گوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہوتی ہے، کسی اور پر نہیں۔[1]
عیسائیوں نے اس بشارت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ اس کے مصداق نہیں ہوسکتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نہ تھے، بلکہ شریعت موسیٰ کے پیرو تھے، وہ جنگ جو اور مجاہدنہ تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ظاہری و معنوی دونوں اعتبار سے بادشاہ تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تھے۔[2]
ج: اس پیشین گوئی میں بیان کیا گیا ہے: ’’یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا……… تاکہ میں مر نہ جاؤں۔‘‘[3]
اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے، جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی مرتبہ احکامِ شریعت دئیے گئے تھے، اور بنی اسرائیل کی درخواست کے مطابق ہونے سے مراد یہ ہے، کہ آئندہ شریعت دیتے وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہیں کئے جائیں گے، جو حورب پہاڑ کے دامن میں پیدا کئے گئے تھے، بلکہ اب جس نبی کی بشارت دی جارہی ہے، بس اس کے منہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام ڈال دیا جائے گا اور وہ اس کو لوگوں کو سنائے گا۔
اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے، کہ اس پیش گوئی کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی مصداق نہیں؟[4]
د: اس پیشین گوئی میں تشریف لانے والے نبی کے متعلق بیان کیا گیا:
’’اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی وہ ان سے کہے گا۔‘‘
|