’’ جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کوئی بھی دعا کرتا ہے تواللہ تعالی اسے یقینا قبول کرتا ہے۔‘‘[1] 5۔ ابتلاء اور آزمائش ہر انسان کا مقدر ہے۔اللہ رب العزت متعدد قسمیں کھا کر فرماتے ہیں کہ ﴿لآَ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٭ وَاَنْتَ حِلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٭ وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ٭لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ﴾ ’’ میں اس شہر(مکہ)کی قسم کھاتا ہوں۔اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں۔اور والد(آدم)اور اس کی اولاد کی قسم ! ہم نے انسان کو سختی جھیلتے رہنے والا پیدا کیا ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ٰٓیاََیُّہَا الْاِِنْسَانُ اِِنَّکَ کَادِحٌ اِِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ﴾ ’’اے انسان ! تو تکلیف برداشت کرکے کشاں کشاں اپنے رب کی طرف جا رہا ہے۔‘‘[2] ان دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرکے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ مشکلات ومصائب سے دو چار ہو گا ، ساری زندگی وہ اپنے مسائل کو حل کرنے میں لگا رہے گا ، آخر کا راس پر موت آجائے گی اور اگر اس کا خاتمہ ایمان وعمل وصالح پر ہو گا تو وہ دنیا کی آزمائشوں سے نجات پا جائے گا۔گویا دنیا تو مصائب کا گھر ہے۔لہذا مشکلات میں پھنسے ہوئے انسان کو ان پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(إِنَّ عِظَمَ الْجَزَائِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَائِ ، وَإِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا اِبْتَلَاہُمْ ، فَمَنْ رَضِیَ فَلَہُ الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السَّخَطُ) ’’ بڑا بدلہ بڑی آزمائش پر ملتا ہے۔اور اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماشوں سے دو چار کردیتا ہے۔لہذا جو راضی ہو جائے اس کیلئے اللہ کی رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کیلئے اللہ کی ناراضگی ہے۔‘‘[3] اللہ تعالی ہم سب کو تمام آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔ دوسرا خطبہ خود کشی کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کا قتل !!! برادران اسلام ! ایک خودکشی وہ ہے جس کا ابھی تذکرہ ہوا ہے اور دوسری وہ ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف خود کشی کرنے والا ہلاک ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے ساتھ دوسروں کی ہلاکت کا بھی سبب بنتا ہے ! یہ اُس پہلے جرم سے کہیں زیادہ بڑا اور سنگین جرم ہے۔یہ فساد فی الارض ہے جس میں بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔کوئی بندہ اپنے جسم پر |