کے اس طرح مخلاف اور منافی ہے کہ اس کے مان لینے سے اوثق کی روایت کا رد کرنا لازم آتا ہے تو ایسی صورت میں وجوہ ترجیح پر غور کر کے راجح مقبول ہو گی اور مرجوح رد کر دی جائے گی۔ حافظ کے اس بیان کی رو سے امام مالک کی زیر بحث روایت کے مقبول ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہو سکتا۔اس لئے کہ یہاں امام مالک اور دوسروں کے بیان میں نہ تو منافات ہے اور نہ دوسرے امام مالک کے مقابلہ میں اوثق،احفظ اور اضبط ہی ہیں۔ یہی حافظ ابن حجر ''مقدمہ فتح الباری'' 2/82 میں لکھتے ہیں: ما تفرد بہ بعض الرواة بزیادة فیہ دون من ھو الثر عددا او اضبط ممن یذکرھا فھذا لا یؤثر التعلیل بہ الا ان کانت الزیادة منا فیة بحیث یتعذر الجمع اما ان کانت الزیادة لامنافاة فیھا بحیث تکون کالحدیث المستقل فلا اللھم الا ان وضع بالدلائل القویة ان تلک الزیادة مدرجة فی المتن من کلام بعض رواتہ فما کان من ھذ القسم فھو مؤثر انتھی۔ دیکھئے حافظ صاف لکھ رہے ہیں کہ اگر کوئی راوی کسی بات کے بیان کرنے میں منفرد ہو اور دوسرے راوی جو تعداد میں زیادہ ہوں یا حافظہ میں بڑھ کر ہوں،اس بات کو ذکر نہ کریں تو اس کی وجہ سے متفرد راوی کی حدیث معلول نہیں ہو گی مگر یہ کہ دونوں کے مدلول و مفہوم میں ایسی مخالفت اور منافات ہو کہ جمع و تطبیق متعذر ہو۔اگر دونوں کے مفہوم میں کوئی منافات نہیں ہے تو حدیث بلا شبہ مقبول ہو گی۔ الحاصل محدثین کے فیصلے کی رو سے امام مالک کا یہ بیان قطعاً صحیح، |