش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔ 3- ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا، یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں بھی انہیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔ العنكبوت
37 1- حضرت شعیب (عليہ السلام) کے وعظ ونصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل (عليہ السلام) کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ العنكبوت
38 1- قوم عاد کی بستی۔ احقاف، حضر موت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آج کل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لیے یہ بستیاں ان کے لیے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔ 2- یعنی تھے وہ عقل مند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل وبصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لیے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔ العنكبوت
39 1- یعنی دلائل ومعجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا، اور بدستور متکبر بنے رہے یعنی ایمان وتقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔ 2- یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آکر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اسی طرح کفر وعناد کا راستہ اختیار کیے رکھا تھا۔ العنكبوت
40 1- یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی، ان کے گناہوں کی پاداش میں، ہم نے گرفت کی۔ 2- یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تندوتیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی ، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انہیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انہیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہو جاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے حاصبا کا مصداق قوم لوط (عليہ السلام) کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔ 3- یہ حضرت صالح (عليہ السلام) کی قوم، ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے ان کی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کر دیا۔ 4- یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کیے گئے تھے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا کہ یہ مال ودولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ (عليہ السلام) کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ 5- یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کرکے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعویٰ بھی کر دیا۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لانے سے اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔ 6- یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لیے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لیے ہلاک ہوئیں کہ کفر وشرک اور تکذیب ومعاصی کا ارتکاب کرکے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔ العنكبوت
41 1- یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت بودا، کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے ادنیٰ سے اشارے سے وہ نابود ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی، یعنی بالکل بے فائدہ ہے، کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اس لیے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر ناپائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔ العنكبوت
42 العنكبوت
43 1- یعنی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لیے۔ 2- اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات ودلائل کا علم ہے جن پر غور وفکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔ العنكبوت
44 1- یعنی عبث اور بے مقصد نہیں۔ 2- یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم وحکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اسکے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ العنكبوت
45 1- قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے، محض اجر وثواب کے لئے، اس کے معانی ومطالب پر تدبروتفکر کے لئے، تعلیم وتدریس کے لئے، اور وعظ ونصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری ہی صورتیں شامل ہیں۔ 2- کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق خصوصی اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم وثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں کہا گیاہے اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو (البقرۃ: 153) نمازاور صبر کوئی مرئی چیز تو ہے نہیں کہ انسان ان کا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کر لے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط وتعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لئے نبی (ﷺ) کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی، کیونکہ آپ (ﷺ) کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ (ﷺ) کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت (ﷺ) کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ (ﷺ) نماز کا اہتمام فرماتے [ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ فَزِعَ إِلى الصَّلاةِ ] (مسند أحمد وأبو دود) 3- یعنی، بے حیائی اور برائی کے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتاً ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے۔ ایک دوائی پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائےجو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقیناً اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت، جب نماز کو سنت نبوی (ﷺ) کے مطابق ان آداب اور شرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت وقبولیت کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً اس کے لئے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیاً طہارت قلب، یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو، ثالثاً باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلوۃ (قراءت، رکوع، قومہ، سجدہ وغیرہ) میں اعتدال واطمینان، خامساً خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادساً مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام، سابعاً رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں، اس لئے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں، جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ بے حیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔ 4- یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلوٰۃ سے بھی زیادہ موثر ہے۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔ العنكبوت
46 1- اس لئے کہ وہ اہل علم وفہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت واستعداد رکھتے ہیں۔ بنا بریں ان سے بحث وگفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔ 2- یعنی جو بحث ومجادلہ میں افراط سےکام لیں تو تمہیں بھی سخت لب ولہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لئے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت ونصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظَلَمُوا مِنْهُمْ کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کےخلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال وقتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے۔ ان سے تم بھی قتال کرو تا آنکہ مسلمان ہو جائیں، یا جزیہ دیں۔ 3- یعنی تورات وانجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سےنازل کردہ ہیں اور یہ کہ یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الہیہٰ ہیں۔ العنكبوت
47 1- اس سے مراد عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) وغیرہ ہیں۔ ایتائے کتاب سے مراد اس پر عمل ہے۔ گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انہیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔ 2- ان سے مراد اہل مکہ ہیں جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔ العنكبوت
48 1- اس لئے کہ ان پڑھ تھے۔ 2- اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نےکسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔ 3- یعنی اگر آپ (ﷺ) پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سےکچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔ العنكبوت
49 1- یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہےکہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہوتا ہے۔ العنكبوت
50 1- یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت ومشیت، جن بندوں پر اتارنے کی مقتضی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔ العنكبوت
51 1- یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لئے بطور نشانی یہ قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے اور جس کی بابت انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کر دکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں۔ جب قرآن کی اس معجز ہ نمائی کےباوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کی طرح انہیں معجزے دکھا بھی دیئے جائیں تو ان پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے؟ 2- یعنی ان لوگوں کے لئےجو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیونکہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔ العنكبوت
52 1- اس بات پر کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور جو کتاب مجھ پر نازل ہوئی ہے، یقیناً من جانب اللہ ہے۔ 2- یعنی غیر اللہ کو عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور جو فی الواقع مستحق عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ، اس کا انکار کرتے ہیں۔ 3- کیونکہ یہی لوگ فساد عقلی اور سوء فہم میں مبتلا ہیں، اسی لئے انہوں نے جو سودا کیا ہےکہ ایمان کے بدلے کفر اور ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اس میں بھی یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ العنكبوت
53 1- یعنی پیغمبر کی بات ماننے کے بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔ 2- یعنی ان کے اعمال واقوال تو یقیناً اس لائق ہیں کہ انہیں فوراً صفحۂ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے۔ لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں، جب وہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو ہمارا عذاب آجاتا ہے۔ 3- یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آجائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلےگا، یہ وقت مقرر وہ ہےجو اس نے اہل مکہ کے لئے لکھ رکھا تھا، یعنی جنگ بدر میں اسارت وقتل، یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لئے عذاب ہی عذاب ہے۔ العنكبوت
54 1- پہلا يَسْتَعْجِلُونَكَ بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ (جہنم) ان کو اپنےگھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ پھر بھی عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں؟ حالاں کہ ہرآنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے، اسے دور کیوں سمجھتے ہیں؟ یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔ العنكبوت
55 1- يَقُولُ، کا فاعل اللہ ہے یا فرشتے، یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہوگا تو کہا جائے گا۔ العنكبوت
56 1- اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو، ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور پھر بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ العنكبوت
57 1- یعنی موت کا جرعۂ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے، ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی، اس لئےتمہارے لئے وطن کا، رشتے داروں کا، اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ موت تو تم جہاں بھی ہوں گے آجائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مرو گے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہو گے، اس لئے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔ العنكبوت
58 1- یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہوں گے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہوں گی، علاوہ ازیں انہیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہو جائے گا۔ 2- ان کے زوال کا خطرہ ہوگا، نہ انہیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھر جانے کا خوف۔ العنكبوت
59 1- یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل وعیال اور عزیز واقربا سےدوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔ 2- دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔ العنكبوت
60 1- كَأَيِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔ 2- کیونکہ اٹھا کر لے جانے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نےہجرت کو جانے والے صحابہ (رضی الله عنہم) کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے کے بعد انہیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔ رضی الله عنہم أَجْمَعِينَ. 3- یعنی کمزور ہے یا طاقت ور، اسباب ووسائل سے بہرہ ور ہے یا بے بہرہ، اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بے وطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں، پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے۔ اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر وفاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔ 4- وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال وافعال کو اور تمہارے ظاہر وباطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت وکمال ہے اور اس کی معصیت میں شقاوت ونقصان۔ العنكبوت
61 1- یعنی یہ مشرکین، جو مسلمانوں کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان وزمین کو عدم سےوجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے؟ تو وہاں یہ اعتراف کیے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے۔ 2- یعنی دلائل واعتراف کے باوجود حق سے یہ اعراض اور گریز باعث تعجب ہے۔ العنكبوت
62 1- یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہوتو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟ اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق جس کو چاہتا ہے کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضا مندی یا غضب سے نہیں ہے۔ 2- اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں؟ العنكبوت
63 1- کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کےساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندر یہ تناقض ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت وربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔ العنكبوت
64 1- یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لئے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے، وہ ایک کھیل کود سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لئے شب روز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں، پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 2- اس لئے ایسےعمل صالح کرنے چاہئے جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔ 3- کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بے پرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے انکا علاج علم ہے، علم شریعت۔ العنكبوت
65 1- مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس تناقض کو حضرت عکرمہ (رضی الله عنہ) سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوگئی۔ ان کے متعلق آیا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے تاکہ نبی (ﷺ) کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص سے رب سے دعائیں کرو، اس لئےکہ یہاں اس کےعلاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ (رضی الله عنہ) نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہاں سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اور اسی وقت اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیرت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا یعنی مسلمان ہو جاؤں گا، چنانچہ یہاں سے نجات پاکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا (رضی الله عنہ)۔ (ابن کثیر بحوالہ سیرت محمد بن اسحاق) العنكبوت
66 یہ لام کَی ہے جو علت کے لئے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا، اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے متمتع ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ یہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف الہٰ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ بعض کے نزدیک یہ لام عاقبت کے لئے ہے، یعنی گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔ العنكبوت
67 1- اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل وغارت، اسیری، لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں، جب کہ عرب کے دوسرےعلاقے اس امن وسکون سے محروم ہیں قتل وغارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔ 2- یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا اقتضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر (ﷺ) کی تصدیق کرتے۔ العنكبوت
68 1- یعنی دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے دراں حالیکہ ایسا نہ ہو یا کوئی یہ کہے کہ میں بھی وہ چیز اتار سکتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے۔ یہ افتراہے اور مدعی مفتری۔ 2- یہ تکذیب ہے اور اس کا مرتکب مکذب۔ افترا اور تکذیب دونوں کفر ہیں جس کی سزا جہنم ہے۔ العنكبوت
69 1- یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں اور مشکلات پیش آتی ہیں۔ 2- اس سے مراد دنیا وآخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ 3- احسان کا مطلب ہے اللہ کوحاضر ناظر جان کر ہرنیکی کےکام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی (ﷺ) کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے میں برائی کے بجائے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کےمفہوم میں شامل ہیں۔ العنكبوت
0 الروم
1 الروم
2 الروم
3 الروم
4 الروم
5 1- عہدرسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک فارس (ایران) کی، دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی یعنی اہل کتاب تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ دونوں غیر اللہ کے پجاری تھے۔ جبکہ مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں، اس لیے کہ عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی ورسالت پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ نبی (ﷺ) کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی، جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا، اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں یہ پیش گوئی کی گئی کہ بِضْعِ سِنِينَ کے اندر رومی پھر غالب آجائیں گے اور غالب، مغلوب اور مغلوب غالب ہو جائیں گے۔ بظاہر اسباب یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کےاس فرمان کی وجہ سےیقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لئےحضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) نےابوجہل سے یہ شرط باندھ لی کہ رومی پانچ سال کےاندر دوبارہ غالب آجائیں گے۔ نبی (ﷺ) کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا کہ بِضْعٌ کا لفظ تین سےدس تک کےعدد کے لئے استعمال ہوتا ہے تم نے 5 سال کی مدت کم رکھی ہے، اس میں اضافہ کر لو۔ چنانچہ آپ (ﷺ) کی ہدایت کے مطابق حضرت ابوبکر (رضی الله عنہ) نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ رومی 9 سال کی مدت کےاندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آگئے، جس سے یقیناً مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی، (ترمذی، تفسیر سورۃ الروم) بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی، جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا،اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ نزدیک کی زمین سے مراد، عرب کی زمین کے قریب کے علاقے ہیں، یعنی شام وفلسطین وغیرہ، جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ الروم
6 1- یعنی اے محمد! (ﷺ) ہم آپ کو جو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب رومی، فارس پر دوبارہ غالب آجائیں گے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو مدت موعود کے اندر یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔ الروم
7 1- یعنی اکثر لوگوں کو دنیوی معاملات کا خوب علم ہے۔ چنانچہ وہ ان میں تو اپنی چابک دستی اور مہارت فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا فائدہ عارضی اور چند روزہ ہے لیکن آخرت کےمعاملات سے یہ غافل ہیں جن کا نفع مستقل اورپائیدار ہے۔ یعنی دنیا کےامور کو خوب پہچانتے ہیں اور دین سے بالکل بے خبر ہیں۔ الروم
8 1- یا ایک مقصد اور حق کےساتھ پیدا کیا ہے، بے مقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں نیست سےہست کیا اور پانی کے ایک حقیرقطرے سےان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان وزمین کا ایک خاص مقصد کے لئےوسیع وعریض سلسلہ قائم کیا، نیز ان سب کے لئے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہو جائےگا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقیناً اللہ کے وجود، اس کی ربوبیت والوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انہیں ادراک واحساس ہو جاتا اور اس پر ایمان لےآتے۔ 2- اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور وفکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کےانکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔ الروم
9 1- یہ آثار وکھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور وفکر نہ کرنے پر توبیخ کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔ 2- یعنی ان کافروں کا، جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک کیا۔ 3- یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔ 4- یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔ 5- اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے، پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت وکاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔ 6- لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ نتیجتاً تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت وخوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔ 7- کہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا۔ 8- یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کرکے۔ الروم
10 1- سُوآى، بروزن فُعْلَى، سُوءٌ سے أَسْوَأُ کی تانیث ہے جیسے حُسْنَى، أَحْسَنُ کی تانیث ہے۔ یعنی ان کا جو انجام ہوا، بدترین انجام تھا۔ الروم
11 1- یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادرہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا، پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ 2- یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں، جہاں وہ عدل وانصاف کا اہتمام فرمائے گا۔ الروم
12 1- إِبْلاسٌ کے معنی ہیں، اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کر سکنا اور حیران وساکت کھڑے رہنا۔ اسی کو ناامیدی کے مفہوم سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مُبْلِسٌ وہ ہوگا جو ناامید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے دلیل نہ سوجھ رہی ہو،قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہوگا یعنی معاینہ عذاب کے بعد وہ ہر خبرسے مایوس اور دلیل وحجت پیش کرنے سے قاصر ہوں گے۔ مجرموں سے مراد کافر ومشرک ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے۔ الروم
13 1- شریکوں سے مراد وہ معبودان باطلہ ہیں جن کی مشرکین، یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے۔ لیکن اللہ نے یہاں وضاحت فرما دی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ 2- یعنی وہاں ان کی الوہیت کے منکر ہو جائیں گے کیونکہ وہ دیکھ لیں گے کہ یہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔ (فتح القدیر) دوسرے معنی ہیں کہ یہ معبود اس بات سے انکار کر دیں گے کہ یہ لوگ انہیں اللہ کا شریک گردان کر ان کی عبادت کرتے تھے، کیونکہ وہ تو ان کی عبادت سے ہی بے خبر ہیں۔ الروم
14 1- اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مومنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے۔ اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر وشرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہو جائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکھٹے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہوگا۔ چنانچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جا رہی ہے۔ الروم
15 1- یعنی انہیں جنت میں اکرام وانعام سے نوازا جائے گا، جن سے وہ مزید خوش ہوں گے۔ الروم
16 1- یعنی ہمیشہ اللہ کےعذاب کی گرفت میں رہیں گے۔ الروم
17 الروم
18 1- یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح وتحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت وعظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح وتحمید کیا کرو، شام کا وقت، رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدۂ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء، شدت تاریکی کا اور ظہر، خوب روشن ہو جانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہےجو ان سب کی خالق ہے اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقات ہیں۔ تُمْسُونَ میں مغرب وعشاء، تُصْبِحُونَ میں نماز فجر، عَشِيًّا (سہ پہر) میں عصر اور تُظْهِرُونَ میں نماز ظہر آجاتی ہے، (فتح القدیر) ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح وشام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب وروز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ (أبو داود ، كتاب الأدب ، باب ما يقول إذا أصبح الروم
19 1- جیسے انڈے کو مرغی سے، مرغی کو انڈے سے۔ انسان کو نطفے سے، نطفے کو انسان سے اور مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا فرماتا ہے۔ 2- یعنی قبروں سے زندہ کرکے۔ الروم
20 1- إِذَا فُجَائِيَّة ہے۔ مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہےجن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ تَنْتَشِرُونَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات وضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔ الروم
21 1- یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہو جاؤ زَوْجٌ عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے لئے اور عورت مرد کے لئے زوج ہے۔ عورت کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا۔ کو حضرت آدم (عليہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔ 2- مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے وہ سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت ووحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔ 3- مَوَدَّةٌ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائشیں بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت واختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہےجو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں زانی اور بدکار قرار دیتا اور ان کے لئے سخت سزا تجویز کرتا ہے۔ آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد وعورت کو (جوڑا) (COUPLE) تسلیم کروایا جائے اور ان کے لئےسزا کے بجائے، وہ حقوق منوائے جائیں، جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔ قَاتَلَهُمْ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ . الروم
22 1- دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کر دینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، عربی ہے،ترکی ہے،انگریزی ہے، اردو ، ہندی ہے، پشتو، فارسی، سندھی، بلوچی وغیرہ ہے۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں اپنی زبان اور اپنے لہجے سے پہچان لیا جاتا ہے کہ یہ شخص فلاں ملک اور فلاں علاقہ کا ہے۔ صرف زبان ہی اس کا مکمل تعارف کرا دیتی ہے۔ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم وحواعليہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کوئی کالا ہے، کوئی گورا، کوئی نیلگوں ہے تو کوئی گندمی رنگ کا، پھر کالے اور سفید رنگ میں بھی اتنے درجات رکھ دیئے ہیں کہ بیشتر انسانی آبادی دو رنگوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ان کی بیسیوں قسمیں ہیں اور ایک دوسرے سےیکسر الگ اور ممتاز۔ پھر ان کے چہروں کے خدوخال، جسمانی ساخت اور قدوقامت میں ایسا فرق رکھ دیاگیا ہے کہ ایک ایک ملک کا انسان الگ سے پہچان لیا جاتا ہے۔ یعنی باوجود اس بات کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نہیں ملتا، حتیٰ کہ ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ الروم
23 1- نیند کا، باعث سکون وراحت ہونا چاہئے وہ رات کو ہو یا بہ وقت قیلولہ، اور دن کو تجارت وکاروبار کے ذریعے سے اللہ کا فضل تلاش کرنا، یہ مضمون کئی جگہ گزر چکاہے۔ الروم
24 1- یعنی آسمان میں بجلی چمکتی اور بادل کڑکتے ہیں، تو تم ڈرتے بھی ہو کہ کہیں بجلی گرنے یا زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتیاں برباد نہ ہو جائیں اور امیدیں بھی وابستہ کرتے ہو کہ بارشیں ہوں گی تو فصل اچھی ہوگی۔ الروم
25 1- یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو آسمان وزمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہو جائےگا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ الروم
26 1- یعنی اس کے تکوینی حکم کے آگے سب بے بس اور لاچار ہیں۔ جیسے موت وحیات، صحت ومرض، ذلت وعزت وغیرہ ہیں۔ الروم
27 1- یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک، تمام مثالوں سےاعلیٰ اور برتر ہے۔ ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ (الشورى:11)۔ الروم
28 1- یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارےغلام اور نوکر چاکر، جو تمہارے ہی جیسےانسان ہیں، وہ تمہارے مال ودولت میں شریک اور تمہارے برابر ہو جائیں تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندے، چاہے وہ فرشتے ہوں، پیغمبر ہوں، اولیاء وصلحاء ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہو سکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اللہ کےساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انہیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔ 2- یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار جائیداد میں سے خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انہیں مال ودولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم مرتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا؟ 3- کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لاکر اور غور وفکر کا اہتمام کرکے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سےفائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔ الروم
29 1- یعنی اس حقیقت کا انہیں ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ علم سے بے بہرہ اور ضلالت کا شکار ہیں اور اسی بے علمی اور گمراہی کی وجہ سے وہ اپنی عقل کو کام میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنی نفسانی خواہشات اور آرائے فاسدہ کے پیرو کار ہیں۔ 2- کیونکہ اللہ کی طرف سےہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے اندر ہدایت کی طلب اور آرزو ہوتی ہے،جو اس طلب صادق سےمحروم ہوتے ہیں، انہیں گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے۔ 3- یعنی ان گمراہوں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں ہدایت سے بہرہ ور کر دے یا ان سے عذاب کو پھیر دے۔ الروم
30 1- یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور ادیان باطلہ کی طرف التفات ہی نہ کریں۔ 2- فطرت کےاصل معنی خلقت (پیدائش) کے ہیں۔ یہاں مراد ملت اسلام (وتوحید) ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش، بغیر مسلم وکافر کی تفریق کے، اسلام اور توحید پر ہوتی ہے، اس لئے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہدالست سےواضح ہے۔ بعد میں بہت سوں کو ماحول یادیگر عوارض، فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سےوہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی (ﷺ) کی حدیث ہے ”ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن پھر اس کے ماں باپ، اس کو یہودی، عیسائی اور مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں“۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الروم، مسلم كتاب القدر ، باب معنى كل مولود يولد على الفطرة 3- یعنی اللہ کی اس خلقت (فطرت) کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کےذریعےسےاس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے۔ یہ خبربمعنی انشا ہے یعنی نفی، نہی کے معنی میں ہے۔ 4- یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے، یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہی دین قیم ہے۔ 5- اسی لئے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔ الروم
31 1- یعنی ایمان وتقویٰ اور اقامت صلوۃ سے گریز کرکے، مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔ الروم
32 1- یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کرکےالگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہوگیا۔ 2- یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں، جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی (ﷺ) نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔ الروم
33 الروم
34 1- یہ وہی مضمون ہےجو سورۂ عنکبوت کے آخر میں گزرا۔ الروم
35 1- یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ جن کو اللہ کا شریک گردانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں، یہ بلا دلیل ہے۔ اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ بھلا اللہ تعالیٰ شرک کے اثبات وجواز کے لئے کس طرح کوئی دلیل اتار سکتا تھا جبکہ اس نے سارے پیغمبر بھیجے ہی اس لئے تھے کہ وہ شرک کی تردید اور توحید کا اثبات کریں۔ چنانچہ ہر پیغمبر نے آکر سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید ہی کا وعظ کیا۔ اور آج اہل توحید مسلمانوں کو بھی نام نہاد مسلمانوں میں توحید وسنت کا وعظ کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ مسلمان عوام کی اکثریت شرک وبدعت میں مبتلا ہے۔ هَدَاهُمْ اللهُ تَعَالَى۔ الروم
36 1- یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ ھود میں گزرا اور جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے کہ راحت میں وہ اترانےلگتے ہیں اور مصیبت میں ناامید ہوجاتے ہیں۔ البتہ اہل ایمان اس سےمستثنیٰ ہیں۔ وہ تکلیف میں صبر اور راحت میں اللہ کا شکر یعنی عمل صالح کرتے ہیں۔ یوں دونوں حالتیں ان کے لئے خیر اور اجر وثواب کا باعث بنتی ہیں۔ الروم
37 1- یعنی اپنی حکمت ومصلحت سے وہ کسی کو مال ودولت زیادہ اور کسی کوکم دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ عقل وشعور میں اور ظاہری اسباب ووسائل میں دو انسان ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں، ایک جیسا ہی کاروبار بھی شروع کرتے ہیں۔ لیکن ایک کے کاروبار کو خوب فروغ ملتا ہے اور اس کےوارے نیارے ہو جاتے ہیں، جب کہ دوسرے شخص کا کاروبار محدود ہی رہتا ہے اور اسے وسعت نصیب نہیں ہوتی۔ آخر یہ کون ہستی ہے، جس کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وہ اس قسم کے تصرفات فرماتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ کبھی دولت فراواں کے مالک کو محتاج اور محتاج کو مال ودولت سے نواز دیتا ہے۔ یہ سب اسی ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ الروم
38 1- جب وسائل رزق تمام تر اللہ ہی کےاختیار میں ہیں اور وہ جس پر چاہے اس کےدروازے کھول دیتا ہےتو اصحاب ثروت کو چاہئے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئےمال میں سے ان کا وہ حق ادا کرتے رہیں جو ان کے مال میں ان کے مستحق رشتے داروں، مساکین اور مسافر کا رکھا گیا ہے، رشتےدار کا حق اس لئے مقدم کیا کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ غریب رشتےدار کے ساتھ احسان کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقے کا اجر اور دوسرا صلۂ رحمی کا۔ علاوہ ازیں اسے حق سےتعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ امداد کرکے ان پر تم احسان نہیں کرو گے بلکہ ایک حق کی ہی ادائیگی کرو گے۔ 2- یعنی جنت میں اس کے دیدار سےمشرف ہونا۔ الروم
39 1- یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا وآخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس اور متعدد صحابہ وتابعین (رضی الله عنہم) نےاس آیت میں ربا سے مراد سود (بیاج) نہیں، بلکہ وہ ہدیہ اور تحفہ لیا ہے جو کوئی غریب آدمی کسی مالدار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ”ربا“ سے اس لئے تعبیرکیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا، ﴿فَلا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ﴾ سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا جو تم عطیہ دو، اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔ (ابن کثیر، ایسر التفاسیر)۔ 2- زکوٰۃ وصدقات سےایک تو روحانی ومعنوی اضافہ ہوتا ہے یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے، قیامت والے دن اس کا اجر وثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کراحد پہاڑ کے برابر ہو جائے گا۔ (صحیح مسلم،کتاب الزکٰوۃ)۔ الروم
40 الروم
41 1- خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستےاور ساحلی آبادیاں ہیں۔ فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہےجس سےانسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن وسکون تہ وبالا اور ان کے عیش وآرام میں خلل واقع ہو۔ اس لئے اس کا اطلاق معاصی وسیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں، اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل وخونریزی عام ہوگئی ہے اور ان ارضی وسماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے۔ جو اللہ کی طرف سے بطور سزا وتنبیہ نازل ہوتی ہیں۔ جیسے قحط، کثرت موت، خوف اور سیلاب وغیرہ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنا لیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال وکردار کا رخ برائیوں کی طرف پھر جاتا ہےاور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن وسکون ختم اور اس کی جگہ خوف ودہشت، سلب ونہب اور قتل وغارت گری عام ہو جاتی ہے اس کےساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی وسماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الہیہٰ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آجائیں، توبہ، کر لیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہوجائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الٰہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن وسکون اور اللہ کی طرف سے خیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے زمین میں اللہ کی ایک حد کا قائم کرنا، وہاں کے انسانوں کے لئے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ (النسائی، كتاب قطع يد السارق، باب الترغيب في إقامة الحد - وابن ماجہ) اسی طرح یہ حدیث ہے کہ جب ایک بدکار (فاجر) آدمی فوت ہو جاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔ (صحيح بخاری، كتاب الرقاق، باب سكرات الموت- مسلم، كتاب الجنائز، باب ما جاء في مستريح ومستراح منه الروم
42 1- شرک کا خاص طور پر ذکر کیا، کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر سیئات ومعاصی بھی آجاتی ہیں۔ کیونکہ ان کا ارتکاب بھی انسان اپنے نفس کی بندگی ہی اختیار کرکے، کرتا ہے، اسی لئے اسے بعض لوگ عملی شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ الروم
43 1- یعنی اس دن کے آنے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس لئے اس دن (قیامت) کے آنے سے پہلے پہلے اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کر لیں اور نیکیوں سے اپنا دامن بھر لیں۔ 2- یعنی دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے، ایک مومنوں کا دوسرا کافروں کا۔ الروم
44 1- مَهْدٌ کے معنی ہیں راستہ ہموار کرنا، فرش بچھانا، یعنی یہ عمل صالح کے ذریعے سے جنت میں جانے اور وہاں اعلیٰ منازل حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ الروم
45 1- یعنی محض نیکیاں دخول جنت کے لئے کافی نہیں ہوں گی، جب تک ان کے ساتھ اللہ کا فضل بھی شامل حال نہ ہوگا۔ پس وہ اپنے فضل سے ایک ایک نیکی کا اجر دس سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے زیادہ بھی دے گا۔ الروم
46 1- یعنی یہ ہوائیں بارش کی پیامبر ہوتی ہیں۔ 2- یعنی بارش سےانسان بھی لذت وسرور محسوس کرتا ہے اور فصلیں بھی لہلہا اٹھتی ہیں۔ 3- یعنی ان ہواؤں کے ذریعے سے کشتیاں بھی چلتی ہیں۔ مراد بادبانی کشتیاں ہیں۔ اب انسان نے اللہ کی دی ہوئی دماغی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے دوسری کشتیاں اور جہاز ایجاد کر لئے ہیں جو مشینوں کے ذریعے سے چلتے ہیں۔ تاہم ان کے لئے بھی موافق اور مناسب ہوائیں ضروری ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی طوفانی موجوں کے ذریعے سے غرق آب کر دینے پر قادر ہے۔ 4- یعنی ان کے ذریعے سے مختلف ممالک میں آجا کر تجارت وکاروبار کرکے۔ 5- ان ظاہری وباطنی نعمتوں پر، جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ یعنی یہ ساری سہولتیں اللہ تعالیٰ تمہیں اس لئے بہم پہنچاتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ کی بندگی واطاعت بھی کرو! الروم
47 1- یعنی اے محمد!(ﷺ) جس طرح ہم نے آپ کو رسول بنا کر آپ کی قوم کی طرف بھیجا ہے، اسی طرح آپ سے پہلے بھی رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے، ان کےساتھ دلائل اور معجزات بھی تھے، لیکن قوموں نے ان کی تکذیب کی، ان پر ایمان نہیں لائے، بالآخر ان کےاس جرم تکذیب اور ارتکاب معصیت پر ہم نے انہیں اپنی سزا وتعزیر کا نشانہ بنایا اور اہل ایمان کی نصرت وتائید کی جو ہم پر لازم ہے۔ یہ گویا نبی (ﷺ) اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار ومشرکین کی روش تکذیب سےگھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر نبی کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا ہے۔ نیز کفار کو تنبیہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو گزشتہ قوموں کا ہو چکا ہے۔ کیونکہ اللہ کی مدد تو بالآخر مومنوں ہی کو حاصل ہوگی، جس میں پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے سب شامل ہیں۔ حَقًّا کان کی خبر ہے، جو مقدم ہے نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ اس کا اسم ہے۔ الروم
48 1- یعنی وہ بادل جہاں بھی ہوتے ہیں، وہاں سے ہوائیں ان کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ 2- کبھی چلا کر، کبھی ٹھہرا کر، کبھی تہ بہ تہ کرکے، کبھی دور دراز تک۔ یہ آسمان پر بادلوں کی مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں۔ 3- یعنی ان کو آسمان پر پھیلانے کے بعد، کبھی ان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ 4- وَدْقٌ کے معنی بارش کے ہیں، یعنی ان بادلوں سے اللہ اگر چاہتا ہے تو بارش ہو جاتی ہے، جس سے بارش کے ضرورت مند خوش ہو جاتے ہیں۔ الروم
49 الروم
50 1- آثار رحمت سے مراد وہ غلہ جات اور میوے ہیں جو بارش سے پیدا ہوتے اور خوش حالی وفراغت کا باعث ہوتے ہیں۔ دیکھنے سے مراد نظر عبرت سےدیکھنا ہے تاکہ انسان اللہ کی قدرت کا اور اس بات کا قائل ہو جائے کہ وہ قیامت والے دن اسی طرح مردوں کو زندہ فرما دے گا۔ الروم
51 1- یعنی ان ہی کھیتوں کو، جن کو ہم بارش کے ذریعے سے شاداب کیا تھا، اگر سخت (گرم یا ٹھنڈی) ہوائیں چلا کر ان ہریالی کو زردی میں بدلدیں۔ یعنی تیار فصل کو تباہ کر دیں تو یہی بارش سےخوش ہونے والے اللہ کی ناشکری پر اتر آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے صبر اور حوصلے سےبھی محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ذرا سی ابتلا پر فوراً ناامید اور گریہ کناں ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں ان سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔ الروم
52 1- یعنی جس طرح مردے فہم وشعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ (ﷺ) کی دعوت کو سمجھنے اور اسےقبول کرنے سے قاصر ہیں۔ 2- یعنی آپ (ﷺ) کا وعظ ونصیحت ان کے لئے بے اثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔ 3- یہ ان کے اعراض وانحراف کی مزید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں، حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل ودماغ میں سما سکتی ہے؟ الروم
53 1- اس لئے کہ یہ آنکھوں سے کما حقہ فائدہ اٹھانے سے یا بصیرت (دل کی بینائی) سے محروم ہیں۔ یہ گمراہی کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے کس طرح نکلیں؟ 2- یعنی یہی سن کر ایمان لانے والے ہیں، اس لئے کہ اہل تفکر وتدبر ہیں اور آثار قدرت سے موثر حقیقی کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں۔ 3- یعنی حق کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے اور اس کے پیروکار۔ الروم
54 1- یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سےانسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سےمراد نطفہ یعنی قطرۂ آب ہے یا عالم طفولیت۔ 2- یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی وجسمانی تکمیل ہو جاتی ہے۔ 3- کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی وجسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہو جاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست، ہاتھ پیروں کی حرکت وگرفت کمزور،بال سفید اور تمام ظاہری وباطنی صفات متغیر ہو جاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑےاطوار بیان کیے ہیں،بعض علما نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انہیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کےاجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلاً امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات واطوار سےگزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے۔ یعنی اس کے باپ آدم (عليہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ یا انسان جو کچھ کھاتا ہے، جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جاکر اس کے وجود وتخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں، جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف ونزار اور نہایت نرم ونازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقریٰ کا عمل شروع ہو جاتا ہے، کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی (بڑھاپا) تا آنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ 4- انہی اشیاء میں ضعف قوت بھی ہے۔ جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ الروم
55 1- ساعت کے معنی ہیں، گھڑی، لمحہ، مراد قیامت ہے، اس کو ساعت اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا وقوع جب اللہ چاہے گا، ایک گھڑی میں ہو جائے گا۔ یا اس لئے کہ یہ اس گھڑی میں ہوگی جب دنیا کی آخری گھڑی ہوگی۔ 2- دنیا میں یاقبروں میں یہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسم کھائیں گے، اس لئے کہ دنیا میں وہ جتنا عرصہ رہے ہوں گے، ان کے علم میں ہی ہوگا اور اگر مراد قبر کی زندگی ہے تو ان کا حلف جہالت پر ہوگا کیونکہ وہ قبر کی مدت نہیں جانتے ہوں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ آخرت کے شدائد اور ہولناک احوال کے مقابلے میں دنیا کی زندگی انہیں گھڑی کی طرح ہی لگے گی۔ 3- أَفَكَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں سچ سے پھر گیا، مطلب یہ ہوگا، اسی پھرنے کے مثل وہ دنیا میں پھرتے رہے یا بہکے رہے۔ الروم
56 1- جس طرح یہ علما دنیا میں بھی سمجھاتے رہے تھے۔ 2- كِتَابِ اللهِ سے مراد اللہ کا علم اور اس کا فیصلہ ہے یعنی لوح محفوظ۔ 3- یعنی پیدائش کے دن سے قیامت کے دن تک۔ 4- کہ وہ آئے گی بلکہ استہزا اور تکذیب کےطور پر اس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔ الروم
57 1- یعنی انہیں دنیا میں بھیج کر یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہاں توبہ واطاعت کے ذریعے سےعتاب الٰہی کا ازالہ کرلو۔ الروم
58 1- جن سے اللہ کی توحید کا اثبات اور رسولوں کی صداقت واضح ہوتی ہےاور اسی طرح شرک کی تردید اور اس کا بطلان نمایاں ہوتا ہے۔ 2- وہ قرآن کریم کی پیش کردہ کوئی دلیل ہو یا ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ وغیرہ۔ 3- یعنی ان کی مخالفت وعناد اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا جو وعدہ کیا ہے، وہ یقیناً حق ہے جو بہر صورت پورا ہوگا۔ الروم
59 الروم
60 1- یعنی جادو وغیرہ کے پیرو کار۔ مطلب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی نشانی اور واضح سےواضح دلیل بھی اگر وہ دیکھ لیں، تب بھی ایمان بہرحال نہیں لائیں گے، کیوں؟ اس کی وجہ آگے بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا کفر وطغیان اس آخری حد کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد حق کی طرف واپسی کےتمام راستے ان کے لئے مسدود ہیں۔ 2- یعنی آپ کو غضب ناک کرکے صبر وعلم ترک کرنے یا مداہنت پر مجبور نہ کر دیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے سرمو انحراف نہ کریں۔ الروم
0 لقمان
1 1- اس کے آغاز میں بھی یہ حروف مقطعات ہیں، جن کےمعنی ومراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے اس کے دو فوائد بڑے اہم بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب وتالیف پایا ہے جس کے مثل تالیف پیش کرنے سےعرب عاجز آگئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اور جس پیغمبر پر یہ نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے، جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اس کا محتاج ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔ دوسرا، یہ کہ مشرکین اپنےساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے کہ مبادا وہ اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات سےفرمایا تاکہ وہ اس کے سننے پر مجبور ہو جائیں کیونکہ یہ انداز بیاں نیا اور اچھوتا تھا۔ (ایسر التفاسیر) واللہ اعلم۔ لقمان
2 لقمان
3 1- مُحْسِنِينَ، مُحْسِنٌ کی جمع ہے۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنےوالا، والدین کے ساتھ، رشتے داروں کےساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ۔ دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکو کار۔ تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع وخضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل (عليہ السلام) میں ہے، [ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ] قرآن ویسے تو سارے جہاں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اس طرح فرمایا۔ لقمان
4 1- نماز، زکوٰۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین ومتقین تمام فرائض وسنن بلکہ مستحبات تک کی پابندی کرتے ہیں۔ لقمان
5 1- فلاح کے مفہوم کے لئےدیکھئے سورۂ بقرۃ اور مومنون کا آغاز۔ لقمان
6 1- اہل سعادت، جو کتاب الٰہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد ان اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے جو کلام الٰہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں، البتہ ساز وموسیقی، نغمہ وسرور اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ ﴿لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ سے مراد گانا بجانا، اس کا ساز وسامان اور آلات، سازو موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے، کہانیاں، افسانے، ڈرامے، ناول اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پرچارک اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لئے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن واسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلوکارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب، خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔ 2- ان تمام چیزوں سے یقیناً انسان اللہ کے راستے سےگمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو استہزا وتمسخر کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ 3- ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اسی عذاب مہین کے مستحق ہوں گے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. لقمان
7 1- یہ اس شخص کا حال ہےجو مذکورہ لہوولعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرآنیہ اور اللہ ورسول کی باتیں سن کر بہرہ بن جاتا ہے حالانکہ وہ بہرہ نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیوں کہ اس کے سننے سےوہ ایذا محسوس کرتا ہے، اس لئے اس سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کر دے۔ لقمان
8 لقمان
9 1- یعنی یہ یقیناً پورا ہوگا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وَاللهُ لا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ۔ لقمان
10 1- تَرَوْنَها، اگر عَمَدٌ کی صفت ہو تو معنی ہوں گے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ 2- رَوَاسِيَ، رَاسِيَة کی جمع ہے جس کے معنی ثَابِتَةٌ کے ہیں۔ یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لئے آگے فرمایا، ﴿أَنْ تَمِيدَ بِكُم﴾ يَعْنِي (كَرَاهَةَ أَنْ تَمِيدَ (تَمِيلَ) بِكُمْ أَوْ لِئَلا تَمِيدَ )یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لئے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیئے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لئے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔ 3- یعنی انواع واقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔ 4- زَوْجٍ یہاں صِنْفٍ کے معنی میں ہے یعنی ہرقسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم، ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لقمان
11 1- هَذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کے ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گزشتہ آیات میں ذکر ہوا۔ 2- یعنی جن کی تم عبادت کرتے اور انہیں مدد کے لئے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان وزمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟ کوئی ایک چیز تو بتلاؤ؟ مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لئے پکارا جائے۔ لقمان
12 1- حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل وفہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نےپوچھا تمہیں یہ فہم وشعور کس طرح حاصل ہوا؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بے فائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت ودانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ ایک دوسرے موقعے پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ۔ وہ پھر وہی زبان اور دل لے کر چلے گئے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو یہ سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر)۔ 2- شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد وثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔ لقمان
13 1- اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔ 2- یہ بعض کے نزدیک حضرت لقمان ہی کا قول ہے اور بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ﴾ کے نزول کے تعلق سے وارد ہے جس میں آپ (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد عظیم ہے اور آیت ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ کا حوالہ دیا۔ (صحیح بخاری نمبر 4776) مگر درحقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔ لقمان
14 1- توحید وعبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سےاس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔ 2- اس کا مطلب ہے کہ رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔ 3- اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ لقمان
15 1- یعنی مومنین کی راہ۔ 2- یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں (اہل ایمان) کی پیروی اس لئے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے (اچھے یا برے) عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخ رو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلۂ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جا رہی ہیں جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی، جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے۔ کہ لقمان نے وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی توحید وعبادت کے بعد والدین کی خدمت واطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں، تو ان کی بات نہیں ماننی چاہئے۔ لقمان
16 1- إِنْ تَكُ کا مرجع خَطِيئَةٌ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے اور اگر اس کا مرجع خَصْلَةٌ ہو تو مطلب اچھائی یا برائی کی خصلت ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے مخفی نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے حاضر کر لے گا۔ یعنی اس کی جزا دے گا، اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا۔ رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں وہ ترازو کے پلڑے کو جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں) مخفی ترین اور محفوظ ترین جگہ ہے۔ یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا ”اگر تم میں سے کوئی شخص بے سوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو“۔ (مسند احمد / 281) اس لئے کہ وہ لطیف (باریک بین) ہے، اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے، اور خبیر ہے، اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات وسکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔ لقمان
17 1- إِقَامَةُ صَلاةٍ، أَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، نَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔ 2- یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم وہمت پیدا کرنے کی کیونکہ عزم وہمت کے بغیر طاعات مذکورہ پر عمل ممکن نہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ذلک کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد ومصائب اور طعن وملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کرکے واضح کر دیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم وہمت کے کاموں میں سے ہےاور اہل عزم وہمت کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔ اس کے بغیر فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔ لقمان
18 1- یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے۔ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سریا گردن میں ہوتی ہے۔ جس سےاس کی گردن مڑ جاتی ہے۔ یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ (ابن کثیر)۔ 2- یعنی ایسی چال یا رویہ، جس سے مال ودولت یا جاہ ومنصب یا قوت وطاقت کی وجہ سے فخر وغرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لئے کہ انسان ایک بندۂ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سےتجاوز کرکے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کےلئے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لئے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا“۔ (مسند أحمد: 1/412، ترمذی، أبواب البر، ما جاء في الكبر) ”جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو کھینچتے (گھسیٹتے) ہوئے چلے گا، اللہ اس کی طرف (قیامت والے دن) نہیں دیکھے گا“ ۔(مسند أحمد 5 / 9، 10 وانظر البخاری، كتاب اللباس) تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔ لقمان
19 1- یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف ووقار کے خلاف ہو، اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ﴿يَمْشُونَ عَلَى الأَرْضِ هَوْنًا﴾ (الفرقان: 63) ”اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کےساتھ چلتے ہیں“۔ 2- یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ زیادہ اونچی آوازسے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور کریہ ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ (گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو) (بخاری، کتاب بدء الخلق اور مسلم وغیرہ)۔ لقمان
20 1- تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو (یہاں کام سے لگا دیا) سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوق، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشاء استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں۔ گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان وزمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)۔ 2- ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک واحساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔ 3- یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں، کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام وشرائع کے بارے میں۔ لقمان
21 1- یعنی طرفگی یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی صحیفہ آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ لقمان
22 1- یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے، اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔ 2- یعنی مامور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔ 3- یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔ لقمان
23 1- اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔ 2- یعنی ان کےعملوں کی جزا دے گا۔ 3- پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔ لقمان
24 1- یعنی دنیا میں آخر کب تک رہیں گے اور اس کی لذتوں اور نعمتوں سے کہاں تک شاد کام ہوں گے؟ یہ دنیا اور اس کی لذتیں تو چند روزہ ہیں، اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہی عذاب ہے۔ لقمان
25 1- یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمان وزمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔ 2- اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہوگئی۔ لقمان
26 1- یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر ومتصرف کائنات بھی وہی۔ 2- بے نیاز ہے اپنے ماسوا سے، یعنی ہر چیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ 3- اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نےجو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان وزمین میں سزا وار حمدو ثنا، صرف اسی کی ذات ہے۔ لقمان
27 1- اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا اور اس کے وہ کلمات جو اس کی عظمتوں پر دلالت کناں ہیں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی کنہ اور حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی ان کو شمار کرنا اور حیطۂ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی کی بنائی ہوئی سیاہی ختم ہو جائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کے تخلیق وصنعت کے عجائبات اور اس کی عظمت وجلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ کی آیات وکلمات کا حصرواحصا ممکن ہی نہیں (ابن کثیر) اسی مفہوم کی آیت سورۂ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ لقمان
28 1- یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنا، ایک نفس کے زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے کہ وہ جو چاہتا ہے لفظ كُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آجاتا ہے۔ لقمان
29 1- یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کر دیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے۔ جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کر دیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے۔ جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔ 2- مقررہ وقت تک سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع وغروب کا یہ نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے، قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا دوسرا مطلب ہے ایک متعینہ منزل تک یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لئے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آکر ٹھہر جاتا ہے۔ ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ نبی (ﷺ) نے حضرت ابوذر (رضی الله عنہ) سے فرمایا: جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا (غروب ہوتا) ہے؟ ابوذر (رضی الله عنہ) کہتے ہیں، میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) خوب جانتے ہیں فرمایا: اس کی آخری منزل عرش الٰہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر (وہاں سے نکلنے کی) اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے گا۔ [ارجعي من حيث جئت ]تو جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ جیسا کہ قرب قیامت کی علامت میں آتا ہے۔ (صحيح بخاری ، كتاب التوحيد ـ ومسلم، كتاب التوحيد، ومسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان) حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہو جاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔ (ابن کثیر)۔ لقمان
30 1- یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے یعنی کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ سب اس کے محتاج ہیں کیونکہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ 2- اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علو مرتبت اور بڑائی کے سامنے ہر چیز حقیر اور پست ہے۔ لقمان
31 1- یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف وکرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے۔ اس نے ہوا اور پانی دونوں کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں، ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہو جائے۔ 2- تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔ لقمان
32 1- یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انہیں اپنی گرفت میں لیتا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی الہٰ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔ 2- بعض نے مُقْتَصِدٌ کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہوگا، ﴿فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ كَاَفِرٌ پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں (فتح القدیر) دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں اعتدال پر رہنے والا یہ باب انکار سے ہوگا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی، انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت واطاعت نہیں کرتا؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے، مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں، نہ کہ اعتدال کا۔ (ابن کثیر) مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ 3- خَتَّارٍ غدار کے معنی میں ہے۔ بدعہدی کرنے والا، کفور ناشکری کرنے والا۔ لقمان
33 1- جَازٍ اسم فاعل ہے جَزَى يَجْزِي سے، بدلہ دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے لئے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہر شخص کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہوگی؟ اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے؟ لقمان
34 1- حدیث میں بھی آتا ہے کہ ”پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة لقمان وكتاب الاستسقاء باب لا يدري متى يجيء المطر إلا لله) 1 قرب قیامت کی علامت تو نبی (ﷺ) نے بیان فرمائی ہے لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو۔ 2 بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ آثار وعلائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ ومشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتیٰ کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ 3 رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یابچی؟ لیکن ماں کے پیٹ، میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل۔ خوب رو ہوگا کہ بدشکل، کالا ہوگا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ 4 انسان کل کیا کرے گا؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں؟ اور اگر آئے گا تووہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ 5 موت کہاں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر، اپنے وطن میں یا دیار غیر میں، جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں، اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے؟ کسی کومعلوم نہیں۔ لقمان
0 السجدة
1 السجدة
2 1- مطلب یہ ہے کہ یہ جھوٹ، جادو، کہانت اور من گھڑت قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ رب العالمین کی طرف سے صحیفہ ہدایت ہے۔ السجدة
3 1- یہ بطور توبیخ ہے کہ کیا رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اسے خود (محمد ﷺ نے) گھڑ لیا ہے؟ 2- یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت گزر چکی ہے) کہ عربوں میں نبی (ﷺ) پہلے نبی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت شعیب (عليہ السلام) کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس اعتبار سے قوم سے مراد پھر خاص قریش ہوں گے جن کی طرف کوئی نبی آپ (ﷺ) سے پہلے نہیں آیا۔ السجدة
4 1- اس کے لئے دیکھئے سورۂ اعراف 54 کا حاشیہ۔ یہاں اس مضمون کو دہرانے سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور عجائب صنعت کے ذکر سے شاید وہ قرآن کو سنیں اور اس پر غور کریں۔ 2- یعنی وہاں کوئی ایسا دوست نہیں ہوگا، جو تمہاری مدد کر سکے اور تم سے اللہ کے عذاب کو ٹال دے، نہ وہاں کوئی سفارشی ہی ایسا ہوگا جو تمہاری سفارش کر سکے۔ 3- یعنی اے غیر اللہ کے پجاریو اور دوسروں پر بھروسہ کرنے والو! کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ السجدة
5 1- آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ زمین پر احکام نازل فرماتا یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔ 2- یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں، جسےفرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود (چڑھنے) کا یا آنےجانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس (یوم) کی تعیین وتفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے 16،15 اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لئے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔ سورۂ حج (آیت۔ 47) میں ”یوم“ کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں ہے اور سورۂ معارج میں، جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے، یوم حساب مراد ہے اور اس مقام (زیر بحث) میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے، جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔ السجدة
6 السجدة
7 1- یعنی جو چیز بھی اللہ نے بنائی ہے، وہ چوں کہ اس کی حکمت ومصلحت کا اقتضا ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے۔ یوں اس کی بنائی ہوئی ہر چیز حسین ہے اور بعض نے أَحْسَنَ کے معنی أَتْقَنَ وَأَحْكَمَ کے کیے ہیں، یعنی ہر چیز مضبوط اور پختہ بنائی۔ بعض نے اسے الھم کے مفہوم میں لیا ہے، یعنی ہر مخلوق کو ان چیزوں کا الہام کر دیا جس کی وہ محتاج ہے۔ 2- یعنی انسان اول (آدم عليہ السلام) کو مٹی سے بنایا، جن سے انسانوں کا آغاز ہوا۔ اور اس کی زوجہ حضرت حوا کو آدم (عليہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کر دیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ السجدة
8 1- یعنی منی کے قطرے سے مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جوڑا بنانے کے بعد، اس کی نسل کے لئے ہم نے یہ طریقہ مقرر کر دیا کہ مرد اور عورت آپس میں نکاح کریں، ان کے جنسی ملاپ سے جو قطرۂ آب، عورت کے رحم میں جائے گا، اس سے ہم ایک انسانی پیکر تراش کر باہر بھیجتے رہیں گے۔ السجدة
9 1- یعنی اس بچے کی، ماں کے پیٹ میں نشوونما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔ 2- یعنی یہ ساری چیزیں پیدا کیں تاکہ وہ اپنی تخلیق کی تکمیل کر دے، پس تم ہر سننے والی بات کو سن سکو، دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل وفہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔ 3- یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے یا شکر کرنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں۔ السجدة
10 1- جب کسی چیز پر کوئی دوسری چیز غالب آجائے اور پہلی کے تمام اثرات مٹ جائیں تو اس کی ضلالت (گم ہو جانے) سے تعبیر کرتے ہیں ﴿ضَلَلْنَا فِي الأَرْضِ کے معنی ہوں گے کہ جب مٹی میں مل کر ہمارا وجود زمین میں غائب ہو جائے گا۔ السجدة
11 1- یعنی اس کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ جب تمہاری موت کا وقت آجائے تو وہ آکر روح قبض کر لے۔ السجدة
12 1- یعنی اپنےکفر وشرک اور معصیت کی وجہ سے مارے ندامت کے۔ 2- یعنی جس کی تکذیب کرتے تھے، اسے دیکھ لیا، جس کا انکار کرتے تھے، اسے سن لیا۔ یا تیری وعیدوں کی سچائی کو دیکھ لیا اور پیغمبروں کی تصدیق کو سن لیا لیکن اس وقت کا دیکھنا، سننا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ 3- لیکن اب یقین کیا تو کس کام کا؟ اب تو اللہ کا عذاب ان پرثابت ہو چکا جسے بھگتنا ہوگا۔ السجدة
13 1- یعنی دنیا میں، لیکن یہ ہدایت جبری ہوتی، جس میں امتحان کی گنجائش نہ ہوتی۔ 2- یعنی انسانوں کی دو قسموں میں سے جو جہنم میں جانے والے ہیں، ان سے جہنم کو بھرنے والی میری بات سچ ثابت ہوگئی۔ السجدة
14 1- یعنی جس طرح تم ہمیں دینا میں بھلائے رہے، آج ہم بھی تم سے ایسا ہی معاملہ کریں گے ورنہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تو بھولنے والا نہیں ہے۔ السجدة
15 1- یعنی تصدیق کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2- یعنی اللہ کی آیات کی تعظیم اور اس کی سطوت وعذاب سے ڈرتے ہوئے۔ 3- یعنی رب کو ان چیزوں سے پاک قرار دیتے ہیں جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں اور اس کے ساتھ اس کی نعمتوں پر اس کی حمد کرتے ہیں جن میں سب سے بڑی اور کامل نعمت ایمان کی ہدایت ہے۔ یعنی وہ اپنے سجدوں میں (سَبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِه) یا (سُبْحَانَ رَبِّي الأَعْلَى وَبِحَمْدِهِ) وغیر کلمات پڑھتے ہیں۔ 4- یعنی اطاعت وانقیاد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جاہلوں اور کافروں کی طرح تکبر نہیں کرتے۔ اس لئے کہ اللہ کی عبادت سے تکبر کرنا، جہنم میں جانے کا سبب ہے۔﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ (سورة المؤمن: 60) اس لئے اہل ایمان کا معالہ ان کے برعکس ہوتا ہے، وہ اللہ کے سامنے ہر وقت عاجزی، ذلت ومسکینی اور خشوع وخضوع کا اظہار کرتے ہیں۔ السجدة
16 1- یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل (تہجد) پڑھتے توبہ واستغفار، تسبیح وتحمید اور دعا الحاح وزاری کرتے ہیں۔ 2- یعنی اس کی رحمت اور فضل وکرم کی امید بھی رکھتے ہیں اور اس کے عتاب وغضب اور مؤاخذہ وعذاب سے ڈرتے بھی ہیں۔ محض امید ہی امید نہیں رکھتے کہ عمل سے بے پرواہ ہو جائیں۔ (جیسے بے عمل اور بد عمل لوگوں کا شیوہ ہے اور نہ عذاب کا اتنا خوف طاری کر لیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے ہی مایوس ہو جائیں کہ یہ مایوسی بھی کفر وضلالت ہے۔ 3- انفاق میں صدقات واجبہ (زکٰوۃ) اور عام صدقہ وخیرات دونوں شامل ہیں۔ اہل ایمان دونوں کا حسب استطاعت اہتمام کرتے ہیں۔ السجدة
17 1- نَفْسٌ، نکرہ ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان نعمتوں کو جو اس نے مذکورہ اہل ایمان کے لئے چھپا کر رکھی ہیں جن سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ اس کی تفسیر میں نبی (ﷺ) نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، نہ کسی انسان کے وہم وگمان میں ان کا گزر ہوا“۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ السجدۃ)۔ 2- اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کے لئے اعمال صالحہ کا اہتمام ضروری ہے۔ السجدة
18 1- یہ استفہام انکاری ہے یعنی اللہ کے ہاں مومن اور کافر برابر نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان بڑا فرق وتفاوت ہوگا مومن اللہ کے مہمان ہوں گے اور اعزاز واکرام کے مستحق اور فاسق وکافر تعزیر وعقوبت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے جہنم کی آگ میں جھلسیں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ جاثیہ:21، سورۂ ص:28، سورۂ حشر:20، وغیرھا۔ السجدة
19 السجدة
20 1- یعنی جہنم کے عذاب کی شدت اور ہولناکی سے گھبرا کر باہر نکلنا چاہیں گے تو فرشتے انہیں پھر جہنم کی گہرائیوں میں دھکیل دیں گے۔ 2- یہ فرشتے کہیں گے یااللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی، بہرحال اس میں مکذبین کی ذلت ورسوائی کا جو سامان ہے، وہ مخفی نہیں۔ السجدة
21 1- عذاب ادنیٰ (چھوٹے سے یا قریب کے بعض عذاب) سے دنیا کا عذاب یا دنیا کی مصیبتیں اور بیماریاں وغیرہ مراد ہیں۔ بعض کےنزدیک وہ قتل اس سے مراد ہے، جس سے جنگ بدر میں کافر دوچار ہوئے یا وہ قحط سالی ہے جو اہل مکہ پر مسلط کی گئی تھی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، تمام صورتیں ہی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔ 2- یہ آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب بھیجنے کی علت ہے کہ شاید وہ کفر وشرک اور معصیت سے باز آجائیں۔ السجدة
22 1- یعنی اللہ کی آیتیں سن کر جو ایمان واطاعت کی موجب ہیں، جو شخص ان سے اعراض کرتا ہے، اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ یعنی یہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ السجدة
23 1- کہا جاتا ہے کہ یہ اشارہ ہے اس ملاقات کی طرف جو معراج کی رات نبی (ﷺ) اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے درمیان ہوئی، جس میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے نمازوں میں تخفیف کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ 2- (اسے) سے مراد کتاب (تورات) ہے یا خود حضرت موسیٰ (عليہ السلام) ۔ السجدة
24 1- اس آیت سے صبر کی فضیلت واضح ہے۔ صبر کا مطلب ہے اللہ کے اوامر کے بجا لانے اور ترک زواجر میں اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق اور ان کے اتباع میں جو تکلیفیں آئیں، انہیں خندہ پیشانی سے جھیلنا۔ اللہ نے فرمایا، ان کے صبر کرنے اور آیات الٰہی پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر فائز کیا۔ لیکن جب انہوں نے اس کے برعکس تبدیل وتحریف کا ارتکاب شروع کر دیا، تو ان سے یہ مقام سلب کر لیا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے، پھر ان کا عمل صالح رہا اور نہ ان کا اعتقاد صحیح۔ السجدة
25 1- اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو اہل کتاب میں باہم برپا تھا، ضمناً وہ اختلافات بھی آجاتے ہیں۔ جو اہل ایمان اور اہل کفر، اہل حق اور اہل باطل اور اہل توحید اور اہل شرک کے درمیان دنیا میں رہے اور ہیں چونکہ دنیا میں تو ہر گروہ اپنے دلائل پر مطمئن اور اپنی دگر پر قائم رہتا ہے۔ اس لئے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل کفر وباطل کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔ السجدة
26 1- یعنی پچھلی امتیں، جو تکذیب اور عدم ایمان کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ آج ان کا وجود دنیا میں نہیں ہے، البتہ ان کے مکانات ہیں جن کے یہ وارث بنے ہوئے ہیں، مطلب اس سے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی یہی ہو سکتا ہے، اگر ایمان نہ لائے۔ السجدة
27 1- پانی سے مراد آسمانی بارش اور چشموں نالوں اور وادیوں کا پانی ہے، جسے اللہ تعالیٰ ارض جرز (بنجر اور بے آباد) علاقوں کی طرف بہا کر لے جاتا ہے اور اس سے پیداوار ہوتی ہے جو انسان کھاتے ہیں اور جو بھوسی یا چارہ ہوتا ہے، وہ جانور کھا لیتے ہیں۔ اس سے مراد کوئی خاص زمین یا علاقہ مراد نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ جو ہر بے آباد، بنجر اور چٹیل زمین کو شامل ہے۔ السجدة
28 1- اس فیصلے (فتح) سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب ہے جو کفار مکہ نبی (ﷺ) سے طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اے محمد! (ﷺ) تیرے اللہ کی مدد تیرے لئے کب آئے گی؟ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ فی الحال تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ تجھ پر ایمان لانے والے چھپے پھرتے ہیں۔ السجدة
29 1- اس یوم الفتح سے مراد آخرت کے فیصلے کا دن ہے، جہاں ایمان مقبول ہوگا اور نہ مہلت دی جائے گی۔ فتح مکہ کا دن مراد نہیں ہے کیونکہ اس دن تو طلقاء کا اسلام قبول کر لیا گیا تھا، جن کی تعداد تقریباً دو ہزار تھی۔ (ابن کثیر) طلقاء سے مراد، وہ اہل مکہ ہیں جن کو نبی (ﷺ) نے فتح مکہ والے دن، سزا وتعزیر کے بجائے معاف فرما دیا تھا اور یہ کہہ کر آزاد کر دیا تھا کہ آج تم سے تمہاری پچھلی ظالمانہ کاروائیوں کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ چنانچہ ان کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔ السجدة
30 1- یعنی ان مشرکین سے اعراض کر لیں اور تبلیغ ودعوت کا کام اپنے انداز سے جاری رکھیں، جو وحی آپ (ﷺ) کی طرف نازل کی گئی ہے، اس کی پیروی کریں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ﴾ (سورة الأنعام: 106) ”آپ خود اس طریقت پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے“۔ 2- یعنی اللہ کے وعدے کا کہ کب وہ پورا ہوتا ہے اور تیرے مخالفوں پر تجھے غلبہ عطا فرماتا ہے؟ وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔ 3- یعنی یہ کافر منتظر ہیں کہ شاید یہ پیغمبر ہی گردشوں کا شکار ہو جائے اور اس کی دعوت ختم ہو جائے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو پورا فرمایا اور آپ پر گردشوں کے منتظر مخالفوں کو ذلیل وخوار کیا یا ان کو آپ کا غلام بنا دیا۔ السجدة
0 الأحزاب
1 1- آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ ودعوت سے استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ تو اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کےعذاب سے ڈرتے ہوئے۔ (ابن کثیر) 2- پس وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس لئے کہ عواقب کو وہی جانتا ہے اور اپنے اقوال وافعال میں وہ حکیم ہے۔ الأحزاب
2 1- یعنی قرآن کی اور احادیث کی بھی، اس لئے کہ احادیث کے الفاظ گو نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں لیکن ان کے معانی ومفاہیم من جانب اللہ ہی ہیں۔ اسی لئے ان کو وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔ 2- پس اس سے تمہاری کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔ الأحزاب
3 1- اپنے تمام معاملات اور احوال میں۔ 2- ان لوگوں کے لئے جو اس پر بھروسہ رکھتے، اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ الأحزاب
4 1- بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ (مسند احمد ا / 267) یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک دل میں اللہ کی محبت اور اس کے دشمنوں کی اطاعت جمع ہو جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہری تھا، جو بڑا ہشیار، مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد (ﷺ) کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کر لے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لئے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت۔ تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا (لے پالک) بنالے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا، بلکہ وہ بیٹا تو اپنے باپ ہی کا رہے گا، اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔ (ابن کثیر)۔ 2- یہ مسئلۂ ظہار کہلاتا ہے، اس کی تفصیل سورۂ مجادلہ میں آئے گی۔ 3- اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے چل کر آئے گی۔ أَدْعِياءُ، دَعِيٌّ کی جمع ہے۔ منہ بولا بیٹا۔ 4- یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے وہ بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر امومت اور بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہوں گے۔ 5- اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کرکے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔ الأحزاب
5 1- اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانۂ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ ! کو (جنہیں رسول اللہ (ﷺ) نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا) زید بن محمد (ﷺ) کہہ کر پکارتے تھے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی آیت ﴿ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ﴾ نازل ہوگئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ ! کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہو گیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی (ﷺ) نے حضرت ابو حذیفہ ! کی بیوی کو کہا کہ اسےدودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ (صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب رضاعة الكبير ، أبو داود، كتاب النكاح، باب فيمن حرم به 2- یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے، اب دوسری نسبت ختم کرکے انہیں کی طرف انہیں منسوب کرو، البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انہیں اپنا بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔ 3- اس لئے کہ خطا ونسیان معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔ 4- یعنی جو جان بوجھ کر غلط انتساب کرے گا، وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ حدیث میں آتاہے جس نے جانتے بوجھتے اپنے کو غیر باپ کی طرف منسوب کیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (صحيح بخاری، كتاب المناقب ، باب ، نسبة اليمن إلى إسماعيل عليہ السلام) الأحزاب
6 1- نبی (ﷺ) اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپ (ﷺ) کو مومنوں کے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ حق دار، آپ (ﷺ) کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ (ﷺ) کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم تر قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ (ﷺ) ان کے جن مالوں کا مطالبہ۔ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ (ﷺ) پر نچھاور کر دیں چاہے انہیں خود کتنی ہی ضرورت ہو، آپ (ﷺ) سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں۔ (جیسے حضرت عمر ! کا واقعہ ہے) آپ (ﷺ) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (ﷺ) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی ﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ﴾ (النساء: 65) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی [ لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه ] . کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول (ﷺ) میں کوتاہی بھی [ لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ ] کا مصداق بنا دے گی۔ 2- یعنی احترام وتکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔ 3- یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔ 4- ہاں تم غیر رشتے داروں کے لئے احسان اور بر وصلہ کا معاملہ کر سکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کر سکتے ہو۔ 5- یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتاً دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کرکے پہلا حکم بحال کر دیا گیا ہے۔ الأحزاب
7 1- اس عہد سے کیا مراد ہے؟ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے جو ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیا علیہم السلام سے لیا گیا تھا جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت 81 میں ہے۔ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے، جس کا ذکر شوریٰ کی آیت 13 میں ہے کہ دین قائم کرنا اور اس میں تفرقہ مت ڈالنا۔ یہ عہد اگرچہ تمام انبیا علیہم السلام سے لیا گیا تھا لیکن یہاں بطور خاص پانچ انبیا علیہم السلام کا نام لیا گیا ہے جن سے ان کی اہمیت وعظمت واضح ہے اور ان میں بھی نبی (ﷺ) کا ذکر سب سے پہلے ہے دراں حالیکہ نبوت کے لحاظ سے آپ (ﷺ) سب سے متاخر ہیں، اس سے آپ (ﷺ) کی عظمت اور شرف کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے، محتاج وضاحت نہیں۔ الأحزاب
8 1- یہ لام كَيْ ہے۔ یعنی یہ عہد اس لئے لیا تاکہ اللہ سچے نبیوں سے پوچھے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوموں تک ٹھیک طریقے سے پہنچا دیا تھا؟ یا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ انبیا سے پوچھے کہ تمہاری قوموں نے تمہاری دعوت کا جواب کس طرح دیا؟ مثبت انداز میں یا منفی طریقے سے؟ جس طرح کہ دوسرے مقام پر ہے کہ ہم ان سے بھی پوچھیں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور رسولوں سے بھی پوچھیں گے۔ (الاعراف۔ 6) اس میں داعیان حق کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دعوت حق کا فریضہ پوری تن دہی اور اخلاص سے ادا کریں تاکہ بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہو سکیں، اور ان لوگوں کے لئے بھی وعید ہے جن کو حق کی دعوت پہنچائی جائے کہ اگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے تو عنداللہ مجرم اور مستوجب سزا ہوں گے۔ الأحزاب
9 1- ان آیات میں غزوۂ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو 5 ہجری میں پیش آیا اسے احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقعے پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہو کر مسلمانوں کے مرکز مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ احزاب حزب (گروہ) کی جمع ہے۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینے کے اندر نہ آسکیں۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر، جس کو رسول اللہ (ﷺ) نے اس کی مسلسل بدعہدی کی وجہ سے مدینہ سے جلا وطن کردیا تھا، یہ قبیلہ خیبر میں جا آباد ہوا، اس نے کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار کیا،اسی طرح غطفان وغیرہ قبائل نجد کو بھی امداد کا یقین دلا کر آمادۂ قتال کیا اور یوں یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اکھٹا کرکے مدینے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرکین مکہ کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی، انہوں نے احد کے آس پاس پڑاؤ ڈال کر تقریباً مدینے کا محاصرہ کر لیا، ان کی مجموعی تعداد 10 ہزار تھی، جب کہ مسلمان تین ہزار تھے۔ علاوہ ازیں جنوبی رخ پر یہودیوں کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا، جس سے ابھی تک مسلمانوں کا معاہدہ قائم اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ لیکن اسے بھی بنو نضیر کے یہودی سردار حیی بن اخطب نےورغلا کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے، اپنے ساتھ ملا لیا، یوں مسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھر گئے۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسی ! کے مشورے سے خندق کھودی گئی، جس کی وجہ سے دشمن کا لشکر مدینے کے اندر نہیں آسکا اور مدینے کے باہر قیام پذیر رہا۔ تاہم مسلمان اس محاصرے اور دشمن کی متحدہ یلغارسے سخت خوفزدہ تھے۔ کم وبیش ایک مہینے تک یہ محاصرہ قائم رہا اور مسلمان سخت خوف اور اضطراب کے عالم میں مبتلا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردۂ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی ان آیات میں ان ہی سراسیمہ حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ پہلے جُنُودٌ سے مراد کفار کی فوجیں ہیں، جو جمع ہو کر آئی تھیں۔ تیز وتند ہوا سے مراد وہ ہوا ہے جو سخت طوفان اور آندھی کی شکل میں آئی، جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا، جانور رسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سب بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وہی ہوا تھی جس کی بابت حدیث میں آتا ہے، [ نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُور ] (صحيح بخاری ، كتاب الاستسقاء، باب نصرت بالصبا مسلم، باب في ريح الصبا والدبور) میری مدد صبا (مشرقی ہوا) سےکی گئی اور عاد دبور (پچھمی) ہوا سے ہلاک کیے گئے۔ ﴿وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا﴾ سے مراد فرشتے ہیں، جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے۔ انہوں نے دشمن کےدلوں پر ایسا خوف اور دہشت طاری کر دی کہ انہوں نے وہاں سے جلد بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ الأحزاب
10 1- اس سے مراد یہ ہے کہ ہر طرف سے دشمن آگئے یا اوپر سے مراد غطفان، ہوا زن اور دیگر نجد کے مشرکین ہیں اور نیچے کی سمت سے قریش اور ان کے اعوان وانصار۔ 2- یہ مسلمانوں کی اس کیفیت کا اظہار ہے جس سے اس وقت دوچار تھے۔ الأحزاب
11 1- یعنی مسلمانوں کو خوف، قتال، بھوک اور محاصرے میں مبتلا کرکے ان کو جانچا پرکھا گیا تاکہ منافق الگ ہو جائیں۔ الأحزاب
12 1- یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا وعدہ ایک فریب تھا۔ یہ تقریباً ستر منافقین تھے جن کی زبانوں پر وہ بات آگئی جو دلوں میں تھی۔ الأحزاب
13 1- یثرب اس پورے علاقے کا نام تھا، مدینہ اسی کا ایک حصہ تھا، جسے یہاں یثرب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یثرب اس لئے پڑا کہ کسی زمانے میں عمالقہ میں سے کسی نے یہاں پڑاو کیا تھا جس کا نام یثرب بن عمیل تھا۔ (فتح القدیر)۔ 2- یعنی مسلمانوں کے لشکر میں رہنا تو سخت خطرناک ہے، اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ۔ 3- یعنی بنو قریظہ کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے یوں اہل خانہ کی جان ومال اور آبرو خطرے میں ہے۔ 4- یعنی جو خطرہ وہ ظاہر کر رہے ہیں، نہیں ہے وہ اس بہانے سے راہ فرار چاہتے ہیں۔ عَوْرَةٌ کے لغوی اور معروف معنی کے لئے دیکھئے، سورۂ نور، آیت 58 کا حاشیہ۔ الأحزاب
14 1- یعنی مدینے یا ان کے گھروں میں چاروں طرف سے دشمن داخل ہو جائیں اور ان سے مطالبہ کریں کہ تم کفر وشرک کی طرف دوبارہ واپس آجاؤ، تو یہ ذرا توقف نہ کریں گے اور اس وقت گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا عذر بھی نہیں کریں گے بلکہ فوراً مطالبۂ شرک کے سامنے جھک جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ کفر وشرک ان کو مرغوب ہے اور اس کی طرف یہ لپکتے ہیں۔ الأحزاب
15 1- بیان کیا جاتا ہے کہ منافقین جنگ بدر تک مسلمان نہیں ہوئے۔ لیکن جب مسلمان فاتح ہوکر اور مال غنیمت لے کر واپس آئے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کا اظہار کیا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ آئندہ جب بھی کفار سے معرکہ پیش آیا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ضرور لڑیں گے، یہاں ان کو وہی عہد یاد کرایا گیا ہے۔ 2- یعنی اسےپورا کرنے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا اور عدم وفا پر سزا کے وہ مستحق ہوں گے۔ الأحزاب
16 1- یعنی موت سے تو کوئی صورت مفر نہیں ہے۔ اگر میدان جنگ سے بھاگ کر آبھی جاؤ گے، تو کیا فائدہ؟ کچھ عرصے بعد موت کا پیالہ تو پھر بھی پینا ہی پڑے گا۔ الأحزاب
17 1- یعنی تمہیں ہلاک کرنا، بیمار کرنا، یا مال وجائیداد میں نقصان پہنچانا یا قحط سالی میں مبتلا کرنا چاہے، تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے؟ یا اپنا فضل وکرم کرنا چاہے تو وہ روک سکے؟ الأحزاب
18 1- یہ کہنے والے منافقین تھے، جو اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے روکتے تھے۔ 2- کیوں کہ وہ موت کے خوف سے پیچھے ہی رہتے تھے۔ الأحزاب
19 1- یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کرلڑنے میں بخیل ہیں۔ 2- یہ ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے۔ 3- یعنی اپنی شجاعت ومردانگی کی بابت ڈینگیں مارتے ہیں، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، یا غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی وطراری سے لوگوں کو متاثر کرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں، غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بخیل اور سب سے زیادہ برا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ کر بھاگ جانے والے ہیں۔ 4- یادوسرا مفہوم ہے کہ خیر کا جذبہ بھی ان کےاندر نہیں ہے۔ یعنی مذکورہ خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی سے بھی وہ محروم ہیں۔ 5- یعنی دل سے، بلکہ یہ منافق ہیں، کیوں کہ ان کے دل کفر وعناد سے بھرے ہوئے ہیں۔ 6- اس لئے کہ وہ مشرک اور کافر ہیں اور کافر ومشرک کے اعمال باطل ہیں، جن پر کوئی اجر وثواب نہیں۔ یا أَحْبَطَ أَظْهَرَ کے معنی میں ہے، یعنی ان کے عملوں کے بطلان کو ظاہر کر دیا، اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے ہیں ہی نہیں کہ وہ ثواب کے مقتضی ہوں اور اللہ ان کو باطل کر دے۔ (فتح القدیر)۔ 7- ان کے اعمال کا برباد کر دینا، یا ان کا نفاق۔ الأحزاب
20 1- یعنی ان منافقین کی بزدلی، دوں ہمتی اور خوف ودہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام ونامراد واپس جا چکے ہیں۔ لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں۔ 2- یعنی بالفرض اگر کفار کی ٹولیاں دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائیں تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ شہر کے اندر رہنے کے بجائے، باہر صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں؟ یا لشکر کفار کامیاب رہا یا ناکام؟ 3- محض عار کے ڈر سے یاہم وطنی کی حمیت کی وجہ سے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو جہاد سے گریز کرتے یا اس سے پیچھے رہتے ہیں۔ الأحزاب
21 1- یعنی اے مسلمانو ! اور منافقو ! تم سب کے لئے رسول اللہ (ﷺ) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر وثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتیٰ کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہو گیا، اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریباً ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ (ﷺ) کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ (ﷺ) کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ (ﷺ) کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے، یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ﴾ الآية (الحشر) اور﴿إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ﴾ الآية (آل عمران: 31) کا مفاد بھی یہی ہے۔ 2- اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوۂ رسول (ﷺ) کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آج مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوۂ رسول (ﷺ) کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا، پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا واہل سیاست ہیں ان کے مرشد ورہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) سےعقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں، لیکن آپ (ﷺ) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لئے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فَإِلَى اللهِ الْمُشْتَكَى۔ الأحزاب
22 1- یعنی منافقین نے تو دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول (ﷺ) کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ ابتلا وامتحان سے گزرنے کے بعد تمہیں فتح ونصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔ 2- یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نےان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبۂ اطاعت وانقیاد اور تسلیم ورضا میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔ الأحزاب
23 1- یہ آیت ان بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے اس موقع پر جاں نثاری کےعجیب وغریب جوہر دکھائے تھے اور انہیں میں وہ صحابہ (رضی الله عنہم) بھی شامل ہیں جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے لیکن انہوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اب آئندہ کوئی معرکہ پیش آیا، تو جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے، جیسے نضربن انس وغیرہ (رضی الله عنہم) ، جو بالآخر لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوئے۔ ان کے جسم پر تلوار، نیزے اور تیروں کے 80 سے اوپر زخم تھے، شہادت کے بعد ان کی ہمشیرہ نے انہیں ان کی انگلی کے پورے سے پہچانا، (مسند احمد،ج۔4، ص - 193)۔ 2- نَحْبٌ کی معنی عہد، نذر اور موت کے کیے گئے ہیں، مطلب ہے کہ ان صادقین میں سے کچھ نے تو اپنا عہد یا نذر پوری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا ہے۔ 3- اور دوسرے وہ ہیں جو ابھی تک عروس شہادت سے ہمکنار نہیں ہوئے ہیں تاہم اس کے شوق میں شریک جہاد ہوتے ہیں اور شہادت کی سعادت کے آرزو مند ہیں، اپنی اس نذر یا عہد میں انہوں نے تبدیلی نہیں کی۔ الأحزاب
24 1- یعنی انہیں قبول اسلام کی توفیق دے دے۔ الأحزاب
25 1- یعنی مشرک جو مختلف جہات سے جمع ہو کرآئے تھے تاکہ مسلمانوں کا نشان مٹا دیں۔ اللہ نے انہیں اپنے غیظ وغضب سمیت واپس لوٹا دیا۔ نہ دنیا کا مال ومتاع ان کے ہاتھ لگا اور نہ آخرت میں وہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے، کسی بھی قسم کی خیر انہیں حاصل نہیں ہوئی۔ 2- یعنی مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچا دیا۔ اسی لئے نبی (ﷺ) نے فرمایا[ لا إِلهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ ، صَدَقَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ ، فَلا شَيْءَ بَعْدَهُ ] (صحيح بخاری ، كتاب العمرة ، باب ما يقول إذا رجع من الحج أو العمرة أو الغزو - مسلم باب ما يقول إذا قفل من سفر الحج وغيره) ”ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو سرخرو کیا، اور تمام گروہوں کو اکیلے اس نے ہی شکست دے دی، اس کے بعد کوئی شے نہیں“ یہ دعا حج، عمرہ، جہاد اور سفر سے واپسی پر بھی پڑھنی چاہئے۔ الأحزاب
26 الأحزاب
27 1- اس میں غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر ہے جیسا کہ پہلے گزرا کہ اس قبیلے نے نقض عہد کرکے جنگ احزاب میں مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ (ﷺ) ابھی غسل ہی فرما سکے تھے کہ حضرت جبرائیل (عليہ السلام) آگئے اور کہا کہ آپ (ﷺ) نے ہتھیار رکھ دیے؟ ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ہیں۔ چلئے، اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا ہے، مجھے اللہ نے اسی لئے آپ (ﷺ) کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کر دی کہ عصر کی نماز وہاں جا کر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہو گئے، باہر سے مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جو کم وبیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ (رضی الله عنہ) کو اپنا حکم (ثالث) تسلیم کر لیا کہ وہ جو فیصلہ بابت دیں گے، ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان سے لڑنے والے لوگوں کو قتل اور بچوں، عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ نبی (ﷺ) نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر االلہ تعالیٰ کا بھی ہے۔ اس کے مطابق ان کے جنگ جو افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا گیا۔ (دیکھئے صحیح بخاری، باب غزوۂ خندق) أَنْزَلَ قلعوں سے نیچے اتار دیا، ظَاهَرُوهُمْ کافروں کی انہوں نے مدد کی۔ 2- بعض نے اس سے خیبر کی زمین مراد لی ہے کیونکہ اس کے بعد ہی 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے خیبر فتح کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ مکہ ہے اور بعض نے ارض فارس وروم کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور بعض کے نزدیک تمام وہ زمینیں ہیں جو قیامت تک مسلمان فتح کریں گے۔ (فتح القدیر)۔ الأحزاب
28 الأحزاب
29 1- فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار ومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کر دیا۔ نبی (ﷺ) چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینے تک جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے فرمایا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں؟ بلکہ میں اللہ اور رسول (ﷺ) کو پسند کرتی ہوں . یہی بات دیگر ازواج مطہرات (رضی الله عنہ) ن نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہ (ﷺ) کو چھوڑ کر دنیا کی عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب) اس وقت آپ (ﷺ) کے حبالۂ عقد میں 9 بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ۔ (رضی الله عنہن) اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، میمونہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ (رضی الله عنہن)۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کر لے، پھر تو یقیناً طلاق ہوجائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علما کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی کو اختیار نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات (رضی الله عنہن) نے علیحدگی کے بجائے حرم رسول (ﷺ) میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا۔ (صحيح بخاری ، كتاب الطلاق ، باب من خير نساءه ، مسلم باب بيان أن تخيير امرأته لا يكون طلاقا إلا بالنية الأحزاب
30 1- قرآن میں الْفَاحِشَةُ (مُعَرَّفٌ بِاللامِ) کو زنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن فَاحِشَةٌ (نکرہ) کو برائی کے لئے، جیسے یہاں ہے۔ یہاں اس کے معنی بداخلاقی اور نامناسب رویے کے ہیں۔ کیونکہ نبی (ﷺ) کے ساتھ بداخلاقی اور نامناسب رویہ، آپ (ﷺ) کو ایذا پہنچانا ہے جس کا ارتکاب کفر ہے۔ علاوہ ازیں ازواج مطہرات (رضی الله عنہن) خود بھی مقام بلند کی حامل تھیں اور بلند مرتبت لوگوں کی معمولی غلطیاں بھی بڑی شمار ہوتی ہیں، اس لئے انہیں دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ الأحزاب
31 یعنی جس طرح گناہ کا وبال دگنا ہوگا، نیکیوں کا اجر بھی دوہرا ہوگا۔ جس طرح نبی کریم (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿إِذًا لأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ﴾ (بنی إسرائيل۔75) (پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا۔ الأحزاب
32 1- یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ (ﷺ) کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اور رسول (ﷺ) کی طرح تمہیں بھی امت کے لئے ایک نمونہ بننا ہے چنانچہ انہیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرکے انہیں کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں۔ اس کی مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنہیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے، لیکن انداز بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے۔ اس لئے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لئے ہیں۔ 2- اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لئے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لئے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھیچنتی ہے۔ بنابریں اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو۔ تاکہ کوئی بدباطن تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔ 3- یعنی یہ روکھاپن، صرف لہجے کی حد تک ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو۔ ﴿إِنِ اتَّقَيْتُنَّ﴾کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات، جو آگے آ رہی ہیں، متقی عورتوں کے لئے ہیں، کیونکہ انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں، انہیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں؟ الأحزاب
33 1- یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس میں وضاحت کردی گئی ہے کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست وجہاں بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔ 2- اس میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلا دیئے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے، جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو، مت نکلو۔ جیسے بےپردہ ہو کر، جس سے تمہارا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے۔ بلکہ بغیر خوشبو لگائے، سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو تَبَرُّجٌ بےپردگی اور زیب وزینت کے اظہار کو کہتے ہیں۔ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج، جاہلیت ہے، جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی، جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا، یہ جاہلیت ہی ہوگی، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما، دل فریب رکھ لیا جائے۔ 3- پچھلی ہدایات، برائی سے اجتناب سے متعلق تھیں، یہ ہدایات نیکی اختیار کرنے سے متعلق ہیں۔ 4- اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ اس کی تعیین میں کچھ اختلاف ہے۔ بعض نے ازواج مطہرات کو مراد لیا ہے، جیسا کہ یہاں قرآن کریم کے سیاق سے واضح ہے۔ قرآن نے یہاں ازواج مطہرات ہی کو اہل البیت کہا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ ھود، آیت 73 میں۔ اس لئے ازواج مطہرات کا اہل بیت ہونا نص قرآنی سے واضح ہے۔ بعض حضرات، بعض روایات کی رو سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضی الله عنہم) کو مانتے ہیں اور ازواج مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں، جب کہ اول الذکر، ان اصحاب اربعہ کو اس سے خارج سمجھتے ہیں۔ تاہم اعتدال کی راہ اور نقطہ متوسط یہ ہے کہ دونوں ہی اہل بیت ہیں۔ ازواج مطہرات تو اس نص قرانی کی وجہ سے اور داماد واولاد ان روایات کی رو سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں جن میں نبی کریم (ﷺ) نے ان کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی میرے اہل بیت سے ہیں یا یہ دعا ہے کہ یا اللہ ان کوبھی ازواج مطہرات کی طرح، میرے اہل بیت میں شامل فرما دے۔ اس طرح یہ تمام دلائل میں بھی تطبیق ہوجاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی)۔ الأحزاب
34 1- یعنی ان پر عمل کرو۔ حکمت سے مراد، احادیث ہیں۔ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض علما نے کہا ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح ثواب کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں یہ آیت بھی ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لئے وحی کا نزول، جس کا ذکر اس آیت میں ہے، ازواج مطہرات کے گھروں میں ہی ہوتا تھا، بالخصوص حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے گھر میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔ الأحزاب
35 1- حضرت ام سلمہ (رضی الله عنہا) اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے، اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے، عورتوں سے نہیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد 6 / 301، ترمذی، نمبر3211) اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام کردیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لئے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت واطاعت الٰہی اور اخروی درجات و فضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ دونوں کے لئے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر وثواب کما سکتے ہیں۔ جنس کی بنیاد پر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ الأحزاب
36 1- یہ آیت حضرت زینب (رضی الله عنہا) کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ (رضی الله عنہ) ، جو اگرچہ اصلاً عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا۔ نبی کریم (ﷺ) سے حضرت خدیجہ (رضی الله عنہا) کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ (رضی الله عنہا) نے انہیں رسول اللہ (ﷺ) کو ہبہ کردیا تھا۔ آپ (ﷺ) نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی کریم (ﷺ) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رضی الله عنہا) کو نکاح کا پیغام بھیجا، جس پر انہیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وجاہت کی بناء پر تامل ہوا، کہ زید (رضی الله عنہ) ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئےکار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے۔ چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب (رضی الله عنہا) وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا اور ان کا باہم نکاح ہوگیا۔ الأحزاب
37 1- لیکن چونکہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب وشرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید (رضی الله عنہ) کے دامن پر غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی جس کا تذکرہ حضرت زید (رضی الله عنہ) نبی کریم (ﷺ) سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی کریم (ﷺ) ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرما دیا تھا کہ زید (رضی الله عنہ) کی طرف سےطلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب (رضی الله عنہا) کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ا یک کاری ضرب لگا کر واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں ان ہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت زید (رضی الله عنہ) پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انہیں قبول اسلام کی توفیق دی اور غلامی سے نجات دلائی، نبی کریم (ﷺ) کا احسان ان پر یہ تھا کہ ان کی دینی تربیت کی۔ ان کو آزاد کرکے اپنا بیٹا قرار دیا اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کرادیا۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب (رضی الله عنہا) سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ (ﷺ) ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرنا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ (ﷺ) کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا، اس کے باوجود آپ (ﷺ) کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد یہی ہے کہ یہ نکاح ہوگیا، جس سے یہ بات سب کے ہی علم میں آجائے گی۔ 2- یعنی نکاح کے بعد طلاق دی اور حضرت زینب (رضی الله عنہا) عدت سے فارغ ہوگئیں۔ 3- یعنی یہ نکاح معروف طریقے کے برعکس صرف اللہ کے حکم سے نکاح قرار پاگیا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی۔ 4- یہ حضرت زینب (رضی الله عنہا) سے، نبی کریم (ﷺ) کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اقتضا لےپالک بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے۔ 5- یعنی پہلے سے ہی تقدیر الٰہی میں تھا جو بہرصورت ہو کر رہنا تھا۔ الأحزاب
38 1- یہ اسی واقعہ نکاح زینب (رضی الله عنہا) کی طرف اشارہ ہے، چونکہ یہ نکاح آپ (ﷺ) کے لئے حلال تھا، اس لئے اس میں کوئی گناہ اور تنگی والی بات نہیں ہے۔ 2- یعنی گزشتہ انبیا علیہم السلام بھی ایسے کاموں کے کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض قرار دیئے جاتے تھے چاہے قومی اور عوامی رسم ورواج ان کے خلاف ہی ہوتے۔ 3- یعنی خاص حکمت ومصلحت پر مبنی ہوتے ہیں، دنیوی حکمرانوں کی طرح وقتی اور فوری ضرورت پر مشتمل نہیں ہوتے، اسی طرح ان کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے جس کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ الأحزاب
39 1- اس لئے کسی کا ڈر یا سطوت انہیں اللہ کا پیغام پہچانے میں مانع بنتا تھا نہ طعن وملامت کی انہیں پروا ہوتی تھی۔ 2- یعنی ہر جگہ وہ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے موجود ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کی مدد کے لئے کافی ہے اور اللہ کے دین کی تبلیغ ودعوت میں انہیں جو مشکلات آتی ہیں، ان میں وہ ان کی چارہ سازی فرماتا اور دشمنوں کے مذموم ارادوں اور سازشوں سے انہیں بچاتا ہے۔ الأحزاب
40 1- اس لئے وہ زید بن حارثہ (رضی الله عنہ) کے بھی باپ نہیں ہیں، جس پر انہیں مورد طعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کیوں کرلیا؟ ایک زید (رضی الله عنہ) ہی کیا، وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ کیونکہ زید (رضی الله عنہ) تو حارثہ کے بیٹے تھے، آپ (ﷺ) نے تو انہیں منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا اور جاہلی دستور کے مطابق انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا، حقیقتاً وہ آپ (ﷺ) کے صلبی بیٹے نہیں تھے۔ اس لئے ﴿ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ (رضی الله عنہ) ہی کہا جاتا تھا، علاوہ ازیں حضرت خدیجہ (رضی الله عنہا) سے آپ (ﷺ) کے تین بیٹے، قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک ابراہیم بچہ ماریہ قبطیہ (رضی الله عنہا) کے بطن سے ہوا۔ لیکن یہ سب کے سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے، ان میں سے کوئی بھی عمر رجولیت کو نہیں پہنچا۔ بنابریں آپ (ﷺ) کی صلبی اولاد میں سے بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جس کے آپ باپ ہوں (ابن کثیر)۔ 2- خَاتَمٌ مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے۔ یعنی آپ (ﷺ) پر نبوت ورسالت کا خاتمہ کردیا گیا، آپ (ﷺ) کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا، وہ نبی نہیں کذاب و دجال ہوگا۔ احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع واتفاق ہے۔ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کا نزول ہوگا، جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے، تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ نبی کریم (ﷺ) کے امتی بن کر آئیں گے، اس لئے ان کا نزول عقیدہ آخرت نبوت کے منافی نہیں ہے۔ الأحزاب
41 الأحزاب
42 الأحزاب
43 الأحزاب
44 1- یعنی جنت میں فرشتے اہل ایمان کو یا مومن آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔ الأحزاب
45 1- بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر وناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کی تحریف معنوی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان کی بھی جو آپ (ﷺ) پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ (ﷺ) قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہنچان لیں گے جو چمکتے ہوں گے، اسی طرح آپ (ﷺ) دیگر انبیا علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ ا نہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ (ﷺ) تمام انبیا علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔ الأحزاب
46 1- جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ (ﷺ) کے ذریعے سے کفر وشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کرکے جو کمال وسعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن ہے۔ الأحزاب
47 الأحزاب
48 الأحزاب
49 1- نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جاچکی ہو اور وہ ابھی جوان ہوں، ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے۔ (البقرۃ: 228) یہاں ان عورتوں کو حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ جن سے نکاح ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی۔ ان کو اگر طلاق ہوجائے تو کوئی عدت نہیں ہے یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے، تو کر سکتی ہے، البتہ اگر ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے 4 مہینے 10 دن ہی عدت گزارنی پڑے گی۔ (فتح القدیر، ابن کثیر) چھونا یا ہاتھ لگانا، یہ کنایہ ہے جماع (ہم بستری) سے۔ نکاح کا لفظ خاص جماع اور عقد زواج دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عقد کے معنی میں ہے۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہاں نکاح کے بعد طلاق کا ذکر ہے۔ اس لئے جو فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو ان کے نزدیک اس عورت سے نکاح ہوتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح بعض جو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہے کہ میں نے کسی بھی عورت سے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا، طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں بھی وضاحت ہے۔ [ لا طَلاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ ] (ابن ماجہ) [ لا طَلاقَ لابْنِ آدَمَ فِيمَا لا يَمْلِكُ ] (أبو داود ، باب في الطلاق قبل النكاح، ترمذی، ابن ماجہ ومسند أحمد 2 /189) اس سے واضح ہے کہ نکاح سے قبل طلاق، ایک فعل عبث ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ 2- یہ متعہ، اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو نصف مہر ہے ورنہ حسب توفیق کچھ دے دیا جائے۔ 3- یعنی انہیں عزت واحترام سے ، بغیر کوئی ایذاء پہنچائے علیحدہ کردیا جائے۔ الأحزاب
50 1- بعض احکام شرعیہ میں نبی کریم (ﷺ) کو امتیاز حاصل تھا، جنہیں آپ (ﷺ) کی خصوصیات کہا جاتا ہے۔ مثلاً اہل علم کی ایک جماعت کے بقول قیام اللیل (تہجد) آپ (ﷺ) پر فرض تھا، صدقہ آپ (ﷺ) پر حرام تھا، اسی طرح کی بعض خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کے اس مقام پر کیا گیا ہے جن کا تعلق نکاح سے ہے۔ 1 . جن عورتوں کو آپ (ﷺ) نے مہر دیا ہے، وہ حلال ہیں چاہے تعداد میں وہ کتنی ہی ہوں اور آپ (ﷺ) نے حضرت صفیہ (رضی الله عنہا) اور جویریہ (رضی الله عنہا) کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا تھا، ان کے علاوہ بصورت نقد سب کو مہر ادا کیا تھا۔ صرف ام حبیبہ (رضی الله عنہا) کا مہر نجاشی نے اپنی طرف سے دیا تھا۔ 2- چنانچہ حضرت صفیہ (رضی الله عنہا) اور جویریہ (رضی الله عنہا) ملکیت میں آئیں جنہیں آپ (ﷺ) نے آزاد کرکے نکاح کرلیا، اور ریحانہ (رضی الله عنہا) اور ماریہ قبطیہ (رضی الله عنہا) یہ بطور لونڈی آپ کےپاس رہیں۔ 3- اس کا مطلب ہے کہ جس طرح آپ (ﷺ) نے ہجرت کی، اسی طرح انہوں نے بھی مکے سے مدینہ ہجرت کی۔ کیونکہ آپ (ﷺ) کے ساتھ تو کسی عورت نے بھی ہجرت نہیں کی تھی۔ 4- یعنی اپنے آپ (ﷺ) کو ہبہ کرنے والی عورت، اگر آپ (ﷺ) اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں تو بغیر مہر کے آپ (ﷺ) کے لئے اسے اپنے نکاح میں رکھنا جائزہے۔ 5- یہ اجازت صرف آپ (ﷺ) کے لئے ہے۔ دیگر مومنوں کے لئے تو ضروری ہے کہ وہ حق مہر، ادا کریں، تب نکاح جائز ہوگا۔ 6- یعنی عقد کے جو شرائط اور حقوق ہیں جو ہم نے فرض کئے ہیں کہ مثلاً چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت کوئی شخص اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، نکاح کے لئے ولی، گواہ اور حق مہر ضروری ہے۔ البتہ لونڈیاں جتنی کوئی چاہے، رکھ سکتا ہے، تاہم آج کل لونڈیوں کا مسئلہ تو ختم ہے۔ الأحزاب
51 1- اس کا تعلق ﴿إِنَّا أَحْلَلْنَا﴾ سے ہے یعنی مذکورہ تمام عورتوں کی آپ (ﷺ) کے لئے حلت اس لئے ہے تاکہ آپ (ﷺ) کو تنگی محسوس نہ ہو اور آپ (ﷺ) ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح میں گناہ نہ سمجھیں۔ 2- یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ (ﷺ) چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ (ﷺ) کو حاصل ہے۔ 3- یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہوں گی، غمگین نہیں ہوں گی اور جتنا کچھ آپ (ﷺ) کی طرف سے انہیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر (ﷺ) یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلہ پر راضی اور مطمئن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کو یہ اختیار ملنے کے باوجود آپ (ﷺ) نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ (رضی الله عنہا) کے (کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے لئے ہبہ کردی تھی) آپ (ﷺ) نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر برابر مقرر کر رکھی تھیں، اس لئے آپ (ﷺ) نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے پاس گزارے ﴿أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ﴾ کا تعلق آپ (ﷺ) کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ (ﷺ) پر تقسیم اگرچہ (دوسرے لوگوں کی طرح) واجب نہیں تھی، اس کے باوجود آپ (ﷺ) نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ (ﷺ) کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ (ﷺ) کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ (ﷺ) نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔ 4- یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، ان میں یہ بات بھی یقیناً ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیوں کہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان ونفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کرسکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار ہی میں نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث نہ ہو۔ اسی لئے نبی کریم (ﷺ) فرمایا کرتے تھے یااللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ (أبو داود، باب القسم في النساء، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مسند أحمد 6 / 144)۔ الأحزاب
52 1- آیت تخییر کے نزول کے بعد ازواج مطہرات نے دنیا کے اسباب عیش و راحت کے مقابلے میں عسرت کے ساتھ، نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ رہنا پسند کیا تھا، اس کا صلہ اللہ نے یہ دیا کہ آپ (ﷺ) کو ان ازواج کے علاوہ (جن کی تعداد اس وقت 9 تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا اس میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ اور سے نکاح کرنے سے منع فرمادیا۔ بعض کہتے ہیں کہ بعد میں آپ (ﷺ) کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا، لیکن آپ (ﷺ) نے کوئی نکاح نہیں کیا۔ (ابن کثیر)۔ 2- یعنی لونڈیاں رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بعض نے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافر لونڈی بھی رکھنے کی آپ (ﷺ) کو اجازت تھی اور بعض نے ﴿وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ﴾ (الممتحنہ: 10) کے پیش نظر اسے آپ (ﷺ) کے حلال نہیں سمجھا۔ (فتح القدیر)۔ الأحزاب
53 1- اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی دعوت پر حضرت زینب (رضی الله عنہا) کے ولیمے میں صحابہ کرام (رضی الله عنہم) تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ (ﷺ) کو خاص تکلیف ہوئی، تاہم حیا واخلاق کی وجہ سے آپ (ﷺ) نے انہیں جانے کے لئے کہا نہیں۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الأحزاب) چنانچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلا دیئے گئے کہ ایک تو اس وقت جاؤ، جب کھانا تیار ہوچکا ہو، پہلے سے ہی جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ دوسرا، کھاتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ، وہاں بیٹھے ہوئے باتیں مت کرتے رہو، کھانے کا ذکر تو سبب نزول کی وجہ سے ہے، ورنہ مطلب یہ ہے کہ جب بھی تمہیں بلایا جائے چاہے کھانے کے لئے یا کسی اور کام کے لئے، اجازت کے بغیر گھر کے اندر داخل مت ہو۔ 2- یہ حکم حضرت عمر (رضی الله عنہ) کی خواہش پر نازل ہوا۔ حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے نبی کریم (ﷺ) سے عرض کیا، یا رسول اللہ (ﷺ)! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں تو کیا اچھا ہو۔ جس پر اللہ نے یہ حکم نازل فرما دیا۔ (صحيح بخاری ، كتاب الصلاة ، وتفسير سورة البقرة، مسلم باب فضائل عمر بن الخطاب)۔ 3- یہ پردے کی حکمت اور علت ہے کہ اس سے مرد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ 4- چاہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو۔ آپ (ﷺ) کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا، آپ (ﷺ) کی خواہش کے بغیر گھر میں بیٹھے رہنا اور بغیر حجاب کے ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا، یہ امور بھی ایذا کے باعث ہیں، ان سے بھی اجتناب کرو۔ 5- یہ حکم ان ازواج مطہرات کے بارے میں ہے جو وفات کے وقت نبی کریم (ﷺ) کے حبالۂ عقد میں تھیں۔ تاہم جن کو آپ (ﷺ) نے ہم بستری کے بعد زندگی میں طلاق دے کر اپنے سےعلیحدہ کردیا ہو، وہ اس کے عموم میں داخل ہیں یا نہیں؟ اس میں دو رائے ہیں۔ بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں۔ لیکن آپ (ﷺ) کی ایسی کوئی بیوی تھی ہی نہیں۔ اس لئے یہ محض ایک فرضی شکل ہے۔ علاوہ ازیں ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ (ﷺ) نکاح ہوا لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ (ﷺ) نے طلاق دے دی۔ ان سے دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر) الأحزاب
54 الأحزاب
55 1- جب عورتوں کے لئے پردے کا حکم نازل ہوا تو پھر گھر میں موجود اقارب یا ہر وقت آنے والے جانےوالے رشتے داروں کی بابت سوال ہوا کہ ان سے پردہ کیا جائے یا نہیں؟ چنانچہ اس آیت میں ان اقارب کا ذکر کردیا گیا جن سے پردے کی ضرورت نہیں؟ اس کی تفصیل سورۂ نور کی آیت 31 ﴿وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ﴾ میں بھی گزرچکی ہے، اسے ملاحظہ فرما لیا جائے۔ 2- اس مقام پر عورتوں کو تقویٰ کا حکم دے کر واضح کردیا کہ اگر تمہارے دلوں میں تقویٰ ہوگا تو پردے کا جو اصل مقصد، قلب ونظر کی طہارت اور عصمت کی حفاظت ہے، وہ یقیناً تمہیں حاصل ہوگا، ورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمہیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچا سکیں گی۔ الأحزاب
56 1- اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو ملأ اعلیٰ (آسمانوں) میں آپ (ﷺ) کو حاصل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں میں آپ (ﷺ) کی ثناو تعریف کرتا اور آپ (ﷺ) پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ (ﷺ) کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ (ﷺ) پر صلوٰۃ وسلام بھیجیں تاکہ آپ (ﷺ) کی تعریف میں علوی اورسفلی دونوں عالم متحد ہوجائیں۔ حدیث میں آتا ہے، صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی التحیات میں [السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ] پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ (ﷺ) نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نمازمیں پڑھا جاتا ہے۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الأحزاب) علاوہ ازیں احادیث میں درود کے اور بھی صیغے آتے ہیں، جو پڑھے جاسکتے ہیں۔ نیز مختصراً (ﷺ) بھی پڑھا جاسکتا ہے تاہم [ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ] پڑھنا اس لئے صحیح نہیں کہ اس میں نبی کریم (ﷺ) سے خطاب ہے اور یہ صیغہ نبی کریم سے عام درود کے وقت منقول نہیں ہے اور تحیات میں[السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ] چونکہ آپ (ﷺ) سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں مزید برآں اس کا پڑھنے والا اس فاسد عقیدے سے پڑھتا ہے کہ آپ (ﷺ) اسے براہ راست سنتے ہیں۔ یہ عقیدہ فاسدہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے اور اس عقیدے سے مذکورہ خانہ ساز درود پڑھنا بھی غیر صحیح ہے۔ اسی طرح اذان سے قبل اسے پڑھنا بھی بدعت ہے، جو ثواب نہیں، گناہ ہے۔ احادیث میں درود کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور علما اسے سنت سمجھتے ہیں اور امام شافعی اور بہت سے علما واجب۔ اور احادیث سے اس کے وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے، پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے۔ اس لئے نماز کے دونوں تشہد میں درود پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے دلائل مختصراً حسب ذیل ہیں۔ ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم (ﷺ) سے سوال کیا، یا رسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ) پر سلام کس طرح پڑھنا ہے، یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں[ السَّلامُ عَلَيْكَ ]پڑھتے ہیں) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپ (ﷺ) پر درود کس طرح پڑھیں؟ تو آپ (ﷺ) نے درود ابراہیمی کی تلقین فرمائی (الفتح الربانی، ج 4، ص 20۔21) مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبری بیہقی، مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں بھی ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ جس طرح سلام نماز میں پڑھا جاتا ہے یعنی تشہد میں، اسی طرح یہ سوال بھی نماز کے اندر درود پڑھنے سے متعلق تھا، نبی (ﷺ) نے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سلام کے ساتھ درود بھی پڑھنا چاہیئے، اور اس کا مقام تشہد ہے۔ اور حدیث میں یہ عام ہے، اسے پہلے یا دوسرے تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ (پہلے اور دوسرے) دونوں تشہد میں سلام اور درود پڑھا جائے۔ اور جن روایات میں تشہد اول کا بغیر درود کے ذکر ہے، انہیں سورۂ احزاب کی آیت﴿صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا﴾ کے نزول سے پہلے پر محمول کیا جائے گا۔ لیکن اس آیت کے نزول یعنی 5 ہجری کے بعد جب نبی (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) کے استفسار پر درود کے الفاظ بھی بیان فرما دیئے تو اب نماز میں سلام کے ساتھ صلوٰۃ (درود شریف) کا پڑھنا بھی ضروری ہوگیا، چاہے وہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے بیان فرمایا کہ نبی (ﷺ) (بعض دفعہ) رات کو 9 رکعات ادا فرماتے، آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر (ﷺ) پر درود پڑھتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کرکے تشہد میں بیٹھتےتو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے، پھر سلام پھیر دیتے (السنن الكبرى للبيهقي، ج2 ص704 طبع جديد سنن النسائی، مع التعليقات السلفية، كتاب قيام الليل، ج1 ص202۔ مزید ملاحظہ ہو، صفة صلاة النبي للألباني صفحة 145) اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی (ﷺ) نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے۔ یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپ (ﷺ) کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے، اس لئے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کردینا صحیح نہیں ہوگا۔ الأحزاب
57 1- اللہ کا ایذا دینے کا مطلب ان افعال کا ارتکاب ہے جسے وہ ناپسند فرماتا ہے۔ ورنہ اللہ کو ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جیسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات اور دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الجاثية ومسلم، كتاب الألفاظ من الأدب، باب النهي عن سب الدهر) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کردیا، یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ افعال اللہ کے ہیں، زمانے یا فلک کے نہیں۔ اللہ کے رسول (ﷺ) کو ایذا پہنچانا، آپ (ﷺ) کی تکذیب، آپ (ﷺ) کو شاعر، کذاب، ساحر وغیرہ کہنا ہے۔ علاوہ ازیں بعض احادیث میں صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو ایذا پہنچانے اور ان کی تنقیص واہانت کو بھی آپ (ﷺ) نے ایذا قرار دیا ہے۔ لعنت کا مطلب، اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔ الأحزاب
58 1- یعنی ان کو بدنام کرنے کے لئے ان پر بہتان باندھنا، ان کی ناجائز تنقیص و توہین کرنا۔ جیسے روافض صحابہ کرام (رضی الله عنہم) پر سب وشتم کرتے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں رافضی منکوس القلوب ہیں، ممدوح اشخاص کی مذمت کرتے اور مذموم لوگوں کی مدح کرتے ہیں۔ الأحزاب
59 1- جَلابِيبُ، جِلْبَابٌ کی جمع ہے، جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے۔ اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظر جھکا کر چلنے سے راستہ بھی نظر آتا جائے۔ پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں، عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے، پھربعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہ رہی جو عہد رسالت اور صحابہ و تابعین کے دور میں تھی، عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں، بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کاکوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہو جاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ سادگی نہ رہی، اس کی جگہ تجمل اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہو گئی، جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہو گئے۔ گو اس سے بعض دفعہ عورت کو، بالخصوص سخت گرمی میں، کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لئے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانپتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے، وہ یقیناً پردے کے حکم کو بجا لاتی ہے، کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لئے لازمی قرار دیا ہو۔ لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بےپردگی اختیار کرنے کا ذریعے بنا لیا ہے۔ پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں۔ پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے، صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لئے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیوں کہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لی ہے، بےپردگی عام ہوگئی ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بہرحال اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علما کا ایجاد کردہ نہیں ہے، جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں، یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے، بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کی نص سے ثابت ہے، اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کریم (ﷺ) کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ آپ (ﷺ) کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ وسیر اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔ 2- یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بےشرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ چھاڑ کی جرات کسی کو نہیں ہوگی، اس کے برعکس بےپردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی بوالہوسی کا نشانہ بنے گی۔ الأحزاب
60 1- مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے منافقین افواہیں اڑاتے رہتے تھے کہ مسلمان فلاں علاقے میں مغلوب ہوگئے، یا دشمن کا لشکر جرار حملہ آور ہونے کے لئے آرہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ الأحزاب
61 1- یہ حکم نہیں ہے کہ ان کو پکڑ کر مار ڈالا جائے، بلکہ بد دعا ہے کہ اگر وہ اپنے نفاق اور ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا نہایت عبرت ناک حشر ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم ہے۔ لیکن یہ منافقین نزول آیت کے بعد اپنی حرکتوں سے باز آگئے تھے، اس لئے ان کے خلاف یہ کارروائی نہیں کی گئی جس کا حکم اس آیت میں دیا گیا تھا۔ (فتح القدیر)۔ الأحزاب
62 الأحزاب
63 الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 1- یعنی ہم نے تیرے پیغمبروں اور داعیان دین کے بجائے اپنے ان بڑوں اور بزرگوں کی پیروی کی، لیکن آج ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے ہمیں تیرے پیغمبروں سے دور رکھ کر راہ راست سے بھٹکائے رکھا۔ آباپرستی اور تقلید اکابر آج بھی لوگوں کی گمراہی کا باعث ہے۔ کاش مسلمان آیات الٰہی پر غور کرکے ان پگڈنڈیوں سے نکلیں اور قرآن وحدیث کی صراط مستقیم کو اختیار کرلیں کہ نجات صرف اور صرف اللہ اور رسول کی پیروی میں ہی ہے۔ نہ کہ مشائخ واکابر کی تقلید میں یا آبا واجداد کے فرسودہ طریقوں کے اختیار کرنے میں۔ الأحزاب
68 الأحزاب
69 1- اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نہایت باحیا تھے، چنانچہ اپنا جسم انہوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسیٰ (عليہ السلام) کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) تنہائی میں غسل کرنے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے، پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسی (عليہ السلام) اس کے پیچھے پیچھے دوڑے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے، انہوں نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ (عليہ السلام) نہایت حسین وجمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کی اس الزام اور شبہے سے براءت کردی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا (صحيح بخاری كتاب الأنبياء) حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (ﷺ) کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ اور آپ (ﷺ) کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ (ﷺ) قلق اور اضطراب محسوس کریں، جیسے ایک موقعے پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ جب آپ (ﷺ) تک یہ الفاظ پہنچے تو غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ آپ (ﷺ) کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا آپ (ﷺ) نے فرمایا ”موسیٰ (عليہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی، لیکن انہوں نے صبر کیا“۔ (بخاری كتاب الأنبياء، مسلم، كتاب الزكاة، باب إعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام..)۔ الأحزاب
70 1- یعنی ایسی بات جس میں کجی اور انحراف ہو، نہ دھوکہ اور فریب۔ بلکہ سچ اور حق ہو۔ سَدِيدٌ يَعْنِي تَسْدِيدُ السَّهْمِ سے ہے، یعنی جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیک نشانے پر لگے، اسی طرح تمہاری زبان سےنکلی ہوئی بات اور تمہارا کردار راستی پر مبنی ہو، حق وصداقت سے بال برابر انحراف نہ ہو۔ الأحزاب
71 1- یہ تقویٰ اور قول سدید کا نتیجہ ہے کہ تمہارے عملوں کی اصلاح ہوگی اور مزید توفیق مرضیات سے نوازے جاؤ گے اور کچھ کمی کوتاہی رہ جائے گی، تو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ الأحزاب
72 1- جب اللہ تعالیٰ نے اہل اطاعت کا اجر وثواب اور اہل معصیت کا وبال اور عذاب بیان کردیا تو اب شرعی احکام اور اس کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض وواجبات مراد ہیں جن کی ادائیگی پر ثواب اور ان سے اعراض وانکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان وزمین اور پہاڑوں پر پیش کی گئیں تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ لیکن جب انسان پر یہ چیز پیش کی گئی تو وہ اطاعت الٰہی (امانت) کے اجر وثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کو اٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ احکام شرعیہ کو امانت سے تعبیر کرکے اشارہ فرما دیا کہ ان کی ادائیگی انسانوں پر اسی طرح واجب ہے، جس طرح امانت کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اور آسمان وزمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا؟ اور انسان نے اسے کس وقت قبول کیا؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں نہ اسے بیان کرسکتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق میں ایک خاص قسم کا احساس وشعور رکھا ہے، گو ہم اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہوگا جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا۔ اور یہ ا نکار انہوں نے سرکشی وبغاوت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو اس کی سخت سزا ہمیں بھگتنی ہوگی۔ انسان چونکہ جلد باز ہے، اس نے عقوبت وتعزیر کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اس ذمے داری کو قبول کرلیا۔ الأحزاب
73 1- یعنی یہ بار گراں اٹھا کر اس نے اپنے نفس پر ظلم کا ارتکاب کیا اور اس کے مقتضیات سے اعراض یا اس کی قدر وقیمت سے غفلت کرکے جہالت کا مظاہرہ پیش کیا۔ 2- اس کا تعلق حَمَلَهَا سے ہے یعنی انسان کو اس امانت کا ذمے دار بنانے سے مقصد یہ ہے کہ اہل نفاق واہل شرک کا نفاق وشرک اور اہل ایمان کا ایمان ظاہر ہوجائے اور پھر اس کے مطابق جزا وسزا دی جائے۔ الأحزاب
0 سبأ
1 1- یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے، اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے۔ انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے، وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے، اسی لئے آسمان وزمین کی ہر چیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمدوتعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔ 2- یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلاً ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ﴾ (سورة الزمر:74) ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا﴾ (سورة الأعرا: 43) ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ﴾ (فاطر: 34) وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ تاہم دنیا میں اللہ کی حمد وتعریف، عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی، جس سے انہیں لذت وفرحت محسوس ہوا کرے گی۔ (فتح القدیر)۔ سبأ
2 1- مثلاً بارش، خزانہ اور دفینہ وغیرہ۔ 2- بارش، اولے، گرج، بجلی اور برکات الٰہی وغیرہ، نیز فرشتوں اور آسمانی کتابوں کا نزول۔ 3- یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال۔ سبأ
3 1- قسم بھی کھائی اور صیغہ بھی تاکید کا اور اس پر مزید لازم تاکید یعنی قیامت کیوں نہیں آئے گی؟ وہ تو بہرصورت یقیناً آئے گی۔ 2- لا يَعْزُبُ، غائب اور پوشیدہ اور دور نہیں۔ یعنی جب آسمان وزمین کا کوئی ذرہ اس سے غائب اور پوشیدہ نہیں، تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو، جو مٹی میں مل گئے ہوں گے، جمع کرکے دوبارہ تمہیں زندہ کردینا کیوں ناممکن ہوگا۔ 3- یعنی وہ لوح محفوظ میں موجود اور درج ہے۔ سبأ
4 1- یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی قیامت اس لئے برپا ہوگی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ اس لئے دوبارہ زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا عطا فرمائے، کیونکہ جزا کے لئے ہی اس نے یہ دن رکھا ہے۔ اگر یہ یوم جزا نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک وبد دونوں یکساں ہیں۔ اور یہ بات عدل وانصاف کے قطعاً منافی اور بندوں بالخصوص نیکوں پر ظلم ہوگا۔ ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلام للْعَبِيدِ﴾۔ سبأ
5 1- یعنی ہماری ان آیتوں کے بطلان اور تکذیب کی جو ہم نے اپنے پیغمبروں پر نازل کیں۔ مُعَاجِزِينَ، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم ان کی گرفت سے عاجز ہوں گے، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کےبعد جب ہم مٹی میں مل جائیں گے تو ہم کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کسی کے سامنے اپنے آپ کئے دھرے کی جواب دہی کریں گے؟ ان کا یہ سمجھنا گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مواخذہ کرنے پر قادر ہی نہیں ہوگا، اس لئے قیامت کا خوف ہمیں کیوں ہو؟ سبأ
6 1- یہاں رویت سے مراد رویت قلبی یعنی علم یقینی ہے، محض رویت بصری (آنکھ کا دیکھنا) نہیں۔ اہل علم سے مراد صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ، یا مومنین اہل کتاب یا تمام ہی مومنین ہیں یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔ 2- یہ عطف ہےحق پر، یعنی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس اللہ کا راستہ ہے جو کائنات میں سب پر غالب ہے اور اپنی مخلوق میں محمود (قابل تعریف) ہے۔ اور وہ راستہ کیا ہے؟ توحید کا راستہ جس کی طرف تمام انبیا علیہم السلام اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔ سبأ
7 1- یہ اہل ایمان کے مقابلے میں منکرین کا آخرت کا قول ہے جو آپس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ 2- اس سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ (ﷺ) ہیں جو ان کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے تھے۔ 3- یعنی عجیب وغریب خبر، ناقابل فہم خبر۔ 4- یعنی مرنے کے بعد جب تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے، تمہارا ظاہری وجود ناپید ہوجائے گا، تمہیں قبروں سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دوبارہ وہی شکل وصورت تمہیں عطا کردی جائے گی جس میں تم پہلے تھے۔ یہ گفتگو انہوں نے آپس میں استہزا اور مذاق کے طور پر کی۔ سبأ
8 1- یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی ورسالت کا دعویٰ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔ 2- اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کے بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔ سبأ
9 1- یعنی اس پر غور وفکر نہیں کرتے؟ اللہ تعالیٰ ان کی زجر وتوبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہےکہ آخرت کا یہ انکار، آسمان وزمین کی پیدائش میں غوروفکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول وعرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کردینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے؟ 2- یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے، ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا، دوسری، کفار کے لئے تنبیہ وتہدید، کہ جو اللہ آسمان وزمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہر چیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے، وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کرسکتا ہے۔ زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر، جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔ سبأ
10 1- یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا۔ 2- ان میں سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی، جب وہ اللہ کی تسبیح پڑھتے تو پتھر کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہو جاتے، اڑتے پرندے ٹھہرجاتے اور زمزمہ خواں ہوجاتے اوّبی کے معنی ہیں تسبیح دہراؤ۔ یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا، چنانچہ یہ بھی داود (عليہ السلام) کے ساتھ مصروف تسبیح ہوجاتے وَالطَّيْرَ کا عطف یا جبال کے محل پر ہے۔ اس لئے کہ جبال تقدیراً منصوب ہے۔ اصل عبارت اسی طرح ہے (نَادَيْنَا الْجِبَالَ وَالطِّيْرَ) (ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو پکارا) یا پھر اس کا عطف فضلاً پر ہے اور معنی ہوں گے (وَسَخَّرْنَا لَهُ الطَّيْر ) (اور ہم نے پرندے ان کے تابع کردیئے)۔ (فتح القدیر)۔ 3- یعنی لوہے کو آگ میں تپائے اور ہتھوڑی سے کوٹے بغیر، اسے موم، گوندھے ہوئے آٹے اور گیلی مٹی کی طرح، جس طرح چاہتے موڑ لیتے، بٹ لیتے اور جو چاہتے بنا لیتے۔ سبأ
11 1- سَابِغَاتٍ محذوف موصوف کی صفت ہے دُرُوعًا سَابِغَاتٍ یعنی پوری لمبی زرہیں، جو لڑنے والے کے پورے جسم کو صحیح طریقے سے ڈھانک لیں اور اسے دشمن کے وار سے محفوظ رکھیں۔ 2- تاکہ چھوٹی بڑی نہ ہوں، یا سخت یا نرم نہ ہوں یعنی کڑیوں کے جوڑنے میں کیل اتنے باریک نہ ہوں کہ جوڑ حرکت کرتے رہیں اور ان میں قرار وثبات نہ آئے اور نہ اتنے موٹے ہوں کہ اسے توڑ ہی ڈالیں یا جس سے حلقہ تنگ ہو جائے اور اسے پہنا نہ جاسکے۔ زرہ بافی کی صنعت کے بارے میں حضرت داود (عليہ السلام) کو ہدایات دی گئیں۔ 3- یعنی ان نعمتوں کے بدلےمیں عمل صالح کا اہتمام کرو تاکہ میرا عملی شکر بھی ہوتا رہے۔ اس سےمعلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ دنیوی نعمتوں سے سرفراز فرمائے، اسے اسی حساب سے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیئے اور شکر میں بنیادی چیز یہی ہے کہ منعم کو راضی رکھنے کی بھرپور سعی کی جائے یعنی اس کی اطاعت کی جائے۔ اور نافرمانی سے بچا جائے۔ سبأ
12 1- یعنی حضرت سلیمان (عليہ السلام) مع اعیان سلطنت اور لشکر، تخت پر بیٹھ جاتے، اور جدھر آپ کا حکم ہوتا ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت، صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک، ایک مہینے جتنی مسافت طے ہوجاتی۔ اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوجاتی۔ 2- یعنی جس طرح حضرت داود (عليہ السلام) کے لئےلوہا نرم کردیا گیا تھا، حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کردیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں، بنائیں۔ 3- اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کا سونٹا ہوتا تھا۔ جو جن حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ سونٹا اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا۔ (فتح القدیر)۔ سبأ
13 1- مَحَارِيبَ، مِحْرَابٌ کی جمع ہے، بلند جگہ یا اچھی عمارت، مطلب ہے بلند محلات، عالی شان عمارتیں یا مساجد ومعابد تَمَاثِيلَ، تِمْثَالٌ کی جمع ہے، تصویر۔ یہ تصویریں غیر حیوان چیزوں کی ہوتی تھیں، بعض کہتے ہیں کہ انبیا وصلحا کی تصاویر مسجدوں میں بنائی جاتی تھیں تاکہ انہیں دیکھ کر لوگ بھی عبادت کریں۔ یہ معنی اس صورت میں صحیح ہے جب تسلیم کیا جائے کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی شریعت میں تصویر سازی کی اجازت تھی۔ جو صحیح نہیں۔ تاہم اسلام میں تو نہایت سختی کے ساتھ اس کی ممانعت ہے۔ جِفَانٌ، جَفْنَةٌ کی جمع ہے، لگن جَوَابٍ، جَابِيةٌ کی جمع ہے، حوض، جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے۔ یعنی حوض جتنے بڑے بڑے لگن، قُدُورٌ دیگیں، رَاسِيَاتٌ جمع ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیگیں پہاڑوں کو تراش کر بنائی جاتی تھیں۔ جنہیں ظاہر ہے اٹھا کر ادھر ادھر نہیں لے جایا جاسکتا تھا، اس میں بیک وقت ہزاروں افراد کا کھانا پک جاتا تھا۔ یہ سارے کام جنات کرتے تھے۔ سبأ
14 1- حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ غیب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی موت کے ذریعے سے اس عقیدے کے فساد کو واضح کردیا۔ سبأ
15 1- سَبَأ وہی قوم تھی، جس کی ملکہ سبا مشہور ہے جو حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے زمانے میں مسلمان ہوگئی تھی۔ قوم ہی کے نام پر ملک کا نام بھی سبا تھا، آج کل یمن کے نام سے یہ علاقہ معروف ہے۔ یہ بڑا خوش حال ملک تھا، یہ ملک بری وبحری تجارت میں بھی ممتاز تھا اور زراعت وباغبانی میں بھی نمایاں۔ اور یہ دونوں ہی چیزیں کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کا باعث ہوتی ہیں۔ اسی مال ودولت کی فراوانی کو یہاں قدرت الٰہی کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 2- کہتے ہیں کہ شہر کے دونوں طرف پہاڑ تھے، جن سے چشموں اور نالوں کا پانی بہہ بہہ کر شہر میں آتا تھا، ان کے حکمرانوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے تعمیر کرادیئے اور ان کے ساتھ باغات لگا دیئےگئے، جس سے پانی کا رخ بھی متعین ہوگیا اور باغوں کو بھی سیرابی کا ایک قدرتی ذریعہ میسر آگیا۔ ان ہی باغات کو، دائیں بائیں دو باغوں، سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں، جَنَّتَيْنِ سے دو باغ نہیں، بلکہ دائیں بائیں کی دو جہتیں مراد ہیں اور مطلب باغوں کی کثرت ہے کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں، باغات، ہریالی اور شادابی ہی نظر آتی تھی۔ (فتح القدیر)۔ 3- یہ ان کے پیغمبروں کے ذریعے سے کہلوایا گیا یا مطلب ان نعمتوں کا بیان ہے، جن سے ان کو نوازا گیا تھا۔ 4- یعنی منعم و محسن کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب۔ 5- یعنی باغوں کی کثرت اور پھلوں کی فراوانی کی وجہ سے یہ شہر عمدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آب وہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ شہر مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا، واللہ اعلم۔ 6- یعنی اگر تم رب کا شکر کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ انسان توبہ کرتے رہیں تو پھر گناہ ہلاکت عام اور سلب انعام کا سبب نہیں بنتے، بلکہ اللہ تعالیٰ عفوودرگزر سے کام لیتا ہے۔ سبأ
16 1- یعنی انہوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے اور بند تعمیر کرکے پانی کی جو رکاوٹ کی تھی اور اسے زراعت وباغبانی کے کام میں لاتے تھے، ہم نے تند وتیز سیلاب کے ذریعے سے ان بندوں اور پشتوں کو توڑ ڈالا اور شاداب اور پھل دار باغوں کو ایسے باغوں سے بدل دیا جن میں صرف قدرتی جھاڑ جھنکاڑ ہوتے ہیں، جن میں اول تو کوئی پھل لگتا ہی نہیں اور کسی میں لگتا بھی ہے تو سخت کڑوا، کسیلا اور بدمزہ جنہیں کوئی کھا ہی نہیں سکتا۔ البتہ کچھ بیری کے درخت تھے جن میں بھی کانٹے زیادہ اور بیر کم تھے۔ عَرِمٌ، عَرِمَةٌ کی جمع ہے، پشتہ یا بند۔ یعنی ایسا زور کا پانی بھیجا جس نے اس بند میں شگاف ڈال دیا اور پانی شہر میں بھی آگیا، جس سے ان کے مکانات ڈوب گئے اور باغوں کو بھی اجاڑ کر ویران کردیا۔ یہ بند سدمارب کے نام سے مشہور ہے۔ سبأ
17 سبأ
18 1- برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں۔ یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیان لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں، بعض نے ظَاهِرَةً کے معنی مُتَوَاصِلَةً، ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے کئے ہیں۔ مفسرین نے ان بستیوں کی تعداد 4 ہزار سات سو بتلائی ہے۔ یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی، جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لئے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ دوسرے، ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے، وہ نہیں ہوتا تھا۔ 2- یعنی ایک آبادی سے دوسری آبادی کا فاصلہ متعین اور معلوم تھا، اور اس کے حساب سے وہ بہ آسانی اپنا سفر طے کرلیتے تھے۔ مثلاً صبح سفر کا آغاز کرتے تو دوپہر تک کسی آبادی اور قریے تک پہنچ جاتے، وہاں کھا پی کر قیلولہ کرتے اور پھر سرگرم سفر ہوجاتے تو رات کو کسی آبادی میں جاپہنچتے۔ 3- یہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ اور زاد راہ کی مشقت سے بےنیاز ہونے کا بیان ہے کہ رات اور دن کی جس گھڑی میں تم سفر کرنا چاہو، کرو، نہ جان ومال کا کوئی اندیشہ نہ راستے کے لئے سامان سفر ساتھ لینے کی ضرورت۔ سبأ
19 1- یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے، مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان وویران جنگلات اور صحراوں سے ہمیں گزرنا پڑے، گرمیوں میں دھوپ کی شدت اور سردیوں میں یخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس کی سختیوں سے بچنے کے لئے ہمیں زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے۔ ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے، جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا۔ یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ 2- یعنی انہیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ 3- یعنی انہیں متفرق اور منتشر کردیا، چنانچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جاآباد ہوئے، کوئی یثرب ومکہ آیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہیں۔ سبأ
20 سبأ
21 سبأ
22 1- یعنی معبود ہونے کا۔ یہاں زَعَمْتُمْ کے دو مفعول محذوف ہیں۔ زَعَمْتُمُوهُمْ آلِهَةً، یعنی جن جن کو تم معبود گمان کرتے ہو۔ 2- یعنی انہیں نہ خیر پر کوئی اختیار ہے نہ شر پر کسی کو فائدہ پہنچانے کی قدرت ہے، نہ نقصان سے بچانے کی۔ آسمان وزمین کا ذکر عموم کے لئے ہے، کیونکہ تمام خارجی موجودات کے لئے یہی ظرف ہیں۔ 3- نہ پیدائش میں، نہ ملکیت میں اور نہ تصرف میں۔ 4- جو کسی معاملے میں بھی اللہ کی مدد کرتا ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے تمام اختیارات کا مالک ہے اور کسی کے تعاون کے بغیر ہی سارے کام کرتا ہے۔ سبأ
23 1- (جن کے لئے اجازت ہوجائے) کا مطلب ہے انبیا اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کرسکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہی ہوگی، نہ انہیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے، مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیا علیہم السلام وملائکہ اور صالحین صرف ان ہی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیوں کہ اللہ کی طرف سے ان ہی کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں۔ (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیا علیہم السلام، ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لئے ہی کرسکیں گے، کافر ومشرک اور اللہ کے باغیوں کے لئے نہیں۔ قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرما دی ہے۔ ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ﴾ (البقرة: 255) اور ﴿وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى﴾ (الأنبياء: 28)۔ 2- اس کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں ۔ابن جریر اور ابن کثیر نے حدیث کے روشنی میں اس کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کی بابت کلام (وحی) فرماتا ہے تو آسمان پر موجود فرشتے ہیبت اور خوف سے کانپ اٹھتے ہیں اور ان پر بے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہوش آنے پر وہ پوچھتے ہیں تو عرش بردار فرشتے دوسرے فرشتوں کو اور وہ اپنے سے نیچے والے فرشتوں کو بتلاتے ہیں اور اس طرح خبر پہلے آسمان کے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے ۔(ابن کثیر) فزع میں سلب ماخذ ہے یعنی جب گبراہٹ دور کر دی جاتی ہے۔ سبأ
24 1- ظاہر بات ہے گمراہی پر وہی ہو گا جو ایسی چیزوں کو معبود سمجھتا ہے جن کا آسمان و زمین سے روزی پہنچانے میں کوئی حصہ نہیں ہے ،نہ وہ بارش برسا سکتے ہیں۔اس لئے حق پر یقینا اہل توحید ہی ہیں ،نہ کہ دونوں۔ سبأ
25 سبأ
26 1- یعنی اس کے مطابق جزا دے گا۔ نیکوں کو جنت میں اور بدوں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔ سبأ
27 1- یعنی اس کا کوئی نظیر ہے نہ ہم سر، بلکہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر کام اور قول میں حکمت ہے۔ سبأ
28 1- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم (ﷺ) کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ (ﷺ) کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا، یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ (ﷺ) کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ ان دونوں باتوں کی وضاحت اور بھی دوسرے مقامات پر فرمائی ہے۔ مثلاً آپ (ﷺ) کی رسالت کے ضمن میں فرمایا، ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ (الأعراف: 158) ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ (سورة الفرقان:1) ایک حدیث میں آپ (ﷺ) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ 1۔ مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے سے میری مدد فرمائی گئی ہے۔ 2۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، میری امت وہاں نماز ادا کردے۔ 3۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔ 4۔ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ 5۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (صحيح بخاری ، كتاب التيمم، صحيح مسلم، كتاب المساجد) ایک اور حدیث میں فرمایا [ بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ ] (صحيح مسلم ، كتاب المساجد) احمر اسود سے مراد بعض نے جن وانس اور بعض نے عرب وعجم لئے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح اکثریت کی بےعلمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی۔ ﴿وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ﴾ (سورة يوسف: 103) ”آپ (ﷺ) کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے“ ﴿وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾ (سورة الأنعام: 116) ”اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے“ جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے۔ سبأ
29 1- یہ بطور استہزا کے پوچھتے ہیں، کیوں کہ اس کا وقوع ان کے نزدیک مستبعد اور ناممکن تھا۔ سبأ
30 1- یعنی اللہ نے قیامت کا ایک دن مقرر کر رکھا ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے، تاہم جب وہ وقت موعود آجائے گا تو ایک ساعت بھی آگے، پیچھے نہیں ہوگا۔ ﴿إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لا يُؤَخَّرُ﴾ (نوح:4)۔ سبأ
31 1-جیسے تورات، زبور اور انجیل وغیرہ، بعض نے ﴿بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ سے مراد دار آخرت لیا ہے۔ اس میں کافروں کے عناد وطغیان کا بیان ہے کہ وہ تمام تر دلائل کے باوجود قرآن کریم اور دار آخرت پر ایمان لانے سے گریزاں ہیں 2- یعنی دنیا میں یہ کفروشرک میں ایک دوسرے کے ساتھی اور اس ناطے سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے، لیکن آخرت میں یہ ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کو موردالزام بنائیں گے۔ 3- یعنی دنیا میں یہ لوگ، جو سوچے سمجھے بغیر، روش عام پر چلنے والے ہوتے ہیں، اپنے ان لیڈروں سے کہیں گے جن کے وہ دنیا میں پیروکار بنے رہے تھے۔ 4- یعنی تم ہی نے ہمیں پیغمبروں اور داعیان حق کے پیچھے چلنے سے روکے رکھا تھا، اگر تم اس طرح نہ کرتے تو ہم یقیناً ایمان والے ہوتے۔ سبأ
32 1- یعنی ہمارے پاس کون سی طاقت تھی کہ ہم تمہیں ہدایت کے راستے سے روکتے، تم نے خود ہی اس پر غور نہیں کیا اور اپنی خواہشات کی وجہ سے ہی اسے قبول کرنے سے گریزاں رہے، اور آج مجرم ہمیں بنا رہے ہو؟ حالانکہ سب کچھ تم نے خود ہی اپنی مرضی سے کیا، اس لئے مجرم بھی تم خود ہی ہو نہ کہ ہم۔ سبأ
33 1- یعنی ہم مجرم تو تب ہوتے، جب ہم اپنی مرضی سے پیغمبروں کی تکذیب کرتے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تم رات دن ہمیں گمراہ کرنے پر اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کا شریک ٹھہرانے پر آمادہ کرتے رہے، جس سے بالآخر ہم تمہارے پیچھے لگ کر ایمان سے محروم رہے۔ 2- یعنی ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کریں گے لیکن دل میں دونوں ہی فریق اپنے اپنے کفر پر شرمندہ ہوں گے۔ لیکن شماتت اعدا کی وجہ سے ظاہر کرنے سے گریز کریں گے۔ 3- یعنی ایسی زنجیریں جو ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھیں گی۔ 4- یعنی دونوں کو ان کے عملوں کی سزا ملے گی، لیڈروں کو ان کے مطابق، اور ان کے پیچھے چلنے والوں کو ان کے مطابق، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لا تَعْلَمُونَ﴾ (الأعراف: 38) یعنی ”ہر ایک کو دگنا عذاب ہوگا“۔ سبأ
34 1- یہ نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مکےکے روساء اور چودھری آپ (ﷺ) پر ایمان نہیں لارہے ہیں اور آپ (ﷺ) کو ایذائیں پہنچا رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر دور کے اکثر خوشحال لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب ہی کی ہے اور ہر پیغمبر پر ایمان لانے والے پہلے پہل معاشرے کے غریب اور نادار قسم کے لوگ ہی ہوتے تھے۔ جیسے حضرت نوح (عليہ السلام) کی قوم نے اپنے پیغمبر سے کہا، ﴿أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الأَرْذَلُونَ﴾ (الشعراء: 111) ”کیا ہم تجھ پر ا یمان لائیں جب کہ تیرے پیروکار کمینے لوگ ہیں“۔ ﴿وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ﴾ (هود:27) دوسرے پیغمبروں کو بھی ان کی قوم نے یہی کہا، ملاحظہ ہو، سورۃ الاعراف: 75، الانعام: 133،53۔ سورۂ بنی اسرائیل:16، وغیرھا۔ مُتْرَفُونَ کے معنی ہیں، اصحاب ثروت وریاست۔ سبأ
35 1- یعنی جب اللہ نے ہمیں دنیا میں مال واولاد کی کثرت سے نوازا ہے، تو قیامت بھی اگر برپا ہوئی تو ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ گویاانہوں نے دارآخرت کو بھی دنیا پر قیاس کیا کہ جس طرح دنیا میں کافر ومومن سب کو اللہ کی نعمتیں مل رہی ہیں، آخرت میں بھی اسی طرح ہوگا، حالانکہ آخرت تو دار الجزاء ہے، وہاں تو دنیا میں کئے گئے عملوں کی جزا ملنی ہے، اچھے عملوں کی جزا اچھی اور برے عملوں کی بری۔ جب کہ دنیا دارالامتحان ہے، یہاں اللہ تعالیٰ بطور آزمائش سب کو دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے، یا انہوں نے دنیاوی مال واسباب کی فراوانی کو رضائے الٰہی کا مظہر سمجھا، حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار بندوں کو سب سے زیادہ مال واولاد سے نوازتا۔ سبأ
36 1- اس میں کفار کے مذکورہ مغالطے اور شبہے کا ازالہ کیا جا رہا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی رضا یا عدم رضا کی مظہر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ کی حکمت ومشیت سے ہے۔ اس لئے وہ مال اس کو بھی دیتا ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے اور اس کو بھی جس کو ناپسند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غنی کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے فقیر رکھتا ہے۔ سبأ
37 1- یعنی یہ مال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اور ہماری بارگاہ میں تمہیں خاص مقام حاصل ہے۔ 2- یعنی ہماری محبت اور قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تو صرف ایمان اور عمل صالح ہے جس طرح حدیث میں فرمایا ”اللہ تعالیٰ تمہاری شکلیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں اورعملوں کو دیکھتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب البر ، باب تحريم ظلم النفس) 3- بلکہ کئی کئی گنا، ایک نیکی کا اجر کم از کم دس گنا مزید سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک۔ سبأ
38 سبأ
39 1- پس وہ کبھی کافر کو بھی خوب مال دیتا ہے، لیکن کس لئے؟ استدراج کے طور پر، اور کبھی مومن کو تنگ دست رکھتا ہے، کس لئے؟ اس کے اجروثواب میں اضافے کے لئے۔ اس لئے مجردمال کی فراوانی اس کی رضا کی اور اس کی کمی، اس کی ناراضی کی دلیل نہیں ہے۔ یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔ 2- إِخْلافٌ کے معنی ہیں، عوض اور بدلہ دینا۔ یہ بدلہ دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں تو یقینی ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ [ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ ] (صحيح بخاری سورة هود) ”تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا“ (یعنی بدلہ دوں گا) دو فرشتے ہر روز اعلان کرتے ہیں، ایک کہتا ہے [ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ] اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کے مال کو ضائع کردے“ دوسرا کہتا ہے، [ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا ]”اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما۔ (البخاری، كتاب الزكاة، باب ، ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى﴾] 3- کیونکہ ایک بندہ اگر کسی کو کچھ دیتا ہے تو اس کا یہ دینا اللہ تعالیٰ کی توفیق وتیسیر اور اس کی تقدیر سے ہی ہے۔ حقیقت میں دینے والا اس کا رازق نہیں ہے، جس طرح بچوں کا باپ، بچوں کا، یا بادشاہ اپنے لشکر کا کفیل کہلاتا ہے حالانکہ امیر اور مامور بچے اور بڑے سب کا رازق حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کا خالق بھی ہے۔ اس لئے جو شخص اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ ایسے مال میں تصرف کرتا ہے جو اللہ ہی نے اسے دیا ہے، پس درحقیقت رازق بھی اللہ ہی ہوا۔ تاہم یہ اس کا مزید فضل وکرم ہے کہ اس کے دیئے ہوئے مال میں اس کی مرضی کے مطابق تصرف (خرچ کرنے) پر وہ اجر وثواب بھی عطا فرماتا ہے۔ سبأ
40 1- یہ مشرکین کو ذلیل وخوار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا، جیسے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوچھے گا ” کیا تونے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں (مریم) کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا؟“ (المائدۃ: 116) حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) فرمائیں گے ” یا اللہ تو پاک ہے، جس کا مجھے حق نہیں تھا، وہ بات میں کیوں کر کہہ سکتا تھا؟ “ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں سے بھی پوچھے گا، جیسا کہ سورۃ الفرقان (آیت 17) میں بھی گزرا کہ کیا یہ تمہارے کہنے پر تمہاری عبادت کرتے تھے؟ سبأ
41 1- یعنی فرشتے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کی طرح اللہ تعالی کی پاکیزگی بیان کر کے اظہار براءت کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا ولی ہے ہمارا ان سے کیا تعلق۔ 2- جن سے مراد شیاطین ہیں، یعنی یہ اصل میں شیطانوں کے پجاری ہیں کیونکہ وہی ان کو بتوں کی عبادت پر لگاتے اور انہیں گمراہ کرتے تھے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلا إِنَاثًا وَإِنْ يَدْعُونَ إِلا شَيْطَانًا مَرِيدًا﴾ (النساء: 117)۔ سبأ
42 1- یعنی دنیا میں تم یہ سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے کہ یہ تمہیں فائدہ پہنچائیں گے، تمہاری سفارش کریں گے اور اللہ کے عذاب سے تمہیں نجات دلوائیں گے۔ جیسے آج بھی پیرپرستوں اور قبرپرستوں کا حال ہے لیکن، آج دیکھ لو کہ یہ لوگ کسی بات پر قادر نہیں۔ 2- ظالموں سے مراد، غیر اللہ کے پجاری ہیں، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے اور مشرکین سب سے بڑے ظالم۔ سبأ
43 1- شخص سے مراد، حضرت نبی کریم (ﷺ) ہیں۔ باپ دادا کا دین، ان کے نزدیک صحیح تھا، اس لئے انہوں نے آپ (ﷺ) کا (جرم) یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آبا عبادت کرتے رہے۔ 2- اس دوسرے هذَا سے مراد قرآن کریم ہے، اسے انہوں نے تراشا ہوا بہتان یا گھڑا ہوا جھوٹ قرار دیا۔ 3- قرآن کو پہلے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور یہاں کھلا جادو۔ پہلے کا تعلق قرآن کے مفہوم ومطالب سے ہے اور دوسرے کا تعلق قرآن کے معجزانہ نظم واسلوب اور اعجازوبلاغت سے۔ (فتح القدیر)۔ سبأ
44 1- اس لئے وہ آرزو کرتے تھے کہ ان کے پاس بھی کوئی پیغمبر آئے اور کوئی صحیفہ آسمانی نازل ہو۔ لیکن جب یہ چیزیں آئیں تو انکار کردیا۔ سبأ
45 1- یہ کفار مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم نے تکذیب وانکار کا جو راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ نہایت خطرناک ہے۔ تم سے پچھلی امتیں بھی، اس راستے پر چل کر تباہ وبرباد ہوچکی ہیں۔ حالانکہ یہ امتیں مال ودولت، قوت وطاقت اور عمروں کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر تھیں، تم تو ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچتے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں۔ اسی مضمون کو سورۂ احقاف کی آیت 26 میں بیان فرمایا گیا ہے۔ سبأ
46 1- یعنی میں تمہیں تمہارے موجودہ طرزعمل سے ڈراتا ہوں اور ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم ضد، اور انانیت چھوڑ کر صرف اللہ کے لئے ایک ایک دو دو ہو کر میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گزری ہے اوراب بھی جو دعوت میں دے رہا ہوں کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشاندہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقیناً تم سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے۔ 2- یعنی وہ تو صرف تمہاری ہدایت کے لئے آیا ہے تاکہ تم اس عذاب شدید سے بچ جاؤ جو ہدایت کا راستہ نہ اپنانے کی وجہ سے تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) ایک دن صفا پہاڑی پرچڑھ گئے اور فرمایا (یاصباحاہ) جسے سن کر قریش جمع ہوگئے، آپ (ﷺ) نے فرمایا ”بتلاؤ، اگر میں تمہیں خبردوں کہ دشمن صبح یا شام کو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟“ انہوں نے کہا (کیوں نہیں) آپ (ﷺ) نے فرمایا ”تو پھر سن لو کہ میں تمہیں سخت عذاب آنے سے پہلے ڈراتا ہوں“ یہ سن کر ابولہب نے کہا (تَبًّا لَكَ! أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا) (تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا اس لئے تونے ہمیں جمع کیا تھا؟) جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ﴾ نازل فرمائی۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة سبأ سبأ
47 1- اس میں اپنی بےغرضی اور دنیا کے مال ومتاع سے بےرغبتی کا مزید اظہار فرما دیا تاکہ ان کے دلوں میں اگر یہ شک وشبہ پیدا ہو کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد کہیں دنیا کمانا تو نہیں، تو وہ دور ہوجائے۔ سبأ
48 1- قَذَفَ کے معنی، تیر اندازی اور خشت باری کے بھی ہیں اور کلام کرنے کے بھی۔ یہاں اس کے دوسرے معنی ہی ہیں یعنی وہ حق کے ساتھ گفتگو فرماتا، اپنے رسولوں پر وحی نازل فرماتا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کے لئے حق واضح فرماتا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ (المؤمن: 15) یعنی ”اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، فرشتے کے ذریعے سے اپنی وحی سے نوازتا ہے“۔ سبأ
49 1- حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفرو شرک ہے۔ مطلب ہے اللہ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آگیا ہے، جس سے باطل مضمحل اور ختم ہوگیا ہے، اب وہ سراٹھانے کے قابل نہیں رہا، جس طرح فرمایا ﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ (سورة الأنبياء: 18) حدیث میں آتا ہے کہ جس دن مکہ فتح ہوا، نبی (ﷺ) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے ، چاروں طرف بت نصب تھے، آپ (ﷺ) کمان کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور یہ آیت اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ پڑھتے جاتے۔ (صحيح بخاری، كتاب الجهاد، باب إزالة الأصنام من حول الكعبة سبأ
50 1- یعنی بھلائی سب اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو وحی اور حق مبین نازل فرمایا ہے، اس میں رشد وہدایت ہے، صحیح راستہ لوگوں کو اسی سے ملتا ہے۔ پس جو گمراہ ہوتا ہے، تو اس میں انسان کی اپنی ہی کوتاہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) جب کسی سائل کے جواب میں اپنی طرف سے کچھ بیان فرماتے تو ساتھ کہتے (أَقُولُ فِيهَا بِرَأْيي، فَإِنْ يَكُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللهِ ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّيْطَانِ، وَاللهُ وَرَسُولُهُ بَرِيئَانِ مِنْهُ) (ابن كثير)۔ 2- جس طرح حدیث میں فرمایا [ إِنَّكُمْ لا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلا غَائِبًا ، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا مُجِيبًا ] (بخاری كتاب الدعاء ، باب الدعاء إذا علا عقبة)” تم بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ اس کو پکار رہے ہو جو سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے“۔ سبأ
51 1- فَلا فَوْتَ، کہیں بھاگ نہیں سکیں گے؟ کیونکہ وہ اللہ کی گرفت میں ہوں گے، یہ میدان محشر کا بیان ہے۔ سبأ
52 1- تَنَاوُشٌ کے معنی تناول یعنی پکڑنے کے ہیں یعنی اب آخرت میں انہیں ایمان کس طرح حاصل ہوسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس سے گریز کرتے رہے گویا آخرت ایمان کے لئے، دنیا کےمقابلے میں دور کی جگہ ہے، جس طرح دور سےکسی چیز کو پکڑنا ممکن نہیں، آخرت میں ایمان لانے کی گنجائش نہیں۔ سبأ
53 1- یعنی اپنے گمان سے کہتے رہے کہ قیامت اور حساب کتاب نہیں۔ یا قرآن کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادو، گھڑا ہوا جھوٹ اور پہلوں کی کہانیاں ہیں یا محمد (ﷺ) کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادوگر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے یا مجنون ہے۔ جب کہ کسی بات کی بھی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔ سبأ
54 1- یعنی آخرت میں وہ چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول کرلیا جائے، عذاب سے ان کی نجات ہوجائے، لیکن ان کے درمیان اور ان کی اس خواہش کے درمیان پردہ حائل کردیا یعنی اس خواہش کو رد کردیا جائے گا۔ 2- یعنی پچھلی امتوں کا ایمان اس وقت قبول نہیں کیا گیا جب وہ عذاب کے معائنے کے بعد ایمان لائیں۔ 3- اس لئے اب معائنہ عذاب کے بعد ان کا ایمان بھی کس طرح قبول ہوسکتا ہے؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ریب وشک سے بچو، جو شک کی حالت میں فوت ہوگا، اسی حالت میں اٹھے گا اور جو یقین پر مرے گا، قیامت والے دن یقین پر ہی اٹھے گا۔ (ابن کثیر)۔ سبأ
0 فاطر
1 1- فَاطِرٌ کے معنی ہیں مخترع، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان وزمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے؟ 2- مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انبیا کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں سے کسی کے دو، کسی کے تین اور کسی کے چار پر ہیں، جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔ 3- یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرئیل (عليہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا، اس کے چھ سو پر تھے (صحيح بخاری، تفسير سورة النجم، باب ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ﴾) بعض نے اس کو عام رکھا ہے، جس میں آنکھ، چہرہ، ناک اور منہ ہر چیز کا حسن داخل ہے۔ فاطر
2 1- ان ہی نعمتوں میں سے ارسال رسل اور انزال کتب بھی ہے۔ یعنی ہر چیز کا دینے والا بھی وہی ہے، اور واپس لینے یا روک لینے والا بھی وہی۔ اس کے سوا نہ کوئی معطی اور منعم ہے اور نہ مانع وقابض۔ جس طرح نبی کریم (ﷺ) فرمایا کرتے تھے۔ [ اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ فاطر
3 1- یعنی اس بیان وضاحت کے بعد بھی تم غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو؟ تُؤْفَكُونَ اگر أَفَكَ سے ہو تو معنی ہوں گے پھرنا، تم کہاں پھرے جاتے ہو؟ اور اگر إِفْكٌ سے ہو تو معنی ہیں جھوٹ، جو سچ سے پھرنے کا نام ہے۔ مطلب ہے کہ تمہارے اندر توحید اور آخرت کا انکار کہاں سے آگیا، جب کہ تم مانتے ہو کہ تمہارا خالق اور رازق اللہ ہے۔ (فتح القدیر)۔ فاطر
4 1- اس میں نبی کریم (ﷺ) کو تسلی ہے کہ آپ (ﷺ) کو جھٹلا کر یہ کہاں جائیں گے؟ بالآخر تمام معاملات کا فیصلہ تو ہمیں ہی کرنا ہے۔ جس طرح پچھلی امتوں نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا، تو انہیں سوائے بربادی کے کیا ملا؟ اس لئے یہ بھی اگر باز نہ آئے، تو ان کو بھی ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں ہے۔ فاطر
5 1- کہ قیامت برپا ہوگی اور نیک وبد کو ان کے عملوں کی جزا وسزا دی جائے گی۔ 2- یعنی آخرت کی ان نعمتوں سے غافل نہ کردے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اور رسولوں کے پیروکاروں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔ پس اس دنیا کی عارضی لذتوں میں کھو کر آخرت کی دائمی راحتوں کو نظر انداز نہ کرو۔ 3- یعنی اس کے داؤ اور فریب سے بچ کر رہو، اس لئے کہ وہ بہت دھوکے باز ہے اور اس کا مقصد ہی تمہیں دھوکے میں مبتلا کرکے اور رکھ کے جنت سے محروم کرنا ہے۔ یہی الفاظ سورۂ لقمان: 33 میں بھی گزرچکے ہیں۔ فاطر
6 1- یعنی اس سے سخت عداوت رکھو، اس کے دجل وفریب اور ہتھکنڈوں سے بچو، جس طرح دشمن سے بچاؤ کے لئے انسان کرتا ہے۔ دوسرے مقام پر اسی مضمون کو اس طرح ادا کیا گیا ہے۔﴿أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلا﴾ (الكهف: 50) ”کیا تم اس شیطان اور اس کی ذریت کو، مجھے چھوڑ کر، اپنا دوست بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ظالموں کے لئے برا بدلہ ہے“۔ فاطر
7 1- یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے دیگر مقامات کی طرح ایمان کے ساتھ، عمل صالح کو بیان کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے تاکہ اہل ایمان عمل صالح سے کسی وقت بھی غفلت نہ برتیں، کہ مغفرت اور اجرکبیر کا وعدہ اس ایمان پر ہی ہے جس کے ساتھ عمل صالح ہوگا۔ فاطر
8 1- جس طرح کفار وفجار ہیں، وہ کفر وشرک اور فسق وفجور کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔ پس ایسا شخص، جس کو اللہ نے گمراہ کردیا ہو، اس کے بچاؤ کے لئے آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے؟ یا یہ اس شخص کے برابر ہے جسے اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے؟ جواب نفی میں ہی ہے، نہیں یقیناً نہیں۔ 2- اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی رو سے، اپنی سنت کے مطابق اس کو گمراہ کرتا ہےجو مسلسل اپنے کرتوتوں سے اپنے کو اس کا مستحق ٹھہرا چکتا ہے اور ہدایت اپنے فضل وکرم سے اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔ 3- کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت اور علم تام پر مبنی ہے، اس لئے کسی کی گمراہی پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں۔ 4- یعنی اس سے ان کا کوئی قول یا فعل مخفی نہیں، مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ان کے ساتھ معاملہ ایک علیم وخبیر اور ایک حکیم کی طرح کا ہے۔ عام بادشاہوں کی طرح نہیں ہے جو اپنے اختیارات کا الل ٹپ استعمال کرتے ہیں، کبھی سلام کرنے سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی دشنام پر ہی خلعتوں سے نواز دیتے ہیں۔ فاطر
9 1- یعنی جس طرح بادلوں سے بارش برسا کر خشک (مردہ) زمین کو ہم شاداب (زندہ) کردیتے ہیں، اسی طریقے سے قیامت والے دن تمام مردہ انسانوں کو بھی ہم زندہ کردیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ (انسان کا سارا جسم بوسیدہ ہوجاتا ہے، صرف ریڑھ کی ہڈی کا ایک چھوٹا سا حصہ محفوظ رہتا ہے، اسی سے اس کی دوبارہ تخلیق وترکیب ہوگی)۔ [ كُلُّ جَسَدِ ابْنِ آدَمَ يَبْلَى، إِلا عَجب الذَّنَبِ، مِنْه خُلِقَ ، وَمِنْهُ يُرَكَّبُ ] (البخاری ، تفسير سورة عم، مسلم ، كتاب الفتن ، باب ما بين النفختين فاطر
10 1- یعنی جو چاہتا ہے کہ اسے دنیا اور آخرت میں عزت ملے، تو وہ اللہ کی اطاعت کرے، اس سے اسے یہ مقصود حاصل ہوجائے گا۔ اس لئے کہ دنیا وآخرت کا مالک اللہ ہی ہے، ساری عزتیں اسی کے پاس ہیں وہ جس کو عزت دے، وہی عزیز ہوگا، جس کو وہ ذلیل کردے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی۔ دوسرے مقام پر فرمایا ﴿الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا﴾ (النساء: 139)۔ 2- الْكَلِمُ، كَلِمَةٌ کی جمع ہے، ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبیح وتحمید، تلاوت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ چڑھتے ہیں کا مطلب، قبول کرنا ہے۔ یا فرشتوں کا انہیں لے کر آسمانوں پر چڑھنا ہے تاکہ اللہ ان کی جزا دے۔ 3- يَرْفَعُهُ، میں ضمیر کا مرجع کون ہے؟ بعض کہتے ہیں الْكَلِمُ الطَّيِّبُ ہے، یعنی عمل صالح کلمات طیبات کو اللہ کی طرف سے بلند کرتا ہے۔ یعنی محض زبان سے اللہ کا ذکر (تسبیح وتحمید) کچھ نہیں، جب تک اس کے ساتھ عمل صالح یعنی احکام وفرائض کی ادائیگی بھی نہ ہو۔ بعض کہتے ہیں يَرْفَعُه ُ میں فاعل کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے۔ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ عمل صالح کو کلمات طیبات پر بلند فرماتا ہے اس لئے کہ عمل صالح سے ہی اس بات کا تحقق ہوتا ہے کہ اس کا مرتکب فی الواقع اللہ کی تسبیح وتحمید میں مخلص ہے (فتح القدیر) گویا قول، عمل کے بغیر، اللہ کے ہاں بےحیثیت ہے۔ 4- خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں کفروشرک کا ارتکاب بھی مکر ہے کہ اس طرح اللہ کے راستہ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے رہے، وہ بھی مکر ہے، ریاکاری بھی مکر ہے۔ یہاں یہ لفظ عام ہے، مکر کی تمام صورتوں کو شامل ہے۔ 5- یعنی ان کا مکر بھی برباد ہوگا اور اس کا وبال بھی ان ہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے فرمایا ﴿وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلا بِأَهْلِهِ﴾ (فاطر: 43)۔ فاطر
11 1- یعنی تمہارے باپ آدم (عليہ السلام) کو مٹی سے اور پھر اس کے بعد تمہاری نسل کو قائم رکھنے کے لئے انسان کی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا، جومرد کی پشت سے نکل کر عورت کے رحم میں جاتا ہے۔ 2- یعنی اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، حتیٰ کہ زمین پر گرنے والے پتے اور زمین کی تاریکیوں میں نشوونما پانے والے بیج کو بھی وہ جانتا ہے۔ (الأنعام: 59)۔ 3- اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر کی طوالت اور اس کی تقصیر (کم ہونا) اللہ کی تقدیر وقضا سے ہے۔ علاوہ ازیں اس کے اسباب بھی ہیں جس سے عمر لمبی یا چھوٹی ہوتی ہے، طوالت کے اسباب میں صلۂ رحمی وغیرہ ہے، جیسا کہ احادیث میں ہے اور تقصیر کے اسباب سے معاصی کا ارتکاب ہے۔ مثلاً کسی آدمی کی عمر 70 سال ہے لیکن کبھی اسباب زیادت کی وجہ سے اللہ اس میں اضافہ فرما دیتا ہے اور کبھی اس میں کمی کردیتا ہے جب وہ اسباب نقصان اختیار کرتا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس نے لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اس لئے عمر میں یہ کمی بیشی ﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ کے منافی نہیں ہے۔ اس کی تائید اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے ﴿يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ﴾ (سورة الرعد: 39) ”جو چاہتا ہے، مٹاتا اور ثبت کرتا ہے اور اس کے پاس لوح محفوظ ہے“۔ (فتح القدیر)۔ فاطر
12 1- مواخر، وہ کشتیاں جو آتے جاتے پانی کو چیرتی ہوئی گزرتی ہیں، آیت میں بیان کردہ دوسری چیزوں کی وضاحت سورۃ الفرقان میں گزرچکی ہے۔ فاطر
13 1- یعنی مذکورہ تمام افعال کا فاعل ہے۔ 2- یعنی اتنی حقیر چیز کے بھی مالک نہیں، نہ اسے پیدا کرنے پر ہی قادر ہیں۔ قِطْمِيرٌ اس جھلی کو کہتے ہیں جو کھجور اور اس کی گٹھلی کے درمیان ہوتی ہےیہ پتلا سا چھلکا گٹھلی پر لفافے کی طرح چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ فاطر
14 1- یعنی اگر تم انہیں مصائب میں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ وہ جمادات ہیں یامنوں مٹی کے نیچے مدفون۔ 2- یعنی اگر بالفرض وہ سن بھی لیں تو بےفائدہ، اس لئے کہ وہ تمہاری التجاؤں کے مطابق تمہارا کام نہیں کرسکتے۔ 3- اور کہیں گے ﴿مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ﴾ (يونس: 28) ”تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے“۔ ﴿إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ﴾ (يونس: 29) ”ہم تو تمہاری عبادت سے بےخبر تھے“۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، وہ سب پتھر کی مورتیاں ہی نہیں ہوں گی، بلکہ ان میں عاقل (ملائکہ، جن، شیاطین اور صالحین) بھی ہوں گے۔ تب ہی تو یہ انکار کریں گے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی حاجت براری کے لئے پکارنا شرک ہے۔ 4- اس لئے کہ اس جیسا کامل علم کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہی تمام امور کی کنہ اور حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے جس میں ان پکارے جانے والوں کی بےاختیاری، پکار کو نہ سننا اور قیامت کے دن اس کا انکار کرنا بھی شامل ہے۔ فاطر
15 1- نَاسٌ کا مطلب عام ہے جس میں عوام وخواص، حتیٰ کہ انبیا علیہم السلام وصلحا سب آجاتے ہیں۔ اللہ کے ڈر کے سب ہی محتاج ہیں۔ لیکن اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ 2- وہ اتنا بےنیاز ہے کہ سب لوگ اگر اس کے نافرمان ہوجائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں کوئی کمی اور سب اس کے اطاعت گزار بن جائیں، تو اس سے اس کی قوت میں زیادتی نہیں ہوگی۔ بلکہ نافرمانی سے انسانوں کا اپنا ہی نقصان ہے اور اس کی عبادت واطاعت سے انسانوں کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ 3- یعنی محمود ہے اپنی نعمتوں کی وجہ سے۔ پس ہر نعمت، جو اس نے بندوں پر کی ہے، اس پر وہ حمد وشکر کا مستحق ہے۔ فاطر
16 1- یہ بھی اس کی شان بےنیازی ہی کی ایک مثال ہے کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں فنا کے گھاٹ اتار کے تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق پیدا کردے، جو اس کی اطاعت گزار ہو، اس کی نافرمان نہیں یا یہ مطلب ہے کہ ایک نئی مخلوق اور نیا عالم پیدا کردے جس سے تم نا آشنا ہو۔ فاطر
17 فاطر
18 1- ہاں جس نے دوسروں کو گمراہ کیا ہوگا، وہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ان کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے گا، جیسا کہ آیت ﴿وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالا مَعَ أَثْقَالِهِمْ﴾ (العنكبوت: 13) اور حدیث [ مَنْ سَنَّ سُنّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ ] (صحيح مسلم ، كتاب الزكاة ، باب الحث على الصدقة) سے واضح ہے لیکن یہ دوسروں کا بوجھ بھی درحقیقت ان کا اپنا ہی بوجھ ہے کہ ان ہی نے ان دوسروں کو گمراہ کیا تھا۔ 2- مُثْقَلَةٌ أَيْ نَفْسٌ مُثْقَلَةٌ، ایسا شخص جو گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوگا، وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے اپنے رشتے دار کو بھی بلائے گا تو وہ آمادہ نہیں ہوگا۔ 3- یعنی تیرے انذاروتبلیغ کا فائدہ ان ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے، گویا تو ان ہی کو ڈراتا ہے، ان کو نہیں جن کوانذار سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا﴾ (النازعات: 45) اور ﴿إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ﴾ (يٰس: 11)۔ 4- تَطَهُّرٌ اور تَزَكِّي کے معنی ہیں شرک اور فواحش کی آلودگیوں سے پاک ہونا۔ فاطر
19 فاطر
20 1- اندھے سے مراد کافر اور آنکھوں والاسے مومن، اندھیروں سے باطل اور روشنی سے حق مراد ہے، باطل کے بےشمار انواع ہیں، اس لئے اس کے لئے جمع کا اور حق چونکہ متعدد نہیں، ایک ہے، اس لئے اس کے لئے واحد کا صیغہ استعمال کیا۔ فاطر
21 1- یہ ثواب وعقاب یاجنت ودوزخ کی تمثیل ہے۔ فاطر
22 1- أَحْيَاءٌ سے مومن اور أَمْوَاتٌ سے کافر یا علما اور جاہل یا عقل مند اور غیر عقل مند مراد ہیں۔ 2- یعنی جسے اللہ ہدایت سے نوازنے والا ہوتا ہے اور جنت اس کے لئے مقدر ہوتی ہے، اسے حجت ودلیل سننے اور پھر اسے قبول کرنے کی توفیق دے دیتا ہے۔ 3- یعنی جس طرح قبروں میں مردہ اشخاص کو کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی، اسی طرح جن کے دلوں کو کفر نے موت سے ہمکنار کردیا ہے، اے پیغمبر (ﷺ) تو انہیں حق کی بات نہیں سنا سکتا۔ مطلب یہ ہوا کہ جس طرح مرنے اور قبرمیں دفن ہونے کے بعد مردہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح کافر ومشرک جن کی قسمت میں بدبختی لکھی ہے، دعوت وتبلیغ سے انہیں فائدہ نہیں ہوتا۔ فاطر
23 1- یعنی آپ (ﷺ) کا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے۔ ہدایت اور ضلالت یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ فاطر
24 فاطر
25 1- تاکہ کوئی قوم یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو ایمان وکفر کا پتہ ہی نہیں، اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی پیغمبر ہی نہیں آیا۔ بنابریں اللہ نے ہر امت میں نبی بھیجا، جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا ﴿وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ (الرعد: 7) ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولا﴾ الآیۃ (النحل: 26) فاطر
26 1- یعنی کیسے سخت عذاب کے ساتھ میں نے ان کی گرفت کی اور انہیں تباہ وبرباد کردیا۔ فاطر
27 1- یعنی جس طرح مومن اور کافر، صالح اور فاسد دونوں قسم کے لوگ ہیں، اسی طرح دیگر مخلوقات میں بھی تفاوت اور اختلاف ہے۔ مثلاً پھلوں کے رنگ بھی مختلف ہیں اور ذائقے، لذت اور خوشبو میں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔ حتیٰ کہ ایک ایک پھل کے بھی کئی کئی رنگ اور ذائقے ہیں جیسے کھجور ہے، انگور ہے، سیب ہے اور دیگر بعض پھل ہیں۔ 2- اسی طرح پہاڑ اور اس کے حصے یا راستے اور خطوط مختلف رنگوں کے ہیں، سفید، سرخ اور بہت گہرے سیاہ، جُدَدٌ جُدَّةٌ کی جمع ہے، راستہ یا لکیر۔ غَرَابِيبُ، غِرْبِيبٌ کی جمع اور سُودٌ، أَسْوَدُ (سیاہ) کی جمع ہے۔ جب سیاہ رنگ کے گہرے پن کو ظاہر کرنا ہو تو اسود کے ساتھ غربیب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسود غربیب، جس کے معنی ہوتے ہیں، بہت گہرا سیاہ۔ فاطر
28 1- یعنی انسان اور جانور بھی سفید، سرخ، سیاہ اور زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔ 2- یعنی اللہ کی ان قدرتوں اور اس کے کمال صناعی کو وہی جان اور سمجھ سکتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں، اس علم سے مراد کتاب وسنت اور اسرار الہیٰہ کا علم ہے اور جتنی انہیں رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اتنا ہی وہ رب سے ڈرتے ہیں، گویا جن کےاندر خشیت الٰہی نہیں ہے، سمجھ لو کہ علم صحیح سے بھی محروم ہیں۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ علما کی تین قسمیں ہیں۔ عالم باللہ اور عالم بامراللہ، یہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا اور اس کے حدود وفرائض کو جانتا ہے۔ دوسرا صرف عالم باللہ، جو اللہ سےتو ڈرتا ہے لیکن اس کے حدود وفرائض سے بےعلم ہے۔ تیسرا، صرف عالم بامراللہ، جو حدودوفرائض سے باخبر ہے لیکن خشیت الٰہی سے عاری ہے (ابن کثیر)۔ 3- یہ رب سے ڈرنے کی علت ہے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ نافرمان کو سزا دے اور توبہ کرنے والے کے گناہ معاف فرما دے۔ فاطر
29 1- کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے (تلاوت کرتے ہیں) یعنی پابندی سے اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ 2- اقامت صلوٰۃ کا مطلب ہوتا ہے، نماز کی اس طرح ادائیگی جو مطلوب ہے، یعنی وقت کی پابندی، اعتدال ارکان اور خشوع وخضوع کے اہتمام کے ساتھ پڑھنا۔ 3- یعنی رات دن، علانیہ اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے حسب ضرورت خرچ کرتے ہیں، بعض کے نزدیک پوشیدہ سے نفلی صدقہ اور علانیہ سے صدقۂ واجبہ (زکوٰۃ) مراد ہے۔ 4- یعنی ایسے لوگوں کا اجر اللہ کے ہاں یقینی ہے، جس میں مندے اور کمی کاامکان نہیں۔ فاطر
30 1- لِيُوَفِّيَهُمْ، متعلق ہے۔ لَنْ تَبُورَ کے، یعنی یہ تجارت مندے سے اس لئے محفوظ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال صالحہ پر پورا اجر عطا فرمائے گا۔ یا پھر فعل محذوف کے متعلق ہے کہ وہ یہ نیک اعمال اس لئے کرتے ہیں یا اللہ نے انہیں ان کی طرف ہدایت کی تاکہ وہ ا نہیں اجر دے۔ 2- یہ تَوْفِيَة اور زیادت کی علت ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کے گناہ معاف کرنے والا ہے بشرطیکہ خلوص دل سے وہ توبہ کریں، ان کے جذبۂ اطاعت وعمل صالح کا قدردان ہے، اس لئے وہ صرف اجر نہیں دے گا بلکہ اپنے فضل وکرم سے مزید بھی دےگا۔ فاطر
31 1- یعنی جس پر تیرے لئے اور تیری امت کے لئے عمل کرنا ضروری ہے۔ 2- تورات اور انجیل وغیرہ کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اس اللہ کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں، جب ہی تو دونوں ایک دوسرے کی تائید وتصدیق کرتی ہیں۔ 3- یہ اس کے علم و خبر ہی کا نتیجہ ہے کہ اس نے نئی کتاب نازل فرما دی، کیونکہ وہ جانتا ہے، پچھلی کتابیں تحریف و تغیر کا شکار ہوگئی ہیں اور اب وہ ہدایت کے قابل نہیں رہی ہیں۔ فاطر
32 1- کتاب سے مراد قرآن اور چنے ہوئے بندوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ یعنی اس قرآن کا وارث ہم نے امت محمدیہ کو بنایا ہے جسے ہم نے دوسری امتوں کے مقابلے میں چن لیا اور اسے شرف وفضل سے نوازا۔ یہ تقریباً وہی مفہوم ہے جو آیت ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (البقرة: 143) کا ہے۔ 2- امت محمدیہ کی تین قسمیں بیان فرمائیں۔ یہ پہلی قسم ہے، جس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بعض فرائض میں کوتاہی اور بعض محرمات کا ارتکاب کرلیتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس لئے کہا کہ وہ اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے کو اس اعلیٰ درجے سے محروم کرلیں گے جو باقی دو قسموں کو حاصل ہوں گے۔ 3- یہ دوسری قسم ہے، یعنی ملے جلے عمل کرتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو فرائض کے پابند، محرمات کے تارک تو ہیں لیکن کبھی مستحبات کا ترک اور بعض محرمات کا ارتکاب بھی ان سے ہوجاتا ہے یا وہ ہیں جو نیک تو ہیں لیکن پیش پیش نہیں ہیں۔ 4- یہ وہ ہیں جو دین کے معاملے میں پچھلے دونوں سے سبقت کرنے والے ہیں۔ 5- یعنی کتاب کا وارث کرنا اور شرف وفضل میں ممتاز (مصطفیٰ) کرنا۔ فاطر
33 1- بعض کہتے ہیں کہ جنت میں صرف سابقون جائیں گے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ قرآن کا سیاق اس امر کا متقاضی ہے کہ تینوں قسمیں جنتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سابقین بغیر حساب کتاب کے اور مقتصدین آسان حساب کے بعد اور ظالمین شفاعت سے یا سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ محمد بن حنفیہ کا قول ہے یہ امت مرحومہ ہے، ظالم یعنی گناہگار کی مغفرت ہوجائے گی، مقتصد، اللہ کے ہاں جنت میں ہوگا اور سباق بالخیرات درجات عالیہ پر فائز ہوگا۔ (ابن کثیر)۔ 2- حدیث میں آتا ہے کہ (ریشم اور دیباج دنیا میں مت پہنو، اس لئے کہ جو اسے دنیا میں پہنے گا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا)۔ (صحيح بخاری، وصحيح مسلم، كتاب اللباس فاطر
34 فاطر
35 فاطر
36 فاطر
37 1- یعنی غیروں کی بجائے تیری عبادت اور معصیت کی بجائے اطاعت کریں گے۔ 2- اس سے مراد کتنی عمر ہے؟ مفسرین نے مختلف عمریں بیان کی ہیں۔ بعض نے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ 60 سال کی عمر مراد ہے۔ (ابن کثیر) لیکن ہمارے خیال میں عمر کی تعیین صحیح نہیں، اس لئے کہ عمریں مختلف ہوتی ہیں، کوئی جوانی میں، کوئی کہولت میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے، پھر یہ ادوار بھی لمحۂ گزراں کی طرح مختصر نہیں ہوتے، بلکہ ہر دور خاصا ممتد (لمبا) ہوتا ہے۔ مثلاً جوانی کا دور، بلوغت سے کہولت تک اور کہولت کا دور شیخوخت بڑھاپے تک اور بڑھاپے کا دور موت تک رہتا ہے۔ کسی کو سوچ بچار، نصیحت خیزی اور اثر پذیری کے لئے چند سال، کسی کو اس سے زیادہ اور کسی کو اس سے بھی زیادہ سال ملتے ہیں اور سب سے یہ سوال کرنا صحیح ہوگا کہ ہم نے تجھے اتنی عمر دی تھی کہ اگر تو حق کو سمجھنا چاہتا تو سمجھ سکتا تھا، پھر تونے حق کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ 3- اس سے مراد نبی کریم (ﷺ) ہیں۔ یعنی یاددہانی اور نصیحت کے لئے پیغمبر (ﷺ) اور اس کے منبر ومحراب کے وارث علما اور دعاۃ تیرے پاس آئے، لیکن تونے اپنی عقل وفہم سے کام لیا نہ داعیان حق کی باتوں کی طرف دھیان کیا۔ فاطر
38 1- یہاں یہ بیان کرنے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو کر رہے ہو اور دعویٰ کر رہے ہو کہ اب نافرمانی کی جگہ اطاعت اور شرک کی جگہ توحید اختیار کرو گے۔ لیکن ہمیں علم ہے کہ تم ایسا نہیں کرو گے۔ تمہیں اگر دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے، تو تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا ﴿وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ﴾ (الأنعام: 28) ”اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا“۔ 2- یہ پچھلی بات کی تعلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم کیوں نہ ہو، جب کہ وہ سینوں کی باتوں اور رازوں سے بھی واقف ہے جو سب سے زیادہ مخفی ہوتے ہیں۔ فاطر
39 1- یعنی اللہ کے ہاں کفر کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، بلکہ اس سے اللہ کے غضب اور ناراضی میں بھی اضافہ ہوگا اور انسان کے اپنے نفس کا خسارہ بھی زیادہ۔ فاطر
40 1- یعنی ہم نے ان پر کوئی کتاب نازل کی ہو، جس میں یہ درج ہو کہ میرے بھی کچھ شریک ہیں جو آسمان وزمین کی تخلیق میں حصے دار اور شریک ہیں۔ 2- یعنی ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو گمراہ کرتے آئے ہیں . ان کے لیڈر اور پیر کہتے تھے کہ یہ معبود انہیں نفع پہنچائیں گے، انہیں اللہ کے قریب کردیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے۔ یا یہ باتیں شیاطین مشرکین سے کہتے تھے۔ یا اس سے وہ وعدہ مراد ہے جس کا اظہار وہ ایک دوسرے کے سامنے کرتے تھے کہ وہ مسلمانوں پر غالب آئیں گے جس سے ان کو اپنے کفر پر جمے رہنے کا حوصلہ ملتا تھا۔ فاطر
41 1- كَرَاهَةَ أَنْ تَزُولا لِئَلا تَزُولا یہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت وصنعت کا بیان ہے۔ بعض نے کہا، مطلب یہ ہے کہ ان کے شرک کا اقتضا ہے کہ آسمان وزمین اپنی حالت پر برقرار نہ رہیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں۔ جیسے آیت۔ ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا﴾ (مريم: 90 - 91) کا مفہوم ہے۔ 2- یعنی یہ اللہ کے کمال قدرت کے ساتھ اس کی کمال مہربانی بھی ہے کہ وہ آسمان وزمین کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں اپنی جگہ سے ہلنے اور ڈولنے نہیں دیتا ہے، ورنہ پلک جھپکتے میں دنیا کا نظام تباہ ہوجائے۔ کیونکہ اگر وہ ا نہیں تھامے نہ رکھے اور انہیں اپنی جگہ سے پھیر دے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان کو تھام لے إِنْ أَمْسَكَهُمَا میں إِنْ نافیہ ہے۔ اللہ نے اپنے اس احسان اور نشانی کا تذکرہ دوسرے مقامات پر بھی فرمایا ہے مثلاً ﴿وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الأَرْضِ إِلا بِإِذْنِهِ﴾ (الحج: 65) اور ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ بِأَمْرِهِ﴾ (الروم: 25) ”اسی نے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا ہوا ہے، مگر جب اس کا حکم ہوگا“۔ ”اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان وزمین اس کے حکم سے قائم ہیں“۔ 3- اتنی قدرتوں کے باوجود وہ حلیم ہے۔ اپنے بندوں کو دیکھتا ہے کہ وہ کفر وشرک اور نافرمانی کر رہے ہیں، پھر بھی وہ ان کی گرفت میں جلدی نہیں کرتا، بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور غفور بھی ہے، کوئی تائب ہو کر اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے، توبہ واستغفار وندامت کا اظہار کرتا ہے تو وہ معاف فرما دیتا ہے۔ فاطر
42 1- اس میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا کہ بعثت محمدی سے قبل یہ مشرکین عرب قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہماری طرف کوئی رسول آیا، تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے اور اس پر ایمان لانے میں ایک مثالی کردار ادا کریں گے۔ (یہ مضمون دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الانعام:156 - 157 الصافات: 167 - 170) 2- یعنی حضرت محمد (ﷺ) ان کے پاس نبی بن کر آگئے جن کے لئےوہ تمنا کرتے تھے۔ فاطر
43 1- یعنی آپ (ﷺ) کی نبوت پر ایمان لانے کے بجائے انکار و مخالفت کا راستہ محض استکبار اور سرکشی کی وجہ سے اختیار کیا۔ 2- اور بری تدبیر یعنی حیلہ، دھوکہ اور عمل قبیح کی وجہ سے کیا۔ 3- یعنی لوگ مکر وحیلہ کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ بری تدبیر کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور اس کا وبال بالآخر مکر وحیلہ کرنے والوں پر ہی پڑتا ہے۔ 4- یعنی کیا یہ اپنے کفروشرک، رسول (ﷺ) کی مخالفت اور مومنوں کو ایذائیں پہنچانے پر مصر رہ کر اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں بھی اس طرح ہلاک کیا جائے، جس طرح پچھلی قومیں ہلاکت سے دوچار ہوئیں؟ 5- بلکہ یہ اسی طرح جاری ہے اور ہر مکذب (جھٹلانے والے) کا مقدر ہلاکت ہے یا بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے عذاب کو رحمت سے بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ 6- یعنی کوئی اللہ کے عذاب کو دور کرنے والا یا اس کا رخ پھیرنے والا نہیں ہے یعنی جس قوم کو اللہ عذاب سے دوچار کرنا چاہے، کوئی اس کا رخ کسی اور قوم کی طرف پھیر دے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔ مطلب اس سنت اللہ کی وضاحت سے مشرکین عرب کو ڈرانا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے، وہ کفروشرک چھوڑ کر ایمان لے آئیں، ورنہ وہ اس سنت الٰہی سے بچ نہیں سکتے، دیر سویر اس کی زد میں آکر رہیں گے، کوئی اس قانون الٰہی کو بدلنے پر قادر ہے اور نہ عذاب الٰہی کو پھیرنے پر۔ فاطر
44 فاطر
45 1- انسانوں کو تو ان کے گناہوں کو پاداش میں اور جانوروں کو انسانوں کو نحوست کی وجہ سے۔ یا مطلب ہے کہ تمام اہل زمین کو ہلاک کر دیتا 'انسانوں کو بھی اور جن جانوروں اور روزیوں کے وہ مالک ہیں 'ان کو بھی ۔یا مطلب ہے کہ آسمان سے بارشوں کا سلسلہ منقطع فرمادیتا 'جس سے زمین پر چلنر والے سب وابستہ مر جاتے۔ 2- یہ میعاد معین دنیا میں بھی ہوسکتی ہے اور یوم قیامت تو ہے ہی۔ 3- یعنی اس دن ان کا محاسبہ کرے گا اور ہر شخص کو اس کے عملوں کا پورا بدلہ دے گا۔ اہل ایمان واطاعت کو اجر وثواب اور اہل کفر ومعصیت کو عتاب وعقاب۔ اس میں مومنوں کے لئے تسلی ہے اور کافروں کے لئے وعید۔ فاطر
0 يس
1 1- بعض نے اس کے معنی یا رجل یا انسان کے کئے ہیں۔ بعض نے اسے نبی (ﷺ) کے نام اور بعض نے اسے اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بتلایا ہے۔ لیکن یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔ یہ بھی ان حروف مقطعات میں سے ہی ہے۔ جن کا معنی ومفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ يس
2 1- یا قرآن محکم کی، جو نظم ومعنی کے لحاظ سے محکم یعنی پختہ ہے۔ واو قسم کے لئے ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔ يس
3 1- مشرکین نبی کریم (ﷺ) کی رسالت میں شک کرتے تھے، اس لئے آپ (ﷺ) کی رسالت کا انکار کرتے اور کہتے تھے ﴿لَسْتَ مُرْسَلا﴾ (الرعد: 43) ”تو تو پیغمبر ہی نہیں ہے“۔ اللہ نے ان کے جواب میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ (ﷺ) یقیناً اس کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ اس میں آپ (ﷺ) کے شرف وفضل کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لئے قسم نہیں کھائی یہ بھی آپ (ﷺ) کے امتیازات اور خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی رسالت کے اثبات کے لئے قسم کھائی۔ يس
4 1- یہ إِنَّكَ کی دوسری خبر ہے۔ یعنی آپ (ﷺ) ان پیغمبروں کے راستے پر ہیں جو پہلے گزرچکے ہیں۔ یا ایسے راستے پر ہیں جو سیدھا اور مطلوب منزل (جنت) تک پہنچانے والا ہے۔ يس
5 1- یعنی اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو عزیز ہے یعنی اس کا انکار اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والے سے انتقام لینے پر قادر ہے رحیم ہے یعنی جو اس پر ایمان لائے گا اور اس کا بندہ بن کر رہے گا، اس کے لئے نہایت مہربان ہے۔ يس
6 1- یعنی آپ (ﷺ) کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ (ﷺ) اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ (ﷺ) سے پہلے کوئی ڈرانے والانہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بےخبر ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزرچکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کے بعد، نبی کریم (ﷺ) سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے۔ يس
7 1- جیسے ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔ بات ثابت ہونے کا مطلب، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ”میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا“۔ (الم السجدۃ: 13) شیطان سے بھی خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا تھا ”میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا“۔ (ص: 84) یعنی ان لوگوں نے شیطان کے پیچھے لگ کر اپنےآپ کو جہنم کا مستحق قرار دے لیا، کیونکہ اللہ نے تو ان کو اختیار وحریت ارادہ سے نوازا تھا، لیکن انہوں نے اس کا استعمال غلط کیا اور یوں جہنم کا ایندھن بن گئے۔ یہ نہیں کہ اللہ نے جبراً ان کو ایمان سے محروم رکھا، کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق ہی قرار نہ پاتے۔ يس
8 1- جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں، نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچی کئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزائے جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسرالتفاسیر)۔ يس
9 1- یعنی دنیا کی زندگی ان کے لئے مزین کر دی گئی، یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے، جس کی وجہ سے وہ لذائذ دنیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب ہے اور آخر کا تصور ان کے ذہنوں میں ناممکن الوقوع کردیا گیا، یہ گویا ان کے پیچھے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں، کیونکہ آخرت کا کوئی خوف ہی ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ 2- یا ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا یعنی رسول (ﷺ) سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی، یا انہیں اندھا کردیا ہے جس سے وہ دیکھ نہیں سکتے۔ یہ ان کے حال کی دوسری تمثیل ہے۔ يس
10 1- یعنی جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہی کے اس مقام پر پہنچ جائیں، ان کے لئے انذار بےفائدہ رہتا ہے۔ يس
11 1- یعنی انذار سے صرف اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ يس
12 1- یعنی قیامت والے دن۔ یہاں احیائے موتی کے ذکر سے یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں میں سے جس کا دل چاہتا ہے، زندہ کردیتا ہے جو کفروضلالت کی وجہ سے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ پس وہ ہدایت اور ایمان کو اپنا لیتے ہیں۔ 2- مَا قَدَّمُوا سے وہ اعمال مراد ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہے اور آثَارَهُمْ سے وہ اعمال جن کے عملی نمونے (اچھے یا برے) وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اقتدا میں لوگ وہ اعمال بجا لاتے ہیں۔ جس طرح حدیث میں ہے ”جس نےاسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا، اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اور اس کا بھی ہے جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کے اجر میں کمی ہو اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا، اس پر اس کے اپنے گناہ کا بھی بوجھ ہوگا اور اس کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، بغیر اس کے کہ ان میں کسی کے بوجھ میں کمی ہو“۔ (صحيح مسلم، كتاب الزكاة ، باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة) اسی طرح یہ حدیث ہے ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ سوائے تین چیزوں کے۔ ایک علم، جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں (2) نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعا کرے (3) یا صدقہ جاریہ، جس سے اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ فیض یاب ہوں“۔ (صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته) دوسرا مطلب آثَارَهُمْ کا نشانات قدم ہے۔ یعنی انسان نیکی یا بدی کے لئے جو سفر کرتا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو قدموں کے یہ نشانات بھی لکھے جاتے ہیں۔ جیسے عہد رسالت میں مسجد نبوی کے قریب کچھ جگہ خالی تھی تو بنوسلمہ نے ادھر منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی کریم (ﷺ) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ (ﷺ) نے انہیں مسجد کے قریب منتقل ہونے سے روک دیا اور فرمایا : [ دَيَاركُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ ] (دو مرتبہ فرمایا) یعنی تمہارے گھر اگرچہ دور ہیں، لیکن وہیں رہو، جتنے قدم تم چل کر آتے ہو، وہ لکھے جاتے ہیں۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد، باب فضل كثرة الخطى إلى المساجد) امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں مفہوم اپنی جگہ صحیح ہیں، ان کے درمیان منافات نہیں ہے۔ بلکہ اس دوسرے مفہوم میں سخت تنبیہ ہے، اس لئے کہ جب قدموں کے نشانات تک لکھے جاتے ہیں، تو انسان جو اچھا یا برا نمونہ چھوڑ جائے جس کی لوگ بعد میں پیروی کریں تو وہ بطریق ادنیٰ لکھے جائیں گے۔ 3- اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے صحائف اعمال مراد لئے ہیں۔ يس
13 1- تاکہ اہل مکہ یہ سمجھ لیں کہ آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں، بلکہ رسالت ونبوت کا یہ سلسلہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ يس
14 1- یہ تین رسول کون تھے؟ مفسرین نے ان کے مختلف نام بیان کئے ہیں، لیکن نام مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے فرستادہ تھے، جو انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک بستی میں تبلیغ ودعوت کے لئے بھیجے تھے۔ بستی کا نام انطاکیہ تھا۔ يس
15 يس
16 يس
17 يس
18 1- ممکن ہے کچھ لوگ ایمان لے آئے ہوں اور ان کی وجہ سے قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ہو، جس کو انہوں نے رسولوں کی نَعُوذُ بِاللهِ نحوست قرار دیا۔ یا بارش کا سلسلہ موقوف رہا، تو وہ سمجھے ہوں کہ یہ ان رسولوں کی نحوست ہے۔ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ، جیسے آج کل بھی بد نہاد اور دین و شریعت سے بےبہرہ لوگ، اہل ایمان وتقویٰ کو ہی (منحوس) سمجھتے ہیں۔ يس
19 1- یعنی وہ تو تمہارے اپنے اعمال بد کا نتیجہ ہے جو تمہارے ساتھ ہی ہے نہ کہ ہمارے ساتھ۔ يس
20 1- یہ شخص مسلمان تھا، جب اسے پتہ چلا کہ قوم پیغمبروں کی دعوت کو نہیں اپنا رہی ہے، تو اس نے آکر رسولوں کی حمایت اور ان کے اتباع کی ترغیب دی۔ يس
21 يس
22 1- اپنے مسلک توحید کی وضاحت کی، جس سے مقصد اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان کی صحیح رہنمائی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی قوم نے اس سے کہا ہو کہ کیا تو بھی اس معبود کی عبادت کرتا ہے، جس کی طرف یہ مرسلین ہمیں بلا رہے ہیں اور ہمارے معبودوں کو تو بھی چھوڑ بیٹھا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ مفسرین نے اس شخص کا نام حبیب نجار بتلایا ہے، واللہ اعلم۔ يس
23 1- یہ ان معبودان باطلہ کی بے بسی کی وضاحت ہے جن کی عبادت اس کی قوم کرتی تھی اور شرک کی اس گمراہی سے نکالنے کے لئے رسول ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔ نہ بچا سکیں کا مطلب ہے کہ اللہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ بچا نہیں سکتے۔ يس
24 1- یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح، اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے اختیار اور بے بس معبودوں کی عبادت شروع کردوں، تو میں بھی کھلی گمراہی میں جا گروں گا۔ یا ضلال، یہاں خسران کے معنی میں ہے، یعنی یہ تو نہایت واضح خسارے کا سودا ہے۔ يس
25 1- اس کی دعوت توحید اور اقرار توحید کے جواب میں قوم نے اسے قتل کرنا چاہا تو اس نے پیغمبروں سے خطاب کرکے یہ کہا، مقصد اپنے ایمان پر ان پیغمبروں کو گواہ بنانا تھا۔ یا اپنی قوم سے خطاب کرکے کہا جس سے مقصود دین حق پر اپنی صلابت اور استقامت کا اظہار تھا کہ تم جو چاہو کر لو، لیکن اچھی طرح سن لو کہ میرا ایمان اسی رب پر ہے، جو تمہارا بھی رب ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو مار ڈالا اور کسی نے ان کو اس سے نہیں روکا۔ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى۔ يس
26 يس
27 1- یعنی جس ایمان اور توحید کی وجہ سے مجھے رب نے بخش دیا، کاش میری قوم اس بات کو جان لے تاکہ وہ بھی ایمان وتوحید کو اپنا کر اللہ کی مغفرت اور اس کی نعمتوں کی مستحق ہو جائے۔ اس طرح اس شخص نے مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی۔ ایک مومن صادق کو ایسا ہی ہونا چاہئے کہ وہ ہر وقت لوگوں کی خیر خواہی ہی کرے، بدخواہی نہ کرے۔ ان کی صحیح رہنمائی کرے، گمراہ نہ کرے، بیشک لوگ اسے جو چاہے کہیں اور جس قسم کا سلوک چاہیں کریں، حتیٰ کہ اسے مار ڈالیں۔ يس
28 1- یعنی حبیب نجار کےقتل کے بعد ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا۔ یہ اس قوم کی تحقیر شان کی طرف اشارہ ہے۔ 2- یعنی جس قوم کی ہلاکت کسی دوسرے طریقے سے لکھی جاتی ہے تو وہاں ہم فرشتے نازل بھی نہیں کرتے۔ يس
29 1- کہتے ہیں کہ جبرائیل (عليہ السلام) نے ایک چیخ ماری، جس سے سب کے جسموں سے روحیں نکل گئیں اور وہ بجھی آگ کی طرح ہوگئے۔ گویا زندگی، شعلۂ فروزاں ہے اور موت، اس کا بجھ کر راکھ کا ڈھیر ہو جانا۔ يس
30 1- حسرت وندامت کا یہ اظہار خود اپنے نفسوں پر، قیامت والے دن، عذاب دیکھنے کے بعد کریں گے کہ کاش انہوں نے اللہ کے بارے میں کوتاہی نہ کی ہوتی یا اللہ تعالیٰ بندوں کے رویے پر افسوس کر رہا ہے کہ ان کے پاس جب بھی کوئی رسول آیا انہوں نے اس کے ساتھ استہزا ہی کیا۔ يس
31 1- اس میں اہل مکہ کے لئے تنبیہ ہے کہ تکذیب رسالت کی وجہ سے جس طرح پچھلی قومیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہو سکتے ہیں۔ يس
32 1- اس میں إِنْ نافیہ ہے اور لَمَّا، إِلا کے معنی میں۔ مطلب یہ ہے کہ تمام لوگ گزشتہ بھی اور آئندہ آنے والے بھی، سب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے جہاں ان کا حساب کتاب ہوگا۔ يس
33 1- یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت تامہ اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر نشانی۔ يس
34 1- یعنی مردہ زمین کو زندہ کر کے ہم اس سے ان کی خوراک کے لئے صرف غلہ ہی نہیں اگاتے، بلکہ ان کے کام ودہن کی لذت کے لئے انواع واقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں، یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ کثیر المنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے۔ پھر غلے کا ذکر پہلے کیا کیونکہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلمہ۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سےاس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ يس
35 1- یعنی بعض جگہ بھی چشمے جاری کرتے ہیں، جس کے پانی سے پیداہونے والے پھل لوگ کھائیں۔ 2- امام ابن جریر کے نزدیک یہاں ما نافیہ ہے یعنی غلوں اور پھلوں کی یہ پیداوار، اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے۔ اس میں ان کی سعی ومحنت، کدوکاوش اور تصرف کا دخل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں نہیں کرتے؟ اور بعض کے نزدیک (مَا) موصولہ ہےجو الَّذِي کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کا پھل کھائیں اور ان چیزوں کو جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا۔ ہاتھوں کا عمل ہے، زمین کو ہموار کرکے بیج بونا، اسی طرح پھلوں کے کھانے کے مختلف طریقے ہیں، مثلاً انہیں نچوڑ کر ان کا رس پینا، مختلف فروٹوں کو ملاکر چاٹ بنانا، وغیرہ۔ يس
36 1- یعنی انسانوں کی طرح زمین کی ہر پیداوار میں بھی ہم نے نر اور مادہ دونوں پیدا کیے ہیں۔ علاوہ ازیں آسمانوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں بھی جو چیزیں تم سے غائب ہیں، جن کا علم تم نہیں رکھتے، ان میں بھی زوجیت (نر اور مادہ) کا یہ نظام ہم نے رکھا ہے، پس تمام مخلوق جوڑا جوڑا ہے، نباتات میں بھی نر اور مادے کا یہی نظام ہے۔ حتیٰ کہ آخرت کی زندگی، دنیا کی زندگی کے لئے بمنزلۂ زوج ہے اور یہ حیات آخرت کے لئے ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو مخلوق کی اس صفت سے اور دیگر تمام کوتاہیوں سے پاک ہے۔ وہ وتر (فرد) ہے، زوج نہیں۔ يس
37 1- یعنی اللہ کی قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے، جس سے فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔ سلخ کےمعنی ہوتے ہیں جانور کی کھال کا اس کے جسم سے علیحدہ کرنا، جس سے اس کا گوشت ظاہر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اللہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے۔ أَظْلَمَ کے معنی ہیں، اندھیرے میں داخل ہونا۔ جیسے أَصْبحَ اور أَمْسَىٰ اور أَظْهَرَ کے معنی ہیں، صبح، شام اور ظہر کے وقت میں داخل ہونا۔ يس
38 1- یعنی اپنے اس مدار (فلک) پر چلتا رہتاہے، جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کر دیا ہے، اسی سے اپنی سیر کا آغاز کرتا ہے اور وہیں پر ختم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، کہ کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا جائے۔ دوسرے معنی ہیں (اپنے ٹھہرنے کی جگہ تک) اور اس کا یہ مقام قرار عرش کے نیچے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے جو صفحہ 916 (سورۃ الحج، آیت 18 کا حاشیہ) پر گزر چکی ہے کہ سورج روزانہ غروب کے بعد عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ یسں) دونوں مفہوم کے اعتبار سے لِمُسْتقَرٍّ میں لام، علت کے لئے ہے۔ أي: لأجل مُسْتقَرٍّ لَّهَا بعض کہتے ہیں کہ لام، الٰی کے معنی میں ہے، پھر مستقر یوم قیامت ہوگا۔ یعنی سورج کا یہ چلنا قیامت کے دن تک ہے، قیامت والے دن اس کی حرکت ختم ہو جائے گی۔ یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ يس
39 1- چاند کی 28 منزلیں ہیں، روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر دو راتیں غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے۔ 2- یعنی جب آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔چاند کی انہی گردشوں سے سکان ارض اپنے دنوں، مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں۔ يس
40 1- یعنی سورج کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے جس سے اس کی روشنی ختم ہو جائے بلکہ دونوں کا اپنا اپنا راستہ اور الگ الگ حد ہے۔ سورج دن ہی کو اور چاند رات ہی کو طلوع ہوتا ہے اس کے برعکس کبھی نہیں ہوا، جو ایک مدبر کائنات کے وجود پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ 2- بلکہ یہ بھی ایک نظام میں بندھےہوئے ہیں اور ایک، دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ 3- كُلٌّ سے سورج، چاند یا اس کےدوسرے کواکب مراد ہیں، سب اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں، ان کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ يس
41 1- اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے لئے سمندر میں کشتیوں کا چلنا آسان فرما دیا، حتیٰ کہ تم اپنے ساتھ بھری ہوئی کشتیوں میں اپنے بچوں کو بھی لے جاتے ہو۔ دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ذُرِّيَّةٌ سے مقصود آبائے ذریت ہیں۔ اور کشتی سے مراد کشتی ٔ نوح (عليہ السلام) ہے۔ یعنی سفینۂ نوح (عليہ السلام) میں ان لوگوں کو بٹھایا جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ گویا نسل انسانی کے آبا اس میں سوار تھے۔ يس
42 1- اس سے مراد ایسی سواریاں ہیں جو کشتی کی طرح انسانوں اور سامان تجارت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں، اس میں قیامت تک پیدا ہونے والی چیزیں آگئیں۔ جیسے ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریلیں، بسیں، کاریں اور دیگر نقل وحمل کی اشیا۔ يس
43 يس
44 يس
45 يس
46 1- یعنی توحید اور صداقت رسول کی جو نشانی بھی ان کے سامنے آتی ہے، اس میں یہ غور ہی نہیں کرتے کہ جس سے ان کوفائدہ ہو، ہر نشانی سے اعراض ان کاشیوہ ہے۔ يس
47 1- یعنی غربا ومساکین اور ضرورت مندوں کو دو۔ 2- یعنی اللہ چاہتا تو ان کو غریب ہی نہ کرتا، ہم ان کو دے کر اللہ کی مشیت کے خلاف کیوں کریں۔ 3- یعنی یہ کہہ کر کہ، غربا کی مدد کرو، کھلی غلطی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ یہ بات تو ان کی صحیح تھی کہ غربت وناداری اللہ کی مشیت ہی سے تھی، لیکن اس کو اللہ کے حکم سے اعراض کا جواز بنا لینا غلط تھا، آخر ان کی امداد کرنےکا حکم دینے والا بھی تو اللہ ہی تھا، اس لئے اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ غربا ومساکین کی امداد کی جائے۔ اس لئے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضا اور چیز۔ مشیت کا تعلق امور تکوینی سے ہے جس کے تحت جو کچھ بھی ہوتاہے، اس کی حکمت ومصلحت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور رضا کا تعلق امور تشریعی سے ہے، جن کو بجا لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے تاکہ ہمیں اس کی رضا حاصل ہو۔ يس
48 يس
49 1- یعنی لوگ بازاروں میں خرید وفروخت اور حسب عادت بحث وتکرار میں مصروف ہوں گے کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی یہ نفخۂ اولیٰ ہوگا جسے نفخۂ فزع بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا۔ نَفْخَةُ الصَّعْقِ جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا، سب موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ يس
50 يس
51 1- پہلے قول کی بنا پر یہ نفخۂ ثانیہ اور دوسرے قول کی بنا پر یہ نفخۂ ثالثہ ہوگا، جسے نَفْخَةُ الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ کہتے ہیں، اس سے لوگ قبروں سےزندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (ابن کثیر)۔ يس
52 1- قبر کو خواب گاہ سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبر میں ان کو عذاب نہیں ہوگا، بلکہ بعد میں جو ہولناک مناظر اور عذاب کی شدت دیکھیں گے، اس کے مقابلے میں انہیں قبر کی زندگی ایک خواب ہی محسوس ہوگی۔ يس
53 يس
54 يس
55 1- فَاكِهُونَ کے معنی ہیں فَرِحُونَ خوش ، مسرت بکنار۔ يس
56 يس
57 يس
58 1- اللہ کا یہ سلام، فرشتے اہل جنت کو پہنچائیں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود سلام سے نوازے گا۔ يس
59 1- یعنی اہل ایمان سے الگ ہو کر کھڑے ہو۔ یعنی میدان محشر میں اہل ایمان واطاعت اور اہل کفر ومعصیت الگ الگ کر دیئے جائیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ﴾ (الروم: 14) ﴿يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ﴾ (الروم: 43) أي: يَصِيرُونَ صِدْعَينِ فِرْقَتَيْنِ (اس دن لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے)۔ دوسرا مطلب ہے کہ مجرمین ہی کو مختلف گروہوں میں الگ الگ کر دیا جائے گا۔ مثلاً یہودیوں کا گروہ، عیسائیوں کا گروہ، صابئین اور مجوسیوں کا گروہ، زانیوں کا، شرابیوں کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔ يس
60 1- اس سے مراد عہد الست ہے جو حضرت آدم (عليہ السلام) کی پشت سے نکالنے کے وقت لیا گیا تھا یا وہ وصیت ہے جو پیغمبروں کی زبان لوگوں کو کی جاتی رہی۔ اور بعض کے نزدیک وہ دلائل عقلیہ ہیں جو آسمان وزمین میں اللہ نے قائم کیے ہیں۔ (فتح القدیر)۔ 2- یہ اس کی علت ہے کہ تمہیں شیطان کی عبادت اور اس کے وسوسے قبول کرنے سے اس لئے روکا گیا تھا کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس نے تمہیں ہر طرح گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ يس
61 1- یعنی یہ بھی عہد لیا تھا کہ تمہیں صرف میری ہی عبادت کرنی ہے، میری عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا۔ 2- یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس کی طرف تمام انبیا لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچانے والا ہے۔ يس
62 1- یعنی اتنی عقل بھی تمہارے اندر نہیں کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ اور میں تمہارا رب ہوں، میں ہی تمہیں روزی دیتا ہوں اور میں ہی تمہاری رات دن حفاظت کرتا ہوں لہٰذا تمہیں میری نافرمانی نہیں کرنی چاہئے۔ تم شیطان کی عداوت کو اور میرے حق عبادت کو نہ سمجھ کر نہایت بےعقلی اور نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ يس
63 يس
64 1- یعنی اب اس بے عقلی کا نتیجہ بھگتو اور اپنے کفر کے سبب سے جہنم کی سختیوں کا مزہ چکھو۔ يس
65 1- یہ مہر لگانے کی ضرورت اس لئے پیش آئے گی کہ ابتداء مشرکین قیامت والے دن بھی جھوٹ بولیں گے اور کہیں گے ﴿وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ﴾ (الأنعام: 23) ”اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے“۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا، جس سے وہ خود توبولنے کی طاقت سے محروم ہو جائیں گے، البتہ اللہ تعالیٰ اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرمائے گا، ہاتھ بولیں گے کہ ہم سے اس نے فلاں فلاں کام کیا تھا اور پاؤں اس پر گواہی دیں گے۔ یوں گویا اقرار اور شہادت، دونوں مرحلے طے ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں ناطق کے مقابلے میں غیر ناطق چیزوں کا بول کر گواہی دینا، حجت واستدلال میں زیادہ بلیغ ہے کہ اس میں ایک اعجازی شان پائی جاتی ہے۔ (فتح القدیر) اس مضمون کو احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح مسلم، کتاب الزھد يس
66 1- یعنی بینائی سے محرومی کے بعد انہیں راستہ کس طرح دکھائی دیتا؟ لیکن یہ تو ہمارا حلم وکرم ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔ يس
67 1- یعنی نہ آگے جا سکتے، نہ پیچھے لوٹ سکتے، بلکہ پتھر کی طرح ایک جگہ پڑے رہتے۔ مسخ کے معنی پیدائش میں تبدیلی کے ہیں، یعنی انسان سے پتھر یا جانور کی شکل میں تبدیل کر دینا۔ يس
68 1- یعنی جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، اس کی پیدائش کو بدل کر برعکس حالت میں کر دیتے ہیں۔ یعنی جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نشوونما جاری رہتی ہے اور اس کی عقلی اور بدنی قوتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ جوانی اور کہولت کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے برعکس اس کے قوائے عقلیہ وبدنیہ میں ضعف وانحطاط کا عمل شروع ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ ایک بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ 2- کہ جو اللہ اس طرح کر سکتا ہے، کیا وہ دوبارہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ يس
69 1- مشرکین مکہ نبی (ﷺ) کی تکذیب کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے، ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ کی شاعرانہ تک بندی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی۔ کہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت اور موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط وتفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج وطبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اس کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (ﷺ) کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اس کا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لئے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور ان کے شبہات کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن اس کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امیت بھی قطع شبہات کے لئے تھی تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نےفلاں سے سیکھ پڑھ کر اس کو مرتب کر لیا ہے۔ البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، جو دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اوزان وبحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایسا آپ کے قصد وارادہ کے بغیر ہوا اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح حنین والے دن آپ کی زبان پر بے اختیار یہ رجز جاری ہوگیا: أَنَا النَّبِيَّ لا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب ایک اور موقع پر آپ (ﷺ) کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: هَلْ أَنْتِ إِلا إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللهِ مَا لَقِيتِ (صحيح بخاری ومسلم ، كتاب الجهاد) يس
70 1- یعنی جس کا دل صحیح ہے، حق کو قبول کرتا اور باطل سے انکار کرتا ہے۔ 2- یعنی جو کفر پر مصر ہو، اس پر عذاب والی بات ثابت ہو جائے۔ لِيُنْذِرَ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ يس
71 1- اس سے غیروں کی شرکت کی نفی ہے، ان کو ہم نے اپنےہاتھوں سے بنایا ہے، کسی اور کا ان کے بنانے میں حصہ نہیں ہے۔ 2- أَنْعَامٌ، نَعَمٌ کی جمع ہے۔ اس سےمراد چوپائے یعنی اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ، دنبہ) ہیں۔ 3- یعنی جس طرح چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں، اگر ہم ان کے اندر وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے میں ہی نہ آسکتے۔ يس
72 1- یعنی ان جانوروں سے وہ جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ انکار نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ انہیں ذبح بھی کر دیتے ہیں اور چھوٹے بچے بھی انہیں کھینچے پھرتے ہیں۔ يس
73 1- یعنی سواری اور کھانے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں مثلاً ان کی اون اور بالوں سے کئی چیزیں بنتی ہیں، ان کی چربی سے تیل حاصل ہوتا ہے اور یہ بار برداری اور کھیتی باڑی کے بھی کام آتے ہیں۔ يس
74 1- یہ ان کے کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں، جن سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ ہیں۔ لیکن یہ بجائے اس کے کہ یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں یعنی ان کی عبادت واطاعت کریں، یہ غیروں سے امیدیں وابستہ کرتے اور انہیں معبود بناتے ہیں۔ يس
75 1- جُنْدٌ سےمراد بتوں کےحمایتی اور ان کی طرف سے مدافعت کرنے والے، مُحْضَرُونَ دنیا میں ان کے پاس حاضرہونے والے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جن بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے؟ وہ تو خود اپنی مدد کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ انہیں کوئی برا کہے، ان کی مذمت کرے، تو یہی ان کی حمایت ومدافعت میں سرگرم ہوتے ہیں، نہ کہ خود ان کے وہ معبود۔ يس
76 يس
77 يس
78 يس
79 1- یعنی جو اللہ تعالیٰ انسان کو ایک حقیر نطفے سے پیدا کرتا ہے، وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ اس کی قدرت احیائے موتی کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی راکھ تیز ہوا والے دن خشکی میں اڑا دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری راکھ جمع کرکے اسےزندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا، تیرےخوف سے، چنانچہ اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ (صحيح بخاری ، الأنبياء والرقاق باب الخوف من الله يس
80 1- کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کے حوالے سے اسی طرف اشارہ مقصود ہے۔ يس
81 1- یعنی انسانوں جیسے۔ مطلب، انسانوں کا دوبارہ پیدا کرنا ہے جس طرح انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔ آسمان وزمین کی پیدائش سے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر استدلال کیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ﴾ (المؤمن:57) ”آسمان وزمین کی پیدائش (لوگوں کے نزدیک) انسانوں کی پیدائش سے زیادہ مشکل کام ہے“۔ سورۂ احقاف 33 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ يس
82 1- یعنی اس کی شان تو یہ ہے، پھر اس کے لئے سب انسانوں کا زندہ کر دینا کون سا مشکل معاملہ ہے؟ يس
83 1- ملک اور ملکوت دونوں کے ایک ہی معنی ہیں، بادشاہی، جیسے رَحْمَةٌ اور رَحَمُوتٌ رَهْبَةٌ اور رَهَبُوتٌ، جَبْرٌ اور جَبَرُوتٌ وغیرہ ہیں۔ (ابن کثیر) بعض اس کو مبالغے کا صیغہ قرار دیتے ہیں۔ (فتح القدیر) یعنی مَلَكُوتٌ مُلْكٌ کا مبالغہ ہے۔ 2- یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر تمہارا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے، نہیں، بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کر لو۔ تمہیں بہرحال اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا، جہاں وہ عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ يس
0 الصافات
1 الصافات
2 الصافات
3 الصافات
4 1- صَافَّاتٌ، زَاجِرَاتٌ، تَالِياتٌ فرشتوں کی صفات ہیں۔ آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لئے صف باندھنے والے، یا اللہ کے حکم کے انتظار میں صف بستہ، وعظ ونصیحت کے ذریعے سے لوگوں کوڈانٹنے والے یا بادلوں کو، جہاں اللہ کا حکم ہو، وہاں ہانک کر لےجانے والے۔ اللہ کا ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنے والے۔ ان فرشتوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے مضمون یہ بیان فرمایا کہ تمام انسانوں کا معبود ایک ہی ہے۔ متعدد نہیں، جیسا کہ مشرکین نے بنائے ہوئے ہیں۔ عرف عام میں قسم تاکید اور شک دور کرنے کے لئےکھائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں قسم اسی شک کو دور کرنے کے لئےکھائی ہے جو مشرکین اس کی وحدانیت والوہیت کے بارے میں پھیلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر چیز اللہ کی مخلوق اور مملوک ہے، اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے، اس کے لئے جائز ہے۔ لیکن انسانوں کےلئے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ قسم میں، جس کی قسم کھائی جاتی ہے، اسے گواہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اور گواہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بن سکتا، کہ عالم الغیب صرف وہی ہے، اس کےسوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ الصافات
5 1- مطلب ہے مشارق ومغارب کا رب۔ جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیاہے جیسا کہ، بعض کہتے ہیں کہ سال کے دنوں کی تعداد کے برابر مشرق ومغرب ہیں۔ سورج ہر روز ایک مشرق سے نکلتا اور ایک مغرب میں غروب ہوتا ہے اور سورۂ رحمٰن میں مَشْرِقَيْنِ اور مَغْرِبَيْنِ، تثنیہ کے ساتھ ہیں یعنی دو مشرق اور دو مغرب۔ اس سے مراد وہ مشرقین اور مغربین ہیں جن سے سورج گرمی اور سردی میں طلوع وغروب ہوتا ہے یعنی ایک انتہائی آخری مشرق ومغرب اور دوسرا مختصر یا قریب ترین مشرق ومغرب اور جہاں مشرق ومغرب کو مفرد ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد وہ جہت ہے جس سے سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)۔ الصافات
6 الصافات
7 1- یعنی آسمان دنیا پر، زینت کے علاوہ، ستاروں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سرکش شیاطین سے حفاظت ہو۔ چنانچہ شیطان آسمان پرکوئی بات سننے کے لئے جاتے ہیں تو ستارے ان پر ٹوٹ کر گرتے ہیں جس سے بالعموم شیطان جل جاتے ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات اور احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ستاروں کا ایک تیسرا مقصد رات کی تاریکیوں میں رہنمائی بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر بیان فرمایا گیا ہے۔ ان مقاصد سہ گانہ کے علاوہ ستاروں کا اور کوئی مقصد بیان نہیں کیا گیا ہے۔ الصافات
8 الصافات
9 الصافات
10 الصافات
11 1- یعنی ہم نےجو زمین، ملائکہ اور آسمان جیسی چیزیں بنائی ہیں جو اپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے نہایت انوکھی ہیں۔ کیا ان لوگوں کی پیدائش اور دوبارہ ان کو زندہ کرنا، ان چیزوں کی تخلیق سےزیادہ سخت اور مشکل ہے؟ یقیناً نہیں۔ 2- یعنی ان کے باپ آدم (عليہ السلام) کو تو ہم نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ انسان آخرت کی زندگی کو اتنا مستبعد کیوں سمجھتے ہیں درآں حالیکہ ان کی پیدائش ایک نہایت ہی حقیر اور کمزور چیز سے ہوئی ہے۔ جب کہ خلقت میں ان سے زیادہ قوی، عظیم اور کامل واتم چیزوں کی پیدائش کا ان کو انکار نہیں۔ (فتح القدیر)۔ الصافات
12 1- یعنی آپ کو تو منکرین آخرت کے انکار پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس کے امکان بلکہ وجوب کےاتنے واضح دلائل کے باوجود وہ اسے مان کر نہیں دے رہے اور وہ آپ کے دعوائے قیامت کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہے؟ الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 1- یعنی یہ ان کا شیوہ ہے کہ نصیحت قبول نہیں کرتے اور کوئی واضح دلیل یا معجزہ پیش کیا جائے تو استہزا کرتے اور انہیں جادو باور کراتے ہیں۔ الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 1- جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا ﴿وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ﴾ (النمل: 87) ”سب اس کی بارگاہ میں ذلیل ہو کر آئیں گے“۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ (المؤمن: 60) ”جو لوگ میری عبادت سے انکار کرتے ہیں، عنقریب وہ جہنم میں ذلیل وخوار ہو کر داخل ہوں گے“۔ الصافات
19 1- یعنی وہ اللہ کے ایک ہی حکم اور اسرافیل (عليہ السلام) کی ایک ہی پھونک (نفخۂ ثانیہ) سے قبروں سے زندہ ہو کر نکل کھڑے ہوں گے۔ 2- یعنی ان کے سامنے قیامت کے ہولناک مناظر اور میدان حشر کی سختیاں ہوں گی جنہیں وہ دیکھیں گے۔ نفخے یا چیخ کو زجرہ (ڈانٹ) سے تعبیر کیا، کیونکہ اس سے مقصود ڈانٹ ہی ہے۔ الصافات
20 الصافات
21 1- وَيْلٌ کا لفظ ہلاکت کے موقع پر بولا جاتا ہے، یعنی معاینۂ عذاب کے بعد انہیں اپنی ہلاکت صاف نظر آرہی ہوگی اور اس سے مقصود ندامت کا اظہار اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف ہے لیکن اس وقت ندامت اور اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی لئے ان کےجواب میں فرشتے اور اہل ایمان کہیں گے کہ یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم مانتے نہیں تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو کہیں گے۔ الصافات
22 1- یعنی جنہوں نے کفر وشرک اور معاصی کا ارتکاب کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگا۔ 2- اس سے مراد کفر وشرک اور تکذیب رسل کے ساتھی یا بعض کےنزدیک جنات وشیاطین ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ بیویاں ہیں جو کفر وشرک میں ان کی ہمنوا تھیں۔ 3- مَا، عام ہے، تمام معبودین کو چاہے، وہ مورتیاں ہوں یا اللہ کے نیک بندے، سب کو ان کی تذلیل کے لئے جمع کیا جائے گا۔ تاہم نیک لوگوں کو تو اللہ جہنم سے دور ہی رکھے گا، اور دوسرے معبودوں کو ان کے ساتھ ہی جہنم میں ڈال دیا جائے گا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ یہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔ الصافات
23 الصافات
24 1- یہ حکم جہنم میں لے جانے سے قبل ہوگا، کیونکہ حساب کے بعد ہی وہ جہنم میں جائیں گے۔ الصافات
25 الصافات
26 الصافات
27 الصافات
28 1- اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور حق کے نام سے آتے تھے یعنی باور کراتے تھے کہ یہی اصل دین اور حق ہے۔ اور بعض کے نزدیک مطلب ہے، ہر طرف سے آتے تھے، وَالشِّمَالِ محذوف ہے۔ جس طرح شیطان نے کہا تھا ”میں ان کے آگے، پیچھے سے، ان کے دائیں بائیں سے ہر طرف سے ان کے پاس آؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا“۔ (الأعراف: 17)۔ الصافات
29 1- لیڈر کہیں گے کہ ایمان تم اپنی مرضی سے نہیں لائے اور آج ذمے دار ہمیں ٹھہرا رہے ہو؟ الصافات
30 1- تابعین اور متبوعین کی یہ باہمی تکرار قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کی گئی ہے۔ ان کی ایک دوسرے کو یہ ملامت عرصۂ قیامت (میدان محشر) میں بھی ہوگی اور جہنم میں جانے کے بعد جہنم کے اندر بھی۔ ملاحظہ ہو۔ المؤمن: 48-47، سبا: 32-31، الاحزاب:68-67 ، الاعراف:39- 38 وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔ الصافات
31 الصافات
32 1- یعنی جس بات کی پہلے، انہوں نے نفی کی، کہ ہمارا تم پر کون سا زور تھا کہ تمہیں گمراہ کرتے۔ اب اس کا یہاں اعتراف ہے کہ ہاں واقعی ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا۔ لیکن یہ اعتراف اس تنبیہ کے ساتھ کیا کہ ہمیں اس ضمن میں مورد طعن مت بناؤ، اس لئے کہ ہم خود بھی گمراہ ہی تھے، ہم نے تمہیں بھی اپنے جیسا ہی بنانا چاہا اور تم نے آسانی سے ہماری راہ اپنالی۔ جس طرح شیطان بھی اس روز کہے گا۔ ﴿وَمَا كَانَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ﴾ (ابراہيم: 22)۔ الصافات
33 1- اس لئے کہ ان کا جرم بھی مشترکہ ہے، شرک، معصیت اور شر وفساد ان سب کا وطیرہ تھا۔ الصافات
34 1- یعنی ہر قسم کے گناہ گاروں کے ساتھ ہمارا یہی معاملہ ہے اور اب وہ سب ہمارا عذاب بھگتیں گے۔ الصافات
35 1- یعنی دنیا میں، جب ان سے کہا جاتا تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے یہ کلمہ پڑھ کر شرک ومعصیت سے توبہ کر لی ہے، تم بھی یہ پڑھ لو، تاکہ تم دنیا میں بھی مسلمان کے قہر وغضب سےبچ جاؤ اور آخرت میں بھی عذاب الٰہی سے تمہیں دوچار ہونا نہ پڑے، تو وہ تکبر کرتے اور انکار کرتے۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے۔ [ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا : لا إِلَه إِلا اللهُ ، فَمَنْ قَالَ (لا إِلَه إِلا اللهُ) فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ ] (متفق عليه ، مشكاة، كتاب الإيمان بحوالہ ابن كثير) ”مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں۔ جس نے یہ اقرار کر لیا، اس نے اپنی جان اور مال کی حفاظت کر لی“۔ الصافات
36 1- یعنی انہوں نے نبی کریم (ﷺ) کو شاعر اور مجنون کہا اور آپ کی دعوت کو جنون (دیوانگی) اور قرآن کو شعر سے تعبیر کیا اور کہا کہ ایک دیوانے کی دیوانگی پر ہم اپنے معبودوں کو کیوں چھوڑ دیں؟ حالانکہ یہ دیوانگی نہیں، فرزانگی تھی، شاعری نہیں، حقیقت تھی اور اس دعوت کے اپنانے میں ان کی ہلاکت نہیں، نجات تھی۔ الصافات
37 1- یعنی تم ہمارے پیغمبر کو شاعر اور مجنون کہتے ہو، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ لایا اور پیش کر رہا ہے، وہ سچ ہے اور وہی چیز ہے جو اس سے قبل تمام انبیا بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ کام کسی دیوانے کا یا کسی شاعر کے تخیلات کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ الصافات
38 الصافات
39 1- یہ جہنمیوں کو اس وقت کہا جائے گا جب وہ کھڑے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے اور ساتھ ہی وضاحت کر دی جائے گی کہ یہ ظلم نہیں ہے بلکہ عین عدل ہے کیونکہ یہ سب تمہارے اپنے عملوں کا بدلہ ہے۔ الصافات
40 1- یعنی یہ عذاب سے محفوظ ہوں گے، ان کی کوتاہیوں سے بھی درگزر کر دیا جائے گا، اگر کچھ ہوں گی اور ایک ایک نیکی کا اجر انہیں کئی کئی گنا دیا جائے گا۔ الصافات
41 الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 1- كَأْسٌ ، شراب کے بھرے ہوئے جام کو اور قدح خالی جام کو کہتے ہیں۔ مَعِينٍ کےمعنی ہیں۔ جاری چشمہ۔ مطلب یہ ہے کہ جاری چشمے کی طرح، جنت میں شراب ہر وقت میسر رہے گی۔ الصافات
46 1- دنیا میں شراب عام طور پر بد رنگ ہوتی ہے، جنت میں وہ جس طرح لذیذ ہوگی خوش رنگ بھی ہوگی۔ الصافات
47 1- یعنی دنیا کی شراب کی طرح اس میں قے، سر درد، بدمستی اور بہکنے کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ الصافات
48 1- بڑی اور موٹی آنکھیں حسن کی علامت ہے یعنی حسین آنکھیں ہوں گی۔ الصافات
49 1- یعنی شتر مرغ اپنے پروں کے نیچے چھپائے ہوئے ہوں، جس کی وجہ سے وہ ہوا اور گرد وغبار سے محفوظ ہوں گے۔ کہتے ہیں شتر مرغ کے انڈے بہت خوش رنگ ہوتے ہیں، جو زردی مائل سفید ہوتے ہیں اور ایسا رنگ حسن وجمال کی دنیا میں سب سے عمدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ تشبیہ، صرف سفیدی میں نہیں ہے بلکہ خوش رنگی اور حسن ورعنائی میں ہے۔ الصافات
50 1- جنتی، جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے، دنیا کے واقعات یاد کریں گے اور ایک دوسرے کو سنائیں گے۔ الصافات
51 الصافات
52 1- یعنی یہ بات وہ استہزا اور مذاق کے طور پر کہا کرتا تھا، مقصد اس کا یہ تھا کہ یہ تو ناممکن ہے کیا ایسی ناممکن الوقوع بات پر تو یقین رکھتا ہے؟ الصافات
53 1- یعنی ہمیں زندہ کرکے ہمارا حساب لیا جائے گا اور پھر اس کے مطابق جزا دی جائے گی؟ الصافات
54 1- یعنی وہ جنتی، اپنے جنت کے ساتھیوں سے کہے گا کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ ذرا جہنم میں جھانک کر دیکھیں، شاید مجھے یہ باتیں کہنے والا وہاں نظر آجائے تو تمہیں بتلاؤں کہ یہ شخص تھا جو یہ باتیں کرتا تھا۔ الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 1- یعنی جھانکنے پر اسے جہنم کے وسط میں وہ شخص نظر آجائے گا اور اسے یہ جنتی کہے گا کہ مجھے بھی تو گمراہ کرکے ہلاکت میں ڈالنے لگا تھا، یہ تو مجھ پر اللہ کا احسان ہوا، ورنہ آج میں بھی تیرے ساتھ جہنم میں ہوتا۔ الصافات
58 1- جہنمیوں کاحشر دیکھ کر جنتی کے دل میں رشک کا جذبہ مزید بیدار ہو جائے گا اور کہے گا کہ ہمیں جو جنت کی زندگی اور اس کی نعمتیں ملی ہیں، کیا یہ دائمی نہیں؟ اور اب ہمیں موت آنے والی نہیں ہے؟ یہ استفہام تقریری ہے یعنی اب یہ زندگیاں دائمی ہیں، جنتی ہمیشہ جنت میں اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، نہ انہیں موت آئے گی کہ جہنم کے عذاب سے چھوٹ جائیں اور نہ ہمیں، کہ جنت کی نعمتوں سے محروم ہو جائیں، جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں جنت اور دوزخ کے درمیان لا کر ذبح کر دیاجائے گا کہ اب کسی کوموت نہیں آئے گی۔ الصافات
59 1- جو دنیا میں آچکی۔ اب ہمارے لئے موت ہے نہ عذاب۔ الصافات
60 1- اس لئے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کی نعمتوں کا مستحق قرار پا جانے سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی؟ الصافات
61 1- یعنی اس جیسی نعمت اور اس جیسے فضل عظیم ہی کے لئے محنت کرنے والوں کو محنت کرنی چاہئے، اس لئے کہ یہی سب سے نفع بخش تجارت ہے۔ نہ کہ دنیا کے لئے جو عارضی ہے۔ اور خسارے کا سودا ہے۔ الصافات
62 1- زَقُّومٌ، تَزَقُّمٌ سے مشتق ہے، جس کےمعنی بدبودار اور کریہ چیز کے نگلنے کے ہیں۔ اس درخت کا پھل بھی کھانا اہل جہنم کے لئےسخت ناگوار ہوگا۔ کیوں کہ یہ سخت بدبو دار، کڑوا اور نہایت کریہ ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ دنیا کے درختوں میں سے ہے اور عربوں میں متعارف ہے، یہ قطرب درخت ہے جو تہامہ میں پایا جاتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ کوئی دنیاوی درخت نہیں ہے، اہل دنیا کے لئے یہ غیر معروف ہے۔ (فتح القدیر) لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اور یہ وہی درخت ہے جسے اردو میں سینڈھ یا تھوہر کہتے ہیں۔ الصافات
63 1- آزمائش، اس لئے کہ اس کا پھل کھانا بجائے خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ بعض نے اسے اس اعتبار سے آزمائش کہا کہ اس کے وجود کا انہوں نے انکار کیا کہ جہنم میں جب ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی تو وہاں درخت کس طرح موجود رہ سکتا ہے؟ یہاں ظالمین سے مراد وہ اہل جہنم ہیں جن پر جہنم واجب ہوگی۔ الصافات
64 1- یعنی اس کی جڑ جہنم کی گہرائی میں ہوگی البتہ اس کی شاخیں ہر طرف پھیلی ہوئی ہوں گی۔ الصافات
65 1- اسے شناعت وقباحت میں شیطانوں کےسروں سے تشبیہ دی، جس طرح اچھی چیز کے بارے میں کہتے ہیں گویا کہ وہ فرشتہ ہے۔ الصافات
66 1- یہ انہیں نہایت کراہت سے کھانا پڑے گا جس سے ظاہر بات ہے پیٹ بوجھل ہی ہوں گے۔ الصافات
67 1- یعنی کھانے کے بعد انہیں پانی کی طلب ہوگی تو کھولتا ہوا گرم پانی انہیں دیا جائے گا،جس کے پینے سے ان کی انتڑیاں کٹ جائیں گی۔ (سورۂ محمد: 15)۔ الصافات
68 1- یعنی زقوم کےکھانے اور گرم پانی کے پینے کے بعد انہیں دوبارہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ الصافات
69 الصافات
70 1- یہ جہنم کی مذکورہ سزاوں کی علت ہے کہ اپنے باپ دادوں کو گمراہی پر پانے کے باوجود یہ انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور دلیل وحجت کے مقابلے میں تقلید کو اپنائے رکھا، إِهْرَاعٌ إِسْرَاعٌ کے معنی میں ہے یعنی دوڑنا اور نہایت شوق سے اور لپک کر پکڑنا اور اختیار کرنا۔ الصافات
71 1- یعنی یہی گمراہ نہیں ہوئے۔ ان سے پہلے لوگ بھی اکثر گمراہی ہی کےراستے پر چلنے والے تھے۔ الصافات
72 1- یعنی ان سے پہلے لوگوں میں۔ انہوں نے حق کا پیغام پہنچایا اور عدم قبول کی صورت میں انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا نتیجتاً انہیں تباہ کر دیا گیا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔ الصافات
73 الصافات
74 1- یعنی عبرت ناک انجام سے صرف وہ محفوظ رہے جن کو اللہ نے ایمان وتوحید کی توفیق سے نواز کر بچا لیا۔ مُخْلِصِينَ، وہ لوگ جو عذاب سے بچے رہے، مُنْذَرِينَ (تباہ ہونے والی قوموں) کے اجمالی ذکر کے بعد اب چند مُنْذِرِينَ (پیغمبروں) کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ الصافات
75 1- یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کی تکذیب ہی کی اور انہوں نے محسوس کر لیا کہ ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے تو اپنے رب کو پکارا ﴿فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ﴾ (سورة القمر: 10) ”یا اللہ میں مغلوب ہوں، میری مدد فرما“۔ چنانچہ ہم نے نوح (عليہ السلام) کی دعا قبول کی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کر دیا۔ الصافات
76 1- أَهْلٌ سے مراد، حضرت نوح (عليہ السلام) پر ایمان لانے والے ہیں، جن میں ان کے گھر کے افراد بھی ہیں جو مومن تھے۔ بعض مفسرین نے ان کی کل تعداد 8۔ بتلائی ہے۔ اس میں آپ کی بیوی اور ایک لڑکا شامل نہیں، جو مومن نہیں تھے، وہ بھی طوفان میں غرق ہو گئے۔ کرب عظیم (زبردست مصیبت) سے مراد وہی سیلاب عظیم ہے جس میں یہ قوم غرق ہوئی۔ الصافات
77 1- اکثر مفسرین کے قول کے مطابق حضرت نوح (عليہ السلام) کے تین بیٹے تھے۔ حام، سام، یافث۔ انہی سے بعد کی نسل انسانی چلی۔ اسی لئے حضرت نوح (عليہ السلام) کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے یعنی آدم (عليہ السلام) کی طرح، آدم (عليہ السلام) کے بعد یہ دوسرے ابوالبشر ہیں۔ سام کی نسل سے عرب، فارس، روم اور یہود ونصاریٰ ہیں۔ حام کی نسل سےسوڈان (مشرق سے مغرب تک) یعنی سندھ، ہند، نوب، زنج، حبشہ قبط اور بربر وغیرہم ہیں اور یافث کی نسل سے صقالبہ، ترک، خزر اور یاجوج ماجوج وغیرہم ہیں۔ (فتح القدیر) وَاللهُ أَعْلَمُ۔ الصافات
78 1- یعنی قیامت تک آنے والے اہل ایمان میں ہم نے نوح (عليہ السلام) کا ذکر خیر باقی چھوڑ دیا ہے اور وہ سب نوح (عليہ السلام) پر سلام بھیجتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے۔ الصافات
79 الصافات
80 1- یعنی جس طرح نوح (عليہ السلام) کی دعا قبول کرکے، ان کی ذریت کو باقی رکھ اور پچھلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھ کے ہم نے نوح (عليہ السلام) کو عزت وتکریم بخشی۔ اسی طرح جو بھی اپنے اقوال وافعال میں محسن اور اس باب میں راسخ اور معروف ہوگا، اس کے ساتھ بھی ہم ایسا معاملہ کریں گے۔ الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 1- شِيعَةٌ کے معنی گروہ اور پیروکار کے ہیں۔ یعنی ابراہیم (عليہ السلام) بھی اہل دین واہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح (عليہ السلام) ہی کی طرح انابت الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی۔ الصافات
84 الصافات
85 الصافات
86 1- یعنی اپنی طرف سے ہی جھوٹ گھڑ کے کہ یہ معبود ہیں، تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو، دراں حالیکہ یہ پتھر اور مورتیاں ہیں۔ الصافات
87 1- یعنی اتنی قبیح حرکت کرنے کے باوجود کیا وہ تم پر ناراض نہیں ہوگا اور تمہیں سزا نہیں دے گا۔ الصافات
88 الصافات
89 1- آسمان پر غور وفکر کے لئے دیکھا جیسا کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یا اپنی قوم کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں موثر مانتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب ان کی قوم کا وہ دن آیا، جسے وہ باہر جا کر بطور عید اور قومی تہوار منایا کرتی تھی۔ قوم نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ لیکن ابراہیم (عليہ السلام) تنہائی اور موقعے کی تلاش میں تھے، تاکہ ان کے بتوں کا تیاپانچہ کیا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ کل ساری قوم باہر میلے میں چلی جائے گی تو میں اپنا منصوبہ بروئے کار لے آؤں گا۔ اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں یا آسمانوں کی گردش بتلاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ یہ بات بالکل جھوٹی تو نہیں تھی، ہر انسان کچھ نہ کچھ بیمار ہوتا ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے دل کا ایک مستقل روگ تھا، جسے دیکھ کر وہ کڑھتے رہتے تھے۔ یوں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے تعریض اور توریے کا اظہار فرمایا جو اگرچہ جھوٹ نہیں ہوتا لیکن مخاطب اس کے متبادر مفہوم سے مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے حدیث ثلاث کذبات میں اسے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل سورۂ انبیاء: 63 میں گزر چکی ہے۔ الصافات
90 الصافات
91 1- یعنی جو حلویات بطور تبرک وہاں پڑی ہوئی تھیں، وہ انہیں کھانے کے لئے پیش کیں، جو ظاہر بات ہے انہیں نہ کھانی تھیں نہ کھائیں بلکہ وہ جواب دینے پر بھی قادر نہ تھے، اس لئے جواب بھی نہیں دیا۔ الصافات
92 الصافات
93 1- رَاغَ کے معنی ہیں، مَالَ، ذَهَبَ، أَقْبَلَ، یہ سب متقارب المعنی ہیں، ان کی طرف متوجہ ہوئے ضَرْبٌ بِالْيَمِينِ کا مطلب ہے ان کو زور سے مار مار کر توڑ ڈالنا۔ الصافات
94 1- يَزِفُّونَ، يُسْرِعُونَ، یسرعون کے معنی میں ہے، دوڑتے ہوئے آئے۔ یعنی جب میلے سے آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں تو فوراً ان کا ذہن ابراہیم (عليہ السلام) کی طرف گیا، کہ یہ کام اسی نے کیا ہوگا،جیسا کہ سورۂ انبیاء میں تفصیل گزر چکی ہے چنانچہ انہیں پکڑ کر عوام کی عدالت میں لے آئے۔ وہاں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ ان پر ان کی بے عقلی اور ان کے معبودوں کی بے اختیاری واضح کریں۔ الصافات
95 الصافات
96 1- یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ الصافات
97 الصافات
98 1- یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکرو حیلے کو ناکام بنا دیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔ الصافات
99 1- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا یہ واقعہ بابل (عراق) میں پیش آیا، بالآخر یہاں سے ہجرت کی اور شام چلے گئے اور وہاں جاکر اولاد کے لئےدعا کی۔(فتح القدیر)۔ الصافات
100 الصافات
101 1- حَلِيمٍ کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ بچہ بڑا ہو کر بردبار ہوگا۔ الصافات
102 1- یعنی دوڑ دھوپ کےلائق ہوگیا یا بلوغت کے قریب پہنچ گیا، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بچہ 13 سال کا تھا۔ 2- پیغمبر کا خواب، وحی اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امتثال امر الہٰی کے لئے کس حد تک تیار ہے۔ الصافات
103 1- ہر انسان کے منہ (چہرے) پر دو جبینیں (دائیں اور بائیں) ہوتی ہیں اور درمیان میں پیشانی (جَبْهَةٌ) اس لئے لِلْجَبِينِ کا زیادہ صحیح ترجمہ (کروٹ پر) ہے یعنی اس طرح کروٹ پر لٹا لیا، جس طرح جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ پر لٹایا جاتا ہے۔ (پیشانی یا منہ کے بل لٹانے کاﹿ ترجمہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ مشہور ہے حضرت اسماعیل (عليہ السلام) نے وصیت کی کہ انہیں اس طرح لٹایا جائے کہ چہرہ سامنے نہ رہے جس سے پیار وشفقت کا جذبہ امر الہٰی پر غالب آنےکا امکان نہ رہے۔ الصافات
104 الصافات
105 1- یعنی دل کے پورے ارادے سے بچے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹا دینے سے ہی تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے، کیونکہ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تجھے کوئی چیز بھی عزیز تر نہیں ہے، حتیٰ کہ اکلوتا بیٹا بھی۔ الصافات
106 1- یعنی لاڈلے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم، یہ ایک بڑی آزمائش تھی جس میں تو سرخرو رہا۔ الصافات
107 1- یہ بڑا ذبیحہ ایک مینڈھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کے ذریعے سے بھیجا۔ (ابن کثیر) اسماعیل (عليہ السلام) کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر اس سنت ابراہمی کو قیامت تک قرب الہٰی کے حصول کے لئے ایک ذریعہ اور عیدالاضحیٰ کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا۔ الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 1- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے مذکورہ واقعے کے بعد اب ایک بیٹے اسحاق (عليہ السلام) کی اور اس کے نبی ہونے کی خوش خبری دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ اسماعیل (عليہ السلام) تھے۔ جو اس وقت ابراہیم (عليہ السلام) کے اکلوتے بیٹے تھے، اسحاق (عليہ السلام) کی ولادت ان کے بعد ہوئی ہے۔ مفسرین کے درمیان اس کی بابت اختلاف ہے کہ ذبیح کون ہے، اسماعیل (عليہ السلام) یا اسحاق (عليہ السلام) ؟ امام ابن جریر نے حضرت اسحاق (عليہ السلام) کو اور ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کو ذبیح قرار دیا ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ امام شوکانی نے اس میں توقف اختیار کیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر فتح القدیر اور تفسیر ابن کثیر)۔ الصافات
113 1- یعنی ان دونوں کی اولاد کو بہت پھیلایا اور انبیا ورسل کی زیادہ تعداد انہی کی نسل سے ہوئی۔ حضرت اسحاق (عليہ السلام) کے بیٹے یعقوب (عليہ السلام) ہوئے، جن کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے 12 قبیلے بنے اور ان سے بنی اسرائیل کی قوم بڑھی اور پھیلی اور اکثر انبیا ان ہی میں سے ہوئے۔ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے دوسرے بیٹے اسماعیل (عليہ السلام) سے عربوں کی نسل چلی اور ان میں آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) ہوئے۔ 2- شرک ومعصیت اور ظلم وفساد کا ارتکاب کرکے۔ خاندان ابراہیمی میں برکت کے باوجود نیک وبد کے ذکر سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ خاندان اور آبا کی نسبت، اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہاں تو ایمان اور عمل صالح کی اہمیت ہے۔ یہود ونصاریٰ اگرچہ حضرت اسحاق (عليہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ اسی طرح مشرکین عرب حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ لیکن ان کے جو اعمال ہیں وہ کھلی گمراہی یا شرک ومعصیت پر مبنی ہیں۔ اس لئے یہ اونچی نسبتیں ان کے لئے عمل کا بدل نہیں ہو سکتیں۔ الصافات
114 1- یعنی انہیں نبوت ورسالت اور دیگر انعامات سے نوازا۔ الصافات
115 1- یعنی فرعون کی غلامی اور اس کے ظلم واستبداد سے۔ الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 1- یہ حضرت ہارون (عليہ السلام) کی اولاد میں سے ایک اسرائیلی نبی تھے۔ یہ جس علاقے میں بھیجے گئے تھے اس کا نام بعلبک تھا، بعض کہتے ہیں اس جگہ کا نام سامرہ ہے جوفلسطین کا مغربی وسطی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ بعل نامی بت کے پجاری تھے۔ (بعض کہتے ہیں یہ دیوی کا نام تھا)۔ الصافات
124 1- یعنی اس کے عذاب اور گرفت سے، کہ اسے چھوڑ کر تم غیراللہ کی عبادت کرتے ہو۔ الصافات
125 الصافات
126 1- یعنی اس کی عبادت وپرستش کرتے ہو، اس کے نام کی نذر نیاز دیتے اور اس کو حاجت روا سمجھتے ہو، جو پتھر کی مورتی ہے اور جو ہر چیز کا خالق اور اگلوں پچھلوں سب کا رب ہے، اس کو تم نے فراموش کر رکھا ہے۔ الصافات
127 1- یعنی توحید وایمان سے انکار کی پاداش میں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔ الصافات
128 الصافات
129 الصافات
130 1- الیاسین، الیاس (عليہ السلام) ہی کا ایک تلفظ ہے، جیسے طور سینا کو طور سینین بھی کہتے ہیں۔ حضرت الیاس (عليہ السلام) کو دوسری کتابوں میں (ایلیا) بھی کہا گیا ہے۔ الصافات
131 الصافات
132 1- قرآن نے نبیوں اور رسولوں کا ذکر کرکے، ان کے لئے اکثر جگہ پر الفاظ استعمال کیے ہیں کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سےتھا۔ جس سےدو مقصد ہیں۔ ایک ان کے اخلاق وکردار کی رفعت کا اظہار جو ایمان کا لازمی جز ہے۔ تاکہ ان لوگوں کی تردید ہو جائے جو بہت سے پیغمبروں کے بارے میں اخلاقی کمزوریوں کا اثبات کرتے ہیں، جیسے تورات وانجیل کے موجودہ نسخوں میں متعدد پیغمبروں کے بارے میں ایسے من گھڑت قصے کہانیاں درج ہیں۔ دوسرا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو بعض انبیا کی شان میں غلو کرکے ان کے اندر الہی صفات واختیارات ثابت کرتے ہیں۔ یعنی وہ پیغمبر ضرور تھے لیکن تھے بہرحال اللہ کے بندے اور اس کے غلام نہ کہ الٰہ یا اس کے جز یا اس کے شریک۔ الصافات
133 الصافات
134 الصافات
135 1- اس سے مراد حضرت لوط (عليہ السلام) کی بیوی ہے جو کافرہ تھی، یہ اہل ایمان کے ساتھ بستی سے باہر نہیں گئی تھی، کیونکہ اسےاپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہونا تھا، چنانچہ وہ بھی ہلاک کر دی گئی۔ الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 1- یہ اہل مکہ سے خطاب ہے جو تجارتی سفر میں ان تباہ شدہ علاقوں سے آتے جاتے، گزرتے تھے۔ ان کو کہا جا رہا ہے کہ تم صبح کے وقت بھی اور رات کے وقت بھی ان بستیوں سےگزرتے ہو، جہاں اب مردار بحیرہ ہے، جو دیکھنے میں بھی نہایت کریہ ہے اور سخت متعفن اور بدبو دار۔ کیا تم انہیں دیکھ کر یہ بات نہیں سمجھتے کہ تکذیب رسل کی وجہ سے ان کا یہ بدانجام ہوا، تو تمہاری اس روش کا انجام بھی اس سے مختلف کیوں کر ہوگا؟ جب تم بھی وہی کام کر رہے ہو، جو انہوں نے کیا تو پھر اللہ کے عذاب سے کیوں کر محفوظ رہو گے؟ الصافات
139 الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 1- حضرت یونس (عليہ السلام) عراق کے علاقے نینوی (موجودہ موصل) میں نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، یہ آشوریوں کا پایۂ تخت تھا، انہوں نے ایک لاکھ بنو اسرائیلیوں کو قیدی بنایا ہوا تھا، چنانچہ ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت یونس (عليہ السلام) کو بھیجا، لیکن یہ قوم آپ پر ایمان نہیں لائی۔ بالآخر اپنی قوم کو ڈرایا کہ عنقریب تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔ عذاب میں تاخیر ہوئی تو اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنے طور پر وہاں سے نکل گئے اور سمندر پر جا کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ اپنے علاقے سے نکل کر جانے کو ایسے لفظ سے تعبیر کیا جس طرح ایک غلام اپنے آقا سے بھاگ کر چلا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کشتی سواروں اور سامانوں سے بھری ہوئی تھی۔ کشتی سمندر کی موجوں میں گھر گئی اور کھڑی ہوگئی۔ چنانچہ اس کا وزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کو کشتی سے سمندر میں پھینکنے کی تجویزسامنے آئی تاکہ کشتی میں سوار دیگر انسانوں کی جانیں بچ جائیں۔ لیکن یہ قربانی دینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ اس لئے قرعہ اندازی کرنی پڑی، جس میں حضرت یونس (عليہ السلام) کا نام آیا۔ اور وہ مغلوبین میں سے ہو گئے، یعنی طوعاً وکرھاً اپنے کو بھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندر کی موجوں کے سپرد کرنا پڑا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ثابت نگل لے اور یوں حضرت یونس (عليہ السلام) اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔ الصافات
143 الصافات
144 1- یعنی توبہ واستغفار اور اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے، جیسا کہ انہوں نے ﴿لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾ (الأنبياء: 87) کہا تو قیامت تک وہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ الصافات
145 1- جیسے ولادت کے وقت بچہ یا جانور کا چوزہ ہوتا ہے، مضمحل، کمزور اور ناتواں۔ الصافات
146 1- يَقْطِين ہر اس بیل کو کہتے ہیں جو اپنے تنے پر کھڑی نہیں ہوتی، جیسے لوکی، کدو وغیرہ کی بیل۔ یعنی اس چٹیل میدان میں جہاں کوئی درخت تھا نہ عمارت۔ ایک سایہ دار بیل اگا کر ہم نے ان کی حفاظت فرمائی۔ الصافات
147 الصافات
148 1- ان کے ایمان لانے کی کیفیت کا بیان سورۂ یونس 98 میں گزر چکا ہے۔ الصافات
149 الصافات
150 1- یعنی فرشتوں کو جویہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں تو کیا جب ہم نےفرشتے پیدا کیے تھے، یہ اس وقت وہاں موجود تھے اور انہوں نے فرشتوں کے اندر عورتوں والی خصوصیات کا مشاہدہ کیا تھا۔ الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 1- جب کہ یہ خود اپنے لئے بیٹیاں نہیں، بیٹے پسند کرتے ہیں۔ الصافات
154 الصافات
155 1- کہ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو ذکور ہوتی، جس کو تم بھی پسند کرتے اور بہتر سمجھتے ہو، نہ کہ بیٹیاں، جو تمہاری نظروں میں کمتر اور حقیر ہیں۔ الصافات
156 الصافات
157 1- یعنی عقل تو اس عقیدے کی صحت کو تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ کی اولاد ہے اور وہ بھی مونث، چلو کوئی نقلی دلیل ہی دکھا دو، کوئی کتاب جو اللہ نے اتاری ہو، اس میں اللہ کی اولاد کا اعتراف یا حوالہ ہو؟ الصافات
158 1- یہ اشارہ ہے مشرکین کے اس عقیدے کی طرف کہ اللہ نےجنات کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کیا، جس سے لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی بنات اللہ، فرشتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان قرابت داری (سسرالی رشتہ) قائم ہوگیا۔ 2- حالانکہ یہ بات کیوں کر صحیح ہو سکتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنات کو عذاب میں کیوں ڈالتا؟ کیا وہ اپنی قرابت داری کا لحاظ نہ کرتا؟ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ خود جنات بھی جانتے ہیں کہ انہیں عقاب وعذاب الٰہی بھگتنے کے لئے ضرور جہنم میں جانا ہوگا، تو پھر اللہ اور جنوں کے درمیان قرابت داری کس طرح ہو سکتی ہے؟ الصافات
159 الصافات
160 1- یعنی یہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کہتے جن سے وہ پاک ہے۔ یہ مشرکین ہی کا شیوہ ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں جنات اور مشرکین ہی حاضر کیے جائیں گے، اللہ کے مخلص (چنے ہوئے) بندے نہیں۔ ان کے لئے تو اللہ نےجنت تیار کر رکھی ہے۔ اس صورت میں یہ لَمُحْضَرُون سے استثنا ہے اور تسبیح جملہ معترضہ ہے۔ الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 1- یعنی تم اور تمہارے معبودان باطلہ کسی کو گمراہ کرنے پر قادر نہیں ہیں، سوائے ان کے جو اللہ کے علم میں پہلے ہی جہنمی ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ کفر وشرک پر مصر ہیں۔ الصافات
164 1- یعنی اللہ کی عبادت کے لئے۔ یہ فرشتوں کا قول ہے۔ الصافات
165 الصافات
166 1- مطلب یہ ہے کہ فرشتے بھی اللہ کی مخلوق اور اس کے خاص بندے ہیں جو ہر وقت اللہ کی عبادت میں اور اس کی تسبیح وتقدیس میں مصروف رہتے ہیں، نہ کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں۔ الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 1- ذکر سے مراد کوئی کتاب الٰہی یا پیغمبر ہے۔ یعنی یہ کفار نزول قرآن سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب ہوتی، جس طرح پہلے لوگوں پر تورات وغیرہ نازل ہوئیں۔ یا کوئی ہادی اور منذر ہمیں وعظ ونصیحت کرنے والا ہوتا، تو ہم بھی اللہ کے خالص بندے بن جاتے۔ الصافات
170 1- یعنی ان کی آرزو کے مطابق جب رسول اللہ (ﷺ) ہادی بن کر آگئے، قرآن مجید بھی نازل کر دیا گیا تو ان پر ایمان لانے کے بجائے، ان کا انکار کر دیا۔ 2- یہ تہدید و وعید ہے کہ اس تکذیب کا انجام عنقریب ان کو معلوم ہو جائے گا۔ الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 1- جیسے دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي﴾ (المجادلہ: 21)۔ الصافات
174 1- یعنی ان کی باتوں اور ایذاؤں پر صبر کیجئے۔ الصافات
175 1- کہ کب ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے؟ الصافات
176 الصافات
177 1- مسلمان جب خیبر پر حملہ کرنے گئے، تو یہودی انہیں دیکھ کر گھبرا گئے، جس پر نبی (ﷺ) نے بھی اللہ اکبر کہہ کر فرمایا تھا [ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحِةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ] (صحيح بخاري ، كتاب الصلاة، باب ما يذكر في الفخذ، مسلم ، كتاب الجهاد باب غزوة خيبر الصافات
178 الصافات
179 1- یہ بطور تاکید دوبارہ فرمایا۔ یا پہلے جملے سے مراد دنیا کا وہ عذاب ہے جو اہل مکہ پر بدر واحد اور دیگر جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کے قتل وسلب کی صورت میں آیا۔ اور دوسرے جملے میں اس عذاب کا ذکر ہے جس سے یہ کفار ومشرکین آخرت میں دوچار ہوں گے۔ الصافات
180 1- اس میں عیوب ونقائص سے اللہ کے پاکیزہ ہونے کا بیان ہےجو مشرکین اللہ کے لئےبیان کرتے ہیں، مثلاً اس کی اولاد ہے، یا اس کا کوئی شریک ہے۔ یہ کوتاہیاں بندوں کے اندر ہیں اور اولاد یا شریکوں کے ضرورت مند بھی وہی ہیں، اللہ ان سب باتوں سے بہت بلند اور پاک ہے۔ کیونکہ وہ کسی کا محتاج ہی نہیں ہے کہ اسے اولادکی یا کسی شریک کی ضرورت پیش آئے۔ الصافات
181 1- کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اہل دنیا کی طرف پہنچایا، جس پر یقیناً وہ سلام وتبریک کے مستحق ہیں۔ الصافات
182 1- یہ بندوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ نے تم پر احسان کیا ہے، پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اورپیغمبروں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا ، اس لئے تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ بعض کہتے ہیں کہ کافروں کو ہلاک کرکےاہل ایمان اور پیغمبروں کو بچایا، اس پر شکر الٰہی کرو۔ حمد کے معنی ہیں بہ قصد تعظیم ثناء جمیل، ذکر خیر اور عظمت شان بیان کرنا۔ الصافات
0 ص
1 1- جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں،جن سےتمہاری دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ بعض نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان وتقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی۔ اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد (ﷺ) ساحر، شاعر یا کاذب ہیں۔ بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر ذی شان قرآن نازل ہوا۔ ص
2 1- یعنی یہ قرآن تو یقیناً شک سے پاک اور ان کے لئے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے کہ ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت وعناد۔ عزت کے معنی ہوتے ہیں، حق کے مقابلے میں اکڑنا۔ ص
3 1- جو ان سے زیادہ مضبوط اور قوت والے تھے لیکن کفر وتکذیب کی وجہ سے برے انجام سے دوچار ہوئے۔ 2- یعنی انہوں نے عذاب دیکھ کر مدد کے لئے پکارا اور توبہ پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن وہ وقت توبہ کا تھا نہ فرار کا۔ اس لئے نہ ان کا ایمان نافع ہوا اور نہ وہ بھاگ کر عذاب سے بچ سکے لاتَ، لا ہی سے ہے جس میں ت کا اضافہ ہے جیسے ثَمَّ کو ثَمَّةَ بھی بولتے ہیں مَنَاصٌ، نَاصَ يَنُوصُ کا مصدر ہے، جس کے معنی بھاگنے اور پیچھے ہٹنے کے ہیں۔ ص
4 1- یعنی انہی کی طرح کا ایک انسان رسول کس طرح بن گیا۔ ص
5 1- یعنی ایک ہی اللہ ساری کائنات کانظام چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی طرح عبادت اور نذر ونیاز کا مستحق بھی صرف وہی ایک ہے؟ یہ ان کے لئے تعجب انگیز بات تھی۔ ص
6 1- یعنی اپنے دین پر جمے رہو اور بتوں کی عبادت کرتے رہو، محمد (ﷺ) کی بات پر کان مت دھرو ! 2- یعنی یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے چھڑا کر دراصل ہمیں اپنے پیچھے لگانا اور اپنی قیادت وسیادت منوانا چاہتا ہے۔ ص
7 1- پچھلے دین سے مراد یا تو ان کا ہی دین قریش ہے، یا پھر دین نصاریٰ۔ یعنی یہ جس توحید کی دعوت دے رہا ہے، اس کی بابت تو ہم نے کسی بھی دین میں نہیں سنا۔ 2- یعنی یہ توحید صرف اس کی اپنی من گھڑت ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے۔ ص
8 1- یعنی مکے میں بڑے بڑے چودھری اور رئیس ہیں، اگر اللہ کسی کو نبی بنانا ہی چاہتا تو ان میں سے کسی کو بناتا۔ ان سب کو چھوڑ کر وحی ورسالت کے لئے محمد (ﷺ) کا انتخاب بھی عجیب ہے؟ یہ گویا انہوں نے اللہ کے انتخاب میں کیڑے نکالے۔ سچ ہےخوئے بدر ابہانہ بسیار۔ دوسرے مقام پر بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ زخرف: 32-31۔ 2- یعنی ان کا انکاراس لئے نہیں ہے کہ انہیں محمد (ﷺ) کی صداقت کا علم نہیں ہے یا آپ کی سلامت عقل سے انہیں انکار ہے بلکہ یہ اس وحی کے بارے میں ہی ریب وشک میں مبتلا ہیں جو آپ پر نازل ہوئی، جس میں سب سے نمایاں توحید کی دعوت ہے۔ 3- کیونکہ عذاب کا مزہ چکھ لیتے تو اتنی واضح چیز کی تکذیب نہ کرتے۔ اور جب یہ اس تکذیب کا واقعی مزہ چکھیں گے تو وہ وقت ایسا ہوگا کہ پھر نہ تصدیق کام آئے گی، نہ ایمان ہی فائدہ دے گا۔ ص
9 1- کہ یہ جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں، انہی خزانوں میں نبوت بھی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رب کے خزانے کا مالک وہی وہاب ہے جو بہت دینے والا ہے، تو پھر انہیں نبوت محمدی سے انکار کیوں ہے؟ جسے اس نواز نے والے رب نے اپنی رحمت خاص سے نوازا ہے۔ ص
10 1- یعنی آسمان پر چڑھ کر اس وحی کا سلسلہ منقطع کر دیں جو محمد (ﷺ) پر نازل ہوتی ہے۔ اسباب، سبب کی جمع ہے۔ اس کے لغوی معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے سے مطلوب تک پہنچا جائے، چاہے وہ کوئی سی بھی چیز ہو۔ اس لئے اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔ رسیوں کے علاوہ ایک ترجمہ دروازے کا بھی کیا گیا ہے، جن سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ یعنی سیڑھیوں کے ذریعے سے آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائیں اور وحی بند کر دیں۔ (فتح القدیر)۔ ص
11 1- جُنْدٌ، مبتدا محذوف هُمْ کی خبر ہے اور ما بطور تاکید تعظیم یا تحقیر کے لئے ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی (ﷺ) کی مدد اور کفار کی شکست کا وعدہ ہے۔ یعنی کفار کا یہ لشکر جو باطل کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، بڑا ہے۔ یا حقیر، اس کی قطعاً پروا نہ کریں نہ اس سے خوف کھائیں، شکست اس کا مقدر ہے۔ هُنَالِكَ مکان بعید کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر اور یوم فتح مکہ کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں کافر عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔ ص
12 1- فرعون کو میخوں والا اس لیے کہا کہ وہ ظالم جب کسی پر غضب ناک ہوتا تو اس کے ہاتھوں، پیروں اور سر میں میخیں گاڑ دیتا، یا اس سے مقصد بطور استعارہ اس کی قوت وشوکت اور مضبوط حکومت کا اظہار ہے یعنی میخوں سے جس طرح کسی چیز کو مضبوط کر دیاجاتا ہے، اس کا لشکر جرار اور اس کے پیروکار بھی اس کی سلطنت کی قوت واستحکام کا باعث تھے۔ ص
13 1- أَصْحَابُ الأيْكَةِ کے لئے دیکھئے سورۂ شعراء۔ 176 کا حاشیہ۔ ص
14 ص
15 1- یعنی صور پھونکنے کا جس سے قیامت برپا ہو جائے گی۔ 2- دودھ دوہنے والا ایک مرتبہ کچھ دودھ دوہ کر بچے کو اونٹنی یا گائے بھینس کے پاس چھوڑ دیتا ہے تاکہ اس کے دودھ پینے سےتھنوں میں دودھ اتر آئے، چنانچہ تھوڑی دیر بعد بچے کو زبردستی پیچھے ہٹا کر خود دودھ دوہنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیان کا جو وقفہ ہے، یہ فواق کہلاتا ہے۔ یعنی صور پھونکنےکے بعد اتنا وقفہ بھی نہیں ملے گا، بلکہ صور پھونکنے کی دیر ہوگی کہ قیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا۔ ص
16 1- قِطٌّ کے معنی ہیں، حصہ، مراد یہاں نامۂ عمل یا سرنوشت ہے۔ یعنی ہمارے نامۂ اعمال کے مطابق ہمارے حصے میں اچھی یا بری سزا جو بھی ہے، یوم حساب کے آنے سے پہلے ہی ہمیں دنیا میں دے دے۔ یہ ﴿يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ﴾ والی بات ہی ہے۔ یہ وقوع قیامت کو ناممکن سمجھتے ہوئے انہوں نے استہزا اور تمسخر کے طور پر کہا۔ ص
17 1- یہ أَيْدٍ، يَدٌ (ہاتھ) کی جمع نہیں ہے۔ بلکہ یہ آدَ يَئِيدُ کا مصدر أَيْدٍ ہے، قوت وشدت۔ اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے۔ اس قوت سے مراد دینی قوت وصلابت ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے ”اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز، داود (عليہ السلام) کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے، داود (عليہ السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے، پھر اٹھ کر رات کا تہائی حصہ قیام کرتے اور پھر اس کے چھٹے حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے اور جنگ میں فرار نہ ہوتے“۔ (صحيح بخاری، كتاب الأنبياء ، باب ﴿وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ﴾، ومسلم، كتاب الصيام ، باب النهي عن صوم الدهر) ص
18 ص
19 1- یعنی اشراق کے وقت اور آخر دن کو پہاڑ بھی داود (عليہ السلام) کے ساتھ مصروف تسبیح ہوتے اور اڑتے جانور بھی زبور کی قراءت سن کر ہوا ہی میں جمع ہو جاتے اور ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے۔ محشورۃ کے معنی مجموعہ ہیں۔ ص
20 1- ہر طرح کی مادی اور روحانی اسباب کے ذریعے سے۔ 2- یعنی نبوت، اصابت رائے، قول سداد اور فعل صواب۔ 3- یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت، بصیرت وتفقہ اور استدلال وبیان کی قوت۔ ص
21 1- مِحْرَابٌ سے مراد وہ کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آکر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آگئے۔ ص
22 1- ڈرنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک تو وہ دروازے کے بجائےعقب سے دیوار چڑھ کر اندر آئے۔ دوسرے، انہوں نے اتنا بڑا اقدام کرتے ہوئے بادشاہ وقت سے کوئی خوف محسوس نہیں کیا۔ ظاہری اسباب کے مطابق خوف والی چیز سے خوف کھانا، انسان کا ایک طبعی تقاضا ہے۔ یہ منصب وکمال نبوت کے خلاف ہے نہ توحید کے منافی۔ توحید کے منافی غیر اللہ کا وہ خوف ہے جو ماورائے اسباب ہو۔ 2- آنے والوں نے تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے، ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ حق کے ساتھ فیصلہ بھی فرمائیں اور سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی۔ ص
23 1- بھائی سے مراد دینی بھائی یا شریک کاروبار یا دوست ہے۔ سب پر بھائی کا اطلاق صحیح ہے۔ 2- یعنی یہ ایک دنبی بھی میری دنبیوں میں شامل کر دے تاکہ میں ہی اس کا بھی ضامن اور کفیل ہو جاؤں۔ 3- دوسرا ترجمہ ہے (اور یہ گفتگو میں مجھ پر غالب آگیا ہے) یعنی جس طرح اس کے پاس مال زیادہ ہے، زبان کا بھی مجھ سے زیادہ تیز ہے اور اس تیزی وطراری کی وجہ سےلوگوں کو قائل کر لیتا ہے۔ 4- یعنی انسانوں میں یہ کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جائے۔ ص
24 1- البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ اس لئےکسی پر زیادتی کرنا اور دوسرے کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ 2- ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا﴾ کا مطلب یہاں سجدے میں گر پڑنا ہے۔ ص
25 1- حضرت داود (عليہ السلام) کا یہ کام کیا تھا جس پر انہیں کوتاہی کا اور توبہ وندامت کا اظہار کا احساس ہوا، اور اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ قرآن کریم میں اس اجمال کی تفصیل نہیں ہے اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس لئے بعض مفسرین نے تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر ایسی باتیں بھی لکھ دی ہیں، جو ایک نبی کی شان سے فروتر ہیں۔ بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب قرآن وحدیث اس معاملے میں خاموش ہیں تو ہمیں بھی اس کی تفصیلات کی کرید میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مفسرین کا ایک تیسرا گروہ ہےجو اس واقعے کی بعض جزئیات اور تفصیلات بیان کرتا ہے تاکہ قرآن کے اجمال کی کچھ توضیح ہو جائے۔ تاہم یہ کسی ایک بیان پر متفق نہیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت داود (عليہ السلام) نے ایک فوجی کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور یہ اس زمانے کے عرف میں معیوب بات نہیں تھی۔ حضرت داود (عليہ السلام) کو اس عورت کی خوبیوں اور کمالات کا علم ہوا تھا جس بنا پر ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس عورت کو تو ملکہ ہونا چاہئے نہ کہ ایک عام سی عورت۔ تاکہ اس کی خوبیوں اور کمالات سے پورا ملک فیض یاب ہو۔ یہ خواہش کتنے بھی اچھے جذبے کی بنیاد پر ہو، لیکن ایک تو متعدد بیویوں کی موجودگی میں یہ نامناسب سی بات لگتی ہے۔ دوسرے بادشاہ وقت کی طرف سے اس کے اظہار میں جبر کا پہلو بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اس لئے حضرت داود (عليہ السلام) کو ایک تمثیلی واقعے سے اس کے نامناسب ہونے کا احساس دلایا گیا اور انہیں فی الواقع اس پر تنبہ ہوگیا۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے یہ دو شخص فرشتے تھے جو ایک فرضی مقدمہ لے کر حاضر ہوئے، حضرت داود (عليہ السلام) سے کوتاہی یہ ہوئی کہ مدعی کا بیان سن کر ہی اپنی رائے کا اظہار کر دیا اور مدعا علیہ کی بات سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے رفع درجات کے لئے اس آزمائش میں انہیں ڈالا، اس غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ آزمائش تھی جو اللہ کی طرف سے ان پر آئی اور بارگاہ الٰہی میں جھک گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے فرشتے نہیں تھے، انسان ہی تھے اور یہ فرضی واقعہ نہیں، ایک حقیقی جھگڑا تھا، جس کے فیصلے کے لئے وہ آئے تھے اور اس طرح ان کے صبر وتحمل کا امتحان لیا گیا، کیونکہ اس واقعے میں ناگواری اور اشتعال طبع کے کئی پہلو تھے، ایک تو بلا اجازت دیوار پھاند کر آنا۔ دوسرے، عبادت کے مخصوص اوقات میں آکر مخل ہونا۔ تیسرے، ان کا طرز تکلم بھی آپ کی حاکمانہ شان سے فروتر تھا (کہ زیادتی نہ کرنا وغیرہ) لیکن اللہ نے آپ کو توفیق دی کہ مشتعل نہیں ہوئے اور کمال صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ لیکن دل میں جو طبعی ناگواری کا ہلکا سا احساس پیدا ہوا، اس کو بھی اپنی کوتاہی پر محمول کیا، یعنی یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی، اس لئے یہ طبعی انقباض بھی نہیں ہونا چاہئے تھا، جس پر انہوں نے توبہ واستغفار کا اہتمام کیا۔ وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ ص
26 ص
27 1- بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسے بہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت واطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔ ص
28 ص
29 ص
30 ص
31 1- صَافِنَاتٌ، صَافِنٌ یا صَافِنَةٌ کی جمع ہے، وہ گھوڑے جو تین ٹانگوں پر کھڑے ہوں۔ جِيَادٌ جَوَادٌ کی جمع ہے جو تیز رو گھوڑے کو کہتے ہیں۔ یعنی حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے بغرض جہاد جو گھوڑے پالے ہوئے تھے، وہ عمدہ اصیل تیز رو گھوڑے حضرت سلیمان پر معاینے کے لئے پیش کیے گئے۔ عَشِيٌّ، ظہر یا عصر سے لےکر آخر دن تک کے وقت کو کہتے ہیں، جسے ہم شام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ص
32 ص
33 1- اس ترجمے کی رو سے أَحْبَبْتُ، بمعنی آثَرْتُ (ترجیح دینا) اور عَنْ بمعنی عَلَى ہے۔ اور تَوَارَتْ کا مرجع شَمْسٌ ہے جو آیت میں پہلے مذکور نہیں ہے، لیکن قرینہ اس پر دال ہے۔ اس تفسیر کی رو سے اگلی آیت میں۔ ﴿مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالأَعْنَاقِ﴾ کا ترجمہ بھی ذبح کرنا ہوگا یعنی مَسْحًا بِالسَّيْفِ کا مفہوم۔ مطلب ہوگا کہ گھوڑوں کے معاینہ میں حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت وہ کرتے تھے۔ جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا وارفتہ اور گم ہو گیا کہ سورج پردۂ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفے سے غافل رہا۔ چنانچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نےسارے گھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے۔ امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ دیگر بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیر کی ہے۔ اس کی رو سے عَنْ، أَجْلٌ کے معنی میں ہے أَيْ : لأَجْلِ ذِكْرِ رَبِّي، یعنی رب کی یاد کی وجہ سے میں ان گھوڑوں سے محبت رکھتا ہوں۔ یعنی اس کے ذریعے سے اللہ کی راہ میں جہاد ہوتا ہے۔ پھر ان گھوڑوں کو دوڑایا حتیٰ کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ انہیں دوبارہ طلب کیا اور پیار ومحبت سے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا خَيْرٌ، قرآن میں مال کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ لفظ گھوڑو ں کے لئے آیا ہے۔ تَوَارَتْ کا مرجع گھوڑے ہیں۔ امام ابن جریر طبری نے اس دوسری تفسیر کو ترجیح دی ہے اور یہی تفسیر متعدد وجوہ سےصحیح لگتی ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ۔ ص
34 1- یہ آزمائش کیا تھی، کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعے کو اس پر چسپاں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے ایک مرتبہ کہا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد 70 یا 90 تھی) ہمبستری کروں گا تاکہ ان سے شاہ سوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اور اس پر ان شاء اللہ نہیں کہا (یعنی صرف اپنی ہی تدبیر پر سارا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے بھی جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا اگر سلیمان (عليہ السلام) ان شاء اللہ کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے۔ (صحيح بخاری ، كتاب الأنبياء ، صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الاستثناء) ان مفسرین کے خیال میں شاید ان شاء اللہ نہ کہنا یا صرف اپنی تدبیر پر اعتماد کرنا یہی فتنہ ہو، جس میں حضرت سلیمان (عليہ السلام) مبتلا ہوئے اور کرسی پر ڈالا جانے والا جسم یہی ناقص الخلقت بچہ ہو۔ واللهُ أَعْلَمُ۔ ص
35 1- یعنی شاہ سواروں کی فوج پیدا ہونے کی آرزو، تیری حکمت ومشیت کے تحت پوری نہیں ہوئی، لیکن اگر مجھے ایسی بااختیار بادشاہت عطا کر دے کہ ویسی بادشاہت میرے سوا یا میرے بعد کسی کے پاس نہ ہو، تو پھر اولاد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یہ دعا بھی اللہ کے دین کے غلبے کے لئے ہی تھی۔ ص
36 1- یعنی ہم نے سلیمان (عليہ السلام) کی یہ دعا قبول کر لی اور ایسی بادشاہی عطا کی جس میں ہوا بھی ان کے ماتحت تھی، یہاں ہوا کو نرمی سے چلنے والا بتایا ہے، جب کہ دوسرے مقام پر اسے تند وتیز کہا ہے، (الانبیاء: 81) جس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا پیدائشی قوت کے لحاظ سے تند ہے۔ لیکن سلیمان (عليہ السلام) کے لئے اسے نرم کر دیا گیا، حسب ضرورت وہ کبھی تند ہوتی کبھی نرم، جس طرح حضرت سلیمان (عليہ السلام) چاہتے۔ (فتح القدیر)۔ ص
37 ص
38 1- جنات میں سے جو سرکش یا کافر ہوتے، انہیں بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا، تاکہ وہ اپنے کفر یا سرکشی کی وجہ سے سرتابی نہ کر سکیں۔ ص
39 1- یعنی تیری دعا کے مطابق ہم نے تجھے عظیم بادشاہی سے نواز دیا، اب انسانوں میں سے جس کو تو چاہے دے، جسے چاہے نہ دے، تجھ سے ہم حساب بھی نہیں لیں گے۔ ص
40 1- یعنی دنیوی جاہ ومرتبت عطا کرنے کے باوجود آخرت میں بھی حضرت سلیمان (عليہ السلام) کو قرب خاص اور مقام خاص حاصل ہوگا۔ ص
41 1- حضرت ایوب (عليہ السلام) کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے۔ جس کےمطابق اللہ تعالیٰ نے اہل ومال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی، جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتیٰ کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح وشام ان کی خدمت بھی کرتی اور ان کو کہیں کام كاج کرکے بقدر کفاف رزق کا انتظام بھی کرتی۔ یہاں پر متعدد تفسیری روایات کا ذکر کیا جاتا ہے، مگر اس میں سے کتنا کچھ صحیح ہے اور کتنا نہیں، اسے معلوم کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں۔ نُصْبٍ سے جسمانی تکالیف اور عذاب سے مالی ابتلا مراد ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئی ہے دراں حالیکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے، کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جس پر یہ آزمائش آئی یا پھر بطور ادب کے ہے کہ خیر کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی یا شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ص
42 1- اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (عليہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور ان سے کہا کہ زمین پر پیر مارو، جس سے ایک چشمہ جاری ہوگیا۔ اس کے پانی پینے سے اندرونی بیماریاں اور غسل کرنے سے ظاہری بیماریاں دور ہوگئیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ دو چشمے تھے، ایک سے غسل فرمایا اور دوسرے سے پانی پیا۔ لیکن قرآن کے الفاظ سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے۔ یعنی ایک ہی چشمہ تھا۔ ص
43 1- بعض کہتے ہیں کہ پہلا کنبہ جو بطور آزمائش ہلاک کر دیا گیا تھا، اسے زندہ کر دیا گیا اور اس کے مثل اور مزید کنبہ عطا کر دیا گیا۔ لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہے۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے پہلے سے زیادہ مال واولاد سے انہیں نواز دیا جو پہلے سے دوگنا تھا۔ 2- یعنی ایوب (عليہ السلام) کو یہ سب کچھ ہم نےدوبارہ عطا کیا، تو اپنی رحمت خاص کے اظہار کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اہل دانش اس سے نصیحت حاصل کریں اور وہ بھی ابتلا وشدائد پر اسی طرح صبر کریں جس طرح ایوب (عليہ السلام) نے کیا۔ ص
44 1- بیماری کے ایام میں خدمت گزار بیوی کو کسی بات سے ناراض ہو کر حضرت ایوب (عليہ السلام) نے اسے سو کوڑے مارنے کی قسم کھا لی تھی، صحت یاب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ سو تنکوں والی جھاڑو لے کر ایک مرتبہ اسے مار دے، تیری قسم پوری ہو جائے گی۔ اس امر میں علما کا اختلاف ہے کہ یہ رعایت صرف حضرت ایوب (عليہ السلام) کے ساتھ خاص ہے یا دوسرا کوئی شخص بھی اس طرح سو کوڑوں کی جگہ سو تنکوں والی جھاڑو مار کر حانث ہونے سے بچ سکتا ہے؟ بعض پہلی رائے کے قائل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اگر نیت ضرب شدید کی نہ کی ہو تو اس طرح عمل کیا جا سکتا ہے۔ (فتح القدیر) ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے بھی ایک معذور کمزور زانی کو سو کوڑوں کی جگہ سو تنکوں والی جھاڑو مار کر سزا دی۔ (مسند أحمد 5/222 ابن ماجہ، كتاب الحدود، باب الكبير والمريض يجب عليه الحد، صححه الألباني) جس سے مخصوص صورتوں میں اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ص
45 1- یعنی عبادت الٰہی اور نصرت دین میں بڑے قوی اور دینی وعلمی بصیرت میں ممتاز تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ أَيْدِي بمعنی نِعَمٌ ہے۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام واحسان ہوا یا یہ لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔ ص
46 1- یعنی ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے چن لیا تھا، چنانچہ آخرت ہر وقت ان کے سامنے رہتی تھی (آخرت کا ہر وقت استحضار، یہ بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت اور زہد وتقویٰ کی بنیاد ہے) یا وہ لوگوں کو آخرت اور اللہ کی طرف بلانے میں کوشاں رہتے تھے۔ ص
47 ص
48 1- یسع (عليہ السلام) کہتے ہیں، حضرت الیاس (عليہ السلام) کے جانشین تھے، ال تعریف کے لئے ہے اور عجمی نام ہے، ذوالکفل کے لئے دیکھئے سورۃ الانبیاء، آیت 85 کا حاشیہ۔ أَخْيَارٌ خَيْرٌ یا خَيِّرٌ کی جمع ہے جیسے مَيِّتٌ کی جمع أَمْوَاتٌ ہے۔ ص
49 ص
50 ص
51 ص
52 1- یعنی جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں سے متجاوز نہیں ہوں گی۔ أَتْرَابٌ، تِرْبٌ کی جمع ہے، ہم عمر یا لازوال حسن وجمال کی حامل۔ (فتح القدیر) ص
53 ص
54 1- رزق، بمعنی عطیہ ہے اور هَذَا سے ہر قسم کی مذکور نعمتیں اور وہ اکرام واعزاز مراد ہیں جن سے اہل جنت بہرہ یاب ہوں گے۔ نفاد کےمعنی انقطاع اور خاتمے کے ہیں۔ یہ نعمتیں بھی غیر فانی ہوں گی اور اعزاز وکرام بھی دائمی۔ ص
55 1- هَذَا مبتدا محذوف کی خبر ہے یعنی الأَمْرُ هَذَا یا ھذا مبتدا ہے، اس کی خبر محذوف ہے یعنی هَذَا كَمَا ذُكِرَ یعنی مذکور اہل خیر کا معاملہ ہوا۔ اس کے بعد اہل شر کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ 2- طَاغِينَ، جنہوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور رسولوں کی تکذیب کی۔ يَصْلُونَ کے معنی ہیں يَدْخُلُونَ، داخل ہوں گے۔ ص
56 ص
57 1- ﴿حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ فَليَذُوقُوه﴾، هَذَا کی خبر ہے یعنی هَذَا حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ فَلْيَذُوقُوهُ یہ ہے گرم پانی اور پیپ، اسے چکھو۔ حَمِيمٌ، گرم کھولتا ہوا پانی، جو ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا۔ غَسَّاقٌ، جہنمیوں کی کھالوں سے جو پیپ اور گندا لہو نکلے گا۔ یا سخت ٹھنڈا پانی، جس کا پینا نہایت مشکل ہوگا۔ ص
58 1- شَكْلِه، اس جیسے أَزْوَاجٌ، انواع واقسام یعنی حمیم وغساق جیسے اور بہت سی قسم کے دوسرےعذاب ہوں گے۔ ص
59 1- جہنم کے دروازوں پر کھڑے فرشتے، ائمۂ کفر اور پیشوایان ضلالت سے کہیں گے، جب پیروکار قسم کے کافر جہنم میں جائیں گے۔ یا ائمۂ کفر وضلالت آپس میں یہ بات، پیرو کاروں کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے۔ 2- یہ لیڈر، جہنم میں داخل ہونے والے کافروں کے لئے، فرشتوں کے جواب میں یا آپس میں کہیں گے۔ رَحْبَةٌ کے معنی وسعت وفراخی کے ہیں۔ مرحبا یہ كَلِمَةُ تَرْحِيبٍ یعنی خیر مقدمی الفاظ ہیں جو آنے والے مہمان کے استقبال کے وقت کہے جاتے ہیں۔ لا مَرْحَبًا اس کے برعکس ہے۔ 3- یہ ان کا خیر مقدم نہ کرنے کی علت ہے۔ یعنی ان کے اور ہمارے مابین کوئی وجہ امتیاز نہیں ہے، یہ بھی ہماری طرح جہنم میں داخل ہو رہے ہیں اور جس طرح ہم عذاب کے مستحق ٹھہرے ہیں، یہ بھی عذاب جہنم کے مستحق قرار پائے ہیں۔ ص
60 1- یعنی تم ہی کفر وضلالت کے راستے ہمارے سامنے مزین کرکے پیش کرتے تھے، یوں گویا اس عذاب جہنم کے پیش کار تو تم ہی ہو۔ یہ پیروکار، اپنے مقتداؤں کو کہیں گے۔ ص
61 1- یعنی جنہوں نے ہمیں کفر کی دعوت دی اور اسے حق وصواب باور کرایا۔ یا جنہوں نے ہمیں کفر کی طرف بلا کر ہمارے لئے یہ عذاب آگے بھیجا۔ 2- یہ وہی بات ہے جسے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الاعراف، 38 ، سورۃ الاحزاب ،68۔ ص
62 1- أَشْرَارٌ سے مراد فقراء مومنین ہیں۔ جیسے عمار، خباب، صہیب، بلال وسلیمان وغیرہم۔ (رضی الله عنہم) ، انہیں روسائے مکہ ازراہ خبث (برے لوگ) کہتے تھے اور اب بھی اہل باطل حق پر چلنے والوں کو بنیاد پرست، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں۔ ص
63 1- یعنی دنیا میں، جہاں ہم غلطی پر تھے؟ 2- یا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی یہیں کہیں ہیں، ہماری نظریں انہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں؟ ص
64 1- یعنی آپس میں ان کی تکرار اور ایک دوسرے کو مورد طعن بنانا، ایک ایسی حقیقت ہے، جس میں تخلف نہیں ہوگا۔ ص
65 1- یعنی جو تم گمان کرتے ہو، میں وہ نہیں ہوں بلکہ تمہیں اللہ کے عذاب اور اس کےعتاب سے ڈرانے والا ہوں۔ ص
66 ص
67 1- یعنی میں تمہیں جس عذاب اخروی سے ڈرا رہا اور توحید کی دعوت دے رہا ہوں یہ بڑی خبر ہے، جس سے اعراض وغفلت نہ برتو، بلکہ اس پر توجہ دینے اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ص
68 ص
69 1- ملأ اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں، یعنی وہ کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ ممکن ہے، اس اختصام (بحث وتکرار) سے مراد وہ گفتگو ہو جو تخلیق آدم (عليہ السلام) کے وقت ہوئی۔ جیسا کہ آگے اس کا ذکر آرہا ہے۔ ص
70 1- یعنی میری ذمے داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض وسنن تمہیں بتا دوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے اور ان محرکات ومعاصی کی وضاحت کردوں جن کے اجتناب سے تم رضائے الٰہی کے اور بصورت دیگر اس کے غضب وعقاب کے مستحق قرار پاؤ گے۔ یہی وہ انذار ہے جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے۔ ص
71 1- یہ قصہ اس سے قبل سورۂ بقرہ، سورۂ اعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں بیان ہو چکا ہے۔ اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔ 2- یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس کے لئے وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے۔ ص
72 1- یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کےتمام اجزا درست اور برابر کر لوں۔ 2- یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کےپھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہو جائے گا۔ انسان کے شرف وعظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔ 3- یہ سجدۂ تحیہ یا سجدۂ تعظیم ہے، سجدۂ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم (عليہ السلام) کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا ”اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے“۔ (مشكاة كتاب النكاح، باب عشرة النساء ، بحوالہ ترمذی وقال الألباني، وهو حديث صحيح لشواهده ص
73 1- یہ انسان کا دوسرا شرف ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا۔ یعنی فرشتے جیسی مقدس مخلوق نے اسے تعظیماً سجدہ کیا۔ كُلُّهُمْ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک فرشتہ بھی سجدہ کرنے میں پیچھے نہیں رہا۔ اس کے بعد أَجْمَعُونَ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ سجدہ بھی سب نے بیک وقت ہی کیا ہے۔ مختلف اوقات میں نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تاکید درتاکید تعمیم میں مبالغے کے لئے ہے۔ (فتح القدیر)۔ ص
74 1- اگر ابلیس کو صفات ملائکہ سے متصف مانا جائے تو یہ استثنا متصل ہوگا یعنی ابلیس اس حکم سجدہ میں داخل ہوگا، بصورت دیگر یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ اس حکم میں داخل نہیں تھا لیکن آسمان پر رہنے کی وجہ سے اسے بھی حکم دیا گیا۔ مگر اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر دیا۔ 2- یہ کان صَارَ کے معنی میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت اور اس کی اطاعت سے استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا۔ یا اللہ کے علم میں وہ کافر تھا۔ ص
75 1- یہ بھی انسان کے شرف وعظمت کے اظہار ہی کے لئے فرمایا، ورنہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔ ص
76 1- یعنی شیطان نے اپنے زعم فاسد میں یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر متجانس (ہم جنس یا قریب قریب ایک درجے میں) ہیں۔ ان میں سے کسی کو، دوسرے پر شرف کسی عارض (خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم (عليہ السلام) کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔ اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف وعظمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کر دینا ہے، جبکہ مٹی اس کے برعکس انواع واقسام کی پیداوار کا موخذ ہے۔ ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 ص
86 1- یعنی اس دعوت وتبلیغ سے میرا مقصد صرف امتثال امر الٰہی ہے، دنیا کمانا نہیں۔ 2- یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کر دوں جو اس نے نہ کہی ہو یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں جس کا حکم اللہ نے مجھے نہ دیا ہو۔ بلکہ کوئی کمی بیشی کیے بغیر اللہ کے احکام تم تک پہنچا رہا ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ! فرماتے تھے، جس کو کسی بات کا علم نہ ہو، اس کی بابت اسے کہہ دینا چاہئیے، اللہ اعلم یہ کہنا بھی علم ہی ہے، اس لئے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو کہا، فرما دیجئے ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ﴾ (ابن کثیر) علاوہ ازیں اس سے عام معاملات زندگی میں بھی تکلف وتصنع سے اجتناب کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ جیسے نبی (ﷺ) نے فرمایا [ نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّف ] (صحيح بخاری، نمبر 7293) ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت سلمان (رضی الله عنہ) کہتے ہیں [ نَهَانَا رَسُولُ اللهِ (ﷺ) أَنَّ نَتَكَلَّفَ لِلضَّيْف ] (صحيح الجامع الصغير 9871) ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے مہمان کے لئے تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لباس، خوراک، رہائش اور دیگر معاملات میں تکلفات، جو آج کل معیار زندگی بلند کرنے کے عنوان سے، اصحاب حیثیت کا شعار اور وطیرہ بن چکا ہے، اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام میں سادگی اور بے تکلفی اختیار کرنے کی تلقین وترغیب ہے۔ ص
87 1- یعنی یہ قرآن، یا وحی یا وہ دعوت، جو میں پیش کر رہا ہوں، دنیا بھر کے انسان اور جنات کے لئے نصیحت ہے۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے کا قصد کرے۔ ص
88 1- یعنی قرآن نے جن چیزوں کو بیان کیا ہے، جو وعدہ وعید ذکر کیے ہیں، ان کی حقیقت وصداقت بہت جلد تمہارے سامنے آجائے گی۔ چنانچہ اس کی صداقت یوم بدر کو واضح ہوئی، فتح مکہ کے دن ہوئی یا پھر موت کے وقت تو سب پر ہی واضح ہو جاتی ہے۔ ص
0 الزمر
1 الزمر
2 1- یعنی اس میں توحید ورسالت، معاد اور احکام وفرائض کا جو اثبات کیا گیا ہے، وہ سب حق ہے اور انہی کے ماننے اور اختیار کرنے میں انسان کی نجات ہے۔ 2- دین کے معنی یہاں عبادت اور اطاعت کے ہیں اور اخلاص کا مطلب ہے صرف اللہ کی رضا کی نیت سے نیک عمل کرنا۔ آیت، نیت کے وجوب اور اس کے اخلاص پر دلیل ہے۔ حدیث میں بھی اخلاص نیت کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کر دی گئی ہے کہ [ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ] عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے یعنی جو عمل خیر اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے گا، (بشرطیکہ وہ سنت کے مطابق ہو) وہ مقبول اور جس عمل میں کسی اور جذبے کی آمیزش ہوگی، وہ نامقبول ہوگا۔ الزمر
3 1- یہ اسی اخلاص عبادت کی تاکید ہے جس کا حکم اس سے پہلی آیت میں ہے کہ عبادت واطاعت صرف ایک اللہ ہی کا حق ہے، نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا جائز ہے۔ نہ اطاعت ہی کا اس کے علاوہ کوئی حق دار ہے۔ البتہ رسول کی اطاعت کو چونکہ خود اللہ نے اپنی ہی اطاعت قرار دیا ہے اس لئے رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے، کسی غیر کی نہیں۔ تاہم عبادت میں یہ بات بھی نہیں۔ اس لئے عبادت اللہ کے سوا، کسی بڑے سے بڑے رسول کی بھی جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ عام افراد واشخاص کی، جنہیں لوگوں نے اپنے طور پر خدائی اختیارات کا حامل قرار دے رکھا ہے۔ ﴿مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ﴾ اللہ کی طرف سے اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ 2- اس سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ ہی کو خالق، رازق اور مدبر کائنات مانتے تھے۔ پھر وہ دوسروں کی عبادت کیوں کرتے تھے؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے تھے جو قرآن نے یہاں نقل کیا ہے کہ شاید ان کے ذریعے سے ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہو جائے یا اللہ کے ہاں یہ ہماری سفارش کر دیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿هَؤُلاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ﴾ (يونس: 18) یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ 3- کیوں کہ دنیا میں تو کوئی بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ شرک کا ارتکاب کر رہا ہے یا وہ حق پر نہیں ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ فرمائے گا اور اس کے مطابق جزا وسزا دے گا۔ 4- یہ جھوٹ ہی ہے کہ ان معبودان باطلہ کے ذریعے سے ان کی اللہ تک رسائی ہو جائے گی یا یہ ان کی سفارش کریں گے اور اللہ کو چھوڑ کر بے اختیار لوگوں کو معبود سمجھنا بھی بہت بڑی ناشکری ہے۔ ایسے جھوٹوں اور ناشکروں کو ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے؟ الزمر
4 1- یعنی پھر اس کی اولاد لڑکیاں ہی کیوں ہوتیں؟ جس طرح کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔ بلکہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو پسند کرتا، وہ اس کی اولاد ہوتی، نہ کہ وہ جن کو وہ باور کراتے ہیں، لیکن وہ تو اس نقص سے پاک ہے۔ (ابن کثیر)۔ الزمر
5 1- تَكْوِيرٌ کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز پر لپیٹ دینا، رات کو دن پر لپیٹ دینے کا مطلب، رات کا دن کو ڈھانپنا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی روشنی ختم ہو جائے اور دن کو رات پر لپیٹ دینے کا مطلب، دن کا رات کو ڈھانپنا ہے حتیٰ کہ اس کی تاریکی ختم ہو جائے۔ یہ وہی مطلب ہے جو ﴿يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ﴾ (الأعراف: 54) کا ہے۔ الزمر
6 1- یعنی حضرت آدم (عليہ السلام) سے، جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی تھی۔ 2- یعنی حضرت حوا کو حضرت آدم (عليہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا اور یہ بھی اس کا کمال قدرت ہے کیونکہ حضرت حوا کے علاوہ کسی بھی عورت کی تخلیق، کسی آدمی کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ یوں یہ تخلیق امر عادی کے خلاف اور اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ 3- یہ وہی چار قسم کے جانوروں کا بیان ہے بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے جو نر اور مادہ مل کر آٹھ ہو جاتے ہیں، جن کا ذکر سورۂ انعام: آیت 143-144 میں گزر چکا ہے۔ أَنْزَلَ بِمَعْنَى خَلَقَ ہے یا ایک روایت کے مطابق، پہلے اللہ نے انہیں جنت میں پیدا فرمایا اور پھر انہیں نازل کیا، پس یہ انزال حقیقی ہوگا۔ یا أَنْزَلَ کا اطلاق مجازاً ہے اس لئے کہ یہ جانور چارے کے بغیر نہیں رہ سکتے اور چارہ کی روئیدگی کے لئے پانی ناگزیر ہے۔ جو آسمان سے ہی بارش کے ذریعے سے اترتا ہے۔ یوں گویا یہ چوپائے آسمان سے اتارے ہوئے ہیں، (فتح القدیر)۔ 4- یعنی رحم مادر میں مختلف اطوار سے گزارتا ہے، پہلے نطفہ، پھر عَلَقَةً پھر مُضْغَةً، پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ، جس کے اوپر گوشت کا لباس۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کامل تیار ہوتا ہے۔ 5- ایک ماں کے پیٹ کا اندھیرا، دوسرا رحم مادر کا اندھیرا اور تیسرا مشیمہ کا اندھیرا، وہ جھلی یا پردہ جس کے اندر بچہ لیٹا ہوا ہوتا ہے۔ 5-1- یا کیوں تم حق سے باطل کی طرف اور ہدایت سے گمراہی کی طرف پھر رہے ہو؟ الزمر
7 1- اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۂ ابراہیم آیت 8 کا حاشیہ۔ 2- یعنی کفر اگرچہ انسان اللہ کی مشیت ہی سے کرتا ہے، کیوں کہ اس کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا نہ ہی ہو سکتا ہے۔ تاہم کفر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اس کی رضا حاصل کرنے کا راستہ تو شکر ہی کا راستہ ہے نہ کہ کفر کا۔ یعنی اس کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا اور چیز ہے، جیسا کہ پہلے بھی اس نکتے کی وضاحت بعض مقامات پر کی جا چکی ہے۔ دیکھئے صفحہ۔ 109۔ الزمر
8 1- یا اس تکلیف کو بھول جاتا ہے جس کو دور کرنے کے لئے وہ دوسروں کو چھوڑ کر، اللہ سےدعا کرتاتھا یا اس رب کو بھول جاتا ہے، جسے وہ پکارتا تھا اور اس کے سامنے تضرع کرتا تھا، اور پھر شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ الزمر
9 1- مطلب یہ ہے کہ ایک یہ کافر ومشرک ہے جس کا یہ حال ہے جو ابھی مذکور ہوا اور دوسرا وہ شخص ہے جو تنگی اور خوشی میں، رات کی گھڑیاں اللہ کے سامنے عاجزی اور فرماں برداری کا اظہار کرتے ہوئے، سجود وقیام میں گزارتا ہے۔ آخرت کا خوف بھی اس کے دل میں ہے اور رب کی رحمت کا امیدوار بھی ہے۔ یعنی خوف ورجا دونوں کیفیتوں سے وہ سرشار ہے، جو اصل ایمان ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ خوف ورجا کے بارے میں حدیث ہے، حضرت انس (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک شخص کے پاس گئے جب کہ اس پر سکرات الموت کی کیفیت طاری تھی، آپ (ﷺ) نے اس سے پوچھا تو اپنے آپ کو کیسے پاتا ہے؟ اس نے کہا میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈرتا بھی ہوں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ”اس موقعے پر جس بندے کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں تواللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اس سے اسے بچا لیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے“۔ (ترمذی ، ابن ماجہ، كتاب الزهد، باب ذكر الموت والاستعداد له 2- یعنی وہ جو جانتے ہیں کہ اللہ نے ثواب وعقاب کا جو وعدہ کیا ہے، وہ حق ہے اور وہ جو اس بات کو نہیں جانتے۔ یہ دونوں برابر نہیں۔ ایک عالم ہے اور ایک جاہل۔ جس طرح علم وجہل میں فرق ہے، اسی طرح عالم وجاہل برابر نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالم وغیر عالم کی مثال سے یہ سمجھانا مقصود ہو کہ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں، اللہ کا فرماں بردار اور اس کا نافرمان، دونوں برابر نہیں۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ عالم سے مراد وہ شخص ہےجو علم کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ کیوں کہ وہی علم سے فائدہ حاصل کرنے والا ہے اور جو عمل نہیں کرتا وہ گویا ایسے ہی ہے کہ اسے علم ہی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے یہ عامل اور غیر عامل کی مثال ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں۔ 3- اور یہ اہل ایمان ہی ہیں، نہ کہ کفار۔ گو وہ اپنے آپ کو صاحب دانش وبصیرت ہی سمجھتے ہوں۔ لیکن جب وہ اپنی عقل ودانش کو استعمال کرکے غور وتدبر ہی نہیں کرتے اور عبرت ونصیحت ہی حاصل نہیں کرتے تو ایسے ہی ہے گویا وہ چوپایوں کی طرح عقل ودانش سےمحروم ہیں۔ الزمر
10 1- اس کی اطاعت کرکے، معاصی سے اجتناب کرکے اور عبادت واطاعت کو اس کے لئے خالص کرکے۔ 2- یہ تقویٰ کے فوائد ہیں۔ نیک بدلے سے مراد جنت اور اس کی ابدی نعمتیں ہیں۔ بعض فِي هَذِهِ الدُّنْيَا کو حَسَنَةٌ سے متعلق مان کر ترجمہ کرتے ہیں جو نیکی کرتے ہیں، ان کے لئے دنیا میں نیک بدلہ ہے یعنی اللہ انہیں دنیا میں صحت وعافیت، کامیابی اور غنیمت وغیرہ عطا فرماتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے۔ 3- یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر اپنے وطن میں ایمان وتقویٰ پر عمل مشکل ہو، تو وہاں رہنا پسندیدہ نہیں، بلکہ وہاں سے ہجرت اختیار کرکے ایسے علاقے میں چلا جانا چاہئے جہاں انسان احکام الٰہی کے مطابق زندگی گزار سکے اور جہاں ایمان وتقویٰ کی راہ میں رکاوٹ نہ ہو۔ 4- اسی طرح ایمان وتقویٰ کی راہ میں مشکلات بھی ناگزیر اور شہوات ولذات نفس کی قربانی بھی لابدی ہے، جس کے لئے صبر کی ضرورت ہے۔ اس لئے صابرین کی فضیلت بھی بیان کر دی گئی ہے، کہ ان کو ان کے صبر کے بدلے میں اس طرح پورا پورا اجر دیا جائے گا کہ اسے حساب کے پیمانوں سے ناپنا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ یعنی ان کا اجر غیر متناہی ہوگا۔ کیوں کہ جس چیز کا حساب ممکن ہو، اس کی تو ایک حد ہوتی ہے اور جس کی کوئی حد اور انتہا نہ ہو، وہ وہی ہوتی ہے جس کو شمار کرنا ممکن نہ ہو۔ صبر کی یہ وہ عظیم فضیلت ہے جو ہر مسلمان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اس لئے کہ جزع فزع اور بے صبری سے نازل شدہ مصیبت ٹل نہیں جاتی، جس خیر اور فائدے سے محرومی ہوگئی ہے، وہ حاصل نہیں ہو جاتا اور جو ناگوار صورت حال پیش آچکی ہوتی ہے، اس کا اندفاع ممکن نہیں۔ جب یہ بات ہے تو انسان صبر کرکے وہ اجر عظیم کیوں نہ حاصل کرے جو صابرین کے لئے اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ الزمر
11 الزمر
12 1- پہلا اس معنی میں کہ آبائی دین کی مخالفت کرکے توحید کی دعوت سب سے پہلے آپ ہی نے پیش کی۔ الزمر
13 الزمر
14 الزمر
15 الزمر
16 1- ظُلَلٌ، ظُلَّةٌ کی جمع ہے، سایہ۔ یہاں اطباق النار مراد ہیں، یعنی ان کے اوپر نیچے آگ کے طبق ہوں گے، جو ان پر بھڑک رہے ہوں گے۔ (فتح القدیر)۔ 2- یعنی یہی مذکور خسران مبین اور عذاب ظلل ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے تاکہ وہ اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرکے اس انجام بد سے بچ جائیں۔ الزمر
17 الزمر
18 1- أَحْسَنُ سے مراد محکم اور پختہ بات، یا مامورات میں سے سب سے اچھی بات، یا عزیمت ورخصت میں سے عزیمت یا عقوبت کے مقابلے میں عفو ودرگزر اختیار کرتے ہیں۔ 2- کیوں کہ انہوں نے اپنی عقل سے فائدہ اٹھایا ہے، جب کہ دوسروں نے اپنی عقلوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ الزمر
19 1- یعنی قضا وتقدیر کی رو سے اس کا استحقاق عذاب ثابت ہو چکا ہے، اس طرح کہ کفر وظلم اور جرم وعدوان میں وہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا، جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں رہی۔ جیسے ابوجہل اور عاص بن وائل وغیرہ۔ اور گناہوں نے اس کو پوری طرح گھیر لیا اور وہ جہنمی ہوگیا۔ 2- نبی (ﷺ) چونکہ اس بات کی شدید خواہش رکھتےتھے کہ آپ کی قوم کے سب لوگ ایمان لے آئیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو تسلی دی اور آپ کو بتلایا کہ آپ کی خواہش اپنی جگہ بالکل صحیح اور بجا ہے لیکن جس پر اس کی تقدیر غالب آگئی اور اللہ کا کلمہ اس کے حق میں ثابت ہوگیا، اسے آپ جہنم کی آگ سے بچانے پرقادر نہیں ہیں۔ الزمر
20 1- اس کا مطلب ہے کہ جنت میں درجات ہوں گے، ایک کے اوپر ایک۔ جس طرح یہاں کثیرالمنازل عمارتیں ہیں، جنت میں بھی درجات کے حساب سے ایک دوسرے کے اوپر بالا خانے ہوں گے، جن کے درمیان سے اہل جنت کی خواہش کے مطابق دودھ، شہد، پانی اور شراب کی نہریں چل رہی ہوں گی۔ 2- جو اس نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے اور جو یقیناً پورا ہوگا، کہ اللہ سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔ الزمر
21 1- يَنَابِيعُ يَنْبُوعٌ کی جمع ہے، سوتے، چشمے، یعنی بارش کے ذریعے سےپانی آسمان سےاترتا ہے، پھر وہ زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا تالابوں اور نہروں میں جمع ہو جاتا ہے۔ 2- یعنی اس پانی سے، جو ایک ہوتا ہے، انواع واقسام کی چیزیں پیدا فرماتا ہے، جن کا رنگ، ذائقہ، خوشبو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ 3- یعنی شادابی اور تروتازگی کے بعد وہ کھیتیاں سوکھ جاتی اور زرد ہو جاتی ہیں اور پھر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ جس طرح لکڑی کی ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 4- یعنی اہل دانش اس سے سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا کی مثال بھی اسی طرح ہے، وہ بہت جلد زوال وفنا سے ہمکنار ہو جائے گی۔ اس کی رونق وبہجت، اس کی شادابی وزینت اور اس کی لذتیں اور آسائشیں عارضی ہیں، جن سے انسان کو دل نہیں لگانا چاہئے۔ بلکہ اس موت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہئے جس کے بعد کی زندگی دائمی ہے، جسے زوال نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ قرآن اور اہل ایمان کے سینوں کی مثال ہے اور مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے قرآن اتارا، جسے وہ مومنوں کے دلوں میں داخل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے دین باہر نکلتا ہے جو ایک دوسرے سے بہتر ہوتا ہے، پس مومن تو ایمان ویقین میں زیادہ ہو جاتا ہے اور جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، وہ اس طرح خشک ہو جاتا ہے جس طرح کھیتی خشک ہو جاتی ہے۔(فتح القدیر)۔ الزمر
22 1- یعنی جس کو قبول حق اور خیر کا راستہ اپنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے پس وہ اس شرح صدر کی وجہ سے رب کی روشنی پر ہو، کیا یہ اس جیسا ہو سکتا ہے جس کا دل اسلام کے لئے سخت اور اس کا سینہ تنگ ہو اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہاہو۔ الزمر
23 1- ﴿أَحْسَنُ الْحَدِيثِ سے مراد قرآن مجید ہے، ملتی جلتی کا مطلب، اس کے سارے حصےحسن کلام، اعجاز وبلاغت، صحت معانی وغیرہ خوبیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا یہ بھی سابقہ کتب آسمانی سے ملتا ہے یعنی ان کی مشابہ ہے۔ مثانی، جس میں قصص وواقعات اور مواعظ واحکام کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ 2- کیونکہ وہ ان وعیدوں کو اور تخویف وتہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لئے اس میں ہے۔ 3- یعنی جب اللہ کی رحمت اور اس کے لطف وکرم کی امید ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے تو ان کے اندر سوز وگداز پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ اس میں اولیاء اللہ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے، ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ مدہوش اور حواس باختہ ہو جائیں اور عقل و ہوش باقی نہ رہے، کیونکہ یہ بدعتیوں کی صفت ہے اور اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) جیسے آج بھی بدعتیوں کی قوالی میں اس طرح کی شیطانی حرکتیں عام ہیں، جسے وہ وجد وحال یا سکر ومستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، اہل ایمان کا معاملہ اس بارے میں کافروں سے بوجوہ مختلف ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان کا سماع، قرآن کریم کی تلاوت ہے، جب کہ کفار کا سماع، بے حیا مغنیات کی آوازوں میں گانا بجانا، سننا ہے۔ (جیسے اہل بدعت کا سماع مشرکانہ غلو پر مبنی قوالیاں اور نعتیں ہیں) دوسرے، یہ کہ اہل ایمان قرآن سن کر ادب وخشیت سے رجا ومحبت سے اور علم وفہم سے رو پڑتے ہیں اور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، جب کہ کفار شور کرتے اور کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔ تیسرے، اہل ایمان سماع قرآن کے وقت ادب وتواضع اختیار کرتے ہیں، جیسے صحابہ کرام کی عادت مبارکہ تھی، جس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے تھے۔ (ابن کثیر)۔ الزمر
24 1- یعنی کیا یہ شخص، اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو قیامت والے دن بالکل بے خوف اور امن میں ہوگا؟ یعنی محذوف عبارت ملا کر اس کا یہ مفہوم ہوگا۔ الزمر
25 1- اور انہیں ان عذابوں سے کوئی نہیں بچا سکا۔ الزمر
26 1- یہ کفار مکہ کو تنبیہ ہے کہ گزشتہ قوموں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، تو ان کا یہ حال ہوا، اور تم اشرف الرسل اور افضل الناس کی تکذیب کر رہے ہو، تمہیں بھی اس تکذیب کےانجام سے ڈرنا چاہیئے۔ الزمر
27 1- یعنی لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں باتیں بیٹھ جائیں اور وہ نصیحت حاصل کریں۔ الزمر
28 1- یعنی قرآن واضح عربی زبان میں ہے، جس میں کوئی کجی، انحراف اور التباس نہیں ہے تاکہ لوگ اس میں بیان کردہ وعیدوں سے ڈریں اور اس میں بیان کیے گئے وعدوں کا مصداق بننے کے لئے عمل کریں۔ الزمر
29 1- اس میں مشرک (اللہ کا شریک ٹھہرانے والے) اور مخلص (صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کرنے والے) کی مثال بیان کی گئی ہے۔ یعنی ایک غلام ہے جو کئی شخصوں کے درمیان مشترکہ ہے، چنانچہ وہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور ایک غلام ہے، جس کا مالک صرف ایک ہی شخص ہے، اس کی ملکیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ اسی طرح وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے۔ اور وہ مخلص مومن، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ برابر نہیں ہو سکتے۔ 2- اس بات پر کہ اس نے حجت قائم کر دی ۔ 3- اسی لئے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ الزمر
30 الزمر
31 1- یعنی اے پیغمبر (ﷺ) آپ بھی اور آپ کے مخالف بھی، سب موت سے ہم کنار ہوکر اس دنیا سے ہمارےپاس آخرت میں آئیں گے۔ دنیا میں تو توحید اور شرک کا فیصلہ تمہارے درمیان نہیں ہو سکا اور تم اس بارے میں جھگڑتے ہی رہے۔ لیکن یہاں میں اس کا فیصلہ کروں گا اور مخلص موحدین کو جنت میں اور مشرکین وجاحدین اور مکذبین کو جہنم میں داخل کروں گا۔ اس آیت سے بھی وفات النبی (ﷺ) کا اثبات ہوتا ہے، جس طرح کہ سورۃ آل عمران کی آیت 144 سے بھی ہوتا ہے اور انہی آیات سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) نے بھی لوگوں میں آپ (ﷺ) کی موت کا تحقق فرمایا تھا۔ اس لئے نبی (ﷺ) کی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو برزخ میں بالکل اسی طرح زندگی حاصل ہےجس طرح دنیا میں حاصل تھی، قرآن کی نصوص کے خلاف ہے۔ آپ (ﷺ) پر بھی دیگر انسانوں ہی کی طرح موت طاری ہوئی، اسی لئے آپ کو دفن کیا گیا، قبر میں آپ کو برزخی زندگی تو یقیناً حاصل ہے، جس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لیکن دوبارہ قبر میں آپ کودنیوی زندگی عطا نہیں کی گئی۔ (ﷺ) الزمر
32 1- یعنی دعویٰ کرے کہ اللہ کی اولاد ہے یااس کاشریک ہے یا اس کی بیوی ہے درآں حالیکہ وہ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ 2- جس میں توحید ہے، احکام وفرائض ہیں، عقیدۂ بعث ونشور ہے، محرمات سے اجتناب ہے، مومنین کے لیے خوش خبری اورکافروں کے لیے وعیدیں ہیں۔ یہ دین و شریعت جو حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) لے کر آئے، اسےوہ جھوٹا بتلائے۔ الزمر
33 1- اس سے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) مراد ہیں جو سچا دین لےکر آئے۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے اور اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو توحید کی دعوت دیتا اور اللہ کی شریعت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ 2- بعض اس سےحضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) مراد لیتے ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے رسول (ﷺ)کی تصدیق کی اور ان پرایمان لائے۔ بعض نے اسے بھی عام رکھا ہے، جس میں سب مومن شامل ہیں جو رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ کو سچا مانتےہیں۔ الزمر
34 1- یعنی اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بھی معاف فرما دے گا، ان کے درجے بھی بلند فرمائے گا، کیونکہ ہر مسلمان کی اللہ سے یہی خواہش ہوتی ہے علاوہ ازیں جنت میں جانے کے بعد ہرمطلوب چیز بھی ملے گی۔ 2- محسنین کا ایک مفہوم تو یہ ہے جو نیکیاں کرنے والے ہیں ،دوسرا وہ جو اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے ہیں، جیسے حدیث میں "احسان" کی تعریف کی گئی ہے[ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ] تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ”اگر یہ تصور ممکن نہ ہو تو یہ ضرور ذہن میں رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے“ تیسرا جو لوگوں کو ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرتے ہیں چوتھا ہر نیک عمل کو اچھے طریقے سے خشوع وخزوع سے اور سنت نبوی (ﷺ) کے مطابق کرتے ہیں۔ کثرت کے بجائے اس میں ”حسن“ کا خیال رکھتے ہیں۔ الزمر
35 الزمر
36 1- اس سے مراد نبی کریم ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے، تمام انبیاء علیہم السلام اورمومنین اس میں شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو غیر اللہ سے ڈراتےہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب آپ کاحامی وناصر ہو تو آپ کاکوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ ان سب کے مقابلے میں آپ کوکافی ہے۔ 2- جو گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر لگا دے۔ الزمر
37 1- جو اس کو ہدایت سے نکال کرگمراہی کے گڑھے میں ڈال دے۔ یعنی ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے،جس کو چاہے گمراہ کردے اور جس کو چاہے ہدایت سے نوازے۔ 2- کیوں نہیں، یقیناً ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ لوگ کفر وعناد سے باز نہ آئے تو یقناً وہ اپنے دوستوں کی جماعت میں ان سے انتقام لے گا اور انہیں عبرت ناک انجام سے دورچار کرے گا۔ الزمر
38 1- بعض کہتےہیں کہ جب نبی (ﷺ) نےمذکورہ سوال ان کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے کہا واقعی وہ اللہ کی تقدیر کو نہیں ٹال سکتے، البتہ وہ سفارش کریں گے، جس پر یہ ٹکڑا نازل ہوا کہ مجھے تو میرے معاملات میں اللہ ہی کافی ہے۔ 2- جب سب کچھ اسی کےاختیار میں ہے تو پھر دوسروں پر بھروسہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اس لیے اہل ایمان صرف اس پر توکل کرتے ہیں، اس کے سوا کسی پران کا اعتماد نہیں۔ الزمر
39 1- یعنی اگر تم میری اس دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے، توٹھیک ہے، تمہاری مرضی، تم اپنی اس حالت پر قائم رہو جس پرتم ہو، میں اس حالت پر رہتا ہوں جس پر مجھے اللہ نے رکھا ہے۔ الزمر
40 1- جس سے واضح ہو جائے گا کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اس سےمراد دنیا کا عذاب ہے جیسا کہ جنگ بدر میں ہوا۔ کافروں کےستر آدمی قتل اور ستر ہی آدمی قید ہوئے۔ حتیٰ کہ فتح مکہ کے بعد غلبہ وتمکن بھی مسلمانوں کو حاصل ہو گیا،جس کے بعد کافروں کے لیے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ باقی نہ رہا۔ 2- اس سے مراد عذاب جہنم ہے جس میں کافر ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ الزمر
41 1- نبی (ﷺ) کو اہل مکہ کا کفر پر اصرار بڑاگراں گزرتا تھا، اس میں آپ (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ (ﷺ) کا کام صرف اس کتاب کو بیان کر دیناہے جو ہم نے آپ (ﷺ) پر نازل کی ہے، ان کی ہدایت کے آپ (ﷺ) مکلف نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت کا راستہ اپنالیں گے تو اس میں انہی کا فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو خود ہی نقصان اٹھائیں گے۔ وکیل کے معنی مکلف اور ذمےدار کےہیں۔ یعنی آپ (ﷺ) ان کی ہدایت کے ذمے دار نہیں ہیں۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی ایک قدرت بالغہ اور صنعت عجیبہ کا تذکرہ فرمارہا ہے جس کا مشاہدہ ہر روز انسان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ سو جاتا ہے تو اس کی روح اللہ کے حکم سے گویا نکل جاتی ہے، کیونکہ اس کےاحساس وادراک کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔ اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو روح اس میں گویا دوبارہ بھیج دی جاتی ہے، جس سے اس کے حواس بحال ہو جاتے ہیں۔ البتہ جس کی زندگی کےدن پورے ہو چکے ہوتے ہیں، اس کی روح واپس نہیں آتی اور وہ موت سے ہمکنارہو جاتا ہے۔ اس کو بعض مفسرین نے وفات کبریٰ اور وفات صغریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ الزمر
42 1- یہ وفات کبریٰ ہے کہ روح قبض کرلی جاتی ہے، واپس نہیں آتی۔ 2- یعنی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا، تو سونے کے وقت ان کی روح بھی قبض کر کے انہیں وفات صغریٰ سے دوچارکردیا جاتا ہے۔ 3- یہ وہی وفات کبریٰ ہے، جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں روح روک لی جاتی ہے۔ 4- یعنی جب تک ان کا وقت موعود نہیں آتا، اس وقت تک کے لیے ان کی روحیں واپس ہوتی رہتی ہیں، یہ وفات صغریٰ ہے، یہی مضمون سورۃ الانعام: 60-61 میں بیان کیا گیا ہے، تاہم وہاں وفات صغری کا ذکرپہلے اور وفات کبریٰ کا بعد میں ہے۔ جب کہ یہاں اس کےبرعکس ہے۔ 5- یعنی یہ روح کا قبض اور اس کاارسال اورتوفی اور احیاء، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور قیامت والے دن وہ مردوں کو بھی یقیناً زندہ فرمائے گا۔ الزمر
43 1- یعنی شفاعت کا اختیار توکجا، انہیں تو شفاعت کے معنی ومفہوم کا بھی پتہ نہیں، کیونکہ وہ پتھر ہیں یا بے خبر۔ الزمر
44 1- یعنی شفاعت کی تمام اقسام کا مالک صرف اللہ ہی ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش ہی نہیں کرسکے گا، پھر صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کیوں نہ کی جائے تاکہ وہ راضی ہوجائے اور شفاعت کے لیے کوئی سہارا ڈھونڈھنےکی ضرورت ہی نہ رہے۔ الزمر
45 1- یا کفر اور استکبار، یا انقباض محسوس کرتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ مشرکین سے جب یہ کہا جائے کہ معبود صرف ایک ہی ہے توان کے دل یہ بات ماننے کےلیے تیار نہیں ہوتے۔ 2- ہاں جب یہ کہا جائے کہ فلاں فلاں بھی معبود ہیں، یا وہ بھی آخر اللہ کے نیک بندے ہیں، وہ بھی کچھ اختیار رکھتے ہیں، وہ بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتے ہیں، تو پھر مشرکین بڑے خوش ہوتے ہیں۔ منحرفین کا یہی حال آج بھی ہے۔ جب ان سے کہا جائے کہ صرف (یااللہ مدد) کہو، کیونکہ اس کے سوا کوئی مدد کرنے پر قادر نہیں ہے، تو سیخ پا ہو جاتےہیں، یہ جملہ ان کےلیے سخت ناگوار ہوتا ہے۔ لیکن جب ”یا علی مدد“ یا ”یا رسول اللہ مدد“ کہا جائے، اسی طرح دیگر مردوں سے استمداد واستغاثہ کیاجائے مثلاً ”یا شیخ عبدالقادر شیئا للہ“ وغیرہ تو پھر ان کے دل کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں۔ فَتَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ۔ الزمر
46 1- حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) رات کو تہجد کی نماز کے آغاز میں یہ پڑھا کرتے تھے [ اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِما اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقيِمٍ ](صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه الزمر
47 1- لیکن پھر بھی وہ قبول نہیں ہوگا، جیساکہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے۔ ﴿فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ﴾ (آل عمران: 91) ”وہ زمین بھر سونا بھی بدلے میں دے دیں، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا“۔ اس لیے کہ ﴿وَلا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ﴾ (البقرة: 48) ”وہاں معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا“۔ 2- یعنی عذاب کی شدت اور اس کی ہولناکیاں اور اس کی انواع و اقسام ایسی ہوں گی کہ کبھی ان کے گمان میں نہ آئی ہوں گی۔ الزمر
48 1- یعنی دنیا میں جن محارم ومآثم کا وہ ارتکاب کرتے رہے تھے، اس کی سزان کے سامنے آجائے گی۔ 2- وہ عذاب انہیں گھیر لے گا جسے وہ دنیا میں ناممکن سمجھتے تھے، اس لیے کہ اس کا اسہتزا اڑایا کرتے تھے۔ الزمر
49 1- یہ انسان کا بہ اعتبار جنس، ذکر ہے۔ یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری، فقر وفاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تواس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کےسامنے گڑگڑاتا ہے۔ 2- یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم وہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔ 3- یعنی بات وہ نہیں ہے جو توسمجھ رہا یا بیان کر رہا ہے، بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یا کفر؟ 4- اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔ الزمر
50 1- جس طرح قارون نے بھی کہا تھا، لیکن بالآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ ﴿فَمَا أَغْنَى﴾ میں مَا استفہامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی۔ دونوں طرح معنی صحیح ہے۔ الزمر
51 1- برائیوں سے مراد ان کی برائیوں کی جزا ہے، ان کو مشاکلت کے اعتبار سے سیئات کہا گیا ہے، ورنہ برائی کی جزابرائی نہیں ہے۔ جیسے ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا﴾ میں ہے۔ (فتح القدیر)۔ 2- یہ کفارمکہ کو تنبیہ ہے۔ چنانچہ ایساہی ہوا، یہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح قحط، قتل واسارت وغیرہ سے دوچار ہوئے، اللہ کی طرف سے آئے ہوئے ان عذابوں کو یہ روک نہیں سکے۔ الزمر
52 1- یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں بھی اللہ کی توحید کے دلائل ہیں یعنی اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں صرف اسی کا حکم و تصرف چلتا ہے، اسی کی تدبیر موثر اور کارگر ہے، اسی لیے وہ جس کو چاہتا ہے، رزق فراواں سے نواز دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقر وتنگ دستی میں مبتلا کر دیتاہے۔ اس کے ان فیصلوں میں، جو اس کی حکمت ومشیت پر مبنی ہوتے ہیں ، کوئی دخل انداز ہو سکتا ہےنہ ان میں ردوبدل کر سکتا ہے۔ تاہم یہ نشانیاں صرف اہل ایمان ہی کے لیے ہیں کیونکہ وہی ان پر غور وفکر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرتےہیں۔ الزمر
53 1- اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ”اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو“ کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا تو استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کیے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں تو بہت زیادہ گناہ گار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچےدل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبہ النصوح کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے۔ کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زناکاری کا ارتکاب کیا تھا، یہ نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (ﷺ) کی دعوت، صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطاکار ہیں، اگر ہم ایمان لے آئے تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے، جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ (صحیح بخاری،تفسیر سورۂ زمر) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ، اس کے احکام و فرائض کی مطلق پرواہ نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بے دردی سے پامال کرو۔ اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے۔ یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غَفُورٌ رَحِيمٌ ہے، وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں متعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا، مثلاً ﴿نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ﴾ (الحجر:50،49) غالباً یہی وجہ ہے کہ یہاں آیت کا آغاز يَا عِبَادِي (میرے بندوں) سےفرمایا، جس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ جو ایمان لاکر یا سچی توبہ کرکے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جائے گا، اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں گے تو وہ معاف فرما دے گا، وہ اپنے بندوں کے لیے یقیناً غفور رحیم ہے۔ جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کے توبہ کا واقعہ ہے، (صحيح بخاری، كتاب الأنبياء - مسلم ، كتاب التوبة ، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله الزمر
54 الزمر
55 1- یعنی عذاب آنے سے قبل توبہ اور عمل صالح کا اتمام کرلو، کیونکہ جب عذاب آئےگا تو اس کا تمہیں علم وشعور بھی نہیں ہوگا، اس سےمراد دنیوی عذاب ہے۔ الزمر
56 1- ﴿فِي جَنْبِ اللهِ کا مطلب، اللہ کی اطاعت یعنی قرآن اور اس پر عمل کرنےمیں کوتاہی ہے۔ یا جَنْبٌ کےمعنی قرب اور جوار کے ہیں۔ یعنی اللہ کا قرب اور اس کا جوار (یعنی جنت) طلب کرنے میں کوتاہی کی۔ الزمر
57 1- یعنی اگر اللہ مجھے ہدایت دے دیتا تو میں شرک اور معاصی سے بچ جاتا۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے دوسرے مقام پرمشرکین کا قول نقل کیا گیا ہے، ﴿لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا﴾ (الأنعام: 148) ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے“ ان کا یہ قول (كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا الْبَاطِلُ . . .) کامصداق ہے۔ (فتح القدیر)۔ الزمر
58 الزمر
59 1- یہ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش کے جواب میں فرمائے گا۔ الزمر
60 1- جس کی وجہ عذاب کی ہولناکیاں اور اللہ کے غضب کا مشاہدہ ہو گا۔ 2- حدیث میں ہے [ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ] (حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا، کبر ہے) یہ استفہام تقریری ہے۔ یعنی اللہ کی اطاعت سے تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ الزمر
61 1- مَفَازَةٌ، مصدر میمی ہے۔ یعنی فَوْزٌ (کامیابی) شر سے بچ جانا اور خیر اور سعادت سے ہم کنار ہوجانا، مطلب ہے، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو اس فوز وسعادت کی وجہ سے نجات عطا فرما دے گا، جو اللہ کے ہاں ان کے لیے پہلے سے ثبت ہے۔ 2- وہ دنیا میں جوکچھ چھوڑ آئے ہیں، اس پر انہیں کوئی غم نہیں ہوگا،وہ چونکہ قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوں گے، اس لیے انہیں کسی بات کا غم نہ ہو گا۔ الزمر
62 1- یعنی ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اورمالک بھی وہی،وہ جس طرح چاہے، تصرف اور تدبیر کرے۔ ہر چیز اس کے ماتحت اور زیر تصرف ہے۔ کسی کو سرتابی یا انکار کی مجال نہیں۔ وکیل، بمعنی محافظ اور مدبر۔ ہر چیز اس کے سپرد ہے اوروہ بغیرکسی کی مشارکت کے ان کی حفاطت اور تدبیرکر رہاہے۔ الزمر
63 1- مَقَالِيدُ، مِقْلِيدٌ اور مِقْلادٌ کی جمع ہے (فتح القدیر) بعض نے اس کا ترجمہ ”چابیاں“ اور بعض نے ”خزانے“ کیا ہے، مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ تمام معاملات کی باگ دوڑ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ 2- یعنی کامل خسارہ۔ کیونکہ اس کفر کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلے گئے۔ الزمر
64 1- یہ کفار کی اس دعوت کے جواب میں ہے جو پیغمبراسلام حضرت محمد (ﷺ) کو دیا کرتے تھے کہ اپنے آبائی دین کو اختیار کرلیں، جس میں بتوں کی عبادت تھی۔ الزمر
65 1- (اگر تو نے شرک کیا) کا مطلب ہے، اگر موت شرک پر آئی اوراس سے توبہ نہ کی۔ خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) سے ہے جو شرک سے پاک بھی تھے اور آئندہ کے لیے محفوظ بھی۔ کیونکہ پیغمبر اللہ کی حفاظت وعصمت میں ہوتا ہے، ان سے ارتکاب شرک کا کوئی امکان نہیں تھا، لیکن یہ دراصل امت کے لیے تعریض اور اس کو سمجھانا مقصود ہے۔ الزمر
66 1- ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ کی طرح یہاں بھی مفعول (اللہ) کومقدم کرکے حصر کا مفہوم پیدا کر دیا گیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو ! الزمر
67 1- کیونکہ اس کی بات بھی نہیں مانی ، جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے ان تک پہنچائی تھی اور عبادت بھی اس کے لیے خالص نہیں کی بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کرلیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک یہودی عالم نبی (ﷺ) کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اللہ کی بابت (کتابوں میں) یہ بات پاتے ہیں کہ وہ (قیامت والے دن) آسمانوں کو ایک انگلی پر،زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور ثری (تری) کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں)۔ آپ نے مسکرا کراس کی تصدیق فرمائی اور آیت ﴿وَمَا قَدَرُوا اللهَ﴾ کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۂ زمر) محدثین اور سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی جن صفات کا ذکرقرآن او احادیث صحیحہ میں ہے، (جس طرح اس آیت میں ہاتھ اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے) ان پر بلاکیف و تشبیہ اور بغیر تاویل وتحریف کے ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو مجرد غلبہ وقوت کے مفہوم میں لینا صحیح نہیں ہے۔ 2- اس کی بابت بھی حدیث میں آتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ [ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الأَرْض ] (میں بادشاہ ہوں۔ زمین کے بادشاہ (آج) کہاں ہیں؟ (حوالۂ مذکورہ)۔ الزمر
68 1- بعض کےنزدیک (نفخۂ فزع کے بعد) یہ نفخۂ ثانیہ یعنی نفخۂ صعق ہے،جس سے سب کی موت واقع ہو جائے گی۔ بعض کےنزدیک یہ نفخۂ اولیٰ ہی ہے، اس سے اولاً سخت گھبراہٹ طاری ہو گی اور پھر سب کی موت واقع ہو جائے گی۔ بعض نے ان نفخات کی ترتیب اس طرح بیان کی ہے۔ پہلا نَفْخَةُ الفَنَاءِ۔ دوسرا نَفْخَةُ الْبَعْثِ۔ تیسرا نَفْخَةُ الصَّعْقِ۔ چوتھا نَفْخَةُ الْقِيَامِ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (ایسر التفاسیر) بعض کے نزدیک صرف دو ہی نفخے ہیں نَفْخَةُ الْمَوْتِ اور نَفْخَةُ الْبَعْثِ اوربعض کے نزدیک تین۔ وَاللهُ أَعْلَمُ۔ 2- یعنی جن کو اللہ چاہے گا،ان کو موت نہیں آئے گی، جیسے جبرائیل، میکائل اور اسرافیل۔ بعض کہتےہیں رضوان فرشتہ، حَمَلَةُ الْعَرْشِ (عرش اٹھانے والے فرشتے) اور جنت وجہنم پر مقرر داروغے۔ (فتح القدیر)۔ 3- چار نفخوں کے قائلین کےنزدیک یہ چوتھا، تین کے قائلین کے نزدیک تیسرا اور دو کے قائلین کےنزدیک یہ دوسرا نفخہ ہے۔ بہرحال اس نفخے سے سب سے زندہ ہو کرمیدان محشر میں رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوجائیں گے، جہاں حساب کتاب ہوگا۔ الزمر
69 1- اس نور سے بعض نےعدل اور بعض نے حکم مراد لیا ہے لیکن اسے حقیقی معنوں پر محمول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، کیونکہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (قَالَهُ الشَّوْكَانِيُّ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ 2- نبیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام اپنی اپنی امتوں کوپہنچایا دیا تھا؟ یا یہ پوچھا جائے گا کہ تمہاری امتوں نے تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا، اسے قبول کیا یا اس کا انکار کیا؟ امت محمدیہ کو بطور گواہ لایا جائے گا جو اس بات کی گواہی دے گی کہ تیرے پیغمبروں نے تیرا پیغام اپنی اپنی قوم یا امت کوپہنچا دیا تھا، جیساکہ تو نے ہمیں اپنے قرآن کے ذریعے سے ان امور پرمطلع فرمایاتھا۔ 3- یعنی کسی اجر وثواب میں کمی نہیں ہوگی اورکسی کواس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔ الزمر
70 1- یعنی اس کو کسی کا تب،حاسب اور گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اعمال نامے اور گواہ صرف بطور حجت اور قطع معذرت کے ہوں گے۔ الزمر
71 1- زُمَرٌ زَمْرٌ سے مشتق ہے بمعنی آواز ، ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، مطلب ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا، ایک گروہ کےپیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا﴾ (الطور: 13) یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائےگا۔ 2- یعنی ان کے پہنچتے ہی فوراً جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیے جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔ 3- یعنی جس طرح دنیا میں بحث وتکرار اور جدل ومناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجانے کے بعد، بحث وجدال کی گنجائش ہی باقی نہ رہے گی، اس لیے اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔ 4- یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اورمخالفت کی، اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے، جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا، اس مضمون کو سورۃ الملک: 8-10 میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ الزمر
72 الزمر
73 1- اہل ایمان و تقویٰ بھی گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، پہلے مقربین، پھر ابرار، اس طرح درجہ بدرجہ، ہر گروہ ہم مرتبہ لوگوں پر مشتمل ہوگا۔ مثلاً انبیاء علیہم السلام، انبیاء علیہم السلام کےساتھ صدیقین شہداء اپنے ہم جنسوں کے ساتھ، علماء اپنے اقران کے ساتھ، یعنی ہر صنف اپنی ہی صنف یا اس کی مثل کے ساتھ ہوگی۔ (ابن کثیر) 2- حدیث میں آتا ہے، جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے ایک ریان ہے، جس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ (صحیح بخاری، نمبر 2257۔ مسلم، نمبر 808) اسی طرح دوسرے دروازوں کے نام بھی ہوں گے، جیسے باب الصلوٰۃ، باب الصدقہ، باب الجھاد وغیرہ (صحيح بخاری، كتاب الصيام، مسلم، كتاب الزكاة) ہر دروازے کی چوڑائی چالیس سال کی مسافت کے برابرہوگی، اس کے باوجود یہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ (صحيح مسلم كتاب الزهد) سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے نبی (ﷺ) ہوں گے۔ (مسلم كتاب الإيمان، باب أنا أول الناس يشفع) جنت میں سب سےپہلے جانے والے گروہ کے چہرے پر چودھویں رات کے چاند کی طرح اور دوسرے گروہ کےچہرے پر آسمان پر چمکنے والے ستاروں میں سے روشن ترین ستارے کی طرح چمکتےہوں گے۔ جنت میں وہ بول و براز اور تھوک، بلغم سے پاک ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی اور پسینہ کستوری ہوگا، ان کی انگیٹھیوں میں خوشبودار لکڑی ہو گی، ان کی بیویاں الحور العین ہوں گی، ان کا قد آدم (عليہ السلام) کی طرح ساٹھ ہاتھ ہوگا۔ (صحيح بخاری، أول كتاب الأنبياء) صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کو دو بیویاں ملیں گی، ان کے حسن وجمال کایہ حال ہوگا کہ ان کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا۔ (كتاب بدء الخلق ، باب ما جاء في صفة الجنة) بعض نے کہا یہ دو بیویاں حوروں کے علاوہ، دنیا کی عورتوں میں سے ہوں گی۔ لیکن چونکہ 72 حوروں والی روایت سنداً صحیح نہیں۔ اس لیے بظاہر یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ہر جنتی کی کم از کم حور سمیت دو بیویاں ہوگی۔ تاہم ﴿وَلَهُمْ فِيهَا مَا يَشْتَهُونَ﴾ کے تحت زیادہ بھی ممکن ہیں۔ واللہ اعلم (مزید دیکھئے فتح الباری۔ باب مذکور) الزمر
74 الزمر
75 1- قضائے الٰہی کے بعد جب اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر وشرک جہنم میں چلے جائیں گے، آیت میں اس کے بعد کا نقشہ بیان کیا گیا ہے کہ فرشتے عرش الٰہی کو گھیرے ہوئے تسبیح وتحمید میں مصروف ہوں گے۔ 2- یہاں حمد کی نسبت کسی ایک مخلوق کی طرف نہیں کی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز (ناطق وغیر ناطق) کی زبان پر حمد الٰہی کے ترانے ہوں گے۔ الزمر
0 غافر
1 غافر
2 1- یا تَنْزِيلٌ ، مُنَزَّلٌ، منزل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں۔ 2- جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔ غافر
3 1- گزشتہ گناہوں کو معاف کرنے والا اورمستقبل میں ہونے والی کوتاہیوں پر توبہ قبول کرنے والاہے۔ یا اپنے دوستوں کے لیے غافر ہے اور کافر ومشرک اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کرنےوالا ہے۔ 2- ان کے لی ے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیں اور تمرد وطغیان کا راستہ اختیار کریں یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہی ہے۔ ﴿نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ﴾ (الحجر: 49۔ 50) ”میرے بندوں کوبتلا دو کہ میں غفور ورحیم ہوں اور میرا عذاب بھی نہایت درد ناک ہے“ قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ دونوں وصف ساتھ ساتھ بیان کیےگئے ہیں تاکہ انسان خوف اور رجا کے درمیان رہے۔ کیونکہ محض خوف ہی، انسان کو رحمت ومغفرت الٰہی سے مایوس کر سکتا ہے اورنری امید گناہوں پر دلیرکردیتی ہے۔ 3- طَوْلٌ کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں، یعنی وہی فراخی اور توانگری عطاکرنےوالا ہے۔ بعض کہتےہیں اس کےمعنی ہیں، انعام اور تفضل۔ یعنی اپنے بندوں پر انعام اور فضل کرنے والا ہے۔ غافر
4 1- اس جھگڑے سےمراد ناجائز اور باطل جھگڑا (جدال) ہے جس کا مقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید وتغلیظ ہے ورنہ جس جدال (بحث ومناظرہ) کا مقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین ومعترضین کے شبہات کا ازالہ ہو، وہ مذموم نہیں نہایت محمود ومستحسن ہے۔ بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے، ﴿لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلا تَكْتُمُونَهُ﴾ (آل عمران: 187) ”تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا، اسے چھپانا نہیں“۔ بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل وبراہین کوچھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پرکائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے، (البقرۃ: 159)۔ 2- یعنی یہ کافر ومشرک جو تجارت کرتے ہیں، اس کے لیے مختلف شہروں میں آتے جاتے اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مواخذۂ الٰہی میں آجائیں گے، یہ مہلت ضروردیئے جارہے ہیں لیکن انہیں مہمل نہیں چھوڑاجائے گا۔ غافر
5 1- تاکہ اسے قید یا قتل کردیں یا سزا دیں۔ 2- یعنی اپنے رسولوں سے انہوں نے جھگڑاکیا، جس سے مقصود حق بات میں کیڑے نکالنا اور اسے کمزور کرنا تھا۔ 3- چنانچہ میں نے ان حامیان باطل کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا،پس تم دیکھ لو ان کےحق میں میرا عذاب کس طرح آیا اور کیسے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا یا انہیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ غافر
6 1- مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کردی گئیں، اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدال بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جائیں گے، پھرکوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔ غافر
7 1- اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کی وضاحت ہے، یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئےہیں اور وہ جو عرش کے اردگرد ہیں۔ ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں، یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ، کمالات اور خوبیوں کا اس کے لیے اثبات اور اس کے سامنے عجز وتذلل یعنی (ایمان) کا اظہار کرتے ہیں۔ دوسرا کام ا ن کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، کہا جاتا ہےکہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں، مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہو گی۔ (ابن کثیر)۔ غافر
8 1- یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ﴾ (الطور: 21) ”وہ لوگ جو ایمان لائےاور ان ہی کی پیروی ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ کی۔ ملا دیا ہم نے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اورہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا“۔ یعنی سب کو جنت میں اس طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلیٰ مقام عطا کر دیا۔ یہ نہیں کیا کہ اعلیٰ مقام میں کمی کر کے انہیں ادنیٰ مقام پر لے آئے، بلکہ ادنیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کردیا اور اس کےعمل کی کمی کو اپنے فضل وکرم سے پورا کر دیا۔ غافر
9 1- سیئات سے مراد یہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاوں سے یا برائیوں سے بچانا۔ 2- یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہو جانا، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں۔ ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں، ایک تویہ کہ فرشتے ان کے لیےغائبانہ دعاکرتے ہیں۔ (جس کی حدیث میں بڑی فضیلت واردہے) دوسری، یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے۔( جَعَلَنَا اللهُ مِنَ الَّذِينَ يُلْحِقُهُمُ اللهُ بِآبَائِهِمُ الصَّالِحِينَ غافر
10 1- مَقْتٌ، سخت ناراضی کو کہتے ہیں۔ اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے، تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہوں گے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔ غافر
11 1- جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق، دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے جو باپ کی پشت میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کے وجود (ہست) سے پہلےاس کے عدم وجود (نیست) کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی، یہ دینوی زندگی ہے، جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام، وفات پرہوتا ہے۔ اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی۔ انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کاتذکرہ، ﴿وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ﴾ (البقرة: 28) میں بھی کیا گیا ہے۔ 2- یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہوں گے جہاں پشیمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔ 3- یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے، تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔ غافر
12 1- یہ ان کے جہنم سے نہ نکالے جانے کا سبب بیان فرمایا ہے کہ تم دنیا میں اللہ کی توحید کے منکر تھے اور شرک تمہیں مرغوب تھا، اس لیے اب جہنم کے دائمی عذاب کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔ 2- اسی ایک اللہ کا حکم ہے کہ اب تمہارے لیے جہنم کا عذاب ہمیشہ کے لیے ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔ جو عَلِيٌّ ، یعنی ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات یا صفات میں کوئی اس جیسا ہو اور كَبِيرٌ یعنی ان باتوں سے بہت بڑا ہےکہ اس کی کوئی مثل ہو یا بیوی اور اولاد ہو یا شریک ہو۔ غافر
13 1- یعنی پانی جو تمہارے لیے تمہاری روزیوں کا سبب ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اظہار آیات کو انزال رزق کے ساتھ جمع فرما دیا ہے۔ اس لیے کہ آیات قدرت کا اظہار، ادیان کی بنیاد ہے اور روزیاں ابدان کی بنیاد ہیں۔ یوں یہاں دونوں بنیادوں کو جمع فرما دیا گیا ہے۔ (فتح القدیر)۔ 2- اللہ کی اطاعت کی طرف، جس سے ان کے دلوں میں آخرت کا خوف پیدا ہوتا ہے اور احکام وفرائض الٰہی کی پابندی کرتے ہیں۔ غافر
14 1- یعنی جب سب کچھ اللہ ہی اکیلا کرنے والا ہے تو کافروں کو چاہے،کتنا بھی ناگوار گزرے، صرف اسی ایک اللہ کو پکارو، اس کے لیے عبادت واطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ غافر
15 1- رُوحٌ سے مراد وحی ہے جو وہ بندوں میں سے ہی کسی کو رسالت کے لیے چن کر، اس پر نازل فرماتا ہے، وحی کو روح سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ جس طرح روح میں انسانی زندگی کی بقا وسلامتی کا راز مضمر ہے۔ اس طرح وحی سے بھی ان انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے جو پہلے کفر وشک کی وجہ سے مردہ ہوتے ہیں۔ غافر
16 1- یعنی زندہ ہوکر قبروں سے باہر نکل کھڑے ہوں گے۔ 2- یہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا، جب سارے انسان اس کے سامنے میدان محشر میں جمع ہوں گے، اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، اور کہے گا میں بادشاہ ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ (صحیح بخاری، سورۂ زمر)۔ 3- جب کوئی نہیں بولے گا تو یہ جواب اللہ تعالیٰ خود ہی دے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ منادی کرے گا، جس کے ساتھ ہی تمام کافر اور مسلمان بیک آواز یہی جواب دیں گے۔ (فتح القدیر)۔ غافر
17 1- اس لیے کہ اسے بندوں کی طرح غور وفکر کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ غافر
18 1- آزِفَةٌ کے معنی ہیں قریب آنے والی۔ یہ قیامت کا نام ہے، اس لیے کہ وہ بھی قریب آنے والی ہے۔ 2- یعنی اس دن خوف کی وجہ سے دل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے۔ كَاظِمِينَ غم سے بھرے ہوئے، یا روتے ہوئے، یا خاموش، اس کےتینوں معنی کیے گئے ہیں۔ غافر
19 1- اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کامل کا بیان ہے کہ اسے تمام اشیا کا علم ہے۔ چھوٹی ہو یا بڑی، باریک ہو یا موٹی، اعلیٰ مرتبے کی ہو یا چھوٹے مرتبے کی۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ جب اس کے علم واحاطہ کا یہ حال ہے تو اس کی نافرمانی سے اجتناب اور صحیح معنوں میں اس کا خوف اپنےاندر پیدا کرے۔ آنکھوں کی خیانت یہ ہے کہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا جائے۔ جیسے راہ چلتے کسی حسین عورت کو کنکھیوں سےدیکھنا۔ (سینوں کی باتوں میں) وہ وسوسے سے بھی آجاتے ہیں جوانسان کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، وہ جب تک وسوسےہی رہتےہیں یعنی ایک لمحۂ گزراں کی طرح آتے اور ختم ہو جاتے ہیں، تب تک تو وہ قابل مواخدہ نہیں ہوں گے۔ لیکن جب وہ عزائم کا روپ دھارلیں تو پھر ان کا مواخدہ ہو سکتا ہے، چاہےان پر عمل کرنے کا انسان کوموقع نہ ملے۔ غافر
20 1- اس لیے کہ انہیں کسی چیز کا علم ہے نہ کسی پر قدرت، وہ بےخبر بھی ہیں اور بے اختیار بھی، جب کہ فیصلے کے لیے علم واختیار دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اور یہ دونوں خوبیاں صرف اللہ کےپاس ہیں، اس لیے صرف اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور وہ یقیناً حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا، کیونکہ اسے کسی کا خوف نہ ہوگا نہ کسی سے حرص وطمع۔ غافر
21 1- گزشتہ آیات میں احوال آخرت کا بیان تھا، اب دنیا کے احوال سے انہیں ڈرایا جارہاہے کہ یہ لوگ ذرا زمین میں چل پھر کران قوموں کا انجام دیکھیں، جو ان سے پہلے اس جرم تکذیب میں ہلاک کی گئیں، جس کا ارتکاب یہ کر رہے ہیں درآں حالیکہ گزشتہ قومیں قوت وآثار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھیں، لیکن جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو انہیں کوئی نہیں بچا سکا۔ اسی طرح تم پر بھی عذاب آسکتا ہے، اور اگر یہ آگیا تو پھر کوئی تمہارا پشت پناہ نہ ہوگا۔ غافر
22 1- یہ ان کی ہلاکت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور پیغمبروں کی تکذیب۔ اب سلسلۂ نبوت و رسالت تو بند ہے تاہم آفاق وانفس میں بے شمار آیات الٰہی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں وعظ و تذکیر اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے علما اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشان دہی کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے آج بھی جو آیات الٰہی سے اعراض اور دین و شریعت سے غفلت کرے گا، اس کا انجام مکذبین اور منکرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔ غافر
23 1- آیات سے مراد وہ نو نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے، یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی سُلْطَانٍ مُبِينٍ سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ، جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا، بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔ غافر
24 1- فرعون، مصر میں آباد قبط کا بادشاہ تھا، بڑا ظالم وجابر اور رب اعلیٰ ہونے کا دعوے دار۔ اس نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کوغلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا، جیساکہ قرآن کے متعدد مقامات پر اس کی تفصیل ہے۔ ہامان، فرعون کا وزیر اورمشیر خاص تھا۔ قارون اپنے وقت کامال دار ترین آدمی تھا،ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ﴿َذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ﴾ (سورة الذاريات: 53-52) ”اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں، ان کے پاس جو بھی نبی آیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں“۔ غافر
25 1- فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو، جو نجومیوں کی پیش گوئی کےمطابق، اس کی بادشاہت کےلیے خطرے کا باعث تھا۔ یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی تذلیل و اہانت کے لیے دیا، نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ (عليہ السلام) کے وجود کو اپنے لیے مصیبت اور نحوست کاباعث سمجھیں، جیسا کہ فی الواقع انہوں نے کہا، ﴿أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾ (الأعراف: 129) ”اے موسیٰ (عليہ السلام) تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دوچار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے“۔ غافر
26 1- یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہی غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔ 2- یہ غالباً فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (عليہ السلام) کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔ 3- یہ فرعون کی دیدہ دلیری کا اظہارہے کہ میں دیکھوں گا، اس کارب اسے کیسے بچاتا ہے،اسے پکار کر دیکھ لے۔ یارب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچالے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔ 4- یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی، تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث وتکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو گا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے فساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا۔ دراں حالیکہ فسادی وہ خود تھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔ غافر
27 1- حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کےعلم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کے لیے دعا مانگی۔ نبی (ﷺ) کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے [ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهُمْ وَنعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ ] (مسند أحمد 4 /415) ”اے اللہ ! ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں“۔ غافر
28 1- یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ 2- یہ اس نے بطور تنزل کے کہا، کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل ودانش اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا وآخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناً وہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے، تم پران میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔ 3- اس کا مطلب ہے کہ اگروہ جھوٹا ہوتا (جیساکہ تم باور کراتے ہو) تو اللہ تعالیٰ اسےدلائل و معجزات سے نہ نوازتا، جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا، تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غافر
29 1- یعنی یہ اللہ کاتم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کاشکر ادا کرو ! اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضی مول نہ لو۔ 2- یہ فوجی اور لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آ گیا۔ یہاں تک اس مومن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔ 3- فرعون نے اپنے دنیوی جاہ و جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ﴿وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ﴾ (هود: 97)۔ غافر
30 غافر
31 1- یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب پر ہم اڑے رہے، تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آجائیں گے۔ 2- یعنی اللہ نے جن کو بھی ہلاک کیا، ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب ومخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا، ورنہ وہ شفیق ورحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا۔ گویا قوموں کی ہلاکت، یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنیٰ نہیں: از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو از جو غافر
32 1- تَنَادِي کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا، قیامت کو ”يَوْمَ التَّنَادِ“ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (الاعراف: 49-48) بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا، جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا، اس کی بدبختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا، بعض کہتے ہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کوپکارا جائے گا، جیسے اہل جنت کو اے جنتیو! اور اہل جہنم کو اے جہنمیو! امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔ غافر
33 1- یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے۔ 2- جو اسے ہدایت کا راستہ بتا سکے یعنی اس پر چلا سکے۔ غافر
34 1- یعنی اے اہل مصر! حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے قبل تمہارے اسی علاقے میں، جس میں تم آباد ہو، حضرت یوسف (عليہ السلام) بھی دلائل وبراہین کے ساتھ آئےتھے۔ جس میں تمہارے آبا واجداد کو ایمان کی دعوت دی گئی تھی یعنی جَاءَكُمْ سےمراد جَاءَ إِلَى آبَائِكُمْ ہے یعنی تمہارے آبا واجدادکے پاس آئے۔ 2- لیکن تم ان پر بھی ایمان نہیں لائے اور ان کی دعوت میں شک وشبہ ہی کرتے رہے۔ 3- یعنی یوسف (عليہ السلام) پیغمبر کی وفات ہو گئی۔ 4- یعنی تمہارا شیوہ چونکہ ہر پیغمبرکی تکذیب اورمخالفت ہی رہا ہے، اس لیے سمجھتے تھے کہ اب کوئی رسول ہی نہیں آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ رسول کا آنا یا نہ آنا، تمہارے لیے برابر ہے یا یہ مطلوب ہے کہ ایسا باعظمت انسان کہاں پیدا ہو سکتا ہے جورسالت سے سرفراز ہو۔ گویا بعد از مرگ حضرت یوسف (عليہ السلام) کی عظمت کا اعتراف تھا۔ اور بہت سے لوگ ہر اہم ترین انسان کی وفات کے بعد یہی کہتے ہیں۔ 5- یعنی اس واضح گمراہی کی طرح، جس میں تم مبتلا ہو، اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو بھی گمراہ کرتا ہے جو نہایت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرتا اور اللہ کے دین، اس کی وحدانیت اور اس کے وعدوں وعیدوں میں شک کرتا ہے۔ غافر
35 1- یعنی اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود اللہ کی توحید اور اس کے احکام میں جھگڑتے ہیں، جیساکہ ہر دور کے اہل باطن کا وطیرہ رہا ہے۔ 2- یعنی ان کی اس حرکت شنیعہ سے اللہ تعالیٰ ہی ناراض نہیں ہوتا، اہل ایمان بھی اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ 3- یعنی جس طرح ان مجادلین کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے، اسی طرح ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے، جو اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں تکبر اور سرکشی کا اظہار کرتا ہے، جس کے بعد معروف، ان کو معروف اور منکر، منکر نظر نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ منکر، ان کے ہاں معروف اورمعروف، منکر قرار پاتا ہے۔ غافر
36 1- یہ فرعون کی سرکشی اور تمرد کا بیان ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو ایک بلند عمارت بنانے کا حکم دیا تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائے۔ اسباب کے معنی دروازے، یا راستے کے ہیں۔ مزید دیکھیے القصص، آیت 28۔ غافر
37 1- یعنی دیکھوں کہ آسمانوں پر کیاواقعی کوئی الہٰ ہے؟ 2- اس بات میں کہ آسمان پر اللہ ہےجو آسمان و زمین کا خالق اور ان کا مدبر ہے۔ یااس بات میں کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ 3- یعنی شیطان نے اس طرح اسے گمراہ کیے رکھا اور اس کے برے عمل اسے اچھے نظر آتے رہے۔ 4- یعنی حق اور صواب (درست) راستے سے اسے روک دیا گیا اور وہ گمراہیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا۔ 5- تَبَابٌ۔ خسارہ، ہلاکت۔ یعنی فرعون نے جو تدبیراختیارکی، اس کا نتیجہ اس کے حق میں برا ہی نکلا۔ اور بالآخر اپنے لشکر سمیت پانی میں ڈبو دیا گیا۔ غافر
38 1- فرعون کی قوم میں سے ایمان لانے والا پھر بولا۔ اور کہا کہ دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستے پرچلا رہا ہوں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون بھٹکا ہوا ہے، میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں،وہ سیدھا راستہ ہے اور وہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) دعوت دے رہے ہیں۔ غافر
39 1- جس کی زندگی چند روزہ ہے اور وہ بھی آخرت کے مقابلے میں صبح یا شام کی ایک گھڑی کے برابر۔ 2- جس کو زوال اور فنا نہیں، نہ وہاں سے انتقال اورکوچ ہوگا۔ کوئی جنت میں جائے یا جہنم میں، دونوں کی زندگیاں ابدی ہوں گی۔ ایک راحت اور آرام کی زندگی۔ دوسری، شقاوت اور عذاب کی زندگی . موت اہل جنت کو آئے گی نہ اہل جہنم کو۔ غافر
40 1- یعنی برائی کی مثل ہی جزاہو گی، زیادہ نہیں۔ اوراس کے مطابق ہی عذاب ہوگا۔ جو عدل وانصاف کا آئینہ دار ہوگا۔ 2- یعنی وہ جو ایمان دار بھی ہوں گے اور اعمال صالحہ کے پابند بھی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اعمال صالحہ کے بغیر محض ایمان یا ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کی حیثیت اللہ کےہاں کچھ نہیں ہوگی، عنداللہ کامیابی کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالح اور عمل صالح کے ساتھ ایمان ضروری ہے۔ 3- یعنی بغیر اندازے اور حساب کے نعمتیں ملیں گی اور ان کے ختم ہونے کا بھی کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔ غافر
41 1- اور وہ یہ کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں ہے اوراس کے اس رسول کی تصدیق کرو، جو اس نے تمہاری ہدایت اور رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ 2- یعنی توحید کے بجائے شرک کی دعوت دے رہے ہو جو انسان کو جہنم میں لےجانے والا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں وضاحت ہے۔ غافر
42 1- عَزِيزٌ (غالب) جوکافروں سے انتقام لینے اور ان کو عذاب دینے پر قادر ہے۔ غَفَّارٌ اپنے ماننے والوں کی غلطیوں، کوتاہیوں کو معاف کر دینے والا اور ان کی پردہ پوشی کرنے والا۔ جب کہ تم جن کی عبادت کرنے کی طرف مجھے بلا رہے ہو، وہ بالکل حقیر اور کم تر چیزیں ہیں، نہ وہ سن سکتی ہیں نہ جواب دے سکتی ہیں، کسی کو نفع پہنچانے پرقادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر۔ غافر
43 1- لا جَرَمَ یہ بات یقینی ہے، یا اس میں جھوٹ نہیں ہے۔ 2- یعنی وہ کسی کی پکار سننے کی استعداد ہی نہیں رکھتے کہ کسی کونفع پہنچا سکیں یا الوہیت کا استحقاق انہیں حاصل ہو۔ اس کا تقریباً وہی مفہوم ہے جو اس آیت اور اس جیسی دیگر متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے، ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ﴾ (الأحقاف: 5) ﴿إِنْ تَدْعُوهُمْ لا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ﴾ (فاطر: 14) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے۔ 3- یعنی آخرت میں ہی وہ پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر یا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں؟ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہو سکتی ہیں کہ وہ معبود بنیں اور ان کی عبادت کی جائے؟ 4- جہاں ہر ایک کا حساب ہوگا اور عمل کے مطابق اچھی یا بری جزا دی جائےگی۔ 5- یعنی کافر ومشرک، جو اللہ کی نافرمانی میں ہرحد سے تجاوز کر جاتے ہیں، اس طرح جو بہت زیادہ گناہ گار مسلمان ہوں گے، جن کی نافرمانیاں اسراف کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی، انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہوگی۔ تاہم بعد میں شفاعت رسول (ﷺ) یا اللہ کی مشیت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ غافر
44 1- عنقریب وہ وقت آئے گا جب میری باتوں کی صداقت، اور جن باتوں سےروکتا تھا،ان کی شناعت تم پر واضح ہو جائےگی، پھر تم ندامت کا اظہار کرو گے، مگر وہ وقت ایسا ہوگا کہ ندامت بھی کوئی فائدہ نہیں دےگی۔ 2- یعنی اسی پر بھروسہ کرتا اور اسی سے ہر وقت استعانت کرتا ہوں اور تم سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتاہوں۔ 3- وہ انہیں دیکھ رہا ہے۔ پس وہ مستحق ہدایت کو ہدایت سے نوازتا اور ضلالت کا استحقاق رکھنے والے کو ضلالت سے ہمکنار کرتا ہے۔ ان امور میں جو حکمتیں ہیں، ان کو وہی خوب جانتا ہے۔ غافر
45 1- یعنی اس کی قوم قبط نے اس مومن کے اظہارکی وجہ سے اس کےخلاف جو تدبیریں اور سازشیں سوچ رکھی تھیں، ان سب کو ناکام بنا دیا اور اسے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے ساتھ نجات دے دی۔ اور آخرت میں اس کا گھر جنت ہوگا۔ 2- یعنی دنیا میں انہیں سمندر میں غرق کر دیا گیا اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کا سخت ترین عذاب ہے۔ غافر
46 1- اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں وہ لوگ روزانہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، جس سے عذاب قبرکا اثبات ہوتا ہے۔ جس کا بعض لوگ انکار کرتےہیں۔ احادیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے سوال کے جواب میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا [ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ ] (صحيح بخاری ، كتاب الجنائز ، باب ما جاء في عذاب القبر) ہاں قبر کا عذاب حق ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر میں) اس پر صبح وشام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے، جہاں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے بھیجے گا۔ (صحيح بخاری، باب الميت يعرض عليه مقعده بالغداة والعشي - مسلم ، كتاب الجنة ، باب عرض مقعد الميت) اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن وحدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ 2- اس سے بالکل واضح ہے کہ عرض علی النار کا معاملہ، جو صبح وشام ہوتا ہے، قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے۔ قیامت والے دن ان کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ آل فرعون سے مراد فرعون، اس کی قوم اور اس کے سارے پیروکار ہیں۔ یہ کہنا کہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے، اسے اگر عذاب ہو تو اس طرح نظر نہ آئے لغو ہے کیونکہ عذاب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں نظر بھی آئے۔ اللہ تعالیٰ ہرطرح عذاب دینے پر قادر ہے۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ خواب میں ایک شخص نہایت المناک مناظر دیکھ کر سخت کرب واذیت محسوس کرتا ہے لیکن دیکھنے والوں کو ذرا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص شدید تکلیف سے دوچار ہے۔ اس کے باوجود عذاب قبرکا انکار، محض ہٹ دھرمی اور بے جا تحکم ہے۔ بلکہ بیداری میں بھی انسان کو جو تکالیف ہوتی ہیں وہ خود ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ صرف انسان کا تڑپنا اور تلملانا ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ تڑپے اور تلملائے۔ غافر
47 غافر
48 غافر
49 غافر
50 1- ہم ایسےلوگوں کےحق میں اس سے کیوں کر کچھ کہہ سکتے یں جن کے پاس اللہ کے پیغمبر دلائل ومعجزات لےکر آئے لیکن انہوں نے پروا نہیں کی؟ 2- یعنی بالآخروہ تو خود ہی اللہ سے فریادکریں گے لیکن اس فریاد کی وہاں شنوائی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا میں ان پر حجت تمام کی جاچکی تھی۔ اب آخرت تو، ایمان، توبہ اور عمل کی جگہ نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کا نتیجہ وہاں بھگتنا ہوگا۔ غافر
51 1- یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض نبی قتل کردیئے گئے، جیسے حضرت یحیٰی وزکریا علیہما السلام وغیرھما ا ور بعض ہجرت پر مجبور ہو گئے، جیسے ابراہیم (عليہ السلام) اور ہمارے پیغمبر (ﷺ) اور صحابہ کرام (رضوان اللہ علہیم اجمعین)، وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ دراصل وہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے،اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر بعض دفعہ اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے۔ لیکن بالآخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت یحیٰی وزکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالی نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا، جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل وخوار کیا، جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو سولی دےکر مارنا چاہا، اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انھوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا۔ پیغمبر اسلام (ﷺ) اور ان کے رفقا یقیناً ہجرت پرمجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوۂ خیبراور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا، اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ (ابن کثیر)۔ 2- أَشْهَادٌ، شَهِيدٌ (گواہ) کی جمع ہے۔ جیسے شریف کی جمع اشراف ہے۔ قیامت والے دن فرشتے اور انبیا علہیم السلام گواہی دیں گے۔ یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یااللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کی تکذیب کی۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم (ﷺ) بھی گواہی دیں گے۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ اس لیے قیامت کو گواہوں کےکھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ غافر
52 1- یعنی اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار۔ اورمعذرت کا فائدہ اس لیے نہیں ہوگا کہ وہ معذرت کی جگہ نہیں، اس لیے یہ معذرت، معذرت باطلہ ہوگی۔ غافر
53 1- یعنی نبوت اور تورات عطاکی۔ جیسے فرمایا، ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ﴾ (المائدة: 44)۔ 2- یعنی تورات، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے بعد بھی باقی رہی، جس کے نسلاً بعد نسل وہ وارث ہوتے رہے۔ یا کتاب سےمراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں، ان سب کتابوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔ غافر
54 1- هُدًى وَذِكْرَى مصدر ہیں اور حال کی جگہ واقع ہیں، اس لیے منصوب ہیں۔ بمعنی هَادٍ اور مُذَكِّرٍ ہدایت دینے والی اور نصیحت کرنے والی۔ عقل مندوں سےمراد عقل سلیم کے مالک ہیں۔ کیونکہ وہی آسمانی کتابوں سے فائدہ اٹھاتےاور ہدایت ونصیحت حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ تو گدھوں کی طرح ہیں جن پر کتابوں کا بوجھ تو لدا ہوتا ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے؟ غافر
55 1- گناہ سے مراد وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہوجاتی ہیں۔ جن کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دی جاتی ہے۔ یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر وثواب کی زیادتی کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بےنیاز نہ ہوں۔ 2- عَشِيٌّ سے، دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور أَبْكَارٌ سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔ غافر
56 1- یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث و حجت کرتے ہیں، یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، تاہم اس سے جو ان کا مقصد ہے کہ حق کمزور اور باطل مضبوط ہو، وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا۔ غافر
57 1- یعنی پھر یہ کیوں اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ جب کہ یہ کام آسمان وزمین کی تخلیق سے بہت آسان ہے۔ غافر
58 1- مطلب ہے جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں، اسی طرح مومن وکافر اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں، بلکہ قیامت کے دن ان کے درمیان جو عظیم فرق ہوگا، وہ بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گا۔ غافر
59 غافر
60 1- گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا، تو اب اس آیت میں ایسی رہنمائی دی جارہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے۔ اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے۔ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ [ الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ] اور [ الدَّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ ] (مسند أحمد 4/271 مشكاة الدعوات) علاوہ ازیں اس کے بعد ﴿يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي کے الفاظ سے بھی واضح ہے کہ مراد عبادت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اورحقیقی معنی مطلب کرنے کے ہیں، دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کی اعتبار سے اور حدیث مذکور کی رو سے بھی عبادت ہی ہے، کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سےکسی سے کوئی چیز مانگنا اور اس سے سوال کرنا، یہ اس کی عبادت ہی ہے۔ (فتح القدیر) مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو طلب حاجات اور مدد کے لیے پکارنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ 2- یہ اللہ کی عبادت سے انکار واعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔ غافر
61 1- یعنی رات کو تاریک بنایا، تاکہ کاروبار زندگی معطل ہو جائیں اور لوگ امن وسکون سے سو سکیں۔ 2- یعنی روشن بنایا تاکہ معاشی محنت اور تگ ودو میں تکلیف نہ ہو۔ 3- اللہ کی نعمتوں کا، اور نہ ان کا اعتراف ہی کرتے ہیں۔ یا تو کفر وجحود کی وجہ سے، جیساکہ کافروں کا شیوہ ہے۔ یا منعم کے واجبات شکر سے اہمال وغفلت کی وجہ سے جیسا کہ جاہلوں کا شعار ہے۔ غافر
62 1- یعنی پھر تم اس کی عبادت سے کیوں بدکتے ہو اور اس کی توحید سے کیوں پھرتے اور اینٹھتے ہو۔ غافر
63 غافر
64 1- آگے نعمتوں کی کچھ قسمیں بیان کی جارہی ہیں تاکہ اللہ کی قدرت کاملہ بھی واضح ہو جائے اور اس کا بلا شرکت غیرے معبود ہونا بھی۔ 2- جس میں تم رہتے ہو، چلتے پھرتے، کاروبار کرتے اور زندگی گزارتے ہو، پھر بالآخر موت سے ہمکنار ہو کر قیامت تک کے لیے اسی میں آسودۂ خواب رہتے ہو۔ 3- یعنی قائم اور ثابت رہنے والی چھت۔ اگر اس کے گرنے کا اندیشہ رہتا توکوئی شخص آرام کی نیند سو سکتا تھا نہ کسی کے لیے کاروبار حیات کرنا ممکن ہوتا۔ 4- جتنے بھی روئے زمین پر حیوانات ہیں، ان سب میں (تم) انسانوں کو سب سے زیادہ خوش شکل اور متناسب الأعضا بنایا ہے۔ 5- یعنی اقسام وانواع کے کھانے تمہارے لیے مہیا کیے، جو لذیذ بھی ہیں اور قوت بخش بھی۔ غافر
65 1- یعنی جب سب کچھ کرنے والا اور دینے والا وہی ہے۔ دوسرا کوئی، بنانے میں شریک ہے نہ اختیارات میں۔ تو پھر عبادت کا مستحق بھی صرف ایک اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ استمداد واستغاثہ بھی اسی سے کرو کہ وہی سب کی فریادیں اور التجائیں سننے پر قادر ہے۔ دوسرا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقے سے کسی کی بات سننے پر قادر ہی نہیں ہے، جب یہ بات ہے تو دوسرے مشکل کشائی اور حاجت روائی کس طرح کرسکتے ہیں؟ غافر
66 1- چاہے وہ پتھر کی مورتیاں ہوں، انبیاء علہیم السلام اور صلحاء ہوں اور قبروں میں مدفون اشخاص ہوں . مدد کے لیے کسی کو مت پکارو، ان کے ناموں کی نذر نیاز مت دو، ان کے ورد نہ کرو، ان سے خوف مت کھاؤ اور ان سے امیدیں وابستہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں جو صرف ایک اللہ کا حق ہے۔ 2- یہ وہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے اللہ کی توحید یعنی اللہ کے واحد الہٰ اور رب ہونے کا اثبات ہوتا ہے، جو قرآن میں جا بجا ذکر کیے گئے ہیں اسلام کے معنی ہیں اطاعت و انقیاد کے لیے جھک جانا، سر اطاعت خم کر دینا۔ یعنی اللہ کے احکام کے سامنے جھک جاؤں، ان سے سرتابی نہ کروں۔ آگے پھر توحید کے کچھ دلائل بیان کیے جارہے ہیں۔ غافر
67 1- یعنی تمہارے باپ آدم (عليہ السلام) کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے۔ پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا۔ اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے۔ جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔ سوائے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے، کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی۔ جیساکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ 2- یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ 3- یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل کہولت میں فوت ہو جاتے ہیں۔ 4- یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لیے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔ غافر
68 1- زندہ کرنا اور مارنا، اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ ایک بےجان نطفے کو مختلف اطوار سے گزار کر ایک زندہ انسان کے روپ میں ڈھال دیتا ہے۔ اور پھر ایک وقت مقرر کے بعد اس زندہ انسان کو مار کر موت کی وادیوں میں سلا دیتا ہے۔ 2- اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ اس کےلفظ كن (ہوجا) سے وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے، جس کا وہ ارادہ کرے۔ غافر
69 1- انکار وتکذیب کے لیے یا اس کے رد وابطال کے لیے۔ 2- یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کسی طرح حق کو نہیں مانتے۔ یہ تعجب کا اظہار ہے۔ غافر
70 غافر
71 1- یہ وہ نقشہ ہے جو جہنم میں ان مکذبین کا ہوگا۔ غافر
72 1- مجاہد اور مقاتل کا قول ہے کہ ان کے ذریعے سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی، یعنی یہ لوگ اس کا ایندھن بنے ہوں گے۔ غافر
73 غافر
74 1- کیا وہ آج تمہاری مدد کر سکتے ہیں؟ 2- یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئے ہیں، وہ ہماری مدد کیا کریں گے؟ 3- اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کردیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ﴿وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ﴾ (الأنعام:23) ”اللہ کی قسم! ہم تو کسی کی شریک ٹھہراتے ہی نہیں تھے“۔ کہتے ہیں کہ یہ بتوں کے وجود اور ان کی عبادت کا انکار نہیں ہے بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کی عبادت باطل تھی کیونکہ وہاں ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع۔ (فتح القدیر) اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔ 4- یعنی ان مکذبین ہی کی طرح، اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر، یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کےدل سیاہ اور زنگ آلودہ ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ غافر
75 1- یعنی تمہاری یہ گمراہی اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم کفر وتکذیب اور فسق وفجور میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ان پر تم خوش ہوتے اور اتراتے تھے۔ اترانے میں مزید خوشی کا اظہار ہے جو تکبر کو مستلزم ہے۔ غافر
76 1- یہ جہنم پر مقرر فرشتے، اہل جہنم کو کہیں گے . غافر
77 1- کہ ہم کافروں سے انتقام لیں گے۔ یہ وعدہ جلدی بھی پورا ہو سکتا ہے یعنی دنیا میں ہی ہم ان کی گرفت کرلیں یا حسب مشیت الٰہی تاخیر بھی ہو سکتی ہے، یعنی قیامت والے دن ہم انہیں سزا دیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔ 2- یعنی آپ کی زندگی میں ان کو مبتلائے عذاب کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اللہ نے کافروں سے انتقام لے کر مسلمانوں کی آنکھوں کوٹھنڈا کیا، جنگ بدرمیں ستر کافر مارے گئے، 8 ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور پھر نبی کریم (ﷺ) کی حیات مبارکہ میں ہی پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔ 3- یعنی اگر کافر دنیوی مواخذہ و عذاب سے بچ بھی گئے تو آخر جائیں گے کہاں؟ آخر میرے پاس ہی آئینگے، جہاں ان کے لیے سخت عذاب تیار ہے۔ غافر
78 1- اور یہ تعداد میں، بہ نسبت ان کے جن کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو صرف 25 ، انبیا ورسل کا ذکر اور ان کی قوموں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ 2- آیت سے مراد یہاں معجزہ اور خرق عادت واقعہ ہے، جو پیغمبر کی صداقت پر دلالت کرے۔ کفار، پیغمبروں سے مطالبے کرتے رہے کہ ہمیں فلاں فلاں چیز دکھاؤ ، جیسے خود نبی کریم (ﷺ) سےکفار مکہ نے کئی چیزوں کا مطالبہ کیا، جس کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل 90- 93 میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ نہیں تھا۔ کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے پر ان کوکوئی معجزہ صادر کر کے دکھلا دے۔ یہ صرف ہمارے اختیار میں تھا، بعض نبیوں کو تو ابتدا ہی سے معجزے دے دیے گئے تھے۔ بعض قوموں کو ان کے مطالبے پرمعجزہ دکھلایا گیا اور بعض کو مطالبے کے باوجود نہیں دکھلایا گیا۔ ہماری مشیت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا۔ کسی نبی کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا، معجزہ صادر کر کے دکھلا دیتا۔ اس سے ان لوگوں کی واضح تردید ہوتی ہے، جو بعض اولیا کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں کہ وہ جب چاہتے ہیں اور جس طرح چاہتے، خرق عادت امور (کرامات) کا اظہار کر دیتے تھے۔ جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں، جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا، جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کےلیے، اس کی ضرورت بھی تھی تو کسی ولی کو یہ اختیار کیونکرمل سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ ولی کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے، اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی۔ لیکن اللہ کی حکمت و مشیت اس کی مقتضی نہ تھی، اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ ولی کی ولایت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے، اس لیے انہیں معجزے اور کرامات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ یہ اختیار بلا ضرورت کیوں عطا کر سکتا ہے؟ 3- یعنی دنیا یا آخرت میں جب ان کے عذاب کا وقت معین آ جائے گا۔ 4- یعنی ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو عذاب۔ غافر
79 1- اللہ تعالیٰ اپنی ان گنت نعمتوں میں سےبعض نعمتوں کا تذکرہ فرما رہا ہے چوپائے سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہے، یہ نر، مادہ مل کر آٹھ ہیں جیساکہ سورۃ الانعام: 143- 144 میں ہے۔ 2- یہ سواری کےکام میں بھی آتےہیں، ان کادودھ بھی پیا جاتا ہے، (جیسے بکری، گائے اور اوٹنی کا دودھ) ان کا گوشت انسان کی مرغوب ترین غذا ہے اور باربرادری کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔ غافر
80 1- جیسے ان سب کے اون اور بالوں سے اور ان کی کھالوں سے کئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ان کے دودھ سے گھی، مکھن، پنیر وغیرہ بھی بنتی ہیں۔ 2- ان سے مراد بچے اور عورتیں ہیں جنہیں ہودج سمیت اونٹ وغیرہ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔ غافر
81 1- جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ نشانیاں آفاق میں ہی نہیں تمہارے نفسوں کے اندر بھی ہیں۔ 2- یعنی یہ اتنی واضح، عام اور کثیر ہیں جن کا کوئی منکر انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ غافر
82 1- یعنی جن قوموں نے اللہ کی نافرمانی اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی، یہ ان کی بستیوں کے آثار اور کھنڈرات تو دیکھیں جو ان کے علاقوں میں ہی ہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا؟ 2- یعنی عمارتوں، کارخانوں اور کھیتیوں کی شکل میں، ان کے کھنڈرات واضح کرتے ہیں کہ وہ کاریگری کے میدان میں بھی تم سے بڑھ کر تھے۔ 3- فَمَا أَغْنَى میں مَا استفہامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی۔ نافیہ کا مفہوم تو ترجمے سے واضح ہے۔ کہ استفہامیہ کی رو سے مطلب ہوگا۔ ان کوکیا فائدہ پہنچایا؟ مطلب وہی ہے کہ ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہیں آئی۔ غافر
83 1- علم سے مراد ان کے خود ساختہ مزعومات، توہمات، شبہات اور باطل دعوے ہیں۔ انہیں علم سے بطور استہزا تعبیر فرمایا وہ چونکہ انہیں علمی دلائل سمجھتے تھے، ان کے خیال کے مطابق ایسا کہا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی باتوں کے مقابلے میں یہ اپنے مزعومات و توہمات پر اتراتے اورفخر کرتے رہے۔ یا علم سےمراد دنیوی باتوں کا علم ہے، یہ احکام وفرائض الٰہی کے مقابلے میں انہی کو ترجیح دیتے رہے۔ غافر
84 غافر
85 1- یعنی اللہ کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ عذاب دیکھنے کے بعد توبہ اور ایمان مقبول نہیں۔ یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ 2- یعنی معاینہ عذاب کے بعد ان پر واضح ہو گیا کہ اب سوائے خسارے اور ہلاکت کے ہمارے مقدر میں کچھ نہیں۔ غافر
0 فصلت
1 فصلت
2 فصلت
3 1- یعنی کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ یا طاعات کیا ہیں اور معاصی کیا؟ یا ثواب والے کام کون سے ہیں اور عقاب والے کون سے؟ 2- یہ حال ہے یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کےمعانی مفصل اور واضح ہیں۔ 3- یعنی جو عربی زبان، اس کے معانی ومفاہیم اور اس کے اسرار واسلوب کو جانتی ہے۔ فصلت
4 1- ایمان اور اعمال صالحہ کے حاملین کو کامیابی اور جنت کی خوش خبری سنانے والا اورمشرکین ومکذبین کو عذاب نار سے ڈرانے والا۔ 2- یعنی غور وفکر اور تدبر وتعقل کی نیت سے نہیں سنتے کہ جس سے انہیں فائدہ ہو۔ اسی لیے ان کی اکثریت ہدایت سے محروم ہے۔ فصلت
5 1- أَكِنَّةً، كِنَانٌ کی جمع ہے۔ پردہ۔ یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری توحید وایمان کی دعوت کو سمجھ سکیں۔ 2- وَقْرٌ کے اصل معنی بوجھ کےہیں، یہاں مراد بہرا پن ہے، جو حق کے سننے میں مانع تھا۔ 3- یعنی ہمارے اور تیرے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ تو جو کہتا ہے، وہ سن نہیں سکتے اور جوکرتا ہے اسے دیکھ نہیں سکتے۔ اس لیے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے اور ہم تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیں، توہمارے دین پر عمل نہیں کرتا، ہم تیرے دین پر عمل نہیں کر سکتے۔ فصلت
6 1- یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔ بجز وحی الٰہی کے پھر یہ بعد وحجاب کیوں؟ علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہاہوں، وہ بھی ایسی نہیں کہ عقل وفہم میں نہ آ سکے، پھر اس سے اعراض کیوں؟ فصلت
7 1- یہ سورت مکی ہے۔ زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی۔ اس لیے اس سے مراد یا تو صدقات ہیں جس کا حکم مسلمانوں کو مکے میں بھی دیا جاتا رہا، جس طرح پہلے صرف صبح وشام کی نماز کا حکم تھا، پھرہجرت سے ڈیڑھ سال قبل لیلۃ الاسراء کو پانچ فرض نمازوں کا حکم ہوا۔ یا پھر زکوٰۃ سے یہاں مراد کلمۂ شہادت ہے، جس سے نفس انسانی شرک کی آلودگیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ (ابن کثیر) فصلت
8 1- ﴿أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ﴾ کاوہی مطلب ہے جو ﴿عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ﴾ (هود: 108) کا ہے یعنی یہ نہ ختم ہونے والا اجر۔ فصلت
9 1- قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ فرمایا، زمین کو دو دن میں بنایا۔ اس سے مراد ہیں۔ يَوْمُ الأَحَدِ (اتوار) اور يَوْمُ الاثْنَيْنِ (پیر) سورۂ نازعات میں کہا گیا ہے ﴿وَالأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا﴾ جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے دحی جو اصل میں دحو ہے (بچھانا یا پھیلانا) اور چیز۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی، جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا ہے اور دَحْوٌ کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے، اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ ﴿أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا﴾ اس میں پہاڑ، ٹیلے اور جمادات رکھے گئے۔ یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دنوں میں کیا گیا۔ یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ حم السجدۃ فصلت
10 1- یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کواس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔ 2- یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع واقسام کے رزق، معدنیات اوردیگر اسی قسم کی اشیا کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے۔ 3- أَقْوَاتٌ ، قُوتٌ (غذا، خوراک) کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوراک اس میں مقدر کر دی ہے یا بند وبست کر دیا ہے۔ اور رب کی اس تقدیر یا بند وبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی، کوئی قلم اسے رقم نہیں کر سکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسےگن نہیں سکتا۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہو سکتیں۔ تاکہ ہر علاقے کی یہ یہ مخصوص پیداواران ان علاقوں کی تجارت ومعیشت کی بنیادیں بن جائیں۔ چنانچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اوربالکل حقیقت ہے۔ 4- یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اوروحی کے دو دن سارے دن ملا کے یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔ 5- سَوَاءً کا مطلب ہے، ٹھیک چار دن میں۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ تخلیق اور دَحْوٌ کایہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لیے۔ فصلت
11 1- یہ آنا کس طرح تھا؟ اس کی کیفیت نہیں بیان کی جاسکتی۔ یہ دونوں اللہ کے پاس آئے جس طرح اس نے چاہا۔ بعض نے اس کا مفہوم لیا ہے کہ میرے حکم کا اطاعت کرو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم حاضرہیں۔ چنانچہ اللہ نے آسمان کو حکم دیا، سورج، چاند اور ستارے نکال اور زمین کو کہا، نہریں جاری کردے اور پھل نکال دے (ابن کثیر) یا مفہوم ہے کہ تم دونوں وجود میں آجاؤ۔ فصلت
12 1- یعنی خود آسمانوں کو یا ان میں آباد فرشتوں کو مخصوص کاموں اور اوراوراد ووظائف کا پابند کر دیا۔ 2- یعنی شیطان سے نگہبانی، جیساکہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے، ستاروں کا ایک تیسرا مقصد دوسری جگہ اھتداء (راستہ معلوم کرنا) بھی بیان کیا گیا ہے (النحل: 16)۔ فصلت
13 فصلت
14 1- یعنی چونکہ تم ہماری طرح ہی کے انسان ہو، اس لیے ہم تمہیں نبی نہیں مان سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو نبی بھیجنا ہوتا تو فرشتوں کو بھیجتا نہ کہ انسانوں کو۔ فصلت
15 1- اس فقرے سے ان کا مقصودیہ تھا کہ وہ عذاب روک لینےپرقادر ہیں، کیونکہ وہ دراز قد اور نہایت زورآور تھے۔ یہ انہوں نے اس وقت کہا جب ان کے پیغمبر حضرت ہود (عليہ السلام) نے ان کو انذار وتنبیہ کے لیے عذاب الٰہی سے ڈرایا۔ 2- یعنی کیا وہ اللہ سے بھی زیادہ زور آور ہیں، جس نے انہیں پیدا کیا اور انہیں قوت وطاقت سے نوازا۔ کیا ان کو بنانے کے بعد اس کی اپنی قوت وطاقت ختم ہو گئی ہے؟ یہ استفہام، استنکار اور توبیخ کے لیے ہے۔ 3- ان معجزات کا جو انبیا کو ہم نے دیئے تھے، یا ان دلائل کا جو پیغمبروں کےساتھ نازل کیے تھے یا ان آیات تکوینیہ کا جو کائنات میں پھیلی اور بکھری ہوئی ہیں۔ فصلت
16 1- صَرْصَرٍ صُرَّةٌ (آواز) سے ہے یعنی ایسی ہوا جس میں سخت آواز تھی۔ یعنی نہایت تند اور تیز ہوا، جس میں آواز بھی ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ صرسے ہے، جس کے معنی برد (ٹھنڈک) کے ہیں۔ یعنی ایسی پالے والی ہوا جو آگ کی طرح جلا ڈالتی ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں وَالْحَقُّ أَنَّهَا مُتَّصِفَةٌ بِجَمِيعِ ذَلِكَ، وہ ہوا ان تمام ہی باتوں سے متصف تھی۔ 2- نَحِسَاتٌ کا ترجمہ، بعض نے متواتر پے در پے کا کیا ہے۔ کیونکہ یہ ہوا سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی بعض نے سخت، بعض نے گرد وغبار والے اور بعض نے نحوست والے کیا ہے، آخری ترجمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ ایام جن میں ان پر سخت ہوا کا طوفان جاری رہا، ان کے لیے منحوس ثابت ہوئے۔ یہ نہیں کہ ایام ہی مطلقاً منحوس ہیں۔ فصلت
17 1- یعنی ان کو توحید کی دعوت دی، اس کے دلائل ان کےسامنے واضح کیے اور ان کے پیغمبر حضرت صالح (عليہ السلام) کے ذریعے سے ان پر حجت تمام کی۔ 2- یعنی انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی، حتیٰ کہ اس اونٹنی تک کو ذبح کر ڈالا جو بطور معجزہ، ان کی خواہش پر چٹان سے ظاہر کی گئی تھی اورپیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی۔ 3- صَاعِقَةٌ، عذاب شدید کو کہتے ہیں، ان پریہ سخت عذاب چنگھاڑ اور زلزلے کی صورت میں آیا، جس نے انہیں ذلت ورسوائی کے ساتھ تباہ وبرباد کر دیا۔ فصلت
18 فصلت
19 1- یہاں اذْكُرْ محذوف ہے، وہ وقت یاد کرو جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے یعنی اول سے آخر تک کے دشمنوں کا اجتماع ہو گا۔ 2- أَيْ: يُحْبَسُ أَوَّلُهُم عَلَى آخِرِهِمْ لِيُلاحِقُوا (فتح القدیر) یعنی ان کو روک روک کر اول و آخر کو باہم جمع کیا جائے گا۔ (اس لفظ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ النمل آیت نمبر 17 کا حاشیہ)۔ فصلت
20 1- یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ تعالیٰ ان کےمونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے اعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ فلاں فلاں کام کرتے رہے۔ ﴿إِذَا مَا جَاءُواهَا میں مَا زائد ہے تاکید کے لیے . انسان کے اندر پانچ حواس ہیں۔ یہاں دو کا ذکر ہے۔ تیسری جلد (کھال) کا ذکر ہے جو مس یا لمس کا آلہ ہے۔ یوں حواس کی تین قسمیں ہو گئیں۔ باقی دو حواس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ ذوق (چکھنا) بوجوہ لمس میں داخل ہے، کیونکہ یہ چکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شے کو زبان کی جلد پر نہ رکھا جائے۔ اسی طرح سونگھنا (شم) اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ شئے ناک کی جلد پر نہ گزرے۔ اس اعتبار سے جلود کے لفظ میں تین حواس آجاتے ہیں۔ (فتح القدیر) فصلت
21 1- یعنی جب مشرکین اور کفار دیکھیں گے کہ خود ان کےاپنے اعضا ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں، تو ازراہ تعجب یا بطور عتاب اور ناراضی کے، ان سےیہ کہیں گے۔ 2- بعض کےنزدیک وَهُوَ سے اللہ کا کلام مراد ہے۔ اس لحاظ سے یہ جملہ مستانفہ ہے۔ اور بعض کےنزدیک جلود انسانی ہی کا۔ اس اعتبار سے یہ انہی کے کلام کا تتمہ ہے۔ قیامت والے دن انسانی اعضا کے گواہی دینے کا ذکر اس سے قبل سورۂ نور، آیت 42، سورۂ یسٰین، آیت 65 میں بھی گزر چکا ہے اورصحیح احادیث میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً جب اللہ کے حکم سے انسانی اعضا بول کر بتلائیں گے تو بندہ کہے گا،[ بُعْدًا لَّكُنَّ وَسُحْقًا ؛ فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ ] (صحيح مسلم ، كتاب الزهد) تمہارے لیے ہلاکت اور دوری ہو، میں تو تمہاری ہی خاطر جھگڑ رہا اور مدافعت کررہا تھا اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ بندہ کہے گا کہ میں اپنے نفس کے سوا کسی کی گواہی نہیں مانوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا میں اور میرے فرشتے کراماً کاتبین گواہی کے لیے کافی نہیں۔ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضا کو بولنے کا حکم دیا جائے گا، (حوالہ مذکور)۔ فصلت
22 1- اس کا مطلب ہے کہ تم گناہ کا کام کرتے ہوئے لوگوں سے تو چھپنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس بات کا کوئی خوف تمہیں نہیں تھا کہ تمہارے خلاف خود تمہارے اپنے اعضا بھی گواہی دیں گے کہ جن سے چھپنے کی تم ضرورت محسوس کرتے۔ اس کی وجہ ان کا بعث ونشور سے انکار اور اس پر عدم یقین تھا۔ 2- اس لیے تم اللہ کی حدیں توڑنے اور اس کی نافرمانی کرنے میں بے باک تھے۔ فصلت
23 1- یعنی تمہارے اس اعتقاد فاسد اور گمان باطل نے کہ اللہ کوہمارے بہت سےعملوں کا عمل نہیں ہوتا، تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا، کیونکہ اس کی وجہ سے تم ہر قسم کا گناہ کرنےمیں دلیر اور بےخوف ہو گئے تھے۔ اس کی شان نزول میں ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قرشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قرشی جمع ہوئے۔ فربہ بدن، قلیل الفہم۔ ان میں سے ایک نے کہا کیا تم سمجھتے ہو، ہماری باتیں اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے کہا ہماری جہری باتیں سنتا ہے اور سری باتیں نہیں سنتا ایک اور نے کہا اگر وہ ہماری جہری (اونچی) باتیں سنتا ہے توہماری سری (پوشیدہ) باتیں بھی یقیناً سنتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ﴾ (نازل فرمائی،) صحیح بخاری، تفسیر سورۂ حم السجدۃ فصلت
24 1- ایک دوسرے معنی اس کے یہ کیے گئے ہیں کہ اگر وہ منانا چاہیں گے (عُتْبَىٰ رضا طلب کریں گے) تاکہ وہ جنت میں چلے جائیں تو یہ چیز ان کو کبھی حاصل نہ ہوگی۔ (ایسر التفاسیر وفتح القدیر) بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی آرزو کریں گے جو منظور نہیں ہو گی۔ (ابن جریر طبری) مطلب یہ ہے کہ ان کا ابدی ٹھکانا جہنم ہے، اس پر صبر کریں (تب بھی رحم نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ دنیا میں بعض دفعہ صبرکرنے والوں پر ترس آ جاتا ہے) یا کسی اور طریقے سے وہاں نکلنے کی سعی کریں، مگر اس میں انہیں ناکامی ہی ہو گی۔ فصلت
25 1- ان سےمراد وہ شیاطین انس وجن ہیں جو باطل پر اصرارکرنے والوں کےساتھ لگ جاتے ہیں، جو انہیں کفر و معاصی کو خوبصورت کرکے دکھاتے ہیں، پس وہ اس گمراہی کی دلدل میں پھنسے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں موت آ جاتی ہے اور وہ خسارۂ ابدی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ فصلت
26 1- یہ انہوں نے باہم ایک دوسرے کو کہا۔ بعض نے لا تَسْمَعُوا کے معنی کیے ہیں، اس کی اطاعت نہ کرو۔ 2- یعنی شور کرو، تالیاں، سیٹیاں بجاؤ، چیخ چیخ کر باتیں کرو تاکہ حاضرین کے کانوں میں قرآن کی آواز نہ جائے اور ان کے دل قرآن کی بلاغت اور خوبیوں سے متاثر نہ ہوں۔ فصلت
27 1- یعنی ممکن ہے اس طرح شور کرنے کی وجہ سے محمد (ﷺ) قرآن کی تلاوت ہی نہ کرے جسے سن کر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ 2- یعنی ان کے بعض اچھے عملوں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی، مثلاً اکرام ضیف، صلہ رحمی وغیرہ۔ کیونکہ ایمان کی دولت سے وہ محروم رہے تھے، البتہ برے عملوں کی جزا انہیں ملے گی، جن میں قرآن کریم سے روکنے کا جرم بھی ہے۔ فصلت
28 1- آیتوں سے مراد جیسا کہ پہلے بھی بتلایا گیا ہے، وہ دلائل وبراہین واضحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ انبیا پر نازل فرماتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو انہیں عطا کیے جاتے ہیں یا وہ دلائل تکوینیہ ہیں جوکائنات یعنی آفاق و انفس میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کافر ان سب ہی کا انکار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ فصلت
29 1- اس کا مفہوم واضح ہی ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے، انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شیطان کے زیراثر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انسان سے قابیل مراد لیا ہے، جس نے انسانوں میں سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کوقتل کر کے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ بھی اس کو ملتا رہے گا۔ ہمارے خیال میں پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ 2- یعنی اپنے قدموں سے انہیں روندیں اور اس طرح ہم انہیں خوب ذلیل و رسوا کریں، جہنمیوں کو اپنےلیڈروں پر جو غصہ ہوگا، اس کی تشفی کےلیے وہ یہ کہیں گے۔ ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لا تَعْلَمُونَ﴾ (الأعراف: 38) جہنمیوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے، جیساکہ عام طور پر قرآن کا اندازہے تا کہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی اہتمام رہے۔ گویا انذار کے بعد اب تبشیر۔ فصلت
30 1- یعنی ایک اللہ وحدہ لاشریک . رب بھی وہی اور معبود بھی وہی . یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار ، لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔ 2- یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان وتوحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نےاستقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں۔ یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی۔ جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے، ایک شخص نے رسول (ﷺ) سے کہا مجھےایسی بات بتلا دیں کہ آپ (ﷺ) کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا، [ قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ] (صحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب جامع أوصاف الإسلام) (کہہ، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیار کر)۔ 3- یعنی موت کے وقت، بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوش خبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھنے کے وقت۔ 4- یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال واولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔ 5- یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔ فصلت
31 1- یہ مزید خوش خبری ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ بعض کے نزدیک یہ فرشتوں کا قول ہے، دونوں صورتوں میں مومن کے لیے یہ عظیم خوش خبری ہے۔ فصلت
32 فصلت
33 1- یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابنداور اللہ کا مطیع ہے۔ فصلت
34 1- بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔ 2- یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو۔ یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ، غضب کا صبر کے ساتھ، بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات (ناپسندیدہ باتوں کا) کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گاکہ تمہارا دشمن، دوست بن جائے گا، دور دور رہنے والا قریب ہو جائے گا اور خون کا پیاسا، تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جائے گا۔ فصلت
35 1- یعنی برائی کو بھلائی کےساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفیداور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کرسکیں گے جو صابر ہوں گے غصے کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے۔ 2- حَظٍّ عَظِيمٍ (بڑا نصیب) سے مراد جنت ہے یعنی مذکورہ خوبیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے، یعنی جنتی جس کے لیے جنت میں جانا لکھ دیا گیا ہو۔ فصلت
36 1- یعنی شیطان، شریعت کے کام سے پھیرنا چاہے یا احسن طریقے سے برائی کے دفع کرنے میں رکاوٹ ڈالے تو اس کے شر سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ 2- اور جو ایسا ہو یعنی ہر ایک کی سننے والا اور ہر بات کوجاننے والا، وہی پناہ کے طلب گاروں کو پناہ دے سکتا ہے۔ یہ ماقبل کی تعلیل ہے۔ اس کے بعد اب پھر بعض ان نشانیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو اللہ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور قوت تصرف پر دلالت کرتی ہیں۔ فصلت
37 1- یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کر سکیں، دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو، پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا۔ اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ اسی طرح سورج اور چاند کا اپنے اپنے وقت پر طلوع وغروب ہونا اور اپنے اپنے مدار پراپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم سے محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقیناً کوئی خالق اور مالک ہے۔ نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اورکائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے۔ اگر تدبیر و امرکا اختیار رکھنے والے، ایک سے زیادہ ہوتے تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سےکبھی نہیں چل سکتا تھا۔ 2- اس لیے کہ یہ بھی تمہاری اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں۔ 3- خَلَقَهُنَّ ، میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خَلَقَ هَذِهِ الأَرْبَعَةَ الْمَذْكُورَةَ کے مفہوم میں ہے، کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم مؤنث ہی کا ہے۔ یا اس کا مرجع شمس وقمر ہی ہیں اور بعض ائمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں، (فتح القدیر)۔ فصلت
38 فصلت
39 1- خَاشِعَةً کا مطلب، خشک اور قحط زدہ یعنی مردہ۔ 2- یعنی انواع و اقسام کے خوش ذائقہ پھل اور غلے پیدا کرتی ہے۔ 3- مردہ زمین کو بارش کے ذریعے سے اس طرح زندہ کر دینا اور اسے روئیدگی کے قابل بنا دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مردوں کو بھی یقیناً زندہ کرے گا۔ فصلت
40 1- یعنی ان کو مانتے نہیں بلکہ ان سے اعتراض، انحراف اور ان کی تکذیب کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے الحاد کے معنی کیے ہیں وَضْعَ الْكَلَاَمِ عَلَى غَيْرِ مَوَاضِعِهِ، جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آ جاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد و نظریات کے اثبات کے لیے آیات الٰہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔ 2- یہ ملحدین (چاہے وہ کسی قسم کےہوں) کے لیے سخت وعید ہے۔ 3- یعنی کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نہیں یقیناً نہیں۔ علاوہ ازیں اس سے اشارہ کر دیا کہ ملحدین آگ میں ڈالے جائیں گے اوراہل ایمان قیامت والے دن بے خوف ہوں گے۔ 4- یہ امر کالفظ ہے، لیکن یہاں اس سے مقصود وعید اور تہدید ہے۔ کفر وشرک اور معاصی کے لیے اذن اور اباحت نہیں ہے۔ فصلت
41 1- بریکٹ کےالفاظ إِنَّ کی خبر محذوف کا ترجمہ ہیں بعض نے کچھ اور الفاظ محذوف مانے ہیں۔ مثلاً يُجَازَوْنَ بِكُفْرِهِمْ (انہیں ان کے کفر کی سزا دی جائے گی) یا هَالِكُونَ (وہ ہلاک ہونے والے ہیں) یا يُعَذَّبُونَ۔ 2- یعنی یہ کتاب، جس سے اعراض و انحراف کیا جاتا ہے معارضے اور طعن کرنے والوں کے طعن سے بہت بلند اور ہر عیب سے پاک ہے۔ فصلت
42 1- یعنی وہ ہر طرح سے محفوظ ہے، آگے سے، کا مطلب ہے کمی اور پیچھے سے، کا مطلب ہے زیادتی یعنی باطل اس کے آگے سے آ کراس میں کمی اور نہ اس کے پیچھے سے آکر اس میں اضافہ کرسکتا ہے اور نہ کوئی تغییر و تحریف ہی کرنےمیں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی طرف سے نازل کردہ ہے جو اپنے اقوال وافعال میں حکیم ہے اور حمید یعنی محمود ہے۔ یا وہ جن باتوں کا حکم دیتا ہے اور جن سے منع فرماتا ہے، عواقب اور غایات کے اعتبار سے سب محمود ہیں، یعنی اچھے اور مفید ہیں۔ (ابن کثیر)۔ فصلت
43 1- یعنی پچھلی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کے لیے جو کچھ کہا کہ یہ ساحر ہیں، مجنون ہیں، کذاب ہیں وغیرہ وغیرہ، وہی کچھ کفار مکہ نے بھی آپ (ﷺ) کو کہا ہے۔ یہ گویا آپ (ﷺ) کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ (ﷺ) کی تکذیب اور آپ (ﷺ) کی سحر، کذب اور جنون کی طرف نسبت، نئی بات نہیں ہے، ہر پیغمبر کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ﴾ (الذاريات: 53،52) دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کو توحید اور اخلاص کا جو حکم دیا گیا ہے، یہ وہی باتیں ہیں جو آپ (ﷺ) سے پہلے رسولوں کو بھی کہی گئی تھیں۔ اس لیے کہ تمام شریعتیں ان باتوں پر متفق رہی ہیں بلکہ سب کی اولین دعوت ہی توحید واخلاص تھی۔ (فتح القدیر)۔ 2- یعنی ان اہل ایمان وتوحید کے لیے جو مستحق مغفرت ہیں۔ 3- ان کے لیے جوکافر اور اللہ کے پیغمبروں کے دشمن ہیں۔ یہ آ یت بھی سورۂ حجرکی آیت ﴿نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ﴾ کی طرح ہے۔ فصلت
44 1- یعنی عربی کے بجائے کسی اور زبان میں قرآن نازل کرتے۔ 2- یعنی ہماری زبان میں اسے بیان کیوں نہیں کیاگیا،جسےہم سمجھ سکتے، کیونکہ ہم توعرب ہیں، عجمی زبان نہیں سمجھتے۔ 3- یہ بھی کافروں ہی کا قول ہےکہ وہ تعجب کرتے ہیں کہ رسول تو عربی ہے اور قرآن اس پر عجمی زبان میں نازل ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل فرما کر اس کے اولین مخاطب عربوں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا۔ ہے اگر یہ غیر عربی زبان میں ہوتا تو وہ عذر کر سکتے تھے۔ 4- یعنی جس طرح دور کا شخص، دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آواز سننے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی عقل وفہم میں قرآن نہیں آتا۔ فصلت
45 1- کہ ان کو عذاب دینے سے پہلے مہلت دی جائے گی۔ ﴿وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى﴾ (فاطر ،45) 2- یعنی فوراً عذاب دے کر ان کو تباہ کردیا گیا ہوتا۔ 3- یعنی ان کا انکار عقل و بصیرت کی وجہ سےنہیں، بلکہ محض شک کی وجہ سے ہے جو ان کو بے چین کئے رکھتا ہے۔ فصلت
46 1- اس لیے کہ وہ عذاب صرف اسی کو دیتا ہے جو گناہ گار ہوتا ہے، نہ کہ جس کو چاہے، یوں ہی عذاب میں مبتلا کردے۔ فصلت
47 1- یعنی اللہ کے سوا اس کے وقوع کا کسی کو علم نہیں۔ اسی لیے جب حضرت جبرائیل (عليہ السلام) نے نبی کریم (ﷺ) سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا تھا [ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ]، (اس کی بابت مجھے بھی اتنا ہی علم ہے جتنا تجھے ہے، میں تجھ سے زیادہ نہیں جانتا۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا﴾ (النازعات: 44) ﴿لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلا هُوَ﴾ (الأعراف: 187)۔ 2- یہ اللہ کے علم کامل ومحیط کا بیان ہے اور اس کی اس صفت علم میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ یعنی اس طرح کا علم کامل کسی کو حاصل نہیں۔ حتیٰ کہ انبیا علیہم السلام کو بھی نہیں۔ انہیں بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں وحی کے ذریعے سے بتلا دیتا ہے۔ اور اس علم و حی کا تعلق بھی منصب نبوت اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی سے متعلق ہی ہوتا ہے نہ کہ دیگر فنون ومعاملات سے متعلق۔ اس لیےکسی بھی نبی اور رسول کو، چاہے وہ کتنی ہی عظمت شان کا حامل ہو، عَالِمُ مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ کہنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ صرف ایک اللہ کی شان اور اس کی صفت ہے۔ جس میں کسی اور کو شریک ماننا شرک ہوگا۔ 3- یعنی آج ہم میں سے کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے؟ فصلت
48 1- یعنی وہ ادھر ادھر ہوگئے اور حسب گمان انہوں نے کسی کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ 2- یہ گمان، یقین کے معنی میں ہے یعنی قیامت والے دن وہ یہ یقین کرنے پر مجبور ہوں گے کہ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُمْ مُوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفًا﴾ (الكهف: 53)۔ فصلت
49 1- یعنی دنیا کا مال واسباب، صحت وقوت، عزت ورفعت اور دیگر دنیوی نعمتوں کے مانگنے سے انسان نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔ انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے۔ 2- یعنی تکلیف پہنچنے پر فوراً مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے، جب کہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے، دوسرے، تکلیف پہنچنے پر بھی وہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی وہ کفارۂ سیئات اور رفع درجات کا باعث گردانتے ہیں۔ گویا مایوسی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ فصلت
50 1- یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لیے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا ناراضی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لیے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کررہا ہے اور تکلیفوں میں صابر کون ہے؟ 2- یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لیے ایسی ہی ہوگی۔ فصلت
51 1- یعنی حق سے منہ پھیرلیتا اور حق کی اطاعت سے اپنا پہلو بدل لیتا ہے اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔ 2- یعنی بارگاہ الٰہی میں تضرع وزاری کرتا ہے تاکہ وہ مصیبت دور فرما دے۔ یعنی شدت میں اللہ کو یاد کرتا ہے، خوش حالی میں بھول جاتا ہے، نزول نقمت کے وقت اللہ سے فریادیں کرتا ہے، حصول نعمت کے وقت اسے وہ یاد نہیں رہتا۔ فصلت
52 1- یعنی ایسی حالت میں تم سے زیادہ گمراہ اور تم سے زیادہ دشمن کون ہوگا۔ 2- شِقَاقٍ کے معنی ہیں، ضد، عناد اور مخالفت۔ بَعِيدٍ مل کر اس میں اور مبالغہ ہوجاتا ہے۔ یعنی جو بہت زیادہ مخالف اور عناد سے کام لیتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کی بھی تکذیب کر دیتا ہے، اس سے بڑھ کر گمراہ اور بدبخت کون ہوسکتا ہے؟ فصلت
53 1- جن سے قرآن کی صداقت اور اس کا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا۔ یعنی أَنَّهُ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ بعض نے اس کا مرجع اسلام یا رسول اللہ (ﷺ) کو بتلایا ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے۔ آفَاقٌ ، أُفُقٌ کی جمع ہے۔ کنارہ، مطلب ہے کہ ہم اپنی نشانیاں باہر کناروں میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی۔ چنانچہ آسمان و زمین کے کناروں میں بھی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن، ہوا اور بارش، گرج چمک، بجلی، کڑک، نباتات وجمادات، اشجار، پہاڑ، اور انہار وبحار وغیرہ۔ اور آیات انفس سے انسان کا وجود، جن اخلاط و مواد اور ہیئتوں پرمرکب ہے وہ مراد ہیں۔ جن کی تفصیلات طب وحکمت کا دلچسپ موضوع ہے۔ بعض کہتے ہیں، آفاق سے مراد شرق وغرب کے وہ دور دراز کے علاقے ہیں۔ جن کی فتح کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے آسان فرما دیا اور انفس سے مراد خود عرب کی سرزمین پر مسلمانوں کی پیش قدمی ہے، جیسے جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ فتوحات میں مسلمانوں کو عزت وسرفرازی عطا کی گئی۔ 2- استفہام اقراری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال وافعال کے دیکھنے کے لیے کافی ہے، اور وہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کے سچے رسول حضرت محمد (ﷺ) پر نازل ہوا۔ فصلت
54 1- اس لیے اس کی بابت غور وفکر نہیں کرتے، نہ اس کے لیے عمل کرتے ہیں اور نہ اس دن کا کوئی خوف ان کے دلوں میں ہے۔ 2- بنا بریں اس کے لیے قیامت کا وقوع قطعاً مشکل امر نہیں کیونکہ تمام مخلوقات پر اس کا غلبہ وتصرف ہے وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کرے، کرتا ہے، کرسکتا ہے اور کرے گا، کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے۔ فصلت
0 الشورى
1 الشورى
2 الشورى
3 1- یعنی جس طرح یہ قرآن تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسی طرح تجھ سے پہلے انبیا پر صحیفے اور کتابیں نازل کی گئیں۔ وحی، اللہ کا وہ کلام ہے جو فرشتے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے پاس بھیجتا رہا ہے۔ ایک صحابی نے رسول اللہ (ﷺ) سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ کبھی تو یہ میرے پاس گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے اور یہ مجھ پر سب سے سخت ہوتی ہے، جب یہ ختم ہوجاتی ہے تو مجھے یاد ہوچکی ہوتی ہے اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے میں یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں، میں نے سخت سردی میں مشاہدہ کیا جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو آپ (ﷺ پسینے میں شرابور ہوتے اور آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے ہوتے۔ (صحیح بخاری، باب بدء الوحی الشورى
4 الشورى
5 1- اللہ کی عظمت وجلال کی وجہ سے۔ 2- یہ مضمون سورۂ مؤمن کی آیت 7 میں بھی بیان ہوا ہے۔ 3- اپنے دوستوں اور اہل طاعت کے لیے یا تمام ہی بندوں کے لیے، کیونکہ کفار اور نافرمانوں کی فوراً گرفت نہ کرنا بلکہ انہیں ایک وقت معین تک مہلت دینا، یہ بھی اسی کی رحمت ومغفرت ہی کی قسم سے ہے۔ الشورى
6 1- یعنی ان کے عملوں کو محفوظ کررہا ہے تاکہ اس پر ان کو جزا دے۔ 2- یعنی آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ان کو ہدایت کے راستے پر لگادیں یا ان کے گناہوں پر ان کا مواخذہ فرمائیں، بلکہ یہ کام ہمارے ہیں، آپ کا کام صرف ابلاغ (پہنچا دینا) ہے۔ الشورى
7 1- یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ 2- أُمّ الْقُرَى، مکے کا نام ہے۔ اسے بستیوں کی ماں اس لیے کہا گیا کہ یہ عرب کی قدیم ترین بستی ہے۔ گویا یہ تمام بستیوں کی ماں ہے جنہوں نے اسی سے جنم لیا ہے۔ مراد اہل مکہ ہیں۔ وَمَنْ حَوْلَهَا میں اس کے شرق و غرب کے تمام علاقے شامل ہیں۔ ان سب کو ڈرائیں کہ اگر وہ کفر و شرک سے تائب نہ ہوئے تو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پائیں گے۔ 3- قیامت والے دن کو جمع ہونے والا دن اس لیے کہا کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہوں گے علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مومن وکافر سب جمع ہوں گے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا وسزا سے بہرہ ور ہوں گے۔ 4- جو اللہ کے حکموں کو بجالایا ہوگا اور اس کی منہیات ومحرمات سے دور رہا ہوگا وہ جنت میں اور اس کی نافرمانی اور محرمات کا ارتکاب کرنے والا جہنم میں ہوگا۔ یہی دو گروہ ہوں گے۔ تیسرا گروہ نہیں ہوگا۔ الشورى
8 1- اس صورت میں قیامت والے دن صرف ایک ہی گروہ ہوتا یعنی اہل ایمان اور اہل جنت کا لیکن اللہ کی حکمت ومشیت نے اس جبر کو پسند نہیں کیا بلکہ انسانوں کو آزمانے کے لیے اس نے انسانوں کو ارادہ واختیار کی آزادی دی، جس نے اس آزادی کا صحیح استعمال کیا، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگیا،اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا، اس نے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اللہ کی دی ہوئی آزادی اور اختیار کو اللہ ہی کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ چنانچہ ایسے ظالموں کا قیامت والے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ الشورى
9 1- جب یہ بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو ولی اور کارساز مانا جائے نہ کہ ان کو جن کے پاس کوئی اختیاری ہی نہیں ہے، اور جو سننے اور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع ونقصان پہنچانے کی صلاحیت۔ الشورى
10 1- اس اختلاف سے مراد دین کا اختلاف ہے جس طرح یہودیت، عیسائیت اور اسلام وغیرہ میں آپس میں اختلافات ہیں اور ہر مذہب کا پیروکار دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا دین سچا ہے، دراں حالیکہ سارے دین بیک وقت صحیح نہیں ہوسکتے۔ سچا دین تو صرف ایک ہی ہے اور ایک ہی ہوسکتا ہے۔ دنیا میں سچا دین اور حق کا راستہ پہچاننے کے لیے اللہ تعالیٰ کا قرآن موجود ہے۔ لیکن دنیا میں لوگ اس کلام الٰہی کو اپنا حکم اور ثالث ماننے کے لیے تیار نہیں۔ بالآخر پھر قیامت کا دن ہی رہ جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا اور سچوں کو جنت میں اور دوسروں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔ الشورى
11 1- یعنی یہ اس کا احسان ہے کہ تمہاری جنس سے ہی اس نے تمہارے جوڑے بنائے، ورنہ اگر تمہاری بیویاں انسانوں کے بجائے کسی اور مخلوق سے بنائی جاتیں تو تمہیں یہ سکون حاصل نہ ہوتا جو اپنی ہم جنس اور ہم شکل بیوی سے ملتا ہے۔ 2- یعنی یہی جوڑے بنانے (مذکر ومونث) کا سلسلہ ہم نے چوپایوں میں بھی رکھا ہے، چوپایوں سے مراد وہی نر اور مادہ آٹھ جانور ہیں جن کا ذکر سورۃ الانعام میں کیا گیا ہے۔ 3- يَذْرَؤُكُمْ کے معنی پھیلانے یا پیدا کرنے کے ہیں یعنی وہ تمہیں کثرت سے پھیلا رہا ہے۔ یا نسلاً بعد نسل پیدا کررہا ہے۔ انسانی نسل کو بھی اور چوپائے کی نسل کو بھی ،فیہ کا مطلب ہے فِي ذَلِكَ الْخَلْقِ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ یعنی اس پیدائش میں اس طریقے پر وہ تمہیں ابتدا سے پیدا کرتا آرہا ہے۔ یا ”رحم میں“ یا ”پیٹ میں“ مراد ہے۔ یا فِيهِ بمعنی بہ ہے یعنی تمہارا جوڑا بنانے کے سبب سے تمہیں پیدا کرتا یا پھیلاتا ہے کیونکہ یہ زوجیت ہی نسل کا سبب ہے۔ (فتح القدیر وابن کثیر)۔ 4- نہ ذات میں نہ صفات میں، پس وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے، واحد اور بے نیاز۔ الشورى
12 1- مَقَالِيدُ، مِقْلِيدٌ اور مِقْلادٌ کی جمع ہے۔ خزانے یا چابیاں۔ الشورى
13 1- شَرَعَ کے معنی ہیں، بیان کیا، واضح کیا اور مقرر کیا، لَكُمْ (تمہارے لیے) یہ امت محمدیہ سے خطاب ہے۔ مطلب ہے کہ تمہارے لیے وہی دین مقرر یا بیان کیا ہے جس کی وصیت اس سے قبل تمام انبیا کو کی جاتی رہی ہے۔ اس ضمن میں چند جلیل القدر انبیا کے نام ذکر فرمائے۔ 2- الدِّينِ سے مراد، اللہ پر ایمان، توحید اطاعت رسول اور شریعت الٰہیہ کو ماننا ہے۔ تمام انبیا کا یہی دین تھا جس کی وہ دعوت اپنی اپنی قوم کو دیتے رہے۔ اگرچہ ہر نبی کی شریعت اور منہج میں بعض جزوی اختلافات ہوتے تھے جیسا کہ فرمایا: ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ (المائدة: 48) لیکن مذکورہ اصول سب کے درمیان مشترکہ تھے۔ اسی بات کو نبی (ﷺ) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی، ہیں، ہمارا دین ایک ہے۔ (صحیح بخاری وغیرہ) اور یہ ایک دین وہی توحید واطاعت رسول ہے، یعنی ان کا تعلق ان فروعی مسائل سے نہیں ہے جن میں دلائل باہم مختلف یا متعارض ہوتے ہیں یا جن میں کبھی فہم کا تباین اور تفاوت ہوتا ہے۔ کیونکہ ان میں اجتہاد یا اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اس لیے یہ مختلف ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں، تاہم توحید واطاعت، فروعی نہیں، اصولی مسئلہ ہے جس پر کفر و ایمان کا دارومدار ہے۔ 3- صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت (یا اس کے رسول کی اطاعت جو دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے) وحدت وائتلاف کی بنیاد ہے اور اس کی عبادت واطاعت سے گریز یا ان میں دوسروں کو شریک کرنا، افتراق وانتشار انگیزی ہے، جس سے (پھوٹ نہ ڈالنا) کہہ کر منع کیا گیا ہے۔ 4- اور وہ وہی توحید اور اللہ ورسول کی اطاعت ہے۔ 5- یعنی جس کو ہدایت کا مستحق سمجھتا ہے، اسے ہدایت کے لیے چن لیتا ہے۔ 6- یعنی اپنا دین اپنانے کی اور عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرنے کی توفیق اس شخص کو عطا کر دیتا ہے جو اس کی اطاعت و عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے۔ الشورى
14 1- یعنی انہوں نے اختلاف اور تفرق کا راستہ علم یعنی ہدایت آجانے اور اتمام حجت کے بعد اختیار کیا، جب کہ اختلاف کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ لیکن محض بغض وعناد، ضد اور حسد کی وجہ سے ایسا کیا۔ اس سے بعض نے یہود اور بعض نے قریش مکہ مراد لیے ہیں۔ 2- یعنی اگر ان کی بابت عقوبت میں تاخیر کا فیصلہ پہلے سے نہ ہوتا تو فوراً عذاب بھیج کر ان کو ہلاک کردیا جاتا۔ 3- اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جو اپنے سے ماقبل کے یہود و نصاریٰ کے بعد کتاب یعنی تورات وانجیل کے وارث بنائے گئے۔ یا مراد عرب ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا قرآن نازل فرمایا اور انہیں قرآن کا وارث بنایا۔ پہلے مفہوم کے اعتبار سے ”الکتاب“ سے تورات وانجیل اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اس سے مراد قرآن کریم ہے۔ الشورى
15 1- یعنی اس تفرق اور شک کی وجہ سے، جس کا ذکر پہلے ہوا، آپ ان کو توحید کی دعوت دیں اور اس پر جمے رہیں۔ 2- یعنی انہوں نے اپنی خواہش سے جو چیزیں گھڑ لی ہیں، مثلاً بتوں کی عبادت وغیرہ، اس میں ان کی خواہش کے پیچھے مت چلیں۔ 3- یعنی جب بھی تم اپنا کوئی معاملہ میرے پاس لاؤ گے تو اللہ کے احکام کے مطابق اس کا عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ 4- یعنی کوئی جھگڑا نہیں، اس لیے کہ حق ظاہر اور واضح ہوچکا ہے۔ الشورى
16 1- یعنی یہ مشرکین مسلمانوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ جنہوں نے اللہ اور رسول کی بات مان لی ہے، تاکہ انہیں پھر راہ ہدایت سے ہٹادیں۔ یا مراد یہود ونصاریٰ ہیں جو مسلمانوں سے جھگڑتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے اور ہمارا نبی بھی تمہارے نبی سے پہلے ہوا ہے، اس لیے ہم تم سے بہتر ہیں۔ 2- دَاحِضَةٌ کے معنی کمزور، باطل، جس کو ثبات نہیں۔ الشورى
17 1- الکتاب سے مراد جنس ہے یعنی تمام پیغمبروں پر جتنی کتابیں بھی نازل ہوئیں، وہ سب حق اور سچی تھیں۔ یا بطور خاص قرآن مجید مراد ہے اور اس کی صداقت کو واضح کیا جا رہا ہے ۔میزان سے مراد عدل و انصاف ہے۔ عدل کو ترازو سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ یہ برابری اور انصاف کا آلہ ہے۔ اس کے ذریعے سے ہی لوگوں کے درمیان برابری ممکن ہے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیات بھی ہیں ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ (الحديد:25) ”یقینا ہم نے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھجوایا اور ان کے ساتھ کتاب اور انصاف نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں“ ۔ ﴿وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ، أَلا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ﴾ (سورة الرحمن: 7-9) اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو ،انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کمی نہ کرو"۔ 2- قريب، مذکر اور مونث دونوں کی صفت کے لیے آجاتا ہے۔ خصوصاً جب کہ موصوف مونث غیرحقیقی ہو۔ ﴿إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ (فتح القدير)۔ الشورى
18 1- یعنی استہزا کے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کو آنا ہی کہاں ہے؟ اس لیے کہتے ہیں کہ قیامت جلدی آئے۔ 2- اس لیے کہ ایک تو ان کو اس کے وقوع کا پورا یقین ہے۔ دوسرے ان کو خوف ہے کہ اس روز بے لاگ حساب ہوگا، کہیں وہ بھی مواخذہ الٰہی کی زد میں نہ آجائیں۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾ (المؤمنون: 60)۔ 3- يُمَارُونَ، مُمَارَاةٌ سے ہے جس کے معنی لڑنا جھگڑنا ہیں۔ یا مریہ سے ہے، بمعنی ریب وشک۔ 4- اس لیے کہ وہ ان دلائل پر غوروفکر ہی نہیں کرتے جو ایمان لانے کےموجب بن سکتے ہیں حالانکہ یہ دلائل روز وشب ان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان کی نظروں سے گزرتے ہیں اور ان کی عقل وفہم میں آسکتے ہیں۔ اس لیے وہ حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ الشورى
19 الشورى
20 1- حَرَثٌ کے معنی تخم ریزی کے ہیں۔ یہاں یہ بہ طریق استعارہ اعمال کے ثمرات وفوائد پر بولا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص دنیا میں اپنے اعمال ومحنت کے ذریعے سے آخرت کے اجر وثواب کا طالب ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی کھیتی میں اضافہ فرمائے گا کہ ایک ایک نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک بھی عطا فرمائے گا۔ 2- یعنی طالب دنیا کو دنیا تو ملتی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی اللہ کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہوتی ہے۔ 3- یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ بنی اسرائیل: 18 میں بھی بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اتنی ضرور دیتا ہے جتنی اس نے لکھ دی ہے، کیونکہ وہ سب کی روزی کا ذمہ لئے ہوئے ہے، طالب دنیا کو بھی اور طالب آخرت کو بھی۔ تاہم جو طالب آخرت ہوگا یعنی آخرت کے لیے کسب و محنت کرے گا تو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً اجر وثواب عطا فرمائے گا، جب کہ طالب دنیا کے لئے آخرت میں سوائے جہنم کے عذاب کے کچھ نہیں ہوگا ۔اب یہ انسان کو خود سوچ لینا چاہیئے کہ اس کا فائدہ طالب دنیا بننے میں ہے یا طالب آخرت بننے میں۔ الشورى
21 1- یعنی شرک ومعاصی، جن کا حکم اللہ نے نہیں دیا ہے، ان کے بنائے ہوئے شریکوں نے انسانوں کو اس راہ پر لگایا ہے۔ الشورى
22 1- یعنی قیامت والے دن۔ 2- حالانکہ ڈرنابے فائدہ ہوگا کیوں کہ اپنے کیے کی سزا تو انہیں بہرحال بھگتنی ہو گی۔ الشورى
23 1- قبائل قریش اور نبی (ﷺ) کے درمیان رشتے داری کا تعلق تھا، آیت کا مطلب بالکل واضح ہے کہ میں وعظ ونصیحت اور تبلیغ ودعوت کی کوئی اجرت تم سے نہیں مانگتا، البتہ ایک چیز کا سوال ضرور ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو رشتے داری ہے، اس کا لحاظ کرو، تم میری دعوت کو نہیں مانتے تو نہ مانو، تمہاری مرضی۔ لیکن مجھے نقصان پہنچانے سے تو باز رہو، تم میرے دست وبازو نہیں بن سکتے تو رشتہ داری وقرابت کے ناطے مجھے ایذا تو نہ پہنچاؤ اور میرے راستے کا روڑہ تو نہ بنو کہ میں فریضۂ رسالت ادا کرسکوں۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کے معنی کیے ہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت (رشتہ داری) ہے اس کو قائم رکھو۔ (صحيح البخاری، تفسير سور الشورىٰ) نبی کریم (ﷺ) کی آل، یقیناً حسب ونسب کے اعتبار سے دنیا کی اشرف ترین آل ہے اس سے محبت، اس کی تعظیم وتوقیر جزو ایمان ہے۔ اس لیے کہ نبی (ﷺ) نے بھی احادیث میں ان کی تکریم اور حفاظت کی تاکید فرمائی ہے لیکن اس آیت کا کوئی تعلق اس موضوع سے نہیں ہے، جیسا کہ شیعہ حضرات کھینچا تانی کرکے اس آیت کو آل محمد (ﷺ) کی محبت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور پھر آل کو بھی انہوں نے محدود کردیا ہے، حضرت علی (رضی اللہ عنہ) و حضرت فاطمہ (رضی الله عنہا) اور حسنین (رضی اللہ عنہما) تک۔ نیز محبت کا مفہوم بھی ان کے نزدیک یہ ہے کہ انہیں معصوم اور الٰہی اختیارات سے متصف مانا جائے۔ علاوہ ازیں کفار مکہ سے اپنے گھرانے کی محبت کا سوال بطور اجرت تبلیغ نہایت عجیب بات ہے جو نبی (ﷺ) کی شان ارفع سے بہت ہی فروتر ہے آپ (ﷺ) کی تبلیغ کو قبول نہ کرنے کے باوجود آپ (ﷺ) کی طلب تو صرف قرابت اور صلۂ رحمی کی بنیاد پر محبت برقرار رکھنے کی تھی پھر یہ آیت اور سورت مکی ہے جب کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت فاطمہ (رضی الله عنہا) کے درمیان ابھی عقد زواج بھی قائم نہیں ہوا تھا۔ یعنی ابھی وہ گھرانہ معرض وجود میں ہی نہیں آیا تھا جس کی خود ساختہ محبت کا اثبات اس آیت سے کیا جاتا ہے۔ 2- یعنی اجر وثواب میں اضافہ کریں گے۔ یا نیکی کے بعد اس کا بدلہ مزید نیکی کی توفیق کی صورت میں دیں گے جس طرح بدی کا بدلہ مزید بدیوں کا ارتکاب ہے۔ 3- اس لیے وہ پردہ پوشی فرماتا اور معاف کردیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اجر دیتا ہے۔ الشورى
24 1- یعنی اس الزام میں اگر صداقت ہوتی تو ہم آپ کے دل پر مہر لگا دیتے، جس سے وہ قرآن ہی محو ہوجاتا جس کے گھڑنے کا انتساب آپ کی طرف کیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کو اس کی سخت ترین سزا دیتے۔ 2- یہ قرآن بھی اگر باطل ہوتا (جیسا کہ مکذبین کا دعویٰ ہے) تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کو بھی مٹا ڈالتا، جیسا کہ اس کی عادت ہے۔ الشورى
25 1- توبہ کا مطلب ہے، معصیت پر ندامت کا اظہار اور آئندہ اس کو نہ کرنے کا عزم۔ محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا یا اس گناہ اور معصیت کے کام کو تو نہ چھوڑنا اور توبہ کا اظہار کیے جانا، توبہ نہیں ہے۔ یہ استہزا اور مذاق ہے۔ تاہم خالص اور سچی توبہ اللہ تعالیٰ یقیناً قبول فرماتا ہے۔ الشورى
26 1- یعنی ان کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی خواہشیں اور آرزوئیں پوری فرماتا ہے۔ بشرطیکہ دعا کے آداب وشرائط کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہو۔ اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری مع کھانے پینے کے سامان کے، صحرا، بیابان میں گم ہوجائے اور وہ ناامید ہوکر کسی درخت کے نیچے لیٹ جائے کہ اچانک اسے اپنی سواری مل جائے اور فرط مسرت میں اس کے منہ سے نکل جائے، اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب یعنی شدت فرح میں وہ غلطی کرجائے۔ (صحيح مسلم كتاب التوبة ، باب في الحض على التوبة والفرح بها الشورى
27 1- یعنی اگر اللہ تعالیٰ ہر شخص کو حاجت وضرورت سے زیادہ یکساں طور پر وسائل رزق عطا فرما دیتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئی کسی کی ماتحتی قبول نہ کرتا، ہر شخص شر وفساد اور بغی وعدوان میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتا، جس سے زمین فساد سے بھرجاتی۔ الشورى
28 1- جو انواع رزق کی پیداوار میں سب سے زیادہ مفید اور اہم ہے۔ یہ بارش جب ناامیدی کے بعد ہوتی ہے تو اس نعمت کا صحیح احساس بھی اسی وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس طرح کرنے میں حکمت بھی یہی ہے کہ بندے اللہ کی نعمتوں کی قدر کریں اور اس کا شکر بجالائیں۔ 2- کارساز ہے، اپنے نیک بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، انہیں منافع سے نوازتا اور شرور ومہلکات سے ان کی حفاظت فرماتا ہے۔ اپنے ان انعامات بے پایاں اور احسانات فراواں پر قابل حمد وثنا ہے۔ الشورى
29 1- دَابَّةٍ (زمین پر چلنے پھرنے والا) کا لفظ عام ہے، جس میں جن وانس کے علاوہ تمام حیوانات شامل ہیں، جن کی شکلیں، رنگ، زبانیں، طبائع، اور انواع واجناس ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ اور وہ روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک ہی میدان میں جمع فرمائے گا۔ الشورى
30 1- اس کا خطاب اگر اہل ایمان سے ہو تو مطلب ہوگا کہ تمہارے بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کےبعد آخرت میں اس پر مواخذہ نہیں فرمائے گی۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ مومن کو جو بھی تکلیف اور ہم وحزن پہنچتا ہے حتیٰ کہ اس کے پیر میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ (صحيح بخاری، كتاب المرضى ، باب ما جاء في كفارة المرض - مسلم ، كتاب البر، باب ثواب المؤمن فيما يصيبه من مرض) اگر خطاب عام ہو تو مطلب ہوگا کہ تمہیں جو مصائب دنیا پہنچتے ہیں، یہ تمہارے اپنے گناہوں کانتیجہ ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ بہت سے گناہوں سے تو درگزر ہی فرما دیتا ہے یعنی یا تو ہمیشہ کے لیے معاف کردیتا ہے۔ یا ان پر فوری سزا نہیں دیتا۔ (اور عقوبت و تعزیر میں تاخیر، یہ بھی ایک گونہ معافی ہی ہے) جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ﴾ (فاطر: 45) ”اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے کرتوتوں پر فوراً مواخذہ فرما دے تو زمین پر کوئی چلنے والا ہی باقی نہ رہے“۔ اسی مفہوم کی آیت النحل 61 بھی ہے۔ الشورى
31 1- یعنی تم بھاگ کر کسی ایسی جگہ نہیں جاسکتے کہ جہاں تم ہماری گرفت میں نہ آسکو یا جو مصیبت ہم تم پر نازل کرنا چاہیں، اس سے تم بچ جاؤ۔ الشورى
32 1- الْجَوَارِ یا الْجَوَارِي جَارِيَةٌ (چلنے والی) کی جمع ہے، بمعنی کشتیاں، جہاز، یہ اللہ کی قدرت تامہ کی دلیل ہے کہ سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے تو یہ سمندروں میں ہی کھڑے رہیں۔ الشورى
33 الشورى
34 1- یعنی سمندر کو حکم دے اور اس کی موجوں میں طغیانی آجائے اور یہ ان میں ڈوب جائیں۔ 2- ورنہ سمندر میں سفر کرنے والا کوئی بھی سلامتی کے ساتھ واپس نہ آسکے۔ الشورى
35 1- یعنی ان کا انکار کرتے ہیں۔ 2- یعنی اللہ کے عذاب سے وہ کہیں بھاگ کر چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ الشورى
36 1- یعنی معمولی اور حقیر ہے، چاہے قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو، اس لیے اس سے دھوکے میں مبتلا نہ ہونا، اس لیے کہ یہ عارضی اور فانی ہے۔ 2- یعنی نیکیوں کا جو اجر وثواب اللہ کے ہاں ملے گا وہ متاع دنیا سے کہیں زیادہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی، کیونکہ اس کو زوال اور فنا نہیں، مطلب ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح مت دو، ایسا کرو گے تو پچھتاؤ گے۔ الشورى
37 1- یعنی لوگوں سے عفو ودرگزر کرنا ان کے مزاج وطبیعت کا حصہ ہے نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا۔ جس طرح نبی (ﷺ) کے بارے میں آتا ہے۔ [ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ قَطُّ إِلا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرُمَات اللهِ ] (البخاری ، كتاب الأدب ، باب يسروا ولا تعسروا - مسلم كتاب الفضائل، باب مباعدتهللآثام) نبی (ﷺ) نے اپنی ذات کے لیے کبھی بدلہ نہیں لیا، ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا توڑا جانا آپ کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ الشورى
38 1- یعنی اس کے حکم کی اطاعت، اس کے رسول کا اتباع اور اس کے زواجر سے اجتناب کرتے ہیں۔ 2- نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادات میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ 3- شُورَى ٰ، کا لفظ ذِكْرَىٰ اور بُشْرَىٰ کی طرح باب مفاعلہ سے اسم مصدر ہے۔ یعنی اہل ایمان ہر اہم کام باہمی مشاورت سے کرتے ہیں، اپنی ہی رائے کو حرف آخر نہیں سمجھتے خود نبی (ﷺ) کو بھی اللہ نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے مشورہ کرو (آل عمران: 159) چنانچہ آپ جنگی معاملات اور دیگر اہم کاموں میں مشاورت کا اہتمام فرماتے تھے۔ جس سے مسلمانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی اور معاملے کے مختلف گوشے واضح ہوجاتے۔ حضرت عمر (رضی الله عنہ) جب نیزے کے وار سے زخمی ہوگئے اور زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو امر خلافت میں مشاورت کے لیے چھ آدمی نامزد فرما دیے۔ عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی الله عنہم) ۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا اور دیگر لوگوں سے بھی مشاورت کی اور اس کے بعد حضرت عثمان (رضی الله عنہ) کو خلافت کے لیے مقرر فرمادیا۔ بعض لوگ مشاورت کے اس حکم اور تاکید سے ملوکیت کی تردید اور جمہوریت کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ مشاورت کا اہتمام ملوکیت میں بھی ہوتا ہے۔ بادشاہ کی بھی مجلس مشاورت ہوتی ہے، جس میں ہر اہم معاملے پر سوچ بچار ہوتا ہے اس لیے اس آیت سے ملوکیت کی نفی قطعاً نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں جمہوریت کو مشاورت کے ہم معنی سمجھنا یکسر غلط ہے۔ مشاورت ہر کہ و مہ سے نہیں ہوسکتی، نہ اس کی ضرورت ہی ہے۔ مشاورت کا مطلب ان لوگوں سے مشورہ کرنا ہے جو اس معاملے کی نزاکتوں اور ضرورتوں کو سمجھتے ہیں جس میں مشورہ درکار ہوتا ہے۔ جیسے بلڈنگ، پل وغیرہ بنانا ہو تو، کسی تانگہ بان، درزی یا رکشہ ڈرائیور سے نہیں، کسی انجینئر سے مشورہ کیا جائے گا، کسی مرض کے بارے میں مشورے کی ضرورت ہوگی تو طب و حکمت کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جب کہ جمہوریت میں اس کے برعکس ہر بالغ شخص کو مشورے کا اہل سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ کورا ان پڑھ، بےشعور اور امور سلطنت کی نزاکتوں سے یکسر بے خبر ہو۔ بنابریں مشاورت کے لفظ سے جمہوریت کا اثبات، تحکم اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں، اور جس طرح سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانے سے سوشلزم مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتا، اسی طرح جمہوریت میں اسلام کی پیوند کاری سے مغربی جمہوریت پر خلافت کی قباراست نہیں آسکتی۔ مغرب کا یہ پودا اسلام کی سرزمین پر نہیں پنپ سکتا۔ الشورى
39 1- یعنی بدلہ لینے سے وہ عاجز نہیں ہیں، اگر بدلہ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں، تاہم قدرت کے باوجود وہ معافی کو ترجیح دیتے ہیں جیسے نبی (ﷺ) نے فتح مکہ والے دن اپنے خون کے پیاسوں کے لیے عفوعام کا اعلان فرما دیا، حدیبیہ میں آپ نے ان 80 آدمیوں کو معاف کردیا، جنہوں نے آپ کے خلاف سازش تیار کی تھی، لبید بن عاصم یہودی سے بدلہ نہیں لیا جس نے آپ پر جادو کیا تھا، اس یہودیہ عورت کو آپ نے کچھ نہیں کہا جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملادیا تھا، جس کی تکلیف آپ دم واپسیں تک محسوس فرماتے رہے، (ﷺ) (ابن کثیر)۔ الشورى
40 1- یہ قصاص (بدلہ لینے) کی اجازت ہے۔ برائی کا بدلہ اگرچہ برائی نہیں ہے لیکن مشاکلت کی وجہ سے اسے بھی برائی ہی کہا گیا ہے۔ الشورى
41 الشورى
42 الشورى
43 الشورى
44 الشورى
45 1- یعنی دنیا میں یہ کافر ہمیں بیوقوف اور دنیوی خسارے کا حامل سمجھتے تھے، جب کہ ہم دنیا میں صرف آخرت کو ترجیح دیتے تھے اور دنیا کے خساروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ آج دیکھ لو حقیقی خسارے سے کون دوچار ہے۔ وہ جنہوں نے دنیا کے عارضی خسارے کو نظر انداز کیے رکھا اور آج وہ جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں یا وہ جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا تھا اور آج ایسے عذاب میں گرفتار ہیں، جس سے اب چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔ الشورى
46 الشورى
47 1- یعنی جس کو رد کرنے اور ٹالنے کی کوئی طاقت نہیں رکھے گا۔ . 2- یعنی تمہارے لیے کوئی ایسی جگہ نہیں ہوگی، کہ جس میں تم چھپ کر انجان بن جاؤ اور پہچانے نہ جاسکو یا نظر میں نہ آسکو جیسے فرمایا: ﴿يَقُولُ الإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ ، كَلا لا وَزَرَ، إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ﴾ (القيامہ: 10۔ 12) ”اس دن انسان کہے گا، کہیں بھاگنے کی جگہ ہے، ہرگز نہیں، کوئی راہ فرار نہیں ہوگی، اس دن تیرے رب کے پاس ہی ٹھکانا ہو گا“۔ یا نکیر بمعنی انکار ہے کہ تم اپنے گناہوں کا انکار نہ کرسکو گے کیوں کہ ایک تو وہ سب لکھے ہوئے ہوں گے۔ دوسرے خود انسان کے اعضا بھی گواہی دیں گے۔ یا جو عذاب تمہیں تمہارے گناہوں کی وجہ سے دیا جائے گا تم اس عذاب کا انکار نہیں کرسکو گے، کیوں کہ اعتراف گناہ کے بغیر تمہیں چارہ نہیں ہوگا۔ الشورى
48 1- جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ﴾ (البقرة: 272) اور ﴿فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ﴾ (الرعد: 40) ﴿فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ ، لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُسَيْطِرٍ﴾ (الغاشيہ :21 -22) ان سب کا مطلب یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی ذمہ داری صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچادیں، مانیں نہ مانیں، آپ سے اس کی باز پرس نہیں ہوگی، کیونکہ ہدایت دینا آپ کے اختیار میں ہی نہیں ہے، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ 2- یعنی وسائل رزق کی فراوانی، صحت وعافیت، اولاد کی کثرت، جاہ ومنصب وغیرہ۔ 3- یعنی تکبر اور غرور کا اظہار کرتا ہے، ورنہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونا یا اس کا اظہار ہونا، ناپسندیدہ امر نہیں، لیکن وہ تحدیث نعمت اور شکر کے طور پر ہو نہ کہ فخر وریا اور تکبر کے طور پر۔ 4- مال کی کمی، بیماری، اولاد سے محرومی وغیرہ۔ 5- یعنی فوراً نعمتوں کوبھی بھول جاتا ہے اور مُنْعِمٌ (نعمتیں دینے والے) کو بھی۔ یہ انسانوں کی غالب اکثریت کے اعتبار سے ہے جس میں ضعیف الایمان لوگ بھی شامل ہیں۔ لیکن اللہ کے نیک بندے اور کامل الایمان لوگوں کا حال ایسا نہیں ہوتا۔ وہ تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں پر شکر۔ جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا [ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ ، وَلَيْس ذَلِك لأَحَدٍ إٍلا لِلْمُؤْمِنِ ] (صحيح مسلم، كتاب الزهد ، باب أمر المؤمن أمره خير له الشورى
49 1- یعنی کائنات میں صرف اللہ ہی کی مشیت اور اسی کی تدبیر چلتی ہے، وہ جو چاہتا ہے، ہوتا ہے، جو نہیں چاہتا، نہیں ہوتا۔ کوئی دوسرا اس میں دخل اندازی کرنے کی قدرت واختیار نہیں رکھتا۔ الشورى
50 1- یعنی جس کو چاہتا ہے، مذکر اور مونث دونوں دیتا ہے۔ اس مقام پر اللہ نے لوگوں کی چار قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک وہ جن کو صرف بیٹے دیئے۔ دوسرے، وہ جن کو صرف بیٹیاں، تیسرے وہ جن کو بیٹے، بیٹیاں دونوں اور چوتھے، وہ جن کو بیٹا نہ بیٹی۔ لوگوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، اس تفاوت الٰہی کو دنیا کی کوئی طاقت بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ یہ تقسیم اولاد کے اعتبار سے ہے۔ باپوں کے اعتبار سے بھی انسانوں کی چار قسمیں ہیں۔ 1۔ آدم (عليہ السلام) کو صرف مٹی سے پیدا کیا، ان کا باپ ہے نہ ماں۔ 2۔ حضرت حوا کو آدم (عليہ السلام) سے یعنی مرد سے پیدا کیا، ان کی ماں نہیں ہے۔ 3۔ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو صرف عورت کے بطن سے پیدا کیا، ان کا باپ نہیں ہے۔ 4۔ اور باقی تمام انسانوں کو مرد اور عورت کے ملاپ سے۔ ان کے باپ بھی ہیں اور مائیں بھی۔ فَسُبْحَانَ اللهِ الْعَلِيمِ الْقَدِيرِ(ابن کثیر)۔ الشورى
51 1- اس آیت میں وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی یہ کہ دل میں کسی بات کا ڈال دینا یا خواب میں بتلا دینا اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دوسری، پردے کے پیچھے سے کلام کرنا، جیسے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے کوہ طور پر کیا گیا۔ تیسری، فرشتے کے ذریعے اپنی وحی بھیجنا، جیسے جبرائیل (عليہ السلام) اللہ کا پیغام لے کر آتے اور پیغمبروں کو سناتے رہے۔ الشورى
52 1- رُوحٌ سے مراد قرآن ہے۔ یعنی جس طرح آپ سے پہلے اور رسولوں پر ہم وحی کرتے رہے، اسی طرح ہم نے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے۔ قرآن کو روح سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔ 2- کتاب سے مراد قرآن ہے، یعنی نبوت سے پہلے قرآن کا بھی کوئی علم آپ کو نہیں تھا اور اسی طرح ایمان کی ان تفصیلات سے بھی بے خبر تھے جو شریعت میں مطلوب ہیں۔ 3- یعنی قرآن کو نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے ہم جسے چاہتے ہیں، ہدایت سے نواز دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن سے ہدایت و رہنمائی انہی کو ملتی ہے جن میں ایمان کی طلب اور تڑپ ہوتی ہے وہ اسے طلب ہدایت کی نیت سے پڑھتے، سنتے اور غور وفکر کرتے ہیں، چنانچہ اللہ ان کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کا راستہ ان کے لیے ہموار کر دیتا ہے جس پر وہ چل پڑتے ہیں ورنہ جو اپنی آنکھوں کو ہی بند کرلیں، کانوں میں ڈاٹ لگالیں اور عقل وفہم کو ہی بروئے کار نہ لائیں تو انہیں ہدایت کیوں کر نصیب ہوسکتی ہے، جیسے فرمایا۔ ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ﴾ (سورۃ حمٰ السجدۃ: 44) الشورى
53 1- یہ صراط مستقیم، اسلام ہے۔ اس کی اضافت اللہ نے اپنی طرف فرمائی ہے جس سے اس راستے کی عظمت وفخامت شان واضح ہوتی ہے اور اس کے واحد راہ نجات ہونے کی طرف اشارہ بھی۔ 2- یعنی قیامت والے دن تمام معاملات کا فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوگا، اس میں سخت وعید ہے، جو مجازات (جزا وسزا) کو مستلزم ہے۔ الشورى
0 الزخرف
1 الزخرف
2 الزخرف
3 1- جو دنیا کی فصیح ترین زبان ہے، دوسرے، اس کے اولین مخاطب بھی عرب تھے، انہی کی زبان میں قرآن اتارا تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے سمجھ سکیں۔ الزخرف
4 1- اس میں قرآن کریم کی اس عظمت اور شرف کا بیان ہے جو ملا اعلیٰ میں اسے حاصل ہے تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف وعظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور اس سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لیے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے أُمُّ الْكِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ الزخرف
5 1- اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں مثلاً 1۔ تم چونکہ گناہوں میں بہت منہمک اور ان پر مصر ہو، اس لیے کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم تمہیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیں گے؟ 2۔ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کرلیں گے۔ 3۔ یا ہم تمہیں ہلاک کردیں اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں نہ منع کریں۔ 4۔ چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو، اس لیے ہم انزال قرآن کا سلسلہ ہی بند کردیں۔ پہلے مفہوم کو امام طبری نے اور آخری مفہوم کو امام ابن کثیر نے زیادہ پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اللہ کا لطف وکرم ہے کہ اس نے خیر اور ذکر حکیم (قرآن) کی طرف دعوت دینے کا سلسلہ موقوف نہیں فرمایا، اگرچہ وہ اعراض وانکار میں حد سے تجاوز کررہے تھے، تاکہ جس کے لیے ہدایت مقدر ہے وہ اس کے ذریعے سے ہدایت اپنا لے اور جن کے لیے شقاوت لکھی جاچکی ہے ان پر حجت قائم ہوجائے۔ الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 1- یعنی اہل مکہ سے زیادہ زور آور تھے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً﴾ (المؤمن: 82) ”وہ ان سے تعداد اور قوت میں کہیں زیادہ تھے“۔ 2- یعنی قرآن مجید میں ان قوموں کا تذکرہ یا وصف متعدد مرتبہ گزر چکا ہے۔ اس میں اہل مکہ کے لیے تہدید ہے کہ پچھلی قومیں رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ اگریہ بھی تکذیب رسالت پر مصر رہے تو ان کی مثل یہ بھی ہلاک کردیے جائیں گے۔ الزخرف
9 1- لیکن اس اعتراف کے باوجود انہی مخلوقات میں سے بہت سوں کو ان نادانوں نے اللہ کا شریک ٹھہرالیا ہے۔ اس میں ان کے جرم کی شناعت وقباحت کا بھی بیان ہے اور ان کی سفاہت وجہالت کا اظہار بھی۔ الزخرف
10 1- ایسا بچھونا، جس میں ثبات وقرار ہے، تم اس پر چلتے ہو، کھڑے ہوتے اور سوتے ہو اور جہاں چاہتے ہو، پھرتے ہو، اس نے اس کو پہاڑوں کے ذریعے سے جما دیا تاکہ اس میں حرکت وجنبش نہ ہو۔ 2- یعنی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے راستے بنادیئے تاکہ کاروباری، تجارتی اور دیگر مقاصد کے لیے تم آجاسکو۔ الزخرف
11 1- جس سے تمہاری ضرورت پوری ہوسکے، کیونکہ قدر حاجت سے کم بارش ہوتی تو وہ تمہارے لیے مفید ثابت نہ ہوتی اور زیادہ ہوتی تو وہ طوفان بن جاتی، جس میں تمہارے ڈوبنے اور ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا۔ 2- یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین شاداب ہوجاتی ہے، اسی طرح قیامت والے دن تمہیں بھی زندہ کرکے قبروں سے نکال لیا جائے گا۔ الزخرف
12 1- یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا، نر اور مادہ، نباتات، کھیتیاں، پھل، پھول اور حیوانات سب میں نر اور مادہ کا سلسلہ ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ایک دوسرے کی مخالف چیزیں ہیں جیسے روشنی اور اندھیرا، مرض اور صحت، انصاف اور ظلم، خیر اور شر، ایمان اور کفر، نرمی اور سختی وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں ازواج، اصناف کے معنی میں ہے۔ تمام انواع واقسام کا خالق اللہ ہے۔ الزخرف
13 1- لِتَسْتَوُوا بِمَعْنَى لِتَسْتَقِرُّوا یا لِتَسْتَعْلُوا جم کر بیٹھ جاو یا چڑھ جاؤ۔ ظُهُورِهِ میں ضمیر واحد باعتبار جنس کے ہے۔ 2- یعنی اگر ان جانوروں کو ہمارے تابع اور ہمارے بس میں نہ کرتا تو ہم انہیں اپنے قابو میں رکھ کر ان کو سواری، بار برداری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرسکتے تھے، مُقْرِنِينَ بمعنی مُطِيقِينَ ہے۔ الزخرف
14 1- نبی کریم (ﷺ) جب سواری پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اللهُ أَكْبَرُ کہتے اور ﴿سُبْحَانَ الَّذِي﴾... سے ﴿لَمُنْقَلِبُونَ تک آیت پڑھتے۔ علاوہ ازیں خیروعافیت کی دعا مانگتے، جو دعاؤں کی کتابوں میں دیکھ لی جائے (صحيح مسلم، كتاب الحج ، باب ما يقول إذا ركب الزخرف
15 1- عِبَادٌ سے مراد فرشتے اور جُزْءٌ سے مراد بیٹیاں یعنی فرشتے، جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ یوں وہ مخلوق کو اللہ کا شریک اور اس کا جزء مانتے تھے، حالانکہ وہ ان چیزوں سے پاک ہے۔ بعض نے جزء سے یہاں نذر نیاز کے طور پر نکالے جانے والے وہ جانور مراد لیے ہیں جن کا ایک حصہ مشرکین اللہ کے نام پر اور ایک حصہ بتوں کے نام پر نکالا کرتے تھے جس کا ذکر سورۃ الانعام: 136 میں ہے۔ الزخرف
16 الزخرف
17 1- اس میں ان کی جہالت اور سفاہت کا بیان ہے جو انہوں نے اللہ کے لیے اولاد بھی ٹھہرائی ہوئی ہے جسے یہ خود ناپسند کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی اولاد ہوتی تو کیا ایسا ہی ہوتا کہ خود تو اس کی لڑکیاں ہوتیں اور تمہیں وہ لڑکوں سے نوازتا۔ الزخرف
18 1- يُنَشَّؤُا نُشُوءٌ سے ہے، بمعنی تربیت اور نشوونما۔ عورتوں کی دو صفات کا تذکرہ بطور خاص یہاں کیا گیا ہے۔ 1۔ ان کی تربیت اور نشوونما زیورات اور زینت میں ہوتی ہے، یعنی شعور کی آنکھیں کھولتے ہی ان کی توجہ حسن افزا اور جمال افروز چیزوں کی طرف ہوجاتی ہے۔ مقصد اس وضاحت سے یہ ہے کہ جن کی حالت یہ ہے، وہ تو اپنے ذاتی معاملات کے درست کرنے کی بھی استعداد وصلاحیت نہیں رکھتیں۔ 2۔ اگر کسی سے بحث وتکرار ہو تو وہ اپنی بات بھی صحیح طریقے سے (فطری حجاب کی وجہ سے) واضح نہیں کرسکتیں نہ فریق مخالف کے دلائل کا توڑ ہی کرسکتی ہیں۔ یہ عورت کی وہ دو فطری کمزوریا ں ہیں جن کی بنا پر مرد حضرات عورتوں پر ایک گونہ فضیلت رکھتے ہیں۔ سیاق سے بھی مرد کی یہ برتری واضح ہے، کیوں کہ گفتگو اسی ضمن میں یعنی مرد و عورت کے درمیان جو فطری تفاوت ہے، جس کی بنا پر بچی کے مقابلے میں بچے کی ولادت کو زیادہ پسند کیا جاتا تھا، ہو رہی ہے۔ الزخرف
19 1- یعنی جزا کے لیے۔ کیونکہ فرشتوں کے بنات اللہ ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوگی۔ الزخرف
20 1- یعنی اپنے طور پر اللہ کی مشیت کا سہارا، یہ ان کی ایک بڑی دلیل ہے کیونکہ ظاہراً یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، نہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس کی مشیت، اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ ہر کام یقیناً اس کی مشیت ہی سے ہوتا ہے لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے جن کا اس نے حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس کام سے جو انسان اللہ کی مشیت سے کرتا ہے، انسان چوری، بدکاری، ظلم اور بڑے بڑے گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو یہ گناہ کرنے کی قدرت ہی نہ دے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لے، اس کے قدموں کو روک دے اس کی نظر سلب کرلے۔ لیکن یہ جبر کی صورتیں ہیں جب کہ اس نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اسے آزمایا جائے، اسی لیے اس نے دونوں قسم کے کاموں کی وضاحت کردی ہے، جن سے وہ راضی ہوتا ہے ان کی بھی اور جن سے ناراض ہوتا ہے، ان کی بھی۔ انسان دونوں قسم کے کاموں میں سے جو کام بھی کرے گا، اللہ اس کا ہاتھ نہیں پکڑے گا، لیکن اگر وہ کام جرم ومعصیت کا ہوگا تو یقیناً وہ اس سے ناراض ہوگا کہ اس نے اللہ کے دیئے ہوئے اختیار کا استعمال غلط کیا۔ تاہم یہ اختیار اللہ دنیا میں اس سے واپس نہیں لے گا، البتہ اس کی سزا قیامت والے دن دے گا۔ الزخرف
21 1- یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب، جس میں ان کو غیراللہ کی عبادت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے؟ یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ تقلید آبا کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ الزخرف
22 الزخرف
23 الزخرف
24 1- یعنی اپنے آبا کی تقلید میں اتنے پختہ تھے کہ پیغمبر کی وضاحت اور دلیل بھی انہیں اس سے نہیں پھیر سکی۔ یہ آیت اندھی تقلید کے بطلان اور اس کی قباحت پر بہت بڑی دلیل ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی)۔ الزخرف
25 الزخرف
26 الزخرف
27 1- یعنی جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہ مجھے اپنے دین کی سمجھ بھی دے اور اس پر ثابت قدم بھی رکھے گا، میں صرف اسی کی عبادت کروں گا۔ الزخرف
28 1- یعنی اس کلمۂ [لا إِلَهَ إِلا الله ] کی وصیت اپنی اولاد کو کر گئے۔ جیسے فرمایا ﴿وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ﴾ (البقرة: 132) بعض نے جَعَلَهَا میں فاعل اللہ کو قرار دیا ہے۔ یعنی اللہ نے اس کلمے کو ابراہیم (عليہ السلام) کے بعد ان کی اولاد میں باقی رکھا اور وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔ 2- یعنی اولاد ابراہیم میں یہ موحدین اس لیے پیدا کیے تاکہ ان کے توحید کے وعظ سے لوگ شرک سے باز آتے رہیں۔ لَعَلَّهُمْ میں ضمیر کا مرجع اہل مکہ ہیں یعنی شاید اہل مکہ اس دین کی طرف لوٹ آئیں جو حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا دین تھا جو خالص توحید پر مبنی تھا نہ کہ شرک پر۔ الزخرف
29 1- یہاں سے پھر ان نعمتوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں اور نعمتوں کے بعد عذاب میں جلدی نہیں کی بلکہ انہیں پوری مہلت دی، جس سے وہ دھوکے میں مبتلا ہوگئے اور خواہشات کے بندے بن گئے۔ 2- حق سے قرآن اور رسول سے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) مراد ہیں۔ مُبِينٌ رسول کی صفت ہے، کھول کر بیان کرنے والا یا جن کی رسالت واضح اور ظاہر ہے، اس میں کوئی اشتباہ اور خفا نہیں۔ الزخرف
30 1- قرآن کو جادو قرار دے کر اس کا انکار کردیا، اور اگلے الفاظ میں حضرت نبی کریم (ﷺ) کی تحقیر وتنقیص کی۔ الزخرف
31 1- دونوں بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہے اور بڑے آدمی سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک مکے کا ولید بن مغیرہ اور طائف کا عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔ بعض نے کچھ اور لوگوں کے نام ذکر کیے ہیں تاہم مقصد اس سے ایسے آدمی کا انتخاب ہے جو پہلے سے ہی عظیم جاہ ومنصب کا حامل، کثیر المال اور اپنی قوم میں مانا ہوا ہو، یعنی قرآن اگر نازل ہوتا تو دونوں بستیوں میں سے کسی ایسی ہی شخصیت پر نازل ہوتا نہ کہ محمد (ﷺ) پر، جن کا دامن دولت دنیا سے بھی خالی ہے، اور اپنی قوم میں قیادت وسیادت کے منصب پر بھی فائز نہیں ہیں۔ الزخرف
32 1- رحمت، نعمت کے معنی میں ہے، اور یہاں سب سے بڑی نعمت، نبوت، مراد ہے۔ استفہام انکار کے لیے ہے۔ یعنی یہ کام ان کا نہیں ہے کہ رب کی نعمتیں بالخصوص نعمت نبوت یہ اپنی مرضی سے تقسیم کریں، بلکہ یہ صرف رب کا کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کا علم اور ہر شخص کے حالات سے پوری واقفیت رکھتا ہے، وہی بہتر سمجھتا ہے کہ انسانوں میں سے نبوت کا تاج کس کے سر پر رکھنا ہے اور اپنی وحی ورسالت سے کس کو نوازنا ہے۔ 2- یعنی مال ودولت، جاہ ومنصب اور عقل وفہم میں ہم نے یہ فرق وتفاوت اس لیے رکھا ہے تاکہ زیادہ مال والا، کم مال والے سے، اونچے منصب والا چھوٹے منصب داروں سے، اور عقل وفہم میں حظ وافر رکھنے والا، اپنے سے کم تر عقل وشعور رکھنے والے سے کام لے سکے۔ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ سے کائنات کا نظام بحسن وخوبی چل رہا ہے۔ ورنہ اگر سب مال میں، منصب میں، علم وفہم میں، عقل وشعور میں اور دیگر اسباب دنیا میں برابر ہوتے تو کوئی کسی کا کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا، اسی طرح کم تر اور حقیر سمجھے جانے والے کام بھی کوئی نہ کرتا۔ یہ احتیاج انسانی ہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرق وتفاوت کے اندر رکھ دی ہے جس کی وجہ سے ہر انسان دوسرے انسان بلکہ انسانوں کا محتاج ہے، تمام حاجات وضروریات انسانی، کوئی ایک شخص، چاہے وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو، دیگر انسانوں کی مدد حاصل کیے بغیر خود فراہم کر ہی نہیں سکتا۔ 3- اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔ الزخرف
33 1- یعنی دنیا کے مال واسباب میں رغبت کرنے کی وجہ سے طالب دنیا ہی ہوجائیں گے اور رضائے الٰہی اور آخرت کی طلب سب فراموش کردیں گے۔ الزخرف
34 الزخرف
35 1- یعنی بعض چیزیں چاندی کی اور بعض سونے کی، کیونکہ تنوع میں حسن زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال ہماری نظر میں اتنا بے وقعت ہے کہ اگر مذکورہ خطرہ نہ ہوتا تو اللہ کے سب منکروں کو خوب دولت دی جاتی لیکن اس میں خطرہ یہی تھا کہ پھر سب لوگ ہی دنیا کے پرستار نہ بن جائیں۔ دنیا کی حقارت اس حدیث سے بھی واضح ہے جس میں فرمایا گیا ہے۔ [ لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَزِنُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى مِنْهَا كَافِرًا شُرْبَةَ مَاءٍ ] (ترمذی ، ابن ماجه ، كتاب الزهد ) ”اگر دنیا کی اللہ کے ہاں اتنی حیثیت بھی ہوتی جتنی ایک مچھر کے پر کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس دنیا سے ایک گھونٹ پانی بھی پینے کو نہ دیتا“۔ 2- جو شرک ومعاصی سے اجتناب اور اللہ کی اطاعت کرتے رہے، ان کے لیے آخرت اور جنت کی نعمتیں ہیں جن کو زوال وفنا نہیں۔ الزخرف
36 1- عَشَا يَعْشُو کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری رتوندیا اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوجائے۔ 2- وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا اور نیکیوں سے روکتا ہے۔ یا انسان خود اسی شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے اوراس سے جدا نہیں ہوتا بلکہ تمام معاملات میں اسی کی پیروی اور اس کے تمام وسوسوں میں اس کی اطاعت کرتا ہے۔ الزخرف
37 1- یعنی وہ شیطان ان کے حق کے راستے کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور اس سے انہیں روکتے ہیں اور انہیں برابر سمجھاتے رہتے ہیں کہ تم حق پر ہو، حتیٰ کہ وہ واقعی اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔ یا کافر شیطانوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں اور ان کی اطاعت کرتے رہتے ہیں۔ (فتح القدیر)۔ الزخرف
38 1- مَشْرِقَيْنِ (تثنیہ ہے) مراد مشرق اور مغرب ہیں۔ فَبِئْسَ الْقَرِينُ کا مخصوص بالذم محذوف ہے۔ أَنْتَ أَيُّهَا الشَّيْطَانُ! اے شیطان تو بہت برا ساتھی ہے۔ یہ کافر قیامت والے دن کہے گا۔ لیکن اس دن اس اعتراف کا کیا فائدہ؟ الزخرف
39 الزخرف
40 1- یعنی جس کے لیے شقاوت ابدی لکھ دی گئی ہے، وہ وعظ ونصیحت کے اعتبار سے بہرہ اور اندھا ہے، تیری دعوت وتبلیغ سے وہ راہ راست پر نہیں آسکتا۔ یہ استفہام انکاری ہے۔ جس طرح بہرہ سننے سے، نابینا دیکھنے سے محروم ہے، اسی طرح کھلی گمراہی میں مبتلا حق کی طرف آنے سے محروم ہے۔ یہ نبی (ﷺ) کو تسلی ہے تاکہ ایسے لوگوں کے کفر سے آپ زیادہ تشویش محسوس نہ کریں۔ الزخرف
41 1- یعنی تجھے موت آجائے، قبل اس کے کہ ان پر عذاب آئے، یا تجھے مکے سے نکال لے جائیں۔ 2- دنیا میں ہی، اگر ہماری مشیت متقاضی ہوئی، بصورت دیگر عذاب اخروی سے تو وہ کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ الزخرف
42 1- یعنی تیری موت سے قبل ہی، یا مکے میں ہی تیرے رہتے ہوئے ان پر عذاب بھیج دیں۔ 2- یعنی ہم جب چاہیں ان پر عذاب نازل کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم ان پر قادر ہیں۔ چنانچہ آپ کی زندگی میں ہی بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست، اور ذلت سے دوچار ہوئے۔ الزخرف
43 1- یعنی قرآن کریم کو، چاہے کوئی بھی اسے جھٹلاتا رہے۔ 2- یہ فَاسْتَمْسِكْ کی علت ہے۔ الزخرف
44 1- اس تخصیص کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے لیے نصیحت نہیں۔ بلکہ اولین مخاطب چونکہ قریش تھے، اس لیے ان کا ذکر فرمایا، ورنہ قرآن تو پورے جہان کے لیے نصیحت ہے۔ ﴿وَمَا هُوَ إِلا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ﴾ (سورة القلم : 52) جیسے آپ کو حکم دیا گیا کہ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کا پیغام صرف رشتے داروں کو ہی پہنچانا ہے۔ بلکہ مطلب ہے تبلیغ کی ابتدا اپنے ہی خاندان سے کریں بعض نے یہاں ذکر بمعنی شرف لیا ہے۔ یعنی یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف وعزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل وبرتری پاسکتے ہیں، اس لیے ان کو چاہیئے کہ اس کو اپنائیں اور اس کے مقتضا پر سب سے زیادہ عمل کریں۔ الزخرف
45 1- پیغمبروں سے یہ سوال یا تو اسرار ومعراج کے موقعے پر، بیت المقدس یا آسمان پر کیا گیا، جہاں انبیا علیہم السلام سے نبی کریم (ﷺ) کی ملاقاتیں ہوئیں۔ یا أَتْبَاعَ کا لفظ محذوف ہے۔ یعنی ان کے پیروکاروں (اہل کتاب، یہود ونصاریٰ) سے پوچھو، کیونکہ وہ ان کی تعلیمات سے آگاہ ہیں اور ان پر نازل شدہ کتابیں ان کے پاس موجود ہیں۔ 2- جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اللہ نے کسی بھی نبی کو یہ حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس ہر نبی کی دعوت توحید ہی کا حکم دیا گیا۔ الزخرف
46 1- قریش مکہ نے کہا تھا کہ اگر اللہ کسی کو نبی بناکر بھیجتا ہی تو مکے اور طائف کے کسی ایسے شخص کو بھیجتا جو صاحب مال وجاہ ہوتا۔ جیسے فرعون نے بھی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے مقابلے میں کہا تھا کہ میں موسیٰ سے بہتر ہوں (اور یہ مجھ سے کمتر ہے، یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا) جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ غالباً اسی مشابہت احوال کی وجہ سے یہاں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) وفرعون کا قصہ دہرایا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں حضرت نبی کریم (عليہ السلام) کے لیے بھی تسلی کا پہلو ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو بھی بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، انہوں نے صبر اور عزم سے کام لیا، اسی طرح آپ بھی کفار مکہ کی ایذاؤں اور ناروا رویوں سے دل برداشتہ نہ ہوں، صبر اور حوصلے سے کام لیں۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) ہی کی طرح بالآخر فتح وکامرانی آپ ہی کی ہے اور یہ اہل مکہ فرعون ہی کی طرح ناکام ونامراد ہوں گے۔ الزخرف
47 1- یعنی جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دعوت توحید دی تو انہوں نے ان کے رسول ہونے کی دلیل طلب کی، جس پر انہوں نے وہ دلائل ومعجزات پیش کیے جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے تھے۔ جنہیں دیکھ کر انہوں نے استہزا اور مذاق کیا اور کہا کہ یہ کون سی ایسی چیزیں ہیں۔ یہ تو جادو کے ذریعے ہم بھی پیش کرسکتے ہیں۔ الزخرف
48 1- ان نشانیوں سے وہ نشانیاں مراد ہیں جو طوفان ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون وغیرہ کی شکل میں یکے بعد دیگرے انہیں دکھائی گئیں، جن کا تذکرہ سورۂ اعراف، آیات 133۔ 135 میں گزر چکا ہے۔ بعد میں آنے والی ہر نشانی پہلی نشانی سے بڑی چڑھی ہوتی، جس سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی صداقت واضح سے واضح تر ہوجاتی۔ 2- مقصد ان نشانیوں یا عذاب سے یہ ہوتا تھا کہ شاید وہ تکذیب سے باز آجائیں۔ الزخرف
49 1- کہتے ہیں اس زمانے میں جادو مذموم چیز نہیں تھی اور عالم فاضل شخص کو جادوگر کے لفظ سے ہی بطور تعظیم خطاب کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں معجزات اور نشانیوں کے بارے میں بھی ان کا خیال تھا کہ یہ موسیٰ (عليہ السلام) کے فن جادوگری کا کمال ہے۔ اس لیے انہوں نے موسیٰ کو جادوگر کے لفظ سے مخاطب کیا۔ 2- (اپنے رب سے) کے الفاظ اپنی مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیونکہ مشرکوں میں مختلف رب اور الٰہ ہوتے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے یہ کام کر والو ! 3- یعنی ہمارے ایمان لانے پر عذاب ٹالنے کا وعدہ۔ 4- اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے۔ لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اور سورۂ اعراف میں بھی گزرا۔ الزخرف
50 الزخرف
51 1- جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے ایسی کئی نشانیاں پیش کردیں جو ایک سے بڑھ کر ایک تھیں تو فرعون کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری قوم موسیٰ کی طرف مائل نہ ہوجائے۔ چنانچہ اس نے اپنی ہزیمت کے داغ کو چھپانے اور قوم کو مسلسل دھوکے اور فریب میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ نئی چال چلی کہ اپنے اختیار واقتدار کے حوالے سے موسیٰ (عليہ السلام) کی بےتوقیری اور کمتری کو نمایاں کیا جائے تاکہ قوم میری سلطنت وسطوت سے ہی مرعوب رہے۔ 2- اس سے مراد دریائے نیل یا اس کی بعض شاخیں ہیں جو اس کے محل کے نیچے سے گزرتی تھیں۔ الزخرف
52 1- أَمْ اضراب کے لیے یعنی بَلْ (بلکہ) کے معنی میں ہے، بعض کے نزدیک استفہامیہ ہی ہے۔ 2- یہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی لکنت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سورۂ طٰہ میں گزرا۔ الزخرف
53 1- اس دور میں مصر اور فارس کے بادشاہ اپنی امتیازی شان اور خصوصی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لیے سونے کے کڑے پہنتے تھے، اسی طرح قبیلوں کے سرداروں کے ہاتھوں میں بھی سونے کے کڑے اور گلے میں سونے کے طوق اور زنجیریں ڈال دی جاتی تھیں جو ان کی سرداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اسی اعتبار سے فرعون نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے بارے میں کہا کہ اگر اس کی کوئی حیثیت اور امتیازی شان ہوتی تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے ہونے چاہیے تھے۔ 2- جو اس بات کی تصدیق کرتے کہ یہ اللہ کا رسول ہے یا بادشاہوں کی طرح اس کی شان کو نمایاں کرنے کے لیے اس کے ساتھ ہوتے۔ الزخرف
54 1- یعنی اسْتَخَفَّ عُقُولَهُم (ابن کثیر) اس نے اپنی قوم کی عقل کو ہلکا سمجھایا کر دیا اور انہیں اپنی جہالت وضلالت پر قائم رہنے کی تاکید کی، اور قوم اس کے پیچھے لگ گئی۔ الزخرف
55 الزخرف
56 1- آسَفُونَا بمعنی أَسْخَطُونَا یا أَغْضَبُونَا، سَلَفٌ سَالِفٌ کی جمع ہے جیسے خَدَمٌ، خَادِمٌ کی اور حَرَسٌ ، حَارِسٌ کی ہے۔ معنی جو اپنے وجود میں دوسرے سے پہلے ہو۔ یعنی ان کو بعد میں آنے والوں کے لیےنصیحت اور مثال بنا دیا۔ کہ وہ اس طرح کفر وظلم اور علو وفساد نہ کریں جس طرح فرعون نے کیا تاکہ وہ اس جیسے عبرت ناک حشر سے محفوظ رہیں۔ الزخرف
57 الزخرف
58 1- شرک کی تردید اور جھوٹے معبودوں کی بےوقعتی کی وضاحت کے لیے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم میں جائیں گے تو اس سے مراد وہ پتھر کی مورتیاں ہوتی ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے، نہ کہ وہ نیک لوگ، جو اپنی »زندگیوں میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے انہیں بھی معبود سمجھنا شروع کردیا۔ ان کی بابت تو قرآن کریم نے ہی واضح کردیا ہے کہ یہ جہنم سے دور رہیں گے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (الأنبياء: 101) کیونکہ اس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا۔ اسی لیے قرآن نے اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے، وہ لفظ ما ہے جو غیر عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہے ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ﴾ (الأنبياء: 98) اس سے انبیا علیہم السلام اور وہ صالحین نکل گئے، جن کو لوگوں نے اپنے طور پر معبود بنائے رکھا ہوگا۔ یعنی یہ تو ممکن ہے کہ دیگر مورتیوں کے ساتھ ان کی شکلوں کی بنائی ہوئی مورتیاں بھی اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دے لیکن یہ شخصیات تو بہرحال جہنم سے دور ہی رہیں گی۔ لیکن مشرکین نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے حضرت مسیح (عليہ السلام) کا ذکر خیر سن کر یہ کٹ حجتی اور مجادلہ کرتے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) قابل مدح ہیں دراں حالیکہ عیسائیوں نے انہیں معبود بنایا ہوا ہے، تو پھر ہمارے معبود کیوں برے؟ کیا وہ بھی بہتر نہیں؟ یا اگر ہمارے معبود جہنم میں جائیں گے تو حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) اور حضرت عزیر (عليہ السلام) بھی پھر جہنم میں جائیں گے۔ اللہ نے یہاں فرمایا، ان کا خوشی سے چلانا، ان کا جدل محض ہے۔ جدل کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جھگڑنے والا جانتا ہے کہ اس کے پاس دلیل کوئی نہیں ہے لیکن محض اپنی بات کی پچ میں بحث وتکرار سے گریز نہیں کرتا۔ الزخرف
59 1- ایک اس اعتبار سے کہ بغیر باپ کے ان کی ولادت ہوئی، دوسرے، خود انہیں جو معجزات دیے گئے، احیائے موتی وغیرہ، اس لحاظ سے بھی۔ الزخرف
60 1- یعنی تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کردیتے، جو تمہاری ہی طرح ایک دوسرے کی جانشینی کرتے، مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کا آسمان پر رہنا ایسا شرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یہ تو ہماری مشیت اور قضا ہے کہ فرشتوں کو آسمان پر اور انسانوں کو زمین پر آباد کیا، ہم چاہیں تو فرشتوں کو زمین پر بھی آباد کرسکتے ہیں۔ الزخرف
61 1- عِلْمٌ بمعنی علامت ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جیسا کہ صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ یہ نزول اس بات کی علامت ہوگا کہ اب قیامت قریب ہے اسی لیے بعض نے اسے عین اور لام کے زبر کے ساتھ (عَلَمٌ) پڑھا ہے، جس کے معنی ہی نشانی اور علامت کے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک انہیں قیامت کی نشانی قرار دینا، ان کی معجزانہ ولادت کی بنیاد پر ہے۔ یعنی جس طرح اللہ نے ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ ان کی یہ پیدائش اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرما دےگا، اس لیے قدرت الٰہی کو دیکھتے ہوئے وقوع قیامت میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) ہیں۔ الزخرف
62 الزخرف
63 1- اس کے لیے دیکھئے آل عمران، آیت۔ 5 کا حاشیہ۔ الزخرف
64 الزخرف
65 1- اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں، یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی تنقیص کی اور انہیں نعوذباللہ ولد الزنا قرار دیا، جب کہ عیسائیوں نے غلو سے کام لے کر انہیں معبود بنالیا۔ یا مراد عیسائیوں ہی کے مختلف فرقے ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے بارے میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک انہیں ابن اللہ، دوسرا اللہ اور ثالث ثلاثہ کہتا ہے اور ایک فرقہ مسلمانوں کی طرح انہیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرتا ہے۔ الزخرف
66 الزخرف
67 1- کیوں کہ کافروں کی دوستی، کفر وفسق کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے اور یہی کفر وفسق ان کے عذاب کا باعث ہوں گے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے اور ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس اہل ایمان و تقویٰ کی باہمی محبت، چونکہ دین اور رضائے الٰہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہی دین وایمان خیروثواب کا باعث ہے۔ ان سے ان کی دوستی میں کوئی انقطاع نہیں ہوگا۔ وہ اسی طرح برقرار رہے گی جس طرح دنیا میں تھی۔ الزخرف
68 1- یہ قیامت والے دن ان متقین کو کہا جائے گا جو دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی اس کی فضیلت وارد ہے۔ بلکہ اللہ کے لیے بغض اور اللہ کے لیے محبت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔ الزخرف
69 الزخرف
70 1- أَزْوَاجُكُمْ سے بعض نے مومن بیویاں، بعض نے مومن ساتھی اور بعض نے جنت میں ملنے والی حورعین بیویاں مراد لی ہے۔ یہ سارے ہی مفہوم صحیح ہیں کیونکہ جنت میں یہ سب کچھ ہی ہوگا۔ تُحْبَرُونَ حَبْرٌ سے ماخوذ ہے یعنی وہ فرحت ومسرت جو انہیں جنت کی نعمت وعزت کی وجہ سے ہوگی۔ الزخرف
71 1- صِحَافٌ ، صَحْفَةٌ کی جمع ہے۔ رکابی۔ سب سے بڑے برتن کو جَفْنَةٌ کہا جاتا ہے، اس سے چھوٹا قَصْعَةٌ (جس سے دس آدمی شکم سیر ہوجاتے ہیں) پھر صَحْفَةٌ (قَصْعَةٌ سے نصف) پھر مِكِيلَةٌ ہے۔ مطلب ہے کہ اہل جنت کو جو کھانے ملیں گے، وہ سونے کی رکابیوں میں ہوں گے (فتح القدیر)۔ 2- یعنی جس طرح ایک وارث، میراث کا مالک ہوتا ہے، اسی طرح جنت بھی ایک میراث ہے جس کے وارث وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں ایمان اور عمل صالح کی زندگی گزاری ہوگی۔ الزخرف
72 الزخرف
73 الزخرف
74 الزخرف
75 1- یعنی نجات سے مایوس۔ الزخرف
76 الزخرف
77 1- مالک، داروغۂ جہنم کا نام ہے۔ 2- یعنی ہمیں موت ہی دے دے تاکہ عذاب سے جان چھوٹ جائے۔ 3- یعنی وہاں موت کہاں؟ لیکن یہ عذاب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی، تاہم اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہوگا۔ الزخرف
78 1- یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یا فرشتوں کا ہی قول بطور نیابت الٰہی ہے۔ جیسے کوئی افسر مجاز (ہم) کا استعمال حکومت کے مفہوم میں کرتا ہے۔ اکثر سے مراد کل ہے، یعنی سارے ہی جہنمی، یا پھر اکثر سے مراد رؤسا اور لیڈر ہیں۔ باقی جہنمی ان کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اس میں شامل ہوں گے۔ حق سے مراد، اللہ کا وہ دین اور پیغام ہے جو وہ پیغمبروں کے ذریعے سے ارسال کرتا رہا۔ آخری حق قرآن اور دین اسلام ہے۔ الزخرف
79 1- إِبْرَامٌ کے معنی ہیں، اتقان واحکام۔ پختہ اور مضبوط کرنا۔ أَمْ اضراب کے لیے ہے بَلْ کے معنی میں۔ یعنی ان جہنمیوں نے حق کو ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ یہ اس کے خلاف منظم تدبیریں اور سازشیں کرتے رہے۔ جس کے مقابلے میں پھر ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اور ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہوسکتی ہے؟ اس کے ہم معنی یہ آیت ہے۔ ﴿أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ﴾ (الطور: 42) الزخرف
80 1- یعنی جو پوشیدہ باتیں وہ اپنے نفسوں میں چھپائے پھرتے ہیں یا خلوت میں آہستگی سے کرتے ہیں یا آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم وہ نہیں سنتے؟ مطلب ہے ہم سب سنتے اور جانتے ہیں۔ 2- یعنی یقیناً سنتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے الگ ان کی ساری باتیں نوٹ کرتے ہیں۔ الزخرف
81 1- کیونکہ میں اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہوں۔ اگر واقعی اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ان کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ مطلب مشرکین کے عقیدے کا ابطال اور رد ہے جو اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں۔ الزخرف
82 1- یہ اللہ کا کلام ہے جس میں اس نے اپنی تنزیہ وتقدیس بیان کی ہے، یارسول (ﷺ) کا کلام ہے اور آپ (ﷺ) نے بھی اللہ کے حکم سے اللہ کی ان چیزوں سے تنزیہ وتقدیس بیان کی جن کا انتساب مشرکین اللہ کی طرف کرتے تھے۔ الزخرف
83 1- یعنی اگر یہ ہدایت کا راستہ نہیں اپناتے تو اب انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں اور دنیا کے کھیل کود میں لگا رہنے دیں۔ یہ تہدید وتنبیہ ہے۔ 2- ان کی آنکھیں اسی دن کھلیں گی جب ان کے اس روئیے کا انجام ان کے سامنے آئے گا۔ الزخرف
84 1- یہ نہیں ہے کہ آسمانوں کا معبود کوئی اور ہو اور زمین کا کوئی اور۔ بلکہ جس طرح ان دونوں کا خالق ایک ہے، معبود بھی ایک ہی ہے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیت ہے۔ ﴿وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ﴾ (سورة الأنعام: 3) ”آسمان وزمین میں وہی اللہ ہے، وہ تمہاری پوشیدہ اور جہری باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، وہ بھی اس کے علم میں ہے“۔ الزخرف
85 1- ایسی ذات کو، جس کے پاس سارے اختیارات اور زمین و آسمان کی بادشاہت ہو، اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت؟ 2- جس کو وہ اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ 3- جہاں وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا وسزا دے گا۔ الزخرف
86 1- یعنی دنیا میں جن بتوں کی یہ عبادت کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے۔ ان معبودوں کو شفاعت کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ 2- حق بات سے مراد کلمہ توحید ( لاالٰہ الااللہ) ہے اور یہ اقرار بھی علم وبصیرت کی بنیاد پر ہو، محض رسمی اور تقلیدی نہ ہو۔ یعنی زبان سے کلمۂ توحید ادا کرنے والے کو پتہ ہو کہ اس میں صرف ایک اللہ کا اثبات اور دیگر تمام معبودوں کی نفی ہے، پھر اس کے مطابق اس کا عمل ہو۔ ایسے لوگوں کے حق میں اہل شفاعت کی شفاعت مفید ہوگی۔ یا مطلب ہے کہ شفاعت کرنے کا حق صرف ایسے لوگوں کو ملے گا جو حق کا اقرار کرنے والے ہوں گے، یعنی انبیا وصالحین اور فرشتے۔ نہ کہ معبود ان باطل کو، جنہیں مشرکین اپنا شفاعت کنندہ خیال کرتے ہیں۔ الزخرف
87 الزخرف
88 1- وَقِيلِهِ اس کا عطف وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ پر ہے یعنی وَعِلمُ قِيلِهِ ، اللہ کے پاس ہی قیامت اور اپنے پیغمبر کے شکوے کا علم کا ہے۔ الزخرف
89 1- یہ سلام متارکہ ہے، جیسے۔ ﴿سَلامٌ عَلَيْكُمْ لا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ﴾ (القصص: 55) ﴿قَالُوا سَلامًا﴾ (الفرقان: 63) میں ہے۔ یعنی دین کے معاملے میں میری اور تمہاری راہ الگ الگ ہے، تم اگر باز نہیں آتے تو اپنا عمل کیے جاؤ، میں اپنا کام کیے جارہا ہوں، عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟ الزخرف
0 الدخان
1 الدخان
2 الدخان
3 1- بابرکت رات ﴿لَيْلَةٌ مُبَارَكَةٌ﴾ سے مراد شب قدر [ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ] ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ (البقرة: 185) ”رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا“ ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (سورة القدر) ”ہم نے یہ قرآن شب قدر میں نازل فرمایا“۔ یہ شب قدر رمضان کے عشرۂ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہو نے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے۔ تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے، (جیسا کہ آگے آرہا ہے) چوتھے، اس رات کی عبادت ہزار مہینے (یعنی 83 سال 4 ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا لیلۂ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی (ﷺ) پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اسی رات آپ پر قرآن نازل ہوا۔ یا یہ مطلب ہے کہ لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے حسب ضرورت ومصلحت 23 سالوں تک مختلف اوقات میں نبی (ﷺ) پر اترتا رہا۔ بعض لوگوں نے لیلۂ مبارکہ سے شعبان کی پندرھویں رات مراد لی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، جب قرآن کی نص صریح سے قرآن کا نزول شب قدر میں ثابت ہے تو اس سے شب براءت مراد لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ علاوہ ازیں شب براء ت (شعبان کی پندرھویں رات) کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں، جن میں اس کی فضیلت کا بیان ہے یا ان میں اسے فیصلے کی رات کہا گیا ہے، تو یہ سب روایات سنداً ضعیف ہیں۔ یہ قرآن کی نص صریح کا مقابلہ کس طرح کر سکتی ہیں؟ 2- یعنی نزول قرآن کا مقصد لوگوں کو نفع وضرر شرعی سے آگاہ کرنا ہے تا کہ ان پر حجت قائم ہوجائے۔ الدخان
4 1- يُفْرَقُ، يُفَصَّلُ وَيُبَيَّنُ، فیصلہ کردیا جاتا اور یہ کام کو اس سے متعلق فرشتے کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ حکیم بمعنی پر حکمت کہ اللہ کا ہر کام ہی باحکمت ہوتا ہے یا بمعنی مُحْكَمٍ (مضبوط، پختہ) جس میں تغیر وتبدیلی کا امکان نہیں۔ صحابہ وتابعین سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس رات میں آنے والے سال کی بابت موت وحیات اور وسائل زندگی کے فیصلے لوح محفوظ سے اتار کر فرشتوں کے سپرد کردیے جاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ الدخان
5 1- یعنی سارے فیصلے ہمارے حکم واذن اور ہماری تقدیر ومشیت سے ہوتے ہیں۔ الدخان
6 1- یعنی انزال کتب کے ساتھ إِرْسَالُ رُسُلٍ (رسولوں کا بھیجنا) یہ بھی ہماری رحمت ہی کا ایک حصہ ہے تاکہ وہ ہماری نازل کردہ کتابوں کو کھول کر بیان کریں اور ہمارے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس طرح مادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا بھی سامان مہیا کردیا۔ الدخان
7 الدخان
8 1- یہ آیات بھی سورۂ اعراف کی آیت کی طرح ہیں، ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ (سورۃ الاعراف:۔ 158)۔ الدخان
9 1- یعنی حق اور اس کے دلائل ان کے سامنےآگئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے شک میں مبتلا ہیں اور اس شک کے ساتھ استہزا اور کھیل کود میں پڑے ہیں۔ الدخان
10 1- یہ ان کفار کے لیے تہدید ہے کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب کہ آسمان پر دھوئیں کا ظہور ہوگا۔ اس کے سبب نزول میں بتلایا گیا ہے کہ اہل مکہ کے معاندانہ رویئے سے تنگ آکر نبی (ﷺ) نے ان کے لیے قحط سالی کی بد دعا فرمائی، جس کے نتیجے میں ان پر قحط کا عذاب نازل کردیا گیا حتیٰ کہ وہ ہڈیاں، کھالیں، اور مردار وغیرہ تک کھانے پر مجبور ہوگئے، آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے انہیں دھواں سا نظر آتا۔ بالآخر تنگ آکر نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عذاب ٹلنے پر ایمان لانے کا وعدہ کیا، لیکن یہ کیفیت دور ہوتے ہی ان کا کفر وعناد پھر اسی طرح عود کر آیا۔ چنانچہ پھر جنگ بدر میں ان کی سخت گرفت کی گئی۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر) بعض کہتے ہیں کہ قرب قیامت کی دس بڑی بڑی علامات میں سے ایک علامت دھواں بھی ہے جس سے کافر زیادہ متاثر ہوں گے اور مومن بہت کم۔ آیت میں اسی دھوئیں کا ذکر ہے۔ اس تفسیر کی رو سے یہ علامت قیامت کے قریب ظاہر ہوگی جب کہ پہلی تفسیر کی رو سے یہ ظاہر ہوچکی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، اس کی شان نزول کے اعتبار سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوچکا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ تاہم علامات قیامت میں بھی اس کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے، اس لیے وہ بھی اس کے منافی نہیں ہے، اس وقت بھی اس کا ظہور ہوگا۔ الدخان
11 الدخان
12 1- پہلی تفسیر کی رو سے یہ کفار مکہ نے کہا اور دوسری تفسیر کی رو سے قیامت کے قریب کافر کہیں گے۔ الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 1- اس سے مراد جنگ بدر کی گرفت ہے، جس میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی بنالیے گئے۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ سخت گرفت قیامت والے دن ہوگی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ اس گرفت خاص کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں ہوئی، کیونکہ قریش کے سیاق میں ہی اس کا ذکر ہے۔ اگرچہ قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ سخت گرفت فرمائے گا تاہم وہ گرفت عام ہوگی، ہر نافرمان اس میں شامل ہوگا۔ الدخان
17 1- آزمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں دنیوی خوشی، خوشحالی وفراغت سے نوازا اور پھر اپنا جلیل القدر پیغمبر بھی ان کی طرف ارسال کیا لیکن انہوں نے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کیا اور نہ پیغمبر پر ایمان لائے۔ الدخان
18 1- عِبَادَ اللهِ سے مراد یہاں موسیٰ (عليہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل ہے جسے فرعون نے غلام بنارکھا تھا۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ 2- اللہ کا پیغام پہنچانے میں امانت دار ہوں۔ الدخان
19 1- یعنی اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرکے اللہ کے سامنے اپنی بڑائی اور سرکشی کا اظہار نہ کرو۔ 2- یہ ماقبل کی علت ہے کہ میں ایسی حجت واضحہ ساتھ لایا ہوں جس کے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ الدخان
20 1- اس دعوت وتبلیغ کے جواب میں فرعون نے موسیٰ (عليہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی، جس پر انہوں نے اپنے رب سے پناہ طلب کی۔ الدخان
21 1- یعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو نہ لاؤ، لیکن مجھے قتل کرنے کی یا اذیت پہنچانے کی کوشش نہ کرو۔ الدخان
22 1- یعنی جب انہوں نے دیکھا کہ دعوت کا اثر قبول کرنے کے بجائے، اس کا کفر وعناد اور بڑھ گیا تو اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیئے۔ الدخان
23 1- چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔ اور دیکھو ! گھبرانا نہیں، تمہارا پیچھا بھی ہوگا۔ الدخان
24 1- رَهْوًا بمعنی ساکن یا خشک۔ مطلب یہ ہے کہ تیرے لاٹھی مارنے سے دریا معجزانہ طور پر ساکن یا خشک ہوجائے گا اور اس میں راستہ بن جائے گا، تم دریا پار کرنے کے بعد اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا تاکہ فرعون اور اس کا لشکر بھی دریا کو پار کرنے کی غرض سے اس میں داخل ہوجائے اور ہم اسے وہیں غرق کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔ الدخان
25 1- كَمْ، خبر یہ ہے جو تکثیر کا فائدہ دیتا ہے۔ دریائے نیل کے دونوں طرف باغات اور کھیتوں کی کثرت تھی، عالی شان مکانات اور خوش حالی کے آثار تھے۔ سب کچھ یہیں دنیا میں ہی رہ گیا اور عبرت کے لیے صرف فرعون اور اس کی قوم کا نام رہ گیا۔ الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 1- یعنی یہ معاملہ اسی طرح ہوا جس طرح بیان کیا گیا ہے۔ 2- بعض کے نزدیک اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک بنی اسرائیل کا دوبارہ مصر آنا تاریخی طور پر ثابت نہیں، اس لیے ملک مصر کی وارث کوئی اور قوم بنی۔ بنی اسرائیل نہیں۔ الدخان
29 1- یعنی ان فرعونیوں کے نیک اعمال ہی نہیں تھے جو آسمان پر چڑھتے اور ان کا سلسلہ منقطع ہونے پر آسمان روتے، نہ زمین پر ہی وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ اس سے محرومی پر زمین روتی۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان وزمین میں سے کوئی بھی ان کی ہلاکت پر رونے والا نہیں تھا۔ (فتح القدیر)۔ الدخان
30 الدخان
31 الدخان
32 1- اس جہان سے مراد، بنی اسرائیل کے زمانے کا جہان ہے۔ علی الاطلاق کل جہان نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن میں امت محمدیہ کو ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ﴾ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔ یعنی بنی اسرائیل اپنے زمانے میں دنیا جہاں والوں پر فضیلت رکھتے تھے۔ ان کی یہ فضیلت اس استحقاق کی وجہ سے تھی جس کا علم اللہ کو ہے۔ الدخان
33 1- آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو دیے گئے تھے، ان میں آزمائش کا پہلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں؟ یا پھر آیات سے مراد وہ احسانات ہیں جو اللہ نے ان پر فرمائے۔ مثلاً فرعونیوں کو غرق کر کے ان کو نجات دینا، ان کے لیے دریا کو پھاڑ کر راستہ بنانا، بادلوں کا سایہ اور من وسلویٰ کا نزول وغیرہ۔ اس میں آزمائش یہ ہے کہ ان احسانات کے بدلے میں یہ قوم اللہ کی فرماں برداری کا راستہ اختیار کرتی ہے یا اس کی ناشکری کرتے ہوئے اس کی بغاوت اور سرکشی کا راستہ اپناتی ہے۔ الدخان
34 1- یہ اشارہ کفار مکہ کی طرف ہے۔ اس لیے کہ سلسلۂ کلام ان ہی سے متعلق ہے۔ درمیان میں فرعون کا قصہ ان کی تنبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ فرعون نے بھی ان کی طرح کفر پر اصرار کیا تھا، دیکھ لو، اس کا کیا حشر ہوا۔ اگر یہ بھی اپنے کفر وشرک پر مصر رہے تو ان کا انجام بھی فرعون اور اس کے ماننے والوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ الدخان
35 1- یعنی یہ دنیا کی زندگی ہی بس آخری زندگی ہے۔ اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ الدخان
36 1- یہ نبی (ﷺ) اور مسلمانوں کو کافروں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اگر تمہارا یہ عقیدہ واقعی صحیح ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے دکھادو۔ یہ ان کا جدل اور کٹ حجتی تھی کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کا عقیدہ قیامت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت سے پہلے ہی دنیا میں زندہ ہوجانا یا کردینا۔ الدخان
37 1- یعنی یہ کفار مکہ کیا تبع اور ان سے پہلے کی قومیں، عاد وثمود وغیرہ سے زیادہ طاقت ور اور بہتر ہیں، جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں، ان سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود ہلاک کردیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ تبع سے مراد قوم سبا ہے۔ سبا میں حمیر قبیلہ تھا، یہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے، جیسے روم کے بادشاہ کو قیصر، فارس کے بادشاہ کو کسریٰ، مصر کے حکمران کو فرعون اور حبشہ کے فرماں روا کو نجاشی کہا جاتا تھا۔ اہل تاریخ کا اتفاق ہے کہ تبابعہ میں سے بعض تبع کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ حتیٰ کہ بعض مورخین نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ملکوں کو فتح کرتے ہوئے سمرقند تک پہنچ گیا، اس طرح اور بھی کئی عظیم بادشاہ اس قوم میں گزرے اور اپنے وقت کی یہ ایک عظیم ترین قوم تھی جو قوت وطاقت، شوکت وحشمت اور فراغت وخوشحالی میں ممتاز تھی۔ لیکن جب اس قو م نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی تو اسے تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ سبا کی متعلقہ آیات) حدیث میں ایک تبع کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا، اسے سب و شتم نہ کرو (مجمع الزوائد 87 / 86 ،صحیح الجامع للالبانی، 1319) تاہم ان کی اکثریت نافرمانوں کی ہی رہی ہے جس کی وجہ سے ہلاکت ان کا مقدر بنی۔ الدخان
38 1- یہی مضمون اس سے قبل سورۂ ص:27 ،سورۃ المومنون: 115-116، سورۃ الحجر: 85 وغیرھا میں بیان کیا گیا ہے۔ الدخان
39 1- وہ مقصد یا درست تدبیر یہی ہے کہ لوگوں کی آزمائش کی جائے اور نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا دی جائے۔ 2- یعنی وہ اس مقصد سے غافل اور بے خبر ہیں۔ اسی لیے آخرت کی تیاری سے لاپروا اور دنیا میں منہمک ہیں۔ الدخان
40 1- یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے انسانوں کو پیدا کیا گیا اور آسمان وزمین کی تخلیق کی گئی ہے۔ الدخان
41 1- جیسے فرمایا: ﴿فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ﴾ (المؤمنون: 101) ﴿وَلا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا﴾ (المعارج: 10)۔ الدخان
42 الدخان
43 الدخان
44 الدخان
45 1- مُهْلٌ پگھلا ہوا تانبہ، آگ میں پگھلی ہوئی چیز یا تلچھٹ تیل وغیرہ کے آخر میں جو گدلی سی مٹی کی تہ رہ جاتی ہے۔ الدخان
46 1- وہ زقوم کی خوراک، کھولتے ہوئے پانی کی طرح پیٹ میں کھولے گی۔ الدخان
47 1- یہ جہنم پر مقرر فرشتوں سے کہا جائے گا، سواء ، بمعنی وسط۔ الدخان
48 الدخان
49 1- یعنی دنیا میں اپنے طور پر تو بڑا ذی عزت اور صاحب اکرام بنا پھرتا تھا اور اہل ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ الدخان
50 الدخان
51 الدخان
52 الدخان
53 1- اہل کفر وفسق کے مقابلے میں اہل ایمان وتقویٰ کا مقام بیان کیا جارہا ہے۔ جنہوں نے اپنا دامن کفروفسق اور معاصی سے بچائے رکھا تھا۔ امین کا مطلب ایسی جگہ، جہاں ہر قسم کے خوف اور اندیشوں سے وہ محفوظ ہوں گے۔ الدخان
54 1- یعنی متقین کے ساتھ یقیناً ایسا ہی معاملہ ہوگا۔ 2- حٌورٌ حَوْرَاءُ کی جمع ہے۔ یہ حُورٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ آنکھ کی سفیدی انتہائی اور سیاہی انتہائی سیاہ ہو۔ حَوْرَاءُ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نظریں ان کے حسن وجمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گی عِينٌ ، عَيْنَاءُ کی جمع ہے، کشادہ چشم۔ جیسے ہرن کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں کہ ہر جنتی کو کم ازکم دو حوریں ضرور ملیں گی۔ جو حسن وجمال کے اعتبار سے چندے آفتاب وماہتاب ہوں گی۔ البتہ ترمذی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، جسے صحیح کہا گیا ہے ، کہ شہید کو خصوصی طور پر 72 حوریں ملیں گی (أبواب فضائل الجهاد، باب ما جاء أي الناس أفضل الدخان
55 1- آمِنِينَ (بےخوفی کے ساتھ) کا مطلب ان کے ختم ہونے کا اندیشہ ہوتا نہ ان کے کھانے سے بیماری وغیرہ کا خوف یاموت، تھکاوٹ اور شیطان کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ الدخان
56 1- یعنی دنیا میں انہیں جو موت آئی تھی، اس موت کے بعد انہیں موت کا مزہ نہیں چکھنا پڑے گا۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ ”موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لاکر دوزخ اور جنت کے درمیان ذبح کردیا جائے گا اور اعلان کردیا جائے گا، اے جنتیو ! تمہارے لیے جنت کی زندگی دائمی ہے، اب تمہارے لیےموت نہیں۔ اور اے جہنمیو ! تمہارے لیے جہنم کا عذاب دائمی ہے، موت نہیں“۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة مريم ، مسلم، كتاب الجنة ، باب النار يدخلها الجبارون ، والجنة يدخلها الضعفاء) دوسری حدیث میں فرمایا ”اے جنتیو ! تمہارا مقدر اب صحت وقوت ہے، تم کبھی بیمار نہیں ہو گے۔ تمہارے لیے اب زندگی ہی زندگی ہے، موت نہیں۔ تمہارے لیےنعمتیں ہی نعمتیں ہیں، ان میں کمی نہیں ہوگی اور سدا جوان رہو گے، کبھی بڑھاپا طاری نہیں ہوگا“۔(صحيح بخاری ، كتاب الرقاق ، باب القصد والمداومة على العمل ، ومسلم كتاب مذكور)۔ الدخان
57 1- جس طرح حدیث میں بھی ہے۔ فرمایا (یہ بات جان لو ! تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا، صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ! آپ کو بھی؟ فرمایا ”ہاں مجھے بھی، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت اور فضل میں ڈھانپ لے گا“ (صحيح بخاری ، كتاب الرقاق ، باب القصد والمداومة على العمل ، ومسلم كتاب مذكور الدخان
58 الدخان
59 1- تو عذاب الٰہی کا انتظار کر، اگر یہ ایمان نہ لائے۔ یہ منتظر ہیں اس بات کے کہ اسلام کے غلبہ ونفوذ سے قبل ہی شاید آپ موت سے ہمکنار ہوجائیں۔ الدخان
0 الجاثية
1 الجاثية
2 الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 1- آسمان وزمین، انسانی تخلیق، جانوروں کی پیدائش، رات دن کے آنے جانے اور آسمانی بارش کے ذریعے سے مردہ زمین میں زندگی کی لہر کا دوڑ جانا وغیرہ، آفاق وانفس میں بے شمار نشانیاں ہیں جو اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت پر دال ہیں۔ 2- یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال وجنوب کو، کبھی پورب پچھم (مشرق ومغرب) کو ہوتا ہے، کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بری ہوائیں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گردو غبار کا طوفان۔ ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے۔ دو یا دو سے زائد نہیں۔ تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے، ان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ سارا اور ہر قسم کا تصرف صرف وہی کرتا ہے، کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔ اسی مفہوم کی آیت سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 164 بھی ہے۔ الجاثية
6 1- یعنی اللہ کا نازل کردہ قرآن، جس میں اس کی توحید کے دلائل وبراہین ہیں۔ اگر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی بات کے بعد کس کی بات ہے اور اس کی نشانیوں کے بعد کون سی نشانیاں ہیں، جن پر یہ ایمان لائیں گے؟ ﴿بَعْدَ اللهِ﴾ کا مطلب ہے،( بَعْدَ حَدِيثِ اللهِ وَبَعْدَ آيَاتِهِ) یہاں قرآن پر حدیث کا اطلاق کیا گیا ہے۔ جیسے؛ ﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ﴾ (الزمر: 23) میں ہے۔ الجاثية
7 1- أَفَّاكٍ بمعنی كَذَّابٍ ، أَثِيمٍ، بہت گناہ گار۔ وَيْلٌ، بمعنی ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی کا نام. الجاثية
8 1- یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کردیتا ہے۔ الجاثية
9 1- یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں ہے اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آجاتی ہے تو اسے استہزا اور مذاق کا موضوع بنالیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نافہمی کی وجہ سے یا کفر ومعصیت پر اصرار واستکبار کی وجہ سے۔ الجاثية
10 1- یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لیے قیامت میں جہنم ہے۔ 2- یعنی دنیا میں جو مال انہوں نے کمایا ہوگا، جن اولاد اور جتھے پر وہ فخر کرتے رہے ہوں گے، وہ قیامت والے دن انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ 3- جن کو دنیا میں اپنا دوست، مددگار اور معبود بنا رکھا تھا، وہ اس روز ان کو نظر ہی نہیں آئیں گے، مدد تو انہوں نے کیا کرنی ہوگی؟ الجاثية
11 1- یعنی قرآن۔ کیونکہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو کفر وشرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لایا جائے۔ اس لیے اس کے سرتاپا ہدایت ہونے میں تو کوئی شرک نہیں۔ لیکن ہدایت ملے گی تو اسے ہی جو اس کے لیے اپنا سینہ وا کرے گا۔ بصورت دیگر، توع راہ دکھلائیں گے رہرو منزل ہی نہیں۔ والا معاملہ ہوگا۔ 2- أَلِيمٍ، عَذَابٌ کی صفت ہے، بعض اسے رِجْزٌ کی صفت بتاتے ہیں۔ رِجْزٌ بمعنی عَذَابٍ شَدِيدٍ۔ الجاثية
12 1- یعنی اس کو ایسا بنادیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے سے اس پر سفر کرسکو۔ 2- یعنی سمندروں میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، یہ تمہارا کمال اور ہنر نہیں یہ اللہ کا حکم اور اس کی مشیت ہے۔ ورنہ اگر وہ چاہتا تو سمندروں کی موجوں کو اتنا سرکش بنادیتا کہ کوئی کشتی اور جہاز ان کے سامنے ٹھہر ہی نہ سکتا۔ جیسا کہ کبھی کبھی وہ اپنی قدرت کے اظہار کے لیے ایسا کرتا ہے۔ اگر مستقل طور پر موجوں کی طغیانیوں کا یہی عالم رہتا تو تم کبھی بھی سمندر میں سفر کرنے کے قابل نہ ہوتے۔ 3- یعنی تجارت کے ذریعے سے، اور اس میں غوطہ زنی کرکے موتی اور دیگر اشیا نکال کر اور دریائی جانوروں (مچھلی وغیرہ) کا شکار کرکے۔ 4- یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تم ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو جو اس تسخیر بحر کی وجہ سے تمہیں حاصل ہوتی ہیں۔ الجاثية
13 1- مطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو تمہاری خدمت پر مامور کردیا ہے، تمہارے مصالح ومنافع اور تمہاری معاش سب انہی سے وابستہ ہے، جیسے چاند، سورج، روشن ستارے، بارش، بادل اور ہوائیں وغیرہ ہیں۔ اور اپنی طرف سے کا مطلب، اپنی رحمت اور فضل خاص سے۔ الجاثية
14 1- یعنی جو اس بات کا خوف نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کی مدد کرنے اور دشمنوں کو نیست ونابود کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مراد کافر ہیں۔ اور ایام اللہ سے مراد وقائع ہیں۔ جیسے ﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ (إبراهيم: 5) میں ہے۔ مطلب ہے کہ ان کافروں سے عفودرگزر سے کام لو، جو اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے بے خوف ہیں۔ یہ ابتدائی حکم تھا جو مسلمانوں کو پہلے دیا جاتا رہا تھا بعد میں جب مسلمان مقابلے کے قابل ہوگئے تو پھر سختی کا اور ان سے ٹکرا جانے (جہاد) کا حکم دے دیا گیا۔ 2- یعنی جب تم ان کی ایذاؤں پر صبر اور ان کی زیادتیوں سے درگزر کرو گے، تو یہ سارے گناہ ان کے ذمے ہی رہیں گے، جن کی سزا ہم قیامت والے دن ان کو دیں گے۔ الجاثية
15 1- یعنی ہر گروہ اور فرد کا عمل، اچھا یا برا، اس کا فائدہ یا نقصان خود کرنے والے کو ہی پہنچے گا، کسی دوسرے کو نہیں۔ اس میں نیکی کی ترغیب بھی ہے، اور بدی سے ترہیب بھی۔ 2- پس وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا دے گا۔ نیکوں کو نیک اور بروں کو بری۔ الجاثية
16 1- کتاب سے مراد تورات، حکم سے حکومت وبادشاہت یا فہم وقضا کی وہ صلاحیت ہے جو فصل خصومات اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے ضروری ہے۔ 2- وہ روزیاں جو ان کے لیے حلال تھیں اور ان ہی میں من وسلویٰ کا نزول بھی تھا۔ 3- یعنی ان کے زمانے کے اعتبار سے۔ الجاثية
17 1- کہ یہ حلال ہیں اور یہ حرام۔ یا معجزات مراد ہیں۔ یا نبی (ﷺ) کی بعثت کا علم، آپ کی نبوت کے شواہد اور آپ کی ہجرت گاہ کی تعیین مراد ہے۔ 2- ﴿بَغْيًا بَيْنَهُمْ﴾ کا مطلب، آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض وعناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا جاہ ومنصب کی خاطر۔ انہوں نے اپنے دین میں، علم آجانے کے باوجود، اختلاف یا نبی (ﷺ) کی رسالت سے انکار کیا۔ 3- یعنی اہل حق کو اچھی جزا اور اہل باطل کو بری جزا دے گا۔ الجاثية
18 1- شریعت کے لغوی معنی ہیں، راستہ ملت اور منہاج۔ شاہراہ کو بھی شارع کہا جاتا ہے کہ وہ مقصد ومنزل تک پہنچاتی ہے۔ پس شریعت سے یہاں مراد، وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر فرمایا ہے تاکہ لوگ اس پر چل کر اللہ کی رضا کا مقصد حاصل کرلیں۔ آیت کا مطلب ہے۔ ہم نے آپ کو دین کے ایک واضح راستے یا طریقے پر قائم کردیا ہے جو آپ کو حق تک پہنچا دے گا۔ 2- جو اللہ کی توحید اور اس کی شریعت سے ناواقف ہیں۔ مراد کفار مکہ اور ان کے ساتھی ہیں۔ الجاثية
19 الجاثية
20 1- یعنی ان دلائل کا مجموعہ ہے جو احکام دین سے متعلق ہیں اور جن سے انسانی ضروریات وحاجات وابستہ ہیں۔ 2- یعنی دنیا میں ہدایت کا راستہ بتلانے والا ہے اور آخرت میں رحمت الٰہی کا موجب ہے۔ الجاثية
21 1- یعنی دنیا اورآخرت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ کریں۔ اس طرح ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یا مطلب ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ برابر تھے، آخرت میں بھی وہ برابر ہی رہیں گے کہ مر کر یہ بھی ناپید اور وہ بھی ناپید؟ نہ بدکار کو سزا، نہ ایمان وعمل صالح کرنے والے کو انعام۔ ایسا نہیں ہوگا۔ اسی لیے آگے فرمایا ان کا یہ فیصلہ براہے جو وہ کررہے ہیں۔ الجاثية
22 1- اور یہ عدل یہی ہے کہ قیامت والے دن بے لاگ فیصلہ ہوگا اور ہر شخص کو اس کے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ نیک وبد دونوں کے ساتھ وہ یکساں سلوک کرے، جیسا کہ کافروں کا زعم باطل ہے، جس کی تردید گزشتہ آیت میں کی گئی ہے۔ کیونکہ دونوں کو برابری کی سطح پر رکھنا ظلم یعنی عدل کے خلاف بھی ہے اور مسلمات سے انحراف بھی۔ اس لیے جس طرح کانٹے بوکر انگور کی فصل حاصل نہیں کی جاسکتی، اسی طرح بدی کا ارتکاب کرکے وہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا جو اللہ نے اہل ایمان کے لیے رکھا ہے۔ الجاثية
23 1- پس وہ اسی کو اچھا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس اچھا اور اسی کو برا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس برا قرار دیتا ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی نفسانی خواہش کو ترجیح دیتا یا اپنی عقل کو اہمیت دیتا ہے۔ حالانکہ عقل بھی ماحول سے متاثر یا مفادات کی اسیر ہوکر، خواہش نفس کی طرح، غلط فیصلہ کرسکتی ہے۔ ایک معنی اس کے یہ کیے گئے ہیں، جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت اور برہان کے بغیر اپنی مرضی کے دین کو اختیار کرتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے ایسا شخص مراد ہے جو پتھر کو پوجتا تھا، جب اسے زیادہ خوب صورت پتھر مل جاتا، تو وہ پہلے پتھر کو پھینک کر دوسرے کو معبود بنالیتا۔ (فتح القدیر)۔ 2- یعنی بلوغ علم اور قیام حجت کے باوجود، وہ گمراہی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جیسے بہت سے پندار علم میں مبتلا گمراہ اہل علم کا حال ہے۔ ہوتے وہ گمراہ ہیں، موقف ان کا بے بنیاد ہوتا ہے۔ لیکن (ہم چوما دیگرے نیست) کے گھمنڈ میں وہ اپنے (دلائل) کو ایسا سمجھتے ہیں گویا آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں۔ اور یوں علم و فہم رکھنے کے باوجود وہ گمراہ ہی نہیں ہوتے، دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ (نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا الْعلمِ الضَّالِّ ، وَالْفَهْمِ السَّقيِمِ وَالْعَقْلِ الزَّائِغِ 3- جس سے اس کے کان وعظ و نصیحت سننےسے اور اس کا دل ہدایت کے سمجھنے سے محروم ہو گیا۔ 4- چنانچہ وہ حق کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔ 5- جیسے فرمایا ﴿مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلا هَادِيَ لَهُ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ (الأعراف: 186)۔ الجاثية
24 1- یعنی غور وفکر نہیں کرتے تاکہ حقیقت حال تم پر واضح اور آشکارا ہوجائے۔ 2- یہ دہریہ اور ان کے ہم نوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے، اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت و حیات کا سلسلہ، محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے۔ جیسے فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت پر لوٹ آتی ہے۔ اور یہ سلسلہ، بغیر کسی صانع اور مدبر کے، از خود یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا، نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ یہ گروہ دوریہ کہلاتا ہے (ابن کثیر) ظاہر بات ہے، یہ نظریہ، اسے عقل بھی قبول نہیں کرتی اور نقل کے بھی خلاف ہے۔ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے۔ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے (یعنی اس کی طرف افعال کی نسبت کرکے، اسے برا کہتا ہے) حالانکہ (زمانہ بجائے خود کوئی چیز نہیں) میں خود زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں، رات دن بھی میں ہی پھیرتا ہوں“۔ (البخاری، تفسير سورة الجاثية، مسلم كتاب الألفاظ من الأدب، باب النهي عن سب الدهر الجاثية
25 1- یہ ان کی سب سے بڑی دلیل ہے جو ان کی کٹ حجتی کا مظہر ہے۔ الجاثية
26 الجاثية
27 الجاثية
28 1- ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ ہی (چاہے وہ انبیا کے پیروکار ہوں یا ان کے مخالفین) خوف ودہشت کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے (فتح القدیر) تا آنکہ سب کو حساب کتاب کے لیے بلایا جائے گا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصے سے واضح ہے۔ الجاثية
29 اس کتاب سے مراد، وہ رجسٹر ہیں جن میں انسان کے تمام اعمال درج ہوں گے۔ ﴿وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ﴾ (الزمر۔ 69) (اعمال نامے سامنے لائے جائیں گے، نبیوں اور شہدا کو گواہی کے لیے پیش کیا جائے گا)۔ یہ اعمال نامے انسانی زندگی کے ایسے مکمل ریکارڈ ہوں گے کہ جن میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوگی۔ انسان ان کو دیکھ کر پکار اٹھےگا۔ ﴿مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلا أَحْصَاهَا﴾ (الكهف۔ 49) (یہ کیسا اعمال نامہ ہے جس نے چھوٹی بڑی چیز کسی کو بھی نہیں چھوڑا، سب کچھ ہی تو اس میں درج ہے)۔ 2- یعنی ہمارے علم کے علاوہ، فرشتے بھی ہمارے حکم سے تمہاری ہر چیز نوٹ کرتے اور محفوظ رکھتے تھے۔ الجاثية
30 1- یہاں بھی ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کرکے اس کی اہمیت واضح کردی اور عمل صالح وہ اعمال خیر ہیں جو سنت کے مطابق ادا کیے جائیں نہ کہ ہر وہ عمل جسے انسان اپنے طور پر اچھا سمجھ لے اور اسے نہایت اہتمام اور ذوق وشوق کے ساتھ کرے جیسے بہت سی بدعات مذہبی حلقوں میں رائج ہیں اور جو ان حلقوں میں فرائض وواجبات سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی لیے فرائض و سنن کا ترک تو ان کے ہاں عام ہے لیکن بدعات کا ایسا التزام ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کا تصور ہی نہیں ہے۔ حالانکہ نبی (ﷺ) نے بدعات کو شرالامور (بدترین کام) قرار دیا ہے۔ 2- رحمت سے مراد جنت ہے، یعنی جنت میں داخل فرما ئے گا، جیسے حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جنت سے فرمائے گا[ أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ ](صحيح بخاری ، تفسير سورة ق) ”تو میری رحمت ہے تیرے ذریعے سے (یعنی تجھ میں داخل کرکے) میں جس پر چاہوں گا، رحم کروں گا“۔ الجاثية
31 1- یہ بطور توبیخ کے ان سے کہا جائے گا، کیوں کہ رسول ان کے پاس آئے تھے، انہوں نے اللہ کے احکام انہیں سنائے تھے، لیکن انہوں نے پروا ہی نہیں کی تھی۔ 2- یعنی حق کے قبول کرنے سے تم نے تکبر کیا اور ایمان نہیں لائے، بلکہ تم تھے ہی گناہ گار۔ الجاثية
32 1- یعنی قیامت کا وقوع، محض ظن وتخمین ہے۔ ہمیں تو یقین نہیں کہ یہ واقعی ہوگی۔ الجاثية
33 1- یعنی قیامت کا عذاب، جسے وہ مذاق یعنی انہونا سمجھتے تھے، اس میں وہ گرفتار ہوں گے۔ الجاثية
34 1- جیسے حدیث میں آتا ہے۔ اللہ اپنے بعض بندوں سے کہے گا کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی؟ کیا میں نے تیرا اکرام نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے گھوڑے اور بیل وغیرہ تیری ماتحتی میں نہیں دیے تھے؟ تو سرداری بھی کرتا اور چنگی بھی وصول کرتا رہا۔ وہ کہے گا ہاں یہ تو ٹھیک ہے میرے رب ! اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا (کیا تجھے میری ملاقات کا یقین تھا؟ وہ کہے گا، نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ [ فَالْيَوْمَ أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي ] پس آج میں بھی (تجھے جہنم میں ڈال کر) بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھولے رہا)۔ (صحيح مسلم كتاب الزهد الجاثية
35 1- یعنی اللہ کی آیات و احکام کا استہزا اور دنیا کے فریب وغرور میں مبتلا رہنا، یہ دو جرم ایسے ہیں جنہوں نے تمہیں عذاب جہنم کا مستحق بنادیا، اب اس سے نکلنے کا امکان ہے اور نہ اس بات کی ہی امید کہ کسی موقعے پر تمہیں توبہ اور رجوع کا موقعہ دے دیا جائے، اور تم توبہ و معذرت کرکے اللہ کو منالو۔ لا يُسْتَعْتَبُونَ أَيْ لا يُسْتَرْضَوْنَ وَلا يُطْلَبُ مِنْهُمُ الرُّجُوعُ إِلَى طَاعَةِ اللهِ، لأَنَّهُ يَوْمٌ لا تُقْبَلُ فِيهِ تَوْبَةٌ وَلا تَنْفَعُ فِيهِ مَعْذِرَةٌ. (فتح القدير)۔ الجاثية
36 الجاثية
37 1- جیسے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : [ الْعَظَمَةُ إِزَارِي وَالْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا أَسْكَنْتُهُ نَارِي ] (صحيح مسلم، كتاب البر باب تحريم الكبر الجاثية
0 الأحقاف
1 1- یہ فَوَاتِحُ سُوَرٌ، ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہے، اس لئے ان کے معانی ومطالب میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ان کے دو فائدے بعض مفسرین نے بیان کیے ہیں، جنہیں ہم سورۂ لقمان کے شروع میں بیان کر آئے ہیں۔ الأحقاف
2 الأحقاف
3 1- یعنی آسمان وزمین کی پیدائش کا ایک خاص مقصد بھی ہے اور وہ ہے انسانوں کی آزمائش۔ دوسرا، اس کے لئے ایک وقت بھی مقرر ہے۔ جب وہ وقت موعود آجائے گا تو آسمان وزمین کا یہ موجودہ نظام سارا بکھر جائے گا۔ نہ آسمان، یہ آسمان ہوگا، نہ زمین، یہ زمین ہوگی۔ ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ﴾ (سورة إبراهيم: 48) 2- یعنی عدم ایمان کی صورت میں بعث، حساب اور جزا سے جو انہیں ڈرایا جاتا ہے، وہ اس کی پرواہی نہیں کرتے، اس پر ایمان لاتے ہیں، نہ عذاب اخروی سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں۔ الأحقاف
4 1- أَرَأَيْتُمْ بمعنی أَخْبِرُونِي یا أَرُونِي یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں یا شخصیات کی تم عبادت کرتے ہو، مجھے بتلاؤ یا دکھلاؤ کہ انہوں نے زمین وآسمان کی پیدائش میں کیا حصہ لیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ جب آسمان وزمین کی پیدائش میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر ان سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے تو پھر تم ان غیر حق معبودوں کو اللہ کی عبادت میں کیوں شریک کرتے ہو؟ 2- یعنی کسی نبی پر نازل شدہ کتاب میں یا کسی منقول روایت میں یہ بات لکھی ہو تو وہ لاکر دکھاؤ تاکہ تمہاری صداقت واضح ہو سکے۔ بعض نے ﴿أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ﴾ کے معنی واضح علمی دلیل کے کئے ہیں، اس صورت میں کتاب سے نقلی دلیل اور ﴿أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ سے عقلی دلیل مراد ہوگی۔ یعنی کوئی عقلی اور نقلی دلیل پیش کرو۔ پہلے معنی اس کے اثر سے ماخوذ ہونے کی بنیاد پر روایت کے کیے گئے ہیں یا بَقِيَّةٍ مِنْ عِلْمٍ پہلے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا باقی ماندہ حصہ جو قابل اعتماد ذریعے سے نقل ہوتا آیا ہو، اس میں یہ بات ہو۔ الأحقاف
5 1- یعنی یہی سب سے بڑے گمراہ ہیں جو پتھر کی مورتیوں کو یا فوت شدہ اشخاص کو مدد کے لئے پکارتے ہیں جو قیامت تک جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اور قاصر ہی نہیں، بلکہ بالکل بےخبر ہیں۔ الأحقاف
6 1- یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ یونس: 29۔ سورۂ مریم: 81۔ 82۔ سورۂ عنکبوت: ،25 وغیرھا من الآیات۔ دنیا میں ان معبودوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو غیر ذی روح جمادات ونباتات اور مظاہر قدرت (سورج، آگ وغیرہ) ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو زندگی اور قوت گویائی عطا فرمائے گا، اور یہ چیزیں بول کر بتلائیں گی کہ ہمیں قطعاً اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے اور ہمیں تیری خدائی میں شریک گردانتے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ زبان قال سے نہیں، زبان حال سے وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں گی۔ واللہ اعلم۔ معبودوں کی دوسری قسم وہ ہے جو انبیا علیہم السلام، ملائکہ اور صالحین میں سے ہیں۔ جیسے عیسیٰ، حضرت عزیر علیہما السلام اور دیگر عباد اللہ الصالحین ہیں، یہ اللہ کی بارگاہ میں اسی طرح کا جواب دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کا جواب قرآن کریم میں منقول ہے۔ علاوہ ازیں شیطان بھی انکار کریں گے۔ جیسے قرآن میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ ﴿تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ﴾ (القصص: 63) ”ہم تیرے سامنے (اپنے عابدین سے) اظہار براء ت کرتے ہیں، یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے“۔ الأحقاف
7 الأحقاف
8 1- اس حق سے مراد، جو ان کےپاس آیا، قرآن کریم ہے، اس کے اعجاز اور قوت تاثیر کو دیکھ کر وہ اسے جادو سے تعبیر کرتے، پھر اس سے بھی انحراف کرکے یا اس سے بھی بات نہ بنتی تو کہتے کہ یہ تو محمد (ﷺ) کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہے۔ 2- یعنی اگر تمہاری یہ بات صحیح ہو کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے، پھر تو یقیناً میں بڑا مجرم ہوں، اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا۔ اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو پھر سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرنا۔ بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الٰہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا۔ اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ ، لأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ،فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ﴾ (الحاقہ ،44۔ 47)۔ 3- یعنی جس جس انداز سے بھی تم قرآن کی تکذیب کرتے ہو، کبھی اسے جادو، کبھی کہانت اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ یعنی وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا۔ 4- وہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور وہی تمہاری تکذیب ومخالفت کا بھی گواہ ہے۔ اس میں بھی ان کے لئے سخت وعید ہے۔ 5- اس کے لئے جو توبہ کرلے، ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا کلام مان لے۔ مطلب ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کرکے اللہ کی مغفرت ورحمت کے مستحق بن جاؤ۔ الأحقاف
9 1- یعنی پہلا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی متعدد رسول آچکے ہیں۔ 2- یعنی دنیا میں۔ میں مکے میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجھے مجبور ہونا پڑے گا۔ مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہوگا؟ تم جلد ہی سزا سے دوچار ہو گے یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی؟ ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہوگا؟ تاہم آخرت کے بارے میں یقینی علم ہے کہ اہل ایمان جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے۔ اور حدیث میں جو آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کی وفات پر، جب ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا، تو فرمایا [ وَاللهِ مَا أَدْرِي -وَأَنَا رَسُولُ اللهِ- مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ ](صحيح بخاری، مناقب الأنصار ، باب مقدم النبي وأصحابه إلى المدينة) اللہ کی قسم، مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے۔ الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو۔ جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔ الأحقاف
10 1- اس شاہد بنی اسرائیل سے کون مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ بطور جنس کے ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکے میں رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی مراد ہے، کیونکہ یہ سورت مکی ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ صحیحین کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (صحيح بخاری، مناقب الأنصار ، باب مناقب عبد الله بن سلام - مسلم ، فضائل الصحابة) اسی لئے امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ عَلَى مِثْلِهِ (اسی جیسی کتاب کی گواہی) کا مطلب ہے تورات کی گواہی جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کو مستلزم ہے۔ کیونکہ قرآن بھی توحید ومعاد کے اثبات میں تورات ہی کی مثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی گواہی اور ان کے ایمان لانے کے بعد اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد تمہارے انکار واستکبار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ تمہیں اپنے اس رویے کا انجام سوچ لینا چاہئے۔ الأحقاف
11 1- کفار مکہ، حضرت بلال، عمار، صہیب اور خباب (رضی الله عنہم) جیسے مسلمانوں کو، جو غریب وقلاش قسم کے لوگ تھے، لیکن اسلام قبول کرنے سے انہیں سابقیت کا شرف حاصل ہوا، دیکھ کر کہتے کہ اگر اس دین میں بہتری ہوتی تو ہم جیسے ذی عزت وذی مرتبہ لوگ سب سے پہلے اسے قبول کرتے نہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لاتے۔ یعنی اپنے طور پر انہوں نے اپنی بابت یہ فرض کر لیا کہ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے، اس لئے اگر یہ دین بھی اللہ کی طرف سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے قبول کرنے میں پیچھے نہ چھوڑتا، اور جب ہم نے اسے نہیں اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے۔ یعنی قرآن کو انہوں نے پرانا جھوٹ قرار دیا ہے۔ جیسے وہ اسے ﴿أَسَاِطِيرُ الأوَّلِينَ بھی کہتے تھے، حالانکہ دنیوی مال ودولت میں ممتاز ہونا، عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں۔ ”جیسے ان کو مغالطہ ہوا یا شیطان نے مغالطے میں ڈالا“ عند اللہ مقبولیت کے لئے تو ایمان واخلاص کی ضرورت ہے۔ اور اس دولت ایمان واخلاص سے وہ جس کو چاہتا ہے، نوازتا ہے، جیسے وہ مال ودولت آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے۔ الأحقاف
12 الأحقاف
13 الأحقاف
14 الأحقاف
15 1- اس مشقت وتکلیف کا ذکر، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لئے ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں، اس حکم احسان میں، باپ سے مقدم ہے، کیونکہ نوماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی (وضع حمل) کی تکلیف، صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے، باپ کی اس میں شرکت نہیں، اسی لئے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے۔ ایک صحابی (رضی الله عنہ) نے نبی (ﷺ) سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا تمہاری ماں، اس نے پھر یہی پوچھا، آپ (ﷺ) نے یہی جواب دیا، تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ (ﷺ) نے فرمایا، پھر تمہارا باپ (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب أول 2- فِصَالٌ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ (رضی الله عنہم) نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو وہ بچہ حلال ہی کا ہوگا، حرام کا نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (24 مہینے) بتلائی ہے (سورۂ لقمان: 14، سورۂ بقرۃ: 233) اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔ 3- کمال قدرت (أَشُدَّهُ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے 18 سال سے تعبیر کیا ہے، حتیٰ کہ پھر بڑھتے بڑھتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے۔ اسی لئے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا (فتح القدیر)۔ 4- أَوْزِعْنِي بمعنی أَلْهِمْنِي ہے ، مجھے توفیق دے، اس سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا ہے کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔ یعنی ﴿رَبِّ أَوْزِعْنِي﴾ سے ﴿مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ تک۔ الأحقاف
16 الأحقاف
17 1- مذکورہ آیت میں سعادت مند اولاد کا تذکرہ تھا، جو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی۔ اب اس کے مقابلے میں بدبخت اور نافرمان اولاد کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے۔ ﴿أُفٍّ لَكُمَا﴾ افسوس ہے تم پر ، اف کا کلمہ، ناگواری کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی نافرمان اولاد، باپ کی ناصحانہ باتوں پر یا دعوت ایمان وعمل صالح پر ناگواری اور شدت غیظ کا اظہار کرتی ہے جس کی اولاد کو قطعاً اجازت نہیں ہے۔ یہ آیت عام ہے، ہر نافرمان اولاد اس کی مصداق ہے۔ 2- مطلب ہے کہ وہ تودوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آئے۔ حالانکہ دوبارہ زندہ ہونے کا مطلب قیامت والے دن زندہ ہونا ہے جس کے بعد حساب ہوگا۔ 3- ماں باپ مسلمان ہوں اور اولاد کافر، تو وہاں اولاد اور والدین کے درمیان اسی طرح تکرار اور بحث ہوتی ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ الأحقاف
18 1- جو پہلے ہی اللہ کے علم میں تھا، یا شیطان کے جواب میں جو اللہ نے فرمایا تھا ﴿لأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ (سورۃ ص:85) 2- یعنی یہ بھی ان کافروں میں شامل ہوگئے جو انسانوں اور جنوں میں سے قیامت والے دن نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔ الأحقاف
19 1- مومن اور کافر، دونوں کا، ان کے عملوں کے مطابق اللہ کے ہاں مرتبہ ہوگا۔ مومن مراتب عالیہ سے سرفراز ہوں گے اور کافر جہنم کے پست ترین درجوں میں ہوں گے۔ 2- گناہ گار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی اور نیکو کار کے صلے میں کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ایک کو خیر یا شر میں سے وہی کچھ ملے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔ الأحقاف
20 1- یعنی اس وقت کو یاد کرو، جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے یا اس کے قریب ہوں گے۔ بعض نے يُعْرَضُونَ کے معنی يُعَذَّبُونَ کے کیے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کلام میں قلب ہے۔ مطلب ہے جب آگ ان پر پیش کی جائے گی (تُعْرَضُ النَّارُ عَلَيْهِمْ) (فتح القدير)۔ 2- طَيِّبَاتٌ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان ذوق وشوق سے کھاتے پیتے اور استعمال کرتے اور لذت وفرحت محسوس کرتے ہیں۔ لیکن آخرت کی فکر کے ساتھ ان کا استعمال ہو تو بات اور ہے، جیسے مومن کرتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ احکام الٰہی کی اطاعت کرکے شکر الٰہی کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے۔ لیکن فکر آخرت سے بے نیازی کےساتھ ان کا استعمال انسان کو سرکش اور باغی بنا دیتا ہے جیسے کافر کرتا ہے اور یوں وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے۔ چنانچہ مومن کو تو اس کے شکر واطاعت کی وجہ سے یہ نعمتیں بلکہ اس سے بدر جہا بہتر نعمتیں آخرت میں پھر مل جائیں گی۔ جب کہ کافروں کو وہی کچھ کہا جائے گا جو یہاں آیت میں مذکور ہے۔ ﴿أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ . . . . کا دوسرا ترجمہ ہے دنیا کی زندگی میں تم نے اپنے مزے اڑا لیے اور خوب فائدہ اٹھا لیا۔ 3- ان کے عذاب کے دو سبب بیان فرمائے، ناحق تکبر، جس کی بنیاد پر انسان حق کا اتباع کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسرا فسق۔ بے خوفی کے ساتھ معاصی کا ارتکاب۔ یہ دونوں باتیں تمام کافروں میں مشترکہ ہوتی ہیں۔ اہل ایمان کو ان دونوں باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہئے۔ ملحوظہ۔ بعض صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے سامنے عمدہ وغیرہ آتی تو یہ آیت انہیں یاد آجاتی اور وہ اس ڈر سےاسے ترک کر دیتے کہ کہیں آخرت میں ہمیں بھی یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تم نے اپنے مزے دنیا میں لوٹ لیے۔ تو یہ ا ن کی وہ کیفیت ہے جو غایت ورع اور زہد وتقویٰ کی مظہر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھی نعمتوں کا استعمال وہ جائز نہیں سمجھتے تھے۔ الأحقاف
21 1- أَحْقَافٌ، حِقْفٌ کی جمع ہے۔ ریت کا بلند مستطیل ٹیلہ، بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کے کیے ہیں۔ یہ حضرت ہود (عليہ السلام) کی قوم عاد اولیٰ کے علاقے کا نام ہے، جو حضر موت (یمن) کے قریب تھا۔ کفار مکہ کی تکذیب کے پیش نظر نبی (ﷺ) کی تسلی کے لئے گزشتہ انبیا علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ 2- یوم عظیم سےمراد قیامت کا دن ہے، جسےاس کی ہولناکی کی وجہ سے بجا طور پر بڑا دن کہا گیا ہے۔ الأحقاف
22 1- لِتَأْفِكَنَا لِتَصْرِفَنَا یا لِتَمْنَعَنَا یا لِتُزِلَنَا، سب متقارب المعنی ہیں۔ تاکہ تو ہمیں ہمارے معبودوں کی پرستش سے پھیر دے، روک دے، ہٹا دے۔ الأحقاف
23 1- یعنی عذاب کب آئے گا؟ یا دنیا میں نہیں آئے گا، بلکہ آخرت میں تمہیں عذاب دیا جائے گا، اس کا علم صرف اللہ کو ہے، وہی اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے، میرا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے۔ 2- کہ ایک تو کفر پر اصرار کر رہے ہو، دوسرے، مجھ سے ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو میرے اختیار میں نہیں ہے۔ الأحقاف
24 1- عرصہ دراز سے ان کے ہاں بارش نہیں ہوئی تھی، امنڈتے بادل دیکھ کر خوش ہوئے کہ اب بارش ہوگی۔ بادل کو عارض اس لئے کہا ہے کہ بادل عرض آسمان پر ظاہر ہوتا ہے۔ 2- یہ حضرت ہود (عليہ السلام) نے انہیں کہا کہ یہ محض بادل نہیں ہے، جیسے تم سمجھ رہے ہو۔ بلکہ یہ وہ عذاب ہے۔ جسے تم جلد لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 3- یعنی وہ ہوا ، جس سے اس قوم کی ہلاکت ہوئی، ان بادلوں سے ہی اٹھی اور نکلی اور اللہ کی مشیت سے ان کو اور ان کی ہر چیز کو تباہ کر گئی۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے رسول اللہ (ﷺ) سےپوچھا کہ لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی، لیکن آپ (ﷺ) کے چہرے پر اس کے برعکس تشویش کے آثار نظر آتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نےفرمایا : عائشہ (رضی الله عنہا) اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بادل میں عذاب نہیں ہوگا، جب کہ ایک قوم ہوا کے عذاب سے ہی ہلاک کر دی گئی، اس قوم نے بھی بادل دیکھ کر کہا تھا یہ بادل ہےجو ہم پر بارش برسائے گا۔ (البخاری، تفسير سورة الأحقاف، مسلم، كتاب صلاة الاستسقاء باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم والفرح بالمطر) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب باد تند چلتی تو آپ (ﷺ) یہ دعا پڑھتے[ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِه ] اور جب آسمان پر بادل گہرے ہو جاتے تو آپ (ﷺ) کا رنگ متغیر ہو جاتا اور خوف کی سی ایک کیفیت آپ (ﷺ) پر طاری ہو جاتی جس سے آپ (ﷺ) بے چین رہتے، کبھی باہر نکلتے، کبھی اندر داخل ہوتے، کبھی آگے ہوتے اور کبھی پیچھے پھر بارش ہو جاتی تو آپ (ﷺ) اطمینان کا سانس لیتے۔ (صحیح مسلم، باب مذکور)۔ الأحقاف
25 1- یعنی مکین (گھر والے) سب تباہ ہوگئے اور صرف مکانات (گھر) نشان عبرت کے طور پر باقی رہ گئے۔ الأحقاف
26 1- یہ اہل مکہ کو خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ تم کیا چیز ہو؟ تم سے پہلی قومیں، جنہیں ہم نے ہلاک کیا، قوت وشوکت میں تم سے کہیں زیادہ تھیں،لیکن جب انہوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں (آنکھ، کان اور دل) کو حق کے سننے، دیکھنے اور اسے سمجھنے کے لئے استعمال نہیں کیا، تو بالآخر ہم نے انہیں تباہ کر دیا اور یہ چیزیں ان کے کچھ کام نہ آسکیں۔ 2- یعنی جس عذاب کو وہ انہونا سمجھ کر بطور استہزا کہا کرتے تھے کہ لے آ اپنا عذاب ! جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے، وہ عذاب آیا اور اس نے انہیں گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔ الأحقاف
27 1- آس پاس سے عاد، ثمود اور لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کےقریب ہی تھیں اور یمن اور شام وفلسطین کی طرف آتے جاتے ان سے ان کا گزر ہوتا تھا۔ 2- یعنی ہم نے مختلف انداز سے اور مختلف نوع کے دلائل ان کے سامنے پیش کیے کہ شاید وہ توبہ کر لیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ الأحقاف
28 1- یعنی جن معبودوں کو وہ تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے تھے، انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، بلکہ وہ اس موقعے پر آئے ہی نہیں، بلکہ گم رہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بتوں کو الہٰ نہیں سمجھتے بلکہ انہیں بارگاہ الٰہی میں قرب کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔ اللہ نے اس وسیلےکو یہاں افک (جھوٹ) اور افترا (بہتان) قرار دے کر واضح فرما دیا کہ یہ ناجائز اور حرام ہے۔ الأحقاف
29 1- صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ (ﷺ) صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر بہت زیادہ سختی کر دی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ چنانچہ مشرق ومغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں۔ ان ہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور بات سمجھ لی کہ نبی (ﷺ) کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے۔ اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جاکر اپنی قوم کو بھی بتلایا (مسلم، كتاب الصلاة، باب الجهر بالقراءة في الصبح والقراءة على الجن - صحيح بخاری میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے۔ كتاب مناقب الأنصار، باب ذكر الجن) بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ (ﷺ) جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا، اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر وغیرہ)۔ 2- یعنی آپ (ﷺ) کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہوگئی۔ الأحقاف
30 الأحقاف
31 1- یہ جنوں نے اپنی قوم کو نبی (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اس سے قبل قرآن کریم کے متعلق بتلایا کہ یہ تورات کے بعد ایک اور آسمانی کتاب ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ 2- یہ ایمان لانے کے وہ فائدے بتلائے جو آخرت میں انہیں حاصل ہوں گے۔ مِنْ ذُنُوبِكُمْ میں مِنْ تبعیض کے لئے ہے یعنی بعض گناہ معاف فرما دے گا اور یہ وہ گناہ ہوں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوگا۔ کیوں کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ثواب وعقاب اور اوامر ونواہی میں جنات کے لئے بھی وہی حکم ہے جو انسانوں کے لئے ہے۔ اس امر میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات میں جنوں میں سے رسول بھیجے یا نہیں؟ ظاہر آیات قرآنیہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنات میں کوئی رسول نہیں ہوا، تمام انبیاء ورسل علیہم السلام انسان ہی ہوئے ہیں:﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلا رِجَالا نُوحِي إِلَيْهِمْ﴾ (النحل: 43) ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الأَسْوَاقِ﴾ (سورة الفرقان: 20) ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ جتنے بھی رسول ہوئے، وہ انسان تھے۔ اسی لئے رسول اللہ (ﷺ) جس طرح انسانوں کے لئے رسول تھے اور ہیں، اسی طرح جنات کے رسول بھی آپ (ﷺ) ہی ہیں اور آپ (ﷺ) کے پیغام کو بھی جنات تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم کے اس مقام سے ظاہر ہے۔ الأحقاف
32 1- یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ زمین کی وسعتوں میں اس طرح گم ہو جائے کہ اللہ کی گرفت میں نہ آسکے۔ 2- جو اسے اللہ کے عذاب سے بچالیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ خود اللہ کی گرفت سے بچنے پر قادر ہے نہ کسی دوسرے کی مدد سے ایسا ممکن ہے۔ الأحقاف
33 1- رأی سے، رؤیت قلبی مراد ہے، یعنی کیا انہوں نے نہیں جانا۔ أَلَمْ يَعْلَمُوا یا أَلَمْ يَتَفَكَّرُوا کہ جو اللہ آسمان وزمین کو پیدا کرنے والا ہے، جن کی وسعت وبے کرانی کی انتہا نہیں ہے اور وہ ان کو بنا کر تھکا بھی نہیں۔ کیا وہ مردوں کودوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ یقیناً کر سکتا ہے، اس لئے کہ وہ ﴿عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ کی صفت سے متصف ہے۔ الأحقاف
34 1- وہاں اعتراف ہی نہیں کریں گے بلکہ اپنے اس اعتراف پر قسم کھا کر اسے موکد کریں گے۔ لیکن اس وقت کا یہ اعتراف بے فائدہ ہے، کیونکہ مشاہدے کے بعد اعتراف کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اعتراف نہیں تو، کیا انکار کریں گے؟ 2- اس لئے کہ جب ماننے کا وقت تھا، اس وقت مانا نہیں، یہ عذاب اسی کفر اور انکار کا بدلہ ہے، جو اب تمہیں بھگتنا ہی بھگتنا ہے۔ الأحقاف
35 1- یہ کفار مکہ کے رویے کے مقابلے میں نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے اور صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ 2- قیامت کاہولناک عذاب دیکھنے کے بعد انہیں دنیا کی زندگی ایسے معلوم ہوگی جیسے دن کی صرف ایک گھڑی یہاں گزار کر گئے ہیں۔ 3- یہ متبدا محذوف کی خبرہے۔ أَيْ : (هَذَا الَّذِي وَعَظْتَهَمْ بِهِ بَلاغٌ) یہ وہ نصیحت یا پیغام ہے جس کا پہنچانا تیرا کام ہے۔ 4- اس آیت میں بھی اہل ایمان کے لئے خوش خبری اور حوصلہ افزائی ہے کہ ہلاکت اخروی صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ کے نافرمان اور اس کی حدود پامال کرنے والے ہیں۔ الأحقاف
0 محمد
1 1- بعض نے اس سے مراد کفار قریش اور بعض نے اہل کتاب لیے ہیں۔ لیکن یہ عام ہے ان کے ساتھ سارے ہی کفار اس میں داخل ہیں۔ 2- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم (ﷺ) کے خلاف جو سازشیں کیں، اللہ نے انہیں ناکام بنا دیا اور انہی پر ان کو الٹ دیا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ان میں جو بعض مکارم اخلاق پائے جاتے تھے، مثلا صلۂ رحمی، قیدیوں کو آزاد کرنا، مہمان نوازی وغیرہ یا خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت۔ ان کا کوئی صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر اعمال پر اجر وثواب مرتب نہیں ہوگا۔ محمد
2 1- ایمان میں اگرچہ وحی محمدی یعنی قرآن پاک پر ایمان لانا بھی شامل ہے لیکن اس کی اہمیت اور شرف کو مزید واضح اور نمایاں کرنے کے لئے اس کا علیحدہ بھی ذکر فرما دیا۔ 2- یعنی ایمان لانے سے قبل کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف فرما دیں۔ جیسا کہ نبی (ﷺ) کا بھی فرمان ہے کہ (اسلام ماقبل کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے)۔ (صحيح الجامع الصغير لألباني 3- بَالَهُمْ : کے معنی أَمْرَهُمْ، شَاْنَهُمْ، حالھم، یہ سب متقارب المعنی ہیں۔ مطلب ہے کہ انہیں معاصی سے بچا کر رشد وخیر کی راہ پر لگا دیا، ایک مومن کے لئے اصلاح حال کی یہی سب سے بہتر صورت ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ مال ودولت کے ذریعے سے ان کی حالت درست کر دی۔ کیونکہ ہر مومن کو مال ملتا بھی نہیں، علاوہ ازیں محض دنیوی مال اصلاح واحوال کا یقینی ذریعہ بھی نہیں، بلکہ اس سے فساد احوال کا زیادہ امکان ہے۔ اسی لئے نبی (ﷺ) نے کثرت مال کو پسند نہیں فرمایا۔ محمد
3 1- ذَلِكَ، یہ متبدا ہے، یا خبر ہے متبدا محذوف کی أَيْ الأَمْرُ ذَلِكَ یہ اشارہ ہے ان وعیدوں اور وعدوں کی طرف جو کافروں اور مومنوں کے لئے بیان ہوئے۔ 2- تاکہ لوگ اس انجام سے بچیں جو کافروں کا مقدر ہے اور وہ راہ حق اپنائیں جس پر چل کر ایمان والے فوز وفلاح ابدی سے ہمکنار ہوں گے۔ محمد
4 1- جب دونوں فریقوں کا ذکر کر دیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ قتل کرنے کے بجائے۔ گردنیں مارنے کا حکم دیا، کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ (فتح القدیر)۔ 2- یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد، ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں، انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ 3- مَنٌّ کا مطلب ہے بغیر فدیہ لئے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب، کچھ معاوضہ لےکر چھوڑنا ہے، قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت، حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کےحق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کر لی جائے۔ 4- یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہو جائے، یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کرکےہتھیار رکھ دے یا اسلام غالب آجائے اور کفر کا خاتمہ ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ صورت حال نہ ہو جائے، کافروں کے ساتھ تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے، بعض کہتےہیں، یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کےکوئی صورت باقی نہیں ہے۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے۔ اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے، کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے۔ قیدیوں میں سے جس کو یاسب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ (فتح القدیر)۔ 5- یا تم اسی طرح کرو، (افْعَلُوا ذَلِك یا ذَلِكَ حُكْمُ الْكُفَّارِ 6- مطلب کافروں کو ہلاک کرکے یا انہیں عذاب میں مبتلا کرکے۔ یعنی ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ 7- یعنی تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے تاکہ وہ جان لے کہ تم میں سے اس کی راہ میں لڑنے والے کون ہیں؟ تاکہ ان کو اجر وثواب دے اور ان کے ہاتھوں سے کافروں کو ذلت وشکست سے دوچار کرے۔ 8- یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔ محمد
5 1- یعنی انہیں ایسے کاموں کی توفیق دے گا جن سے ان کے لئے جنت کا راستہ آسان ہو جائے گا۔ محمد
6 1- یعنی جسے وہ بغیر رہنمائی کے پہچان لیں گے اور جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو از خود ہی اپنے اپنے گھروں میں جا داخل ہوں گے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا (قسم ہے اس ذات کی جس کےہاتھ میں میری جان ہے، ایک جنتی کو اپنے جنت والے گھر کے راستوں کا اس سے کہیں زیادہ علم ہوگا، جتنا دنیا میں اسے اپنے گھر کا تھا)۔ (صحيح بخاری ، كتاب الرقاق ، باب القصاص يوم القيامة محمد
7 1- اللہ کی مدد کرنے سے مطلب، اللہ کے دین کی مدد ہے۔ کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے۔ یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پرفتح وغلبہ عطا کرتا ہے۔ جیسے صحابہ کرام (رضی الله عنہم اجمعین) اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے، وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا، انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا۔ جیسے دوسرےمقام پر فرمایا۔ ﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ﴾ (الحج: 40) (اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے)۔ 2- یہ لڑائی کے وقت تَثْبِيتُ أَقْدَامٍ یہ عبارت ہے مواطن حرب میں نصر ومعونت سے۔ بعض کہتے ہیں اسلام، یا پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا۔ محمد
8 محمد
9 1- یعنی قرآن اور ایمان کو انہوں نے ناپسند کیا۔ 2- اعمال سے مراد، وہ اعمال ہیں جو صورۃ اعمال خیر ہیں لیکن عدم ایمان کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان پر اجر وثواب نہیں ملے گا۔ محمد
10 1- جن کے بہت سے آثار ان کے علاقوں میں موجود ہیں۔ نزول قرآن کے وقت بعض تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات اور آثار موجود تھے، اس لئے انہیں چل پھر کر ان کے عبرت ناک انجام دیکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی کہ شاید ان کو دیکھ کر ہی یہ ایمان لے آئیں۔ 2- یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم کفر سے باز نہ آئے تو تمہارے لئے بھی ایسی ہی سزا ہو سکتی ہے؟ اور گزشتہ کافر قوموں کی ہلاکت کی طرح، تمہیں بھی ہلاکت سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ محمد
11 1- چنانچہ جنگ احد میں کافروں کے نعروں کے جواب میں مسلمانوں نے جو نعرے بلند کیے۔ مثلاً (اعْلُ هُبَلْ، اعْلُ هُبَلْ) (ھبل بت کا نام بلند ہو) کے جواب میں[ اللهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ] کافروں کے انہی نعروں میں سے ایک نعرے لَنَا الْعُزَّى وَلا عُزَّى لَكُمْ کے جواب میں مسلمانوں کا نعرہ تھا [اللهُ مَوْلانَا وَلا مَوْلَى لَكُمْ] (صحيح بخاری، غزوة أحد) ”اللہ ہمارا مدد گار ہے، تمہارا کوئی مددگار نہیں“۔ محمد
12 1- یعنی جس طرح جانوروں کو پیٹ اور جنس کے تقاضے پورے کرنےکے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہی حال کافروں کا ہے، ان کا مقصد زندگی بھی کھانے پینے کےعلاوہ کچھ نہیں، آخرت سے وہ بالکل غافل ہیں۔ اس سے ضمناً کھڑےکھڑے کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، جس کا آج کل دعوتوں میں عام رواج ہے کیوں کہ اس میں بھی جانوروں سے مشابہت ہے جسے کافروں کا شیوہ بتلایا گیا ہے۔ احادیث میں کھڑے کھڑے پانی پینے سے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے، جس سے کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت بطریق اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر کھانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔ دیکھئے زاد المعاد۔ محمد
13 محمد
14 1- برے کام سے مراد، شرک ومعصیت ہیں، مطلب وہی ہےجو پہلے بھی متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ مومن وکافر، مشرک وموحد اور نیکو کار وبدکار برابر نہیں ہو سکتے۔ ایک کے لئے اللہ کےہاں اجر وثواب اور جنت کی نعمتیں ہیں، جب کہ دوسرے کے لئے جہنم کا ہولناک عذاب۔ اگلی آیت میں دونوں کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ پہلے اس جنت کی خوبیاں اور محاسن، جن کا وعدہ متقین سے ہے۔ محمد
15 1- آسِنٍ کے معنی، متغیر۔ یعنی بدل جانے والا، غیر آسن نہ بدلنے والا۔ یعنی دنیا میں تو پانی کسی ایک جگہ کچھ دیر پڑا رہے تو اس کا رنگ متغیر ہو جاتا ہے اور اس کی بو اور ذائقے میں تبدیلی آجاتی ہے جس سے وہ مضر صحت ہو جاتا ہے۔ جنت کے پانی کی یہ خوبی ہوگی کہ اس میں کوئی تغیر نہیں ہوگا۔ یعنی اس کی بو اور ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جب پیو، تازہ، مفرح اور صحت افزا جب دنیا کا پانی خراب ہو سکتا ہے تو شریعت نے اسی لئے پانی کی بابت کہا ہے کہ یہ پانی اس وقت تک پاک ہے، جب تک اس کا رنگ یا بو نہ بدلے، کیونکہ رنگ یا بو متغیر ہونے کی صورت میں پانی ناپاک ہو جائے گا۔ 2- جس طرح دنیا میں وہ دودھ بعض دفعہ خراب ہو جاتا ہے جو گایوں، بھینسوں اور بکریوں وغیرہ کے تھنوں سے نکلتا ہے۔ جنت کا دودھ چونکہ اس طرح جانوروں کے تھنوں سے نہیں نکلے گا، بلکہ اس کی نہریں ہوں گی، اس لئے، جس طرح وہ نہایت لذیذ ہوگا، خراب ہونے سے بھی محفوظ ہوگا۔ 3- دنیا میں جو شراب ملتی ہے، وہ عام طور پر تلخ، بدمزہ اور بدبو دار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں پی کر انسان بالعموم حواس باختہ ہو جاتا ہے، اول فول بکتا ہے اور اپنے جسم تک کا ہوش اسے نہیں رہتا۔ جنت کی شراب دیکھنے میں حسین، ذائقے میں اعلیٰ اور نہایت خوشبودار ہوگی اور اسے پی کر کوئی انسان بہکے گا، نہ کوئی گرانی محسوس کرے گا۔ بلکہ ایسی لذت وفرحت محسوس کرے گا جس کا تصور اس دنیا میں ممکن نہیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿لا فِيهَا غَوْلٌ وَلا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ﴾ (سورة الصافات: 47) نہ اسے چکر آئے گا نہ عقل جائے گی۔ مزید دیکھئے (سورة الواقعہ: 19)۔ 4- یعنی شہد میں بالعموم جن چیزوں کی آمیزش کا امکان رہتا ہے، جس کا مشاہدہ دنیا میں عام ہے جنت میں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔ بالکل صاف شفاف ہوگا، کیونکہ یہ دنیا کی طرح مکھیوں سے حاصل کردہ نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بھی نہریں ہوں گی۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا۔ جب بھی تم سوال کرو تو جنت الفردوس کی دعا کرو، اس لئے کہ وہ جنت کا درمیانہ اور اعلیٰ درجہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے (صحيح بخاری ، كتاب الجهاد، باب درجات المجاهدين في سبيل الله 5- یعنی جن کو جنت میں وہ اعلیٰ درجے نصیب ہوں گے جو مذکور ہوئے کیا وہ ایسے جہنمیوں کے برابر ہیں جن کا یہ حال ہوگا؟ ظاہر بات ہے ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایک درجات میں ہوگا اور دوسرا درکات (جہنم) میں۔ ایک نعمتوں میں داد طرب وعیش دے رہاہوگا، دوسرا عذاب جہنم کی سختیاں جھیل رہا ہوگا۔ ایک اللہ کا مہمان ہوگا جہاں انواع واقسام کی چیزیں اس کی تواضع اور اکرام کے لئے ہوں گی اور دوسرا اللہ کا قیدی، جہاں اس کو کھانے کے لئے زقوم جیسا تلخ وکسیلا کھانا اور پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ ببی تفاوت ره از کجا است تابہ کجا محمد
16 1- یہ منافقین کا ذکر ہے، ان کی نیت چونکہ صحیح نہیں ہوتی تھی، اس لئے نبی (ﷺ) کی باتیں بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ مجلس سے باہر آکر صحابہ (رضی الله عنہم) سے پوچھتے کہ آپ (ﷺ) نے کیا فرمایا؟ محمد
17 1- یعنی جن کی نیت ہدایت حاصل کرنے کی ہوتی ہے تو اللہ ان کو ہدایت کی توفیق بھی دے دیتا ہے اور ان کو اس پر ثابت قدمی بھی عطا فرماتا ہے۔ محمد
18 1- یعنی نبی (ﷺ)کی بعثت بجائے خود قرب قیامت کی ایک علامت ہے، جیسا کہ آپ (ﷺ) نے بھی فرمایا [ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ ] (صحيح بخاری تفسير سورة النازعات)”میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے“۔ آپ (ﷺ) نے اشارہ کرکے واضح فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان فاصلہ نہیں ہے یا یہ کہ جس طرح ایک انگلی دوسری انگلی سے ذرا سا آگے ہے اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔ 2- یعنی جب قیامت اچانک آجائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کر سکیں گے؟ مطلب ہے کہ اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو وہ مقبول نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت ہے۔ ورنہ وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ ان کی توبہ بھی غیر مفید ہوگی۔ محمد
19 1- یعنی اس عقیدےپر ثابت اور قائم رہیں، کیونکہ یہی توحید اور اطاعت الٰہی، مدار خیر ہے اور اس سے انحراف یعنی شرک اور معصیت، مدار شر ہے۔ 2- اس میں نبی (ﷺ) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اپنے لئے بھی اور مومنین کے لئے بھی۔ استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا [ يَا أَيُّهَا النَّاسُ! تُوبُوا إِلَى رَبِّكُمْ فَإِنِّي أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً ] (صحيح بخاری، كتاب الدعوات ، باب استغفار النبي في اليوم والليلة) ”لوگو ! بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کیا کرو، میں بھی اللہ کے حضور روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں“۔ 3- یعنی دن کو تم جہاں پھرتے اورجو کچھ کرتے ہو اور رات کو جہاں آرام کرتے اور استقرار پکڑتے ہو، اللہ تعالیٰ جانتاہے۔ مطلب ہے شب وروز کی کوئی سرگرمی اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ محمد
20 1- جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین، جو جذبۂ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کےخواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی؟ یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔ 2- یعنی ایسی سورت جو غیر منسوخ ہو۔ 3- یہ ان منافقین کا ذکر ہے جن پر جہاد کا حکم نہایت گراں گزرتا تھا، ان میں بعض کمزور ایمان والے بھی بعض دفعہ شامل ہو جاتے تھے۔ سورۂ نساء، آیت 77 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ محمد
21 1- یعنی حکم جہاد سے گھبرانے کے بجائے ان کے لئے بہتر تھا کہ وہ سمع وطاعت کا مظاہرہ کرتے اور نبی (ﷺ)کی بابت، گستاخی کے بجائے، اچھی بات کہتے۔ یہ أَوْلَى بمعنی أَجْدَرُ (بہتر) ہے، جسے ابن کثیرنے اختیار کیا ہے۔ بعض نے اولیٰ کو تہدید ووعید کا کلمہ یعنی بددعا قرار دیا ہے۔( مَعْنَاهُ قَارَبَهُ مَا يُهْلِكُهُ) (ان کی ہلاکت قریب ہے) مطلب ہے، ان کی بزدلی اور نفاق ان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔ اس اعتبار سے ﴿طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ﴾ جملہ مستانفہ ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی خَيْرٌ لَّكُمْ (فتح القدیر، ایسر التفاسیر)۔ 2- یعنی جہاد کی تیاری مکمل ہو جائے اور وقت جہاد آجائے۔ 3- یعنی اگر اب بھی نفاق چھوڑ کر، اپنی نیت اللہ کے لئے خالص کر لیں، یا رسول کے سامنے رسول (ﷺ)کے ساتھ لڑنے کا جو عہد کرتے ہیں، اس میں اللہ سے سچے رہیں۔ 4- یعنی نفاق اور مخالفت کے مقابلے میں توبہ واخلاص کا مظاہرہ بہتر ہے۔ محمد
22 1- ایک دوسرے کو قتل کرکے۔ یعنی اختیار واقتدار کا غلط استعمال کرو۔ امام ابن کثیر نے تَوَلَّيْتُمْ کا ترجمہ کیا ہے (تم جہاد سےپھر جاؤ اور اس سےاعراض کرو) یعنی تم پھر زمانۂ جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤ اور باہم خون ریزی اور قطع رحمی کرو۔ اس میں فساد فی الارض کی عموماً اور قطع رحمی کی خصوصاً ممانعت اور اصلاح فی الارض اور صلۂ رحمی کی تاکید ہے، جس کا مطلب ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ زبان سے، عمل سے اور بذل اموال کے ذریعے سے اچھا سلوک کرو۔ احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔ (ابن کثیر)۔ محمد
23 1- یعنی ایسے لوگوں کے کانوں کو اللہ نے (حق کے سننے سے) بہرہ اور آنکھوں کو (حق دیکھنے سے) اندھا کر دیا ہے۔ یہ نتیجہ ہے ان کے مذکورہ اعمال سیئہ کا۔ محمد
24 1- جس کی وجہ سے قرآن کے معنی ومفاہیم ان کے دلوں کے اندر نہیں جاتے۔ محمد
25 1- اس سےمراد منافقین ہی ہیں جنہوں نے جہاد سےگریز کرکے اپنے کفر وارتداد کو ظاہر کر دیا۔ 2- اس کا فاعل بھی شیطان ہے۔ یعنی (مَدَّ لَهُمْ فِي الأَمَلِ وَوَعَدَهُمْ طُولَ الْعُمْرِ) یعنی انہیں لمبی آرزوؤں اور اس دھوکے میں مبتلا کر دیا کہ ابھی تو تمہاری بڑی عمر ہے، کیوں لڑائی میں اپنی جان گنواتے ہو؟ یا فاعل اللہ ہے، اللہ نے انہیں ڈھیل دی۔ یعنی فوراً ان کا مواخذہ نہیں فرمایا۔ محمد
26 1- (یہ) سے مراد ان کا ارتداد ہے۔ 2- یعنی منافقین نے مشرکین سے یا یہود سے کہا۔ 3- یعنی نبی (ﷺ) اور آپ کے لائے ہوئے دین کی مخالفت میں۔ 4- جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ﴿وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ﴾ (النساء: 81) محمد
27 1- یہ کافروں کی اس وقت کی کیفیت بیان کی گئی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ روحیں فرشتوں سے بچنے کے لئے جسم کے اندر چھپتی اور ادھر ادھر بھاگتی ہیں تو فرشتے سختی اور زور سے انہیں پکڑتے، کھینچتے اور مارتے ہیں۔ یہ مضمون اس سے قبل سورۂ انعام آیت 93 اور سورۂ انفال آیت 50 میں بھی گزر چکا ہے۔ محمد
28 محمد
29 1- أَضْغَانٌ ضِغْنٌ کی جمع ہے، جس کے معنی حسد، کینہ اور بغض کے ہیں۔ منافقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعناد تھا، اس کے حوالے سےکہا جا رہا ہے کہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہے؟ محمد
30 1- یعنی ایک ایک شخص کی اس طرح نشان دہی کر دیتے کہ ہر منافق کو عیانا پہچان لیا جاتا۔ لیکن تمام منافقین کے لئے اللہ نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ یہ اللہ کی صفت ستاری کے خلاف ہے، وہ بالعموم پردہ پوشی فرماتا ہے، پردہ دری نہیں۔ دوسرا اس نے انسانوں کو ظاہر پر فیصلہ کرنے کا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔ 2- البتہ ان کا لہجہ اور انداز گفتگو ہی ایسا ہوتا ہے جو ان کے باطن کا غماز ہوتا ہے، جس سے اسے پیغمبر تو ان کو یقیناً پہچان سکتا ہے۔ یہ عام مشاہدے میں آنے والی بات ہے، انسانوں کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ اسے لاکھ چھپائے لیکن انسان کی گفتگو ، حرکات وسکنات اور بعض مخصوص کیفیات، اس کے دل کے راز کو آشکارا کر دیتی ہیں۔ محمد
31 1- اللہ تعالیٰ کے علم میں تو پہلے ہی سب کچھ ہے۔ یہاں علم سے مراد اس کا وقوع اور ظہور ہے تاکہ دوسرے بھی جان لیں اور دیکھ لیں۔ اسی لئے امام ابن کثیر نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے حَتَّى نَعْلَمَ وُقُوعَه ہم اس کے وقوع کو جان لیں۔ ابن عباس (رضی اللہ عنہم) اس قسم کے الفاظ کا ترجمہ کرتے تھے لِنَرَىٰ، تاکہ ہم دیکھ لیں۔ (ابن کثیر) اور یہی معنی زیادہ واضح ہے۔ محمد
32 1- بلکہ اپنا ہی بیڑا غرق کریں گے۔ 2- کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ ایمان واخلاص ہی ہر عمل خیر کو اس قابل بناتا ہے کہ اس پر اللہ کے ہاں اجر ملے۔ محمد
33 1- یعنی منافقین اور مرتدین کی طرح ارتداد ونفاق اختیار کرکے، اپنے عملوں کو برباد مت کرو۔ یہ گویا اسلام پر استقامت کا حکم ہے۔ بعض نےکبائر وفواحش کےارتکاب کو بھی حبط اعمال کا باعث گردانا ہے۔ اسی لئے مومنین کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بڑے گناہ اور فواحش سے بچتے ہیں۔ (النجم: 32) اس اعتبار سے کبائر وفواحش سے بچنے کی اس میں تاکید ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی عمل خواہ کتنا ہی بہتر کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اگر اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہے تو رائیگاں اور برباد ہے۔ محمد
34 محمد
35 1- مطلب یہ ہے کہ جب تم تعداد اور قوت وطاقت کے اعتبار سےدشمن پر غالب اور فائق تر ہو تو ایسی صورت میں کفار کے ساتھ صلح اور کمزوری کا مظاہرہ مت کرو، بلکہ کفر پر ایسی کاری ضرب لگاؤ کہ اللہ کا دین سر بلند ہو جائے۔ غالب وبرتر ہوتےہوئے کفر کے ساتھ مصالحت کا مطلب، کفر کےاثر ونفوذ کے بڑھانے میں مدد دینا ہے۔ یہ ایک بڑا جرم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافروں کے ساتھ صلح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ اجازت یقیناً ہے، لیکن ہر وقت نہیں۔ صرف اس وقت ہےجب مسلمان تعداد میں کم اور وسائل کے لحاظ سے فروتر ہوں۔ ایسے حالات میں لڑائی کی بہ نسبت صلح میں زیادہ فائدہ ہے تاکہ مسلمان اس موقعے سےفائدہ اٹھا کر بھرپور تیاری کر لیں، جیسے خود نبی (ﷺ) نے کفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا دس سالہ معاہدہ کیا تھا۔ 2- اس میں مسلمانوں کے لئے دشمن پر فتح ونصرت کی عظیم بشارت ہے۔ جس کے ساتھ اللہ ہو، اس کو کون شکست دے سکتاہے؟ 3- بلکہ وہ اس پر پورا اجر دے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ محمد
36 1- یعنی ایک فریب اور دھوکہ ہے، اس کی کسی چیز کی بنیاد ہے نہ اس کو ثبات اور نہ اس کا اعتبار۔ 2- یعنی وہ تمہارے مالوں سے بےنیاز ہے۔ اسی لئے اس نےتم سے زکوٰۃ میں کل مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک نہایت قلیل حصے کا یعنی صرف ڈھائی فیصد کا اور وہ بھی ایک سال کے بعد اپنی ضرورت سے زیادہ ہونے پر، علاوہ ازیں اس کا مقصد بھی تمہارے اپنے ہی بھائی بندوں کی مدد اور خیر خواہی ہے نہ کہ اللہ اس مال سے اپنی حکومت کے اخراجات پورے کرتا ہے۔ محمد
37 1- یعنی اگر ضرورت سے زائد کل مال کا مطالبہ کرے اور وہ بھی اصرار کے ساتھ اور زور دے کر تو یہ انسانی فطرت ہے کہ تم بخل بھی کرو گے اور اسلام کے خلاف اپنے بغض وعناد کا اظہار بھی۔ یعنی اس صورت میں خود اسلام کے خلاف بھی تمہارے دلوں میں عناد پیدا ہو جاتا کہ یہ اچھا دین ہے جو ہماری محنت کی ساری کمائی اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ ! محمد
38 1- یعنی کچھ حصہ زکوٰۃ کے طور پر اور کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ 2- یعنی اپنے ہی نفس کو انفاق فی سبیل اللہ کے اجر سے محروم رکھتا ہے۔ 3- یعنی اللہ تمہیں خرچ کرنے کی ترغیب اس لئے نہیں دیتا کہ وہ تمہارے مال کا ضرورت مند ہے۔ نہیں، وہ تو غنی ہے، بے نیاز ہے، وہ تو تمہارے ہی فائدے کے لئے تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اس سے ایک تو تمہارے اپنےنفسوں کا تزکیہ ہو۔ دوسرے، تمہارے ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری ہوں۔ تیسرے، تم دشمن پر غالب اور برتر رہو۔ اس لئے اللہ کی رحمت اور مدد کے محتاج تم ہو نہ کہ اللہ تمہارا محتاج ہے۔ 4- یعنی اسلام سے کفر کی طرف پھر جاؤ۔ 5- بلکہ تم سے زیادہ اللہ اور رسول کے اطاعت گزار اور اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرنے والےہوں گے۔ نبی (ﷺ) سے اس کی بابت پوچھا گیا تو آپ (ﷺ) نےحضرت سلمان فارسی (رضی الله عنہ) کےکندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اس سے مراد یہ اور اس کی قوم ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا (ستارے) کے ساتھ بھی لٹکا ہوا ہو تو اس کو فارس کے کچھ لوگ حاصل کر لیں گے۔ (الترمذی، ذكره الألباني في الصحيحة 3 / 14)۔ محمد
0 الفتح
1 الفتح
2 1- اس سے مراد ترک اولیٰ والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ (ﷺ) نے اپنی فہم واجتہاد سے کیے، لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا، جیسے عبداللہ بن ام مکتوم (رضی الله عنہ) وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورۂ عبس کا نزول ہوا، یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں، لیکن آپ (ﷺ) کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا، جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔ لِيَغْفِرَ میں لام تعلیل کے لئے ہے۔ یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں۔ اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب، اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا، جس سے آپ (ﷺ) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات، وبلندی درجات میں بھی۔ 2- اس دین کو غالب کرکے جس کی تم دعوت دیتے ہو۔ یا فتح وغلبہ عطا کرکے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر استقامت یہی اتمام نعمت ہے (فتح القدیر)۔ 3- یعنی اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔ الفتح
3 الفتح
4 1- یعنی اس اضطراب کے بعد، جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی، جس سے ان کےدلوں کو اطمینان، سکون اور ایمان مزید حاصل ہوا۔ یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ 2- یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلاً فرشتوں) سے کفار کو ہلاک کروا دے۔ لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال وجہاد کا حکم دیا۔ اسی لئے آگے اپنی صفت علیم وحکیم بیان فرمائی ہے۔ یا مطلب ہے کہ آسمان وزمین کےفرشتے اور اسی طرح دیگر ذی شوکت وقوت لشکر سب اللہ کے تابع ہیں اور ان سے جس طرح چاہتا ہے کام لیتا ہے۔ بعض دفعہ وہ ایک کافر گروہ کو ہی دوسرے کافر گروہ پر مسلط کرکے مسلمانوں کی امداد کی صورت پیدا فرما دیتا ہے۔ مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اے مومنو ! اللہ تعالیٰ تمہارا محتاج نہیں ہے، وہ اپنے پیغمبر اور اپنے دین کی مدد کا کام کسی بھی گروہ اور لشکر سے لے سکتا ہے۔ (ابن کثیر وایسر التفاسیر)۔ الفتح
5 1- حدیث میں آتا ہے کہ جب مسلمانوں نے سورۂ فتح کا ابتدائی حصہ سنا ﴿لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ﴾ تو انہوں نے نبی (ﷺ) یسے کہا آپ (ﷺ) کو مبارک ہو، ہمارے لئے کیا ہے؟ جس پر اللہ نے آیت ﴿لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ نازل فرمادی (صحيح بخاری، باب غزوة الحديبية) بعض کہتے ہیں کہ یہ لِيَزْدَادُوا یا يَنْصُرَكَ کے متعلق ہے۔ الفتح
6 1- یعنی اللہ کو اس کے حکموں پر متہم کرتے ہیں اور رسول اللہ (ﷺ) اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ مغلوب یا مقتول ہو جائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ (ابن کثیر)۔ 2- یعنی یہ جس گردش، عذاب یا ہلاکت کے مسلمانوں کے لئے منتظر ہیں، وہ تو ان ہی کا مقدر بننے والی ہے۔ الفتح
7 1- یہاں اسے منافقین اور کفار کے ضمن میں دوبارہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان دشمنوں کو ہر طرح ہلاک کرنے پر قادر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت ان کو جتنی چاہے مہلت دے دے۔ الفتح
8 الفتح
9 الفتح
10 1- یعنی یہ بیعت دراصل اللہ ہی کی ہے، کیونکہ اسی نے جہاد کا حکم دیا اور اس پر اجر بھی وہی عطا فرمائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ اپنے نفسوں اور مالوں کا جنت کے بدلے اللہ کے ساتھ سودا ہے (التوبۃ: 111) یہ اسی طرح ہے جیسے ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ (النساء:80)۔ 2- آیت سے وہی بیعت رضوان مراد ہےجو نبی(ﷺ) نے حضرت عثمان (رضی الله عنہ) کی خبر شہادت سن کر ان کا انتقام لینے کے لئے حدیبیہ میں موجود 14 یا 15 سو مسلمانوں سے لی تھی۔ 3- نَكْثٌ (عہد شکنی) سے مراد یہاں بیعت کا توڑ دینا یعنی عہد کے مطابق لڑائی میں حصہ نہ لینا ہے۔ یعنی جو شخص ایسا کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ 4- کہ وہ اللہ کے رسول (ﷺ) کی مدد کرے گا، ان کے ساتھ ہو کر لڑے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح وغلبہ عطا فرما دے۔ الفتح
11 1- اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے، غفار، مزینہ، جہینہ، اسلم اور دئل مراد ہیں۔ جب نبی (ﷺ) نےخواب دیکھنے کے بعد (جس کی تفصیل آگے آئے گی) عمرے کے لئے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی۔ مذکورہ قبلیوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لئے پورے طورپر ہتھیار بندہو کر بھی نہیں جا سکتے۔ اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے؟ اس وقت مکے جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ آپ (ﷺ) کے ساتھ عمرے کے لئے نہیں گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغولیوں کا عذر پیش کرکے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے۔ 2- یعنی زبانوں پرتو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لئے ہمیں خود ہی رکنا پڑا، لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا، نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا۔ 3- یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلے تو کیا تم میں سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ 4- یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے۔ تو کوئی روک سکتا ہے؟ یہ دراصل مذکورہ متخلفین (پیچھے رہ جانے والوں) کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ وہ اگر نبی (ﷺ) کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے۔ حالانکہ نفع وضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ 5- یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔ الفتح
12 1- اور وہ یہی تھا کہ اللہ اپنے رسول (ﷺ) کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ وہی پہلا گمان ہے، تکرار تاکید کے لئے ہے۔ 2- بُورٌ، بَائِرٌ کی جمع ہے، ہلاک ہونے والا، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقدر ہلاکت ہے۔ اگر دنیا میں یہ اللہ کےعذاب سےبچ گئے تو آخرت میں تو بچ کر نہیں جا سکتے وہاں تو عذاب ہر صورت میں بھگتنا ہوگا۔ الفتح
13 الفتح
14 1- اس میں متخلفین کے لئے توبہ وانابت الی اللہ کی ترغیب ہے کہ اگر وہ نفاق سے توبہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا، وہ بڑا بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ الفتح
15 1- اس میں غزوۂ خیبر کا ذکر ہے جس کی فتح کی نوید اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں دی تھی، نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہاں سے جتنا بھی مال غنیمت حاصل ہوگا وہ صرف حدیبیہ میں شریک ہونے والوں کا حصہ ہے۔ چنانچہ حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ (ﷺ) نے یہودیوں کی مسلسل عہد شکنی کیوجہ سے خیبر پر چڑھائی کا پروگرام بنایا تو مذکورہ متخلفین نے بھی محض مال غنیمت کے حصول کے لئے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا، جسے منظور نہیں کیا گیا۔ آیت میں مغانم سےمراد مغانم خیبر ہی ہیں۔ 2- اللہ کے کلام سےمراد، اللہ کا خبیر کی غنیمت کو اہل حدیبیہ کے لئے خاص کرنے کا وعدہ ہے۔ منافقین اس میں شریک ہو کر اللہ کے کلام یعنی اس کے وعدے کو بدلنا چاہتے تھے۔ 3- یہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی تمہیں ہمارے ساتھ چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے۔ 4- یعنی یہ متخلفین کہیں گے کہ تم ہمیں حسد کی بنا پر ساتھ لے جانے سے گریز کر رہے ہو تاکہ مال غنیمت میں ہم تمہارے شریک نہ ہوں۔ 5- یعنی بات یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ پابندی ان کے پیچھے رہنے کی پاداش میں ہے۔ لیکن اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ الفتح
16 1- اس جنگجو قوم کی تعیین میں اختلاف ہے، بعض مفسرین اس سےعرب کے ہی بعض قبائل مراد لیتے ہیں، مثلاً ہوازن یا ثقیف، جن سے حنین کےمقام پر مسلمانوں کی جنگ ہوئی۔ یا مسیلمہ الکذاب کی قوم بنو حنیفہ۔ اور بعض نے فارس اور روم کے مجوسی وعیسائی مراد لیے ہیں۔ ان پیچھے رہ جانے والے بدویوں سے کہا جار ہا ہے کہ عنقریب ایک جنگجو قوم سے مقابلے کے لئے تمہیں بلایا جائے گا۔ اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو تمہاری اور ان کی جنگ ہوگی۔ 2- یعنی خلوص دل سے مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑو گے۔ 3- دنیا میں غنیمت اور آخرت میں پچھلے گناہوں کی مغفرت اور جنت۔ 4- یعنی جس طرح حدیبیہ کے موقعے پر تم نےمسلمانوں کے ساتھ مکہ جانے سے گریز کیا تھا، اسی طرح اب بھی تم جہاد سے بھاگو گے، تو پھر اللہ کا درد ناک عذاب تمہارے لئےتیار ہے۔ الفتح
17 1- بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری۔ یہ دونوں عذر تو لازمی ہیں۔ ان اصحاب عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔ حرج کے معنی گناہ کے ہیں ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں، وہ عارضی عذر ہیں، جب تک وہ واقعی بیمار ہے، شرکت جہاد سے مستثنیٰ ہے۔ بیماری دور ہوتے ہی وہ حکم جہاد میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے۔ الفتح
18 1- یہ ان اصحاب بیعت رضوان کے لئے رضائے الٰہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے، جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریش مکہ سے لڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ 2- یعنی ان کے دلوں میں جو صدق وصفا کے جذبات تھے، اللہ ان سے بھی واقف ہے۔ اس سے ان دشمنان صحابہ (رضی الله عنہم) کا رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ ان کا ایمان ظاہری تھا، دل سے وہ منافق تھے۔ 3- یعنی وہ نہتے تھے، جنگ کی نیت سے نہیں گئے تھے، اس لئے جنگی ہتھیار مطلوبہ تعداد میں نہیں تھے۔ اس کے باوجود جب نبی (ﷺ) نے حضرت عثمان (رضی الله عنہ) کا بدلہ لینے کے لئے ان سے جہاد کی بیعت لی تو بلا ادنیٰ تامل، سب لڑنے کے لئے تیار ہوگئے، یعنی ہم نے موت کا خوف ان کےدلوں سے نکال دیا اور اس کی جگہ صبر وسکینت ان پر نازل فرما دی جس کی بنا پر انہیں لڑنے کا حوصلہ ہوا۔ 4- اس سے مراد وہی فتح خیبر ہے جو یہودیوں کا گڑھ تھا، اور حدیبیہ سے واپسی پر مسلمانوں نے اسے فتح کیا۔ الفتح
19 1- یہ وہ غنیمتیں ہیں جو خیبرسے حاصل ہوئیں۔ یہ نہایت زرخیز اور شاداب علاقہ تھا، اسی حساب سے یہاں سے مسلمانوں کو بہت بڑی تعداد میں غنیمت کا مال حاصل ہوا، جسے صرف اہل حدیبیہ میں تقسیم کیا گیا۔ الفتح
20 1- یہ دیگر فتوحات کےنتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی خوش خبری ہے جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہیں۔ 2- یعنی فتح خیبر یا صلح حدیبیہ، کیونکہ یہ دونوں تو فوری طور پر مسلمانوں کو حاصل ہوگئیں۔ 3- حدیبیہ میں کافروں کے ہاتھ اور خیبر میں یہودیوں کے ہاتھ اللہ نے روک دیئے، یعنی ان کے حوصلے پست کر دیئے اور وہ مسلمانوں سے مصروف پیکار نہیں ہوئے۔ 4- یعنی لوگ اس واقعے کا تذکرہ پڑھ کر اندازہ لگا لیں گے کہ اللہ تعالیٰ قلت تعداد کے باوجود مسلمانوں کا محافظ اور دشمنوں پر ان کو غالب کرنے والا ہے یا یہ روک لینا، تمام موعودہ باتوں میں رسول اللہ (ﷺ) کی صداقت کی نشانی ہے۔ 5- یعنی ہدایت پر استقامت عطا فرمائے یا اس نشانی سے تمہیں ہدایت میں اور زیادہ کرے۔ الفتح
21 1- یہ بعد میں ہونے والی فتوحات اور ان سے حاصل ہونے والی غنیمت کی طرف اشارہ ہے۔ جس طرح چار دیواری کر کے کسی چیز کو اپنے قبصے میں کر لیا جاتا ہے اور پھر اس کی بابت بے فکری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ نے ان فتوحات کو اپنے حیطۂ اقتدار میں لیا ہوا ہے۔ یعنی گو ابھی تمہاری فتوحات کا دائرہ وہاں تک وسیع نہیں ہوا ہے۔ لیکن اللہ نے انہیں تمہارے لئے قابو میں کیا ہوا ہے، وہ جب چاہے گا، تمہیں اس پر غلبہ عطا کر دے گا، جس میں کوئی شک والی بات نہیں ہے، اس لئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ بعض نے أَحَاطَ کے معنی عَلِمَ کے کیے ہیں، یعنی اسے معلوم ہے کہ وہ علاقے بھی تم فتح کرو گے۔ الفتح
22 1- یہ حدیبیہ میں متوقع جنگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ قریش مکہ صلح نہ کرتے بلکہ جنگ کا راستہ اختیار کرتے تو یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، کوئی ان کا مددگار نہ ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم وہاں تمہاری مدد کرتے اور ہمارے مقابلے میں کس کو ٹھہرنے کی طاقت ہے۔ الفتح
23 1- یعنی اللہ کی یہ سنت اور عادت پہلے سےچلی آرہی ہے کہ جب کفر وایمان کےدرمیان فیصلہ کن معرکہ آرائی کا مرحلہ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مدد فرما کر حق کو سربلندی عطا کرتا ہے، جیسے اس سنت اللہ کے مطابق بدر میں تمہاری مدد کی گئی۔ الفتح
24 1- جب نبی کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے 80 آدمی، جو ہتھیاروں سے لیس تھے، اس نیت سے بھیجے کہ اگر انہیں موقع مل جائے تو دھوکے سے نبی (ﷺ) اور صحابہ (رضی الله عنہم) کے خلاف کاروائی کریں چنانچہ یہ مسلح جتھہ جبل تنعیم کی طرف سے حدیبیہ میں آیا، جس کا علم مسلمانوں کو بھی ہوگیا اور انہوں نے ہمت کرکے ان تمام آدمیوں کوگرفتار کر لیا اور بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا۔ ان کا جرم تو شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی، صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا کہ پھر جنگ ناگزیر ہو جاتی۔ جب کہ نبی (ﷺ) اس موقعے پر جنگ کے بجائے صلح چاہتے تھے کیونکہ اسی میں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ چنانچہ آپ (ﷺ) نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا۔ (صحيح مسلم، كتاب الجهاد، باب قول الله تعالى﴿ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ ﴾) بطن مکہ سے مراد حدیبیہ ہے۔ یعنی حدیبیہ میں ہم نے تمہیں کفار سے اور کفار کو تم سے لڑنے سے روکا۔ یہ اللہ نے احسان کے طور ذکر فرمایا ہے۔ الفتح
25 1- هَدْيٌ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر (عمرہ کرنے والے) اپنے ساتھ مکے لے جاتا تھا۔ یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا تھا مَحِلٌّ (حلال ہونے کی جگہ) سے مراد وہ قربان گاہ ہے جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں۔ یہ مقام معتمر کے لئےمروہ پہاڑی کے پاس اور حاجیوں کے لئے منیٰ تھا۔ اور اسلام میں ذبح کرنے کی جگہ مکہ منیٰ اور پورے حدود حرم ہیں۔ مَعْكُوفًا، حال ہے۔ یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکے میں داخل ہوں تاکہ انہیں قربان کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں بھی مسجد حرام سے روکا اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے، انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا۔ 2- یعنی مکے میں اپنا ایمان چھپائےرہ رہے تھے۔ 3- کفار کے ساتھ لڑائی کی صورت میں ممکن تھاکہ یہ بھی مارےجاتے اور تمہیں ضرر پہنچتا مَعَرَّةٌ کے اصل معنی عیب کےہیں۔ یہاں مراد کفارہ اور وہ برائی اور شرمندگی ہے جو کافروں کی طرف سے تمہیں اٹھانی پڑتی۔ یعنی ایک تو قتل خطاکی دیت دینی پڑتی اور دوسرے، کفار کا یہ طعنہ سہنا پڑتا کہ یہ اپنے مسلمان ساتھیوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ 4- یہ لَوْلا کا محذوف جواب ہے۔ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں مکے میں داخل ہونے کی اور قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دی جاتی۔ 5- بلکہ اہل مکہ کو مہلت دے دی گئی تاکہ جس کو اللہ چاہے قبول اسلام کی توفیق دے دے۔ 6- تَزَيَّلُوا بمعنی تَمَيَّزُوا ہے مطلب یہ ہے کہ مکےمیں آباد مسلمان، اگر کافروں سے الگ رہائش پذیر ہوتے، تو ہم تمہیں اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہارے ہاتھوں ان کو قتل کرواتے اور اس طرح انہیں دردناک سزا دیتے۔ عذاب الیم سے مراد یہاں قتل، قیدی بنانا اور قہر وغلبہ ہے۔ الفتح
26 1- إِذْ کا ظرف یا تو لَعَذَّبْنَا سے یا وَاذْكُرُوا محذوف ہے۔ یعنی اس وقت کو یاد کرو، جب کہ ان کافروں نے۔۔۔ 2- کفار کی اس حمیت جاہلیہ (عار اور غرور) سے مراد اہل مکہ کا مسلمانوں کو مکے میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمارے بیٹوں اور باپوں کو قتل کیا ہے۔ لات وعزیٰ کی قسم ہم انہیں کبھی داخل نہیں ہونے دیں گے یعنی انہوں نےاسے اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا لیا، اسی کو حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے، کیونکہ خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے آنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں تھا۔ قریش مکہ کے اس معاندانہ رویے کے جواب میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے جذبات میں بھی شدت آجاتی اور وہ بھی اسے اپنےوقار کا مسئلہ بنا کر مکے جانے پر اصرار کرتے، جس سے دونوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی، اور یہ لڑائی مسلمانوں کے لئے سخت خطرناک رہتی (جیسا کہ پہلےاشارہ کیا جا چکا ہے) اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کےدلوں میں سکینت نازل فرما دی یعنی انہیں صبر وتحمل کی توفیق دے دی اور وہ پیغمبر(ﷺ) کے ارشاد کے مطابق حدیبیہ میں ہی ٹھہرے رہےجوش اور جذبے میں آکر مکے جانے کی کوشش نہیں کی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس حمیت جاہلیہ سے مراد قریش مکہ کا وہ رویہ ہے جو صلح کے لئے معاہدے کے وقت انہوں نے اختیار کیا۔ یہ رویہ اور معاہدہ دونوں مسلمانوں کے لئے بظاہر ناقابل برداشت تھا۔ لیکن انجام کے اعتبار سےچونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہترین مفاد تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو نہایت ناگواری اور گرانی کے باوجود اسے قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما دیا۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔ کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نےقریش مکہ کے بھیجےہوئے نمائندوں کی یہ بات تسلیم کر لی کہ اس سال مسلمان عمرے کے لئے مکہ نہیں جائیں گے اور یہیں سے واپس ہو جائیں گے تو پھر آپ (ﷺ) نے حضرت علی (رضی الله عنہ) کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے آپ (ﷺ) کے حکم سے، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھی، انہوں نے اس پر اعتراض کر دیا کہ رحمٰن، رحیم کو ہم نہیں جانتے۔ ہمارے ہاں جو لفظ استعمال ہوتا ہے، اس کے ساتھ یعنی [بِاسْمِكَ اللَّهُمّ]َ (اے اللہ ! تیرے نام سے) لکھیں چنانچہ آپ (ﷺ) نے اسی طرح لکھوایا۔ پھر آپ (ﷺ) نےلکھوایا یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ (ﷺ) نے اہل مکہ سے مصالحت کی ہے قریش کے نمائندوں نے کہا، اختلاف کی بنیاد تو آپ (ﷺ) کی رسالت ہی ہے، اگر ہم آپ (ﷺ) کو رسول اللہ مان لیں تو اس کے بعد جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے؟ پھر ہمیں آپ (ﷺ) سے لڑنے کی اور بیت اللہ میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آپ یہاں محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھیں۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی (رضی الله عنہ) کو ایسا ہی لکھنے کا حکم دیا۔ (یہ مسلمانوں کے لئے نہایت اشتعال انگیز صورت حال تھی، اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سکینت نازل نہ فرماتا تو وہ کبھی سے برداشت نہ کرتے) حضرت علی (رضی الله عنہ) نے اپنےہاتھ سے محمد رسول اللہ کے الفاظ مٹانے اور کاٹنے سے انکار کر دیا، تو نبی کریم (ﷺ) نے کہا کہ یہ لفظ کہاں ہے؟ بتانے کے بعد خود آپ (ﷺ) نے اپنے دست مبارک سے مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ تحریر کرنے کو فرمایا۔ اس کے بعد اس معاہدے یا صلح نامے میں تین باتیں لکھیں گئیں۔ 1۔ اہل مکہ میں سےجو مسلمان ہو کر آپ کےپاس آئے گا، اسے واپس کر دیا جائے گا۔ 2 - جو مسلمان اہل مکہ سے جا ملے گا، وہ اس کو واپس کرنے کا پابند نہیں ہوں گے۔ 3 - مسلمان آئندہ سال مکے میں ائیں گے اور یہاں تین دن قیام کر سکیں گے، تاہم انہیں ہتھیار ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ (صحيح مسلم، كتاب الجهاد، باب صلح الحديبية في الحديبية) اور اس کے ساتھ دو باتیں اور لکھی گئیں۔ 1۔ اس سال لڑائی موقوف رہے گی۔ 2 - قبائل میں سے جو چاہے مسلمانوں کے ساتھ اور جو چاہے قریش کے ساتھ ہو جائے۔ 3- اس سے مراد کلمۂ توحید ورسالت ( لا إِلَهَ إِلا اللهَ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ) ہے، جس سے حدیبیہ والے دن مشرکین نے انکار کیا (ابن کثیر) یا وہ صبر ووقار ہےجس کا مظاہرہ انہوں نے حدیبیہ میں کیا یا وہ وفائے عہد اور اس پر ثبات ہے جو تقویٰ کا نتیجہ ہے۔ (فتح القدیر) الفتح
27 1- واقعہ حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ (ﷺ) کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف وعمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نبی کا خواب بھی بمنزلۂ وحی ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس خواب میں یہ تعیین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا، لیکن نبی (ﷺ) اور مسلمان، اسے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرےکے لئے فوراً آمادہ ہوگئے اور اس کے لئے عام منادی کرا دی گئی اور چل پڑے۔ بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی، جس کی تفصیل ابھی گزری، دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی، جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نے نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ 2- یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکے میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا، صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔ 3- اس سے فتح خیبر وفتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجےمیں جو بہ کثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے، کیونکہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے، اس کے دو سال بعد جب مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔ الفتح
28 1- اسلام کا یہ غلبہ دیگر ادیان پر دلائل کے لحاظ سے تو ہر وقت مسلم ہے۔ تاہم دینوی اور عسکری لحاظ سے بھی قرون اولیٰ اور اس کے مابعد عرصہ دراز تک، جب تک مسلمان اپنے دین پر عامل رہے انہیں غلبہ حاصل رہا، اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان، مسلمان بن جائیں؛ ﴿وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ (آل عمران: 139) یہ دین غالب ہونے کے لئے ہی آیا ہے، مغلوب ہونے کے لئے نہیں۔ الفتح
29 1- انجیل پر وقف کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ان کی یہ خوبیاں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ ان کی یہی خوبیاں تورات وانجیل میں مذکور ہیں۔ اور آگے كَزَرْعٍ میں اس سےپہلے ھم محذوف ہوگا۔ اور بعض ﴿فِي التَّوْرَاةِ﴾ پر وقف کرتے ہیں یعنی ان کی مذکورہ صفت تورات میں ہے اور ﴿وَمَثَلُهُمْ فِي الإِنْجِيلِ﴾ کو كَزَرْعٍ کے ساتھ ملاتے ہیں۔ یعنی انجیل میں ان کی مثال، مانند اس کھیتی کے ہے۔ (فتح القدیر)۔ 2- شَطْأَهُ سے پودے کا وہ پہلا ظہور ہے جو دانہ پھاڑ کر اللہ کی قدرت سے باہر نکلتا ہے۔ 3- یہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کی مثال بیان فرمائی گئی ہے۔ ابتدا میں وہ قلیل تھے، پھر زیادہ اور مضبوط ہوگئے، جیسےکھیتی، ابتداء میں کمزور ہوتی ہے، پھر دن بدن قوی ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ مضبوط تنے پر وہ قائم ہو جاتی ہے۔ 4- یا کافر غلظ وغضب میں مبتلا ہوں۔ یعنی صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور ان کی روز افزوں قوت وطاقت، کافروں کے لئے غیظ وغضب کا باعث تھی، اس لئے کہ اس سے اسلام کا دائرہ پھیل رہا اور کفر کا دائرہ سمٹ رہا تھا۔ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) سے بغض وعناد رکھنے والوں کو کافر قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس فرقہ ضالہ کے دیگر عقائد بھی ان کے کفر پر ہی ڈال ہیں۔ 5- اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کی عظمت وفضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے، اس کے بعد بھی صحابہ (رضی الله عنہم) کے ایمان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کیوں کر دعوائے مسلمانی میں سچا سمجھا جا سکتا ہے؟ الفتح
0 الحجرات
1 1- اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد، اللہ اور رسول (ﷺ) سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہےجو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتویٰ، قرآن وحدیث میں غور وفکر کے بغیر نہ دیا جائے اور دینے کے بعد اگر اس کا نص شرعی کے خلاف ہونا واضح ہو جائے تو اس پر اصرار بھی اس آیت میں دیئے گئے حکم کے منافی ہے۔ مومن کی شان تو اللہ ورسول (ﷺ) کے احکام کے سامنے سرتسلیم واطاعت خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔ الحجرات
2 1- اس میں رسول اللہ (ﷺ) کے لئے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے، پہلا ادب یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آوازیں نبی (ﷺ) کی آواز سے بلند نہ ہو۔ دوسرا ادب، جب خود نبی (ﷺ) سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو، اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بےتکلفی سےایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔ بعض نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد، یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ (ﷺ) کہہ کر خطاب کرو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بےادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمہارے عمل برباد ہو سکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لئے دیکھئے صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الحجرات، تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے الحجرات
3 1- اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ (ﷺ) کی عظمت وجلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔ الحجرات
4 1- یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی، جنہوں نے ایک روز دوپہر کےوقت، جو کہ نبی (ﷺ) کےقیلولے کا وقت تھا، حجرے سےباہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز سے یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ (ﷺ) باہر تشریف لے آئیں۔ (مسند احمد3 / 488۔ 6 / 394) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (ﷺ) کی جلالت شان اور آپ (ﷺ) کےادب واحترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بے عقلی ہے۔ الحجرات
5 1- یعنی آپ (ﷺ) کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ (ﷺ) کو ندا دینے میں جلد بازی نہ کرتے تو دین ودنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔ 2- اس لئے مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لئے ادب وتعظیم کی تاکید فرما دی۔ الحجرات
6 1- یہ آیت اکثر مفسرین کےنزدیک حضرت ولید بن عقبہ (رضی الله عنہ) کےبارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہ (ﷺ) نے بنو المصطلق کےصدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ لیکن انہوں نے آکر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے جس پر آپ (ﷺ) نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا، تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلط تھی اور ولید (رضی الله عنہ) تو وہاں گئے ہی نہیں۔ لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اس لئے اسے ایک صحابئ رسول (ﷺ) پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے۔ تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے۔ ہر فرد اور ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہےکہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے، تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو۔ الحجرات
7 1- جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تعظیم اور اطاعت کرو، اس لے کہ وہ تمہارے مصالح زیادہ بہتر جانتے ہیں، کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے۔ پس تم ان کے پیچھے چلو، ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو۔ اس لئے کہ اگر وہ تمہارے پسند کی باتیں ماننا شروع کر دیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاؤ گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ﴾ (المؤمنون: 71)۔ الحجرات
8 1- یہ آیت بھی صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کی فضیلت، ان کے ایمان اور ان کے رشد وہدایت پر ہونے کی واضح دلیل ہے۔ ﴿وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾۔ الحجرات
9 1- اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن وحدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کےاختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔ 2- یعنی اللہ اور رسول (ﷺ) کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو، بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنےوالے گروہ سے لڑائی کریں تا آنکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لئے تیار ہو جائے۔ 3- یعنی باغی گروہ، بغاوت سے باز آجائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔ 4- اور ہر معاملے میں انصاف کرو، اس لئےکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور اس کی یہ پسند اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ انصاف کرنے والوں کو بہترین جزا سے نوازے گا۔ الحجرات
10 1- یہ پچھلے حکم کی ہی تاکید ہے۔ یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی۔ اس لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ ایک دوسرےکے دست وبازو، ہمدرد وغم گسار اور مونس وخیر خواہ بن کر رہیں۔ اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہو جائے تو اسے دور کرکے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے۔ (مزید دیکھئے سورۂ توبہ، آیت 71 کا حاشیہ)۔ 2- اور ہر معاملے میں اللہ سے ڈرو، شاید اس کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پا جاؤ۔ ترجی (امید والی بات) مخاطب کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان وتقوی کے لئےیقینی ہے۔ اس آیت میں باغی گروہ سے قتال کا حکم ہے درآں حالیکہ حدیث میں مسلمان سے قتال کو کفر کہا گیا ہے۔ تو یہ کفر اس وقت ہوگا جب بلا وجہ مسلمان سے قتال کیا جائے۔ لیکن اس قتال کی بنیاد اگر بغاوت ہے تو یہ قتال نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے جو تاکید واستحباب پر دال ہے۔ اسی طرح باغی گروہ کو قرآن نے مومن ہی قرار دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف بغاوت سے، جو کبیرہ گناہ ہے، وہ گروہ ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ جیسا کہ خوارج اوربعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ مرتکب کبائر ایمان سے خارج ہو جاتا ہے۔ اب بعض نہایت اہم اخلاقی ہدایت مسلمانوں کو دی جارہی ہیں۔ الحجرات
11 1- ایک شخص، دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے، جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اس لئے اپنےکوبہتر اور دوسرےکو کم تر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ بنابریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے، اس لئے عورتوں کا الگ ذکر کرکے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے۔ اور حدیث رسول (ﷺ) میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گیا ہے [ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وغَمْطُ النَّاسِ ] (أبو داود، كتاب اللباس باب ما جاء في الكبر) اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔ 2- یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔ 3- یعنی اپنےطور پر استہزا اور تحقیر کے لئے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں۔ یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا، یہ تنابز بالا لقاب ہے، جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے 4- یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کرکے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کےبعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کرکے خطاب کرنا، مثلاً اے کافر، اے زانی یا شرابی وغیرہ، یہ بہت برا کام ہے۔ الاسْمُ یہاں الذِّكْرُ کے معنی میں ہے یعنی( بِئْسَ الاسْمُ الَّذِي يُذْكَرُ بِالْفِسْقِ بَعْدَ دُخُولهِمْ فِي الإِيمَانِ) (فتح القدیر) البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنیٰ ہیں جو کسی کے لئےمشہور ہو جائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں، جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے، کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہو جائے۔ وغیرہ (القرطبی)۔ الحجرات
12 1- ظَنَّ کے معنی ہیں گمان کرنا۔ مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بےاصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لئے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں اس کو أَكْذَبُ الْحَدِيثِ (سب سے بڑا جھوٹ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے [إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ ] (البخاری، كتاب الأدب ، باب ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ ﴾ - صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظن والتجسس) ورنہ فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بدگمانی رکھنا، یہ وہ بدگمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے ( إِنَّ الظَّنَّ الْقَبِيحَ بِمَنْ ظَاهِرُهُ الْخَيْرُ، لا يَجُوزُ، وَإِنَّهُ لا حَرَجَ فِي الظَّنِّ الْقَبِيحِ بِمَنْ ظَاهِرُه الْقَبِيحُ ) (القرطبی)۔ 2- یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے، یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی، کوتاہی تمہارے علم میں آجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو، بلکہ جستجو کرکے عیب تلاش کرو۔ آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے۔ اسلام نے بھی تجسس سے روک کر انسان کی حریت اور آزادی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک، جب تک وہ کھلے عام بے حیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لئے ایذا کا باعث نہ ہو۔ مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن وسکون برباد ہو گیا ہے 3- غیبت کا مطلب یہ ہےکہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔ 4- یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ مردار بھائی کا گوشت کھانا تو کوئی پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔ الحجرات
13 1- یعنی آدم وحوا علیہما السلام سے۔ یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو۔ مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنےکا حق نہیں ہے، کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم (عليہ السلام) سے ہی جا کر ملتا ہے۔ 2- شُعُوبٌ، شَعْبٌ کی جمع ہے۔ برادری یا بڑا قبیلہ شعب کے بعد قبیلہ، پھر عمارہ، پھر بطن، پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں، برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لئے ہے۔ تاکہ آپس میں صلۂ رحمی کر سکو۔ اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے۔ جیسا کہ بدقسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنالیا گیا ہے۔ حالانکہ اسلام نے آکر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا۔ 3- یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان، قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کےاختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ واختیار میں ہے۔ یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفائت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں (ابن کثیر)۔ الحجرات
14 1- بعض مفسرین کے نزدیک ان اعراب سے مراد بنو اسد اور خزیمہ کے منافقین ہیں جنہوں نے قحط سالی میں محض صدقات کی وصولی کے لئے یا قتل ہونے اور قیدی بننے کے اندیشے کے پیش نظر زبان سےاسلام کا اظہار کیا تھا۔ ان کے دل ایمان، اعتقاد صحیح اور خلوص نیت سے خالی تھے (فتح القدیر) لیکن امام ابن کثیر کے نزدیک ان سے وہ اعراب (بادیہ نشین) مراد ہیں جو نئے مسلمان ہوئے تھےاور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا۔ لیکن دعویٰ انہوں نے اپنی اصل حیثیت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا۔ جس پر انہیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعویٰ صحیح نہیں۔ آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے۔ الحجرات
15 1- نہ کہ وہ جو صرف زبان سے اسلام کا اظہار کردیتے ہیں اور مذکورہ اعمال کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں کرتے۔ الحجرات
16 1- تعلیم، یہاں اعلام اور اخبار کے معنی میں ہے۔ یعنی آمَنَّا کہہ کر تم اللہ کو اپنے دین وایمان سے آگاہ کر رہے ہو؟ یا اپنے دلوں کی کیفیت اللہ کو بتلا رہے ہو؟ 2- تو کیا تمہارے دلوں کی کیفیت پر یا تمہارے ایمان کی حقیقت سے وہ آگاہ نہیں؟ الحجرات
17 1- یہی اعراب نبی (ﷺ) کو کہتے کہ دیکھو ہم مسلمان ہو گئے اور آپ (ﷺ) کی مدد کی، جب کہ دوسرے عرب آپ (ﷺ) سے برسرپیکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرماتے ہوئے فرمایا، تم اللہ پر اسلام لانے کا احسان مت جتلاؤ اس لئے کہ اگر تم اخلاص سے مسلمان ہوئے ہو تو اس کا فائدہ تمہیں ہی ہوگا، نہ کہ اللہ کو۔ اس لئے یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دے دی نہ کہ تمہارا احسان اللہ پر ہے۔ الحجرات
18 الحجرات
0 ق
1 1- اس کا جواب قسم محذوف ہے لَتُبْعَثُنَّ (تم ضرور قیامت والے دن اٹھائے جاؤ گے) بعض کہتے ہیں اس کا جواب مابعد کا مضمون کلام ہے جس میں نبوت اور معاد کا اثبات ہے۔ (فتح القدیر وابن کثیر)۔ ق
2 1- حالانکہ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے۔ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا جس میں اسے مبعوث کیا جاتا تھا۔ اسی حساب سے قریش مکہ کو ڈرانے کے لئے قریش ہی میں سے ایک شخص کو نبوت کے لئے چن لیا گیا۔ ق
3 1- حالانکہ عقلی طور پر اس میں بھی کوئی استحالہ نہیں ہے۔ آگے اس کی کچھ وضاحت ہے۔ ق
4 1- یعنی زمین انسان کے گوشت، ہڈی اور بال وغیرہ کو بوسیدہ کرکے کھا جاتی ہے یعنی اسے ریزہ ریزہ کر دیتی ہے وہ نہ صرف ہمارے علم میں ہے بلکہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں بھی درج ہے۔ اس لئے ان تمام اجزا کو جمع کرکے انہیں دوبارہ زندہ کر دینا ہمارے لئے قطعاً مشکل امر نہیں ہے۔ ق
5 1- حَقٌّ (سچی بات) سے مراد قرآن، اسلام یا نبوت محمدیہ ہے، مفہوم سب کا ایک ہی ہے مَرِيجٌ کے معنی محتاط، مضطرب یا ملتبس کے ہیں۔ یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہو گیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں، کبھی اسے جادو گر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی کاہن۔ ق
6 1- یعنی بغیر ستون کے، جن کا اسے کوئی سہارا ہو۔ 2- یعنی ستاروں سے اسے مزین کیا۔ 3- اسی طرح کوئی فرق وتفاوت بھی نہیں ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا﴿الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ، ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ﴾ (الملك: 3- 4)۔ ق
7 1- اور بعض نے زوج کےمعنی جوڑا کیے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی نباتات اور اشیا کو جوڑا جوڑا (نر اور مادہ) بنایا ہے۔ بھیج کے معنی، خوش منظر، شاداب اور حسین۔ ق
8 1- یعنی آسمان وزمین کی تخلیق اور دیگر اشیا کا مشاہدہ اور ان کی معرفت ہر اس شخص کے لئے بصیرت ودانائی اور عبرت ونصیحت کا باعث ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ ق
9 1- کٹنے والے غلے سے مراد وہ کھیتیاں ہیں، جن سے گندم، مکئی، جوار، باجرہ، ڈالیں اور چاول وغیرہ پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ ق
10 1- بَاسِقَاتٍ کے معنی طِوَالا شِاهِقَاتٍ، بلند وبالا طَلْعٌ، کھجور کا وہ گدرا گدرا پھل، جو پہلے پہل نکلتا ہے، نَضِيدٌ کے معنی تہ بہ تہ۔ باغات میں کھجور کا پھل بھی آجاتا ہے۔ لیکن اسے الگ سے بطور خاص ذکر کیا، جس سے کھجور کی وہ اہمیت واضح ہے جو عرب میں اسے حاصل ہے۔ ق
11 1- یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین کو زندہ اور شاداب کر دیتے ہیں، اسی طرح قیامت والے دن ہم قبروں سے انسانوں کو زندہ کرکے نکال لیں گے۔ ق
12 1- أَصْحَابُ الرَّسِّ کی تعیین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہےجس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورۂ بروج میں ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وفتح القدیر، سورۃ الفرقان آیت 38)۔ ق
13 ق
14 1- أَصْحَابُ الأيْكَةِ کے لئے دیکھئے سورۃ الشعراء، آیت 176 کا حاشیہ۔ 2- قَوْمُ تُبَّعٍ کے لئے دیکھئے سورۃ الدخان، آیت 37 کا حاشیہ۔ 3- یعنی ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا۔ اس میں رسول اللہ (ﷺ) کےلئے تسلی ہے۔ گویا آپ (ﷺ) کو کہا جا رہا ہے کہ آپ (ﷺ) اپنی قوم کی طرف سے اپنی تکذیب پر غمگین نہ ہوں اس لئے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، آپ (ﷺ) سے پہلے انبیا علیہم السلام کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے یہی معاملہ کیا۔ دوسرے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ پچھلی قوموں نے انبیا علیہم السلام کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا؟ کیا تم بھی اپنے لئے یہی انجام پسند کرتے ہو؟ اگر یہ انجام پسند نہیں کرتے تو تکذیب کا راستہ چھوڑ دو اور پیغمبر (ﷺ) پر ایمان لے آؤ۔ ق
15 1- کہ قیامت والے دن دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے مشکل ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ پیدا کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں تھا تو دوبارہ زندہ کرنا تو پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ﴾ (الروم: 27) سورۂ یٰسین، آیت 78- 79 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”ابن آدم یہ کہہ کر مجھے ایذا پہنچاتا ہے کہ اللہ مجھے ہر گز دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے جس طرح اس نے پہلی مرتبہ مجھے پیدا کیا۔ حالانکہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا، دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے“ یعنی اگر مشکل ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ (البخاری تفسير سورة الإخلاص 2- یعنی یہ اللہ کی قدرت کے منکر نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں قیامت کے وقوع اور اس میں دوبارہ زندگی کے بارے میں ہی شک ہے۔ ق
16 1- یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے، وہ سب ہم جانتے ہیں۔ وسوسہ، دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سےدل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پرگرفت نہیں فرمائے گا۔ جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے“۔ (البخاری كتاب الإيمان باب إذا حنث ناسيا في الأيمان مسلم، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخواطر بالقلب إذا لم تستقر 2- وَرِيدٌ شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے۔ اس قرب سے مراد قرب علمی ہے یعنی علم کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ کے معنی ہیں يَأْخُذَانِ وَيُثَبّتَانِ۔ امام شوکانی نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام احوال کو جانتے ہیں، بغیر اس کے کہ ہم ان فرشتوں کےمحتاج ہوں جن کو ہم نے انسان کے اعمال واقوال لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے، یہ فرشتے تو ہم نے صرف اتمام حجت کے لئے مقرر کیے ہیں، دو فرشتوں سےمراد بعض کے نزدیک ایک نیکی اور دوسرا بدی لکھنےکے لئے۔ اور بعض کےنزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح القدیر)۔ ق
17 ق
18 1- رَقِيبٌ، محافظ، نگران اور انسان کے قول اور عمل کا انتظار کرنے والا۔ عَتِيدٌ حاضر اور تیار۔ ق
19 1- دوسرے معنی اس کے ہیں، موت کی سختی حق کےساتھ آئے گی، یعنی موت کے وقت، حق واضح اور ان وعدوں کی صداقت ظاہر ہو جاتی ہے جو قیامت اور جنت کے بارے میں انبیا علیہم السلام کرتے رہے ہیں۔ 2- تَحِيدُ، تَمِيلُ عَنْهُ وَتَفِرُّ، تو اس موت سے بدکتا اور بھاگتا تھا۔ ق
20 ق
21 1- سَائِقٌ (ہانکنے والا) اور شَهِيدٌ (گواہ) کےبارے میں اختلاف ہے۔ امام طبری کےنزدیک یہ دو فرشتے ہیں۔ ایک انسان کو محشر تک ہانک کر لانے والا اور دوسرا گواہی دینے والا۔ ق
22 ق
23 1- یعنی فرشتہ انسان کا سارا ریکارڈ سامنے رکھ دے گا اور کہے گا کہ یہ تیری فرد عمل ہے جو کہ میرے پاس تھی۔ ق
24 ق
25 ق
26 1- اللہ تعالیٰ اس فرد عمل کی روشنی میں انصاف اور فیصلہ فرمائے گا۔ أَلْقِيَا سے الشَّدِيدُ تک اللہ کا قول ہے۔ ق
27 1- اس لئے اس نے فوراً میری بات مان لی، اگر یہ تیرا مخلص بندہ ہوتا تو میرے بہکاوے میں ہی نہ آتا یہاں قَرِينٌ (ساتھی) سے مراد شیطان ہے۔ ق
28 1- یعنی اللہ تعالیٰ کافروں اور ان کے ہم نشین شیطانوں کو کہے گا کہ یہاں موقف حساب یا عدالت انصاف میں لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے، میں نے پہلے ہی رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے ان وعیدوں سے تم کو آگاہ کر دیا تھا۔ ق
29 1- یعنی جو وعدے میں نے کیے تھے، ان کے خلاف نہیں ہوگا بلکہ وہ ہر صورت میں پورے ہوں گے اور اسی اصول کے مطابق تمہارے لئےعذاب کا فیصلہ میری طرف سے ہوا ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ 2- کہ بغیر جرم کےجو انہوں نے نہ کیا ہو اور بغیر گناہ کے جس کا صدور ان سے نہ ہوا ہو، میں ان کو عذاب دے دوں؟ ظلام یہاں ظالم کے معنی میں ہے۔ یا محاورۃ بولا گیا ہے، جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اپنے غلاموں پر بڑا ظلم کرتا ہے، فلاں شخص بڑا ظالم ہے مقصد، مبالغے کا نہیں بلکہ صرف اس کی طرف سے ظلم کیے جانے کا اظہار ہوتا ہے۔ یا مقصود نفی میں مبالغہ ہے۔ یعنی میں بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ ق
30 1- اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿لأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ﴾ (الم السجدة:1 3) ”میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھردوں گا“۔ اس وعدے کا جب ایفا ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کافر جن وانس کو جہنم میں ڈال دے گا، تو جہنم سے پوچھے گا کہ تو بھر گئی ہے یا نہیں؟ وہ جواب دے گی، کیا کچھ اور بھی ہے؟ یعنی اگرچہ میں بھر گئی ہوں لیکن یا اللہ تیرے دشمنوں کے لئے میرے دامن میں اب بھی گنجائش ہے، جہنم سے اللہ تعالیٰ کی یہ گفتگو اور جہنم کا جواب دینا، اللہ کی قدرت سے قطعاً بعید نہیں ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے ”آگ میں لوگ ڈالے جائیں گے اور جہنم کہے گی: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ کیا کچھ اور بھی ہیں؟ (حتی کہ اللہ تعالیٰ جہنم میں اپنا پیر رکھ دے گا، جس سے جہنم پکار اٹھے گی، قَطْ قَطْ یعنی بس، بس“ (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ ق) اور جنت کے بارے میں آتا ہے کہ جنت میں ابھی خالی جگہ باقی رہ جائے گی تو اللہ تعالیٰ اسکے لئے نئی مخلوق پیدا فرمائے گا جو وہاں آباد ہوگی۔ (صحيح مسلم كتاب الجنة ، باب النار يدخلها الجبارون، والجنة يدخلها الضعفاء ق
31 1- اور بعض نے کہا ہے کہ قیامت ،جس روز جنت قریب کر دی جائے گی، دور نہیں ہے۔ کیونکہ وہ لامحالہ واقع ہو کر رہےگی اور كُلُّ مَا هُوَ آتٍ فَهُوَ قَرِيبٌ اور جو بھی آنے والی چیز ہے، وہ قریب ہی ہے دور نہیں۔ (ابن کثیر)۔ ق
32 1- یعنی اہل ایمان جب جنت کا اور اس کی نعمتوں کا قریب سے مشاہدہ کریں گے تو کہا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا وعدہ ہر اواب اور حفیظ سے کیا گیا تھا۔ اواب، بہت رجوع کرنے والا، یعنی اللہ کی طرف۔ کثرت سے توبہ واستغفار اور تسبیح وذکر الٰہی کرنے والا۔ خلوت میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے اللہ کی بارگاہ میں گڑ گڑانے والا اور ہر مجلس میں استغفار کرنے والا۔ حفیظ ، اپنے گناہوں کو یاد کرکے ان سے توبہ کرنے والا، یا اللہ کے حقوق اور اس کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا یا اللہ کے اوامر ونواہی کو یاد رکھنے والا (فتح القدیر)۔ ق
33 1- مُنِيبٍ، اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کا اطاعت گزار دل۔ یا بمعنی سلیم، شرک اور معصیت کی نجاستوں سے پاک دل۔ ق
34 ق
35 1- اس سے مراد رب تعالیٰ کا دیدار ہے جو اہل جنت کو نصیب ہوگا، جیسا کہ ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ﴾ (يونس:26) کی تفسیر میں گزرا۔ ق
36 1- ﴿فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ (شہروں میں چلے پھرے) کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان اہل مکہ سے زیادہ تجارت وکاروبار کے لئے مختلف شہروں میں پھرتے تھے۔ لیکن ہمارا عذاب آیا تو انہیں کہیں پناہ اور راہ فرار نہیں ملی۔ ق
37 1- یعنی دل بیدار، جو غور وفکر کرکے حقائق کا ادراک کرلے۔ 2- یعنی توجہ سے وہ وحی الٰہی سنے جس میں گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ 3- یعنی قلب اور دماغ کے لحاظ سے حاضر ہو۔ اس لئے کہ جو بات کو ہی نہ سمجھے، وہ موجود ہوتے ہوئے بھی ایسے ہے جیسے نہیں ہے۔ ق
38 ق
39 1- یعنی صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کرو یا عصر اور فجر کی نماز پڑھنے کی تاکید ہے۔ ق
40 1- (من) تبعیض کے لئے ہے۔ یعنی رات کے کچھ حصے میں بھی اللہ کی تسبیح کریں یا رات کی نماز (تہجد) پڑھیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ﴾ (سورة بنی إسرائيل: 79) ”رات کو اٹھ کر نماز تہجد پڑھیں جو آپ کے لئے مزید ثواب کا باعث ہے“ بعض کہتے ہیں کہ معراج سے قبل مسلمانوں کے لئے صرف فجر اور عصر کی نماز اور نبی (ﷺ) کے لئے تہجد کی نماز بھی فرض تھی۔ معراج کے موقعے پر پانچ نمازیں فرض کر دی گئیں۔ (ابن کثیر)۔ 2- یعنی اللہ کی تسبیح کریں۔ بعض نےاس سے وہ تسبیحات مراد لی ہیں، جن کے پڑھنے کی تاکید نبی (ﷺ) نے فرض نمازوں کے بعد فرمائی ہے۔ مثلاً 33 مرتبہ ( سُبْحَانَ اللهِ ) 33مرتبہ (الْحَمْدُ للهِ) اور 34 مرتبہ (اللهُ أَكْبَرُ) وغیرہ (البخاری كتاب الأذان، باب الذكر بعد الصلاة كتاب الدعوات، باب الدعاء بعد الصلاة - مسلم كتاب المساجد باب استحباب الذكر بعد الصلاة وبيان صفته) مگر یہ (تسبیحات اس سورت کے نزول کے بہت عرصہ بعد بتائی گئی تھیں۔ بعض نے کہا کہ یہ ادبار السجود سے مراد مغرب کے بعد دو رکعتیں ہیں۔ ق
41 1- یعنی قیامت کے جو احوال وحی کے ذریعے سے بیان کیے جا رہے ہیں، انہیں توجہ سے سنیں۔ 2- یہ پکارنے والا اسرافیل فرشتہ ہوگا یا جبرائیل اور یہ ندا وہ ہوگی جس سے لوگ میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ یعنی نفخۂ ثانیہ۔ 3- اس سے بعض نے صخرۂ بیت المقدس مراد لیا ہے، کہتے ہیں یہ آسمان کے قریب ترین جگہ ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص یہ آواز اس طرح سنے گا، جیسے اس کے قریب سے ہی آواز آرہی ہے۔ (فتح القدیر) اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ ق
42 1- یعنی یہ چیخ یعنی نفخۂ قیامت یقیناً ہوگا جس میں یہ دنیا میں شک کرتے تھے۔ اور یہی دن قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کا ہوگا۔ ق
43 1- یعنی دنیا میں موت سے ہمکنار کرنا اور آخرت میں زندہ کر دینا، یہ ہمارا ہی کام ہے، اس میں کوئی ہمارا شریک نہیں ہے۔ 2- وہاں ہم ہر شخص کو اس کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔ٍ ق
44 1- یعنی اس آواز دینے والے کی طرف دوڑیں گے۔ جس نےآواز دی ہوگی۔ مُسْرِعِينَ إِلَى الْمُنَادِي الَّذِي نَادَاهُمْ (فتح القدير) نبی (ﷺ) نے فرمایا، جب زمین پھٹے گی تو سب سے پہلے زندہ ہو کر نکلنے والا میں ہوں گا [ أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ ] (صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب تفضيل نبينا على جميع الخلائق ق
45 1- یعنی آپ (ﷺ) اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ بلکہ آپ (ﷺ) کا کام صرف تبلیغ ودعوت ہے، وہ کرتے رہیں۔ 2- یعنی آپ (ﷺ) کی دعوت وتذکیر سے وہی نصیحت حاصل کرے گا جو اللہ سے اور اس کی وعیدوں سے ڈرتا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہوگا۔ اسی لئےحضرت قتادہ یہ دعا فرمایا کرتے تھے ( اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِمَّنْ يَخَافُ وَعِيدَكَ ، وَيَرْجُو مَوْعُودَكَ يَا بَارُّ يَا رَحِيمُ ) ”اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سےکر جو تیرے وعیدوں سے ڈرتے اور تیرے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اے احسان کرنے والے رحم فرمانے والے“۔ ق
0 الذاريات
1 1- اس سے مراد ہوائیں ہیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔ الذاريات
2 1- وَقْرٌ ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے، حاملات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں، یاپھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسےچوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ الذاريات
3 1- جَارِيَاتٌ، پانی میں چلنے والی کشتیاں، يُسْرًا آسانی سے۔ الذاريات
4 1- مُقَسِّمَاتٌ اس سےمراد وہ فرشتے ہیں جو کاموں کو تقسیم کر لیتے ہیں۔ کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی (قحط سالی وغیرہ) کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بنایا ہے، جیسے فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔ قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔ آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں اور فرشتوں کا مختلف امور کو سرانجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارےکام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کےخلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتی ہے۔ الذاريات
5 الذاريات
6 الذاريات
7 1- دوسرا ترجمہ، حسن وجمال اور زینت ورونق والا کیا گیا ہے، چاند، سورج ، کواکب وسیارات، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق وزینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں۔ الذاريات
8 1- یعنی اے اہل مکہ ! تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادوگر، کوئی شاعر، کوئی کاہن اور کوئی کذاب کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتاہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔ الذاريات
9 1- یعنی نبی (ﷺ) پر ایمان لانے سے، یا حق سےیعنی بعث وتوحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے۔ دوسرے میں مدح۔ الذاريات
10 الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 1- يُفْتَنُونَ کے معنی ہیں يُحَرَّقُونَ وَيُعَذَّبُونَ، جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر جانچا پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ آگ میں ڈالے جائیں گے۔ الذاريات
14 1- فِتْنَةٌ، بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔ الذاريات
15 الذاريات
16 الذاريات
17 1- هُجُوعٌ کے معنی ہیں، رات کو سونا، مَا يَهْجَعُونَ میں ما تاکید کے لئے ہے۔ وہ رات کو کم سوتے تھے، مطلب ہے ساری رات سو کر غفلت اور عیش وعشرت میں نہیں گزار دیتے تھے۔ بلکہ رات کا کچھ حصہ اللہ کی یاد میں اور اس کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہوئے گزارتے تھے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی قیام اللیل کی تاکید ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا ”لوگو ! لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلۂ رحمی کرو، سلام پھیلاؤ اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔ (مسند احمد 5/ 451)۔ الذاريات
18 1- وقت سحر، قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ (جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں، کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کر دوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين ، باب الترغيب في الدعاء والذكر في آخر الليل والإجابة فيه الذاريات
19 1- محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجود لوگ اسے نہیں دیتے۔ یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ، آفت ارضی وسماوی میں، تباہ ہو جائے۔ الذاريات
20 الذاريات
21 الذاريات
22 1- یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ الذاريات
23 1- إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع (یہ) وہ امور وآیات ہیں جو مذکور ہوئیں۔ الذاريات
24 1- هَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی (ﷺ) کو یہ تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔ الذاريات
25 1- یہ اپنے جی میں کہا، ان سے خطاب کرکے نہیں کہا۔ الذاريات
26 الذاريات
27 1- یعنی سامنے رکھنےکے باوجود انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ ہی نہیں بڑھایا تو پوچھا۔ الذاريات
28 1- ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔ 2- حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے چہرے پر خو ف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔ الذاريات
29 1- صَرَّةٍ کے دوسرے معنی ہیں چیخ وپکار، یعنی چیختے ہوئے کہا۔ الذاريات
30 1- یعنی جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے، یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا ہے، بلکہ تیرے رب نے اسی طرح کہا ہے جس کی ہم تجھے اطلاع دے رہے ہیں، اس لئے اس پر تعجب کی ضرورت ہے نہ شک کرنے کی، اس لئے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ لامحالہ ہو کر رہتا ہے۔ الذاريات
31 1- خَطْبٌ شان قصہ۔ یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اورکیا کام اور مقصد ہے جس کے لیے تمہیں بھیجا گیا ہے۔ الذاريات
32 1- اس سےمراد قوم لوط ہے جن کا سب سے بڑا جرم لواطت تھا۔ الذاريات
33 1- برسائیں کا مطلب ہے، ان کنکریوں سے انہیں رجم کردیں۔ یہ کنکریاں خالص پتھر کی تھیں نہ آسمانی اولے تھے، بلکہ مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ الذاريات
34 1- مُسَوَّمَةً (نامزد یا نشان زدہ) ان کی مخصوص علامت تھی جن سے انہیں پہچان لیا جاتا تھا، یا وہ عذاب کےلیے مخصوص تھیں، بعض کہتے ہیں کہ جس کنکری سے جس کی موت واقع ہونی تھی، اس پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا مُسْرِفِينَ جو شرک وضلالت میں بڑھے ہوئے اور فسق وفجور میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ الذاريات
35 1- یعنی عذاب آنے سے قبل ہم نے ان کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا تھا تاکہ وہ عذاب سے محفوظ رہیں۔ الذاريات
36 1- اور یہ اللہ کے پیغمبر حضرت لوط (عليہ السلام) کا گھر تھا، جس میں ان کی دو بیٹیاں اور کچھ ان پر ایمان لانے والے تھے۔ کہتے ہیں یہ کل تیرہ آدمی تھے ان میں حضرت لوط (عليہ السلام) کی بیوی شامل نہیں تھی۔ بلکہ وہ اپنی قوم کے ساتھ عذاب سے ہلاک ہونے والوں میں سے تھی۔ (ایسر التفاسیر) اسلام کے معنی ہیں، اطاعت وانقیاد۔ اللہ کے حکموں پر سر اطاعت خم کر دینے والا مسلم ہے، اس اعتبار سے ہر مومن،مسلمان ہے۔ اسی لیےپہلے ان کے لیے مومن کا لفظ استعمال کیا، اور پھر ان ہی کے لیے مسلم کا لفظ بولا گیا ہے۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کے مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیساکہ بعض لوگ مومن اور مسلم کے درمیان کرتے ہیں۔ قرآن نے جو کہیں مومن اور کہیں مسلم کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ ان معانی کے اعتبار سے ہے جو عربی لغت کی رو سے ان کے درمیان ہے۔ اس لیےلغوی استعمال کے مقابلے میں حقیقت شرعیہ کا اعتبار زیادہ ضروری ہے اور حقیقت شرعیہ کے اعتبارسےان کے درمیان صرف وہی فرق ہے جو حدیث جبرائیل (عليہ السلام) سے ثابت ہے۔ جب نبی (ﷺ) سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا،( لا الہٰ الا اللہ )کی شہادت، اقامت صلوۃ، ایتائے زکوٰۃ، حج اور صیام رمضان۔ اور جب ایمان کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا؟ ”اللہ پر ایمان لانا، اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور تقدیر (خیر وشر کے من جانب اللہ ہونے) پر ایمان رکھنا“ یعنی دل سے ان چیزوں پر یقین رکھنا ایمان اور احکام و فرائض کی ادائیگی اسلام ہے۔ اس لحاظ سے ہر مومن، مسلمان اورہر مسلمان مومن ہے (فتح القدیر) اور جو مومن اورمسلم کے درمیان فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہےکہ یہاں قرآن نے ایک ہی گروہ کے لیے مومن اور مسلم کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ان کے درمیان جو فرق ہے اس کی رو سےہر مومن، مسلم بھی ہے، تاہم ہرمسلم کا مومن ہونا ضروری نہیں (ابن کثیر) بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف پر استدلال کےلیے دلائل موجود ہیں۔ الذاريات
37 1- یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔ اور یہ علامت بھی انہی کے لیے ہیں جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ ونصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے اور آیات میں غور وفکر بھی وہی کرتے ہیں۔ الذاريات
38 الذاريات
39 1- جانب اقویٰ کو رکن کہتے ہیں۔ یہاں مراد اس کی اپنی قوت اور لشکر ہے۔ الذاريات
40 1- یعنی اس کے کام ہی ایسے تھے کہ جن پر وہ ملامت کا مستحق تھا۔ الذاريات
41 1- أَيْ : تَرَكْنَا فِي قِصَّةِ عَادٍ ، عاد کے قصے میں بھی ہم نے نشانی چھوڑی۔ 2- الرِّيحَ الْعَقِيمَ (بانجھ ہوا) جس میں خیر وبرکت نہیں تھی، وہ ہوا درختوں کو ثمر آور کرنے والی تھی نہ بارش کی پیامبر، بلکہ صرف ہلاکت اور عذاب کی ہوا تھی۔ الذاريات
42 1- یہ اس ہوا کی تاثیر تھی جو قوم عاد پر بطور عذاب بھیجی گئی تھی۔ یہ تند وتیز ہوا، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی (الحاقہ)۔ الذاريات
43 1- یعنی جب انہوں نے اپنے ہی طلب کردہ معجزے اوٹنی کو قتل کر دیا، تو ان کو کہہ دیا گیا کہ اب تین دن اور تم دنیا کے مزے لوٹ لو، تین دن کے بعد تم ہلاک کر دیے جاؤ گے یہ اسی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے اسےحضرت صالح (عليہ السلام) کی ابتدائے نبوت کا قول قرار دیا ہے۔ الفاظ اس مفہوم کے بھی متحمل ہیں بلکہ سیاق سے یہی معنی زیادہ قریب ہیں۔ الذاريات
44 1- یہ صَاعِقَةٌ (کڑاکا) آسمانی چیخ تھی اور اس کے ساتھ نیچے سے رَجْفَةٌ (زلزلہ) تھا جیساکہ سورۂ اعراف 78 میں ہے۔ الذاريات
45 1- چہ جائیکہ وہ بھاگ سکیں۔ 2- یعنی اللہ کے عذاب سے اپنےآپ کو نہیں بچا سکے۔ الذاريات
46 1- قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود وغیرہ سے پہلے گزری ہے۔ اس نے بھی اطاعت الٰہی کے بجائے اس کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر طوفان میں ڈبو دیا گیا۔ الذاريات
47 1- السَّمَاءَ منصوب ہے۔ بَنَيْنَا محذوف کی وجہ سے بَنَيْنَا السَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا۔ 2- یعنی آسمان پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم اس کو اس سے بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یا آسمان سے بارش برساکر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یا مُوسِعٌ کو وُسْعٌ سے قرار دیاجائے۔ (طاقت وقدرت رکھنے والے) تومطلب ہوگا کہ ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت موجودہے۔ ہم آسمان وزمین بناکر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت وطاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ الذاريات
48 1- یعنی فرش کی طرح اسے بچھا دیا۔ الذاريات
49 1- یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا، نر اور مادہ یا اس کی مقابل اور ضد کو بھی پیدا کیا ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرا، خشکی اور تری، چاند اور سورج، میٹھا اور کڑوا، رات اور دن، خیر اور شر، زندگی اور موت، ایمان اور کفر، شقاوت اور سعادت، جنت اور دوزخ، جن وانس وغیرہ، حتیٰ کہ حیوانات (جاندار) کے مقابل، جمادات (بے جان) اس لیے ضروری ہے کہ دنیاکا بھی جوڑا ہو یعنی آخرت، دنیا کے بالمقابل دوسری زندگی۔ 2- یہ جان لو کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ الذاريات
50 1- یعنی کفر ومعصیت سے توبہ کر کے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔ الذاريات
51 1- یعنی میں تمہیں کھول کھول کر ڈرا رہا اور تمہاری خیرخواہی کر رہا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی طرف رجوع کرو،اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو، اس کےساتھ دوسرے معبودوں کو شریک مت کرو۔ ایسا کرو گے تو یاد رکھنا، جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤ گے۔ الذاريات
52 الذاريات
53 1- یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوموں کے لیے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔ الذاريات
54 1- یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لیے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جلتے۔ اس لیے متاخرین نے بھی وہی کچھ کہا اور کیا جو متقدمین نے کہا اور کیا۔ الذاريات
55 1- اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، اس نصیحت سے وہ لوگ یقیناً فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔ الذاريات
56 1- اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادۂ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب ومطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادۂ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت واطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت بازپرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ واختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔ الذاريات
57 1- یعنی میری عبادت واطاعت سے میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ مجھے کما کر کھلائیں، جیساکہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتاہے، بلکہ رزق کےسارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت واطاعت سے تو خود ان ہی کو فائدہ ہو گا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہو گا۔ الذاريات
58 الذاريات
59 1- ذَنُوبٌ کے معنی بھرے ڈول کےہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکالا کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر وشرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔ 2- لیکن یہ حصۂ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لیے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔ الذاريات
60 الذاريات
0 الطور
1 1- طُورٌ وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) اللہ سے ہم کلام ہوئے۔ اسے طور سینا، بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کے اسی شرف کی بنا پر اس کی قسم کھائی ہے۔ الطور
2 1- مَسْطُورٍ کے معنی ہیں۔ مکتوب، لکھی ہوئی چیز۔ اس کے مصداق مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید، لوح محفوظ، تمام کتب منزلہ یا وہ انسانی اعمال نامے جو فرشتے لکھتے ہیں۔ الطور
3 1- یہ متعلق ہے مَسْطُورٍ کے۔ رَقٍّ ، وہ باریک چمڑا جس پر لکھا جاتا تھا۔ مَنْشُورٍ بمعنی مَبْسُوطٍ، پھیلایا کھلا ہوا۔ الطور
4 1- یہ بیعت معمور، ساتویں آسمان پر وہ عبادت خانہ ہے جس میں فرشتے عبادت کرتےہیں۔ یہ عبادت خانہ فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ روزانہ اس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کے لیے آتے ہیں جن کی پھر دوبارہ قیامت تک باری نہیں آتی۔ جیسا کہ احادیث معراج میں بیان کیا گیا ہے۔ بعض بیت معمور سے مراد خانہ کعبہ لیتے ہیں، جو عبادت کے لئے آنے والے انسانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے۔ معمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے کے ہیں۔ الطور
5 1- اس سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لیے بمنزلۂ چھت کے ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر اسے (محفوظ چھت) کہا ہے۔ ﴿وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ﴾ (سورة الأنبياء:32) بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔ الطور
6 1- مسجور کے معنی ہیں، بھڑکے ہوئے۔ بعض کہتے ہیں، اس سے وہ پانی مراد ہے جو زیر عرش ہے جس سے قیامت والے دن بارش نازل ہو گی، اس سے مردہ جسم زندہ ہوجائیں گے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد سمندر ہیں، ان میں سے قیامت والے دن آگ بھڑک اٹھے گی۔ جیسے فرمایا: ﴿وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ﴾ (التكوير: 6) ”اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے“۔ امام شوکانی نے اسی مفہوم کو اولیٰ قرار دیا ہے اور بعض نے مَسْجُورٌ کے معنی مَمْلُوءٌ (بھرے ہوئے) کےلیے ہیں یعنی فی الحال سمندروں میں آگ تو نہیں ہے، البتہ وہ پانی سے بھرے ہوئےہیں، امام طبری نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ اس کے اور بھی کئی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ (دیکھئے تفسیر ابن کثیر)۔ الطور
7 الطور
8 1- یہ مذکورہ قسموں کا جواب ہے یعنی یہ تمام چیزیں، جو اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی مظہر ہیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کا وہ عذاب بھی یقیناً واقع ہو کررہے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے، اسے کوئی ٹالنے پر قادر نہیں ہوگا۔ الطور
9 1- مور کے معنی ہیں حرکت واضطراب۔ قیامت والے دن آسمان کے نظم میں جو اختلال اور کواکب وسیارگان کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جو اضطراب واقع ہو گا، اس کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ مذکورہ عذاب کےلیے ظرف ہے۔ یعنی یہ عذاب اس روز واقع ہوگا جب آسمان تھرتھرائے گا اور پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر روئی کے گالوں اور ریت کے ذروں کی طرح اڑ جائیں گے۔ الطور
10 الطور
11 الطور
12 1- یعنی اپنے کفر وباطل میں مصروف اور حق کی تکذیب واستہزا میں لگے ہوئے ہیں۔ الطور
13 1- الدَّعُّ کے معنی ہیں نہایت سختی کے ساتھ دھکیلنا۔ الطور
14 1- یہ جہنم پر مقرر فرشتے (زبانیہ) انہیں کہیں گے۔ الطور
15 1- جس طرح تم دنیا میں پیغمبروں کو جادوگر کہا کرتے تھے، بتلاؤ ! کیا یہ بھی کوئی جادو کا کرتب ہے؟ 2- یا جس طرح تم دنیا میں حق دیکھنے سے اندھے تھے، یہ عذاب بھی تمہیں نظر نہیں آ رہاہے یہ تقریع وتوبیخ کے لیے انہیں کہا جائے گا، ورنہ ہر چیز ان کے مشاہدے میں آچکی ہوگی۔ الطور
16 الطور
17 1- اہل کفر واہل شقاوت کے بعد اہل ایمان واہل سعادت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ الطور
18 1- یعنی جنت کے گھر، لباس، کھانے، سواریاں، حسین وجمیل بیویاں (حورعین) اور دیگر نعمتیں ان سب پر وہ خوش ہوں گے، کیونکہ یہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بڑھ کر ہوں گی اور (مَا لا عَيْنٌ رَأَتْ وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ) کا مصداق۔ الطور
19 1- دوسرے مقام پرفرمایا ﴿كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الأَيَّامِ الْخَالِيَةِ﴾ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لیے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بہت ضروری ہیں۔ الطور
20 1- مَصْفُوفَةٍ، ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے۔ گویا وہ ایک صف ہیں۔ یا بعض نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے کہ ان کے چہرے ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے، جیسے میدان جنگ میں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوتی ہیں۔ اس مفہوم کو قرآن میں دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ﴿عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ﴾ (الصافات: 44) ”ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر فروکش ہوں گے“۔ الطور
21 1- یعنی جن کے باپ اپنے اخلاص و تقویٰ اورعمل و کردار کی بنیاد پر جنت کےاعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کرکے، ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا۔ یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کرکے ان کی اولاد والے کمتر درجوں میں انہیں لے آئے۔ یعنی اہل ایمان پر دو گونہ احسان فرمائے گا۔ ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملادے گا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، بشرطیکہ دونوں ایماندار ہوں۔ دوسرا یہ کہ کم تر درجے والوں کو اٹھا کر اونچے درجوں پرفائز فرما دے گا۔ ورنہ دونوں کے ملاپ کا یہ طریقہ بھی ہو سکتا ہے کہ اے کلاس والوں کو بی کلاس دے دے، یہ بات چونکہ اس کے فضل واحسان سے فروتر ہوگی، اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ بی کلاس والوں کو اے کلاس عطا فرمائے گا۔ یہ تو اللہ کا وہ احسان ہے جو اولاد پر، آباکے عملوں کی برکت سے ہوگا اورحدیث میں آتا ہے کہ اولاد کی دعا واستغفار سے آباء کے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک شخص کے جب جنت میں درجے بلند ہوتے ہیں تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد، 2 / 509) اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ”جب انسان مر جاتا ہےتواس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ البتہ تین چیزوں کا ثواب، موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقۂ جاریہ۔ دوسرا، وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری، نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ (مسلم، كتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته 2- رَهِينٌ بمعنی مَرْهُونٍ (گروی شدہ چیز) ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہوگا۔ یہ عام ہے، مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اورمطلب ہے کہ جو جیسا (اچھا یا برا) عمل کرے گا، اس کےمطابق (اچھی یا بری) جزا پائے گا۔ یا اس سےمراد صرف کافر ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ، إِلا أَصْحَابَ الْيَمِينِ﴾ (المدثر: 38۔ 39) ”ہرشخص اپنے اعمال میں گرفتار ہو گا۔ سوائے اصحاب الیمین (اہل ایمان) کے“۔ الطور
22 1- أَمْدَدْنَاهُمْ بمعنی زِدْنَاهُمْ، یعنی خوب دیں گے۔ الطور
23 1- يَتَنَازَعُونَ، يَتَعَاطَونَ وَيَتَنَاوَلُونَ۔ ایک دوسرے سے لیں گے۔ یا پھر وہ معنی ہیں جو فاضل مترجم نےکیےہیں۔ کاس، اس پیالے اور جام کو کہتے ہیں جو شراب یا کسی اور مشروب سے بھرا ہوا ہو۔ خالی برتن کو کاس نہیں کہتے۔ (فتح القدیر)۔ 2- اس شراب میں دنیا کی شراب کی تاثیر نہیں ہوگی، اسے پی کر نہ کوئی بہکے گا کہ لغو گوئی کرے نہ اتنا مدہوش اور مست ہو گا کہ گناہ کا ارتکاب کرے۔ الطور
24 1- یعنی جنتیوں کی خدمت کے لیے انہیں نو عمر خادم بھی دیئے جائیں گے جو ان کی خدمت کےلیے پھر رہے ہوں گے اورحسن وجمال اور صفائی ورعنائی میں وہ ایسے ہوں گے جیسے موتی، جسے ڈھک کر رکھا گیا ہو، تاکہ ہاتھ لگنے سے اس کی چمک دمک ماند پڑے۔ الطور
25 1- ایک دوسرے سے دنیا کے حالات پوچھیں گے کہ دنیا میں وہ کن حالات میں زندگی گزارتے اور ایمان وعمل کے تقاضے کس طرح پورے کرتے رہے؟ الطور
26 1- یعنی اللہ کے عذاب سے۔ اس لیے اس عذاب سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے رہے، اس لیے کہ انسان کو جس چیز کا ڈر ہوتا ہے، اس سے بچنےکے لیے وہ تگ ودو بھی کرتا ہے۔ الطور
27 1- سَمُومٌ، لو، جھلس ڈالنے والی گرم ہوا کو کہتے ہیں، جہنم کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔ الطور
28 1- یعنی صرف اسی ایک کی عبادت کرتے تھے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، یا یہ مطلب ہے کہ اسی سے عذاب جہنم سے بچنے کے لیے دعا کرتے تھے۔ الطور
29 1- اس میں نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ وعظ وتبلیغ اورنصیحت کا کام کرتے رہیں اور یہ آپ کی بابت جوکچھ کہتے رہتے ہیں، ان کی طرف کان نہ دھریں، اس لیے کہ آپ اللہ کے فضل سےکاہن ہیں نہ دیوانہ (جیساکہ یہ کہتے ہیں) بلکہ آپ پر باقاعدہ ہماری طرف سے وحی آتی ہے، جو کہ کاہن پر نہیں آتی، آپ جو کلام لوگوں کو سناتے ہیں، وہ دانش وبصیرت کا آئینہ دارہوتا ہے، ایک دیوانے سے اس طرح گفتگو کیونکر ممکن ہے؟ الطور
30 1- رَيْبٌ کے معنی ہیں حوادث ، مَنُونٌ، موت کےناموں میں سے ایک نام ہے۔ مطلب ہے کہ قریش مکہ اس انتظار میں ہیں کہ زمانے کے حوادث سے شاید اس محمد (ﷺ) کو موت آ جائے اور ہمیں چین نصیب ہو جائے، جو اس کی دعوت توحید نے ہم سے چھین لیاہے۔ الطور
31 1- یعنی دیکھو ! موت پہلے کسے آتی ہے؟ اور ہلاکت کس کا مقدر بنتی ہے؟ الطور
32 1- یعنی یہ تیرے بارےمیں جو اس طرح اناپ شناب جھوٹ اور غلط سلط باتیں کرتے رہتےہیں، کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سجھاتی ہیں؟ 2- نہیں بلکہ یہ سرکش اورگمراہ لوگ ہیں، اور یہی سرکشی اور گمراہی انہیں ان باتوں پر برانگیختہ کرتی ہے۔ الطور
33 1- یعنی قرآن گھڑنے کے الزام پر ان کو آمادہ کرنے والابھی ان کا کفر ہی ہے۔ الطور
34 1- یعنی اگر یہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد (ﷺ) کا اپنا گھڑا ہوا ہے تو پھر یہ بھی اس جیسی کتاب بنا کر پیش کر دیں جو نظم، اعجاز وبلاغت، حسن بیان، ندرت اسلوب، تعین حقائق اور حل مسائل میں اس کا مقابلہ کر سکے۔ الطور
35 1- یعنی اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کسی بات کا حکم دے یا کسی بات سے منع کرے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے، تو ظاہر ہے اس کا انہیں پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے، وہ انہیں پیدا کر کے یوں ہی کس طرح چھوڑ دے گا؟ 2- یعنی یہ خود بھی اپنے خالق نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے خالق ہونے کااعتراف کرتے ہیں۔ الطور
36 1- بلکہ اس کے وعدوں اور وعیدوں کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ الطور
37 1- کہ یہ جس کو چاہیں روزی دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں یاجس کو چاہیں نبوت سے نوازیں۔ 2- مُصَيْطِرٌ یا مُسَيْطِرٌ، سَطْرٌ سے ہے، لکھنے والا، جو محافظ ونگران ہو، وہ چونکہ ساری تفصیلات لکھتا ہے، اس لیے یہ محافظ اورنگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کیا اللہ کے خزانوں یا اس کی رحمتوں پر ان کا تسلط ہے کہ جس کو چاہیں دیں یا نہ دیں۔ الطور
38 1- یعنی کیا یہ ان کا دعویٰ ہے کہ سیڑھی کے ذریعے سے یہ بھی محمد (ﷺ) کی طرح آسمانوں پر جا کر ملائکہ کی باتیں یا ان کی طرف جو وحی کی جاتی ہے، وہ سن آئے ہیں۔ الطور
39 الطور
40 1- یعنی اس کی ادائیگی ان کے لیے مشکل ہو۔ الطور
41 1- کہ ضرور ان سے پہلے محمد (ﷺ) مر جائیں گے اور ان کو موت اس کے بعد آئے گی۔ الطور
42 1- یعنی ہمارے پیغمبر کے ساتھ، جس سے اس کی ہلاکت واقع ہو جائے۔ 2- یعنی کید ومکر ان ہی پرالٹ پڑے گا اور سارا نقصان انہی کو ہو گا۔ جیسا فرمایا : ﴿وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلا بِأَهْلِهِ﴾ (فاطر:43) چنانچہ بدر میں یہ کافر مارے گئے اور بھی بہت سی جگہوں پر ذلت ورسوائی سے دوچار ہوئے۔ الطور
43 الطور
44 1- مطلب ہے کہ اپنے کفر وعناد سے پھر بھی باز نہ آئیں گے، بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ ایک پر ایک بادل چڑھا آرہا ہے، جیسا کہ بعض موقعوں پر ایسا ہوتاہے۔ الطور
45 الطور
46 الطور
47 1- یعنی دنیامیں، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ (الم السجدة:21)۔ 2- اس بات سے کہ دنیا کے یہ عذاب اور مصائب، اس لیےہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کریں۔ یہ نکتہ چونکہ نہیں سمجھتے اس لیے گناہوں سے تائب نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح ایک حدیث میں فرمایا کہ ”منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہوجاتا ہے تو اس کی مثال اونٹ کی سی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا۔ اور کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا؟“ (أبو داود، كتاب الجنائز، نمبر 3089)۔ الطور
48 1- اس کھڑے ہونے سے کون سا کھڑا ہونا مراد ہے؟ بعض کہتےہیں جب نماز کے لیے کھڑے ہوں۔ جیسا کہ آغاز نماز میں [سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ۔۔۔] پڑھی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں، جب نیند سے بیدار ہو کر کھڑے ہوں۔ اس وقت بھی اللہ کی تسبیح و تحمید مسنون ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس سے کھڑے ہوں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے۔ جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے گا تو یہ اس کی مجلس کے گناہوں کاکفارہ ہو جائے گا۔ [ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ ](سنن الترمذی، أبواب الدعوات، باب ما يقول إذا قام من مجلسه الطور
49 1- اس سے مراد قیام اللیل۔ یعنی نماز تہجد ہے،جو عمر بھر نبی (ﷺ) کا معمول رہا۔ 2- أَيْ: (وَقْت إِدْبَارِهَا مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ )اس سےمراد فجر کی دو سنتیں ہیں، نوافل میں سب سے زیادہ اس کی نبی (ﷺ حفاظت فرماتے تھے۔ اور ایک روایت میں آپ (ﷺ نے فرمایا ”فجر کی دو سنتیں دنیا و مافیہا سے بہترہے“ (صحيح بخاری، كتاب التهجد، باب تعاهد ركعتي الفجر ومن سماها تطوعا ، وصحيح مسلم، كتاب الصلاة باب استحباب ركعتي الفجر الطور
0 النجم
1 1- بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے۔ اور بعض نے جنس نجوم هَوَى، اوپر سے نیچے گرنا، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لیے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔ النجم
2 1- یہ جواب قسم ہے۔ صَاحِبُكُمْ (تمہارا ساتھی) کہہ کر نبی (ﷺ) کی صداقت کو واضح تر کیا گیا ہے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال اس نےتمہارے ساتھ اور تمھارے درمیان گزارے ہیں، اس کے شب وروزکے تمام معمولات تمہارے سامنے ہیں، اس کا اخلاق وکردار تمہارا جانا پہچانا ہے۔ راست بازی اور امانت داری کے سوا تم نے اس کےکردار میں کبھی کچھ اور بھی دیکھا؟ اب چالیس سال کے بعد جو وہ نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے تو ذرا سوچو، وہ کس طرح جھوٹ ہو سکتا ہے؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ وہ نہ گمراہ ہوا ہے نہ بہکا ہے۔ ضلالت، راہ حق سے وہ انحراف ہے جو جہالت اور لاعلمی سے ہو اور غوایت، وہ کجی ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھوڑ کر اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی گمراہیوں سے اپنے پیغمبر کی تنزیہ بیان فرمائی۔ النجم
3 النجم
4 1- یعنی وہ گمراہ یا بہک کس طرح سکتا ہے، وہ تو وحی الٰہی کے بغیر لب کشائی ہی نہیں کرتا، حتیٰ کہ مزاح اور خوش طبعی کےموقعوں پر بھی آپ (ﷺ) کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا۔ (سنن الترمذی، أبواب البر، باب ما جاء في المزاح) اسی طرح حالت غضب میں، آپ (ﷺ )کو اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھا کہ آپ (ﷺ )کی زبان سے کوئی بات خلاف واقعہ نہ نکلتی (أبو داود، كتاب العلم، باب في كتاب العلم النجم
5 النجم
6 1- اس سے مراد جبرائیل (عليہ السلام) فرشتہ ہے جو قوی اعضا کامالک اور نہایت زور آور ہے، پیغمبر پر وحی لانے اور اسے سکھانے والا یہی فرشتہ ہے۔ النجم
7 1- یعنی جبرائیل (عليہ السلام) یعنی وحی سکھلانے کے بعد آسمان کے کناروں پر