کتب ستہ) نے احتجاج کیا ہے۔ امام بخاری اور مسلم نے آپ کے بڑے شاگردوں کی روایات کو بطور احتجاج (حجت) تخریج کیا ہے اور بعض چھوٹے شاگردوں کی روایات کو بطور متابع لائے ہیں ۔ آپ پر عیب عمر بڑی ہونے کی وجہ سے حافظہ میں تبدیلی کی بنا پر ہے۔ اس لیے کہ آپ ایک سو تین سال تک زندہ رہے۔ ابن عربی نے ’’الکامل‘‘ میں آپ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ابن حبان نے کوئی تبصرہ کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تضعیف کا معاملہ آپ کی آخری عمر میں حافظہ میں فرق آنے کی وجہ سے ہے۔ جب کہ قدماء کی روایات مقبول ہیں ۔ ان میں سے ایک زائدہ بن قدامہ بھی ہے اور یہ روایات مقام احتجاج پر قائم ہیں ۔ پس حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے وارد تینوں اسناد صحیح اور درست ہیں ۔ ۲۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کي روایات: صحیح البخاری: عن یحیی بن سلیمان عن ابن وہب عن یونس، عن ابن شہاب عن حمزۃ بن عبداللّٰہ عن ابیہ .... مسلم: عن محمد بن رافع و عبد بن حمید، و اللفظ لابن رافع عن عبدالرزاق عن معمر عن الزہری عن حمزۃ عن عبداللّٰہ بن عمر عن عائشۃ .... معترض کہتا ہے:....ان دونوں احادیث کا مدار زہری کی روایت پر ہے اور زہری پر کئی ایک تہمتیں لگائی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ قول بھی ہے کہ محمد بن شہاب الزہری یحییٰ بن معین اور عبدالحق دہلوی کے نزدیک مجروح انسان ہے۔ جواب:....امام زہری کے علم حدیث میں راسخ اور ثقہ ہونے پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے۔ آپ کے ثقہ ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ آپ کے قوت حافظہ کی ضرب الامثال بیان کی جاتی ہیں ۔ آپ کی ثقاہت کا اعتراف کرنے والوں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز، مالک بن انس، یحییٰ بن معین، یحییٰ بن سعید القطان، مکحول، قتادہ، ایوب، عمرو بن دینار، ابوبکر الہذلی، معمر، علی بن المدینی، ابو زرعۃ، ابن سعد، ابو زناد، صالح بن کیسان، لیث، عبدالرحمن بن اسحق، نسائی، عراک بن مالک اور دوسرے علماء اسلام شامل ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ’’الفقیہ، الحافظ متفق علی جلالتہ و اتقانہ و تثبتہ۔‘‘[1] یحییٰ بن معین نے کہیں بھی آپ کو ضعیف نہیں کہا۔ اپنے ذاتی تصور اور خیال کی بنیاد پر ایسی شخصیات پر زبان طعن دراز کرنا ایسا جرم ہے جو ناقابل معافی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ابن معین نے اعمش |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |