Maktaba Wahhabi

129 - 148
٭ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل کرو،فرائض کو اداکرو،ممنوعات سے بچو،حدود الٰہی سے تجاوز نہ کرو اور جنت میں ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جن کے اعمال اور عزائم سچے ثابت ہوئے ہیں۔ تو﴿وَکُونُوا مَعَ الصَّٰدِقِیْن﴾ کا عطف ما قبل پر مسبب کا سبب پر عطف یا لازم کا ملزوم پر عطف کے قبیل سے ہے۔اورسورۃ النساء میں فرمان الٰہی:﴿وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا﴾ (69) ٹھیک ٹھیک یہی معنی دے رہا ہے۔تو آیت کا معنی یہ ہو گا کہ دنیا میں اللہ کا تقوی ٰ اختیار کر وگے تو جنت میں سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ گے۔ ٭ تیسری اہم بات یہ ہے کہ یہ قراء ۃ انتہائی غریب،بلکہ خود ساختہ ہے۔قرائے عشرۃ تو درکنار قراءات شاذہ کے چار قراء میں سے کسی نے بھی اس قراء ۃ کو نہیں پڑھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ قراء ۃ تمام مصاحف عثمانیہ کے خلاف ہے۔اور پوری امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ ہر وہ قراء ۃ جو مصاحف عثمانیہ کے خلاف ہو،قرآن نہیں ہو سکتیاور نہ ہی نماز اور نمازکے علاوہ اس کی تلاوت جائز ہے۔ (۱۴)۔ گولڈ زیہر نے اپنی کتاب کے صفحہ 46،47 پریہ ذکر کیا ہے کہ ’’قرآن میں ایسی نصوص بھی موجود ہیں،جن کو قبول عام حاصل ہے،لیکن در حقیقت وہ نقل کرنے والوں کی لاپرواہی،سہو اورغفلت کا نتیجہ ہیں۔دورِاول کے علماء نے ان نصوص کی اصلاح کی کوشش نہیں کی،بلکہ پوری سچائی اور دیانت کے ساتھ ان کو باقی رکھنے کو ترجیح دی۔‘‘ اس کے بعد اس نے بطور استدلال کچھ روایات پیش کی ہیں،ان میں ایک یہ ہے کہ ’’زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے ابان بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے سورۃ النساء کی آیت﴿لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ
Flag Counter