Maktaba Wahhabi

49 - 85
تفسیر: ا: {فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ} [پس جب وہ ان (ابراہیم علیہ السلام ) کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا] یعنی باپ کے کام کاج میں بیٹا ان کا ہاتھ بٹانے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کے دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچنے کے ساتھ یہ بھی فرمایا: [مَعَہٗ] [ان کے (والد کے) ساتھ] مفسرین کرام نے یہاں یہ نکتہ بیان کیا ہے، کہ اس سے مراد یہ ہے، کہ وہ باپ کی نگاہ میں بھاگ دوڑ کے قابل ہوکر ان کے ساتھ تعاون کرنے لگے تھے اور یہ بات ان کے کام کاج کرنے کی اچھی صلاحیت اور استعداد پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ شفقتِ پدری کی بنا پر باپ اس سے پہلے اپنے لختِ جگر پر بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتا۔[1] ب: {یَابُنَیَّ إِِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی اَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَیٰ} [’’اے میرے چھوٹے سے بیٹے! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں، کہ واقعی میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو تم دیکھو، کہ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘] خلیل الرحمن علیہ السلام نے خواب میں بیٹے کو ذبح کرنے کے حکمِ الٰہی کے بعد بیٹے سے مشورہ اس لیے نہیں کیا، کہ انہیں اس حکم کی تعمیل میں تردّد تھا، کیونکہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام احکامِ الٰہیہ کی تعمیل میں تردّد نہیں کرتے۔ اس مشورے میں حکمتیں تھیں۔ مفسرینِ کرام کی بیان کردہ حکمتوں میں سے پانچ درج ذیل ہیں: ۱: اگر اس کی بنا پر بیٹے کو پریشانی اور گھبراہٹ ہو، تو اسے تسلی دی جائے۔ ۲: اگر بیٹے میں تسلیم و رضا ہو، تو باپ کی آنکھیں ٹھنڈی اور دل باغ باغ ہوجائے۔
Flag Counter