جس نے کسی کے اندر عیب جوئی کی اور وہ عیب اس کے اندر نہ تھا تو گویا اس پر بہتان باندھا گیا اور جس نے اجتہاد سے کام لیا کہ اس کی نیت زیادتی ، اللہ و رسول کی معصیت اور کتاب و سنت کی مخالفت تھی حالانکہ معاملہ ایسا نہیں تھا تو یہ بھی بہتان ہے اور اگر اس کے اندر واقعی یہ خرابیاں تھیں تو یہ غیبت ہے۔ اس کے حق میں وہی چیز مباح ہو سکتی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مباح قرار دیا ہے۔اس سے مراد بطورِ قصاص و انصاف جو سزائیں ہیں وہ ہیں اور جو مصلحت دین اور مسلمان کی خیر خواہی کا متقاضی ہو۔ اوّل: … مظلوم فریاد رس کی آواز مثلاً فلاں نے مجھ کو مارا ، میرا مال لے لیا اور میرے حق کو ہڑپ کر لیا اسی طرح کی اور دو سری فریادیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء: ۱۴۸) ’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔‘‘ ضرورت:…مثلاً ہند بنت عتبہ کا استفتاء ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ابو سفیان بخیل آدمی ہیں ، وہ مجھے اور میرے لڑکے کا نفقہ اتنا نہیں دیتے کہ معروف طریقہ سے کفایت کر سکے۔ آپ نے فرمایا: معروف طریقہ سے تمہاری اور تمہاری اولاد کا جو نفقہ ہوتا ہے خود لے لیا کرو۔ اس کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے۔ آپ نے ان کی بات پر نکیر نہیں فرمائی کیوں کہ یہ مظلوم کے قبیل کی بات تھی۔ خیر خواہی: …مثلاً جب فاطمہ بنت قیس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا کہ میں کس سے نکاح کروں ؟ انہوں نے کہا: ابو جہم ، اور معاویہ نے مجھ کو شادی کا پیغام دیا ہے۔آپ نے فرمایا کہ معاویہ کا معاملہ یہ ہے کہ محتاج آدمی ہے ، ان کے پاس کوئی مال نہیں ہے اور ابو جہنم تو اپنی گردن سے لاٹھی ہٹاتے ہی نہیں یعنی عورتوں کو بہت مارتے ہیں ، اور ایک |