تعدیل اور توثیق بھی نقل نہیں کی ہے اور شعبہ جیسا امام حدیث جس کی تکذیب کرے اس کی روایت تو قابل التفات بھی نہیں ہے۔حفاظ حدیث کی تصریح کے مطابق یہ حدیث منکر اور قابل ردّ ہے۔ دیکھئیے علامہ سیوطی نے صاف لکھا ہے کہ ابراہیم کے متعلق کسی محدث سے کوئی ادنیٰ درجے کی توثیق و تعدیل بھی منقول نہیں ہے۔اب اگر کوئی شخص محض '' عدل فی القضائ'' کی تعریف کو توثیق و تعدیل قرار دے اور اس کی بنا پر اس کی روایت کو مقبول بنانے کی کوشش کرے تو اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ یہ اس شخص کی نادانی ہے یا تجاہل۔ قولہ: لیکن ابراہیم اتنا ضعیف و مجروح نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے یہ حدیث مصنوعی یا بے اصل روایتوں میں جگہ پانے کی مستحق ہو۔(رکعات ص59) ج: یہ طفل تسلی ا ور مغالطہ کی باتیں ہیں۔یہ بتائیے کہ ازروئے اصولِ محدثین یہ حدیث مقبول ہے یا مردود۔اگر مقبول ہے تو مقبول کی چار ہی قسمیں ہیں۔صحیح الذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔ان چاروں میں کس میں داخل ہے؟اگر کسی میں نہیں جیسا کہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔جب ضعیف ہے تو ان چاروں میں سے کسی میں داخل نہیں ہو سکتی۔اور جب مقبول کے کسی درجہ میں بھی اس کا شمار نہیں تو اب لا محالہ مردود ہو گی۔بس اہل حدیث کا مدعا یہی ہے کہ یہ حدیث ناقابل اعتبار او رمردود ہے جیسا کہ امام سیوطی کا قول ابھی گزرا ہے۔ قولہ: وہ ایسی نہ سہی کہ بالکلیہ اسی پر اعتما کیا جائے لیکن ایسی بھی نہیں ہے کہ استدلال یا تائید کے موقع پر اس کو ذکر بھی نہ کیا جائے۔ |