Maktaba Wahhabi

40 - 244
کنبہ والوں نے جنازہ پڑھا، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے، مردوں نے الگ جنازہ پڑھا، عورتوں نے الگ اور بچوں نے الگ۔ یہ سلسلہ رات اور دن برابر جاری رہا۔ اس لئے تدفین مبارک چہار شنبہ کی شب کو یعنی رحلت پاک سے 32 گھنٹے بعد عمل میں آئی۔ جسم مبارک کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف نے قبر میں اتارا اور آخراس علم کے چاند، دین کے سورج اور اتقاء کے گلزار کو اہل دنیا کی نگاہ سے اوجھل کر دیا گیا۔ إِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ متروکات صاحب”سیرۃ النبی”نے کتنا اچھا لکھا ہے۔ حضور پاک(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی زندگی ہی میں اپنے پاس کیا رکھتے تھے جو مرنے کے بعد چھوڑ جاتے۔ پہلے ہی اعلان فرما چکے تھے۔ لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ۔ ہم نبیوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ عمرو بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مرتے وقت کچھ نہ چھوڑا۔ نہ درہم، نہ دینار، نہ غلام، نہ لونڈی اور نہ کچھ اور صرف اپناسفیدخچر، ہتھیار اور کچھ زمین تھی جو عام مسلمانوں پر صدقہ کر گئے۔ آثار متبرکہ کہ چند یادگاریں صحابہ رضوان اللہ علیہم کے پاس باقی رہیں۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موئے مبارک تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موئے مبارک کے علاوہ نعلین مبارک اور ایک لکڑی کا ٹوٹا ہوا پیالہ تھا۔ ذوالفقار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس وہ کپڑے تھے جن میں انتقال فرمایا۔ مہر منور اور عصائے مبارک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض ہوئے۔ ان کے علاوہ سب سے بڑی نعمت اور دولت جو عرش عظیم
Flag Counter