میں شائع کرنے کی کوشش فرمائیں۔ مختلف حضرات نے بعض علمی موضوعات پر بہت اچھے مقالے سپرد قلم کیے ہیں، لیکن وہ یونیورسٹیوں میں پڑے ہیں۔ مقالہ نگار کو تو محنت کا فائدہ حاصل ہو گیا اور محکمہ تعلیم کی طرف سے اس کو مستحق مراعات قراردے دیا گیا، لیکن لوگوں کو تو اس کا فائدہ اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ مقالہ شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ پی ایچ ڈی کے مختلف موضوعات کے بہت مقالے شائع ہوئے ہوں گے۔ لیکن میرے ذہن میں شائع شدہ جو مقالے آرہے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ 1۔۔۔ڈاکٹر برہان احمدفاروقی کا مقالہ جو مجدد الف ثانی کے نظریہ توحید کے بارے میں ہے۔ 2۔۔۔ڈاکٹر زبیدہ احمد کا انگریزی مقالہ ”دی کنٹری بیوشن آف انڈیا ٹودی عربک لٹریچر۔“اس کا اُردو ترجمہ ”عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ“کے نام سے شاہد حسین رزاقی نے کیا جو ڈاکٹر شیخ محمد اکرام کے زمانے میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے شائع ہوا۔ 3۔۔۔ ایک اور انگریزی مقالہ ڈاکٹر محمد اسحاق کا ہے، جس کا تعلق برصغیر میں حدیث لٹریچر سے ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ بھی شیخ محمد اکرام کے زمانے میں شاہد حسین رزاقی نے کیا اور اسے ادارہ ثقافت اسلامیہ نے شائع کیا۔ 4۔۔۔پشاور یونیورسٹی کی طرف سے قاضی سعد اللہ نے نواب صدیق حسن خاں پر انگریزی میں مقالہ لکھا جو شیخ محمد اشرف تاجر کتب لاہور نے شائع کیا۔ 5۔۔۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی پر جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے شعبہ عربی کی (سابقہ چیئرپرسن) مرحومہ ثریا ڈار کا مقالہ سراج منیر کے زمانے میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سےشائع ہوا۔ اس فقیر نے اس کی ادارت کی اور اس پر مقدمہ لکھا۔ 6۔۔۔”اُردو نثر کے ارتقا ءمیں علماء کا حصہ“ڈاکٹر محمد ایوب قادری کا ایک تحقیقی مقالہ ہے، اس میں شاملی ہند کے ان علمائے کرام کا تذکرہ کیا گیا ہے، جنھوں نے 1857ءتک تحریری صورت میں اُردو زبان کی خدمت کی اس مقالے کی ادارت بھی اس فقیر نے کی اور”حرفے چند“کے عنوان سے اس پر مقدمہ لکھا۔ یہ مقالہ بھی کتابی صورت میں سراج منیر کے زمانے میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے چھپا۔ 7۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی نے مولانا عبدالماجد دریا بادی پر مقالہ تحریر کیا، جس میں ان کی علمی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس مقالے کی اشاعت بھی سراج منیر کے عہد ڈائریکٹری میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے ہوئی۔ 8۔۔۔پنجاب یونیورسٹی کے اُردو دائرہ معارف اسلامیہ کے ڈائر یکٹر جنرل ڈاکٹر محمود الحسن |