ارادت رکھتے ہیں اور ان میں سے زیادہ حضرات نے تقسیم ملک سے پہلے لکھوکے سے حصول علم کیا اور تقسیم ملک کے بعد لکھوکے کا دارالعلوم جامعہ محمدیہ کے نام سے اوکاڑہ میں منتقل ہوا تو وہاں کے اساتذہ کرام سے استفادہ کیا۔ گوہڑ کے بعض شائقین علم مدرسہ غزنویہ(یعنی دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور) میں بھی وہاں کے عالی مقام معلمین سے فیض یاب ہوئے۔ اسی گاؤں کے ایک بزرگ حاجی باماں تھے، جنھیں صالحیت اور ذاتی شرافت کی وجہ سے پورے گاؤں اور وہاں کی آرائیں برادری میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔حافظ عبدالرحمٰن انہی حاجی باماں کے اکلوتے بیٹے تھے۔جو1930ءکے پس و پیش پیدا ہوئے۔تھوڑی بہت ابتدائی تعلیم گاوں میں حاصل کی۔ پھر ضلع قصور کے ایک قریے”چک مروکے“میں ایک حافظ صاحب سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا، لیکن ابھی حفظ قرآن کے ابتدائی مراحل میں تھے کہ لاہور آگئے اور رنگ محل میں مشن سکول کے قریب قاری مقبول الٰہی مرحوم کی ایک چھوٹی سی مسجد میں قیام کیا اور قاری فضل کریم کی خدمت میں حاضری اور حفظ قرآن کی نعمت سے متمتع ہوئے۔یہ تقسیم ملک سے پہلے کی بات ہے۔ تقسیم ملک کے وقت اگست 1947ء میں یہ سترہ اٹھاہ سال کی عمر کو پہنچ گئے تھے۔اس زمانے میں حضرت مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مسکن فیروز پور کی سکونت ترک کر کے ضلع گوجرانوالہ کے مشہور قصبے گوندلاں والا میں اقامت گزیں ہوگئے تھے۔تدریس اور مطالعہ کتب مولانا مرحوم کو حیات مبارکہ کے لازمی اجزا تھے۔ انھوں نے گوندلاں والا میں بھی اس دور کے حالات کے مطابق سلسلہ تدریس شروع کر دیا تھا۔ مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم اس وقت گوجرانوالہ میں مقیم تھے، وہاں انھوں نے دارالعروبہ کے نام سے عربی تعلیم اور تراجم کا ایک ادارہ قائم کر رکھا تھا۔ مولانا عطاء اللہ حنیف کے متعلق انھیں معلوم تھا کہ وہ گوندلاں والامیں اقامت فرماہیں۔چنانچہ انھوں نے رقعہ دے کر محی الدین اور عبدالرحمٰن گوہڑوی کو مولانا عطاء اللہ مرحوم کی خدمت میں بھیج دیا اور یہ دونوں ان سے تعلیم حاصل کرنے لگے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، میرا ان دونوں سے وہیں تعارف ہوا تھا جو آگے چل کر دوستی میں بدل گیا اور پھر ان کی زندگی کے آخری دم تک قائم رہا۔ صحیح تاریخ کا تو مجھے پتا نہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 1948ء کی پہلی ششماہی میں حضرت مولانا سید محمدداؤد غزنوی نے مولانا عطا اللہ حنیف کو اپنے دارالعلوم تقویۃ الاسلام (لاہور)میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے تشریف لانے کی دعوت دی اور مولانا نے یہ دعوت قبول فرما لی اور لاہور تشریف لے آئے۔ محی الدین اور عبدالرحمٰن بھی ان کے ساتھ لاہور آگئے۔پھر انھوں نے درس نظامی کا مروجہ نصاب یہیں مکمل کیا۔ اس کے بعد محی الدین تو بعض دوسرے امور میں مشغول ہو گئے۔لیکن عبدالرحمٰن نے مولانا عطاء اللہ مرحوم سے وابستگی اختیار کیے رکھی۔ |