بزرگوں کے احترام کے نام پر جوانوں کو بھیڑ بکریاں نہیں بنایا گیا اور جوانوں کی آزادی کے نشہ میں معاشرے کی پاکیزگی اور ستھرائی کو گندگی سے بدلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مساواتِ نسواں کے دل فریب نعروں کے بہانے خاندانی نظام کو چکنا چور نہیں کیا گیا اور خاندانی نظام کی حفاظت کے نام پر عورتوں کو لونڈیاں اور باندیاں نہیں بنایا گیا۔
غرضیکہ اسلام ایک کامل اور متوازن دستورِ حیات ہے۔ اگر عرب دنیا کی یہ ضرورت تھی اور ہے، تو غیر عرب دنیا بھی اس کی محتاج تھی، ہے اور تاقیامت رہے گی۔
نامور فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر غوستاف لوبون لکھتے ہیں:
’’یونانی، ایرانی اور رومی مشرق میں جس کام کو نہ کرسکے، عربوں نے وہی کام جبر و اکراہ کے بغیر جلد ہی کر دکھایا۔ مثال کے طور پر مصر کو دیکھئے، جو کہ اجنبی اثرات کے قبول کرنے کے حوالے سے دنیا کا سب سے زیادہ اکھڑ ملک نظر آتا تھا، وہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے فتح مصر کے بعد سو سال سے کم عرصہ میں اپنی سات ہزار سالہ تاریخ والی تہذیب کو بھول گیا۔ اس نے ایک نئے دین، نئی زبان اور نئی ثقافت کو اس قدر مضبوطی سے تھاما، کہ
|