Maktaba Wahhabi

218 - 244
قدم بڑھاتے مگر چچا کے خوف سے پھر پیچھے ہٹا لیتے۔ انہیں ہر وقت اسی کا انتظار رہتا کہ چچا اسلام کی طرف مائل ہوں تو یہ بھی آستانہ حق پرسرتسلیم خم کر دیں۔ اس انتظار میں ہفتے گزرے، مہینے بیتے اور سال ختم ہو گئے یہاں تک کہ مکہ فتح ہو گیا اور دین حق کی فیروز مندیاں، رحمت ایزدی کا ابر بہار بن کر کوہ و دشت پر پھول برسانے لگیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تطہیر حرم کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تھے کہ ذوالبجادین کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو گیا۔ آپ چچا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:”محترم چچا!میں کئی برسوں سے آپ کے قبول اسلام کی راہ تک رہا ہوں، مگر آپ کا وہی حال ہے جو پہلے تھا۔ اب میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا۔ مجھے اجازت دیجئے کہ آستانہ اسلام پرسر رکھ دوں۔ ‘‘ ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوجس بات کا خطرہ تھا، وہی پیش آ گئی۔ ادھر قبول اسلام کا لفظ ان کے لبوں سے باہر نکلا، ادھر چچا آپے سے باہر ہو گیا اور کہنے لگا:”اگر تم اسلام قبول کرو گے تو میں اپناہرسامان تم سے واپس لے لوں گا۔ تمہارے جسم سے چادر اتار لوں گا، تمہاری کمرسے تہ بند تک چھین لوں گا۔ تم اپنی دنیاسے بالکل تہی دست کر دئیے جاؤ گے اور ایسے حال میں یہاں سے نکلو گے تمہارے جسم پر کپڑے کا ایک تار بھی باقی نہ ہو گا۔ ناظرین!ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حالت کا اندازہ کیجئے، چچا کے الفاظ سے انہیں معلوم ہوا کہ گویا اللہ تعالیٰ نے موجودات عالم کو ایک مینڈھا بنا کران کے سامنے رکھ دیا ہے اور پھر حکم دیا ہے۔ ’’یہ تمہاری ساری زندگی، اے حضرت خلیل اللہ کی طرح ذبح کر دو۔ ‘‘ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Flag Counter