Maktaba Wahhabi

66 - 85
[یعنی اسی طرح ہم اپنے اطاعت گزاروں کی تنگیوں اور سختیوں کو دور کردیتے ہیں اور ان کے معاملات میں ان کے لیے چھٹکارے اور نجات کی صورت بنا دیتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے (اس) ارشاد گرامی میں ہے: ترجمہ: اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ [1] اختیار کرے گا، تو وہ اس کے لیے نکلنے کی راہ بنا دیں گے اور اسے وہاں سے رزق دیں گے، جہاں سے وہ گمان نہ کرتا ہوگا اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرے، تو وہ اس کے لیے کافی ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرنے والے ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔] (ی) {إِِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلَآ ئُ الْمُبِیْنُ} [بے شک یہی تو یقینًا کھلی ہوئی آزمائش ہے] تفسیر: اس آزمائش کی سختی، دشواری اور شدّت متعدد باتوں سے نمایاں ہوتی ہے۔ ان میں سے چھ درج ذیل ہیں: ۱: حضرت ابراہیم علیہ السلام اعزہ و اقارب اور وطن سے دور تھے۔ ایسے حالات میں بیٹے کی اہمیت و ضرورت عام حالات سے زیادہ ہوتی ہے۔
Flag Counter