Maktaba Wahhabi

49 - 665
ابتداء بہت دشواریاں پیش آنا محسوس ہوئی تھیں، مگر الحمد للہ کہ وہ بالکل کچھ نہ تھیں۔۔۔ میرے ساتھ کوئی خلاف امر واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ میرے مخالفوں کو میری تکریم و تعظیم پر رشک تھا اور ہندوستان میں جو کیفیت سب کی تھی، آپ کو معلوم ہوئی ہوگی۔جیسا کہ تم چاہتے ہو، میں بھی تم کو دیکھنا چاہتا ہوں۔فی الواقع زبانی حالات سن کر آپ کو تسکین ہوگی۔ الراقم العاجز سید محمد نذیر حسین عفی عنہ از دہلی علم حدیث کی شہرت تدریس علم حدیث کی تدریس کے سلسلے میں میاں صاحب کی شہرت مختلف اقطار عالم میں پھیلی ہوئی تھی اور دنیا کے بہت سے حصوں میں ان کے تلامذہ موجود تھے۔ ہندوستان کے تقریباً ہر ضلعے، ہر شہر اور ہر قصبے میں ان کے فیض یافتہ حضرات خدمت علم حدیث میں مشغول تھے۔متعدد دیہات میں بھی ان کے شاگردوں کی مساندتدریس آراستہ تھیں۔ اس کے علاوہ بیرون ہند کے بہت سے ممالک میں ان کے مستفیدین اچھی خاصی تعداد میں قال اللہ وقال الرسول کی دل نواز صدائیں بلند کر رہے تھے۔ مثلاً حجاز، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، یمن، نجد، شام حبش، افریقہ، تیونس، الجزائر، کابل، غزنی، قندھار، سمرقند، بلخ، بخارا، داغستان، اشیائے کوچک، ایران، مشہد، خراسان، ہرات، چین، برہما، سری لنکا وغیرہ ملکوں اور علاقوں میں حضرت میاں صاحب کے شاگرد موجود تھے اور ان کے درس و تدریس کے حلقے قائم تھے، جن سے لوگ باقاعدہ استفادہ کر رہے تھے۔ ملک حجاز میں بالخصوص حضرت میاں صاحب کی خدمت حدیث کا چرچا تھا۔اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب جب حج کے لیے گئے اور ہندوستان کے بعض اہل بدعت نے ان کے خلاف حجاز کی اس وقت کی حکومت کے بعض سرکردہ افراد کو ان کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی تو اس کا پتا وہاں کے شیوخ اور مشاہیر اہل علم کو چلا جس کا ان پر شدید رد عمل ہوا اور وہ میاں صاحب کے مخالفین کے خلاف صف آراہوگئے۔اس کا ذکرکرتے ہوئے میاں صاحب کے تلمذ رشید اور رفیق سفر خادم مولانا تلطف حسین فرماتے ہیں: ”ہم لوگ جب اپنی قیام گاہ پر پہنچے تو شیوخ اہل مشرق (جن کا قافلہ شہر سے کچھ فاصلے پر تھا اور اس میں چھ سو مسلح سوار تھے)آئے اور میری ان سے راستے میں ملاقات
Flag Counter