Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 1- بسم اللہ کے آغاز میں أقْرَأُ، أبْدَأُ یا أَتْلُوا محذوف ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا، یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں۔ ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ“ سے پہلے ”أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“ پڑھنا بھی ضروری ہے ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ (النحل:98) ”جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔“ الفاتحة
2 1- اَلْحَمْدُ میں ”ال“ استغراق یا اختصاص کے لئے ہے، یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، یا اس کے لئے خاص ہیں، کیوں کہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی الله تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔ ”اللہ“ یہ اللہ کا ذاتی نام ہے، اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ الْحَمْدُ للهِ یہ کلمہ شکر ہے جس کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں [ لا إِلَهَ إلا اللهُ أَفْضَلُ الذِّكْرِ اور الْحَمْدُ للهِ کو أَفْضَلُ الدُّعَاءِ ] کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے [ الْحَمْدُ للهِ تَمْلأُ الْمِيزَانَ ] ”الْحَمْدُ للهِ میزان کو بھر دیتا ہے۔“ اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم) ۔ 2- رَبِّ، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جس کے معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کرکے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کا استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ عَالَمِينَ عَالَمٌ (جہان) کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعے کو عالم کہا جاتا ہے، اسی لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوقات کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلاً عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش وطیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوقات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں، لیکن رَبِّ الْعَالَمِينَ سب کی ضروریات، ان کے احوال وظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔ الفاتحة
3 1-رَحْمَن بر وزن فَعْلان اور رَحِيمٌ بر وزن فَعِيلٌ ہے۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں، جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علما کہتے ہیں: رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے، اسی لئے رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت عام ہے جس سے بلا تخصیص کافر ومومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہوگا، یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ {اللَّهُمَّ! اجْعَلْنَا مِنْهُمْ} (آمين) الفاتحة
4 1-دنیا میں بھی اگرچہ مکافات عمل کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے، تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا اور سزا دے گا۔ اسی طرح دنیا میں عارضی طور پر اور بھی کئی لوگوں کے پاس تحت الاسباب اختیارات ہوتے ہیں، لیکن آخرت میں تمام اختیارات کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا: ﴿لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ﴾ (غافر: 16) ”آج کس کی بادشاہی ہے؟ “ پھر وہی جواب دے گا: ﴿لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ (غافر: 16) ”صرف ایک غالب اللہ کے لئے“ ﴿يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ﴾ (الانفطار: 19) ”اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی، سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔“ یہ ہوگا جزا کا دن۔ الفاتحة
5 1-عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لئے انتہائی تذلل وعاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر”شریعت میں کمال محبت، خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے“ یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو، اس کی مافوق الاسباب طاقت کے سامنے عاجزی وبے بسی کا اظہار بھی ہو اور اسباب ومافوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ”نَعْبُدُكَ وَنَسْتَعِينُكَ“ ”ہم تیری عبادت کرتے اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں“ ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں مفعول کو فعل پر مقدم کرکے ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾‌ فرمایا، جس سے مقصد اختصاص پیدا کرنا ہے، یعنی ”ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں“ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ استعانت ہی کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کردیا گیا ہے، لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پاگیا ہے، وہ مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظرانداز کرکے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں، بیوی سے مدد چاہتے ہیں، ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ماتحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے، جس میں سارے کام ظاہری اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انبیا بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ عليہ السلام نے فرمایا: ﴿مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ﴾ (الصف: 14) ”اللہ کے دین کے لئے کون میرا مددگار ہے؟“۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ (المائدة: 2) ”نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو“، ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے، نہ شرک، بلکہ مطلوب ومحمود ہے۔ اس کا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کرسکتا ہو، جیسے کسی فوت شدہ شخص کو مدد کے لئے پکارنا ، اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا، اس کو نافع وضار باور کرنا اور دور ونزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اس کا نام ہے مافوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا، اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا۔ اسی کا نام شرک ہے، جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ {أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ توحید کی تین قسمیں : اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصراً بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید صفات۔ 1۔ توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس توحید کو ملاحدہ وزنادقہ کے علاوہ تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا ہے۔ مثلاً فرمایا: ”اے پیغمبر (ﷺ)! ان سے پوچھیں کہ تم کو آسمان وزمین میں رزق کون دیتا ہے، یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہےاور بےجان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ اللہ (یعنی یہ سب کام کرنے والا اللہ ہے)۔“ (یونس: 31) دوسرے مقام پر فرمایا: ”اگر آپ (ﷺ) ان سے پوچھیں کہ آسمان وزمین کا خالق کون ہے؟ تو یقیناً یہی کہیں گے کہ اللہ۔“ (الزمر: 38) ایک اور مقام پر فرمایا: ”اگر آپ (ﷺ) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے، یہ سب کس کا مال ہے، ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے، اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں۔ ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ (یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں)۔“ (المؤمنون: 84۔ 89) وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔ 2۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کے لئے، یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے، اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکٰوہ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجا کرنا، اس کے نام کی نذرونیاز دینا، اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا، اس کا طواف کرنا، اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ ہے کہ یہ تمام کام صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کئے جائیں۔ قبرپرستی کے مرض میں مبتلا عوام وخواص اس توحید الوہیت میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ 3۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان کو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلاً جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یہ یا اس قسم کی اور صفات الٰہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی، ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبرپرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ الفاتحة
6 1-ہدایت کے کئی مفہوم ہیں۔ راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزل مقصود پر پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد، توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزل مقصود) حاصل ہوجائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ”الإِسْلام“ ہے، جسے نبی (ﷺ) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن واحادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔ الفاتحة
7 1-یہ صراط مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر وہ لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا، یہ منعم علیہ گروہ ہے انبیا شہدا صدیقین اور صالحین کا۔ جیسا کہ سورۂ نساء میں ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ (النساء: 69) ”اور جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ہیں، وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا، اور صالحین، اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔“ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول (ﷺ) ہی کا راستہ ہے، نہ کہ کوئی اور راستہ۔ 2- بعض روایات سے ثابت ہے کہ ﴿مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ﴾ ”جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا“ سے مراد یہودی اور ﴿ضَالِّيْنَ﴾ ”گمراہوں“ سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ ”لا أَعْلَمُ خِلافًا بَيْنَ الْمُفَسِّرِينَ فِي تَفْسِيرِ ﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾ : بِالْيَهُود وَ ﴿الضَّالِّينَ﴾ بالنَّصَارَى“ (فتح القدیر)، اس لئے صراط مستقیم پر چلنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ دونوں کی گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے، آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، حضرت عزیر (عليہ السلام) کو ”ابن اللہ“ کہتے، اپنے احبار ورھبان کو حرام وحلال کرنے کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی شان میں غلو کیا اور انہیں ”ابْنُ اللهِ“ اور ”ثَالِثُ ثَلاثَةٍ“ (اللہ کا بیٹا اور تین خدا میں سے ایک) قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے، تاکہ ادبار ونکبت کے بڑھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکیں۔ سورۂ فاتحہ کے آخر میں آمین کہنے کی نبی (ﷺ) نے بڑی تاکید اور فضیلت فرمائی ہے۔ اس لئے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہیے۔ نبی (ﷺ) جہری نمازوں میں اونچی آواز سے آمین کہا کرتے تھے اور صحابہ (رضی الله عنہم) بھی، حتیٰ کہ مسجد گونج اٹھتی۔ (ابن ماجہ۔ ابن کثیر)، بنابریں آمین اونچی آواز سے کہنا سنت اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا معمول بہ ہے۔ آمین کے معنی مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ ”كَذَلِكَ فَلْيَكُنْ“ (اسی طرح ہو)، ”لا تُخَيِّبْ رَجَاءَنا“ (ہمیں نامراد نہ کرنا)، ”اللَّهُمَّ! اسْتَجِبْ لَنَا“ (اے اللہ ہماری دعا قبول فرمالے)۔ الفاتحة
0 البقرة
1 1-انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف۔ ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ بِمُرَادِهِ۔ البتہ نبی (ﷺ) نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ ”میں نہیں کہتا کہ ﴿الم﴾ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے اور ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔“ (سنن ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً) البقرة
2 1-اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے: ﴿تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (السجدة: 2) بعض علما نے کہا ہے کہ یہ خبر بمعنی نہی ہے۔ أَيْ :لا تَرْتَابُوا فِيهِ (اس میں شک نہ کرو)۔ علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں، ان کی صداقت میں، جو احکام ومسائل بیان کئے گئے ہیں، ان سے انسانیت کی فلاح ونجات وابستہ ہونے میں اور جو عقائد (توحید ورسالت اور معاد کے بارے میں) بیان کئے گئے ہیں، ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ 2- ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے، لیکن اس چشمۂ فیض سے سیراب صرف وہی لوگ ہوں گے، جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوکر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں، جن کے اندر ہدایت کی طلب، یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو انھیں ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہوسکتی ہے؟ البقرة
3 1-أُمُورٌ غَيْبِيَّةٌ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا ادراک عقل وحواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی الٰہی، جنت، دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشراجساد وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول (ﷺ) کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل واحساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفروضلالت ہے۔ 2- اقامت صلوٰۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا ہے، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔ 3- إِنْفَاقٌ کا لفظ عام ہے، جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب استطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے، بلکہ ماں باپ اور اہل وعیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔ البقرة
4 1-پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ جو کتابیں انبیاء(عليہم السلام) پر نازل ہوئیں، وہ سب سچی ہیں، وہ اب اپنی اصلی شکل میں دنیا میں پائی نہیں جاتیں، نیز اب ان پر عمل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وحی ورسالت کا سلسلہ آنحضرت (ﷺ) پر ختم کردیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔ البقرة
5 1-یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ وعمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت ومغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت وکامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں، بلکہ اس کا کفر وعناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔ البقرة
6 1-نبی (ﷺ) کی شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں اور اسی حساب سے آپ (ﷺ) کوشش فرماتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ) ورنہ آپ (ﷺ) کی دعوت وتبلیغ سے بےشمار لوگ مسلمان ہوئے، حتیٰ کہ پھر پورا جزیرۂ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آگیا۔ البقرة
7 1-یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ کفرومعصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہوچکی ہے، ان کے کان حق بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح لاسکتے ہیں؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے میں آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے معرفت کردگار حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف شفاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہی وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ (المطففين: 14) یعنی ”ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے۔“ (ترمذی، تفسیر سورۂ مطففین) اسی کیفیت کو قرآن نے ”ختم“ (مہر لگ جانے) سے تعبیر فرمایا ہے، جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ البقرة
8 1-یہاں سے تیسرے گروہ منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے، مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، کیوں کہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور نہ اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا۔ یوں اس فریب کاری کا سارا نقصان خود ان ہی کو پہنچا کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔ البقرة
9 البقرة
10 1-بیماری سے مراد وہی کفر ونفاق کی بیماری ہے، جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ البقرة
11 البقرة
12 1-فَسَاد، صَلاحٌ، کی ضد ہے، کفرومعصیت سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن وسکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں، اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے یا دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اصلاح وترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ البقرة
13 1-ان منافقین نے ان صحابہ (رضی الله عنہم) کو ”بےوقوف“ کہا، جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان ومال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آ کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) دولت ایمان ہی سے محروم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جدید وقدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلیٰ تر مقصد کے لئے دنیوی مفادات کو قربان کردینا، بے وقوفی نہیں، عین عقل مندی اور سعادت ہے۔ صحابہ (رضی الله عنہم) نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا ہے، اس لئے وہ پکے مومن ہی نہیں، بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان ان ہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہی کی طرح ایمان لائیں گے۔ ﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا﴾ (البقرة: 137). 2- ظاہر بات ہے کہ نفع عاجل (فوری فائدے) کے لئے نفع آجل (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظرانداز کردینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بےعلم رہے۔ البقرة
14 1-شیاطین سے مراد سرداران قریش ویہود ہیں جن کے ایما پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے، یا منافقین کے اپنے سردار۔ البقرة
15 1-”اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے“ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ جس طرح مسلمانوں کے ساتھ استہزا واستخفاف کا معاملہ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت وادبار میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزا سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتاً یہ استہزا نہیں ہے، ان کے فعل استہزا کی سزا ہے جیسے ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا﴾ (الشورى- 40) ”برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی ہے“ میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا ہے حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ اسی طرح ﴿يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ﴾، ﴿وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ﴾ وغیرہ آیات میں ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے استہزا فرمائے گا۔ جیسا کہ سورہ حدید کی آیت ﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ﴾ الآية میں وضاحت ہے۔ البقرة
16 1-تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے، جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر یہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے، ضروری نہیں کہ دنیا میں ہی اس گھاٹے کا انہیں علم ہوجائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل وفہم سے عاری سمجھتے تھے۔ البقرة
17 1-حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) اور دیگر صحابہ (رضی الله عنہم) نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے: کہ نبی (ﷺ) جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے، لیکن پھر جلد ہی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا، اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہوگیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں، دفعتاً وہ روشنی بجھ گئی، اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا۔ یہی حال منافقین کا تھا۔ پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے، مسلمان ہوئے تو روشنی میں آگئے۔ حلال وحرام اور خیروشر کو پہچان گئے، پھر وہ دوبارہ کفرونفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی۔ (فتح القدیر) البقرة
18 البقرة
19 البقرة
20 1-یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ ریب وشک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پس ان کے دل ریب وتردد میں اس بارش کی طرح ہیں جو اندھیروں (شکوک، کفر اور نفاق) میں اترتی ہے، گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں، حتیٰ کہ خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف ودہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا، کیوں کہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں، لیکن پھر جب اسلام یا مسلمانوں پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران وسرگردان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ (ابن کثیر) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق (اسلام) سے محروم رہتا ہے۔ 2- اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لئے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مواخذے سے کبھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔ البقرة
21 البقرة
22 1-ہدایت اور ضلالت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جارہی ہے۔ فرمایا کہ جب تمہارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے، تمہاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے، تو پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو؟ اگر تم عذاب خداوندی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو، جانتے بوجھتے شرک کا ارتکاب مت کرو۔ البقرة
23 1-توحید کے بعد اب رسالت کا اثبات فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے اپنے بندے پر جو کتاب نازل فرمائی ہے، اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے توتم اپنے تمام حمائیتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ واقعی یہ کلام کسی انسان کی کاوش نہیں ہے، کلام الٰہی ہی ہے اور ہم پر اور رسالت محمدیہ پر ایمان لا کر جہنم کی آگ سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے، جو کافروں کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔ البقرة
24 1-یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب وعجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا، لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقیناً قیامت تک قاصر رہیں گے۔ 2- پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندھک کے پتھر ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ أَصْنَامٌ (بت) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے: ﴿إِنَّكُم وَمَا تَعۡبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ﴾ [الأنبياء: 98] ”تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو، جہنم کا ایندھن ہوں گے۔“ 3- اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لئے تیار کی گئی ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے۔ یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں، جیسا کہ بعض متجددین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔ البقرة
25 1-قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان ثمر آور نہیں اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عنداللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا ہے؟ جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود ونمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود ومطرود۔ 2- مُتَشَابِهًا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے، یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی، ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے :[ مَا لا عَينٌ رَأَتْ، وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ] (صحیح بخاری، تفسیر الم السجدۂ) ”نہ کسی آنکھ نے انہیں دیکھا، نہ کسی کان نے ان کی بابت سنا (اور دیکھنا سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔“ 3- یعنی حیض ونفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ 4- خُلُودٌ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیش کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے۔ جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا ”اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اور اے جنتیو! اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے، اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا۔“ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون ألفا- وصحيح مسلم كتاب الجنة البقرة
26 1-جب اللہ تعالیٰ نے دلائل قاطعہ سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کردیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کردیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الٰہی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور کسی حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے اس میں حیا وحجاب بھی نہیں۔ فَوْقَهَا جو مچھر کے اوپر ہو، یعنی پر یا بازو، مراد اس مچھر سے بھی حقیر تر چیز۔ یا فَوْقُ کے معنی، اس سے بڑھ کر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی (مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز) کے ہوں گے۔ لفظ فَوْقَهَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ 2- اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت ومشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے ﴿نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾ [النساء: 115]. ”جس طرف کوئی پھرتا ہے، ہم اسی طرف اس کو پھیر دیتے ہیں“ اور حدیث میں: [ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَهُ ] (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ اللیل) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں، جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس آیت میں فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔ البقرة
27 1-مفسرین نے عَهْدٌ کے مختلف مفہوم بیان کئے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت جو اس نے اپنے اوامر بجا لانے اور نواہی سے باز رکھنے کے لئے انبیاء (عليہم السلام) کے ذریعے سے مخلوق کو کی۔ ۔ وہ عہد جو اہل کتاب سے تورات میں لیا گیا کہ نبی آخر الزمان (ﷺ) کے آجانے کے بعد تمہارے لئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ وہ عہدالست جو صلب آدم سے نکالنے کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا، جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے: ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ﴾ (الأعراف: 172) نقض عہد کا مطلب عہد کی پروا نہ کرنا ہے (ابن کثیر) 2- ظاہر بات ہے کہ نقصان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو ہی ہوگا، اللہ کا یا اس کے پیغمبروں اور داعیوں کا کچھ نہ بگڑے گا۔ البقرة
28 1-آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ ہے۔ پہلی موت سے مراد عدم (نیست یعنی نہ ہونا) ہے اور پہلی زندگی ماں کے پیٹ سے نکل کر موت سے ہمکنار ہونے تک ہے۔ پھر موت آجائے گی اور پھر آخرت کی زندگی دوسری زندگی ہوگی، جس کا انکار کفار اور منکرین قیامت کرتے ہیں۔ شوکانی نے بعض علماء کی رائے ذکر کی ہے کہ قبر کی زندگی (كَمَا هِيَ) دنیوی زندگی میں ہی شامل ہوگی (فتح القدیر) صحیح یہ ہے کہ برزخ کی زندگی، حیات آخرت کا پیش خیمہ اور اس کا سرنامہ ہے، اس لئے اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔ البقرة
29 1-اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے (اصل) حلت ہے۔ الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت نص سے ثابت ہو (فتح القدیر) 2- بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ ”پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا“ کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول، اللہ کی صفات میں سے ہے، جن پر اسی طرح بغیر تاویل کے ایمان رکھنا ضروری ہے۔ جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ 3- اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ (آسمان) ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو سماء سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے ﴿وَمِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ﴾ (الطلاق:12) ”اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں“ اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہوجاتی ہے : [ مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنْ الأَرْضِ ظُلْمًا، فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرْضِينَ ] (صحيح بخاري، بدء الخلق ما جاء في سبع أرضين) ”جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا۔“ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے۔ لیکن سورہ نازعات میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا ہے۔ ﴿وَالأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا﴾ ”زمین کو اس کے بعد بچھایا“ اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین ہی کی ہوئی ہے اور دَحْوٌ (صاف اور ہموار کرکے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر) البقرة
30 1-مَلائِكَةٌ (فرشتے) اللہ کی نوری مخلوق ہیں، جن کا مسکن آسمان ہے، جو اوامرالٰہی کے بجالانے اور اس کی تحمید وتقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ 2- خَلِيفَةٌ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔ 3- فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہیں تھا، بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے، جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں، ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں وہ مصلحت راجحہ جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ مفاسد کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔“ کیوں کہ ان میں انبیا، شہدا، وصالحین اور زہاد بھی ہوں گے۔ (ابن کثیر) ذریت آدم کی بابت فرشتوں کو کیسے علم ہوا کہ وہ فساد برپا کرے گی؟ اس کا اندازہ انہوں نے انسانی مخلوق سے پہلے کی مخلوق کے اعمال یا کسی اور طریقے سے کرلیا ہوگا۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی بتلا دیا تھا کہ وہ ایسے ایسے کام بھی کرے گی۔ یوں وہ کلام میں حذف مانتے ہیں کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً يَفْعَلُ كَذَا وَكَذَا (فتح القدیر) البقرة
31 البقرة
32 البقرة
33 1-اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص واشیا) کے نام اور ان کے خواص وفوائد کا علم ہے، جو اللہ تعالیٰ نے القا والہام کے ذریعے حضرت آدم (عليہ السلام) کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (عليہ السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فوراً سب کچھ بیان کردیا، جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت وفضیلت بیان فرما دی، جب یہ حکمت واہمیت علم فرشتوں پر واضح ہوئی، تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ البقرة
34 1-علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم (عليہ السلام) کی یہ دوسری تکریم ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں خضوع اور تذلل کے، اس کی انتہا ہے (زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا) (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترمذی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم (عليہ السلام) کو سجدہ کیا، جس سے ان کی تکریم وفضیلت فرشتوں پر واضح کردی گئی۔ کیوں کہ یہ سجدہ اکرام و تعظیم کے طور پر ہی تھا، نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا۔ 2- ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ ابلیس حسب صراحت قرآن جنات میں سے تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازاً فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا، اس لئےبحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا، لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس تھا۔ 3- یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔ البقرة
35 1-یہ حضرت آدم (عليہ السلام) کی تیسری بڑی فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔ 2- یہ درخت کس چیز کا تھا؟ اس کی بابت قرآن وحدیث میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کردیا گیا ہے جو بےاصل بات ہے، ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے، نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔ البقرة
36 1-شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا، یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے، اس کی بابت کوئی صراحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر (کہ میں آدم سے بہتر ہوں) سجدے سے انکار کیا، اسی طرح اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿وَلا تَقْرَبَا﴾ کی تاویل کرکے حضرت آدم (عليہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا، جس کی تفصیل سورۂ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کی دورازکار تاویل کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا 2- مراد آدم (عليہ السلام) اور شیطان ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ بنی آدم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ البقرة
37 1-حضرت آدم (عليہ السلام) جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ واستغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقعے پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی ودست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو (الاعراف) میں بیان کئے گئے ہیں ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا﴾ الآية بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الٰہی پر ”لا إِلهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ“ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ یہ روایت بےسند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیا (عليہم السلام) نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں، کسی نبی، ولی، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا، اس لئے نبی کریم (ﷺ) سمیت تمام انبیا کا طریقہ دعا یہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔ البقرة
38 البقرة
39 1-قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دنیا میں ہی رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم (عليہ السلام) کے واسطے سے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جارہا ہے کہ انبیا (عليہم السلام)کے ذریعے سے میری ہدایت (زندگی گزارنے کے احکام وضابطے) تم تک پہنچے گی، جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق، اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔ (ان پر خوف نہیں ہوگا) کا تعلق آخرت سے ہے۔ أيْ: فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَهُ مِنْ أَمْرِ الآخِرَةِ۔ اور (حزن نہیں ہوگا) کا تعلق دنیا سے۔ عَلَى مَا فَاتَهُمْ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا (جو فوت ہوگیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے) جس طرح دوسرے مقام پر ہے، ﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى﴾ (طٰہ: 123) جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت۔) (ابن کثیر) گویا ﴿لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ کا مقام ہر مومن صادق کو حاصل ہے۔ یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہو اور پھر اس ”مقام“ کا مفہوم بھی کچھ کا کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تمام مومنین و متقین بھی ”اولیاء اللہ“ ہیں اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق ہوسکتا ہے۔ البقرة
40 1-إِسْرَائِيلُ (بمعنی عبداللہ) حضرت یعقوب (عليہ السلام) کا لقب تھا۔ یہود کو بنواسرائیل کہا جاتا ہے یعنی یعقوب (عليہ السلام) کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے، جن سے یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیا ورسل ہوئے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جارہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخرالزمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کروگے تو میں بھی اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتاردیئے جائیں گے جو تمہاری غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا تم پر لاد دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت وادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا واجداد بھی مبتلا رہے۔ البقرة
41 1-”بِهِ“ کی ضمیر قرآن کی طرف، یا حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صحیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا اور جس نے محمد (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا، اس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) ”پہلے کافر نہ بنو“ کا مطلب ہے کہ ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے، مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کرچکے تھے۔ اس لئے انہیں تنبیہ کی جارہی ہےکہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر و جحود کا وبال تم پر پڑے گا۔ 2- ”تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو“ کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کرلو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال ومتاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور ثمن قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی ابطال حق یا اثبات باطل یا کتمان علم کا ارتکاب اور احقاق حق سے محض طلب دنیا کے لئے، گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر) البقرة
42 البقرة
43 البقرة
44 البقرة
45 1-صبر اور نماز ہر اللہ والے کے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ وتعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے، جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے [ِ اِذَا حَزَبَه أَمْرٌ فَزِعَ إِلَى الصَّلاةِ ] (احمد وابوداود بحوالہ فتح القدیر) ”نبی (ﷺ) کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔“ 2- نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے، لیکن خشوع وخضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان، بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو آسان کر دیتا اور آخرت سے بےفکری انسان کو بےعمل، بلکہ بدعمل بنا دیتی ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 1-یہاں سے دوبارہ بنی اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جارہے ہیں، جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جارہا ہے، جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا، نہ سفارش قبول ہوگی، نہ معاوضہ دے کر چھٹکارا ہوسکے گا، نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی، یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خَيْرُ أُمَّةٍ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں، اور ایمان و عمل سے محرومی پر سلب کر لئے جاتے ہیں، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک وبدعات کے ارتکاب کی وجہ سے ”خَيْرُ أُمَّةٍ“ کے بجائے ”شَرُّ أمَّةٍ“ بنی ہوئی ہے۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالى یہود کو یہ دھوکہ بھی تھا کہ ہم تو اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا، اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جو اہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ نبی (ﷺ) یقیناً شفاعت فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول بھی فرمائے گا (احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے) لیکن یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ إِحْدَاثٌ فِي الدِّينِ (بدعات) کے مرتکب اس سے محروم ہی رہیں گے۔ نیز بہت سے گناہ گاروں کو جہنم میں سزا دینے کے بعد آپ (ﷺ) کی شفاعت پر جہنم سے نکالا جائے گا، کیا جہنم کی یہ چند روزہ سزا قابل برداشت ہے کہ ہم شفاعت پر تکیہ کرکے معصیت کا ارتکاب کرتے رہیں؟ البقرة
48 البقرة
49 1-آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں، بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے: ﴿وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْن﴾ ہے ”ہم نے آل فرعون کو غرق کردیا“ یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر والے ہی نہیں تھے، اس کے فوجی اور دیگر پیروکار تھے۔ گویا قرآن میں ’’آل‘‘ مُتَّبِعِينَ (پیروکاروں) کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں ان شاء اللہ آئے گی۔ البقرة
50 1-سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا، ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۂ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا، جیسا کہ سرسید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیا ل ہے۔ البقرة
51 1-یہ گو سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نمائے سینا پہنچے . وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو تورات دینے کے لئے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون وموسیٰ علیہما السلام) کی موجودگی کے باوصف بچھڑے کو اپنا (معبود) سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد واعمال میں بری طرح مبتلا ہے، لیکن وہ سمجھتا یہ ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہوسکتا ہے؟ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے پجاریوں کے لئے خاص کردیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے ہیں جو پتھر کے پجاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ البقرة
52 البقرة
53 1-یہ بھی بحر قلزم پار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے (ابن کثیر) ممکن ہے کتاب یعنی تورات ہی کو فرقان سے بھی تعبیر کیا گیا ہو، کیوں کہ ہر آسمانی کتاب حق وباطل کو واضح کرنے والی ہوتی ہے، یا معجزات کو فرقان کہا گیا ہے کہ معجزات بھی حق و باطل کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البقرة
54 1-جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا، توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا : ﴿فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ﴾ ”اپنے کو آپس میں قتل کرو“ کی دو تفسیریں کی گئی ہیں : ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کردیاگیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ دوسری، یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کردیا گیا اور جو اس سے محفوظ رہے تھے، انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)۔ البقرة
55 1-حضرت موسیٰ (عليہ السلام) ستر آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اللہ تعالی کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں، ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مرگئے۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں جن پر بجلی گری، آخر والے اسے دیکھ رہے تھے، حتیٰ کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ البقرة
56 البقرة
57 1-اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے بحکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔ - مَنٌّ، بعض کے نزدیک ترنجبین ہے، یا اوس جو درخت یا پتھر پر گرتی، شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہوجاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری ومسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ ”کھنبی من کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) پر نازل ہوئی“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلا دقت بہم پہنچ جاتا تھا، اسی طرح کھنبی بغیر کسی کے بونے کے پیدا ہوجاتی ہے (تفسیر احسن التفاسیر) سَلْوَى بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کرکے کھا لیتے (فتح القدیر) البقرة
58 1-اس بستی سےمراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔ 2- سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدۂ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز وانکسار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔ 3- حِطَّةٌ اس کے معنی ہیں ”ہمارے گناہ معاف فرمادے۔“ البقرة
59 1-اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہ میں ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ان کو حکم دیا گیا تھا کہ سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حَبَّة فِي شَعرَةٍ (یعنی گندم بالی میں) کہتے رہے۔ اس سے ان کی اس سرتابی وسرکشی کا، جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الٰہی سے تمسخر واستہزا کا جس کا ارتکاب انہوں نے کیا، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اخلاق وکردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہیہ کے ساتھ اسی طرح کا ہوجاتا ہے۔ 2- یہ آسمانی عذاب کیا تھا؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ“ (صحيح مسلم، كتاب السلام باب الطاعون والطيرة والكهانة ونحوها حديث 2218) البقرة
60 1-یہ واقعہ بعض کے نزدیک تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحرائے سینا کا ہے، وہاں پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ چنانچہ پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ قبیلے بھی بارہ تھے۔ ہر قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے سیراب ہوتا۔ یہ بھی معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ البقرة
61 1-یہ قصہ بھی اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں ملک مصر نہیں، بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو، اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ۔ ان کا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت اور استکبار پر مبنی تھا، اس لئے زجروتوبیخ کے انداز میں ان سے کہا گیا ”تمہارے لئے وہاں مطلوبہ چیزیں ہیں۔“ 2- کہاں وہ انعامات واحسانات، جس کی تفصیل گزری؟ اور کہاں وہ ذلت ومسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کردی گئی؟ اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے، جس کی تاویل ارادۂ عقوبت یا نفس عقوبت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ كَمَا هُوَ شَأْنُهُ۔ (اپنی شان کے لائق) 3- یہ ذلت وغضب الٰہی کی وجہ بیان کی جارہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیا (عليہم السلام) اور داعیان حق کا قتل اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہود اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل ورسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہوسکتے ہیں: ”أَيْنَ مَا كَانُوا وَحَيْثُ مَا كَانُوا“ ”وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔“ 4- یہ ذلت ومسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْا(نافرمانی کی) کا مطلب ہے جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا، ان کا ارتکاب کیا اور (يَعْتَدُونَ) کا مطلب ہے مامور بہ کاموں میں حد سے تجاوز کرتے تھے۔ اطاعت و فرمانبرداری یہ ہے کہ مَنْهِيَّات سے باز رہا جائے اور مَأْمُورَات کو اس طرح بجا لایا جائے جس طرح ان کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعْتِدَاء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ البقرة
62 1-يَهُود هَوَادَةٌ (بمعنی محبت) سے یا تَهَوّدٌ (بمعنی توبہ) سے بنا ہے۔ گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ (عليہ السلام) کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے۔ 2- نَصَارَى، نَصْرَانٌ کی جمع ہے۔ جیسے سُكَارَى سَكْرَانُ کی جمع ہے۔ اس کا مادہ نصرت ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو کہا تھا: «نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ» حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے پیروکاروں کو نصاریٰ کہا جاتا ہے، جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔ 3- صَابِئِينَ صَابِئٌ کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقیناً ابتداءً کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے (اسی لئے قرآن میں یہودیت و عیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی، یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لا مذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔ 4- بعض جدید مفسرین کو اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے اور اس سے انہوں نے وحدت ادیان کا فلسفہ کشید کرنے کی مذموم سعی کی ہے۔ یعنی رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا اور اچھے عمل کرتا ہے، اس کی نجات ہوجائے گی، یہ فلسفہ سخت گمراہ کن ہے، آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح، کتاب الٰہی کے پیرو اور اپنے پیغمبر کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا؟ یا کیا معاملہ فرمائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ صرف یہودی ہی نہیں، نصاریٰ اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے، وہ سب نجات اخروی سے ہمکنار ہوں گے اور اسی طرح اب رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقیناً آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخرالزمان (ﷺ) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرھم۔ اس کی تائید بعض مرسل آثار سے ہوتی ہے، مثلاً مجاہد حضرت سلمان فارسی! سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (ﷺ) سے ان اہل دین کے بارے میں پوچھا جو میرے ساتھی تھے، عبادت گزار اور نمازی تھے (یعنی رسالت محمدیہ سے قبل وہ اپنے دین کے پابند تھے) تو اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا﴾۔ الآیۃ (ابن کثیر) قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے مثلاً ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلامُ﴾ (آل عمران: 19) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔ ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ﴾ (آل عمران: 85) جواسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا، وہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا اور احادیث میں بھی نبی (ﷺ) نے وضاحت فرمادی کہ اب میری رسالت پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کی نجات نہیں ہوسکتی، مثلاً فرمایا: [والَّذِي نَفْسِي بِيَدِه! لا يَسْمَعُ بِي رَجَلٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَّلا نَصْرَانِيٌّ ثُمّ لا يُؤْمِنُ بِي إِلا دَخَل النَّارَ] (صحيح مسلم ، كتاب الإيمان ، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد (ﷺ) ) ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ وحدت ادیان کی گمراہی، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت دخل ہے۔ اسی لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ البقرة
63 1-جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے ازراہ شرارت کہا کہ ہم سے تو ان احکام پر عمل نہیں ہوسکے گا تو اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کردیا، جس سے ڈر کرانہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ البقرة
64 البقرة
65 1-سَبْتٌ (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار، بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کرکے حکم الٰہی سےتجاوز کیا۔ ہفتے والے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں، انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں ان میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار والے دن ان کو پکڑ لیتے۔ البقرة
66 البقرة
67 1-بنی اسرائیل میں ایک لاولد مالدار آدمی تھا جس کا وارث صرف ایک بھتیجا تھا، ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کرکے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے لگے، بالآخربات حضرت موسیٰ (عليہ السلام) تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا، گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہوگیا اور قاتل کی نشاندہی کرکے مرگیا (فتح القدیر) البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 1-انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کردیتے تو حکم الٰہی پر عمل ہوجاتا، لیکن انہوں نے حکم الہیٰ پر سیدھے طریقے سے عمل کرنےکی بجائے، مین میخ نکالنا اور طرح طرح کے سوالات کرنے شروع کردیئے، جس پر اللہ تعالیٰ بھی ان پر سختی کرتا چلا گیا۔ اسی لئے دین میں تعمق اور سختی اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ البقرة
72 1-یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جس کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس قتل کا راز فاش کردیا، دراں حالیکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کرکیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو، اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت ہو یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کیا کرو تاکہ اگر وہ کسی وقت ظاہر ہوجائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو، بلکہ اس کے احترام ووقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے، اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت ورسوائی ہوتی ہے۔ البقرة
73 1-مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے استدلال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت کے دن دوبارہ مردوں کا زندہ ہونا، منکرین قیامت کے لئے ہمیشہ حیرت واستعجاب کا باعث رہا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف اسلوب اور پیرائے میں بیان فرمایا ہے سورہ بقرۂ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مثال: ﴿ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ﴾(البقرۂ :56) میں گزر چکی ہے۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے۔ تیسری مثال دوسرے پارے کی آیت نمبر 243 ﴿مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ﴾چوتھی آیت نمبر 259 ﴿فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ﴾اور پانچویں مثال اس کے بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے طیور اربعہ (چار چڑیوں) کی ہے۔ البقرة
74 1-یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا، دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر ”إِنَابَةٌ إِلَى اللهِ“ کا داعیہ اور توبہ واستغفار کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ دلوں کا سخت ہوجانا یہ افراد اور امتوں کے لئے سخت تباہ کن، اور اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلوں سے اثر پذیری کی صلاحیت سلب اور قبول حق کی استعداد ختم ہوگئی ہے، اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل فنا اور تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے: ﴿وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ (الحدید: 16) ”اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی، لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔“ 2- پتھروں کی سنگینی کے باوجود، ان سے جو جو فوائد حاصل ہوتے اور جو جو کیفیت ان پر گزرتی ہے، اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک واحساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل: 44) (مزید وضاحت کے لئے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 44 کا حاشیہ دیکھیے)۔ البقرة
75 1-اہل ایمان سے خطاب کرکے یہودیوں کی بابت کہا جارہا ہے کہ کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے، درآں حالیکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فریق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی میں جانتے بوجھتے تحریف (لفظی ومعنوی) کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے، یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعاً امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات، یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے، وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علما ومشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن وحدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ (دیکھیے سورۂ نساء آیت 77 کا حاشیہ) البقرة
76 1-یہ بعض یہودیوں کے منافقانہ کردار کی نقاب کشائی ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے، لیکن جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو اس بات پر ملامت کرتے کہ تم مسلمانوں کو اپنی کتاب کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جس سے رسول عربی کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس طرح تم خود ہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہو جو وہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کریں گے۔ البقرة
77 1-اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ یا نہ بتلاؤ، اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور وہ ان باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرماسکتا ہے۔ البقرة
78 1-یہ تو ان کے اہل علم کی باتیں تھیں۔ رہے ان کے ان پڑھ لوگ، وہ کتاب (تورات) سے تو بےخبر ہیں، لیکن وہ آرزوئیں ضرور رکھتے ہیں اور گمانوں پر ان کا گزارہ ہے، جس میں انہیں ان کے علما نے مبتلا کیا ہوا ہے، مثلاً ہم تو اللہ کے چہیتے ہیں۔ ہم جہنم میں اگر گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے اور ہمیں ہمارے بزرگ بخشوالیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جیسے کے آج کے جاہل مسلمانوں کو بھی علما ومشائخ نے ایسے ہی حسین جالوں اور پرفریب وعدوں میں پھنسا رکھا ہے۔ البقرة
79 1-یہ یہود کے علما کی جسارت اور خوف الٰہی سے بےنیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے (وَيْلٌ) جہنم میں ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔ (احمد، ترمذی، ابن حبان والحاکم بحوالۂ فتح القدیر) بعض علما نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے، لیکن یہ استدلال صحیح نہیں۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ البقرة
80 1-یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ سے عہد لیا ہے؟ یہ بھی استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ غلط کہتے ہیں اللہ کے ساتھ اس قسم کا کوئی عہد وپیمان نہیں ہے۔ 2- یعنی تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اگر جہنم میں گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سےہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نیک وبد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔ البقرة
81 البقرة
82 1-یہ یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے جنت وجہنم میں جانے کا اصول بیان کیا جارہا ہے۔ جس کے نامۂ اعمال میں برائیاں ہی برائیاں ہوں گی، یعنی کفر وشرک (کہ ان کے ارتکاب کی وجہ سے اگر بعض اچھے عمل بھی کئے ہوں گے تو وہ بھی بےحیثیت رہیں گے) تو وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہیں اور جو ایمان اور عمل صالح سے متصف ہوں گے وہ جنتی، اور جو مومن گناہ گار ہوں گے، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا، وہ چاہے گا تو اپنے فضل وکرم سے ان کے گناہ معاف فرما کر یا بطور سزا کچھ عرصہ جہنم میں رکھنے کے بعد یا نبی کی شفاعت سے ان کو جنت میں داخل فرما دے گا، جیسا کہ یہ باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ البقرة
83 البقرة
84 1-ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولاً صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے (جیسا کہ سورۂ الانبیاء آیت 25 اور دیگر آیات سے واضح ہے) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت وفرماں برداری اور ان کےساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے، اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے، اس کے بعد رشتے داروں، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے، اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے، جیسا کہ احادیث رسول (ﷺ) سے واضح ہے۔ اس عہد میں اقامت صلٰوۃ اور ایتائے زکٰوۃ کا بھی حکم ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں، حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے ا نکار، یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کے عہد خلافت میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔ البقرة
85 1-نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اسی طرح یہود مدینہ کے تین قبیلے تھے، بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنوقینقاع اور بنونضیر، خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں) کی مدد کرتے اور اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کولوٹتے، اور انہیں جلا وطن کردیتے۔ دراں حالیکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر ان ہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنالیا تھا، بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کردیتے، کسی حکم پر عمل کرلیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کوکوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مددکرنا، ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا تو انہوں نے بےمحابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑا لینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا۔ حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ البقرة
86 1-یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظرانداز کردینے کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت وسرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت ورسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت مقبول ہے جو مکمل ہو، بعض بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کرلینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت غوروفکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت ورسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مذکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے؟ البقرة
87 1-﴿وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ﴾ کے معنی ہیں کہ موسیٰ (عليہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں انبیاکا یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) پر ختم ہوگیا۔ ﴿بَيِّنَاتٌ﴾ سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو دیئے گئے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورۂ آل عمران (آیت 49) میں ہے۔ "رُوحُ الْقُدُسِ" سے مراد حضرت جبریل (عليہ السلام) ہیں، ان کو (روح القدس)اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے، جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو رُوحٌ کہا گیا ہے اور الْقُدُس سے ذات الٰہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے۔ ابن جریر نے اسی کو صحیح تر قرار دیا ہے، کیونکہ المائدۂ (آیت 10) میں (روح القدس) اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اس لئے (روح القدس) سے انجیل مراد نہیں ہوسکتی ایک اور آیت میں حضرت جبریل (عليہ السلام) کو ’’الرُّوحُ الأَمِينُ‘‘ فرمایا گیا ہے اور آنحضرت (ﷺ) نے حضرت حسان! کے متعلق فرمایا :[ اللَّهُمَّ! أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ]۔ ”اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے [ وَجِبْريلُ مَعَكَ ] ۔ ”جبریل (عليہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں۔“ معلوم ہوا کہ روح القدس سے مراد حضرت جبریل (عليہ السلام) ہی ہیں، (فتح البیان، ابن کثیر بحوالہ اشرف الحواشی) 2- جیسے حضرت محمد (ﷺ) اور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کو جھٹلایا اورحضرت زکریا ویحییٰ علیھماالسلام کو قتل کیا۔ البقرة
88 1-یعنی ہم پر اے محمد (ﷺ) تیری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر ہے: ﴿وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ﴾ (حٰم السجدۂ: 5) ”ہمارے دل اس دعوت سے پردے میں ہیں، جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔“ 2- دلوں پر حق بات کا اثر نہ کرنا، کوئی فخر کی بات نہیں۔ بلکہ یہ تو ملعون ہونے کی علامت ہے، پس ان کا ایمان بھی تھوڑا ہے (جو عنداللہ نامقبول ہے) یا ان میں ایمان لانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔ البقرة
89 1-﴿يَسْتَفْتِحُونَ﴾ کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہ یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے، یااللہ آخری نبی جلد مبعوث فرما، تاکہ اس سے مل کر ہم مشرکین پر غلبہ حاصل کریں یعنی ”اسْتِفْتَاحٌ“ بمعنی ”اسْتِنْصَارٍ“ ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ أَيْ: يُخْبِرُهُمْ بِأَنَّهُ سَيُبْعَثُ۔ یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ البقرة
90 1-یعنی اس بات کی معرفت کے بعد بھی، کہ حضرت محمد رسول (ﷺ) ، وہی آخری پیغمبر ہیں، جن کے اوصاف تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور جن کی وجہ سے ہی اہل کتاب ان کے ایک (نجات دہندہ) کے طور پر منتظر بھی تھے، لیکن ان پر محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے کہ نبی (ﷺ) ہماری نسل میں سے کیوں نہ ہوئے، جیسا کہ ہمارا گمان تھا، یعنی ان کا انکار دلائل پر نہیں، نسلی منافرت اور حسد وعناد پر مبنی تھا۔ 2- غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب۔ کیوں کہ بار بار وہ غضب والے کام کرتے رہے، جیسا کہ تفصیل گزری، اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد (ﷺ) کا انکار کیا۔ البقرة
91 1-یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 2- یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیا (عليہم السلام) کو تم قتل نہ کرتے، اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔ البقرة
92 1-یہ ان کے انکار اور عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) آیات واضحات اور دلائل قاطعہ اس بات کی لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن تم نے اس کے باوجود حضرت موسی (عليہ السلام) کو بھی تنگ کیا اور الٰہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنالیا۔ البقرة
93 1-یہ کفر وانکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کہ سن لیا، یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ نیت کہ ہم نے کون سا عمل کرنا ہے؟ 2- ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے، کہ انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ دوسرے، اس کو أُشْرِبُوا (پلادی گئی) سے تعبیر کیا گیا، کیوں کہ پانی انسان کے رگ وریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزراس طرح نہیں ہوتا۔ (فتح القدیر) 3- یعنی عصیان اور بچھڑے کی محبت وعبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں میں گھر کر چکا تھا۔ البقرة
94 البقرة
95 1-حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے، یعنی یہودیوں کو کہا گیا کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کرلو، یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں مل کر یہ عرض کریں کہ یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار کردے، یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجر ان کے عیسائیوں کو دعوت مباہلہ دی گئی تھی، جیسا کہ آل عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی، عیسائیوں کی طرح، جھوٹے تھے، اس لئے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) البقرة
96 1-موت کی آرزو تو کجا، یہ تو دنیوی زندگی کے تمام لوگوں حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں، لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے بچا نہیں سکے گی۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعوؤں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق صرف وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیوں کہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعوؤں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقیناً وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطی آشکارا ہوجاتی۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا اعراض اور گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کرلیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہوگا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لئے طے کر رکھا ہے۔ البقرة
97 1-احادیث میں ہے کہ چند یہودی علما نبی (ﷺ) کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ (ﷺ) نے ان کا صحیح جواب دے دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، کیوں کہ نبی کے علاوہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ جب آپ (ﷺ) نے ان کے سوالات کا صحیح جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ آپ (ﷺ) پر وحی کون لاتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : جبریل۔ یہود کہنے لگے : جبریل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو حرب وقتال اور عذاب لے کر اترتا رہا ہے۔ اور اسی بہانے سے آپ (ﷺ) کی نبوت ماننے سے انکار کردیا (ابن کثیر وفتح القدیر) البقرة
98 1-یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے۔ حدیث میں ہے: [ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْحَرْبِ ] ۔(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع) ”جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا ہے“، گویا اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض وعناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ یونس، آیت62-63 ، لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں پر گنبد اور قبے بنائے جائیں، ان کی قبروں پر سالانہ عرس کے نام پر میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا جائے، ان کے نام کی نذرونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ، جیسا کہ بدقسمتی سے ”اولیاء اللہ کی محبت“ کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے۔ حالانکہ یہ ”محبت“ نہیں ہے، ان کی عبادت ہے، جو شرک اور ظلم عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فتنۂ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔ البقرة
99 البقرة
100 البقرة
101 1-اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ہم نے آپ (ﷺ) کو بہت سی آیات بینات عطا کی ہیں، جن کو دیکھ کر یہود کو بھی ایمان لے آنا چاہیئے تھا۔ علاوہ ازیں خود ان کی کتاب تورات میں بھی آپ (ﷺ) کے اوصاف کا ذکر اور آپ (ﷺ) پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے، لیکن انہوں نے پہلے بھی کسی عہد کی کب پروا کی ہے جو اس عہد کی وہ کریں گے؟ عہد شکنی ان کے ایک گروہ کی ہمیشہ عادت رہی ہے۔ حتیٰ کہ اللہ کی کتاب کو بھی اس طرح پس پشت ڈال دیا، جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔ البقرة
102 1-یعنی ان یہودیوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی تو کوئی پروا نہیں کی، البتہ شیطان کے پیچھے لگ کر نہ صرف جادو ٹونے پر عمل کرتے رہے، بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) بھی (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے ہی حکومت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حضرت سلیمان (عليہ السلام) جادو کا عمل نہیں کرتے تھے، کیوں کہ عمل سحر تو کفر ہے، اس کفر کا ارتکاب حضرت سلیمان (عليہ السلام) کیوں کر سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے زمانے میں جادوگری کا سلسلہ بہت عام ہوگیا تھا، حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے اس کے سدباب کے لئے جادو کی کتابیں لے کر اپنی کرسی یا تخت کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی وفات کے بعد ان شیاطین اور جادوگروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا ، بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی قوت واقتدار کا راز یہی جادو کا عمل تھا اور اسی بنا پر ان ظالموں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی کافر قرار دیا، جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے فرمائی (ابن کثیر۔ وغیرہ) واللہ اعلم۔ 2- بعض مفسرین نے ﴿وَمَا أُنْزِلَ﴾ میں ’’ما‘‘ نافیہ مراد لیا ہے اور ہاروت وماروت پر کسی چیز کے اترنے کی نفی کی ہے، لیکن قرآن کریم کا سیاق اس کی تائید نہیں کرتا۔ اسی لئے ابن جریر وغیرہ نے اس کی تردید کی ہے (ابن کثیر) اسی طرح ہاروت وماروت کے بارے میں بھی تفاسیر میں اسرائیلی روایات کی بھرمار ہے۔ لیکن کوئی صحیح مرفوع روایت اس بارے میں ثابت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تفصیل کے نہایت اختصار کےساتھ یہ واقعہ بیان کیا ہے، ہمیں صرف اس پر اور اسی حد تک ایمان رکھنا چاہیے (تفسیر ابن کثیر) قرآن کے الفاظ سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بابل میں ہاروت وماروت فرشتوں پر جادو کا علم نازل فرمایا تھا اور اس کا مقصد "واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ" یہ معلوم ہوتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ انبیا (عليہم السلام)کے ہاتھوں پر ظاہر شدہ معجزے، جادو سے مختلف چیز ہے اور جادو یہ ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا کیا گیا ہے (اس دور میں جادو عام ہونے کی وجہ سے لوگ انبیا کو بھی نعوذ باللہ جادوگر اور شعبدہ باز سمجھنے لگے تھے) اسی مغالطے سے لوگوں کو بچانے کے لئے اور بطور امتحان فرشتوں کو نازل فرمایا گیا۔ - دوسرا مقصد بنواسرائیل کی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی معلوم ہوتا ہے کہ بنواسرائیل کس طرح جادو سیکھنے کے لئے ان فرشتوں کے پیچھے پڑے اور یہ بتلانے کے باوجود کہ جادو کفر ہے اور ہم آزمائش کے لئے آئے ہیں، وہ علم سحر حاصل کرنے کے لئے ٹوٹے پڑ رہے تھے جس سے ان کا مقصد ہنستے بستے گھروں کو اجاڑنا اور میاں بیوی کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنا تھا۔ یعنی یہ ان کے گراوٹ ، بگاڑ اور فساد کے سلسلے کی اہم کڑی تھی اور اس طرح کے توہمات اور اخلاقی گراوٹ کسی قوم کی انتہائی بگاڑ کی علامت ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ 3- یہ ایسے ہی ہے جیسے باطل کی تردید کے لئے، باطل مذاہب کا علم کسی استاذ سے حاصل کیا جائے، استاذ شاگرد کو اس یقین دہانی پر باطل مذہب کا علم سکھائے کہ وہ اس کی تردید کرے گا۔ لیکن علم حاصل کرنے کے بعد وہ خود بدمذہب ہوجائے، یا اس کا غلط استعمال کرے تو استاذ اس میں قصوروار نہیں ہوگا۔ 4- أَيْ: إِنَّمَا نَحْنُ ابْتِلاءٌ وَاخْتِبَارٌ مِنَ اللهِ لِعِبادِهِ۔ ”ہم اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آزمائش ہیں۔“ (فتح القدیر)۔ 5- یہ جادو بھی اس وقت تک کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک اللہ کی مشیت اور اس کا اذن نہ ہو۔ اس لئے اس کے سیکھنے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جادو کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کو کفر قرار دیا ہے، ہر قسم کی خیر کی طلب اور ضرر کے دفع کے لئے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیا جائے، کیوں کہ وہی ہر چیز کا خالق ہے اور کائنات میں ہر کام اسی کی مشیت سے ہوتا ہے۔ البقرة
103 البقرة
104 1-رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجیئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کرکے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض وعناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہوجاتی، مثلاً وہ کہتے ”رَاعِينَا“ (ہمارے چرواہے) یا ”رَاعِنَا“ (احمق) وغیرہ، جیسے وہ ”السَّلامُ عَلَيْكُمْ“ کی بجائے”السَّامُ عَلَيْكُمْ“ (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم ”انْظُرْنَا“ کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ، جن میں تنقیص واہانت کا شائبہ ہو، ادب واحترام کے پیش نظر اور سد ذریعہ کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال واقوال میں مشابہت اختیار کرنے سے بچا جائے، تاکہ مسلمان [ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ]، (أبو داود، كتاب اللباس، باب في لبس الشهرة: وقال الألباني هذا إسناد حسن، بحواله حجاب المرأة ص104) ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ ان ہی میں شمار ہوگا“۔ کی وعید میں داخل نہ ہوں۔ البقرة
105 البقرة
106 البقرة
107 1-نسخ کے لغوی معنی تو نقل کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم کو بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں۔ یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے۔ جیسے آدم (عليہ السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائیوں کا آپس میں نکاح جائز تھا، بعد میں اسے حرام کردیا گیا، وغیرہ اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ”الفوزالکبیر“ میں ان کی تعداد صرف پانچ بیان کی ہے۔ یہ نسخ تین قسم کا ہے۔ ایک تو مطلقاً نسخ حکم یعنی ایک کو بدل کر دوسرا حکم نازل کردیا گیا۔ دوسرا ہے نسخ مع التلاوۂ۔ یعنی پہلے حکم کے الفاظ قرآن مجید میں موجود رکھے گئے ہیں، ان کی تلاوت ہوتی ہے لیکن دوسرا حکم بھی، جو بعد میں نازل کیا گیا، قرآن میں موجود ہے، یعنی ناسخ اور منسوخ دونوں آیات موجود ہیں۔ نسخ کی ایک تیسری قسم یہ ہے کہ ان کی تلاوت منسوخ کردی گئی۔ یعنی قرآن کریم میں نبی (ﷺ) نے انہیں شامل نہیں فرمایا، لیکن ان کا حکم باقی رکھا گیا۔ جیسے [ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ ]۔ (موطا امام مالک) ”شادی شدہ مرد اور عورت اگر زنا کا ارتکاب کریں تو یقیناً انہیں سنگسار کردیا جائے۔“ اس آیت میں نسخ کی پہلی دو قسموں کا بیان ہے ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ﴾ میں دوسری قسم اور ﴿أَوْ نُنْسِهَا﴾ میں پہلی قسم۔ ﴿نُنْسِهَا﴾ ”ہم بھلوادیتے ہیں“ کا مطلب ہے کہ اس کا حکم اور تلاوت دونوں اٹھا لیتے ہیں۔ گویا کہ ہم نے اسے بھلا دیا اور نیا حکم نازل کردیا۔ یا نبی (ﷺ) کے قلب سے ہی ہم نے اسے مٹا دیا اور اسے نسیاً منسیا کردیا گیا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا کہ زمین وآسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت وحکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کردے۔ یہ اس کی قدرت ہی کا ایک مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلاً ابومسلم اصفہانی معتزلی) اور آج کل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا ہے۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مذکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سلف صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔ البقرة
108 1-مسلمانوں (صحابہ رضی الله عنہم) کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر (ﷺ) سے از راہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشۂ کفر ہے۔ البقرة
109 البقرة
110 1-یہودیوں کو اسلام اور نبی (ﷺ) سے جو حسد اور عناد تھا اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دین اسلام سےپھیرنے کی مذموم سعی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو کہا جارہا ہے کہ تم صبر اور درگزر سے کام لیتے ہوئے، ان احکام وفرائض اسلام کو بجا لاتے رہو، جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ البقرة
111 1-یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جارہا ہے جس میں وہ مبتلاتھے۔ اللہ تعالی نے فرمایا : یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ البقرة
112 1- ﴿أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ﴾ کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور﴿وَهُوَ مُحْسِنٌ﴾ کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخرالزمان (ﷺ) کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی ان ہی اصولوں کے مطابق کئےگئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے، نہ کہ محض آرزوؤں پر۔ البقرة
113 1-یہودی تورات پڑھتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان سے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی تصدیق موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہودی حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی تکفیر کرتے تھے۔ عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) اور تورات کے مِنْ عِنْدِ اللهِ ہونے کی تصدیق ہے، اس کے باوجود یہ یہودیوں کی تکفیر کرتے ہیں، یہ گویا اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے کفروعناد اور اپنے اپنے بارےمیں خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کو ظاہر کیا جارہا ہے۔ 2- اہل کتاب کے مقابلے میں عرب کے مشرکین ان پڑھ (أُمِّيِّينَ) تھے، اس لئے انہیں بےعلم کہا گیا، لیکن وہ بھی مشرک ہونے کے باوجود یہود ونصاریٰ کی طرح، اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ وہی حق پر ہیں۔ اسی لئے وہ نبی (ﷺ) کو صابی یعنی بےدین کہا کرتے تھے۔ البقرة
114 1-جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں : ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا او ر اس کی تخریب میں حصہ لیا۔ ابن جریر طبری نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا ہے، جنہوں نے ایک تو نبی (ﷺ) اورآپ (ﷺ) کے صحابہ (رضی الله عنہم) کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آبا واجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ 2- تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے کہ اسےڈھا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔ 3- یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں تمکن اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا، چنانچہ جب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی (ﷺ) نے اعلان فرما دیا کہ آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدے کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا ہے کہ یہ خوشخبری اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوجائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں گے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر پہلے زیادتیاں کی ہیں، ان کے بدلے میں ہمیں سزا سے دوچار یا قتل نہ کردیا جائے۔ چنانچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہوگئی۔ البقرة
115 1-ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں اس وقت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے، پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہوجاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لئے ایک ہی آیت نازل ہوجاتی ہے۔ ایسی آیتوں کے شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے (ملخص از احسن التفاسیر)۔ البقرة
116 البقرة
117 1-یعنی وہ اللہ تو وہ ہے کہ آسمان وزمین کی ہر چیز کا وہ مالک ہے، ہر چیز اس کی فرماں بردار ہے، بلکہ آسمان وزمین کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لئے اسے صرف لفظ کن کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟۔ البقرة
118 1-اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی کیوں نہیں دکھا دیتا؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہوجائیں جس طرح کہ سورۂ بنی اسرائیل (آیت 90 تا 93) میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ 2- یعنی مشرکین عرب کے دل، کفروعناد اور انکار وسرکشی میں اپنے ماقبل کے لوگوں کے دلوں کے مشابہ ہوگئے۔ جیسے سورۂ ذاریات میں فرمایا گیا : ﴿كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ﴾۔ ”ان سے پہلے جو بھی رسول آیا، اس کو لوگوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کوو صیت کرجاتے تھے؟ نہیں یہ سب سرکش لوگ ہیں۔“ یعنی قدر مشترک ان سب میں سرکشی کا جذبہ ہے، اس لئے داعیان حق کے سامنے نئے نئے مطالبے رکھتے ہیں، یا انہیں دیوانہ گردانتے ہیں۔ البقرة
119 البقرة
120 1-یعنی یہودیت یا نصرانیت اختیار کرلے۔ 2- جواب اسلام کی صورت میں ہے، جس کی طرف نبی کریم (ﷺ) دعوت دے رہے ہیں، نہ کہ تحریف شدہ یہودیت ونصرانیت۔ 3- یہ اس بات پر وعید ہے کہ علم آجانے کے بعد بھی اگر محض ان برخود غلط لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی پیروی کی تو تیرا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ دراصل امت محمدیہ کو تعلیم دی جارہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لئے وہ بھی ایسا کام نہ کریں، نہ دین میں مداہنت اور بےجا تاویل کا ارتکاب کریں۔ البقرة
121 1-اہل کتاب کے ناخلف لوگوں کے مذموم اخلاق وکردار کی ضروری تفصیل کے بعد ان میں جو لوگ کچھ صالح اور اچھے کردار کے تھے، اس آیت میں ان کی خوبیاں، اور ان کے مومن ہونے کی خبر دی جارہی ہے۔ ان میں عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) اور ان جیسے دیگر افراد ہیں، جن کو یہودیوں میں سے قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔ 2- (وہ اس طرح پڑھتے ہیں، جس طرح پڑھنے کا حق ہے)۔ کے کئی مطلب بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں۔ جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے دوسرے یہودی کرتے تھے)۔ اس میں جو کچھ تحریر ہے، لوگوں کو بتلاتے ہیں، اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں۔ اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے، متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، انہیں علما سے حل کراتے ہیں اس کی ایک ایک بات کا اتباع کرتے ہیں (فتح القدیر) واقعہ یہ ہے کہ حق تلاوت میں یہ سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مذکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ 3- اہل کتاب میں سے جو نبی (ﷺ) کی رسالت پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں جائے گا۔ كَمَا فِي الصَّحِيحِ (ابن کثیر) البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 1-کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت، نارنمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب وکامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی عیسائی حتیٰ کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی اور سمجھی جاتی ہے۔ 2- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہی ہے: ﴿وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ﴾۔ (العنکبوت: 27) ”ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کردیا۔“ پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم (عليہ السلام) کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا۔ (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ (میرا وعدہ ظالموں سے نہیں) اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود، اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم ومشرک ہوں گے، ان کی شقاوت ومحرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی ہے۔ اگر ایمان وعمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے : ]مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه ] (صحيح مسلم ، كتاب الذكر والدعاء ... باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ...) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔“ البقرة
125 1-حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائیں : ایک ﴿مَثَابَةً لِلنَّاسِ﴾ ”لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ“ دوسرے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ۔ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بےقرار رہتا ہے۔ یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی، بلکہ روزافزوں رہتا ہے۔ دوسری خصوصیت (امن کی جگہ) یعنی یہاں کسی دشمن کا بھی خوف نہیں رہتا چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے اس احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ 2- مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) تعمیر کعبہ کرتے رہے۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے قدم کے نشانات ہیں۔ اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے، جسے ہر حاجی ومعتمر طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾۔ البقرة
126 1-اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی یہ دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی غیر ذی زرع (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت وتعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ البقرة
127 البقرة
128 البقرة
129 1-یہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول (ﷺ) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔“ (الفتح الربانی، ج 20،ص181،189) 2- کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کے بعد تعلیم کتاب وحکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر وثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم ومطلب بھی سمجھ میں آتا جائے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ ومطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفاہیم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ 3- تلاوت وتعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ (ﷺ) کی بعثت کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک وتوہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق وکردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔ البقرة
130 1-عربی زبان میں ”رَغِبَ“ کا صلہ ”عَنْ“ ہو تو اس کے معنی بےرغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی وہ عظمت وفضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت میں عطا فرمائی ہے اور یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بےرغبتی بےوقوفوں کا کام ہے، کسی عقل مند سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ البقرة
131 1-یہ فضیلت وبرگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اطاعت وفرمانبرداری کا بےمثال نمونہ پیش کیا۔ البقرة
132 1-حضرت ابراہیم (عليہ السلام) وحضرت یعقوب (عليہ السلام) نے الدِّينَ کی وصیت اپنی اولاد کو فرمائی جو یہودیت نہیں اسلام ہی ہے، جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت موجود ہے اور قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی اس کی تفصیل آئے گی۔ جیسے ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلامُ﴾ (آل عمران: 19) وغیرہ ”اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔“ البقرة
133 1-یہود کو زجروتوبیخ کی جارہی ہے کہ تم جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم ویعقوب (علیھما السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ کذب وزور اور بہتان ہوا اور اگر یہ کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مذکورہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا، کیوں کہ انہوں نے جو وصیت کی، وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت، یاعیسائیت یا وثنیت کی۔ تمام انبیا کا دین اسلام ہی تھا، اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے۔ اس کو نبی (ﷺ) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: [ الأَنْبِيَاءُ أَوْلادُ عَلاَّتٍ، أُمُّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِد ] (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء، باب ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا ﴾) ”انبیا کی جماعت اولاد علات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔“ البقرة
134 1-یہ بھی یہود کو کہا جارہا ہے کہ تمہارے آباواجداد میں جو انبیا وصالحین ہو گزرے ہیں، ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا، تمہیں نہیں، تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلاف کی نیکیوں پر اعتماد اور سہارا غلط ہے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایہ تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ البقرة
135 1-یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسائیت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (یعنی الٰہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) اور وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی آمیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں، اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن وحدیث میں محفوظ ہیں، جن میں توحید کا تصور بالکل بےغبار اور نہایت واضح ہے، جس سے یہودیت، عیسائیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال وعقائد میں جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں، اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیوں کہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن وحدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔ البقرة
136 1-یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیا (عليہم السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو جو کچھ بھی ملا،یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کا ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیا کے درمیان تفریق ہے جس کو اسلام نے جائز نہیں رکھا ہے۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیوں کہ ایک تووہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کردیا ہے۔ البقرة
137 1-صحابہ کرام (رضی الله عنہم) بھی اسی مذکورہ طریقے پر ایمان لائے تھے، اس لئے صحابہ (رضی الله عنہم) کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح اے صحابہ (رضی الله عنہم) ! تم ایمان لائے ہو تو پھر یقیناً وہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ اگر وہ ضد اور اختلاف میں منہ موڑیں گے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرنے والا ہے۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی یہ وعدہ پورا ہوا اور بنوقینقاع اور بنونضیر کو جلاوطن کردیا گیا اور بنوقریظہ قتل کئے گئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمان (رضی الله عنہ) کی شہادت کے وقت ایک مصحف عثمان ان کی اپنی گود میں تھا اور اس آیت کے جملہ ﴿فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ﴾ پر ان کے خون کے چھینٹے گرے بلکہ دھار بھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مصحف آج بھی ترکی میں موجود ہے۔ البقرة
138 1-عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جس کو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے، اس رسم کا نام ان کے ہاں (بپتسمہ) ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا کہ اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے، اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے، جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔ البقرة
139 1-کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص ونیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اس کے اوامر کا اتباع اور زواجر سے اجتناب کرتے ہیں، حالانکہ وہ ہمارا رب ہی نہیں، تمہارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے توتمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے اخلاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ البقرة
140 1-تم کہتے ہو کہ یہ انبیا اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ اس کی نفی فرماتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ زیادہ علم اللہ کو ہے یا تمہیں؟ 2- تمہیں معلوم ہے کہ یہ انبیا یہودی یا عیسائی نہیں تھے، اسی طرح تمہاری کتابوں میں آنحضرت (ﷺ) کی نشانیاں بھی موجود ہیں، لیکن تم ان شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سےمخفی نہیں۔ البقرة
141 1-اس آیت میں پھر کسب وعمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف انتساب یا ان پر اعتماد کو بےفائدہ قرار دیا گیا۔ کیوں کہ [ مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه ] (صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔“ مطلب ہے کہ اسلاف کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا، بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (فاطر۔ 18) ﴿وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى﴾ (النجم۔39) ”کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی سعی اس نے کی۔“ البقرة
142 1-جب آنحضرت (ﷺ) مکے سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ، مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، درآں حالیکہ آپ (ﷺ) کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے جو قبلہء ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھاتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دے دیا، جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچا دیا، حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے، اس طرح کرنے کا وہ پابند ہوتا ہے، اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا، اس طرف پھر جانا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق، مغرب ساری جہتیں اسی کی ہیں، اس لئے جہتوں کی کوئی اہمیت نہیں، ہر جہت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس جہت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل قبلہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی۔ البقرة
143 1- ﴿وَسَطٌ﴾ کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں، لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں اسی معنی میں اس کا استعمال ہوا ہے،یعنی جس طرح تمہیں سب سے بہتر قبلہ عطاکیاگیا ہے، اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے ﴿لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (سورۂ الحج۔78) ”رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔“ اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے ہاں محمد (ﷺ) اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ اس لئے اس کا ترجمہ عادل بھی کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ایک معنی وسط کے اعتدال کے بھی کئے گئے ہیں۔ یعنی امت معتدل یعنی افراط وتفریط سے پاک۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے اعتبار سے ہے کہ اس میں اعتدال ہے، افراط وتفریط نہیں۔ 2- یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، مومنین صادقین تو رسول اللہ (ﷺ) کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہا کرتے تھے، اس لئے ان کے تو ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع ہی میں اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ یہ مسجد قبلتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا۔ ﴿لِنَعْلَمَ﴾ ”تاکہ ہم جان لیں“ اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا، اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنےبھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں (فتح القدیر) 3- بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ (رضی الله عنہم) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے، یا ہم جتنے عرصے اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں،یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی، تمہیں پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ بھی واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔ البقرة
144 1-اہل کتاب کے مختلف صحیفوں میں خانہ کعبہ کے قبلۂ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور وحسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔ البقرة
145 1-کیوں کہ یہود کی مخالفت تو حسد وعناد کی بنا پر ہے، اس لئے دلائل کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ گویا اثرپذیری کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل صاف ہو۔ 2- کیوں کہ آپ (ﷺ) وحی الٰہی کے پابند ہیں، جب تک آپ (ﷺ) کو اللہ کی طرف سے ایسا حکم نہ ملے آپ ان کے قبلے کو کیوں کر اختیار کرسکتے ہیں۔ 3- یہود کا قبلہ صخرۂ بیت المقدس اور عیسائیوں کا بیت المقدس کی شرقی جانب ہے۔ جب اہل کتاب کے یہ دو گروہ بھی ایک قبلے پر متفق نہیں تو مسلمانوں سے کیوں یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ان کی موافقت کریں گے۔ 4- یہ وعید پہلے بھی گزرچکی ہے، مقصد امت کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن وحدیث کے علم کے باوجود اہل بدعت کے پیچھے لگنا، ظلم اور گمراہی ہے۔ البقرة
146 1-یہاں اہل کتاب کے ایک فریق کو حق کے چھپانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ ان میں ایک فریق عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) جیسے لوگوں کا بھی تھا جو اپنے صدق وصفائے باطنی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوا۔ البقرة
147 1-پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو بھی حکم اترتا ہے، وہ یقیناً حق ہے، اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ البقرة
148 1-یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک منہاج اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے: ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ﴾ [المائدة: 48]. یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستےیعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سلب اختیارات کے بغیر ممکن نہ تھا اور اختیار دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اےمسلمانو! تم تو خیرات کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو اور یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول (ﷺ) ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر اہل ادیان محروم ہیں۔ البقرة
149 البقرة
150 1-قبلہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم تین مرتبہ دہرایا گیا ہے، یا تو اس کی تاکید اور اہمیت واضح کرنے کے لئے، یا یہ چوں کہ نسخ حکم کا پہلا تجربہ تھا، اس لئے ذہنی خلجان دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے بار بار دہرا کر دلوں میں راسخ کردیا جائے، یا تعدد علت کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ ایک علت نبی (ﷺ) کی مرضی اور خواہش تھی، وہاں اسے بیان کیا۔ دوسری علت، ہر اہل ملت اور صاحب دعوت کے لئے ایک مستقل مرکز کا وجود ہے، وہاں اسے دہرایا۔ تیسری، علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے، وہاں اسے بیان کیا گیا ہے (فتح القدیر) 2- یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں کہ ہماری کتابوں میں تو ان کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور نماز یہ بیت المقدس کی طرف پڑھتے ہیں۔ 3- یہاں﴿ظَلَمُوا﴾ سے مراد معاندین (عنادرکھنے والے) ہیں یعنی اہل کتب میں سے جو معاندین ہیں، وہ یہ جاننے کے باوجود کہ پیغمبر آخرالزماں (ﷺ) کا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہوگا، وہ بطور عناد کہیں گے کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ بنا کر یہ پیغمبر (ﷺ) بالآخر اپنے آبائی دین ہی کی طرف مائل ہوگیا ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ 4- ظالموں سے نہ ڈرو۔ یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا مت کرو۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد ( (ﷺ) ) نے ہمارا قبلہ تو اختیار کرلیا ہے، عنقریب ہمارا دین بھی اپنا لیں گے۔ (مجھ ہی سے ڈرتے رہو)۔ جو حکم میں دیتا رہوں، اس پر بلاخوف عمل کرتے رہو۔ تحویل قبلہ کو اتمام نعمت اور ہدایت یافتگی سے تعبیر فرمایا کہ حکم الٰہی پر عمل کرنا یقیناً انسان کو انعام واکرام کا مستحق بھی بناتا ہے اور ہدایت کی توفیق بھی اسے نصیب ہوتی ہے۔ البقرة
151 1-كما (جس طرح) کا تعلق ماقبل کلام سے ہے، یعنی یہ اتمام نعمت اور توفیق ہدایت تمہیں اس طرح ملی جس طرح اس سے پہلے تمہارے اندر تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارا تزکیہ کرتا، کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا اور جن کا تمہیں علم نہیں، وہ سکھلاتا ہے۔ البقرة
152 1-پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح، تہلیل اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکرگزاری (کفران نعمت) ہے۔ شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ (ابراھیم: 7)۔ البقرة
153 1-انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں : آرام وراحت (نعمت) یا تکلیف وپریشانی۔ نعمت میں شکر الٰہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے استعانت کی تاکید ہے۔ حدیث میں ہے مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں (صحيح مسلم ، كتاب الزهد والرقائق ، باب المؤمن أمره كله خير حدیث 2999) صبر کی دو قسمیں ہیں : ایک محرمات اور معاصی کے ترک اور اس سے بچنے پر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا، احکام الٰہیہ کے بجا لانے میں جو مشقتیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر وضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پرعمل کرنا چاہے وہ نفس وبدن پر کتنی ہی گراں اور اللہ کی ناپسندیدہ باتوں سے بچنا، چاہے خواہشات ولذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھینچیں۔ (ابن کثیر)۔ البقرة
154 1-شہدا کو مردہ نہ کہنا، ان کے اعزاز وتکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ زندگی علیٰ قدر مراتب انبیا ومومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کے جوف (یا سینہ) میں جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں (ابن کثیر، نیز دیکھیے آل عمران۔ 169) البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 1-ان آیات میں صبر کرنے والوں کے لئے خوش خبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت [ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ] کے ساتھ [ اللَّهُمَّ آجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِّنْهَا ] پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الجنائز باب ما يقال عند المصيبة، حديث 918 )۔ البقرة
158 1-شَعَائِرُ شَعِيرَةٌ کی جمع ہے، جس کے معنی علامت کے ہیں، یہاں حج کے وہ مناسک (مثلاً موقف، سعی، منحر، ہدی (قربانی) کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ 2- صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (کوئی گناہ نہیں) سے بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کو یہ شبہ ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے علم مین جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: اگر اس کا یہ مطلب ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: ﴿فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهمَا﴾ ”اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں“ پھر اس کی شان نزول بیان فرمائی کہ انصار قبول اسلام سے قبل مناۂ طاغیہ (بت) کے نام کا تلبیہ پکارتے، جس کی وہ مشلل پہاڑی پر عبادت کرتے تھے اور پھر مکہ پہنچ کر ایسے لوگ صفا مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی گناہ نہیں۔ (صحيح بخاري، كتاب الحج باب وجوب الصفا والمروة) بعض حضرات نے اس کا پس منظر اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جاہلیت میں مشرکوں نے صفا پہاڑی پر ایک بت (اساف) مروہ پہاڑی پر نائلہ بت رکھا ہوا تھا، جنہیں وہ سعی کے دوران بوسہ دیتے یا چھوتے۔ جب مسلمان ہوئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیوں کہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسر التفاسیر)۔ البقرة
159 1-اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں، انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : [ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ، أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ ] (أبو داود ، كتاب العلم باب كراهية منع العلم ، وسنن ترمذي حديث 651 وقال حديث حسن) ”جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔“ البقرة
160 البقرة
161 1-اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، ان پر لعنت جائز ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ نصوح کرلی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا۔ البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے، ان کے مرتکبین کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں، ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پاسکتے ہیں۔ البقرة
162 البقرة
163 1-اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا : ﴿أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ (سورة ص: 5) ”کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے!۔“ اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کئے جارہے ہیں۔ البقرة
164 *یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم وتدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی اور آیت میں نہیں۔ 1- آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت وعظمت محتاج بیان ہی نہیں۔ 2- رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہوسکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ 3- سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق وآسائش بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ 4- بارش جو زمین کی شادابی وروئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ 5- ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل وحمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ 6- ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی، گرم بھی، بارآور بھی اورغیربارآور بھی، شرقی غربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ 7-بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے؟ یقیناً کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم وتدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ البقرة
165 1-مذکورہ دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اس کا شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے کرنی چاہیے، بعثت محمدی کے وقت ہی ایسا نہیں تھا، شرک کے یہ مظاہر آج بھی عام ہیں، بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کر گئی ہے، انہوں نے بھی نہ صرف غیر اللہ اور پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماویٰ وملجا اور قبلۂ حاجات بنا رکھا ہے، بلکہ ان سے ان کی محبت، اللہ سے بھی زیادہ ہے اور توحید کا وعظ ان کو بھی اسی طرح کھلتا ہے جس طرح مشرکین مکہ کو اس سے تکلیفیں ہوتی تھی، جس کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے : ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ (سورة الزمر:45) ”اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ان کے دل سکڑ جاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں۔“ ﴿اشْمَأزَّتْ﴾، دلوں کا تنگ ہونا۔ 2- تاہم اہل ایمان کو مشرکین کے برعکس اللہ تعالیٰ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ مشرکین جب سمندر وغیرہ میں پھنس جاتے ہیں تووہاں انہیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ ﴿فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (العنكبوت: 65) ﴿وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (لقمان:32) ﴿وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (يونس: 22) ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین سخت مصیبت میں مدد کے لئے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ البقرة
166 البقرة
167 1-آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بےبسی اور بےوفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کرلیں۔ البقرة
168 1-یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا کہ اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں وہ حرام کرلیتے تھے، جس کی تفصیل سورۂ الانعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”میں نے اپنے بندوں کو حنیف ( حق کے لیے یکسو) پیدا کیا، پس شیطانوں نے ان کو ان کے دین سے گمراہ کردیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں، وہ اس نے ان پر حرام کردیں۔“ (صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها ، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار) البقرة
169 البقرة
170 1-آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباواجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباواجداد بھی دینی بصیرت سے بےبہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں، اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباپرستی یا اپنے ائمہ وعلما کی اتباع غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔ البقرة
171 1-ان کافروں کی مثال جنہوں نے تقلید آبا میں اپنی عقل وفہم کو معطل کر رکھا ہے، ان جانوروں کی طرح ہے جن کو چرواہا بلاتا اور پکارتا ہے وہ جانور آواز تو سنتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جارہا ہے؟ اسی طرح یہ مقلدین بھی بہرے ہیں کہ حق کی آواز نہیں سنتے، گونگے ہیں کہ حق ان کی زبان سےنہیں نکلتا، اندھے ہیں کہ حق کے دیکھنے سے عاجز ہیں اور بےعقل ہیں کہ دعوت حق اور دعوت توحید وسنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں دعا سے قریب کی آواز اور ندا سے دور کی آواز مراد ہے۔ البقرة
172 1-اس میں اہل ایمان کو ان تمام پاکیزہ چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیب ہیں، حرام کردہ اشیا پاک نہیں، چاہے وہ نفس کو کتنی ہی مرغوب ہوں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا مرغوب ہے) دوسرایہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کرلیتے تھے (جس کی تفصیل سورۂ الانعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی، تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے) ، تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔ البقرة
173 1-اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے، لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں، جب کہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں حرام ہیں، اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے، یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی، حرام قرار دے لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں، حرام تو صرف یہ یہ ہیں۔ اس لئے حصر اضافی ہے، یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرے، حدیث میں دو اصول، جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے، بیان کردیئے گئے ہیں، وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں درندوں میں ذو ناب (وہ درندہ جو کچلیوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں، تیسرے، جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے، مثلاً گدھا، کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں، جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے، نہ کہ حدیث کو نظرانداز کرکے، صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد ہر وہ حلال جانور ہے، جو بغیر ذبح کئے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل سورۂ المائدہ میں ہے) مرگیا ہو۔ یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً گلا گھونٹ دیا جائے، یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے، یا جس طرح آج کل مشینی ذبح کا طریقہ ہے جس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے۔ البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں۔ ایک مچھلی، دوسری ٹڈی، وہ اس حکم میتہ سے مستثنیٰ ہیں۔ خون سے مراد دم مسفوح ہے۔ یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے۔ گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے۔ یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں : کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت، یہ بےغیرتی میں بدترین جانور ہے، اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ﴿وَمَا أُهِلَّ﴾ وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیراللہ کے نام پر پکارا جائے۔ اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے جائیں۔ جیسے مشرکین عرب لات وعزیٰ وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے، یا آگ کے نام پر، جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت، ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے، قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں، یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلاً داتا صاحب کی نیاز کے لئے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں) ، ان جانوروں کو، چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے، یہ حرام ہی ہوں گے۔ کیوں کہ اس سے مقصود، رضائے الہیٰ نہیں، رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ، یا خوف یا رجاء من غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے ڈر یا امید) ہے، جو شرک ہے۔ اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیا بھی غیر اللہ کے نام پر نذر نیاز اور چڑھاوے کی ہوں گی، حرام ہوں گی، جیسے قبروں پر لے جاکر یا وہاں سےخرید کر، قبور کے ارد گرد فقرا، ومساکین پر دیگوں اور لنگروں کی، یا مٹھائی اور پیسوں وغیرہ کی تقسیم، یا وہاں صندوقچی میں نذرنیاز کے پیسے ڈالنا، یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا، یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں، کیوں کہ یہ سب غیر اللہ کی نذرونیاز کی صورت ہیں اور نذر بھی . نماز، روزہ وغیرہ عبادات کی طرح، ایک عبادت ہے، اور عبادت کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ اسی لئے حدیث میں ہے : [ مَلْعُونٌ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ ] (صحيح الجامع الصغير وزيادته ألباني . جص) ”جس نے غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا، وہ ملعون ہے۔“ تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشاپوری ہے; ”أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ لَوْ أَنَّ مُسْلِمًا ذَبَحَ ذَبِيحَةً، يُرِيدُ بِذَبْحِهَا التَّقَرُّبَ إِلَى غَيْرِ اللهِ، صَارَ مُرْتَدًّا وَذَبِيحَتُهُ ذَبِيحَةُ مُرْتَدٍّ۔“ (تفسیر عزیزی ص 611 بحوالہ اشرف الحواشی) ”علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔“ البقرة
174 البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 1-یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاریٰ اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے تحویل قبلہ پر چہ میگوئیاں کررہے تھے، جس سے بعض مسلمان بھی بعض دفعہ کبیدہ خاطر ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال واخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ پھر آگے ان عقائدواعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات وصفات میں یکتا، تمام عیوب سے پاک ومنزہ اور قرآن وحدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری کو بغیر کسی تاویل یا تعطیل یا تکییف کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے، حشر نشر اور جنت ودوزخ پر یقین رکھا جائے۔ الْكِتَابِ سے مراد تمام آسمانی کتابوں کی صداقت پر ایمان ہے۔ اور فرشتوں کے وجود پر اور تمام پیغمبروں پر یقین رکھا جائے۔ ان ایمانیات کے ساتھ ان اعمال کو اپنایا جائے جس کی تفصیل اس آیت میں ہے۔ ﴿عَلَى حُبّهِ﴾ میں (ہ) ضمیر مال کی طرف راجع ہے، یعنی مال کی محبت کے باوجود مال خرچ کرے۔ ﴿الْبَأْسَاءِ﴾ سے تنگ دستی اور دشت فقر﴿الضَّرَّاء﴾ سے نقصان یا بیماری اور ﴿الْبَأْسِ﴾ سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہیہ سے سرمو انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لئے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایاہے۔ البقرة
178 1-زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں، اس لئے زور آور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے، ظلم وجور کا ارتکاب کرلیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقت ور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہوجاتا تو وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوںکو ، بلکہ بسااوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق وامتیاز کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ جو قاتل ہوگا، قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں وہی آزاد، غلام ہے تو بدلے میں وہی غلام اور عورت ہے تو بدلے میں وہی عورت ہی قتل کی جائے گی، نہ کہ غلام کی جگہ آزاد اور عورت کی جگہ مرد، یا ایک مرد کے بدلے میں متعدد مرد۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اگر عورت کو قتل کردے تو قصاص میں کوئی عورت قتل کی جائے گی، یا عورت مرد کو قتل کردے تو کسی مرد کو قتل کیا جائے گا (جیسا کہ ظاہری الفاظ سے مفہوم نکلتا ہے) بلکہ یہ الفاظ شان نزول کے اعتبار سے ہیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے مرد ہو یا عورت، طاقتور ہو یا کمزور۔ [ الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ ] - الحديث (سنن أبي داود ، كتاب الجهاد ، باب في السرية ترد على أهل العسكر) ’’تمام مسلمانوں کے خون (مرد ہو یا عورت) برابر ہیں‘‘۔ گویا آیت کا وہی مفہوم ہے جو قرآن کریم کی دوسری آیت، ﴿النَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ (المائدۂ: 45) کا ہے۔ احناف نے اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل کیا جائے گا لیکن جمہور علما اس کے قائل نہیں، کیوں کہ حدیث میں وضاحت ہے: [ لا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ ] (صحيح بخاري، كتاب الديات، باب لا يقتل المسلم بالكافر) ”مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا“ (فتح القدیر) مزید دیکھیے آیت 45، سورۂ المائدہ۔ 2- معافی کی دو صورتیں ہیں : ایک بغیر معاوضہ مالی یعنی دیت لئے بغیر ہی محض رضائے الٰہی کے لئے معاف کردینا، دوسری صورت، قصاص کی بجائے دیت قبول کرلینا، اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کا اتباع کرے۔ ﴿وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾ میں قاتل کو کہا جا رہا ہے کہ بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کرکے اس پر جو احسان کیا ہے، اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ ﴿هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلا الإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن) 3- یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص،معافی یا دیت تین صورتیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہے ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی، دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی، قصاص تھا نہ دیت۔ (ابن کثیر)۔ 4- قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کردے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا وآخرت میں بھگتنی ہوگی۔ البقرة
179 1-جب قاتل کو یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کردیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جراءت نہیں ہوگی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہوجاتا ہے، وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل وخونریزی سے محفوظ رکھتا ہے، جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے، اس کا مشاہدہ آج بھی سعودی معاشرے میں کیا جاسکتا ہے جہاں اسلامی حدود کے نفاذ کی یہ برکات الحمدللہ موجود ہیں۔ کاش دوسرے اسلامی ممالک بھی اسلامی حدود کا نفاذ کرکے اپنے عوام کو یہ پرسکون زندگی مہیا کرسکیں۔ البقرة
180 1-وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا۔ اب یہ منسوخ ہے۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ إِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ ، فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ] (أخرجه السنن بحواله ابن كثير) ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثا کے حصے مقرر کر دیئے ہیں) پس اب کسی وراث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں“، البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے جو وارث نہ ہوں، یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جاسکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ثلث (ایک تہائی) مال ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی (صحيح بخاري ، كتاب الفرائض باب ميراث البنات) البقرة
181 البقرة
182 1-جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتے دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور إِثْمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے (ایسرالتفاسیر) یا إِثْمًا سے مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل نہ کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل وانصاف کا اہتمام ضروری ہے، ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب، اس کے اخروی نجات کے نقطۂ نظر سے سخت خطرناک ہے۔ البقرة
183 1-صِيَامٌ، صَوْمٌ (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں، صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے، اللہ کی رضا کے لئے، رکے رہنا، یہ عبادت چوں کہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے، اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ البقرة
184 1-یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں، وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں۔ 2- يُطِيقُونَهُ کا ترجمہ يتَجَشَّمُونَهُ (نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں) کیا گیا ہے (یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، امام بخاری نے بھی اسے پسند کیا ہے) یعنی جو شخص زیادہ بڑھاپے یا ایسی بیماری کی وجہ سے، جس سے شفایابی کی امید نہ ہو، روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے، وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے، لیکن جمہور مفسرین نے اس کا ترجمہ (طاقت رکھتے) ہیں ہی کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے دیا کریں۔ لیکن بعد میں ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ کے ذریعے اسے منسوخ کرکے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کردیا گیا، تاہم زیادہ بوڑھے، دائمی مریض کے لئے اب بھی یہی حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں اور ”حَامِلَةٌ“ (حمل والی) اور ”مُرْضِعَةٌ“ (دودھ پلانے والی) عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہوں گی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں روزے کی قضا دیں (تحفة الأحوذي شرح ترمذي) 3- جو خوشی سے ایک مسکین کی بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ البقرة
185 1-رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ مکمل قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہوگیا، بلکہ یہ ہے کہ رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سےآسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں "بَيْتُ الْعِزَّةِ "میں رکھ گیا دیا۔ وہاں سے حسب حالات سالوں تک اترتا رہا۔ (ابن کثیر) اس لئے یہ کہنا کہ قرآن رمضان میں، یا لیلۃ القدر، یا لیلۃ مبارکہ میں اترا۔ یہ سب صحیح ہےکیوں کہ لوح محفوظ سے تو رمضان میں ہی اترا ہے اور لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکہ یہ ایک ہی رات ہے یعنی قدر کی رات، جو رمضان میں ہی آتی ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور پہلی وحی، جو غار حرا میں آئی، وہ رمضان میں آئی۔ اس اعتبار سے قرآن مجید اور رمضان المبارک کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم (ﷺ) اس ماہ مبارک میں حضرت جبریل (عليہ السلام) سے قرآن کا دورہ کیا کرتے تھے اور جس سال آپ (ﷺ) کی وفات ہوئی آپ (ﷺ) نے رمضان میں جبریل (عليہ السلام) کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا رمضان کی تین راتوں (23، 25 اور 27) میں آپ (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) کو باجماعت قیام اللیل بھی کرایا، جس کو اب تراویح کہا جاتا ہے (صحیح ترمذی و صحیح ابن ماجہ، البانی) یہ تراویح آٹھ رکعات مع وتر گیارہ رکعات تھیں جس کی صراحت حضرت جابر (رضی الله عنہ) کی روایت (جو قیام اللیل مروزی وغیرہ میں ہے) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت (صحیح بخاری) میں موجود ہے۔ نبی (ﷺ) کا 20 رکعات تراویح پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ چونکہ بعض صحابہ کرام (رضی الله عنہم) سے گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا ثابت ہے اس وجہ سے محض نفل کی نیت سے بیس رکعتیں یا اس سے کم یا زیادہ پڑھی جاسکتی ہیں۔ البقرة
186 1-رمضان المبارک کے احکام ومسائل کے درمیان دعا کا مسئلہ بیان کرکے یہ واضح کردیا گیا کہ رمضان میں دعا کی بھی بڑی فضیلت ہے، جس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، خصوصاً افطاری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت بتلایا گیا ہے (مسند أحمد، ترمذي ، نسائي، ابن ماجه بحواله ابن كثير) تاہم قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان آداب وشرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ جن میں سے دو یہاں بیان کئے گئے ہیں: ایک اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان اور دوسرا اس کی اطاعت وفرمانبرداری۔ اسی طرح احادیث میں حرام خوراک سے بچنے اور خشوع وخضوع کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ البقرة
187 1-ابتدائے اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشا کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی، سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھالیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ ﴿الرَّفَثُ﴾ سے مراد بیوی سے ہم بستری کرنا ہے ﴿الْخَيْطُ الأَبْيَضُ﴾ سے صبح صادق، اور ﴿لخَيْطُ الأسْوَدُ﴾ (سیاہ دھاری) سے مراد رات ہے (ابن کثیر) مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حالت جنابت میں روزہ رکھا جاسکتا ہے، کیوں کہ فجر تک اللہ تعالیٰ نے مذکورہ امور کی اجازت دی ہے اور صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) 2- یعنی رات ہوتے ہی (غروب شمس کے فوراً بعد) روزہ افطار کرلو۔ تاخیر مت کرو، جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔ دوسرا یہ کہ وصال مت کرو۔ وصال کا مطلب ہے کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا۔ اس سے نبی (ﷺ) نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث)۔ 3- اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس وکنار کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ ﴿عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ سے استدلال کیا گیا ہے کہ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ ازواج مطہرات نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔ اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف بیٹھنا صحیح نہیں۔ البتہ مسجد میں ان کے لئے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے، تاکہ مردوں سے کسی طرح کا اختلاط نہ ہو، جب تک مسجد میں معقول، محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو، عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور عورتوں کو بھی اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک نفلی عبادت ہی ہے، جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو، اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے۔ فقہ کا اصول ہے : [ دَرْءُ المَفَاسِدِ يُقَدَّمُ عَلَى جَلْبِ الْمَصَالحِ ]۔ ”مصالح کے حصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے۔“ البقرة
188 1-ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو، لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو، اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروالے اور اس طرح وہ دوسرے کا حق غصب کرلے۔ یہ ظلم ہے اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم عنداللہ مجرم ہوگا۔ (ابن کثیر) البقرة
189 1-انصار جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لئے گھر آنے کی ضرورت پڑ جاتی تو دروازے سے آنے کی بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو وہ نیکی سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ (ایسرالتفاسیر) البقرة
190 1-اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی ہے جو مسلمانوں سے آمادہ قتال رہتے تھے۔ تاہم زیادتی سے منع فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مثلہ مت کرو، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو، اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا، یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے ما ر ڈالنا بھی زیادتی ہے، جن سے بچا جائے۔ (ابن کثیر) البقرة
191 1-مکہ میں مسلمان چوں کہ کمزور اور منتشر تھے، اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا، ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں مجتمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف ان ہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے، اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا۔ قرآن کریم نے﴿اعْتِدَاءٌ﴾ (زیادتی کرنے) سے منع فرمایا، اس لئے نبی کریم (ﷺ) اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بدعہدی اور مثلہ نہ کرنا، نہ بچوں، عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت درویشوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کے جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرماتے (ابن کثیر۔ بحوالہ صحیح مسلم وغیرہ) ﴿حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ﴾ (جہاں بھی پاؤ) کا مطلب ہے ”تَمَكَّنْتُمْ مِنْ قِتَالِهِم“ ان کو قتل کرنے کی قدرت تمہیں حاصل ہوجائے (ایسرالتفاسیر) ﴿مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾ یعنی جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا، اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد، کفر وشرک ہے۔ یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے، اس لئے اس کو ختم کرنے کے لئے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ 2- حدود حرم میں قتال منع ہے، لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 1- 6 ہجری میں رسول اللہ (ﷺ) چودہ سو صحابہ (رضی الله عنہم) کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے، لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آسکیں گے۔ یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ جب دوسرے سال مسلمان حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کرکے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ میں جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظرانداز کرکے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے، یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو، بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظرانداز کرکے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ۔ (ابن کثیر) البقرة
195 1-اس سے بعض لوگوں نے ترک نفاق، بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے۔ اور یہ ساری ہی صورتیں ہلاکت کی ہیں، جہاد چھوڑ دو گے، یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز گرو گے تو یقیناً دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور۔ نتیجہ تباہی ہے۔ البقرة
196 1-یعنی حج یا عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اس کا پورا کرنا ضروری ہے، چاہے نفلی حج وعمرہ ہو۔ (ایسرالتفاسیر) 2- اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہوجائے تو ایک جانور (ہدی)۔ ایک بکری اور گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو، وہیں ذبح کرکے سرمنڈالو اور حلال ہوجاؤ، جیسے نبی (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رضی الله عنہم) نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کی تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی (ﷺ) نے ہجری والے عمرے کی قضا ہجری میں دی۔ 3- اس کا عطف ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ﴾ پر ہے اور اس کا تعلق حالت امن سے ہے، یعنی امن کی حالت میں اس وقت تک سر نہ منڈاؤ (احرام کھول کر حلال نہ ہو) جب تک تمام مناسک حج پورے نہ کرلو۔ 4- یعنی اس کو ایسی تکلیف ہوجائے کہ سر کے بال منڈانے پڑ جائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے۔ حدیث کی رو سے ایسا شخص مسکینوں کو کھانا کھلا دے، یا ایک بکری ذبح کردے، یا تین دن کے روزے رکھے۔ روزوں کے علاوہ پہلے دو فدیوں کی جگہ کے بارے میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ کھانا اور خون مکہ میں ہی دے، بعض کہتے ہیں کہ روزوں کی طرح اس کے لئے بھی کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے۔ امام شوکانی نے اسی رائے کی تائید کی ہے (فتح القدیر) 5- حج کی تین قسمیں ہیں ; "إِفْرَادٌ"،۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا۔ "قِرَانٌ"، حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرکے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں ہے۔ "حَجُّ تَمَتُّعٍ"۔ اس میں بھی حج وعمرہ دونوں کی نیت ہوتی ہے، لیکن پہلے صرف عمرہ کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے اور عمرہ کرکے پھر احرام کھول دیا جاتا ہے اور پھر ذوالحجہ کو حج کے لئے مکہ سے ہی دوبارہ احرام باندھا جاتا ہے، تمتع کے معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں۔ گویا درمیان میں احرام کھول کر فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ حج قران اور حج تمتع دونوں میں ایک ہدی (یعنی ایک بکری یا پھر اونٹ یا گائے کے ساتویں حصے) کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس آیت میں اسی حج تمتع کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ متمتع حسب طاقت ذو الحجہ کو ایک جانور کی قربانی دے، اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے ایام حج میں اور سات روزے گھر جاکر رکھے۔ ایام حج، جن میں روزے رکھنے ہیں، ذی الحجہ (یوم عرفات) سے پہلے، یا پھر ایام تشریق ہیں۔ (فتح القدیر) 6- یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدی یا روزے صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں، مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر) البقرة
197 1-اور یہ ہیں شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے، لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے، اس لئے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر ) مسئلہ : حج قران یا افراد کا احرام اہل مکہ، مکہ کے اندر سے ہی باندھیں گے۔ البتہ حج تمتع کی صورت میں عمرے کے احرام کے لئے حرم سے باہر حل میں جانا ان کے لئے ضروری ہے۔ (فتح الباري ، كتاب الحج وأبواب العمرة وموطأ إمام مالك) اسی طرح آفاقی لوگ حج تمتع میں ذوالحجہ کو مکہ سے ہی احرام باندھیں گے۔ البتہ بعض علما کے نزدیک اہل مکہ کو عمرے کے احرام کے لئے حدود حرم سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے وہ ہر طرح کے حج اور عمرے کے لئے اپنی اپنی جگہ سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں۔ تنبیہ : حافظ ابن القیم نے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے قول وعمل سے صرف دو قسم کے عمرے ثابت ہیں۔ ایک وہ جو حج تمتع کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور دوسرا وہ عمرہ مفردہ جو ایام حج کے علاوہ صرف عمرے کی نیت سے ہی سفر کرکے کیا جائے۔ باقی حرم سے جاکر کسی قریب ترین حل سے عمرے کے لئے احرام باندھ کر آنا غیرمشروع ہے۔ (الا یہ کہ جن کے احوال وظروف حضرت عائشہ جیسے ہوں) (زاد المعاد ج 2 طبع جدید) نوٹ : حدود حرم سے باہر کے علاقے کو حل اور بیرون مکہ سے آنے والے حجاج کو آفاقی کہا جاتا ہے۔ 2- صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ہے [ مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمّهُ ] (صحيح بخاري ، كتاب المحصر، باب قول الله عز وجل ﴿فَلَا رَفَثَ ﴾) ”جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے، جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔“ 3- تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے، بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے اور کہتے کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے۔ اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید فرمائی۔ البقرة
198 1-فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے، یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 2- 9 ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف، حج کا سب سے اہم رکن ہے، جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے۔ [ الْحَجُّ عَرَفَةُ ] (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے، بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشا کی دو رکعت (قصر) جمع کرکے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی۔ مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ حرم کے اندر ہے۔ یہاں ذکر الٰہی کی تاکید ہے۔ یہاں رات گزارنی ہے، فجر کی نماز غَلَسٌ ( اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے، طلوع آفتاب کے بعد منیٰ جایا جائے۔ البقرة
199 1-مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں وقوف کرکے واپس آنا ضروری ہے، لیکن عرفات چوں کہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے، بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے، چنانچہ حکم دیا جارہا ہے کہ جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔ البقرة
200 1-عرب کے لوگ حج سے فراغت کے بعد منیٰ میں میلہ لگاتے اور آباواجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے، مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ جب تم ذوالحجہ کو کنکریاں مارنے، قربانی کرنے، سرمنڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا ومروہ سے فارغ ہو جاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منیٰ میں قیام کرنا ہے تو وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو، جیسے جاہلیت میں تم اپنے آبا کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ البقرة
201 1-یعنی اعمال خیر کی توفیق، یعنی اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے، بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے ہیں۔ نبی (ﷺ) کثرت سے یہ دعا پڑھتے تھے۔ طواف کے دوران لوگ ہر چکر کی الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں، ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً﴾ رکن یمانی اور حجر اسود کے دمیان پڑھنا مسنون عمل ہے۔ البقرة
202 البقرة
203 1- مراد ایام تشریق ہیں، یعنی11، 12 اور 13 ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الٰہی، یعنی بہ آواز بلند تکبیرات مسنون ہیں، صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسا کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں [ اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، لا إِلَه إلا الله ، واللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، وللهِ الحَمْدُ ] کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ (نیل الاوطار۔ ج5ص86)۔ 2- رمی جمار (جمرات کو کنکریاں مارنا) دن افضل ہیں، لیکن اگر کوئی دو دن (11، 12 ذوالحجہ) کو کنکریاں مار کر منیٰ سے واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ البقرة
204 1- بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور متکبرین ہیں، جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو قرآن نے اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔ البقرة
205 البقرة
206 1- ﴿أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ﴾ تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور وانانیت کے ہیں۔ البقرة
207 1- یہ آیت، کہتے ہیں حضرت صہیب (رضي الله عنه) رومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہا کہ یہ مال سب یہاں کا کمایا ہوا ہے، اسے ہم ساتھ نہیں لے جانے دیں گے، حضرت صہیب (رضي الله عنه) نے یہ سارا مال ان کے حوالے کردیا اور دین ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ (ﷺ) نے سن کر فرمایا: ”صہیب نے نفع بخش تجارت کی ہے“ دو مرتبہ فرمایا (فتح القدیر) لیکن یہ آیت بھی عام ہے، جو تمام مومنین متقین اور دنیا کے مقابلے میں دین کو اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کو شامل ہے، کیوں کہ اس قسم کی تمام آیات کے بارے میں، جو کسی خاص شخص یا واقعہ کے بارے میں نازل ہوئیں یہ اصول ہے: ”الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ“ یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا، سبب نزول کے خصوص کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پس اخنس بن شریق (جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا) برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو اس جیسے برے کردار کا حامل ہوگا اور صہیب (رضي الله عنه) خیر اور کمال ایمان کی ایک مثال ہیں ہر اس شخص کے لئے جو ان صفات خیر وکمال سے متصف ہوگا۔ البقرة
208 1- اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ اس طرح نہ کرو کہ جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں، ان پر تو عمل کرلو اور دوسرے حکموں کو نظر انداز کردو۔ اسی طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو، اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو، بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ۔ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کردی گئی اور آج کل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی، جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں، بلکہ دین کو عبادات، یعنی مساجد تک محدود کرنا، اور سیاست اور ایوان حکومت سے دیس کو نکالا دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح عوام کو بھی سمجھایا جارہا ہے جو رسوم ورواج اور علاقائی ثقافت وروایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے، جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج۔ اور یہ کہا جا رہا ہےکہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لئے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا، برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے، تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔ البقرة
209 البقرة
210 1- یہ یا تو قیامت کا منظر ہے جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے۔ (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتے کے جلو میں اور بادلوں کے سائے میں ان کے سامنے آئے اور فیصلہ چکائے، تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول ہی نہیں، اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کرکے اپنی آخرت سنوار لو۔ البقرة
211 1- مثلاً عصائے موسیٰ، جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا، سمندر سے راستہ بنایا، پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے، بادلوں کا سایہ، من وسلویٰ کا نزول وغیرہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہمارے پیغمبر (ﷺ) کی صداقت کے دلیل تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے اعراض کیا۔ 2- نعمت کے بدلنے کے مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر اور اعراض کا راستہ اپنایا۔ البقرة
212 1- چوں کہ مسلمانوں کی اکثریت غربا پر مشتمل تھی جو دنیوی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم تھے، اس لئے کافر یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور میں شیوہ رہا ہے۔ 2- اہل ایمان کے فقر اور سادگی کا کفار جو استہزا وتمسخر اڑاتے، اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہا ہے کہ قیامت والے دن یہی فقرا اپنے تقویٰ کی بدولت بلند وبالا ہوں گے (بےحساب روزی) کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہوسکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے ان فقرا پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دیئے، جن سے سامان دنیا اور رزق کی فراوانی ہوگئی۔ البقرة
213 1- یعنی توحید پر۔یہ حضرت آدم(عليه السلام) سے حضرت نوح(عليه السلام)، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیا دیتے رہے، قائم رہے۔ آیت میں مفسرین صحابہ نے فَاخْتَلَفُوا محذوف مانا ہے، یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک ومظاہرپرستی عام ہوگئی۔ فَبَعَثَ اس کا عطف فَاخْتَلَفُوا ( جو محذوف ہے) پر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ اور حق اور توحید کو قائم وواضح کریں۔ (ابن کثیر) 2- اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس انحراف کا منبع بغض وعناد بنتا ہے، امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا، یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلافات کی شدت سے محفوظ رہی، لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا، اس سے اختلافات کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تاآنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیز بن کر رہ گیا ہے۔ فَهَدَى اللهُ الْمُسْلِمِينَ. 3- چنانچہ مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا، یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعے کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ(عليه السلام) کے بارے میں اختلاف کیا۔ یہود نے ان کی تکذیب کی اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا، اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور الٰہ بنا دیا۔ اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرماں بردار بندے تھے۔ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا، ایک نے یہودی اور دوسرے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ ﴿حَنِيفًا مُسْلِمًا﴾ تھے اور اس طرح کے دیگر کئی مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اذن یعنی اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔ البقرة
214 1- ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی (ﷺ) سے شکایت کی، جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی (ﷺ) نے فرمایا ( تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا، لیکن یہ ظلم وتشدد ان کو ان کی دین سے نہیں پھیر سکا )، پھر فرمایا: ( اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی اسلام کو غالب) فرمائے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا )۔ الحدیث (صحيح بخاري، كتاب الإكراه، باب من اختار الضرب والقتل والهوان على الكفر) مقصد نبی (ﷺ) کا مسلمانوں کے اندر حوصلہ اور استقامت کا عزم پیدا کرنا تھا۔ 2- اس لئے ( كُلُّ مَا هُوَ آتٍ فَهَوَ قَرِيبٌ )۔ ”ہر آنے والی چیز، قریب ہے“ اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے، اس لئے وہ قریب ہی ہے۔ البقرة
215 1- بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں، یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انفاق کایہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے، زکٰوۃ سے متعلق نہیں۔ کیوں کہ ماں باپ پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے۔ حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا ”مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا“ مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے۔ افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے ہیں کہ اس میں کراہیت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔ البقرة
216 1- جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو، چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے۔ اس لئے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ ہوسکتا ہے، اس میں تمہارے لئے بہتری ہو۔ جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح وغلبہ، عزت وسربلندی اور مال واسباب مل سکتا ہے، اسی طرح تم جس کو پسند کرو، (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھ رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لئے خطرناک ہوسکتا ہے، یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ البقرة
217 1- رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانۂ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے، جن میں قتال وجدال ناپسندیدہ تھا۔ اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا۔ نبی (ﷺ) کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہوگیا اور بعض کافر قیدی بنا لئے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہوگیا ہے۔ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقیناً حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے، لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا؟ یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر انہوں نے مجبور کردیا۔ علاوہ ازیں کفر وشرک بجائے خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اس لئے اگر مسلمانوں سے غلطی سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہوگیا تو کیا ہوا؟ اس پر واویلا کرنے کے بجائے ان کو اپنا نامۂ سیاہ بھی تو دیکھ لینا چاہیے۔ 2- جب یہ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد بنانے کی کوششوں سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقابلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو؟ 3- جو دین اسلام سے پھر جائے، یعنی مرتد ہوجائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیوی سزا قتل ہے۔ حدیث میں ہے :[ مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ] (صحيح بخاري ، كتاب الجهاد، باب لا يعذب بعذاب الله) آیت میں اس کی اخروی سزا بیان کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کئے گئے اعمال صالحہ بھی کفر ارتداد کی وجہ سے کالعدم ہوجائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اسی طرح کفر ارتداد سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگا جب خاتمہ کفر پر ہوگا، اگر موت سے پہلے تائب ہوجائے گا تو ایسا نہیں ہوگا، یعنی مرتد کی توبہ مقبول ہے۔ البقرة
218 البقرة
219 1- بڑا گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔ 2- فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے، مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی ومستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے۔ جنسی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی خرید وفروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جُوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے، لیکن یہ فائدے ان نقصانات ومفاسد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ (ان کا گناہ، ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے۔) اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام توقرار نہیں دیا گیا، تاہم اس کے لئے تمہید باندھ دی گئی ہے۔ اس آیت سے ایک بہت اہم اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز میں چاہے وہ کتنی بھی بری ہو،کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور دیگر اس قسم کی ایجادات ہی اور لوگ ان کے بعض فوائد بیان کرکے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے۔ خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق و کردار کے لحا ظ سے۔ اگر دینی نقطۂ نظر سے نقصانات و مفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ 3- اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے، یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا، جس پر فرضیت زکٰوۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا، تاہم افضل ضرور ہے، یا اس کے معنی ہیں ”مَا سَهُلَ وَتَيَسَّرَ وَلَمْ يَشُقْ عَلَى الْقَلْبِ“ (فتح القدير) ”جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے“ اسلام نے یقیناً انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے۔ لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیرکفالت افراد کی خبرگیری اور ان کی ضروریات کو مقدم رکھنے میں حکم دیا ہے۔ دوسرے، اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہل خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جائے۔ البقرة
220 1- جب یتیموں کا مال ظلما کھانے والوں کے لئے وعید نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رضي الله عنه) ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی، اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس وعید کے مستحق نہ قرار پاجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر ) 2- یعنی تمہیں بغرض اصلاح وبہتری بھی، ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔ البقرة
221 1- مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں۔ کیوں کہ اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہوسکتا۔ تاہم حضرت عمر (رضي الله عنه) نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا ہے (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظرانداز کرکے محض حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ”عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسب نسب، حسن وجمال یا دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو۔“ (صحيح بخاري- كتاب النكاح، باب الأكفاء في الدين - وصحيح مسلم ، كتاب الرضاع ، باب استحباب نكاح ذات الدين) اسی طرح آپ (ﷺ) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے۔ فرمایا :[ خيرُ متاعِ الدنيا المرأةُ الصالحةُ ] (صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب خير متاع الدنيا المرأة الصالحة) البقرة
222 1- بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے، اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے، اسے استحاضہ کہتے ہیں، جس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔ حیض کے ایام میں عورت سے نماز معاف ہے اور روزے رکھنا ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مرد کے لئے صرف ہم بستری منع ہے، البتہ بوس وکنار جائز ہے۔ اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر گھر کا ہر کام کرسکتی ہے، لیکن یہودیوں میں ان دنوں میں عورت کو بالکل نجس سمجھا جاتا تھا، وہ اس کے ساتھ اختلاط اور کھانا پینا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس کی بابت حضور (ﷺ) سے پوچھا تو یہ آیت اتری، جس میں صرف جماع کرنے سے روکا گیا۔ علیحدہ رہنے اور قریب نہ جانے کا مطلب صرف جماع سے ممانعت ہے۔ (ابن کثیر وغیرہ ) 2- جب وہ پاک ہوجائیں۔ اس کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں ” ایک خون بند ہوجائے“ یعنی پھر غسل کیے بغیر بھی پاک ہیں، مرد کے لئے ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ ابن حزم اور بعض ائمہ اس کے قائل ہیں۔ علامہ البانی نے بھی اس کی تائید کی ہے (آداب الزفاف ص 47) دوسرے معنی ہیں، خون بند ہونے کے بعد غسل کرکے پاک ہوجائیں۔ اس دوسرے معنی کے اعتبار سے عورت جب تک غسل نہ کرلے، اس سے مباشرت حرام رہے گی۔ امام شوکانی نے اس کو راجح قرار دیا ہے (فتح القدیر) ہمارے نزدیک دونوں مسلک قابل عمل ہیں، لیکن دوسرا قابل ترجیح۔ 3- ”جہاں سے اجازت دی ہے“ یعنی شرمگاہ سے۔ کیوں کہ حالت حیض میں بھی اسی کے استعمال سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جارہی ہے تو اس کا مطلب اسی (فرج، شرمگاہ) کی اجازت ہے، نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے، جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید صراحت کردی گئی ہے۔ البقرة
223 1- یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر (مُدْبِرَةً) مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جارہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ (اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو، آؤ) اور یہ کھیتی (موضع ولد) صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیرفطری فعل ہے ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر ) البقرة
224 1- یعنی غصے میں اس طرح کی قسم مت کھاؤ کہ میں فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا، فلاں سے نہیں بولوں گا، فلاں کے درمیان صلح نہیں کراؤں گا۔ اس قسم کی قسموں کے لئے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر کھا لو تو انہیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو (کفارۂ قسم کے لئے دیکھیے: سورۃ المائدۃ، آیت89) البقرة
225 1- یعنی جو غیرارادی اور عادت کے طور پر ہوں۔ البتہ عمداً جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ البقرة
226 1- إِيلاءٌ کے معنی قسم کھانے کے ہیں، یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھا لے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینے یا دو مہینے (مثلاً) تعلق نہیں رکھوں گا، پھر قسم کی مدت پوری کرکے تعلق قائم کرلیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں، ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا تو کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت کی تعیین کے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں، یا پھر اسے طلاق دے دیں (اسے چار مہینے سے زیادہ معلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے) پہلی صورت میں اسے کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا اور اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اس کو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے، یا طلاق دے، تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (تفسیر ابن کثیر ) البقرة
227 1- ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی از خود طلاق واقع نہیں ہوگی (جیسا کہ بعض علما کا مسلک ہے) بلکہ خاوند کے طلاق دینے سے طلاق ہوگی، جس پر اسے عدالت بھی مجبور کرے گی۔ جیسا کہ جمہور علما کا مسلک ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
228 1- اس سے وہ مطلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیوں کہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل ہے) جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو، وہ بھی نہ ہو (کیوں کہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں ہے) آئسہ بھی نہ ہو، یعنی جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو (کیوں کہ ان کی عدت تین مہینے ہے) گویا یہاں مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جا رہی ہے اور وہ تین قروء۔ جس کے معنی طہر یا تین حیض کے ہیں۔ یعنی تین طہریا تین حیض عدت گزار کے وہ دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہے۔ سلف نے قروء کے دونوں ہی معنی صحیح قرار دیئے ہیں، اس لئے دونوں کی گنجائش ہے (ابن کثیر وفتح القدیر) 2- اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں۔ حیض نہ چھپائیں، مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک یا دو حیض آئے ہیں، درآں حالیکہ اسے تینوں حیض آچکے ہوں۔ مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو) یا اگر رجوع کرنا نہ چاہتی ہو تو یہ کہہ دے کہ مجھے تو تین حیض آچکے ہیں جب کہ واقعتہً ایسا نہ ہو، تاکہ خاوند کا حق رجوع ثابت نہ ہوسکے۔ اسی طرح حمل نہ چھپائیں، کیوں کہ اس طرح دوسری جگہ شادی کرنے کی صورت میں نسب میں اختلاط ہوجائے گا۔ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہوجائے گا۔ یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔ 3- رجوع کرنے سے خاوند کا مقصد اگر تنگ کرنا نہ ہو تو عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عورت کے ولی کو اس حق میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ 4- یعنی دونوں کے حقوق ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، جن کے پورے کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں، تاہم مرد کو عورت پر فضیلت یا درجہ حاصل ہے، مثلاً فطری قوتوں میں، جہاد کی اجازت میں، میراث کے دو گنا ہونے میں، قوامیت اورحاکمیت میں اور اختیار طلاق ورجوع (وغیرہ) میں۔ البقرة
229 1- یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر) رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے، پہلی طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ حق طلاق ورجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا، آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، اس طرح اسے نہ بساتا تھا، نہ آزاد کرتا تھا۔ اللہ نے اس ظلم کا راستہ بند کردیا۔ اور پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق میں ہی ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے”طَلْقَتَانِ“ (دو طلاقیں) نہیں فرمایا، بلکہ الطَّلاقُ مَرَّتَانِ (طلاق دو مرتبہ) فرمایا، جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور انہیں بیک وقت نافذ کر دینا حکمت الٰہیہ کے خلاف ہے۔ حکمت الٰہیہ اسی بات کی مقتضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) اور اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلد بازی یا غصے میں کئے گئے کام کے ازالے کا موقع دیا جائے، یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینے میں ہی باقی رہتی ہے، نہ کہ تینوں کو بیک وقت نافذ کرکے سوچنے اور غلطی کا ازالہ کرنے کی سہولت سے محروم کردینے کی صورت میں، (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : کتاب مجموعہ مقالات علمیہ بابت۔ ایک مجلس کی تین طلاق)۔ اور (اختلاف امت اور صراط مستقیم)۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علما ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔ 2- یعنی رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے بسانا۔ 3- یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔ 4- اس میں خلع کا بیان ہے، یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے۔ خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو عدالت نکاح فسخ کردے گی۔ گویا خلع بذریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی۔ دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابوداود، ترمذی، نسائی والحاکم۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکیدکی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔ اگر ایسا کرے گی تو نبی (ﷺ) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی ہے کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گی۔ (ابن کثیر وغیرہ ) البقرة
230 1- اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے۔ یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح۔ البتہ یہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے، یا فوت ہوجائے تو اس کے بعد زوج اول سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ لیکن اس کے لئے بعض ملکوں میں جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے، یہ لعنتی فعل ہے۔ نبی (ﷺ) نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح، نکاح نہیں ہے، زناکاری ہے، اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ البقرة
231 1- الطَّلاقُ مَرَّتَانِ میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے۔ اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہو سکتا ہے، عدت گزرنے کے بعد نہیں۔ اس لئے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے۔ 2- بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے ، یا نکاح کرلیتے، یا آزاد کردیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ میں نے تو مذاق کیا تھا۔ اللہ نے اسے آیات الٰہی سے استہزا قرار دیا، جس سے مقصود اس سے روکنا ہے۔ اسی لئے نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق، یا نکاح یا آزادی نافذ ہوجائے گی۔ (تفسیر ابن کثیر) البقرة
232 1- اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو تم ان کو مت روکو۔ نبی (ﷺ) کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کردیا جس پر یہ آیت اتری (صحيح بخاري، كتاب النكاح ، باب لا نكاح إلا بولي) اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی (ﷺ) سے ہوتی ہے :[ لا نِكَاحَ إلا بِوَلِيٍّ ] ’’ولی کی اجازت سے بغیر نکاح نہیں‘‘، (رواه الخمسة إلا النسائي إرواء الغليل ص۔ صححه الألباني) ایک اور روایت میں ہے۔ [ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ]، (حواله مذكور وصححه أيضا الألباني) جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔ (حوالہ مذکور) ان احادیث کو علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی، دیگر محدثین کی طرح، صحیح اور احسن تسلیم کیا ہے۔ فیض الباری،ج کتاب النکاح) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ضرور ملحوظ رکھیں۔ اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظرانداز کرکے زبردستی نکاح کردے، تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے، کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے۔ اگر عورت من مانے طریقے سے ولی کی اجازت نظرانداز کرے گی تو وہ نکاح ہی صحیح نہیں ہوگا اور ولی زبردستی کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کرکے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔ ’’فَإِنِ اشْتَجَرُوا فالسُلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لا وَلِيَّ لَهَا‘‘ (إرواء الغليل) البقرة
233 1- اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔ اس میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہے تو وہ دو سال پورے دودھ پلائے۔ ان الفاظ سے اس سے کم مدت تک دودھ پلانے کی بھی گنجائش نکلتی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مدت رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، جیسا کہ ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مرفوعاً روایت ہے : [ لا يُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إِلا مَا فَتَقَ الأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ ، وَكَان قَبْلَ الفِطَامِ ]، (الترمذي ، كتاب الرضاع ، باب ما جاء أن الرضاعة لا تحرم إلا في الصغر دون الحولين) ”وہی رضاع (دودھ پلانا) حرمت ثابت کرتا ہے، جو چھاتی سے نکل کر آنتوں کو پھاڑے اور یہ دودھ چھڑانے (کی مدت) سے پہلے ہو۔“ چنانچہ اس مدت کے اندر کوئی بچہ کسی عورت کا اس طریقہ سے دودھ پی لے گا، جس سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، تو ان کے درمیان رضاعت کا وہ رشتہ قائم ہوجائے گا، جس کے بعد رضاعی بہن بھائیوں میں آپس میں اسی طرح نکاح حرام ہوگا جس طرح نسبی بہن بھائیوں میں حرام ہوتا ہے۔ [ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ ]۔ (صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب الشهادة على الأنساب والرضاع المستفيض والموت القديم) ”رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔“ 2- مَوْلُودٌ لَّهُ سے مراد باپ ہے۔ طلاق ہوجانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ شریعت سے انحراف ہے۔ اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق مطلقہ عورت کی روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو، جس طرح کہ اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ 3- ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلاً ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے، مگر مامتا کے جذبے کو نظرانداز کرکے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے، یا یہ کہ بغیر خرچ کی ذمہ داری اٹھائے، اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکارکردے، یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا، اس سے مالی مطالبہ کرے۔ 4- باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں، تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو اور نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متاثر ہو۔ 5- یہ ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کاما وجب (معاوضہ) دستور کے مطابق ادا کردیا جائے۔ البقرة
234 1- یہ عدت وفات ہر عورت کے لئے ہے، چاہے مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ ، جوان ہو یا بوڑھی۔ البتہ اس سے حاملہ عورت مستثنیٰ ہے، کیوں کہ اس کی عدت وضع حمل ہے۔ ﴿وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾۔ (الطلاق) ”حمل والی عورت کی مدت وضع حمل ہے۔“، اس عدت وفات میں عورت کو زیب وزینت کی (حتیٰ کہ سرمہ لگانے کی بھی) اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ مطلقہ رجعیہ کے لئے عدت کے اندر زیب وزینت ممنوع نہیں ہے اور مطلقہ بائنہ میں اختلاف ہے، بعض جواز کے اور بعض ممانعت کے قائل ہیں۔ (ابن کثیر ) 2- یعنی عدت گزرنے کے بعد وہ زیب وزینت اختیار کریں اور اولیا کی اجازت ومشاورت سے کسی اور جگہ نکاح کا بندوبست کریں، تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، اس لئے تم پر بھی (اے عورت کے ولیو !) کوئی گناہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوہ کے عقدثانی کو برا سمجھنا چاہیے، نہ اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہیے۔ جیسا کہ ہندوؤں کے اثرات سے ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ البقرة
235 1- یہ بیوہ یا وہ عورت، جس کو تین طلاقیں مل چکی ہوں، یعنی طلاق بائنہ۔ ان کی بابت کہا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران ان سے اشارے کنایے میں تو تم نکاح کا پیغام دے سکتے ہو (مثلاً میرا ارادہ شادی کرنے کا ہے، یا میں نیک عورت کی تلاش میں ہوں، وغیرہ) لیکن ان سے کوئی خفیہ وعدہ مت لو اور نہ مدت گزرنے سے قبل عقد نکاح پختہ کرو۔ لیکن وہ عورت جس کو خاوند نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں، اس کو عدت کے اندر اشارے کنائے میں بھی نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں، کیوں کہ جب تک عدت نہیں گزر جاتی، اس پر خاوند کا ہی حق ہے۔ ممکن ہے خاوند رجوع ہی کرلے۔ مسئلہ : بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جاہل لوگ عدت کے اندر ہی نکاح کرلیتے ہیں، اس کی بابت حکم یہ کہ اگر ان کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی ہے تو فوراً ان کے درمیان تفریق کرادی جائے اور اگر ہم بستری ہوگئی ہے تب بھی تفریق تو ضروری ہے، تاہم دوبارہ ان کے درمیان (عدت گزرنے کے بعد) نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، بعض علما کی رائے یہ ہے کہ ان کے درمیان اب کبھی باہم نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک دوسرے کے لئے ابداً حرام ہیں، لیکن جمہور علما ان کے درمیان نکاح کے جواز کے قائل ہیں (تفسیر ابن کثیر ) 2- اس سے مراد بھی وہی تعریض وکنایہ ہے جس کا حکم پہلے دیا گیا ہے، مثلاً میں تیرے معاملے میں رغبت رکھتا ہوں، یا ولی سےکہےکہ اس کے نکاح کی بابت فیصلہ کرنے سے قبل مجھے اطلاع ضرور کرنا۔ وغیرہ (ابن کثیر ) البقرة
236 1- یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے خلوت صحیحہ یعنی ہم بستری کے بغیر طلاق بھی دے دی تو اسے کچھ نہ کچھ فائدے دے کر رخصت کرو۔ یہ فائدہ (متعہ طلاق) ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے۔ خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے۔ تاہم محسنین کے لئے ہے یہ ضروری۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے، کسی نے کہا، خادم۔ کسی نے کہا 500 درہم۔ کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ، وغیرہ۔ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے۔ ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے، یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لئے ہے، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ تلخی، کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر، جو طلاق کا سبب ہوتا ہے، احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی ودلداری کا اہتمام کرنا، مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سدباب کا نہایت اہم ذریعہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے، مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتے ہیں۔ البقرة
237 1- یہ دوسری صورت ہے کہ مساس (خلوت صحیحہ) سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا۔ اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے۔ الا یہ کہ عورت اپنا یہ حق معاف کردے۔ اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ 2- اس سے مراد خاوند ہے، کیوں کہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے، یہ نصف حق مہر معاف کردے، یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے، اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کردے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل واحسان کو نہ بھولنے کی تاکید کرکے حق مہر میں بھی اسی فضل واحسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ملاحظہ : بعض نے بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ سے عورت کا ولی مراد لیا ہے کہ عورت معاف کردے یا اس کا ولی معاف کر دے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ ایک تو عورت کے ولی کے ہاتھ میں عقدۂ نکاح نہیں، دوسرے مہر عورت کا حق اور اس کا مال ہے، اسے معاف کرنے کا حق بھی ولی کو حاصل نہیں۔ اس لئے وہی تفسیر صحیح ہے جو آغاز میں کی گئی ہے (فتح القدیر ) ضروری وضاحت : طلاق یافتہ عورتوں کی چار قسمیں ہیں : 1- جن کا حق مہر بھی مقرر ہے، خاوند نے مجامعت بھی کی ہے ان کو پورا حق مہر دیا جائے گا۔ جیسا کہ آیت میں اس کی تفصیل ہے۔ 2- حق مہر بھی مقرر نہیں، مجامعت بھی نہیں کی گئی، ان کو صرف متعہ طلاق دیا جائے گا۔ 3- حق مہر مقرر ہے، لیکن مجامعت نہیں کی گئی، ان کو نصف مہر دینا ضروری ہے (ان دونوں کی تفصیل، زیرنظر آیت میں ہے )۔ 4-مجامعت کی گئی ہے، لیکن حق مہر مقرر نہیں، ان کے لئے مہر مثل ہے، مہر مثل کا مطلب ہے اس عورت کی قوم میں جو رواج ہے، یا اس جیسی عورت کے لئے بالعموم جتنا مہر مقرر کیا جاتا ہو۔ (نیل الاوطاروعون المعبود ) البقرة
238 1- درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جس کو اس حدیث رسول (ﷺ) نے متعین کردیا ہے جس میں آپ (ﷺ) نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صَلاة وُسْطَىٰ قراردیا۔ (صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب الدعاء على المشركين بالهزيمة وصحيح مسلم، كتاب المساجد ، باب الدليل لمن قال الصلاة الوسطى ....) البقرة
239 1- یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہے، پیادہ چلتے ہوئے سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو پھر اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا ہے۔ البقرة
240 1- یہ آیت، گو ترتیب میں مؤخر ہے، مگر منسوخ ہے، ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے، جس میں عدت وفات 4 مہینے 10 دن بتلائی گئی۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کردیا ہے، اس لئے اب خاوند کو عورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، نہ رہائش (سکنی) کی اور نہ نان ونفقہ کی۔ البقرة
241 1- یہ حکم عام ہے جو ہر مطلقہ عورت کو شامل ہے۔ اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک اور تطییب قلوب کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس کے بےشمار معاشرتی فوائد ہیں۔ کاش مسلمان اس نہایت اہم نصیحت پر عمل کریں، جسے انہوں نے بالکل فراموش کر رکھا ہے۔ آج کل کے بعض (مجتہدین) نے ”مَتَاعٌ“ اور ”مَتِّعُوهُنَّ“ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مطلقہ کو اپنی جائیداد میں سے باقاعدہ حصہ دو، یا عمر بھر نان ونفقہ دیتے رہو۔ یہ دونوں باتیں بےبنیاد ہیں، بھلا جس عورت کو مرد نے نہایت ناپسندیدہ سمجھ کر اپنی زندگی سے ہی خارج کردیا، وہ ساری عمر کس طرح اس کے اخراجات کی ادائیگی کے لئے تیار ہوگا؟ البقرة
242 البقرة
243 1- یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے، جس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں کی گئی۔ تفسیری روایات میں اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پیغمبر کا نام، جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ فرمایا، حزقیل بتلایا گیا ہے۔ یہ جہاد میں قتل کےڈر سے، یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کردیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے اس واقعے کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ، موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز و فرار کرکے تم ٹال نہیں سکتے۔ البقرة
244 البقرة
245 1- قَرْضٌ حَسَنٌ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا ہے یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ کبھی رزق میں کمی کرکے اور کبھی اس میں فراوانی کرکے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گناہ اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر، کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقیناً اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔ البقرة
246 1- مَلأ کسی قوم کے ان اشراف، سردار اور اہل حل وعقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں، جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں، ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفاسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنواسرائیل حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا، دین میں بدعات ایجاد کرلیں۔ حتیٰ کہ بتوں کی پوجا شروع کردی۔ انبیا ان کو روکتے رہے، لیکن یہ معصیت اور شرک سے باز نہیں آئے۔ اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا، جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا، ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا، بالآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے، جنہوں نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں۔ پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو، لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ 2- نبی کی موجودگی میں بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ، بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا، لیکن اللہ نے اس معاملہ کو رد نہیں فرمایا، بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کر دیا، جیسا کہ آگے آرہا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے بلکہ وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل وانصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں، بلکہ مطلوب ومحبوب بھی ہے۔ مزید دیکھیے : سورۃ المائدۃ، آیت 20 کا حاشیہ۔ البقرة
247 1- حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے بادشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا۔ یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے، جس پر انہوں نے اعتراض کیا۔ پیغمبر نے کہا کہ یہ میرا انتخاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں قیادت وسیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت وطاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے۔ وہ واسع الفضل ہے، جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت وعنایات سے نوازتا ہے، علیم ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ بادشاہت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ہے (معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں بتلایا گیا کہ یہ تقرری اللہ کی طرف سے ہے تو اس کے لئے انہوں نے مزید کسی نشانی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔ چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے)۔ البقرة
248 1- صندوق یعنی تابوت، جو توب سے ہے، جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ کیوں کہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے، یہ تابوت بھی ان کے دشمن ان سے چھین کر لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا۔ جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ کی نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح وسکینت کا سبب قرار دیا۔ سکینت کا مطلب ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیردل بھی کانپ اٹھتے ہیں، اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح وکامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء و صالحین کے تبرکات یقینا باذن اللہ اہمیت و افادیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں۔ جس طرح اس تابوت میں یقینا حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں بن جاتی، جس طرح آج کل "تبرکات" کے نام پر کئی جگہوں پر مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں، جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح خود ساختہ چیزوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جس طرح بعض لوگ نبی (ﷺ) کے نعل مبارک کی تمثال بنا کر اپنے پاس رکھنے کو، یا گھروں میں لٹکانے کو، یا مخصوص طریقے سے اس کے استعمال کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لئے اکشیر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذر و نیاز کی چیزوں کو اور لنگر کو متبرک سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ غیر اللہ کے نام کا چڑھاوا ہے جو شرک کے دائرے میں آتا ہے، اس کا کھانا قطعاً حرام ہے، قبروں کو غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ قبروں کو غسل دینا بھی خانہ کعبہ کے غسل کی نقل ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ گندا پانی متبرک کیسے ہوسکتا ہے؟ بہر حال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔ البقرة
249 1- یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے۔ (ابن کثیر) 2- اطاعت امیر ہرحال میں ضروری ہے، تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دوچند، بلکہ صد چند ہو جاتی ہے۔ دوسرے، جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک، پیاس اور دیگر شدائد کو نہایت صبر اور حوصلے سے برداشت کریں۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی۔ جس نے پانی پی لیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لیکن اس تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ ان کی تعداد میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔ اسی طرح نہ پینے والوں کی تعداد بتلائی گئی ہے، جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ اعلم۔ 3- ان اہل ایمان نے بھی، ابتداءً جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا، جس پر ان کے علما اور ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والوں نے کہا کہ کامیابی، تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فراوانی پر منحصر نہیں، بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔ البقرة
250 1- جالوت اس دشمن قوم کا کمانڈو اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقا کا مقابلہ تھا۔ یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر قوم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی اسی شہرت کے پیش نظر، عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبروثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح وکامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں، جیسے جنگ بدر میں نبی (ﷺ) نے نہایت الحاح وزاری سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔ البقرة
251 1- حضرت داود (عليه السلام) بھی، جو ابھی پیغمبر تھے نہ بادشاہ، اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے۔ ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور ان تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے سے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔ 2- اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داود (عليه السلام) کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔ حکمت سے بعض نے نبوت، بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی ہے، جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت وارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ 3- اس میں اللہ کی ایک سنت الٰہی کا بیان ہے کہ وہ انسانوں کے ہی ایک گروہ کے ذریعے سے، دوسرے انسانی گروہ کے ظلم اور اقتدار کا خاتمہ فرماتا رہتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا اور کسی ایک ہی گروہ کو ہمیشہ قوت واختیار سے بہرہ ور کئے رکھتا تو یہ زمین ظلم وفساد سے بھر جاتی۔ اس لئے یہ قانون الٰہی اہل دنیا کے لئے فضل الٰہی کا خاص مظہر ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج کی آیت 38 اور 40 میں بھی فرمایا ہے۔ البقرة
252 1- یہ گزشتہ واقعات، جو آپ (ﷺ) پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں، اے محمد (ﷺ) یقیناً آپ کی رسالت وصداقت کی دلیل ہیں، کیوں کہ آپ (ﷺ) نے یہ نہ کتاب میں پڑھے ہیں، نہ کسی سے سنے ہیں۔ جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں ہیں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کے بیان کو آپ (ﷺ) کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ البقرة
253 1- قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے «وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ» (بنی اسرائیل: 55) ”ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے“ اس لئے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی (ﷺ) نے جو فرمایا ہے[ لا تُخَيِّرُونِي مِنْ بَيْنِ الأَنْبِيَاءِ ] (صحيح بخاري ، كتاب التفسير ، سورة الأعراف ، باب135.مسلم، كتاب الفضائل، باب من فضائل موسى) ”تم مجھے انبیا کے درمیان فضیلت مت دو“، تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ امت کو انبیا (عليهم السلام) کی بابت ادب واحترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا، جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے سے فضیلت حاصل ہے، پورا علم نہیں ہے۔ اس لئے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا کہ اس سے دوسرے انبیا کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں کی بعض پر فضیلت اور تمام پیغمبروں پر نبی (ﷺ) کی فضیلت واشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو نصوص کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے فتح القدیر للشوکانی) 2- مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو دیئے گئے تھے، مثلاً احیائے موتی (مردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ۔ جس کی تفصیل سورۂ آل عمران میں آئے گی۔ روح القدس سے مراد حضرت جبریل ہیں، جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ 3- اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ مطلب اس کا یہ نہیں کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے۔ یہ اللہ کو سخت ناپسند ہے، اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر نار جہنم سے بچ جائیں۔ اسی لئے اس نے کتابیں اتاریں، انبیا (عليهم السلام) کا سلسلہ قائم کیا تاآنکہ نبی کریم (ﷺ) پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفا اور علما ودعاۃ کے ذریعے سے دعوت حق اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت وتاکید بیان فرمائی گئی۔ کس لئے؟ اسی لئے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں۔ لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کرکے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے، اس لئے کوئی اس اختیار و آزادی کا صحیح استعمال کرکے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار وآزادی کا غلط استعمال کرکے کافر۔ یہ گویا اس کی حکمت ومشیت ہے، جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ البقرة
254 1- یہود و نصاریٰ اور کفار ومشرکین اپنے اپنے پیشواؤں یعنی نبیوں، ولیوں، بزرگوں، پیروں، مرشدوں وغیرہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اسے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منواسکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں۔ اسی کو وہ شفاعت کہتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آج کل کے جاہلوں کا ہے کہ ہماے بزرگ اللہ کے پاس اڑ کر بیٹھ جائیں گے، اور بخشوا کر اٹھیں گے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں۔ پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات واحادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بےشک ہوگی، مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے۔ جنہیں اللہ اجازت دے گا۔ اور صرف اسی بندے کے بارے میں کرسکیں گے جس کے لئے اللہ اجازت دے گا۔ اور اللہ صرف اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا۔ یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے، انبیا ورسل بھی، اور شہدا وصالحین بھی۔ مگر اللہ پر ان میں کسی بھی شخصیت کا کوئی دباؤ نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ﴿وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾ (الأنبياء : 28)۔ البقرة
255 1- یہ آیت الکرسی ہے جس کی بڑی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً یہ آیت قرآن کی اعظم آیت ہے۔ اس کے پڑھنے سے رات کو شیطان سے تحفظ رہتا ہے۔ ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے وغیرہ (ابن کثیر) یہ اللہ تعالیٰ کی صفات جلال، اس کی علو شان اور اس کی قدرت وعظمت پر مبنی نہایت جامع آیت ہے۔ 2- كُرْسِيٌّ سے بعض نے مَوْضِعُ قَدَمَيْنِ (قدم رکھنے کی جگہ)، بعض نے علم،بعض نے قدرت وعظمت، بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے۔ لیکن صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محدثین اور سلف کا یہ مسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات جس طرح قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان کی بغیر تاویل اور کیفیت بیان کئے، ان پر ایمان رکھا جائے۔ اس لئے یہی ایمان رکھنا چاہیے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے جو عرش سے الگ ہے۔ اس کی کیفیت کیا ہے، اس پر وہ کس طرح بیٹھتا ہے؟ اس کو ہم بیان نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی حقیقت سے ہم بےخبر ہیں۔ البقرة
256 1- اس کی شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی یا عیسائی ہوگئے تھے، پھر جب یہ انصار مسلمان ہو گئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو یہودی یا عیسائی بن چکے تھے، زبردستی مسلمان بنانا چاہا ، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول کے اس اعتبار سے بعض مفسرین نے اسے اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب، اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں، تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے، یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لئے جبر نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے۔ تاہم کفر وشرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ اور جبرواکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباؤ ختم کرنا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں روڑہ بنی ہوئی ہو۔ تاکہ ہر شخص اپنی آزاد مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہوجائے۔ چونکہ روڑہ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لئے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی، جیسا کہ حدیث میں ہے [ الجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ]، ”جہاد قیامت تک جاری رہے گا“، خود نبی (ﷺ) نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے۔[ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ]، الحديث- (صحيح بخاري- كتاب الإيمان ، باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة) ”مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں“۔ اسی طرح سزائے ارتداد (قتل) سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں)۔ کیونکہ ارتداد کی سزا۔ قتل۔ سے مقصود جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بےشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو پھر اس سے بغاوت وانحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ کر اسلام لائے۔ کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہوسکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ اس لئے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر، قتل، چوری ، زنا، ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔ یہ جبر واکراہ نہیں ہے۔ بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل وغارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے۔ ایک کا مقصدملک کا نظریاتی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شروفساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد، ایک مملکت کے لئے ناگزیر ہیں۔ آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظرانداز کرکے جن الجھنوں، دشواریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ البقرة
257 البقرة
258 البقرة
259 1- أَوْ كَالَّذِي کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے (پہلے واقعہ کی طرح) اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا۔۔۔ یہ شخص کون تھا؟ اس کی بابت مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ زیادہ مشہور حضرت عزیر کا نام ہے جس کے بعض صحابہ وتابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے کے واقعہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام ونمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کردیا، حتیٰ کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ جب وہ سو سال کے بعد زندہ کرسکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ 2- کہا جاتا ہے کہ جب وہ شخص مذکور مرا تھا، اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی، اس سے اس نے یہ اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اور اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کہ اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ 3- یعنی یقین تو مجھے پہلے بھی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور عمل میں مزید پختگی اور اضافہ ہوگیا ہے۔ البقرة
260 1- یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا۔ یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعیین کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کئے۔ بس یہ چار مختلف پرندے تھے۔ فَصُرْهُنَّ کے ایک معنی أَمِلْهُنَّ کئے گئے ہیں یعنی ان کو ”ہلالے“ (مانوس کرلے) تاکہ زندہ ہونے کے بعد ان کو آسانی سے پہچان لے کہ یہ وہی پرندے ہیں اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ اس معنی کے اعتبار سے پھر اس کے بعد ثم قَطِّعْهُنَّ(پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرلے) محذوف ماننا پڑے گا۔ دوسرے معنی قطعھن (ٹکڑے ٹکڑے کرلے) کئے گئے ہیں۔ اس صورت میں کچھ محذوف مانے بغیر معنی ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف پہاڑوں پر ان کے اجزا باہم ملا کر رکھ دے، پھر تو آواز دے تو وہ زندہ ہو کر تیرے پاس آجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض جدید وقدیم مفسرین نے (جو صحابہ وتابعین کی تفسیر اور سلف کے منہج ومسلک کو اہمیت نہیں دیتے) فَصُرْهُنَّ کا ترجمہ صرف (ہلالے) کا کیا ہے۔ اور ان کے ٹکڑے کرنے اور پہاڑوں پر ان کے اجزا بکھیر نے اور پھر اللہ کی قدرت سے ان کے جڑنے کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں، اس سے واقعے کی ساری اعجازی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور مردے کو زندہ کر دکھانے کا سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود اللہ تعالیٰ کی صفت احیائے موتی اور اس کی قدرت کاملہ کا اثبات ہے۔ ایک حدیث میں ہےنبی (ﷺ) نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے اس واقعے کا تذکرہ کرکے فرمایا: [ نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ ]، (صحيح بخاري، كتاب التفسير) ”ہم ابراہیم (عليه السلام) سے زیادہ شک کرنے کے حق دار ہیں“۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابراہیم (عليه السلام) نے شک کیا، لہذا ہمیں ان سے زیادہ شک کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ بلکہ مطلب حضرت ابراہیم (عليه السلام) سے شک کی نفی ہے۔ یعنی ابراہیم (عليه السلام) نے احیائے موتی کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقیناً شک کرنے میں ان سے زیادہ حق دار ہوتے۔ (مزید وضاحت کے لئے دیکھیے فتح القدیر۔ للشوکانی ) البقرة
261 1- یہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے۔ اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات وصدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیاں [ الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا ]، ”ایک نیکی کا اجر دس گنا“، کی ذیل میں آئیں گی۔ (فتح القدیر) گویا نفقات وصدقات کا عام اجر وثواب، دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان واسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا، فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کئے جاسکتے۔ البقرة
262 1- انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کرکے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے۔ کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے: ”قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں ایک احسان جتلانے والا ہے۔“ (مسلم، كتاب الإيمان، باب غلظ تحريم إسبال الإزار والمنّ بالعطية البقرة
263 1- سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل وکرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مَغْفِرَةٌ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو اس سے چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے۔ یعنی سائل سے نرمی وشفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل ورسوا کرکے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اسی لئے حدیث میں کیا گیا ہے [ الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ ]، (صحيح مسلم كتاب الزكاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على نوع من المعروف) ”پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے“، نیز نبی (ﷺ) نے فرمایا ”تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔“ [ لا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلِقٍ ]۔ (مسلم، كتاب البرّ، باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء البقرة
264 1- اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ صدقہ وخیرات کرکے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا، اہل ایمان کا شیوہ نہیں، بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے، ایسے خرچ کی مثال صاف چٹان کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو ، کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہوجائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی، اسی طرح ریاکار کو بھی اس کے صدقہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ البقرة
265 1- یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پرفضا اور بلند چوٹی پر ہو، کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اس کو کافی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ان کے نفقات بھی، چاہے کم ہو یا زیادہ، عنداللہ کئی کئی گنا اجر وثواب کے باعث ہوں گے جَنَّةٌ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ، جس کے چاروں طرف باڑھ ہو اور باڑھ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے، جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی، پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا، دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اور جنت کو بھی اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ ربوۃ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وابل تیز بارش۔ البقرة
266 1- اسی ریا کاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لئے مزید مثال دی جارہی ہے کہ جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی اس سے بھرپور آمدنی کی امید ہو) ، وہ شخص بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں (یعنی وہ خود بھی ضعف پیری اور کبرسنی کی وجہ سے محنت ومشقت سے عاجز ہوچکا ہو اور اولاد بھی اس کے بڑھاپے کا سہارا تو کیا؟ خود اپنا بوجھ بھی اٹھانے کے قابل نہ ہو) اس حالت میں تیز وتند ہوائیں چلیں اور اس کا سارا باغ جل جائے۔ اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا نہ اس کی اولاد۔ یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا۔ کہ نفاق وریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت وفرصت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو؟ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنھما) اور حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہوجاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں(صحيح بخاري، كتاب التفسير، فتح القدير، للشوكاني وتفسير ابن جرير طبري البقرة
267 1- صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ من واذی اور ریاکاری سے پاک ہو (جیسا کہ گذشتہ آیات میں بتایا گیا ہے) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو۔چاہے وہ کاروبار (تجارت وصنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے۔ اور یہ جو فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو)۔ تو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔ حدیث میں ہے: [ إنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبا ]، ”اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک (حلال) چیز ہی قبول فرماتا ہے۔“ دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں، ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں، جیسا کہ آیت ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ کا بھی مفاد ہے۔ اس کی شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ )۔ 2- یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے، اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی اچھی چیز ہی خرچ کرو۔ البقرة
268 1- یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہوجاؤ گے۔ لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا۔ بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے اور ان کے لئے خفتہ آرزوؤں کو اس طرح جگاتا ہے کہ ان پر انسان بڑی سے بڑی رقم بے دھڑک خرچ کر ڈالتا ہے۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو، دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اور مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے۔ لیکن یہی شخص سینما، ٹیلی ویژن، شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بےتحاشا خرچ کرتا ہے۔ اور اس سے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔ البقرة
269 1- حِكْمَةٌ سے بعض کے نزدیک، عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ و منسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہوسکتے ہیں۔ صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ ”دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ (صحيح بخارى، كتاب العلم، باب الاغتباط في العلم والحكمة - مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلِّمه ....) البقرة
270 1- نَذْرٍ کا مطلب ہے کہ میرا فلاں کام ہوگیا یا فلاں ابتلا سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کروں گا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں۔ نذر بھی، نماز روزہ کی طرح، عبادت ہے۔ اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا ہے جو شرک ہے، جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر ونیاز کا یہ سلسلہ عام ہے، اللہ تعالیٰ اس شرک سے بچائے۔ البقرة
271 1- اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے، سوائے کسی ایسی صورت کے کہ علانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضیلت حاصل کرسکتے ہیں، وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ وخیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کوقیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا، ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا، کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضیلت کو بعض علما نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکٰوۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔ البقرة
272 1- تفسیری روایات میں اس کی شان نزول یہ بیان کی گئی ہے کہ مسلمان اپنے مشرک رشتے داروں کی مدد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہدایت کے راستے پر لگا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تم لوجہ اللہ جو بھی خرچ کرو گے، اس کا پورا اجر ملے گا جس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلم رشتے داروں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کرنا باعث اجر ہے۔ تاہم زکٰوۃ صرف مسلمانوں کا حق ہے یہ کسی غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی۔ البقرة
273 1- اس سے مراد وہ مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہر چیز سے کٹ گئے۔ دینی علوم حاصل کرنے والے طلبا اور علما بھی اس کی ذیل میں آسکتے ہیں۔ 2- گویا اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقر وغربت کے باوجود وہ تَعَفُّفْ ( سوال سے بچنا) اختیار کرتے اور الحاف (چمٹ کر سوال کرنا) سے گریز کرتے ہیں۔ بعض نے الحاف کے معنی کئے ہیں، بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلے صفت عفت بیان کی گئی ہے (فتح القدیر) اور بعض نے کہا ہے کہ وہ سوال میں الحاح وزاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے۔ اس لئے کہ الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے اس مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ [ مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک، دو دو لقمے کے لئے در در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ مسکین تو وہ ہے جو سوال سے بچتا ہے ]، پھر نبی (ﷺ) نے آیت ﴿لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾ کا حوالہ پیش فرمایا (صحیح بخاری، التفسیر والزکاۃ )۔ اس لئے پیشہ ور گداگروں کی بجائے، مہاجرین، دین کے طلبا علما اور سفید پوش ضرورت مندوں کا پتہ چلا کر ان کی امداد کرنی چاہیے۔ جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خودداری کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں حدیث میں آتا ہے کہ جس کے پاس ما يغني ہو [ یعنی اتنا سامان ہو جو اس کی کفایت کرتا ہو ]، لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں سے سوال کرے گا، تو قیامت والے دن اس کے چہرے پر زخم ہوں گے۔ (رواه أهل السنن الأربعة - ترمذي، كتاب الزكاة) اور بخاری ومسلم کی روایت میں ہے کہ ”ہمیشہ لوگوں سے سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا“۔ (بحواله مشكاة، كتاب الزكاة باب من لا تحل له المسالة ومن تحل له) البقرة
274 البقرة
275 1- رِبَا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اور شریعت میں اس کا اطلاق "رِبَا الْفَضْلِ اور رِبَا النَّسِيئَةِ" پر ہوتا ہے۔ "رِبَا الْفَضْلِ"، اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد وادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے، مثلاً گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے يَدًا بِيَدٍ( ہاتھوں ہاتھ) ہو۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کی بجائے، ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں، تب بھی سود ہے) "رِبَا النَّسِيئَةِ" کا مطلب ہے کسی کو (مثلاً) 6 مہینے کے لئے اس شرط پر سو روپے دینا، کہ واپسی 125 روپے ہوگی۔ 25روپے 6 مہینے کی مہلت کے لئے جائیں حضرت علی (رضي الله عنه) کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ "كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا" (فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 5، ص 28 ) ”قرض پر لیا گیا نفع سود ہے“، یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لئے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر لیا گیا سود حرام ہے اور زمانۂ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا۔ شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے۔ اس لئے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ (جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے) اس پر اضافہ، سود نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلاً قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے۔ بلکہ، منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے۔ بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چاہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے۔ یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیوی غرض ومنفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جس سے معاشرے میں اخوت، بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت و محبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بےروزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت سنگ دلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں، تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لئے لئے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔ 2- سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔ 3- حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے۔ دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے، جب کہ سود میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر یہ دونوں ایک کس طرح قبول ہوسکتے ہیں؟ 4- قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔ 5- کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رکھتا ہو یا سوء عمل اور فسادنیت کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے وعید ہے۔ البقرة
276 1- یہ سود کی معنوی اور روحانی مضرتوں اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف اب یورپی ماہرین معیشت بھی کرنے لگے ہیں۔ البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 1- یہ ایسی سخت وعید ہے جو اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس (رضی الله عنہما) نے کہا ہے کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو، تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے۔ (ابن کثیر ) 2- تم اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا۔ البقرة
280 1- زمانۂ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود، اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا، جس سے وہ تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے، احادیث میں بھی اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ؟ ایک سراسر ظلم، سنگ دلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام۔ مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پررحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام ؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت و افادیت کو سمجھ سکیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوار کرسکیں۔ البقرة
281 1- بعض آثار میں ہے کہ یہ قرآن کریم کی آخری آیت ہے جو نبی کریم (ﷺ) پر نازل ہوئی، اس کے چند دن بعد ہی آپ (ﷺ) دنیا سے رحلت فرما گئے۔ (ابن کثیر ) البقرة
282 1- جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات وخیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں دیون (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ کیونکہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ وخیرات کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا۔ پھر اپنی ضروریات وحاجات پوری کرنے کے لئے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے، اس میں بےاحتیاطی یا تساہل جھگڑوں کا باعث بھی ہے۔ اس لئے اس آیت میں، جسے آیہ الدین کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے، اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنے۔ اس کے لئے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کرلو، دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو، تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو، یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ 2- اس سے مراد مقروض ہے یعنی وہ اللہ سے ڈرتا ہوا رقم کی صحیح تعداد لکھوائے، اس میں کمی نہ کرے۔ آگے کہا جا رہا ہے کہ یہ مقروض اگر کم عقل یا کمزور بچہ یا مجنون ہے تو اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف کےساتھ لکھوالے تاکہ صاحب حق (قرض دینے والے) کو نقصان نہ ہو۔ 3- یعنی جن کی دین داری اور عدالت پر تم مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کریم کی اس نص سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں، سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھا لے۔ فقہائے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں، جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں، کیونکہ حدیث سے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا ثابت ہے اور دو عورتیں جب ا یک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا۔ (فتح القدیر )۔ 4- یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت وحکمت ہے۔ یعنی عورت عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے) اس میں عورت کے استخفاف اور فروتری کا اظہار نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں) بلکہ ایک فطری کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر مبنی ہے۔ مُكَابَرَةً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق وواقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔ 5- یہ لکھنے کے فوائد ہیں کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، گواہی بھی درست رہے گی (کہ گواہ کے فوت یا غائب ہونے کی صورت میں بھی تحریر کام آئے گی) اور شک وشبہہ سے بھی فریقین محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ شک پڑنے کی صورت میں تحریر دیکھ کر شک دور کر لیا جاسکتا ہے۔ 6- یہ وہ خرید وفروخت ہے جس میں ادھار ہو یا سودا طے ہوجانے کے بعد بھی انحراف کا خطرہ ہو۔ ورنہ اس سے پہلے نقد سودے کو لکھنے سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ بعض نے اس بیع سے مکان دکان، باغ یا حیوانات کی بیع مراد لی ہے۔ (ایسرالتفاسیر) 7- ان کو نقصان پہچانا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقے میں ان کو بلایا جائے کہ جس سے ان کی مصروفیات میں حرج یا کاروبار میں نقصان ہو یا ان کو جھوٹی بات لکھنے یا اس کی گواہی دینے پر مجبور کیا جائے۔ 8- یعنی جن باتوں کی تاکید کی گئی ہے، ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے اجتناب کرو۔ البقرة
283 1- اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے اور وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل وغیرہ نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جا رہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز دائن (قرض دینے والے) کے پاس رہن (گروی) رکھ دے۔ اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی۔ (صحیحین) تاہم اگر مَرْهُونَةٌ (گروی رکھی ہوئی چیز) ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حق دار مالک ہوگا نہ کہ دائن۔ البتہ اس پر دائن کا اگر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچہ وصول کرسکتا ہے۔ باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔ 2- یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کرسکتے ہو۔ امانت سے مراد یہاں قرض ہے، اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔ 3- گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے، اس لئے اس پر سخت وعید یہاں قرآن میں اور احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ اسی لئے صحیح گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہوجائے“، [ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِه قَبْل أَنْ يُسْأَلَهَا ]، (صحيح مسلم، كتاب الأقضية، باب بيان خير الشهود) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ [ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِشَرّ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَشْهَدُونَ قَبْلَ أنْ يُسْتَشْهَدُوا ]، (صحيح بخاري، كتاب الرقاق- مسلم، كتاب فضائل الصحابة) ”کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں۔“، مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ کتمان دل کا فعل ہے۔ علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغۂ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا اور اگر اس میں فساد آ جائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ [ أَلا! وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلا! وَهِيَ الْقَلْبُ ]۔ (صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه) البقرة
284 1- احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! نماز، روزہ، زکٰوۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال، جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، ہم بجا لاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں۔ لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں ہے اور وہ تو انسانی طاقت سے ہی ماورا ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرما دیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا۔ فی الحال تم «سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا» ہی کہو۔ چنانچہ صحابہ (رضی الله عنہم) کے جذبہ سمع وطاعت کو دیکھتے ہوئےاللہ تعالے نے اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ ”اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا“، سے منسوخ فرما دیا (ابن کثیر وفتح القدیر) صحیحین وسنن اربعہ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ [ إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ ]۔ (صحيح بخاري، كتاب العتق ، باب الخطأ والنسيان في العتاقة... ومسلم، كتاب الإيمان، باب تجوز أمته عن حديث النفس ....) ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کردیا جائے“، اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا، صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم وارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں۔ اس کے برعکس امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ محاسبہ معاقبہ کو لازم نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا بھی محاسبہ کرے، اس کو سزا بھی ضرور دے، بلکہ اللہ تعالیٰ محاسبہ تو ہر ایک کا کرے گا ، لیکن بہت سے لوگ ہوں گے کہ محاسبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا بلکہ بعض کے ساتھ تو یہ معاملہ فرمائے گا کہ اس کا ایک ایک گناہ یاد کراکے ان کا اس سے اعتراف کروائے گا اور پھر فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈالے رکھا، جاآج میں ان کو معاف کرتا ہوں (یہ حدیث صحیح بخاری، مسلم وغیرہما میں ہے بحوالہ ابن کثیر) اور بعض علما نے کہا ہے کہ یہاں نسخ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ بعض دفعہ اسے وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے دل میں جو شبہ اس آیت سے پیدا ہوا تھا، اسے آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا﴾ اور حدیث [ إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي... ]، وغیرہ سے دور کردیا گیا۔ اس طرح ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ البقرة
285 1- اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر ا ہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے اگلی آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ﴾ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وشفقت اور اس کے فضل وکرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا ہے جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ’’جو شخص سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہوجاتی ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری۔ ابن کثیر) یعنی اس عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے۔ نبی (ﷺ) کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں، ان میں سے ایک سورۂ بقرہ کی یہ آخری دو آیات بھی ہیں۔ (صحیح مسلم، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی) کئی روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ اس سورہ کی آخری آیات آپ (ﷺ) کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں (أحمد، نسائي ، طبراني، بيهقي، حاكم دارمي وغيره-در منثور) حضرت معاذ (رضي الله عنه) اس سورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔ (ابن کثیر) البقرة
286 البقرة
0 آل عمران
1 آل عمران
2 1- حَيّ اور قَيُّومٌ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں حی کا مطلب وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، اسے موت اور فنا نہیں۔ قیوم کا مطلب ساری کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتےتھے۔ گویا ان کو کہا جا رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانۂ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصے بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ، یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہوتا تو انہیں مخلوق کے بجائے الوہی صفات کا حامل اور قدیم ہونا چاہیےتھا۔ نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے۔ اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہو چکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو وہ رد نہیں ہوتی۔ ایک یہی آل عمران کی آیت، دوسری آیت الکرسی میں ﴿اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ اور تیسری سورء طٰہ میں ﴿وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ﴾ (ابن کثیر۔ تفسیر آیت الکرسی ) آل عمران
3 1- یعنی اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ آل عمران
4 1- اس سے پہلے انبیاء پرجو کتابیں نازل ہوئیں۔ یہ کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے یعنی جوباتیں ان میں درج تھیں، ان کی صداقت اور ان میں بیان کردہ پیش گوئیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن کریم بھی اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پہلے بہت سی کتابیں نازل فرمائیں۔ اگر یہ کسی اور کی طرف سے یا انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا تو ان میں باہم مطابقت کے بجائے مخالفت ہوتی۔ 2- یعنی اپنے اپنے وقت میں تورات اور انجیل بھی یقیناً لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ تھیں، اس لئے کہ ان کے اتارنے کا مقصد ہی یہی تھا۔ تاہم اس کے بعد ﴿وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ﴾ دوبارہ کہہ کر وضاحت فرما دی۔ کہ مگر اب تورات وانجیل کادور ختم ہو گیا، اب قرآن نازل ہو چکا ہے، وہ فرقان ہے اور اب صرف وہی حق وباطل کی پہچان ہے، اس کو سچا مانے بغیر عنداللہ کوئی مسلمان اور مومن نہیں۔ آل عمران
5 آل عمران
6 1- خوبصورت یا بدصورت، مذکر یا مونث، نیک بخت یا بدبخت، ناقص الخلقت یا تام الخلقت۔ جب رحم مادر میں یہ سارے تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے تو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) الٰہ کس طرح ہو سکتے ہیں جو خودبھی اسی مرحلۂ تخلیق سے گزر کر دنیا میں آئے ہیں جس کا سلسلہ اللہ نے رحم مادر میں قائم فرمایا ہے۔ آل عمران
7 1- مُحْكَمَاتٌ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر ونواہی، احکام ومسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا۔ اس کے برعکس آيَاتٌ مُتَشَابِهَاتٌ ہیں مثلاً اللہ کی ہستی، قضا وقدر کے مسائل، جنت دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اسی لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے (فتنے) برپا کرتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نےحضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو عبداللہ اور نبی کہا ہے یہ واضح اور محکم بات ہے۔ لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جوکہا گیا ہے، اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدلال کرتے ہیں۔ یہی حال اہل بدعت کاہے۔ قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں، وہ انہی مُتَشَابِهَاتٌ کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات مُحْكَمَاتٌ کوبھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے مُتَشَابِهَاتٌ بناتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهم نہ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پرعمل کرتا ہے اورمُتَشَابِهَاتٌ کے مفہوم کو بھی (اگر اس میں اشتباہ ہو) محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی کو (اصل کتاب) قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد کی گمراہی سے بھی۔ جَعَلَنَا اللهُ منْهُمْ 2- تاویل کے ایک معنی تو ہیں (کسی چیز کی اصل حقیقت) اس معنی کے اعتبار سےإِلا اللهُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طورپرصرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تاویل کے دوسرے معنی ہیں ”کسی چیزکی تفسیر وتعبیر اوربیان وتوضیح“ اس اعتبار سے الا اللہ پر وقف کے بجائے ﴿وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ﴾ پر بھی وقف کیا جاسکتاہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر وتوضیح کا علم رکھتے ہیں۔ ”تاویل“ کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں۔ (ملخص ازابن کثیر) آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 آل عمران
12 1- یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں۔ اور یہ پیش گوئی جلدہی پوری ہوگئی۔ چنانچہ بنو قینقاع اور بنو نضیر جلا وطن کیے گئے، بنو قریظہ قتل کیے گئے۔ پھر خیبر فتح ہوگیا اور تمام یہودیوں پر جزیہ عائد کر دیا گیا (فتح القدیر) آل عمران
13 1- یعنی ہر فریق، دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا تھا۔ کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے۔ مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا۔ اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر (یا 313 ) تھی، انہیں کافر 600 اور 700 کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالیکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب (تین گنا) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کے عزم وحوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرعوب ہو جاتے۔ جب وہ تین گنا کے بجائے دو گنا نظر آئےتو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ لیکن یہ دگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی، پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کرکے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے (ابن کثیر) یہ تفصیل سورۃ الانفال۔ آیت 44 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا۔ یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی۔ ایک تو اس لیے کہ یہ پہلی جنگ تھی۔ دوسرے، یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی۔ مسلما ن ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جا رہا تھا، مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ تو بچا کر لے گیا، لیکن کفار مکہ اپنی طاقت وکثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر میں یہ پہلا معرکہ برپا ہوا۔ تیسرے، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی، چوتھے، اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی، جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ آل عمران
14 1- شَهَوَاتٌ سے مراد یہاں مُشْتَهَيَاتٌ ہیں یعنی وہ چیزیں جوطبعی طور پر انسان کو مرغوب اورپسندیدہ ہیں۔ اسی لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ﴾ (الكهف: 7) ”ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اسے زمین کی زینت بنایاہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں“ سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (ﷺ) کا فرمان ہے: [ حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَالطِّيبُ ] (مسند احمد) ”عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہیں“۔ اسی طرح نبی (ﷺ) نے نیک عورت کو ”دنیا کی سب سے بہتر متاع“ قرار دیا ہے [ خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ ] اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی۔ ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ فرمان رسول (ﷺ) ہے: [ مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجِالِ مِنَ النِّسَاءِ ] (صحيح بخاري كتاب النكاح، باب ما يتقى من شؤم المرأة)(میرے بعد جو فتنے رونما ہوں گے، ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔) اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے۔ اگر اس سے مقصد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا وتکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مذموم۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الْوَلُودَ؛ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ] (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا) اس آیت سے رھبانیت کی تردیداور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ بَنِينٌ جمع ہے۔ مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت، صلۂ رحمی، صدقہ وخیرات اور اسے امور خیر میں خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری، دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور باربرداری کا کام لینا اور زمین سےاس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پرفخر وغرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش وعشرت سے زندگی گزارنا ہے تو یہ سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہوں گی۔ قَنَاطِيرُ قِنْطَارٌ (خزانہ) کی جمع ہے۔ مراد ہے خزانے یعنی سونے چاندی اورمال ودولت کی فراوانی اور کثرت۔ المُسَوَّمَةِ وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں۔ یا جہاد کےلئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے کوئی نشان یا نمبرلگادیا جائے (فتح القدیر وابن کثیر) آل عمران
15 1- اس آیت میں اہل ایمان کو بتلایا جا رہا ہے کہ دنیاکی مذکورہ چیزوں میں ہی مت کھو جانا، بلکہ ان سے بہتر تو وہ زندگی اور اس کی نعمتیں ہیں جو رب کے پاس ہیں، جن کے مستحق اہل تقویٰ ہی ہوں گے۔ اس لئے تم تقویٰ اختیار کرو۔ اگر یہ تمہارے اندر پیدا ہو گیا تو یقیناً تم دین ودنیاکی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹ لو گے۔ 2- پاکیزہ، یعنی وہ دنیاوی میل کچیل، حیض ونفاس اور دیگر آلودگیوں سے پاک ہوں گی اورپاک دامن ہونگی۔ اس سے اگلی دو آیات میں اہل تقویٰ کی صفات کا تذکرہ ہے۔ آل عمران
16 آل عمران
17 آل عمران
18 1- شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا، اور بیان کیا، اس کے ذریعے سے اس نےاپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اوراہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور فرشتوں کے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب وسنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر) آل عمران
19 1- اسلام وہی دین ہے جس کی دعوت وتعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اب اس کی کامل ترین شکل وہ ہے جسے نبی آخرالزمان حضرت محمد (ﷺ) نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جس میں توحید ورسالت اور آخرت پر اس طرح یقین وایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم (ﷺ) نے بتلایا ہے۔ اب محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کر لینا، یہ اسلام نہیں نہ اس سے نجات آخرت ہی ملے گی۔ ایمان واسلام اوردین یہ ہے کہ اللہ کوایک مانا جائے اور صرف اسی ایک معبود کی عبادت کی جائے، محمد رسول اللہ (ﷺ) سمیت تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔ اور نبی (ﷺ) کی ذات پر رسالت کا خاتمہ تسلیم کیاجائے اورایمانیات کے ساتھ ساتھ وہ عقائد واعمال اختیار کئے جائیں جو قرآن کریم میں یا حدیث رسول (ﷺ) میں بیان کئے گئے ہیں۔ اب اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین عنداللہ قبول نہیں ہو گا۔ ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (آل عمران: 85) نبی (ﷺ) کی رسالت پوری انسانیت کے لئے ہے۔ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ (الأعراف: 158) ”کہہ دیجئے! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں“، ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ (الفرقان: 1) ”برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کا ڈرانے والا ہو“ اور حدیث میں ہے، نبی (ﷺ) نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو یہودی یا نصرانی مجھ پرایمان لائے بغیر فوت ہوگیا، وہ جہنمی ہے۔“ (صحیح مسلم) مزید فرمایا [ بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ ] ”میں احمرواسود (یعنی تمام انسانوں کے لئے نبی بناکربھیجا گیاہوں“ اسی لئے آپ (ﷺ) نے اپنے وقت کے تمام سلاطین اور بادشاہوں کوخطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی (صحیحین۔ بحوالہ ابن کثیر ) 2- ان کے اس باہمی اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو ایک ہی دین کے ماننے والوں نے آپس میں برپا کر رکھا تھا مثلاً یہودیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں۔ اسی طرح عیسائیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں، پھر وہ اختلاف بھی مراد ہے جواہل کتاب کے درمیان آپس میں تھا۔ اور جس کی بناپر یہودی نصرانیوں کو اورنصرانی یہودیوں کوکہاکرتے تھے (تم کسی چیز پر نہیں ہو۔) نبوت محمدی (ﷺ) اور نبوت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں اختلاف بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سارے اختلافات دلائل کی بنیاد پر نہیں تھے، محض حسد اوربغض وعناد کی وجہ سے تھے یعنی وہ لوگ حق کو جاننے اورپہچاننے کے باوجود محض اپنے خیالی دنیاوی مفاد کے چکر میں غلط بات پر جمے رہتے اور اس کو دین باور کراتے تھے۔ تاکہ ان کی ناک بھی اونچی رہے اور ان کاعوامی حلقۂ ارادت بھی قائم رہے۔ افسوس آج مسلمان علما کی ایک بڑی تعداد ٹھیک انہی غلط مقاصد کے لئے ٹھیک اسی غلط ڈگر پر چل رہی ہے۔ -هَدَاهُمُ اللهُ وَإِيَّانَا- 3- یہاں ان آیتوں سے مراد وہ آیات ہیں جو اسلام کے دین الٰہی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ آل عمران
20 1- ان پڑھ لوگوں سے مراد مشرکین عرب ہیں جو اہل کتاب کے مقابلے میں بالعموم ان پڑھ تھے۔ آل عمران
21 1- یعنی ان کی سرکشی وبغاوت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی انہوں نے ناحق قتل نہیں کیابلکہ ان تک کو بھی قتل کر ڈالاجو عدل وانصاف کی بات کرتے تھے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین اور داعیان حق جو امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت وفضیلت بھی واضح کردی۔ آل عمران
22 آل عمران
23 1- ان اہل کتاب سے مراد مدینے کے وہ یہودی ہیں جن کی اکثریت قبول اسلام سے محروم رہی اوروہ اسلام، مسلمانوں اور نبی (ﷺ) کے خلاف مکروہ سازشوں میں مصروف رہے تاآنکہ ان کے دوقبیلے جلا وطن اورایک قبیلہ قتل کردیا گیا۔ آل عمران
24 1- یعنی کتاب اللہ کے ماننے سے گریز واعراض کی وجہ ان کایہ زعم باطل ہے کہ اول تووہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں، اوراگرگئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے۔ اور انہی من گھڑت باتوں نے انہیں دھوکےاور فریب میں ڈال رکھا ہے۔ آل عمران
25 1- قیامت والے دن ان کے یہ دعوے اور غلط عقائد کچھ کام نہ آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بے لاگ انصاف کے ذریعے سے ہر نفس کو، اس کے کیے کاپورا پورا بدلہ دے گا،کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
26 1- اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت وطاقت کا اظہار ہے، شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک وہی ہے الْخَيْرُ بِيَدِكَ کی بجائے بِيَدِكَ الْخَيْرُ (خبر کی تقدیم کے ساتھ) سے مقصود تخصیص ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں۔ ”شر“ کا خالق بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے، شر کا نہیں۔ اس لئے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے، بخلاف شر کے کہ یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اس لئے کہ شر بھی اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے، اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں۔ فَأَفْعَالُهُ كُلُّهَا خَيْرٌ (فتح القدير) آل عمران
27 1- رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں۔ رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہو جاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے۔ یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے یا بڑے ہوجاتے ہیں۔ 2- جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکالتا ہے پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان۔ اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی اور پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے کافر پیدا فرماتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاذ (رضي الله عنه) نے نبی (ﷺ) سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”تم آیت ﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ﴾ (آل عمران) پڑھ کر یہ دعا کرو [ رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَا تُعْطِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُمَا وَتَمْنَعُ مَنْ تَشَاءُ، ارْحَمْنِي رَحْمَةً تُغْنِينِي بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ، اللَّهُمَّ أغْنِنِي مِنَ الْفَقْرِ، وَاقْضِ عَنِّي الدَّيْنَ ] ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تواللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام فرما دے گا۔“ (مجمع الزوائد: 10/186- رجاله ثقات) آل عمران
28 1- اولیا ولی کی جمع ہے۔ ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے دلی محبت اورخصوصی تعلق ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ ﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ( البقرۃ: 257) یعنی ”اللہ اہل ایمان کا ولی ہے“۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت ومصلحت ان سے صلح ومعاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر، مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں، ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورۂ ممتحنہ میں ہے) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات (دوستی ومحبت) سے مختلف ہے۔ 2- یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 1- یہود اور نصاریٰ دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ تعالیٰ کو ہم سے محبت ہے، بالخصوص عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ومریم علیھما السلام کی تعظیم ومحبت میں جو اتنا غلو کیا کہ انہیں درجۂ الوہیت پر فائز کر دیا، اس کی بابت بھی ان کا خیال تھا کہ ہم اس طرح اللہ کا قرب اور اس کی رضا ومحبت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دعوؤں اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور اس کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسکا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میرے آخری پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کا اتباع کرو۔ اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الٰہی کا طالب اگر اتباع محمد (ﷺ) کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، تو پھر تو یقیناً وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے، ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا۔ نبی (ﷺ) کا بھی فرمان ہے[ مَنْ عَمِلَ عَمَلا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدُّ ] (متفق علیہ) جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ نہیں ہے یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے تو وہ مسترد ہے۔ 2- یعنی اتباع رسول (ﷺ) کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہوں گے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔ آل عمران
32 1- اس آیت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اطاعت رسول (ﷺ) کی پھر تاکید کرکے واضح کر دیا کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعت محمدی میں ہے اوراس سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔ اس آیت میں حجیت حدیث کے منکرین اور اتباع رسول (ﷺ) سے گریز کرنے والوں دونوں کے لئے سخت وعید ہے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. آل عمران
33 1- انبیا (عليهم السلام)کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ وہارون علیھما السلام کے والد اور دوسرے حضرت مریم علیہا السلام کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کا نام مفسرین نے حنَّة بِنْت فَاقُوذ لکھا ہے (تفسیر قرطبی وابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطافرمائی۔ ان میں پہلے حضرت آدم (عليه السلام) ہیں، جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی،انہیں مسجود ملائک بنایا،اسما کا علم انہیں عطا کیا اور انہیں جنت میں رہائش پذیر کیا، جس سے پھر انہیں زمین میں بھیج دیا گیا جس میں اس کی بہت سی حکمتیں تھیں۔ دوسرے حضرت نوح (عليه السلام) ہیں، انہیں اس وقت رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا، انہیں عمر طویل عطا کی گئی، انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی، لیکن چند افراد کے سوا، کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا، دوسرے تمام لوگوں کو غرق کر دیا گیا۔ آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی کہ ان میں انبیا وسلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے۔ حتیٰ کہ علی الاطلاق کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل (عليه السلام) کی نسل سے ہوئے۔ آل عمران
34 1- یا دوسرے معنی ہیں دین میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار۔ آل عمران
35 1- مُحَرَّرًا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف۔ آل عمران
36 1- اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہےاور عذر بھی۔ حسرت، اس طرح کہ میری امید کے برعکس لڑکی ہوئی ہے اور عذر، اس طرح کہ نذرسے مقصود تو تیری رضا کے لئے ایک خدمت گار وقف کرنا تھا اوریہ کام ایک مرد ہی زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہے تو اسے جانتا ہی ہے۔ (فتح القدیر ) 2- حافظ ابن کثیر نے اس سے اور احادیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچے کا نام ولادت کے پہلے روز رکھنا چاہئے اور ساتویں دن نام رکھنے والی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حافظ ابن القیم نے تمام احادیث پر بحث کر کے آخر میں لکھا ہے کہ پہلے روز، تیسرے روز یا ساتویں روز نام رکھا جا سکتاہے،اس مسئلے میں گنجائش ہے۔ والأَمْرُ فِيهِ وَاسِعٌ ( تحفۃ المودود) 3- اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ چنانچہ حدیث صحیح میں ہے کہ جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو مس کرتا (چھوتا) ہے جس سے وہ چیختا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مس شیطان سے حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے (عیسیٰ عليه السلام) کو محفوظ رکھا ہے۔ [ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلا مَسَّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّهِ إِيَّاهُ ، إِلا مَرْيَمَ وَابْنَهَا ] (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، مسلم، کتاب الفضائل) آل عمران
37 1- حضرت زکریا (عليه السلام) ، حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی تھے، اس لئے بھی، علاوہ ازیں اپنے وقت کے پیغمبر ہونے کے لحاظ سے بھی وہی سب سے بہتر کفیل بن سکتے تھے جو حضرت مریم علیہاالسلام کی مادی ضروریات اور علمی واخلاقی تربیت کے تقاضوں کا صحیح اہتمام کر سکتے تھے۔ 2- مِحْرَابٌ سے مراد حجرہ ہے جس میں حضرت مریم علیہا السلام رہائش پذیر تھیں۔ رزق سے مراد پھل۔ یہ پھل ایک تو غیر موسمی ہوتے، گرمی کے پھل سردی کے موسم میں اور سردی کے گرمی کے موسم میں ان کے کمرے میں موجود ہوتے، دوسرے حضرت زکریا (عليه السلام) یا کوئی اور شخص لا کر دینے والا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت زکریا (عليه السلام) نے از راہ تعجب وحیرت پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا اللہ کی طرف سے۔ یہ گویا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت تھی۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہا جاتا ہے یعنی جو ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت، جب چاہے صادر کر دے۔ اس لئے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے، جیسا کہ اہل بدعت اولیا کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کرا کے انہیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اس کی مزید وضاحت بعض معجزات کے ضمن میں آئے گی۔ آل عمران
38 آل عمران
39 1- بے موسمی پھل دیکھ کر حضرت زکریا (عليه السلام) کے دل میں بھی (بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود) یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسی طرح اولاد سے نواز دے۔ چنانچہ بے اختیار دعا کے لئےہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھ گئے،جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ 2- اللہ کے کلمے کی تصدیق سے مراد حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی تصدیق ہے۔ گویا حضرت یحییٰ، حضرت عیسی علیہما السلام سے بڑے ہوئے۔ دونوں آپس میں خالہ زاد تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی تائید کی۔ سیداً کے معنی ہیں سردار حصوراً کے معنی ہیں، گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکتے گویا کہ ان کو ان سے روک دیا گیا ہے۔ یعنی حَصُورٌبمعنی مَحْصُورٌ، بعض نے اس کے معنی نامرد کے کئے ہیں۔ لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ ایک عیب ہے جب کہ یہاں ان کا ذکر مدح اور فضیلت کے طور پر کیا گیا ہے۔ آل عمران
40 آل عمران
41 1- بڑھاپے میں معجزانہ طور پر اولاد کی خوشخبری سن کر اشتیاق میں اضافہ ہوا اورنشانی معلوم کرنی چاہی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تین دن کے لئے تیری زبان بند ہو جائے گی۔ جو ہماری طرف سے بطور نشانی ہوگی لیکن تو اس خاموشی میں کثرت سے صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کیا کر۔ تاکہ اس نعمت الہ۔ کا جو تجھے ملنے والی ہے، شکر ادا ہو۔ یہ گویا سبق دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طلب کے مطابق تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے تو اسی حساب سے اس کاشکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو۔ آل عمران
42 1- حضرت مریم علیہا السلام کا یہ شرف وفضل ان کے اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح احادیث میں حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) کو بھی خَيْرُ نِسَائِهَا (سب عورتوں میں بہتر) کہا گیا ہے۔ اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قراردیا گیا ہے۔ حضرت مریم، حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی)، حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رضي الله عنهن)۔ اور حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کی بابت کہا گیا ہے کہ انکی فضیلت دیگر تمام عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ (رضی الله عنها) بنت محمد (ﷺ) کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ آل عمران
43 آل عمران
44 1- آج کل کے اہل بدعت نے نبی کریم (ﷺ) کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان کے اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی (ﷺ) عالم الغیب ہوتے، تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو، اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اسی طرح حاضر وناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ ﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾ سے نبی کریم (ﷺ) کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے،غیر پیغمبر پر نہیں۔ آل عمران
45 1- حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس، باپ کے بغیر، اللہ کی خاص قدرت اوراسکے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔ 2- مَسِيحٌ مسح سے ہےأي: مَسَحَ الأَرْضَ یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا، یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے، کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے۔ ان دونوں معنوں کے اعتبار سے یہ فَعِيلٌ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے وہ یا تو بمعنی مفعول یعنی مَمْسُوحُ الْعَينِ ( اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا، (بخاری ومسلم) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لئے اسے بھی الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود ونصاریٰ کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں، یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریباً اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے۔ دجال کو مسیح اس لئے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے۔ اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں، دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا۔ مگر وہ اپنے اس دعویٰ سمیت تمام دعوؤں میں دجل وفریب کا اتنا بڑا پیکر ہوگا کہ اولین وآخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی اس لئے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی اورعَاسَ يَعُوسُ سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست وقیادت کے ہیں (قرطبی وفتح القدیر) آل عمران
46 1- حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کےمَهْدٌ ( گہوارے) میں گفتگو کرنے کا ذکر خود قرآن کریم کی سورۂ مریم میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ صحیح حدیث میں دو بچوں کا ذکر اور ہے۔ ایک صاحب جریج اور ایک اسرائیلی عورت کا بچہ (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ ﴾) اس روایت میں جن تین بچوں کا ذکر ہے، ان سب کا تعلق بنو اسرائیل سے ہے، کیونکہ ان کے علاوہ صحیح مسلم میں اصحاب الاخدود کے قصے میں بھی شیر خوار بچے کے بولنے کا ذکر ہے۔ اور حضرت یوسف کی بابت فیصلہ کرنے والے شاہد کے بارے میں جو مشہور ہے کہ وہ بچہ تھا، صحیح نہیں ہے۔ بلکہ وہ ذُو لِحْيَةٍ ( داڑھی والا) تھا (الضعیفہ۔ رقم 881) كَهْلٌ (ادھیڑ عمر) میں کلام کرنے کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ جب وہ بڑے ہو کر وحی اور رسالت سے سرفراز کئے جائیں گے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ کا قیامت کے قریب جب آسمان سے نزول ہوگا جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے، تو اس وقت جو وہ اسلام کی تبلیغ کریں گے، وہ کلام مراد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر وقرطبی) آل عمران
47 1- تیرا تعجب بجا، لیکن قدرت الٰہی کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، وہ تو جب چاہے اسباب عادیہ وظاہریہ کا سلسلہ ختم کرکے حکم کن سے پلک جھپکتے میں، جو چاہے کر دے۔ آل عمران
48 1- كِتَابٌ سے مراد کتابت (لکھنا) ہے۔ جیسا کہ ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے یا انجیل وتورات کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا (قرطبی) یاتورات وانجیل، الْكِتَابُ اورالْحِكْمَةُ کی تفسیر ہے۔ آل عمران
49 1- أَخْلُقُ لَكُمْ- أَي: أُصَوِّرُ وَأُقَدِّرُ لَكُمْ (قرطبی) یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے۔ یہاں اس کے معنی ظاہری شکل وصورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔ 2- دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں۔ نہیں، میں تو اس کا عاجز بندہ اور رسول ہی ہوں۔ یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے، معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت اور بالا تری نمایاں ہو سکے۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں جادوگری کا بڑا زور تھا، انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے جس سے ان پر حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی صداقت واضح ہوئی اور وہ ایمان لے آئے۔ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا، چنانچہ انہیں مردہ کو زندہ کر دینے، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینے کا معجزہ عطا فرمایا گیا جو کوئی بھی بڑا سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم (ﷺ) کے دور میں شعر وادب اور فصاحت وبلاغت کا زور تھا، چنانچہ انہیں قرآن جیسا فصیح وبلیغ اور پر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے فصحا وبلغا اور ادبا وشعرا عاجز رہے اور چیلنج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے۔ (ابن کثیر) آل عمران
50 1- اس سے مراد یا تو وہ بعض چیزیں ہیں جو بطور سزا اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کر دی تھیں یا پھر وہ چیزیں ہیں جو ان کے علما نےاجہتاد کے ذریعے سے حرام کی تھیں اور اجتہاد میں ان سے غلطی کا ارتکاب ہوا، حضرت عیسیٰ (عليه السلام) نے اس غلطی کا ازالہ کرکے انہیں حلال قرار دیا۔ (ابن کثیر) آل عمران
51 1- یعنی اللہ کی عبادت کرنے میں اور اس کے سامنے ذلت وعاجزی کے اظہار میں میں اور تم دونوں برابر ہیں۔ اس لئے سیدھا راستہ صرف یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ آل عمران
52 1- یعنی ایسی گہری سازشیں اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔ 2- بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آکر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے باشعورلوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی (ﷺ) نے بھی ابتدا میں، جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگاربننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں، جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی (ﷺ) کی انہوں نے قبل ہجرت اور بعد ہجرت مدد کی۔ اسی طرح یہاں حضرت عیسیٰ (عليه السلام) نے مدد طلب فرمائی۔ یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے، پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کر سکتے تھے؟ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لئے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے قول من انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ 3- حواریون، حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيِّ الزُّبَيْرُ ] (صحيح بخاري كتاب الجهاد، باب فضل الطليعة) ”ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر (رضي الله عنه) ہے۔“ آل عمران
53 آل عمران
54 1- حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا، یہاں ان کی طرف سے جو حکمران مقرر تھا،وہ کافر تھا۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے خلاف اس حکمراں کے کان بھر دیئے کہ یہ نَعُوذُ بِاللهِ بغیر باپ کے اور فسادی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حکمران نے ان کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو سولی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن اللہ نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی جگہ ان کے ہم شکل ایک آدمی کو انہوں نے سولی دے دی، اور سمجھتے رہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو سولی دی ہےمَكْرٌعربی زبان میں لطیف اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اور اس معنی میں یہاں اللہ تعالیٰ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ کہا گیا ہے۔ گویا یہ مکر، سئی (برا) بھی ہو سکتا ہے، اگر غلط مقصد کے لئے ہو اور خیر (اچھا) بھی ہو سکتا ہے اگر اچھے مقصد کے لئے ہو۔ آل عمران
55 1- المتوفی کا مصدر توفی اور مادہ وفی ہے جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسی لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پرمعطل کر دیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ ﴿إِنِّي مُتَوَفِّيكَ﴾ میں یہ اسی اپنے حقیقی اور اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی میں اے عیسیٰ (عليه السلام) تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھالوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور بعض نے اس کے مجازی معنی کےشہرت استعمال کے مطابق موت ہی کے معنی کئے ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ الفاظ میں تقدیم وتاخیر ہے یعنی رافعک (میں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں) کے معنی مقدم ہیں اور مُتَوَفِّيكَ (فوت کرنے والا ہوں) کے معنی متاخر، یعنی میں تجھے آسمان پر اٹھالوں گا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر وابن کثیر) 2- اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے، نبی (ﷺ) کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی۔ 3- اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا وہ دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا، گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے۔ یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ (عليه السلام) اور دیگر تمام انبیا کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح اور غیر محرف دین کی پیروی کرتے ہیں۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 1- یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بددعا کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ونزاع ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہیٰ میں یہ دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اس پر لعنت فرما۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 9 ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں وہ جو غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر بحث ومناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی (ﷺ) نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضی الله عنہم) کو بھی ساتھ لیا، اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل وعیال کو بلالو اور پھر مل کر جھوٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورہ کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں، چنانچہ نبی (ﷺ) نے ان پر جزیہ مقرر فرما دیا جس کی وصولی کے لئے آپ (ﷺ) نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رضي اللّٰه عنه) کو، جنہیں آپ (ﷺ) نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا، ان کے ساتھ بھیجا (ملخص از تفسیر ابن کثیر وفتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 1- کسی بت کو نہ صلیب کو، نہ آگ کو اور نہ کسی اور چیز کو، بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ 2- یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہما السلام کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ گھڑ رکھا ہے یہ غلط ہے، وہ رب نہیں ہیں انسان ہی ہیں۔ دوسرا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے اپنے احبار ورہبان کو حلال وحرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے، یہ بھی ان کو رب بنانا ہے جیسا کہ آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ﴾ اس پر شاہد ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے، حلال وحرام کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر ) 3- صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ (ﷺ) نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اور اسے کہاکہ تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دہرا اجر ملے گا، ورنہ ساری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ [ فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، يَؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ ] (صحيح بخاري، كتاب بدء الوحي) ”اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا۔ اسلام لے آ، اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تو نے قبول اسلام سے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہی ہو گا“۔ کیونکہ رعایا کے عدم قبول اسلام کاسبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت میں مذکور تین نکات یعنی (1) صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ (2) اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ (3) اورکسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا وہ کلمۂ سواء ہے جس پر اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ لہٰذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان ہی تین نکات اور اس کلمۂ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس وبنیاد بنانا چاہئے۔ آل عمران
65 1- حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) ان کے دین پر تھے، حالانکہ تورات، جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے،اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے، دونوں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں، پھر حضرت ابراہیم (عليه السلام) یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) اور موسیٰ (عليه السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا اور حضرت ابراہیم وعیسیٰ علیہما السلام کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا۔ (قرطبی) آل عمران
66 1- تمہارے علم ودیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب،کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے (جس کا ذکر پچھلی آیت میں کیا جا چکا ہے) بے اصل بھی ہیں اور بے عقلی کا مظہر بھی۔ توپھر تم اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں ہے یعنی حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی شان اور ان کی ملت حنیفیہ کے بارے میں، جس کی اساس توحید واخلاص پر ہے۔ آل عمران
67 1- حَنِيفًا مُسْلِمًا ( یک طرفہ خالص مسلمان) یعنی شرک سے بیزار اور صرف خدائے واحد کے پرستار۔ آل عمران
68 1- اسی لئے قرآن کریم میں نبی کریم (ﷺ) کو ملت ابراہیمی کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا﴾ ( النحل: 123) علاوہ ازیں حدیث میں ہے رسول (ﷺ) نے فرمایا: [ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيّ وُلاةً مِنَ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ وَلِـيِّي مِنْهُمْ أَبِي وَخَلِيلُ رِبِّي عَزّ وَجَلّ ] (ہر نبی کے نبیوں میں سے کچھ دوست ہوتے ہیں، میرے ولی (دوست) ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل (ابراہیم عليه السلام ہیں)۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ترمذی بحوالہ ابن کثیر ) آل عمران
69 1- یہ یہودیوں کے اس حسد وبغض کی وضاحت ہے جو وہ اہل ایمان سے رکھتے تھے اور اسی عناد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح وہ خود ہی بے شعوری میں اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آل عمران
70 1- قائل ہونے کا مطلب ہے کہ تمہیں نبی کریم (ﷺ) کی صداقت وحقانیت کا علم ہے۔ آل عمران
71 1- اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشاندہی کرکے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ پہلا جرم حق وباطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے۔ دوسرا کتمان حق۔ یعنی نبی کریم (ﷺ) کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے، انہیں لوگوں سے چھپانا، تاکہ نبی (ﷺ) کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے۔ اور یہ دونوں جرم جانتے بوجھتے کرتے تھے جس سے ان کی بدبختی دو چند ہوگئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورۂ بقرہ میں بھی کی گئی ہے ﴿وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة: 42) ”حق کو باطل کے ساتھ مت ملاؤ اور حق مت چھپاؤ اور تم جانتے ہو۔“ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے، جس میں یہودو نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنو نضیر، اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کابراہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی (ﷺ) کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ آل عمران
72 1- یہ یہودیوں کے ایک اور مکر کا ذکر ہے۔ جس سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے باہم طے کیا کہ صبح کو مسلمان ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے اسلام کے بارے میں شک پیدا ہو کہ یہ لوگ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین میں واپس چلے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلام میں ایسے عیوب اورخامیاں ہوں جو ان کے علم میں آئی ہوں۔ آل عمران
73 1- یہ آپس میں انہوں نے ایک دوسرے کو کہا۔ کہ تم ظاہری طور پر تو اسلام کا اظہار ضرور کرو لیکن اپنے ہم مذہب (یہود) کے سوا کسی اور کی بات پر یقین مت رکھنا۔ 2- یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس کا ماقبل اور ما بعد سے تعلق نہیں ہے۔ صرف ان کے مکر وحیلہ کی اصل حقیقت اس سے واضح کرنا مقصود ہے کہ ان کے حیلوں سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ جس کو ہدایت دے دے یا دینا چاہے، تمہارے حیلے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ 3- یہ بھی یہودیوں کا قول ہے اور اس کا عطف ”وَلا تُؤْمِنُوا“ پر ہے۔ یعنی یہ بھی تسلیم مت کرو کہ جس طرح تمہارے اندر نبوت وغیرہ رہی ہے، یہ کسی اور کو بھی مل سکتی ہے اور اس طرح یہودیت کے سوا کوئی اور دین بھی حق ہو سکتا ہے۔ آل عمران
74 1- اس آیت کے دو معنی بیان کئے جا تے ہیں۔ ایک یہ کہ یہودکے بڑے بڑے علما جب اپنے شاگردوں کو یہ سکھاتے کہ دن چڑھتے ایمان لاؤ اور دن اترتے کفر کرو تاکہ جو لوگ فی الواقع مسلمان ہیں وہ بھی مذبذب ہو کر مرتد ہو جائیں تو ان شاگردوں کو مزید یہ تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہراً مسلمان ہونا، حقیقتاً اور واقعتہً مسلمان نہ ہو جانا، بلکہ یہودی ہی رہنا۔ اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین،جیسی وحی وشریعت اور جیسا علم وفضل تمہیں دیا گیا ہے ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جا سکتا ہے،یا تمہارے بجائے کوئی اور حق پر ہے جو تمہارے خلاف اللہ کے نزدیک حجت قائم کر سکتا ہے۔ اور تمہیں غلط ٹھہرا سکتا ہے۔ اس معنی کی رو سے جملہ معترضہ کو چھوڑ کر عندربکم تک کل کا کل یہودکا قول ہوگا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اے یہودیو ! تم حق کو دبانے اور مٹانے کی یہ ساری حرکتیں اور سازشیں اس لئے کر رہے ہو کہ ایک تمہیں اس بات کا غم اور جلن ہے کہ جیسا علم وفضل، وحی وشریعت اور دین تمہیں دیا گیا تھا اب ویسا ہی علم وفضل اور دین کسی اور کو کیوں دے دیا گیا۔ دوسرا تمہیں یہ اندیشہ اور خطرہ بھی ہے کہ اگر حق کی یہ دعوت پنپ گئی،اور اس نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں تو نہ صرف یہ کہ تمہیں دنیا میں جو جاہ ووقار حاصل ہے وہ جاتا رہے گا۔ بلکہ تم نے جو حق چھپا رکھا ہے اس کا پردہ بھی فاش ہو جائے گا۔ اور اس بنا پر یہ لوگ اللہ کے نزدیک بھی تمہارے خلاف حجت قائم کر بیٹھیں گے۔ حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ دین وشریعت اللہ کا فضل ہے۔ اور یہ کسی کی میراث نہیں۔ بلکہ وہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اسے معلوم ہے کہ یہ فضل کس کو دینا چاہیئے۔ آل عمران
75 1- أُمِّيِّينَ ( ان پڑھ، جاہل) سے مراد مشرکین عرب ہیں یہود کے خائن لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ چونکہ مشرک ہیں اس لئے ان کا مال ہڑپ کر لینا جائز ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح کسی کا مال ہڑپ کر جانے کی اجازت دے سکتا ہے ؟ اور بعض تفسیری روایات میں ہے کہ نبی (ﷺ) نے بھی یہ سن کر فرمایا کہ ”اللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا، زمانۂ جاہلیت کی تمام چیزیں میرے قدموں تلے ہیں، سوائے امانت کے کہ وہ ہر صورت میں ادا کی جائے گی، چاہے وہ کسی نیکو کار کی ہو یا بدکار کی۔“ (ابن کثیر وفتح القدیر) افسوس ہے کہ یہود کی طرح آج بعض مسلمان بھی مشرکین کا مال ہڑپ کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ دارالحرب کا سود جائز ہے۔ اور حربی کے مال کے لئے کوئی عصمت نہیں۔ آل عمران
76 1- (قرار پورا کرے) کا مطلب، وہ عہد پورا کرے جو اہل کتاب سے یا ہر نبی کے واسطے سے ان کی امتوں سے نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا ہے اور (پرہیزگاری کرے) یعنی اللہ تعالیٰ کے محارم سے بچے اور ان باتوں پرعمل کرے جونبی (ﷺ) بیان فرمائیں۔ ایسے لوگ یقیناً مواخذۂ الہٰی سے نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ محبوب باری تعالیٰ ہوں گے۔ آل عمران
77 1- مذکورہ افرادکے برعکس دوسرے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ دو طرح کے لوگوں کو شامل ہے ایک تو وہ لوگ جو عہد الٰہی اور اپنی قسموں کو پس پشت ڈال کر تھوڑے سے دینی مفادات کے لئے نبی (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سودا بیچتے یا کسی کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ مثلاً نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا“ (صحيح بخاري، كتاب المساقاة، باب الخصومة في البئر والقضاء فيها- مسلم، كتاب الإيمان، باب وعيد من اقتطع حق مسلم...) نیز فرمایا: ”تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا، ان میں ایک وہ شخص ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعے سے اپنا سودا بیچتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار...) متعدد احادیث میں یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) آل عمران
78 1- یہ یہود کے ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے کتاب الٰہی (تورات) میں نہ صرف تحریف وتبدیلی کی بلکہ دو جرم اور بھی کئے کہ ایک تو زبان کو مروڑ کر کتاب کے الفاظ پڑھتے جس سے عوام کو خلاف واقعہ تاثر دینے میں وہ کامیاب رہتے۔ دوسرے، وہ اپنی خود ساختہ باتوں کو من عنداللہ باور کراتے۔ بدقسمتی سے امت محمدیہ کے مذہبی پیشواؤں میں بھی، نبی (ﷺ) کی پیشگوئی [ لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ] (تم اپنے سے پہلی امتوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے) کے مطابق بکثرت ایسے لوگ ہیں جو دنیوی اغراض، یا جماعتی تعصب یا فقہی جمود کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں۔ پڑھتے قرآن کی آیت ہیں اور مسئلہ اپنا خود ساختہ بیان کرتے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے مسئلہ قرآن سے بیان کیا ہے دراں حالیکہ اس مسئلے کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یا پھر آیات میں معنوی تحریف وملمع سازی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ باور یہی کرایا جائے کہ یہ من عنداللہ ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ آل عمران
79 1- یہ عیسائیوں کے ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو خدا بنایا ہوا ہے حالانکہ وہ ایک انسان تھے جنہیں کتاب وحکمت اور نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا، اور ایسا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے پجاری اور بندے بن جاؤ، بلکہ وہ تو یہی کہتا ہے کہ رب والے بن جاؤ۔ رَبَّانِيٌّ رب کی طرف منسوب ہے، الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے لئے ہے۔ (فتح القدیر ) 2- یعنی کتاب اللہ کی تعلیم وتدریس کے نتیجےمیں رب کی شناخت اور رب سے خصوصی ربط وتعلق قائم ہونا چاہیئے۔ اسی طرح کتاب اللہ کا علم رکھنے والے کے لئے ضرور ی ہے کہ وہ لوگوں کو بھی قرآن کی تعلیم دے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیں، تو کسی اور کو یہ حق کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے؟ (تفسیر ابن کثیر) آل عمران
80 1- یعنی نبیوں اور فرشتوں (یا کسی اور کو) رب والی صفات کا حامل باور کرانا یہ کفر ہے۔ تمہارے مسلمان ہو جانے کے بعد ایک نبی یہ کام بھلا کس طرح کر سکتا ہے؟ کیونکہ نبی کا کام تو ایمان کی دعوت دینا ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا نام ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی شان نزول میں یہ بات بیان کی ہے کہ بعض مسلمانوں نے نبی (ﷺ) سے اس بات کی اجازت مانگی کہ وہ آپ کو سجدہ کریں۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) اوربعض نے اس کی شان نزول میں یہ کہا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے جمع ہو کر نبی (ﷺ) سے کہا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت وپرستش کریں جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ اللہ کی پناہ، اس بات سے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں، اللہ نے مجھے نہ اس لئے بھیجا ہے نہ اس کا حکم ہی دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ سیرۃ ابن ہشام) آل عمران
81 1- یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا، جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ بعض مفسرین نے رَسُولٌ مُصَدِّقٌ سے الرَّسُولُ کا مفہوم مراد لیا ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کرکے ان پر ایمان لانا ہوگا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے۔ اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اور اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رضي الله عنه) تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی (ﷺ) یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (عليه السلام) بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو یقیناً گمراہ ہو جاؤ گے) (مسنداحمد، بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔ آل عمران
82 1- یہ اہل کتاب (یہود ونصاری) اور دیگر اہل مذاہب کو تنبیہ کہ بعثت محمدی کے بعد ان پر ایمان لانے کی بجائے، اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنا اس عہد کے خلاف ہے جو اللہ تعالی نے نبیوں کے واسطے سے ہر امت سے لیا اور اس عہد میں انحراف کفر ہے۔ فسق یہاں کفر کے معنی میں ہےکیونکہ نبوت محمدی سے انکار صرف فسق نہیں سراسر کفر ہے۔ آل عمران
83 1- جب آسمان اور زمین کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت ومشیت سے باہر نہیں، چاہے خوشی سے یا ناخوشی سے۔ توپھرتم اس کے سامنے قبول اسلام سے کیوں گریز کرتے ہو؟ اگلی آیات میں ایمان لانے کا طریقہ بتلا کر (کہ ہر نبی اور ہر منزل کتاب پر بغیر تفریق کے ایمان لانا ضروری ہے) پھر کہا جا رہا ہے کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں ہوگا، کسی اور دین کے پیروکاروں کے حصے میں سوائے گھاٹے کے اور کچھ نہیں آئے گا۔ آل عمران
84 1- یعنی تمام سچے نبیوں پر ایمان لانا کہ وہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کی طرف سے مبعوث تھے، نیز ان پر جو کتابیں اورصحیفے نازل ہوئے ان کی بابت بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ آسمانی کتابیں تھیں جو واقعی اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ ضروری ہے۔ گو اب عمل صرف قرآن کریم ہی پر ہوگا، کیونکہ قرآن نے پچھلی کتابوں کو منسوخ کر دیا۔ آل عمران
85 آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 1- انصار میں سے ایک مسلمان مرتد ہوگیا اورمشرکوں سے جا ملا، لیکن جلد ہی اسے ندامت ہوئی اور اس نے لوگوں کے ذریعے سے رسول اللہ (ﷺ) تک پیغام بھجوایا کہ ”هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ“ (کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟) اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا اگرچہ بہت سخت ہے کیونکہ اس نے حق کو پہچاننے کے بعد بغض وعناد اور سرکشی سے حق سے اعراض وانکار کیا۔ تاہم اگر کوئی خلوص دل سے توبہ اوراپنی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے، اس کی توبہ قابل قبول ہے۔ آل عمران
90 1- اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر ان کا انتقال ہو۔ 2- اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کوبیان فرمایا ہے ﴿وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ﴾ (الشوریٰ: 25)۔ ﴿أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ﴾ (التوبہ:104)۔ ”کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے“، اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ اس لئے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے ﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآنَ﴾ (النساء:18)۔ ”ان کی توبہ (قبول) نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ“۔ حدیث میں بھی ہے [ إنَّ اللهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ ] (مسنداحمد،ترمذی،بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر) ”اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے“، یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔ آل عمران
91 1- حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا (ہاں) اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، مگر تو شرک سے باز نہیں آیا۔ (مسند احمد وھکذا اخرجہ البخاری ومسلم، ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ اس نے اگر دنیا میں کچھ کام بھی کئے ہوں گے تو کفر کی وجہ سے وہ بھی ضائع ہی جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن جدعان کی بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا، کیا یہ اعمال اسے نفع دیں گے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا (نہیں) کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (صحیح مسلم، کتاب الایمان )۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے، تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ اور اگر بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں اور انہیں دے کر عذاب سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ﴾ ( البقرۃ: 123) ”اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ پہنچائے گی“۔ ﴿لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ﴾ ( سورۂ ابراہیم: 31) ”اس دن میں کوئی خرید وفروخت ہوگی نہ کوئی دوستی (ہی کام آئے گی)“۔ آل عمران
92 1- بر (نیکی بھلائی) سے مراد یہاں عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رضي الله عنه) جو مدینہ میں اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) ! بیرحا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ چنانچہ آپ (ﷺ) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کر دیا (مسند أحمد) اسی طرح اور بھی متعدد صحابہ نے اپنی پسندیدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کیں۔مِمَّا تُحِبُّونَ میں مِنْ تَبْعِيض کے لئے ہے یعنی ساری پسندیدہ چیزیں خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ۔ اس لئے کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ اچھی چیز صدقہ کی جائے۔ یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔ 2- تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔ آل عمران
93 1- یہ اور مابعد کی دو آیتیں یہود کے اس اعتراض پر نازل ہوئیں کہ انہوں نے نبی کریم (ﷺ) سے کہا کہ آپ (ﷺ) دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اونٹ کا گوشت بھی کھاتے ہیں جب کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ دین ابراہیمی میں حرام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہود کا دعویٰ غلط ہے۔ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے دین میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں۔ ہاں البتہ بعض چیزیں اسرائیل (حضرت یعقوب (عليه السلام) ) نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں اور وہ یہی اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ تھا (اس کی ایک وجہ نذر یا بیماری تھی) اور حضرت یعقوب (عليه السلام) کا یہ فعل بھی نزول تورات سے پہلے کا ہے، اس لئے کہ تورات تو حضرت ابراہیم (عليه السلام) وحضرت یعقوب (عليه السلام) کے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ پھر تم کس طرح مذکورہ دعویٰ کر سکتے ہو؟ علاوہ ازیں تورات میں بعض چیزیں تم (یہودیوں) پر تمہارے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ (سورة الأنعام: 46، النساء: 160) اگر تمہیں یقین نہیں تو تورات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے زمانے میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں اور تم پر بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں تو اس کی وجہ تمہاری ظلم وزیادتی تھی یعنی ان کی حرمت بطور سزا تھی۔ (أيسر التفاسير) آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 1- یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا؟ اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر،جو اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا گیا ہے، وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ آل عمران
97 1- اس میں قتال، خوں ریزی، شکار حتیٰ کہ درخت تک کا کاٹنا ممنوع ہے (صحيحين) 2- (راہ پا سکتے ہوں) کا مطلب زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پرامن ہو اور جان ومال محفوظ رہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت وتندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو۔ نیز عورت کے لئے محرم بھی ضروری ہے۔ (فتح القدير) یہ آیت ہر صاحب استطاعت کے لئے وجوب حج کی دلیل ہے اور احادیث سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے (تفسير ابن كثير) 3- استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے (کفر) سے تعبیرکیا ہے جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ احادیث وآثار میں بھی ایسے شخص کے لئے سخت وعید آئی ہے۔ (تفسير ابن كثير) آل عمران
98 آل عمران
99 1- یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔ آل عمران
100 1- یہودیوں کے مکر وفریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (ﷺ) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جاؤ۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا کہ پہلے ایک دوسرے کے سخت دشمن تھےاور اب اسلام کی برکت سے باہم شیروشکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جاکر جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان برپا ہوئی تھی اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس پر ان دونوں قبیلوں کے پرانے جذبات پھربھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کہ ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی۔ اور قریب تھا کہ ان میں باہم قتال بھی شروع ہو جائے کہ اتنے میں نبی (ﷺ) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہے وہ بھی نازل ہوئیں۔ (تفسير ابن كثير، فتح القدير وغيره) آل عمران
101 1- اعْتِصام باللہ کے معنی ہیں۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لینا اور اس کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرنا۔ آل عمران
102 1- اس کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام وفرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ (رضی الله عنہم) پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ ”اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو نازل فرما دی“۔ لیکن اسے ناسخ کی بجائے اس کی مُبَيّنٌ (بیان وتوضیح کرنے والی) قرار دیا جائے تو زیادہ صحیح ہے، کیونکہ نسخ وہیں ماننا چاہئے جہاں دونوں آیتوں میں جمع وتطبیق ممکن نہ ہو اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ معنی یہ ہوں گے (اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ) ”اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح اپنی طاقت کے مطابق ڈرنے کا حق ہے“ (فتح القدير) آل عمران
103 1- تقویٰ کے بعد اعْتِصَام بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ”سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں“ کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہی پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔ 2- وَلا تَفَرَّقُوا (اور پھوٹ نہ ڈالو) کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مذکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے،چنانچہ فرقہ بندی کے تاریخ دیکھ لیجئے، یہی چیز نمایاں ہو کر سامنے آئے گی، قرآن وحدیث کے فہم اور اس کی توضیح وتعبیر میں کچھ باہم اختلاف، فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے۔ یہ اختلاف تو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) وتابعین کے عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے۔ کیونکہ اس اختلاف کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت ایک ہی تھا قرآن اور حدیث رسول (ﷺ) لیکن جب شخصیات کے نام پر دبستان فکر معرض وجود میں آئے تو اطاعت وعقیدت کے یہ مرکز ومحور تبدیل ہوگئے۔ اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال وافکاراولین حیثیت کے اور اللہ رسول اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیئے کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلاگیا اورنہایت مستحکم ہوگیا۔ آل عمران
104 آل عمران
105 1- روشن دلیلیں آجا نے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلاف وتفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا۔ اور وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لئے اختلاف وتفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں۔ مگر وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور پنی عقل وذہانت کا سارا جوہر ہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل وتحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔ آل عمران
106 1- حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے اس سے اہل سنت والجماعت اور اہل بدعت وافتراق مراد لئے ہیں۔ (ابن كثير وفتح القدير) جس سے معلوم ہوا کہ اسلام وہی ہے جس پر اہل سنت وجماعت عمل پیرا ہیں اور اہل بدعت واہل افتراق اس نعمت اسلام سے محروم ہیں جو ذریعہ نجات ہے۔ آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 1- اس آیت میں امت مسلمہ کو (خیرامت) قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کر دی گئی ہے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو (خیرامت) ہے، بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اس نکتے کی وضاحت مقصود معلوم ہوتی ہے کہ جو امربالمعروف ونہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے ﴿كَانُوا لا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ﴾ ( المائدۃ: 79 ) ”وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے“ اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اکثر علما کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے یعنی علما کے ذمے داری ہے کہ وہ یہ فرض ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف ومنکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں۔ ان کے فریضئہ تبلیغ ودعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد امت کی طرف سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔ 2- جیسے عبداللہ بن سلام ! وغیرہ جو مسلمان ہو گئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لئے ”مِنْهُمْ“ میں مِنْ، تَبْعِيض کے لئے ہے۔ آل عمران
111 1- أَذًى ( ستانے) سے مراد زبانی بہتان تراشی اور افترا ہے جس سے دل کو وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے تاہم میدان حرب وضرب میں یہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا، پھر خیبر فتح ہو گیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تاآنکہ حروب صلیبیہ میں عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر قابض بھی ہوگئے مگر اسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے سال کے بعد واگزار کرالیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کے نتیجہ میں یہود ونصاریٰ کی مشترکہ سازشوں اور کوششوں سے بیت المقدس پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ تاہم ایک وقت آئے گا یہ صورت حال تبدیل ہو جائے گی بالخصوص حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے نزول کے بعد عیسائیت کا خاتمہ اور اسلام کا غلبہ یقینی ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
112 1- یہودپرجوذلت ومسکنت، غضب الٰہی کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے، اس سے وقتی طور پر بچاؤ کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا قبول کر لیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کی پناہ ان کو حاصل ہو جائے، اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلامی مملکت کے بجائے عام مسلمان ان کو پناہ دے دیں جیسا کہ ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے اوراسلامی مملکت کےحکمرانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ ادنیٰ مسلمان کی دی گئی پناہ کو بھی رد نہ کریں۔ دوسرا یہ کہ کسی بڑی غیر مسلم طاقت کی پشت پناہی ان کو حاصل ہو جائے۔ کیونکہ الناس عام ہے۔ اس میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں شامل ہیں۔ 2- یہ ان کے کرتوت ہیں جن کی پاداش میں ان پر ذلت مسلط کی گئی۔ آل عمران
113 آل عمران
114 آل عمران
115 1- یعنی سارے اہل کتاب ایسے نہیں جن کی مذمت پچھلی آیات میں بیان کی گئی ہے، بلکہ ان میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں، جیسےعبد الله بن سلام، أسد بن عبيد، ثَعلبة بن سعيہاورأسيد بن سعيہوغیرہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے شرف اسلام سے نوازا اور ان میں اہل ایمان وتقویٰ والی خوبیاں پائی جاتی ہیں رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ- قَائِمَةٌ کے معنی ہیں، شریعت کی اطاعت اور نبی کریم (ﷺ) کا اتباع کرنے والی يَسْجُدُونَ کا مطلب، رات کو قیام کرتے یعنی تہجد پڑھتے اور نمازوں میں تلاوت کرتے۔ اس مقام پر امر بالمعروف کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کا حکم دیتے اور آپ (ﷺ) کی مخالفت کرنے سے روکتے ہیں۔ اسی گروہ کا ذکر آگے بھی کیا گیا ہے۔ ﴿وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ﴾ (آل عمران: 199) آل عمران
116 آل عمران
117 1- قیامت والے دن کافروں کے نہ مال کچھ کام آئیں گے نہ اولاد حتیٰ کہ رفاہی اوربظاہر بھلائی کے کاموں پر وہ جو خرچ کرتے ہیں، وہ بھی بیکار جائیں گے اور ان کی مثال اس سخت پالے کی سی ہے جو ہری بھری کھیتی کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے، ظالم اس کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے اور اس سے نفع کی امید رکھے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک ایمان نہیں ہوگا۔ رفاہی کاموں پر رقم خرچ کرنے والوں کی چاہے دنیا میں کتنی ہی شہرت ہو جائے، آخرت میں انہیں ان کا کوئی صلہ نہیں ملے گا، وہاں تو ان کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ آل عمران
118 1- یہ مضمون پہلے بھی گزرچکا ہے - یہاں اس کی اہمیت کے پیش نظر پھر دہرایا جا رہا ہے۔ بطانہ، دلی دوست اور راز دار کو کہا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات وعزائم رکھتے ہیں، ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنہیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشاندہی فرما دی ہے یہ اور اس قسم کی دیگر آیات کے پیش نظر ہی علما وفقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضي الله عنه) نے ایک ذمی (غیر مسلم) کو کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا، حضرت عمر (رضي الله عنه) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ (تم انہیں اپنے قریب نہ کرو جب کہ اللہ نے انہیں دور کر دیا ہے، ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ نے انہیں ذلیل کر دیا ہے اور انہیں امین ورازدار مت بناؤ جب کہ اللہ نے انہیں خائن قراردیا ہے )۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں۔ (اس زمانے میں اہل کتاب کو سیکرٹری اور امین بنانے کی وجہ سے احوال بدل گئے ہیں اور اسی وجہ سے غبی لوگ سردار اور امرا بن گئے ہیں) (تفسیر قرطبی )۔ بدقسمتی سے آج کے اسلامی ممالک میں بھی قرآن کریم کے اس نہایت اہم حکم کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے اور اس کے برعکس غیر مسلم بڑے بڑے اہم عہدوں اور کلیدی مناصب پر فائز ہیں جن کے نقصانات واضح ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اپنی داخلی اور خارجی دونوں پالیسیوں میں اس حکم کی رعایت کریں تو یقیناً بہت سے مفاسد اور نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ 2- لا يَأْلُونَ کوتاہی اور کمی نہیں کریں گےخَبَالاکے معنی فساد اور ہلاکت کے ہیں مَا عَنِتُّمْ (جس سے تم مشقت اور تکلیف میں پڑو )عَنَتٌ بمعنی مَشَقّةٍ آل عمران
119 1- تم ان منافقین کی نماز اور اظہار ایمان کی وجہ سے ان کی بابت دھوکے کا شکار ہو جاتے ہو اور ان سے محبت رکھتے ہو۔ 2- عَضَّ يَعَضُّ کے معنی دانت سے کاٹنے کے ہیں۔ یہ ان کے غیظ وغضب کی شدت کا بیان ہے، جیسا کہ اگلی آیت ﴿إِنْ تَمْسَسْكُمْ﴾ میں بھی ان کی اسی کیفیت کا اظہار ہے۔ آل عمران
120 1- اس میں منافقین کی اس شدید عداوت کا ذکر ہے جو انہیں مومنوں کے ساتھ تھی اور وہ یہ کہ جب مسلمانوں کو خوش حالی میسر آتی،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو تائید ونصرت ملتی اورمسلمانوں کی تعداد وقوت میں اضافہ ہوتا تومنافقین کو بہت برا لگتا اور اگر مسلمان قحط سالی یا تنگدستی میں مبتلا ہوتے، یا اللہ کی مشیت ومصلحت سے دشمن، وقتی طور پرمسلمانوں پر غالب آجاتے (جیسے جنگ احد میں ہوا) تو بڑے خوش ہوتے۔ مقصدبتلانے کا یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ حال ہو، کیا وہ اس لائق ہو سکتے ہیں کہ مسلمان ان سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور انہیں اپنا رازدان اوردوست بنائیں؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ سے بھی دوستی رکھنے سے منع فرمایا ہے (جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر ہے) اسی لئے وہ بھی مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھتے، ان کی کامیابیوں سے ناخوش اور ان کی ناکامیوں سے خوش ہوتے ہیں۔ 2- یہ ان کے مکروفریب سے بچنے کا طریقہ اور علاج ہے۔ گویا منافقین اور دیگر اعدائے اسلام ومسلمین کی سازشوں سے بچنے کے لئے صبر اور تقویٰ نہایت ضروری ہے۔ اس صبر اور تقویٰ کے فقدان نے غیر مسلموں کی سازشوں کو کامیاب بنا رکھا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کافروں کی یہ کامیابی مادی اسباب ووسائل کی فراوانی اور سائنس وٹیکنالوجی میں ان کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی وزوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ اپنے دین پر استقامت (جو صبر کا متقاضی ہے) سے محروم اور تقویٰ سے عاری ہوگئے ہیں جو مسلمان کی کامیابی کی کلید اور تائید الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ آل عمران
121 1- جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد جنگ احد کا واقعہ ہے جو شوال 3 ہجری میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ جب جنگ بدر 2 ہجری میں کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے تو ان کفار کے لئے یہ بڑی بدنامی کا باعث اور ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیاری کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کی تعداد میں احد پہاڑ کے قریب خیمہ زن ہوگئے تو نبی کریم (ﷺ) نے صحابہ (رضي الله عنهم) سے مشورہ کیا کہ وہ مدینہ میں ہی رہ کر لڑیں یا مدینہ سے باہر نکل کرمقابلہ کریں، بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کا مشورہ دیا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پرجوش صحابہ (رضي الله عنهم) نے جنہیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، مدینہ سے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ (ﷺ) اندر حجرے میں تشریف لے گئے اور جب ہتھیار پہن کرباہر آئے، دوسری رائے والوں کوندامت ہوئی کہ شاید ہم نے رسول اللہ (ﷺ) کو آپ کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا چنانچہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! (ﷺ) آپ اگر اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہو یا لباس اتارے۔ چنانچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے مگر صبح دم جب مقام شوط پر پہنچے توعبداللہ بن ابی اپنے تین سوساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی۔ خواہ مخواہ جان دینے کا کیا فائدہ؟ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ (ابن کثیر ) آل عمران
122 1- یہ اوس اورخزرج کے دو قبیلے (بنو حارثہ اوربنوسلمہ) تھے۔ 2- اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کی کمزوری کو دور فرما کر ان کی ہمت باندھ دی۔ آل عمران
123 1- بہ اعتبار قلت تعداد اور قلت سامان کے، کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان 313 تھے اور یہ بھی بے سروسامان۔ صرف دوگھوڑے اورستر اونٹ تھے،باقی سب پیدل تھے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
124 آل عمران
125 1- مسلمان بدر کی جانب محض قافلہ قریش سے جو تقریباً نہتا تھاچھاپہ مارنے نکلے تھے۔ مگر بدر پہنچتے پہنچتے معلوم ہوا کہ مکہ سے مشرکین کا ایک لشکرجرار پورے غیظ وغضب اور جوش وخروش کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کی صف میں گھبراہٹ، تشویش اور جوش قتال کا ملا جلا رد عمل ہوا اور انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا وفریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار فرشتے اتارنے کی بشارت دی اور مزید وعدہ کیا کہ اگر تم صبرو تقویٰ پر قائم رہے اور مشرکین اسی حالت غیظ وغضب میں آدھمکے تو فرشتوں کی یہ تعداد پانچ ہزار کردی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مشرکین کا جوش وغضب برقرار نہ رہ سکا۔ (بدر پہنچنے سے پہلے ہی ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ ایک گروہ مکہ پلٹ گیا اور باقی جو بدر آئے ان میں سے اکثر سرداروں کی رائے تھی کہ لڑائی نہ کی جائے) اس لئے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہ آسکی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تعداد پوری کی گئی۔ 2- یعنی پہچان کے لئے ان کی مخصوص علامت ہوگی۔ آل عمران
126 آل عمران
127 1- یہ اللہ غالب وکار فرما کی مدد کا نتیجہ بتلایا جا رہا ہے۔ سورۂ انفال میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بتلائی گئی ہے۔ ﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ﴾ ( الانفال: 9) ”جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سنتے ہوئے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا“، ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے واقعتاً ایک ہزار ہی نازل ہوئے اور مسلمانوں کے حوصلے اور تسلی کے لئے تین ہزار کا اور پھر پانچ ہزار کا مزید مشروط وعدہ کیا گیا۔ پھر حسب حالات مسلمانوں کی تسلی کے نقطہ نظر سے بھی ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس لئے بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین ہزار پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا کیونکہ مقصد تو مسلمانوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنا تھا، ورنہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور وہ اپنی مدد کے لئے فرشتوں کا یا کسی اور کامحتاج ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، کفر کی طاقت کمزور ہوئی اور کافروں کا گھمنڈ خاک میں مل گیا۔ (ایسر التفاسیر) آل عمران
128 1- یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم (ﷺ) کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا ”وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کر دیا“، گویا آپ (ﷺ) نے ان کی ہدایت سے ناامیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے بعض کفار کے لئے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لئے بددعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی،چنانچہ آپ (ﷺ) نے بددعا کا سلسلہ بند فرما دیا۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیئے جو نبی کریم (ﷺ) کو مختار کل قراردیتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ (ﷺ) اسی راستے کی طرف بلانے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ 2- یہ قبیلےجن کے لئے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہوگئے۔ جن سے معلوم ہوا کہ مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ آل عمران
129 آل عمران
130 1- چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول (ﷺ) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لالچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کیشی کی تاکید کی جا رہی ہےاور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤکا یہ مطلب نہیں بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے۔ بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب، مطلقاً حرام ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یہ قید نہی (حرمت) کے لئے بطور شرط نہیں ہے بلکہ واقعے کی رعایت کے طور پر یعنی سود کی اس وقت جو صورتحال تھی، اس کا بیان واظہار ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سود کا یہ رواج عام تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مزید مدت میں اضافے کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا جس کی وجہ سے تھوڑی سی رقم بڑھ چڑھ کر کہیں پہنچ جاتی اور ایک عام آدمی کے لئے اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل حرام تمہیں کفر تک پہنچا سکتاہے،کیونکہ یہ اللہ ورسول سے محاربہ ہے۔ آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 1- مال ودولت دنیا کے پیچھے لگ کر آخرت تباہ کرنے کے بجائے، اللہ ورسول کی اطاعت کا اوراللہ کی مغفرت اور اس کی جنت کا راستہ اختیار کرو۔ جو متقین کے لئے اللہ نے تیار کی ہے۔ چنانچہ آگے متقین کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ آل عمران
134 1- یعنی محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر حال اور ہر موقعے پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ 2- یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کر دیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔ آل عمران
135 1- یعنی جب ان سے بہ تقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو فوراً توبہ واستغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔ آل عمران
136 آل عمران
137 1- جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا، جس میں سے تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبداللہ ابن جبیر (رضي الله عنه) کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کر دی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست، تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا۔ لیکن جب مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مال واسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ کہنے لگے کہ نبی (ﷺ) کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا کہ جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا، لیکن جب یہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال واسباب جمع کرنا شروع کر دیا اور وہاں نبی کریم (ﷺ) کے فرمان کی اطاعت میں صرف دس آدمی باقی رہ گئے۔ جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا جس سے مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی اور وہ غیر متوقع حملے سے سخت سراسیمہ ہوگئے جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی وبربادی اللہ ورسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر بنی ہے۔ آل عمران
138 آل عمران
139 1- گزشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب وکامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی بنیاد واضح کر دی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے ہیں۔ آل عمران
140 1- ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں تو کیا ہوا ؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتدا میں اسی طرح زخمی ہو چکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح وشکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کر دیتا ہے۔ آل عمران
141 1- احد میں مسلمانوں کوجو عارضی شکست ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوئی، اس میں بھی مستقبل کے لئے کئی حکمتیں پنہاں تھیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ آگے بیان فرما رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہر کر دے (کیونکہ صبر واستقامت ایمان کا تقاضا ہے) جنگ کی شدتوں اور مصیبتوں میں جنہوں نے صبر واستقامت کا مظاہرہ کیا، یقیناً وہ سب مومن ہیں۔ دوسری یہ کہ کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کر دے۔ تیسری یہ کہ ایمان والوں کو ان کے گناہوں سے پاک کر دے۔ تَمْحِيصٌ کے ایک معنی اختیار (چن لینا) کے لئے گئے ہیں۔ ایک معنی تطہیراور ایک معنی تخلیص کے کئے گئے ہیں۔ آخری دونوں کا مطلب گناہوں سے پاکی اور خلاصی ہے۔ (فتح القدیر) مرحوم مترجم نے پہلے معنی کو اختیار کیا ہے۔ چوتھی، یہ کافروں کو ہٹا دے۔ اور اس طرح کہ وقتی فتح یابی سے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگا اور یہی چیز ان کی تباہی وہلاکت کا سبب بنے گی۔ آل عمران
142 1- یعنی بغیر قتال وشدائد کی آزمائش کے تم جنت میں چلے جاؤ گے؟ نہیں بلکہ جنت ان لوگوں کو ملے گی جو آزمائش میں پورے اتریں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا﴾ ( البقرۃ: 214) ”کیا تم نے گمان (کیا کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر وہ حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھی، انہیں تنگ دستی اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ خوب ہلائے گئے“ مزید فرمایا ﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ﴾ (العنکبوت:2) ”کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی؟“۔ 2- یہ مضمون اس سے پہلے سورۂ بقرۃ میں گزر چکا ہے۔ یہاں موضوع کی مناسبت سے پھر بیان کیا جا رہا ہے کہ جنت یوں ہی نہیں مل جائے گی، اس کے لئے پہلے تمہیں آزمائش کی بھٹی سے گزارا اور میدان جہاد میں آزمایا جائے گا وہاں نرغۂ اعدا میں گھر کر تم سرفروشی اور صبر واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہو یا نہیں؟۔ آل عمران
143 1- یہ اشارہ ان صحابہ (رضي الله عنهم) کی طرف ہے جو جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ایک احساس محرومی رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ میدان کار زار گرم ہو تو وہ بھی کافروں کی سرکوبی کرکے جہاد کی فضیلت حاصل کریں۔ انہی صحابہ (رضي الله عنهم) نے جنگ احد میں جوش جہاد سے کام لیتے ہوئے مدینہ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن جب مسلمانوں کی فتح، کافروں کے اچانک حملے سے شکست میں تبدیل ہو گئی (جس کی تفصیل پہلے گزر چکی) تو یہ پرجوش مجاہدین بھی سراسیمگی کا شکار ہوگئے اور بعض نے راہ فرار اختیار کی۔ (جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی) اور بہت تھوڑے لوگ ہی ثابت قدم رہے۔ (فتح القدیر) اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ تم دشمن سے مڈھ بھیڑ کی آرزو مت کرو اللہ سے عافیت طلب کیا کرو تاہم جب ازخود حالات ایسے بن جائیں کہ تمہیں دشمن سے لڑنا پڑ جائے تو پھر ثابت قدم رہو اور یہ بات جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے (صحیحین بحوالہ ابن کثیر ) 2- رَأَيْتُمُوهُ اور تَنْظُرُونَ۔ دونوں کے ایک ہی معنی یعنی دیکھنے کے ہیں۔ تاکید اور مبالغے کے لئے دو لفظ لائے گئے ہیں۔ یعنی تلواروں کی چمک، نیزوں کی تیزی، تیروں کی یلغار اور جاں بازوں کی صف آرائی میں تم نے موت کا خوب مشاہدہ کر لیا۔ (ابن كثير وفتح القدير) آل عمران
144 1- محمد (ﷺ) صرف رسول ہی ہیں (یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ 2- جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد (ﷺ) قتل کر دیئے گئے۔ مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (ﷺ) کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہو جانا یا اس پر موت کا وارد ہو جانا، کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیا (عليه السلام) بھی قتل اور موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ اگر آپ (ﷺ) بھی (بالفرض) اس سے دوچار ہو جائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو پھر جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نبی کریم (ﷺ) کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر (رضي الله عنه) شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے، ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول (ﷺ) کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی،جس سے حضرت عمر (رضي الله عنه) بھی متاثر ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔ 3- یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو جنہوں نے صبر واستقامت کا مظاہرہ کرکے اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کیا۔ آل عمران
145 1- یہ کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ موت تو اپنے وقت پر آکررہے گی، پھر بھاگنے یا بزدلی دکھانے کا کیا فائدہ؟ اسی طرح محض دنیا طلب کرنے سے کچھ دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، اس کے برعکس آخرت کے طالبوں کو آخرت میں اخروی نعمتیں تو ملیں گی ہی، دنیا بھی اللہ تعالیٰ انہیں عطافرماتا ہے۔ آگے مزید حوصلہ افزائی اور نسل کے لئے پچھلےانبیا، اور ان کے پیروکاروں کے صبر اور ثابت قدمی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ آل عمران
146 1- یعنی ان کو جو جنگ کی شدتوں میں پست ہمت نہیں ہوتے اور ضعف اور کمزوری نہیں دکھاتے۔ آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 آل عمران
150 1- یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے کیونکہ احد کی شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کفار یا منافقین مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ تم اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ کافروں کی اطاعت ہلاکت وخسر ان کاباعث ہے۔ کامیابی اللہ کی اطاعت ہی میں ہے اور اس سے بہتر کوئی مددگارنہیں۔ آل عمران
151 1- مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کے بالکلیہ خاتمہ کے لئے بڑا اچھا ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ پھر انہیں اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر) صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہے جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ[ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ]، ”دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے“۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ (ﷺ) کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ﷺ) کے ساتھ آپ (ﷺ) کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں وترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کے بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔ آل عمران
152 1- اس وعدے سے بعض مفسرین نے تین ہزار اور ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکورہے تو اس سے مراد فتح ونصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا تھا۔ حتیٰ کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب وفاتح رہے جس کی طرف ﴿إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ﴾ سے اشارہ کیا گیا ہے۔ 2- اس تنازع اور عصیان سے مراد تیر اندازوں کا وہ اختلاف ہے جو فتح وغلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔ 3- اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ 4- یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔ 5- وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ 6- یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ 7- اس میں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے اس شرف وفعل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کرکے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کر دیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی؟ صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقعے پر ایک شخص نے حضرت عثمان (رضي الله عنه) پر بعض اعتراضات کئے کہ وہ جنگ بدر میں، بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے، نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر (رضي الله عنه) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو ان کی اہلیہ (بنت رسول (ﷺ)) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ رسول (ﷺ) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرما دیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوۂ احد) آل عمران
153 1- کفار کے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اورمسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی۔ یہ اس کا نقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ تُصْعِدُونَ إِصْعَادٌ سے ہے جس کے معنی اپنی رو بھاگے جانے یا وادی کی طرف چڑھے جانے یا بھاگنے کے ہیں۔ (طبری ) 2- نبی (ﷺ) اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے۔ [ إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! ]، ”اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ“۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا؟۔ 3- فَأَثَابَكُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا غَمًّا بِغَمٍّ بمعنی غَمًّا علی غَمٍّ ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد ہے، مال غنیمت اور کفار پر فتح وظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی (ﷺ) کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ (ﷺ) کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔ 4- یعنی یہ غم پر غم اس لئے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم وحوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔ آل عمران
154 1- مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کر دی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے سکینت اور نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میری ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا، وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا اور پھر گر جاتی، (صحیح بخاری) نُعَاسًا أَمَنَةً سے بدل ہے۔ طائفہ، واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہے (فتح القدیر ) 2- اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو تو اپنی جانوں ہی کی فکر تھی۔ 3- وہ یہ تھیں کہ نبی کریم (ﷺ) کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ 4- یعنی کیا اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح ونصرت کا امکان ہے؟ یا یہ کہ کیا ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جا سکتی ہے؟ 5- تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدداسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اس کے حکم سے ہوگی اور امرونہی بھی اسی کا ہوگا۔ 6- اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ رہنمائی کے طالب ہیں۔ 7- یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔ 8- اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ کی طرف سے لکھ دی گئی ہے۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضروروہاں کھینچ لے جاتی؟۔ 9- یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان، اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہو جائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔ 10- یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اورنفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے ؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں جنہیں عام لوگ بھی پھر دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔ آل عمران
155 1- یعنی احد میں مسلمانوں سے جو لغزش اور کوتاہی ہوئی اس کی وجہ سے ان کی پچھلی بعض کمزوریاں تھیں جس کی وجہ سے شیطان اس روز بھی انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس طرح بعض سلف کا قول ہے کہ ”نیکی کا بدلہ یہ ہے کہ اس کے بعد مزید نیکی کی توفیق ملتی ہے اور برائی کا بدلہ یہ ہے کہ اس کے بعد مزید برائی کاراستہ کھلتا ہے اور ہموار ہوتا ہے“۔ 2- اللہ تعالیٰ صحابہ (رضي الله عنهم) کی لغزشوں، ان کے نتائج اور حکمتوں کے بیان کے بعد پھر اپنی طرف سے ان کے معافی کا اعلان فرما رہا ہے۔ جس سے ایک تو ان کا محبوب بارگاہ الٰہی ہونا واضح ہے اور دوسرے، عام مومنین کو تنبیہ ہے کہ ان مومنین صادقین کو جب اللہ نے معاف فرما دیا ہے تو اب کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ انہیں ہدف ملامت یا نشانۂ تنقید بنائے۔ آل عمران
156 1- اہل ایمان کو اس فساد عقیدہ سے روکا جا رہا ہے جس کے حامل کفار اورمنافقین تھے کیونکہ یہ عقیدہ بزدلی کی بنیاد ہے اس کے برعکس جب یہ عقیدہ ہو کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے، نیز یہ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو اس سے انسان کے اندر عزم وحوصلہ اور اللہ کی راہ میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ 2- مذکورہ فساد عقیدہ دلی حسرت کا ہی سبب بنتاہے کہ اگر وہ سفر یا میدان جنگ میں جاتے بلکہ گھر میں ہی رہتے تو موت کی آغوش میں جانے سے بچ جاتے۔ درآں حالیکہ موت تو مضبوط قلعوں کے اندر بھی آجاتی ہے، ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ﴾ (النساء:78) ”تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں پالے گی اگرچہ تم ہو مضبوط قلعوں میں“۔ اس لئے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتے ہیں جن کے عقیدے صحیح ہیں۔ آل عمران
157 1- موت توہر صورت میں آنی ہے لیکن اگر موت ایسی آئے کہ جس کے بعد انسان اللہ کی مغفرت ورحمت کا مستحق قرار پائے تو یہ دنیا کے مال واسباب سے بہت بہتر ہے جس کے جمع کرنے میں انسان عمر کھپا دیتا ہے۔ اس لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے گریز نہیں، اس میں رغبت اور شوق ہونا چاہئے کہ اس طرح رحمت ومغفرت الٰہی یقینی ہو جاتی ہے بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ ہو۔ آل عمران
158 آل عمران
159 1- نبی (ﷺ) جو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالیٰ اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ آپ (ﷺ) کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی دعوت وتبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اگر آپ (ﷺ) کے اندر یہ نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس آپ (ﷺ) تند خو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کے بجائے، آپ (ﷺ) سے دور بھاگتے۔ اس لئے آپ درگزر سے ہی کام لیتے رہئیے۔ 2- یعنی مسلمانوں کی طیب خاطر کے لئے مشورہ کر لیا کریں۔ اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ مشاورت کا یہ حکم بعض کے نزدیک وجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے (ابن كثير)۔ امام شوکانی لکھتے ہیں (حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علما سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ یا ان کے بارے میں انہیں اشکال ہیں۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربر آوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام ووالیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات وترجیحات کے سلسلے میں مشورہ کریں۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ایسے حکمران کے وجوب پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو اہل علم واہل دین سے مشورہ نہیں کرتا۔ یہ مشورہ صرف ان معاملات تک محدود ہوگا جن کی بابت شریعت خاموش ہے یا جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ (فتح القدير) 3- یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہو جائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزرئیے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران ہی کا ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد وتوکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل وفہم پر۔ اگلی آیت میں بھی توکل علی اللہ کی مزید تاکید ہے۔ آل عمران
160 آل عمران
161 1- جنگ احد کے دوران جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال غنیمت دوسرے لوگ سمیٹ لے جائیں گے اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے تصور کیسے کر لیا کہ اس مال میں سے تمہارا حصہ تم کو نہیں دیا جائے گا۔ کیا تمہیں قائد غزوہ محمد (ﷺ) کی امانت پر اطمینان نہیں۔ یاد رکھو کہ ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ خیانت، نبوت کے منافی ہے۔ اگر نبی ہی خائن ہو تو پھر اس کی نبوت پر یقین کیوں کر کیا جا سکتا ہے ؟ خیانت بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ آل عمران
162 آل عمران
163 آل عمران
164 1- نبی کے بشر اور انسانوں میں سے ہی ہونے کو اللہ تعالیٰ ایک احسان کے طور پر بیان کر رہا ہے اور فی الواقع یہ احسان عظیم ہے کہ اس طرح ایک تو وہ اپنی قوم کی زبان اور لہجے میں ہی اللہ کا پیغام پہنچائے گا جسے سمجھنا ہر شخص کے لئے آسان ہوگا۔ دوسرے، لوگ ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مانوس اور اس کے قریب ہوں گے۔ تیسرے انسان کے لئے انسان، یعنی بشر کی پیروی تو ممکن ہے لیکن فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں اورنہ فرشتہ انسان کے وجدان وشعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس لئے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری خوبیوں سے محروم ہوتے جو تبلیغ ودعوت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے جتنے بھی انبیاء آئے ہیں سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ مثلاً فرمایا ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلا رِجَالا نُوحِي إِلَيْهِمْ﴾ (يوسف:109) ”ہم نے آپ (ﷺ) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ مرد تھے جن پر ہم وحی کرتے تھے“، ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الأَسْوَاقِ﴾ (سورة الفرقان:20) ”ہم نے آپ (ﷺ) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے، سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے تھے“۔ اور خود نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ﴾ (سورة حم السجدة: 6) ”آپ (ﷺ) کہہ دیجئے میں بھی تو تمہاری طرح صرف بشر ہی ہوں البتہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے“۔ آج بہت سے افراد اس چیز کو نہیں سمجھتے اور انحراف کا شکار ہیں۔ 2- اس آیت میں نبوت کے تین اہم مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ - تلاوت آیات۔ - تزکیہ۔ - تعلیم کتاب وحکمت۔ تعلیم کتاب میں تلاوت ازخود آجاتی ہے، تلاوت کے ساتھ ہی تعلیم ممکن ہے، تلاوت کے بغیر تعلیم کا تصور ہی نہیں۔ اس کے باوجود تلاوت کو الگ ایک مقصد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے جس سے اس نکتے کی وضاحت مقصود ہے کہ تلاوت بجائے خود ایک مقدس اور نیک عمل ہے، چاہے پڑھنے والا اس کا مفہوم سمجھے یا نہ سمجھے۔ قرآن کے معانی ومطالب کو سمجھنے کی کوشش کرنا یقیناً ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو یا اتنی فہم واستعداد بہم نہ پہنچ جائے، تلاوت قرآن سے اعراض یا غفلت جائز نہیں، تزکیے سے مراد عقائد اور اعمال واخلاق کی اصلاح ہے، جس طرح آپ (ﷺ) نے انہیں شرک سے ہٹا کر توحید پر لگایا اسی طرح نہایت بداخلاق اور بداطوار قوم کو اخلاق وکردار کی رفعتوں سے ہمکنار کر دیا، حکمت سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک حدیث ہے۔ 3- یہ إنْ مُخَفَّفَةٌ مِنَ الْمُثَقَّلَةِ ہے یعنی (إِنَّ) (تحقیق،یقیناً بلاشبہ) کے معنی ہیں۔ آل عمران
165 1- یعنی احد میں تمہارے ستر آدمی شہید ہوئے تو بدر میں تم نے ستر قتل کئے تھے اور ستر قیدی بنائے تھے۔ 2- یعنی تمہاری اس غلطی کی وجہ سے جو رسول اللہ (ﷺ) کے تاکیدی حکم کے باوجود پہاڑی مورچہ چھوڑ کر تم نے کی تھی، جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزری کہ اس غلطی کی وجہ سے کافروں کے ایک دستے کو اس درے سے دوبارہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ آل عمران
166 آل عمران
167 1- یعنی احد میں تمہیں جو کچھ نقصان پہنچا، وہ اللہ کے حکم سے ہی پہنچا ہے (تاکہ آئندہ تم اطاعت رسول کا کما حقہ اہتمام کرو) علاوہ ازیں اس کا ایک مقصد مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنا بھی تھا۔ 2- لڑائی جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اگر واقعی آپ لوگ لڑائی لڑنے چل رہے ہوتے تو ہم بھی ساتھ دیتے۔ مگر آپ تو لڑائی کے بجائے اپنے آپ کو تباہی کے دہانے میں جھونکتے جا رہے ہیں۔ ایسے غلط کام میں ہم کیوں آپ کا ساتھ دیں۔ یہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے اس لئے کہا کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تھی اور اس وقت کہا جب وہ مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے اور عبداللہ بن حرام انصاری (رضي الله عنه) انہیں سمجھا بجھا کر شریک جنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے (قدرے تفصیل گزر چکی ہے ) 3- اپنے نفاق اور ان باتوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں۔ 4- یعنی زبان سے تو ظاہر کیا جو مذکور ہوا لیکن دل میں یہ تھا کہ ہماری علیحدگی سے ایک تو مسلمانوں کے اندر بھی ضعف پیدا ہوگا۔ دوسرے، کافروں کو فائدہ ہوگا۔ مقصد اسلام، مسلمانوں اور نبی کریم (ﷺ) کو نقصان پہنچانا تھا۔ آل عمران
168 1- یہ منافقین کے اس قول کا رد ہے کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت ٹال کر دکھاؤ مطلب یہ ہے کہ تقدیر سے کسی کو مفر نہیں۔ موت بھی جہاں اور جیسے مقدر ہے، وہاں اور اسی صورت میں آکر رہے گی۔ اس لئے جہاد اور اللہ کی راہ میں لڑنے سے گریز وفرار یہ کسی کو موت کے شکنجے سے نہیں بچا سکتا۔ آل عمران
169 1- شہدا کی یہ زندگی حقیقی ہے یا مجازی، یقیناً حقیقی ہے لیکن اس کا شعور اہل دنیا کو نہیں جیسا کہ قرآن نے وضاحت کر دی ہے۔ ملاحظہ ہو (سورۂ بقرۃ آیت نمبر 154) پھر اس زندگی کا مطلب کیا ہے ؟ بعض کہتے ہیں قبروں میں ان کی روحیں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہاں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جنت کے پھلوں کی خوشبوئیں انہیں آتی ہیں۔ جس سے ان کے مشام جان معطر رہتے ہیں۔ لیکن حدیث سے ایک تیسری شکل معلوم ہوتی ہے اس لئے وہی صحیح ہے، وہ یہ کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کر دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں (فتح القدیر بحوالہ صحیح مسلم، کتاب الامارۃ) آل عمران
170 1- یعنی وہ اہل اسلام جو ان کے پیچھے دنیا میں زندہ ہیں یا مصروف جہاد ہیں، ان کی بابت وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی شہادت سے ہمکنار ہو کر یہاں ہم جیسی پرلطف زندگی حاصل کریں۔ شہدائے احد نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو دنیا میں زندہ ہیں، انہیں ہمارے حالات اور پرمسرت زندگی سے کوئی مطلع کرنے والا ہے؟ تاکہ وہ جنگ وجہاد سے اعراض نہ کریں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری یہ بات ان تک پہنچا دیتا ہوں اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں (مسند احمد 1/ 365-366، سنن ابی داود، کتاب الجھاد) علاوہ ازیں متعدد احادیث سے شہادت کی فضیلت ثابت ہے مثلاً ایک حدیث میں فرمایا [ مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ، لَهَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ، يَسُرُّهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا إِلا الشَّهِيدُ، فَإِنَّهُ يَسُرُّه أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى لِمَا يَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ ] (مسند احمد 3/126، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشھادۃ) ”کوئی مرنے والی جان، جس کو اللہ کے ہاں اچھا مقام حاصل ہے، دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرتی۔ البتہ شہید دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے۔ یہ آرزو وہ اس لئے کرتا ہے کہ شہادت کی فضیلت کا وہ مشاہدہ کر لیتا ہے“۔ حضرت جابر (رضي الله عنه) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تیرے باپ کو زندہ کیا اور اس سے کہا کہ مجھ سے اپنی کسی آرزو کا اظہار کر (تاکہ میں اسے پورا کر دوں) تیرے باپ نے جواب دیا کہ میری تو صرف یہی آرزو ہے کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، یہ تو ممکن نہیں ہے اس لئے کہ میرا فیصلہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جا سکتا۔ آل عمران
171 1- یہ استبشار، پہلے استبشار کی تاکید اور اس بات کا بیان ہے کہ ان کی خوشی محض خوف وحزن کے فقدان کی ہی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے بے پایاں فضل وکرم کی وجہ سے بھی ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ پہلی خوشی کا تعلق دنیا میں رہ جانے والے بھائیوں کی وجہ سے اور یہ دوسری خوشی اس انعام واکرام کی ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے خود ان پر ہوا۔ (فتح القدیر) آل عمران
172 1- جب مشرکین جنگ احد سے واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے تو ایک نہایت سنہری موقع ضائع کر دیا۔ مسلمان شکست خوردگی کی وجہ سے بے حوصلہ اور خوف زدہ تھے۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر بھرپور حملہ کر دینا چاہئے تھا تاکہ اسلام کا یہ پودا اپنی سرزمین (مدینہ) سے ہی نیست ونابود ہو جائے۔ ادھر مدینہ پہنچ کر نبی کریم (ﷺ) کو بھی اندیشہ ہوا کہ شاید وہ پھر پلٹ آئیں لہٰذا آپ (ﷺ) نے صحابہ کو لڑنے پر آمادہ کیا آپ (ﷺ) کے کہنے پر صحابہ باوجود اس بات کے کہ وہ اپنے مقتولین ومجروحین کی وجہ سے دل گرفتہ اور محزون ومغموم تھے، تیار ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے میل کے فاصلے پر واقع (حمراء الاسد) پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا۔ چنانچہ ان کا ارادہ بدل گیا اور وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے بجائے مکہ واپس چلے گئے۔ اس کے بعد نبی (ﷺ) اور آپ (ﷺ) کے رفقا بھی مدینہ واپس آگئے۔ آیت میں مسلمانوں کے اسی جذبہ اطاعت اللہ ورسول کی تعریف کی گئی ہے بعض نے اس کا سبب نزول حضرت ابوسفیان کی اس دھمکی کو بتلایا ہے کہ آئندہ سال بدر صغریٰ میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا۔ (ابوسفیان ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) جس پر مسلمانوں نے بھی اللہ ورسول کی اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جہاد میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کر لیا۔ (ملخص از فتح القدیر وابن کثیر مگر یہ آخری قول سیاق سے میل نہیں کھاتا ) آل عمران
173 1- حمراء الاسد اور کہا جاتا ہے کہ بدر صغریٰ کے موقع پر ابوسفیان نے بعض لوگوں کی خدمات مالی معاوضہ دے کر حاصل کیں اور ان کے ذریعے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلائی کہ مشرکین مکہ لڑائی کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ بعض روایات کی رو سے یہ کام شیطان نے اپنے چیلے چانٹوں کے ذریعے سے کیا۔ لیکن مسلمان اس قسم کی افواہیں سن کر خوف زدہ ہونے کے بجائے، مزید عزم وولولہ سے سرشار ہوگئے جس کو یہاں ایمان کی زیادتی سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ ایمان جتنا پختہ ہوگا، جہاد کا عزم اور ولولہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جامد قسم کی چیز نہیں ہے بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتلا ومصیبت کے وقت اہل ایمان کا شیوہ اللہ پر اعتماد وتوکل ہے، اسی لئے حدیث میں بھی [حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ] پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔ نیز صحیح بخاری وغیرہ میں ہے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔ (فتح القدیر ) آل عمران
174 1- نِعْمَةٌ سے مراد سلامتی ہے اور فَضْلٌ سے مراد وہ نفع ہے جو بدر صغریٰ میں تجارت کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ نبی کریم (ﷺ) نے بدر صغریٰ میں ایک گزرنے والے قافلے سے سامان تجارت خرید کر فروخت کیا جس سے نفع حاصل ہوا اور آپ (ﷺ) نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ (ابن کثیر) آل عمران
175 1- یعنی تمہیں اس وسوسے اور وہم میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ 2- یعنی جب وہ تمہیں اس وہم میں مبتلا کرے تو تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری ہی طرف رجوع کرو ! میں تمہیں کافی ہو جاؤں گا اور تمہارا ناصر رہوں گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ﴾ ( الزمر:36 ) ”کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے“؟ مزید ملاحظہ ہوں۔ ﴿كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي﴾ وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ آل عمران
176 1- نبی (ﷺ) کے اندر اس بات کی شدید خواہش تھی کہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں، اسی لئے ان کے انکار اور تکذیب سے آپ کو سخت تکلییف پہنچتی، اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ (ﷺ) کو تسلی دی کہ آپ (ﷺ) غمگین نہ ہوں، یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اپنی ہی آخرت برباد کر رہے ہیں۔ آل عمران
177 آل عمران
178 1- اس میں اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے) کا بیان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق کافروں کو مہلت عطا فرماتا ہے، وقتی طور پر انہیں دنیا کی فراغت وخوش حالی سے، فتوحات سے اور مال واولاد سے نوازتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پر اللہ کا فضل ہو رہا ہے لیکن اگر اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے والی نیکی اور اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو یہ دنیوی نعمتیں، فضل الٰہی نہیں مہلت الٰہی ہے، جس سے ان کے کفر وفسوق میں اضافہ ہی ہوتا ہے، بالآخر وہ جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق قرار پا جاتے ہیں، اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ مثلاً ﴿أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ﴾، ﴿نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لا يَشْعُرُونَ﴾ (المؤمنون: 55-56) ”کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کے مال واولاد میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ہم ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کررہے ہیں ؟ نہیں بلکہ وہ سمجھتے نہیں ہیں“۔ آل عمران
179 1- اس لئے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست واضح اور دشمن ذلیل ہو جائیں۔ مومن صابر، منافق سے الگ ہو جائیں جس طرح احد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبر وثبات اور جذبہ اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بے نقاب ہوگیا۔ 2- یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا کے ذریعےسے لوگوں کے حالات اور ان کے ظاہر وباطن کو نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں منکشف ہو جائیں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص؟۔ 3- ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کا علم عطا فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ بھی کسی کسی وقت اور کسی کسی نبی پر ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر نبی بھی (جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے) منافقین کے اندرونی نفاق اور ان کے مکروکید سے بے خبر ہی رہتا ہے (جس طرح کہ سورۂ توبہ کی آیت نمبر 101 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعراب اور اہل مدینہ میں جو منافق ہیں اے پیغمبر! آپ ان کو نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں) اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے۔ اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں ؟ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا، إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ﴾ ( الجن:26-27) ”عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہے، اور وہ اپنے غیب سے پسندیدہ رسولوں کو ہی خبردار کرتا ہے“ ظاہر بات ہے یہ امور غیبیہ وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق منصب وفرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ جو کچھ ہو چکا اور آئندہ قیامت تک جو ہونے والے ہے کاعلم۔ جیسا کہ بعض اہل باطل اس طرح کا علم غیب انبیاء علیھم السلام کے لئے اور کچھ اپنے ”ائمہ معصومین“ کے لئے باور کراتے ہیں۔ آل عمران
180 1- اس میں اس بخیل کا بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حتیٰ کہ اس میں سے فرض زکوۃ بھی نہیں نکالتا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت خوفناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کےگلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں“، [ مَنْ آتَاهُ اللهُ مَالا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثّلَ لَهُ شُجاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ، يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ]. (صحيح بخاري- كتاب تفسير، باب تفسير آل عمران، كتاب الزكاة - حديث نمبر 4565) آل عمران
181 1- جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ ( البقرۃ: 245) ”کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے“، تو یہود نے کہا اے محمد (ﷺ)! تیرا رب فقیر ہوگیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن کثیر) 2- یعنی مذکورہ قول جس میں اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اسی طرح ان کے (اسلاف) کا انبیاء علیھم السلام کو ناحق قتل کرنا، ان کے یہ سارے جرائم اللہ کی بارگاہ میں درج ہیں، جن پر وہ جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے۔ٍ آل عمران
182 آل عمران
183 1- اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی وصدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (ﷺ) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے بحکم الٰہی آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے کہ جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے؟“۔ آل عمران
184 1- نبی (ﷺ) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ (ﷺ) یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سے بددل نہ ہوں۔ ایسا معاملہ صرف آپ (ﷺ) کے ساتھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ (ﷺ) سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو چکا ہے۔ آل عمران
185 1- اس آیت میں ایک تو اس اٹل حقیقت کا بیان ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں جس نے، اچھا یا برا، جو کچھ کیا ہوگا، اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تیسرا، کامیابی کا معیار بتلایا گیا ہے کہ کامیاب اصل میں وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لیا جس کے نتیجے میں جہنم سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔ چوتھا یہ کہ دنیا کی زندگی سامان فریب ہے، جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا، وہ خوش نصیب اور جو اس کے فریب میں پھنس گیا، وہ ناکام ونامراد ہے۔ آل عمران
186 1- اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (ﷺ) حضرت سعد بن عبادۃ (رضي الله عنه) کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبداللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (ﷺ) کی سواری سے جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (ﷺ) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبداللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (ﷺ) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہو جائے، آپ (ﷺ) نے ان سب کو خاموش کرایا، پھر آپ (ﷺ) حضرت سعد (رضي الله عنه) کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندگان کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (ﷺ) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض وعناد کا مظہر ہیں۔ اس لئے آپ۔ درگزر ہی سے کام لیں۔ (صحيح البخاري كتاب التفسير ملخصًا) 2- اہل کتاب سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (ﷺ) ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن وتشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبداللہ بن ابی بھی آپ (ﷺ) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ (ﷺ) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف سب وشتم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضرورت تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفوو درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیان حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دوچار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر) آل عمران
187 1- اس میں اہل کتاب کوزجر وتوبیخ کی جارہی ہے کہ ان سے اللہ نے یہ عہد لیا تھا کہ کتاب الٰہی (تورات اورانجیل) میں جو باتیں درج ہیں اور آخری نبی کی جو صفات ہیں، انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور انہیں چھپائیں گے نہیں۔ لیکن ان لوگوں نے دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے اللہ کے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا۔ یہ گویا اہل علم کو تلقین وتنبیہ ہے کہ ان کے ہاں جو علم نافع ہے، جس سے لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح ہو سکتی ہو، وہ لوگوں تک ضرور پہنچانا چاہئے اور دنیوی اغراض ومفادات کی خاطر ان کو چھپانا بہت بڑا جرم ہے۔ قیامت والے دن ایسے لوگوں کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی (کما فی الحدیث) آل عمران
188 1- اس میں ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو صرف اپنے واقعی کارناموں پر ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے کھاتے میں وہ کارنامے بھی درج یا ظاہر کئے جائیں جو انہوں نے نہیں کئے ہوتے۔ یہ بیماری جس طرح عہدرسالت کے بعض لوگوں میں تھی جس کے پیش نظر آیات کا نزول ہوا۔ اسی طرح آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں اور پروپیگنڈے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بننے والے لیڈروں میں یہ بیماری عام ہے۔أَعَاذَنَا اللهُ۔ اس آیت کے سباق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودی کتاب الٰہی میں تحریف وکتمان کے مجرم تھے، مگر وہ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہوتے تھے، یہی حال آج کے باطل گروہوں کا بھی ہے، وہ بھی لوگوں کو گمراہ کرکے ، غلط رہنمائی کرکے آیات الٰہی میں معنوی تحریف وتلبیس کرکے بڑے خوش ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل حق ہیں اور یہ کہ ان کے دجل وفریب کاری کی انہیں داد دی جائے۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾ آل عمران
189 آل عمران
190 1- یعنی جو لوگ زمین وآسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار ورموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل وعریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام جس میں ذرا خلل واقع نہیں ہوتا، یقیناً اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ آگے ان ہی اہل دانش کی صفات کاتذکرہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ﴾ سے لے کر آخر سورت تک یہ آیات نبی کریم (ﷺ) رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے، تو پڑھتے اور اس کے بعد وضو کرتے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ صحیح مسلم، کتاب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا، باب الدعاء فی صلٰوۃ اللیل وقیامہ) آل عمران
191 1- ان دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت وطاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہ نشانیاں ضرور ہیں لیکن کن کے لئے؟ اہل عقل ودانش کے لئے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان عجائبات تخلیق اور قدرت الٰہیہ کو دیکھ کر بھی جس شخص کو باری تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ ہو، وہ اہل دانش ہی نہیں۔ لیکن یہ المیہ بھی بڑا عجیب ہے کہ عالم اسلام میں (دانش ور) سمجھا ہی اس کو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ دوسری آیت میں اہل دانش کے ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان وزمین کی تخلیق میں غوروفکر کرنے کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا ”کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر اور بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو“ (صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ) ایسے لوگ جو ہر وقت اللہ کو یاد کرتے اور رکھتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق اور اس کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جن سے خالق کائنات کی عظمت وقدرت،اس کا علم واختیار اور اس کی رحمت وربوبیت کی صحیح معرفت انہیں حاصل ہوتی ہے تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ رب کائنات نے یہ کائنات یوں ہی بے مقصد نہیں بنائی ہے بلکہ اس سے مقصد بندوں کا امتحان ہے۔ جو امتحان میں کامیاب ہوگیا، اس کے لئے ابدالآباد تک جنت کی نعمتیں ہیں اور جو ناکام ہوا اس کے لئے عذاب نار ہے۔ اس لئے وہ عذاب نار سے بچنے کی دعا بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد والی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔ آل عمران
192 آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 1- فَاسْتَجَابَ یہاں أَجَابَ یعنی قبول فرمالی کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) 2- مرد ہو یا عورت کی وضاحت اس لئے کر دی کہ اسلام نے بعض معاملات میں، مرد اور عورت کے درمیان ان کے ایک دوسرے سے مختلف فطری اوصاف کی بنا پر جو فرق کیا ہے۔ مثلاً قوامیت وحاکمیت میں، کسب معاش کی ذمہ داری میں، جہاد میں حصہ لینے میں اور وراثت میں نصف حصہ ملنے میں، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ نیک اعمال کی جزا میں بھی شاید مرد وعورت کے درمیان کچھ فرق کیا جائے گا، نہیں ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہر نیکی کا جواجر ایک مرد کو ملے گا، وہ نیکی اگر ایک عورت کرے گی تو اس کو بھی وہی اجر ملے گا۔ 3- یہ جملہ معترضہ ہے اور اس کا مقصد پچھلے نکتے کی ہی وضاحت ہے یعنی اجرواطاعت میں تم مرد اور عورت ایک ہی ہو یعنی ایک جیسے ہی ہو۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) نے ایک مرتبہ عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر طبری، ابن کثیر وفتح القدیر) آل عمران
196 1- خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے شہر میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت وکاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے۔ یہ تجارتی سفر وسائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت وفروغ کی دلیل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکہ میں مبتلا نہیں ہو چاہئے، اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان سے محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال یہ کافر مبتلا ہوں گے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ﴿مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلادِ﴾ ( سورۃ المومن: 4) ”اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے“۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ، مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ﴾ (سورۂ یونس: 69-70) ﴿ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ﴾ ( سورۂ لقمان:24) آل عمران
197 1- یعنی یہ دنیا کے وسائل، آسائشیں اور سہولتیں بظاہر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، درحقیقت متاع قلیل ہی ہیں، کیونکہ بالآخر انہیں فنا ہونا ہے اور ان کے بھی فنا ہونے سے پہلےوہ حضرات خود فنا ہو جائیں گے، جو ان کے حصول کی کوششوں میں اللہ کو بھی فراموش کئے رکھتے ہیں اور ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں اور اللہ کی حدوں کو بھی پامال کرتے ہیں۔ آل عمران
198 1- ان کے برعکس جو تقویٰ اور خدا خوفی کی زندگی گزار کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ گو دنیا میں ان کے پاس خدا فراموشوں کی طرح دولت کے انبار اور رزق کی فراوانی نہ رہی ہوگی، مگر وہ اللہ کے مہمان ہوں گے جو تمام کائنات کا خالق ومالک ہے اور وہاں ان ابرار (نیک لوگوں) کو جو اجر وصلہ ملے گا، وہ اس سے بہتر ہوگا جو دنیا میں کافروں کو عارضی طور پر ملتا ہے۔ آل عمران
199 1- اس آیت میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جسے رسول کریم (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز کر دیا، جن کا مشن ہی اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا، آیات الٰہی میں تحریف تلبیس کرنا اور دنیا کے عارضی اور فانی مفادات کے لئے کتمان علم کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ مومنین اہل کتاب ایسے نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں، اللہ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچنے والے نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو علما ومشائخ دنیوی اغراض کے لئے آیات الٰہی میں تحریف یا ان کے مفہوم کے بیان میں دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں، وہ ایمان وتقویٰ سے محروم ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آیت میں جن مومنین اہل کتاب کا ذکر ہے، یہود میں سے ان کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی البتہ عیسائی بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے دین حق کو اپنایا۔ (تفسیر ابن کثیر) آل عمران
200 1- صبر کرو یعنی طاعات کے اختیار کرنے اور شہوات ولذات کے ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو۔ مصابرۃ (صابروا) جنگ کی شدتوں میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، یہ صبر کی سخت ترین صورت ہے۔ اس لئے اسے علیحدہ بیان فرمایا۔ رابطوا میدان جنگ یا محاذ جنگ میں مورچہ بند ہو کر ہمہ وقت چوکنا اور جہاد کے لئے تیار رہنا مرابطہ ہے۔ یہ بھی بڑےعزم وحوصلہ کا کام ہے۔ اسی لئے حدیث میں اس کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ [ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا ] (صحیح بخاری، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ) ”اللہ کے راستے (جہاد) میں ایک دن پڑاؤ ڈالنا (یعنی مورچہ بند ہونا) دنیا ومافیہا سے بہتر ہے“، علاوہ ازیں حدیث میں مکارہ (یعنی ناگواری کے حالات میں) مکمل وضو کرنے، مسجدوں میں زیادہ دور سے چل کر جانے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کو بھی رباط کہا گیا ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الطہارۃ ) آل عمران
0 النسآء
1 1- ایک جان سے مراد ابو البشر حضرت آدم (عليه السلام) ہیں اور﴿خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾میں مِنْهَا سے وہی جان یعنی آدم (عليه السلام) مراد ہیں یعنی آدم (عليه السلام) سے ان کی زوج (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (عليه السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد (یعنی آدم عليه السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے۔ [ إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ أَعْوَجَ وِإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاهُ ] (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، صحیح مسلم، کتاب الرضاع) ”کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا جاہے تو توڑ بیٹھے گا اور اگر تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے“۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے منقول رائے کی تائید کی ہے۔ قرآن کے الفاظ ﴿خَلَقَ مِنْهَا﴾ سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی جسے آدم کہا جاتا ہے۔ 2- وَالأَرْحَامَ کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ أَرْحَامٌ، رَحِمٌ کی جمع ہے۔ مراد رشتے داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں۔ اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناطوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اورفضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہاجاتا ہے۔ النسآء
2 1- یتیم جب بالغ اور باشعورہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو۔ خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو۔ ان گھٹیا چیزوں کو خبیث (ناپاک) اور عمدہ چیزوں کو طیب (پاک) سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ کر دیا کہ اس طرح بدلایا گیا مال، جو اگرچہ اصل میں تو طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا،بلکہ تمہارےحق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کرکھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔ النسآء
3 1- اس کی تفسیر حضرت عائشہ (رضی الله عنها) سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو وہ اس کے مال اور حسن وجمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کر لیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تو تم ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر) بلکہ ایک کے بجائے دو سے تین سے حتیٰ کہ چار عورتوں تک سے تم نکاح کر سکتے ہو، بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کر سکو، ورنہ ایک سے ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ نہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مزید صراحت اور تحدید کر دی گئی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ (ﷺ) کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لئے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) 2- یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کا فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت بلیغانہ انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ﴾ (سورة النساء: 129) ”اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے کہ بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو،اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو“۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔ النسآء
4 النسآء
5 النسآء
6 1- یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایت دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہےکہ جب تک یتیم کا مال تمہارے پاس رہا، تم نے اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں ؟ عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ یقیناً جب تم اس کی بارگاہ میں جاؤ گے تو تم سے حساب لے گا۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی (ﷺ) نے حضرت ابو ذر (رضي الله عنه) سے فرمایا ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لئے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سرپرست (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ) النسآء
7 1- اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتیں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہوں گی، انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیسا کہ 3 آیات کے بعد مذکور ہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔ النسآء
8 1- اسے بعض علما نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصہ دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیارو محبت کے انداز میں کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون وفرعون نہ بنو۔ النسآء
9 1- بعض مفسرین کے نزدیک اس کے مخاطب اوصیا ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں ان کے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، قطع نظر اس کے کہ وہ ان کی زیر کفالت ہیں یا نہیں بعض کے نزدیک اس کے مخاطب وہ ہیں جو قریب المرگ کے پاس بیٹھے ہوں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حق اللہ میں کوتاہی کر سکے نہ حقوق بنی آدم میں اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لئے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دوچار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بعد ان کے بچے فقروفاقہ سے دوچار ہو جائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر) النسآء
10 النسآء
11 1- اس کی حکمت اور اس کا مبنی برعدل وانصاف ہونا ہم واضح کر آئے ہیں۔ ورثا میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں تو پھر اس اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لڑکے چھوٹے ہوں یا بڑے، اسی طرح لڑکیاں چھوٹی ہو یا بڑی سب وراث ہوں گی۔ حتی کہ جنين ( ماں کے پیٹ میں زیر پرورش بچہ) بھی وراث ہوگا۔ البتہ کافر اولاد وارث نہ ہوگی۔ 2- یعنی بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کا دو تہائی (یعنی کل مال کے تین حصے کرکے دو حصے) دو سے زائد لڑکیوں کو دیئے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں، تب بھی انہیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ سعد بن ربیع (رضي الله عنه) احد میں شہید ہوگئے اور ان کی دو لڑکیاں تھیں۔ مگر سعد کے سارے مال پر ان کے ایک بھائی نے قبضہ کر لیا تو نبی (ﷺ) نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو ثلث مال دلوایا (ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، کتاب الفرائض) علاوہ ازیں سورۂ نساء کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہوں تو ان کے لئے بھی دو تہائی حصہ ہے لہٰذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی مال کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے (فتح القدیر) خلاصۂ مطلب یہ ہوا کہ دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہوں، تو دونوں صورتوں میں مال متروکہ سے دو تہائی لڑکیوں کا حصہ ہوگا، باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا۔ 3- ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں یہ پہلی صورت ہے کہ مرنے والے کی اگر اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو ایک ایک سدس ملے گا یعنی باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہو جائے گا البتہ اگر مرنے والے کی اولاد صرف ایک بیٹی ہو تو اس میں سے چونکہ صرف نصف مال (یعنی چھ حصوں میں سے 3 حصے) بیٹی کے ہوں گے اور ایک سدس (چھٹا حصہ) ماں کو اور ایک سدس باپ کو دینے کے بعد مزید ایک سدس باقی بچ جائے گا اس لئے بچنے والا یہ سدس بطور عصبہ باپ کے حصہ میں جائے گا یعنی اس صورت میں باپ کو دو سدس ملیں گے، ایک باپ کی حیثیت سے دوسرے، عصبہ ہونے کی حیثیت سے۔ 4- یہ دوسری صورت ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں اجماعاً شامل ہیں) اس صورت میں ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے میں دو گنا ہیں) باپ کو بطورعصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لئے ثلث (تیسرا حصہ) اورباقی باپ کے لئے ہوگا۔ 5- تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ، مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں، وہ بھائی چاہے سگے (عینی) ہوں یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں۔ یا باپ ایک ہو، مائیں مختلف ہوں یعنی علاتی بھائی بہن ہوں یا ماں ایک ہو، باپ مختلف ہوں یعنی اخیافی بھائی بہن ہوں۔ اگرچہ یہ بھائی بہن میت کے باپ کی موجودگی میں وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے لیکن ماں کے لئے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہوں گے تو ماں کے ثلث (تیسرے حصے) کو سدس (چھٹے حصے) میں تبدیل کر دیں گے۔ باقی سارا مال ( 5/6) باپ کے حصہ میں چلا جائے گا۔ بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دو بھائیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زیادہ بھائیوں کا مذکور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گاوہ سدس میں تبدیل نہیں ہوگا۔ (تفسیر ابن کثیر) 6- اس لئے تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق جس کا جتنا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے،وہ ان کو دو۔ النسآء
12 1- اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں، اس پر امت کے علما کا اجماع ہے (فتح القدیر وابن کثیر) اسی طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وراث ہونے والی موجودہ بیوی ہو یا کسی اور بیوی سے۔ اس طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کی وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے ہو یا پہلے کے کسی خاوند سے۔ 2- بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگر زیادہ ہوں گی تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا، ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا، یہ بھی اجماعی مسئلہ ہے (فتح القدیر) 3- کلالہ سے مراد وہ میت ہے جس کا باپ ہو نہ بیٹا۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے۔ اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کہ سرکو اس کے اطراف (کناروں) سے گھیر لے، کلالہ کو بھی کلالہ اس لئے کہتے ہیں کہ اصول وفروع کے اعتبار سے تو اس کا وارث نہ بنے لیکن اطراف وجوانب سے وارث قرار پا جائے (فتح القدیر وابن کثیر) اور کہا جاتا ہے کہ کلالہ کلل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تھک جانا۔ گویا اس شخص تک پہنچتے پہنچتے سلسلۂ نسل ونسب تھک گیا اور آگے نہ چل سکا۔ 4- اس سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں جن کی ماں ایک ہو باپ الگ الگ کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث اس طرح نہیں ہے اور اس کا بیان اسی سورت کے اخیر میں آرہا ہے اور یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے (فتح القدیر) اور دراصل نسل کے لئے مردو زن ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ﴾ کا قانون چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کےلئے اس جگہ اور بہن بھائیوں کے لئے آخری آیت نساء میں ہر دو جگہ یہی قانون ہے البتہ صرف ماں کی اولادمیں چونکہ نسل کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے وہاں ہر ایک کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے۔ بہرحال ایک بھائی یاایک بہن کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ 5- ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ نیز ان میں مذکر اور مونث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔ بلاتفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا، مرد ہو یا عورت۔ ملحوظہ :ماں زاد یعنی اخیافی بھائی بعض احکام میں دوسرے وارثوں سے مختلف ہیں۔(1)- یہ صرف اپنی ماں کی وجہ سے وارث ہوتے ہیں۔(2)- ان کے مرد اور عورت، حصے میں مساوی ہوں گے۔(3)- یہ اس وقت وارث ہوں گے جب کہ میت کلالہ ہو۔ پس باپ دادا بیٹا اور پوتے وغیرہ کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوں گے۔(4)- ان کے مرد وعورت کتنے بھی زیادہ ہوں، ان کا حصہ ثلث (ایک تہائی) سے زیادہ نہیں ہوگا اور جیسا کہ اوپر کہا گیا ان کو اپنے مرنے والے اخیانی بھائی سے جو مال ملے گا اس میں مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوگا یہ نہیں کہ مرد کو عورت سے دوگنا دیا جائے۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اپنے دور خلافت میں یہی فیصلہ کیا تھا اور امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے یہ فیصلہ یقیناً اس وقت ہی کیا ہوگا جب ان کے پاس نبی (ﷺ) کی کوئی حدیث ہوگی۔ (ابن کثیر) 6- میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تیسری مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ ورثے کی تقسیم، وصیت پر عمل کرنے اور فرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے تینوں جگہ وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے دین کا ذکر پہلے ہونا چاہئے تھا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمیت دیتے ہیں، نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی بھی وصول کر لیتے ہیں۔ لیکن وصیت پر عمل کرنے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل یا تغافل سے کام لیتے ہیں اس لئے وصیت کا پہلے ذکر فرما کر اس کی اہمیت واضح کر دی گئی۔ (روح المعانی ) ملحوظہ :اگربیوی کا حق مہر ادا نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی دین (قرض) میں شمار ہوگا اور اس کی ادائیگی بھی وراثت کی تقسیم سے پہلے ضروری ہے۔ نیز عورت کا حصہ شرعی اس مہر کے علاوہ ہوگا۔ 7- بایں طور کہ وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کر دیا جائے یا کسی کا حصہ گھٹا بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے درآں حالیکہ کچھ بھی نہ لیا ہو۔ گویا اضرارکا تعلق وصیت اور دین دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔ نیز ایسی وصیت بھی باطل ہوگی۔ النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 1- یہ بدکار عورتوں کی بدکاری کی وہ سزا ہے جو ابتدائے اسلام میں، جب کہ زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی، عارضی طور پر مقرر کی گئی تھی ہاں یہ بھی یاد رہے کہ عربی زبان میں ایک سے دس تک کی گنتی میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ عدد مذکر ہوگا تو معدود مونث اور عدد مونث ہوگا تو معدود مذکر۔ یہاں اربعہ (یعنی 4 کا عدد) مونث ہے، اس لئے اس کا معدود جو یہاں ذکر نہیں کیا گیا اور محذوف ہے، یقیناً مذکر آئے گا اور وہ ہے رجال یعنی اربعہ رجال جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اثبات زنا کے لئے چار مرد گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ گویا جس طرح زنا کی سزا سخت مقرر کی گئی ہے، اس کے اثبات کے گواہوں کی کڑی شرط عائد کر دی گئی ہے یعنی چار مسلمان مرد عینی گواہ، اس کے بغیر شرعی سزا کا اثبات ممکن نہیں ہوگا۔ 2- اس راستے سے مراد زنا کی وہ سزا ہے جو بعد میں مقرر کی گئی یعنی شادی شدہ زنا کار مرد وعورت کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ بدکار مرد وعورت کے لئے سو سو کوڑے کی سزا۔ (جس کی تفصیل سورۂ نور اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے) النسآء
16 1- بعض نے اس سے اغلام بازی مراد لی ہے یعنی عمل لواطت۔ دو مردوں کا ہی آپس میں بدفعلی کرنا اور بعض نے اس سے باکرہ مرد وعورت مراد لئے ہیں اور اس سے قبل کی آیت کو انہوں نے محصنات یعنی شادی شدہ کے ساتھ خاص کیا ہے اور بعض نے اس تثنیہ کے صیغے سے مرد اور عورت مراد لئے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ باکرہ ہوں یا شادی شدہ۔ ابن جریر طبری نے دوسرے مفہوم یعنی باکرہ (مرد وعورت) کو ترجیح دی ہے۔ اور پہلی آیت میں بیان کردہ سزا کو نبی (ﷺ) کی بتلائی ہوئی سزا سزائے رجم سے اور اس آیت میں بیان کردہ سزا کو سورہ نور میں بیان کردہ سو کوڑے کی سزا سے منسوخ قرار دیا ہے۔ (تفسیر طبری) 2- یعنی زبان سے زجرو توبیخ اور ملامت یا ہاتھ سے کچھ زدو کوب کر لینا۔ اب یہ منسوخ ہے، جیسا کہ گزرا۔ النسآء
17 النسآء
18 1- اس سے واضح ہے کہ موت کے وقت کی گئی توبہ غیر مقبول ہے، جس طرح کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ ضروری تفصیل آل عمران کی آیت 90 میں گزر چکی ہے۔ النسآء
19 1- اسلام سے قبل عورت پر ایک یہ ظلم بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مرجانے پر اس کے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس کی عورت کےبھی زبردستی وارث بن بیٹھتے تھے اور خود اپنی مرضی سے، اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے نکاح کر لیتے یا اپنے بھائی، بھتیجے سے اس کا نکاح کر دیتے، حتی کہ سوتیلابیٹا تک بھی مرنے والے باپ کی عورت سے نکاح کر لیتا یا اگر چاہتے تو اسے کسی بھی جگہ نکاح کرنے کی اجازت نہ دیتے اور وہ ساری عمر یوں ہی گزارنے پر مجبور ہوتی۔ اسلام نے ظلم کے اس تمام طریقوں سے منع فرما دیا۔ 2- ایک ظلم یہ بھی عورت پر کیا جاتا تھا کہ اگر خاوند کو وہ پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تو ازخود اس کو طلاق نہ دیتا (جس طرح ایسی صورت میں اسلام نے طلاق کی اجازت دی ہے) بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہو کر حق مہر یا جو کچھ خاوند نے اسے دیا ہوتا، از خود واپس کرکے اس سے خلاصی حاصل کرنے کو ترجیح دے اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا ہے۔ 3- کھلی برائی سے مراد بدکاری یا بدزبانی اور نافرمانی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں البتہ یہ اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے کہ وہ اس کا دیا ہوا مال یا حق مہر واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہو جائے جیسا کہ خلع کی صورت میں خاوند کو حق مہر واپس لینے کا حق دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت نمبر 229) 4- یہ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے جس کی قرآن نے بڑی تاکید کی ہے اور احادیث میں بھی نبی (ﷺ) نے اس کی بڑی وضاحت اور تاکید کی ہے ایک حدیث میں آیت کے اس مفہوم کو یوں بیان کیا گیا ہے [ لا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ سَخِطَ مِنْهَا خُلُقًا، رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ ]، (صحیح مسلم، کتاب الرضاع) ”مومن مرد (شوہر) مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو اس کی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہو گی“، مطلب یہ ہے کہ بے حیائی اور نشوز وعصیان کے علاوہ اگر بیوی میں کچھ اور کوتاہیاں ہوں جن کی وجہ سے خاوند اسے ناپسند کرتا ہو تو اسے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق نہ دے بلکہ صبر اور برداشت سے کام لے، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں سے اس کے لئے خیر کثیر پیدا فرما دے۔ یعنی نیک اولاد دے دے یا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے کاروبار میں برکت ڈال دے،وغیرہ وغیرہ۔ افسوس ہے کہ مسلمان قرآن وحدیث کی ان ہدایات کے برعکس ذرا ذرا سی باتوں میں اپنی بیویوں کو طلاق دے ڈالتے ہیں اور اس طرح اسلام کے عطا کردہ حق طلاق کو نہایت ظالمانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حق تو انتہائی ناگزیر حالات میں استعمال کے لئے دیا گیا تھا، نہ کہ گھر اجاڑنے، عورتوں پر ظلم کرنے اور بچوں کی زندگیاں خراب کرنے کے لئے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ اسلام کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دے کر عورت پر ظلم کرنے کا اختیار اسے دے دیا۔ یوں اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو خرابی اور ظلم باور کرایا جاتا ہے۔ النسآء
20 1- خود طلاق دینے کی صورت میں حق مہر واپس لینے سے نہایت سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہے۔ قنطار خزانے اور مال کثیر کو کہتے ہیں یعنی کتنابھی حق مہر دیا ہو واپس نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا کرو گے تو یہ ظلم (بہتان) اور کھلا گناہ ہوگا۔ النسآء
21 1- ”ایک دوسرے سے مل چکے ہو“ کا مطلب ہم بستری ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کنایتہً بیان فرمایا ہے۔ 2- ”مضبوط عہد وپیمان“ سے وہ عہد مراد ہے جو نکاح کے وقت مرد سے لیا جاتا ہے کہ تم ”اسے اچھے طریقے سے آباد کرنا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا“۔ النسآء
22 1- زمانۂ جاہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے باپ کی بیوی سے (یعنی سوتیلی ماں سے) نکاح کر لیتے تھے، اس سے روکا جا رہا ہے، کہ یہ بہت ہی بے حیائی کا کام ہے ﴿وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ﴾ کا عموم ایسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیتا ہے جس سے اس کے باپ نے نکاح کیا لیکن دخول سے قبل ہی طلاق دے دی۔ حضرت ابن عباس! سے بھی یہ بات مروی ہے اور علماء اسی کے قائل ہیں۔ (تفسیر طبری) النسآء
23 1- جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، ان کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسب، سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں، رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، ربائب (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکیاں) بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے۔ ان کے علاوہ باپ کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے۔ محرمات نسبی کی تفصیل! أُمَّهَاتٌ (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں۔ بَنَاتٌ (بیٹیاں) میں پوتیاں، نواسیاں اور پوتیوں،نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں۔ زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی، بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ بنت شرعی نہیں ہے۔ پس جس طرح ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ (اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالا جماع وہ وارث نہیں۔ اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر)۔ أَخَوَاتٌ (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی وعلاتی، عَمَّاتٌ (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں خالاتٌ( خالائیں) اس میں ماں کی سب مونث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کی بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی وفرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں، اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ وبلاواسطہ یا صلبی وفرعی شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ: رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی دو سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا تم سے پہلے یا بعد تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یاجس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا، چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائینگے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی ورضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں، اور اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا تایا بن جائیں گے اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہوں گے۔ قسم سوم سسرالی محرمات: بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے) اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو، تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا، البتہ کسی عورت سے نکاح کرکے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) رَبِيبَةٌ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اس کی حرمت مشروط ہے یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام، بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فِي حُجُورِكُمْ (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے، بطور شرط کے نہیں ہے۔ اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حَلِيلَةٌ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) سے فَعِيلَةٌ کے وزن پر بمعنی فَاعِلَةٍ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے۔ بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی ان کی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا۔ اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے مِنْ أَصْلابِكُمْ (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے۔ دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے۔ البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چار بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔ ملحوظة: زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اس کی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کر لے گا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی (دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اول الذکر مسلک کی تائید بعض احادیث سے ہوتی ہے۔ النسآء
24 1- قرآن کریم میں ”إِحْصَانٌ“ چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ (1) شادی (2) آزادی (3) پاک دامنی (4) اور اسلام۔ اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں (1) شادی شدہ عورتیں (2) آزاد عورتیں (3) پاک دامن عورتیں (4) اور مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے۔ اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ صحابہ (رضي الله عنهم) نے نبی (ﷺ) سے پوچھا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں، جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں تو شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ: نزول قرآن کے وقت غلام اور لونڈی کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا، البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس کے دو ذریعے تھے۔ ایک توبعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کر دیئے جاتے تھے۔ یہی خریدے ہوئے مرد وعورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے۔ مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا۔ دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا، کہ کافروں کی قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اوروہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں۔ قیدیوں کے لئے یہ بہترین حل تھا۔ کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یوں ہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہر حاصل مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الاّ یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں۔ اس صورت میں استبرائے رحم کے بعد وہ ان کے لئے حلال ہیں۔ 2- یعنی مذکورہ محرمات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں، اول یہ کہ طلب کرو ”أَنْ تَبْتَغُوا“ یعنی دونوں طرف سے ایجاب وقبول ہو۔ دوسری یہ کہ مال یعنی مہر ادا کرنا قبول کرو، تیسری یہ کہ ان کو شادی کی قید (دائمی قبضے) میں لانا مقصود ہو۔ صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعوں میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکین کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح )۔ چوتھی یہ کہ چھپی یاری دوستی نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو۔ یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں۔ اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کی دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفاً یہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معہود ذہنی ہے۔ 3- یہ اس امرکی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی کے ذریعے سے استمتاع اور تلذذ کرو۔ انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ 4- اس میں آپس کی رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ملحوظة: استمتاع کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی (ﷺ) نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا۔ النسآء
25 1- اس سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں کا مالک ہی لونڈیوں کا ولی ہے، لونڈی کا کسی جگہ نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نکاح نہیں کر سکتا۔ 2- یعنی لونڈیوں کو سو (100) کے بجائے (نصف یعنی) پچاس کوڑوں کی سزادی جائے گی۔ گویا ان کے لئے سزائے رجم نہیں ہے کیونکہ وہ نصف نہیں ہو سکتی اور غیر شادی شدہ لونڈی کی تعزیری سزا ہوگی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) 3- یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت ایسے لوگوں کے لئے ہے جو جوانی کے جذبات پر کنٹرول رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، اگر ایسا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا بہتر ہے جب تک کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کے قابل نہ ہو جائے۔ النسآء
26 النسآء
27 1- أَنْ تَمِيلُوا یعنی حق سے باطل کی طرف جھک جاؤ۔ النسآء
28 1- اس کمزوری کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ممکن آسانیاں اسے فراہم کی ہیں۔ انہیں میں لونڈیوں سے شادی کی اجازت ہے۔ بعض نے اس ضعف کا تعلق عورتوں سے بتلایا ہے یعنی عورت کے بارے میں کمزور ہے، اسی لئے عورتیں بھی باوجود نقصان عقل کے، اس کو آسانی سے اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں۔ النسآء
29 1- بِالْبَاطِلِ میں دھوکہ، فریب، جعل سازی، ملاوٹ کے علاوہ وہ تمام کاروبار بھی شامل ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے،جیسے قمار، ربا، وغیرہ۔ اسی طرح ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے۔ مثلاً بلا ضرورت فوٹو گرافی، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں اور فحش کیسٹیں وغیرہ۔ ان کا بنانا، بیچنا، مرمت کرنا سب ناجائز ہے۔ 2- اس کےلئے بھی شرط یہ ہے کہ یہ لین دین حلال اشیا کا ہو، حرام اشیاء کا کاروبار باہمی رضامندی کے باوجود ناجائز ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں رضامندی میں خیارمجلس کا مسئلہ بھی آجاتا ہے یعنی جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں سودا فسخ کرنے کا اختیار رہے گا جیسا کہ حدیث میں ہے [ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ] (صحيح بخاري- ومسلم كتاب البيوع) دونوں باہم سودا کرنے والوں کو، جب تک جدا نہ ہوں، اختیار ہے۔ 3- اس سے مراد خودکشی بھی ہو سکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکاب معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اس لئے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔ النسآء
30 1- یعنی منہیات کا ارتکاب، جانتے بوجھتے، ظلم وتعدی سے کرے گا۔ النسآء
31 1- کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کےنزدیگ وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو وہ کبیرہ ہے۔ احادیث میں مختلف کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے جنہیں بعض علما نے ایک کتاب میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے الكبائر للذهبي، الزواجر عن اقتراف الكبائر للهيتمي وغیرہ۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، عقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیں گے۔ سورۂ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے، البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کوبھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار ومداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام وفرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے شریعت کے اس مزاج کو سمجھ لیا تھا، اس لئے انہوں نے صرف وعدۂ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا، بلکہ مغفرت ورحمت الٰہی کے یقینی حصول کے لئے مذکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا۔ جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزؤں سے معمور ہیں۔ النسآء
32 1- اس کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) نے عرض کیا کہ مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے۔ اس پر آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 322) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت وطاقت اپنی حکمت وارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لئے اللہ کا خاص عطیہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح، ان کا پورا پورا صلہ انہیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سےاس کے فضل کا سوال کرنا چاہئے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کار کا جو فرق ہے، وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کے فضل سے کسب ومحنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ النسآء
33 1- مَوَالِي، مَوْلى کے جمع ہے۔ مولیٰ کے معنی ہیں دوست، آزاد کردہ غلام، چچا زاد، پڑوسی۔ لیکن یہاں اس سے مراد ورثا ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد عورت جو کچھ چھوڑ جائیں گے، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہوں گے۔ 2- اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ (محکم) مانتے ہیں اور أَيْمَانُكُمْ (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہو اور اسلام کے بعد بھی چلا آرہا تھا۔ نَصِيبَهُمْ (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاون وتناصر کا حصہ ہے اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے کیونکہ ایمانکم سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر، انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے، وارث ہوتا تھا لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا، اس لئے پھر ﴿وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ﴾ ( الانفال: 75 ) رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں نازل فرماکر اسے منسوخ کر دیا گیا۔ اب ﴿فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُم﴾ سے مراد دوستی ومحبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہوگا۔ اہل علم کے ایک گروہ نے اس سے مراد ایسے دو شخصوں کو لیا جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مولی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مذکورہ شخص لے گا۔ بشرطیکہ واقعتاً اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد بیوی اور شوہر ہیں اور اس کا عطف الأَقْرَبُونَ پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ماں باپ نے، قرابت داروں نے اور جن کو تمہارا عہد وپیان آپس میں باندھ چکا ہے (یعنی شوہر یا بیوی) انہوں نے جو کچھ چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کر دیئے ہیں۔ لہٰذا ان حقداروں کو ان کے حصے دو گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلاً جو حصے بیان کئے گئے تھے یہاں اجمالاً ان کی ادائیگی کی تاکید مزید کی گئی ہے۔ النسآء
34 1- اس میں مرد کی حاکمیت وقوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک وہبی ہے جو مردانہ قوت ودماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے، جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت وحیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا ہے، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بالکل واضح ہے،جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث میں ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے ”وہ قوم ہر گز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیئے“۔ (صحيح البخاري- كتاب المغازي- باب كتاب النبي إلى كسرى وقيصر وكتاب الفتن باب 18) 2- نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ ونصیحت کا نمبر ہے، دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھ دار عورت کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی ہے۔ اگر وہ اصلاح کر لے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بالکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارۂ کار باقی نہ رہے، لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔ النسآء
35 1- گھر کے اندر مذکورہ تینوں طریقے کار گر ثابت نہ ہوں تو یہ چوتھا طریقہ ہے اور اس کی بابت کہا کہ حکمین (فیصلہ کرنے والے) اگر مخلص ہوں گے تو یقیناً ان کی سعی اصلاح کامیاب ہوگی۔ تاہم ناکامی کی صورت میں حکمین کو تفریق بین الزوجین یعنی طلاق کا اختیار ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کو حاکم مجاز کے حکم یا زوجین کے توکیل بالفرقہ (جدائی کے لئے وکیل بنانا) کے ساتھ مشروط کرتے ہیں اور جمہور علماء اس کے بغیر اس اختیار کے قائل ہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفیسر طبری، فتح القدیر تفسیر ابن کثیر) النسآء
36 1- الْجَارِ الْجُنُبِ قرابت دار پڑوسی کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن سلوک کیا جائے، وہ رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار جس طرح کہ احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید بیان کی گئی ہے۔ 2- اس سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت وہم نشینی اختیار کرے۔ بلکہ اس کی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم، تعلم صناعت (کوئی کام سیکھنے) کے لئے یا کسی کاروباری سلسلے میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے۔ (فتح القدیر) 3- اس میں گھر، دوکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید احادیث میں آئی ہے۔ 4- فخر وغرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔“ (صحیح مسلم کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث نمبر 19) یہاں کبر کی بطور خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس پر عمل وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل کبر سے خالی ہوگا۔ متکبر اور مغرورشخص صحیح معنوں میں نہ حق عبادت ادا کر سکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام۔ النسآء
37 النسآء
38 1- بخل (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا) یا خرچ تو کرنا لیکن ریاکاری یعنی نمود ونمائش کے لئے کرنا۔ یہ دونوں باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں اور ان کی مذمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ یہاں قرآن کریم میں ان دونوں باتوں کو کافروں کا شیوہ اور ان لوگوں کا وطیرہ بتایا گیا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور شیطان ان کا ساتھی ہے۔ النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 1- ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یااللہ ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور ؟ پھر ان سب پر نبی کریم (ﷺ) گواہی دیں گے کہ یا اللہ! یہ سچے ہیں۔ آپ (ﷺ) یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ (ﷺ) پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کر دینے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (ﷺ) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی، وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”بس، اب کافی ہے“۔ حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا تو آپ (ﷺ) کی دونوں آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔ (صحيح بخاري، فضائل القرآن) بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ شہید (گواہ) کے معنی حاضر ناظر کے کرتے ہیں اور یوں نبی (ﷺ) کو حاضر ناظر باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی (ﷺ) کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ (ﷺ) کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے جو شرک ہے کیونکہ حاضر وناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق وواقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہو سکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے ﴿شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لئے حاضر وناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر وناظر ماننا پڑے گا۔ بہرحال نبی (ﷺ) کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ النسآء
42 النسآء
43 1- یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورۃ النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو، گویا اس وقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروط ہے ) 2- یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت ضروری ہے۔ 3- اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافری کی حالت میں اگر پانی نہ ملے تو جنابت کی حالت میں نماز پڑھ لو (جیسا کہ بعض نے کہا ہے) بلکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں تم مسجد کے اندر مت بیٹھو، البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی ضرورت پڑےتو گزر سکتے ہو بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انہیں ہر صورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی ہے۔ (ابن کثیر) ورنہ مسافر کا حکم آگے آرہا ہے۔ 4- (أ) بیمار سے مراد، وہ بیمار ہے جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو۔ (ب) مسافر عام ہے، لمبا سفر کیا ہو یا مختصر۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت تو مقیم کو بھی حاصل ہے، لیکن بیمار اور مسافر کو چونکہ اس قسم کی ضرورت عام طور پر پیش آتی تھی اس لئے بطور خاص اس کے لئےاجازت بیان کر دی گئی ہے۔ (ج) قضائے حاجت سے آنے والا۔ (د) اور بیوی سے مباشرت کرنے والا، ان کو بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیرلے۔ (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے قَالَ فِي التَّيَمُّمِ: ”ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ“ (مسند أحمد- عماررضی اللہ عنہ جلد 4 صفحہ 263) نبی (ﷺ) نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لئے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے۔ ﴿صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ سے مراد ”پاک مٹی“ ہے۔ زمین سے نکلنے والی ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے۔ [ جُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ ]، (صحيح مسلم- كتاب المساجد) ”جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لئے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے“۔ النسآء
44 النسآء
45 النسآء
46 1- یہودیوں کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہم نے سنا کے ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے یعنی اطاعت نہیں کریں گے۔ یہ دل میں کہتے یا اپنے ساتھیوں سے کہتے یا شوخ چشمانہ جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے منہ پر کہتے۔ اسی طرح ”غَيْرَ مُسْمَعٍ“ (تیری بات نہ سنی جائے) یہ بددعا کے طور پر کہتے یعنی تیری بات مقبول نہ ہو۔ ”رَاعِنَا“ کی بابت دیکھئے سورۃ البقرۃ آیت 104 کا حاشیہ۔ 2- یعنی ایمان لانے والے بہت ہی قلیل ہیں پہلے گزر چکا ہے کہ یہود میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ یا یہ معنی ہیں کہ بہت ہی کم باتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جب کہ ایمان نافع یہ ہے کہ سب باتوں پر ایمان لایا جائے۔ النسآء
47 1- یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے کرتوتوں کی پاداش میں یہ سزا دے سکتا ہے۔ 2- یہ قصہ سورۂ اعراف میں آئے گا، کچھ اشارہ پہلے بھی گزر چکا ہے یعنی تم بھی ان کی طرح ملعون قرار پا سکتے ہو۔ 3- یعنی جب وہ کسی بات کا حکم کر دے تو نہ کوئی اس کی مخالفت کر سکتا ہے اور نہ اسے روک ہی سکتا ہے۔ النسآء
48 1- یعنی ایسے گناہ جن سے مومن توبہ کئے بغیر ہی مر جائیں، اللہ تعالیٰ اگر کسی کے لئے چاہے گا، تو بغیر کسی قسم کی سزا دیئے معاف فرما دے گا اور بہت سوں کو سزا کے بعد اور بہت سوں کو نبی (ﷺ) کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔ لیکن شرک کسی صورت میں معاف نہیں ہوگا کیونکہ مشرک پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے۔ 2- دوسرے مقام پر فرمایا ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (سورۃ لقمان) شرک ظلم عظیم ہے حدیث میں اسے سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ”أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ الشِّرْكُ بِاللهِ“۔ النسآء
49 1- یہود اپنے منہ میاں مٹھو بنتے تھے مثلاً ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں وغیرہ، اللہ نے فرمایا تزکیہ کا اختیار بھی اللہ کو ہے اور اس کا علم بھی اسی کو ہے۔ فتیل کھجور کی گٹھلی کے کٹاو پرجو دھاگے یا سوت کی طرح نکلتا یا دکھائی دیتا ہے اس کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اتنا سا ظلم بھی نہیں کیاجائے گا۔ النسآء
50 1- یعنی مذکورہ دعوائے تزکیہ کرکے۔ 2- یعنی ان کی یہ حرکت اپنی پاکیزگی کا ادعا ان کے کذب وافترا کے لئے کافی ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت اور اس کی شان نزول کی روایات سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کی مدح وتوصیف بالخصوص تزکیہ نفوس کا دعویٰ کرنا صحیح اور جائز نہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم کے دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا گیا۔ ﴿فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى﴾ (النجم: 32) ”اپنے نفسوں کی پاکیزگی اور ستائش مت کرو، اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تم میں متقی کون ہے؟“ حدیث میں ہے حضرت مقداد (رضي الله عنه) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پرمٹی ڈال دیں [ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ ] ( صحیح مسلم، کتاب الزھد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک آدمی کو ایک دوسرے آدمی کی تعریف کرتے سنا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: [ وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ ] ”افسوس ہے تچھ پر تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی“ پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو کسی کا لامحالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے ”أَحْسِبُهُ کذا“ میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں، اللہ پر کسی کا تزکیہ بیان نہ کرے (صحيح بخاري كتاب الشهادات والأدب- مسلم كتاب الزهد) النسآء
51 1- اس آیت میں یہودیوں کے ایک اور فعل پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود ”جِبْت“ (بت، کاہن یا ساحر) اور ”طَاغُوتٌ“ (جھوٹےمعبودوں) پر ایمان رکھتے اور کفار مکہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں ”جِبْت“ کے یہ سارے مذکورہ معنی کئے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے [ إِنَّ الْعِيَافَةَ وَالطَّرْقَ وَالطِّيَرَةَ مِنَ الْجِبْتِ ] (سنن أبي داود كتاب الطب) ”پرندے اڑا کر، خط کھینچ کر، بدخالی اوربدشگونی لینا یہ جبت سے ہیں۔“ یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں اور یہود میں بھی یہ چیزیں عام تھی طاغوت کے ایک معنی شیطان بھی کئے گئے ہیں۔ دراصل معبود ان باطل کی پرستش، شیطان ہی کی پیروی ہے۔ اس لئے شیطان بھی یقیناً طاغوت میں شامل ہے۔ النسآء
52 النسآء
53 1- یہ استفہام انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تویہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد (ﷺ) کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہو جاتا۔ ”نَقِيرٌ“ اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) النسآء
54 1- ”أم“ (یا) ”بل“ کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے یعنی بلکہ یہ اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کردوسروں میں نبی (یعنی آخری نبی) کیوں بنایا؟ نبوت اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے۔ النسآء
55 1- یعنی بنو اسرائیل کو، جو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی ذریت اور آل میں سے ہیں، ہم نے نبوت بھی دی اور بڑی سلطنت وبادشاہی بھی۔ پھر بھی یہود کے یہ سارے لوگ ان پر ایمان نہیں لائے۔ کچھ ایمان لائے اور کچھ نے اعراض کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اے محمد! (ﷺ) اگر یہ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ان کی تو تاریخ ہی نبیوں کی تکذیب سے بھری ہوئی ہے حتیٰ کہ اپنی نسل کے نبیوں پر بھی یہ ایمان نہیں لائے۔ بعض نے ”آمَنَ بِهِ“ میں ”ھا“ کا مرجع نبی (ﷺ) کو بتلایا ہے یعنی ان یہود میں سے کچھ نبی (ﷺ) پر ایمان لائے اور کچھ نے انکارکیا۔ ان منکرین نبوت کا انجام جہنم ہے۔ النسآء
56 1- یعنی جہنم میں اہل کتاب کے منکرین ہی نہیں جائیں گے، بلکہ دیگر تمام کفار کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہے۔ 2- یہ جہنم کے عذاب کی سختی، تسلسل اور دوام کا بیان ہے۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) سے منقول بعض آثار میں بتلایا گیا ہے۔ کھالوں کی یہ تبدیلی دن میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ عمل میں آئے گی اور مسند احمد کی روایت کی رو سے جہنمی جہنم میں اتنے فربہ ہو جائیں گے کہ ان کے کانوں کی لو سے پیچھے گردن تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہوگا، ان کی کھال کی موٹائی ستر بالشت اور داڑھ احد پہاڑ جتنی ہوگی۔ النسآء
57 1- کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے لئے جو ابدی نعمتیں ہیں، ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ اہل ایمان جو اعمال صالحہ کی دولت سے مالا مال ہوں گے، جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ اعمال صالح کا ذکر کرکے واضح کر دیا کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایمان، عمل صالح کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے پھول ہو مگر خوشبو کے بغیر، درخت ہولیکن بے ثمر۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے دوسرے مسلمانوں نے اس نکتے کو سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ ان کی زندگیاں ایمان کے پھل، اعمال صالحہ سے مالا مال تھیں۔ اس دور میں بے عمل یا بدعملی کے ساتھ ایمان کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس کے برعکس آج ایمان صرف زبانی جمع خرچ کا نام رہ گیا ہے۔ اعمال صالحہ سے دعوے داران ایمان کا دامن خالی ہے۔ هَدَانَا اللهُ تَعَالَى، اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے عمل کرتا ہے جو اعمال صالحہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ مثلا راست بازی، امانت ودیانت، ہمدردی وغم گساری اور دیگر اخلاقی خوبیاں۔ لیکن ایمان کی دولت سے یہ محروم ہے تو اس کے یہ اعمال، دنیا میں تو اس کی شہرت ونیک نامی کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اللہ کی بارگاہ میں ان کی کوئی قدروقیمت نہ ہوگی اس لئے کہ ان کا سر چشمہ ایمان نہیں ہے جو اچھے اعمال کو عنداللہ بار آور بناتا ہے بلکہ صرف اور صرف دنیوی مفادات یا قومی اخلاق وعادات ان کی بنیاد ہے۔ 2- گھنی، گہری، عمدہ اور پاکیزہ چھاؤں جس کو ترجمہ میں پوری راحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے جنت میں ایک درخت ہے جس کا سایہ اتنا ہے کہ ایک سوار سو سال میں بھی اسے طے نہیں کر سکے گا یہ شجرۃ الخلد ہے۔ (مسند أحمد،جلد 2 ص 455، وأصله في البخاري، كتاب بدء الخلق باب نمبر 8 ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة) النسآء
58 1- اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان وکلید بردار چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے۔ مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ (ﷺ) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف وغیرہ کے بعد آپ (ﷺ) نے حضرت عثمان بن طلحہ (رضي الله عنه) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو چکے تھے، طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے (ابن كثير) آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ یہ بحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی ووطنی بنیاد یا قرابت وخاندان کی بنیاد یا کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر عہدہ ومنصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔ 2- اس میں حکام کو بطور خاص عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ”حاکم جب تک ظلم نہ کرے، اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے“۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام) 3- یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل وانصاف مہیا کرنا۔ النسآء
59 1- ”اولو الامر“ (اپنے میں سے اختیار والے) سے مراد بعض کے نزدیک امرا وحکام اور بعض کے نزدیک علماء وفقہاء ہیں مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ ﴿أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ﴾ ( الاعراف: 54) خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے، حکم بھی اسی کا ہے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ﴾ (يوسف: 40) حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ لیکن چونکہ رسول (ﷺ) منشاء الٰہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول (ﷺ) کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول (ﷺ) کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ (النساء: 80) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امراء وحکام کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امرا وحکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ ورسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لئے ”أَطِيعُوا اللهَ“ کے بعد ”أَطِيعُوا الرَّسُولَ“ تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن ”أَطِيعُوا أُولِي الأَمْر“ ِنہیں کہا کیونکہ أُولِي الأَمْرِکی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے [ لا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الْخَالِقِ ] (وقال الألباني حديث صحيح- مشكاة نمبر 3696، في لفظ لمسلم: [ لا طاعة في معصية اللهكتاب الإمارة باب وجوب طاعة الأمر في غير معصية حديث نمبر 1840، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ) (صحيح بخاري كتاب الأحكام باب نمبر 4) [ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً ] معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔ یہی حال علماء وفقہاء کا بھی ہے۔ (اگر اولو الامر میں ان کو بھی شامل کر لیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لئے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام وفرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد وہدایت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء وفقہاء بھی دینی امور ومعاملات میں حکام کی طرح یقیناً مرجعِ عوام ہیں۔ لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لئے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔ 2- اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد، قرآن کریم اور الرسول (ﷺ) سے مراد اب حدیث رسول ہے۔ یہ تنازعات کے ختم کرنے کے لئے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے۔ اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے، جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے، مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور اس کے اتحاد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ النسآء
60 النسآء
61 1- یہ آیات ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو اپنا فیصلہ عدالت میں لے جانے کے بجائے سردارانِ یہود یا سردارانِ قریش کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ تاہم ان کا حکم عام ہے اور اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو کتاب وسنت سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لئے ان دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا حال تو یہ ہوتا ہے ﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾۔(النور: 51) کہ جب انہیں اللہ ورسول (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ ”سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ یہی لوگ کامیاب ہیں۔ النسآء
62 1- یعنی جب اپنے اس کرتوت کی وجہ سے عتاب الٰہی کا شکار ہو کر مصیبتوں میں پھنستے ہیں تو پھر آکر کہتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد یہ نہیں تھا کہ وہاں سے ہم فیصلہ کروائیں یا آپ (ﷺ) سے زیادہ ہمیں وہاں انصاف ملے گا بلکہ مقصد صلح اور ملاپ کرانا تھا۔ النسآء
63 1- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم ان کے دلوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہیں (جس پر ہم انہیں جزا دیں گے) لیکن اے پیغمبر! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے درگزر ہی فرمائیے اور وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے اندر کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیئے ! جس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کی سازش کو عفو ودرگزر، وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے ہی ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہیئے۔ النسآء
64 1- مغفرت کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہی توبہ واستغفار ضروری اور کافی ہے۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتا۔ یہ اس لئے کہ چونکہ انہوں نے فعل خصومات (جھگڑوں کے فیصلے) کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ (ﷺ) کا استخفاف کیا تھا۔ اسلئے اس کے ازالے کے لئے آپ (ﷺ) کے پاس آنے کی تاکید کی۔ النسآء
65 1- اس آیت کی شان نزول میں ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جوبارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر (رضي الله عنه) سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی ہے۔ صحیح واقعہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر (رضی اللہ عنہ) کا جو رسول اللہ (ﷺ) کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی (ﷺ) تک پہنچا آپ (ﷺ) نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر (رضي الله عنه) کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ (ﷺ) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ (ﷺ) کا پھوپھی زاد ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحيح بخاري تفسير سورة النساء) آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (ﷺ) کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا، دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت بھی منکرین حدیث کے لئے تو ہے ہی، دیگر افراد کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو قول امام کے مقابلے میں حدیثِ صحیح سے انقباض ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ یا تو کھلے لفظوں میں اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یا اس کی دور ازکار تاویل کرکے یا ثقہ راویوں کو ضعیف باور کرا کے مسترد کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔ النسآء
66 1- آیت میں انہی نافرمان قسم کے لوگوں کی جبلت رویہ کی طرف اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرویا اپنے گھرں سے نکل جاؤ تو، جب یہ آسان باتوں پر عمل نہیں کر سکے تو اس پرعمل کس طرح کر سکتے تھے؟ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق ان کی بابت فرمایا ہے جو یقیناً واقعات کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخت حکموں پر عمل تو یقیناً مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ بہت شفیق اور مہربان ہے، اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لئے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جن کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لئے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہو۔ کیونکہ ایمان اطاعت سے زیادہ اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔ نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا اور بدی سے بدی متولد ہوتی ہے۔ یعنی اسکا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 1- اللہ ورسول کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے اس لئے حدیث میں آتا ہے [ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ] (صحيح بخاري كتاب الآداب باب نمبر 97، علامة حب الله عز وجل مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب المرء مع من أحب حديث نمبر 1640) آدمی انہی کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی، حضرت انس (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ صحابہ (رضي الله عنهم) کو جتنی خوشی اس فرمان رسول کو سن کر ہوئی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ (ﷺ) کی رفاقت پسند کرتے تھے۔ اس کی شان نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے نبی (ﷺ) سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ (ﷺ) کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور ہمیں اس سے فرو تر مقام ہی ملے گا اور یوں ہم آپ (ﷺ) کی اس صحبت ورفاقت اور دیدار سے محروم رہیں گے جو ہمیں دنیا میں حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر ان کی تسلی کا سامان فرمایا۔ (ابن کثیر) بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے بطور خاص نبی (ﷺ) سے جنّت میں رفاقت کی درخواست کی [ أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ ] جس پر نبی (ﷺ) نے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی [ فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ ] (صحيح مسلم كتاب الصلاة باب فضل السجود والحث عليه حديث نمبر488) پس تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے [ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ ] (ترمذي- كتاب البيوع باب ما جاء في التجار وتسمية النبي (ﷺ) إياهم) راستباز، امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا، ”صدیقیت“ کمال ایمان وکمال اطاعت کا نام ہے، نبوّت کے بعد اس کا مقام ہے، امت محمدیہ میں اس مقام میں حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) سب سے ممتاز ہیں۔ اور اسی لئے بالاتفاق غیر انبیاء میں وہ نبی (ﷺ) کے بعد افضل ہیں، ”صالح“ وہ ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کامل طور پر ادا کرے اور ان میں کوتاہی نہ کرے۔ النسآء
70 النسآء
71 1- حِذْرَكُمْ (اپنا بچاؤ اختیار کرو) اسلحہ اور سامان جنگ اور دیگر ذرائع سے۔ النسآء
72 1- یہ منافقین کا ذکر ہے۔ پس وپیش کا مطلب، جہاد میں جانے سے گریز کرتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں۔ النسآء
73 1- یعنی جنگ میں فتح وغلبہ اور غنیمت۔ 2- یعنی گویا وہ تمہارے اہل دین میں سے ہی نہیں بلکہ اجنبی ہیں۔ 3- یعنی مال غنیمت سے حصہ حاصل کرتا جو اہل دنیا کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔ النسآء
74 1- شَرَى يَشْرِي کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے ”فَلْيُقَاتِلْ“ کا فاعل الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ بنے گا لیکن اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الَّذِينَ مفعول بنے گا اور فَلْيُقَاتِلْ کا فاعل الْمُؤْمِنُ النَّافِرُ (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کو تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کر دیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہوں گے۔ (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے ) النسآء
75 1- ظالموں کی بستی سے مراد (نزول کے اعتبار سے) مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے، کافروں کے ظلم وستم سے تنگ آکراللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم ان مستضعفین کو کفار سے نجات دلانے کے لئے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمان اس طرح ظلم وستم کا شکار اورنرغۂ کفار میں گھرے ہوئے ہوں تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کو کافروں کے ظلم وستم سے بچانے کے لئے جہاد کریں۔ یہ جہاد کی دوسری قسم ہے۔ پہلی قسم ہے إعلاءِ كَلِمَةِ الله یعنی دین کی نشر واشاعت اور كَلِمَةِ الله کے غلبے کے لئے لڑنا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں اور مابعد کی آیت میں ہے۔ النسآء
76 1- مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔ 2- مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فراوانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ چیلے نہیں ٹھہر سکتے۔ النسآء
77 1- مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو ودرگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز زکواۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خواہش کے مطابق ہے۔ آیت قران میں تحریف آیت کا پہلا حصہ جس میں ”كَفِّ أَيْدِي“ (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کی حالت میں ہاتھوں کو روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط اور واہیات استدلال ہے۔ اس کے لئے ان صاحب نے آیت کے الفاظ میں بھی تحریف کی اور معنی میں بھی۔ یعنی لفظی اور معنوی دونوں قسم کے تحریف سے کام لیا ہے۔ 2- اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے موخر کیوں نہ کر دیا یعنی ”أَجَلٍ قَرِيبٍ“ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے۔ (تفسير ابن كثير) النسآء
78 1- ایسے کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا فانی اور اس کا فائدہ عارضی ہے جس کے لئے تم کچھ مہلت طلب کر رہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الٰہی کے صلے میں تم سزا وار ہوگے۔ دوسرے یہ کہ جہاد کرو یا نہ کرو، موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ؟ مضبوط برجوں سے مراد مضبوط اور بلند وبالا فصیلوں والے قلعے ہیں۔ ملحوظة: یعنی مسلمانوں کا چونکہ یہ خوف بھی طبعی تھا۔ اسی طرح تاخیر کی خواہش بھی بطور اعتراض یا انکار نہ تھی، بلکہ طبعی خوف کا ایک منطقی نتیجہ تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا اور نہایت مضبوط دلائل سے انہیں سہارا اور حوصلہ دیا۔ 2- یہاں سے پھر منافقین کی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سابقہ امت کے منکرین کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ بھلائی (خوشحالی، غلے کی پیداوار، مال واولاد کی فراوانی وغیرہ) اللہ کی طرف سے ہے اور برائی (قحط سالی، مال ودولت میں کمی وغیرہ) اے محمد! (ﷺ) تیری طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کے نتیجے میں یہ ابتلا آئی۔ جس طرح حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جب ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے (یعنی ہم اس کے مستحق ہیں) اور جب ان کو کوئی برائی پہنچتی ہے تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور ان کے پیروکاروں سے بدشگونی پکڑتے ہیں، (یعنی نعوذ باللہ ان کی نحوست کا نتیجہ بتلاتے ہیں) (الاعراف: 131) 3- یعنی بھلائی اور برائی دونوں اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہ لوگ قلت فہم وعلم اور کثرت جہل وظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔ النسآء
79 1- یعنی اس کے فضل وکرم سے ہے یعنی کسی نیکی یا اطاعت کا صلہ نہیں ہے۔ کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نعمتیں اتنی بے پایاں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت وطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ اسی لئے ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: جنت میں جو بھی جائے گا، محض اللہ کی رحمت سے جائے گا (اپنے عمل کی وجہ سے نہیں)، صحابہ (رضي الله عنهم) نے عرض کیا یا رسول اللہ! وَلا أنت؟َ آپ (ﷺ) بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ہاں جب تک اللہ مجھے بھی اپنے دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا۔ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل۔18) 2- یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ ﴿كُلّ مِّنۡ عِندِ ٱللَّهِ﴾ سے واضح ہے لیکن یہ برائی کسی گناہ کی عقوبت یا اس کا بدلہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح فرمایا ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ﴾ (الشورى: 30 ) ”تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے“ النسآء
80 النسآء
81 1- یعنی یہ منافقین آپ (ﷺ) کی مجلس میں جو باتیں ظاہر کرتے ہیں۔ راتوں کو ان کے برعکس باتیں کرتے اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ آپ (ﷺ) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر توکل کریں، ان کی باتیں اور سازشیں آپ (ﷺ) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کیونکہ آپ کا وکیل اور کارساز اللہ ہے۔ النسآء
82 1- قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور وتدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا (جیسا کہ کفار کا خیال ہے) تو اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض وتناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصّل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز وبلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت وبلاغت قائم نہیں رہتی۔ دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علاّم الغیوب کے سوا کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ تیسرے ان حکایات وقصص میں نہ باہمی تعارض وتضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض وتضاد واقع ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبرّا ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقیناً کلام الٰہی ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (ﷺ) پر نازل فرمایا ہے۔ النسآء
83 1- یہ بعض کمزور اورجلد باز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت وشکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل وہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے)، اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول (ﷺ) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم وتحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بے خبر رہنا نفع ہے؟ یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم اور نہایت مفید ہے لیکن عین حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت وافادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ”اسْتِنْبَاطٌ“ کا مادہ نَبْطٌ ہے نَبْطٌ اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے اسی لئے اسْتِنْبَاطٌ تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر ) النسآء
84 النسآء
85 النسآء
86 1- تَحِيَّةٌ اصل میں تَحْيِيَةٌ (تَفْعِيلَةٌ) ہے۔ یا کے یا میں ادغام کے بعد تَحِيَّةٌ ہوگیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدُّعَاءُ بِالْحَيَاةِ) یہاں یہ سلام کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السّلام علیکم کے جواب میں ورحمتہ اللہ کا اضافہ اور السّلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کر دیا جائے۔ لیکن اگر کوئی السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے۔ (ابن کثیر) ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السّلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اس کے ساتھ ورحمۃ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند أحمد جلد 4، ص 439، 440)، یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمّہ یعنی یہود ونصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرا، اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف وعلیکم کے ساتھ جواب دیا جائے۔ (صحيح بخاري، كتاب الاستيذان- مسلم، كتاب السلام) النسآء
87 النسآء
88 1- یہ استفہام انکار کے لئے ہے، یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ (صحیح بخاری سورۃ النساء، صحیح مسلم) کتاب المنافقین جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے۔ دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ 2- ”كَسَبُوا“ (اعمال) سے مراد، رسول کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے ”أَرْكَسَهُمْ“ اوندھا کر دیا۔ یعنی جس کفر وضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلاکر دیا، یا اس کے سبب ہلاک کر دیا۔ 3- جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر وعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کر سکتا۔ النسآء
89 1- ہجرت (ترک وطن) اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان بن گئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔ 2- یعنی جب تمہیں ان پر قدرت وطاقت حاصل ہو جائے۔ 3- حِل ہو یا حَرم۔ النسآء
90 1- یعنی جن سے لڑنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس سے دو قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں۔ ایک وہ لوگ، جو ایسی قوم سے ربط وتعلق رکھتے ہیں یعنی ایسی قوم کے فرد ہیں یا اس کی پناہ میں ہیں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے۔ دوسرے وہ جو تمہارے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ ان کے سینے اس بات سے تنگ ہیں کہ وہ اپنی قوم سے مل کر تم سے یا تم سے مل کر اپنی قوم سے جنگ کریں یعنی تمہاری حمایت میں لڑنا پسند کرتے ہیں نہ تمہاری مخالفت میں۔ 2- یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ ان کو لڑائی سے الگ کر دیا ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دل میں بھی اپنی قوم کی حمایت میں لڑنے کا خیال پیدا کر دیتا تو یقیناً وہ بھی تم سےلڑتے۔ اس لئے اگر واقعی لوگ جنگ سے کنارہ کش رہیں تو تم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام مت کرو۔ 3- کنارہ کش رہیں، نہ لڑیں، تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں، سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ تاکید اور وضاحت کے لئے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ تاکہ مسلمان ان کے بارے میں محتاط رہیں کیونکہ جو جنگ وقتال سے پہلے ہی علیحدہ ہیں اور ان کی یہ علیحدگی مسلمانوں کے مفاد میں بھی ہے، اسی لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے بطور امتنان اور احسان کے ذکر کیا ہے، تو ان کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کارویّہ یا غیر محتاط طرز عمل ان کے اندر بھی مخالفت ومخاصمت کا جذبہ بیدار کر سکتا ہے جو مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس لئے جب تک مذکورہ حال پر قائم رہیں، ان سے مت لڑو! اس کی مثال وہ جماعت بھی ہے جس کا تعلق بنی ہاشم سے تھا، یہ جنگ بدر والے دن مشرکین مکہ کے ساتھ میدان جنگ میں تو آئے تھے، لیکن یہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے تھے، جیسے حضرت عباس (رضي الله عنه) عّم رسول وغیرہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اسی لئے ظاہری طور پر کافروں کے کیمپ میں تھے۔ اس لئے نبی (ﷺ) نے حضرت عباس (رضي الله عنه) کو قتل کرنے سے روک دیا اور انہیں صرف قیدی بنانے پر اکتفا کیا۔ ”سِلْمٌ“ یہاں ”مُسَالَمَةُ“ یعنی صلح کے معنی میں ہے۔ النسآء
91 1- یہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہے جو منافقین کا تھا۔ یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں، اپنی قوم کے پاس جاتے تو شرک وبت پرستی کرتے تاکہ وہ انہیں اپنا ہی ہم مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ 2- ”الفِتْنَة“ سے مراد شرک بھی ہو سکتا ہے۔ ”أُرْكِسُوا فِيهَا“ اسی شرک میں لوٹا دیئے جاتے۔ یا ”الْفِتْنَة“ سے مراد قتال ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایا یعنی لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ 3- ”يُلْقُوا“ اور ”يَكُفُّوا“ کا عطف ”يَعْتَزِلُوكُمْ“ پر ہے یعنی سب نفی کے معنی میں ہیں، سب میں ”لم“ لگے گا۔ 4- اس بات پر کہ واقعی ان کے دلوں میں نفاق اور ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بغض وعناد ہے، تب ہی تو وہ بہ ادنیٰ کوشش دوبارہ فتنے (شرک یا تمہارے خلاف آمادۂ قتال ہونے) میں مبتلا ہو گئے۔ النسآء
92 1- یہ نفی، نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے جیسے ﴿وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ﴾ (الأحزاب: 53) ”تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول (ﷺ) کو ایذا پہنچاو“ یعنی حرام ہے۔ 2- غلطی کے اسباب ووجوہ متعدد ہو سکتے ہیں۔ مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہو جائے۔ 3- یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چیزیں ہیں۔ ایک بطور کفّارہ واستغفار ہے۔ یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے ”دِيَةٌ“ (خون بہا )۔ مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت ہے۔ اور دیت کی مقدار احادیث کی رو سے سو اونٹ یا اس کے مساوی قیمت سونے، چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ ملحوظة: خیال رہے کہ قتل عمد میں قصاص یا دیت مغلظہ ہے اور دیتِ مغلظہ کی مقدار سو اونٹ ہے جو عمر اور وصف کے لحاظ سے تین قسم یا تین معیار کے ہوں گے۔ جب کہ قتل خطا میں صرف دیت ہے۔ قصاص نہیں ہے۔ اس دیت کی مقدار سو اونٹ ہے مگر معیار اتنا کڑا نہیں۔ علاوہ ازیں اس دیت کی قیمت سنن ابی داود کی حدیث میں 800 دینار یا 8 ہزار درہم اور ترمذی کی روایت میں بارہ ہزار درہم بتلائی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دور خلافت میں قیمت دیت میں کمی بیشی اور مختلف پیشوں والوں کے اعتبار سے اس کی مختلف نوعیتیں مقرر فرمائی تھیں۔ (ارواء الغلیل جلد: 8) جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دیت (سو اونٹ) کی بنیاد پر اس کی قیمت ہر دور کے اعتبار سے مقرر کی جائے گی۔ (تفصیل کے لئے شروح حدیث وکتب فقہ ملاحظہ ہوں ) 4- معاف کر دینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔ 5- یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وراث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حق دار نہیں۔ بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس مسلمان نےاسلام قبول کرنے کے بعد چونکہ ہجرت نہیں کی، جب کہ ہجرت کی اس وقت بڑی تاکید تھی۔ اس کوتاہی کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے۔ (فتح القدیر ) 6- یہ ایک تیسری صورت ہے، اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے، بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔ 7- یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہوں گے۔ البتہ عذر شرعی کی وجہ سے ناغہ ہونے کی صورت میں نئے سرے سے روزے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو، سفر کے عذرشرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن كثير) النسآء
93 1- یہ قتل عمد کی سزا ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ (1) قتل خطا (جس کا ذکر ماقبل کی آیت میں ہے)۔ (2) قتل شبہ عمد جو حدیث سے ثابت ہے، (3) قتل عمد جس کا مطلب ہے، ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لئے وہ آلہ استعمال کرنا جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جا رہا ہے جیسے تلوار، خنجر وغیرہ۔ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ مثلاً اس کی سزا جہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا، نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا جرم ہے۔ احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ 2- مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علماء مذکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبولِ توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے۔ ﴿إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا﴾ ( الفرقان: 70) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں۔ ہرگناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا توبہ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے۔ یہاں اس کی سزا جہنم جو بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس جرم پر اسے دے سکتا ہے۔ اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود (ہمیشہ جہنم میں رہنے) کا مطلب بھی مُكْثٌ طَوِيلٌ (لمبی مدت) ہے۔ کیونکہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں کے لئے ہی ہے۔ علاوہ ازیں قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے تو جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بھی اس کی تلافی اور ازالہ فرما سکتا ہے اس طرح مقتول کو بھی بدلہ مل جائے گا اور قاتل کی بھی معافی ہو جائے گی۔ (فتح القدیر وابن کثیر ) النسآء
94 1- احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزرے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمانوں کو دیکھ کر چرواہے نے سلام کیا، بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لئے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے، چنانچہ انہوں نے بغیر تحقیق کئے اسے قتل کر ڈالا، اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح بخاري، ترمذي تفسير سورة النساء) بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی اس چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے (صحيح بخاري، كتاب الديات) مطلب یہ تھا کہ اس قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 2- یعنی تمہیں چند بکریاں، اس مقتول سے حاصل ہوگئیں، یہ کچھ بھی نہیں اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر غنیمتیں ہیں جو اللہ ورسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں بھی مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔ النسآء
95 1- جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رضي الله عنه) (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر وثواب حاصل نہیں کر سکیں گے درآں حالیکہ ہمارا گھر میں بیٹھ رہنا بطور شوق، یا جان کی حفاظت کے نہیں ہے بلکہ عذر شرعی کی وجہ سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ ( بغیر عذر کے) کا استثنا نازل فرمایا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ”حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ“ ان کو عذر نے روکا ہوا ہے (صحیح بخاری، کتاب الجہاد ) 2- یعنی جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے۔ یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔ النسآء
96 النسآء
97 1- یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب وجوار میں مسلمان توہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑکر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمان کو دیا جا چکا تھا۔ اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم بتلایا گیا ہے۔ جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات وظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دار الکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ 2- یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب وجوار ہے اور آگے ”ارض اللہ“ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔ النسآء
98 1- یہ ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہجرت سے مستثنیٰ کرنے کا حکم ہے جو اس کے وسائل سے محروم اور راستے سے بھی بے خبر تھے۔ بچے اگرچہ شرعی احکام کے مکلف نہیں ہوتے لیکن یہاں ان کا ذکر ہجرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ بچے تک بھی ہجرت کریں یا پھر یہاں بچوں سے مراد قریب البلوغت بچے ہوں گے۔ النسآء
99 النسآء
100 1- اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے مفارقت اختیار کرنے کی تلقین ہے۔ ”مُرَاغَمًا“ کے معنی جگہ، جائے قیام یا جائے پناہ ہے۔ اور”سَعَةً“ سے رزق یا جگہوں اور ملکوں کی کشادگی وفراخی ہے۔ 2- اس میں نیت کے مطابق اجر وثواب ملنے کی یقین دہانی ہے چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ امتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لئے نیکوں کی ایک بستی میں جا رہا تھا کہ راستے میں موت آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے نیکوں کی بستی کو، بہ نسبت دوسری بستی کے قریب تر کر دیا جس کی وجہ سے اسے ملائکہ رحمت اپنے ساتھ لے گئے۔ (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل نمبر 54 ومسلم كتاب التوبة، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله) اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے لیکن راستے میں ہی اسے موت آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ضرور ملے گا، گو ابھی وہ ہجرت کے عمل کو پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچا سکا ہو۔ جیسے حدیث میں بھی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا [ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ] عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے، [ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ] آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، جس نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لئے ہجرت کی پس، اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس نیت سے اس نے ہجرت کی۔ (صحيح بخاري، باب بدء الوحي ومسلم، كتاب الإمارة) یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر کام کو شامل ہے۔ یعنی اس کو کرتے وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی تو وہ مقبول، ورنہ مردود ہوگا۔ النسآء
101 1- اس میں حالت سفرمیں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ”إِنْ خِفْتُمْ“ (اگر تمہیں ڈر ہو) غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف کا بھی سفر خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اور بھی بعض مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے مثلاً: ﴿لا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾ ( آل عمران: 130)، ﴿وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا﴾ ( النور: 33) ”تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں“۔ چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ﴿وَرَبَائِبُكُمُ اللاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ﴾ (النسا: 23) ٰوَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔ بعض صحابہ (رضي الله عنهم) کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے، ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے، اس کے صدقے کو قبول کرو۔ (مسند احمد جلد 1، ص 25،36، وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث ) ملحوظة: سفر کی مسافت اور ایام قصر کی تعیین میں کافی اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے فرسخ یعنی ( کوس) والی روایت کو ترجیح دی ہے۔ (نیل الاوطار جلد 3 صفحہ220) اسی طرح بہت سے محققین علماء اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ دوران سفر کسی ایک مقام پر تین یا چار دن سے زیادہ قیام کی نیت نہ ہو، اور اگر اس سے زیادہ قیام کی نیت ہو تو پھر قصر کی اجازت نہیں (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح ) النسآء
102 1- اس آیت میں صلٰوۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ صلٰوۃ الخوف کے معنی ہیں، خوف کی نماز۔ یہ اس وقت مشروع ہے جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لئے تیار کھڑی ہوں اور ایک لمحے کی بھی غفلت مسلمانوں کے لئے سخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہو جائے تو صلٰوۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آکر نبی (ﷺ) کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہو گیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہوگیا اور مورچہ زن حصہ نماز کے لئے آگیا، بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت نماز پڑھائی، اس طرح آپ (ﷺ) کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی، بعض میں آتا ہے کہ دو دو رکعات پڑھائیں، اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو دو رکعت ہوئیں اور بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے، فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کر دو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے جا کر ڈٹ گئے۔ دوسرے حصے نے آکر نبی (ﷺ) کے پیچھے نماز پڑھی، آپ (ﷺ) نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کر لی۔ پھر ان کے ساتھ آپ (ﷺ) نے سلام پھیر دیا۔ اس طرح آپ (ﷺ) کی بھی دو رکعت اور فوج کے دنوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں (دیکھئے کتب حدیث )۔ النسآء
103 1- مراد یہی خوف کی نماز ہے اس میں چونکہ تخفیف کر دی گئی ہے، اس لئے اس کی تلافی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ 2- اس سے مراد ہے کہ جب خوف اور جنگ کی حالت ختم ہو جائے تو پھر نماز کو اس کے اس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔ 3- اس میں نماز کو مقرر وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔ النسآء
104 1- یعنی اپنے دشمن کے تعاقب کرنے میں کمزوری مت دکھاؤ، بلکہ ان کی خلاف بھرپور جدوجہد کرو اورگھات لگا کر بیٹھو !۔ 2- یعنی زخم تو تمہیں بھی اورانہیں بھی دونوں کو پہنچے ہیں لیکن ان زخموں پر تمہیں تو اللہ سے اجر کی امید ہے لیکن وہ اس کی امید نہیں رکھتے۔ اس لئے اجر آخرت کے حصول کے لئے جو محنت وکاوش تم کرسکتے ہو، وہ کافر نہیں کر سکتے۔ النسآء
105 1- ان آیات (104 سے 113تک) کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کے زرہ چرالی، جب اس کا چرچا ہوا اور اس کو اپنی چوری کے بے نقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اوربنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی (ﷺ) کی خدمت میں پہنچ گیا، ان سب نے کہا کہ زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے۔ یہودی نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ بنی ابیرق نے زرہ چوری کر کے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ابیرق (طعمہ یا بشیر وغیرہ) ہشیار تھے اور نبی (ﷺ) کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہی ہے اور وہ طعمہ پرالزام لگانے میں جھوٹا ہے، نبی (ﷺ) بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کر کے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی (ﷺ) بھی بہ حیثیت ایک انسان کے غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ (ﷺ) پر فوراً صورتِ حال واضح ہو جاتی۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (ﷺ) کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہو جانے کا مرحلہ آجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا ہے اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے۔ یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیا کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ 2- اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہے۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلی آیات میں بھی ان کے اور ان کے حمایتیوں کےغلط کردار کو نمایاں کرکے نبی (ﷺ) کو خبردار کیا جا رہا ہے۔ النسآء
106 1- یعنی بغیر تحقیق کئے آپ (ﷺ) نے جو خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے، اس پر اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے، اس کی حمایت ووکالت کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور اپنی چرب زبانی سے عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے گا درآں حالیکہ وہ صاحب حق نہ ہو تو ایسے فیصلے کی عنداللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اس بات کو نبی (ﷺ) نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا خبردار ! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں، اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں۔ ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل وحجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں درآں حالیکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں، اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحيح بخاري، كتاب الشهادة والحيل والأحكام- صحيح مسلم، كتاب الأقضية) النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 1- یعنی جب اس گناہ کی وجہ سے اس کا مواخذہ ہوگا تو کون اللہ کی گرفت سے اسے بچا سکے گا؟۔ النسآء
110 النسآء
111 1- اس مضمون کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (بنی اسرائیل: 15) (کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) یعنی کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوگا، ہر نفس کو وہی کچھ ملے گا جو وہ کما کر ساتھ لے گیا ہوگا۔ النسآء
112 1- جس طرح بنو ابیرق نے کیا کہ چوری خود کی اور تہمت کسی اور پر دھر دی۔ یہ زجرو توبیخ عام ہے۔ جو بنو ابیرق کو بھی شامل ہے اور ان کو بھی جو اس کی سی بدخصلتوں کے حامل اور ان جیسے برے کاموں کے مرتکب ہوں گے۔ النسآء
113 1- یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت ونگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء (عليهم السلام) کے لئے فرمایا ہے جو انبیا پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے۔ طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول (ﷺ) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (ﷺ) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کر دیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ 2- یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (ﷺ) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا علم دے کر فرمایا گیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ﴾ (الشوریٰ: 52) ”اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھاکہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“۔ ﴿وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ﴾ ( القصص:86) ”اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مگر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی)“ ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (ﷺ) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی، ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ (ﷺ) کو علم دیا گیا جن سے آپ (ﷺ) بےخبر تھے۔ یہ بھی گویا آپ (ﷺ) کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو، اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں، وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔ النسآء
114 1- نَجْوَى( سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ 2- یعنی صدقہ خیرات، معروف (جو ہر قسم کی نیکی کو شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں جو مشورے، خیر پر مبنی ہیں، جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت واہمیت بیان کی گئی ہے۔ 3- کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع جائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ نعوذ بالله من الرياء والنفاق۔ 4- احادیث میں اعمال مذکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہو جائے گا (صحيح مسلم، كتاب الزكاة) نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی طرح رشتے داروں، دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا، بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نفلی نمازوں اور نفلی صدقات وخیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا: [ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلاةِ وَالصَّدَقَةِ؟ قَالُوا بَلَى:قال: إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، قَالَ: وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ ] (ابوداود کتاب الادب۔ ترمذی،کتاب البرومسند احمد6 /444 ،445) حتی کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے [ لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، فَيَنْمِي خَيْرًا أو يَقُولُ خَيْرًا ] (بخاری، كتاب الصلح مسلم والترمذی، كتاب البر- أبو داود، كتاب الأدب)وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا یا اچھی بات کرتا ہے۔ النسآء
115 1- ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے۔ اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے رسول (ﷺ) کی مخالفت اورغیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر وضلال ہی ہے۔ بعض علما نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سےانحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علما وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رضی الله عنہم) کے بعد کسی مسئلے پر پوری امت کے اجماع واتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما وفقہا کا اتفاق ہو، تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رضی الله عنہم) کے اجماع کے انکار کی طرح، کفر ہے، اس لئے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکھٹا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ (صحیح ترمذی للالبانی حدیث نمبر 1759) النسآء
116 النسآء
117 1- إِنَاثٌ (عورتیں) سے مراد یا تو وہ بت ہیں جن کے نام مونث تھے جیسے لات، عزیٰ، مناۃ، نائلہ وغیرہ۔ یا مراد فرشتے ہیں کیونکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ 2- بتوں، فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت دراصل شیطان کی عبادت ہے، کیونکہ شیطان ہی انسان کو اللہ کے در سے چھڑا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ النسآء
118 1- مقرر شدہ حصہ سے، مراد وہ نذر ونیاز بھی ہو سکتی ہے جو مشرکین اپنے بتوں اور قبروں میں مدفون اشخاص کے نام نکالتے ہیں اور جہنمیوں کا وہ کوٹہ بھی ہو سکتا ہے جنہیں شیطان گمراہ کرکے اپنے ساتھ جہنم میں لے جائے گا۔ النسآء
119 1- یہ وہ باطل امیدیں ہیں جو شیطان کے وسوسوں اور دخل اندازی سے پیدا ہوتی اور انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں۔ 2- یہ بحیرہ اور سائبہ جانوروں کی علامتیں اور صورتیں ہیں۔ مشرکین ان کو بتوں کے نام وقف کرتے تو شناخت کے لئے ان کا کان وغیرہ چیر دیا کرتے تھے۔ 3-”تَغْيِيرُ خَلْقِ اللهِ“ (اللہ کی تخلیق کو بدلنا) کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہی جس کا ابھی یہاں ذکر ہوا یعنی کان وغیرہ کاٹنا، چیرنا، سوراخ کرنا، ان کے علاوہ اور کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، پتھر اور آگ وغیرہ اشیا مختلف مقاصد کے لئے بنائی ہیں، لیکن مشرکین نے ان کے مقصد تخلیق کو بدل کر ان کو معبود بنا لیا۔ یا تغییر کا مطلب تغییر فطرت ہے، یا حلت وحرمت میں تبدیلی ہے وغیرہ۔ اسی تغییر میں مردوں کی نس بندی کرکے اور اسی طرح عورتوں کے آپریشن کرکے انہیں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا۔ میک اپ کے نام پر ابروؤں کے بال وغیرہ اکھاڑ کر اپنی صورتوں کو مسخ کرنا اور وشم (یعنی گود نے گدوانا) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ سب شیطانی کام ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ جانوروں کو اس لئے خصی کرنا کہ ان سے زیادہ انتفاع ہو سکے یا ان کا گوشت زیادہ بہتر ہو سکے یا اسی قسم کا کوئی اور صحیح مقصد ہو، تو جائز ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے خصی جانور قربانی میں ذبح فرمائے ہیں۔ اگر جانور کو خصی کرنے کا جواز نہ ہوتا تو آپ (ﷺ) ان کی قربانی نہ کرتے۔ النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 1- شیطانی وعدے تو سراسر دھوکہ اور فریب ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں اللہ کے وعدے جو اس نے اہل ایمان سے کئے ہیں سچے اور برحق ہیں، اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے؟ لیکن انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ سچوں کی بات کو کم مانتا ہے اور جھوٹوں کے پیچھے زیادہ چلتا ہے، چنانچہ دیکھ لیجئے کہ شیطانی چیزوں کا چلن عام ہے اور ربانی کاموں کو اختیار کرنے والے ہر دور میں اور ہر جگہ کم ہی رہے ہیں اور کم ہی ہیں ﴿وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾ ( سبا: 13 ) (میرے شکر گزاربندے کم ہی ہیں)۔ النسآء
123 النسآء
124 1- جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اہل کتاب اپنے متعلق بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی خوش فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی محض امیدوں اور آرزوؤں سے نہیں ملے گی۔ اس کے لئے تو ایمان اور عمل صالح کی پونجی ضروری ہے۔ اگر اس کے برعکس نامۂ اعمال میں برائیاں ہوں گی تو اسے ہر صورت میں اس کی سزا بھگتنی ہوگی، وہاں کوئی ایسا دوست یا مدد گار نہیں ہوگا جو برائی کی سزا سے بچا سکے۔ آیت میں اہل کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی خطاب فرمایا ہے تاکہ وہ بھی یہود ونصاریٰ کی سی غلط فہمیوں، خوش فہمیوں اور عمل سے خالی آرزؤں اور تمناؤں سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔ لیکن افسوس مسلمان اس تنبیہ کے باوجود انہیں خام خیالیوں میں مبتلا ہوگئے جن میں سابقہ امتیں گرفتار ہوئیں۔ اور آج بےعملی اور بدعملی مسلمان کا بھی شعار بنی ہوئی ہے اور اس کے باوجود وہ امت مرحومہ کہلانے پر مصر ہے۔ هَدَانَا اللهُ تَعَالَى النسآء
125 1- یہاں کامیابی کا ایک معیار اور اس کا ایک نمونہ بیان کیا جارہا ہے۔ معیار یہ ہے کہ اپنے کو اللہ کے سپرد کردے، محسن بن جائے اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرے اور نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا۔ خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہو جائے کہ کسی اور کے لئے اس میں جگہ نہ رہے۔ خلیل (بروزن فعیل) بمعنی فاعل ہے جیسے علیم بمعنی عالم اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے۔ جیسے حبیب بمعنی محبوب اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقیناً اللہ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی علیہ الصلاۃ والسلام (فتح القدیر )۔ اور نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے: اللہ نے مجھےبھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا۔“ (صحيح مسلم، كتاب المساجد) النسآء
126 النسآء
127 1- عورتوں کے بارے میں جو سوالات ہوتے رہتے تھے، یہاں سے ان کے جوابات دیئے جا رہے ہیں۔ 2- ﴿وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ﴾ اس کا عطف ﴿اللهُ يُفْتِيكُمْ﴾ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بابت وضاحت فرماتا ہے اور کتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں جو اس سے قبل یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل ہو چکی ہیں، مراد ہے سورۂ نساء کی آیت 3 جس میں ان لوگوں کو اس بے انصافی سے روکا گیا ہے کہ وہ یتیم لڑکی سے ان کے حسن وجمال کی وجہ سے شادی تو کر لیتے ہیں لیکن مہر مثل دینے سے گریز کرتے تھے۔ 3- اس کے دو ترجمے کئے گئے ہیں، ایک تو یہی جو مرحوم مترجم نے کیا ہے، اس میں ”فی“ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ ”عن“ کا لفظ محذوف مان کر کیا گیا ہے یعنی ﴿تَرْغَبُونَ عَنْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ﴾ (تمہیں ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہ ہو) رَغِبَ کا صلہ عَنْ آئے تو معنی اعراض اور بے رغبتی کے ہوتے ہیں۔ جیسے ﴿وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ﴾ میں ہے یہ گویا دوسری صورت بیان کی گئی ہے کہ یتیم لڑکی بعض دفعہ بدصورت ہوتی تو اس کے ولی یا اس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثا خود بھی اس کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کا نکاح نہ کرتے، تاکہ کوئی اور شخص اس کے حصہ جائیداد میں شریک نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔ 4- اس کا عطف ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ پر ہے۔ یعنی ”وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ وَفِي الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ“ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم پر جو پڑھا جاتا ہے۔ (سورۃ النساء کی آیت نمبر 3) اور کمزور بچوں کی بابت جو پڑھا جاتا ہے اس سے مراد قرآن کا حکم ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ ہے جس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا گیا۔ جب کہ زمانۂ جاہلیت میں صرف بڑے لڑکوں کو ہی وارث سمجھا جاتاتھا، چھوٹے کمزور بچے اور عورتیں وراثت سے محروم ہوتی تھیں۔ شریعت نے سب کو وارث قرار دیا۔ 5- اس کا عطف بھی ﴿يَتَامَى النِّسَاءِ﴾پر ہے۔ یعنی کتاب اللہ کا یہ حکم بھی تم پر پڑھا جاتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بدصورت ہو تب بھی۔ دونوں صورتوں میں انصاف کرو (جیسا کہ تفصیل گزری)۔ النسآء
128 1- خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا (نشوز) اور اعراض کرنا معمول بنالے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کم تر خوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان ونفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کر لے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنین سودۃ (رضی الله عنها) نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے لئے ہبہ کر دی تھی جسے نبی (ﷺ) نے قبول فرما لیا تھا۔ (صحیح بخاری ومسلم- كتاب النكاح) 2- شح بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔ النسآء
129 1- یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کر سکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں ہے۔ خود نبی (ﷺ) کو بھی اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ (رضی الله عنها) سے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے۔ اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عنداللہ قابل مواخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی (ﷺ) نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی (ﷺ) نے بھی فرمایا ہےجس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کئے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہوگا، (ترمذی، كتاب النكاح) النسآء
130 1- یہ تیسری صورت ہے کہ کوشش کے باوجود اگرنباہ کی صورت نہ بنے تو پھر طلاق کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں [ أَبْغَضُ الْحَلالِ إِلَى اللهِ الطَّلاقُ ] (رواه أبو داود، مشكاة) ”طلاق حلال تو ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے“۔ اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس لئے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ مذکورہ حدیث میں صحت اسناد کے اعتبار سے اگرچہ ضعف ہے تاہم قرآن وسنت کی نصوص سے یہ واضح ہے کہ یہ حق اسی وقت استعمال کرنا چاہئے جب نباہ کی کوئی صورت کسی طرح بھی نہ بن سکے۔ ملحوظة:حدیث مذکور (أَبْغَضُ الْحَلالِ ...) کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے (ارواء الغلیل، نمبر 2040) تاہم عذر شرعی کے بغیر طلاق کے ناپسندیدہ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ النسآء
131 النسآء
132 النسآء
133 1- یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ وکاملہ کا اظہار ہے جب کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ﴾ ( محمد: 38) (اگر تم پھرو گے تووہ تمہاری جگہ اوروں کولے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے )۔ النسآء
134 1- جیسے کوئی شخص جہاد صرف مال غنیمت کے حصول کے لئے کرے تو کتنی نادانی کی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت دونوں کا ثواب عطا فرمانے پر قادر ہے تو پھر اس سے ایک ہی چیز کیوں طلب کی جائے؟ انسان دونوں ہی کا طالب کیوں نہ بنے؟ النسآء
135 1- اس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لئے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ 2- یعنی کسی مال دار کی مالداری کی وجہ سے رعایت کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔ 3- یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلا تَعْدِلُوا﴾ (المائدۃ: 8) ”تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو“۔ 4- ”تَلْوُوا“، ”لیی“ سے ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف وتغییر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا کتمان (چھپانا) اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل وانصاف کی تاکید اور اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے، ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً: *ہر حال میں عدل کرو اس سے سرمو انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست وبازو بنو۔ * صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔ * عدل وانصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔ * کسی مال دار کی اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے؟ * فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہئے۔ بلکہ ان سب کو نظر انداز کرکے بے لاگ عدل کرو۔ عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا، وہاں امن وسکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی الله عنہ) کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم، میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو، لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا اسی عدل کی وجہ سے آسمان وزمین کا یہ نظام قائم ہے (تفسیر ابن کثیر) النسآء
136 1- ایمان والوں کو ایمان لانے کی تاکید، تحصیل حاصل والی بات نہیں، بلکہ کمال ایمان اور اس پر استقرار واثبات کا حکم ہے۔ جیسے ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ کا مفہوم ہے۔ النسآء
137 1- بعض مفسرین نے اس سے مراد یہود لئے ہیں۔ یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے، لیکن حضرت عزیر (علیہ السلام) کا انکار کیا، پھر حضرت عزیر (علیہ السلام) پر ایمان لائے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد (ﷺ) کی نبوت کا بھی انکار کیا اور بعض نے اس سے مراد منافقین لئے ہیں، چونکہ مقصد ان کا مسلمانوں کو نقصان پہچانا تھا، اس لئے وہ بار بار اپنی مسلمانی کا ڈھونگ رچاتے تھے بالآخر کفر وضلالت میں اتنے بڑھ گئے کہ ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوگئی۔ النسآء
138 النسآء
139 1- جس طرح سورۂ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے کہ منافقین کافروں کے پاس جاکر یہی کہتے تھے کہ ہم تو حقیقت میں تمہارے ہی ساتھی ہیں، مسلمانوں سے تو ہم یوں ہی استہزا کرتے ہیں۔ 2- یعنی عزت، کافروں کے ساتھ موالات ومحبت سے نہیں ملے گی، کیونکہ یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ عزت اپنے ماننے والوں کو ہی عطا فرماتا ہے، دوسرے مقام پر فرمایا ﴿مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا﴾ (فاطر: 10) جو عزت کا طالب ہے، تو (اسے سمجھ لینا چاہئے کہ) عزت سب کی سب اللہ کے لئے ہے، اور فرمایا ﴿وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ﴾ (المنافقون: 8) عزت اللہ کے لئے ہے اس کے رسول کے لئے ہے اور مومنین کے لئے ہے لیکن منافق نہیں جانتے، یعنی وہ نفاق کے ذریعے سے اور کافروں سے دوستی کے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں، درآں حالیکہ یہ طریقہ ذلت وخواری کا ہے، عزت کا نہیں۔ النسآء
140 1- یعنی منع کرنے کےباوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں، جہاں آیات الٰہی کا استہزا کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہوگے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ (مسند أحمدجلد 1 ص 20، جلد 3 ص 339) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ ورسول (ﷺ) کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو، جیسے آج کل امرا، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے یا شادی بیاہ اور سالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں کیا جاتا ہے، سخت گناہ ہے ﴿إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ﴾ کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کر دینے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔ النسآء
141 1- یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پالیسی کے نتیجے میں حاصل ہواہے۔ جو ہم نے مسلمانوں میں ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔ 2- یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کر لی، لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کرکے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا، جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ 3- یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ (1) اہل اسلام کا یہ غلبہ قیامت والے دن ہوگا۔ (2) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے۔ (3) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمان کی دولت وشوکت کا بالکل خاتمہ ہی ہو جائے اور وہ حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہو جائیں۔ ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ (4) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں کہ ”یہ سب سے عمدہ معنی ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ﴾ (الشوری: 30) ”اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے“ (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی مغلوبیت ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ النسآء
142 1- اس کی مختصر توضیح سورۂ بقرہ کے آغاز میں ہو چکی ہے۔ 2- نماز اسلام کا اہم ترین رکن اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی وہ کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشا اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [أَثْقَلُ الصَّلاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلاةُ الْعِشَاءِ وَصَلاةُ الْفَجْرِ ... ] ( صحیح بخاری، مواقيت الصلاة- صحيح مسلم، كتاب المساجد) ”منافق پر عشا اور فجر کی نماز سب سے زیادہ بھاری ہے“۔ 3- یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے، تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔ 4- اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں ”أی لا يُصَلُّونَ إِلا صَلاةً قَلِيلَةً“ جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ ﴿وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ (البقرۃ: 45) سے واضح ہے، حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (یعنی غروب کے قریب) ہو جاتا ہے تو اٹھتاہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد- موطأ كتاب القرآن)۔ النسآء
143 1- کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہراً وباطناً وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ کافروں کے ساتھ۔ ظاہر ان کا مسلمانوں کے ساتھ ہے تو باطن کافروں کے ساتھ اور بعض منافق تو کفر وایمان کے درمیان متحیر اور تذبذب ہی کا شکار رہتے تھے۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے: ”منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو جفتی کے لئے دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے، (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے، کبھی دوسرے کی طرف“۔ (صحيح مسلم، كتاب المنافقين)۔ النسآء
144 1- یعنی اللہ نے تمہیں کافروں کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اب اگر تم دوستی کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو یہ دلیل مہیا کر رہے ہو کہ وہ تمہیں بھی سزا دے سکے (یعنی معصیت الٰہی اور حکم عدولی کی وجہ سے)۔ النسآء
145 1- جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ”هَاوِيَة“ کہلاتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا، منافقین کی مذکورہ عادات وصفات سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ بچائے۔ النسآء
146 1- یعنی منافقین میں سے جو ان چار چیزوں کا خلوص دل سے اہتمام کرے گا وہ جہنم میں جانے کے بجائے جنت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوگا۔ النسآء
147 1- شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں سے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنا۔ یہ گویا اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید وربوبیت پر اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان ہے۔ 2- یعنی جو اس کا شکر کرے گا، وہ قدر کرے گا، جو دل سے ایمان لائے گا، وہ اس کو جان لے گا اور اس کے مطابق وہ بہترین جزا سے نوازے گا۔ النسآء
148 1- شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ، الا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو، اسی طرح کھلے عام اور علی الا علان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے برسرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے اور اس کی وجہ سے اس برائی کا جرم دوچند بلکہ دہ چند، بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن کے الفاظ مذکورہ دونوں قسم کی برائیوں کے اظہار سے ممانعت کو شامل ہیں اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی شخص کو اس کی کردہ یا ناکردہ حرکت پر برا بھلا کہا جائے۔ البتہ اس سے ایک استثنا ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شاید وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ (ﷺ) نے اس سے فرمایا: ”تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو“ اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر رہ گزر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لئے ایذا نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داود، کتاب الادب) النسآء
149 1- کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ [ الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالا، فَعَلَى الْبَادِي، مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ ] (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب النهي من السباب حديث نمبر4587) ”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (یعنی جسے پہلے گالی دی گئی اور اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے۔“ لیکن بدلہ لینے کی اجازت کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفوودرگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لئے فرمایا ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ﴾ (الشوریٰ: 40) برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی ہے، مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور حدیث میں بھی ہے ”معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔“ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب العفو والتواضع) النسآء
150 النسآء
151 1- اہل کتاب کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ وہ بعض نبیوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں۔ جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وحضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) اور عیسائیوں نے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء (عليهم السلام) کے درمیان تفریق کرنے والے یہ پکے کافر ہیں۔ النسآء
152 1- یہ ایمانداروں کا شیوہ بتلایا کہ وہ سب انبیاء (عليهم السلام) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس طرح مسلمان ہیں کہ وہ کسی بھی نبی کا انکار نہیں کرتے۔ اس آیت سے بھی ”وحدت ادیان“ کی نفی ہوتی ہے جس کے قائلین کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ اور وہ ان غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان بااللہ رکھتے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس آخری رسالت کا انکار ہوگا تو اس انکار کےساتھ ایمان باللہ غیر معتبر اور نامقبول ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر62 کا حاشیہ) النسآء
153 1- یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے اور تختیوں پر لکھی ہوئی تورات لے کر آئے، اسی طرح آپ بھی آسمان پر جا کر لکھا ہوا قرآن مجید لے کر آئیں۔ یہ مطالبہ محض عناد، جحود اور تعنت کی بنا پر تھا۔ النسآء
154 النسآء
155 1- تقدیری عبارت یوں ہوگی ﴿فَبِنَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ﴾ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفر بآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔ النسآء
156 1- اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک حقیقت ثابتہ باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نَعُوذُ بِاللهِ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا اور یوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ النسآء
157 1- اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہوسکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 55 کے حاشیے میں مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا توانہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد 12 یا 17 تھی، جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی پر چڑھا دیا جسے حضرت عیسیٰ کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دی ہے درآں حالیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جا چکے تھے۔(ابن کثیر و فتح القدیر) 3- عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا، جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا کہ مصلوب شخص عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں، کوئی اور ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکار کرتا رہا۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے نسطوریہ فرقے نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف، تردد اورشک کا شکار رہے۔ النسآء
158 1- یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ احادیث حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کرکے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ (ﷺ) سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرۃ، حضرت عبداللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابوامامہ، نواس بن سمعان، عبداللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسید (رضی الله عنہم) ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ (علیہ السلام) دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لئے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور وفساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ 2- وہ زبردست اور غالب ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو اس کی پناہ میں آجائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ جو فیصلہ بھی کرتا ہے، حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ النسآء
159 1- ﴿قَبْلَ مَوْتِهِ﴾میں ”ہ“ کی ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسییٰ پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت کا ایمان نافع نہیں۔ لیکن سلف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کرکے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہوں گے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح اس دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لاکر اس دنیا سے گزر چکیں گے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی ڈھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چنانچہ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا) حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا“۔ پھر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو ﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ﴾ (صحیح بخاری- كتاب الأنبياء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہل سنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ 2- یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی۔ جیسا کہ سورۂ مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ﴾ میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا۔ النسآء
160 1- یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کردی تھیں۔ (جن کی تفصیل سورۃ الانعام: 146 میں ہے) النسآء
161 النسآء
162 1- ان سے مراد عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے۔ 2- ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ 3- اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰۃ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہیر اور ان کا تزکیہ کرنا، یا دونوں ہی مراد ہیں۔ 4- یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا وسزا کا یقین رکھتے ہیں۔ النسآء
163 1- حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسی (علیہ السلام) کے بعد کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ نازل نہیں کیا اور یوں نبی (ﷺ) کی وحی ورسالت سے بھی انکار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) جس میں مذکورہ قول کا رد کرتے ہوئے رسالت محمدیہ (ﷺ) کا اثبات کیا گیا ہے۔ النسآء
164 1- جن نبیوں اور رسولوں کے اسمائے گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تعداد 24 یا 25 ہے۔ (1) آدم (2) ادریس (3) نوح (4) ہود (5) صالح (6) ابراہیم (7) لوط (8) اسماعیل (9) اسحاق (10) یعقوب (11) یوسف (12) ایوب (13) شعیب (14) موسیٰ (15) ہارون (16) یونس (17) داود (18) سلیمان (19) الیاس (20) الیسع (21) زکریا (22) یحیی(23) عیسیٰ (24) ذوالکفل۔ (اکثر مفسرین کے نزدیک) (25)حضرت محمد صلوٰت اللہ وسلامہ علیہ و علیہم اجمعین۔ 2- جن انبیا ورسل کے نام اور واقعات قرآن میں بیان نہیں کئے گئے، ان کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں جو بہت مشہور ہے ایک لاکھ 24 ہزار اور ایک حدیث میں 8 ہزار تعداد بتلائی گئی ہے۔ لیکن یہ روایات سخت ضعیف ہیں۔ قرآن وحدیث سے صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار وحالات میں مبشرین ومنذرین (انبیاء) آتے رہے ہیں۔ بالآخر یہ سلسلۂ نبوت حضرت محمد پر ختم فرما دیا گیا۔ آپ سے پہلے کتنے نبی آئے (ﷺ) ان کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تاہم آپ (ﷺ) کے بعد جتنے بھی دعوے داران نبوت ہو گزرے یا ہوں گے، سب کے سب دجال اور کذاب ہیں اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور امت محمدیہ سے الگ ایک متوازی امت ہیں۔ جیسے امت بابیہ، بہائیہ اور امت مرزائیہ وغیرہ۔ اسی طرح مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے والے لاہوری مرزائی ہیں۔ 3- یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی وہ خاص صفت ہے جس میں وہ دوسرے انبیا سے ممتاز ہیں۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت کی رو سے امام ابن کثیر نے اس صفت ہم کلامی میں حضرت آدم (علیہ السلام) وحضرت محمد (ﷺ) کو بھی شریک مانا ہے۔ (تفسيرابن كثير زیر آیت ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ﴾ النسآء
165 1- ایمان والوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دینا اور کافروں کو اللہ کے عذاب اور بھڑکتی ہوئی جہنم سے ڈرانا۔ 2- یعنی نبوت یا انذار وتبشیر کا یہ سلسلہ ہم نے اس لئے قائم فرمایا کہ کسی کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمیں تو تیرا پیغام پہنچاہی نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى﴾ ( طہ: 134) اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے سے) پہلے ہی ہلاک کر دیتے تو وہ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پیشتر تیری آیات کی پیروی کرلیتے۔ النسآء
166 النسآء
167 النسآء
168 1- کیونکہ مسلسل کفر اور ظلم کا ارتکاب کرکے، انہوں نے اپنے دلوں کو سیاہ کرلیا ہے جس سے اب ان کی ہدایت و مغفرت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ النسآء
169 النسآء
170 1- یعنی تمہارے کفر سے اللہ کا کیا بگڑے گا جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا ﴿إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ (ابراہیم: 8) ”اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب کفر کا راستہ اختیار کرلیں تو وہ اللہ کا کیا بگاڑیں گے؟ یقیناً اللہ تعالیٰ تو بےپروا تعریف کیا گیا ہے“۔ اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول و آخر تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے تو اس سے میری بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر تمہارے اول و آخر اور انس وجن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے بڑا نافرمان ہو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو ! اگر تم سب ایک میدان میں جمع ہوجاؤ اور مجھ سے سوال کرو اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم) النسآء
171 1- ”غُلُوٌّ“ کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت وبندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام و حلال کے اختیار سے نواز دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبہ: 31) ”انہوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا“۔ یہ رب بنانا حدیث کے مطابق، ان کے حلال کئے کو حلال اور حرام کئے کو حرام سمجھنا تھا۔ دراں حالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن اہل کتاب نے یہ حق بھی اپنے علماء وغیرہ کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی (ﷺ) نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا [ لا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ؛ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ ] (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء مسند احمد جلد ا صفحہ 23، نیز دیکھیے مسند احمد جلد ا صفحہ 153) ”تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا“۔ لیکن افسوس امت محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھہرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ اسی طرح علماء وفقہاء کو بھی دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا ہے۔فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ سچ فرمایا نبی (ﷺ) نے [ لَتَتَّبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ ] ”جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے“۔ یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔ 2- ”كَلِمَةُ اللهِ“ کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ”كُنْ“ سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے سے حضرت مریم علیہا السلام تک پہنچایا گیا۔ روح اللہ کا مطلب وہ نفخة ( پھونک) ہے جو حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا، جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کردیا۔ یوں عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں، جسے لے کر جبریل (علیہ السلام) مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر )۔ 3- عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔ بعض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ، بعض اللہ کا شریک اوربعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ پھر جو اللہ مانتے ہیں وہ أَقَانِيمُ ثَلاثَةٌ ( تین خداؤں) کے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ثالث ثلاثہ (تین سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین خدا کہنے سے باز آجاؤ، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔ النسآء
172 1- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح بعض لوگوں نے فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا تھا، اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اس سے انہیں قطعاً کوئی انکار نہیں ہے۔ تم انہیں اللہ یا اس کی الوہیت میں شریک کس بنیاد پر بناتے ہو؟ النسآء
173 1- بعض نے اس (زیادہ) سے مراد یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو شفاعت کا حق عطا فرمائے گا، یہ اذن شفاعت پا کر جن کی بابت اللہ چاہے گا یہ شفاعت کریں گے۔ 2- یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت سے رکے رہے اور اس سے انکار و تکبر کرتے رہے۔ 3- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ (المؤمن: 60) ”بےشک جو لوگ میری عبادت سے استکبار (انکار وتکبر) کرتے ہیں، یقیناً ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے“۔ النسآء
174 1- برہان، ایسی دلیل قاطع، جس کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش نہ رہے اور ایسی حجت جس سے ان کے شبہات زائل ہوجائیں، اسی لئے آگے اسے نور سے تعبیر فرمایا۔ 2- اس سے مراد قرآن کریم ہے جو کفرو شرک کی تاریکیوں میں ہدایت کا نور ہے ضلالت کی پگڈندیوں میں صراط مستقیم اور حبل اللہ المتین ہے۔ پس اس کے مطابق ایمان لانے والے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔ النسآء
175 النسآء
176 1- ”كَلالَةٌ“ کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ ہو نہ بیٹا۔ یہاں پھر اس کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دیا ہے جس کا صرف بیٹا نہ ہو۔ یعنی باپ موجود ہو، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کلالہ کی پہلی تعریف ہی صحیح ہے۔ کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث ہی نہیں ہوتی۔ باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ بیٹے کے ساتھ جس کا باپ بھی نہ ہو۔ یوں بیٹے کی نفی تو نص سے ثابت ہے اور باپ کی نفی اشارۃ النص سے ثابت ہو جاتی ہے۔ ملحوظہ : بیٹے سے مراد بیٹا اور پوتا دونوں ہیں۔ اسی طرح بہن سے مراد سگی بہن یا علاتی (باپ شریک) بہن ہے۔ (ایسرالتفاسیر) احادیث سے ثابت ہے کہ کلالہ کی بہن کے ساتھ بیٹی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف اور بیٹی اور پوتی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف، پوتی کو سدس (چھٹا حصہ) اور بہن کو باقی یعنی ثلث دیا گیا۔ (فتح القدیر وابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کی اولاد موجود ہو تو بہن کو بحیثیت ذوی الفروض کچھ نہیں ملے گا۔ اب اگر وہ اولاد بیٹا ہو تو کسی اور حیثیت سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اور اگر بیٹی ہو تو بہن اس کے ساتھ عصبہ ہو جائے گی اورمَا بَقِيَ لے لے گی۔ یہ مابقی ایک بیٹی کی موجودگی میں نصف اور ایک سے زائد کی موجودگی میں ثلث ہوگا۔ 2- اسی طرح باپ بھی نہ ہو۔ اس لئے کہ باپ، بھائی سے قریب ہے، باپ کی موجودگی میں بھائی وارث ہی نہیں ہوتا اگر اس کلالہ عورت کا خاوند یا کوئی ماں جایا بھائی ہوگا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مال کا وارث بھائی قرار پائے گا۔ (ابن کثیر ) 3- یہی حکم دو سے زائد بہنوں کی صورت میں بھی ہوگا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ کلالہ شخص کی دو یا دو سے زائد بہنیں ہوں تو انہیں کل مال کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ 4- یعنی کلالہ کے وارث مخلوط (مرد اور عورت دونوں) ہوں تو پھر ”ایک مرد دو عورت کے برابر“ کے اصول پر ورثے کی تقسیم ہوگی۔ النسآء
0 المآئدہ
1 1- ”عُقُودٌ“ ”عَقْدٌ“ کی جمع ہے، جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں۔ اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لئے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہد و پیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی ہیں جن کا اللہ نے انسانوں کو مکلف ٹھہرایا ہے اور عہد وپیمان ومعاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔ 2- ”بَهِيمَةٌ“ چوپائے (چار ٹانگوں والے جانور) کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بَهْمٌ، إِبْهَامٌ ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل و فہم میں چونکہ ابہام ہے، اس لئے ان کو بَهِيمَةٌ کہا جاتا ہے۔ ”أَنْعَامٌ“ اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے۔ یہ بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں، جن کی تفصیل سورۃ الانعام آیت نمبر143میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ، جن کا عموماً شکار کیا جاتا ہے، یہ بھی حلال ہیں۔ البتہ حالت احرام میں ان کا اور دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانورذُو نَابٍ اور جو پرندے ذُو مِخْلَبٍ نہیں ہیں، وہ سب حلال ہیں، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت نمبر 173 کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذُو نَابٍ کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنے کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہو اور چیرتا ہو، مثلاً شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا وغیرہ اور ذُو مِخْلَبٍ کا مطلب ہے وہ پرندہ جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو۔ مثلاً شکرہ، باز ، شاہین، عقاب وغیرہ۔ 3- ان کی تفصیل آیت نمبر 3 میں آ رہی ہے۔ المآئدہ
2 1- ”شَعَائِرَ“، ”شَعِيرَةٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسےعام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بےحرمتی اور بےتوقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج وعمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ بھی مت بنو، کہ یہ بھی بےحرمتی ہی ہے۔ 2- ﴿الشَّهْرُ الْحَرَامُ﴾ مراد اس سے جنس ہے یعنی حرمت والے چاروں مہینوں (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو۔ بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ﴾ سے منسوخ مانا ہے۔ مگر اس کی ضرورت نہیں۔ دونوں احکام کے اپنے اپنے دائرے ہیں، جن میں تعارض نہیں۔ 3- ”هَدْيٌ“ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے۔ ”قَلائِدُ“ ”قلادَةٌ“ کی جمع ہے جو گلے کے پٹے کو کہا جاتا ہے، یہاں حج یا عمرہ کے موقع پر قربان کئے جانے والے ان جانوروں کو مراد لیا گیا ہے۔ جن کے گلوں میں علامت اور نشانی کے طور پر جوتے یا پٹے ڈال دیئے جاتے تھے پس قلائد سے مقصود وہی جانور ہوئے جنہیں حرم لے جایا جاتا تھا۔ یہ ھدی کی مزید تاکید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان جانوروں کو کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ 4- یعنی حج وعمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو نہ انہیں تنگ کرو۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکٹھے حج و عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب آیت ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا﴾ (التوبہ: 28) ”مشرکین تو پلید ہیں، پس اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں“ نازل ہوگئی، تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ (فتح القدیر ) 5- یہاں امر اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔ 6- یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے 6 ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے اس روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جارہا ہے۔ 7- یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے۔ جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے۔ کاش مسلمان اس اصول کو اپنا سکیں۔ المآئدہ
3 1- یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہورہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورۂ بقرہ میں گزرچکا ہے۔ (دیکھیےآیت نمبر 173) 2- گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔ 3- کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کئے مر گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھا لیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار: بندوق کا شکار کئے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائی گئی اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔ 4- چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔ 5- ”نَطِيحَةٌ“، ”مَنْطُوحَةٌ“ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کئے وہ مر گیا۔ 6- یعنی شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جسے ذو ناب (کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے) اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانۂ جاہلیت میں مرجانے کے باوجود ایسے جانور کو کھا لیا جاتا تھا۔ 7- جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لئے ہے یعنی مُنْخَنِقَةٌ، مَوْقُوذَةٌ، مُتَرَدِّيَةٌ، نَطِيحَةٌ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہیں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لئے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب و حرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہیں اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔ 8- مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کرکے ایک خاص جگہ، بناتے تھے۔ جسے نصب (تھان یا آستانہ) کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کئے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ ﴿وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾» ہی کی ایک شکل تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر، جہاں لوگ طلب حاجات کے لئے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لئے جانور (مرغا، بکرا وغیرہ) ذبح کرتے ہیں، یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ ﴿وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ﴾ میں داخل ہیں۔ 9- ﴿وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالأَزْلامِ﴾ کے دو معنی کئے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے، تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا، پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لئے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے، معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے مراد تیر ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھے تھے۔ ایک افْعَلْ ( کر) دوسرے میں لا تَفْعَلْ (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افْعَلْ والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لا تَفْعَلْ والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور ”اسْتِمْدَادٌ بِغَيْرِ اللهِ“ کی شکل ہے، اس لئے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسمت ہیں۔ یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔ 10- یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔ المآئدہ
4 1- اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور حرام خبیث۔ 2- ”جَوَارِحُ“، ”جَارِحٌ“ کی جمع ہے جو کاسب (کمانے والا) کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ ”مُكَلِّبِينَ“ کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لئے سدھایا گیا ہو۔ سدھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔ 3- ایسے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کرکے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کہ اگر اس نے اسے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی وہ مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو۔ (صحيح بخاری، كتاب الذبائح والصيد ،مسلم، كتاب الصيد المآئدہ
5 1- اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ گویا ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے، کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔ 2- اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں مفقود ہے۔ دوسرے، اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے۔ اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ درآں حالیکہ ایمان کو بچانا فرض ہے۔ ایک جائز کام کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لئے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک مذکورہ دونوں چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہوسکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔ المآئدہ
6 1- منہ دھوؤ یعنی ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔ 2- مسح پورے سر کا کیا جائے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کرلے۔ اگر سر پر پگڑی یا عمامہ ہو تو حدیث کی رو سے موزوں کی طرح اس پر بھی مسح جائز ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) علاوہ ازیں ایک مرتبہ ہی اس طرح مسح کرلینا کافی ہے۔ 3- ”أَرْجُلَكُمْ“ کا عطف ”وُجُوهَكُمْ“ پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ! اور اگر موزے یا جرابیں پہنی ہوئی ہیں (بشرطیکہ وضو کی حالت میں پہنی ہوں) تو حدیث کی رو سے پیر دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح بھی جائز ہے۔ ملحوظة: (1) اگر پہلے سے باوضو ہو تو نیا وضو کرنا ضروری نہیں۔ تاہم ہر نماز کے لئے تازہ وضو بہتر ہے۔ (2) وضو سے پہلے نیت فرض ہے۔ (3) وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنی بھی ضروری ہے۔ (4) داڑھی گھنی ہو تو اس کا خلال کیا جائے۔ (5) اعضا کو ترتیب وار دھویا جائے۔ (6) ”ان کے درمیان فاصلہ نہ کیا جائے“ یعنی ایک عضو دھونے کے بعد دوسرے عضو کے دھونے میں دیر نہ کی جائے۔ بلکہ سب اعضا تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے دھوئے جائیں۔ (7) اعضائے وضو میں سے کسی بھی عضو کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، ورنہ وضو نہیں ہوگا۔ (8) کوئی عضو بھی تین مرتبہ سے زیادہ نہ دھویا جائے۔ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، فتح القدیر وایسر التفاسیر ) 4- جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض یا نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ (فتح القدیر وایسر التفاسیر ) 5- اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 43میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں رکنا یا رکے رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رضی الله عنہ) نے آیت سن کر کہا ”اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں اور یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔“ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو۔) (صحیح بخاری۔ سورۃ المائدۃ) 6- اسی لئے تیمم کی اجازت مرحمت فرما دی ہے۔ 7- اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے یہ دعا یاد کرلی جائے۔ المآئدہ
7 المآئدہ
8 3-پہلے جملے کی تشریح سورۃ النساء آیت نمبر 135 میں اور دوسرے جملہ کی سورۃ المائدۃ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کے نزدیک عادلانہ گواہی کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے جو حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا، اس عطیے پر آپ جب تک اللہ کے رسول کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد نبی (ﷺ) کی خدمت میں آئے تو آپ (ﷺ) نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا ”اللہ سے ڈرو! اور اولاد کے درمیان انصاف کرو“ اور فرمایا کہ ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا“۔ (صحيح بخاری ومسلم، كتاب الهبة) المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 1- اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلاً اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (ﷺ) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد! (ﷺ) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ (ﷺ) نے بلا تامل فرمایا ”اللہ“ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کے خلاف، جب کہ آپ (ﷺ) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکہ اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کوبچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنونضیر سے حسب معاہدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (ﷺ) اپنے رفقا سمیت وہاں تشریف لے گئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (ﷺ) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے کہ ان سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ایسرالتفاسیر و فتح القدیر) المآئدہ
12 - جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (ﷺ) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر