جعانی نے اس کو بایں سند پڑھنا شروع کیا۔ حدثنا ابو خلیفۃ ثنا سلیمان بن ایوب الخ یعنی حدیث بیان کی ہم سے ابو خلیفہ نے انھوں نے کہا حدیث بیان کی ہم سے سلیمان بن ایوب نے ، طبرانی نے کہا کچھ خبر بھی ہے؟ سلیمان بن ایوب میں ہی ہوں اورابو خلفیہ نے مجھی سے یہ حدیث سنی ہے، پس آپ مجھے سے اس حدیث کو سن کر سند حاصل کرلیں۔ اس پر جعانی کو بہت ندامت ہوئی، استاذ ابن العمید کہتے ہیں کہ طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کو اس وقت جو خوشی وفرحت حاصل ہوئی، اسے دیکھ کر میں نہ یہ آرزد کی کہ کاش یہ وزارت وریاست مجھے نہ ہوتی اور میں طبرانی رحمۃ اللہ علیہ ہوتا، اور جو خوشی وفرحت ان کو ہوئی ہے مجھے ہوتی، طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کا سنِ ولادت ۲۶۰ھ ہے او رسنِ وفات ۳۶۰ھ مجھے کتاب الجنائز کی تصنیف کے وقت ان کتب مذکورہ بالا کا پتہ لگا ہے، اگر تفحص دتبتع کیا جائے تو اور کتابوں کی پتہ مل سکے گا، لیکن آج یہ تمام کتابیں نایاب ونا پید ہیں ، اگر یہ کتابیں دستیاب ہوتیں تو ہم کو اپنی اس کتاب الجنائز میں ان سے بہت کچھ فوائد ومطالب مفید کے جمع کرنے کا موقع ملتا،ہم نے یہاں ان حفاظ محدثین کا اور ان کی کتابوں کا ذکر محض تبر کاً کیا ہے ،کہ ہماری یہ کتاب اگر ان کی ان کتابوں کے فوائد سے خالی رہی تو ان کے ذکر خیر سے تو خالی نہ رہے۔[1] اب ہم اپنی اس کتاب الجنائز کے متعلق دو تین باتیں یہاں لکھ دینا مناسب سمجھتے ہیں، پس واضح ہو کہ ہماری یہ کتاب دس باب پر مرتب ہے، ہر باب میں پہلے اس باب کے مسائل واحکام مسلسل طور پر بیان کیے گئے ہیں،پھر اس باب کے متعلق متفرق باتیں جو ضروری اور مفید تھیں فوائد متفرقہ کے عنوان سے لکھی گئی ہیں،پس اس کتاب کے پڑھنے والوں کو چاہیے کہ اس کے جس باب کو پڑھنا چاہیں اس کو شروع سے اس کے فوائد متفرقہ تک غور سے پڑھ جائیں اور اس باب کے تمام مسائل کو خوب اچھی طرح پر معلوم کر لیں، پھر اس |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |