بحث کی ذیل میں اسی قسم کا استدلال پیش کیا ہے اس طرح گویا غیر شعوری طور پر مولانا مئوی نے خودبیس رکعت پر صحابہ کی اجماع اور اسی پر ان کے عمل کے استقرار کے دعووں کے بطلان کو تسلیم کر لیاہے لیکن ضداور تعصب کا کوئی علاج نہیں۔ اسی سلسلے میں اس راویت کو بھی یادکرلیجیے جس کا ذکراکابر علماء حنفیہ ہی کی کتابوں میں ملتا ہے۔قاضی خاں جیسے مشہور حنفی فقیہ اپنے فتاوی کی فصل فی مقدارالتراویح کے ذیل میں لکھتے ہیں: وقال مالک ان یصلی ستاوثلثین رکعۃ سوی الوتر لماروی عن عمر وعلی رضی اللّٰه عنہما انھماکان بصلیان ستۃ وثلثین انتھی(فتاویٰ قاضی خاں مع عالمگیریہ طبع مصرص ۲۳۴/۱) ’’یعنی امام مالک نے کہا ہے کہ تراویح وتر کی علاوہ چھتیس رکعتیں ہیں۔کیونکہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ چھتیس رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘یہی مضمون ہدایہ کی مشہورشرح کفایہ میں بھی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں:واما عند مالک فانھا مقدرۃ بست وثلیین رکعۃ اتباعا لعمر رضی اللّٰه عنہ مولانا شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:وقدیروی ذالک عن عمر وعلی رضی اللّٰه عنہما لکنۃ غیر مشہور عنھما انتھی(ما ثبت بالسنۃ ص۲۱۸) اس روایت کی سند یا حوالہ کی ذمہ داری علمائے احناف پر ہے۔ہماری ذمہ داری صرف تصحیح نقل کی ہے۔ہم نے تو الزاما پیش کیا ہے اور اس لئے پیش کیاہے کہ ان اکابر علمائے احناف میں سے کسی نے بھی اس روایت کو بے اصل اور بے |