کے علم وفضل کا اندازہ کرلیا۔ اس کے بعد یہی مفتی شرف الدین صاحب دہلی کے معروف عالم مفتی صدر الدین خاں آزردہ کے مہمان ہوئے توان کی دعوت پر میاں صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔مفتی صدر الدین خاں اور میاں صاحب کے درمیان دوستانہ مراسم قائم تھے۔انھوں نے میاں صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مفتی شرف الدین صاحب سے کہا یہ جوان بڑا وہابی ہے۔اس کے سامنے حضورکوئی مسئلہ بیان نہ فرمائیں۔کوئی مسئلہ بیان فرمانا ضروری سمجھیں تو جمنا پار جاکر بیان فرمائیے گا۔ اس پر مفتی شرف الدین رام پوری نے میاں صاحب سے مخاطب ہوکر کہا:تم کو فقہ آتی ہے؟ انھوں نے جواب دیا:میں کیا جانوں صاحب۔آپ پوچھیے۔ مفتی موصوف نے سوال کیا:وضو کے کتنے فرض ہیں؟ میاں صاحب نے کہا:معلوم ہوا آپ وہی اعتراض کریں گے جو پہلے ملا فروخ مکی نے کیا ہے اور اسی کو بحر الرائق میں لکھا ہے۔اسی کو نہر الفائق میں نقل کیا ہے۔ایسے اعتراض کےجواب دلی کے بھٹیاروں کے لونڈے پیڑا بناتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں۔کوئی بڑی بات پوچھی ہوتی۔اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے یہ مسئلہ پوچھا کہ پانی پت جانے کے لیے اونٹ گاڑی کرایہ پر لی ہے۔کرایہ کا فیصلہ تو ہوگیا مگراونٹ کےدانے چارے کا فیصلہ نہیں ہوا کہ کون دے گا۔اجیریا مستاجر؟ یہ اجارہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟ مفتی شرف الدین صاحب نے جواب دیا:درست ہے۔ میاں صاحب نے پوچھا :کہاں لکھا ہے؟ مفتی صاحب نے کہا:فتاویٰ عالمگیری میں۔ میاں صاحب نے فرمایا:فتاویٰ عالمگیری مطبوعہ کلکتہ اور دہلی میں تو لایجوز لکھا ہے۔آپ نے شاید کوئی قلمی نسخہ دیکھا ہوگا، جس میں کاتب کی غلطی سے لا چھوٹ گیا ہوگا۔اگرآپ کو یہ خیال ہو کہ فتاویٰ عالمگیری بہت مبسوط کتاب ہے، کون اس کی جزئیات کا احاطہ کرسکتا ہے تو آپ جہاں سے چاہیں سوال کریں صفحۃً صفحۃً ورقۃً ورقۃً عبارت سنادوں گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میاں صاحب نے پورے فتاویٰ عالمگیری کا مطالعہ فرمایا تھا اور کامل غورکے ساتھ اسے باربار پڑھاتھا۔وہ انھیں تقریباً ازبر ہوگیا تھا۔ اب ہمارے اکثر علمائے کرام کا اس کا نام تک لینا گوارا نہیں فرماتے اور بعض کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کس زبان میں ہے، عربی میں یا فارسی میں۔ |