اسحاق بن طلحہ بن اشعث کہتے ہیں کہ سیدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے عراق بھیجا اور فرمایا کہ انہیں قرآن پڑھ کر سنانا البتہ ان سے نہ پڑھوانا انہیں حدیث سنانا اوران سے نہ سننا، انہیں تعلیم دینا ان سے تعلیم حاصل نہ کرنا، آپ مشہور شاعر کثیر کے عقائد سے بخوبی واقف تھے۔ اس کی تائید اسکے ان اشعار سے ہوتی ہے جن میں وہ اپنے فاسد عقائد کو بیان کیا کرتا تھا۔ اور اہل بیت کے بارے میں غلو کی انتہا کر دیتا تھا، جیسے وہ کہتا ہے:
’’سن لو! قریش میں سے چار والی او رآئمہ برحق گزرے ہیں ایک علی اور تین ان کی اولاد میں سے ہیں جن کو سب جانتے ہیں ۔ ان کاایک بیٹا ایمان ویقین اور نیکی والا ہے دوسرا وہ ہے جسے کربلا نے غائب کردیا اور تیسرا وہ ہے جو اس وقت تک موت کا ذائقہ نہ چکھے گا جب تک کہ وہ لشکروں کی قیادت نہ کر ے گا اور پرچم اس کے آگے آگے ہوں گے۔‘‘[1]
ذہبی کہتے ہیں : زبیر بن بکار کثیر کے بارے میں کہتے ہیں : وہ رافضی تھا اور تنا سخِ ارواح کا قائل تھا۔اور وہ دلیل میں یہ آیت پڑھتا تھا:
{فِیْ اَیِّ صُورَۃٍ مَا شَائَ رَکَّبَکَ } (الانفطار:۸)
’’اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ دیا‘‘
اور وہ خشبی تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دنیا میں رجعت کا قائل تھا۔[2]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے غالی روافض کے رد کا وہ اہتمام نہ کیا جو آپ نے قدریہ، اور خوارج کے رد کا اہتمام کیاتھا آپ نے اہل ہویٰ و بدعت کی ہم نشینی سے منع فرمایا۔ [3]
غالی روافض کے چند عقائد کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے :
٭ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے وجوب کے اور آپ کی تقدیم امامت کے اور سب صحابہ رضی اللہ عنہم پر آپ کی فضیلت کے اور اس بات کے قائل تھے کہ آپ کی امامت کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا تھا۔
٭ ان کے نزدیک ابنیاء اور آئمہ کا کبائر وصغائر سے معصوم ہونا واجب تھا۔
٭ یہ لوگ قول وفعل میں تولی و تبری کے قائل تھے۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تولی یعنی دوستی، تعلق اور
|