بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نقش آغاز
برصغیر (پاک و ہند)کے علمی و دینی خاندانوں میں خاندان غزنویہ (امرتسر)ایک عظیم الشان خاندان ہے۔ اس خاندان کی علمی و دینی اور سیاسی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس خاندان کی علمی و دینی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔اور سیاسی خدمات بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔تحریک آزادئ وطن میں اس خاندان کے افراد نے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔
غزنوی خاندان کے سربراہ مولانا سید عبداللہ غزنوی (م 1298ھ)کی خدمات جلیلہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب و سنت کی اشاعت و تبلیغ اور شرک و بدعت کی تردید میں انہیں مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا۔ انہیں بیشمار اذیتیں اور تکلیفیں دی گئیں اور ملک بدر کیا گیا۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی ولی کامل تھے۔ ان کی تدریسی و تبلیغی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔اسی طرح مولانا سید عبداللہ کے دوسرے صاحبزادگان عالی مقام مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ اجمعین کی تدریسی، دینی و علمی خدمات ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں ۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی خاندان کے چشم و چراغ اور گل سرسبد تھے۔ مولانا داؤد غزنوی جہاں کتاب و سنت کے علمبردار تھے وہاں انگریز سے نفرت اور بیزاری کا جذبہ بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ مولانا داؤد غزنوی ساری زندگی فرنگی سامراج کے خلاف سینہ سپر رہے۔ قید و بند سے بھی دوچار ہوئے مگر ان کے پائے ثبات و استقلال میں لغزش نہ آئی۔ سیاسیات میں آپ دبستان ابوالکلام کے گل سرسبد تھے، لیکن بعد میں اپنی راہ علیحدہ متعین کر لی۔ کانگریس سے استعفیٰ دے کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی شعلہ نوا خطیب تھے۔ تقریر کرتے تو معلوم ہوتا کہ آگ کے گولے برس
|