اور ان کے ساتھی جیل سے باہر آئے۔جیل میں بھی حافظ صاحب نے سلسلۂ وعظ ودرس جاری رکھا۔ انھوں نے فار غ التحصیل ہونے کے بعد 1939میں اپنے گاؤں(بڈھیمال) میں تدریسی سلسلے کا آغاز کیا تھا، جو پاکستان آنے کے بعد مختلف مدارس میں ان کی وفات تک جاری رہا۔یعنی تقریباً ساٹھ سال فریضہ تدریس انجام دیا۔یہ بہت بڑی مدت ہے جو اس کارخیر میں صرف ہوئی۔تفسیر و حدیث اور دیگر علوم کی درسی کتابیں پڑھاتے پڑھاتے انھیں ازبر ہوگئی تھیں۔ ان کا انتقال اس طرح ہوا کہ وہ جھوک دادو چک نمبر 47 گ ب کے مدرسے میں امتحان کے لیے گئے۔وہیں 28۔نومبر 1998ء کو ہفتے کے روز صبح نو بجے اچانک وفات پاگئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون ا ن کی میت ان کے گاؤں چک نمبر 36 لائی گئی اور نماز مغرب کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے حافظ عبدالعزیز علوی(شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد) نے نمازِ جنازہ پڑھی اورعشاء کے قریب انھیں دفن کردیا گیا۔ان سطور کا راقم عاجزان کے جنازے میں شامل تھا۔ (اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ) اب آئندہ سطور میں حافظ احمداللہ مرحوم ومغفور کی اولاد کے بارے میں چند سطور کا مطالعہ فرمائیے۔ حافظ صاحب کی اولاد ماشاء اللہ چھ بیٹے او ر چھ بیٹیاں ہیں۔یہ بارہ بیٹے بیٹیاں ان کی دو بیویوں کے بطن سے ہیں۔ان کی پہلی شادی جیسا کہ گذشتہ سطور میں بتایا گیا تقسیم ملک سے قبل ان کے آبائی گاؤں بڈھیمال میں ہوئی تھی۔یہ بیوی پاکستان آنے کے چند سال بعد وفات پاگئیں تو دوسری شادی کی۔اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ دوسری بیوی کا بھی ان کی زندگی میں انتقال ہوگیا۔ 1۔حافظ صاحب کے بڑے بیٹے حافظ عبدالعزیز علوی ہیں جوتقسیم ملک سے قبل پیدا ہوئے۔میٹرک پاس اور دینیات کے فاضل ہیں۔اپنے عہد کے متعدد نامور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔کامیاب مدرس ہیں۔تصنیف وتالیف اور ترجمے کا بھی ذوق رکھتے ہیں۔بعض رسائل وجرائدمیں ان کے مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔سلسلہ تدریس کا آغاز 1968 میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ(فیصل آباد) سے کیاتھا۔یہ سطور 18۔اگست 2007 کو لکھی جارہی ہیں۔تقریباً اٹھارہ سال سے جامعہ سلفیہ(فیصل آباد) کی مسند شیخ الحدیث پر متمکن ہیں۔اس اثناءمیں بے شمار طلباء وعلماء نے ان سے استفادہ کیا۔ان سے متعلق ان شاء اللہ مستقل مضمون لکھا جائے گا جس میں ان کی تدریسی اورتحریری مساعی کو اجاگر کرنے کی سعی کی جائے گی۔ 2۔حافظ احمداللہ مرحوم کے دوسرے بیٹے حافظ عبدالکبیر علوی ہیں جن کی ولادت 1946 |