صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ علیہم اور ان کے بعد کچھ لوگ (نماز میں ) بسم اللہ پڑھتے تھے اور کچھ نہیں پڑھتے تھے اور کچھ لوگ اسے بہ آواز پڑھتے تھے اور کچھ لوگ نیچی آواز سے، کچھ لوگ فجر میں قنوت کرتے تھے، کچھ قنوت نہیں کرتے تھے۔ کچھ لوگ نکسیر و قے اور پچھنا لگوانے سے وضوء کرتے تھے اور کچھ نہیں کرتے تھے۔ کچھ لوگ اونٹ کا گوشت کھانے اور آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرتے تھے اور کچھ نہیں کرتے تھے۔ لیکن ان سب باتوں نے کسی کو دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے نہیں روکا۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، اور امام شافعی اور دیگر ائمہ، مدینہ کے مالکی ائمہ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ وہ سراً یا جہراً بسم اللہ پڑھنے کا التزام نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہارون رشید نے پچھنا لگوا کر نماز پڑھائی، امام ابویوسف نے ان کے پیچھے نماز پڑھ لی اور نماز نہیں دہرائی حالانکہ ان کے نزدیک پچھنا لگوانا ناقضِ وضو ہے (اور جب ان سے پوچھا گیا تو جواب دیا کہ میں نے سوچا کہ اپنے بھائی اہلِ مدینہ کے مسلک پر عمل کرلوں )۔ امام احمد رحمہ اللہ بھی نکسیر اور پچھنا لگوانے سے نقضِ وضو کے قائل تھے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر امام کا خون نکل آئے اور وضو نہ کرے تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ بھلا میں کیسے امام مالک اور سعید بن المسیب کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا؟ گویا یہ اشارہ تھا کہ امام مالک اور سعید المسیب دونوں خون نکلنے سے وضو کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ بعض روایات میں تو معاملہ اس سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ ابن قدامہ اپنی کتاب ’’روضۃ الناظر فی اصول الفقہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جس مفتی سے استفتاء کیا جائے اور اس کے فتوے میں مستفتی کے لیے وسعت نہ ہو تو اسے اس کو اس شخص کے سپرد کردینا چاہیے جس کے پاس وسعت ہو۔ ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ حسین بن بشار نے امام احمد بن حنبلرحمہ اللہ سے طلاق کا کوئی مسئلہ دریافت کیا تو فرمایا کہ اگر ایسا کرے گا تو حانث ہوگا۔ حسین بن بشار نے کہا کہ اگر مجھے |