سے صرف دو فتوے اب تک شائع ہوئے، ایک نماز عیدین کے بعد مصافحہ و معانقہ سے متعلق۔[1] دوسرا حالتِ صغر میں لڑکی کے نکاح اور خیار بلوغ سے متعلق۔[2] باقی اب تک غیرمطبوعہ صورت میں پڑے تھے، جو پہلی بار اس مجموعے میں شائع کیے جارہے ہیں ۔
اس قلمی مجموعے کے علاوہ ’’فتاویٰ نذیر یہ ‘‘ میں بھی ان کے چھے فتوے موجود ہیں ۔ ان میں سے ایک عربی،[3] ایک فارسی[4] اور چار اردو[5] میں ہیں ۔ایک جگہ فارسی میں ان کی ایک طویل تحریر بھی نظر آتی ہے، جس میں انھوں نے مولانا عبدالحی لکھنوی (م۱۳۰۴ھ) پر تعاقب کیا ہے۔[6] ان کے علاوہ کئی فتوؤں پر ان کے تائیدی د ستخط ثبت ہیں ۔[7] ان فتاویٰ میں سے بعض پر ان کی مہر بھی موجودہے، جس پر ’’۱۲۹۵ھ‘‘ کی تاریخ کندہ تھی۔[8] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتاویٰ ان کے زمانہ قیام دہلی (محرم ۱۲۹۵۔ محرم ۱۲۹۶ھ) کے تحریر کردہ ہیں ، جب وہ اپنے استاد میاں نذیر حسین دہلوی سے حدیث پڑھ رہے تھے اور ان کی عمر ۲۲ سال کے قریب تھی۔ دوسری بار وہ پھر ۲۸ سال کی عمر میں ایک ڈیڑھ سال کے لیے (۱۳۰۲۔۳۰۳ ۱ھ) میاں صاحب کے پاس حدیث پڑھنے کے لیے مقیم رہے۔ [9] اس زمانے کے فتاویٰ محفوظ نہیں ۔
طالب علمی کے زمانہ ہی میں انھوں نے عقیقے کے مسائل پر ایک رسالہ فارسی میں ’’الأقوال
|