Maktaba Wahhabi

79 - 148
اللہ کی ذات گرامی ہے،کیونکہ آیتِ مبارکہ میں قریب ترین مرجع یہی ہے۔ اس کی تائید سورۃ الاعراف کی آیت﴿فَالَّذِینَ آمَنُوا بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ﴾ سے بھی ہوتی ہے۔ یہاں ’’وَعَزَّرُوہُ‘‘ میں ’’ہ‘‘ ضمیر کا مرجع بالاتفاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اور یہ مسلمہ امر ہے کہ قرآن کریم کا بعض حصہ بعض کی تفسیر کرتا ہے۔ لہٰذا ان دونوں آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیر (امداد)سے مراد دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مالی اعانت و مساعدت ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف امداد و اعانت کی نسبت میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔اور ’’وَتُسَبِّحُوہ‘‘ میں ضمیرکا مرجع لازمی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے،کیونکہ تسبیح اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں ہے۔ جبکہ مفسرین کے دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ ان تینوں الفاظ میں ’’ہ‘‘ ضمیرکا مرجع اللہ تعالی کی ذات عالی ہے،کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر متعدد ضمائر ایک ہی سلسلہ میں ترتیب کے ساتھ واقع ہوں تو ان کا مرجع بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ اور یہاں اللہ کی تعزیر (امداد)سے مراد اس کے دین اور شریعت کو تقویت دینا ہے۔ ثابت ہوا کہ ’’تُعَزِّرُوہُ‘‘ کا مفہوم قطعاً ذاتِ الٰہی کی شان کے منافی نہیں ہے۔ باقی جہاں تک زاء کے ساتھ قراء ت کا تعلق ہیتوائمہ عشرہ تو درکنار قراءات شاذہ کے قراء میں سے بھی کسی نے اس قراء ت کو جائز قرارنہیں دیا،کیونکہ یہ کسی بھی مستند روایت سے ثابت نہیں ہے۔البتہ اس کا معنی صحیح ہے اور رسمِ مصحف میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔اس کے باوجود امت ِمسلمہ نے اسے قراء ت کے طور پر قبول نہیں کیا۔اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قراءات قرآنیہ کا باعث رسم مصحف قطعاً نہیں ہے،بلکہ قراءات کا تمام تر انحصار نقلِ صحیح اور سند سلیم پر ہے۔ اب ہم ان قراءات کا جائزہ لیں گے،جن کا باعث گولڈ زیہر کے خیال میں مصحف کا حرکات سے خالی ہونا ہے: (۱)۔ اس سلسلہ کی پہلی قراء ۃ جو گولڈ زیہر نے ذکر کی ہے،وہ ہے:﴿مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِکَۃَ
Flag Counter