حاصل تھی۔ اس لیے آپ کے دور میں امور مملکت میں علماء کی شرکت کا دائرہ بے حد وسیع ہوگیا۔ چنانچہخلافت کا پایۂ تخت ہر وقت علماء سے معمور رہتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے گرد علماء کا ہجوم رہتا تھا۔ آپ ان سے مشورے لیتے، وہ آپ کی اہم امور میں معاونت کرتے۔ دوسرے آپ اپنی خاص مجلس مشاوت سے غیر علماء کو ہمیشہ دور رکھتے تھے۔ اب میدان علماء کے ہاتھ میں تھا اور ان کے لیے خلافت کو خالص اسلامی اصولوں پر استوار اور مستحکم کرنے کا سنہری موقع تھا اور پھر انہوں نے ایسا کر کے بھی دکھایا، پھر ان کی مشارکت کا دائرہ حکومتی ذمہ داریوں سے بڑھ کر دوسرے امور تک پھیل گیا۔ چنانچہ خلافت کے مختلف عہدے اور مناصب ان کے سپرد کر دئیے گئے۔ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی حکومت ’’علماء کی حکومت‘‘ تھی۔ ایک اسلامی ملک کو کیسا ہونا چاہیے، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دورِ خلافت اور نظام حکومت اس کے سامنے ایک مثالی نمونہ ہے، جس میں بہترین طریقہ کے ساتھ شریعت کی سلطانی تنفیذی سلطانی کے ساتھ متحد تھی۔[1] خلافت وسلطنت میں علماء کا اس قدر بڑھتا اثر و نفوذ اور شرکت ومسئولیت پہلے اموی خلفاء کے دور میں نظر نہیں آتی۔ اور اس کی سب سے اہم وجہ خود سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی علماء کو اپنے قریب کرنے کی بے حد تمنا تھی۔ آپ علماء کو اپنا ہمراز، اخص الخواص اور مصاحب ووزیر بنانا چاہتے اور اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ علماء کو سیّدنا عمر سے اور آپ کے اعمال میں شرکت سے دور رہنے سے کوئی فائدہ نظر نہ آتا تھا۔ رہے وہ علماء جو اس قاعدہ اور اصل کی بنا پر خلفاء و امراء سے دور رہتے تھے کہ علماء کے ذمے علم کی حفاظت ہے اس لیے وہ پہل کر کے سلاطین کے پاس نہ جائیں گے بلکہ سلاطین کے ذمے ہے کہ وہ علم کی قدر کریں اور خود چل کر علماء کے پاس جائیں۔ تو ان کی شرط بھی سیّدنا عمر رحمہ اللہ کی ذات میں پوری تھی، وہ یوں کہ آپ خود علماء کی خدمت میں قاصد بھیج کر انہیں بلواتے تھے اور علماء کی بے حد تعظیم و توقیر کرتے تھے۔ اس لیے اس اصول پر کاربند علماء بھی آپ کے پاس بلا تکلف آتے جاتے تھے۔ رہے وہ علماء جو دین پر خوف کی بنا پر علماء وسلاطین سے اختلاط رکھنے سے اجتناب کرتے تھے۔ انہیں تو خاص طور پر اس بات کا مطلق اندیشہ نہ تھا۔ کیونکہ آپ کی محفل میں نشست و برخاست رکھنے والے کے علم اور دین دونوں میں اضافہ ہوتا تھا۔ اسی لیے علماء آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور جو ذمہ داری آپ ان کے کندھوں پر ڈالتے تھے اس کو اٹھانا ضروری سمجھتے تھے۔ اور اس ذمہ داری کے قبول کرنے میں ان کے پاس کوئی عذر نہ تھا۔[2] اور بقول ابن عساکر علماء کہا کرتے تھے کہ ’’جب تک اس آدمی کے قول و فعل میں اختلاف و تضاد پیدا نہیں ہوتا ہمیں اس آدمی کو چھوڑنے کی ہرگز گنجائش نہیں۔‘‘[3]
ذرا ان میمون بن مہران کو ہی دیکھ لیجئے جو یہ کہا کرتے تھے کہ ’’سلطان کے پاس مت جاؤ چاہے اس کو |