ہندوستان میں نواب صدیق حسن خان، سید نذیر حسین اور ان کے تلامذہ، مصر میں احمد محمد شاکر، محب ا لدین خطیب،سید رشید رضا اور محمد حامدالفقی، شام میں طاہر الجزائری،جمال الدین القاسمی، محمد راغب الطباخ اور محمدبہجہ البیطار، عراق میں محمد بہجہ الاثری، سعودی عرب میں محمد عبدالرزاق حمزۃ، محمد نصیف، عبد الر حمن المعلمی اور ابن با ز وغیرہ۔ مراکش میں محمد العربی، تقی الدین الہلالی اور ان کے تلامذہ ۔ الجزائر میں عبدالحمید بن بادیس اور اس وقت اردن میں مقیم محمد ناصر الدین البانی سلفی فکر کے اساطین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان علما کی کوششوں سے عصر حاضر میں سلفی رجحان کو بڑا فروغ ہوا اور اس کا اثر تمام مکاتبِ فکر پر پڑا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ اب مصر، شام، کویت اور سعودی عرب میں فقہی مسائل پر غور کرنے کے لیے کمیٹیاں بنی ہیں ، جو مختلف مکاتبِ فکر کے علما پر مشتمل ہیں ۔ وہاں مسائل پر غور و خوض کے وقت تمام ائمہ سلف کی آرا سے استفادہ کیا جاتا ہے اور دلائل کی روشنی میں راجح قول کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہے۔ آج ہمیں کسی ایک مسلک کی تقلید کے بجائے مسائل کے حل کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔[1]
[۳]
بر صغیر ہند و پاک میں فتاویٰ کے جو مجموعے تیار ہوئے، ان میں سے اکثر حنفی علما کے تالیف کردہ ہیں ۔[2] جنوبی ہند میں کچھ شافعی علما نے بھی اس فن پر کتابیں لکھی ہیں ۔[3] گذشتہ دو صدیوں میں اہل حدیث علما نے بھی فتاویٰ کے مجموعے شائع کیے۔[4] ان تمام کتابوں پر تبصرہ یہاں مقصود نہیں ، کیونکہ
|