Maktaba Wahhabi

112 - 194
مقدمہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ طلباء سے یہ پہیلی بھجوائی جائے کہ آج کے درس کا عنوان کیا ہے؟ بلکہ اس کا اصل مقصود نئے سبق کے لیے طلباء کے ذہن کو تیار کرنا، ان میں اس کا شوق بیدار کرنا، اس کی اہمیت کا احساس اجاگر کرنا اور ان کی زندگی میں اس کے اثرات کا بیان ہے۔ مثلاً اگر سبق کا موضوع اظہار حلقی ہے تو نون ساکن اور تنوین کے جملہ احکامات میں سے یہ پہلا حکم ہے۔ مدرس کو چاہیے کہ وہ کسی ایک طالب علم کو حفظ کے نصاب میں سے چند ایسی آیات تلاوت کرنے کا کہے کہ جن میں اظہار حلقی موجود ہو۔ استاذ کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اس مرحلے میں طالب علم کی تجوید پر بھی توجہ دے۔ عصر حاضر میں قرآن مجید کی تعلیم دینے والے مدارس کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ طلباء کے تجوید کے احکامات کوجان لینے سے پہلے بھی ان کی تلاوت میں تجوید کا لحاظ کروائیں اور اسے ہم عملی تجوید کا نام دے سکتے ہیں۔ پس طالب علم صحیح قراء ت کے اصول وضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے تلاوت کرے یا مدرس اس کی تصحیح کرے۔ مثلاً اگر تلاوت سورۃ الغاشیہ کی ابتداء سے ہے اور دوران تلاوت جب طالب علم اظہار حلقی کی مثالوں سے گزرے گا تو مدرس اس کی ادائیگی پر توجہ دے گا۔ اسی طرح دوسرا طالب علم سورۃ قریش کی تلاوت کرے گا اور تیسرا سورۃ العلق کی۔ یا ان کے علاوہ ان سورتوں کی طلباء تلاوت کریں گے کہ جنہیں استاذ سبق کے لیے مناسب سمجھے۔ دوسرا مرحلہ: اس مرحلے میں طالب علم کے ذہن میں مقدمے کے دوران جو مفاہیم اور مباحث پیدا ہوئے ہیں، انہیں موضوع بنایا جاتا ہے۔ یہاں سے ہی بحث اور تحقیق کی طرف پہلا قدم اٹھ جاتا ہے اور ایسا غور وفکر شروع ہو جاتا ہے جو متفرق مثالوں اور جزئیات کے مابین ربط تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مدرس سبق کی مختلف جزئیات کو باری باری طلباء کے سامنے رکھتا ہے اور ان سے اس بارے مناقشہ کرتا ہے۔ استاذاپنے طلباء سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ متفرق جزئیات کے مابین ربط قائم کریں، متشابہ کو جمع کریں، متقابل کا موازنہ کریں، اور جو جزئیات اس قاعدہ کے تحت داخل نہیں ہیں، ان کو بھی جانیں۔ اسی طرح استاذ کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے
Flag Counter