شاہ عبدالعزیز نے گھوڑ سواروں کو ان کا پیچھا کرنے سے روک دیا اگر چہ جنگ میں عام طور پر بھاگتے ہوئے باغیوں کا تعاقب کیا جاتا تھا۔ لیکن شاہ عبدالعزیز جنگ سے فرار ہونے والوں کا پیچھا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی زخمیوں کو تکلیف دیتے تھے۔
اس جنگ میں فیصل الدویش زخمی ہوا تو شاہ عبدالعزیز نےاپنے ڈاکٹر کو اس کے گاؤں کی طرف روانہ کر دیا تا کہ اس کا علاج ہو سکے۔ اس کے بعد فیصل الدویش کے بیٹے نے شاہ عبدالعزیز کے پاس آکر معافی مانگی۔ انہوں نے اس کو اور اس کے والد کو معاف کر دیا۔
اسی طرح فیصل الدویش نے خواتین کو بھی معافی مانگنے کے لیے بھیجا تھا۔
ابن بجاد شکست کے بعد جب غطغط واپس چلا گیا تو شاہ عبدالعزیز نے اسے ہتھیار ڈال دینے کا پیغام بھیجا۔
اس نے ہتھیار ڈال دئیے تو اسے گرفتار کر کے ریاض لایا گیا اور الاحساء جیل میں اس کی وفات ہوئی۔ جب شاہ عبدالعزیز کو اندازہ ہو گیا کہ اب یہ فتنہ ختم ہو گیا ہے تو وہ واپس مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے کیونکہ انہیں حج ادا کرنا تھا۔ لیکن فیصل الدویش نے زخموں کے مند مل ہونے کے بعد دوبارہ سر کشی کی اور فتنے کی چنگاری کو ہوا دی۔ اس نے وعدے کی پابندی نہ کی۔ دوبارہ عراق و کویت کے درمیانی علاقے میں میں ٹھہر گیا۔ اس کے ساتھ العجمان نامی قبیلہ اور العتیبہ قبیلے کے افراد بھی تھے۔
شاہ عبدالعزیز نے فوجی کمانڈروں کو حکم دیا کہ اس دفعہ کوئی رعایت نہ کی
|