لیجئے امام شافعی کے نزدیک حدیث مرسل کے مقبول ہونے کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کبار تابعین سے مروی ہو اور یہی روایت دوسری مسند یا مرسل روایتوں کی تائید وغیرہ سے قوت پکڑے گی اور حجت ہو گی غیر کبار تابعین کی مراسیل تو کسی حال میں بھی مقبول نہیں ہیں۔حافظ ابن حجر ایک جگہ لکھتے ہیں: والشافعی انما یعتضد عندہ اذا کان من روایة کبار التابعین(فتح الباری باب صب الماء علی البول فی المسجد) یعنی مرسل روایت امام شافعی کے نزدیک اس وقت قوت پکڑتی ہے جب وہ کبار تابعین سے مروی ہو۔ امام شافعی کی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے اس کے بعد آگے بڑھیے۔ قولہ:جب یہ ذہن نشین ہو چکا تو سنیے کہ یزید بن روما ن کا اثر اگرچہ مرسل ہے،مگر اس کی تائید کئی دوسرے مرسلوں سے ہوتی ہے جو ابھی مذکور ہوں گے لہذا بالاتفاق مقبول اور حجت ہے(رکعات ص 95) ج:ہم نے بھی ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اگر وہ ذہن سے محو نہ ہو چکا ہو تو سنیئے کہ یزید بن رومان صغار تابعین میں سے ہیں۔اس لئے ان کے اس اثر کی تائید خواہ کتنے ہی مرسلوں سے ہوتی ہو۔نہ وہ امام شافعی کے نزدیک مقبول ہے اور نہ اکثر ائمہ و محدثین کے نزدیک۔اس لئے آپ کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے کہ ''وہ بالاتفاق مقبول اور حجت ہے''۔ یہی حال ان تمام ''مرسلوں'' کا ہے جو آپ نے اس موقع پر ذکر کئے ہیں |