حسیں ترین پیکر، عالی کردار، بلند ہمت، طلباء کے انتہائی خیر خواہ اور کشادہ ذہن کے معلم۔تکلف اور تصنع سے نفور۔سادہ زندگی بسر کرتے اور سادہ لباس پہنتے تھے۔ فجر کی نماز پڑھانے کے بعد وہ قرآن کا درس دیتے، جس میں طلباء سے قرآن کے بعض مقامات کی نحوی ترکیبات اور صرفی تعلیلات پوچھتے۔درس آسان زبان میں دیا جاتا تھا۔ موضع لکھو کے کے بالکل قریب ایک نہرتھی۔مولانا ممدوح شام کے بعد طلباء کو نہر پر لے جاتے اور ان سے”ابواب الصرف“سے باب سنتے اور انھیں صرفی نحوی مسائل بتاتے۔ایک موٹی لاٹھی ہاتھ میں رکھتے تھے جس کا اوپر کا سرا تھوڑا سا مڑا ہواتھا، پنجابی میں اسے”کھونڈا“ کہا جاتا ہے۔چلتے وقت اسے چوڑائی میں کمر کے اوپر کرکے دونوں بازوؤں سے تھام لیتے۔پھر نہر کے کنارے چل پھر کر یا کہیں بیٹھ کر طلباء سے مختلف علوم کے بارے میں سوال وجواب کا سلسلہ شروع فرما دیتے۔جس طالب علم کانام عبدالرشید ہوتا اسے بے تکلفی سے پنجابی میں فرماتے۔”اوچھیدے تو بتا یہ کیا صیغہ ہے۔“سیدھی اورصاف پنجابی میں بات کرتے۔الفاظ کے استعمال میں تکلف کے بالکل عادی نہ تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، عربی ادبیات، منطق، فلسفہ، معانی وبیان اور صرف ونحو وغیرہ تمام علوم کی کتابیں شروع سے لے کرآخر تک وہ بے شمار مرتبہ پڑھا چکے تھے اور یہ کتابیں ان کے ذہن میں اچھی طرح محفوظ ہوگئی تھیں۔صرف ونحو میں بالخصوص وہ مرتبہ امامت پر فائز تھے اور اس موضوع کے چھوٹے بڑے تمام مسائل پر مجتہدانہ نظر رکھتے تھے۔بعض مشکل ترین صرفی ونحوی مسائل کے متعلق بذریعہ ڈاک دارالعلوم دیوبند سے ان سے سوالات پوچھے جاتے تھے اور وہ ان کے جواب ارسال فرماتے تھے۔وہ صاحب تحقیق اور فاضل مدرس تھے۔ان جیسے لائق مدرس اب پیدا نہیں ہوں گے۔ ان کی مجلس میں کوئی شخص کسی موضوع پر بات کرتا تو نہایت توجہ سے اس کی بات سنتے۔اس کا انھیں علم بھی ہوتا تو اسے محسوس نہ کراتے اور بات سنتے سنتے فرماتے:”اچھا جوان پھر کیا ہوا؟“ اہل علم کا بے حد احترام کرتے اور نہایت انکسار کے انداز میں ان کی باتیں سنتے۔اگر کوئی خود ان کی تعریف کرتا تو ان کے چہرے پر جھجک اور شرم کے آثار نمودار ہوجاتے۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی خاندان لکھویہ کے اہل علم سے بے حد اکرام کا برتاؤ فرماتے تھے۔حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی کے صاحبزادے حافظ شفیق الرحمٰن لکھوی نے اپنےوالد محترم کی روایت سے ایک مرتبہ بیان کیا کہ تقسیم ملک سے تھوڑا عرصہ بعد جبکہ لوگ سخت پریشانی میں مبتلا تھے، اپنی زمینوں کی الاٹ منٹ کے سلسلے میں مولانا عطاء اللہ لکھوی لاہور تشریف لائے اور مولانا |