طرزِ عمل کی وجہ آگ کا عذاب ہو گا۔ [1]
علماء پرفخریہ ہے کہ وہ لوگوں سے اس بات کا اظہار کریں کہ ان کو وہ باتیں معلوم ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں اور معانی و مسائل میں ان کو درک حاصل ہے جس سے دوسرے واقف ہیں ۔ مزید یہ کہ وہ لوگوں کو ردّ کر سکتے ہیں اور غلطی واضح کر سکتے ہیں ۔ رہا بے وقوف سے جھگڑا کرنا، تو بے وقوفی میں ان سے جھگڑا کرنا مراد ہے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھیرنے سے مراد ان کی تعریف و توصیف کا مطالبہ کرنا ہے کہ لوگ اس حیثیت سے اس کی تعریف کریں کہ وہ عالم دین ہے ، اس طرح وہ اپنے عمل سے جہنم کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔
دوسری روایت میں ہے: جس نے علم اس وجہ سے حاصل کیا کہ اس کو اللہ کی رضا حاصل ہو اگر اس کا مقصد دنیا حاصل کرنا ہے تو جنت کی خوشبو تک نہیں پا سکے گا۔ [2]اگرچہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے ہی محسوس کی جائے گی۔ [3]
ابو عثمان نیشا پوری نے کہا کہ جس نے قول و فعل سے اپنے نفس پر سنت کو حاوی کر لیا اس نے حکمت کی بات کی اور جس نے قول و فعل سے اپنے نفس پر خواہش کو غالب کر لیا اس نے بدعت کی راہ اختیار کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَاِنْ تُطِیعُوْہُ تَہْتَدُوْا﴾ (النور: )
’’ اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے۔‘‘ [4]
خواہش کا اتباع ایک قسم کا شرک ہے جیسا کہ بعض سلف کہا کرتے تھے: روئے زمین پر
|