Maktaba Wahhabi

32 - 665
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی نے 7۔شوال 1239ھ(5۔جنوری 1824ء) کو ہفتے کے روز وفات پائی اورمیاں صاحب ان کی وفات سے تین برس نو مہینے پانچ روز بعد دہلی پہنچے یعنی شدید تمنا کے باوجود حضرت شاہ صاحب کے حلقہ شاگردی میں شریک نہ ہو سکے۔ان کی دہلی میں تشریف آوری کے وقت شاہ صاحب کے نواسے حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب ان کی مسند درس پر متمکن تھے اور بہت سے حضرات ان سے مستفید ہو رہے تھے۔ دہلی میں اور بھی حلقہ ہائے تدریس قائم تھے، جہاں حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگردخدمت تدریس انجام دے رہے تھے۔ وروددہلی کے وقت حضرت میاں صاحب کی علمی استعداد بہت کم تھی۔ ہم پہلے پڑھ آئے ہیں کہ انھوں نے قیام پٹنہ کے وقت کتب احادیث میں سےمشکوٰۃ شریف پڑھی تھی اور علم نحو میں ان کی استعداد ہدایۃ النحو تک تھی یا پھر قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا تھا۔ یہ محدود علمی قابلیت انھیں براہ راست حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے حلقہ درس میں شمولیت سے مانع تھی۔ اس لیے انھوں نے پنجابی کٹرہ کی مسجد اورنگ آبادی کو اپنا مسکن قراردیا۔اس مسجد کے متولی یا منتظم اس وقت مولانا سید عبدالخالق تھے جو شاہ عبدالقادر صاحب اور شاہ محمد اسحاق صاحب کے شاگرد تھے۔ میاں صاحب نے مولانا عبدالخالق صاحب سے حصول علم کا سلسلہ شروع فرمایا اور کافیہ، قطبی، مختصر معانی، شرح وقایہ نورالانوار اور حسامی وغیرہ کتابیں مولانا ممدوح سے پڑھیں۔ اساتذہ کرام مولانا عبدالخالق کے علاوہ میاں صاحب نے مسجد اکبر آبادی میں مندرجہ ذیل اساتذہ کرام سے مندرجہ ذیل کتابوں کی تکمیل فرمائی۔ مولانا اخوند شیر محمد قندھاری سے شافیہ، اصول اکبری، شرح کافیہ ملا جامی مع حاشیہ عبدالغفور، زواہد ثلاثہ، صدرا شمس بازغہ کتابیں پڑھیں۔ مولانا اخوند شیر محمد قندھاری نے1257ھ میں وفات پائی۔ انھوں نےصحیح بخاری اور تفسیر بیضادی کا درس مولانا اسماعیل شہید کی رفاقت میں شاہ عبدالقادر صاحب سے لیا تھا۔ اپنے عہد کے معروف ماہر معقولات جلال الدین ہروی سے میاں صاحب نے شرح سلّم حمد اللہ، قاضی مبارک اور شرح مطالع پڑھیں جو اپنے موضوع کی نہایت اہم اور مشکل ترین کتابیں ہیں۔ مولوی کرامت علی اسرائیلی سے مطول، توضیح تلویح، مسلم الثبوت، تفسیر بیضادی اور تفسیر کشاف(تاسورہ نساء) پڑھیں۔
Flag Counter