رب کی صرف سلبی یا اضافی یاان دونوں سے مرکب صفات ہیں ۔[1] پھر جہم نے یہ افکار جعد سے اختیار کیے۔[2] جبکہ جبر کا قول جہم سے پہلے مشرک عربو ں نے بھی کیا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ نَّحْنُ وَ لَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَہَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ} (النحل:۳۵)
’’اور جن لوگوں نے شریک بنائے انھوں نے کہا اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے بغیر کسی بھی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے تو رسولوں کے ذمے صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا اور کیا ہے؟‘‘
رب تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ مشرک اپنے شرک میں تقدیر کو حجت بنا کر کس دھوکے میں گرفتار تھے۔ ان کے کلام کا خلاصہ اور مضمون یہ ہے کہ اگر اللہ شرک سے بیزار ہوتا تو ہم شرک کے مرتکب نہ ہوتے اور وہ ہمیں سزا دے کر شرک پر اور ہم پر انکار کرتا اور ہم ہر گز بتوں کو پوج نہ سکتے۔[3]
رہا جہمیہ کا یہ قول کہ ایمان یہ معرفت کا نام ہے توان سے قبل مرجئہ اس بات کے قائل ہوگزرے تھے۔ اور رہا جنت و دوزخ کے فنا ہونے کا قول تو اس کا ماخذ ومصدر اسماعیلیہ[4] باطنیہ، اہل کلام اور یہود ہیں ۔ ابن ابی العز رحمہ اللہ جہم بن صفوان کے بارے میں کہتے ہیں : امام معطلہ جہم بن صفوان نے جنت ودوزخ کے فنا کا قول کیا اور اس باب میں اس کے پاس حضرات اسلاف کا کوئی قول حجت نہ تھا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ تابعین عظام رحمہم اللہ سے، نہ ائمہ مسلمین سے اور نہ اہل سنت والجماعت سے۔ جہم کا یہ قول اس کی وہ فاصد اصل تھا جو اس کا اعتقاد تھا اور وہ اعتقاد تھا ’’لامتناہی حوادث کے وجود کا امتناع۔‘‘ اوریہ اہل کلام کے مذموم کلام کی بنیاد ہے۔[5] اہل کلام عموماً کتاب وسنت کی دلالت کو قطعی نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک کتاب وسنت کی جملہ دلالتیں ظنی ہیں ۔ اہل کلام نے اپنی زیادہ تر اصطلاحات اور علوم فلاسفہ اور مناطقہ سے اخذ کی ہیں ۔ [6] اور خود فلاسفہ اور مناطقہ اپنے اصولوں کو قائم کرنے میں یہود ونصاریٰ اور مجوس پر انحصار کرتے ہیں ۔
|