محترمہ کا انتقال ہوا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ فریضہ حج کے دوران مخالفین کا اذیت ناک رویہ اب آتے ہیں حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فریضہ حج کی طرف۔۔۔!اس پاکیزہ ترین سفر کے دوران میں بھی انھیں کئی قسم کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس دور کے حجاز کی(شریف) حکومت سے بعض معاندین نے میاں صاحب کی مذہبی نوعیت کی بہت سی شکایات کیں اور انھیں سخت پریشان کیا گیا۔ لیکن ہم اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے، ہم صرف ان کے وعظ و تذکیر تک اپنی گفتگو کومحدود رکھیں گے 1300ھ میں میاں صاحب نے حج کا ارادہ کیا اور اپنے رفقاء کے ساتھ دہلی سے بمبئی پہنچےاوروہاں سے جہاز پر سوار ہوئے۔جدہ میں جہاز سےاترے اور مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ منیٰ کے تین روزہ قیام کے دوران میں ان کے مواعظ کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں لاکھوں آدمیوں کو میاں صاحب نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں خطاب کیا۔ وعظ کا لب لباب تھا شرک وبدعت سے اجتناب اور عمل بالحدیث کی تلقین۔خلاف اسلام رسوم کے ترک اور بدعات سے دامن کشاں رہنے کی تاکید۔میاں صاحب کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ ان کو ایک حاجی نے خط کے ذریعے اطلاع دی کہ”میاں صاحب نے تین روز منیٰ میں قیام کیا اور شب و روز وعظ بیان کیا، جس میں بدعات کا رد فرماتے رہے۔میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے بعد تابعین کے ایسا کیا ہو۔“[1] سفر حج میں میاں صاحب کے مخالفین و معاندین نے ان کو جن اذیت ناک مراحل سے دوچارکیا، ان کے سوانح نگارنے اس کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔[2] حج سے واپسی پر دہلی میں فقید المثال استقبال اب حج بیت اللہ کے بعد حضرت میاں صاحب کے دہلی پہنچنےکی کیفیت اور ریلوے اسٹیشن پر ان کے فقید المثال استقبال کے بارے میں چند سطور ملاحظہ فرمائیے۔ یکم جنوری 1884ءکو بعد فراغ حج وزیارت میاں صاحب بمبئی پہنچے اور وہاں سے ان کے رفقائے سفر نے دہلی وغیرہ میں اپنے پہنچنے کی خبر دی اور بمبئی سے روانگی کی تاریخ سے مطلع کیا۔ اکثر اشخاص جو میاں صاحب کے استقبال کے لیے دہلی سے چند اسٹیشن آگے تک تھے، ان کا بیان |