تمہید قدرت نے اپنے دین کی سربلندی کے لئے مختلف ادوار میں انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا۔ یہ سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا، نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر درجہ تکمیل کو پہنچا، پھر ورثہ الانبیاء کے مصداق بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ حق پر چلانے کے لئے اِس فریضہ کو سرانجام دیتے رہے۔اگر علماء کی ان کوششوں کا مختصر جائزہ لیں تو برعظیم میں سیدین شہیدین کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے توحید و رسالت کے صحیح اسلامی تصور کے احیاء کے لئے اپنے وقت کی کافرانہ اور طاغوتی قوتوں کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا۔ اِن کے ذہن و فکر کی صفائی اور سینہ کی سلامتی صحابہ کرام کی مشابہ تھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت و حیات کی بیعت کی تھی۔ جب طاغوت کی طاقتیں اسلام پر غرانے لگیں، انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگیں تو ایسے میں امت مسلمہ پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ جس وقت مسلمان خس و خاشاک کی طرح بہنے لگے، رفعتوں نے ان سے منہ موڑ لیا اور ان کو اسلام سے دور کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے گئے اور ان کی ناؤ بھنور میں ڈگمگانے لگی اور اِس کشتی کے مسافر اپنے مقدر میں ذلت کے سوا کچھ بھی نہ پا رہے تھے تو ان حالات میں انہیں سفینے کے قریب ہی سے دو مجاہدوں کی آواز آتی ہے کہ اے کشتی کے سوارو! فکر مت کرنا ہم تمہیں ظلم کے پنجے سے نجات دلانے کے لئے پہنچ رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ عرصہ |