اور ان دونوں کا نام مستور نہیں ہے جیسا کہ ابن الصلاح وغیرہ کی عبارتوں میں اس کی صراحت موجود ہے شرح نخبہ کے محشی نے بھی اس پر متنبہ کر دیا ہے۔چنانچہ حاشیہ میں ہے: الظاہر انہ ادرج فیہ قسمی المجہول الحال و سمی کلا منھما مستور او ان کان ابن الصلاح وغیرہ سہی الاخیر مستور الوجود المستر فی کل منھما وھما مجہول العدالة الظاھرة والباطنة ومجہول العدالة الباطنة دون الظاہرة والمراد بالباطنة ما فی نفس الامر وھی التی ترجیع الی اقوال المزکین وبالظاہرة ما یعلم من ظاہر الحال انتھی(شرح نخبہ ص 71 حاشیہ ص 2) یہ حاشیہ چونکہ مولانا مئوی کے مقصد کے خلاف تھا اس لئے انہوں نے جان بوجھ کر اس سے آنکھیں بند کر لیں۔یہ حاشیہ ملا علی قاری کی شرح سے ماخوذ ہے۔دیکھو شرح للقاری ص 154۔خیر یہ معاملہ تو پھر بھی اہون ہے۔اس کے بعد تو مولانا مئوی نے تحریف و خیانت کا وہ افسوس ناک مظاہرہ کیا ہے کہ ''قادیانی'' بھی منہ تکتے رہ جائیں۔لکھتے ہیں: ''اور مستور کی روایت کو رد کرنے پر ائمہ کا اتفاق نہیں ہے بلکہ اس میں اختلاف ہے۔حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے قد قبلہ جماعة بغیر قید یعنی ایک جماعت نے اس کو بغیر کسی قید کے قبول کیا ہے اس کے بعد جمہور کامذہب یہ بتاتا ہے کہ مستور کی روایت نہ مقبول ہے نہ مردود،بلکہ حال ظاہر ہونے تک اس میں توقف کیا جائے گا …(کعات ص 81)۔ حافظ کے کلام میں صریح تحریف اور خیانت:مولانا نے اس موقع پرحافظ ابن |