رہنے والا تھا۔ میاں صاحب کے بارے میں اس کے دل میں سخت عداوت کے جراثیم پائے جاتے تھے۔جب تکلیف بہت بڑھ گئی اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا تو اس نے مولانا محمد بدر الحسن سہسوانی سے منت سماجت کی کہ آپ میاں صاحب سے میراقصور معاف کرا دیجیے۔ یہ درد نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے میری غلطی کی سزا مجھے مل رہی ہے۔۔۔ مولانا محمد بدر الحسن کے اصل واقعہ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میاں صاحب سے سخت عداوت کی بنا پر میں نے بکرے کے گوشت کے بجائے ان کے لیے خنزیر کا گوشت پکایا تھا، مگر ان کو تو اللہ نے اس کے کھانے سے محفوظ رکھا اور مجھ پر شدید درد کی صورت میں عذاب الٰہی نازل ہوگیا۔ قصہ مختصریہ کہ ملازم کی درخواست پرمولانا ممدوح اسے میاں صاحب کے حضور لے گئےاور ان سے سارا واقعہ بیان کیا۔ میاں صاحب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر مولانا سہسوانی نے میاں صاحب سے ملازم کی تقصیر معاف کرنے کی سفارش کی تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں دعا کی۔ اے مجیب الدعوات۔ تیرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔دھوکے بھی دیے، شعبدے بھی کیے۔ پھر اگر مجھ ناچیز بندے کے ساتھ کسی نے کچھ کیا ہے توتو اسے معاف فرما۔ تو ارحم الراحمین ہے اور اسے ہدایت فرما۔تو ہادی الضالین ہے۔ چنانچہ اسی وقت اللہ نے اس کو درد سے نجات بخش دی اور وہ میاں صاحب کے دست مبارک پر تائب ہوا۔ آپ کی بیعت کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔اس کے بعد وہ ہجرت کر کےمکہ معظمہ چلا گیا تھا اور وہیں بودوباش اختیار کر لی تھی۔ سادہ غذا اور سادہ زندگی غذا میں سادگی کا یہ حال تھا کہ زیادہ تر سر کے کےساتھ روٹی کھاتے یا فقط ستو پر اکتفا فرماتے یا شہد کے ساتھ روٹی کھالیتے۔ کبھی بھنے ہوئے چنوں پر گزارا کر لیتے۔ کبھی روٹی اور معمولی سالن اور کبھی روٹی اور شہد پر بس کرتے۔حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی ان کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن دوپہر کے وقت ان کی دعوت کی۔ اپنے ایک ساتھی کو ان کی خدمت میں بھیجا کہ کھانے کا وقت ہوگیا ہے، تشریف لائیے۔مولانا فرماتے ہیں جب کافی دیر تک تشریف نہ لائے تو میں خود حاضر ہوا۔ دیکھا کہ روٹی اور سرکہ تناول فرما رہے ہیں۔ میرے دل کی اس وقت جو کیفیت ہوئی، اسے کن الفاظ میں بیان کروں۔صرف یہی عرض کیا، ”غالباً آپ کو میری دعوت کا خیال نہیں رہا ہوگا۔“ یہ اپنے دور کے برصغیر کے سب سے بڑے اور سب سے مشہور عالم کی حالت تھی۔کیا موجودہ |