Maktaba Wahhabi

81 - 148
(۲)۔ دوسری مثال جو گولڈ زیہر نے پیش کی ہے،وہ سورۃ الرعد کی آیت﴿وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا،قُلْ کَفَی بِاللّٰہِ شَہِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتٰبِ﴾ ہے۔ قرائے عشرۃ نے اسے میم کی زبرکے ساتھ ’’وَمَنْ‘‘ پڑھا ہے۔اور دال کی زبر کے ساتھ ’’ عِنْدَہُ‘‘ پڑھا ہے اور ’’ عِلْمُ الْکِتٰبِ‘‘ کو عین کی زیر اور لام ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔ترکیب یوں ہو گی:’’مَنْ‘‘ اسم موصولہ لفظ اللہ پر معطوف ہے۔اور ’’عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتٰبِ‘‘ خبر مقدم اور مبتدا مؤخر ہو کر جملہ اسمیہ ہوا اور یہ جملہ ’’من‘‘ صلہ کے لیے موصول ہوا۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ ہی کافی ہے اور یہود و نصاریٰ میں سے وہ بھی کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے گواہ ہونے کے اعتبار سے،اس بات پر کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔ اورحسن بصری رحمہ اللہ اور مطوعی رحمہ اللہ نے ’’ومن‘‘ کو میم کی زیر کے ساتھ ’’ومِن‘‘ اور ’’عندہ‘‘ کو دال اور ’’ہا‘‘ کی زیر کے ساتھ ’’عندِہ‘‘ پڑھا ہے۔ترکیب یوں ہو گی کہ ’’من‘‘ حرف جار،جار مجرور مل کرخبر مقدم اور علم الکتاب،مضاف و مضاف الیہ مل کر مبتدا مؤخر ہوا۔لیکن یہ قراء ۃ عدمِ تواتر کی وجہ سے شاذ ہے۔ اور قراء ۃ شاذہ قطعاً ناقابل اعتبار ہے۔ گولڈ زیہر کا اسے قراء ۃ کے طور پر پیش کرنا سراسر بددیانتی ہے۔ امت مسلمہ نے آج تک اسے قرآن تسلیم نہیں کیا۔ کوئی بھی قراء ۃ اس وقت تک قرآن قرار نہیں پا سکتی جب تک وہ تواتر سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس حقیقت کا واضح اور کافی ثبوت ہے کہ قراءات کا سرچشمہ اور ماخذ سوائے نقل وروایت کے کچھ نہیں ہے۔ رسم و کتابت کا قراءات کے وجود میں قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔ نیز ’’عِلْمُ‘‘ کو بطور فعل عین کی پیش اور لام کی زیر اور ’’الْکِتٰب‘‘ کو نائب فاعل ہونے کی بناء پر مرفوع بھی پڑھا گیاہے۔ لیکن یہ قراء ۃ گزشتہ قراء ۃ سے بھی کہیں زیادہ شاذ ہے۔ اسی طرح (علم) میں لام کی شد کے ساتھ بھی ایک قراء ۃ ہے،لیکن یہ گزشتہ دونوں سے بھی زیادہ شاذ ہے۔اورآپ دیکھ رہے ہیں کہ رسمِ مصحف میں مذکورہ تمام قراءات کی گنجائش موجود
Flag Counter