Maktaba Wahhabi

181 - 194
مجید کی درج ذیل آیت لکھے: ﴿وَإِنَّمَا أَنَاْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ استاذ اپنے طلباء کو معنوی حرف ِمد کی طرف متوجہ کرے۔ پس استاذ آیت کی تلاوت کرے اور حرفِ مد والے کلمہ میں وصل کرے۔ اس کے بعد استاذ اس آیت کی تلاوت دوبارہ کرتے ہوئے حرفِ مد والے کلمہ میں وقف کرے تا کہ طلباء کو یہ واضح ہو کہ یہاں حرفِ مد وقف میں موجود ہے جبکہ وصل میں نہیں ہے۔ طلباء کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ کلمہ ﴿أَنَاْ﴾ الف کے اوپر موجود سکون کی حالت عام علامتِ سکون سے مختلف ہے۔ پھر استاذ درج ذیل آیت مبارکہ لکھے: ﴿وَقَالَا الْحَمْدُ للّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ اور اس کی تلاوت وصل کے ساتھ کرے۔ اس کے بعد معنوی حرفِ مد پر وقف کے ساتھ اس کی تلاوت دہرائے یہاں تک کہ طلباء کے لیے واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام ﴿وَقَالَا﴾ میں وقف کی صورت میں الف باقی رکھا جائے گا جبکہ وصل میں الف کو حذف کر دیا جائے گا تا کہ دوساکن ایک ساتھ جمع نہ ہوں۔ اس کے بعد استاذ تیسرے مجموعہ کی طرف متوجہ ہو اور آیات میں موجود ضمیر کی ما بعد کے ساتھ وصل کرتے ہوئے تلاوت کرے۔ اس کے بعد ضمیر پر وقف کرتے ہوئے اپنی تلاوت کو دہرائے۔ پس طلباء کو یہ واضح ہو گا کہ مد کی یہ قسم صرف حالت ِوصل میں ثابت ہوتی ہے۔ھاء ضمیر اگر مضموم ہو تو اسے واؤ اور مکسور ہو تو یاء کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ اور اگر اس کے بعد ہمزہ ہو تو اس پر مد ِمنفصل کا حکم جاری ہو گا۔ نتیجہ بحث: طلباء سے درج ذیل سوالات کے ذریعہ مسئلہ کی تعریف اور حکم معلوم کیا جا سکتا ہے: (۱): مد ِطبیعی کیاہے؟ (۲): اسے مدِ طبیعی یا مدِ اصلی کہنے کا سبب کیا ہے؟
Flag Counter