مقدمہ
اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ، وَ نَسْتَعِیْنُہٗ، وَنَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا، وَ مِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَّہْدِہٖ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِيَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ:
قارئین کرام! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سماحۃ الشیخ علّامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کی شخصیت پورے عالمِ اسلام میں معروف ہے۔ الشیخ عبد الرحمن بن یوسف الرحمۃ نے علّامہ موصوف کی سوانح حیات بنام ’’الإنجاز في ترجمۃ الإمام ابن باز‘‘ لکھی تو اس کا مقدمۃ ہیئۃ کبار العلماء سعودی عرب کے ممبر اور وفاقی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس علامہ عبد اللہ بن سلیمان المنیع سے لکھوایا، اس میں انھوں نے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے لیے جو القابات و خطابات استعمال کیے ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
’’عہدِ حاضر کے امام و مجدّد، امامِ حدیث، امام فنِ رجال، امامِ فقہ، امامِ دعوت، امامِ کرمِ نفس و دست، امامِ نصیحت، امامِ سماحت، امامِ تواضع، امامِ قناعت، امامِ تقویٰ، امامِ صلاح و اصلاح۔‘‘
غرض اتنی بڑی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہوتی، تاہم ان کی زندگی کے بعض گوشے عوام الناس ہی نہیں بلکہ بکثرت اہلِ علم کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہوتے ہیں،جنھیں آشکارا کرنے کے لیے یہ کتاب مرتّب کی گئی ہے۔ تاکہ ملت اسلامیہ پر ان کے احسانات کا کچھ بدلہ چکایا جاسکے۔
|