Maktaba Wahhabi

61 - 665
نے تفسیر جلالین بازار سے خریدی اور اسے بھیج دی۔ ساتھ ہی خط لکھا کہ کتابیں لے جانے کا فکر نہیں۔ لیکن آپ یہاں سے چلے کیوں گئے؟ آئیے اور ہم سے ملیے۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ میاں صاحب کا دہلی میں اپنا مکان نہیں تھا کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ مکان کے جس حصے میں ان کی رہائش تھی، وہ صرف ایک سائبان تھا جو گرمیوں کے موسم میں دوپہر کے بعد اتنا گرم ہوجاتا تھا کہ کسی دوسرے آدمی کے لیے اس میں تھوڑی دیر بیٹھنا بھی مشکل ہوجاتا، لیکن میاں صاحب وہیں بیٹھ کر لوگوں کے خطوط کے جواب دیتے اوروہیں فتویٰ نویسی کرتے۔ کوئی طالب علم گرمی کی شدت کے متعلق کہتا توبطور مزاح فرماتے کہ میں جس سائبان میں رہتا ہوں تم ایک گھنٹا وہاں سو جاؤ تو تمھیں دو روپے دوں گا۔ طلباکے لیےمسجد میں شطرنجی کا فرش تھا مگر میاں صاحب خود ہمیشہ اور ہر موسم میں چٹائی یاٹاٹ پر بیٹھتے اور اس بے تکلفی سے بیٹھتے کہ کسی کو کچھ کہنے اور دوسری جگہ بیٹھنے کے لیے اصرار کرنے کا موقع نہ ملتا۔ کمزور کی تکریم اور خدمت 1857ء؁کے بعد تیموری خاندان کے شہزادے بے حد مصائب میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جب وہ میاں صاحب کے پاس آتے تو آپ ان کی تکریم کے لیے کھڑے ہوجاتے اور جو کچھ نقدی یا کسی اور صورت میں بن پڑتا ان کو پیش کرتے۔ کوئی شخص غائبانہ ان کی کسی حرکت یا وضع قطع پر تعریض کرتا تو اسے روکتے اور سردآہ بھر کر فرماتے: آج ان کی یہ حالت ہے ورنہ ہم جیسوں کا تو یہ سلام لینا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ حضرت میاں صاحب کی عادت تھی کہ بازار سے خود سودا خریدنے جاتے اور خود ہی اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر لاتے۔کوئی شاگرد یا کوئی اور شخص آگے بڑھ کر اٹھانے کی کوشش کرتا تو (أهلُ الْمَال أَحَقُّ بِهٖ) (مال کا مالک اس کا زیادہ حق دار ہے) کہہ کر اسے روک دیتے۔ حالت تدریس میں کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو مسند درس سے اٹھ کر خود کتاب لاتے۔ بے شک اس کے لیے باربار جانا پڑتا، لیکن کسی طالب علم کو نہ کہتے کہ فلاں جگہ سے فلاں کتاب اٹھالاؤ۔کسی سے کام کے لیے کہنا ان کی عادت مبارکہ کے خلاف تھا۔ نہ صرف اپنا کام خود کرتے بلکہ دوسرے کاکام کرنے کی بھی کوشش فرماتے۔ حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی راوی ہیں کہ ان کے زمانہ طالب علمی میں ایک روز ایک مجذوم شخص میاں صاحب کےپاس آیا اور بڑی بے تکلفی سے ان کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور جاہلانہ
Flag Counter