Maktaba Wahhabi

133 - 208
اور تعجب کر رہا تھا۔ میں تقریباً سوا سات ساڑھے سات بجے تک معاملات پڑھتا رہا اور میرا خیال تھا کہ اب وہ طویل وقت کے لیے سوجائیں گے مگر انھوں نے مجھ سے کہا کہ آٹھ بج کر بیس منٹ پر الارم لگادیں اور واقعی آٹھ بیس پر ہم نے آپ کو جگا دیا، وہ تیار ہوکر رابطہ عالم اسلامی کے طویل مذاکرات و اجتماعات میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے اور اپنے مقررہ وقت پر ڈھائی بجے دوپہر ہی گھر لوٹے۔ ہم سب تھکاوٹ سے منہ کے بل گرنے کو تھے لیکن شیخ کے چہرہ و جسم پر ایسی کوئی علامت نظر نہیں آرہی تھی۔[1] مدیر مکتب المنزل، مقرب ترین ملازمین اور علامہ ابن باز کے مرافقین میں سے شیخ محمد الموسیٰ کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ رحمہ اللہ اپنے سفر یا حضر میں کوئی ایک منٹ بھی ضائع نہیں جانے دیا کرتے تھے۔ وہ جب ریاض سے طائف یا جدہ و غیرہ کا ہوائی سفر کرنے کا ارادہ فرماتے تو جہاز میں سوار ہونے سے لیکر اترنے تک وقت سے خوب فائدہ اٹھاتے اور وہ اس طرح کہ ہم تین یا چار آدمی باری باری کچھ پڑھتے چلے جاتے، ہم تھک جاتے مگر شیخ رحمہ اللہ مکمل نشاط اور صبر و ہمّت کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوئے سنتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ جہاز میں سوار ہونے، اس کے رن وے پر دوڑنے، پرواز کے لیے اڑان لینے پھر فضا میں تیرنے، اگلی ائیر پورٹ پر لینڈ کرنے اور دروازے کھلنے تک جاری رہتا اور ہم مسلسل مختلف معاملات، مسائل و قضایا، کتب او رعلمی مسائل پڑھتے رہتے کیونکہ ہر کسی نے اپنی اپنی بغل میں وہ کتابیں،رسائل اور فائلیں دبائی ہوئی ہوتی تھیں جن پر راستے میں قراء ت و گفتگو مطلوب ہوتی تھی۔[2]
Flag Counter