Maktaba Wahhabi

40 - 665
جناب میاں صاحب نے یہ جواب پڑھا تو استاذ محترم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور پچیس پیسے ادا کیے جائیں گے جو نرخ پیسے کاادائے قرض کے وقت ہے۔ شاہ صاحب نے فرمایا:کیوں؟ عرض کیا:پیسوں کی ثمنیت خلقی نہیں ہے()؟؟ مگر حضرت شاہ صاحب نے اس پرغور نہیں فرمایا۔ جن لوگوں کو اس کاپتا چلاوہ شاگرد کی طرف سے استاذ کی مخالفت پر متحیر ہوئے اور دہلی کے تدریسی حلقوں میں بات مشہور ہوگئی۔اس واقعے پر چھ مہینے گزرگئے۔پھر مکہ معظمہ سے کتاب طوالع الانوار آئی تو میاں صاحب یہ جزئی کتاب سے نکال کر استاذِ محترم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ حضور یہ فتویٰ منگواکر قلم زد کریں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خاندان شاہ ولی اللہ کے جانشین۔۔۔۔۔میاں نذیرحسین آئندہ سطور میں یہ ثابت کیاجائےگا کہ تدریس علوم حدیث میں خانوادہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اصل وارث حضرت میاںسیدنذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ شوال 1258ھ میں حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب نے ہندوستان سے ہجرت فرمائی۔اس وقت دہلی میں بے شمار علمائے کرام موجود تھے، جن میں اکثر حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ اور تربیت یافتہ تھے، ان کے درس وتدریس کے حلقے بھی قائم تھے۔خودحضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین کےبیٹے شاہ مخصوص اللہ موجود تھے جو پچیس برس تک شاہ عبدالعزیز صاحب کے حلقہ درس میں شریک رہے تھے اور عرصہ دراز تک خود بھی مشغول تدریس حدیث رہے تھے۔شاہ مخصوص اللہ صاحب کے چھوٹے بھائی شاہ محمد موسیٰ صاحب بھی زندہ تھے اوراپنا ایک علمی اور خاندانی مقام رکھتے تھے۔پھر شاہ عبدالعزیز صاحب اور شاہ محمد اسحاق صاحب کے مشاہیر تلامذہ بھی دہلی اور بلاد ہند کے مختلف اطراف میں پھیلے ہوئے تھے جووعظ وارشاد اور درس وافتا کی خدمات سرانجام دے رہے تھے، لیکن حضرت شاہ عبدالعزیز اورحضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کی مسند درس وافتا پر حضرت میاں سیدنذیر حسین ہی متمکن ہوئے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ” میاں صاحب“ کا لقب اس زمانے میں حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان کے لیے مخصوص تھا۔پہلے شاہ عبدالعزیز صاحب کو میاں صاحب کہا جاتا تھا۔بعدازاں ان کے جانشین حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کو میاں صاحب کہا جانے لگا۔پھر بہ سلسلہ جانشینی ان سے منتقل ہوتا ہوا یہ لقب حضرت سیدنذیر حسین صاحب تک پہنچا اور ان کی ذاتِ گرامی پر اس طرح چسپاں ہوا کہ میاں صاحب اورسید نذیرحسین
Flag Counter