بڑھیا نے جلدی سے دروازہ کھولا اندر لے گئی پانی پلایا کھٹکا ہوا بیٹا جاگ اٹھا۔ کہنے لگا ماں یہ اندر کھٹ پٹ کیا ہو رہی ہے ؟ کیا ہو گیا ہے ؟ ڈرے ہوئے تھے ناں کہ کہیں ہتھوڑا گروپ نہ آجائے۔ یہ مومن ہیں۔ ؎ یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ہمارے حکمرانوں نے نشہ پلا پلا کے ان کو خودی کو مار مار کے ان کی آزادی کو چھین چھین کے ان کو بزدل بنا دیا ہے۔ سارا شہر چالیس لاکھ آدمیوں کا بھرا ہوا ایک ہتھوڑے والا آگیا ہے سارے شہر والے اس طرح گھسے ہوئے جس طرح چوہے بل میں گھسے ہوتے ہیں۔[1] دو لوگوں نے غیرت ماری ہے۔ سن لو! کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند اپنے بھی ہیں ناراض ہیں اور بیگانے بھی ہیں ناخوش اسی قوم کی حمیت و غیرت کو دو قسم کے حکمرانوں نے کچلا ہے۔ ایک ان حکمرانوں نے جنہوں نے اپنے اقتدار کی بساط بچھانے کے لئے ان کی غیرت کو مارا ایک ان حکمرانوں نے جنہوں نے ہر ایرے غیرے موقع پہ مردہ پرستی کو رواج دے کے یہ تاثر دیا کہ ہم مردوں سے ڈرنے والی اور مردوں کو پوجنے والی قوم ہیں اور مردوں کو پوجنے والے کبھی زندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مردوں کا پجاری یہ وزیر [2]غسل دے رہا ہے۔ اس وزیر کا چہرہ دیکھو جیسے ٹوٹا ہوا گھڑا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں بڑا شریف ہے اس کے نام کا حصہ شریف ہے۔ میں نے کہا اگر اس کے نام کی وجہ سے اس کی شرافت کی گواہی دیتے ہو تو بابرا شریف نے کیا جرم کیا ہے ؟ اس کے نام کا حصہ بھی تو شریف ہے ؟ شرم نہیں آتی۔ یہ وزیر ہیں۔ ان مردہ پرستوں نے زندوں کی مدد کیا کرنی ہے ؟ |