نے حکم دیا کہ وہ سب تصویریں نکالی جائیں اور توڑ دی جائیں ، چنانچہ وہ تصویریں نکالی گئیں ، آپ ان تصویروں کو لکڑی سے مارتے تھے اور کسی تصویر کے آنکھ میں ٹھوکر لگا تے تھے، پس سب بت گرتے جاتے تھے اور جو جو تصویریں کہ دیواروں پر منقش تھیں ، ان کو پانی سے دھو دینے کا حکم دیا۔
جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے:
’’عن عبد اللّٰه قال: دخل النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم مکۃ یوم الفتح، وحول البیت ستون وثلاث مائۃ نصب، فجعل یطعنھا بعود في یدہ، ویقول: جاء الحق وزھق الباطل، جاء الحق وما یبدئ الباطل وما یعید‘‘[1]
ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ داخل ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں دن فتح کے اور چاروں طرف بیت اللہ کے تین سو ساٹھ تصویریں تھیں ، پس آپ ٹھوکر لگانے لگے ان تصویروں کو ایک لکڑی سے، جو آپ کے ہاتھ میں تھی اور فرماتے تھے کہ آیا حق اور گم ہوا باطل اور پھر نہ لوٹے گا باطل۔‘‘
اور بھی صحیح بخاری میں ہے:
’’عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لما قدم مکۃ، أبیٰ أن یدخل البیت، وفیہ الآلھۃ، فأمر بھا فأخرجت فأخرج صورۃ إبراھیم و إسماعیل، في أیدیھما من الأزلام، فقال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : قاتلھم اللّٰه ۔۔۔‘‘ الحدیث[2]
ترجمہ: ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ جب مکہ میں تشریف لا ئے تو اندر خانہ کعبہ کے داخل ہونے سے انکار فرمایا، اس حالت میں کہ اس میں مشرکین کی معبودیں ہوں ، پس حکم ان کے نکالنے کا دیا، پس وہ سب معبودیں (جو کہ تصویریں تھیں ) نکالے گئے، پس انھی تصویروں میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی بھی تصویر تھی اور ان دونوں کے ہاتھوں میں تیر فال کی تھی، پس آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت مشرکوں پر۔۔۔ ۔‘‘
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
|