Maktaba Wahhabi

25 - 172
بھی بیان فرمایا ہے۔یعنی وہ بہت بلند،برگزیدہ اور نہایت محکم کتاب ہے،جیسا کہ سورۃ الزخرف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَاِِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ}[الزخرف:۴] ’’اور یہ بڑی کتاب(یعنی لوحِ محفوظ)میں ہمارے پاس(لکھی ہوئی اور)بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم اور اس کی حکمت کے بارے میں نہایت اعلیٰ درجے کی گواہی ہے۔اور امام رازی کے بقول:بلا شبہ یہ عظمتِ قرآن کا ایک پہلو ہے کہ یہ کتاب اپنے مقام و مرتبہ اور شرف و منزلت کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ ہے،اس لیے یہ تمام سابقہ آسمانی کتب پر غالب و برتر ہے،مزید اس وجہ سے بھی کہ روئے زمین پر بطورِ معجزہ برقرار ہے۔ (التفسیر الکبیر:۲۷/ ۱۶۷) اور’’حکیم‘‘ کے معنی ہیں:نہایت محکم۔یعنی ایک مضبوط نظم میں پروئی ہوئی کتاب جس میں کسی بھی اعتبار سے کوئی خلل نہیں۔پس یہ کتاب بذاتِ خود حکیم ہے اور دوسروں پر حاکم و غالب ہے۔’’حکیم‘‘ کے دوسرے معنی’’حکمت والا‘‘ بھی ہیں۔اور علامہ سعدی نے بجا طور پر اپنی تفسیر میں لکھا ہے: ’’قرآنِ کریم جن اوامر اور نواہی اور جن خبروں پر مشتمل ہے،ان میں کوئی حکم اور کوئی خبر حکمت اور عدل و میزان کے خلاف نہیں ہے۔‘‘ (تفسیر السعدي:۴/ ۴۳۷) 5۔’’کتاب مبارک‘‘: قرآنِ کریم کی تعریف میں ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین سورتوں میں اس کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ یہ’’کِتَابٌ مُبَارَکٌ‘‘ یعنی بڑی برکت والی کتاب ہے۔
Flag Counter