Maktaba Wahhabi

115 - 132
لیے بولا جاتا ہے،خواہ وہ کام تھوڑا ہو یا زیادہ،معمولی ہو یا عظیم،علم کی صورت میں ہو یا عمل کی شکل میں۔ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اسی بارے میں قلم بند کیا ہے: ’’اجر و ثواب والا کوئی بھی علم یا عمل۔‘‘ [1] امام نووی نے حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے،کہ اس میں خیر کی طرف راہ نمائی کرنے،اس کے متعلق تنبیہ کرنے اور خیر کا کام کرنے والے کے ساتھ تعاون کی فضیلت کا بیان کیا ہے۔علاوہ ازیں اس میں علم اور عبادات کے اعمال سکھلانے کی فضیلت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔[2] ایک سوال اور اس کا جواب: اس حدیث شریف کے حوالے سے بعض علماء نے یہ سوال اٹھایا ہے،کہ کیا خیر کی طرف راہنمائی کرنے والے کے لیے اتنا ہی اجر و ثواب ہے جس قدر کہ عمل کرنے والے کو ملتا ہے؟ اس کے جواب کے متعلق علمائے امت میں اختلاف رائے ہے۔امام نووی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے،کہ جس طرح عمل کرنے والے کے لیے ثواب ہے،اسی طرح دلالتِ خیر کرنے والے کے لیے ثواب ہے،لیکن یہ ضروری نہیں،کہ دونوں کا ثواب برابر ہو۔[3] بعض علمائے امت کی رائے میں دلالتِ خیر کرنے والے کے لیے عمل کرنے والے کے برابر ثواب ہے۔علامہ قرطبی رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے۔انہوں نے تحریر کیا ہے:
Flag Counter