اگر بیس رکعت چھتیس اور انتالیس کے مقابلے میں احب ہے تو ظاہر ہے کہ گیارہ یا تیرہ رکعت تو بطریق اولی احب ہو گی کیونکہ اس میں قیام ان سب کے مقابلے میں لمبا ہوتا ہے۔امام شافعیؓ یا کسی دوسرے امام بزرگ سے منقول نہیں ہے کہ انہوں نے گیارہ رکعت کی مسنونیت کا انکار کیا ہو۔یہ’’سعادت‘‘تو بس اس زمانے کے کچھ ضدی اور متعصب حنفی علماء ہی کو حاصل ہے۔ائمہ کے ان اقول کے خلاف ان کے مقلدین نے اگرچہ کچھ لکھا ہو تو وہ ہمارے لئے ہرگز قابل التفات نہیں ہے کیونکہ ایسے بہت سے مسائل ہیں جن میں ائمہ کے مقلدین نے ادعائے تقلید کے باوجود اپنے ائمہ کے مسلک کے خلاف راہ اختیار کی ہے اور اس کے لئے کوئی حیلہ تلاش کر لیا ہے۔ نقل عبارت میں مولانا مئوی کی خیانت:شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی جو عبارت ابھی اوپر نقل ہوئی ہے یہ پوری عبارت ہم نے حضرت نواب صاحب مرحوم کی کتاب’’االانتقاد الرجیح‘‘سے لی ہے۔’’الانتقاد الرجیح‘‘کا جو نسخہ اس وقت ہمارے سامنے ہے یہ وہ نسخہ ہے جو مصر میں’’جلا العینین فی محاکمۃ الاحمدین‘‘للآلوسی کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔اس کے ص ۳۲۹ و ص ۳۳۰ پر یہ عبارت موجود ہے اس عبارت کے حوالے مولانا مئوی نے بھی اپنی کتاب کے متعدد مقامات پر دیئے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے اس کے مختلف فقروں کو(ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے)لے لیا ہے اور پھر اپنے مطلب کے موافق انکو جہاں چاہا ہے فٹ کر کے دکھایا ہے۔سب سے ہے اس کا سر کاٹ کر الگ کر دیا ہے یعنی اس کے شروع کایہ حصہ بل ھو کان صلی اللّٰه علیہ وسلم لا یزید فی رمضان ولا غیرہ علی ثلث عشرۃ رکعۃ(بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان کا کبھی تیرہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے)اس کو تو اس طرح |