زبان کا اقرار۔دل کی تصدیق۔اور اعضاء کا عمل یعنی زبان سے ایمان کے تمام ارکان کا اقرار کرنا اور دل سے ان کی تصدیق کرنا مثلا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور اس کے اسماء وصفات میں اس کی وحدانیت کا زبان سے اقرار کرنا اور دل میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ اکیلا ہی کائنات کا خالق ومالک اور عبادت کے لائق ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح وہ اپنے اسماء وصفات میں بھی یکتا اور منفرد ہے۔ نیز ایمان کی تعریف میں دل کے اعمال بھی شامل ہیں مثلا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا، اسی سے ڈرنا، اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی پر توکل کرنا وغیرہ۔ اور چونکہ ایمان میں اعمال بھی شامل ہیں اس لئے عمل صالح کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کرنے سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمٰنًا وَّعَلَیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ٭ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُونَ ٭ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤمِنُونَ حَقًّا لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ﴾ ’’ سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(اور)وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال ودولت انھیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے۔‘‘[1] ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے سچے مومنوں کی پانچ صفات ذکر فرمائی ہیں۔ان میں سے پہلی تین صفات کا تعلق دل سے اور دوسری دو صفات کا تعلق اعضاء سے ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی اور سچے ایمان کے حصول کیلئے اعضاء کا عمل ضروری ہے۔اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایمان اور عمل ایمان صرف زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق ہی کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ میں ان لوگوں کو جنت کی خوشخبریاں دی ہیں جو ایمان والے اورعمل صالح کرنے والے ہوں۔جیسا کہ اس کا فرمان ہے: |